Professional Documents
Culture Documents
Wa0003.
Wa0003.
رولنمر۳۷:
شعبہ :اردو
میقات :ہشتم
پریم چند
تعارف'
افسانہ' نگاری
افسانوی مجموعے
حج اکبری
حج اکبری کا فکری' جائزہ
حج اکبری کا فنی جائزہ
پالٹ
کردار' نگاری
حوالہ جات
کتابیات
پریم چند
تعارف-:
پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ پریم چند پہلے قلمی نام کے ط''ور پ''ر ن''واب رائےاس''تعمال ک''رتے
تھے لیکن افسانوی' مجموعے" سوز وطن" کے ضبط ہ''ونے کے بع''د س''ے اپ''نے دوس''ت "زم33انہ " کے
اڈیٹر دیا نرائن نگم کے مشورہ پر پریم چند کےنام سے لکھنا ش''روع' کی''ا ۔پ''ریم چند 31ج33والئی 1880ء
میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ پریم چند کے والد کا نام منشی عج''ائب الل تھ''ا ج''و ڈاکخ''انہ میں کل''رک تھے۔
پریم چند نے بی اے کاامتحان الہ آباد یونیورسٹی' سے پاس کیا تھا۔ پریم چند کا انتق''ال 1936ء ک''و بن''ارس
میں ہوا تھا۔
پریم چند سے پہلے ہماری زبان میں چن''د افس''انوں کے ت''رجمے اور چن''د طب''ع زاد افس''انے موج''ود' تھے
لیکن فن کی کسوٹی' پر پر کھا جائے تو انہیں افسانہ کہنا ہی مشکل ہے۔ پ''ریم چن''د ہم''ارے پہلے ادیب ہیں
جو سنجیدگی کے ساتھ اس صنف کی طرف' متوجہ ہوئے۔ دیہات کی تصویر' کشی پریم چند کی سب س''ے
اہم خصوصیت ہے۔ ان سے پہلے ہمارے ادب میں گاؤس کا ذکر ناپی'د تھ'ا اور ص'رف ش'ہری زن'دگی' ہی
پیش کی جاتی تھی۔ وہ گاؤس میں پلے بڑھے تھے۔ ہندوستانی گاؤں ان کے رگ رگ میں بس گیا تھا۔
ناول نگار نظر نہیں آتا ۔انہوں نے گاؤں کو اپنا مقصد اپنا فن
اور اپنی زندگی بنا لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پریم چند گاؤں کے اتھاہ ویران
"سوز وطن" 1908ء میں شائع ہوا۔ جس میں پانچ افسانے ہیں۔
پریم پچیسی حصہ اول 1914عیسوی میں شائع ہوا۔ جس میں بارہ افسانے ہیں۔
پریم پچیسی حصہ دوم 1918میں شائع ہوا جس میں ت''یرہ افس''انے ہیں۔ .پ33ریم بتیس33ی حص33ہ اول
1920شائع ہوا جس میں سولہ افسانے ہیں۔
پریم بتیسی حصہ دوم 1920عیسوی میں شائع ہوا جس میں سولہ افسانے ہیں۔
خاک پروانہ 1928شائع ہوا جس میں سولہ افسانے ہیں۔
خواب و خیال 1928میں شائع ہوا جس میں 14افسانے ہیں۔
.فردوس خیال 1929میں شائع ہوا جس میں بارہ افسانے ہیں۔
پریم چالیسی حصہ اوالودوم 1930عیسوی میں شائع ہوئے ،جس میں میں افسانے ہیں۔
آخری تحفہ 1934میں شائع ہوا جس میں تیرہ افسانے ہیں۔
زاد راہ 1936میں شائع ہوا جس میں پند رو فسانے ہیں۔
دودھ کی قیمت جس میں نو افسانے ہیں۔ 1937میں شائع ہوا۔
واردات 1938میں شائع ہوا جس میں تیر و افسانے ہیں۔
اکبری حج افسانہ
منشی پریم چند نے افسانے “حج اکبر” میں ایک ایسے گھرانے کی کہانی کو پیش کیا ہے جن کی آم''دنی
کم تھی اور خرچے زیادہ۔ اپنے بچے کے لیے دایہ (آیا) رکھنا گ'وارا نہیں کرس'کتے تھے لیکن ای'ک ت'و
بچے کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر' والوں سے کم تر بن ک''ر رہ''نے کی ذلت اس خ''رچ ک''و
برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی تھ
اس افسانے کے پہلے حصے میں منشی صابر' صاحب کی کم آمدنی اور زیادہ خرچ ک''ا ذک''ر کی''ا گی''ا ہے
جس کے باوجود' بھی وہ اپنے بچے کے ل''یے دایہ رکھ''نے پ''ر مجب''ور تھے کہ وہ دوس''رے لوگ''وں س''ے
پیچھے نہ ہٹ''نے والے تھے۔ دامیہ اور بچے ک''و ای''ک دوس''رے س''ے محبت بھی بہت تھی مگ''ر منش''ی
صاحب کی بیگم کا کردار بہت عجیب اور مختلف قسم کا کھایا گیا ہے۔
دوسرے حصے میں دایہ کا میلے کو دیکھا اور اس منظر کے اثر میں گم ہو جان انس''ان کے دلی س''کون
کی توضیح کرتا ہے۔ اور اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ امیر اپنے سے غریب لوگوں ک''و کچھ نہیں
سمجھتا اور بے جا ان پر غصہ دکھاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے:
"شاکرہ بھری بیٹھی تھی۔ دایہ کو دیکھتے ہی تیور بدل کر بولی کیا بازار میں کھ33و گ33ئی تھیں؟ دایہ نے
خطاوارانہ انداز سے سر جھکا لیا اور بولی بیوی ای33ک ج33ان پہچ33ان کی مام33ا س33ے مالق33ات ہ33و گ33ئی اور
باتیں کرنے لگی۔ شاکر و جواب سے اور بھی ب33رہم ہ33و گ33ئی یہ33اں دف33تر ج33انے ک33و دی33ر ہ33و رہی ہے اور
تمہیں سیر سپاٹے کی سوجھی ہے"()۲
تیسرے حصے میں دایہ اور نصیر' کی محبت کو واضح طور پر دکھایا گیا ہے نصیر پ''ر دایہ ک''ا اث''ر تن''ا
گہرا تھا کہ ہواسے بھول نہ سکا بلکہ ہر وقت دایہ کو آوازیں دیتارہتا۔
"وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا ور انا انکار کر رونے لگا کبھی دروازے پر جاتا اور انا اناپکار ک33ر
ہا تھوں سے اشارہ کرتا۔ انا کی خالی کو ٹھڑی میں جا کر گھنٹوں بیٹھارہتا اسے امید ہوتی کہ اتنا یہ33اں
آتی ہو گی۔"()۳
چوتھے حصے میں نصیر کا بیمار ہو جانا اور ڈاکٹروں کا عالج بے سود جان دایہ اور نصیر' کی والہانہ
محبت کو ظ'اہر کرت'ا ہے۔ بچہ دایہ کی ی'اد میں بیم'ار پڑجات'ا ہے۔اگلے حص'ے میں دابیہ کے ب'ارے میں
بتایا گیا ہے کہ دایہ کو بھی نصیر' کے ساتھ بے پناہ محبت ہے اور اسے بھی اس کی یادور' ورہ کر ت''اتی
ہے۔ چھٹے اور آخری حصے میں دایہ کا حج کے لیے سفر پ'ر روانہ' ہ'ونے ک'ا منظ'ر بتای'ا گی'ا ہے جس
کے بعد منشی صاحب دایہ کو ڈھونڈ نے اسٹیشن پر نکل آتے ہیں اور دایہ کو نص'یر کی ح'الت زار س''ے
آگاہ کرتے ہیں داید حج کا سفر ترک کر کے پلک چکے بغیر نصیر' کے پاس پہنچ جاتی ہے اور دایہ کی
آواز سن کر بچہ اُٹھ جاتا ہے۔اس افسانے میں ہمیں اس بات کا سبق ملتا ہے کہ خ''ونی رش''توں کے عالوہ
بھی کچھ ایسے رشتے بن جاتے ہیں جن کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری' ہو جاتی ہے۔
پریم چند "حج اکبر" میں فکر کی موزونیت ،اسلوب کی نفاست اور تشبیہات کی فنکاری کی ہم آہنگی ک''ر
کے زیارت کے حوالے سے اس جوہر کو بیان کرتے ہیں کہ اگر انس''ان ،زن''دگی کے تغ''یرات میں الجھ''ا
