Professional Documents
Culture Documents
دوست نے تکفیر سے متعلق کچھ سواالت کئے ،چونکہ سواالت کئی ہیں ،اسی لئے
صرف ایک تحریر میں انکے جواب دینا تحریر کی طوالت اور قارئین کی عدم دلچسپی
کا باعث ہوسکتا ہے سو اپنے اس مبحث کو ہم ایک سے زائد تحاریر میں وقتا ً فوقتا ً
سمیٹنے کی کوشش کرینگے ان شاءہللا۔ دوست کا پہال سوال ہے کہ تکفیر کن بنیادوں
پر کی جاسکتی ہے اور تکفیر کے فاعل و مفعول کے لئے کیا شرائط درکار ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ تکفیر دو طرح کی ہوتی ہیں :ایک تکفیر غیر معین اور
دوسرا تکفیر معین۔ تکفیر غیر معین کی مثال یوں سمجھئے کہ جیسے اہل علم کہتے ہیں
کہ جو بھی مردوں سے مدد طلب کرتا ہے وہ مشرک ہے یا پھر جو بھی قبروں کے
آگے سجدہ ریز ہوتا ہے وہ مشرک ہے۔ جبکہ تکفیر معین یہ ہے کہ ہم کسی گروہ،
شخص یا افراد کا نام لیکر ان کے مخصوص عقائد و نظریات کی بناء پر اسکا نام لیکر
اس کی تکفیر کریں جیسا کہ مرزا غالم احمد قادیانی اور اس کے متبعین کافر ہیں۔
کسی بھی بھی قسم کی بدعی تعلیمات و نظریات کی بنا پر کسی کو مشرک قرار دینے یا
تکفیر کرنے سے متعلق سب سے پہلے تو ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ تکفیر کا حق ہر
کس و ناکس کو حاصل نہیں ہے کہ ’’جس کا جو جی چاہے انفرادی سطح پر اٹھ کر
‘‘ اپنی ذاتی دینی تعبیر کی رائے سے اختالف رکھنے پر تکفیر شروع کردے ۔ تکفیر کا
حق اہل علم کو حاصل ہے اور اگر کوئی کم علم یا کوتاہ فہم کسی کی تکفیر کرتا ہے تو
اس کے لئے ایسا کرنا صرف اہل علم کی اتباع میں جائز ہوگا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ آج
محمد فھد حارث صاحب اٹھیں اور کسی کی تکفیر کردیں اور اگر انکی یہ تکفیر محمد
فھد حارث کی اپنی ذاتی دین کی تعبیر‘‘ کے تحت ہے تو یقینا ً ایسی تکفیر مردود ہے
جب تک کہ اسے اہل علم کا تتبع حاصل نہ ہو۔ تکفیر صرف ان معامالت میں کی
جاسکتی ہے جنکو امت کے تعامل اور نصوص قرآنی سے ’’کفر اکبر‘‘ یا پھر
’’شرک اکبر‘‘ کی حیثیت حاصل ہو ،جیسا کہ قرآن سے ثابت شدہ کسی نص کا انکار
جس کی تعبیر تواتر عملی سے متفق علیہ ہو ،جیسا کہ شراب کی حرمت ،فرشتوں کا
انکار ،نبی ﷺ کو گالی دینا ،ہللا کی ذات ،صفات اور اختیارات میں شرک کرنایا غیر ہللا
سے استعانت طلب کرنا وغیرہ۔ باقی رہے وہ معامالت جنکو زبان رسالت ﷺ نے شرک
یا کفر ضرور کہا ہے لیکن امت خاص کر صحابہ و خیرالقرون کے لوگوں نے
انکو’’حقیقی کفر یا شرک ‘‘ کے زمرے میں لینے کےبجائے فسق پر محمول کیا،
جیسا نبی ﷺ کا فرمان کہ ’’میری امت میں دو چیزیں کفریہ ہیں :نسب میں طعنہ زنی
اور میت پر نوحہ خوانی‘‘ (صحیح مسلم) تو انکو فسق پر محمول کیا جائے گا۔ ظاہر
