You are on page 1of 4

‫احادیث کو پرکھنے کا "قرائن" منہج‬

‫تحریر‪ :‬سید علی اصدق نقوی‬


‫علم حدیث اسالم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے اور فقہ و عقیدہ اخذ کرنے کے ذرائع میں سے ایک ہے جس‬
‫پر علماء و محدثین نے بہت محنت کی ہے‪ ،‬اس کو مرتب کیا ہے اور اس پر کتب لکھی ہیں۔ یہ ایک وسیع علم ہے‬
‫جس پر کئی کتب پڑھی جا سکتی ہیں جو شیعہ و سنی علماء نے لکھی ہیں۔ ٓاج جب بھی کسی حدیث کی بات کی‬
‫جاتی ہے تو اب عوام الناس میں بھی اتنا شعور ٓاگیا ہے کہ وہ اس کی سند کا مطالبہ کرتی ہے یا سند کی تصدیق‬
‫طلب کرتی ہے۔ یہ ایک خوش ٓائیند بات ہے لیکن ساتھ ہی یہاں کچھ تنبیہات و مالحظات قابل ذکر ہیں۔‬
‫اہل سنت احادیث اور شیعہ احادیث الگ طرح سے منتقل ہوئی ہیں۔ اہل تسنن کے یہاں أوائل میں احادیث سماعت‬
‫سے یعنی مسموع (سنی ہوئی) منتقل ہوئی ہیں جس کے بعد ان کو لکھا گیا۔ اس کے مد مقابل اہل تشیع کے یہاں‬
‫احادیث کی تدوین کتابت سے ہی رہی ہے سماعت کی بجائے یعنی مسموع کی بجائے مکتوب (نوشتہ) رہی ہیں۔‬
‫تبھی ٓاپ اگر شیعہ رجال کی کتب بھی دیکھیں تو ان میں سے بیشتر (جیسے شیخ نجاشی اور شیخ طوسی کی‬
‫فہرست) رجال کی کتب نہیں ہیں بلکہ مصنفین کی فہرست کی کتب ہیں۔ ان میں شیعہ علماء و محدثین کا ذکر ہے‬
‫جنہوں نے اپنی اپنی کتب لکھی تھیں۔ اس سبب اہل تشیع کے یہاں تدلیس‪ ،‬راوی کے ٓاخری عمر کے اختالط اور‬
‫دیگر بہت سے مسائل پر بحث نہیں ہوئی جو اہل سنت علم حدیث میں پائے جاتے ہیں کیونکہ دونوں کے یہاں‬
‫حدیث کی منتقلی کا طریقہ مختلف رہا ہے۔ ہاں‪ ،‬سماعت میں کچھ مسائل ہیں جن میں حافظے کا مسئلہ‪ ،‬روایت‬
‫بالمعنی‪ ،‬تدلیس وغیرہ شامل ہیں اور کتابت میں بھی مسائل ہیں جیسے روایت بالمعنی (مفہوم روایت بیان کرنا)‪ ،‬یا‬
‫نسخوں کا اختالف‪ ،‬یا تصحیف‪ M،‬ادراج وغیرہ اور دیگر مسائل جو کاتب کی طرف سے یا نسخہ نقل کرنے والوں‬
‫سے ٓا جایا کرتے ہیں۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ دونوں کو ایک ہی معیار پر نہیں پرکھا جا سکتا کیونکہ‬
‫دونوں کی حدیث کی تدوین اور بالتالی علم حدیث مختلف رہا ہے۔‬
‫اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں احادیث کو پرکھنے کا معیار بھی ایک ہی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ مختلف ہونا چاہیئے۔‬
‫اہل سنت کے یہاں عموما منہج سندی رائج رہا ہے جس میں سند کو دیکھتے ہوئے حدیث کو رد یا قبول کیا جاتا‬
‫ہے۔ اگر سند صحیح ہے تو حدیث صحیح ہوگی اور پھر اس کی تاویل کی جائے گی مگر اس کو رد کرنے کا‬
‫جواز نہیں ہوگا جب تک بہت بڑے مسائل متن میں واقع نہ ہوں۔ اور اگر حدیث ضعیف ہے تو فضائل االعمال اور‬
