Professional Documents
Culture Documents
اُردو لیکچرر کا تجربہ
اُردو لیکچرر کا تجربہ
کیمسٹری کے بوڑھے پروفیسر نے ،جو ڈگری کالج کا پرنسپل بھی تھا ،نووارد’’ اُردو
میدان تعلیم و تدریس کا نیا گھوڑا تو نہ تھا ،لیکن تجربہ
ِ لیکچرر‘‘ سے کہا۔اُردو لیکچرر گوکہ،
سن کر چونکا اور سوچا’’:پرنسپل ِشپ ؟؟ لیکن بھال اِس پُر فتن اور کار پروفیسر کی یہ بات ُ
کٹھن ذمہ داری میں چارم کیسا ؟ سارا کچھ تو محکمۂ تعلیم کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو بھال پرنسپل
ت کالج کا نگراں اور خزانچی ہوسکتا ہے؟یا کسی منزل کو پاسکتا ہے؟ کیا کس طور مالیا ِ
پروفیسر ی منزل ’’،باعزت رٹائر منٹ ‘‘نھیں؟؟ کیا پرنسپل اپنے گھر والوں کے عالوہ بھی
کسی کو کچھ کما کر دیتا ہے؟کیا سرکاری کالج کا پرنسپل ،جن کو وہ’’ دیتا‘‘ ہے ،اُن سے کوئی
‘‘! معاہدہ کرکے آتا ہے کہ ،میں تیرا ،اتنا حصہ ،تجھے دوں گا اور باقی میرا ہوگا
یہ پختہ کار پرنسپل کیا کہہ رہا ہے ؟
!! سینئر پروفیسر کیمیا باعزت ’’رٹائر‘‘ ہوجاتا ہے
اُس کی یادیں اُردو لیکچرر کے پاس رہ گئیں ،پھر کئی سنہرے پرنسپل رٹائر ہوگئے ،اُن کی
بھی یادیں رہ گئیں ،حاالت اس قدر تلخ ہوئے کہ کچھ پرنسپلز نے ’’تلخئ ایّام ‘‘ کا زہر پیا اور ،
تدریسی اسٹاف میں سے کچھ بدبختوں کی باقاعدہ گالیاں کھائیں،اُردو لیکچرر یہ سب دیکھتے
دیکھتے اور کبھی اظہار کرتے اور کبھی خاموش رہتے اپنی مالزمت کے ۱۷برس،ایک ہی
کالج میں گزار لینے کے بعد ،جب مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھنے کے قابل ہوا
تو سورج نے ایک قہقہہ لگایا اور بوال’’:بڈھے ؟ایک بات بتا!! ت ُو کب جونئر تھا اور کہاں کا
احساس کمتری ِمٹانے کو تُجھے جونئر یا جونئر موسٹ کے ِ جونئر تھا؟ اگر کسی نے اپنا شدید
خطابات سے نوازا تھااور ثابت کرنے کے لئے جعلی سوشل میڈیائی ذرائع پر بِکھرا زَ ہر بجائے
اپنی رگوں میں ،تیری َرگوں میں اُتارا تھا تو تُو اُن بھڑووں کی باتوں میں اتنی آسانی سے کیسے
آگیا؟؟ تُو نے یہ کیوں نہ کہا کہ جو کام’’ ڈپارٹمنٹ‘‘ کے کرنے کا ہے تو اُس کام کو تم جیسے
حرامی الدہر افراد کیوں اپنے ناکارہ اور پلید ہاتھوں اور ذہنوں میں لیتے ہو؟؟ تم خود کہاں کے
سقراط ہو ؟ تم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو کہ وہاں کس کس کے حقوق کے ُخون سے
رنگے ِخنجر ُچھپے ہیں ؟؟ تم اپنی آستینوں کا کھولو ،جن میں زہریلے سانپ ُکنڈلی مارے ِسمٹے
ہیں جو کسی بھی وقت لہرا کر ان شاء ہللا تُمہیں ہی ڈَس لیں گے ،ساری طاقت ہللا برحق کی ہے
!!!
