You are on page 1of 2

‫جابر بن حیان‬

‫تاریخ کا سب سے پہال کیمیا دان اور عظیم مسلمان سائنسدان جابر بن حیان جس نے سائنسی نظریات کو اپنے عروج تک پہنچا دیا ۔ دنیا‬
‫آج تک اسے بابائے کیمیا کے نام سے جانتی ہے۔ جابر بن حیان کو کیمیا کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ کیمیا کے تمام عملی تجربات سے نہ‬
‫صرف واقف تھے بلکہ اس پر مکمل عبور بھی رکھتے تھے۔ ٓاج اپنے ورثہ پیج کے دوستوں کو اس عظیم کیمیا دان کے بارے میں کچھ‬
‫بتاتے ہیں۔‬
‫جابر بن حیان کی پیدائش ‪731‬ء میں بمقام طوس جبکہ ایک روایت کے مطابق خراسان میں ہوئی۔ اس کیمیا دان کا تعلق عرب کے جنوبی‬
‫حصے کے ایک قبیلے ’’اذو‘‘ سے تھا۔ ان کی پیدائش اِن کے باپ وفات کےبعد ہوئی۔بہت ہی چھوٹی سی عمر میں باپ کا سایہ سر سے‬
‫اُٹھ جانے کے بعد ان کی ماں نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی۔ ہوش سنبھاال تو ماں نے انہیں کوفہ کے مضافات میں اپنے‬
‫میکے میں پرورش پانے کے لئے بھیج دیا۔ جابر بن حیان کا روزگار دوا سازی اور دوا فروشی تھا یعنی کہ جابر ایک حکیم بھی تھے۔‬
‫جوان ہونے کے بعد انہوں نے کوفہ میں رہائش اختیار کی۔ اس زمانے میں کوفہ میں علم و تدریس کے کافی مواقع تھے۔ کوفہ میں جابر‬
‫نے امام جعفر صادق علیہ رحمہ کی شاگردی اختیار کی جن کے مدرسے میں مذہب کے ساتھ ساتھ منطق‪ ،‬حکمت اور کیمیا جیسے‬
‫مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے‪ ،‬اس وقت کی رائج یونانی تعلیمات نے ان پر گہرے اثرات مرتب کئے۔‬
‫علم حاصل کرنے کے دوران انہوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو سونا بنانے کے جنون میں مبتال دیکھا تو خود بھی یہ روش اپنا لی۔‬
‫کافی تجربات کے بعد بھی وہ سونا تیار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ لیکن کیمیا میں حقیقی دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے تجربات کا‬
‫یحیی برمکی کی‬ ‫ٰ‬ ‫سلسلہ ختم نہ کیا۔ انہوں نے اپنے والد کے آبائی شہر کوفہ میں اپنی تجربہ گاہ تعمیر کی۔ خلیفہ ہارون رشید کے وزیر‬
‫ً‬
‫یحیی اس کی زندگی سے مایوس ہوگیا تو مشورتا اس نے‬ ‫ٰ‬ ‫چہیتی بیوی شدید بیمار ہوئی‪ ،‬بہتیرے عالج کے بعد بھی شفا نہ ہوئی‪ ،‬جب‬
‫ایک حکیم سے رجوع کیا۔ اس حکیم نے صرف ایک دوا’’ دو گرین‘‘ تین اونس’’ شہد‘‘ میں مال کر ایک گھونٹ پالئی۔ آدھے گھنٹے سے‬
‫یحیی برمکی اس حکیم کے گرویدہ ہوگئے اس حکیم نے بقیہ دوا‬ ‫ٰ‬ ‫بھی کم وقت میں مریضہ پہلے کی طرح صحتیاب ہوگئی۔ یہ دیکھ کر‬
‫حاکم وقت کے دل میں گھر کر لیا۔‬
‫ِ‬ ‫نے‬ ‫مہارت‬ ‫بھی اسے دے دی۔ یہ حکیم جابر بن حیان ہی تھا جس کی طبیبانہ‬
‫وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی سوچ اور تجربے میں منہمک رہتے ۔ گھر نے تجربہ گاہ کی صورت اختیار کر لی۔ سونا بنانے کی لگن میں‬
‫علم کیمیا کی بنیاد اس نظریئے پر رکھی کہ تمام‬ ‫انہوں نے بے شمار حقائق دریافت کئے اور متعدد‪ V‬ایجادات کیں۔ جابر بن حیان نے اپنے ِ‬
‫دھاتوں کے اجزائے ترکیبی ’’گندھک ‘‘اور ’’پارہ‘‘ ہیں۔ مختلف حالتوں میں اور مختلف تناسب میں ان دھاتوں کے اجزائے ترکیبی ملنے‬
‫سے دیگر دھاتیں بن سکتی ہیں۔ ان کے خیال میں دھاتوں میں فرق کی بنیاد اجزائے ترکیبی نہیں بلکہ ان کی حالت اور تناسب تھا۔ ٰلہذا‬
‫معمولی اور سستی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن تھا‪ ،‬ان میں مشاہدہ ذہانت لگن اور انتھک محنت کرنے کی صالحیت بدرجہ‬
‫اُتم موجود تھی۔‬
‫جابر بن حیان ’’ قرع النبیق‘‘ نامی ایک آلہ کے بھی موجد تھے جس کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ میں کمیائی مادوں‪ V‬کو پکایا جاتا اور‬
‫مرکب سے اٹھنے والے بخارات کے ذریعہ آلہ کے دوسرے حصہ میں پہنچا کر ٹھنڈا کر لیا جاتا تھا۔ یوں وہ بخارات دوبارہ مائع حالت‬
‫اختیار کر لیتے‪ ،‬کشیدگی کا یہ عمل کرنے کے لئے آج بھی اس قسم کا آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا موجودہ نام ’’ ریٹاٹ‘‘ ہے۔‬
