You are on page 1of 3

‫اُردو‬ ‫ایم اے‬

‫اقبال کا فلسفہ خودی اور بے خودی‬


‫عالمہ البال کا نام لیتے ہی جو پہال خیال ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ ایک بہت بڑے‬
‫شاعر تھے۔ لیکن یہ خیال تب تک نامکمل ہی رہتا ہے جب تک ہم یہ نہیں سوچ لیتے کہ البال صرف‬
‫ایک بڑے شاعر ہی نہیں تھے‪ ،‬بلکہ وہ ایک بہت بڑے مفکر بھی تھے۔ شاعر حساس لوگ ہوتے ہیں۔‬
‫جو وہ محسوس کرتے ہیں اسے شاعرانہ فنکاری کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔ لیکن البال جس گہرائی‬
‫کے ساتھ محسوس کرتے تھے اس سے کہیں گہرائی کے ساتھ سوچ بھی سکتے تھے۔ ان کا کالم پڑھ‬
‫کر بعض اولات یوں لگتا ہے جیسے البال کے افکار ان کی شاعرانہ فنکاری سے کہیں اہم ہیں۔‬

‫ایک مفکر کی حیثیت سے البال نے زندگی کا جو فلسفہ پیش کیا ہے اس میں انسان کی انفرادی اور‬
‫اجتماعی دونوں حیثیتوں کی تکمیل کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس طرح البال کے فلسفہ حیات میں ایک‬
‫توازن پایا جاتا ہے‪ ،‬ورنہ کچھ لوگ فرد کو اہم مانتے ہیں اور کچھ جماعت کو۔فلسفہ حیات کا یہ توازن‬
‫اور تناسب ہی شاید فکر البال کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ البال نے اپنے ان نظریات و خیاالت کے‬
‫اظہار کے لیے دو اصطالحات استعمال کی ہیں ّاول “خودی” اور دوئم “بے خودی”۔‬

‫خودی‪:‬۔‬

‫عام طور پر خودی سے تکبر اور غرور مراد لی جاتی ہے‪ ،‬لیکن البال نے لفظ خودی کو اصطالحی‬
‫معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اور اپنی فارسی کتاب “اسرار خودی” اور اردو نظم “سالی نامہ” اور دیگر‬
‫شاعری میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ماہرین نے البال کی اس اصطالح کی تشریح میں‬
‫بہت لمبے چوڑے تجزیے کئے ہیں۔ بہرحال ہم کہہ سکتے ہیں کہ البال نے خودی سے خود شناسی‬
‫اور خود آگاہی مراد لی ہے۔ یعنی اپنی ذات اور اپنی پوشیدہ صالحیتوں کی پہچان کرنا۔ اپنی اہمیت کا‬
‫احساس پیدا کرنا زندگی کے معامالت میں غیرت اور خوداری کا مظاہرہ کرنا۔ البال کے نزدیک خدا‬
‫کی پہچان کے لیے خود کو پہچاننا ضروری ہے۔ ضرب کلیم کی نظم افرنگ زدہ میں دہریت کی طرف‬
‫مائل نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں‬

‫تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود‬

‫مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا‬


‫اُردو‬ ‫ایم اے‬
‫وجود کیا ہے؟ فمط جوہر خودی کی نمود‬

‫کر انپی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا‬

‫خود کو پہچاننے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ جان لے کہ اس کا نام و نسب کیا ہے‪ ،‬وہ‬
‫کس نسل سے ہے‪ ،‬اس کے آباو اجداد کہاں کے رہنے والے تھے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے آدمی اپنی‬
‫اہمیت کو سمجھے وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ وہ کس ممصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے‪ ،‬اسے کون‬
‫کون سی لابلیتیں عطا ہوئی ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتا ہے۔ البال کے نزدیک اپنی صالحیتوں‬
‫کی پہچان اور ان کا اظہار(عمل) ہی زندگی ہے۔ اور ذوق نمود کے بغیر زندگی کچھ نہیں بلکہ موت‬
‫ہے۔‬

‫ہر چیز ہے محو خود نمائی‬

‫ہر ذرہ شہید کبریائی‬

‫بے ذوق نمود زندگی موت‬

‫تعمیر خودی میں ہے خدائی‬

‫اپنے وجود کا احساس تو ہر شخص کو ہوتا ہے لیکن جب آدمی کے دل میں بلند ممصد کے حصول کی‬
‫آرزو پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی خودی بیدار ہو جاتی ہے۔ البال کے نزدیک تب اس شخص کو اپنی‬
‫خودی کی تعمیرو تربیت کرنی چاہیے یعنی ان چیزوں سے بچنا چاہیے جن سے خودی کمزور ہوتی‬
‫ہے۔ جیسے سوال کرنے سے‪ ،‬دوسروں سے مانگنے اور محتاجی سے خودی کمزور ہوتی ہے۔ جبکہ‬
‫عشك سے خودی مضبوط ہوتی ہے۔ عشك سے مراد مرد اور عورت کی محبت نہیں بلکہ بلند ممصد‬
‫کے حصول کی شدید آرزو ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ البال کی تمام شاعری لفظ خودی کے گرد گھومتی‬
‫ہے تو میرے خیال سے بے جا نہ ہو گا۔‬

‫بے خودی‬
‫بے خودی کے لفظی معنی تو مدہوشی یا بے خبری کے ہیں لیکن “خودی” کی طرح البال کے ہاں “بے‬
‫خودی” کا بھی خاص مفہوم ہے۔ جب کوئی فرد اپنی خودی کی تعمیر و تکمیل کر لیتا ہے تو اسے‬
‫چاہیے کہ اپنی صالحیتوں کو اپنی جماعت کے لیے استعمال کرے۔ جب فرد اپنی جماعت سے اپنا‬
‫اُردو‬ ‫ایم اے‬
‫رابطہ استوار کر لیتا ہے تو وہ خودی سے بے خودی کی منزل میں داخل ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں‬
‫میں فرد اور ملت(لوم) کے درمیان رابطے کے کچھ اصول اور لوانین ہوتے ہیں ان رابطوں‪ ،‬اصولوں‬
‫اور لوانین کو البال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے۔ عالمہ البال نے فرد کو شاخ اور جماعت کو‬
‫درخت سے تشبیہ دی ہے شاخیں اگر درخت سے علیحدہ ہو جایں تو ان پر پھل پھول نہیں آ سکتے۔‬

‫فرد لائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں‬

‫موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں‬

‫البااال کااے نزدیااک جااس لاادر فاارد کاای اہمیاات ہااے اساای لاادر اس کاای جماعاات اور جماعاات سااے فاارد‬
‫کاااے رشاااتے کااای اہمیااات ہاااے۔ الباااال ناااے اپنااای کتااااب “رماااوز باااے خاااودی” مااایں لاااوم کااای اجتمااااعی‬
‫زناادگی کااے مسااائل پاار اپاانے خیاااالت کااا اظہااار کیااا ہااے۔آج ہاام انفاارادی اور اجتماااعی طااور پاار جااس‬
‫طااارح زوال کاااا شاااکار ہااایں ہمااایں الباااال کاااے افکاااار ساااے علمااای اساااتفادہ حاصااال کااارنے کااای اشاااد‬
‫ضرورت ہے۔‬

You might also like