وقت گزرتا رہا ،درس گاہ میں ’’انچارج پرنسپل ‘‘ کا چلن چل نکال ’’،انچارج پرنسپل‘‘ اُس بال
کا نام ہے ،جو تمام کھالڑیوں میں تجربات و حادثات کی بھٹیوں سے ذرا زیادہ گزر جاتا ہے ،یا
گزار دیا جاتا ہے ،یا کسی اور شعبہ سے آتا ہے یا بالیا جاتا ہے ،اب ایک ایسی سرد جنگ
شروع ہوجاتی ہے جس میں خاص کر سیدھے سادھے اسٹاف کی شامت آجاتی ہے ،کیونکہ اس
کھلواڑ میں ماہ و سال زیادہ گزارے ’’کھیالڑی‘‘ تو اُس انچارج کھیالڑی کے ُگر جان کر باقاعدہ
اپنا رویہ اور انداز ایسا کرلیتے ہیں کہ اُس ’’اندھے‘‘ کے نزدیک آکر کسی ایک شکار
کو’’اسٹاف‘‘ میں سے پکڑ کر اُسے ہ َ َرن بنا کر اُس بھوکے شیر کی کچھار میں ڈال سکیں اور
پھرذاتی خواہشات اور نفس کی دبازت بڑھانے کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے،
کسی کو ،گیارہ بجے صبح کوچنگ سینٹرز آباد کرکے ماہانہ الکھوں مزید کمانا ہوتے ہیں۔
کسی کو اپنی فن کاری (پرنسپل شپ) کی تمنا ہوتی ہے ۔
کسی کو چند ہزار ُرپوں کا اللچ ہوتا ہے،
اگر آنے یا النے واال پرنسپل ’’اوپر‘‘ والوں کی حرام کاری میں شریک نھیں ہوتا تو کالج ہی کو
ایک بھیانک ’’ کھیل کا میدان ‘‘بنا لیتا ہے اور ایسے تمام شیاطینُ ،منکرین ،غافلین ،اسفل
السافلین کا ایک ’’گروہ ‘‘ تیار کرلیتا ہے ،جو اُسے پیچھے رکھتے ہوئے ،کالج کا ہر انتظامی
کام آہستہ آہستہ اپنی جانب کرلیتے ہیں ،اب ’’جونئر لونڈا‘‘ سینئر اُستاد کو کھلم کھال ’’گالی‘‘
بھی دیتا ہے اور اُس کی گانڈ بھی مارنے کی کوشش کرتا ہے ،کیونکہ اگر ،وہ ،یہ کام نہ کرے
گا تو اُسے کالج سے جلدی جانے کی اجازت،پے در پے چھٹیاں کرنے کی اجازت نہ ملے گی،
اُسے امتحانات نہیں ملیں گے ،اُسے کالج مالیات کا ڈی ڈی او اور کو ڈی ڈی او نھیں بنایا جائے
گا ،اُسے وہ عطا نھیں کیا جائے گا جس کا وہ متمنی ہے ،اس ضمن میں ایک ہی گریڈ پر کئی
کالج پرنسپل کے تُھتکارے اور دُھتکارے لیکچرر اور آفس کے لوگ سر فہرست ہوتے ہیں کہ وہ
اِس معتبر درس گاہ کا ماحول ایسا کردیں کہ ’’باہر کچرا ،اندر کچرا ‘‘ واال حساب کتاب ہو،
اس پُورے دورانئے میں ’’محکمہ ‘‘ مکمل طور پر بے بس ،بے کس اور خاموش ،بلکہ محکو
م نظر آتا ہے۔ اب باری آتی ہے ’’ ،اُستاد تنظیم ‘‘ کی ،کسی بھی لیکچرر کی کسی بھی محکمہ
