You are on page 1of 7

‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم‬

‫اُردو لیکچرر کا تجربہ‬


‫بھائی میرے ! ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا‪ ،‬جب کالج الئف میں اُستاد کے لئے‪،‬کسی منزل کو ’’‬
‫پانے یا باعزت رٹائر ہونے کے لئے‪ ،‬واحد چارم پرنسپل بننا اور پرنسپل بن کر کالج کی مالیات‬
‫‘‘!کا ٹھیکے دار بن جانا ‪،‬رہ جائے گا‪ ،‬اور وہ اس کے لئے ہر ممکن حربہ آزمائے گا‬

‫کیمسٹری کے بوڑھے پروفیسر نے ‪ ،‬جو ڈگری کالج کا پرنسپل بھی تھا ‪ ،‬نووارد’’ اُردو‬
‫میدان تعلیم و تدریس کا نیا گھوڑا تو نہ تھا ‪ ،‬لیکن تجربہ‬
‫ِ‬ ‫لیکچرر‘‘ سے کہا۔اُردو لیکچرر گوکہ‪،‬‬
‫سن کر چونکا اور سوچا‪’’:‬پرنسپل ِشپ ؟؟ لیکن بھال اِس پُر فتن اور‬ ‫کار پروفیسر کی یہ بات ُ‬
‫کٹھن ذمہ داری میں چارم کیسا ؟ سارا کچھ تو محکمۂ تعلیم کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو بھال پرنسپل‬
‫ت کالج کا نگراں اور خزانچی ہوسکتا ہے؟یا کسی منزل کو پاسکتا ہے؟ کیا‬ ‫کس طور مالیا ِ‬
‫پروفیسر ی منزل‪ ’’،‬باعزت رٹائر منٹ ‘‘نھیں؟؟ کیا پرنسپل اپنے گھر والوں کے عالوہ بھی‬
‫کسی کو کچھ کما کر دیتا ہے؟کیا سرکاری کالج کا پرنسپل ‪،‬جن کو وہ’’ دیتا‘‘ ہے ‪ ،‬اُن سے کوئی‬
‫‘‘! معاہدہ کرکے آتا ہے کہ‪ ،‬میں تیرا‪ ،‬اتنا حصہ ‪،‬تجھے دوں گا اور باقی میرا ہوگا‬
‫یہ پختہ کار پرنسپل کیا کہہ رہا ہے ؟‬
‫!! سینئر پروفیسر کیمیا باعزت ’’رٹائر‘‘ ہوجاتا ہے‬
‫اُس کی یادیں اُردو لیکچرر کے پاس رہ گئیں ‪ ،‬پھر کئی سنہرے پرنسپل رٹائر ہوگئے ‪ ،‬اُن کی‬
‫بھی یادیں رہ گئیں ‪ ،‬حاالت اس قدر تلخ ہوئے کہ کچھ پرنسپلز نے ’’تلخئ ایّام ‘‘ کا زہر پیا اور ‪،‬‬
‫تدریسی اسٹاف میں سے کچھ بدبختوں کی باقاعدہ گالیاں کھائیں‪،‬اُردو لیکچرر یہ سب دیکھتے‬
‫دیکھتے اور کبھی اظہار کرتے اور کبھی خاموش رہتے اپنی مالزمت کے ‪ ۱۷‬برس‪،‬ایک ہی‬
‫کالج میں گزار لینے کے بعد ‪ ،‬جب مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھنے کے قابل ہوا‬
‫تو سورج نے ایک قہقہہ لگایا اور بوال‪’’:‬بڈھے ؟ایک بات بتا!! ت ُو کب جونئر تھا اور کہاں کا‬
