Professional Documents
Culture Documents
نگران مقالہ:
ِ مقالہ نگار:
شعبہ اردو
٢٠١٥ئ
ابواب
پیش لفظ
سوانح ١۔
شخصیت ٢۔
تصانیف ٣۔
ق جمال
جمال اور ذو ِ ٧۔
تنقید فلسفہ ادب بھی ہے اور ادبی تھیوری بھی۔ جیسے فلسفہ کے بغیر زندگی کاتصور ممکن
نہیں ایسے ہی ادب کاتصور تھیوری کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر کوئی فن پارہ یاادب پارہ اچھاہے
اورقاری کے دل کو چھوتاہے تو ہم اس کو محسوس کر سکتے ہیں لیکن ایسا کس وجہ سے ہے اور
اس میں کون کون سی خوبیاں اور خامیاں ہیں ،اگر یہ بتاناپڑے تویہ عمل تنقید کہالئے گا اور
جوشخص کسی ادب پارے یا فن پارے کو جانچتا یا پرکھتا ہے اسے نقاد کہتے ہیں ۔ادب اور تنقید
کاتعلق اس قدر گہرا اور ہمہ گیر ہے کہ ہم انھیں الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کر سکتے کیوں کہ
ادب کی تخلیق کے ساتھ ہی تنقیدی عمل بھی وجود میں آجاتاہے۔
ریاض احمد کثیر الجہات شخصیت ہیں۔وہ نقاد کے عالوہ شاعر اور مترجم بھی ہیں۔ ان کا نام
حلقہ ارباب ذوق اور دیگر ادبی محفلوں اور رسائل وجرائد کے لیے معتبر حوالے کی حیثیت رکھتا ہے
بطور نقادمضمون اور تبصرے لکھنے شروع ِ ۔١٩٤٢ء میں وہ حلقہ ارباب ذوق سے منسک ہوئے اور
کیے۔ انھوں نے تنقید کے مشرقی ومغربی نظریات سے استفادہ کیا۔
تنقیدکے نفسیاتی دبستان مینایک اہم نام ریاض احمد کاآتاہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے ناقدین
پر یہ بات واضح کی کہ تنقید کے نفسیاتی دبستان کا مقصد محض نفسیاتی زاویہ نگاہ نہیں بل کہ
جمالیاتی پرکھ اور تجزیاتی مطالعہ بھی ہے۔ ریاض احمد نے فرائڈ کے عالوہ ایڈلر اور ژونگ کے
حوالے سے ثقافتی تناظرکی اہمیت کااحساس دالیا اور کہاکہ نفسیاتی تنقید کے لیے ضروری ہے کہ ہم
اپنی قدیم ادبی روایات کو مذہبی اور ثقافتی اقدار کے پہلو بہ پہلو جانچیں۔ ایڈلر اور بالخصوص ژونگ
کاتنوع ہے۔
ّ اس ضمن میں ہماری زیادہ رہبری کر سکتے ہیں۔ریاض احمد کی تنقید میں موضوعات
اصناف سخن کے مطالعہ مینانھوں
ِ جدید ادبی نظریات کے ساتھ ساتھ علم معانی و بیان علم عروض اور
اورنظم آزاد کی ہیئت کوعروض کے حوالے سے واضح ِ معری
ٰ نظم
نے ژرف نگاہی کاثبوت دیا۔ ِ
کرنے کی بھی کوشش کی اور غزل کے عالوہ رباعی کے مطالعے میں بھی انھوں نے خاص طور پر
بعض جہتوں کی نشان دہی کی۔
اس مقالے کامقصد ریاض احمد کی ادبی و تنقیدی خدمات کاجائزہ اور تعین کرناہے۔ اس مقالے
میں ریاض احمد کی پانچ تنقیدی کتابونتنقیدی مسائل،قیوم نظر(ایک تنقیدی مطالعہ) ،ریاضتیں ،دریاب،
تصدیق کے مضامین کاتجزیہ کیا گیاہے اور اردو نفسیاتی تنقید کے آغاز و ارتقا سے لے کر ریاض
احمد تک کے نفسیاتی نقادوں کاتذکرہ کیاگیاہے۔ اس کے عالوہ ریاض احمد کی دیگر ادبی جہات
شاعری ،افسانہ نگاری اور تراجم کابھی تجزیہ کیا گیاہے۔
اس مقصد کے لیے زیر نظر مقالے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے:پہلے باب میں ریاض
احمد کی سوانح،شخصیت اور تصانیف کاتعارف پیش کیاہے۔ دوسراباب''اردو تنقید کانفسیاتی دبستان
ریاض احمد تک'' کے عنوان سے ہے جس میں اردو میں تنقید کے آغاز و ارتقا ،تنقید کی مختلف
اقسام ،مغربی نفسیاتی تنقید کے اردو پر اثرات اور اردو نفسیاتی تنقید کے اولین نقادوں سے لے کر
ریاض احمد تک کے نقادوں کاتذکرہ کیاہے۔تیسراباب''' ریاض احمد کی تنقید نگاری کے اختصاصی
انداز نقد کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کی تنقید کے اساسی ِ پہلو'' ہے ۔ جس میں ریاض احمد کے
موضوعات کاتجزیہ بھی کیاہے۔چوتھاباب'' ریاض احمد اور تحلی ِل نفسی کی عملی صورتیں'' کے
عنوان سے لکھاگیا۔ جس میں ریاض احمد کے بیان کردہ میر،غالب،اقبال اور جدیدشعرا کی شاعری
ک ے نفسیاتی محرکات کاجائزہ لیاہے۔ اس کے عالوہ افسانوں اور جدیدشعرا کے شعری مجموعوں کا
جوتجزیہ ریاض احمد نے پیش کیا ،اس کابھی جائزہ لیاہے اور ریاض احمد کی تنقید کا مقام و مرتبہ
متعین کرنے کی کوشش کی گئی۔ ریاض احمد کی دیگر ادبی جہات کاتجزیاتی مطالعہ'' کے عنوان کے
تحت لکھے گئے باب میں ریاض احمد کی نعتوں ،نظموں،غزلوں اور تراجم کا تجزیہ کیاہے۔ اس کے
عالوہ ریاض احمد کے افسانے'' ُمتلّی سانسی'' کاتجزیہ بھی کیا گیاہے۔
میں شکر گزار ہوں ڈاکٹر ارشدمحمودناشاد کی جنھوں نے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے
لیے اس موضوع کے انتخاب اور مواد کی فراہمی میں میری راہ نمائی کی۔ اس ضمن میں صدر شعبہ
اردو عالمہ اقبال اوپن یونی ورسٹی،اسالم آباد ڈاکٹر عبدالعزیزساحر کی بھی ممنون ہوں جنھوں نے اس
موضوع پر تحقیق کی اجازت مرحمت فرمائی۔
میری خوش نصیبی ہے کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر جیسی اعال تعلیمی شخصیت کے زیرنگرانی
مقالہ لکھنے کاشرف حاصل ہوا۔ ان کاشمار اردو ادب کے نامور محققوں ،نقادوں اور شعرا مینہوتاہے۔
بحیثیت انسان بھی وہ نہایت نفیس شخصیت کے حامل ہیں۔ کمال مصروفیت کے باوجود بھی انھوں نے
اس مقالے کی تکمیل میں میری بھرپور راہ نمائی کی۔مقالے کے آغاز میں،میں بہت فکرمند تھی کہ
شاید میں اسے مکمل نہ کر سکونمگر ڈاکٹر زاہدمنیر عامر کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی
بدولت میں اس مقالے کو بروقت مکمل کر پائی۔ میری اس تحقیقی کاوش کی نوک پلک سنوارنے میں
ان کابہت عمل دخل ہے۔مواد کی تسوید میں بھی انھوننے خصوصی معاونت کی اور ممکنہ حد تک
اپنی ذاتی الئبریری سے کتب بھی فراہم کیں۔
میں احسان مندہوں ،پروفیسر خالد ہمایوں اور پروفیسر غالم حسین ساجد کی جنھوننے مجھے
اپنی ذاتی الئبریری سے کتب و رسائل فراہم کیے اور انٹرویو میں کیے گئے سواالت کاتفصیلی جواب
دے کر مقالے کی تکمیل میں مدد کی ۔ اس ذیل میں،میں محمد احسن خان صاحب کی خصوصی
شکرگزار ہوں جنھوں نے قدم قدم پر میری راہ نمائی کی اورکتب کے ساتھ ساتھ مختلف کتب خانوں
تک رسائی کروائی اور ان کے فون نمبر بھی دیئے۔میں ڈاکٹر انورسدید کی بھی سپاس گزار ہوں کہ
انھوننے پیرانہ سالی کے باوجود ہر ممکن تعاون کیا اور فون پر کیے گئے سواالت کے جواب دے کر
زیر تحقیق موضوع کے متعلق میرے اشکاالت کودور کیا جس سے میرا کام مزید طوالت سے بچ گیا۔ِ
میں ریاض احمد کے خاندان خاص کر ان کے بیٹوں اعجاز احمد ،افتخار احمد( مرحوم) اور
پوتے بابر ریاض کی ممنون ہوں جنھوں نے ریاض احمد کی شخصیت اور نجی زندگی کے متعلق
معلومات فراہم کیں۔ میں شکریہ اداکرتی ہوں عالمت رسالے کے ایڈیٹر شیخ سعید(مرحوم) کے بیٹے
ایڈووکیٹ احمدسعید اور ان کی بیٹی عظمٰ ی سعید کا جنھوننے موادکی تسوید میں میری راہ نمائی کی
۔اس ضمن میں ،میں بیدل الئبریری کراچی کے چیف الئبریرین محمدزبیر صاحب کاذکر کرنا بھی
ضروری سمجھتی ہوں جنھوننے مجھے ریاض احمد کے مختلف رسائل میں شائع ہونے والے مضامین
بذریعہ ڈاک بھیجے۔ میں اپنی پی ایچ ڈی کی ساتھی شبانہ امان ہللا کی خصوصی شکرگزارہوں جنھوں
نے میری عاللت کے دوران میں تحقیقی مواد کی فراہمی میں مدد کی۔
تحقیقی مواد کے حصول کے لیے میں نے عالمہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسالم آباد الئبریری،
اورینٹل کالج الہور الئبریری ،جی سی یونی ورسٹی الہور،الئبریری ،پنجاب یونی ورسٹی الئبریری،
جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد الئبریری ،نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجزاسالم آبادالئبریری
،عبدالحمید کھوکھر الئبریری گوجرانوالہ اور گورنمنٹ کالج شاہ کوٹ کی الئبریری سے بھی استفادہ
کیا۔میں ان تمام کتب خانوں کے منتظمین کابھی شکریہ ادا کرتی ہوں۔
میں اپنے والدین خصوصا ً والدہ( مرحومہ) کی محبت اوردعائوں کاذکر ضروری سمجھتی ہوں
جن کی خواہش اور دعائوں کے طفیل مینآج اس مقام پر ہوں۔ اس سلسلے میں اپنے بھائیوں خاص کر
بھائی شاہد کی شکر گزارہوں جن کاپُرخلوص تعاون میرے لیے کڑی دھوپ میں سایہ کی مانند رہا۔ اس
ضمن میں اپنی بھابھی کی بھی مشکور ہوں جنھوں نے مجھے گھر کے معامالت سے مکمل فراغت
دی اور میری عاللت کے دوران میں مختلف کتب خانوں سے کتب فراہم کرنے میں مددکی ۔جس کی
بدولت میرے لیے مقالے کی بروقت تکمیل ممکن ہوسکی۔
کبری رشید
ٰ
باب ّاول:
سوانح ۔
شخصیت ۔
تصانیف ۔
سوانح:
ادب کی تاریخ کی ابتدا سے لے کر آج تک ہر زمانے میں ہر ملک میں اور ہر زبان میں ایسے
ایسے تخلیق کار ملتے ہیں جو بیک وقت کئی اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ دنیا میں ایسے بہت
سے ادیب و فن کار اور سائنس دان گزرے ہیں جن کی دلچسپی مختلف شعبوں میں رہی۔ اگر آئن سٹائن
کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ وہ جتنا بڑا مصور تھا اتنا ہی بڑا سائنس دان تھا اورریاضی دان بھی تھا۔
علم نجوم
عمر خیام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے جہاں شاعری میں ملکہ حاصل تھا وہاں وہ ِ
صنف سخن
ِ میں بھی ماہر تھا لیکن ادب کے بارے میں ایسی صورت حال رہی ہے کہ اگر کوئی ایک
ادیب کی شناخت بن گئی تو پھر دوسری اصناف میں چاہے اس کے کارنامے کتنے ہی وقیع کیوں نہ
صنف سخن کی وجہ سے ہی قائم رہتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نقاد بھی تھے
ِ ہوں ،اس کی شہرت اسی ایک
اور شاعر بھی مگر ان کی وجہ شہرت ان کی شاعری بنی نہ کہ ان کے تنقید ی مضامین۔
اردو ادب میں ایسے بہت سے ادیب ملیں گے جو بیک وقت شاعر بھی تھے اور نقاد بھی۔
موالنا الطاف حسین حالی نقاد بھی تھے اور شاعر بھی۔ موالنا محمد حسین آزاد شاعر اور نقاد تھے۔
ایسے ہی عالمہ شبلی نعمانی نے جہاں شاعری کی وہاں تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ مجنوں
گورکھپوری افسانہ نگار بھی تھے اور نقاد بھی؛ بحیثیت مجموعی ان سب کا جائزہ لیا جائے تو معلوم
بطور نقاد ملی ،شاعر یا ادیب کے طور پر نہیں۔ موجودہ دور میں دیکھاِ ہو گا کہ ان سب کو شہرت
اصناف سخن میں طبع آزمائی کر
ِ جائے تو ہمیں ایسے بہت سے ادیب ملیں گے جو بیک وقت مختلف
سرفہرست شمس الرحمن فاروقی ہیں جو شاعر بھی ہیں ،تنقید نگار ،افسانہ نگار، رہے ہیں۔ ان میں ِ
ناول نگار اور مترجم بھی۔ مگر ان کو شہرت ان کی تنقید کی بدولت ملی۔
اصناف ادب
ِ ایسے ہی چند لوگوں میں ریاض احمد کا شمار بھی ہوتا ہے جنھوں نے مختلف
میں طبع آزمائی کی۔ انھوں نے شاعری بھی کی ،تنقیدی مضامین بھی لکھے ،مبصر اور مترجم بھی
رہے مگر ان کی پہچان ان کے تنقیدی مضامین بنے بالخصوص نفسیاتی تنقید ان کی اصل شہرت کا
ذریعہ بنی۔
خاندانی پس منظر:
ریاض احمد کا تعلق راجپوتوں کی مشہور شاخ کھوکھر سے ہے۔ کھوکھر صوبہ پنجاب کا قدیم
قصبہ ہے۔ ریاض احمد کے آباؤ اجداد چکوال سے ہجرت کر کے ضلع گوجرانوالہ کے قرب و جوار
میں آ بسے۔ ان کے ننھیال کا تعلق ضلع سیالکوٹ سے تھا۔ یہ ایک دین دار گھرانہ تھا۔ ان کی برادری
کے اکثر لوگ رسمی اور دینی تعلیم میں یک گونہ دسترس رکھتے تھے۔ پنجابی کے شاعر مولوی
فن طب غالم رسول کا تعلق بھی انھی کے خاندان سے تھا۔ ریاض احمد کے خاندان کے اکثر بزرگ ِ
میں بھی مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے انھیں اہ ِل عالقہ میں کافی قدر و منزلت حاصل تھی۔
ریاض احمد کے دادا حیات محمد خاں نے بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح دینی علوم اور طب
کی روایات کو اپنایا۔ اہ ِل عالقہ انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ گاؤں کے زیادہ تر بچے اور
قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم حاصل کرنے آتے ۔ حیات محمد خان نماز او رروزہ کی ِ بچیاں ان کے ہاں
سختی سے پابندی کرتے تھے۔ تہجد گزار تھے۔ گاؤں کی مسجد کو آباد کرنے میں ان کا بڑا دخل تھا۔
انھوں نے اپنے گاؤں میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا۔ امامت کے فرائض خود ادا
کرتے تھے۔ تہجد سے لے کر اشراق کے نوافل تک وظائف و عبادات میں مصروف رہتے۔ انھوں نے
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کا عالج معالجہ کا سلسلہ بھی قائم کیے رکھا اور لوگوں کو تعویز
دعوی نہیں کیا۔
ٰ بناکے بھی دیتے مگر کبھی بھی رسمی پیری مریدی کا
ریاض احمد کے دادا سروے آف انڈیا میں مالزمت کرتے تھے۔ اس کے عالوہ کچھ زمینیں
بھی تھیں جن سے انھیں اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی اس لیے ان کی مالی حالت گاؤں والوں کی نسبت
اچھی تھی۔ حیات محمد خاں نے ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل سکونت اپنے آبائی گاؤں ہیرانوالہ کالں
ضلع گوجرانوالہ میں اختیار کی۔ انھوں نے ١٩٣٤ء میں وفات پائی۔ ان کے بعد ریاض احمد کے والد
نیاز احمد خاں نے خاندانی روایت کو اپنائے ہوئے دینی تعلیم اور طب کے ذریعے عوام الناس کی
خدمت کے سلسلے کو جاری رکھا۔ ریاض احمد کے والد بھی سروے آف انڈیا میں اپنے باپ کے
منصب پر مالزم ہوئے۔ ان کی شادی سیالکوٹ کے کھوکھر خاندان میں حسین بی بی سے ہوئی۔ ان کا
گھرانہ بھی مذہبی گھرانہ تھا۔ اس لیے وہ نماز روزہ کی پابند ایک سادہ حلیم الطبع نیک خاتون تھی۔
اگرچہ ریاض احمد کے وال ِد محترم بھی نماز ،روزے کے پابند تھے لیکن انھوں نے تبلیغ کا فریضہ
اس انداز میں سرانجام نہیں دیا جیسا کہ ان کے آباؤ اجداد کرتے تھے۔
ریاض احمد کے والد سرکاری مالزم تھے اس لیے انھیں بسلسلہ مالزمت مختلف شہروں میں
رہنے کا موقع مال۔ وہ انگریزی وضع کا لباس پہنتے تھے اور شکار کے بہت شوقین تھے۔ اکثر اپنے
انگریز آفیسروں کے ساتھ شکار پر جاتے۔ ریاض احمد کے والد کی تنخواہ قلیل تھی مگر زمینوں کی
آمدن کی وجہ سے گزارہ اچھا ہو جاتا تھا۔
ریاض احمد ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل وزیرآباد کے ایک دور دراز کے گائوں ہیرانوالہ
کالں میں چودھری نیاز احمد کے گھر ٢٠اکتوبر١٩٣٠ء کو پیداہوئے۔ یہ گائوں وزیرآباد سے تقریبا ً
پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق کی جانب واقع ہے ۔ آپ کا نام ریاض احمد آپ کے دادا
حیات محمد خان نے رکھا۔
ریاض احمد کابچپن ہیرانوالہ کی گلیوں میں عام دیہاتی بچوں کی طرح کھیلتے کودتے گزرا۔
بعض اوقات بچپن کے کچھ واقعات پوری زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ واقعات ریاض
احمد کی زندگی میں بھی پیش آئے جنھوں نے ان کے کردار و اطوار ،فکر و فن اور طبیعت و مزاج
پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ریاض احمد نے اپنے دوست چودھری محمدنذیر کو
خط میں لکھا:
'' داستان ان کی طویل بھی ہے اور بے کیف بھی۔ صرف ایک بات آپ کی تحسین کو مطمئن کرنے کے
سن ظن اور غلط فہمی کا ازالہ کرنے میں کام آ سکتی ہے۔ وہ یوں کہ جب میں بہت
لیے اور آپ کے ُح ِ
چھوٹا تھا یعنی ابھی گھٹنوں چلتا تھا تو اپنے ننھیال میں ایک دفعہ مکئی کی کٹائی کے وقت مجھے
بھی کھیتوں میں ساتھ لے گئے۔ سب لوگ مکئی کے کٹے ہوئے پودوں سے سٹے الگ کر رہے تھے۔
میں ایک طرف بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے ایک سفید سا سانپ میری پیٹھ پر چڑھ گیا
اور ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ایک لکیر کی صورت میں چھالے کی ایک قطار میری پیٹھ پر اُبھر آئی۔
ت دعا کی گھڑی ہمارے ننھیال کے بزرگ قریبی گاؤں میں فروکش تھے جنھوں نے لیلة القدر میں قبولی ِ
میں خدا سے فقیری مانگی تھی اور پھر وہ گھر سے التعلق ہو گئے تھے اور قریب کے ایک گاؤں
میں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ وہاں ایک جھگی بنا لی تھی اور وہاں شب و روز بھنگ گھٹتی تھی اور
عقیدت مندوں کی تواضح بھنگ کے پیالے سے کی جاتی تھی۔ بس ان کی یہی دعا او ریہی دوا تھی۔ وہ
سائیں بھال کرے گا ،کے نام سے مشہور تھے۔ کیوں کہ یہی ان کا تکیہ کالم تھا۔ ''سائیں بھال کرے
گا'' مجھے عالج کے لیے سائیں جی کے پاس لے جایا گیا۔ سانپ نے مجھے ڈسا نہیں تھا۔ صرف اس
ب معمول بھنگ کا کی سانسوں سے میری پیٹھ پر آبلے نکل آئے تھے۔ ''سائیں بھال کرے گا'' نے حس ِ
پیالہ عطا کیا اور ساتھ دعا کی۔ اس کے بھنگ کے پیالے میں عام روایت کے مطابق نشہ نہیں ہوتا تھا۔
اسی طرح سائیں بھال جی نے بچپن میں نشہ کے بغیر بھنگ پال کر اور میرے جسم سے سانپ کے
زہر کو Neturulisکر کے مجھے زندگی میں کیف اور خوشی دونوں سے محروم کر دیا تھا۔''((١
ریاض احمد کے بچپن کا ایک اور واقعہ جو بظاہر بڑا معمولی سا لگتا ہے مگر اس کے بڑے
دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ یہ واقعہ ریاض احمد کی پھوپھی صاحبہ کی زبانی معلوم ہوا۔ اس کی
تفصیل کچھ یہ ہے:
''ریاض احمد کی والدہ صاحبہ کو دودھ کی کمی کاسامنا تھا ،اس لیے انھیں پوری خوراک نہیں
ملتی تھی اور وہ بھوکے رہتے تھے۔ پھر کسی طور ایک بکری کا انتظام کیا گیا اور برا ِہ راست بکری
کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ چوسنے کی تربیت دی گئی جو کامیاب رہی۔ اسی عرصہ میں ان کے
دو رکی عزیز کسی دوسرے گاؤں سے آئی جو اپنی بدنظری کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتی تھی۔
انہوں نے ریاض احمد کو بکری کا دودھ اس انداز سے چوستے دیکھا تو کلمات تحسین ان کی زبان
سے نکل گئے۔ اس دن کے بعد یہ سہارا بھی ختم ہو گیا۔''((٢
اس واقعہ کی بدولت عمر بھر ان میں صبر و توکل ،کھانے پینے میں قناعت اور الیعنی سی
مستثنی رہا یعنی اس واقعہ کی وجہ سے ریاض احمد میں
ٰ بھوک کا احساس پیدا ہو گیا جو رزق سے
ایک طرح کی محرومی پیدا ہو گئی۔ ایسے ہی ایک اور بچپن کے واقعہ نے انھیں زندگی بھر کے لیے
احساس محرومی پیدا کر دیا جو زندگی کے اہم موقع پر
ِ مفلوج کر دیا یا ان کی ذات میں ایک ایسا
اثرانداز ہوا اور ان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوا۔ اس واقعہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
'' ریاض احمد کی اس وقت عمر کوئی اڑھائی سال ہو گی جب وہ شدید قسم کے تپ محرقہ میں مبتال ہو
گئے۔ یہ بخار اکیس دن رہا۔ حالت یہ ہو گئی کہ زبان سیاہی مائل ہو گئی او رکسی حد تک مفلوج بھی۔
اس پر کافی سوجن آ گئی۔ کوئی کھانے پینے کی چیز حلق سے اندر لے جانے میں کافی سخت دقت کا
باعث بنتی تھی۔ مستقل طور پر گونگا ہونے کا امکان ہو گیا تھا۔ یہ واقعہ گورکھپور (اب بھارت کا
ایک مشہور شہر ہے) کا ہے۔ ان کے والد وہاں مالزمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ وہاں حکیم اجمل
خان کے خاندان کے ایک حکیم مقیم تھے۔ ان کی دوا نے کام دکھایا اور بخار ٹوٹ گیا لیکن زبان
حرکت میں نہ آ سکی۔ ان کے عالج کے کہیں چھ ماہ بعد ریاض احمد نے دوبارہ بولنا سیکھا تو
گورکھپور کے ماحول کے اثرات کی وجہ سے پنجابی کی بجائے وہ اردو میں باتیں کرنے لگے
تھے۔''()٣
اس واقعہ کی وجہ سے ریاض احمد کی زبان میں لکنت آ گئی جس نے نفسیاتی طور پر ان کی
احساس کمتری پیدا ہو گیا اور وہ کسی بھی محفل
ِ خود اعتمادی کو متاثر کیا اور ان میں ایک طرح کا
میں ہمیشہ بولنے سے گریزاں رہے جو زندگی کے اہم مواقع پر خاص طور پر ترقی کی منازل پر
بہت اثرانداز ہوا۔ اسی لُکنت کی وجہ سے ریاض احمد تمام عمر کم گو ہی رہے۔ ریاض احمد نے ایک
مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اور والدہ دونوں تہجد گزار تھے اور نماز روزے کے
پابند تھے۔ اسی وجہ سے انھیں بھی شروع ہی سے نماز روزہ کے پابند رہے۔ وہ اپنے والدین کی سب
سے بڑی اوالد ہونے کی وجہ سے نہ صرف والدین بل کہ دادا کے بھی بہت الڈلے تھے اور ان کے
بہت قریب بھی۔ وہ ابھی آٹھ سال ہی کے تھے کہ ان کی دادا فوت ہو گئے مگر ان کے شخصیت پر ان
کے دادا کے اثرات بہت گہرے تھے۔
تعلیم:
ریاض احمد کے گاؤں میں سکول نہیں تھا اس لیے ابتدائی تعلیم کے لیے انھیں ساتھ والے
گاؤں می ں جانا پڑا۔ ان کے والد سروے آف انڈیا میں مالزم تھے ان کی تعیناتی ملک کی مختلف فوجی
چھاؤنیوں میں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض احمد کی تعلیم کے ابتدائی سال مختلف شہروں میں گزرے۔
انھوں نے پہلی جماعت کوئٹہ کے ایک پرائمری سکول سے کی۔ دوسری جماعت چمن سے اور
تیسری جماعت میں داخلہ نوشہرہ کے پرائمری سکول میں لیا۔ نوشہرہ پرائمری سکول سے تیسری اور
چوتھی جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ریاض احمد اپنے آبائی گاؤں واپس آ گئے۔ پانچویں اور
چھٹی جماعت کا امتحان اینگلو سنسکرت مڈل سکول ہیرانوالہ سے پاس کیا۔ یہ سکول ان کے گھر سے
دو میل کے فاصلے پر تھا۔ ریاض احمد کا شمار جماعت کے ذہین بچوں میں ہوتا تھا۔ وہ اپنی کالس
کے مانیٹر ہوتے تھے۔ ان کی کالس میں کل پانچ طالب علم تھے اور انھیں صرف ایک استاد پڑھاتا تھا
جنھیں عام طور پر پنڈت جی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
ریاض احمد نے پانچویں اور چھ ٹی کالس میں ہندی پڑھی جس سے انھیں دیوناگری رسم الخط
سے کچھ آشنائی ہو گئی۔ یہاں ان کا ناپسندیدہ مضمون جغرافیہ ہوتا تھا۔ لوئر مڈل یعنی چھٹی کالس کا
امتحان انھوں نے ١٩٢٦ء میں پاس کیا اور پھر وہ سکاچ مشن مڈل اسکول سیالکوٹ میں داخل ہو
گئے۔ یہ سکول سیالکوٹ چھاؤنی میں تھا۔ اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر رام ڈھینگرہ تھے۔ وہ ایک بہت
اچھے منتظم تھے اورا سکول انھیں اپنے گھر سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ وہ صبح سویرے اسکول پہنچ
جاتے اور شام کے بعد گھر لوٹتے۔ محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ بچوں کے رسائل
گلدستہ،ہونہار اورپھول ان کے سکول میں باقاعدگی سے آتے جب کہ اساتذہ کے لیے انگریزی اور
،نیرنگ خیال جیسے ادبی رسائل بھی آتے۔ تفریح کے وقت
ِ اردو اخبار کے عالوہ ادبی دنیا ،عالمگیر
بچوں کو اساتذہ کے ان رسائل سے مستفید ہونے کی اجازت ہوتی تھی۔ اس طرح ریاض احمد کو یہاں
مطالعہ کتب کا شوق
ٔ پہلی مرتبہ ادبی رسائل سے آشنائی ہوئی اور نصاب کے عالوہ ان کی طبیعت میں
راسخ ہوتا چال گیا۔ بچوں اور بڑوں کے ادبی رسائل پڑھنے سے انھیں باقاعدہ مطالعہ کی عادت پڑی
اور اردو زبان پر دسترس بھی ہوئی۔
اسکول کے ہیڈ ماسٹر منتظم تو بڑے اچھے تھے مگر وہ استاد اتنے اچھے ثابت نہ ہوئے۔ طلبہ
کو اپنے قصے کہانیوں میں الجھائے رکھتے۔ پوری درسی کتاب بھی ختم نہ کروا سکتے۔ اس طرح
نویں ،دسویں میں آتے آتے ریاض احمد کی انگریزی بہت کمزور ہو گئی جس کا اثر اُن کے نتیجہ پر
بھی پڑا اور انھو ننے میٹرک کا امتحان ١٩٣٥ء میں سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔
انھینمرے کالج ،سیالکوٹ میں انٹرمیڈیٹ کے لیے داخلہ تو مل گیا مگر سیکنڈ ڈویژن ہونے کی
وجہ سے فیس معاف نہ ہو سکی۔ کالج میں ذریعہ تعلیم انگریزی تھا اور ریاض احمد کی انگریزی اتنی
اچھی نہ تھی۔ امتحانی نقطہ نظر سے تو انھوں نے کسی حد تک اس پر قابو پا لیا تاہم انگریزی بولنے
کی بات تو ایک طرف انھیں انگریزی پڑھنے اور لکھنے میں بھی دشواری ہوتی۔ یہاں کالج میں تین
چار گھنٹے مسلسل انگریزی سن کر انھیں انگریزی کی کچھ سوجھ بوجھ ہونے لگی۔ ان کے انگریزی
کے استاد ''ڈی بی برائن'' نے مشورہ دیا کہ انگریزی اچھی کرنی ہے تو انگریزی اخبار او ررسائل
پڑھو اور انگریزی ناولوں کا مطالعہ کرو۔ کوشش کرو کہ عام بول چال میں انگریزی زبان کے الفاظ
زیادہ سے زیادہ استعمال کرو۔
ڈی بی برائن کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ریاض احمد انگریزی ناول اور اخبار و رسائل
روزمرہ بول چال میں انگریزی زبان والے مشورے پر عمل نہ کرّ کا مطالعہ تو کرتے رہے مگر
سکے اس کے باوجود ریاض احمد کی انگریزی پہلے کی نسبت کافی اچھی ہو گئی۔ باآلخر انھوں نے
١٩٣٧ء میں ایف اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں اور ١٩٣٩ء میں بی اے امتحان بھی سیکنڈ ڈویژن
میں پاس کر لیا۔
ریاض احمد کی دلی خواہش تھی کہ وہ ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیں مگر معاشی حاالت کی وجہ
سے وقتی طور پر انھیں تعلیم کو خیرآباد کہنا پڑا۔ کچھ عرصہ بعد قیوم نظر اور پروفیسر جی ایم اثر
کے کہنے پر انھوں نے گورنمنٹ کالج ،الہور میں ایم اے اردو کی کالس میں ُجزو وقتی طالب علم کی
حیثیت سے داخلہ لیا۔ ١٩٥٢ء میں اردو کی کالس گورنمنٹ کالج کی بجائے پنجاب یونیورسٹی کے
اورینٹل کالج میں ہوا کرتی تھی۔ دوسرے کالجوں سے مختلف اساتذہ یہاں آ کر لیکچر دیا کرتے تھے۔
ان میں اورینٹل کالج کے اساتذہ کے عالوہ گورنمنٹ کالج سے ڈاکٹر صادق صاحب ،صوفی غالم
مصفی تبسم ،جی ایم اثر صاحب اور اسالمیہ کالج سے پروفیسر علم الدین سالک اور دیال سنگھ کالج ٰ
سے پروفیسر سیّد عابد علی عابد تشریف الیا کرتے تھے۔
ایم اے اردو میں ریاض احمد نے پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے گولڈ
میڈل حاصل کیا۔ یہ امتحان انھوں نے ١٩٥٤ء میں پاس کیا۔
اساتذہ کرام:
ریاض احمد کی ابتدائی تعلیمی زندگی بہت سے تلخ تجربوں سے گزری جس کی وجہ سے ان
کی ذہنی ہم آہنگی کسی استاد سے نہ ہو سکی۔ ریاض احمد کے والد چوں کہ سروے آف انڈیا میں
مالزم تھے لہٰ ذا ریاض احمد کی تعلیم کے ابتدائی سال مختلف شہروں میں گزرے۔ اس بارے میں ڈاکٹر
انور سدید لکھتے ہیں:
'' وہ اس تلخ تجربے سے یوں گزرے کہ ابتدائی قاعدہ بنوں میں پڑھا ،پہلی جماعت کوئٹہ سے پاس کی۔
دوسری جماعت چمن سے ،تیسری جماعت نوشہرہ اور چوتھی جماعت اپنے آبائی گاؤں کے قریب
واقعہ گاؤں کھوسہ سے پاس کی۔ انہوں نے مڈل کا امتحان سکاچ مشن سکول سیالکوٹ سے پاس
کیا۔''((٤
ریاض احمد نے جب شعور کی حدوں میں قدم رکھا تو سب سے پہلے ان کی ذہنی ہم آہنگی
تادم مرگ ان سے والہانہ
اپنے اردو اور فارسی کے استاد سید توحید ندوی سے ہوئی۔ ریاض احمد کو ِ
لگاؤ رہا اور وہ ان کا ذکر بڑے جذباتی انداز میں کرتے رہے۔ اس بارے میں عفت ملک لکھتی ہیں:
'' توحید ندوی صاحب سے ریاض احمد کو ایک دلی اور ذہنی لگاؤ اب بھی ہے یہ ایک ایسے استاد
تھے جن کے فیض کے سلسلے سکول سے فارغ ہونے کے بعد بھی قائم رہے۔''((٥
مرے کالج میں جب ریاض احمد نے داخلہ لیا تو اسی زمانے میں انھوں نے شعر کہنے شروع
کیے۔ اس دوران میں وہ جو بھی اپنی غزل یا نظم لکھتے تو سیّد توحید ندوی کی خدمت میں پیش
کرتے۔ اگرچہ وہ اس کی اصالح کر دیتے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ''پہلے تعلیم مکمل کرو پھر یہ
شوق بھی سہی۔'' توحید صاحب کی اصالح کا انداز بھی نراال تھا۔ اچھے شعر کی تعریف دل کھول کر
کیا کرتے تھے اور اغالط کی نشان دہی کرتے تھے۔ اپنی طرف سے مصرع یا شعر عطا نہیں کرتے
تھے۔ ان کی تعریف کا انداز کچھ یوں ہوا کرتا تھا۔ (یہ واقعہ ریاض احمد نے ایم اے اردو کی طالبہ
عفت ملک کو خود بتایا)۔ واقعہ یوں ہے:
بزم اقبال کا ایک مشاعرہ ہوا۔ (اس میں توحید صاحب نے اپنی نظم ''داد کی چہک ''پڑھی
''ایک دفعہ ِ
تھی) مصرع یہ تھا:
موج شراب
ِ عکس رخ سے تیرے نورانی ہے ہر
توحید صاحب سے ریاض احمد کو ایک قلبی لگاؤ تھا۔ وہ ان کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا کرتے
تھے۔ سکول چھوڑنے کے بعد کالج کے زمانے میں بھی ان سے روزانہ مال کرتے تھے۔ انھوں نے
جب مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا تو وہاں جس استاد نے انھیں سب سے زیادہ متاثر کیا ،اس کا نام
ڈی بی برائن تھا۔ وہ انھیں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ ریاض احمد کے غیرملکی اساتذہ میں ایک اور
صاحب ''ریونڈی ڈی ایل سکاٹ'' تھے جو فٹ بال کے بڑے اچھے کھالڑی تھے اور طلبا کے ساتھ فٹ
بال کھیلتے۔ اس کے عالوہ فوٹو گرافی بھی ان کے فارغ اوقات کا مشغلہ تھا۔ ایف اے میں ریاض احمد
نے منطق انھی سے پڑھی۔ سکاٹ صاحب میں سپورٹ مین سپرٹ بہت زیادہ تھی ان میں ایک اچھے
اور مذہبی عیسائی کی طرح معاف کر دینے والی صفات بھی تھیں۔
بی اے میں ریاض احمد کو عربی پروفیسر فیض احمد نے پڑھائی۔ وہ دھیمے لہجے کے بڑے
خاموش طبع انسان تھے تاہم انھیں عربی زبان و ادب پر مکمل عبور حاصل تھا۔ انھی کی بدولت ریاض
احمد کو عربی زبان و ادب میں دلچسپی پیدا ہوئی اور انھیں عربی گرامر سے آگہی ہوئی۔ بی اے
کرنے کے بعدوہ الہور آ کر مالزم ہو گئے تو پروفیسر فیض احمد صاحب سے کسی نہ کسی تقریب
میں الزمی مالقات ہو جاتی۔ یہی نہیں بل کہ وہ کبھی کبھار ریاض احمد کے دفتر میں تشریف لے آتے۔
ریاض احمد مرے کالج کے میگزین میں مضمون بھی لکھتے رہے۔ اس میگزین کے ایڈیٹر سکاٹ
صاحب تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اقبال پر طویل اردو مضمون لکھا۔ سکاٹ صاحب نے اسے کالج
میگزین میں چھاپنے کے ساتھ ان الفاظ میں اس کی تعریف بھی کی:
ریاض احمد نے گورنمنٹ کالج الہور سے اردو زبان و ادب میں ایم اے کا امتحان اعزازی
نمبروں سے پاس کیا۔ اس دوران میں انھیں صوفی غالم مصطفی تبسم ،سیّد عابد علی عابد ،ڈاکٹر
صادق ،جی ایم اثر ،سید وقار عظیم ،عبادت بریلوی ،پروفیسر علیم الدین سالک اور ڈاکٹر ابواللیث
صدیقی جیسے اساتذہ سے علم حاصل کرنے کا موقع مال۔ انھو ننے یونیورسٹی میں ّاول آ کر طالئی
تمغہ بھی حاص ل کیا۔ ریاض احمد اس بات کا کریڈٹ اپنے اساتذہ کو دیتے ہوئے ایک ادبی خود نوشت
میں لکھتے ہیں:
'' ایم اے اردو میں پہلی پوزیشن حاصل کر لینا محض اتفاق کی بات تھی۔ میں نے کوئی خاص محنت نہ
کی تھی۔ اس دوران جہاں بعض نہایت اچھے اور فاضل اساتدہ سے تلمذ کی نسبت نصیب ہوئی ،وہاں
ایک واقعہ یہ بھی ہوا کہ اردو ادب کا مطالعہ کسی قدر منظم ہو گیا اور اردو زبان ،شعر و ادب میں
تاریخی ارتقا کا ایک شعور بھی پیدا ہوا۔ اساتذہ میں جو لوگ شامل تھے۔ ان کے علم و فضل کا ایک
عالم گواہ ہے لیکن سیّد عابد علی عابد کے لیکچر میں جو چاشنی ہوتی تھی ،وہ دوسرے اساتذہ کے ہاں
نہ مل سکی۔''((٧
اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاض احمد کی ذہنی ہم آہنگی جتنی سیّد عابد علی عابد کے
ساتھ تھی ،کسی اور سے نہ ہو سکی حاالنکہ وہ ڈاکٹر عارف بریلوی ،سیّد وقار عظیم اور ڈاکٹر سیّد
عبدہللا جیسے اساتذہ سے بھی لیکچر لیتے رہے۔
ریاض احمد کو ادب کی طرف راغب کرنے میں اُن کے دادا نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ جب دادا
کو مطالعہ میں مصروف دیکھتے تو ان کے دل میں بھی یہ خواہش بیدار ہوتی کہ کاش میں بھی پڑھ
سکوں۔ ریاض احمد چوتھی کالس میں روانی سے اردو پڑھنے کے قابل ہوئے تو انھوں نے چوری
چوری دادا کی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ آٹھویں جماعت تک انھوں نے دادا کی الئبریری سے تفسیر،
آرائش محفل ،فاطمہ کا الل اور تذکرہِ داستان امیر حمزہ،
ِ حدیث اور فقہ کی کتابوں کے ساتھ ساتھ
غوثیہ جیسی کتب کا مطالعہ کر لیا۔ اس ضمن میں ریاض احمد لکھتے ہیں:
''اردو کی کتابوں کو دادا کے طاق سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکاال جاتا اور پُرلطف معلوم ہوتیں تو پڑھ لیتا،
''دیوان ذوق'' کا نام یاد ہے اور
ِ ورنہ واپس طاق میں ٹھونس دیتا ۔ اردو نظم کی کتابو ں میں صرف
اتفاق سے یہ کتاب اب بھی میرے پاس موجود ہے۔''((٨
سکول میں بچوں کے رسائل گلدستہ ،ہونہار ،پھول اور رہنمائے تعلیم نے بھی انھیں مطالعہ کی
طرف راغب کیا۔ سکاچ مشن سکول میں اساتذہ کے لیے منگوائے جانے والے اخبارنیرنگ خیال ،ادبی
دنیا اورعالمگیر سے بھی انھوں نے استفادہ کیا۔ بقول ریاض احمد ''یہاں سے مطالعہ کا جو چسکا پڑا،
وہ تمام عمر ساتھ رہا''۔ انھیں مطالعہ کا اس قدر شوق تھا کہ جس دن اخبار سکول آنے ہوتے ،اس دن
کوشش ہوتی کہ وقت سے پہلے سکول پہنچ جاؤں تاکہ دوسرے بچوں سے پہلے وہ اخبار پڑھ لیں۔
جب ریاض احمد گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل ہوئے تو ان دنوں مزاح نگاری کا بہت چرچا
تھا۔ پطرس بخاری ،عظیم بیگ چغتائی ،شوکت تھانوی ،مال رموزی کو انھوں نے بڑے شوق سے
صہ بھی پڑھ لیا۔ گرمیوں کی
پڑھا۔ اس دور میں انھوں نے حفیظ جالندھری کے شاہنامے کا ایک ح ّ
دیوان غالب بھی پڑھ لی۔بانگ درا
ِ بانگ درا اور موالنا حسرت موہانی کی شرح
ِ چھٹیوں میں انھوں نے
تو اتنی اچھی لگی کہ کئی نظمیں زبانیں یاد کر لیں۔ اس طرح نصابی کتب کے عالوہ ان کتب نے بھی
ریاض احمد کے ذوق کی پرورش و پرداخت کی۔
١٩٣٥ء میں ریاض احمد نے مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا ،تو وہاں پڑھنے کے معاملے
میں کچھ اور آزادی نصیب ہوئی۔ یہاں انھوں نے انگریزی ناولوں سے بھی استفادہ کیا۔ کالج کی
الئبریری میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے بہت کم کتابیں تھیں تاہم جتنی بھی کتابیں وہاں
موجودتھیں ،تقریبا ً ہر ایک کا ریاض احمد نے مطالعہ کیا۔ یہاں انھو ننے مولوی عبدالحق کی اردو
علم عروض پر بھی ہے جس سے راہ نمائی لیتے ہوئے گرائمر بھی پڑھی۔ اس کتاب میں ایک باب ِ
انھوں نے شعر کی تقطیع کرنا سیکھی۔ اُن کے مطابق عروض کا یہ مطالعہ شعر گوئی کا سبب بھی
بنا۔
ایف اے میں انھوں نے جتنی غزلیں لکھیں وہ سب تقطیع کی مدد سے لکھیں۔ انھوں نے ایف
دیوان غالب کا بھی مطالعہ کیا۔ بی اے
ِ دیوان حالی ،مقدمہ حالی ،خیالستان،
ِ اے کے اردو نصاب میں
میں انھو ننے کچھ تنقیدی کتب بھی پڑھیں اور اس کے ساتھ ساتھ موالنا عبدالرحمن کی مراة الشعر کا
بھی بغور جائزہ لیا۔ اس دوران میں کتابیں حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ریاض احمد کے کالج کے دوست
بشیر احمد مرحوم تھے ،جو ڈسکہ میں رہتے تھے۔ ان کا خاندان آسودہ حال تھا۔ اُنھیں خود بھی کتابیں
خریدنے پڑھنے اور سنبھال رکھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ ریاض احمد ہر ہفتہ ڈسکہ جاتے اور جتنی
کتابیں اور رسائل ملتے وہ لے آتے۔
کالج کے بعد ریاض احمد نے جب الہور مالزمت کے سلسلے میں رہائش اختیار کی ،تو انھوں
نے پنجاب پبلک الئبریری کی تاحیات رکنیت حاصل کی۔ وہاں وہ زیادہ تر انگریزی تنقید اور نفسیات
کے حوالے سے کتب حاصل کرتے۔ اس ضمن میں انھوں نے فرائڈ ،ژونگ ،ایڈلر ،ہیوالک ،ایلس ،ولیم
جیمز کی کتب کا مطالعہ کیا۔ اردو میں تحلی ِل نفسی کے ضمن میں انھوں نے سردار حزب ہللا خاں کی
کتاب کے عالوہ ڈاکٹر اجمل کے نفسیاتی موضوعات پر لکھے گئے مختلف مضامین بڑے شوق سے
پڑھے۔ تنقید میں رچرڈ) ، (Richardsریڈز) ، (Reidsایمپسن ) ، (Empsonجان پریس (John
) ،Pressپروفیسر آگڈن ) (Agdenوغیرہ کا بڑی محنت سے مطالعہ کیا۔ اس دوران میں ان کی
زیر مطالعہ کتاب میں درج حوالہ جاتی کتب کا مطالعہ بھی کریں۔ تنقید اور نفسیات
کوشش ہوتی کہ وہ ِ
کے ساتھ ساتھ عمومی دلچسپی کے مضامین پر چھپنے والی کتابیں بھی اُن کے لیے کشش کا باعث
ہیں۔ خصوصا ً عربی مصنفین کی اردو میں ترجمہ ہونے والی کتابیں یا مکتبہ فرینکلن کی طرف سے
شائع کردہ انگریزی کتب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کی تفصیل ریاض احمد کچھ یوں لکھتے ہیں:
'' ان تراجم کے ذریعے بعض مصنفین سے تعارف حاصل ہوا۔ ترجمے میں اکثر اوقات بعض جگہ
شاخ
ِ مفاہیم واضح نہیں ہوئے۔ اصطالحات کے معاملے میں بھی خاصی الجھن محسوس ہوتی ہے۔ تاہم
داستان فلسفہ ،ٹائن بی کی تاریخ کا ترجمہ بہت متاثر ُکن ثابت ہوئیں۔''((٩
ِ زریں،
اردو تنقید کے حوالے سے انھوں نے ڈاکٹر سیّد عبدہللا ،ڈاکٹر وزیر آغا ،ڈاکٹر سجاد باقر
رضوی ،ڈاکٹر انور سدید ،میرا جی کو نہایت جذب و شوق سے پڑھا۔ اس دوران میں ریاض احمد کو
ب ذوق کی محفلوں میں شرکت کا موقع مال۔ یوسف ظفر ،قیوم نظر اور مختار صدیقی نے حلقہ اربا ِ
زیرصدارت ہونے والے حلقے کے انھیں حلقہ ارباب ِ ذوق سے وابستہ کیا اور انھوں نے میراجی کی ِ
اجالس میں اپنا پہال مضمون عورت مشرق و مغرب میں پڑھا جسے حلقے میں بڑی پذیرائی ملی۔
یوسف ظفر اور مختار صدیقی نے انھیں شاعری چھوڑ کر مضمون نگاری پر توجہ دینے کا مشورہ
دیا۔ انھوں نے شاعری کو ترک تو نہ کیا لیکن مضمون نگاری کی طرف خصوصی توجہ دینے لگے
اور جلد ہی انھوں نے باقاعدہ تنقیدی مضامین لکھنے شروع کر دیے۔ اس دوران میں حلقے میں اپنی
لکھی ہوئی نظمیں بھی پیش کرتے رہے۔ ان کے نظم کے موضوع کو منفرد قرار دیتے ہوئے اُسے
١٩٤٣ء کی بہترین نظم قرار دیا گیا۔ حلقے کے تحت ریاض احمد کے ادبی دنیا میں شائع ہونے والے
تنقیدی مضمون لفظ اور خیال کا رشتہ کو ١٩٦٢ء کا بہترین مقالہ قرار دیا گیا۔
ب ذوق کے ساالنہ اجالس میں ریاض احمد ،حلقے کے سیکرٹری مقرر ١٩٥٤ء میں حلقہ اربا ِ
ب ذوق ہوئے۔ اس دوران میں انھوں نے بہت سی نظموں اور کتابوں پر تبصرے بھی لکھے۔ حلقہ اربا ِ
کی بنیاد رکھنے والوں میں ریاض احمد کا نام نہیں آتا مگر انھوں نے اپنے چند دوستوں کی رفاقت میں
تاریخ ادب نظرانداز نہیں کر سکتی۔ ریاض
ِ حلقہ کو جس نہج پر چالیا وہ اتنی بڑی خدمت ہے جس کو
احمد نے نئے لکھنے والوں کو جو بصیرت اور شعور عطا کیا ،وہ ایسی چیز نہیں جسے بھالیا
جاسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ حلقہ ارباب ذوق کو دوام دینے میں ریاض احمد کی کوششیں بھی کارفرما
رہیں اور حلقہ کبھی بھی اپنے اس محسن کو ب ُھال نہیں سکتا۔
ازدواجی زندگی:
ریاض احمد کی شادی ستمبر ١٩٥٢ء میں اپنی پھوپھی زاد ''رشیدہ بیگم'' کے ساتھ ہوئی۔ یہ
خاتون اگرچہ بہت پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر سلیقہ شعار اور نماز روزہ کی پابند تھیں۔ ریاض احمد
ایک محبت کرنے والے مہربان شوہر اور شفیق باپ تھے۔ ریاض احمد کی عائلی زندگی پر بات کرتے
ہوئے ان کے چھوٹے بیٹے (مرحوم) افتخار احمد آبدیدہ ہو گئے۔ اُن کے مطابق:
'' ان کے والدصاحب کی ذات میں حد درجہ عاجزی تھی۔ وہ بہت ملنسار تھے ،بہت منصف
تھے۔ ان کی زندگی کا شاید ہی کوئی دن ایسا ہو ،جب ہم نے انھیں کسی سنجیدہ یا اہم خاندانی معاملے
پر جھگڑتے ہوئے دیکھا ہو (افتخار احمد مزید بتاتے ہیں) کہ میں اپنے باپ کے متعلق یہ بات دعوے
سے کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے کبھی ایک پائی حرام کی اکٹھی نہیں کی۔ وہ بہت بڑے دل کے مالک
تھے۔ انھیں دنی اوی مال سے کبھی کوئی غرض نہ ہوئی۔ وہ اپنے پوتے پوتیوں سے بہت محبت کرتے
تھے۔ خاص کر انھیں اپنی پوتی ''نیلما'' سے خصوصی قلبی لگاؤ تھا۔''((١٠ریاض احمد کو اپنی اہلیہ
سے بہت محبت تھی۔ ان کی وفات پر وہ بہت رنجیدہ ہوئے اور اکثر بیمار رہنے لگے۔ ریاض احمد اس
سانحے کو برداشت نہ کر سکے اور ان کی وفات کے بعد صرف ایک بر س جیے۔ رشیدہ بیگم کا
انتقال ،٢٥اکتوبر ٢٠٠٦ء کو ہوا۔ رشیدہ بیگم کی وفات پر ان کے بڑے صاحبزادے اعجاز احمد نے
ایک نثری نوحہ لکھا ،جو الحمرا ،الہور سے شائع ہوا:
دیکھتے دیکھتے
دور خل ِد بریں جا بسی
آرزو ہے بس اک میری
زاہدہ پرویز سب سے بڑی بیٹی کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ انھوں نے ستر کی دہائی میں ١۔
بیٹیاں ہیں۔ گریجویشن کیا ،ان کی دو
تیسری اوالد اعجاز احمد بینکر ہیں اور الہور میں مقیم ہیں۔ یہ ریاض احمد کی واحد اوالد ہیں، ٣۔
جن کو ادب سے لگاؤ ہے۔ ان کا نعتیہ کالم اور غزلیں مختلف رسائل میں شائع ہوتی رہیں ان کی دو
بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
ریاض احمد کے دوسرے بیٹے (مرحوم) افتخار احمد بھی بینکر تھے۔ ان کے دو بیٹے اور ٤۔
ایک بیٹی ہے۔ ان کی وفات اپریل ٢٠١٤ء میں ہوئی۔ یہ بھی الہور میں مقیم تھے۔
سب سے چھوٹی بیٹی ساجدہ ایاز الہور میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ٥۔
ہے۔
مالزمتیں:
ریاض احمد نے ١٩٣٩ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ معاشی
حاالت کی وجہ سے انھیں وقتی طور پر تعلیم کو چھوڑنا پڑا۔ سب سے پہلی مالزمت انھوں نے مارچ
١٩٣١ء میں کنٹرول آف ملٹری اکاؤنٹس میں بطور کلرک کی۔ اس دفتر میں ریاض احمد نے چھ ماہ
کام کیا ،وہاں اُن کی تنخواہ ٢٥روپے ماہوار تھی۔ ستمبر ١٩٤١ء میں انھیں پنجاب پبلک سروس
کمیشن ،الہور کے دفتر میں جونیئر کلرک کی مالزمت مل گئی۔ یہاں بھی ان کی تنخواہ بہت قلیل تھی۔
باآلخر جنوری ١٩٤٢ء میں انھوں نے ''فنانشل کمشنر پنجاب'' کے دفتر میں جونیئر کلرک کی مالزمت
اختیار کی۔ ریاض احمد اس مالزمت سے بہت مطمئن تھے کیوں کہ اس میں تبادلے کا خدشہ نہیں تھا۔
قیام پاکستان کے بعد اسے ''بورڈ آف ریونیو'' کا نام دیا گیا۔ باقی کی مالزمت انھوں نے اسی محکمے
ِ
میں کی اور پھر ١٩٨٠ء میں ٦٠برس کی عمر میں اسی محکمے میں بحیثیت اسسٹنٹ سیکرٹری
ریٹائرڈ ہوئے ،مگر وہ اس بات پر ہمیشہ افسردہ رہتے کہ پاکستان بننے کے بعد سرکاری دفتروں میں
کام کا معیار بدقسمتی سے روز بروز گرتا گیا۔ اس کا سبب وہ تعلیمی انحطاط کو قرار دیتے تھے ،خود
انھوں نے تمام عمر بڑی ایمانداری سے پیشہ وارانہ امورسرانجام دیے۔
ریاض احمد کے چھوٹے بیٹے افتخار احمد (مرحوم) کے مطابق ان کے والد نے تمام عمر
نہایت ایمانداری سے مالزمت کی۔ کبھی دفتر سے بالسبب چھٹی نہ کی۔ وقت کے بہت پابند تھے۔ انھیں
دنیاوی مال و دولت سے غرض نہ تھی۔ کبھی بھی حرام کی ایک پائی بھی گھر میں نہ الئے ،سرکاری
گاڑی کے ہوتے ہوئے بھی تمام عمر سائیکل پر دفتر گئے۔
صہ…وفات:
عمر کا آخری ح ّ
ریاض احمد نے عمر کے آخری حصہ میں بھی لکھنے اور پڑھنے کے عمل کو اپنا معمول
بنائے رکھا۔ ٢٠٠١ء تک وہ عالمت رسالے سے وابستہ رہے۔ ٢٠٠١ء میں شیخ سعید کی وفات کے
بعد عالمت رسالہ بند ہو گیا ،مگر انھوں نے لکھنے کا عمل اپنائے رکھا۔ ان کے تبصرے ،تنقیدی
مضمون اور شاعری ماہنامہ دانشور الہور اور سیارہ ڈائجسٹ الہور اور قومی ڈائجسٹ میں شائع ہوتے
رہے۔ ان کی آخری تحریر اُن کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ یہ ایک پنجابی ناول دوآبہ کا ترجمہ تھا۔
اس ضمن میں پروفیسر خالد ہمایوں بتاتے ہیں:
'' آخری دور میں انھوں نے افصل حسین رندھاوا کے ناول ''دوابہ'' کا پنجابی سے اردو میں ترجمہ کیا
جو قومی ڈائجسٹ میں کئی قسطوں میں شائع ہوا۔ اس سلسلہ تحریر کے کچھ پیسے میں انھیں پہنچا نہ
سکا۔ جنازے والے دن میں نے وہ رقم ان کے ایک صاحب زادے کے سپرد کی تھی۔'' ( (١٢اپنی
پیرانہ سالی اور عاللت کے باوجود ریاض احمد نے مطالعہ کا سلسلہ زندگی کے آخری ایام تک جاری
رکھا۔ ارشدمحمودناشاد کو انھوں نے جو خطوط اپریل٢٠٠٧ء مینارسال کیے۔ وہ انھوں نے اپنے پوتے
بابر ریاض سے لکھوائے اور اس بات پر معذرت خواہ بھی تھے کہ دائیں کندھے میں تکلیف کے
باعث وہ خط تحریر نہ کر سکے۔ دوستوں سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے بڑے بیٹے
اعجاز احمد کے مطابق اُن کی زندگی کی آخری تحریر شائع نہ ہو سکی اور انھوں نے اپنی زندگی
کے آخری ایّام پروفیسر خالد ہمایوں غالم حسین ساجد ،جعفر بلوچ کی رفاقت میں گزارے۔ مختصر
عاللت کے بعد اردو ادب کے ممتاز نقاد ریاض احمد ٩جوالئی ٢٠٠٧ء کی شام کو ٨٧برس کی عمر
ب ذوق کا خصوصی میں انتقال کر گئے۔ (انا ہلل و انا علیہ راجعون) ۔ ان کی وفات کے بعد حلقہ اربا ِ
اجالس ١٢جوالئی ٢٠٠٧ء کو ہوا جس میں ریاض احمد کی بطور نقاد اور شاعرانہ اہمیت کا اعتراف
کچھ ان الفاظ میں کیا گیا:
''ریاض احمد نے ادب و شعر کو ،ہمیشہ گہری سنجیدگی سے لیا اور اس سے اپنی وابستگی کا تمام
عمر بھرپور انداز میں اظہار کیا۔ تاریخ ادب کے لیے ان کے تنقیدی مضامین کو ناقدین نے نفسیات کے
حوالے سے سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض احمد اردو ادب کے ّاولین ناقدین میں سے ہیں ،جنہوں
عصر حاضر کے بڑے نفسیات دان کے کام ِ رویوں کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا تھا اور وہ
نے نفسیاتی ّ
سے کماحقہ' واقف تھے ۔ پھر اگر الہور کی علمی و ادبی فضا پر نظر ڈالی جائے تو وہ ماضی میں
ب ذوق کی نشستوں میں بڑی خاموشی سے نہایت فعال کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں حلقہ اربا ِ
ریاض احمد نے نہایت عمدہ مضامین پیش کیے۔'''() ١٣
ڈاکٹر انور سدید،ریاض احمد کو ان کی وفات کے بعد ایک ''درویش ادیب'' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید نے ریاض احمد کے لیے کچھ غزلیہ اشعار لکھے جو کہ الحمرا رسالے میں شائع
ہوئے:
اگست ٢٠٠٧ء کو الحمراء رسالے کا خصوصی شمارہ ''گوشہ ریاض احمد'' کے نام سے شائع
ہوا جس میں مختلف ادیبوں اور شاعروں نے اُن کی ادبی خدمات کا برمال اعتراف کیا ۔ جعفر بلوچ نے
ایک خصوصی نظم ''آہ! ریاض احمد'' کے نام سے لکھی:
ت سرمد
اور محبت تھی دول ِ
چشمہ فیض
ٔ ذات ان کی تھی ایک
شخصیت:
ریاض احمد اپنی منفرد شخصیت کے باعث ایک مختلف قسم کے انسان تھے۔ عام طور پر ہر
معیار زندگی کو بلند و برتر کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس
ِ انسان ایک خوشحال زندگی میں اپنے
کے لیے وہ دن رات مال و زر کی محبت و طلب میں سرگرداں رہتا ہے اور یہی فکر مندی انسان کو
ت نفس کے اس ایک مسلسل کرب میں مبتال رکھتی ہے۔ دنیا میں ایسے لوگ خوش بخت ہیں جو خواہشا ِ
طغیان سے بچ کر صحیح و سالمت کنارے لگ جاتے ہیں۔ ریاض احمد کاشمار بھی ایسے ہی چند
لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں دنیاوی مال و دولت یا منصب کی فکر نہیں ہوتی ،جو پہننے کو مال ،وہ پہن
مستغنی قسم کی شخصیت کے ٰ لیا اور جو کھانے کو مال وہ کھا لیا۔ وہ ایک مہذب ،منکسرالمزاج اور
مالک تھے۔ ہر معاملے میں قناعت پسند تھے۔ ان کی قناعت پسندی کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ وہ ساری
زندگی نام و نمود سے بے نیاز رہے۔ کبھی بھی کسی ادبی مجلس میں خود کو نمایاں کرنے کی کوشش
نہیں کی۔
ریاض احمد کے متعلق اکثر ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ انھوں نے اپنی ادبی شناخت کے
لیے تخلص یا کوئی اور قلمی نام اپنانا ضروری کیوں نہ سمجھا۔ شاید اس لیے کہ وہ ریاض احمد کو
ریاض احمد ہی دیکھنا پسند کرتے تھے یا پھر یہ کہ ادبی تشخص کے اظہار کے لیے انھیں تخلص کا
دوغال پن گوارا نہ تھا۔ ان کی شخصیت میں ٹھہراؤ بہت تھا۔ وہ جس بھی جماعت یا شخص کے ساتھ
وابستہ ہوئے ،تادم مرگ اسی کے ہو رہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اسلم رانا لکھتے ہیں:
ب ذوق سے وابستگی نے ان کو دوسری ادبی تنظیموں سے رابطہ استوار کرنے سے کیوں ''حلقہ اربا ِ
روکے رکھا؟ ادبی دنیا ،نئی تحریریں ،اوراق اور ان کے بعد عالمت کے عالوہ دوسرے ادبی جرائد
بشرط استواری کو
ِ کو اپنی تحریریں بھجوانے سے بے نیازی کیوں برتی۔ گویا 'شہرت' پر وفاداری
مقدم گردانا۔''((١٦
وہ حلقہ ارباب ِ ذوق کے اس قدر پرجوش رکن تھے کہ دوپہر میں بھی سائیکل پر سفر کرتے
اور ادیبوں کو حلقے کے اجالس میں شرکت کے لیے مدعو کرتے۔ وہ حلقہ کے سرگرم رکن تھے۔ وہ
مختصر عرصہ کے لیے حلقے میں بطور سیکرٹری بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ ہمیشہ حاالت ایک
جیسے نہیں رہتے۔ ان میں خارجی عوامل و محرکات تبدیلیاں التے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق بھی ان
تبدیلیوں کی زد میں آ گیا اور پھر ریاض احمد حلقے سے الگ ہو گئے مگر اس کی وجہ بھی نظریاتی
اختالف ہی تھا ،شخصی اختالف نہیں۔
ترقی پسند تحریک سے ریاض احمد کو ہمیشہ اختالف رہا لیکن اس کے باوجود سیّد سبط
حسن ،عابد منور ،صفدر میر ،شریف کنجاہی ،ظہیر کاشمیری اور عارف عبدالمتین وغیرہ کا انھوں نے
ہمیشہ احترام کیا ۔ وہ کسی بھی شخص سے نظری اختالف کے قائل تھے ناکہ شخصی اختالف کے۔
انھوں نے اپ نے ہم عصروں میں بھی خود کو کبھی برتر تصور نہیں کیا۔ ہم عصروں سے تعلقات کے
متعلق ڈاکٹر اسلم رانا لکھتے ہیں:
'' اپنے ہم عصروں میں سے جب بھی کسی کا ذکر ہوا ،انھوں نے ان کے علم و فضل یا تخلیقی
صالحیت کے اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ اپنے مقابلے میں معاصرین کی فتوحات کے
سلسلے میں ریاض احمد اکثر اقبال کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
دور حکومت میں سرکاری مالزمین کو جب سول ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع جنرل ایوب کے ِ
ہوا تو ریاض احمد کا نام بھی ان کی کارکردگی کی بنا پر کئی مرتبہ بھیجا گیا مگر سفارش نہ ہونے
افسران باال ،ساتھی اور ماتحت
ِ دوران مالزمت
ِ حسن کارکردگی نہ مل سکا۔
ِ تمغہ
ٔ کی وجہ سے انھیں
سبھی اُن سے خوش رہتے تھے۔ وہ اپنے افسران ،ساتھیوں اور ماتحتوں کا بہت سا کام خود کر دیتے
تھے۔
ریاض احمد کے دیرینہ دوست جناب سرفراز عامر صاحب (جو پنجابی کے شاعر تھے) کہتے
ہیں کہ ریاض احمد دفتر کے کام کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی یا سستی کے روادار نہیں
تھے۔ وہ اپنا کام کرنے کے عالوہ ساتھیوں کے وہ کام بھی نمٹا دیتے ،جنھیں سرانجام دینے میں انھیں
دقت پیش آ رہی ہوتی لیکن جہاں تک اُن کی اپنی ذات کا تعلق ہے تو انھوں نے دفتر سے باہر دوستوں
سے یا اپنے ماتحت مالزمین سے کبھی بھی کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔
اکثر ان کے اپنے دفتر کے یا دوسرے دفاتر کے اصحاب اور محکمہ مال کے چھوٹے افسران
دعوی ،جواب طلبی وغیرہ
ٰ دعوی ،جواب
ٰ اپنے دفتری ،سرکاری یا ذاتی معامالت میں درخواستیں،
لکھوانے کے لیے ان کے پاس آ جاتے۔ ریاض احمد حتی المقدور ان کی مدد کرتے۔ وہ اپنے دفتر یا
گھر میں آنے والے ساتھی مالزمین کو تواضع کیے بنا جانے نہ دیتے۔ وہ ہر کام کو وقت پر کرنے
کے عادی تھے۔ اکثر اوقات دفتری اوقات ختم ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے دفتر میں کام میں
مصروف رہتے۔ اپنی اس عادت کے متعلق ریاض احمد خود بتاتے ہیں:
''ایک تو فطرتا ً میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ کام میرا ادھورا پڑا رہے اور میں یونہی چھوڑ کر دفتری
وقت ختم ہوتے ہی گھر آ جاؤں۔ دوسرے میں اقبال کی وساطت سے موالنا روم کے اس شعر پر یقین
رکھتا ہوں:
شروع میں ریاض احمد اپنی مالزمت کو اپنے ادبی مشاغل میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے
تھے مگر پھر ایک واقعے نے ان کی زندگی کے مقصد کو بدل دیا۔ اس واقعہ کو افتخار احمد یوں بیان
کرتے ہیں کہ اُن کے والد صبح نماز کے لیے جب باہر نکلے تو ایک خاکروب سڑک پر جھاڑو دے
رہا تھا۔ اُس خاکروب کو دیکھ کر ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں جو اپنی مالزمت کو اپنے لیے
تعالی کی ناشکری ہے۔ یہ بے چارا خاکروب بھی تو مالزمت کر رہا ہے۔ ٰ دشوار سمجھتا ہوں ،یہ ہللا
مجھے تو ہللا نے باعزت روزگار فراہم کیا ہے۔ ایک صاف ستھرے ماحول میں میرا دفتر ہے ،جہاں
تعالی کی ان عنایات کا
ٰ میں کرسی پہ بیٹھ کر کام کرتا ہوں۔ میرے ماتحت بہت سے مالزمین ہیں۔ ہللا
حق ادا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں اپنے فرائض کو اچھے انداز میں انجام دوں۔
اس واقعہ کے بعد ریاض احمد نے ہللا سے کبھی بھی اپنی بے آرامی کا شکوہ نہ کیا اور ہمیشہ
اظہار تشکر کرتے رہے۔ وہ ساری عمر سائیکل پر دفتر گئے حاالں کہ اُن کے گھرِ عاجزانہ انداز میں
میں دو دو گاڑیاں موجود ہوتی تھیں۔ چوں کہ وہ نمود و نمائش کے خالف تھے اسی لیے انھوں نے
ساری عمر سائیکل چالئی۔ ریاض احمد سفر کرنے اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل ہونے
سے بہت ڈرتے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے کئی مرتبہ اپنی ترقی کو محض اس وجہ سے رکوا دیا
کہ انھیں شہر بدر ہونا پڑا تھا۔ اس کی مزید تفصیل ریاض احمد یوں لکھتے ہیں:
''فطرتا ً مجھے نئی جگہ ،نئی چیز ،نئی ذمہ داری ،نئے لباس وغیرہ سے ڈر لگتا ہے۔ اسے آپ خود
اعتمادی کا فقدان بھی کہہ سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ میں نیا عہدہ اس لیے بھی نہیں جوائن کرتا کہ
افسران باال کے اعتماد کو ٹھیس
ِ میں اپنے نئے عہدے میں اپنی ناقص کارکردگی کے باعث کہیں اپنے
نہ پہنچا بیٹھوں اور ان کے دلوں میں جو میرے لیے عزت ہے ،میں اس سے محروم نہ ہو
جاؤں۔''((١٩
زندگی کے اہم نجی معامالت میں ایسی سوچ رکھنے واال ریاض احمد ،اس ریاض احمد سے
یکسر مختلف دکھائی دیتے ہیں،جو ایک نقاد اور شاعر ہے ،جو شعر و ادب اور تنقید میں جدید تر
رجحانات کا قائل ہے مگر اپنی ذاتی زندگی میں وہ ہر نئی چیز خواہ لباس ہویا گھر ہو یا پھر شہر اُسے
تبدیل کرنے سے خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے اسے ہم "Fear of New
"Experiment of Lifeبھی کہہ سکتے ہیں۔
ریاض احمد ایک درویش صفت انسان تھے۔ وہ ماضی میں رہنے والے ایسے انسان ہیں جنھیں
شہر کی چکاچوند بھی متاثر نہ کر سکی اور ان کے اندر کا ایک خالص دیہاتی آدمی پوری توانائی
سے زندہ رہا۔ انھوں نے اس شہر میں نہ دوست بنائے اور نہ دشمن۔ انھوں نے اونچے مقام پر پہنچنے
کے لیے پی آر کا سہارا لینے کی بجائے وہ ہر مقام پر اپنی محنت اور قابلیت کے تحت پہنچے۔ یہی
وجہ ہے کہ انھوں نے خود کو کبھی نام نہاد ادبی اصولوں کی منڈی میں فروخت نہیں کیا۔ انھوں نے
زندگی کو اپنے انداز سے گزارا۔ وہ ہمیشہ ادبی گروہ بندیوں سے دور رہے۔
ریاض احمد میں ایک عجیب انداز کی اَنا موجود تھی جس میں تکبّر یا غرور کی بجائے
خودداری ،عزم اور عظمت کا احساس ہوتاتھا۔ اُن کے لہجے میں لکنت موجود تھی۔ وہ کم گو ضرور
تھے مگر کم آمیز نہیں۔ وہ جو بھی بولتے ،بہت سوچ سمجھ کر بولتے۔ بقول ڈاکٹر اسلم رانا ''وہ ان
لوگوں کی طرح نہیں تھے جو بولتے تو سمندر کی طرح ہیں مگر ان کی سوچ جوہڑوں کی طرح
محدود ہوتی ہے۔''((٢٠
انھوں نے کبھی بھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ اگر کبھی انھیں کسی کی بات پر
اختالف بھی ہوتا تو وہ بڑے سلجھے انداز اور دھیمے لہجے میں بات کرتے۔ گھرکے کام کاج یا
دوسرے خاندانی معامالت میں بہت کم بولتے ،صرف ہاں یا ناں میں جواب دیتے۔ بیوی بچوں کو
بالسبب ڈانٹ ڈپٹ نہ کرتے۔ وہ بچوں کو کھیلتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور ان کے کھیل میں شامل
ہو جاتے۔ ایسے ہی وہ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو بھی بہت پیار کرتے اور ان سے
توتلی زبان میں خوب چہک چہک کر باتیں کرتے۔ وہ بھی اپنے والدین کی نسبت ریاض احمد کے ساتھ
وقت گزارنا پسند کرتے۔
لکھنے پڑھنے کے اُن کے کوئی خاص اوقات نہ تھے او رنہ ہی وہ اس کے لیے کوئی خاص
اہتمام کرتے۔ بچے خواہ کھیل رہے ہوں یا شور مچا رہے ہوں مگر وہ بڑی خاموشی اور توجہ سے اپنا
کام کرتے۔ مالزمت کے دوران میں جب انھوں نے ایم اے اردو اور ایل ایل بی کیا تو اس وقت بھی اُن
کے مطالعہ کی یہی عادت تھی۔ کبھی خاص اہتمام سے امتحان کی تیاری نہ کرتے۔ ریاض احمد اپنے
کاغذات کے معاملے میں بہت ال پروا تھے۔ وہ اپنی کتابیں اور کاغذات سنبھال کر نہیں رکھتے تھے
جہاں دل کر تا رکھ دیتے۔ اگر گھر کا کوئی فرد انھیں الماری میں رکھ دیتا تو اس پر بڑی کوفت ہوتی
کہ ان کی چیزیں کہاں رکھی ہیں اور یہ کہ ان کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ
چیزیں ان کے سامنے پڑی ہوتیں مگر وہ مسلسل شکایت کیے جاتے کہ نہیں مل رہیں۔
ریاض احمد بڑے دھیمے مزاج ،سادہ طبیعت ،کم گو ،انسانی اور اخالقی اقدار کے پاسبان
تھے۔ انھو ننے کبھی کسی دوست سے بدکالمی نہیں کی۔ سجاد باقر رضوی کا کہنا ہے کہ ''ریاض
احمد شریف نقاد ہیں اس نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی اور نہ کسی سے گالی کھائی۔'' ان کے پاس
بڑے بڑے ادیب ،شاعر ،موسیقار اور دانشور آتے تھے جن سے وہ خندہ پیشانی سے ملتے مگر خود
وہ محفلوں اور مجلسوں میں جانے سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ وہ ہر انسان کی حتی الوسع مدد کرتے۔
ڈاکٹر اسلم رانا کے مطابق:
'' جب میں ان کے قریب ہونے لگا تو احساس ہوا کہ یہ تو شریف کنجاہی کا وہ ''ون دا بوٹا'' ہے جو
کسی مسافر کو مایوس نہیں کرتا۔ اپنی ٹھنڈی چھاؤں سے بھی نوازتا ہے اور میٹھی ''پیلوں'' سے پیٹ
کے دوزخ کو ٹھنڈا کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔''((٢١
ریاض احمد اگرچہ کسی تعلیمی ادارے سے وابستہ نہ تھے مگر جب کوئی اُن سے راہ نمائی
کا طالب ہوتا تو وہ ہر ممکن طریقے سے اُن کی مدد کرتے۔ وہ اپنے شاگردوں سے اوالد کی طرح
پیار کرتے۔ ڈاکٹر اسلم رانا ہمیشہ اس بات کا اعتراف کرتے کہ میں آج جس مقام پر ہوں اس میں خدا
کی مدد کے بعد ریاض احمد کی مدد شامل ہے۔ ایڈووکیٹ احمد سعید بھی ریاض احمد کے شکرگزار
ہیں کہ ہمیشہ انھوں نے ان کی تعلیمی راہ نمائی ایسے کی ،جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کی کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ریاض احمد مجھے اتنا عزیز رکھتے جتنا کہ اپنے بیٹوں کو۔ زندگی کے آخری لمحات
میں بھی ریاض احمد ،احمد سعید کو یاد کرتے رہے۔ احمد سعید کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے باپ شیخ
س عید (ایڈیٹر عالمت رسالہ) کی وفات کا اتنا دکھ نہیں ہوا ،جتنا کہ ریاض احمد کے اس دنیا سے جانے
کا دکھ ہوا۔ پروفیسر غالم حسین ساجد صاحب ریاض احمد سے اپنے تعلقات کی بابت لکھتے ہیں:
'' ریاض احمد صاحب سے میرے تعلقات نیازمندانہ تھے۔ میں ان سے شناسا تو تھا مگر ان سے قربت
کا موقع میرے ملتان سے الہور منتقل ہونے کے بعد آیا۔ وہ بہت مشفق اور مہربان شخص تھے۔ میں
کبھی اطالع دے کر اور کبھی اچانک اُن کی طرف جا نکلتا ،تو وہ ناوقت آنے پر بھی خوش دلی سے
میرا استقبال کرتے تھے۔ ان کا پوتا مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر انھیں بتانے کو جاتا تو اُن کے
آنے سے پہلے موسم کی مناسبت سے میرے لیے کوئی مشروب ضرور بھیجا جاتا ،پھر وہ گھٹنوں میں
تکلیف کے باوجود زحمت کر کے میرے پاس آتے اور ادب و شعر پر ایک طویل مکالمے کا آغاز
کرتے۔''( )٢٢ریاض احمد طبعا ً ملنسار اور شفیق انسان تھے۔ وہ نئے لکھنے والوں کا ذکر بڑی
جوہرقابل کو پہچاننے کی صالحیت تھی اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ کس ِ محبت سے کرتے۔ ان میں
شخص سے کیا کام لینا ہے۔ وہ ہمیشہ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ،خواہ وہ نقاد ہوتا ،شاعر
یا ادیب۔ اس ضمن میں پروفیسر خالد ہمایوں لکھتے ہیں:
''ان کے کسی جملے س ے ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ اپنی علمیت کا رعب ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ جیسے عام
زندگی میں بے ریا آدمی تھے ،اسی طرح وہ علمی دنیا میں بھی جانے جاتے تھے۔ اگر کبھی صحت
خراب ہوتی تو وہ معذرت کر لیتے ورنہ کوئی چھوٹا بڑا ان سے کسی چیز کے لکھنے کی فرمائش
کرتا تو وہ انکار نہیں کرتے تھے۔ قدرت نے انھیں حلیم اور تدبر کی خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔ وضع
دار آدمی تھے۔ دردمندی ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دو ایک دفعہ مجھے
مسرت میری راہ نمائی کی۔
ّ ترجمے کے سلسلے میں ان سے راہ نمائی لینی پڑی تو انہوں نے بصد
جب کبھی میں گیا ،کبھی چائے پانی کے بغیر نہ اٹھنے دیا۔''((٢٣
ڈاکٹر زاہدمنیر عامر کی کتاب تاریخ جامعئہ پنجاب شائع ہوئی تو ریاض احمد نے دعائیہ کلمات
خراج تحسین پیش کیا:
ِ سے انھیں
'' دست بہ دعا ہوں کہ ہللا کریم آپ کے علم میناضافہ فرمائے کہ آپ دریائے علم سے گوہر یکتا چن چن
کر اردو زبان کے دامن کو ماال مال فرماتے رہے۔''((٢٤
تادم مرگ لکھنے اور مطالعہ میں مصروف رہے ۔ان کی کوشش ہوتی کہ مارکیٹ میں آنے وہ ِ
والی ہر نئی کتاب کو وہ پڑھیں۔ ارشدمحمودناشاد کو لکھے گئے ایک خط میں ریاض احمد فرمائش
کرتے ہیں کہ وہ انھیں پی۔ایچ ۔ڈی کا مقالہ پڑھنے کے لیے بھجوائیں۔ یہ خط ریاض احمد کی علم
دوستی کو ظاہر کرتاہے:
''اگر آپ اپنا Thesisچنددنوں کے لیے بھجواسکیں تو اس کامطالعہ میرے لیے سود مند ہوگا۔''((٢٥
ب بصیرت آدمی تھے۔ وہ ادبی گروہ بندیوں کی صورت حال کو خوب ریاض احمد صاح ِ
سمجھتے تھے مگر کبھی بھی کسی گروہ بندی کا جزو نہ بنے۔ پروفیسر خالد ہمایوں بتاتے ہیں کہ ایک
مرتبہ انھوں نے ایک امریکی ڈاکٹر کی خود نوشت کا ترجمہ تحریر کیا اور مجھے (خالد ہمایوں تب
قومی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر تھے) کو دی مگر اسی دوران ہی ان کی منتقلی کہیں اور ہو گئی اور نئے
ایڈیٹر نے اُن کا ترجم ہ چھاپنے سے انکار کر دیا۔ جب ریاض احمد کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں
نے اس کا قطعا ً برا نہ منایا کیوں کہ وہ ادبی حلقوں کی صورت حال کو بخوبی سمجھتے تھے۔ وہ بہت
وسیع الظرف آدمی تھے۔ انھوں نے ہمیشہ پچھلی صفوں میں رہ کر علم و ادب کی ترویج کا کام کیا۔ اُن
کی گمنام زندگی کے متعلق غالم حسین ساجد کا کہنا ہے:
'' شہرت پانا اہم ہے نہ گمنام ہونا۔ اصل اہمیت اس کی ہے کہ آپ کے کام کی وقعت کیا ہے؟… ریاض
احمد اداکار تھے نہ زمانہ شناس وہ صرف ایک سنجیدہ ادیب تھے اور پچھلی صفوں میں رہ کر علم
صے میں شہرت نہیں آئی ،عزت آئی اور یہ کوئیکی ترویج کا کام کرنے والے ،اسی لیے اُن کے ح ّ
چھوٹی کامیابی نہ تھی۔''((٢٦
ریاض احمد کا حلقہ احباب اتنا وسیع نہ تھا۔ وہ اپنے ملنے والوں سے ہمیشہ رابطے میں رہتے۔
اُن کے بیٹے اعجاز احمد کے مطابق ایسا کوئی دن نہ ہوتا جب والد صاحب کے لیے ڈاک نہ آتی۔
روزانہ ان کے لیے دس بارہ خطوط ضرور آتے اور ریاض احمد بھی ان خطوط کے جواب ضرور
ارسال کرتے۔ ریاض احمد اپنے وعدے کے کتنے پکے تھے اور انھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کتنا
تھا ،اس کا اندازہ ان خطوط سے ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے احباب کو لکھے۔
ریاض احمد صاحب فراش ہوئے تب بھی وہ اپنے احباب کو باقاعدگی سے خطوط کاجواب
ارسال کرتے رہے۔ دائیں کندھے میں تکلیف کے باعث وہ خود لکھنے کے قابل نہ تھے۔ مگر پھر بھی
وہ اپنے پوتے سے خطوط کاجواب لکھواتے۔
تصانیف:
ادب سے ریاض احمد کی دلچسپی سکول کے زمانے سے تھی۔ ان کی ادب میندلچسپی پیدا
کرنے کا محرک بچوں کے رسائل گلدستہ،پھول اورہونہار تھے۔ یہ وہ رسائل تھے جو انھیں سکول کی
الئبریری میں میسر ہوتے تھے۔ سکاچ مشن سکول میں اساتذہ کے لیے جو رسائل ''ہمایوں'''' ،نیرنگ
خیال'''' ،ادبی دنیا'' اور ''عالمگیر'' منگوائے جاتے تھے ،ریاض احمد ان سے بھی استفادہ کرتے یہی
وجہ ہے کہ نصابی کتب کے عالوہ ان رسائل نے بھی ریاض احمد کے ادبی ذوق کی پرورش کی۔
دسویں جماعت میں وہ سکول کے رسالے کے لیے کہانیاں لکھا کرتے تھے۔
دوم
علم عروض پر لکھی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ سا ِل ّ
ایف اے کے پہلے سال میں انھوں نے ِ
تک پہنچتے پہنچتے وہ عروضی اوزان کو م ِدّنظر رکھتے ہوئے شعر کہنے لگے او رپھر بی اے تک
انھوں نے خاصی تعداد میں نظمیں اور غزلیں لکھ دی تھیں۔ مرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کرنے
کے بعد انھوں نے زیادہ توجہ شعر و شاعری پر دی۔ اسی دوران میں انھوں نے کئی ایک افسانے بھی
لکھے لیکن و ہ محفوظ نہ رہ سکے۔ تاہم ان کا ایک افسانہ جو بہت بعد میں لکھا گیا ''صحیفہ'' میں
'' ُمتلّی سانسی'' کے نام سے شائع ہوا۔
مالزمت کے سلسلے میں الہور میں مستقل قیام ریاض احمد کی ادبی زندگی کے لیے بہت فائدہ
مند ثابت ہوا۔ گورنمنٹ کالج الہور سے ایم اے اردو کرنے کے بعد قیوم نظر ،یوسف ظفر اور مختار
ب ذوق سے وابستہ کیا۔ انھوں نے حلقہ میں اپنا سب سے پہال مضمون صدیقی نے انھیں حلقہ اربا ِ
زیرصدارت ہوا۔ ان کے اس ''عورت مشرق و مغرب میں'' پڑھا۔ حلقہ کا یہ اجالس میرا جی کی ِ
مضمون کو حلقہ میں بہت پذیرائی ملی۔ ان کا یہ مضمون ١٩٤٧ء میں ماہنامہ ادبی دنیا میں شائع ہوا۔
اسی دوران مینیوسف ظفر اور مختار صدیقی نے انھیں شاعری چھوڑ کر تنقید نگاری پر توجہ دینے کا
مشورہ دیا۔ ریاض احمد نے شاعری کو مکمل ترک تو نہ کیا مگر تنقید پر زیادہ توجہ دینی شروع کی
اور حلقہ کے ہفتہ وار اجالس میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے۔ حلقہ میں ان کے پڑھے جانے
ب ذوق کاوالے مضامین مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوتے تھے۔ ٨نومبر ١٩٥٣ء کو انھیں حلقہ اربا ِ
سیکرٹری مقرر کیا گیا۔
ب ذوق سے وابستہ ہوئے اور اپنا پہال تنقیدی مضمون ریاض احمد ١٩٤٢ء میں حلقہ اربا ِ
''عورت مشرق و مغرب میں'' پڑھا۔ ١٩٤٣ء میں انھیں حلقہ کا بہترین شاعر قرار دیا گیا۔ ١٩٤٨ء میں
ب ذوق میں ایک ماہانہ محفل ''کچھ تو کہیئے'' کے نام سے منعقد کروائی جانے لگی۔ ''کچھ تو
حلقہ اربا ِ
کہئیے'' حلقہ کا مستقل عنوان تھا۔ جس کے تحت مہینے کے پہلے جلسے میں مختلف ادب پاروں پر
بحث ہوتی۔ حلقے کا سب سے اہم مباحثہ یہی ہوتا تھا۔ ،١٤اگست ١٩٦١ء کو ''کچھ تو کہیے'' کے
تحت ہونے والے مباحثے باعنوان ''اردو شعری تجربہ اور نیاعلمی شعور'' میں ریاض احمد نے حصہ
لیا۔ ١٩٦٢ء کے جلسے میں پڑھے جانے والے مقاالت میں ریاض احمد کا مقالہ ''لفظ اور خیال کا
رشتہ'' بہترین قرار دیا گیا۔ حلقہ کی ١٩٦٣ء کی بہترین شاعری کی فہرست میں ریاض احمد کی نظم
''جب چلی سرد ہوا'' کو بھی نامزد کیا گیا۔ اس کے عالوہ ریاض احمد نے حلقہ ارباب ذوق میں بے
شمار تنقیدی مضامین ،مختلف کتابوں پر تبصرے اور مقالے لکھے جو کہ صحیفہ،ادبی دنیا،ما ِہ
نو،مخزن،اوراق،نیا دور،صریر ،عالمت،نئی تحریریں،دانشور جیسے ادبی رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔
ریاض احمد کی کل سات کتب شائع ہوئیں جن میں سے پانچ کتب تنقیدی مضامین پرایک
شاعری کی اور ایک ترجمے پر مشتمل ہیں۔ ذیل میں ریاض احمد کی مطبوعہ کتب کا مختصر تعارف
دیا جاتا ہے۔
''تنقیدی مسائل'' ١٩٦١ ،ء میں اردو بُک سٹال بیرون الہوری گیٹ سے شائع ہوئی۔ یہ تنقیدی
مقاالت پر مشتمل ان کی پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب میں وہ بطور نفسیاتی نقاد اُبھر کر سامنے آئے۔ یہاں
انھوں نے نفسیاتی تنقید کے ساتھ ساتھ ہیئت ،اسلوب ،متخیلہ ادب اور صحافت کے تعلق پر بات کی۔
اس کتاب کو ڈاکٹر اسلم رانا نے مرتب کیا اور اس کتاب کا دیباچہ بھی خود انھوں نے لکھا۔ اس کتاب
میں کل دس مضامین ہیں جن کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے:
اس مضمون میں ریاض احمد ادب کے نقطہ نظر کی تالش کے لیے قدیم اور جدید تصورات پر
نظرثانی کے حوالے سے بحث کرتے ہیں کہ قدیم نظریات میں عقل اور جذبات کو اہمیت حاصل تھی
جب کہ جدید نفسیاتی نظریات میں انسانی اعمال و افعال کا ایک جذباتی ردِعمل ہے۔ ادبی نقطہ نظر کی
وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے زندگی کے صحیح مفہوم متعین کرنے کی کاوش کی جس میں ایک
طرف تو انھوں نے جدید نفسیاتی نظریات کی روشنی میں داخلی اور خارجی قوتوں میں اور علم و فن
میں فرق واضح کیا تو دوسری طرف انھوں نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے الفاظ و زبان کو
آلہ اظہار قرار دیا۔ اُن کے خیال میں الشعور جو کہ جذبات و حسیات کا سرچشمہ ہے ،اس میں وقت ٔ
اور مکاں کی کوئی حد قائم نہیں۔
'' جدید نفسیاتی تحقیقات میں یہ مباحث ملتے ہیں کہ ہم لفظوں کے بغیر بھی سوچ سکتے ہیں اور اس
صورت میں جس چیز کے ذریعے ہم مختلف چیزوں کا شعور کرتے ہیں انھیں حسّی تصورات کہا جاتا
ہے۔''((٢٧
ریاض احمد الفاظ کے گھٹیا یا بڑھیا ہونے کی وجہ ان الفاظ سے وابستہ تالزمات کو قرار دیتے
ت خود عامیانہ یا اعال نہیں ہوتا بل کہ اس لفظ سے وابستہ تالزمات اسے ہیں کیوں کہ کوئی لفظ بذا ِ
اعال یا کمتر بناتے ہیں۔ان کا یہ مضمون خالصتا ً نفسیاتی نظریات پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے
لفظوں اور جملوں کی نفسیاتی توضیحات پیش کی ہیں۔
'' اس نازک فرق کے باعث غالب کی سیدھی سادھی نثر ابوالکالم کی مرصع مسجع بلند آہنگ نثر کے
مقابلے میں ادب کے تقاضوں کو بہتر طور پر پورا کرتی ہوئی معلوم ہوتی ے اور آزاد خطابت کی
سرحدوں سے آگے نہیں بڑھنے پاتے۔''()٢٨
ق جمال:
٭ جمال اور ذو ِ
اس مضمون میں فلسفہ جمالیات کے ابتدائی نظریات سے لے کر موجودہ دور کے فلسفیوں کے
نظریات پر بحث کی گئی ہے کہ کیسے ہر دور کے فلسفیوں نے ُحسن کو خیر اعال سے مالنے کی
ق جمال میں تعلق کو واضح کرنے کے لیے ُحسن کو کیفیت سعی کی ہے۔ ریاض احمد جمال اور ذو ِ
قرار دیتے ہیں۔ اس کے نزدیک جمال یا ُحسن ایک ایسی کیفیت ہے جو جبلّی عمل کے دوران میں
محرک ہے جو اس تلذذ کو مقصود
ّ ق جمال وہ ذہنی یا نفسیاتیخوشگوار حسیات کو جنم دیتا ہے اور ذو ِ
اصلی کی عدم موجودگی میں محسوس کرتا ہے۔
ریاض احمد نے اس مضمون میں ادب اور اس کے جمالیات سے تعلق پر بحث کی ہے۔ اس
سلسلے میں انھوں نے فلسفہ جمالیات کے ابتدائی فلسفیوں کے نظریات سے لے کر موجودہ دور کے
فلسفیوں کے نظریات سے استفادہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ کیسے ہر دور کے فلسفیوں نے حسن کو خیر
اعال سے مالنے کی سعی کی ہے۔یہ مضمون بھی گزشتہ مضمون کاتسلسل ہے۔
زیر نظر مضمون میں مندرجہ ذیل امور پر تفصیلی بحث کی ہے:
ریاض احمد نے ِ
کیا شعر ایک ذریعہ اظہار ہے؟ ١۔
کیا الفاظ ،احساس و تصور کے مختلف نقوش اجاگر کرتے ہیں؟ ٢۔
ریاض احمد چونکہ نفسیاتی نقاد ہیں اس لیے انھوں نے اس مضمون میں نفسیاتی پہلوؤں پر
جتنی مہارت سے گفتگو کی ،یہ انھی کا خاصا ہے۔ انھوں نے فرائڈ ،ژونگ اور ایڈلر کے نقطہ نظر
کو م ِدّنظر رکھتے ہوئے جس طرح ادب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی ،اس سے ان کے نفسیاتی
نظریات سے فہم و فراست کا ادراک ہوتا ہے۔ انھو ننے اردو شاعری اور شعرا کا تجزیہ مغربی
نفسیاتی افکار کی روشنی میں کیا اور یہ بتایا کہ کیسے ایک شعر ذریعہ اظہار بنتا ہے اور یہ کہ
کیسے الفاظ احساس و تصور کے نقوش اجاگر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بالشبہ ریاض احمد کا یہ
مضمون تنقیدی سطح پر بلند ہو کر ایک خاص علمی فن پارہ بن گیا ہے۔
٭ روایت اور جدید شاعری:
اس مضمون میں مصنف نے روایت اور جدید شاعری کے تناظر میں اپنے خیاالت کا اظہار
ایسے انوکھے انداز سے کیا ہے کہ اس سے قاری شاعری کی روایت اور شاعری کے جدید تصورات
کے بارے میں ایک نئے نقطہ نظر سے آشنا ہوتا ہے۔ ریاض احمد ،روایت اور جدید شاعری کے
حوالے سے ادب کی تین شعری روایتیں بیان کرتے ہیں:
جس کی بنیاد نیم فلسفیانہ اور نیم مذہبی ہے۔ … تصوف کی ر وایت ١۔
جس کا تعلق برا ِہ راست جنسی ہیجان سے ہے۔ … خمریات اور معاملہ بندی کی روایت ٢۔
جو سراسر ذہنی ہے۔ … فکری ،حسیاتی اور جذباتی روایت ٣۔
٭ ہیئت کا مسئلہ:
ہیئت کا مسئلہ ادب کے ان الجھے ہوئے مسائل میں سے ہے جن کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ
کیا جانا مشکل ہے کہ اس مسئلے کی نوعیت کیا ہے مگر ریاض احمد ہیئت کو فنّی اعتبار سے اظہار
کی خارجی صورت کا نام دیتے ہیں چنانچہ ان کے نزدیک ہیئت مادی اور خارجی صورتوں کے تعین
میں تصور کی صرف معروضی کیفیت ہی میں کارفرما نہیں ہوتی بل کہ ہیئت میں داخلی اور معنوی
کیفیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ اس مضمون میں ریاض احمد ادب میں ہیئت کے مسئلہ کو حل کرنے کے
لیے صوتی ،معنوی اور تالزماتی سطح پر حد بندیاں قائم کرکے اس مسئلے کو سلجھانے کی سعی
کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
٭ اسلوب:
اسلوب کی ا ہے؟… اس کے مفہوم و معنی واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ریاض احمد زبان ،لفظ،
مجاز اور شخصیت کے تال میل سے اسلوب کا ڈھانچہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورمضمون
کے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلوب ادب میں اُن محرکات یا عوامل کی نسبت سے متعین
ہوتا ہے جن کا تعلق شخصیت کے داخلی پہلو کی بہ نسبت شخصیت کے معاشرتی پہلو سے ہے۔
ریاض احمد اسلوب کی وضاحت کے لیے کالسیکی ادب سے مختلف نثر نگاروں اور شعرا کی
مثالیں پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ میر امن کی باغ و بہار اور رجب علی بیگ سرور کی فسانہ
عجائب کا موازنہ کر کے اُن دونوں کے انفرادی اُسلوب کو واضح کرتے ہیں۔ اس مضمون میں اُسلوب
کے نقطہ نظر کی وضاحت کرنے کے لیے ابوالکالم آزاد ،غالب ،محمد حسین آزاد اور دیگر مشاہیر
کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ اُن کے نزدیک ایک اچھا اور انفرادی اسلوب کسی ادبی مسلک کی
تقلید کی بجائے برا ِہ راست شخصیت میں تشکیل پاتا ہے۔
٭ متخیلہ:
متخیلہ سراسر ایک نفسیاتی نظریات پر مشتمل مضمون ہے جس میں ریاض احمد تخیل کے
لیے حافظہ اور وجدان پر بحث کرتے ہوئے تخیل کو ایک ایسا ذہنی عمل قرار دیتے ہیں جو عام
حاالت میں مخصوص جذباتی کیفیت کو بروئے کار النے کا ذمہ دار ہے۔ تخیل کی وضاحت کے لیے
ریاض احمد نفسیاتی فلسفیانہ علوم سے مدد لیتے ہیں۔
ریاض احمد کی دوسری شائع ہونے والی کتاب قیوم نظر (ایک تنقیدی مطالعہ) ہے۔ یہ کتاب
اپنے موضوع کے لحاظ سے شخصی تنقید کے حوالے سے ہے۔ اس کتاب کے کئی مضامین ''ہیئت
کے تجربے'' اور فطری شاعری سے متعلق عمومی مباحث ''نئی تحریریں''میں اور غزل کے بعض
ب ذوق میں بھی پڑھے حصے'' مہر نیمروز'' میں شائع ہوئے۔ اس کتاب کے بیشتر مضامین حلقہ اربا ِ
ب ذوق کے نام کیا۔ یہ کتاب تین گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض احمد نے اس کتاب کا انتساب حلقہ اربا ِ
حصوں پر مشتمل ہے:
١۔ نظم
٢۔ غزل
٣۔ گیت
٭ نظم:
اس کتاب کے پہلے (نظم) حصے میں ریاض احمد ،قیوم نظر کے شعری اسلوب میں جذبات
کی نوعیت پر بات کی ہے۔ انھوں نے قیوم نظر کے اسلوب کو مروجہ روش سے مختلف قرار دیا ہے۔
اس سلسلے میں انھوں نے قیوم نظر کے شعری مجموعے قندیل اورسویرا سے مثالیں بھی پیش کی
ہیں۔ قیوم نظر کی شاعری میں عشق کے تصور پر بحث کرتے ہوئے ریاض احمد نے ان کی شاعری
کو گرمی جذبات سے عاری قرار دیا ہے۔ مصنف کے نزدیک اگر قیوم نظر کی نظموں کو یکجا کر
ب گراں''،
کے دیکھا جائے تو اکثر ان میں کہانی کا سراغ ملتا ہے جیسا کہ ''مجبوری'''' ،خوا ِ
''درشتہ'''' ،محرومی'' اور ''انجام'' وغیرہ۔
جہاں تک قیوم نظر کے اُسلوب کی بات ہے تو ریاض احمد کے نزدیک قیوم نظر کی اکثر
نظموں کا فنّی حسن تکمیل کے بجائے آہنگ یا توازن اور تجلی سے نمو پاتا ہے۔ قیوم نظر کے اسلوب
کی ایک خوبی یہ بیان کرتے ہیں کہ قیوم نظر کردار فرض کر لیتا ہے لیکن انھیں کوئی نام نہیں دیتا۔
مثالً ''سپاہی کی بیوی'' کا کردار اور اسی طرح ''بنی آدم'' کا کردار۔ اُن کے نزدیک قیوم نظر کی
نظموں میں دو کیفتیں ملتی ہیں :ایک تو قیوم نظر خارجی موضوعات خصوصا ً سیاسی موضوعات کو
برا ِہ راست اپنا موضوعِ سخن بناتا ہے ،دوسری طرف اس کی داخلی کیفیات میں جذبات کی شدّت اور
تلخی میں بھی ایک خاص قسم کی گھالوٹ اور شیرینی پیدا ہو جاتی ہے۔
ریاض احمد کے نزدیک قیوم نظر کے ہاں عام طور پر عروضی وزن کی پابندی کا التزام
بحر متدارک میں ہیں ،پنگل کا
موجود ہے۔ اس سلسلے میں گیتوں میں اور بعض ایسی نظموں میں جو ِ
سہارا لیاگیا ہے۔ ریاض احمد اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ خارجی ہیت کو قیوم نظر کے ہاں صرف
ایک اضافی حیثیت حاصل نہیں بل کہ وہ نظم کے عضوی تار و پود میں کچھ اس انداز سے سمائی
ہوئی ہے کہ بقول مصنف معنوی کیفیت کے مقابلے میں زیادہ اجاگر نہیں ہونے پاتی اور قافیے کے
متعلق بھی یہی ہے۔
٭ گیت:
صہ گیت کے نام سے تحریر کیا گیا ہے جس میں ہندوستان میں گیت کی کتاب کا دوسرا ح ّ
روایت پر بحث کی گئی ہے اور اس سلسلے میں اُن راگ اور راگنیوں کا ذکر چھیڑا گیا جن پر
ہندوستانی موسیقی کی بنیاد پڑی۔ ریاض احمد کے نزدیک ہندوستان میں گیتوں کا اصل زمانہ چودھویں
صدی سے شروع ہوتا ہے جب بھگتی تحریک اپنے عروج پر تھی۔
ریاض احمد ،قیوم نظر کے گیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیوم نظر نے بھی گیتوں
کے لیے روایتی انداز کو اپنایا۔ چوں کہ گیت تشبیہ کو قبول نہیں کرتا اس لیے قیوم نظر کے گیت میں
بھی تشبیہہ کی بجائے استعارے کنائے میں بات کی گئی ہے۔ قیوم نظر گیت میں ہلکی پھلکی کیفیت کا
انداز اختیار کرتا ہے اسی لیے قیوم نظر کے گیتوں میں جذبات کا فقدان ہے کیوں کہ قیوم نظر اپنے
گیتوں میں فطرت کا استعارہ استعمال کرتا ہے۔
٭ غزل:
صہ غزل سے متعلق ہے۔ ''غزل'' کے نام سے لکھے گئے اس مضمون اس کتاب کا تیسرا ح ّ
ت حسن و عشق کے اظہار کو اہمیت حاصل میں ریاض احمد لکھتے ہیں کہ غزل میں غنائیت اور جذبا ِ
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزل ایک محسوس کیے ہوئے تاثر کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کے لیے
فطرت کا سہارا لیتی ہے۔اُن کے مطابق قیوم نظر کی غزل نے انفرادی مقام حاصل کرنے کے لیے
غزل کے لہجے کی طرف رجوع کیا۔ ان کے غزل کے لہجے میں ایک تیکھا زاویہ ،ٹیڑھا پن اور داغ
کا بانکپن نظر ہے۔ قیوم نظر کی غزلوں میں جذبات اور وارفتگی کے بارے میں ریاض احمد لکھتے
ہیں:
تالش ُحسن میں ایک وارفتگی ،یہ چیزیں ان غزلوں میں بہت کمِ ''جذبات کا وفور ،شوق کا ہنگامہ،
ملتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک سنبھالی ہوئی کیفیت ان کا امتیازی نشان ہے۔ یہ شاعر عشق کا
منکر نہیں لیکن عشق کے ساتھ دوسری اقدار کا بھی پاس رکھتا ہے۔''((٢٩
کتاب کے آخر میں قیوم نظر کا ایک شخصی خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے جس میں انھوں نے
قیوم نظر کی شخصیت کا عکس بڑے واضح اور خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ قیوم نظر کے اس
خاکے سے ہمارے سامنے ایک ایساا نسان اُبھر کر آتا ہے جس کی طبیعت اور عادات سے قاری کو
محبت سی ہونے لگتی ہے لیکن ریاض احمد نے قیوم نظر کی نہ تو بے جا تعریف کی ہے اور نہ ہی
انھیں اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ،الغرض اس خاکے سے قیوم نظر کی ایک ہمہ جہت شخصیت اُبھر
کر سامنے آ جاتی ہے۔
دہان زخم:
٣۔ ِ
ریاض احمد کی نظموں اور غزلوں کے اس مجموعے کو ڈاکٹر محمد اسلم رانا نے مرتّب کیا
اور دیباچہ بھی خود لکھا۔ ضیائے ادب پبلشرز نے جنوری ١٩٨٣ء میں اس کتاب کو شائع کیا۔ اس
شعری مجموعہ کا عنوان غالب کے اس شعر سے لیا گیا ہے:
اس کتاب میں ریاض احمد بحیثیت شاعر اور نقاد ایک تضاد نظر آتا ہے ،چونکہ تنقید میں
ریاض احمد کا رجحان نفسیاتی مکتبہ فکر کی طرف رہا اور انھوں نے خارجی موضوعات کے برا ِہ
ت راست اظہار کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا اس کے برعکس ان کی نظموں میں حاال ِ
بیرون ملک سے ،کے تاثر کی گونج بڑی واضح نظر ِ اندرون ملک سے ہو یا
ِ حاضرہ ،خواہ ان کا تعلق
ب آتی ہے۔ اس کتاب میں نظموں کی ترتیب موضوعات کے لحاظ سے کی گئی ہے۔ کچھ نظمیں آشو ِ
ب شہر کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔
ب وقت اور بعض آشو ِ
ذات کے حوالے سے ہیں۔ کچھ آشو ِ
٭ ابتدائیہ:
ابتدائیہ میں چار نظمیں شامل ہیں۔ ایک نعت اور تین سالم ہیں۔ نعت میں ہیئت کی روایت کی
نسبت آزاد نظم کی تکنیک اختیار کی گئی ہے۔ ریاض احمد نے سالم پیش کرنے کے لیے اپنامنفرد
اپنایا ہے کیوں کہ سالم عموما ً غزل کی ہیئت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن ریاض احمد نے چار چار
مصرعوں پر مشتمل بند میں پیش کیا ہے۔ تینوں سالم مناقبت کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ اس
صے میں صرف ایک نظم ''محرم میں'' پابند نظم ہے ،باقی تینوں آزاد نظمیں ہیں۔
ح ّ
ب ذات:
٭ آشو ِ
صے میں سات نظمیں لکھی گئی ہیں۔ یہ تمام نظمیں آزاد نظم کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں اس ح ّ
اور شاعر کے جذباتی یا روحانی ر ِدّعمل کی عکاسی کرتی ہیں۔ ''محبت'''' ،جسم'' اور ''کہہ مکرنی''۔
ان تینوں نظموں میں اس طلسماتی کیفیت کی شکست کا نقشہ اُبھرتا ہے جو حسن و عشق کے تصورات
سے جنم لیتی ہے۔
ب وقت:
٭ آشو ِ
ب وقت کے عنوان کے تحت لکھی گئی نظموں کی تعداد سات ہے۔ ان میں بھی آزاد نظم آشو ِ
کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نظمیں وقت کے جبر کے خالف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتی
''فسون شب'''' ،سحر ہونے تک'' ان چاروں
ِ ہیں۔ ''اس لمحے کو روکو'''' ،لمحے کے آئینے میں''،
نظموں میں ایک خوفزدہ انسان کاعکس ابھرتا ہے۔ یہ چاروں نظمیں اس بنیادی تصور کے گرد
گھومتی ہیں کہ حال کے لمحے میں ایک عافیت ہے جب یہ لمحہ گزرجاتا ہے تو گویا پاداش عمل کی
گھڑی آ جاتی ہے۔
٭ میرے اپنے:
اس عنوان کے تحت لکھی گئی نظموں کی تعداد تین ہے۔ ان تینوں نظموں ''ننھیال کاگاؤں''،
''روایت '' اور ''اجنبی'' میں نجی زندگی کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ یہ تینوں نظمیں تین نسلوں
کی کہانی پر مشتمل ہے۔ ''ننھیال کا گاؤں'' میں ''قبریں'' کسی راہی کی منتظر ہیں جو آئے ،نوحہ کناں
ہو ،پھول چڑھائے ،لیکن راہی بھٹک چکا ہے۔ ''روایت'' میں بھی اسی بھٹکے راہی کا بالوا ہے اور
''اجنبی'' میں آنے والی نسلوں کا نوحہ ہے۔
٭ رشتے:
صے میں شامل پہلی نظم ''کشمیر'' ہے جس میں کشمیر میں بسنے والی ماں ،بہن اور اس ح ّ
بیوی کی زندگی کی درد بھرے انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔ باقی کی ساری نظمیں قومی اور سیاسی
کشمکش کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔ ان کا موضوع مشرقی پاکستان اور ١٩٧١ء کی جنگ ہے۔
ان نظموں میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا مرثیہ ہے اور دشمن سے انتقام لینے کا جذبہ نظر آتا
صے میں چھ نظمیں شامل ہیں جوآزاد نظم کی تکنیک میں لکھی گئی ہیں۔ہے۔ اس ح ّ
٭ شہ ِر آشوب:
٭ تغزل:
جہاں تک غزلیات کا تعلق ہے تو اس میں ریاض احمد نے روایتی انداز کو اپنایا ہے ،اس
صے میں تیرہ غزلیں شامل ہیں۔
ح ّ
٤۔ ریاضتیں:
ریاضتیں میں کل تیرہ ابواب شامل ہیں جن کی مختصر تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
اس مضمون میں ریاض احمد نے اردو نظم کے نئے تصور اور موضوعات پر بات کی ہے۔
دور جدید تک کے تمام شعرا کے ُرجحانات اور نظم کے ارتقا پر
موالنا محمد حسین آزاد سے لے کر ِ
بحث کی ہے۔ ان کے مطابق سرسید تحریک کے زیراثر مندرجہ ذیل نئے تصورات سامنے آئے ہیں۔
اس مضمون کے آخر میں اقبال کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کو
موضوعاتی حوالے سے مزید وسعت دی اور فطرت ،کائنات اور انسان کو موضوع بنا کر نیم فلسفیانہ
نظمیں لکھیں۔ ریاض احمد نے تشبیہہ و استعارہ پر بھی بات چیت کی ہے اور بتایا کہ اب تشبیہات اور
استعارات کی جگہ حسّی تصورات نے لے لی ہے۔
اس مضمون میں اردو شاعری کے پس منظر پر بات کی گئی ہے کہ جنگ آزادی کے بعد
سماجی اور سیاسی حاالت نے اردو شاعری کی تشکی ِل نو کیسے کی۔ خاص طور پر جنگ آزادی کے
بعد لوگوں کے ذہنی ُرجحانات میں جو تبدیلی آئی اس پر گفتگو کی گئی ہے۔ ریاض احمد کے مطابق
جدید شاعری میں سیاست اور جنس کا امتزاج عجیب نظر آتا ہے کیوں کہ اس دور میں سیاسی رنگ
کے ساتھ حسن و عشق کے معامالت کو بھی زیادہ واضح انداز میں بیان کیا گیا۔ مصنف کے خیال میں
اس دور کی نظموں میں شکوہ الفاظ تو بہت ہیں لیکن حقیقی جذبے کا فقدان ہے۔ اس مضمون کے آخر
میں جدی د شاعری کے اسلوب اور ہیئت کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور نظم ،آزاد نظم ،سانیٹ اور غزل
کی ہیئت میں فرق کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جن شعرا کی مثالیں پیش کی ہیں ان میں اختر
شیرانی ،فیض احمد فیض ،ن۔م راشد ،شاد عارفی ،حفیظ ،مختار صدیقی کے نام قابل ذکر ہیں۔
اس مضمون میں ریاض احمد نے شعرا کے قبل از وقت زوال کا ذکر کیا ہے اور قدیم اور
جدید شعرا کا موازنہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنف نے اردو شاعری کے قدیم اور جدید اسالیب
میں ہیئت اور مزاج دونو ں کے فرق پر بھی بحث کی ہے۔ وہ نئے شعرا کی تخلیقی صالحیتوں کے
تصوف کو قدیم شاعریّ سست پڑنے پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ مضمون کے آخر میں مصنف
کا اہم موضوع قرار دیتے ہیں۔
اس مضمون میں ریاض احمد کا موقف ہے کہ قدیم روایات کو کھو کر جدید شاعری نے جہاں
خود کو نف ِس مضمون اور موضوع کے حوالے سے بوجھل زنجیروں سے آزاد کر لیا ہے وہاں ابتدا
میں نئے شعرا سے بھی کچھ غلطیاں ہوئیں پھر وہ شاعری میں آورد ،تصنّع اور دیگر موضوعات پر
بحث کرتے ہیں جن کا تعلق خارجی دنیا سے ہے۔ ان کے خیال میں جدید شعرا نے شاعری کو زبان و
بیان کے خا رجی اوصاف تک محدود کر دیا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ ان کی شاعری نہایت مختصر عمر
میں ختم ہو گئی۔ آخر میں وہ کچھ ایسے شعرا کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن کے شعری سرمائے میں قدیم
اور جدید دونوں رنگ موجود ہیں۔ اس سلسلے میں وہ اقبال ،اکبر آلہ آبادی ،شاد عارفی اور علی منظور
کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
قدیم اور جدید شاعری کا جنسیات کے حوالے سے موازنہ کرتے ہوئے ریاض احمد نے یہ
ت خود کوئی موضوع نہیں بل کہ بعض دوسرے موضوعات کی ایک نتیجہ نکاال ہے کہ جنسیات بذا ِ
فروعی یا ضمنی کیفیت کا نام ہے۔ اس مضمون میں وہ اس بات کی تحقیق کرتے نظر آتے ہیں کہ
شاعری میں جنسی رویوں کا دخل کن بنیادوں پر ہوتا ہے۔ ان کے مطابق شاعرانہ تصور اور اس سے
منسلک رومانوی خیاالت اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب جنسی خواہش کو دبا دیا جاتا ہے۔ ریاض احمد
اردو شاعری میں جنس کے متعلق تین مختلف نظریے بیان کرتے ہیں:
جس کا احساس معاملہ بندی کے اشعار میں ملتا ہے۔ جنسی محبت کا نظریہ … ٣۔
اس مضمون میں ١٨٥٧ء کے بعد کے اردو رجحانات پر بحث کی گئی ہے۔ سرسید تحریک کن
حاالت میں پروان چڑھی؟ سرسید دور کے تنقیدی نظریات کیسے تھے؟ سرسید اور ان کے رفقا نے
اخالقیات اور مذہبی ُرجحانات کی ترویج کے لیے کن بنیادوں پر کام کیا؟ مصنف نے سرسید تحریک
کے تحت پروان چڑھنے والے نقادوں حالی ،شبلی اور آزاد کے تنقیدی رویوں پر بحث کرتے ہوئے
حالی کی تنقید کو اخالقی قرار دیا جب کہ شبلی کے تنقیدی نظریات کو جمالیاتی تنقید کے حوالے سے
بیان کیا اور آزاد کی تنقید کے مقصد کو خالص ادبی اور علمی کہا۔ مضمون کے آخر میں ریاض احمد
نے تخیل ،فطرت اور زبان و بیان کے حوالے سے بھی بحث کی ہے۔
اس مضمون میں ریاض احمد نے اردو تنقید کے جدید رجحانات پر بحث کی۔ ریاض احمد جدید
اردو تنقید کا سہرا سرسید تحریک کے سر باندھتے ہیں ۔اُس دور میں اٹھنے والی تمام تحریکوں میں
انداز فکر۔ ریاض احمد کے نزدیک سرسیّد تحریک نے اردوِ ایک چیز مشترک تھی اور وہ ہے مغربی
ادب کو صرف نئے موضوعات ہی فراہم نہیں کیے بل کہ اس تحریک نے نئے تنقیدی اصول بھی
وضع کیے۔ اس دوران میں اصالحی تحریک نے بھی رنگ دکھایا۔ شبلی نعمانی ،الطاف حسین حالی
اور مولوی نذیر احمد نے اخالقی اور اصالحی انداز اپنایا۔ اس مضمون کے آخر میں ریاض احمد نے
جدید اردو تنقید کے تناظر میں تنقید کے تین مختلف زاویوں پر بحث کی ہے:
یہ مضمو ن پہلے مضمون کا تسلسل ہے۔ ریاض احمد کے مطابق جب جدید اُردو تنقید اصالحی
دور سے گزر کر بیسویں صدی میں داخل ہوئی تویہ دور اشتراکیت کا دور تھا اسی لیے انھوں نے
''انگارے'' کی اشاعت کو اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا بانی کہا۔ اس ضمن میں انھو ننے ترقی
پسند مصنفین کے اجالس میں خطبہ صدارت کی بھی مثال دی اور بتایا کہ ترقی پسند نقطہ نظر سے
ادب کا موضوع زندگی کا وہ مخصوص تصور ہے جو اشتراکی نظام نے ہمیں دیا۔ اس کے عالوہ اس
مضمون میں انھوں نے ترقی پسندنقادوں کے قول ''کہ وہ سائنٹیفک تنقید کے علمبردار ہیں'' پر بھی
صوں میں تقسیم کرتے ہیں:
بحث کی۔ریاض احمدترقی پسند تنقید کو موضوع کے لحاظ سے تین ح ّ
ایسے مضامین جن میں اشتراکی تنقیدی نظریات کی تشریح و توضیح کی گئی ہو۔ )(i
) (iiایسے مضامین جن میں ترقی پسند اصول اور معیار کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی
جاتی ہے۔
ایسے ترقی پسند تنقیدی مضامین جن میں اردو ادب پر تنقید کی جاتی ہے۔ )(iii
مضمون کے آخر میں انھوں نے ممتاز حسین ،احتشام حسین اور مجنوں گورکھپوری کے تنقیدی
نظریات کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
ب ذوق میں پڑھا ،اُن کے مطابق نفسیاتی ریاض احمد نے یہ مضمون ١٩٥٦ء میں حلقہ اربا ِ
تنقید ہمیشہ یہ دیکھنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ کون سے نفسیاتی محرکات ہیں جن کی بدولت ایک
معرض وجود میں آتا ہے۔ اردو ادب میں نفسیاتی تنقید فرائڈ کے نظریہ تحلی ِل نفسی
ِ نثر پارہ یا فن پارہ
کی بدولت آئی۔ ریاض احمد کے مطابق فرائڈ نے انسانی ذہن کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک شعور
اور دوسرا الشعور اور ان دونوں کے درمیان ایک عبوری طبقہ ہے جسے تحت الشعور کہاگیا۔ اس
مضمون میں ریاض احمد ،ژونگ کے نظریات کو فرائڈ سے زیادہ بہتر بتاتے ہیں کیوں کہ ژونگ کے
نظریات نفسیات کی تفہیم عطا کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق اردو ادب و نقد میں نفسیات کو باقاعدہ
متعارف کروانے کا سہرا میرا جی کے سرہے۔ رفیع الزماں اور وجیہہ الدین احمد نے بھی نفسیاتی
تنقید کے حوالے سے کچھ کام کیا مگر بقول ریاض احمدان کی تنقید میں نفسیاتی تنقید باقاعدہ موضوع
نہ تھی ۔اسی لی ے انھوں نے نفسیاتی تنقید کو قدیم ادبی روایات اور مذہبی ثقافتی اقدار کے پہلو بہ پہلو
جانچنے پر زور دیا۔
٭ اقدار کا مسئلہ:
ب ذوق الہور میں پڑھا گیا۔ اس میں ریاض احمد نے اقدار کے مسئلہ کویہ مضمون حلقہ اربا ِ
اخالقیات کا مسئلہ قرار دیا ہے اور اقدار کی دو اقسام بتائی ہیں۔ ایک منفی اقدار اور دوسری مثبت
اقدار۔ انھوں نے مثبت اقدار کا نام ُحسن یا عشق رکھا جب کہ منفی اقدار کو رندی کے نام سے منسوب
کیا۔
٭ وجودیت:
اس مضمون میں ریاض احمد نے وجودیت کے تین نقطہ نظر بتائے ہیں۔ پہال باطنی ،دوسرا
داخلی ،تیسرا روحانی۔ پھر ان نظریات پر مختلف مفکرین کے نظریات کے تناظر میں بحث کی ہے۔
آگے چل کر انھو ننے فلسفہ وجودیت اور کالسیکی فلسفے کے بنیادی فرق کی وضاحت پیش کی ہے
کہ جذبات و کیفیات کی دنیا میں ہر چیز اعتباری ہوتی ہے اسی لیے داخلی حقیقت جس کا وجودیت
دعوی کرتی ہے ،سوائے اس کے کہ ایک انتشار کی کیفیت پر ختم ہو اور کوئی صورت اختیار نہیں ٰ
کرتی اسی لیے ابتدا میں انسانی ا نا یا خودی کے ارتقا کے جن نظریات کا ذکر آیا تھا وہ مکمل طور
پر فلسفہ وجودیت سے اپنی راہ الگ کر لیتے ہیں۔
٥۔ دریاب:
ریاض احمد کے تنقیدی مضامین کے اس مجموعے کو ڈاکٹر اسلم رانا نے مرتّب کیا اور
پولیمر پبلشرز نے فروری ١٩٨٦ء میں شائع کیا۔ عام طور پر ریاض احمد کو نفسیاتی نقاد ہی کی
تنوع یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نفسیاتی
حیثیت سے مانا جاتا ہے لیکن اس مجموعے میں موضوعات کا ّ
علم عروض پر بھی دسترس حاصل ہے۔ اس کتاب میں علم معانی و بیان اور ِ
نقاد تو ہیں ہی مگر انھیں ِ
معری اور آزاد نظم کی ہیئت کو عروض کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ٰ نظم
مصنف نے ِ
ساتھ انھوں نے غزل خصوصا ً رباعی کے مطالعے میں بھی بعض نئی جہتوں کی نشان دہی کی ہے۔
اس کتاب میں کچھ مضامین شعرا کے تحلیل نفسی کے حوالے سے بھی ہیں۔ ان شعرا میں میر ،غالب،
اقبال ،شہرت بخاری اور ن۔م راشد شامل ہیں۔
اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی نے لکھا جنھوں نے ریاض احمد کو اردو تنقید
خصوصا ً نفسیاتی تنقید کا معتبر نام قرار دیا۔ اس کتاب کے سولہ ابواب ہیں ،جن کا مختصر تعارف
مندرجہ ذیل ہے:
علم معانی
ِ ٢۔
علم بیان
ِ ٣۔
علم معانی و بیان کی اصطالحات اکثر اس وجہ سے غلط فہمی پیدا ریاض احمد کے مطابق ِ
کرتی ہیں کہ وہ عام روایت اور فلسفیانہ نظام کے تحت بنائے گئے ہیں۔ انھوں نے نجم الغنی اور دیگر
ماہرین کے نظریات کو بھی موضوعِ سخن بنایا ہے۔ اس سلسلے میں ریاض احمد کا مؤقف ہے:
سر نو نئی اصطالحات اور نئے اسالیب''اس امر کی ضرورت ہے کہ ان تمام مباحث کو از ِ
کے سانچے میں ڈھال دیں جو جدید علمی تحقیقات اور تقاضوں کا ساتھ دے سکیں۔''((٣٠
اس مضمون مینریاض احمد نے اس نکتہ پر بات کی ہے کہ شعر کا وزن عروض کے مقرر
کردہ اوزن کے عالوہ بھی ممکن ہے یا نہیں۔ وزن اور شعر کی بحث کی ابتدا قرآنی آیات سے کی ہے۔
انھوں نے علم عروض کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے نظم ،غزل ،آزاد نظم کے مصرعوں،
بحروں اور قافیہ و ردیف پر بھی بحث کی ہے۔ انھوں نے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کے لیے
ماہرین عروض کی آراء کو بھی مد
ِ مختلف شعرا کے کالم کے نمونے بھی پیش کیے ہیں اور مختلف
نظر رکھا ہے جن میں نمایاں نام نجم الغنی اور کامل جونا گڑھی کے ہیں۔
٭ رباعی:
اس مضمون میں رباعی کیا ہے اور رباعی کی ابتدا کے بارے میں تفصیالً گفتگو کی گئی ہے۔
ریاض احمد نے مختلف نامور ماہرین کی آرا کو مدنظر رکھتے ہوئے رباعی کے فن پر بحث کی ہے۔
مروجہ بحروں پر حافظ محمود شیرانی کے نظریات کے تحت بحث کرتے ہوئے ریاض ّ رباعی کی
احمد رباعی اور قطعہ میں فرق واضح کرتے ہیں۔ آخر میں نامور شعرا کی لکھی ہوئی رباعیات کی
تفصیل بیان کی ہے اور رباعی کے فن پر بحث کرتے ہوئے مصنف کا مؤقف ہے کہ رباعی کا فن بہت
نازک ہے اس لیے ہمیں اپنی ادبی روایت کو کسی صورت فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
٭ غزل کا مطالعہ:
غزل کی ابتدا ،اس کی اہمیت اس کے موضوعات پر ریاض احمد نے بحث کرتے ہوئے غزل
کو ثقافت اور تہذیب کا ایک تخلیقی ادارہ قرار دیا ہے اور کہا کہ کالسیکی موسیقی کے آداب سے
غزل کی مجموعی ہیئت کو خاص نسبت ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ غزل ہمیشہ ایک رنگ یا ایک ہی
بحر میں نہیں لکھی گئی۔ مختلف ادوار میں داخلیت و خارجیت ،سطحیت ،معنویت اور لفظ پرستی غزل
بام عروج پر لے گئی اور کبھی زوال کی طرف۔ ایہام گوئی بھی اسی روایت کا حصہ ہیں۔ کو کبھی ِ
وقت گزرنے کے ساتھ انسان جب مادی اقدار کے احساس سے دوچار ہوا تو پھر حسن و عشق کی
غم روزگار کو بھی موضوعِ غزل بنایا گیا۔ اس ضمن میں ریاض احمد نے مختلفبجائے سیاست اور ِ
شعرا کی مثالیں پیش کی ہیں۔
معر ٰی کی ترویج:
نظم ّ
ِ ٭
ریاض احمد کے مطابق قدیم شعرا دقیق اور وسیع مضامین کو ایک شعر میں بند کر دیا کرتے
تھے اور قافیہ و ردیف گویا اس پر ایک مہر ہوا کرتی تھی۔ جب کہ جدید شعرا چھوٹے چھوٹے
مضامین کو پھیال کر ان سے ایک پوری نظم تخلیق کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض احمد نے
ب نظم کو نفسیاتی اور ذہنی تغیر کا نتیجہ قرار دیا۔
جدید اسلو ِ
٭ غلطیہائے مضامین:
غلطیہائے مضامین میں جدید شاعری ،ناول ،افسانہ اور تنقید پر اعتراضات کیے گئے ہیں کہ
کالم
ِ کیسے جدید شعر وزن اور موسیقیت کھو بیٹھتا ہے۔ ریاض احمد شکوہ کرتے ہیں کہ جب سے
زبان شاعر کار واج ہوا ہے تو شعر جب شاعرکی زبان سے سنا تو شعر یا پھر ضیا محی ِ شاعربہ
سرتال درست ،خود پڑھا تو ہر قدم پر ٹھوکر کھائی۔ ان حاالت کا ذمہ دار وہ ادبی
الدین کی زبان سنا تو ُ
انجمنوں کو بھی سمجھتے ہیں کہ آج کل ادبی انجمنوں میں شاعری ،افسانے یا ادبی تنقید پر بحث کی
رویوں کےبجائے سیاست پر بحث ہوتی ہے۔ مضمون کے آخر میں مصنف نے شعرا کے بدلتے ہوئے ّ
محرکات پر بھی بحث کی ہے۔ ان کے مطابق اِس دور میں مشین نے شاعر کے خالف سازش کی ہے۔
سائنسی ایجادات کی سازش کی توضیح ریاض احمد یوں پیش کرتے ہیں کہ اس نے شاعر کی شخصیت
کو درمیان سے نکال دیا ہے۔ موجودہ دور میں دیکھا جائے تو قاری اور شاعر کے درمیان یک طرفہ
رشتہ رہ گیا ہے اور یک طرفہ رشتوں کی دنیا جبر کی دنیا ہوتی ہے۔ ریاض احمد نے شعرا کے ساتھ
