You are on page 1of 3

‫سوئیڈن‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫پچھلے دو دن سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں گزرے۔ اسٹاک ہوم کافی گنجان آباد‬
‫شہر ہے لیکن ساتھ میں بے حد گندہ بھی۔ شائد پیرس اور برسلز سے بھی زیادہ گندہ شہر‬
‫ہے۔ یہاں کی گندگی کی وجہ یہاں کے غلیظ لوگ ہیں جو کہ شہر میں جابجا تھوکتے نظر‬
‫آتے ہیں۔ ان غلیظ گندگیوں کی وجہ سے ریلوے اسٹیشن اور اس کے آس پاس کے عالقوں‬
‫میں چلنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ شہر میں بلغاریہ‪ ،‬پولینڈ اور دوسرے مشرقی یورپ کے‬
‫رفیوجیز جابجا بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جو کہ شہر میں گندگی پھیالنے کا مزید باعث‬
‫بنتے ہیں۔‬
‫ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ہی شہر کا مشہور سٹی ہال ہے۔ یہ الل اینٹوں سے بنی ایک‬
‫مستطیل طرز کی عمارت ہے جس کے بیچ میں ایک بڑا چوکور احاطہ ہے اور باہر صحن‬
‫میں باغ اور باغ کے بعد دریا ہے۔ یہاں کافی سیاح نظر آتے ہیں۔ عمارت کے چاروں‬
‫کونوں پر مینار بنے ہوئے ہیں جس میں مجسمے نصب ہیں۔ جبکہ عمارت کے سیدھے ہاتھ‬
‫کے کونے پر جو مینار ہے وہ اونچائی اور جسامت میں بقیہ تین میناروں سے کافی بڑا‬
‫ہےجس میں گھنٹیاں نصب ہیں۔‬
‫سوئیڈن شہر کے بیچ میں سے دریا گزرتا ہے جو کہ شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا‬
‫ہے۔ شہر کے دونوں حصوں کو مالنے کے لئے دریا پر کئی شاندار ہل بنائے گئے ہیں۔‬
‫دریا کے دوسری طرف سٹی ہال کے بالکل سامنے سوئیڈن کے شاہی خاندان کا محل آتا ہے‬
‫جو کہ روئیل پیلس کہالتا ہے۔ دوپہر کے ٹھیک بارہ بجے محل کے سامنے شاہی محافظ‬
‫دستوں کی پیریڈ ہوتی ہے۔ اس پیریڈ کو دیکھنے کو سیاح کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔‬
‫دستے میں مرودوعورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ لیکن اس پیریڈ کو دیکھ کر کوئی خاص‬
‫تاثر پیدا نہیں ہوسکا‪ ،‬کیونکہ واہگا بارڈر پر جو پیریڈز آج تک دیکھی ہیں ان کے مقابلے‬
‫میں یہ پیریڈ جوش و جذبہ سے کافی خالی نظر آئی۔‬
‫محل سے آگے جائیں تو ایک پل آتا ہے۔ اس پل کے پار ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو کہ‬
‫شہر کا ہی حصہ ہے۔ اس جزیرہ پر ایک میوزیم ہے جو کہ میوزیم آف فار ایسٹ پیلیسس‬
‫اینڈ جنگل کہالتا ہے۔ اس میوزیم میں ہندوستان کے مغلیہ دور کی تصاویر اور نوادرات‬
‫نمائش پر لگائے گئے ہیں۔ کئی مغل بادشاہوں کی تصاویر ہال میں نصب ہیں جن میں اکبر‪،‬‬
‫شاہجہان‪ ،‬بہادر شاہ ظفر‪ ،‬قاسم بن بہادر شاہ ظفر وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے عالوہ کچھ ہندو‬
‫راجاوں مہاراجاوں اور اوتاروں کی تصاویر بھی ہال میں نصب ہیں۔ ہال کی پہلی منزل پر‬
‫مشرق بعید کے ممالک کے بادشاہوں کی تصاویر اور نوادرات نمائش کے لئے رکھے گئے‬
‫ہیں۔ جن میں جاپان‪ ،‬انڈونیشیا‪ ،‬کوریا اور چین وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫شاہی محل کے پیچھے اسٹاک ہوم اولڈ سٹی ٹاون ہے جہاں پرانے طرز کی بنی تنگ گلیوں‬
‫میں کھانے پینے اور خریداری کی مختلف دکانیں ہیں۔ یہاں کی سڑکیں بھی پرانے طرز پر‬
‫پتھر کی اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔ یہ عالقہ سیاحوں کی دلچسپی کا خاص مرکز ہے اور‬
‫کافی بڑے رقبے پر پھیال ہوا ہے۔‬