‫احساس کمتری ِمٹانے کو تُجھے جونئر یا جونئر موسٹ کے‬ ‫ِ‬ ‫جونئر تھا؟ اگر کسی نے اپنا شدید‬
‫خطابات سے نوازا تھااور ثابت کرنے کے لئے جعلی سوشل میڈیائی ذرائع پر بِکھرا زَ ہر بجائے‬
‫اپنی رگوں میں ‪ ،‬تیری َرگوں میں اُتارا تھا تو تُو اُن بھڑووں کی باتوں میں اتنی آسانی سے کیسے‬
‫آگیا؟؟ تُو نے یہ کیوں نہ کہا کہ جو کام’’ ڈپارٹمنٹ‘‘ کے کرنے کا ہے تو اُس کام کو تم جیسے‬
‫حرامی الدہر افراد کیوں اپنے ناکارہ اور پلید ہاتھوں اور ذہنوں میں لیتے ہو؟؟ تم خود کہاں کے‬
‫سقراط ہو ؟ تم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو کہ وہاں کس کس کے حقوق کے ُخون سے‬
‫رنگے ِخنجر ُچھپے ہیں ؟؟ تم اپنی آستینوں کا کھولو ‪ ،‬جن میں زہریلے سانپ ُکنڈلی مارے ِسمٹے‬
‫ہیں جو کسی بھی وقت لہرا کر ان شاء ہللا تُمہیں ہی ڈَس لیں گے ‪،‬ساری طاقت ہللا برحق کی ہے‬
‫!!!‬
‫وقت گزرتا رہا‪ ،‬درس گاہ میں ’’انچارج پرنسپل ‘‘ کا چلن چل نکال‪ ’’،‬انچارج پرنسپل‘‘ اُس بال‬
‫کا نام ہے ‪ ،‬جو تمام کھالڑیوں میں تجربات و حادثات کی بھٹیوں سے ذرا زیادہ گزر جاتا ہے ‪ ،‬یا‬
‫گزار دیا جاتا ہے ‪ ،‬یا کسی اور شعبہ سے آتا ہے یا بالیا جاتا ہے ‪ ،‬اب ایک ایسی سرد جنگ‬
‫شروع ہوجاتی ہے جس میں خاص کر سیدھے سادھے اسٹاف کی شامت آجاتی ہے‪ ،‬کیونکہ اس‬
‫کھلواڑ میں ماہ و سال زیادہ گزارے ’’کھیالڑی‘‘ تو اُس انچارج کھیالڑی کے ُگر جان کر باقاعدہ‬
‫اپنا رویہ اور انداز ایسا کرلیتے ہیں کہ اُس ’’اندھے‘‘ کے نزدیک آکر کسی ایک شکار‬
‫کو’’اسٹاف‘‘ میں سے پکڑ کر اُسے ہ َ َرن بنا کر اُس بھوکے شیر کی کچھار میں ڈال سکیں اور‬
‫پھرذاتی خواہشات اور نفس کی دبازت بڑھانے کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے‪،‬‬
‫کسی کو ‪ ،‬گیارہ بجے صبح کوچنگ سینٹرز آباد کرکے ماہانہ الکھوں مزید کمانا ہوتے ہیں۔‬
‫کسی کو اپنی فن کاری (پرنسپل شپ) کی تمنا ہوتی ہے ۔‬
‫کسی کو چند ہزار ُرپوں کا اللچ ہوتا ہے‪،‬‬

‫اگر آنے یا النے واال پرنسپل ’’اوپر‘‘ والوں کی حرام کاری میں شریک نھیں ہوتا تو کالج ہی کو‬
‫ایک بھیانک ’’ کھیل کا میدان ‘‘بنا لیتا ہے اور ایسے تمام شیاطین‪ُ ،‬منکرین‪ ،‬غافلین ‪ ،‬اسفل‬