‫ترغیب و ترہیب کے عالوہ فقہ و عقیدہ میں قابل استفادہ نہیں رہے گی۔ لیکن شیعہ قدماء نے کبھی یہ طریقہ‬
‫نہیں اپنایا۔ شیعہ محدثین اور متقدمین نے بھی منہج سندی کو کبھی استعمال نہیں کیا احادیث کی تفریق کے لیئے‬
‫بلکہ ان کے یہاں احادیث کو صحیح یا ضعیف میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ صحیح حدیث وہ ہوتی تھی جو قرائن سے‬
‫گھری ہوئی ہو (محفوف بالقرائن) اور ضعیف حدیث وہ ہوتی تھی جس میں قرائن نہ ہوں یا قوی قرائن نہ ہوں جو‬
‫اس حدیث کی تائید اور تقویت کریں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کچھ اصول اور قرائن کا ذکر کیا‪ ،‬کہ اگر کسی‬
‫روایت کی تائید میں قرینہ ہو یا قرائن ہوں تو وہ روایت معصوم سے صادر ہوئی ہے اور اس پر عمل کیا جا سکتا‬
‫ہے کیونکہ ظن پر عمل کرنا جائز نہیں‪ ،‬جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے (‪)1‬۔ ہم ان میں سے کچھ قرائن ذکر‬
‫‪:‬کرتے ہیں جو ایک حدیث کی صحت پر دال ہو سکتے ہیں‬
‫قرٓان سے موافقت‪ ،‬جیسا کہ فرامین معصومین ع میں بکثرت مروی ہے کہ قرٓان کے موافق حدیث لی جائے گی‬
‫اور مخالف حدیث رد کی جائے گی (‪ )2‬کیونکہ فرمان معصوم کبھی کتاب ہللا کے مخالف نہیں ہو سکتا۔‬
‫عقل سے موافقت‪ ،‬جیسا کہ عقل کی حجیت پر احادیث اور درایت پر مروی روایات سے علم ہوتا ہے (‪ )3‬کیونکہ‬
‫فرمان معصوم عقل کے خالف نہیں ہوتا۔ یہاں ہم اس کی وضاحت نہیں کریں گے کہ عقل کیا ہے‪ ،‬اس کے لیئے‬
‫ہماری فلسفی تحاریر و ابحاث کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اور یاد رہے کہ خبر واحد جو ظنی ہوتی ہے اس کے مقابل‬
‫میں عقل زیادہ قطعی ہے تو ظنی کو چھوڑ کر قطعی کو اپنایا جائے گا۔ یہاں عقل سے مراد تصور‪ ،‬رائے یا‬
‫خواہش نہیں بلکہ حقیقی عقل سلیم ہے جو تمام اباطیل اور بواطل سے پاک ہو۔‬
‫سنت سے موافقت‪ ،‬یہ معیار بھی روایات میں مروی ہے (‪)4‬۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسے مثال دس روایات ایک‬
‫مفہوم پر دلیل ہوں جبکہ ایک شاذ روایت کسی اور چیز پر دلیل ہو تو شاذ کو ترک کرکے دس روایات کو اپنایا‬
‫جائے گا جو سنت عمل ہے۔‬
‫تاریخی مسلمات سے موافقت۔ اس سے مراد وہ مسلمات ہیں جن پر کسی نے شک نہ کیا ہو‪ ،‬جیسے یہ کہنا کہ‬
‫جنگ بدر ہجرت کے بعد ہوئی‪ ،‬اگر مثال کسی روایت میں ہو کہ یہ جنگ ہجرت سے قبل ہوئی تو وہ روایت متروک‬
‫ہوگی۔ اور یہ بھی درایت کا حصہ ہے۔‬
‫اس کا راوی عامی ہو اور وہ اس کے مذہب کے حق میں ہو۔ کیونکہ عامی راوی اپنے خاص تمایالت و رجحانات‬
‫رکھتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی روایات کو شیعی روایات میں خلط کردے جیسا کہ دیکھنے‬
‫میں ٓایا ہے۔‬
‫یا عامی راوی ایسی روایت بیان کرے جو اس کے مذہب کے خالف ہو۔ کیونکہ کوئی اپنے عقیدے کے خالف‬
‫روایت نہیں بیان کرنا چاہے گا۔ اس سبب اگر کسی خارجی یا ناصبی سے مثال امام علی ع کی فضیلت پر روایت‬
‫ٓائے تو یہ اس کی صحت کا قرینہ ہے کیونکہ اس فرد کے اپنے تعصبات کے باوجود اس نے اس کو بیان کیا‬
‫ہے۔ خود ائمہ ع نے بھی یہ تعلیم دی ہے کہ راوی کے خارجی یا قدری وغیرہ ہونے سے روایت کو رد نہیں کیا‬
‫جاتا (‪ )5‬اور ایک مشہور عربی مقولہ ہے کہ الفضل ما شهدت به األعداء یعنی فضیلت وہ ہے جس کی گواہی‬
‫دشمنان بھی دیں۔ تو جب عامی کی طرف سے خاصہ کے عقائد کی تائید ہو تو وہ اس روایت کی صحت پر ایک‬
‫قرینہ ہے۔‬
‫اس کو تقیہ پر حمل کیا جانے کا امکان ہو۔ کیونکہ اگر اس روایت کے متن میں کچھ ایسا ہو جو قرینہ بنے کہ یہ‬
‫روایت تقیہ میں ہے یا اگر اس کے معارض روایات موجود ہوں اور ِاس روایت میں عامہ کے موافق نظریات ہوں‬
‫تو اس کو تقیہ پر حمل کیا جائے گا کیونکہ ائمہ ع نے عامہ کو ترک کرکے خاصہ کے موافق اخبار کو لینے کا‬
‫حکم دیا ہے (‪)6‬۔‬
‫اس کے معارض روایت موجود نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی روایت ہو جس سے متضاد روایت فقہ یا عقیدہ وغیرہ میں‬
‫نہ ہو تو یہ خود ایک قرینہ ہے اس روایت کی صحت پر کہ یہ تقیہ میں نہیں کہی گئی اور اس کا صدور معصوم‬
‫ع سے ایک قرینہ رکھتا ہے اس جہت سے۔ اور اختالف حدیث کے علل و اسباب کے لیئے الکافی کی جلد اول‬
‫يث یا علل الشرائع سے رجوع کیا جا سکتا ہے (‪)7‬۔‬ ‫الف ا ْلحَ ِد ِ‬
‫میں بَابُ اخْ ِت ِ‬
‫تجریبی علوم کے موافق ہو۔ جیسے مثال اگر کوئی روایت کہے کہ ہماری زمین چاند کی گردش کرتی ہے تو یہ‬
‫تجریبی علم کے موافق نہیں اور ایسی روایت خبر واحد ہونے کے سبب ظنی ہوگی اور اگرچہ تجریبی علم خود‬
‫بھی ظنی ہے جیسا کہ ہم اپنی فلسفہ سائنس کی تحریر میں بیان کر چکے ہیں‪ ،‬لیکن تجریبی علم ایسی خبر واحد‬
‫سے زیادہ قطعی ہے اپنی داللت میں۔ ہاں‪ ،‬اگر اس میں تاویل کا امکان ہوا تو اس کی تاویل کی جائے گی تاکہ اس‬
‫کو تجریبی علم کے اس جہت سے موافق الیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ بات متواتر روایات یا قرٓان کے لیئے نہیں‬
‫کہی جا سکتی کیونکہ وہ ظنی الصدور نہیں ہیں بلکہ یہ بات فقط اخبار ٓاحاد کے لیئے ہے جن کے صدور پر‬
‫قرائن کی کمی ہے۔ کیونکہ تجریبی علم حق تک پہنچنے کے لیئے درست رستہ نہیں ہے مگر اس کو بطور قرینہ‬
