Professional Documents
Culture Documents
صاحب صدر,قابل قدراساتذہ کرام,اور میرے پیارے ساتھیو,السالم علیکم! میری آج کی
تقریر کا عنوان ہے اقبال کا مرد مومن اور آج کا نوجوان .حکیم االمت ,شاعر مشرق
ڈاکٹر عالمہ محمد اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مرد مومن کا ایسا تصور اجاگر
کیا ہے ,جو عشق الہی اور یقین کامل کو اپنے قلب و باطن میں جاگزیں کرکے
صاحب یقین بن جائے-اس کا بھروسہ اسباب دنیاوی پر نہیں بلکہ تائید الہی پر ہوتا
ہے-مگر افسوس,یہ پیکر عشق یقین کی اس منزل پر جا پہنچا ہے کہ پہلے وہ فقط
طالب تھا اب مطلوب ہو گیا ہے-پہلے وہ محب تھا اب محبوب ہو گیا ہے-پہلے وہ ہر
گھڑی رب کی تقدیر کو تکتا تھا,کہ کب اس کی رحمت بندے کی کایا پلٹ دے,مگراب
رب کی تقدیر اس کی منتظر ہے -مگر افسوس ,ذہنی ,فکری اور سیاسی انتشار کے
اس مادہ پرستانہ دور میں آج کا نوجوان جدیدیت اور الدینیت کے بھنور میں پھنس
کر رہ گیا ہے-رموز ایمانی سے غافل کیا ہوا کہ اپنی پہچان ہی بھول بیٹھا ہے-اقبال
نے کیا خوب کہا ہے:
ٰ
نصاری تو تمدن میں ہنود وضع میں تم ہو
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
اقبال کا مرد مومن آج مذہبی زبوں حالی کا شکار ہے-مادہ پرستی اس کا شعار ہے-
دین سے تعلق محض رسمی ہے-
کس قدر تم پر گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزاد پہ قید رمضان بھاری ہے
تمھی کہہ دو یہی آئین و فاداری ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
اقبال نے نوجوان کو ایک قوم کا تصور دیا-مذہب کی بنیاد پر ایک ملت کا شعور
اجاگر کرکے فرقہ بندی کے بتوں کو پاش پاش کر دیا-بقول اقبال: