مثنوی‘ ِ عشقیہ مثنوی ہے جو ‘قصہ گل بکاؤلی’ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مثنوی کا اصل قصہ عزت اللہ بنگالی نے 1722ء میں ‘ قصہ گل بکاؤلی’ کے نام سے فا رسی زبان میں تخلیق کیا تھا۔ جس کو1803ء میں منشی نہال چند الہوری نے گلگرسٹ کی فرمائش پر ‘مذہب عشق’ کے نام سے اردو نثر میں منتقل کیا اور پھر تیسری مرتبہ اس قصے کو پنڈت دیا شنکر نسیم نے اردو نظم کا لباس پہنا کر مثنوی ‘گلزار نسیم’ کے روپ میں 1839ءمیں پیش کیا مثنوی گلزار نسیم کا ابتدائی تعارف اردو میں مثنوی ک'ا باقاعدہ آغاز میر تقی میر کے ہاتھوں ہوامثنوی گلزار نسیم پنڈت دیا شنکر کی وہ م'ختصر عشقیہ مثنوی ھے جس نےانھیں زندگی جاوید عطاکی اوریہی وہ م'ثنوی ہے جسے لکھنئو کے دبستان شاعری پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہوا ہے نسیم خواجہ حیدر علی کے شاگ'رد تھے آتش کی ہدایت پر ہی نسیم نے مختصر کر کےمثنوی کو نئے سرے سے لکھا اور ایجازو اختصار کا مع'جزہ کہال ئی۔ تاج الملوک مشرق میں ایک بہت بڑا بلند مرتبہ بادشاہ رہتا تھا جس ک'ا نام زین الملوک تھا۔اس کے ہاں چار بیٹے تھے اس کے ہاں پانچواں بیٹا پیدا ہوا جو نہا یت خوبصورت اور ذہین تھا۔نجومیوں نے بتایا کہ اس کو دیکھنے سے بادشاہ کی آنکھوں سے روشنی چلی جائے گ'ی اس لیے اسے پو شیدہ اور بادشاہ سے الگ رک'ھ کر دائیوں نے پاال اور اس کا نام تاج الملوک رکھا۔ گلزار نسیم کی خصوصیات لفظی رعایت گلزار نسیم میں حسن و عشق کے خارجی خدو خال کی تعریف کرنے میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔چنا نچہ ا س مثنوی میں دیگر شا عرانہ خوبیوں کے عالوہ لکھنوی اصول کی خصوصیات بھی شامل ہیں جن میں رعایت لفظی زیادہ نمایاں ہے۔ خارجی خدو خال کی تعریف دبستان لکھنوی کی یہ خو بی بھی ہے کہ وہ حسن و عشق کے ذکر میں خارجی خدو خال کی زیادہ تعریف کرتے ہیں جس سے دلی کیفیات کا تا ثر کم ہو جاتا ہے ۔ مبالغہ آرائی تعلی اور مبالغہ آرائی اگر چہ شعرہ کا شا عرانہ ٰ وطیرہ رہی ہےلیکن جن لوگوں نےاعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑا وہ بہک گئے اور کالم میں ابتذال پیدا ہوا واقعہ نگاری مثنوی میں واقع'ہ نگاری کو کمال تک پہچانا شاعر ک'ے قادرالکالم ہونے کا ثبوت ہے۔اگ'ر ایسا نہ ہو تو مثنوی خشک بے نمک اورغیردلچسپ ہو کر رہ جا ئے گی واقعہ نگا ری میں منا سب ا لفاظ محاورات اور م'وزوں تشبیہات کا استع'ال ہو نا چاہیے مثنوی میں منظر آرائی شاعری کا کمال یہ ہے کہ رزم ہو یا بزم اس کا بیان ایسے الفاظ اور اسلوب سے کرے کہ منظر کی تصویر کھینچ جائے۔گلزار نسیم میں کئی ایسے مناظر ہیں جو قاری کی حس ادراک کی تشفی کرتے ہیں۔ مکالموں میں جذبات آرائی شعر میں مکالمہ لکھنا ایک مشکل کام ہے اس مو قع پر وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو انسانی جذبات اور نفسیات کا محرک ہو زبان و بیان اور شعر پر پوری قدرت رکھتا ہو گلزار نسیم میں محاورات اور ضرب االمثال کا استعمال کہا جاتا ہے ک'ہ گلزار نسیم محاورات اور ضرب االمثال کی ک'ان ہے۔ شاید ہی کوئی شعر ہو گاجو محاورے سے خالی ہو۔محاورات اور ضرب االمثال میں یہ نظم تخلیق کی گئی ہے۔ ک'یا لطف جو غیر پردہ کھولے جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے جو نخل تھا سوچ میں کھڑا تھ'ا جو برگ تھا ہاتھ ک'ل رہا تھا