‫استعمال کرنے میں حرج نہیں کیونکہ ہم علم حصولی اور علم حضوری یعنی عقالنی و تجریبی دونوں علوم کو‬
‫علم حاصل کرنے کے ذرائع سمجھتے ہیں۔‬
‫سند صحیح اور متصل ہو۔ اگر کسی روایت کی سند میں تمام روات ثقات ہوں اور اس کی سند بھی متصل ہو اور‬
‫کسی قسم کا ارسال یا انقطاع نہ رکھتی ہو تو وہ روایت ایک قوی قرینہ رکھتی ہے اپنے حق میں۔ اس سے اس کا‬
‫معصوم ع سے صادر ہونے کا امکان بڑھتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ فقط ایک قرینہ ہے کئی قرائن میں سے اور‬
‫محض سند کے ضعیف ہونے پر روایت کو رد کرنا اور صحیح ہونے پر قبول کرنے کا طریقہ ہمارے مشایخ و‬
‫قدماء کا نہیں رہا کیونکہ وہ اس کو ایک قرینہ ہی سمجھتے تھے کئی قرائن میں سے۔‬
‫تعدد طُرُ ق کے ساتھ ہو۔ اگر کوئی روایت متعدد اسانید سے مروی ہو تو یہ اس کے معصوم ع سے صدور کو‬
‫تقویت دیتا ہے کیونکہ اتنی کثرت سے مختلف عالقوں کے مختلف زمانوں کے مختلف راویان کا ایک ہی متن‬
‫(لفظی یا معنوی طور پر) بیان کرنا اس کے وضع کیئے جانے کو برطرف کرتا ہے۔ اس سبب جب ایک روایت‬
‫متواتر ہوجائے تو یہ اس کے حق میں ایک قوی اور مضبوط قرینہ ہے کہ یہ حدیث معصوم ع سے صادر ہوئی‬
‫ہے۔‬
‫اس پر طائفہ کا عمل ہو اور اس پر اجماع ہو۔ کیونکہ ہمارے مشایخ کا زمانہ ائمہ ع سے قریب کا تھا تو ان کے‬
‫پاس ہم سے زیادہ قرائن موجود تھے‪ ،‬حتیٰ کہ ان کے پاس اصحاب ائمہ ع اور خود ائمہ ع کے لکھے ہوئے‬
‫نسخے بھی موجود تھے جیسا کہ شیخ صدوق نے من ال یحضرہ الفقیہ میں تصریح کی ہے کہ ان کے پاس امام‬
‫عسکری ع کی لکھائی میں محمد بن حسن صفار کے سواالت کے جوابات موجود ہیں (‪)8‬۔ اور طائفہ کا ایک چیز‬
‫پر عمل اس کی صحت پر ایک قرینہ ہے‪ ،‬نیز اگر اس حدیث پر اجماع ہو تو یہ بھی اس روایت کے حق میں ایک‬
‫قرینہ ہے جیسا کہ مقبولہ عمر بن حنظلہ میں مُج َمع علیہ بات کو لینے کا حکم (‪)9‬۔‬
‫کتب معتبرہ میں مشایخ نے اس کو نقل کیا ہو۔ کیونکہ ان کتب کے مقدمات میں مشایخ نے تصریح کی ہے کہ وہ‬
‫معتبر روایات نقل کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ قرائن بیان کیئے ہیں – جیسا کہ شیخ کلینی نے الکافی‬
‫میں – کہ اگر کوئی روایت کتاب ہللا کے خالف ہو تو اس کو رد کردیا جائے گا۔ اور اگر کوئی روایت ایسی کتاب‬
‫میں ہو جو معتمد و معتبر کتب میں شامل نہیں ہے تو یہ اس روایت کے خالف ایک قرینہ ہے کیونکہ ہمارا اعتماد‬
‫و اعتبار ان معتبر کتب پر ہے جن کی نسبت اپنے مؤلف سے ثابت ہو اور جن کے مؤلفین ہمارے نزدیک معتمد‬
‫ہوں۔ جیسے اگر ایک روایت کی سند ضعیف ہو لیکن ہمارے محدثین اس کو اپنی معتمد کتب میں نقل کریں جس میں‬