سی بات ہے امت میں آج تک ۱۴۰۰سالوں میں اہلسنت و الجماعت میں سے کسی نے
ان دو چیزوں کی بدولت تکفیر نہیں کی اور اگر کوئی ایسا کرتا بھی ہے تو وہ چیز
صریحا ً ناجائز و باطل ہوگی۔ اور جب میں اہل علم کی اصطالح استعمال کرتا ہوں تو
اس سے مراد ۱۴۰۰سالوں میں گزرے وہ اہل علم جن کے صاحب علم ہونے پر
شروع سے لیکر آج تک امت کا اجماع ہو۔ جیسے کہ ائمہ اربعہ ،ائمہ محدثین ،امام ابن
حزم ،امام لیث بن سعد ،ابن حجر عسقالنی ،امام شوکانی وغیرہ۔ اس کے عالوہ اہل علم
میں موجودہ دور کے اکابر علماء بھی شامل ہونگے جنکا تعلق مختلف مکاتب فکر سے
ہوگا۔ ان اہل علم نے جن چیزوں سے انحراف کو کفر اکبر قرار دیا ہوا ہے ،ان چیزوں
کا صدور ہی صرف ایک شخص کو دین اسالم کے دائرہ سے خارج قرار دے سکتا
ہے۔ اس کے عالوہ تکفیر معین یعنی نام لیکر کسی گروہ یا انسان کی تکفیر کرنے کی
اور بھی شرائط ہیں جن میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ تکفیر معین کے لئے امت
کے اہل علم کا اجماع منعقد ہو اور اسکو قوت نافذہ کے ذریعے تنفیذ کیا جائے جیسا کہ
بکر نے کیا کہ پہلے اس بابت اہل علم کا اجماعزکوۃ کے معاملہ میں سیدنا ابو ؓ
مانعین ٰ
منعقد کیا اور پھر قوت نافذہ کے ذریعے اسکو نافذ کیا۔ یہی کچھ ماضی قریب میں
قادیانی گروہ کے ساتھ کیا گیا اور یہی سب سے بنیادی شرط ہے تکفیر معین کے لئے۔
اس کے بغیر کسی گروہ یا مسلک کی تکفیر معین کرنا جائز نہیں اور یہی وجہ رہی کہ
اہل روافض کی تکفیر معین کبھی نہیں ہوسکی درحاالنکہ ان کے عقائد عام مبتدع یعنی
گمراہ فرقوں سے الکھ گنا ضاللت پر مبنی رہے ہیں لیکن چونکہ ۳۵۰ ،۳۰۰سالوں
تک شیعہ اہلسنت کا حصہ بنے رہے یعنی انہوں نے اپنے فرقہ کی الگ سے تدوین نہیں
کی اور جب انہوں نے الگ سے تدوین کی تو تقیہ کے زیر اثر بہت سے اہل علم کو
انکے گمراہ عقائد کا پتہ نہ چل سکا۔ چونکہ خیر القرون کا دور جب تک گزر چکا تھا
اور بعد میں آنے والے علماء کے مابین شیعہ فرقہ کی تکفیر سے متعلق اختالف رہا سو
۱۳۰۰گزر جانے کے باوجود بھی شیعہ فرقہ کو کافر قرار نہیں دیا جاسکا ۔
اسکے عالوہ مابعد کے دور میں جس گروہ کے فاسد عقائد کی وجہ سے اس کے کفر
پر امت کا اجماع ہوجائے اور اس اجماع کی تائید قرآن و سنت کے نصوص سے ثابت
شدہ ہوتو اسکی بھی تکفیر ہوگی جیسا کہ ماضی میں قادیانی و بہائی فرقے فرقے کی
تکفیر پرامت کا اجماع ہوا ہے۔
سو تکفیر کے فاعل اور تکفیر کے مفعول کے لئے درج باال شرائط کا پایا جانا ضروری
ہے ،سو اب جو بھی ان مذکورہ باال قواعد کی خالف ورزی کرتے ہوئے تکفیر کرے گا
اسکا یہ اقدام غلط اور الئق مذمت ہوگا ،جسکا ابطال کرنا واجب ہے۔