Professional Documents
Culture Documents
Ghalib
Ghalib
Module: 15
Paper: Ghalib
Topic: Ghalib Ka Tassaour-e-Hijr-o-Wesaal
Content writer: Dr. Sarwarul Huda
Jamia Millia Islamia, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
غالب کا تصور ہجر و وصال
تعارف/تمہید
غالب کے شعری امتیازات کا ایک اہم حوالہ فراق اور وصل کا تصور بھی ہے۔ اردو شاعری کے سیاق
میں فراق اور وصل بہت مانوس سے الفاظ ہیں اور انھیں عشقیہ مضامین سے وابستہ کرکے دیکھا
پہلووں سے ُجڑ جاتا ہے۔ اردو شاعری
ٔ جاتا ہے ،لہٰ ذا ایک معنی میں فراق اور وصل کا رشتہ عشقیہ
کے حوالے سے عشق کا موضوع ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجازی عشق کے ساتھ
حقیقی عشق بھی ایک باب کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ ایسے شعری نمونے بھی ہیں جن
میں عشق حقیقی اور عشق مجازی کی حدیں مل جاتی ہیں اور ایک قاری کی حیثیت سے انھیں الگ
الگ کرکے دیکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجازی عشق داخلی سطح پر عشق
حقیقی میں تبدیل ہورہا ہے۔ لہٰ ذا قرأت کے وقت اس بنیادی حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت
ہے کہ عشق ایک جذبہ ہے جو انہماک ،خودسپردگی اور دیوانگی چاہتا ہے۔ غالب کی نظر میں عشق
کے تعلق سے نہ صرف اردو کا بلکہ فارسی کا بھی سرمایہ تھا۔ ان کے نزدیک پیش رو شعرا کی
پیروی کا ایک بالکل مختلف مطلب تھا ،انھوں نے جن مضامین کو اپنی شاعری میں برتا انھیں پوری
طرح غالب کی ایجاد تو نہیں کہا جاسکتا مگر غالب نے اپنی ذہانت کو بروئے کار الکر انھیں نئی
جہتیں عطا کیں۔ ان نئی جہتوں کو غالب کے عشقیہ اشعار سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
سبق کا مقصد
غال ب کے شعری امتیازات کو عام طور پر موضوعات کی روشنی میں نشان زد کرنے کی کوشش
کم ہوئی ہے۔ عموما ً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اچھی اور بڑی شاعری کا موضوعاتی مطالعہ نہیں کیا
جاسکتا۔ اس طرح کے مطالعہ کے لیے کمزور شاعری زیادہ مناسب ہے۔ لیکن اگر بغور دیکھا
جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ غالب کی شاعری کی تمام تر عظمت کے باوجود ان کے اشعار
کو ہم موضوعات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس عمل سے غالب کی شاعرانہ عظمت پر کوئی حرف
نہیں آتا۔ خصوصا ً غالب کا تصور ہجر و وصال ایک ایسا موضوع ہے جس سے غالب کی شعری
انفرادیت واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔
اردو شاعری میں ہجر و وصال کے موضوع کو بڑے پیمانے پر برتا گیا ہے۔ یہاں اس کی گنجائش
نہیں ،ورنہ دوسرے شعرا کی مثالیں بھی پیش کی جاتیں۔
یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ غالب کے یہاں ہجر و وصل کے تمام اشعار کسی نئی
جہت کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم غالب کے جس تصور فراق اور
تصور وصل کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں ان کا اصل رشتہ غالب کے ان ہی چند اشعار سے ہے جن میں
ایک باغیانہ فکر بھی ہے۔
غالب کے اس شعر نے ہجر و وصال کے مضامین کو اس ذہن کے ساتھ وابستہ کردیا ہے ،جس کی
مثال غالب سے پہلے نہیں ملتی۔ ‘ہمارے ذہن’ کا ٹکڑا اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اب تک وصال
کے بارے میں جو کچھ سوچا اور کہا گیا وہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ابھی تک کس نے کیا سوچاوہ
اپنی جگہ اہم یا غیراہم ہے ،ان باتوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ متکلم تمام
