Professional Documents
Culture Documents
علم تفسیر ایساعلم ہے جس کی مدد سے قرآن کے مطالب و معانی اور اس میں درج
احکام معلوم کیے جاتے ہیں
قران کی تفسیر کئی پہلوسے کی جاسکتی ہے جس میں سے ایک طریقہ تفسیر بالماثور
ہے؛ اس سے مراد وہ تفسیری منہج ہے جس کی بنیاد آیات ،احادیث ،اقوال صحابہ و
تابعین پرہو ،اس لحاظ سے تفسیرجامع البیان اورالدرالمنثور دونوں ماثور تفاسیر میں شامل
ہیں -ان تفاسیر کا تقابل پیش کرنے سے پہلے دونوں تفاسیر کے مؤلفین اور ان کے
عمومی منہج کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے
تقابل
اشتراکی امور:
دونوں تفاسیرعربی زبان میں ہیں اوران کی کی بنیاد آّثاروروایات پر ہے اور دونوں
تفسیریں ماثور تفاسیر میں نہایت بلند مقام کی حامل ہیں۔
دونوں تفاسیرمیں روایات کی اسانید وطرق پر نقد و جرح کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
ناسخ و منسوخ اور تعدد قرآت دونوں میں وارد ہیں
دونوں تفاسیر میں اسرائیلیات بغیر جرح و تعدیل کے درج ہیں
اختالفی امور:
تفسیر طبری کو زمانی اعتبار سے تمام تفاسیر پر تقدم حاصل ہے جبکہ الدر المنثور نویں
صدی ہجری کی تالیف ہے
امام طبری بنیادی طور پر ایک مستقل مجتہد تھے جس کا رنگ ان کی تفسیر میں واضح
دکھائی دیتا ہے۔ صاحب الدر المنثور بنیادی طور پر ایک محدث تھے اس طرح آپ کی
تفسیر بھی محض آثار و روایات پر مبنی ہے
تفـسیر طبری اپنی جامعیت کی بناء پر الدرالمنثور سے زیادہ ضخیم ہے ،تفسیر الدر
المنثورعالمہ سیوطی کی تفسیر"ترجمان القرآن" کا اختصار ہے جس میں آپ نے اخبار و
آثار کو جمع کردیا ہے
امام طـبری نے تفـسیر میں روایات کی متون کے ساتھ ساتھ تمام اسانید کا تذکرہ کیا ہے
مگر الدرالمنثور میں صرف تین سلسلہ رواۃ پر اکتفا کیا گیا ہے باقی اسناد حذف کردی گئ
ہیں
تفسیر طـبری میں اقوال کی توجـیہ ،ترجیح ،تردیـد بھی ہے اور اس کے لیے دالئل کی
تعـریض بھی لیکن عالمہ سیوطی نے تفـسیر کے لیے آیات کے ذیل میں روایات کو تعـلیقا
نقـل کیا ہے ،راجح مرجوح کی طرف اشارہ نہیں کیا-
اگر ایک ہی قول مختلف طرق سے مروی ہو تو امام طبری ان تمام طرق و اسانید کا التزام
کرتے ہیں ہے جبکہ الدر المنثور میں مختلف رواۃ کا نام درج کرکے انکا مشترکہ قول
درج کردیا گیا ہے
تفسیر جامع البیان کے مقـدمے میں تفسیر کے متعـلق مؤلف کی ذاتی رائے ،تفسیر کا
عمومی منہج و اسلوب نیز علوم القرآن کے حوالے سے مضامین بھی موجود ہیں جبکہ
تفسیر الدرالمنثور کے مقدمہ میں مؤلف نے سوائے وجہ تالیف کے مزید کسی بات کی
وضاحت نہیں کی-
تفـسیر طـبری میں سورکے اسماء ،مکان نزول اور فضائل سورپر مختصر ابحاث مقدمہ
میں درج ہیں ،سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے ان کا اہتمام نہیں کیا گیا جبکہ الدرالمنثور کی
ہر سورۃ میں اس حوالے سے عـالمہ سیوطی نے متعـدد اقـوال نقـل کیے ہیں
ّ
ابحاث موجود ہیں جن کو مفسر اقوال سلف کی تائید میں تفسیر طـبری میں گرانقـدر لغـوی
