Professional Documents
Culture Documents
اقبال کا فلسفہ خودی ، بے خودی - بیگ راج
اقبال کا فلسفہ خودی ، بے خودی - بیگ راج
ایک مفکر کی حیثیت سے البال نے زندگی کا جو فلسفہ پیش کیا ہے اس میں انسان کی انفرادی اور
اجتماعی دونوں حیثیتوں کی تکمیل کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس طرح البال کے فلسفہ حیات میں ایک
توازن پایا جاتا ہے ،ورنہ کچھ لوگ فرد کو اہم مانتے ہیں اور کچھ جماعت کو۔فلسفہ حیات کا یہ توازن
اور تناسب ہی شاید فکر البال کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ البال نے اپنے ان نظریات و خیاالت کے
اظہار کے لیے دو اصطالحات استعمال کی ہیں ّاول “خودی” اور دوئم “بے خودی”۔
خودی:۔
عام طور پر خودی سے تکبر اور غرور مراد لی جاتی ہے ،لیکن البال نے لفظ خودی کو اصطالحی
معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اور اپنی فارسی کتاب “اسرار خودی” اور اردو نظم “سالی نامہ” اور دیگر
شاعری میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ماہرین نے البال کی اس اصطالح کی تشریح میں
بہت لمبے چوڑے تجزیے کئے ہیں۔ بہرحال ہم کہہ سکتے ہیں کہ البال نے خودی سے خود شناسی
اور خود آگاہی مراد لی ہے۔ یعنی اپنی ذات اور اپنی پوشیدہ صالحیتوں کی پہچان کرنا۔ اپنی اہمیت کا
احساس پیدا کرنا زندگی کے معامالت میں غیرت اور خوداری کا مظاہرہ کرنا۔ البال کے نزدیک خدا
کی پہچان کے لیے خود کو پہچاننا ضروری ہے۔ ضرب کلیم کی نظم افرنگ زدہ میں دہریت کی طرف
مائل نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں
خود کو پہچاننے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ جان لے کہ اس کا نام و نسب کیا ہے ،وہ
کس نسل سے ہے ،اس کے آباو اجداد کہاں کے رہنے والے تھے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے آدمی اپنی
اہمیت کو سمجھے وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ وہ کس ممصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے ،اسے کون
کون سی لابلیتیں عطا ہوئی ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتا ہے۔ البال کے نزدیک اپنی صالحیتوں
کی پہچان اور ان کا اظہار(عمل) ہی زندگی ہے۔ اور ذوق نمود کے بغیر زندگی کچھ نہیں بلکہ موت
ہے۔
اپنے وجود کا احساس تو ہر شخص کو ہوتا ہے لیکن جب آدمی کے دل میں بلند ممصد کے حصول کی
آرزو پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی خودی بیدار ہو جاتی ہے۔ البال کے نزدیک تب اس شخص کو اپنی
خودی کی تعمیرو تربیت کرنی چاہیے یعنی ان چیزوں سے بچنا چاہیے جن سے خودی کمزور ہوتی
ہے۔ جیسے سوال کرنے سے ،دوسروں سے مانگنے اور محتاجی سے خودی کمزور ہوتی ہے۔ جبکہ
عشك سے خودی مضبوط ہوتی ہے۔ عشك سے مراد مرد اور عورت کی محبت نہیں بلکہ بلند ممصد
کے حصول کی شدید آرزو ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ البال کی تمام شاعری لفظ خودی کے گرد گھومتی
ہے تو میرے خیال سے بے جا نہ ہو گا۔
بے خودی
بے خودی کے لفظی معنی تو مدہوشی یا بے خبری کے ہیں لیکن “خودی” کی طرح البال کے ہاں “بے
خودی” کا بھی خاص مفہوم ہے۔ جب کوئی فرد اپنی خودی کی تعمیر و تکمیل کر لیتا ہے تو اسے
چاہیے کہ اپنی صالحیتوں کو اپنی جماعت کے لیے استعمال کرے۔ جب فرد اپنی جماعت سے اپنا
اُردو ایم اے
رابطہ استوار کر لیتا ہے تو وہ خودی سے بے خودی کی منزل میں داخل ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں
میں فرد اور ملت(لوم) کے درمیان رابطے کے کچھ اصول اور لوانین ہوتے ہیں ان رابطوں ،اصولوں
اور لوانین کو البال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے۔ عالمہ البال نے فرد کو شاخ اور جماعت کو
درخت سے تشبیہ دی ہے شاخیں اگر درخت سے علیحدہ ہو جایں تو ان پر پھل پھول نہیں آ سکتے۔
البااال کااے نزدیااک جااس لاادر فاارد کاای اہمیاات ہااے اساای لاادر اس کاای جماعاات اور جماعاات سااے فاارد
کاااے رشاااتے کااای اہمیااات ہاااے۔ الباااال ناااے اپنااای کتااااب “رماااوز باااے خاااودی” مااایں لاااوم کااای اجتمااااعی
زناادگی کااے مسااائل پاار اپاانے خیاااالت کااا اظہااار کیااا ہااے۔آج ہاام انفاارادی اور اجتماااعی طااور پاار جااس
طااارح زوال کاااا شاااکار ہااایں ہمااایں الباااال کاااے افکاااار ساااے علمااای اساااتفادہ حاصااال کااارنے کااای اشاااد
ضرورت ہے۔