اذہان کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے ۔ عاشق کی اس کیفیت کا اظہار بھی ہے کہ وصال
کے بغیر زندگی کیسے گزرے گی۔ تمام عمر بھٹکتے رہنا کوئی زندگی تو نہیں کہ ‘‘گر نہ ہو تو کہاں
جائیں’’ اسی کیفیت کی جانب اشارہ ہے۔ اس کے بعد کا ٹکڑا ‘‘ہو تو کیوں کر ہو’’اس ذہن کی جانب
اشارہ کرتا ہے جسے ہم ‘ذہن جدید’ کہتے ہیں۔ جذبے کی شدت اچانک ایک ایسے منطقی سوال اور
جواب سے روبرو ہوتی ہے جس کی کوئی مثال غالب سے پہلے نہیں ملتی۔ دو متضاد کیفیات کو یکجا
کرکے ایک ایسی کیفیت کو ابھارا گیا ہے جس میں وصل اور ہجر ایک دوسرے کا تکملہ معلوم ہوتے
ہیں۔ گویا ہجر ہے تو وصال بھی ہے اور وصال ہی سے ہجر بھی ہے۔ ان دونوں کو کسی مقام پر یکجا
تو نہیں کیا جاسکتا مگر وصال میں ہجر کی کیفیت بھی دیکھی یا محسوس کی جاسکتی ہے اور ہجر
میں وصال کی کیفیت۔ غالب نے ایک شعر میں وصال یار کی ترکیب بھی استعمال کی ہے:
اس شعر میں لفظ قسمت اس تصور کی نشان دہی کررہا ہے جس میں عقیدہ شامل ہے۔ قسمت پر یقین
انسان کے لئے پناہ گاہ بھی ہے۔ یہاں تو وصال یار کا معاملہ ہے ورنہ زندگی کے تمام معامالت میں
قسمت کا تصور بڑی حد تک قوت بھی پہنچاتا ہے۔ اردو شاعری اور خصوصا ً اردو غزل میں وصال
یار کا مطلب تو ،ہجریار ہے یعنی وصال تو ممکن نہیں۔ میر نے ایک شعر میں وصال کو کچھ یوں
دیکھا ہے:
یہاں بھی خدا نصیب کرے کا ٹکڑا غالب کہ ‘‘یہ نہ تھی ہماری قسمت’’ ہی جیسا ہے۔ غالب نے اپنے
شعر میں نہ تو کوئی ترکیب استعمال کی ہے اور نہ ہی کوئی استعارہ پیش کیا ہے ،گفتگو کے لہجے
میں وصال یار سے محرومی کا کچھ اس طرح گلہ کیا ہے کہ وہ گلہ معلوم نہیں ہوتا اور ایک وفادار
عاشق کی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر زندگی باقی رہتی تو وصال یار کا انتظار رہتا۔ شعر کا لطف
تو اس بات میں ہے کہ متکلم کو معلوم ہے کہ وصال یار نہیں ہوسکتا اور اس کا سبب قسمت کی
خرابی ہے۔ قسمت پر یقین کے باوجود وصال یار کا منتظر رہنا بڑی بات ہے۔ غالب نے ایک شعر میں
عاشق کے والہانہ پن کو جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اس کی مثال کہیں اور مشکل ہی
سے ملے گی:
وعدہ کرنا محبوب کا شیوہ ہے۔ وعدے میں وصال کے عالوہ بھی بہت کچھ شامل ہے۔ محبوب کو یہ
گمان ہوسکتا ہے کہ اس کے وعدے کے سبب عاشق کی زندگی آسان ہوگئی۔ یہاں اعتبار کو موت کی
شکل میں دیکھا گیا ہے ،خوشی کے عالم میں عاشق کی موت گویا معشوق کے وعدے پر بھروسہ
کرلینا ہے۔ اگر میں زندہ ہوں یا زندہ رہا تو اس میں تیری کوئی عنایت نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ
فطری طور پر معشوق سے ملنے کی خواہش تھی مگر مجھے معلوم تھا کہ تیرا وعدہ بس وعدہ ہی
ہے۔ غالب کے یہاں محبوب کی جدائی کے غم کا اظہار دیگر کالسیکی شعرا کی طرح بھی ہوا ہے،
مگر اس میں وہ شدت احساس نہیں جو ہمیں میر کے یہاں ملتی ہے۔ یوں تو غالب کے یہاں بھی المیہ
کی صورت ہے لیکن اس کے اظہار میں احساس کی شدت دبی دبی رہتی ہے۔ مثالً اس شعر کو
دیکھئے:
سوال یہ ہے کہ دل میں آگ کیسے لگی ،آگ میں کتنی شدت تھی کہ گھر کا سارا اثاثہ جل گیا۔ غالب
نے دل کو گھر سے تشبیہ دی ہے۔ دل کا کاشانہ کچھ اس طرح جال ہے کہ محبوب کی یاد تک جاتی
رہی۔ شعر کی خوبصورتی کا راز دراصل اس بات میں ہے کہ دل میں آگ جس نے لگائی وہ میرا
محبوب ہے۔ اس کی یاد سے میرا دل معمور تھا۔ لہٰ ذا ذوق وصل یار تو اس وقت باقی رہے گا جب دل
باقی ہو۔ دل کو تو معشوق نے اس کی اصلی حالت پر رکھا نہیں۔ شعر کا متکلم ضروری نہیں کہ دل
