You are on page 1of 19

‫اسالمیات‬

‫نام‪ :‬سید علی محسن زیدی‬


‫بی ایف اے پینٹنگ (ایم) سمسٹر ‪2‬‬
‫فضیلت و اہمیت‬
‫دعا کا معنی و مفہوم‬

‫لفظ دُعا‪ ،‬مصدر ہے‪ ،‬اس کا مادہ (د۔ ع ۔ و) اور فعل دعا از باب نصر ہے۔ اس کی اصل دعاؤ تھی ‪،‬‬
‫الف زائدہ کے بعد آخر کلمہ میں ہونے کی وجہ سے واؤ کو ہمزہ میں بدل دیا گیا اور دُعاء بن گیا ۔‬
‫لغت میں اس کے معنی بالنا‪ ،‬پکارنا‪ ،‬عبادت کرنا‪ ،‬مدد طلب کرنا اور سوال کرنا وغیرہ کے ہیں ۔‬

‫دعا اور آداب دعا‬

‫قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر لفظ دعا مذکورہ باال معانی میں استعمال ہوا ہے۔‬
‫‪:‬چند آیات درج ذیل ہیں‬

‫َان فَ ْل َی ْ‬
‫ستَ ِج ْی ُبوا لِي َو ْل ُیؤْ مِ نُوا ِبي لَ َعلَّ ُه ْم َ‬ ‫َّاع ِإذَا َدع ِ‬ ‫یب أ ُ ِج ُ‬
‫یب َدع َْوةَ الد ِ‬ ‫سأ َ َلكَ ِعبَادِي َ‬
‫عنِي فَ ِإنِي قَ ِر ٌ‬ ‫ا َو ِإذَا َ‬
‫)ی َْرشُدُون (‪1‬‬

‫اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں توبتا دیا کریں کہ میں نزدیک ہوں‪،‬‬
‫میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتاہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے‪ ،‬پس انہیں چاہئے کہ‬
‫" میری فرمانبرداری اختیارکریں اور مجھ پر ( پختہ یقین رئیں تا کہ وہ را ِہ (مراد ) پاجائیں‬

‫)ا ْدعُوا َربَّكُ ْم تَض َُّرعًا َو ُخ ْفیَةً إِنَّهُ ََل یُحِ ُّ‬
‫ب ا ْل ُم ْعتَ ِدینَ (‪٣‬‬
‫‪،‬و تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو‬
‫“ بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتان‬

‫ع ْن ِعبَا َدتِي َ‬
‫سیَ ْد ُخلُونَ َج َهنَّ َم دَاخِ ِرینَ (‪۳‬‬ ‫) َوقَا َل َربُّكُ ُم ا ْدعُونِي أَ ْ‬
‫ستَ ِج ْب لَكُ ْم إِنَّ الَّ ِذ ْینَ یَ ْ‬
‫ستَ ْكبِ ُرونَ َ‬
‫اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا‪ ،‬بیشک جو‬
‫“ لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے‬

‫َّللا قَلِیالً َّما تَذَك َُّرونَ (‪١‬‬ ‫سو َء َویَجْ عَلُكُ ْم ُخلَفَاء ْاْل َ ْر ِ‬
‫ض َوالهُ َّم َع َّ ِ‬ ‫ط َّر إِذَا َدعَاهُ َویَ ْكش ُ‬
‫ِف ال ُّ‬ ‫ض َ‬
‫یب ا ْل ُم ْ‬
‫َ )أََ َّم ْن یُ ِج ُ‬

‫بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے‬


‫اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں ( پہلے لوگوں کا ) وارث و جانشین بناتا ہے؟ کیا ہللا‬
‫کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم‬
‫“ نصیحت قبول کرتے ہو ۔‬

‫دَُ عا کی اصطالحی تعریف‬

‫دعا کا اصطالحی مفہوم واضح کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقالنی (‪۷۷۳‬۔‪۸۵۴‬ھ) فتح الباری میں‬
‫‪:‬عالمہ طیبی عبد الرحمہ کا قول نقل کرتے ہیں‬

‫ستِكَانَ ِة لَهُ (‪۲‬‬ ‫غایَ ِة التَّذَكُ ِل َواَل فِتْقَ ِار إِلَى َّ ِ‬


‫َّللا َو ْ ِ‬
‫اْل ْ‬ ‫)ه َُو إِ ْظه ُ‬
‫َار َ‬

‫ا ہلل ﷺ کی بارگاہ میں غایت درجہ تواضع ‪ ،‬محتاجی اور عاجزی و انکساری کا اظہارکرنا دعا کہالتا‬
‫"ہے۔‬

‫‪:‬صوفیاء کرام کے نزدیک دعا سے مراد درج ذیل امور ہیں‬


‫تعالی کے سامنے آنے کا نام دعا ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫حیاء کی زبان کے ساتھ ہللا‬
‫دعا گناہوں کو ترک کر دینے کا نام ہے۔‬
‫دعا محبوب سے مالقات کے لئے اشتیاق کی ترجمانی ہے۔‬
‫دعا محبوب حقیقی سے ایک قسم کی باہمی پیغام رسانی ہے۔ جب تک یہ سلسلہ قائم‬
‫رہے‪ ،‬تب تک معاملہ ٹھیک رہتا ہے۔‬