‫السافلین کا ایک ’’گروہ ‘‘ تیار کرلیتا ہے ‪ ،‬جو اُسے پیچھے رکھتے ہوئے‪ ،‬کالج کا ہر انتظامی‬
‫کام آہستہ آہستہ اپنی جانب کرلیتے ہیں ‪ ،‬اب ’’جونئر لونڈا‘‘ سینئر اُستاد کو کھلم کھال ’’گالی‘‘‬
‫بھی دیتا ہے اور اُس کی گانڈ بھی مارنے کی کوشش کرتا ہے‪ ،‬کیونکہ اگر‪ ،‬وہ ‪ ،‬یہ کام نہ کرے‬
‫گا تو اُسے کالج سے جلدی جانے کی اجازت‪،‬پے در پے چھٹیاں کرنے کی اجازت نہ ملے گی‪،‬‬
‫اُسے امتحانات نہیں ملیں گے‪ ،‬اُسے کالج مالیات کا ڈی ڈی او اور کو ڈی ڈی او نھیں بنایا جائے‬
‫گا‪ ،‬اُسے وہ عطا نھیں کیا جائے گا جس کا وہ متمنی ہے‪ ،‬اس ضمن میں ایک ہی گریڈ پر کئی‬
‫کالج پرنسپل کے تُھتکارے اور دُھتکارے لیکچرر اور آفس کے لوگ سر فہرست ہوتے ہیں کہ وہ‬
‫اِس معتبر درس گاہ کا ماحول ایسا کردیں کہ ’’باہر کچرا ‪ ،‬اندر کچرا ‘‘ واال حساب کتاب ہو‪،‬‬
‫اس پُورے دورانئے میں ’’محکمہ ‘‘ مکمل طور پر بے بس ‪ ،‬بے کس اور خاموش ‪ ،‬بلکہ محکو‬
‫م نظر آتا ہے۔ اب باری آتی ہے ‪’’ ،‬اُستاد تنظیم ‘‘ کی‪ ،‬کسی بھی لیکچرر کی کسی بھی محکمہ‬
‫جاتی ترقی یا کامیابی کا سہرا یہ’’خود ساختہ‘‘ اساتذہ تنظیمیں ‪ ،‬اپنے ’’سر‘‘ باندھ لینے کا فن‬
‫بخوبی جانتی ہیں اور اس طرح ان کی دُکانیں چکمتی اور چلتی رہتی ہیں‪ ،‬کمال حیرت ہے کہ اگر‬
‫ایسے تاریک دور میں محکمہ اپنی کسی مجبوری یا شرافت یا غفلت کی بنا ء پر خاموش ہے تو‬
‫درس گاہوں ( کالج‪ ،‬اسکولوں ) میں ’’ایڈمن‘‘ کے نام پر ایسا بھیانک کھیل شروع ہوجاتا ہے ‪،‬‬
‫جس میں بیچوں بیچ ’’راجا اِندر‘‘اور چہار جانب ’’بھوکے بھیڑیے ‘‘ ُ‬
‫غ َّرا رہے ہوتے ہیں‪ ،‬راجا‬
‫اِندر اپنے آپ میں مست ہے جبکہ بھوکے بھیڑیے ‪ ،‬ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ‪،‬‬
‫ایک دوسرے کی شدید حسد میں ایک دوسرے کو ننگی گالیاں بھی دے رہے ہیں اور اپنی کمر کا‬
‫کپڑا بھی اوپر اُٹھائے ننگے کھڑے ہیں ۔کسی کی (ایک لفظ ہوتا تھا پہلے تعلیم میں ’’عزت‘‘)وہ‪،‬‬
‫عزت محفوظ و مامون نھیں‪ ،‬ایک عظیم درس گاہ ’’چائے کا تھڑا ‘‘ بن کر رہ جاتی ہے یا دھنئے‬
