Professional Documents
Culture Documents
طفیل ہاشمی صاحب نے مجاہد کبیر حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم سے
متعلق پوسٹ لگائی کہ ابن حجر نے تہذیب میں "محمد بن اسحق" کی سند سے
لکھا ہے کہ ان دونوں حضرات نے عطیہ بن عوف نامی حدیث کے "ثقہ
راوی" کو سیدنا علی رض کو گالی نہ دینے پر کوڑے لگوائے۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر طفیل ہاشمی صاحب سے حسن ظن رکھا جائے تو یہ
ماننا ہوگا کہ موصوف نے کہیں سے کاپی پیسٹ کرکے یہ مواد اپنی وال پر
بال تحقیق نقل کردیا اور اگر سوء ظن رکھا جائے تو پھر ان پر تلبیس کا الزام
عائد ہوتا ہے جہاں انہوں نے جھوٹ پر جھوٹ گھڑ کر عوام کو دھوکا دینے
کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ابن حجر نے یہ قصہ "محمد
بن اسحق" کی سند سے نہیں بلکہ ابن سعد کی سند سے نقل کیا ہے جیسا کہ
طفیل ہاشمی صاحب کے ہی دئیے گئے حوالے کے عربی متن سے واضح
ہوجاتا ہے۔ اب طفیل ہاشمی صاحب نے یہ کذب بیانی کیوں کی اسکا جواب تو
موصوف ہی دے سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے انکا مقصد اس روایت
میں موجود انقطاع کو دور کرنا ہوگا کیونکہ ابن اسحق کا دور ابن سعد کے بہ
نسبت محمد بن قاسم سے زیادہ قریب کا ہے اور اس طرح ابن اسحق کا نام
لیکر عطیہ بن عوف کی وفات جو کہ 111ہجری میں ہوئی تھی اس سے
اتصال پیدا کیا جاسکے۔ ذیل میں ابن حجر کی تہذیب التہذیب سے جس کا
حوالہ طفیل ہاشمی صاحب نے دیا ہے اس راوی کے حاالت اور قصے کی
:سند مالحظہ ہو
تہذیب التہذیب جلد ہفتم میں راوی نمبر 414عطیہ بن عوف کے تحت ترجمہ
:مالحظہ فرمائیے
خب د ت ق البخاري يف األدب املفرد وأيب داود والرتمذي وابن ماجة عطية بن سعد بن جنادة العويف اجلديل القييس
الكويف أبو احلسن روى عن أيب سعيد وأيب هريرة وابن عباس وابن معر وزيد بن أرمق وعكرمة وعدي بن اثبت
وعبد الرمحن بن جندب وقيل بن جناب روى عنه أبناه احلسن ومعر واألمعش واحلجاج بن أرطاة ومعرو بن قيس
املاليئ ومحمد بن حجادة ومحمد بن عبد الرمحن بن أيب ليىل ومطرف بن طريف وإ سامعيل بن أيب خادل وسامل بن أيب
حفصة وفراس بن حيىي وأبو اجلحاف وزكرايء بن أيب زائدة وإ دريس األودي ومعران الباريق وزايد بن خيمثة اجلعفي
وآخرون قال البخاري قال يل عيل عن حيىي عطية وأبو هارون وبرش بن حرب عندي سوي واكن هشمي يتلكم فيه
وقال مسمل بن احلجاج قال أمحد وذكر عطية العويف فقال هو ضعيف احلديث مث قال بلغين أن عطية اكن يأيت اللكيب
ويسأهل عن التفسري واكن يكنيه بأيب سعيد فيقول قال أبو سعيد واكن هشمي يضعف حديث عطية قال أمحد وحدثنا
أبو أمحد الزبريي مسعت اللكيب يقول كناين عطية أبو سعيد وقال ادلوري عن بن معني صاحل وقال أبو زرعة لني وقال