جالنے والے سے مخاطب ہو مگر دیکھئے کہ کس خوبصورتی سے ذوق وصل کے جاتے رہنے کا
ذمہ دار معشوق کو قرار دیا ہے۔ ایک جگہ عشق کی غارت گری کو غالب نے کچھ یوں باندھا ہے:
سیر باغ کے لئے ساتھ میں معشوق یا دوست کا ہونا ضروری ہے۔ سیر باغ کا وقت بھی عجیب ہے۔
غالب نے تکلیف سیر باغ کے ذریعہ اپنی اہمیت کو نہیں بلکہ داخلی کیفیت کا اظہار کیا ہے۔ عام
حاالت میں سیرباغ تکلیف کا باعث نہیں ہوتا۔ غالب کا کمال یہ ہے کہ وہ کوئی ایسا لفظ رکھ دیتے ہیں
جس سے شعر کی معنوی دنیامیں حسن پیدا ہوجاتاہے۔ یہاں اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ
تکلیف سیر باغ کی ترکیب میں لفظ تکلیف سے گرچہ معنوی دنیا وسیع نہیں ہوتی مگر حسن دوباال
ضرور ہوجاتا ہے۔ انتظار کی کیفیت میں شدت احساس کا پیدا ہونا فطری ہے۔ غالب کے یہاں ہجر یا
انتشار کی حالت میں شدت احساس ابھرتی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جسے غالب کی پوری
شاعری کے سیاق میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ غالب کا وہ ذہن ہے جو زندگی کے حقائق
کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور جذبہ فکر پر عموما ً غالب نہیں آتا۔ تصور وصال اور تصور ہجر اس
لئے غالب کے یہاں نئی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔ اب اس بظاہر سادہ سا شعر پر غور کیجئے:
بھر عمر آئے نیند میں انتظار نہ پھر تا
معشوق کی شرارت کی ایک صورت یہ بھی ہے جس کی طرف غالب نے اشارا کیا ہے۔ اس شرارت
میں عاشق کے لئے لذت کا کتنا سامان ہے اس کی طرف کوئی اشارا نہیں۔ مگر عاشق اس شرارت کا
اظہار جس طرح کرتا ہے اس میں شکوہ سنجی سے زیادہ تعلق کا اظہار ہے۔ ‘تاپھر’ سے واضح ہے
کہ پہلے ہی سے انتظار نے آنکھوں سے نیند کو غائب کردیا ہے۔ ‘عمر بھر’ کا ٹکڑا اس بات کی
جانب متوجہ کرتا ہے کہ خواب میں معشوق نے جو آنے کا وعدہ کیا ہے اس کا الزمی نتیجہ یہی ہوگا
کہ تمام عمر مجھے نیند نہں آئے گی ،خواب میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معشوق نے حالت
خواب میں ہی مالقات کا وعدہ کیا ہے بلکہ جب میری آنکھ لگی تو معشوق نے کہا کہ ٹھیک ہے میں
ا ٔٓوں گا۔ شعر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معشوق کس قدر ظالم ہے کہ اسے یہ بھی گوارا نہیں کہ میں
جاوں ،کتنی مشکلوں سے آنکھ لگی اور نمودار ہوگئے۔ یا تو بیداری کے عالم میں ملنا تھا یا
سو ٔ
خواب میں نہیں آنا تھا۔ نیند بھی گئی اور معشوق کو دیکھتے رہنے کی دولت بھی ہاتھ سے نکل گئی۔
کمال فن یہ ہے کہ غالب نے بغیر کسی اضافت ،ترکیب اور پیچیدہ بیانی کے معنی میں حسن پیدا کیا
ہے۔ خواب اور نیند میں ایک تعلق بھی ہے۔ انتظار کی کیفیت کو غالب نے کچھ یوں بھی بیان کیا ہے:
اس شعر میں روز جزا اور قیامت کا ذکر اس فکری پس منظر کی جانب اشارہ کرتا ہے جسے ہم
تصور کائنات کا نام دیتےہیں۔ یعنی کوئی شاعر اپنی تہذیبی زندگی سے خیاالت اخذ کرتا ہے۔ یہاں یہ
بھی سمجھنا ضروری ہے کہ تہذیبی زندگی میں مذہبی تصورات بھی شامل ہوجاتے ہیں اور معاشرے
میں مذہبی تصورات ،اعتقادات کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتے ہیں جن سے غالب نے بھی بہت
فائدہ اٹھایاہے جس کی ایک بڑی مثال مندرجہ باال شعر ہے۔
اگر کسی قاری کو یہ معلوم نہ ہو کہ روز جزا کیا ہے تو وہ غالب کے شعر کی روح تک نہیں پہنچ
سکتا۔ روز جزا اور قیامت ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ دنیا جب دوبارہ قائم ہوگی اور انسان اٹھائے
جائیں گے تو اسے اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا ،وہ دن نہایت نفسی نفسی کا ہوگا۔ کسی کی کسی کو