اظہار افسوس کیا ہے جو ان کی
ِ اختیار کیے جانے والے رویے اور مشاعروں کے مفقود ہو جانے پر
ادب سے دلچسپی کا غماز ہے۔
دوران جنگ جو ادب تخلیق ہوتا ہے ،اس کا نفسیاتی پس منظر بیان کیاِ ریاض احمد نے یہاں
ہے اور اسے جنگ کے دنوں کا صحافتی یا جنگی ترانوں کا ادب قرار دیتے ہوئے یہ توضیح پیش کی
ہے کہ جنگ کے دوران میں لکھے گئے ترانوں یا نغموں میں تاثیر انگیزی کی ہمہ گیر کیفیت موجود
ہوتی ہے۔ مثالً مہربان غازیو ،ننگیاں تلواراں نوں ،اینہاں راہواں دی مٹی ،ہم اس لہو کا خراج لیں گے
وغیرہ ایسی تخلیقات تھیں جنھیں ہر طبقے میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی ،اس لیے ہم جنگ کے
دوران میں یا اس کے بعد گیت یا ترانہ تو لکھ سکتے ہیں لیکن افسانے کا کردار تخلیق نہیں کر سکتے۔
یہاں تک کہ کئی دہ ائیاں گزرنے کے بعد بھی ہمارا ادب اس قابل نہیں ہوا کہ اس بیتی ہوئی واردات کو
تخلیقی ادب مینسمو سکے اور کوئی بڑا ناول یا افسانہ تخلیق کر سکے۔
مضمون کے آغاز میں ریاض احمد نے ادب کے حوالے سے دو سوال اٹھائے ہیں۔ ایک تو یہ
کہ کیا کوئی ایسی چیز بالفعل موجود ہے جسے ہم ادب کے نام سے پکارتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ کیا
اس کا مسمی اپنی ذات کی حد تک کسی نزاع یا خلفشار کا شکار ہو چکا ہے؟… اپنی بحث کوسمیٹتے
ہوئے مصنف موقف اختیار کرتے ہیں کہ اردو ادب میں اگر ہیئت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس
صد ی کے آغاز تک خواص و عوام دونوں نظم اور نثر کی ہیت کو واضح طور پر جانتے تھے۔ اسی
طرح نثر کے بھی بعض آداب وضع ہو چکے تھے۔ اُن کے مطابق موجودہ دور میں ادب کا جائزہ تین
سطحوں پر لیا جاتا ہے:
ریاض احمد ادب پ ر مندرجہ باال پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس
فقدان قدر اور فنّی بے راہ روی سے
ِ عہد میں ادب کا مفہوم ہر تین سطحوں پر ایک ذہنی انتشار،
عبارت ہے۔ اس انتشار سے اگر موجودہ دور کا قاری سمجھوتہ کر لے تو بہتر ورنہ احمقوں کی جنت
سے نکلنے کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔
٭ میر کا مطالعہ:
ریاض احمد نے اس مضمون میں میر کی پیدائش سے لے کر وفا ت تک کے تمام حاالت کو
مدنظر رکھتے ہوئے میر کی شخصیت کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے ساتھ کہ ان کی شاعری کی
نفسیاتی ،جمالیاتی اور فلسفیانہ بنیادوں پر بھی بات کی اور شاعری کی جمالیاتی قدروں اور ان سے پیدا
''ذکر میر'' کے حوالے
ِ ہونے والے تاثرات اور مسرتوں کو نفسیاتی حوالوں سے پرکھا۔ مصنف نے
احساس
ِ سے ان کے والد میر امان ہللا کے کردار کا نفسیاتی جائزہ بھی لیا اور اس کے بعد میر کے
احساس برتری کا ذمہ دار اُن کے جذبہ مادہ
ِ برتری پر روشنی بھی ڈالی۔ ریاض احمد میر کے جذبہ
پرستی یا باپ سے نفرت کا جذبہ قرار دیتے ہیں۔بزرگی ،بڑائی اور اتھارٹی کے جو تصورات بچہ
حکام وقت ،امیروں ،وزیروں اور ِ اپنے والد سے منسوب کرتا ہے ،وہی ذرا وسیع ماحول میں،
بادشاہوں کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ،اسی وجہ سے میر صاحب تمام امرا کے ساتھ ناز سے
پیش آتے رہے او راپنے تقابل کو خاطر میں نہ الئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاض احمد نے بڑے
اچھے طریقے سے ایڈپس کمپلیکس کے ذریعے میر کی تحلیل نفسی کی ۔
٭ غالب:
یہ مضمون غالب کی صد سالہ برسی کی تقریب کے موقع پر لکھا گیا۔ اس میں غالب کی
شاعری کا فکری اور فنّی جائزہ لیا گیا ہے۔
اس مضمون میں اقبال کی غزل ،نظم ،قصیدہ کے موضوعات اور تکنیک کو موضوعِ بحث
بنایا ہے۔ اقبال کے تصوف فلسفہ خودی ،آخرت کا تصور ،اخالقی ،مذہبی اور ملّی موضوعات کو
شاعرا نہ وجدان سے تعبیر دی ہے۔ اسی طرح اقبال کے فن کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے
ب
ریاض احمد نے ان کی شاعری سے متعدد مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ خاص طور پر شکوہ ،جوا ِ
شکوہ ،شمع اور شاعر ،اس ضمن میں نمایاں نظمیں ہیں۔ اقبال کے مختلف تصورات اور اقبال کے
بارے میں دیگر مشاہیر کی رائے بھی اسی مضمون میں شامل ہے جس سے ان کے تصورات ،ان کی
شاعری کی مختلف جہتیں اور اقبال کی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ مضمون کے آخر میں حالی،
انداز بیان سے موازنہ کیا گیا ہے۔ ریاض
ِ انداز بیان کا اقبال کے اسلوب اور
ِ شبلی ،آزاد کے اسلوب اور
تصور فن دونوں کی منزل ملت ہے۔ فرد کی بجائے ان کاِ تصور خودی اور ِ احمد کے مطابق اقبال کا
مخاطب نوعِ انسانی ہے۔ اس بیان سے اقبال کے متعلق ایک نئی رائے سامنے آتی ہے۔
''اندازے'' مجنوں گورکھپوری کاد وسرا تنقیدی مقاالت کا مجموعہ ہے۔ اس میں کل آٹھ مضامین
شامل ہیں ،جن میں ریاض ،مصحفی ،ذوق ،حالی اور غالب کے کالم پر تبصرہ ہے۔ ریاض احمد،
گورکھپوری کے بیشتر مضامین کو تنقیدی کہنے کی بجائے تاریخی کہتے ہیں اور اُن کے اُسلوب کو
بھی غیرمانوس اور بوجھل قرار دیتے ہیں۔
٭ ن۔ م راشد:
ن۔ م راشد پر یہ حیات ہللا انصاری کی مختصر کتاب ہے جس پر ریاض احمد نے بڑی دیانت
داری اور خلوص سے تبصرہ کیا ہے۔ اس کتاب کے دیباچے سے لے کر اس کے آخری صفحے تک
پیش نظر تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ راشد جیسے کو انصاری صاحب کے ارشاد کے ِ
نرالے شاعر کے متعلق لکھتے وقت انصاری صاحب اس کے شاعرانہ اسلوب اور اس کے فنّی
امکانات کو بالکل نظرانداز کر جاتے ہیں۔ انصاری صاحب نے کتاب کا آغاز ایک ایسے مضحکہ خیز
طریقے سے کیا ہے کہ مصنف کی سنجیدگی کے متعلق شبہ ہونے لگتا ہے۔ ریاض احمد نے اس کتاب
پر کڑی تنقید کی ہے اور اپنی رائے کو مدل ّل انداز سے پیش کر کے قارئین پر سوچ کے نئے در َوا
کیے ہیں۔
ق آبرو:
٭ طا ِ
اس مضمون میں ریاض احمد نے شہرت بخاری کی شاعری کو فکری و ف ّنی ہر دو انداز سے
پرکھنے کی سعی کی ہے۔ ان کے مطابق شہرت کے ہاں جذبات کی آنچ نرم سہی لیکن یہ میٹھا میٹھا
ساسوز و گداز ،مستی اور مصنوعی جذباتیت کے غلو سے یقینا زیادہ دل پذیر ہے۔ اس سے شہرت کے
ضد ہے۔ شہرت کی غزل کے ہاں ایک سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے جو جذباتیت اور چھچھورا پن کی ِ
فنّی حوالے سے انھوں نے ایسے انکشافات کیے ہیں جو کہ صرف ریاض احمد جیسے نقاد کا خاصا
ہے۔
٦۔ تصدیق:
یہ ریاض احمد کا کتابی شکل میں شائع ہونے واال آخری تنقیدی مجموعہ ہے۔ یہ کتاب ١٩٩٤ء
میں پولیمر پ بلشرز نے شائع کی۔ اس کو نہ صرف ڈاکٹر اسلم رانا نے مرتب کیا بل کہ اس کا مقدمہ
بھی ''اعترافات'' کے عنوان سے انھوں نے ہی لکھا۔ اس کتاب کے بیشتر مضامین مختلف ادبی رسائل
میں شائع ہو چکے تھے۔اس میں کل تیرہ تنقیدی مضامین شامل ہیں جن کی مختصر تفصیل مندرجہ ذیل
ہے:
ب ذوق میں ریاض احمد کا سب سے پہال پڑھا جانے واال مضمون ہے۔ یہ مضمون حلقہ اربا ِ
اس میں انھوں نے مختلف قوموں اورتہذیبوں میں عورت کے مقام و مرتبے پر بات کی ہے اور نتیجہ
نکاال ہے کہ ماحول کا فرق موجود نہ ہو تو مغربی معاشرے کی عورت بھی انھی زنجیروں میں
جکڑی ہوئی نظر آتی ہے جو مشرقی معاشرے میں عورت پر حاوی ہیں۔ بہ ظاہر مغرب میں عورت
آزاد اور مسرور نظر آتی ہے لیکن اس کے جذبات جابرانہ پابندیوں سے ایسے ہی نیم مردہ ہو رہے
ہیں جیسا کہ مشرق میں۔ مغربی عورت کا مقام متعین کرنے کے لیے انھوں نے دیگر تہذیبوں کے
حوالے بھی پیش کیے ہیں۔ مثالً چینی تہذیب اور یونانی تہذیب وغیرہ۔ اس ضمن میں انھوں نے مختلف
شعرا کے کالم کے حوالے بھی دیے ہیں اور آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔
''اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ جہاں تک ماحول کی عام آزادی کا تعلق ہے ،مغربی عورت ،مشرقی
عورت کی بہ نسبت قدرے مختلف مقام پر نظر آتی ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ مغرب میں عورت
نکتہ نگاہ سے دیکھا جا سکتا
ٔ کا تخیل مشرق سے جدا کچھ اور ہے۔ ہاں جنسی مسئلہ کو کسی مختلف
ہے۔ ماحول کا فرق موجود نہ ہو تو مغربی عورت بھی انھیں زنجیروں میں جکڑی ہوئی نظر آئے گی
جو مشرق میں عورت پر حاوی ہیں۔''((٣١
اردو ہزل گوئی کی ابتدا کے ساتھ ہزل اور مزاح نگاری میں فرق بیان کرتے ہوئے ریاض
احمد نظیر اکبر آبادی کو اپنے وقت کا بہترین ہزل گو شاعر قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے نظیر کی
شاعری کو نہ صرف ان کے عہد کے لیے اجنبی کہا بل کہ آنے والے نقادوں نے بھی ان کی نظموں
کی غلط تصویر مرتّب کی۔ ریاض احمد نے نظیر کی شاعری کی جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ یہ
ہیں کہ انھوں نے جزئیات کی تصویر کشی میں کمال دکھایا ہے۔ ریاض احمد جنسی مکروہات سے
ب
نظیر کی نظموں کا دامن پاک قرار دیتے ہیں۔ سوائے چند نظموں کے جیسے خواب کا طلسم ،خوا ِ
عشرت اور ہولی کی بہار وغیرہ۔اُن کے مطابق نظیر ایک ایسا شاعر تھا جس نے اپنی نظموں میں
مروجہ صورتوں سے کبھی انحراف نہ کیا۔ ردیف اور قافیہ کے عالوہ اس نے جس صنف کو ہیئت کی ّ
اختیار کیا ،اس کے قوانین کو پوری طرح نبھایا۔ نظیر کی شاعری میں سم و تال اور گیت کا احساس
مروجہ اسلوب سے ّ بھی بہت قوی اور واضح ہے۔ آخر میں ریاض احمد لکھتے ہیں کہ نظیر نے
انحراف کرتے ہوئے ایسے اسلوب کی بنیاد ڈالی جس میں خارجی تصویر لفظی پیکروں میں ڈھل کر
روشن ہو جاتی ہے۔
٭ جمالیاتی تنقید:
ریاض احمد جمالیاتی تنقید کو نفسیاتی تنقید کا ایک پہلو قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق جمالیات
محرکات اور عوامل کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے جو نفسیاتی طور پر ہمیں اشیا کے اس ّ میں ان
وصف سے متاثر ہونے کی صالحیت بخشتے ہیں ،جسے ہم ُحسن کہتے ہیں۔ ریاض احمد جبلت اور
جذبات کو جمالیاتی تنقید کا موضوع قرار دیتے ہوئے جمالیاتی تنقید کے پس منظر میں مندرجہ ذیل
امور پر بحث کرتے ہیں:
کیا تنقید کے دبستان میں جمالیاتی تنقید کا عنصر موجود ہے؟ ٣۔
اُن کے نزدیک خارجی معیار جدید دور میں پہنچتے پہنچتے ترقی پسند تحریک کے جدلیاتی
نظریات میں اُلجھ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی نقاد ادب پارے کی بجائے فن کار کی ذات کی
تفتیش میں کھو گیا ہے۔ اس ضمن میں ریاض احمد نے مختلف تحریکوں کے رجحانات جیسے سرسید
ت حال کا جائزہ لیتے ہوئے
تحریک ،رومانوی تحریک ،ترقی پسند تحریک اور اس کے بعد کی صور ِ
جمالیاتی تنقید پر روشنی ڈالی ہے جس سے جمالیاتی تنقید کے بارے میں مصنف کے نکتہ نظر کی
بڑے احسن طریقے سے وضاحت ہوتی ہے۔
یہ مضمون خود کالمی ) (Interior Monologکی شکل میں لکھا گیا ہے۔ اس مضمون میں
ریاض احمد نے خود سے ہی دس سوال کیے ہیں اور پھر ان کے تفصیل سے جواب بھی دیئے ہیں
جس سے بہت ساری وضاحتیں سامنے آئی ہیں اور ریاض احمد کے خیاالت قارئین پر واضح ہوئے
ہیں۔
٭ وہ جو نقاد تھا:
تنقید کیا ہے؟… اس کا آغاز کیسے ہوا؟… نقاد کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟… ترقی
پسند ادیب کن زاویوں سے سوچتا ہے؟ اردو نفسیاتی نقاد کن کن مغربی نقادوں سے استفادہ کرتے
ہیں؟… اس مضمون میں ریاض احمد نے مندرجہ باال تمام امور پر بحث کی ہے۔ علم ،قواعد کی اہمیت
اور ضرورت کو واضح کرنے کے لیے مضمون نگار نے عالمہ تفتا رانی کی حکایت بیان کی ہے
اور اس حکایت کی مدد سے ایک ایسے نقاد کا تعارف کروایا ہے جو اُردو تنقید کے مختلف مراحل
سے گزرتا موجودہ دور میں پہنچتا ہے۔ یوں ریاض احمد ایک نقاد کے پردے میں اردو ادب و تنقید کا
ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں۔
٭ مطالعہ کے نقوش:
اس مضمون میں ریاض احمد نے اپنے بچپن کے مطالعہ کے شوق سے قاری کو آگاہ کیا ہے
آرائش محفل اور فاطمہ کا الل جیسی ُکتب نے اُن میں مطالعہ کی عادت کو ِ داستان امیر حمزہ،
ِ کہ
راسخ کیا۔ سکول اور کالج کے زمانے میں مطالعہ کتب کا شوق ،جنوں اختیار کر گیا۔ کالج کے بعد
مالزمت کے سلسلہ میں ال ہور قیام کے دوران پنجاب پبلک الئبریری سے بھرپور استفادہ کیا اور
انگریزی میں نفسیات اور تنقید کے شعبوں پر توجہ مرکوزرکھی۔ اس دوران میں فرائڈ ،ژونگ ،ایڈلر،
قصہ مختصر انھوں نے کالسیکی ادب خواہ ٔ ایلس ،ولیم جیمز ،پیالک کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔
انگریزی کا ہو یا اردو کا ،سے لے کر جدید ادب کی تمام نمایاں کتب کا مطالعہ کیا۔
یہ مضمون الزبتھ ڈریو ) (Elizabeth Drewکی کتاب " "Discovering Poetryسے
ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ریاض احمد نے مصنفہ کے استدالل کو برقرار رکھا ہے لیکن
مثالیں ا نگریزی کی بجائے اردو شاعری سے دیں جن میں اقبال ،تاثیر ،قیوم نظر ،یوسف ظفر ،آتش،
حالی ،ذوق ،غالب اور ن۔م راشد کے نام قاب ِل ذکر ہیں۔ شعرا کے عالوہ مختلف اردو نقادوں کے حوالے
سرفہرست ہے۔ بھی اس مضمون میں مل جاتے ہیں جن میں حالی کا نام ِ
٭ بڑا ناول:
یہ مضم ون ڈاکٹر جمیل جالبی کے قول کہ ''یہ وقت ایک بڑے ناول کا تقاضا کر رہا ہے'' کو
م ِدّنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے۔ ریاض احمد بتاتے ہیں کہ بڑا ناول کیسے لکھا جاتا ہے اور اسے
کیسے ہونا چاہیے ،اسے لکھے گا کون ،اردو ناول کا آغاز کہاں سے ہوا ،ماضی میں کیسے بڑے ناول
تالش بہاراں ،اُداس نسلیں ،راکھ ،میرا گاؤں اور علی پور کا
ِ لکھے گئے۔ اس ضمن میں وہ آگ کا دریا،
ایلی کا خاص طور پر کرتے ہیں۔ پھر وہ ان ناولوں میں استعمال ہونے والی زبان و بیان کا تذکرہ
کرتے ہیں۔ ان میں کون کون سی تکنیک استعمال ہوئی اور ان کے کردار کیسے تھے ،ان سب پر
تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔
٭ کچے دھاگے:
سید امجد الطاف کے افسانوی مجموعے ''کچے دھاگے'' پر تبصرہ کرتے ہوئے ریاض احمد
لکھتے ہیں کہ امجد کے موضوعات کا اُفق اتنا محدود نہیں کہ گھٹن اور تشنگی کا احساس ہونے لگے۔
ایک تو وہ نفسیاتی پس منظر کے باوجود اپنے آپ کو غیرصحت مند اور غیرمعمولی رجحانات کا
شکار نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی تکنیک کے کسی مخصوص انداز کو مستقل اپنے اوپر حاوی ہونے
صوں میں تقسیم کیا ہے:
دیتے ہیں۔ انھوں نے امجد الطاف کے افسانوں کو دو ح ّ
داخلی کشمکش پر مبنی افسانے ١۔
ریاض احمد کے مطابق پہلی قسم کے افسانوں میں س ّناٹوں اور نروان کا ذکر بہت زیادہ ہے۔
''کچّے دھاگے'' میں بقول مصنف صرف ایک فلیش بیک میں نہیں بل کہ پیچ در پیچ کئی سلسلے ملتے
ہیں جن میں حرکت کبھی آگے کی طرف ہے کبھی پیچھے کی طرف۔ انھوں نے امجد الطاف کے
افسانوں سے کئی مثالیں بھی دی ہیں اور موضوعات کا بھرپور تجزیہ بھی کیا ہے۔
٭ زندان:
ریاض احمد نے یوسف ظفر کے مجموعہ کالم 'زنداں'' کی نظموں کے بارے میں یہ تاثر دیا
ہے کہ ان کی نظموں میں خیال اور تخیل دونوں کی آوارگی پائی جاتی ہے۔ وہ یوسف ظفر کی نظموں
کو ا ن کی ذاتی اور داخلی واردات کا اظہار کہتے ہیں ان کے نزدیک ان کی نظمیں نئی تہذیب،
انداز فکر کی آئینہ دار ہیں اور یوسف ظفر کی شاعری کا
ِ انصاف ،جنگ ،آگ ،اینٹ کے بُنت جیسے
خاصا عروضی اوزان کے ساتھ ساتھ ترنّم بھی ہے۔ ریاض احمد کے مطابق یوسف ظفر کی شاعری
کی ایک اور خوبی اُن کے حسی تصورات ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے اُن کی شاعری سے متعدد
مثالیں بھی دی ہیں۔ اس مضمون میں انھوں نے نظموں کا فنی جائزہ لیا ہے۔
٭ قندیل:
قیوم نظر کے مجموعہ کالم ''قندیل'' پر تبصرہ کرتے ہوئے ریاض احمد نے ان کی نظموں کو
تین ادوار میں تقسیم کیا ہے:
٭ ستم ظریف:
یہ مضمون ریاض احمد نے قیوم نظر کی وفات پر لکھا۔ اس میں انھوں نے قیوم نظر کی
ب ذوق سے وابستہ رہے۔ ریاض احمد کو قیوم زندگی کے اُن ایام کا تذکرہ کیا ہے جب وہ حلقہ اربا ِ
نظر کی وفات پر بہت دکھ ہوا۔ آخر میں وہ اپنے دوست کو ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں:
اُن کی زندگی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ریاض احمد ،قیوم نظر سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے
اظہار افسوس کرتے ہیں۔
ِ ہیں اور ان کی وفات پر کھل کر
رسل بیسویں صدی کا بڑا بالغ النظر مفکر اور فلسفی تھا۔ اس کی ریاضیاتی منطق ،فلسفہ،
نظریہ تشکیک کو جس
ٔ آزادی افکار و الٹر کی یاد دالتے ہیں۔
ٔ صحافیانہ سرگرمی اور بالخصوص
کامیابی کے ساتھ رسل نے استعمال کیا ،وہ انھی سے مختص ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ علمی دنیا
میں جتنی شہرت رسل کو ملی ،کسی اور کے نصیب میں نہ ہوئی۔
اس کتاب میں ریاض احمد نے برٹرینڈرسل کے چند ایسے مضامین کا ترجمہ پیش کیا جو اپنے
موضوع کے اعتبار سے عام دلچسپی کے حامل ہیں۔ انھوں نے رسل کے دقیق فلسفیانہ مضامین کا
اردو میں ترجمہ کیا۔ ریاض احمد کے ان تراجم کے متعلق ڈاکٹر نعیم احمد لکھتے ہیں:
'' میں جناب ریاض احمد کا سپاس گزار ہوں کہ انھوں نے پیرانہ سالی اور خرابی صحت کے باوجود
ترجمہ کا کٹھن کام سرانجام دیا۔ ان کی اس علمی خدمت کے لیے میں انھیں مبارک باد پیش کرتا
ہوں۔''((٣٢
ریاض احمد نے رسل کے دقیق مضامین کا جس انداز میں رواں اردو میں ترجمہ کیا ،وہ
ریاض احمد ہی کا خاصا ہے ۔ ریاض احمد کو برٹرینڈرسل کے منتخب مضامین کا ترجمہ کرنے پر
فلسفہ کے پروفیسر نعیم احمد نے تحریک دی جو کہ پنجاب یونی ورسٹی میں صدر شعبہ فلسفہ تھے۔
ادارہ مشعل نے ان تراجم کو شائع کیا۔ ''برٹرینڈرسل کی بنیادی تحریریں'' میں رسل کے مندرجہ ذیل
بارہ مضامین کا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے:
استقرائ ٧۔
اس کتاب کا دیباچہ پروفیسر نعیم احمد نے لکھا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ
ریاض احمد نے بڑی لگن اور مستعدی سے ترجمہ کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس ضمن میں ان کے
قلم میں کہیں بھی لغزش دکھائی نہیں دیتی حاالنکہ رسل ایک بے تکان لکھنے واال مصنف ہے اور اس
نے دنیا کے بہت سے علوم پر مضامین لکھے۔ رسل کی تحریروں میں اُن کے عہد کی تمام تر علمی
سرگرمیاں اور خارجی کشمکش منعکس ہوتی ہے اور رسل اپنی بات کو مختصر ترین الفاظ میں پوری
وضاحت کے ساتھ لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے حاالت میں مترجم کا بوکھالہٹ کا شکار ہو جانا
عام سی بات ہے مگر ریاض احمد نے بڑے مناسب الفاظ میں برٹرینڈرسل کے مضامین کا ترجمہ کیا:
جدید دور میں ترجمہ کا کام بہت پھیل چکا ہے اور دنیا کی تقریبا ً ہر زبان سے اردو میں کتابیں
ترجمہ کی جا رہی ہیں لیکن ریاض احمد نے جب برٹرینڈرسل کے افکار کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اس
وقت اردو زبان میں تراجم کو زیادہ بہتر تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں ترجمے کو تخلیقی
سطح کا کام سمجھا جاتا ہے لیکن اُس زمانے میں ترجمہ ایک دوسرے درجے کا کام تھا ،جس میں
شامل ہونا بہت سے ادیبوں کو پسند نہ تھا۔ یہ ریاض احمد کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے اردو ادب کو دنیا
میں ہونے والی تبدیلیوں اور نئے رویوں سے آشنا کرانے کے لیے ترجمہ کا کام شروع کیا۔