أبو حامت ضعيف يكتب حديثه وأبو نرضة أحب إيل منه وقال اجلوزجاين مائل وقال النسايئ ضعيف وقال بن عدي قد
روى عن جامعة من الثقات ولعطية عن أيب سعيد أحاديث عدة وعن غري أيب سعيد وهو مع ضعفه يكتب حديثه واكن
يعد مع شيعة أهل الكوفة قال احلرضيم تويف سنة إحدى عرشة ومائة قلت وقيل مات سنة 27ذكره بن قانع
والقراب وقال بن حبان يف الضعفاء بعد أن حىك قصته مع اللكيب بلفظ مستغرب فقال مسع من أيب سعيد أحاديث فلام
مات جعل جيالس اللكيب حيرض بصفته فإذا قال اللكيب قال رسول هللا صىل هللا عليه وسمل كذا فيحفظه وكناه أاب
سعيد ويروي عنه فإذا قيل هل من حدثك هبذا فيقول حدثين أبو سعيد فيتومهون أنه يريد أاب سعيد اخلدري وإ منا أراد
اللكيب قال ال حيل كتب حديثه الا عىل التعجب مث أسند إىل أيب خادل األمحر قال يل اللكيب قال يل عطية كنيتك بأيب
سعيد فأان أقول حدثنا أبو سعيد وقال بن سعد أان يزيد بن هارون أان فضيل عن عطية قال ملا ودلت أىت بن أيب عليا
ففرض يل يف مائة و"قال بن سعد" خرج عطية مع بن األشعث فكتب احلجاج إىل محمد بن القامس أن يعرضه عىل
سب عيل فإن مل يفعل فارضبه أربعامئة سوط واحلق حليته فاستدعاه فأىب أن يسب فأمىض حمك احلجاج فيه مث خرج
إىل خراسان فمل يزل هبا حىت ويل معر بن هبرية العراق فقدهما فمل يزل هبا إىل أن تويف سنة 11واكن ثقة إن شاء
هللا وهل أحاديث صاحلة ومن الناس من ال حيتج به وقال أبو داود ليس ابذلي يعمتد عليه قال أبو بكر الزبار اكن يعده
يف التشيع روى عنه جةل الناس وقال السايج ليس حبجة واكن يقدم عليا عىل اللك
قارئین حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم کے کوڑوں والے واقعہ کے شروع
میں "وقال بن سعد" مالحظہ فرمالیں۔ سو پہال مکر جو طفیل ہاشمی صاحب
نے کیا کہ اس روایت کو ابن اسحق سے منسوب کیا ،وہ تو زائل ہوگیا کیونکہ
اوپر کے متن میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ابن حجر نے ابن اسحق سے
نہیں بلکہ ابن سعد سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ ساتھ ہی قارئین کسی بھی
عربی دان سے اوپر عربی متن کا ترجمہ کروالیں۔ یہ جو طفیل ہاشمی صاحب
نے ابن حجر کے حوالے سے لکھا ہے کہ عطیہ بن عوف حدیث میں ثقہ تھے
تو یہ بھی سیاق و سباق سے کاٹ کر بات پیش کی گئی ہے۔ کیونکہ اس جملے
کے آگے ہی یہ بھی مذکور ہے کہ لوگوں کے نزدیک یہ الئق حجت نہیں۔ اور
ساتھ ہی ابن حجر نے عطیہ بن عوف پر محدثین کی کڑی جرح پیش کی جو
کہ اوپر دیکھی جاسکتی ہے۔ اردو داں طبقے کی آسانی کے لئے ہم ذیل میں
امام ذہبی کی میزان االعتدال سے عطیہ بن عوف کے حاالت کے اردو ترجمہ
کا اسکین لگارہے ہیں تاکہ طفیل ہاشمی صاحب کے اس "ثقہ راوی" کی
شخصیت سے لوگ آگاہ ہوجائیں۔
اب آجائیں اس واقعہ کی طرف جو ابن حجر نے ابن سعد کے حوالے سے نقل