‫انہوں نے یہ شرط رکھی کہ اپنے منہج پر درست روایات جمع کر رہے ہیں اور بارہا یہ معتمد کتب میں پائی‬
‫جائے تو یہ ایک قرینہ ہے اس روایت کے حق میں کیونکہ محدثین نے اس پر انحصار کیا ہے مع ضعف سندها۔‬
‫کیونکہ یاد رہے کہ قدماء کے پاس متعدد قرائن موجود تھے جو ٓاج مفقود ہیں‪ ،‬جن میں خود اصحاب ائمہ ع کی‬
‫اصلی کتب تھیں جو ان کی اپنی لکھائی میں ان کے پاس موجود تھیں جن میں سے انہوں نے روایات نقل کیں‪ ،‬جن‬
‫کو "االصول االربعمائہ" بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬اور یہ کتب الگ سے ہم تک موصول نہیں ہوئیں لیکن جو ان میں سے‬
‫محدثین اپنی کتب میں محفوظ کر گئے وہ ہم تک پہنچ گیا۔‬
‫اس کو بالجزم نقل کیا گیا ہو۔ کیونکہ "اإلخبار بالجزم يدل على التصحيح"۔ جیسا کہ بعض علماء و فقہاء نے شیخ‬
‫صدوق کا روایات کو من ال یحضرہ الفقیہ میں بالجزم یعنی بحذف سند نقل کرنا ایک قرینہ لیا ہے کہ وہ روایت‬
‫شیخ صدوق کے نزدیک اتنی قوی تھی کہ اس کے لیئے راوی کا ذکر کرنا بھی ضروری نہیں۔ لیکن یاد رہے کہ‬
‫یہ قطعی قرینہ نہیں ہے مگر بہت سے قرائن میں سے ایک ہے جو ایک روایت کے حق میں ٓا سکتا ہے۔‬
‫متابعات‪ ،‬شواہد اور مؤیدات۔ جیسے اگر کسی روایت کی تائید میں دیگر راویان سے وہی روایت یا اس سے ملتے‬
‫جلتے مفہوم و متن کی روایت ہو تو وہ بھی اس روایت کی تقویت میں ہے اور اس سے ایک اضافی قرینہ اس‬
‫روایت کے حق میں ٓاجاتا ہے۔ کیونکہ یاد رہے کہ ایک جھوٹا راوی بھی کبھی سچ بول سکتا ہے جیسا کہ شیخ‬
‫مازندرانی نے بھی تصریح کی ہے (‪ )10‬جس کے سبب انہوں نے کذوب راوی کی بھی روایت کو متن کے سبب‬
‫قبول کیا ہے۔‬
‫اور بہت سے دیگر قرائن جن کو دیکھ کر روایت کو قبول و رد کیا جائے گا۔ اور ان میں سے کئی قرائن کو شیخ‬
‫حر عاملی نے خاتمہ الوسائل میں ذکر کیا ہے (‪ )11‬جس روایت میں جتنے زیادہ قرائن ہونگے وہ روایت اتنی‬
‫زیادہ قوی ہوگی‪ ،‬اور جس میں جتنے کم ہونگے وہ اتنی ضعیف ہوگی۔ جیسے اگر ایک روایت کی سند صحیح‪ M‬ہے‬
‫تو یہ ایک قرینہ ہے‪ ،‬لیکن اگر باقی سب قرائن سے خالی ہو تو یہ ایک قرینہ اس کی حجیت کے لیئے کافی نہیں‬
‫سمجھا جائے‪ ،‬اور ایسے ہی اگر ایک روایت کی سند ضعیف ہو تو ایک قرینہ مفقود ہے لیکن اگر باقی پانچ چھے‬
‫قرائن اس کو تقویت دیں تو وہ روایت قوی ہوجائے گی۔ یہی منہج قرائن جہاں روایات کی توثیق کرتا ہے وہاں ان‬
‫کی تضعیف بھی کرتا ہے کیونکہ اگر قرائن کسی روایت کے حق میں نہ ہوں تو وہ روایت کی تضعیف کا باعث‬
‫ہے۔‬
‫یہ منہج ہمارے نزدیک کئی سالوں مختلف منہجوں کو پڑھنے کے بعد درست ہے‪ ،‬اور یہی منہج ہمارے اشیاخ و‬
