You are on page 1of 8

‫نام‪ :‬رمشا شہزادی‬

‫رولنمر‪۳۷:‬‬

‫شعبہ‪ :‬اردو‬

‫میقات‪ :‬ہشتم‬

‫عنوان‪ :‬پریم چند کے افسانے حج اکبری کا تجزیہ‬

‫معلم‪ :‬ڈاکٹر نصرہللا‬

‫جی سی ویمن یونیورسٹی ‪،‬سیالکوٹ‬


‫فہرست عنوانات‬

‫پریم چند‬
‫تعارف'‬ ‫‪‬‬
‫افسانہ' نگاری‬ ‫‪‬‬
‫افسانوی مجموعے‬ ‫‪‬‬
‫حج اکبری‬
‫حج اکبری کا فکری' جائزہ‬ ‫‪‬‬
‫حج اکبری کا فنی جائزہ‬ ‫‪‬‬
‫پالٹ‬ ‫‪‬‬
‫کردار' نگاری‬ ‫‪‬‬
‫حوالہ جات‬ ‫‪‬‬
‫کتابیات‬ ‫‪‬‬
‫پریم چند‬

‫تعارف‪-:‬‬

‫پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ پریم چند پہلے قلمی نام کے ط''ور پ''ر ن''واب رائےاس''تعمال ک''رتے‬
‫تھے لیکن افسانوی' مجموعے" سوز وطن" کے ضبط ہ''ونے کے بع''د س''ے اپ''نے دوس''ت "زم‪33‬انہ " کے‬
‫اڈیٹر دیا نرائن نگم کے مشورہ پر پریم چند کےنام سے لکھنا ش''روع' کی''ا ۔پ''ریم چند ‪ 31‬ج‪33‬والئی ‪1880‬ء‬
‫میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ پریم چند کے والد کا نام منشی عج''ائب الل تھ''ا ج''و ڈاکخ''انہ میں کل''رک تھے۔‬
‫پریم چند نے بی اے کاامتحان الہ آباد یونیورسٹی' سے پاس کیا تھا۔ پریم چند کا انتق''ال ‪1936‬ء ک''و بن''ارس‬
‫میں ہوا تھا۔‬

‫پریم چند کی افسانہ نگاری‪-:‬‬

‫پریم چند سے پہلے ہماری زبان میں چن''د افس''انوں کے ت''رجمے اور چن''د طب''ع زاد افس''انے موج''ود' تھے‬
‫لیکن فن کی کسوٹی' پر پر کھا جائے تو انہیں افسانہ کہنا ہی مشکل ہے۔ پ''ریم چن''د ہم''ارے پہلے ادیب ہیں‬
‫جو سنجیدگی کے ساتھ اس صنف کی طرف' متوجہ ہوئے۔ دیہات کی تصویر' کشی پریم چند کی سب س''ے‬
‫اہم خصوصیت ہے۔ ان سے پہلے ہمارے ادب میں گاؤس کا ذکر ناپی'د تھ'ا اور ص'رف ش'ہری زن'دگی' ہی‬
‫پیش کی جاتی تھی۔ وہ گاؤس میں پلے بڑھے تھے۔ ہندوستانی گاؤں ان کے رگ رگ میں بس گیا تھا۔‬

‫"اردو ادب میں پریم چند سے زیادہ ہندوستانی اور ہندوستانی‬

‫ناول نگار نظر نہیں آتا ۔انہوں نے گاؤں کو اپنا مقصد اپنا فن‬

‫اور اپنی زندگی بنا لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پریم چند گاؤں کے اتھاہ ویران‬