‫شاہی محل سے اوپر کی طرف جائیں تو دریا کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی پہاڑی بھی‬
‫ہے جو کہ کسی جنگل کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ اس پہاڑی پر کوہ پیمائی کرکے اوپر جایا‬
‫جاسکتا ہے۔ یہاں سے شہر کا نظارہ کافی خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ پہاڑی پر اوپر‬
‫چڑھئے تو سامنے ہی دریا اور اس کے بعد سٹی ہال کی عمارت نظرآتی ہے۔ دریا میں کئی‬
‫بحری جہاز لنگر انداز دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ جہازوں میں ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہیں‬
‫جہاں لوگ ذوق و شوق سے کھانے آتے ہیں۔ سوئیڈن اپنی بحری کینال کے ذریعے‬
‫ڈنمارک‪ ،‬ناروے اور دیگر یورپی ممالک سے مال ہوا ہے اسی لئے یہاں نقل و حمل کے‬
‫لئے بحری جہازوں کا استعمال عام ہے۔ اسٹاک ہوم کی بندرگاہ دنیا کی گہری بندرگاہوں‬
‫میں سے ہے‪ ،‬اسی لئے یہاں بڑے بڑے بحری جہاز لنگرانداز ہوتے ہیں۔ آٹھ منزلہ بحری‬
‫جہاز جس کو کروز کہا جاتا ہے‪ ،‬یہاں لنگر انداز ہوتے ہوئے دیکھا‪ ،‬کافی دلچسپ منظر تھا‬
‫کہ کسی مہارت سے اتنا بڑا بحری جہاز نہایت باریک بینی کے ساتھ بندرگاہ پر صرف چند‬
‫انچ کے فاصلے سے پارک کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی بحری جہاز کی رفتار کو بھی بنائے‬
‫رکھا جاتا ہے۔‬
‫اسٹاک ہوم میں ایک ہی طرز پر بنی کئی پرانی عمارات نظر آتی ہیں جو کہ سامنے سے‬
‫مستطیل اور اوپر جاکر تکون ہوجاتی ہیں۔ یہ عمارتیں کچھ مخصوص رنگ کی ہی ہوتی‬
‫ہیں‪ ،‬جیسے الل‪ ،‬نارنجی‪ ،‬پیال اور نیال وغیرہ۔ اس طرح کی عمارات اسٹاک ہوم کی پرانی‬
‫ثقافت کی نمائندہ ہیں اور پرانے شہر میں تمام ہوٹل اور رہائشی عمارات اسی طرز پر بنی‬
‫ہوئی ہیں۔‬
‫اسٹاک ہوم میں جتنے کلیسا دیکھنے کا اتفاق ہوا‪ ،‬ان سب میں سیدنا عیسی علیہ السالم یا‬
‫مریم علیہا السالم کی کوئی تصویر یا شبیہہ نہیں ملی۔ یہاں کے کلیسا بہ نسبت یورپ کے‬
‫دیگر کلیساوں کے بہت سادہ سے ہوتے ہیں‪ ،‬البتہ کچھ تصاویر ان کلیساوں میں بھی نظر‬
‫آتی ہیں لیکن وہ مقدس شخصیات میں سے کسی کی نہیں ہوتیں۔ جبکہ روم اور میالن کے‬
‫کلیساوں میں مقدس شخصیات کے ساتھ ساتھ سخت نازیبا اور برہنہ تصاویر تک دیکھنے‬
‫کو ملتی ہیں۔ غالبا اسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں بیشتر کلیسا عیسائیت کے پروٹیسٹنٹ فرقے‬
‫سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سیدنا مسیح و مریم علیہما السالم کی تصاویر اور مجسمہ‬
‫سازی کو ناپسندیدہ گردانا جاتا ہے جبکہ کیتھولک کلیساوں کا خاصہ اسی طرز کی تصاویر‬
‫و مجسمے ہیں۔‬
‫شہر میں مسلمان بہت کم نظر آئے یا یہ کہہ لیں کہ نا ہونے کے برابر۔ یہاں مسلمانوں کی‬
‫ایک بڑی مسجد بھی موجود ہے جو کہ متحدہ عرب امارات کے پہلے رئیس اعلی شیخ زاید‬
‫بن سلطان النہیان کے نام پر ہے۔ مسجد کی تعمیر میں سوئیڈن کے مقامی لوگوں کے ساتھ‬
‫ایک بڑا حصہ شیخ زاید بن سلطان النہیان کی معاونت کی شکل میں بھی شامل رہا اس لئے‬
‫مسجد کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ اس مسجد کو "گرینڈ موسق آف اسٹاک ہوم" بھی کہا‬
‫جاتا ہے۔ مسجد کی سرپرستی "اسالمک ایسوسی ایشن ان اسٹاک ہوم" کرتی ہے جبکہ یہاں‬
‫کہ امام شیخ حسن موسی ہیں جو کہ حنبلی مسلک کے پیروکار ہیں۔‬
‫تحریر‪ :‬محمد فھد حارث‬

You might also like