کیا ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں جلد سادس میں عطیہ کا ذکر کیا ہے اور لکھا
:ہے
عطية بن سعد بن جنادة العويف من جديةل قيس ويكىن أاب احلسن قال أخربان يزيد بن هارون قال أخربان فضيل عن
عطية قال ملا ودلت أىت يب أيب عليا فأخربه ففرض يل يف مائة مث أعطى أيب عطاي فاشرتى أيب مهنا مسنا وعسال قال
أخربان سعد بن محمد بن احلسن بن عطية قال جاء سعد بن جنادة إىل عيل بن أيب طالب وهو ابلكوفة فقال اي أمري
املؤمنني إنه ودل يل غالم فسمه قال هذا عطية هللا فسمي عطية واكنت أمه أم ودل رومية وخرج عطية مع بن
األشعث عىل احلجاج فلام اهنزم جيش بن األشعث هرب عطية إىل فارس فكتب احلجاج إىل محمد بن القامس الثقفي أن
ادع عطية فإن لعن عيل بن أيب طالب وإ ال فارضبه أربعامئة سوط واحلق رأسه وحليته فدعاه فأقرأه كتاب احلجاج فأىب
عطية أن يفعل فرضبه أربعامئة وحلق رأسه وحليته فلام ويل قتيبة خراسان خرج عطية إليه فمل يزل خبراسان حىت
ويل معر بن هبرية العراق فكتب إليه عطية يسأهل اإلذن هل يف القدوم فأذن هل فقدم الكوفة فمل يزل هبا إىل أن تويف
سنة أحدى عرشة ومائة واكن ثقة إن شاء هللا وهل أحاديث صاحلة ومن الناس من ال حيتج به
یہاں بھی ابن سعد نے عطیہ پر کڑی جرح ہی نقل کی ہے۔ اور صاف بیان کیا
ہے کہ یہ لوگوں کے نزدیک الئق حجت نہیں۔ جہاں تک رہی محمد بن قاسم
اور حجاج کے کوڑے مارنے والی بات تو اس کی کوئی سند ابن سعد نے نقل
نہیں کی۔ ابن سعد کی پیدائش 168ہجری کی ہے اور عطیہ کی موت 111
ہجری کی۔ گویا ابن سعد اور عطیہ کے درمیان 57سال کا فرق ہے۔ سو ابن
سعد خود تو اس روایت کو عطیہ سے نقل نہیں کرسکتے۔ ابن سعد سے اس
روایت کو کس نے نقل کیا ،اسکی کوئی تصریح ابن سعد نے نہیں کی۔ پس یہ
روایت بالسند ہونے کے سبب غیر ثابت ہوتی ہے۔
پھر یاد رہے کہ یہ عطیہ بن عوف حکومت کا باغی تھا جس نے غدار ابن
غدار عبدالرحمن ابن اشعث کے ساتھ مل کر خلیفہ عبدالملک بن مروان رحمہ
ہللا کے خالف خروج کیا تھا جیسا کہ اوپر ابن سعد اور ابن حجر دونوں کے
حوالوں سے پیش کردہ متون میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری ان تصریحات کے بعد طفیل ہاشمی صاحب اس
واقعہ کے اثبات اور عطیہ بن عوف کے ثقہ ہونے ،دونوں نظریات سے
رجوع فرمالیں گے۔ ویسے عطیہ کو ثقہ صرف حجاج و محمد بن قاسم کی
نفرت میں ہی قرار دیا جارہا ہے۔ وگرنہ عطیہ بن عوف کا عندالمحدثین
مجروح ہونا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ عطیہ صاحب سیدنا ابو سعید
الخدری رض کے نام سے کلبی جیسے کذاب کی روایات نقل کیا کرتے تھے
اور لوگوں کو کلبی کی کنیت ابوسعید سے دھوکا دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ
نیچے امام ذہبی کے بیان سے واضح ہے۔