‫دعا کی اہمیت و فضیلت‬

‫خوشی اور غمی کے اثرات قبول کرنا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص‬
‫خوشی کے لمحات میں خدائے عظیم کے حضور ہدیہ تشکر بجا الئے یا نہ الئے لیکن غمی اور پریشانی‬
‫کے عالم میں وہ اپنے پروردگار کو نہیں بھولتا۔ خوشی اور غمی کے اثرات قبول کرنا انسانی فطرت‬
‫میں شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص خوشی کے لمحات میں خدائے عظیم کے حضور ہدیہ‬
‫تشکر بجا الئے یا نہ الئے لیکن تھی اور پریشانی کے عالم میں وہ اپنے پروردگار کو نہیں بھولتا۔ اس‬
‫وقت اس کے نہاں خانہ دل سے فریاد نکلتی ہے‪ ،‬اس کے ہاتھ بے ساختہ دعا کے لئے اٹھ جاتے ہیں اور‬
‫اس کا سر عجز و نیاز کی حالت میں خشوع و خضوع سے سجدے میں جھک جاتا ہے۔اس غائت درجہ‬
‫اضطراری و بے اختیاری کی کیفیت میں اس کے ہونٹ ہلنے لگتے ہیں اور وہ گڑ گڑا کر عاجزی و بے‬
‫چارگی کی حالت میں اپنے پروردگار کو پکارنے لگتا ہے اور اس کے ہونٹوں پر آنے والے کلمات جو‬
‫دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتے ہیں دعا کا روپ دھار لیتے ہیندعا مانگنے کا عمل رقت انگیزی اور‬
‫اثر آفرینی کے اعتبار سے اس قدر کیف و لذت اور سوز و ساز کا حامل ہے اور انسان اپنے آپ کو‬
‫اپنے خالق مالک سے اس درجہ قریب محسوس کرتا ہے کہ بار بار مانگنا اس کو گراں نہیں گزرتا اور‬
‫وہ اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا بلکہ اس کی کیفیت و حالوت دو چند ہو جاتی ہے۔ تجربہ اس امر پر شاہد‬
‫ہے کہ محض سعی پیہم اور جدو جہد پر بھروسہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ کامیابی کے حصول کے لئے‬
‫دعا کی ناگزیریت و اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انسان بھر پور کاوش اور سعی و عمل کے‬
‫باوصف ہر قدم پر نصرت و تائید الہی کا محتاج ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ باوجود اپنی تمام تر عقل و دانش‬
‫اور فہم و فراست کے زیرک سے زیرک انسان بھی اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ہو جاتا‬
‫ہے۔ حضرت علی کرم ہللا وجہہ کا مشہور قول ‪ -‬عرفت ربی بفسخ العزائم ( میں نے اپنے پروردگار کو‬
‫ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ) ‪ -‬اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ دعا ہمارے ارادوں‪ ،‬آرزؤوں اور خواہشوں‬
‫میں قوت و توانائی پیدا کرتی اور راہ عمل میں پیش آنے والی مشکالت اور رنج و آالم کو دور کرنے‬
‫میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اس حال میں رحمت ایزدی اس کے شریک حال ہو جاتی ہے۔ ایک سچے‬
‫مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنگی اور آسانی ہر حال میں بارگاہ صدیت میں دست دعا دراز کرے۔‬
‫دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف مصیبت اور پریشانی کے وقت ہللا کو یاد کرتے اور اس‬
‫کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ مگر جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو دعا کا دامن چھوڑ دیتے‬
‫ہیں ۔ یہ عمل ہللا ﷺ کو نا پسند ہے ۔‬

‫‪:‬قرآن حکیم ایسے لوگوں کی مذمت میں فرماتا ہے‬


‫ع ْنهُ ض َُّرهُ َم َّركَان لَّ ْم یَ ْدعُنَا إِلَى ض َُر‬ ‫سانَ الض ُُّّر َدعَانَا ِل َج ْنبِ ٍة أَ ْو قَا ِعدًا أَ ْو قَائِ ًما ۚ فَلَ َّما َك َ‬
‫ش ْفنَا َ‬ ‫اْل ْن َ‬ ‫ا َوإِذَا َم َّ‬
‫س ِْ‬
‫سهُ َكذَ ِلكَ زُ ِینَ َِ ْل ُمس ِْرفِینَ َما كَانُوا یَ ْع َملُونَ (‪1‬‬ ‫) َّم َّ‬
‫اور جب (ایسے) انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں اپنے پہلو پر لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے‬
‫پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ ( ہمیں بھال کر اس طرح) چل‬
‫دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی ہمیں (کبھی) پکارا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح‬
‫حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے (غلط) اعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں جو وہ کرتے‬
‫“رہے تھے ۔‬

‫‪:‬قرآن حکیم نے ایک اور مقام پر انسان کی اس بری خصلت کو یوں بیان فرمایا‬
‫ي َما كَانَ كان َی ْدعُوا ِإلَ ْی ِه مِ ْن قَبْل‬ ‫سانَ ض ٌُّر َدعَا َر َّبهُ ُمنِی ًبا ِإلیه تم إذا حَولَهُ ِن ْع َمةً ِم ْنهََُ ِ‬
‫س َ‬ ‫اْل ْن َ‬ ‫‪ُ -‬وََ ِإذَا َم َّ‬
‫س ِْ‬

‫اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے‬
‫پکارتا ہے پھر جب (ہللا ) اُسے اپنی جانب سے کوئی نعمت بخش دیتا‬

‫دعا مانگنے کی ترغیب‬

‫د عا اپنے دامن میں اس قدر خوبیاں اور فوائد سمیٹے ہوئے ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی مذہب ایسا ہو‬
‫جس نے دعا کی ترغیب نہ دی ہو۔ دعاء مانگنا دراصل بارگاہ الہیہ میں اپنی عبودیت و مسکنت ‪ ،‬عجز‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫و نیاز ‪ ،‬فقر و احتیاج کا اظہار اور اس امر کا اعالن ہے کہ دعا مانگنے واال اپنے آپ کو ہللا‬
‫تعالی نے قرآن حکیم میں مختلف طریقوں سے دعا کی تلقین‬ ‫ٰ‬ ‫کے فضل و کرم کا محتاج سمجھتا ہے۔ ہللا‬
‫و ترغیب فرمائی ہے اور اسے قبول کرنے کا حتمی وعدہبھی فرمایا ہے۔‬
‫‪:‬اس حوالے سے چند آیات کریمہ درج ذیل ہیں‬