جاتی ترقی یا کامیابی کا سہرا یہ’’خود ساختہ‘‘ اساتذہ تنظیمیں ،اپنے ’’سر‘‘ باندھ لینے کا فن
بخوبی جانتی ہیں اور اس طرح ان کی دُکانیں چکمتی اور چلتی رہتی ہیں ،کمال حیرت ہے کہ اگر
ایسے تاریک دور میں محکمہ اپنی کسی مجبوری یا شرافت یا غفلت کی بنا ء پر خاموش ہے تو
درس گاہوں ( کالج ،اسکولوں ) میں ’’ایڈمن‘‘ کے نام پر ایسا بھیانک کھیل شروع ہوجاتا ہے ،
جس میں بیچوں بیچ ’’راجا اِندر‘‘اور چہار جانب ’’بھوکے بھیڑیے ‘‘ ُ
غ َّرا رہے ہوتے ہیں ،راجا
اِندر اپنے آپ میں مست ہے جبکہ بھوکے بھیڑیے ،ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ،
ایک دوسرے کی شدید حسد میں ایک دوسرے کو ننگی گالیاں بھی دے رہے ہیں اور اپنی کمر کا
کپڑا بھی اوپر اُٹھائے ننگے کھڑے ہیں ۔کسی کی (ایک لفظ ہوتا تھا پہلے تعلیم میں ’’عزت‘‘)وہ،
عزت محفوظ و مامون نھیں ،ایک عظیم درس گاہ ’’چائے کا تھڑا ‘‘ بن کر رہ جاتی ہے یا دھنئے
پودینے کا ٹھیال ،جسے دھکیلنے واال ’’انچارج پرنسپل ‘‘ اِس تن ُمردہ میں ’’ریڑھ کی ہڈی ‘‘
ہوتا ہے۔
آگے بڑھئے ،اب دور آتا ہے ’’ ،نوٹیفائڈ پرنسپل ‘‘ کا ،یہ وہ بال ہے ،جو اپنے اوپر والوں کے
سامنے اُلٹی لیٹ جاتی ہے اور ’’نوٹیفیکیشن ‘‘ کے نام پر ایک’’تحریری چیتھڑا‘‘ حاصل
کرلینے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور وہ ’’پروانہ ‘‘ لہراتی ،اچانک اپنے سے دس گنا سینئر
تدریسی اسٹاف کے سروں پر مسلط ہوجاتی ہے ،اب یہاں پھر ’’ازلی ‘‘ شرافت ’’بزدلی ‘‘ ثابت
ہوتی ہے ،کیونکہ’’ نوٹیفائڈ ‘‘ ،وار برا ِہ راست اُن ہی حرامیوں پر کرتا ہے ،جنھوں نے
’’انچارج ‘‘ کے دور میں سب سے زیادہ تہلکہ مچایا ہوتا ہے ،چاہے وہ سینئر ہوں ،اپنا پول ُکھل
جانے ،اپنی فائلوں میں پی ایچ ڈی کا ایک بھی سرکاری لیٹر نہ ہونے کے باوجود خود کو ’’ڈاکٹر
‘‘ کہنے ،لکھوانے اور منوانے والے لوگ انتہائی محتاط بھی ہوتے ہیں ،یاد رکھئے ’’ ،مجرم
‘‘ ہمیشہ انتہائی بودا اور کمزور،لیکن چاالک ہوتا ہے ،جب اُس کا اپنا دور گزر جاتا ہے اور
’’سیر‘‘پر ’’سوا سیر ‘‘ آکر ’’مسلط‘‘ ہوتا ہے تو اُس جاہل کو لگ پتا جاتا ہے ،اب اُس کے اندر
کا ازلی و ابدی ’’زہر ‘‘ حاالت کے پیش نظر ’’وقتی استعمال ‘‘کے لئے رہ جاتا ہے اور وہ