‫اور ہزاروں سال سے ٹھہرے سمندر سے موج تہ نشیں کی طرح‬

‫بے اختیار ابھرتے ہیں۔"(‪)۱‬‬

‫پریم چند کے افسانوی مجموعے ‪-:‬‬

‫"سوز وطن" ‪1908‬ء میں شائع ہوا۔ جس میں پانچ افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫پریم پچیسی حصہ اول ‪ 1914‬عیسوی میں شائع ہوا۔ جس میں بارہ افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫پریم پچیسی حصہ دوم ‪ 1918‬میں شائع ہوا جس میں ت''یرہ افس''انے ہیں۔ ‪ .‬پ‪33‬ریم بتیس‪33‬ی حص‪33‬ہ اول‬ ‫‪‬‬
‫‪ 1920‬شائع ہوا جس میں سولہ افسانے ہیں۔‬
‫پریم بتیسی حصہ دوم ‪ 1920‬عیسوی میں شائع ہوا جس میں سولہ افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫خاک پروانہ ‪ 1928‬شائع ہوا جس میں سولہ افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫خواب و خیال ‪ 1928‬میں شائع ہوا جس میں ‪ 14‬افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫‪.‬فردوس خیال ‪ 1929‬میں شائع ہوا جس میں بارہ افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫پریم چالیسی حصہ اوالودوم ‪ 1930‬عیسوی میں شائع ہوئے‪ ،‬جس میں میں افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫آخری تحفہ ‪ 1934‬میں شائع ہوا جس میں تیرہ افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫زاد راہ ‪ 1936‬میں شائع ہوا جس میں پند رو فسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫دودھ کی قیمت جس میں نو افسانے ہیں۔ ‪ 1937‬میں شائع ہوا۔‬ ‫‪‬‬
‫واردات ‪ 1938‬میں شائع ہوا جس میں تیر و افسانے ہیں۔‬ ‫‪‬‬

‫اکبری حج افسانہ‬

‫منشی پریم چند نے افسانے “حج اکبر” میں ایک ایسے گھرانے کی کہانی کو پیش کیا ہے جن کی آم''دنی‬
‫کم تھی اور خرچے زیادہ۔ اپنے بچے کے لیے دایہ (آیا) رکھنا گ'وارا نہیں کرس'کتے تھے لیکن ای'ک ت'و‬
‫بچے کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر' والوں سے کم تر بن ک''ر رہ''نے کی ذلت اس خ''رچ ک''و‬
‫برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی تھ‬

‫اکبری حج کا فکری جائزہ‬

‫اس افسانے کے پہلے حصے میں منشی صابر' صاحب کی کم آمدنی اور زیادہ خرچ ک''ا ذک''ر کی''ا گی''ا ہے‬
‫جس کے باوجود' بھی وہ اپنے بچے کے ل''یے دایہ رکھ''نے پ''ر مجب''ور تھے کہ وہ دوس''رے لوگ''وں س''ے‬
‫پیچھے نہ ہٹ''نے والے تھے۔ دامیہ اور بچے ک''و ای''ک دوس''رے س''ے محبت بھی بہت تھی مگ''ر منش''ی‬
‫صاحب کی بیگم کا کردار بہت عجیب اور مختلف قسم کا کھایا گیا ہے۔‬
‫دوسرے حصے میں دایہ کا میلے کو دیکھا اور اس منظر کے اثر میں گم ہو جان انس''ان کے دلی س''کون‬
‫کی توضیح کرتا ہے۔ اور اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ امیر اپنے سے غریب لوگوں ک''و کچھ نہیں‬
‫سمجھتا اور بے جا ان پر غصہ دکھاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے‪:‬‬

‫"شاکرہ بھری بیٹھی تھی۔ دایہ کو دیکھتے ہی تیور بدل کر بولی کیا بازار میں کھ‪33‬و گ‪33‬ئی تھیں؟ دایہ نے‬
‫خطاوارانہ انداز سے سر جھکا لیا اور بولی بیوی ای‪33‬ک ج‪33‬ان پہچ‪33‬ان کی مام‪33‬ا س‪33‬ے مالق‪33‬ات ہ‪33‬و گ‪33‬ئی اور‬
‫باتیں کرنے لگی۔ شاکر و جواب سے اور بھی ب‪33‬رہم ہ‪33‬و گ‪33‬ئی یہ‪33‬اں دف‪33‬تر ج‪33‬انے ک‪33‬و دی‪33‬ر ہ‪33‬و رہی ہے اور‬
‫تمہیں سیر سپاٹے کی سوجھی ہے"(‪)۲‬‬

‫تیسرے حصے میں دایہ اور نصیر' کی محبت کو واضح طور پر دکھایا گیا ہے نصیر پ''ر دایہ ک''ا اث''ر تن''ا‬
‫گہرا تھا کہ ہواسے بھول نہ سکا بلکہ ہر وقت دایہ کو آوازیں دیتارہتا۔‬

‫"وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا ور انا انکار کر رونے لگا کبھی دروازے پر جاتا اور انا اناپکار ک‪33‬ر‬
‫ہا تھوں سے اشارہ کرتا۔ انا کی خالی کو ٹھڑی میں جا کر گھنٹوں بیٹھارہتا اسے امید ہوتی کہ اتنا یہ‪33‬اں‬
‫آتی ہو گی۔"(‪)۳‬‬