‫َان فَ ْلیَ ْ‬
‫ستَ ِجیبُوا لِي َو ْلیُؤْ مِ نُوا بِي لَعَلَّ ُه ْم‬ ‫َّاع إِذَا َدع ِ‬ ‫سأَلَكَ ِعبَادِي عَنِى فَ ِإنِي قَ ِر ٌ‬
‫یب أ ُ ِج ُ‬
‫یب َدع َْوةَ الد ِ‬ ‫ا َوإِذَا َ‬
‫) َی َْرشُدُون‬

‫ا ور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو ( بتا دیا کریں کہ ) میں نزدیک‬
‫ہوں‪ ،‬میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے‪ ،‬پس انہیں چاہئے‬
‫“ کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تا کہ وہ راہ (مراد) پاجائیں‬
‫َّللا قَ ِر ٌ‬
‫یب ِمنَ ا ْل ُمحْ ِ‬
‫سنِین‬ ‫ط َمعًا ۚ إِنَّ َرحْ َمتَ َّ ِ‬ ‫سدُوا فِي ْاْل َ ْر ِ‬
‫ض بَ ْع َد إِصْالحِ هَا َوا ْدعُوهُ َخ ْوفًا َّو َ‬ ‫َوََ ََل ت ُ ْف ِ‬

‫اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحول حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی‬
‫نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اس سے دعا‬
‫“ کرتے رہا کرو‪ ،‬بیشکللہ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے‬

‫س َی ْد ُخلُونَ َج َهنَّ َم دَاخِ ِرین‬ ‫َوََ قَا َل َر ُّبكُ ُم ا ْدعُونِي أَ ْ‬


‫ستَ ِج ْب لَكُ ْم ِإنَّ الَّ ِذینَ َی ْ‬
‫ستَ ْك ِب ُرونَ ع َْن َِبَا َدتِي َ‬

‫اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا‪ ،‬بیشک جو‬
‫“ لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے ۔‬

‫َّللا ۖ قَلِیالً َّما تَذَك َُّرون‬


‫هللا َّم َع َّ ِ‬ ‫سو َء َویَجْ عَلُكُ ْم ُخلَفَا َء اْل َ ْر ِ‬
‫ض َء ُ‬ ‫ط َّر إِذَا َدعَاهُ َویَ ْكش ُ‬
‫ِف ال ُّ‬ ‫ض َ‬
‫یب ا ْل ُم ْ‬
‫َامن یُ ِج ُ‬

‫بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور‬
‫فرما تا ہے اور تم اور تمہیں زمین میں ( پہلے لوگوں کا وارث و جانشین بناتا ہے۔ کیا ہللا کے ساتھ‬
‫“ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو ں‬

‫مذکورہ باال آیات کریمہ کی تائید میں احادیث مبارکہ میں بھی کثرت سے دعا کی‬
‫اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے اور ہللا دین سے دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے۔‬

‫‪:‬حضرت عبد ہللا لہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا‬

‫سأَلَ‪َ ،‬وأَ ْفض َُال ْل ِعبَا َد ِة انت ُ‬


‫ِظار ا ْلفَ َرج‬ ‫ب أَ ْن یُ ْ‬ ‫ض ِلهِ‪ ،‬فَ ِإنَّ َّ َ‬
‫َّللا ع ََّز َو َج َّل یُحِ ُّ‬ ‫َّللا من فَ ْ‬
‫‪ -‬سََ لُوا َّ‬

‫تعالی نے فرمایا‬
‫ٰ‬ ‫‪:‬حضرت ابوذر روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے ہللا‬
‫ان‬
‫س ِ‬ ‫سأَلُونِي‪ .‬فَأ َ ْ‬
‫ع َ‬
‫طیْتُ كُ ُّل إِ ْن َ‬ ‫صعِیدٍََ احِ دًا فَ َ‬‫سكُ ْم َو ِجنَّكُ ْم قَا ُموا فِي َ‬ ‫يََ ا ِعبَادِي لَ ْو أَنَّ أَ َّولَكُ ْم َوآخِ َركُ ْم َوإِ ْن َ‬
‫سأَلَتَهُ َما نَقَصَ ذَ ِلكَ مِ َّما ِع ْندِي ِإ ََّل َك َما یَ ْنقُصُ ا ْلمِ خیَطُ ِإذَا أ ُ ْدخِ َل ا ْلبَحْ َر (‪1‬‬ ‫) َم ْ‬

‫ا ے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر ”‬
‫مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے‬
‫“ صرف اتنا کم ہوگا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر ( نکالنے سے ) اس میں کمی ہوتی ہے۔‬

‫‪:‬حضرت ابو ہریرہ ﷺ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا‬

‫ب فَ ْلیُ ْكث ِِر ال ُّدعَاءفِي َّ‬


‫الر َخاء‬ ‫شدَائِ ِد َوا ْلك َْر ِ‬
‫َّللا لَهُ ِع ْن َد ال َّ‬ ‫س َّرهُ أَ ْن یَ ْ‬
‫ستَ ِجی َ‬
‫ْب َّ ُ‬ ‫َِ َم ْن َ‬

‫جسے پسند ہو کہ ہللا تعالی مشکالت اور تکالیف کے وقت اس کی دعا قبول کرے‪ ،‬وہ خوش حالی کے‬
‫“ اوقات میں زیادہ سے زیادہ دعا کیا کرے۔‬