‫اسالف کا تھا جس کو ہم بھی حق جانتے ہیں اور سب سے جامع سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں منہج سندی کی‬
‫طرح محض سند پر سارا انحصار نہیں ہے اور نہ ہی محض متن پر نقد ہے بلکہ من جمیع الجہات ایک مروی‬
‫حدیث یا خبر کو دیکھ کر ہی اور مکمل جانچ کر اس پر حکم لگایا جاتا ہے۔ سید کمال حیدری نے بھی اس سبب‬
‫اپنے دروس میں سندی منہج پر نقد کی ہے کہ یہ علوم ٓال محمد ع کی تضییع کا باعث ہے۔ ایک طرف ساری‬
‫توجہ سند کی طرف ہے تو دوسری طرف سند کی طرف بے توجہی ہے‪ ،‬ہم دونوں کو جمع کرکے چلتے ہیں‬
‫کیونکہ اس میں ہی جامعیت و شمولیت ہے۔ فهذا هو المنهج الذي أدين هللا به وعليه أعتمد وأتوكل وإليه أنيب۔‬
‫‪:‬مٓاخذ‬
‫سسُوا وَ اَل يَ ْغتَب بَّعْضُ ُكم بَعْضً ا َأيُحِبُّ َأحَ ُد ُك ْم َأن )‪(1‬‬ ‫يَا َأيُّ َها الَّذِينَ آ َمنُوا اجْ تَ ِنبُوا َكثِيرً ا ‪ِMz‬مِّنَ الظ َّ ‪ِِّ Mz‬ن ِإنَّ بَعْضَ الظ َّ ‪ِِّ Mz‬ن ِإ ْث ٌم وَ اَل تَجَ َّ‬
‫﴾ي َْأ ُك َل لَحْ َم َأ ِخي ِه َم ْيتًا َف َك ِر ْهتُمُو ُه وَ اتَّقُوا اللَّـ َه ِإنَّ اللَّـ َه تَوَّابٌ رَّ ِحي ٌم ﴿الحجرات‪١٢ :‬‬
‫الكافي‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ 8‬و ‪ 66‬و ج ‪ ،5‬ص ‪ ،422‬عيون أخبار الرضا‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،21‬اإلستبصار‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ 190‬و )‪(2‬‬
‫ج ‪ ،3‬ص ‪ ،158‬تهذيب األحكام‪ M،‬ج ‪ ،7‬س ‪ 275‬وغيرهم‬
‫نهج البالغة‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،232‬الرقم‪ 239 :‬و ج ‪ ،4‬ص ‪ ،22‬الرقم‪ ،98 :‬الكافي‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ 49‬و ج ‪ ،8‬ص ‪(3) ،391‬‬
‫الرقم‪ ،586 :‬معاني األخبار‪ ،‬ص ‪2‬‬
‫رجال الكشي‪ ،‬الرقم‪(4) 401 :‬‬
‫علل الشرائع‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪(5) 395‬‬
‫الكافي‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ 8‬وغيره )‪(6‬‬
‫علل الشرائع‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪(7) 395‬‬
‫من ال يحضره الفقيه‪ ،‬الرقم‪ 3347 ،2010 ،393 :‬وموارد عديدة أخرى (‬
‫الكافي‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،68 – 67‬من ال يحضره الفقيه‪ ،‬الرقم ‪ ،3233‬تهذيب األحكام‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص ‪(9) 303 – 301‬‬
‫‪.‬شرح أصول الكافي‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ :25‬أقول‪ :‬الحديث معتبر وإن كان الراوي كذوبا (‪ ;)4‬ألن الكذوب قد يصدق )‪(10‬‬
‫وسائل الشيعة‪ ،‬ج ‪ ،30‬ص ‪(11) 247 – 243‬‬

You might also like