You are on page 1of 13

Subject: Urdu

Module: 15
Paper: Ghalib
Topic: Ghalib Ka Tassaour-e-Hijr-o-Wesaal
Content writer: Dr. Sarwarul Huda
Jamia Millia Islamia, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
‫غالب کا تصور ہجر و وصال‬

‫تعارف‪/‬تمہید‬

‫غالب کے شعری امتیازات کا ایک اہم حوالہ فراق اور وصل کا تصور بھی ہے۔ اردو شاعری کے سیاق‬
‫میں فراق اور وصل بہت مانوس سے الفاظ ہیں اور انھیں عشقیہ مضامین سے وابستہ کرکے دیکھا‬
‫پہلووں سے ُجڑ جاتا ہے۔ اردو شاعری‬
‫ٔ‬ ‫جاتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا ایک معنی میں فراق اور وصل کا رشتہ عشقیہ‬
‫کے حوالے سے عشق کا موضوع ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجازی عشق کے ساتھ‬
‫حقیقی عشق بھی ایک باب کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ ایسے شعری نمونے بھی ہیں جن‬
‫میں عشق حقیقی اور عشق مجازی کی حدیں مل جاتی ہیں اور ایک قاری کی حیثیت سے انھیں الگ‬
‫الگ کرکے دیکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجازی عشق داخلی سطح پر عشق‬
‫حقیقی میں تبدیل ہورہا ہے۔ لہٰ ذا قرأت کے وقت اس بنیادی حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت‬
‫ہے کہ عشق ایک جذبہ ہے جو انہماک‪ ،‬خودسپردگی اور دیوانگی چاہتا ہے۔ غالب کی نظر میں عشق‬
‫کے تعلق سے نہ صرف اردو کا بلکہ فارسی کا بھی سرمایہ تھا۔ ان کے نزدیک پیش رو شعرا کی‬
‫پیروی کا ایک بالکل مختلف مطلب تھا‪ ،‬انھوں نے جن مضامین کو اپنی شاعری میں برتا انھیں پوری‬
‫طرح غالب کی ایجاد تو نہیں کہا جاسکتا مگر غالب نے اپنی ذہانت کو بروئے کار الکر انھیں نئی‬
‫جہتیں عطا کیں۔ ان نئی جہتوں کو غالب کے عشقیہ اشعار سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔‬

‫سبق کا مقصد‬

‫غال ب کے شعری امتیازات کو عام طور پر موضوعات کی روشنی میں نشان زد کرنے کی کوشش‬
‫کم ہوئی ہے۔ عموما ً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اچھی اور بڑی شاعری کا موضوعاتی مطالعہ نہیں کیا‬
‫جاسکتا۔ اس طرح کے مطالعہ کے لیے کمزور شاعری زیادہ مناسب ہے۔ لیکن اگر بغور دیکھا‬
‫جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ غالب کی شاعری کی تمام تر عظمت کے باوجود ان کے اشعار‬
‫کو ہم موضوعات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس عمل سے غالب کی شاعرانہ عظمت پر کوئی حرف‬
‫نہیں آتا۔ خصوصا ً غالب کا تصور ہجر و وصال ایک ایسا موضوع ہے جس سے غالب کی شعری‬
‫انفرادیت واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔‬

‫ہجر و وصال کا تصور اور شاعری‬

‫اردو شاعری میں ہجر و وصال کے موضوع کو بڑے پیمانے پر برتا گیا ہے۔ یہاں اس کی گنجائش‬
‫نہیں‪ ،‬ورنہ دوسرے شعرا کی مثالیں بھی پیش کی جاتیں۔‬
‫یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ غالب کے یہاں ہجر و وصل کے تمام اشعار کسی نئی‬
‫جہت کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم غالب کے جس تصور فراق اور‬
‫تصور وصل کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں ان کا اصل رشتہ غالب کے ان ہی چند اشعار سے ہے جن میں‬
‫ایک باغیانہ فکر بھی ہے۔‬