’’شاطر شیطان ‘‘ یہ سوچتا ہے کہ ’’ ،نوٹیفائڈ ‘‘ سے ُخود اور اپنے جیسوں کو کس طرح
فائدے پہنچوائے ؟؟ کس طرح اِس ’’ ُمہرے‘‘ سے بھی کچھ حاصل کرے تو ایسے میں اُس
حرامی کا سب سے پہال پَتَّا وہی سیدھا سادھا معلم ہوتا ہے ،جسے گھیر گھمیٹ کر وہ ایک بار
پھر ’’نوٹیفائڈ ‘‘ کے سامنے پھینکنا چاہتا ہے ،لیکن ’’نوٹیفائڈ ‘‘ چونکہ ،اس عرصے میں پورا
’’گراؤنڈ ‘‘ تیار کرکے ،کالج سے متعلق پوری معلومات لے کر آتا ہے تو وہ ،یہاں کے ایک
ایک ُکتّے کو پہچان چکا ہوتا ہے ،وہ کسی بھی پھینکی ہڈی کو قبول نھیں کرتا ،لیکن درس گاہ
میں موجود ایسے ’’کچھ ‘‘ایمان دار اساتذہ سے اور ماضی میں ننگے ہوجانے والے ’’استاد
نماؤں ‘‘ سے ایک حد تک دفاع کے لئے ،
اسٹاف روم میں آتا جاتا بھی ہے ،لیکن انتہائی احتیاط کے ساتھ ،
اگر ’’نوٹیفائڈ ‘‘ نیک آدمی ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ الؤ ،میں یہاں ایک مختصر وقت کے
لئے (ایک خاص مقصد کے تحت ) آیا ہوں ،میں یہ کوشش کرکے دیکھ لوں کہ شاید یہ ُکتّے
’’انسانیت ‘‘ پاسکیں اور ،اِن کی وحشت ،بھوک ،بربریت کم ہوسکے ،اب ’’نوٹیفائڈ ‘‘ایک دائمی
عذاب میں مبتال ہوجاتا ہے ،کیونکہ اکثر و بیشتر اُس کے سر پر اُس کے بھی ’’سینئرز‘‘ سوار
ہوتے ہیں ،لیکن ہللا معاف کرے ،سینئر بھی ایسے جو لفظ ’’سینئر ‘‘ کی توہین ہیں ،کسی کو
صوبہ کا خوف ہوتا ہے ،کسی کو کالج ماحول کا ،کسی کو سیاسی لسانی تنظیم کا خوف ہوتا ہے،
تو کسی کو گولی یا گالی کھانے کا ،چنانچہ وہ ’’سینئرز ‘‘حقیقتا ً ایک ’’ ڈیل ‘‘ کرلیتے ہیں کہ
’’:اے نوٹیفائڈ !! تُو ُکھل کھیل !! بس ہمارے معامالت میں تُو بھی اِسی طرح ٹانگ نھیں اَڑائے گا
‘‘! ،جیسے ہم تجھ سے بے نیاز ہوئے ،تُو ہم سے بے نیاز ہوجائے گا
یہ ’’میثاق ‘‘کامیاب رہتا ہے ،حقیقتا ً ’’سینئر ‘‘ مہینوں غائب رہتا ہے ،کچھ اپنا ’’وقت ‘‘ حاصل
کرنے کالج آتے جاتے رہتے ہیں ،لیکن ساتھ ساتھ ،اب چونکہ اُن کا سنہرا (چاہے شرفاء کے
لئے انتہائی اذیت ناک ) دور ختم ہوچکا ہوتا ہے تو وہ اِدھر اُدھر توجہ بٹانے اور اپنا موروثی
’’زَ ہر‘‘ اِدھر اُدھر لُنڈھانے کی مساعی میں مصروف کار رہتے ہیں ۔لیکن کائیاں ’’نوٹیفائڈ ‘‘
کسی کی دال بھی نھیں گلنے دیتا،