‫پودینے کا ٹھیال ‪ ،‬جسے دھکیلنے واال ’’انچارج پرنسپل ‘‘ اِس تن ُمردہ میں ’’ریڑھ کی ہڈی ‘‘‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫آگے بڑھئے‪ ،‬اب دور آتا ہے ‪’’ ،‬نوٹیفائڈ پرنسپل ‘‘ کا‪ ،‬یہ وہ بال ہے‪ ،‬جو اپنے اوپر والوں کے‬
‫سامنے اُلٹی لیٹ جاتی ہے اور ’’نوٹیفیکیشن ‘‘ کے نام پر ایک’’تحریری چیتھڑا‘‘ حاصل‬
‫کرلینے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور وہ ’’پروانہ ‘‘ لہراتی ‪ ،‬اچانک اپنے سے دس گنا سینئر‬
‫تدریسی اسٹاف کے سروں پر مسلط ہوجاتی ہے ‪ ،‬اب یہاں پھر ’’ازلی ‘‘ شرافت ’’بزدلی ‘‘ ثابت‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬کیونکہ’’ نوٹیفائڈ ‘‘‪ ،‬وار برا ِہ راست اُن ہی حرامیوں پر کرتا ہے‪ ،‬جنھوں نے‬
‫’’انچارج ‘‘ کے دور میں سب سے زیادہ تہلکہ مچایا ہوتا ہے ‪ ،‬چاہے وہ سینئر ہوں‪ ،‬اپنا پول ُکھل‬
‫جانے‪ ،‬اپنی فائلوں میں پی ایچ ڈی کا ایک بھی سرکاری لیٹر نہ ہونے کے باوجود خود کو ’’ڈاکٹر‬
‫‘‘ کہنے‪ ،‬لکھوانے اور منوانے والے لوگ انتہائی محتاط بھی ہوتے ہیں ‪ ،‬یاد رکھئے ‪’’ ،‬مجرم‬
‫‘‘ ہمیشہ انتہائی بودا اور کمزور‪،‬لیکن چاالک ہوتا ہے‪ ،‬جب اُس کا اپنا دور گزر جاتا ہے اور‬
‫’’سیر‘‘پر ’’سوا سیر ‘‘ آکر ’’مسلط‘‘ ہوتا ہے تو اُس جاہل کو لگ پتا جاتا ہے‪ ،‬اب اُس کے اندر‬
‫کا ازلی و ابدی ’’زہر ‘‘ حاالت کے پیش نظر ’’وقتی استعمال ‘‘کے لئے رہ جاتا ہے اور وہ‬
‫’’شاطر شیطان ‘‘ یہ سوچتا ہے کہ ‪’’ ،‬نوٹیفائڈ ‘‘ سے ُخود اور اپنے جیسوں کو کس طرح‬
‫فائدے پہنچوائے ؟؟ کس طرح اِس ’’ ُمہرے‘‘ سے بھی کچھ حاصل کرے تو ایسے میں اُس‬
‫حرامی کا سب سے پہال پَتَّا وہی سیدھا سادھا معلم ہوتا ہے‪ ،‬جسے گھیر گھمیٹ کر وہ ایک بار‬
‫پھر ’’نوٹیفائڈ ‘‘ کے سامنے پھینکنا چاہتا ہے‪ ،‬لیکن ’’نوٹیفائڈ ‘‘ چونکہ ‪ ،‬اس عرصے میں پورا‬
‫’’گراؤنڈ ‘‘ تیار کرکے ‪ ،‬کالج سے متعلق پوری معلومات لے کر آتا ہے تو وہ ‪ ،‬یہاں کے ایک‬
‫ایک ُکتّے کو پہچان چکا ہوتا ہے‪ ،‬وہ کسی بھی پھینکی ہڈی کو قبول نھیں کرتا ‪،‬لیکن درس گاہ‬
‫میں موجود ایسے ’’کچھ ‘‘ایمان دار اساتذہ سے اور ماضی میں ننگے ہوجانے والے ’’استاد‬
‫نماؤں ‘‘ سے ایک حد تک دفاع کے لئے ‪،‬‬
‫اسٹاف روم میں آتا جاتا بھی ہے ‪،‬لیکن انتہائی احتیاط کے ساتھ ‪،‬‬