‫ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال‬

‫کہ گر نہ ہوتو کہاں جائیں ہو تو کیوں کر ہو‬

‫غالب کی شاعری میں ہجر و وصال کا تصور‬

‫اپنی بات غالب کے اس شعر سے شروع کرنا بہتر ہوگا کہ‪:‬‬

‫ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال‬

‫کہ گر نہ ہوتو کہاں جائیں ہو تو کیوں کر ہو؟‬

‫غالب کے اس شعر نے ہجر و وصال کے مضامین کو اس ذہن کے ساتھ وابستہ کردیا ہے‪ ،‬جس کی‬
‫مثال غالب سے پہلے نہیں ملتی۔ ‘ہمارے ذہن’ کا ٹکڑا اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اب تک وصال‬
‫کے بارے میں جو کچھ سوچا اور کہا گیا وہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ابھی تک کس نے کیا سوچاوہ‬
‫اپنی جگہ اہم یا غیراہم ہے‪ ،‬ان باتوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ متکلم تمام‬
‫اذہان کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے ۔ عاشق کی اس کیفیت کا اظہار بھی ہے کہ وصال‬
‫کے بغیر زندگی کیسے گزرے گی۔ تمام عمر بھٹکتے رہنا کوئی زندگی تو نہیں کہ ‘‘گر نہ ہو تو کہاں‬
‫جائیں’’ اسی کیفیت کی جانب اشارہ ہے۔ اس کے بعد کا ٹکڑا ‘‘ہو تو کیوں کر ہو’’اس ذہن کی جانب‬
‫اشارہ کرتا ہے جسے ہم ‘ذہن جدید’ کہتے ہیں۔ جذبے کی شدت اچانک ایک ایسے منطقی سوال اور‬
‫جواب سے روبرو ہوتی ہے جس کی کوئی مثال غالب سے پہلے نہیں ملتی۔ دو متضاد کیفیات کو یکجا‬
‫کرکے ایک ایسی کیفیت کو ابھارا گیا ہے جس میں وصل اور ہجر ایک دوسرے کا تکملہ معلوم ہوتے‬
‫ہیں۔ گویا ہجر ہے تو وصال بھی ہے اور وصال ہی سے ہجر بھی ہے۔ ان دونوں کو کسی مقام پر یکجا‬
‫تو نہیں کیا جاسکتا مگر وصال میں ہجر کی کیفیت بھی دیکھی یا محسوس کی جاسکتی ہے اور ہجر‬
‫میں وصال کی کیفیت۔ غالب نے ایک شعر میں وصال یار کی ترکیب بھی استعمال کی ہے‪:‬‬

‫یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یا رہوتا‬

‫ہوتا‬ ‫انتظار‬ ‫یہی‬ ‫رہتے‬ ‫جیتے‬ ‫اور‬ ‫اگر‬

‫اس شعر میں لفظ قسمت اس تصور کی نشان دہی کررہا ہے جس میں عقیدہ شامل ہے۔ قسمت پر یقین‬
‫انسان کے لئے پناہ گاہ بھی ہے۔ یہاں تو وصال یار کا معاملہ ہے ورنہ زندگی کے تمام معامالت میں‬
‫قسمت کا تصور بڑی حد تک قوت بھی پہنچاتا ہے۔ اردو شاعری اور خصوصا ً اردو غزل میں وصال‬
‫یار کا مطلب تو‪ ،‬ہجریار ہے یعنی وصال تو ممکن نہیں۔ میر نے ایک شعر میں وصال کو کچھ یوں‬
‫دیکھا ہے‪:‬‬