وہ کسی کو ’’سینئر‘‘ ،کسی کو ’’بھائی‘‘ ،کسی کو ’’آپ ہمارے بڑے ہیں ‘‘ ،کسی کو ’’ہمیں
آپ سے محبت ہے ‘‘ کہہ کہہ کر کسی کے آگے ’’ساالنہ امتحانات ‘‘ کی ہڈی پھینکتا ہے ،تو
کسی کو ’’ڈی ڈی او‘‘یا’’ کو ڈی ڈی او‘‘ کی دس ہزار مرتبہ چچڑی ہڈیاں ڈالتا رہتا ہے ،وہ
چونکہ سب سے بڑا ’’ فن کار‘‘ ہوتا ہے اور اُسے ’’اوپر ‘‘ والوں میں اُن کو خوش رکھنا بھی
ہوتا ہے ،جو اُسے یہاں تک الئے ہیں ،تو وہ ’’نوٹیفائڈ ‘‘ ،ٹرپل گیم کھیلتا ہے ،کالج میں ،اوپر
والوں کے ساتھ اور ایسی ’’استاد تنظیموں ‘‘ کے راہ نماؤں سے جو کچھ تو اُسے جانتے ہیں
اور پیٹھ پیچھے گالیاں دیتے یا بُرا بھال کہتے رہتے ہیں لیکن منھ پر کچھ کہنے کی ہمت اس لئے
نھیں رکھتے کہ وہ بھی اسی جیسے ہوتے ہیں ،ننگا ،دوسرے ننگے کو کبھی ’’ننگا ‘‘ نھیں
کہہ سکتا۔
اب آئیے سرکاری خطوط پر’’ ،نوٹیفائڈ ‘‘ ،تدریسی اسٹاف میں کسی ’’شاطر ‘‘ کو سرکاری
مراسلت میں اپنا دست راست بنا کر خود کو ’’مصلوب ‘‘ کرلینے کا ’’ ِکی پوائنٹ ‘‘جانتا ہے،
چنانچہ ،وہ تمام ’’آفیشل کام ‘‘اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے ،اور ایسا کرنا وقت کی مصلحت اور
حاالت کا تقاضا بھی ہوتا ہے،
نوٹیفائڈ ‘‘ جانتا ہے کہ جو ’’سینئرز‘‘ کہالنے ،کہلوانے ،جتانے والے ’’بورڈ کے ساالنہ ’’
امتحانات‘‘ کی ہڈی مرتے دم تک نھیں چھوڑیں گے ،جبکہ سترہ گریڈ کا سینیر ترین بھی بورڈ
کے امتحانات کراسکتا ہے (جیسا کہ انٹر بورڈ کے کاغذات پر تحریر بھی ہوتا ہے) ،لیکن وہ بیس
تا چالیس اور ساٹھ ہزار کی یہ ہڈی پھینکتا اُسی ُکتّے کے آگے ہے ،جس سے اُسے کچھ خطرہ
بھی محسوس ہوتا ہے ،
اب اس بات کا فیصلہ ’’ کالج کے پریلئم امتحانات ‘‘کا انعقاد کرواکے کیا جاتا ہے ،کالج امتحان
شروع ہوتے ہیں ،تمام ُکتّوں کو ’’نوٹیفائڈ ‘‘ جمع کرتا ہے اور پہلے دن کے پرچے میں کمرے
میں بھیجتا ہے ،اس سلسلے میں جس کا پرچہ ہو اُسے پہلے اور جس سے بورڈ کے امتحانات
کرانا مقصود ہوں ،اُس حرامی کو بعد میں بھیجتا ہے ،کیونکہ اُس روز وہ ’’سینئر ‘‘آتا ہی تاخیر
سے ہے ،اب جیسے ہی ،وہ ،بورڈ امتحانات کاتین چار سال پُرانا’’ ٹھیکے دار‘‘ کالج آتا ہے تو
بھوکے سگ کی طرح کالس ُروم میں جاتے ہی یا بھیجنے پر ،پہلے سے ’’سنورے ‘‘سیٹ اپ