‫اگر ’’نوٹیفائڈ ‘‘ نیک آدمی ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ الؤ ‪ ،‬میں یہاں ایک مختصر وقت کے‬
‫لئے (ایک خاص مقصد کے تحت ) آیا ہوں‪ ،‬میں یہ کوشش کرکے دیکھ لوں کہ شاید یہ ُکتّے‬
‫’’انسانیت ‘‘ پاسکیں اور ‪،‬اِن کی وحشت‪ ،‬بھوک‪ ،‬بربریت کم ہوسکے‪ ،‬اب ’’نوٹیفائڈ ‘‘ایک دائمی‬
‫عذاب میں مبتال ہوجاتا ہے‪ ،‬کیونکہ اکثر و بیشتر اُس کے سر پر اُس کے بھی ’’سینئرز‘‘ سوار‬
‫ہوتے ہیں ‪ ،‬لیکن ہللا معاف کرے ‪ ،‬سینئر بھی ایسے جو لفظ ’’سینئر ‘‘ کی توہین ہیں‪ ،‬کسی کو‬
‫صوبہ کا خوف ہوتا ہے‪ ،‬کسی کو کالج ماحول کا‪ ،‬کسی کو سیاسی لسانی تنظیم کا خوف ہوتا ہے‪،‬‬
‫تو کسی کو گولی یا گالی کھانے کا‪ ،‬چنانچہ وہ ’’سینئرز ‘‘حقیقتا ً ایک ’’ ڈیل ‘‘ کرلیتے ہیں کہ‬
‫‪’’:‬اے نوٹیفائڈ !! تُو ُکھل کھیل !! بس ہمارے معامالت میں تُو بھی اِسی طرح ٹانگ نھیں اَڑائے گا‬
‫‘‘! ‪ ،‬جیسے ہم تجھ سے بے نیاز ہوئے‪ ،‬تُو ہم سے بے نیاز ہوجائے گا‬
‫یہ ’’میثاق ‘‘کامیاب رہتا ہے‪ ،‬حقیقتا ً ’’سینئر ‘‘ مہینوں غائب رہتا ہے‪ ،‬کچھ اپنا ’’وقت ‘‘ حاصل‬
‫کرنے کالج آتے جاتے رہتے ہیں ‪ ،‬لیکن ساتھ ساتھ ‪ ،‬اب چونکہ اُن کا سنہرا (چاہے شرفاء کے‬
‫لئے انتہائی اذیت ناک ) دور ختم ہوچکا ہوتا ہے تو وہ اِدھر اُدھر توجہ بٹانے اور اپنا موروثی‬
‫’’زَ ہر‘‘ اِدھر اُدھر لُنڈھانے کی مساعی میں مصروف کار رہتے ہیں ۔لیکن کائیاں ’’نوٹیفائڈ ‘‘‬
‫کسی کی دال بھی نھیں گلنے دیتا‪،‬‬
‫وہ کسی کو ’’سینئر‘‘ ‪ ،‬کسی کو ’’بھائی‘‘‪ ،‬کسی کو ’’آپ ہمارے بڑے ہیں ‘‘‪ ،‬کسی کو ’’ہمیں‬
‫آپ سے محبت ہے ‘‘ کہہ کہہ کر کسی کے آگے ’’ساالنہ امتحانات ‘‘ کی ہڈی پھینکتا ہے‪ ،‬تو‬
‫کسی کو ’’ڈی ڈی او‘‘یا’’ کو ڈی ڈی او‘‘ کی دس ہزار مرتبہ چچڑی ہڈیاں ڈالتا رہتا ہے‪ ،‬وہ‬
‫چونکہ سب سے بڑا ’’ فن کار‘‘ ہوتا ہے اور اُسے ’’اوپر ‘‘ والوں میں اُن کو خوش رکھنا بھی‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬جو اُسے یہاں تک الئے ہیں ‪ ،‬تو وہ ’’نوٹیفائڈ ‘‘‪ ،‬ٹرپل گیم کھیلتا ہے‪ ،‬کالج میں‪ ،‬اوپر‬
‫والوں کے ساتھ اور ایسی ’’استاد تنظیموں ‘‘ کے راہ نماؤں سے جو کچھ تو اُسے جانتے ہیں‬