‫کرے‬ ‫نصیب‬ ‫خدا‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫وصل‬

‫کچھ‬ ‫کیا‬ ‫کیا‬ ‫ہے‬ ‫چاہتا‬ ‫جی‬ ‫میر‬

‫یہاں بھی خدا نصیب کرے کا ٹکڑا غالب کہ ‘‘یہ نہ تھی ہماری قسمت’’ ہی جیسا ہے۔ غالب نے اپنے‬
‫شعر میں نہ تو کوئی ترکیب استعمال کی ہے اور نہ ہی کوئی استعارہ پیش کیا ہے‪ ،‬گفتگو کے لہجے‬
‫میں وصال یار سے محرومی کا کچھ اس طرح گلہ کیا ہے کہ وہ گلہ معلوم نہیں ہوتا اور ایک وفادار‬
‫عاشق کی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر زندگی باقی رہتی تو وصال یار کا انتظار رہتا۔ شعر کا لطف‬
‫تو اس بات میں ہے کہ متکلم کو معلوم ہے کہ وصال یار نہیں ہوسکتا اور اس کا سبب قسمت کی‬
‫خرابی ہے۔ قسمت پر یقین کے باوجود وصال یار کا منتظر رہنا بڑی بات ہے۔ غالب نے ایک شعر میں‬
‫عاشق کے والہانہ پن کو جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اس کی مثال کہیں اور مشکل ہی‬
‫سے ملے گی‪:‬‬

‫ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا‬


‫کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‬

‫وعدہ کرنا محبوب کا شیوہ ہے۔ وعدے میں وصال کے عالوہ بھی بہت کچھ شامل ہے۔ محبوب کو یہ‬
‫گمان ہوسکتا ہے کہ اس کے وعدے کے سبب عاشق کی زندگی آسان ہوگئی۔ یہاں اعتبار کو موت کی‬
‫شکل میں دیکھا گیا ہے‪ ،‬خوشی کے عالم میں عاشق کی موت گویا معشوق کے وعدے پر بھروسہ‬
‫کرلینا ہے۔ اگر میں زندہ ہوں یا زندہ رہا تو اس میں تیری کوئی عنایت نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ‬
‫فطری طور پر معشوق سے ملنے کی خواہش تھی مگر مجھے معلوم تھا کہ تیرا وعدہ بس وعدہ ہی‬
‫ہے۔ غالب کے یہاں محبوب کی جدائی کے غم کا اظہار دیگر کالسیکی شعرا کی طرح بھی ہوا ہے‪،‬‬
‫مگر اس میں وہ شدت احساس نہیں جو ہمیں میر کے یہاں ملتی ہے۔ یوں تو غالب کے یہاں بھی المیہ‬
‫کی صورت ہے لیکن اس کے اظہار میں احساس کی شدت دبی دبی رہتی ہے۔ مثالً اس شعر کو‬
‫دیکھئے‪:‬‬

‫دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں‬

‫آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا‬

‫سوال یہ ہے کہ دل میں آگ کیسے لگی‪ ،‬آگ میں کتنی شدت تھی کہ گھر کا سارا اثاثہ جل گیا۔ غالب‬
‫نے دل کو گھر سے تشبیہ دی ہے۔ دل کا کاشانہ کچھ اس طرح جال ہے کہ محبوب کی یاد تک جاتی‬
‫رہی۔ شعر کی خوبصورتی کا راز دراصل اس بات میں ہے کہ دل میں آگ جس نے لگائی وہ میرا‬
‫محبوب ہے۔ اس کی یاد سے میرا دل معمور تھا۔ لہٰ ذا ذوق وصل یار تو اس وقت باقی رہے گا جب دل‬
‫باقی ہو۔ دل کو تو معشوق نے اس کی اصلی حالت پر رکھا نہیں۔ شعر کا متکلم ضروری نہیں کہ دل‬
‫جالنے والے سے مخاطب ہو مگر دیکھئے کہ کس خوبصورتی سے ذوق وصل کے جاتے رہنے کا‬
‫ذمہ دار معشوق کو قرار دیا ہے۔ ایک جگہ عشق کی غارت گری کو غالب نے کچھ یوں باندھا ہے‪:‬‬