سن لے (حاالنکہ کو چیخ چیخ کر بالکل غلط ہونے کا اعالن کرتا ہے کہ کسی طرح ’’نوٹیفائڈ ‘‘ ُ
اُس شاطر ترین ماہر کھیالڑی کو ،سارا کچھ پہلے ہی معلوم ہوتا ہے )،اس سلسلے میں ،اُس
ٹھیکے دار امتحانات کے ساتھ شریک’’انٹر بورڈ امتحانات ‘‘کے اصل ’’سپرنٹنڈنٹ یعنی
نوٹیفائڈپرنسپل‘‘ ،ساختہ ’’ٹھیکے دار امتحانات ‘‘ کے کچھ چیلے چماٹے بھی ہوتے ہیں ،وہ
اپنے سے سینئر اُسی معلم کو امتحانی کمرے میں دیکھ کر خود ہی ’’ٹھیکے دار ‘‘ کے سامنے
ُجھک جاتے ہیں اور ’’ٹھیکے دار امتحانات بورڈ ‘‘ اُن کے ذریعہ سے حقیقتا ً شریف اور
اسٹیشن(کالج ) کے سینئر معلم کی من گھڑت شکایات ،مثالً :اس نے بچوں کو گالی دی ہے،
اُسے کمرے سے بالئیں ،وہ چیخ رہا ہے ،اُسے اِس کمرے سے بالئیں،وہ ہمیں بُرا بھال کہہ رہا
ہے ،ہمارا مطلوبہ ماحول نھیں بننے دے رہا ،چند مخصوص حرامی لونڈوں کو جن کو ہم نے
اپنے ’’دفاع‘‘ کے لئے تیار کیا ہے ،اُنھیں ’’نقل ‘‘نھیں کرنے دے رہا ،تو اُسے بالئیں ،مجبور
ہوکر’’ ،نوٹیفائڈ ‘‘ اُس پُرانے استاد کو اپنے آفس میں بُال کر بٹھا دیتا ہے کہ ’’ہمیں آپ سے
‘‘!! محبت ہے ،اس لئے بار بار بالتے ہیں
اس سلسلے کا شاندار ترین جواب کسی بھی شعبے کے جونئر استاد کی زبان سے ادا ہوتا ہے ۔
سینئر ( :اپنے شعبے کے جونئر سے ) اِ س کمرے میں ساٹھ کے قریب طالب علم بیٹھے ہیں ،
آدھے برابر کمرے میں منتقل کروادیجئے ،کیونکہ یہاں شور بھی بہت ہورہا ہے ،سخت بد
انتظامی ہے ،لڑکے نقل بھی کرنا چاہیں گے یا مسلسل بولتے ،چیختے رہیں گے کیونکہ اِنھیں
پڑھایا نھیں گیا ہے ۔یا انھوں نے پڑھا نھیں ہے۔ یا یہ محض وقت گزاری کے لئے کالج آتے
جاتے رہے ۔یا کچھ اور۔۔۔
نوآموز لیکچرر صاحب :نھیں نھیں کیا ضرورت ہے ؟؟ یہاں سب مل بانٹ کر پرچہ حل کرلیں
صدر شعبہ‘‘ جو اپنی ہی
گے اور شور ہوتا ہے تو بھلے ہوتا رہے۔بس تھوڑی دیر کی بات ہے ۔’’ ِ
سن کر خاموش ہوجاتا ہے کہ چلو رہنے دو ،ہے تو یہ جان کو رورہا ہوتا ہے ،یہ کرارا جواب ُ
بھی میری طرح کا ’’ماستر ‘‘ ،ہوسکتا ہے ٹھیک کہہ رہا ہو ،اتحاد میں برکت تو واقعی ہوا کرتی
!! ہے ،چاہے حرام کاری میں سہی
یہ سب کیا ہے ؟ یہ سب کب تک ہے ؟ یہ سب کیوں ہے ؟ کیا مقدس درس گاہوں میں ایسا ہونا
چاہئے ؟؟؟ کیا ’’کالج پرنسپل‘‘ کو ہمیشہ ،کسی بھی ’’چیتھڑے ‘‘ یا ’’پروانے ‘‘ کو رکھنے