ہونے کے باوجود '،اپنی روحانی' ایثار و فداکاری کی صفت کو بیدار کرتے ہیں ،پچھتاؤے ،بے می''نی اور
تلخی کے تیز و تند باد کو روک سکے اور انسان متانت کی شمع بنتے ہوئے انسانیت کو منور کر سکے۔
پریم چند کو ایک مہتوا کا نکشی مصنف کہنے کے نسبت ہم اسے ایک باکم''ال پس''ند مص''نف تص''ور' ک''ر
سکتے ہیں جو اس بات سے واقف ہے کہ مصنف' ک''و ادبی ص''ناع و ب''دائع کے ذریعہ انس''انی ج''ذبات کی
تال اور انسانیت کی لہ'روں ک'و ج'وڑ ک'ر اعلی جمالی'اتی معی'ار ت'ک پہنچ'نے کے مقص'د ک'و پ'ورا کرن'ا
چاہیے۔یہ کہنا غلط ہو گا کہ "حج اکبر " صرف حج کے متعلق ای''ک م''ذہبی کہ''انی ہے۔ اس کے بج''ائے،
ہمیں اسے انسانی رشتوں کی نزاکت اور نجات کے امکانات کے حوالے سے ایک افسانہ سمجھنا چاہیے۔
پالٹ-:
اگر چہ اس افسانے کا پالٹ بہت سادہ ہے ،یہاں پریم چند ای''ک احس''اس رفت''ار' پی''دا ک''رتے ہیں ج''و چ''ار
کرداروں کے درمیان ہونے والی الجھن اور کشمکش کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس افسانے میں کوئی
بی''انیہ خال اور م''وڑ نہیں ہے اور ق''ارئین ک''و تم''ام ک''رداروں کی بہت اور ارادے ک''ا ان''دازہ لگ''انے کی
ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
کردار نگاری-:
کردار نگاری کے بارے میں مصنف' کی مہارت قارئین پر ایک گہرا جمالی'اتی' ت'اثر چھ'وڑتی ہے۔ ص33ابر
حسین ایک خلوت پسند شوہر ہے جو اپنی ذات اور شخصیت کے بارے میں فکر مند ہ''ونے کے ب''اوجود
اپنے خان'دان کے ل''ئے قرب'انی دے س'کتا ہے۔ بی''وی ش33اکرہ اپ'نی ہی حم''اقتی ،جارح''انہ اور قاب''ل مالمت
شخصیت کا شکار ہو چکی ہے۔ آج کے حسابی بچ'وں کے مق'ابلے میں نص33یر معاش'رے میں ای'ک نای'اب
جو ہر ثابت ہوتا ہے جو اپنی معصوم کردار کے باوجود انسانی رشتوں کی نزاکت کو سمجھتا ہے۔
عباسی ایک عاجز ،مہربان اور طرف' دل سے مال مال خاتون ہیں جو اپنی بد قسمتی کے
باوجود' شکرگزاری' اور لگن کے جذبہ سے بھری ہ''وئی ہیں۔عباس''ی ک'ا ک'ردار حقیقت نگ'اری' کی مکم''ل
تصویر' ہے ،وہ غصہ ور بھی ہے ،بات نہیںبرداشت ہوئی ،تھوڑی تف''ریح ب''از بھی معل''وم ہ''وتی ہے ،اس
لئے کہ باہر جاتی ہے تو گھنٹوں لگا دیتی ہے ،باتیں سنے لگ''تی ہے۔لیکن اس میں ممت''ا اپ''نے ع''روج پ''ر
ملتی ہے ،نرم دل بھی ہے۔ نصیر کے حاالت سن ک''ر پھ''ر اپ''نے وق''ار' اور طنطنہ ک''ا خی''ال نہیں ک''رتی ،
روانہ ہو جاتی ہے ،اور اس کی وجہ سے نصیر' کو حیات تو مل جاتی ہے اس کی ماں شاکرہ تنک م'زاج
،کام میں نقص نک''النے والی اور جھگڑال''و ع''ورت ہے مگ''ر بہ''ر ح''ال نص''یب کی م''ار ہے ،نص''یر' ک''و
تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی ،میاں سے رو بہ رولڑائی' لڑنے میں کوئی حرج نہیں بجھتی۔
افس33انے ک33ا مرک33زی پیغ33ام یہ ہے کہ ص''رف' اع''تراف کی ہمت و ش''جاعت س''ے ہی ہم روح''انی نج''ات پ''ا