‫ایک دفعہ کسی تجربے کے دوران‪ ’’ V‬قرع النبیق‘‘ میں بھورے رنگ کے بخارات اُٹھے اور آلہ کے دوسرے حصہ میں جمع ہو گئے جو‬
‫تانبے کا بنا ہوا تھا۔ حاصل شدہ مادہ اس قدر تیز تھا کہ دھات گل گئی‪ ،‬جابر نے مادہ کو چاندی کے کٹورے میں ڈاال تو اس میں بھی‬
‫سوراخ ہوگئے‪ ،‬چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے پر بھی یہی نتیجہ نکال۔ جابر نے مائع کو انگلی سے چھوا تو وہ بھی جل گئی۔ اس کاٹ دار‬
‫اور جالنے کی خصوصیت رکھنے والے مائع کو انہوں نے ’’ریزاب‘‘‪ V‬کا نام دیا۔ جس کو ٓاج ہم تیزاب کہتے ہیں۔ پھر اس تیزاب کو دیگر‬
‫متعدد دھاتوں پر آزمایا لیکن سونے اور شیشے کے عالوہ سب دھاتیں گل گئیں۔‬
‫جابر بن حیان مزید تجربات میں جُٹ گئے۔ آخر کار انہوں نے بہت سے کیمیائی مادے مثالً گندھک کا تیزاب اور ایکوار یجیا بنائے۔ حتیٰ‬
‫کہ انہوں نے ایک ایسا تیزاب بنایا جس سے سونے کو بھی پگھالنا ممکن تھا۔اس کے عالوہ لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے لوہے‬
‫پر وارنش کرنے‪ V،‬موم جامہ بنانے‪ ،‬خضاب بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔‬
‫اس کے عالوہ فوالد کی تیاری‪ ،‬پارچہ بافی ‪ ،‬چرم کی رنگائی اور شیشے کے ٹکڑے کو رنگین بنانا وغیرہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے‬
‫دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصالحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ عمل کشید اور تقطیر کا‬
‫طریقہ بھی جابر کا ایجاد کردہ ہے۔ انہوں نے قلماؤ یعنی کرسٹالئزیشن کا طریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کئے۔‬
‫جابر نے کیمیا کی اپنی کتابوں میں بہت سی اشیاء بنانے کے طریقے درج کئے۔ انہوں نے کئی اشیاء کے سلفائڈ بنانے کے بھی طریقے‬
‫بتائے۔ انہوں نے شورے اور گندھک کے تیزاب جیسی چیز دنیا میں سب سے پہلی بار ایجاد کی۔ جو کہ موجودہ دور میں بھی نہایت‬
‫قابل‬
‫اہمیت کی حامل اور سنسنی خیز ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’ قرع النبیق‘‘ کے ذریعے کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ امر ِ‬
‫ذکر ہے کہ پوری دنیا میں علمی ’’ سائنسی ‘‘ اور فکری حوالے سے دوسری صدی عیسویں کے بعد کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی۔‬
‫بقراط‪ ،‬ارسطو‪ ،‬اقلیدس‪ ،‬ارشمیدس‪ ،‬بطلیموس اور جالینوس کے بعد صرف اسکندریہ کی آخری محقق ’’پائپا تیا ‘‘چوتھی صدی عیسویں‬
‫میں گزری تھی ٰلہ ذا علمی میدان میں چھائی ہوئی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان کی تھی۔ اس کے بعد گیارہویں‬
‫صدی تک مسلمان سائنسدانوں اور مفکروں کا غلبہ رہا۔ جابر بن حیان کا انتقال ‪۸۰۶‬ء میں دمشق میں ہوا۔‬
‫مجھے ان تاریخ کے فالسفروں پر حیرت ہوتی ہے جو ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہتے تھکتے نہیں کہ مسلمانوں نے ٓاج تک ایک سوئی بھی‬
‫ایجاد نہیں کی۔ کبھی ڈاکٹر عالمہ اقبال کے بارے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اقبال ایک لوکل شاعر تھا۔ ہماری قوم نے اقبال کو زیادہ ہی سر‬
‫‪ ‬پر چڑھایا ہوا ہے۔وغیرہ وغیرہ‬
‫ان لوگوں کو کچھ شرم ٓانی چاہئے اور مسلمان سائنس دانوں کی اگر تعریف نہیں کر سکتے تو کم از کم ان پر کیچڑ اچھالنے سے تو‪ ‬‬
‫گریز کریں۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اپنے مسلمان سکالرزکی تحقیقات پر مزید ریسرچ نہیں کی۔جنہوں نے ہمارے مسلمانوں کی‬
‫تحقیقات کو ٓاگے بڑھایا وہ ٓاج ہم سے ٓاگے نکل گئے۔ لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے سائنس کے میدان میں بہت سے‬
‫بنیادی کارنامے‪ V‬سرانجام دئیے ہیں۔جب مغرب ڈارک ایجز کے دور میں سے گزر رہا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کے عالقے علوم وفنون‬
‫کے مراکز ہوا کرتے تھے۔‬

You might also like