You are on page 1of 5

‫”تفسیر جامع البیان اور تفسیر الدرالمنثور کا تقابل"‬

‫علم تفسیر ایساعلم ہے جس کی مدد سے قرآن کے مطالب و معانی اور اس میں درج‬
‫احکام معلوم کیے جاتے ہیں‬
‫قران کی تفسیر کئی پہلوسے کی جاسکتی ہے جس میں سے ایک طریقہ تفسیر بالماثور‬
‫ہے؛ اس سے مراد وہ تفسیری منہج ہے جس کی بنیاد آیات‪ ،‬احادیث‪ ،‬اقوال صحابہ و‬
‫تابعین پرہو‪ ،‬اس لحاظ سے تفسیرجامع البیان اورالدرالمنثور دونوں ماثور تفاسیر میں شامل‬
‫ہیں‪ -‬ان تفاسیر کا تقابل پیش کرنے سے پہلے دونوں تفاسیر کے مؤلفین اور ان کے‬
‫عمومی منہج کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے‬

‫تفسیر طبری کے مؤلف‪:‬‬


‫آپ کا مکمل اسم مبارک ابو جعـفر مح ّمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الطـبری ہے‪،‬‬
‫آپ نے باختـالف ‪ 224‬ھ کے اواخر یا ‪225‬ھ کے اوائل میں طـبرستان میں والدت‬
‫فرمائی‪-‬آپ کو قرآن‪ ،‬حدیث‪ ،‬فقہ اور لغـت میں مہارت تامہ حاصل تھی نیز ادب و شاعری‬
‫میں بھی ید طولی رکھتے تھے‪ ،‬گرچہ آپ پر تشیع کا طعن لگایا جاتا ہے لیکن درست یہ‬
‫ہے کہ عقائد میں آپ سلف ہی کے پیروکار تھے‪ ،‬ابتداء میں شافعی المسلک تھے بعد میں‬
‫بحیثیت مستقل مجتہد فقہ جریریہ کی بنیاد رکھی‪ ،‬آپ کی متعـدد تصانیف ہیں لیکن تاریخ‬
‫الرسل واالنبیاء والملوک والخلفاء المعروف تاریخ طبری اور تفسیر جامع البیان ایسی‬
‫تالیفات ہیں جنہوں نے آپ کا نام تادم کائنات منورومحفوظ کر دیا‪-‬آپ نے ‪310‬ھ میں بغداد‬
‫میں وفات پائی اور وہیں اپنے مسکن میں مدفون ہوئے‪-‬‬

‫جامع البیان عن تاویل آی القرآن ( تاریخ تالیف ‪272‬ھ‪283 /‬ھ تا‬


‫‪290‬ھ)‬
‫عمومی منہج‪ :‬تـفسیر کی ابتداء میں آیات کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے یا‬
‫لفظ کے تحت "قال ابو جعفر" کے الفاظ کے ساتھ پہلے اپنی رائے پیش کی گئی ہیں پھر‬
‫اس کے ذیل میں مؤید ومخالف آثارو اقوال سلف مع اسانید نقل کیے ہیں نیز انکے پہلو بہ‬
‫پہلو صرفی و نحوی تحقیق‪ ،‬شعری استشہاد‪ ،‬متعـدد قرآت اور فقہی استنباط بھی موجود‬
‫ہیں ‪ ،‬آخر میں راجح قول کی طرف اشارہ کرکے اسکی تائید میں مختلف احادیث و‬
‫روایات سے دالئل دیے گئے ہیں‪-‬‬
‫تفـسیر الدر المنثور کے مؤلف‪:‬‬
‫آپ کا اسم کامل ابوالفضل عبدالرحمن بن کمال الدین ابوبکر بن محمد بن سابق الدین‬
‫الخفیری السیوطی اور لقب جالل الدین ہے‪ -‬والدت ‪ 1‬رجب ‪849‬ھ کو قاھرہ میں‬
‫ہوئی آپ جلیل القدر محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ‪ ،‬نحو و ادب میں بھی دسترس رکھتے‬
‫تھے‪-‬آپ شافعی المسلک تھے اور تصوف میں سلسلہ شاذلیہ کے پیروکار تھے‪-‬آپ تدریس‬
‫و تالیف سے وابستہ رہے یہاں تک کہ ‪ 19‬جمادی االولی ‪911‬ھ کو اکسٹھ سال‬
‫کی عمر میں وفات پائی‪ -‬آپ کی ہر فن پرتصانیف ہیں خصوصا علم حدیث پر‪ ،‬تفاسیر‬
‫میں جاللین اور الدرالمنثور آپکی نہایت مقـبول و معـروف تفاسیرہیں‪-‬‬