‫حاجات کی روائی کا باعث بن کر ایمان و یقین میں اضافہ کرے گی۔ اگر وہ چیز تیری قسمت میں نہیں‬
‫تعالی اس سے تجھے بے نیازی اور حالت فقر میں رضا مندی کی عظیم دولت عطا کرے گا۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہے تو ہللا‬
‫اگر محتاجی اور بیماری ہے تو تجھے اس میں راضی کرے گا اور اگر تو مقروض ہے تو قرض خواہ‬
‫کو سختی سے نرمی اختیار کرنے یا تیری سہولت تک تاخیر کرنے یا معاف کرنے یا کم کر دینے پر‬
‫مائل کر دے گا ۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر وہ قرض دنیا میں نہ دیا تو آخرت میں عظیم ثواب عطا‬
‫تعالی کریم ۔ ہے‪ ،‬بے نیاز اور رحیم ہے اپنے بندہ سائل کو نا امید نہیں کرتا۔ اس‬
‫ٰ‬ ‫فرمائے گا۔ کیونکہ ہللا‬
‫کا فائدہ انسان کو ضرور پہنچتا ہے‪ ،‬دنیا میں ملے‬

‫بارگاه الوہیت میں دعا کی قدر و قیمت‬

‫حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا‪ :‬لیْس ش ْي ٌء أ ْكرم على ہللاِ تعالى مِن‬
‫تعالی کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ کوئی چیز محترم و مکرم نہیں ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫“الدُّعاءِ ‪ )) -‬ہللا‬

‫دعا ہر عبادت کا مغز ہے‬


‫دعا خواہ طلب مغفر شش کے لئے ہو یا کسی حاجت روائی اور ضرورت کوپورا کرنے کے ہو وہ بہر‬
‫صورت عبادت ہے ۔‬
‫حضرت نعمان بن بشیر رضی ہللا عنھما روایتکرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا‬

‫خ ا ْل ِعبَادَة‬
‫ِال ُّدعَا ُء ُم ُ‬

‫“دعا عبادت کا مغز ہے۔‬

‫دعا قضائے حاجات کی چابی ہے‬

‫دعا قضائے حاجات کی چابی‪ ،‬فاقہ کشوں کے لئے سامان راحت ‪ ،‬مجبوروں کےلئے جائے پناہ اور‬
‫حاج ئے پناہ اور حاجت مندوں کے لئے آرام کا سبب ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے‬
‫الدعاء مفتاح الحاجة‪ ،‬و أسنانه لقم الحالل ‪ " ) ۳( -‬دعا حاجت کی کنجی ہے اور اس کے دندانے حالل‬
‫کے لقھے ہیں‬
‫حضرت عبادہ بن صامت رضی ہللا عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم علیم نے فرمایا‪:‬‬
‫تعالی اسے ضرور وہ چیز عطا فرماتا ہے‬ ‫ٰ‬ ‫"زمین پر رہائش پذیر کوئی مسلمان جب دعا کرتا ہے تو ہللا‬
‫یا اس سے اس کی مثل برائی دور کر دیتا ہے۔ جب تک گناہ یا قطع رحم (رشتہ داری ختم کرنے ) کی‬
‫دعا نہ کی ہو ۔ ایک شخص نے عرض کیا (یا رسول ہللا ) اب تو ہم بہت مانگیں گے ۔ آپ ﷺ نے‬
‫تعالی اس سے زیادہ عطا فرمانے واال ہے ۔ (‪ )۱‬امام قشیری علیه الرحمه (‪ ۴۶۵ - ۳۷۶‬ھ )‬ ‫ٰ‬ ‫فرمایا‪ :‬ہللا‬
‫حضرت عبد ہللا علیہ الرحمہ کا قول نقل کرتے ہیں ‪ :‬ایک بار میں حضرت جنید طلبه لرحمہ کے پاس‬
‫تھا کہ ایک عورت نے آکر عرض کیا‪ :‬میرا بیٹا گم ہو گیا ہے۔ آپ دعا فرما ئیں ۔ آپ علیہ الرحمہ نے‬
‫فرمایا‪ :‬جاؤ صبر کرو‪ ،‬وہ چلی گئی اور اگلے دن اپنے مطلب کو دوبارہ بیان کیا۔ حضرت جنید علیه‬
‫الرحمة نے پھر وہی جواب دیا کہ جاؤ صبر کرو۔ عورت چلی گئی مگر پھر واپس آگئی ۔ اس طرح اس‬
‫نے کئی بار کیا اور حضرت جنید علیه الرحمة نے ہر بار یہی کہا کہ صبر کرو ۔ آخر کار اس نے کہا‪:‬‬
‫اب میرے صبر کا پیمانہ چھلک چکا ہے اور مزید صبر کی طاقت نہیں ہے۔ لہذا میرے لیے دعا فرما‬
‫دیں۔ حضرت جنید علیه الرحمة نے فرمایا‪ :‬اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو جاؤ تمہارا بیٹا واپس آچکا ہے۔ وہ‬
‫گئی تو اس کا بیٹا آچکا تھا۔‬

‫سو َء َویَجْ َعلُكُ ْم ُخلَفَاء‬ ‫ط َّر ِإذَا َدعَا ُه َو َی ْكش ُ‬


‫ِف ال ُّ‬ ‫ض َ‬ ‫تعالی فرماتا ہے‪ :‬أَ َّم ْن ُی ِج ُ‬
‫یب ا ْل ُم ْ‬ ‫ٰ‬ ‫َانہوں نے فرمایا کہ هللا‬
‫بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارےاور تکلیف دور‬
‫فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں ( پہلے لوگوں کا ) وارث و جانشینبناتا ہے۔‬