پروا نہیں ہوگی۔ یہ سارا معاملہ غیب پر یقین کرنے کا ہے۔ شعر کا پہال لفظ ‘نہیں’ ہے اور یہی لفظ
اول کی قرأت نہیں سے شروع ہوکر نہیں پر ختم ہوجاتی ہے۔ دو ‘ نہیں’ نے
ردیف بھی ہے۔ مصرع ّ
متکلم کے عقیدے کو زوردار طریقے سے پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے یہ بھی
سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک ہی لفظ معنی کی ادائیگی میں کس طرح ایک دوسرے کے معاون ہوتے
ہیں ورنہ عموما ً یہ بھرتی کے اور زائد معلوم ہوتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ شب فراق یا شب ہجر
کی تکلیفیں روز جزا سے زیادہ سخت ہیں ،گویا اگر شب فراق کسی نے کاٹ لی ہے تو اس کی نظر
میں روز جزا کی دشواریاں کم تر معلوم ہوں گی ،کمال یہ ہے کہ متکلم ایسا کہنے سے پہلے قیامت
کے دن کو درمیان میں الکر اس سے اپنے مکمل یقین کاا ظہار کرتا ہے ،تاکہ کوئی معترض نہ ہو،
اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ روز جزا تو جب ہوگا ،ابھی تو میرے لئے شب ہجر ہی روز جزا ہے
اور یہ زیادہ سخت ہے۔ یقینی انداز نظر میں ایک امکانی صورت بھی تو پوشیدہ ہے جس پر نظر بہت
بعد کو جاتی ہے۔ اب غالب کے ایک ایسے شعر پر غور کرتے ہیں جسے غالب کے تصور ہجر اور
تصور وصال کے سیاق میں بڑی اہمیت حامل ہے:
شوق وصل اور شکو ٔہ ہجراں تو دل میں یکجا ہوتا ہی ہے۔ لیکن غالب نے ‘میرے دل میں ہے غالب’
کہہ کر ایک عام سی بات کو خاص بنا دیا ہے۔ غالب تخلص ہے اور غالب یہاں زیادہ نمایاں کردار ادا
کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ‘خدا وہ دن کرے’ سے متکلم کیا کہنا چاہتا ہے۔ کیا اس سے مراد کوئی
ایسا دن ہے جس میں معشوق سے مالقات ہوگی اور اس کے سامنے عاشق شوق وصل اور شکو ٔہ
ہجراں دونوں کا اظہار کرے گا۔ یا اس سے مراد ایک عام سی صورت حال ہے جس میں عاشق ایک
ہی ساتھ دونوں کیفیات کا اظہار کرنا چاہے گا۔ ‘خدا وہ دن کرے’ کے ٹکڑے سے ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ جیسے عاشق سے محبوب کو سامنے بٹھا کر ان دونوں کیفیات کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ‘خدا
وہ دن کرے’ ایک امید اور خواہش ہے جو دغا کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ یہ بھی کہوں وہ
بھی’ سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک تو الگ الگ شوق وصل اور شکوہ ہجراں کا اظہار
کرتے رہے۔ یہ بھی اور وہ بھی کہنے کی خواہش کچھ اس طرح پوری ہوگی کہ شوق وصل بھی پورا
ہوجائے گا۔
خالصہ
غالب کے تصور ہجر و وصال کو سمجھنے کے لیے ان چند اشعار کو پیش نظر رکھنا ضروری
ہے۔ یہ بات بظاہر حیران کرنے والی ہے کہ اس سبق میں جن اشعار کو بطور خاص دیکھا گیا ہے وہ
بیشتر اہم ناقدین کے یہاں مل جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غالب کے ہاں یہی اشعار ہیں جن
سے غالب کے تصور ہجر و وصال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ان اشعار کی مدد سے ہم
اس موضوع کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ،اس سبق کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی
ہوگی کہ ہجر اور وصال دو لفظ نہیں بلکہ زندگی کی دو بڑی سچائیاں ہیں اور ایک کو دوسرے کے
بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ کبھی یہ الگ رہ کر اور کبھی دوسرے میں مدغم ہوکر اپنے معنوی
امکانات کو روشن کرتی ہیں ،اب یہ قاری یا سامع پر ہے کہ وہ ہجر اور وصال کے مضمون کو کس
طرح دیکھتا اور سمجھتا ہے۔