سکتے ہیں۔ بیوی اپنے غ''رور کی وجہ س''ے مع''افی م''انگنے ک''و تی''ار نہیں۔ اس کے ب''ر عکس ،عباس''ی،
بیوی کے الزامات کے باوجود '،نصیر کی محبت اور لگاؤ میں کمی نہیں کرتی۔ اگر چہ عباسی کے پ''اس
صابر حسین کے خاندان کو اپنی زن'دگی میں محض ای'ک راہگ'یر س'مجھنے ک'ا ج'واز ہے ،لیکن عباس'ی
کے پاس اس خاندان کی طرف احساس شکر گزاری کے سوائے کوئی' دوسرے احساس نہیں ہیں۔ عباس''ی
کا خیال ہے کہ ایثار و فداکاری کا ہر موقع اسے دنیاوی' فک''ر س''ے آزاد ک''ر کے اس''ے آس''مانی عش''ق ک''ا
راستہ دکھاتا ہے۔
افسانے میں ادا کیے جانے والے کہی اور ان کہی باتوں کو ان دو جملوں میں پوری' طرح سے سمیٹ دیا
گیا ہے۔
عباسی بولی" :کیوں بیٹا! مجھے تو نے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا ؟"
صابر حسین نے مس33کرا ک33ر کہ33ا" :تمہیں اس س33ے کہیں زی33ادہ ث33واب ہ33و گی33ا۔ اس حج ک33ا ن33ام حج اک33بر
ہے۔"()۴
حج صرف اپنی اصالح کا سفر ہرگز نہیں ،بلکہ ہم عبادات کے ذریعہ ہللا پاک کے سامنے اپ''نے اط''اعت
کا اعالن کرتے ہیں۔ حج کا اخری پیغام یہ ہے کہ نجات ممکن ہے اگر ہم نبی پاک کے نقش قدم پر چلیں۔
عباسی نے اپنا حج مکمل نہ کرنے کے باوجود حض''ور کے نقش ق''دم پ''ر چل''نے ک''ا انتخ''اب کی''ا۔ عباس''ی
صرف ایک عام عورت یا ایک افسانوی کردار' ہرگز نہیں ،بلکہ وہ ایک "ہیرو" ہے۔
کردار کے اعتبار سے شاکرہ ایک معمولی عورت ہے جو اپ''نے بچے نص''یر کی دای''ا س''ے اُلجھی رہ''تی
ہے ،دایا ( جس کا نام عباسی تھا) بھی کچھ گرم مزاج معلوم ہوتی' ہے ایک روز شاکرہ کی تیز زبانی اس
سے برداشت نہیں ہوتی اور وہ گھر چھوڑ' کر چلی جاتی ہے۔شاکرہ دائی سے ان الف'اظ میں گفتگ'و ک'رتی
ہے :دائی :بیوی ایک جان پہچان کی ماما سے مالقات ہوگئی اور باتیں کرنے لگی۔ شاکرہ ج''واب س''ے
اور بھی برہم ہوئی"'.یہاں دفتر جانے کو دیر ہو رہی ہے تمہیں سیرسپا ٹے کی س33وجھی ہے۔"مگ''ر دایہ
نے اس وقت دینے میں خیریت سمجھی' بچہ ک''و گ''ود میں لی''نے چلی ،پ''ر ش''اکرہ نے بھ''ڑک ک''ر کہ''ا۔ "
رہنے دو۔ تمھارے بغیر بے حال نہیں ہوا جاتا۔“()۵
حوالہ جات
پریم چند کا فنی فکری مطالعہ :سید محمد عصیم،ترکمان گیٹ دہلی،ص ۱۵ .1
پریم چند ،پریم چند کے سو افسانے :چودھری اکیڈمی،الہور :2016 ٫حج اکبر،ص ۲۳۹ .2
پریم چند کے سو افسانے :چودھری اکیڈمی،الہور :۲۰۱۶،حج اکبر،ص۲۴۱: .3
پریم چند کے سو افسانے :چودھری اکیڈمی،الہور :۲۰۱۶،حج اکبر،ص۲۴۲: .4
پریم چند کے سو افسانے :چودھری اکیڈمی الہور :۲۰۱۶،حج اکبر،ص۲۳۹ : .5
https://www.humsub.com.pk/485067/dennis-lai-hang-hui .6
کتابیات
پریم چند کا فنی فکری مطالعہ ،سید محمد عصیم،ترکمان گیٹ دہلی .1
پریم چند ،پریم چند کے سو افسانے ،چودھری اکیڈمی،الہور۲۰۱۶، .2
پریم چند کے افسانوں میں نس33وانی ک33رداروں ک33ا تنقی33دی ج33ائزہ،ڈاک''ٹر ش''ہزاد احم''د .3
خان،رجحان پبلیکیشنز،جاوید نظر،کریلی،الہ آباد۔