‫الدرالمنثور فی تفسیر بالمآثور‬


‫عمومی منہج‪ :‬ہر سورۃ کی ابتداء میں پہلے اسماء‪ ،‬مکان نزول‪ ،‬شان نزول اور فضائل‬
‫سورۃ کے بارے میں مختلف اقوال نقل کیے گئے ہیں پھر ایک آیت کو تقسیم کرکے ہر‬
‫حصہ کی تفسیر کے ضمن میں احادیث اوراقوال سلف درج کیے ہیں‪ -‬نیز متعـدد قرات‪،‬‬
‫ناسخ و منسوخ اور اسرائیلیات بھی گاہے گاہے موجود ہیں لیکن تمام اقوال تعلیقا بغیر‬
‫راجح مرجوح کی طرف اشارہ اور ذاتی آراء کے وارد ہیں‪-‬‬
‫تفاسیر کا عمومی جائزہ لینے کے بعـد اب ہم اصل موضوع یعنی تقابل کی طرف بڑھتے‬
‫ہیں‬

‫تقابل‬
‫اشتراکی امور‪:‬‬
‫دونوں تفاسیرعربی زبان میں ہیں اوران کی کی بنیاد آّثاروروایات پر ہے اور دونوں‬
‫تفسیریں ماثور تفاسیر میں نہایت بلند مقام کی حامل ہیں۔‬
‫دونوں تفاسیرمیں روایات کی اسانید وطرق پر نقد و جرح کا اہتمام نہیں کیا گیا۔‬
‫ناسخ و منسوخ اور تعدد قرآت دونوں میں وارد ہیں‬
‫دونوں تفاسیر میں اسرائیلیات بغیر جرح و تعدیل کے درج ہیں‬