‫ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ‬

‫نہیں‬ ‫خاک‬ ‫میں‬ ‫گھر‬ ‫تعمیر‬ ‫حسرت‬ ‫سوائے‬

‫خانہ دل بھی تو‬


‫یہاں وصال اور ہجر کا کوئی قصہ نہیں ہے لیکن جس گھر کی ویرانی کا ذکر ہے وہ ٔ‬
‫خانہ دل کی ویرانی کا سبب معشوق کی کج ادائی ہے۔ حسرت تعمیر غالب کے یہاں‬
‫ہوسکتا ہے اور ٔ‬
‫زندگی کی ایک بڑی قدر بن جاتی ہے گرچہ اس کا رشتہ فرد واحد سے ہے مگر قاری خود کو حسرت‬
‫تعمیر سے الگ نہیں کرپاتا۔ قاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ متکلم کے ذہن میں تعمیر کا کیسا تصور‬
‫تھا۔ اس کا براہ راست رشتہ عشق یا تصور وصال اور تصور ہجر سے نہیں‪ ،‬لیکن یہ کہنا شاید غلط‬
‫نہ ہوگا کہ حسرت تعمیر میں معشوق کا کوئی نہ کوئی تصور پوشیدہ ضرور ہے‪:‬‬

‫گھر میں کیا تھا کہ ترا غم اسے غارت کرتا‬

‫ہم جو رکھتے تھے وہ اک حسرت تعمیر‪ ،‬سو ہے‬


‫اب غالب کے ایسے شعروں کو بھی دیکھتے ہیں جن میں فراق اور وصل کا قدیم تصور تو ہے مگر‬
‫نئی جہت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے‪:‬‬

‫دو‬ ‫نہ‬ ‫باغ‬ ‫سیر‬ ‫تکلیف‬ ‫میں‬ ‫فراق‬ ‫غم‬

‫کا‬ ‫جا‬ ‫بے‬ ‫ہائے‬ ‫خندہ‬ ‫نہیں‬ ‫دماغ‬ ‫مجھے‬

‫سیر باغ کے لئے ساتھ میں معشوق یا دوست کا ہونا ضروری ہے۔ سیر باغ کا وقت بھی عجیب ہے۔‬
‫غالب نے تکلیف سیر باغ کے ذریعہ اپنی اہمیت کو نہیں بلکہ داخلی کیفیت کا اظہار کیا ہے۔ عام‬
‫حاالت میں سیرباغ تکلیف کا باعث نہیں ہوتا۔ غالب کا کمال یہ ہے کہ وہ کوئی ایسا لفظ رکھ دیتے ہیں‬
‫جس سے شعر کی معنوی دنیامیں حسن پیدا ہوجاتاہے۔ یہاں اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ‬
‫تکلیف سیر باغ کی ترکیب میں لفظ تکلیف سے گرچہ معنوی دنیا وسیع نہیں ہوتی مگر حسن دوباال‬
‫ضرور ہوجاتا ہے۔ انتظار کی کیفیت میں شدت احساس کا پیدا ہونا فطری ہے۔ غالب کے یہاں ہجر یا‬
‫انتشار کی حالت میں شدت احساس ابھرتی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جسے غالب کی پوری‬
‫شاعری کے سیاق میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ غالب کا وہ ذہن ہے جو زندگی کے حقائق‬
‫کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور جذبہ فکر پر عموما ً غالب نہیں آتا۔ تصور وصال اور تصور ہجر اس‬
‫لئے غالب کے یہاں نئی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔ اب اس بظاہر سادہ سا شعر پر غور کیجئے‪:‬‬
‫بھر‬ ‫عمر‬ ‫آئے‬ ‫نیند‬ ‫میں‬ ‫انتظار‬ ‫نہ‬ ‫پھر‬ ‫تا‬