‫چوتھے حصے میں نصیر کا بیمار ہو جانا اور ڈاکٹروں کا عالج بے سود جان دایہ اور نصیر' کی والہانہ‬
‫محبت کو ظ'اہر کرت'ا ہے۔ بچہ دایہ کی ی'اد میں بیم'ار پڑجات'ا ہے۔اگلے حص'ے میں دابیہ کے ب'ارے میں‬
‫بتایا گیا ہے کہ دایہ کو بھی نصیر' کے ساتھ بے پناہ محبت ہے اور اسے بھی اس کی یادور' ورہ کر ت''اتی‬
‫ہے۔ چھٹے اور آخری حصے میں دایہ کا حج کے لیے سفر پ'ر روانہ' ہ'ونے ک'ا منظ'ر بتای'ا گی'ا ہے جس‬
‫کے بعد منشی صاحب دایہ کو ڈھونڈ نے اسٹیشن پر نکل آتے ہیں اور دایہ کو نص'یر کی ح'الت زار س''ے‬
‫آگاہ کرتے ہیں داید حج کا سفر ترک کر کے پلک چکے بغیر نصیر' کے پاس پہنچ جاتی ہے اور دایہ کی‬
‫آواز سن کر بچہ اُٹھ جاتا ہے۔اس افسانے میں ہمیں اس بات کا سبق ملتا ہے کہ خ''ونی رش''توں کے عالوہ‬
‫بھی کچھ ایسے رشتے بن جاتے ہیں جن کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری' ہو جاتی ہے۔‬

‫حج اکبری کا فنی جائزہ‬

‫پریم چند "حج اکبر" میں فکر کی موزونیت‪ ،‬اسلوب کی نفاست اور تشبیہات کی فنکاری کی ہم آہنگی ک''ر‬
‫کے زیارت کے حوالے سے اس جوہر کو بیان کرتے ہیں کہ اگر انس''ان‪ ،‬زن''دگی کے تغ''یرات میں الجھ''ا‬
‫ہونے کے باوجود‪ '،‬اپنی روحانی' ایثار و فداکاری کی صفت کو بیدار کرتے ہیں‪ ،‬پچھتاؤے‪ ،‬بے می''نی اور‬
‫تلخی کے تیز و تند باد کو روک سکے اور انسان متانت کی شمع بنتے ہوئے انسانیت کو منور کر سکے۔‬
‫پریم چند کو ایک مہتوا کا نکشی مصنف کہنے کے نسبت ہم اسے ایک باکم''ال پس''ند مص''نف تص''ور' ک''ر‬
‫سکتے ہیں جو اس بات سے واقف ہے کہ مصنف' ک''و ادبی ص''ناع و ب''دائع کے ذریعہ انس''انی ج''ذبات کی‬
‫تال اور انسانیت کی لہ'روں ک'و ج'وڑ ک'ر اعلی جمالی'اتی معی'ار ت'ک پہنچ'نے کے مقص'د ک'و پ'ورا کرن'ا‬
‫چاہیے۔یہ کہنا غلط ہو گا کہ "حج اکبر " صرف حج کے متعلق ای''ک م''ذہبی کہ''انی ہے۔ اس کے بج''ائے‪،‬‬
‫ہمیں اسے انسانی رشتوں کی نزاکت اور نجات کے امکانات کے حوالے سے ایک افسانہ سمجھنا چاہیے۔‬

‫پالٹ‪-:‬‬

‫اگر چہ اس افسانے کا پالٹ بہت سادہ ہے‪ ،‬یہاں پریم چند ای''ک احس''اس رفت''ار' پی''دا ک''رتے ہیں ج''و چ''ار‬
‫کرداروں کے درمیان ہونے والی الجھن اور کشمکش کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس افسانے میں کوئی‬
‫بی''انیہ خال اور م''وڑ نہیں ہے اور ق''ارئین ک''و تم''ام ک''رداروں کی بہت اور ارادے ک''ا ان''دازہ لگ''انے کی‬
‫ضرورت نہیں ہوتی ہے۔‬