پیش کرتے ہیں نیز اقوال کی غـیر موجودگی میں انہیں سے الفاظ قرآنیہ کی تاویل کرتے
ہیں جبکہ الدرالمنثور صرفی و نحوی ابحاث سے خالی ہے-
جامع البیان میں آیات کے ذیل میں مشہور اورشاذ دونوں طرح کی قرآتوں کے تذکرہ کے
بعـد امام طبری ایسی قرآت کو راجح قرار دیتے ہیں جو جمہور کے موافق ہو اور تاویل
کے خالف نہ ہو ،تـفسیر الدرالمنثور میں متعـدد قرآت تو وارد ہیں لیکن ان کو خلط ملط
کردیا گیا ہے راجح قرآت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ یہ متواتر ہے مشہور ہے یا
شاذ-
تفسیر ابن جریر میں فقہی مسائل اور احکام کی آیات سےاستـنباط بھی موجود ہے نیز امام
طـبری نے راجح اقـوال کی طرف اشارہ اور اپنی مجتہدانہ رائے کو بھی پیش کیا ہے
جبکہ الدرالمنثور میں فـقہی مسائل اور استنباط احکام واقـع نہیں ہیں-
تفسیر طبری سے امام طبری کے فقہی رحجان کا علم بھی ہوتا ہے مگر الدرالمنثور سے
امام سیوطی کے فقہی میالن کا کچھ بھی علم نہیں ہوتا-
تفـسیر طبـری میں قریبا ہر آیت کے ذیل میں شواہد الشعـریہ سے استـدالل کیا گیا
ہے مگر الدرالمنثور میں یہ منہج بہت کم ملتا ہے اور تفسیر طبری کے مقابلے
میں نہ ہونے کے برابر ہے-
تفسیر ابن جریر میں مشہور اور مستـند روایات بکثرت ہیں منکر اور ناقابل اعتماد
اقوال کی تعـداد بہت کم ہیں کیونکہ ابن جریر متہم راویوں مثال محمد بن سائب
الکلبی ،مقاتـل بن بکیر اور واقـدی وغیرہ کی کتب سے روایات بالکل نہیں التے
جبکہ الدر المنثور میں ضعـیف روایات تو ایک طرف موضوع روایات بھی موجود
ہیں کیونکہ عالمہ سیوطی نے اتہام زدہ راویوں کی روایات بھی نقل کی ہیں-
تفسیر جامع البیان" فنّی اعتبار سے" اسم بامس ّمی جامع ترین تفسیر ہے جس میں آیات کی
توضیح فـن تفـسیر ،فـن لغـت ،فـن قرات اور فن استشھاد عـربیہ کی روشنی میں کی گئی
ہے،اسی بناء پر اسکے"مآخذ میں وسعـت" ہے جبکہ الدر المنثور مین ان فنون کا التزام
دکھائی نہیں دیتا ،عالمہ سیوطی نے چار سو سے زائد کتب سے محض روایات ہی نقل
کی ہیں لہذا فنی لحاظ سے یہ تفسیر' کتاب التفسیر' کی مانند ہے-
جامع البیان کی بنیاد تو آثار و اخبار ہیں لیکن امام طـبری نے ہر مقام پر اپنی آراء دالئـل
سے واضح کی ہیں جس کی وجہ سے یہ تفسیر بین الروایہ والدرایہ کی صورت موجود
ہے جبکہ الدر المنثور کلیۃ تفسیر بالمآثور ہے-
نتائج بحث:
دونوں تفاسیر کا تقابل کرنے کے بعـد یہ نتیجہ نکالنا ممکن ہے کہ تفسیر جامع البیان ایک
جامع اور راہنما تفسیر ہے جس میں قرآن کی آیات کی تفـسیر کرنے کے لیے احادیث
سے لغـت عرب تک ہر پہلو کا دالئل کے ساتھ اہتمام ہے جبکہ الدرالمنثور بال نقد و جرح
کے 10000سے زائد احادیث اور اقوال سلف پر مبنی کامال ماثور تفسیر ہے
محدودیت:
روایات کی متون و اسانید پر جرح اور صحیح و سقیم کی طرف اشارہ نہ ہونے کی وجہ
سے ،نیز تفسیر طبری کی جامعیت کی بناء پر دونوں تفاسیر کی افادیت محدود ہوگئی ہے
اور ان سے صرف علماء ہی استفادہ کرسکتے ہیں -مزید یہ کہ کثرت روایات کے سبب
قرآن کے اصل مقصد یعنی"تذکیر" کی طرف توجہ نہیں ریتی-