‫اختالفی امور‪:‬‬
‫تفسیر طبری کو زمانی اعتبار سے تمام تفاسیر پر تقدم حاصل ہے جبکہ الدر المنثور نویں‬
‫صدی ہجری کی تالیف ہے‬
‫امام طبری بنیادی طور پر ایک مستقل مجتہد تھے جس کا رنگ ان کی تفسیر میں واضح‬
‫دکھائی دیتا ہے۔ صاحب الدر المنثور بنیادی طور پر ایک محدث تھے اس طرح آپ کی‬
‫تفسیر بھی محض آثار و روایات پر مبنی ہے‬
‫تفـسیر طبری اپنی جامعیت کی بناء پر الدرالمنثور سے زیادہ ضخیم ہے‪ ،‬تفسیر الدر‬
‫المنثورعالمہ سیوطی کی تفسیر"ترجمان القرآن" کا اختصار ہے جس میں آپ نے اخبار و‬
‫آثار کو جمع کردیا ہے‬
‫امام طـبری نے تفـسیر میں روایات کی متون کے ساتھ ساتھ تمام اسانید کا تذکرہ کیا ہے‬
‫مگر الدرالمنثور میں صرف تین سلسلہ رواۃ پر اکتفا کیا گیا ہے باقی اسناد حذف کردی گئ‬
‫ہیں‬
‫تفسیر طـبری میں اقوال کی توجـیہ‪ ،‬ترجیح‪ ،‬تردیـد بھی ہے اور اس کے لیے دالئل کی‬
‫تعـریض بھی لیکن عالمہ سیوطی نے تفـسیر کے لیے آیات کے ذیل میں روایات کو تعـلیقا‬
‫نقـل کیا ہے‪ ،‬راجح مرجوح کی طرف اشارہ نہیں کیا‪-‬‬
‫اگر ایک ہی قول مختلف طرق سے مروی ہو تو امام طبری ان تمام طرق و اسانید کا التزام‬
‫کرتے ہیں ہے جبکہ الدر المنثور میں مختلف رواۃ کا نام درج کرکے انکا مشترکہ قول‬
‫درج کردیا گیا ہے‬
‫تفسیر جامع البیان کے مقـدمے میں تفسیر کے متعـلق مؤلف کی ذاتی رائے‪ ،‬تفسیر کا‬
‫عمومی منہج و اسلوب نیز علوم القرآن کے حوالے سے مضامین بھی موجود ہیں جبکہ‬
‫تفسیر الدرالمنثور کے مقدمہ میں مؤلف نے سوائے وجہ تالیف کے مزید کسی بات کی‬
‫وضاحت نہیں کی‪-‬‬
‫تفـسیر طـبری میں سورکے اسماء‪ ،‬مکان نزول اور فضائل سورپر مختصر ابحاث مقدمہ‬
‫میں درج ہیں‪ ،‬سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے ان کا اہتمام نہیں کیا گیا جبکہ الدرالمنثور کی‬
‫ہر سورۃ میں اس حوالے سے عـالمہ سیوطی نے متعـدد اقـوال نقـل کیے ہیں‬
‫ّ‬
‫ابحاث موجود ہیں جن کو مفسر اقوال سلف کی تائید میں‬ ‫تفسیر طـبری میں گرانقـدر لغـوی‬
‫پیش کرتے ہیں نیز اقوال کی غـیر موجودگی میں انہیں سے الفاظ قرآنیہ کی تاویل کرتے‬
‫ہیں جبکہ الدرالمنثور صرفی و نحوی ابحاث سے خالی ہے‪-‬‬
‫جامع البیان میں آیات کے ذیل میں مشہور اورشاذ دونوں طرح کی قرآتوں کے تذکرہ کے‬
‫بعـد امام طبری ایسی قرآت کو راجح قرار دیتے ہیں جو جمہور کے موافق ہو اور تاویل‬
‫کے خالف نہ ہو‪ ،‬تـفسیر الدرالمنثور میں متعـدد قرآت تو وارد ہیں لیکن ان کو خلط ملط‬
‫کردیا گیا ہے راجح قرآت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ یہ متواتر ہے مشہور ہے یا‬
‫شاذ‪-‬‬
‫تفسیر ابن جریر میں فقہی مسائل اور احکام کی آیات سےاستـنباط بھی موجود ہے نیز امام‬
‫طـبری نے راجح اقـوال کی طرف اشارہ اور اپنی مجتہدانہ رائے کو بھی پیش کیا ہے‬
‫جبکہ الدرالمنثور میں فـقہی مسائل اور استنباط احکام واقـع نہیں ہیں‪-‬‬
‫تفسیر طبری سے امام طبری کے فقہی رحجان کا علم بھی ہوتا ہے مگر الدرالمنثور سے‬
‫امام سیوطی کے فقہی میالن کا کچھ بھی علم نہیں ہوتا‪-‬‬
‫تفـسیر طبـری میں قریبا ہر آیت کے ذیل میں شواہد الشعـریہ سے استـدالل کیا گیا‬
‫ہے مگر الدرالمنثور میں یہ منہج بہت کم ملتا ہے اور تفسیر طبری کے مقابلے‬
‫میں نہ ہونے کے برابر ہے‪-‬‬
‫تفسیر ابن جریر میں مشہور اور مستـند روایات بکثرت ہیں منکر اور ناقابل اعتماد‬
‫اقوال کی تعـداد بہت کم ہیں کیونکہ ابن جریر متہم راویوں مثال محمد بن سائب‬
‫الکلبی‪ ،‬مقاتـل بن بکیر اور واقـدی وغیرہ کی کتب سے روایات بالکل نہیں التے‬
‫جبکہ الدر المنثور میں ضعـیف روایات تو ایک طرف موضوع روایات بھی موجود‬
‫ہیں کیونکہ عالمہ سیوطی نے اتہام زدہ راویوں کی روایات بھی نقل کی ہیں‪-‬‬
‫تفسیر جامع البیان" فنّی اعتبار سے" اسم بامس ّمی جامع ترین تفسیر ہے جس میں آیات کی‬
‫توضیح فـن تفـسیر‪ ،‬فـن لغـت‪ ،‬فـن قرات اور فن استشھاد عـربیہ کی روشنی میں کی گئی‬
‫ہے‪،‬اسی بناء پر اسکے"مآخذ میں وسعـت" ہے جبکہ الدر المنثور مین ان فنون کا التزام‬
‫دکھائی نہیں دیتا‪ ،‬عالمہ سیوطی نے چار سو سے زائد کتب سے محض روایات ہی نقل‬
‫کی ہیں لہذا فنی لحاظ سے یہ تفسیر' کتاب التفسیر' کی مانند ہے‪-‬‬
‫جامع البیان کی بنیاد تو آثار و اخبار ہیں لیکن امام طـبری نے ہر مقام پر اپنی آراء دالئـل‬
‫سے واضح کی ہیں جس کی وجہ سے یہ تفسیر بین الروایہ والدرایہ کی صورت موجود‬
‫ہے جبکہ الدر المنثور کلیۃ تفسیر بالمآثور ہے‪-‬‬

‫نتائج بحث‪:‬‬
‫دونوں تفاسیر کا تقابل کرنے کے بعـد یہ نتیجہ نکالنا ممکن ہے کہ تفسیر جامع البیان ایک‬
‫جامع اور راہنما تفسیر ہے جس میں قرآن کی آیات کی تفـسیر کرنے کے لیے احادیث‬
‫سے لغـت عرب تک ہر پہلو کا دالئل کے ساتھ اہتمام ہے جبکہ الدرالمنثور بال نقد و جرح‬
‫کے ‪ 10000‬سے زائد احادیث اور اقوال سلف پر مبنی کامال ماثور تفسیر ہے‬

‫محدودیت‪:‬‬
‫روایات کی متون و اسانید پر جرح اور صحیح و سقیم کی طرف اشارہ نہ ہونے کی وجہ‬
‫سے‪ ،‬نیز تفسیر طبری کی جامعیت کی بناء پر دونوں تفاسیر کی افادیت محدود ہوگئی ہے‬
‫اور ان سے صرف علماء ہی استفادہ کرسکتے ہیں‪ -‬مزید یہ کہ کثرت روایات کے سبب‬
‫قرآن کے اصل مقصد یعنی"تذکیر" کی طرف توجہ نہیں ریتی‪-‬‬

You might also like