‫کردار نگاری‪-:‬‬

‫کردار نگاری کے بارے میں مصنف' کی مہارت قارئین پر ایک گہرا جمالی'اتی' ت'اثر چھ'وڑتی ہے۔ ص‪33‬ابر‬
‫حسین ایک خلوت پسند شوہر ہے جو اپنی ذات اور شخصیت کے بارے میں فکر مند ہ''ونے کے ب''اوجود‬
‫اپنے خان'دان کے ل''ئے قرب'انی دے س'کتا ہے۔ بی''وی ش‪33‬اکرہ اپ'نی ہی حم''اقتی‪ ،‬جارح''انہ اور قاب''ل مالمت‬
‫شخصیت کا شکار ہو چکی ہے۔ آج کے حسابی بچ'وں کے مق'ابلے میں نص‪33‬یر معاش'رے میں ای'ک نای'اب‬
‫جو ہر ثابت ہوتا ہے جو اپنی معصوم کردار کے باوجود انسانی رشتوں کی نزاکت کو سمجھتا ہے۔‬

‫عباسی كا کردار ‪-:‬‬

‫عباسی ایک عاجز‪ ،‬مہربان اور طرف' دل سے مال مال خاتون ہیں جو اپنی بد قسمتی کے‬
‫باوجود' شکرگزاری' اور لگن کے جذبہ سے بھری ہ''وئی ہیں۔عباس''ی ک'ا ک'ردار حقیقت نگ'اری' کی مکم''ل‬
‫تصویر' ہے‪ ،‬وہ غصہ ور بھی ہے‪ ،‬بات نہیںبرداشت ہوئی ‪ ،‬تھوڑی تف''ریح ب''از بھی معل''وم ہ''وتی ہے‪ ،‬اس‬
‫لئے کہ باہر جاتی ہے تو گھنٹوں لگا دیتی ہے‪ ،‬باتیں سنے لگ''تی ہے۔لیکن اس میں ممت''ا اپ''نے ع''روج پ''ر‬
‫ملتی ہے‪ ،‬نرم دل بھی ہے۔ نصیر کے حاالت سن ک''ر پھ''ر اپ''نے وق''ار' اور طنطنہ ک''ا خی''ال نہیں ک''رتی ‪،‬‬
‫روانہ ہو جاتی ہے‪ ،‬اور اس کی وجہ سے نصیر' کو حیات تو مل جاتی ہے اس کی ماں شاکرہ تنک م'زاج‬
‫‪ ،‬کام میں نقص نک''النے والی اور جھگڑال''و ع''ورت ہے مگ''ر بہ''ر ح''ال نص''یب کی م''ار ہے‪ ،‬نص''یر' ک''و‬
‫تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی ‪ ،‬میاں سے رو بہ رولڑائی' لڑنے میں کوئی حرج نہیں بجھتی۔‬

‫افس‪33‬انے ک‪33‬ا مرک‪33‬زی پیغ‪33‬ام یہ ہے کہ ص''رف' اع''تراف کی ہمت و ش''جاعت س''ے ہی ہم روح''انی نج''ات پ''ا‬
‫سکتے ہیں۔ بیوی اپنے غ''رور کی وجہ س''ے مع''افی م''انگنے ک''و تی''ار نہیں۔ اس کے ب''ر عکس‪ ،‬عباس''ی‪،‬‬
‫بیوی کے الزامات کے باوجود‪ '،‬نصیر کی محبت اور لگاؤ میں کمی نہیں کرتی۔ اگر چہ عباسی کے پ''اس‬
‫صابر حسین کے خاندان کو اپنی زن'دگی میں محض ای'ک راہگ'یر س'مجھنے ک'ا ج'واز ہے‪ ،‬لیکن عباس'ی‬
‫کے پاس اس خاندان کی طرف احساس شکر گزاری کے سوائے کوئی' دوسرے احساس نہیں ہیں۔ عباس''ی‬
‫کا خیال ہے کہ ایثار و فداکاری کا ہر موقع اسے دنیاوی' فک''ر س''ے آزاد ک''ر کے اس''ے آس''مانی عش''ق ک''ا‬
‫راستہ دکھاتا ہے۔‬

‫افسانے میں ادا کیے جانے والے کہی اور ان کہی باتوں کو ان دو جملوں میں پوری' طرح سے سمیٹ دیا‬
‫گیا ہے۔‬

‫عباسی بولی‪" :‬کیوں بیٹا! مجھے تو نے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا ؟"‬

‫صابر حسین نے مس‪33‬کرا ک‪33‬ر کہ‪33‬ا‪" :‬تمہیں اس س‪33‬ے کہیں زی‪33‬ادہ ث‪33‬واب ہ‪33‬و گی‪33‬ا۔ اس حج ک‪33‬ا ن‪33‬ام حج اک‪33‬بر‬
‫ہے۔"(‪)۴‬‬