‫میں‬ ‫خواب‬ ‫جو‬ ‫آئے‬ ‫کرگئے‬ ‫عہد‬ ‫کا‬ ‫آنے‬

‫معشوق کی شرارت کی ایک صورت یہ بھی ہے جس کی طرف غالب نے اشارا کیا ہے۔ اس شرارت‬
‫میں عاشق کے لئے لذت کا کتنا سامان ہے اس کی طرف کوئی اشارا نہیں۔ مگر عاشق اس شرارت کا‬
‫اظہار جس طرح کرتا ہے اس میں شکوہ سنجی سے زیادہ تعلق کا اظہار ہے۔ ‘تاپھر’ سے واضح ہے‬
‫کہ پہلے ہی سے انتظار نے آنکھوں سے نیند کو غائب کردیا ہے۔ ‘عمر بھر’ کا ٹکڑا اس بات کی‬
‫جانب متوجہ کرتا ہے کہ خواب میں معشوق نے جو آنے کا وعدہ کیا ہے اس کا الزمی نتیجہ یہی ہوگا‬
‫کہ تمام عمر مجھے نیند نہں آئے گی‪ ،‬خواب میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معشوق نے حالت‬
‫خواب میں ہی مالقات کا وعدہ کیا ہے بلکہ جب میری آنکھ لگی تو معشوق نے کہا کہ ٹھیک ہے میں‬
‫ا ٔٓوں گا۔ شعر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معشوق کس قدر ظالم ہے کہ اسے یہ بھی گوارا نہیں کہ میں‬
‫جاوں‪ ،‬کتنی مشکلوں سے آنکھ لگی اور نمودار ہوگئے۔ یا تو بیداری کے عالم میں ملنا تھا یا‬
‫سو ٔ‬
‫خواب میں نہیں آنا تھا۔ نیند بھی گئی اور معشوق کو دیکھتے رہنے کی دولت بھی ہاتھ سے نکل گئی۔‬
‫کمال فن یہ ہے کہ غالب نے بغیر کسی اضافت‪ ،‬ترکیب اور پیچیدہ بیانی کے معنی میں حسن پیدا کیا‬
‫ہے۔ خواب اور نیند میں ایک تعلق بھی ہے۔ انتظار کی کیفیت کو غالب نے کچھ یوں بھی بیان کیا ہے‪:‬‬

‫نہیں‬ ‫اعتماد‬ ‫کا‬ ‫قیامت‬ ‫کو‬ ‫مجھ‬ ‫کہ‬ ‫نہیں‬


‫نہیں‬ ‫زیاد‬ ‫جزا‬ ‫روز‬ ‫سے‬ ‫فراق‬ ‫شب‬

‫اس شعر میں روز جزا اور قیامت کا ذکر اس فکری پس منظر کی جانب اشارہ کرتا ہے جسے ہم‬
‫تصور کائنات کا نام دیتےہیں۔ یعنی کوئی شاعر اپنی تہذیبی زندگی سے خیاالت اخذ کرتا ہے۔ یہاں یہ‬
‫بھی سمجھنا ضروری ہے کہ تہذیبی زندگی میں مذہبی تصورات بھی شامل ہوجاتے ہیں اور معاشرے‬
‫میں مذہبی تصورات‪ ،‬اعتقادات کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتے ہیں جن سے غالب نے بھی بہت‬
‫فائدہ اٹھایاہے جس کی ایک بڑی مثال مندرجہ باال شعر ہے۔‬

‫اگر کسی قاری کو یہ معلوم نہ ہو کہ روز جزا کیا ہے تو وہ غالب کے شعر کی روح تک نہیں پہنچ‬
‫سکتا۔ روز جزا اور قیامت ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ دنیا جب دوبارہ قائم ہوگی اور انسان اٹھائے‬
‫جائیں گے تو اسے اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا‪ ،‬وہ دن نہایت نفسی نفسی کا ہوگا۔ کسی کی کسی کو‬
‫پروا نہیں ہوگی۔ یہ سارا معاملہ غیب پر یقین کرنے کا ہے۔ شعر کا پہال لفظ ‘نہیں’ ہے اور یہی لفظ‬
‫اول کی قرأت نہیں سے شروع ہوکر نہیں پر ختم ہوجاتی ہے۔ دو ‘ نہیں’ نے‬
‫ردیف بھی ہے۔ مصرع ّ‬
‫متکلم کے عقیدے کو زوردار طریقے سے پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے یہ بھی‬
‫سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک ہی لفظ معنی کی ادائیگی میں کس طرح ایک دوسرے کے معاون ہوتے‬
‫ہیں ورنہ عموما ً یہ بھرتی کے اور زائد معلوم ہوتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ شب فراق یا شب ہجر‬
‫کی تکلیفیں روز جزا سے زیادہ سخت ہیں‪ ،‬گویا اگر شب فراق کسی نے کاٹ لی ہے تو اس کی نظر‬
‫میں روز جزا کی دشواریاں کم تر معلوم ہوں گی‪ ،‬کمال یہ ہے کہ متکلم ایسا کہنے سے پہلے قیامت‬
‫کے دن کو درمیان میں الکر اس سے اپنے مکمل یقین کاا ظہار کرتا ہے‪ ،‬تاکہ کوئی معترض نہ ہو‪،‬‬
‫اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ روز جزا تو جب ہوگا‪ ،‬ابھی تو میرے لئے شب ہجر ہی روز جزا ہے‬
‫اور یہ زیادہ سخت ہے۔ یقینی انداز نظر میں ایک امکانی صورت بھی تو پوشیدہ ہے جس پر نظر بہت‬
‫بعد کو جاتی ہے۔ اب غالب کے ایک ایسے شعر پر غور کرتے ہیں جسے غالب کے تصور ہجر اور‬
‫تصور وصال کے سیاق میں بڑی اہمیت حامل ہے‪:‬‬