کے استحقاق کے باوجود غیر فعال اور مفلوج رکھنے یا کردینے والے ’’مافیا‘‘ کو مزید
’’سپورٹ ‘‘ کرنے اور درحقیقت اپنی ’’دُکان ‘‘ چمکانے والے کھیالڑیوں کا یہ کھیل ہمیشہ
جاری رہے گا ؟؟
!!! کوئی ہے
جو ایسے میں اُٹھے اور ایک بظاہر ’’ ُمردہ،مفلوج،بے بس ،بے کس اور بدنام زمانہ ‘‘ڈپارٹمنٹ
کو اُس کا ’’اصل ‘‘ واپس دِال سکے ؟؟ جو خود قربان ہوجائے ،،لیکن اپنے بے گناہ ُخون کی
سرخی سے ایمان و ایقان کے پھولوں کو َرنگ دار اور خوش بُو دار کر جائے ؟ کوئی ہے ؟؟ جو ُ
غلط کو غلط اور درست کو درست کہہ سکے ؟؟
!!! کوئی ہے جو بے لباس بادشاہ کو ’’ننگا ‘‘ پُکار سکے
اس بھرے شَہر میں کوئی اتنا نھیں ’’
کہ جو ُمجھ جیسے ’’انساں ‘‘ کو پہچان لے ؟؟؟؟
:اور آواز دے
‘‘ !!!! او بے او سرپھرے !!! او بے او سرپھرے’’
رات گہری ہوتی ہے ،سینئر گھاگ پروفیسر کیمیا’’ ،اُرود لیکچرر‘‘ کے کان میں سر گوشی
:کرتا ہے
بھائی میرے ! ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا ،جب کالج الئف میں اُستاد کے لئے،کسی منزل کو ’’
پانے یا باعزت رٹائر ہونے کے لئے ،واحد چارم پرنسپل بننا اور پرنسپل بن کر کالج کی مالیات
‘‘!کا ٹھیکے دار بن جانا ،رہ جائے گا ،اور وہ اس کے لئے ہر ممکن حربہ آزمائے گا
کیمسٹری کے بوڑھے پروفیسر نے ،جو ڈگری کالج کا پرنسپل بھی تھا ،نووارد’’ اُردو
میدان تعلیم و تدریس کا نیا گھوڑا تو نہ تھا ،لیکن تجربہ
ِ لیکچرر‘‘ سے کہا۔اُردو لیکچرر گوکہ،
سن کر چونکا اور سوچا’’:پرنسپل ِشپ ؟؟ لیکن بھال اِس پُر فتن اور کار پروفیسر کی یہ بات ُ
کٹھن ذمہ داری میں چارم کیسا ؟ سارا کچھ تو محکمۂ تعلیم کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو بھال پرنسپل
ت کالج کا نگراں اور خزانچی ہوسکتا ہے؟یا کسی منزل کو پاسکتا ہے؟ کیا کس طور مالیا ِ
پروفیسر ی منزل ’’،باعزت رٹائر منٹ ‘‘نھیں؟؟ کیا پرنسپل اپنے گھر والوں کے عالوہ بھی
کسی کو کچھ کما کر دیتا ہے؟کیا سرکاری کالج کا پرنسپل ،جن کو وہ’’ دیتا‘‘ ہے ،اُن سے کوئی
‘‘! معاہدہ کرکے آتا ہے کہ ،میں تیرا ،اتنا حصہ ،تجھے دوں گا اور باقی میرا ہوگا
یہ پختہ کار پرنسپل کیا کہہ رہا ہے ؟
!! سینئر پروفیسر کیمیا باعزت ’’رٹائر‘‘ ہوجاتا ہے