‫حج صرف اپنی اصالح کا سفر ہرگز نہیں‪ ،‬بلکہ ہم عبادات کے ذریعہ ہللا پاک کے سامنے اپ''نے اط''اعت‬
‫کا اعالن کرتے ہیں۔ حج کا اخری پیغام یہ ہے کہ نجات ممکن ہے اگر ہم نبی پاک کے نقش قدم پر چلیں۔‬
‫عباسی نے اپنا حج مکمل نہ کرنے کے باوجود حض''ور کے نقش ق''دم پ''ر چل''نے ک''ا انتخ''اب کی''ا۔ عباس''ی‬
‫صرف ایک عام عورت یا ایک افسانوی کردار' ہرگز نہیں‪ ،‬بلکہ وہ ایک "ہیرو" ہے۔‬

‫کردار کے اعتبار سے شاکرہ ایک معمولی عورت ہے جو اپ''نے بچے نص''یر کی دای''ا س''ے اُلجھی رہ''تی‬
‫ہے‪ ،‬دایا ( جس کا نام عباسی تھا) بھی کچھ گرم مزاج معلوم ہوتی' ہے ایک روز شاکرہ کی تیز زبانی اس‬
‫سے برداشت نہیں ہوتی اور وہ گھر چھوڑ' کر چلی جاتی ہے۔شاکرہ دائی سے ان الف'اظ میں گفتگ'و ک'رتی‬
‫ہے‪ :‬دائی‪ :‬بیوی ایک جان پہچان کی ماما سے مالقات ہوگئی اور باتیں کرنے لگی۔ شاکرہ ج''واب س''ے‬
‫اور بھی برہم ہوئی‪"'.‬یہاں دفتر جانے کو دیر ہو رہی ہے تمہیں سیرسپا ٹے کی س‪33‬وجھی ہے۔"مگ''ر دایہ‬
‫نے اس وقت دینے میں خیریت سمجھی' بچہ ک''و گ''ود میں لی''نے چلی ‪ ،‬پ''ر ش''اکرہ نے بھ''ڑک ک''ر کہ''ا۔ "‬
‫رہنے دو۔ تمھارے بغیر بے حال نہیں ہوا جاتا۔“(‪)۵‬‬
‫حوالہ جات‬

‫پریم چند کا فنی فکری مطالعہ‪ :‬سید محمد عصیم‪،‬ترکمان گیٹ دہلی‪،‬ص ‪۱۵‬‬ ‫‪.1‬‬
‫پریم چند‪ ،‬پریم چند کے سو افسانے‪ :‬چودھری اکیڈمی‪،‬الہور‪ :2016 ٫‬حج اکبر‪،‬ص ‪۲۳۹‬‬ ‫‪.2‬‬
‫پریم چند کے سو افسانے‪ :‬چودھری اکیڈمی‪،‬الہور‪ :۲۰۱۶،‬حج اکبر‪،‬ص‪۲۴۱:‬‬ ‫‪.3‬‬
‫پریم چند کے سو افسانے‪ :‬چودھری اکیڈمی‪،‬الہور‪ :۲۰۱۶،‬حج اکبر‪،‬ص‪۲۴۲:‬‬ ‫‪.4‬‬
‫پریم چند کے سو افسانے‪ :‬چودھری اکیڈمی الہور‪ :۲۰۱۶،‬حج اکبر‪،‬ص‪۲۳۹ :‬‬ ‫‪.5‬‬
‫‪https://www.humsub.com.pk/485067/dennis-lai-hang-hui‬‬ ‫‪.6‬‬

‫کتابیات‬

‫پریم چند کا فنی فکری مطالعہ‪ ،‬سید محمد عصیم‪،‬ترکمان گیٹ دہلی‬ ‫‪.1‬‬
‫پریم چند‪ ،‬پریم چند کے سو افسانے‪ ،‬چودھری اکیڈمی‪،‬الہور‪۲۰۱۶،‬‬ ‫‪.2‬‬
‫پریم چند کے افسانوں میں نس‪33‬وانی ک‪33‬رداروں ک‪33‬ا تنقی‪33‬دی ج‪33‬ائزہ‪،‬ڈاک''ٹر ش''ہزاد احم''د‬ ‫‪.3‬‬
‫خان‪،‬رجحان پبلیکیشنز‪،‬جاوید نظر‪،‬کریلی‪،‬الہ آباد۔‬

You might also like