‫اور پیٹھ پیچھے گالیاں دیتے یا بُرا بھال کہتے رہتے ہیں لیکن منھ پر کچھ کہنے کی ہمت اس لئے‬
‫نھیں رکھتے کہ وہ بھی اسی جیسے ہوتے ہیں ‪ ،‬ننگا ‪ ،‬دوسرے ننگے کو کبھی ’’ننگا ‘‘ نھیں‬
‫کہہ سکتا۔‬
‫اب آئیے سرکاری خطوط پر‪’’ ،‬نوٹیفائڈ ‘‘‪ ،‬تدریسی اسٹاف میں کسی ’’شاطر ‘‘ کو سرکاری‬
‫مراسلت میں اپنا دست راست بنا کر خود کو ’’مصلوب ‘‘ کرلینے کا ’’ ِکی پوائنٹ ‘‘جانتا ہے‪،‬‬
‫چنانچہ ‪ ،‬وہ تمام ’’آفیشل کام ‘‘اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے ‪ ،‬اور ایسا کرنا وقت کی مصلحت اور‬
‫حاالت کا تقاضا بھی ہوتا ہے‪،‬‬
‫نوٹیفائڈ ‘‘ جانتا ہے کہ جو ’’سینئرز‘‘ کہالنے‪ ،‬کہلوانے ‪ ،‬جتانے والے ’’بورڈ کے ساالنہ ’’‬
‫امتحانات‘‘ کی ہڈی مرتے دم تک نھیں چھوڑیں گے ‪ ،‬جبکہ سترہ گریڈ کا سینیر ترین بھی بورڈ‬
‫کے امتحانات کراسکتا ہے (جیسا کہ انٹر بورڈ کے کاغذات پر تحریر بھی ہوتا ہے)‪ ،‬لیکن وہ بیس‬
‫تا چالیس اور ساٹھ ہزار کی یہ ہڈی پھینکتا اُسی ُکتّے کے آگے ہے ‪ ،‬جس سے اُسے کچھ خطرہ‬
‫بھی محسوس ہوتا ہے ‪،‬‬

‫اب اس بات کا فیصلہ ’’ کالج کے پریلئم امتحانات ‘‘کا انعقاد کرواکے کیا جاتا ہے‪ ،‬کالج امتحان‬
‫شروع ہوتے ہیں‪ ،‬تمام ُکتّوں کو ’’نوٹیفائڈ ‘‘ جمع کرتا ہے اور پہلے دن کے پرچے میں کمرے‬
‫میں بھیجتا ہے‪ ،‬اس سلسلے میں جس کا پرچہ ہو اُسے پہلے اور جس سے بورڈ کے امتحانات‬
‫کرانا مقصود ہوں‪ ،‬اُس حرامی کو بعد میں بھیجتا ہے‪ ،‬کیونکہ اُس روز وہ ’’سینئر ‘‘آتا ہی تاخیر‬
‫سے ہے‪ ،‬اب جیسے ہی‪ ،‬وہ‪ ،‬بورڈ امتحانات کاتین چار سال پُرانا’’ ٹھیکے دار‘‘ کالج آتا ہے تو‬
‫بھوکے سگ کی طرح کالس ُروم میں جاتے ہی یا بھیجنے پر‪ ،‬پہلے سے ’’سنورے ‘‘سیٹ اپ‬
‫سن لے (حاالنکہ‬ ‫کو چیخ چیخ کر بالکل غلط ہونے کا اعالن کرتا ہے کہ کسی طرح ’’نوٹیفائڈ ‘‘ ُ‬
‫اُس شاطر ترین ماہر کھیالڑی کو ‪ ،‬سارا کچھ پہلے ہی معلوم ہوتا ہے )‪،‬اس سلسلے میں ‪،‬اُس‬
‫ٹھیکے دار امتحانات کے ساتھ شریک’’انٹر بورڈ امتحانات ‘‘کے اصل ’’سپرنٹنڈنٹ یعنی‬
‫نوٹیفائڈپرنسپل‘‘‪ ،‬ساختہ ’’ٹھیکے دار امتحانات ‘‘ کے کچھ چیلے چماٹے بھی ہوتے ہیں ‪ ،‬وہ‬