‫دعا بنیادی ضرورتوں کی کفیل ہے‬

‫انسانی معاشرے میں بہت کم لوگ اتنے مضبوط اعصاب کے مالک ہوں گے جو زندگی کی مشکالت‬
‫جھیلنے کے اکیلے ہی متحمل ہو سکیں ۔ بعض اوقات پریشانیاں اس قدر داخلی اور شخصی نوعیت کی‬
‫ہوتی ہیں کہ انسان ان کا ذکر اپنے کسی عزیز ترین دوست اور رشتہ دار سے کرتے ہوئے بھی‬
‫جھجکتا ہے۔ دعا غموں اور پریشانیوں کے اس بوجھ کو کم کرنے کا بہترین اور آسان ذریعہ ہے۔ یہ‬
‫ہماری بنیادی ضرورتوں کی کفیل بن کر ہمیں احساس تنہائی سے نکالتی ہے۔ یہ امر مشاہدہ ہے کہ‬
‫جب کوئی شخص کسی وجہ سے اعصابی تناؤ کا شکار ہو یا کسی روحانی کرب میں مبتال ہو تو ماہر‬
‫نفسی ات اسے ان تکالیف و مشکالت کو کسی اپنے کے سامنے بیان کرنے کا مشورہ دے گا۔ اس کا‬
‫مقصد اس شخص کے دل و دماغ پر موجود بوجھ کو ہلکا کرنا ہوتا ہے۔ دعا میں بھی انسان اپنے مالک‬
‫حقیقی کے سامنے جو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اپنی مشکالت کا ذکر کرتا ہے۔ اس عمل سے اسے‬
‫ذہنی آسودگی نصیب ہوتی ہے اور دل سے بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اس امر‬
‫تعالی کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے ۔‬
‫ٰ‬ ‫کی تلقین فرمائی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی حاجت کے لئے بھی ہللا‬

‫حضرت ابو ہریرہ نےسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم علیہ نے ارشاد فرمایا‬
‫ُسلوا هللا ما بدالكم من حوائجكم حتى شسع النعل فإنه إن لمیُیسره لم یَتَیَ َّ‬
‫سر‬

‫اپنی ضروریات میں سے جو بھی مانگنا چاہتے ہو ہللا سے مانگو یہاں تک کہ اپنے‬

‫حضرت بکر بن عبد ہللا المزنی رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم عامفرمایا کرتے‬
‫تھے‬
‫سلُوا هللاَ ح ََوائِ َجكُ ْم حَتى المِ ْلح ‪-‬‬
‫‪َ :‬‬

‫تعالی سے اپنی حاجات کا سوال کرو خواہ وہ نمک ہی کیوں نہ ہو۔‬


‫ٰ‬ ‫“اہلل‬

‫دعا شرک سے بچاؤ کا ذریعہ ہے‬


‫ا مام بخارى علیه الرحمة "األدب المفرد میں حضرت معقل بن بیمار رضی ہللا عنہما نے بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫” میں حضرت ابو بکر صدیق ‪ ،‬کے ساتھ حضور نبی اکرم لیتی ہے کے پاس گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫اے ابوبکر ! شرک کا حصہ تم لوگوں میں چیونٹی کی چال سے بھی خفیف تر ہوتا ہے۔ اس پر ابو بکر‬
‫نے عرض کیا ‪ :‬کیا ہللا کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے عالوہ اور بھی کسی صورت میں شرک‬
‫ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا‪ :‬قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ شرک کا‬
‫حصہ چیونٹی کی چال سے بھی خفیف تر ہوتا ہے۔ کیا تمہیں وہ دعا نہ بتا دوں کہ اگر وہ اپنا معمول بنا‬
‫لیا کرو تو شرک کا‬
‫قلیل و کثیر سب تم سے دفع ہو جائے‪ ،‬فرمایا‬

‫لما َل أعلم قل اللَّ ُه َّم إِنِي أَعُوذُ بكَ أن أشرك بك و أنا أعلم‪ ،‬و استغفرک‬

‫امام مسلم علیہ الرحمۃ حضرت اویس قرنی بیلے کی دعائے مغفرت کے متعلق حضرت اسیر بن جابر‬
‫ﷺ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں‪'' :‬حضرت عمر بن خطاب ﷺ کے پاس جب اہل یمن میں سے کوئی‬
‫کمک آتی تو وہ ان سے سوال کرتے۔ کیا تم میں کوئی اولیس بن عامر ہے ۔ حتی کہ ایک دن حضرت‬
‫اویس قرنی ہی ان کے پاس آگئے‪ ،‬حضرت عمر نے کہا‪ :‬کیا آپ اولیس بن عامر ہیں؟ انہوں نے کہا‬
‫ہاں! فرمایا۔ کیا آپ قبیلہ مراد سے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ پے نے کہا کیا آپ قرن سے ہیں؟ انہوں‬
‫نے کہا ہاں ! آپ نے کہا کیا آپ کو برص کی بیماری تھی؟ اور ایک درہم کے برابر داغ رہ گیا ہے۔‬
‫اور باقی داغ ختم ہوگئے ہیں انہوں نے کہا ہاں! حضرت عمر نے نے کہا‪ :‬میں نے حضور نبی اکرم ام‬
‫سے یہ سنا ہے کہ اہل یمن کی امداد کے ساتھ تمہارے پاس قبیلہ مراد سے قرن کا ایک شخص آئے گا۔‬
‫جن کا نام اولیس بن عامر ہوگا‪ ،‬ان کو برص کی بیماری تھی اور ایک درہم کی مقدار کے عالوہ باقی‬
‫ٹھیک ہو چکی ہوگی۔ قرن میں ان کی والدہ ہیں جن کے ساتھ وہ نیکی کرتے ہیں اگر وہ کسی چیز پر‬
‫قسم کھا لیں تو ہللا تعالی اس کو ضرور پورا کرے گا۔ اگر تم سے ہو سکے تو تم ان سے مغفرت کی‬
‫دعا کروانا‪ ،‬سو اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے ۔ حضرت اویس قرنی نے حضرت عمر کے‬
‫لیے استغفار کیا ۔‬