‫مرے دل میں ہے غالب شوق وصل و شکو ٔہ ہجراں‬

‫خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی‬

‫شوق وصل اور شکو ٔہ ہجراں تو دل میں یکجا ہوتا ہی ہے۔ لیکن غالب نے ‘میرے دل میں ہے غالب’‬
‫کہہ کر ایک عام سی بات کو خاص بنا دیا ہے۔ غالب تخلص ہے اور غالب یہاں زیادہ نمایاں کردار ادا‬
‫کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ‘خدا وہ دن کرے’ سے متکلم کیا کہنا چاہتا ہے۔ کیا اس سے مراد کوئی‬
‫ایسا دن ہے جس میں معشوق سے مالقات ہوگی اور اس کے سامنے عاشق شوق وصل اور شکو ٔہ‬
‫ہجراں دونوں کا اظہار کرے گا۔ یا اس سے مراد ایک عام سی صورت حال ہے جس میں عاشق ایک‬
‫ہی ساتھ دونوں کیفیات کا اظہار کرنا چاہے گا۔ ‘خدا وہ دن کرے’ کے ٹکڑے سے ایسا محسوس ہوتا‬
‫ہے کہ جیسے عاشق سے محبوب کو سامنے بٹھا کر ان دونوں کیفیات کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ‘خدا‬
‫وہ دن کرے’ ایک امید اور خواہش ہے جو دغا کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ یہ بھی کہوں وہ‬
‫بھی’ سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک تو الگ الگ شوق وصل اور شکوہ ہجراں کا اظہار‬
‫کرتے رہے۔ یہ بھی اور وہ بھی کہنے کی خواہش کچھ اس طرح پوری ہوگی کہ شوق وصل بھی پورا‬
‫ہوجائے گا۔‬

‫خالصہ‬

‫غالب کے تصور ہجر و وصال کو سمجھنے کے لیے ان چند اشعار کو پیش نظر رکھنا ضروری‬
‫ہے۔ یہ بات بظاہر حیران کرنے والی ہے کہ اس سبق میں جن اشعار کو بطور خاص دیکھا گیا ہے وہ‬
‫بیشتر اہم ناقدین کے یہاں مل جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غالب کے ہاں یہی اشعار ہیں جن‬
‫سے غالب کے تصور ہجر و وصال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ان اشعار کی مدد سے ہم‬
‫اس موضوع کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں‪ ،‬اس سبق کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی‬
‫ہوگی کہ ہجر اور وصال دو لفظ نہیں بلکہ زندگی کی دو بڑی سچائیاں ہیں اور ایک کو دوسرے کے‬
‫بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ کبھی یہ الگ رہ کر اور کبھی دوسرے میں مدغم ہوکر اپنے معنوی‬
‫امکانات کو روشن کرتی ہیں‪ ،‬اب یہ قاری یا سامع پر ہے کہ وہ ہجر اور وصال کے مضمون کو کس‬
‫طرح دیکھتا اور سمجھتا ہے۔‬

You might also like