Professional Documents
Culture Documents
Column
Column
عثمان ریاض
ویسے توپاکستان ڈی فالٹ سے سوا نیزے کی دوری پر ہے اس کی بہت سی
وجوہات ہیں چند ایک کا ذکر کرتا چلوں یونیورسٹیوں ویسے توتعلیم حاصل
کرنے کی شاندار جگہ ہے لیکن کالج یونیورسٹیوں کی موجودہ صورتحال
دیکھتے ہوئے جو کچھ ہم تعلیم کے نام پر کرتے چلے جارہے ہیں پھر اس کے
بعد ہمارا بحثیت قوم شرمندہ ہونا بنتاہے۔ چونکہ میں اس سسٹم کو بہت قریب سے
,دیکھ چکا ہوں
تعلیم کی آڑ میں دہاڑیاں لگائی جارہی ہیں ،ڈگریاں بیچی جا رہی ہے فنکشنز کے
نام پر رقص کی ترغیب دی جارہی ہے کیونکہ کچھ لوگ اس قدر ان پڑھ ہوتے
ہیں کہ ان کے پاس صرف ڈگریاں ہوتی ہیں۔ لہجہ ہمدردی احساس سے قاصر
چند ایسی ہی چٹی بھڑیں یونیورسٹیوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔
چند اساتذہ ( سارے نہیں ) جو کہ بظاہر معقول نظر آتے ہیں ،ایک طرف کرپشن
کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف دیسی گھی کےعوض ضمیر فروشی کو اپنا
شعار سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم جہالت کے کوہمالیہ پر بیٹھے ہیں اور
اخالقی گراوٹ کا شکار ہیں۔
جس کی بنیاد ی وجہ ہللا سے دوری ہے۔ ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں
ایک پڑھا لکھا شخص سے ماہانہ چند ہزار روپے تو دوسری طرف حیا کا پردہ
چاک کرتی ہوئی عورتیں دنوں کروڑ پتی بن جاتی ہیں ۔ یہاں اپنی ترجیحات کا
اندازہ بلکہ محاسبہ کر ڈالیے۔
بدقسمتی سے ہمارے بچوں کو جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے اس کا عملی زندگی
سے کوئی تعلق نہیں۔ بچوں کو تعلیم کی ڈیفینیشن ہی غلط بتائی گی۔ تعلیم کو
صرف سسلبس کے ساتھ جوڑ دیا گیا حاالنکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بنیادی طور پر
تعلیم تربیت کو ہی کہتے ہیں۔ اس تفصیل میں گئے بغیرکہ تربیت کیا ہوتی ہے۔
وہ آپ سب کو پتا ہے کہ رکھ رکھاؤ کے آداب اخالقی پیرامیٹرز کو تربیت کہتے
ہیں اساتذہ کو ناصر پڑھانا چاہیے بلکہ تربیت بھی کرنی چاہیے ۔ گزشتہ دنوں
ایک خبر سننے کو ملی کہ تقریبا پونے آٹھ الکھ پاکستانی روزگارکی تالش میں
ملک چھوڑ کر چلے گئے یعنی پاکستان نوجوان کی پڑھی لکھی اکثریت سے
محروم ہو گیا ۔ معاشی ۔۔۔۔پاکستان کو جھنجوڑ کر رکھ دے گی۔
۔۔۔۔۔۔ کے نام پر ڈگریوں کا اتوار بازار لگایا جاتا ہے ،جن کی حیثیت لنڈے کے
کپڑوں جیسی ہے۔
کے مطابق ہرسال تقریبا نوجوان ڈگریاں مکمل کرتے ہیں۔ جن میں سے صرف
1.5-کو ہی مالزمت ملتی ہے ۔ چونچہ اکثریت بے روزگار ہے
Hec۔ باقی آ ئیندہ (