‫اپنے سے سینئر اُسی معلم کو امتحانی کمرے میں دیکھ کر خود ہی ’’ٹھیکے دار ‘‘ کے سامنے‬
‫ُجھک جاتے ہیں اور ’’ٹھیکے دار امتحانات بورڈ ‘‘ اُن کے ذریعہ سے حقیقتا ً شریف اور‬
‫اسٹیشن(کالج ) کے سینئر معلم کی من گھڑت شکایات ‪ ،‬مثالً ‪:‬اس نے بچوں کو گالی دی ہے‪،‬‬
‫اُسے کمرے سے بالئیں‪ ،‬وہ چیخ رہا ہے ‪،‬اُسے اِس کمرے سے بالئیں‪،‬وہ ہمیں بُرا بھال کہہ رہا‬
‫ہے‪ ،‬ہمارا مطلوبہ ماحول نھیں بننے دے رہا‪ ،‬چند مخصوص حرامی لونڈوں کو جن کو ہم نے‬
‫اپنے ’’دفاع‘‘ کے لئے تیار کیا ہے‪ ،‬اُنھیں ’’نقل ‘‘نھیں کرنے دے رہا ‪ ،‬تو اُسے بالئیں ‪ ،‬مجبور‬
‫ہوکر‪’’ ،‬نوٹیفائڈ ‘‘ اُس پُرانے استاد کو اپنے آفس میں بُال کر بٹھا دیتا ہے کہ ’’ہمیں آپ سے‬
‫‘‘!! محبت ہے ‪ ،‬اس لئے بار بار بالتے ہیں‬
‫اس سلسلے کا شاندار ترین جواب کسی بھی شعبے کے جونئر استاد کی زبان سے ادا ہوتا ہے ۔‬
‫سینئر ‪( :‬اپنے شعبے کے جونئر سے ) اِ س کمرے میں ساٹھ کے قریب طالب علم بیٹھے ہیں ‪،‬‬
‫آدھے برابر کمرے میں منتقل کروادیجئے ‪ ،‬کیونکہ یہاں شور بھی بہت ہورہا ہے ‪ ،‬سخت بد‬
‫انتظامی ہے ‪،‬لڑکے نقل بھی کرنا چاہیں گے یا مسلسل بولتے‪ ،‬چیختے رہیں گے کیونکہ اِنھیں‬
‫پڑھایا نھیں گیا ہے ۔یا انھوں نے پڑھا نھیں ہے۔ یا یہ محض وقت گزاری کے لئے کالج آتے‬
‫جاتے رہے ۔یا کچھ اور۔۔۔‬
‫نوآموز لیکچرر صاحب ‪ :‬نھیں نھیں کیا ضرورت ہے ؟؟ یہاں سب مل بانٹ کر پرچہ حل کرلیں‬
‫صدر شعبہ‘‘ جو اپنی ہی‬
‫گے اور شور ہوتا ہے تو بھلے ہوتا رہے۔بس تھوڑی دیر کی بات ہے ۔’’ ِ‬
‫سن کر خاموش ہوجاتا ہے کہ چلو رہنے دو‪ ،‬ہے تو یہ‬ ‫جان کو رورہا ہوتا ہے ‪ ،‬یہ کرارا جواب ُ‬
‫بھی میری طرح کا ’’ماستر ‘‘‪ ،‬ہوسکتا ہے ٹھیک کہہ رہا ہو‪ ،‬اتحاد میں برکت تو واقعی ہوا کرتی‬
‫!! ہے ‪ ،‬چاہے حرام کاری میں سہی‬
‫یہ سب کیا ہے ؟ یہ سب کب تک ہے ؟ یہ سب کیوں ہے ؟ کیا مقدس درس گاہوں میں ایسا ہونا‬
‫چاہئے ؟؟؟ کیا ’’کالج پرنسپل‘‘ کو ہمیشہ ‪ ،‬کسی بھی ’’چیتھڑے ‘‘ یا ’’پروانے ‘‘ کو رکھنے‬
‫کے استحقاق کے باوجود غیر فعال اور مفلوج رکھنے یا کردینے والے ’’مافیا‘‘ کو مزید‬
‫’’سپورٹ ‘‘ کرنے اور درحقیقت اپنی ’’دُکان ‘‘ چمکانے والے کھیالڑیوں کا یہ کھیل ہمیشہ‬