‫مذکورہ باال آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح عیاں‬
‫ہے کہ انسان الکھ عبادت و ریاضت کرلے معلوم نہیں کہ وہ شرف قبولیت پا سکے گی یا نہیں‪ ،‬لیکن‬
‫اگر وہ عبادات کے ساتھ ہللا کے حضور گڑ گڑا کر دعا ئیں بھی کرے تو ہللا دین مانگنے والوں‬
‫کومحبوب رکھتا ہے‪ ،‬وہ اس کی بخشش کا سامان پیدا فرما دیتا ہے۔‬
‫آداب‬

‫مقبول ترین اوقات دعه‬

‫تعالی نے بعض اوقات کو مقبولیت کے اعتبار سے بعض پر فضیلت بخشی ۔ اگر ان اوقات کے اندر‬ ‫ٰ‬ ‫اہلل‬
‫ت دعا کی غالب امید ہے۔ چند اوقات درج ذیل ہیں ۔‬
‫دعا مانگی جائے تو قبولی ِ‬

‫ا۔ سحری کا وقت‬


‫دعا کے لئے رات کا وقت بالعموم اور سحری کا وقت بالخصوص شرف قبولیت کا ہے۔ سحری کے‬
‫وقت دعا اور استغفار کرنا ہللا کے نیک بندوں کی صفات میں سے‬
‫قرآن مجید ان بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے‬
‫ِ‬ ‫‪:‬ہے۔‬
‫َاره‬
‫سح ِ‬‫ستَ ْغف ِِرینَ بِ ْاْل َ ْ‬
‫َوا ْل ُم ْ‬
‫“ اور ( یہ لوگ ) رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر ) ہللا سے معافی مانگنے والے ہیں‬

‫۔ عرفہ کا دن‪۲‬‬

‫دعا کی قبولیت کے حوالے سے یوم عرفہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس دن رب کائنات اپنے بندوں کو‬
‫خصوصی رحمت سے نوازتا ہے۔ ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب بواسطہ والد‬
‫اپنے دادا ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی‬
‫‪:‬اکرم لم نے فرمایا‬
‫َخی ُْر ال ُّدعَاءِ ُدعَاء یوم عرفة‬
‫“بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے۔ ”‬

‫۔ رمضان کا مہینہ ‪۳‬‬

‫تعالی نے بعض مہینوں کو بعض پر فضیلت بخشی ہے۔ انہی میں ایک رمضان کا مہینہ ہے۔ جس‬‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫میں رحمتوں اور عطاؤں کی بارش ہوتی ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی‬
‫‪:‬متفق علیہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم منم نے فرمایا‬
‫إذا دخل رمضان فتحت أبواب الجنة وغلقت أبواب جهنم‬
‫ت الشَّیاطین ‪1( -‬‬
‫)وسلسِل ِ‬
‫جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند ”‬
‫“کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔‬
‫ایک روایت میں ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔‬
‫۔ جمعہ کا دن‬

‫جمعہ کے روز قبولیت کی ایک ساعت ایسی آتی ہے جس میں دعا کی جائے تو یقینی طور پر قبول‬
‫ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم میم‬
‫‪:‬نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا‬
‫تعالی سے جس چیز کا بهی سوال کرے گا اس کو پالے گا ۔ (‪(1)" ١‬‬
‫ٰ‬ ‫)هللا‬

‫۔ سجده کی حالت‬

‫تعالی کو اپنے بندوں کی عاجزی بہت پسند ہے۔ سجدہ کمال عجز کا مظہر ہے۔ اس کیفیت میں جب‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫بندہ موال سے مانگتا ہے تو وہ اس کے دامن مراد کو بھر دیتا ہے۔‬
‫‪:‬حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم عالم نے فرمایا‬
‫اج ٌد فَأ َ ْكث ُِروا ال ُّدعَا َء ‪۲( )۲( -‬‬
‫س ِ‬‫ب َما یَكُو ُن ا ْلعَ ْب ُد مِ ْن َربِ ِه َو ه َُو َ‬
‫)أ ْق َر ُ‬

‫بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب سے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے اس لئے تم‬
‫سجدہ میں بکثرت دعا کیا کرو۔‬

‫۔ اذان اور اقامت کے درمیان‬

‫اذان اور اقامت کا درمیانی عرصہ ہللا کو بڑا محبوب ہے۔ اس دوران بندہ جماعت کے انتظار میں بیٹھا‬
‫اپنے موال کو یاد کرتا ہے‪،‬اس کا سارا دھیان عبادت الہی کی طرف مرکوز ہوتا ہے۔ لہذا اس کیفیت میں‬
‫کی گئی دعا کبھی رونہیں ہوتی ‪ ،‬ہللا دینی ضرور قبول فرماتا ہے ۔ حضرت انس بن مالک ﷺ سے‬
‫‪:‬مروی ہے کہ حضور نبی اکرم علیم نے فرمایا‬
‫)الدُّعاء َل یُ َر ُّد بین اْلذان واْلقامة _ (‪۱‬‬
‫“اذان او را قامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا رد نہیں ہوتی ۔”‬