حوالہ جات
مکتوب ریاض احمد بنام چودھری محمد نذیر ،مورخہ ٢٢فروری ١٩٨٦ ١۔
عفت ملک ،ریاض احمد بطور نقاد ،مقالہ برائے ایم اے اردو ،اوریئنٹل کالج ،الہور،١٩٨٩ ، ٢۔
ص ٢٠
ایضاً،ص٢٢ ٣۔
انور سدید ،ڈاکٹر ،مضمون :ریاض احمد… ایک درویش ادیب ،مشمولہ الہور الحمرا ،شمارہ ٤۔
٨اگست ،٢٠٠٧ص ١٠
ایضاً،ص٢٥ ٦۔
ریاض احمد ،تصدیق ،مضمون ،مطالعہ کے نقوش ،الہور ،پولیمر پبلشرز١٩٩٤ ،ئ ،ص ١١٧ ٧۔
ایضاً،ص١٢٤ ٨۔
ایضاً،ص١٢٩ ٩۔
افتخار احمد (مرحوم) انٹرویو بذریعہ ''فون'' ،٢٥ ،اگست ٢٠١٣ئ ١١۔
اعجاز احمد ''نثری نوحہ'' ،مشمولہ ،الہور ،الحمرا ،شمارہ دسمبر٢٠٠٦ئ،ص١٩ ١٢۔
پروفیسر خالد ہمایوں ''سوالنامہ'' ،بذریعہ خط ،مورخہ ١٣مئی ٢٠١٥ئ،ص٢ ١٣۔
انورسدید،ڈاکٹر ،غزل،مشمولہ ،الہور الحمرہ ،شمارہ ٨اگست٢٠٠٧ئ،ص١٢ ١٤۔
اعجاز احمد '' ،غزل''،مشمولہ الہور ،الحمرا ،س ن ،شمارہ مارچ ٢٠٠٢ئ،ص١٠ ١٥۔
ایضاً،ص٢٢ ١٨۔
عفت ملک ،ریاض احمد بطور نقاد ،مقالہ برائے ایم اے اردو ،اوریئنٹل کالج ،الہور١٩٨٩ ،ئ، ١٩۔
ص ٧١
اسلم رانا ،ڈاکٹر ،پیش لفظ ،تصدیق ،الہور،پولیمر پبلی کیشنز،مئی١٩٩٦ئ،ص١٥ ٢١۔
غالم حسین ساجد ،پروفیسر'' ،سوالنامہ'' بذریعہ خط ،مورخہ ٢١مئی ٢٠١٥ئ ،ص٢ ٢٢۔
خالد ہمایوں ،پروفیسر'' ،سوالنامہ'' بذریعہ خط ،مورخہ ١٣مئی ٢٠١٥ئ،ص٣ ٢٣۔
ریاض احمد خط بنام ڈاکٹر زاہد منیر عامر ،مورخہ ٦جون ٢٠٠٦ئ ٢٤۔
غالم حسین ساجد ،پروفیسر'' ،سوالنامہ'' بذریعہ خط ،مورخہ ٢١مئی ٢٠١٥ئ ،ص٣ ٢٥۔
٢٧۔ ریاض احمد ،تنقیدی مسائل ،مضمون ''شاعری میں جنسی تصورات'' ،الہور ،اردو بک سٹال،
١٩٦١ئ ،ص٤٢
ریاض احمد ،تنقیدی مسائل ،مضمون ''ادب اور صحافت'' ،الہور ،اردو بک سٹال١٩٦١ ،ئ، ٢٨۔
ص٦٥
ریاض احمد ،قیوم نظر تنقیدی مطالعہ ،مضمون ،غزل،الہور ،اتحاد ،پریس١٩٧، ٢٩۔
ریاض احمد،دریاب ،مضمون ''مشرق و مغرب میں'' ،الہور ،پولیمر پبلشرز ،فروری ١٩٨٦ئ، ٣١۔
ص٤٦
باب دوم
تنقید سے مراد کسی فن پارے یا ادب پارے کی خوبیوں اور خامیوں کی نوعیت کا تعین کرنا
ہے۔ لفظ ''تنقید'' کے لغوی معنی پرکھنے یا بُرے بھلے کا فرق معلوم کرنے کے ہیں گویا اصطالحی
طور پر کسی فن پارے کی خوبیاں اور خامیاں معلوم کر کے اس پر کوئی رائے دینا تنقید ہے۔
انگریزی میں تنقید کے لیے " "Criticismکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ماخذ یونانی لفظ ہے جس
کے معنی عدل و انصاف کے ہیں۔ عام طور پر لفظ" "Criticismکا اردو میں ترجمہ تنقید کیا جاتا ہے
لیکن زیادہ صحیح لفظ نقد یا انتقاد ہے ،جس کا معنی پرکھنا اور جانچنا کے ہیں اور جو شخص کسی
ادب پ ارے یا فن پارے کو جانچتا پرکھتا ہے ،اسے نقاد کہتے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نقاد
اپنے طور پر کسی فن پارے کو پڑھ کر پرکھتا ہے اور پھر اس کے ادبی محاسن اور عیوب کو عوام
کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ادب اور تنقید کا تعلق اس قدر گہرا اور ہمہ گیر ہے کہ ہم انھیں الگ الگ
خانوں میں تقسیم نہیں کر سکتے کیونکہ ادب کی تخلیق کے ساتھ ہی تنقیدی عمل بھی وجود میں آ جاتا
ہے اور پھر یہ دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔
تنقید کے اصل معنی محاکمہ کے ہیں لیکن تنقید کو صرف ادبی محاکمہ نہیں کہا جا سکتا کیوں
کہ یہ نظریہ تنقید کو بہت محدود ک ر دیتا ہے۔ ادبی تنقید سے مراد عدل و انصاف ،رائے دینا یا کسی
قسم کا فیصلہ صادر کرنا بھی نہیں بل کہ وہ تمام ادب ''تنقیدی ادب'' شمار کیا جاتاہے جو ادب کی
اصناف ادب کی تشریح کرے ،تجزیہ کرے یا انِ دوسری اصناف کے متعلق لکھا گیا ہو ،چاہے وہ ان
کی قدر و قیمت کا اندازہ لگائے۔ ''ادبی حدود میں نقاد علوم کی توسیع کا باعث بنتا ہے اور تجرباتی
زمین میں نئے موضوعات کی نشان دہی کا بیج ڈالتا ہے وہ ادبی تقلید کے بتوں کو توڑتا اور اختراعی
صالحیتوں کو َجال دیتا ہے۔ تنقید ادب کی شخصیت ،ماحول اور اس کی تخلیقات کے اندرونی تضادوں
کو بروئے کار ال کر حقیقت کے انکشاف میں مدد دیتی ہے۔((١
تنقید فلسفہ ادب بھی ہے اور ادبی تھیوری بھی۔ جیسے فلسفہ کے بغیر زندگی کا تصور ممکن
نہیں ،ایسے ہی ادب کا تصور تھیوری کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر شعر اچھا ہے اور دل کو لگتا ہے تو
ہم اس کو محسوس کر سکتے ہیں لیکن یہ اعال کس وجہ سے ہے اور اس میں کون کون سی خوبیاں
ہیں۔ اگر یہ بتانا پڑے ،تو یہ عمل تنقید کہالئے گا۔ اس طرح تنقید ادب میں نئے موضوعات کا اضافہ
کرتی ہے۔ تنقید کے اس قدر و سیع و عریض ہونے کے سبب ذہن میں جو سواالت اُبھرتے ہیں ،ان کی
نوعیت کچھ ایسی ہوتی ہے۔ تنقید کیا ہے؟تنقید کیوں کی جاتی ہے؟ کہاں سے آئی؟… یونان کے مشہور
ڈرامہ نگار ''ارسٹو فیز'' نے تنقید کے بارے میں ایک فقرہ کہا ''خدارا! مجھے بتائیے! وہ کون سے
خراج تحسین بخشا جائے؟''
ِ معیار ہیں جن پر کسی فن کار کی تخلیقات کو
ارسٹو فیز کا یہ سوال آج تک اپنی جگہ ایک سوال ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر دور میں اس کا
جواب دینے کی کوشش کی گئی مگر ابھی تک اس سوال کا حتمی جواب نہیں مل سکا۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں انسانی معیار بدلتے رہے ہیں اور مختلف مفکرین نے تنقید کے
متعلق مختلف نظریات قائم کیے ہیں۔ کچھ مفکرین کے نزدیک تنقید محض تعریف اور مدح سرائی کا
نام ہے جب کہ کچھ تشریح کو تنقید سمجھتے ہیں۔ بعض مفکرین کا خیال ہے کہ تنقید ایک قسم کے
نقطہ نظر رائج ہیں:
ٔ تجزیے کا نام ہے گویا اس سلسلے میں تین
تعریف )(١
تشریح )(٢
تجزیہ )(٣
١۔ تعریف:
نقطہ نظر کے نقاد کسی فن پارے کی محض خوبیاں گنوانے کو تنقید کا اصل اصول ٔ اس
سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی تنقید کے اس خیال کو ،کہ وہ صرف اچھائیاں گنوانے یا سراہنے کا
نام ہے بڑی حد تک انتہا پسندانہ قرار دیتے ہیں۔ ( )٢اگر غور کیا جائے تو یہ نظریہ کسی حد تک خام
ہے کیوں کہ کس ی ادب پارے کی محض خوبیاں گنوا دینا اور خامیوں کو نظرانداز کر دینا غلط اقدار
کو رواج دینے کے مترادف ہو گا۔
٢۔ تشریح:
اس نظریے کے تنقید نگار تشریح کو تنقید سمجھتے ہیں۔ جہاں تک اس نظریے کا تعلق ہے،
تشریح و تفسیر الزمی طور پر قاری کے لیے راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے مگر تنقید کی
بنیادی ضرورت یعنی اچھے برے کی تمیز یہاں بھی نظرانداز ہو جاتی ہے۔ اس طرح تنقید کا یہ دائرہ
بھی محدود ہو جاتا ہے کیونکہ ادب یا فن کی تشریح بہت معمولی سا کام ہے۔ اس میں ہمہ گیری نہیں
اور نہ ہی اس کی حدود میں وہ وسعت اور گہرائی ہے جو تنقید کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔
٣۔ تجزیہ
تجزیاتی تنقید بڑا وسیع مفہوم رکھتی ہے۔ اس کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے۔ تجزیے سے
مراد کسی فن پارے کے ساتھ ساتھ ادیب یا فن کار کی ذہنی صالحیتوں اور ماحول کا تجزیہ بھی شامل
ہے۔ اس لیے تجزیے سے مراد یہ ہے کہ تنقید نگار فنّی تخلیقات میں ڈوب کر فن پارے کے مفہوم کو
سمجھنے کی کوشش کرے یعنی وہ خود اس جگہ پہنچ جائے جہاں مصنف یا ادیب کی رسائی ہے اور
فن پارے کو پوری طرح سمجھ کر اس طرح پیش کرے کہ اس کے اچھے بُرے تمام پہلو نمایاں ہو
جائیں۔ خاطر غزنوی ''جدید ادب'' میں تجزیاتی تنقید کے متعلق اپنے خیاالت یوں بیان کرتے ہیں کہ:
'' تجزیے کے تحت تفصیل سے یہ بتانا نقاد کا فرض ہے کہ اس فن پارے کا موضوع کیا ہے۔
ان میں خیاالت کیسے ہیں ؟ اور وہ کیوں پیش کیے گئے ہیں؟ وہ کون سے حاالت ہیں جو ایسے
خیاالت کو پیش کرنے کے محرک ثابت ہوئے اور یہ کہ وہ خیاالت مفید ہیں یا مضر اثرات رکھتے
ہیں۔''((٢
ادب اور تنقید کا تعلق اس قدر گہرا اور مضبوط ہے کہ ہم انھیں ایک دوسرے سے ُجدا نہیں
کر سکتے کیوں کہ ادب کے تخلیقی عمل کے ساتھ ہی تنقیدی عمل کی بھی نمود ہو جاتی ہے۔ تخلیقی
ادب میں ادیب اپنے احساسات ،خیاالت اور تجربات کو ترتیب دیتے ہوئے ایک خاص اسلوب میں پیش
کرتا ہے۔ ان خیاالت کو ترتیب وہ اپنی تنقیدی صالحیت کی ہی بدولت دے سکتا ہے اور یہ تنقیدی
صالحیت جتنی توانا ہو گی ،تخلیق بھی اتنی ہی جان دار ہو گی۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ تخلیق
مطلق ہے جب کہ تنقید مشروط ہے۔ تخلیق اور تنقید کے باہمی رشتے کے بارے میں آل احمد سرور
لکھتے ہیں:
'' اچھی تنقید محض معلومات ہی فراہم نہیں کرتی بل کہ وہ سب کام کرتی ہے جو ایک مورخ
ماہر نفسیات ،ایک شاعر اور ایک پیغمبر کرتا ہے۔ تنقید ذہن میں روشنی کرتی ہے اور یہ روشنی اتنی
ضروری ہے کہ بعض اوقات اس کی عدم موجودگی میں تخلیقی جوہر میں کسی شے کی کمی محسوس
ہوتی ہے۔''((٣
تنقید کے تخلیقی پہلو پر غور کریں تو ہمیں دو شعبے نظر آتے ہیں۔ ایک نظری شعبہ اور
دوسرا تنقید کا عملی شعبہ۔ جہاں تک تنقید میں نظری شعبہ کا تعلق ہے تو یہ قدرے مشکل کام ہے
کیونکہ نظریاتی نقاد کے پاس مختلف علوم پر مبنی ذخیر ٔہ علم ہونے کے ساتھ ساتھ تحلیلی صالحیت
اور منطقی ذہن بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ مختلف علوم کے میل جول سے نئی بات کہہ سکے۔ نظری
تنقیدی اصولوں میں ادب اور فن سے وابستہ مسائل و مباحث کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔نظری تنقید کے
متعلق ڈاکٹر سلیم اختر کا مؤقف ہے:
''نظریہ سازی کی صورت میں تنقید فلسفہ کی ہم پلّہ ہو جاتی ہے اسی لیے نظریہ ساز نقاد
ہمیشہ ہی کم رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایلیٹ ،آئی اے رچرڈز ،کرسٹفر کارڈیل ،ایڈمنڈولسن سارتر ولیم
یمپس ،ڈی ایچ الرنس ،ہربرٹ ریڈ ،جوبل سینگار ان کا نام لیا جا سکتا ہے جب کہ اردو میں موالنا
حالی ،مرزا ہادی رسوا ،میرا جی ،احتشام حسین ،محمد حسن عسکری ،سلیم احمد کے اسماء گنوائے
جا سکتے ہیں۔'' ((٤
ادب کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ سترھویں صدی تک ادبی کتابوں پرنقادوں
کے انفرادی تبصرے نہیں ملتے۔ البتہ انتقادی نظریات پر مشتمل چند خیاالت ضرور مل جاتے ہیں جن
سے اُس دور کے ادب کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ارسطو اور ہوریس نے شاعری پر جو اعتراضات کیے،
وہ آج بھی " "Poeticsکے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ارسطو نے یونانیوں کے بڑے
طرز تحریر دیکھ کر کچھ تنقیدی اصول مرتّب کیے مثالً یہ کہ ہومر کی نظموں میںِ انشا پردازوں کی
پہلے تمہید ہوتی ہے۔ اس کے بعد اصل بیان اور پھر نتیجہ۔ اسی لیے ارسطو نے رزمیہ نظموں کے
لیے تین اصول مرتب کیے۔ ارسطو کے بعد ہوریس وغیرہ نے کچھ اور اصول مرتّب کئے اور
سولہویں صدی تک ان کی پابندی کی گئی۔ ارسطو کے بعد کی جانے والی تنقید کو مغرب میں
نیوکالسیکل تنقید کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں نقد االدب کے اصولوں اورنظریات کی روشنی
میں فن پارے کے ُحسن و قبیح پر بات کی جاتی تھی۔ ارسطو سے لے کر موجودہ دور کے نقادوں پر
نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ مغرب کی تنقید یا تو ارسطو کے تنقیدی نظریات سے اتفاق کی
صورت میں پیدا ہوئی یا اختالف کے نتیجے میں یا پھر ان دونوں کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔ بقول
ڈاکٹر جمیل جالبی ''مغرب کی تنقید میں ارسطو ایک خدا کی طرح قائم و دائم ہے اور تنقید کوئی پہلو
حلقہ اثر سے باہر نہیں نکل سکتی۔''
ٔ کوئی راستہ اختیار کرے ،اس کے
تنقید کے متعلق مختلف لکھنے والوں نے جو کچھ کہا اگرچہ ان سب میں اختالف ہے لیکن
ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ تنقید اس فن کا نام ہے جو ادب کو جانچے پرکھے ،اس کی اہمیت
کو معلوم کر کے اس کے لیے معیار کو مقرر کرے۔ اس بنیادی حقیقت سے کسی کا بھی انکار ممکن
نہیں کہ تنقید ادب کو جانچنے اور پرکھنے کا آلہ ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکال کہ کسی چیز کے متعلق
چند خیاالت پیش کرنا تنقید ہے اور اگر یہ خیاالت ذہین و فطین لوگوں کے ہوں تو یقینا ً بڑی اہمیت
پیش نظر رکھتے ہوئے میتھیو آرنلڈ نے تنقید کی تعریف یہ کی ہے کہرکھتے ہوں گے۔ اسی خیال کو ِ
''دنیا میں بہتر سے بہتر جو باتیں سوچی اور معلوم کی گئی ہیں ،ان کی جستجو کی ایک والہانہ خواہش
کا نام تنقید ہے ،چاہے ان کا تعلق زندگی کے کسی شعبے سے ہو۔''
لیکن ان خیاالت کے متعلق یہ جاننا بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی نوعیت کیا ہے؟ وہ کس
قسم کے ہیں؟ ظاہر ہے یہ خیاالت کسی نہ کسی نکتہ نظر کے تحت وجود میں آئے ہوں گے۔ مثال کے
طور پر جب کوئی نقاد کسی ادبی تخلیق کے بارے میں اپنے خیاالت کو پیش کرتا ہے اور یہ کہتا ہے
کہ یہ تخلیق اچھی ہے اور مجھے پسند ہے تو اس کا کام یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا بل کہ اس کے لیے
یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ آخر وہ تخلیق اس کو کیوں پسند ہے؟ یا اس میں کیا خصوصیات ہیں؟…
فن تنقید کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ تعریفی ،تشریعی اور تجزیاتی تینوں نکتہ ہائے نظر پر مشتمل ہوتی
ہے اس لیے نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب کسی فن پارے کا جائزہ لے تو اپنے ذہن سے تمام
ت نظر کا حامل ہونے کے ساتھ ہر بات صبات کو خارج کر دے۔ نقاد کو وسع ِ سماجی اور نظریاتی تع ّ
کی جزئیات کو دیکھنے کا ملکہ بھی ہونا چاہیے۔
تنوع کے ساتھ وسعت بھی ہے اس لیے ایک نقاد بآسانی ایک سے دیکھا جائے تو آج علوم میں ّ
ت
زائد علوم سے واقفیت کی بنا پر اپنی تنقیدی نظریات میں اضافہ کر سکتا ہے ۔ آج کا نقاد وسع ِ
مطالعہ کے نتیجے میں اور تنقید کی مختلف اقسام سے واقفیت کی بناپر اپنے تنقیدی فہم میں اضافہ کر
سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نقاد کو نہ صرف تنقید کی مختلف اقسام سے آگہی ہو بل کہ
فکری مماثلت کی بنیاد پر تنقید کی مختلف اقسام سے وابستہ نقادوں کے نظریات کا بھی علم ہو۔
تنقید کی اقسام
بغور جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ادب کے دو پہلو نمایاں ہیں ،ایک افادی )، (Functional
صوں میں بانٹ دیتادوسرا جمالیاتی) (Aesthetic۔ ادب کا ان دونوں سے مل کر بننا تنقید کو دو ح ّ
صہ جس سے صہ جس سے زندگی کی اقدار کا علم ہوتا ہے۔ دوسرا تنقید کا وہ ح ّ
ہے۔ ایک تنقید کا وہ ح ّ
ادب کے فنّی اور جمالیاتی اقدار کا پتہ چلتا ہے۔ کسی ادبی تخلیق پر نظر ڈالتے وقت کوئی بھی تنقید
نگار اس بات پر الزمی نظر رکھتا ہے کہ کون سی اقدار زندگی کو بناتی اور بگاڑتی ہیں اور وہ کون
سی اقدار ہیں جو انسانیت کے لیے مفید یا غیرمفید ہیں۔ نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر فنّی اور
ادبی تخلیق کا اس کے سماجی اقدار کے پس منظر میں جائزہ لے اور اس بات کی تہہ تک جائے کہ وہ
محرکات تھے جنھوں نے ادیب کو یہ موضوع اپنانے پر مجبور کیا اور پھر یہ بھی معلوم ّ کون سے
کرے کہ اس موضوع کا سماج پر کیا اثر پڑے گا۔ نقاد کا ان تمام امور پر غور کرنے کا مطلب یہ ہے
کہ اسے معاشرے کے سیاسی ،تمدنی ،معاشی ،تاریخی ،فلسفیاتی اور نفسیاتی تمام محرکات سے آگاہی
ہے ورنہ نقاد ادب پارے یا فن پارے سے صحیح انصاف نہ کر سکے گا۔
نقاد کے لیے یہ دیکھنا بھی ازبس ضروری ہے کہ آیا ادیب یا فن کار زندگی کے مسائل پر
سائنٹیفک طریقے سے غور کرتا ہے یا پھر جذباتی ہو کر سوچتا ہے اور نقاد یہ بھی ذہن میں رکھے
کہ ادیب نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ،ان مسائل کو محض بیان ہی کیا ہے یا کہ ان کے حل
کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اگر ادیب نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی تو پھر یہ
نقاد کا فرض ہے کہ وہ بتائے کہ ادیب کے خیاالت سماجی زندگی کے لیے کیسے مفید ہو سکتے ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ مختلف زبانوں اور ادوار میں نہ صرف تنقید کے معیار مختلف رہے بل کہ
ایک خاص وقت اور عہد کے مختلف نقادوں کے تنقیدی معیار بھی مختلف رہے۔ ایک ہی زمانے میں
ایک نقاد عینیت پسند ہو سکتا ہے تو دسرا نقاد حقیقت پسند۔ کوئی نقاد ادب کو اس کے سماجی اور
عمرانی پس منظر میں دیکھتا ہے تو کوئی ادب کو جمالیاتی تناظرمیں دیکھتا ہے۔ نقاد کا ان تمام اُمور
پر غور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے معاشرے کے سیاسی ،تمدنی ،معاشی ،تاریخی ،فلسفیاتی اور
نفسیاتی تمام محرکات سے آگاہی ہے ورنہ نقاد ادب پارے یا فن پارے سے صحیح انصاف نہ کر سکے
گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تنقید کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
اگر تنقید کی مختلف اقسام کو م ِدّنظر رکھتے ہوئے بحث کریں تو تنقید کے دو مقاصد سامنے
آتے ہیں۔ تنقید کا پہال مقصد ادب کی تشریح کرنا اور دوسرا مقصد ادب کا محاکمہ کرنا۔ اکثر و بیشتر
نقاد ان دونوں مقاصد کی تکمیل ایک ہی وقت میں کرتا ہے یعنی وہ تنقید کرتے ہوئے معروضیت اور
عینیت دونوں سے کام لیتا ہے۔ تشریعی تنقید کے سلسلہ میں والٹر پیٹر تین باتیں بیان کرتا ہے:
تشریعی تنقید میں متعین کیے گئے معیار کو بڑی قدر و منزلت حاصل ہوتی ہے۔ انھی معیاروں کو
م ِدّنظر رکھتے ہوئے نقاد کسی بھی فن پارے یا ادب پارے کا تجزیہ کرتا ہے۔ تشریعی تنقید میں نقاد
افضل ترین مخلوق ترین تصور کیاجاتاہے اور وہ ادیب کے لیے ایک ناصح کی حیثیت بھی رکھتا ہے
اور صرف نقاد ہی تخلیق سے وابستہ تمام اصولوں سے واقف اور قواعد سے آگاہ ہوتا ہے اس لیے
وہی ادیب یا شاعر کا نگران ہے۔
ادب میں تشریعی تنقید کا طریقہ زمانہ قدیم سے رائج ہے اور بغور جائزہ لیں تو معلوم ہو گا
کہ تنقید کا قدیم ترین کالسیکی تنقید کا دبستان بلحاظ نوعیت تشریعی ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ
کے ناقدوں نے شیکسپیئر کو محض اس لئے ناپسند قرار دیا کہ اس نے یونانی ڈرامہ کے اصولوں کے
برعکس اپنے ڈرامے میں طربیہ اور المیہ کو یکجا کیا۔ یونانی المیے اپنے ناظرین میں رحم اور دہشت
پیدا کرنے کے لیے لکھے جاتے تھے جب کہ شیکسپئر اور اس کے ہم عصر ڈرامہ نگاروں کے
ڈراموں میں دیگر احساسات بھی ہوتے تھے۔
انگلستان میں تنقید کا آغاز تشریعی تنقید سے ہی ہوا اور پندرھویں صدی سے لے کر سترھویں
صدی تک اسے عروج حاصل رہا۔ ١٦٦٨ء میں ڈرائیڈن کی تنقیدی کتاب ""Of Dramatic Poesie
اندازاُسلوب بھی تشریعی تنقید جیسا ہی ہے مگر اس کی تنقید نے
ِ کو بڑی شہرت ملی۔ اگرچہ اس کا
نئی سوچ کے احساس کو اجاگر کیا۔ جان ڈرائیڈن ،ڈاکٹر سیموئیل جانسن اور مشہور انشائیہ نگار
انداز نقد کو تشریعی تنقید کا عبوری دور کہا جا سکتا ہے جس کے لیے عام طور
ِ جوزف ایڈیسن کے
پر نوکالسیکی تنقید کی اصطالح استعمال کی جاتی ہے کیونکہ ان کی تنقید میں بھی ارسطو ،الن
جانسن ،ہیوریس اور سسر کے تنقیدی اصولوں کو ہی ّاولیت حاصل تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ سائنس
اور جدید علوم سے دلچسپی کی بنا پر ان کی تنقید کا طریقہ کار اپنے قدما سے قدرے مختلف تھا۔