‫جاری رہے گا ؟؟‬
‫!!! کوئی ہے‬
‫جو ایسے میں اُٹھے اور ایک بظاہر ’’ ُمردہ‪،‬مفلوج‪،‬بے بس‪ ،‬بے کس اور بدنام زمانہ ‘‘ڈپارٹمنٹ‬
‫کو اُس کا ’’اصل ‘‘ واپس دِال سکے ؟؟ جو خود قربان ہوجائے ‪،،‬لیکن اپنے بے گناہ ُخون کی‬
‫سرخی سے ایمان و ایقان کے پھولوں کو َرنگ دار اور خوش بُو دار کر جائے ؟ کوئی ہے ؟؟ جو‬ ‫ُ‬
‫غلط کو غلط اور درست کو درست کہہ سکے ؟؟‬
‫!!! کوئی ہے جو بے لباس بادشاہ کو ’’ننگا ‘‘ پُکار سکے‬
‫؂ اس بھرے شَہر میں کوئی اتنا نھیں ’’‬
‫کہ جو ُمجھ جیسے ’’انساں ‘‘ کو پہچان لے ؟؟؟؟‬
‫‪ :‬اور آواز دے‬
‫‘‘ !!!! او بے او سرپھرے !!! او بے او سرپھرے’’‬
‫رات گہری ہوتی ہے ‪ ،‬سینئر گھاگ پروفیسر کیمیا‪’’ ،‬اُرود لیکچرر‘‘ کے کان میں سر گوشی‬
‫‪ :‬کرتا ہے‬
‫بھائی میرے ! ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا‪ ،‬جب کالج الئف میں اُستاد کے لئے‪،‬کسی منزل کو ’’‬
‫پانے یا باعزت رٹائر ہونے کے لئے‪ ،‬واحد چارم پرنسپل بننا اور پرنسپل بن کر کالج کی مالیات‬
‫‘‘!کا ٹھیکے دار بن جانا ‪،‬رہ جائے گا‪ ،‬اور وہ اس کے لئے ہر ممکن حربہ آزمائے گا‬

‫کیمسٹری کے بوڑھے پروفیسر نے ‪ ،‬جو ڈگری کالج کا پرنسپل بھی تھا ‪ ،‬نووارد’’ اُردو‬
‫میدان تعلیم و تدریس کا نیا گھوڑا تو نہ تھا ‪ ،‬لیکن تجربہ‬
‫ِ‬ ‫لیکچرر‘‘ سے کہا۔اُردو لیکچرر گوکہ‪،‬‬
‫سن کر چونکا اور سوچا‪’’:‬پرنسپل ِشپ ؟؟ لیکن بھال اِس پُر فتن اور‬ ‫کار پروفیسر کی یہ بات ُ‬
‫کٹھن ذمہ داری میں چارم کیسا ؟ سارا کچھ تو محکمۂ تعلیم کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو بھال پرنسپل‬
‫ت کالج کا نگراں اور خزانچی ہوسکتا ہے؟یا کسی منزل کو پاسکتا ہے؟ کیا‬ ‫کس طور مالیا ِ‬
‫پروفیسر ی منزل‪ ’’،‬باعزت رٹائر منٹ ‘‘نھیں؟؟ کیا پرنسپل اپنے گھر والوں کے عالوہ بھی‬
‫کسی کو کچھ کما کر دیتا ہے؟کیا سرکاری کالج کا پرنسپل ‪،‬جن کو وہ’’ دیتا‘‘ ہے ‪ ،‬اُن سے کوئی‬
‫‘‘! معاہدہ کرکے آتا ہے کہ‪ ،‬میں تیرا‪ ،‬اتنا حصہ ‪،‬تجھے دوں گا اور باقی میرا ہوگا‬
‫یہ پختہ کار پرنسپل کیا کہہ رہا ہے ؟‬
‫!! سینئر پروفیسر کیمیا باعزت ’’رٹائر‘‘ ہوجاتا ہے‬

You might also like