‫۔ فرض نماز کے بعد‬


‫فرض نمازوں کے بعد دعا کی مقبولیت احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔ حضرت‬
‫ابو امامہ روایت کرتے ہیں‪ :‬حضور نبی اکرم میم کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا (یا رسول ہللا !)‬
‫کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ ٹیم نے فرمایا‪ :‬رات کے آخری حصے میں ( کی گئی دعا ) اور‬
‫)فرض نمازوں کے بعد ( کی گئی دعا جلد مقبول ہوتی ہے ) ۔ (‪۱‬‬
‫حضرت مغیرہ بن شعبہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ہم ہر فرض نماز بیان‬
‫‪:‬کے بعد یوں کہا کرتے تھے‬
‫َمنَعْتَ َو ََل یَ ْنفَ ُع ذَا ْل َج ِد مِ نكَ ا ْلجَد )‪(4‬‬

‫ِیر‪ .‬اللا ُھ ام ال مانِع لِما أعْطیْت وال‬


‫َّللا وحْ دہُ ال ش ِریك لهُ‪ ،‬لهُ ا ْل ُم ْلك‪ ،‬ولهُ ا ْلح ْمدُ‪ ،‬وھُو على كُ ِل ش ْيءٍ قد ٌ‬
‫ال إِله إِ اال ا ُ‬
‫تعالی‪ ،‬وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں‪ ،‬اسی کی بادشاہی‬ ‫ٰ‬ ‫ُمعْطِ ي لِما نہیں ہے کوئی معبود مگر ہللا‬
‫ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے ہللا ! جسے تو دے‬
‫اسے کوئی روکنے واال نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے واال نہیں اور کسی دولت مند کو‬
‫“تیرے مقابلے میں دولت نفع نہیں دے گی ۔‬

‫مقامات‬

‫فرض نمازوں کے بعد کی قرآنی دعائیں‬

‫تعالی کی بارگاہ میں التجاء کرتے وقت ان قرآنی دعاؤں کو شامل کریں جو انبیاء‬
‫ٰ‬ ‫ہمیں چاہیے کہ ہللا‬
‫تعالی نے خود قرآن حکیم میں فرمایا ہے۔ ان میں‬
‫ٰ‬ ‫کرام علیہم اسالم کی سنت ہیں اور جن کا تذکرہ ہللا‬
‫‪:‬سے چند منتخب دعائیں درج ذیل ہیں‬

‫دنیا و آخرت کی بهالئی کے لئے‬


‫ربانا آتِنا فِي ال ُّد ْنیا حسنةً وفِي اآلخِ رةِ حسنةً وقِنا عذاب النا ِ‬
‫ارہ (‪” )1‬اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا میں‬
‫(بھی) بھالئی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھالئی سے نواز) اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے‬
‫* “ محفوظ رکھ‬

‫استقامت اور ثابت قدمی کے لئے‬

‫مِن لادُنك رحْ مةً ِإناك أ ْنت ا ْلوھاابُ (‪( ’ )۳‬اور عرض کرتے ہیں‪):‬‬
‫ا ربانا ال ت ُ ِز ْغ ُق ُلوبنا ب ْعد ِإ ْذ ھدیْتنا وھبْ لنا ْ‬
‫اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کبھی پیدا نہ کر اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت سے سرفراز‬
‫“فرمایا ہے اور ہمیں خاص اپنی طرف سے رحمت عطا فرما‪ ،‬بیشک تو ہی بہت عطا فرمانے واال ہے‬

‫نقصان سے نجات کے لئے‬

‫َرََ بَّنَا َ‬
‫ظلَ ْمنَا اَ ْنفُ َ‬
‫سنَا َوا ِْن لَّ ْم تَ ْغف ُِرلَنَا َوتَ ْر َح ْمنَا لَنَكُونَنَّ مِ ن‬
‫الخیرین‬

‫اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) ”‬
‫فرمایا تو ہم یقینا ً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہ‬
‫“ جائیں گے‬

‫نماز میں استقامت کے لئے‬

‫ب اجْ عَ ْلنِي ُمقِی َم الصَّلو ِة َومِ ْن ذُ ِریَّتِي َربَّنَا َوتَقَبَّ ْل ُدعَاءِ (‪٣‬‬
‫)رََ ِ‬

‫اے میرے رب! مجھے اور میری اوالد کو نماز قائم رکھنے واال بنا دے‪”،‬‬
‫ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرمالے‬
‫کن لوگوں کی دعا جلد قبول ہوتی ہے؟‬
‫احادیث مبارکہ میں ایسے لوگوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کی دعا جلد قبول ہوتی ہے وہ مستجاب‬
‫الدعوات درج ذیل ہیں‬

‫مظلوم‪ ،‬مسافر اور والد کی دعا‬


‫‪ :‬حضرت ابو ہریرہ ﷺ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم عالم نے فرمایا‬
‫ساف ِِر‪َ ،‬و َدع َْوةُ ا ْل َوا ِل ِد َ‬
‫علَى َولَدِه‬ ‫ستَجَابَاتٌ ََل ش ٍَك فِی ِهنَّ ‪َ ،‬دع َْوةُ ال َم ْظلُ ِ‬
‫وم‪َ ،‬و َدع َْوةُ ا ْل ُم َ‬ ‫ت ُم ْ‬ ‫ِثَ َال ُ‬
‫ث َدع َْوا ٍ‬

‫و تین ( قسم کے لوگوں کی) دعائیں بال شک و شبہ مقبول ہیں۔ مظلوم کی دعا‪ ،‬مسافر کی دعا اور والد‬
‫کی اپنے بیٹے کے لئے کی گئی بددعا‬

‫غائب کی دعا‬

‫حضرت ابو درداء ﷺ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم میں ہم نے فرمایا‪:‬‬

‫ب ِإ ََّل قَا َل ا ْل َملَكُ َولَك‬ ‫سل ٍِم یَ ْدعُو ََّل خِ ْی ِه ِب َ‬


‫ظه ِْر ا ْلغَ ْی ِ‬ ‫َما مِ ْن َ‬
‫ع ْب ٍد ُم ْ‬

‫جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لئے اس کی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو مقرر ”‬
‫“کردہ فرشتہ کہتا ہے تجھے بھی ایسے ہی نصیب ہو۔‬
‫قرآنی سورتیں‬

‫روز مره کی چند مسنون دعائیں‬

‫روز مرہ کی دعائیں جو مختلف مواقع پر حضور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام نے ارشاد فرمائیں اور‬
‫جن کا صبح و شر ن کا صبح و شام مختلف اوقات میں مانگنا سنت ہے۔ ان میں سے چند‬
‫منتخب دعائیں درج ذیل ہیں‬

‫مسجد میں داخل ہونے کی دعا‬

‫حضرت ابوحمید ﷺ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا‪ :‬جب تم میں سے کوئی شخص‬
‫‪:‬مسجد میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھے‬
‫“اللَّ ُه َّم ا ْفتَ ْح لِي أَب َْو َ‬
‫اب َرحْ َمتِكَ (‪” ) ۲‬اے ہللا! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‬
‫مسجد سے نکلنے کی دعا‬

‫ک ۔ (‪۱‬‬ ‫سأَلُكَ مِ ْن فَ ْ‬
‫ض ِل َ‬ ‫)اللَّ ُه َّم! ِإنِي أَ ْ‬

‫“اے ہللا ! ‪ ” :‬میں تیرے فضل سے سوال کرتا ہوں ۔”‬

‫گهر میں داخل ہونے کی دعا‬

‫حضرت ابو مالک اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ہم نے‬
‫‪:‬فرمایا‪ :‬جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہونے لگے تو کہے‬
‫َّللا َربَّنَا تَ َو َّك ْلنَا‪ ،‬ث ُ َّم‬
‫علَى َّ ُ‬
‫هللا َخ َرجْ نَا‪َ ،‬و َ‬
‫سم ِ‬ ‫َّللا َو لَجْ نَا‪َ ،‬و ِب ِ‬
‫ج ِبس ِْم َّ ِ‬ ‫سأَلُكَ َخی َْر ال َم ْول ِ‬
‫ِج َو َخی َْر ا ْل َم ْخ َر ِ‬ ‫اللَّ ُه َّم ِإنِي أَ ْ‬
‫علَى أَ ْهلِه‬
‫س ِل ُم َ‬ ‫ِیُ َ‬
‫اے ہللا ! میں تجھ سے (گھر میں داخل ہونے کی بھالئی مانگتا ہوں اور (گھر سے باہر نکلنے کی‬
‫بھالئی۔ ہللا کے نام کے ساتھ ہم داخل ہوئے اور ہللا کے نام کے ساتھ ہم نکلے اور اپنے رب پر ہم نے‬
‫بھروسہ کیا پھر اپنے گھر والوں کو سالم کرے ۔‬

‫قبروں کی زیارت کی دعا‬

‫حضرت ابو ہریرہ ﷺ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم نم قبرستان تشریف لے گئے اور اہل قبور کو ان‬
‫‪:‬کلمات سے سالم فرمایا‬

‫َار قَ ْو ٍم ُمؤْ مِ نِینَ َو ِإنَّا ِإن شَا َء َّ ُ‬


‫َّللا تَعَالَى ِبكُم‬ ‫علَ ْیكُ ْم د َ‬
‫س َال ُم َ‬
‫ُال َّ‬
‫)الحِ قُون ۔ (‪1‬‬

‫اے مومن اہل قبور ! تم پر سالمتی ہو اور بے شک ہم اگر ہللا نے چاہا تو تم سے”‬
‫“ملنے والے ہیں۔‬
‫مریض کی عیادت کی دعا‬

‫حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم منیم نے فرمایا‪ :‬جو مسلمان‬
‫بندہ کسی ایسے بیمار کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت نہ آچکا ہو تو وہ سات‬
‫‪:‬باریوں کہے‬
‫یم أَن َی ْ‬
‫ش ِف َیكَ ِإ ََّل عُوفِي ‪۲‬‬ ‫ب ال َع ْر ِش ا ْلعَظِ ِ‬ ‫سأ َ ُل َ‬
‫هللا العظی َم َر َّ‬ ‫)أ ْ‬

‫میں ہللا بزرگ و برتر اور عرش عظیم کے رب سے سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے ”‬
‫شفاء عطا فرمائے ۔‬

‫حاصل کالم‬

‫ا س ساری بحث کا خالصہ یہ ہے کہ دعا عاجزی وانکساری کی حالت میں کیفیت قلب کے اظہار کا‬
‫نہایت آسان اور ایسا محبوب ترین عمل ہے جو انبیاء کرام علیہم السالم کے بھی شامل حال رہا ۔ اور‬
‫ہمارے آقا و موال مسلم کا پسندیدہ معمول بھی یہی تھا دعا کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے‬
‫زبان اقدس سے‬
‫ِ‬ ‫بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہللا رب العزت نے قرآن حکیم میں انبیاء علیھم السالم کی‬
‫دعائیہ کلمات’ربانا“ ایک سو پانچ (‪ )۱۰۵‬مرتبہ اور رب انہتر (‪ )۶۹‬مرتبہ ادا کروائے۔ عالوہ از میں‬
‫لفظ اللھم کا پانچ (‪ ) ۵‬مرتبہ ذکر آیا ہے۔ کتب حدیث میں حضور علیہ الصلوة والسالم سے منسوب بے‬
‫شمار مسنون دعاؤں کا ذکر ملتا ہے۔‬

‫_______________________________________________________‬

You might also like