نوکالسیکیت کے اصولوں کی بنیاد یہ ہے:
١۔ جدید ادب پر الزم ہے کہ وہ قدما کی پیروی اور نقل کریں کیونکہ جو کچھ وہ
لکھ گئے ہیں اس سے مختلف لکھنا ناممکن ہے۔
ادب محض تفریح ہی نہیں بل کہ اسے اخالق کا درس بھی دینا چاہیئے۔ ٢۔
٣۔ ڈرامہ نگاروں کے لیے تین وحدتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ ٹریجڈی اور
کامیڈی کو یک جا نہیں کیا جا سکتا۔
٥۔ شاعر کو تمام عمر اپنی تصنیفات کی جانچ پڑتال کرتے رہنا چاہیے اور جب بھی
کوئی غلطی محسوس کرے ،اسے درست کر لینا چاہیے۔
ادباء عقل و فہم سے کام لیں اور اعتدال پسندی کو اپنائیں۔ ٦۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تشریعی تنقید میں نقاد کو فضیلت حاصل ہے کیوں کہ ادیب کے لیے
انداز تنقید کے حامی
ِ وہ ناصح اور معلم کی حیثیت رکھتا ہے۔ الزبتھ دور کے زیادہ تر ناقدین اسی
تھے۔ بقول جارج واٹسن ''سڈنی کی مثال سے قطع نظر الزبیتھین ناقدین کا شاعری کے قارئین کی
بجائے شاعر سے خطاب ہوتا تھا ان میں سے اکثر کی تحریریں تنقید کم اور کھانا پکانے کی ترکیبیں
زیادہ محسوس ہوتی ہیں۔ تشریعی تنقید کی بڑی خامی یہ ہے کہ اگر کوئی نقاد اپنا مخصوص معیار قائم
کر لیتا ہے تو پھر وہ اسی کے مطابق پورے ادب کا جائزہ لیتا ہے اور جب کوئی ادب پارہ اس کے
معیار پر پورا نہیں اترتا۔ وہ اسے غیرمعیاری قرار دے دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تشریعی تنقید کا طریقہ
کار ہر نقاد کے ساتھ بدلتا ہے کیوں کہ ہر نقاد کا ادب پارے کو جانچنے کا طریقہ کار دوسرے نقاد
سے مختلف ہوتا ہے ۔دوسرا تنقید کرتے ہوئے نقاد کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا بھی دخل ہوتا ہے۔
کشور ناہید نے ''کارل شاھپیرو'' کے تشریعی تنقید کے انداز پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے:
رویوں اور اصولوں کی جکڑبندیوں سے رہائی چاہیے ''بیسویں صدی میں شاعر کو تنقیدی ّ
کیونکہ مجھے یوں لگتا ہے کہ نقاد کے عالوہ ہر شخص جانتا ہے کہ شاعری کیا ہوتی ہے۔ اس کا
سبب یہ بھی ہے کہ جس زمانے میں بڑی شاعری ہوتی ہے ،اس زمانے میں تنقید نہ ہونے کے برابر
ہوتی ہے کیونکہ تنقید اگر سامنے آتی ہے تو فن کے وجود میں آنے کے بعد۔'' ()٧
سائنٹیفک تنقید ادبی تخلیقات کے عالوہ ادیب اور فن کار سے متعلق تمام پہلوؤں پر بھی
مروج خیاالت
روشنی ڈالتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادیب کے زمانے کے سماجی حاالت اور اس میں ّ
کی روشنی میں ان کی اہمیت کا کھوج بھی لگاتی ہے۔ سائنٹیفک تنقید کا بڑا مقصد اس حقیقت کا پتہ
لگانا ہے کہ جس سے معلوم ہو کہ فن کار نے کس حد تک ان خیاالت اور حاالت کی ترجمانی کی ہے
اور یہ کہ ان کے پیش کرنے میں فن کار کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔
سائنٹیفک تنقید کے ساتھ ساتھ تنقیدی خیاالت اور نظریات بدلتے گئے اور تنقید کی دوسری
شاخیں ''تاریخی تنقید'''' ،تجزیاتی تنقید'' اور ''استقرائی تنقید'' وجود میں آئی۔ جن کا کام ان باتوں کا
جاننا تھا کہ فن پارے اور ادیب میں کون کون سے عمرانی ،سیاسی اور نفسیاتی مظاہر نظر آتے ہیں۔
اس خیال کی بدولت نقاد کے لیے ادیب کے ذہنی اور جذباتی نظریات کا پتہ لگانا زیادہ اہم ہو گیا۔ اس
ضمن میں ڈاکٹر سلیم اختر رائے زن ہیں:
'' گویا مختلف اوقات میں بعض اور دبستان کو بھی سائنٹیفک قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن اس
ضمن میں تجزیاتی تنقید ) (Analytical Criticismاور استقرائی تنقید )(Inductive Criticism
زیادہ اہم ہیں اور ہر دبستان کے امام نے اپنے اپنے طریقے کو سائنٹیفک قرار دیتے ہوئے اپنی تنقید
کو ''سائنسی'' تنقید سے موسوم کیا۔ ان دونوں دبستانوں کے مطالعہ سے پیشتر اس امرکی وضاحت
ضروری معلوم ہوتی ہے کہ تنقید میں سائنس اور سائنٹیفک جیسی اصطالحات بڑی گمراہ کن ثابت
ہوئیں کیونکہ ''تجزیاتی اور استقرائی'' کے عالوہ ''تاریخی تنقید'' اور ''مارکسی تنقید'' کو بھی وقتا ً فوقتا ً
سائنٹیفک کہا جاتا رہا۔ اس ضمن میں ایک اور غلط فہمی کی طرف بھی توجہ دالنی ضروری ہے کہ
عام خیال کے برعکس سائنٹیفک تنقید کسی جداگانہ دبستان کا نام نہیں بل کہ تنقید کا ہر وہ طریقہ جس
انداز نظر اپنا کر کسی سائنس دان جیسی غیرجانبداری سے کام لیتے ہوئے ذاتی پسند و ِ میں نقاد علمی
ماوری ہو کر تخلیق کی چھان پھٹک کرتا ہو ،وہی سائنٹیفک تنقید کہالتی ٰ صبات سے ناپسند اور نجی تع ّ
ہے۔'' ((٨
اگرچہ تنقید کی یہ قسمیں آپس میں خیاالت و نظریات کے لحاظ سے اختالفات رکھتی ہیں مگر
یہ سب سائنٹیفک تنقید کے زمرے میں ہی شمار کی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کی سب
فن پارے یا ادب پارے میں فنّی یا جمالیاتی اقدار کی تالش کرتی ہیں اور فن کار یا ادیب کی ذہنی اور
جذباتی نظریات کو بھی م ِدّنظر رکھتی ہیں۔ برائٹ فیلڈ نے اپنی کتاب "Issue in Literary
صوں میں تقسیم کیا ہے:
"Criticismمیں سائنٹیفک تنقید کو دو ح ّ
(الف) تجزیاتی تنقید)(Emprical Criticism
تجزیاتی تنقید ادب کی تفہیم کا محض ایک انداز ہے۔ یہ بھی ایک قدیم طریقہ تنقید ہے۔ ڈیوڈ
ڈیشنز نے ارسطو ،ڈرائیڈن ،ڈاکٹر جانسن اور کولرج کی تنقید کے بعض پہلوؤں کو تجزیاتی کہا ہے۔
ولیم ایمپسن کو سب سے پہال باقاعدہ تجزیاتی تنقید نگار کہا جاتا ہے۔ یہ آئی اے رچرڈ کا شاگرد تھا۔
تنوع کے
اس نے اپنی تنقید کی اساس الفاظ میں معانی کی مختلف جہات سے پیدا ہونے والے ابالغی ّ
مخصوص مطالبہ پر استوار کی۔ ان کی دو تنقیدی کتابوں نے امریکہ اور یورپ کے تنقیدی نظریات پر
گہرے اثرات مرتب کیے:
ایمپسن کے نزدیک شاعری کی اساس زبان ہے اور زبان کا بنیادی مقصد ابالغ کرنا ہے۔
چونکہ شاعری بھی ابالغ کا ایک ذریعہ ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وقت تخلیق یا ابالغ کے عمل کی
صورت پذیری سے پہلے شاعر کی ذہنی کیفیت کیا تھی؟… اس شاعری نے قاری کے ذہن میں کیا
اثرات مرتب کیے؟… اور جب ابالغ کے حوالے سے جائزہ لیا گیا تو شاعر اور قاری کن کن مختلف
کیفیات سے دوچار ہوا؟
ایمپسن کے ان خیاالت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تجزیاتی ناقد ادب پارہ کی تفہیم کے لیے الفاظ
کو ایک طلسمی طاقت سمجھتا ہے۔ چونکہ ادیب اور قاری کے درمیان الفاظ وسیلہ ابالغ ہیں اس لیے
نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ الفاظ کے تمام ممکنہ استعمال سے واقف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس
تنقیدی نظریے میں ادب پاروں پر فیصلے صادر نہیں کیے جاتے اور نہ ہی مصنف کے خیاالت و
نظریات وغیرہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
'' تجزیاتی تنقید کو اس کے دبستانی مفہوم کی تخصیص سے علیحدہ کرتے ہوئے وسیع تر
مفہوم میں استعمال کیا جائے تو پھر تنقید کے ہر اس طریقہ کو تجزیاتی قرار دیا جا سکے گا جس میں
ادب پارہ کے تشکیلی عناصر کے انفرادی مطالعہ سے نتائج اخذ کیے گئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسا
متنوع استعمال سے ادب میں جذبات و احساسات کی
الفاظ ہی کی امداد سے ہوتا ہے کیونکہ الفاظ کے ّ
لطیف کیفیات کا ابالغ کیا جاتا ہے اور تنقید رمز و کنایہ کے گورکھ دھندے میں اُلجھ کر رہ جاتی
ہے۔''((٩
تجزیاتی تنقید کی الفاظ میں دلچسپی اسے مشرقی تنقیدی ادب کے قریب تر کر دیتی ہے کیونکہ
علم بیان کے حوالے سے اردو شاعری کا جائزہ لیتے تھے یعنی مشرقی نقاد بھی صرف و نحو اور ِ
تجزیاتی نقاد کی الفاظ میندلچسپی کی جھلک اردو تنقید نگاروں میں بھی کسی حد تک دیکھی جا سکتی
ہے۔ تجزیاتی تنقید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مواد پر اپنی بنیاد رکھے جو جانچا اور پرکھا جا
انداز فکر کی مخالفت کرے ،جو عام
ِ سکتا ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر اس طریقے اور
تجزیے اور جانچ پڑتال کے ُزمرے میں نہیں آتا کیونکہ تجزیاتی نقاد کسی بھی فن پارے یا ادب پارے
پر صرف اپنی رائے کااظہار کرتا ہے ،اسے قاری پر مسلّط نہیں کرتا۔
مروجہ تمام تنقیدی نظریات کے خالف ہے۔ اس تنقید ّ استقرائی تنقید معیار پرستی کی بنیاد پر
میں سائنسی علوم کے اصول و قوانین کا نفاذ عمل میں النے کی بجائے مشاہدات اور تجربات سے ان
کی استقرا ) (Inductionکے بعد مزید مطالعہ اور تجزیہ کے لیے انھیں راہ نما بنایا جاتا ہے اس لیے
کہا جا سکتا ہے کہ استقرائی تنقید ادب پارے یا فن پارے کی تعریف یا مذمت سے یکسر مختلف ہے
اور نہ ہی اس تنقید کا ادب پارے کے مطلق اور اضافی محاسن سے کوئی تعلق ہے اس کے برعکس
انداز تحقیق کی طرح جائزہ لیتی ہے۔ یہ ادبی قوانین کو ادب پاروں ِ استقرائی تنقید تو ادب کا سائنسی
میں تالش کرتے ہوئے ادب کو ارتقا سے وابستہ قرار دیتی ہے۔ اس طرح استقرائی تنقید ادب کے
مختلف دبستانوں اور اصناف کے ساتھ مختلف طریقوں میں درجہ بندی کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر محمد احسن
فاروقی اپنے مضمون میں استقرائی تنقید کے متعلق لکھتے ہیں:
'' تنقید ایک فن ہے جو ادب کو سائنس کے دائرہ میں التا ہے۔ ادب دائمی چیز ہے اور ہر دور
میں ایک الگ سائنس کی اہمیت اختیار کر لیتا ہے اور فن تنقید اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
اٹھارھویں صدی میں منطق بہت اہم سائنس تھی لہذا تنقید منطقی اصولوں پر چلتی دکھائی دیتی ہے۔
انیسویں صدی کی تمام تنقید مابعد الطبیعات اور الہام پر مبنی ہے۔ اب سب سے اہم سائنس ہوتی اور
تنقید بھی سائنسی تجربات اور ) (Inductionسے مدد لینے لگی۔''((١٠
صب ،تنگ نظری اور اندھی روایت یہ امر واقعی قاب ِل تعریف ہے کہ استقرائی تنقید نے تع ّ
پرستی کی کھل کر مذمت کی اور تنقید کو پہلے سے زیادہ ٹھوس اور قطعی انداز اختیار کرنے کی
کاوش کی۔ استقرائی تنقید اس حقیقت کو فراموش کرتی ہے کہ ادب کا تعلق جذبات وہیجانات اور
احساسات سے ہے۔ اس کے متعلق ڈاکٹر سلیم اختر رائے زن ہیں:
'' استقرائی نقاد یہ اساسی حقیقت فراموش کر دیتا ہے کہ ادب کا تعلق جذبات و احساسات اور
ہیجانات سے ہے۔ ادیب ان کے حوالہ سے زندگی کی یوں عکاسی کرتا ہے کہ قاری کے جذبات و
احساسات اور ہیجانات خاص طور سے متاثر ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس سائنسدان زندگی کو یوں
تموج اور نفسی گہرائیوں سے کوئی واسطہ نہیں وہ تو دودیکھتا ہی نہیں ،اسے احساسات کے لطیف ّ
اور دو چار قسم کی قطعیت کی تالش میں ہر چیز کو سائنٹیفک مشاہدات اور لیبارٹری میں تجربات کی
روشنی میں دیکھتا ہے…۔''((١١
مگر استقرائی تنقید شروع ہی سے متنازعہ حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ ''مولٹن'''' ،گیورز'' اور ''مس سٹل
ول'' وغیرہ نے اس دبستان کی بنیاد رکھی اور اس میں نام بھی پیدا کیا لیکن نقادوں کی اکثریت نے
استقرائی تنقید ہی کو نہیں بل کہ تنقید کی ہر اس قسم کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جس میں
دعوی کیا گیا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے اپنے مضمون "Frontiers of
ٰ سائنسی قطعیت اور غیرجانبداری کا
اظہار خیال کیا ہے:
ِ "Criticismمیں سائنسی تنقید کے بارے میں مندرجہ ذیل
تقابلی تنقید م یں فن پاروں یا ادبی تخلیقات کا تعین موازنہ و تقابل سے کیا جاتا ہے۔ تنقیدی
مباحث اور نقاد ایک طرف عام ذہن کا قاری بھی شعوری یا غیر شعوری سطح پر اپنے ادبی ذوق میں
تقابل سے کام لیتا ہے۔ ''میرا پسندیدہ شعر'' ،میری پسندیدہ کتاب ،پسندیدہ مصنّف ،ایک ہی مصنف کی
سب سے بہترین کتاب تقابلی تنقید کی عمدہ مثالں ہیں۔ ایسی تنقید یقینا ً مفید ہو سکتی ہے جس میں نقاد
کا مقصد افہام و تفہیم کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے ادب پارے یا فن پارے کے چھپے گوشوں کو اُجاگر
کرنا ہو۔
ادبی تنقید پر نظردوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ تاریخ کے کئی اہم نقادوں نے تقابلی تنقید سے کام
لیا۔ ڈرائیڈن اور جانسن سے لے کر میتھیو آرنلڈ اور ٹی ایس ایلیٹ تک تقریبا ً تمام نامور نقادوں نے
خواہ اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو ،کسی نہ کسی صورت میں تقابلی تنقید سے استفادہ
ضرور کیا۔ عام طور پر دو مصنفین کے تقابلی موازنہ ہی کو تقابلی تنقید سمجھا جاتا ہے مگر ادبی
تقابلی تنقید کے مختلف انداز ہیں:
ایک مصنف کی خوبیاں واضح کرنے کے لیے ایک سے زیادہ مصنفین سے تقابلی انداز اختیار ٢۔
کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر بجنوری نے غالب کے شعری محاسن کو اجاگر کرنے کے لیے یوں انداز اپنایا۔
''غالب کافلسفہ ،سپی نواز ،ہیگل ،برکلے اور نطشے سے ملتا ہے۔'' ((١٢
رنگ
ِ انداز تحریر کا تقابل کرنا۔ مثالً میر اور سودا کے
ِ ایسے ہی دو ہم عصر ادبا کا متضاد ٣۔
سخن کو ''آہ اور واہ'' کے انداز میں متفرق کرنا۔
صنف سخن کے ضمن ِ تقابلی مطالعہ میں بعض اوقات کسی مخصوص مسئلہ ،موضوع اور
میں ایک ہی دور یا مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے مصنفین کا تقابل بھی کیا جاتا ہے۔ اس سے
ملتی جلتی صورت وہ ہے جس میں ایک ادبی ُرجحان ،دبستان یا تحریک سے وابستہ دو یا اس سے
زیادہ ادبا کا تقابلی مطالعہ کیا جاتا ہو۔ اس قسم کا تقابلی مطالعہ اس بنیاد پر فائدہ مند رہتا ہے کہ ایک
دبستان یا ادبی تحریک کچھ مشترک خصوصیات کے ساتھ ساتھ بعض ایسے منفرد خصائص بھی
رکھتی ہے جن کا تجزیہ انفرادی سطح پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھی تقابلی تنقید
کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ تقابل ہی کی بنا پر کسی بھی ادبی تحریک کی انفرادیت سامنے آتی ہے۔
تقابلی تنقید میں دو یا دو سے زائد زبانوں یا ممالک کے ادب یا پھر کسی مخصوص صنف ادب
کے تقابلی مطالعہ سے ادبیات یا کسی ادیب کے مخصوص ادب پارے کے مختلف پہلو بھی اجاگر
کیے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک ملک کا ادیب یا ادب پارہ دوسرے ملک یا زبانو نکے ادیبو ں
اور ادب کو برا ِہ راست یا بالواسطہ متاثر کر سکتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں
نشر و اشاعت کی عالمگیر سہولتوں اور تراجم عام دستیاب ہیں جن کی وجہ سے موجودہ دور میں
طرز فکر کی تشکیل میں غیر ملکی ادبی شخصیات یا ادبی تحریکوں سےِ ادبی مسالک اور مخصوص
ہر ملک کا ادیب اور مصنف شعوری یا غیرشعوری طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ان ادبی تحریکوں سے
وابستہ مختلف مفکرین کے متعلق واقفیت حاصل کر کے ان سے تقابلی مطالعہ کے بعد ان کی انفرادیت
کا باآسانی تجزیہ کیا جاتا ہے۔
بعض اوقات تقابلی مطالعہ سود مند ہونے کے ساتھ دلچسپ بھی ہوتا ہے۔ جب ایک ہی موضوع
پر مختلف زبانوں کے مصنفین لکھتے ہیں مثالً اناطول فرانس ،سمرسٹ ماہم ،بھگوت چرن درما اور
سعادت حسن منٹو اگرچہ ان چاروں نے مختلف ادوار میں مختلف زبانوں میں لکھا لیکن ان کا تھیم ایک
ہی تھا یعنی مرد بھٹکی ہوئی اور گمراہ عورت کو تو را ِہ راست پہ لے آتا ہے لیکن خود بھٹک جاتا
ہے چنانچہ اناطول فرانس کا ناول " "Taiseسمرسٹ ماہم کا ناول" ، "The Rainبھوت چرن درما کا
''چتر لیکھا'' اور سعادت حسن منٹو کا افسانہ ''کروٹ'' ان چاروں میں ایک ہی بات جداگانہ انداز میں
کہی گئی ہے۔ یوں فرانسیسی ،انگریزی ،ہندی اور اردو کے ان چار مصنفین کا مطالعہ اور ان کی
تحریروں کا تقابلی اسلوب اور تکنیک عالمی ادب کو نئی راہ دکھاتی ہے۔
مگر تقابلی تنقید کے نتائج بعض اوقات مشکوک اور گمراہ کن بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ
نفسیاتی لحاظ سے دو شخصیات کی تشکیل کرنے والے مختلف اقسام کی حرکات کا جائزہ لیں تو یہ
حقیقت واضح ہوتی ہے کہ گھر کے ایک ہی ماحول میں رہنے والے تمام بچے مختلف رنگ ،طبیعت
اور نفسی میالن رکھتے ہیں۔ جب ایک گھر میں رہنے والے دو بھائیوں میں مماثلت نظر نہیں آتی تو
پھر دو ایسے ادیبوں کا تقابلی مطالعہ کیسے ممکن ہے؟ جن میں وجہ مماثلت محض ادب یا زمانہ ہو۔
اس لیے نفسیاتی نکتہ نظر سے ایسا تقابل ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ تقابلی تنقید کے اخذ کردہ نتائج
گمراہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔ اس سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ تقابلی تنقید مفید تو ہے مگر بعض
اوقات اس سے حاصل ہونے والے نتائج قاری کو گمراہ بھی کر سکتے ہیں۔
جمالیاتی تنقید کا کام ادبی تخلیقات کی جمالیاتی اقدار کو پرکھنا ہوتا ہے۔ جمالیاتی اقدار سے
مراد وہ خصوصیات ہیں جن کا وجود ہر ادب پارے میں موجود ہوتا ہے جو ادبی ُحسن کو حسین بناتی
ہیں۔ جمالیاتی تنقید انھی ُحسن پیدا کرنے والی خصوصیات کی تالش کرتی ہے اور فن پارے یا ادب
پارے کی جانچ پڑتال ایسے انداز میں کرتی ہے کہ فن پارے کا مقصد اور نتیجہ معلوم ہو جاتا ہے۔
جمالیاتی نقاد کسی ادبی یا فنّی تخلیق پر نظر ڈالتے ہوئے یہ دیکھتا ہے کہ نقاد کے ذہن پر اس فن
پارے نے کیا نقوش اور اثرات چھوڑے ہیں اور کس حد تک اس نے مصنف کے جمالیاتی احساسات
کو محسوس کیا ہے۔ جمالیاتی تنقید کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبدہللا لکھتے ہیں:
''ادب کو ایک جمالیاتی تجربہ سمجھ کر پڑھنے والوں کے دو طبقے ہیں۔ ایک ان لوگوں کا جو
محض اپنے تاثرات یا محض اپنے ذوق کی رہنمائی میں حظ بھی اٹھاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر یہ
فیصلہ بھی صادر کرتے ہیں کہ ادب پارے نے اپنے مقصد کی تکمیل کی یا نہیں۔ یہ گروہ تاثراتی
گروہ کہالتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو محض دلوں کی رہنمائی کو کافی نہیں سمجھتا بل کہ رائے
دینے کے لیے عقلی دلیلیں النا ضروری خیال کرتا ہے اور ان میں سے کچھ دلیلیں فلسفہ جمالیات کی
صورت میں مرتب و منظم موجود ہیں۔ یہ مسلک جمالیاتی اقدار کا مسلک ہے اور اسی سے تنقید کی
فلسفیانہ اساس قائم ہوتی ہے۔'' ((١٣
عام طور پر جمالیاتی نقاد ان سواالت کا جواب فراہم کرتا ہے کہ ایک تصویر یا فن پارہ کیسا
ہے اور اس کے مصنف یا تخلیق کار نے اس کے (نقاد کے) ذہن پر کیا اثرات اور نقوش چھوڑے؟ اس
فن پارے یا ادب پارے سے نقاد کوئی حظ اٹھاتا ہے یا نہیں؟ اگر حظ اٹھاتا ہے تو اس کی نوعیت کیا
ہے۔ ان سواالت کے جوابات تالش کرنا جمالیاتی نقاد کا کام ہے۔ دراصل جمالیاتی تنقید کا مقصد یہ ہوتا
ہے کہ وہ اس بات کی تشریح کر سکے کہ فن پارہ یا ادب پارے میں دلچسپی کے کون سے لوازمات
ہیں اور ان کے تاثرات کیسے پیدا ہوئے اور کن حاالت کے تحت اس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے؟
جمالیاتی لفظ اگرچہ قدیم ہے مگر جمالیاتی تنقید کی اصطالح معروف ہونے کے باوجود اتنی
قدیم نہیں ہے۔ جمالیات کی اصطالح سب سے پہلے ایک جرمن فالسفر بام گارٹن )(Bawm Garten
نے ١٧٣٧ء میں وضع کی تھی۔ اس طرح جمالیات " "Aesheticکی اصطالح کی عمر کوئی تین سو
سال بنتی ہے۔ لفظ Aestheticدو یونانی الفاظ کا مرکب ہے جس سے مراد ایسی شے ہے جس کا
حواس خمسہ سے ادراک کیا جانا ممکن ہو۔ لفظ Aestheticکا اردو ترجمہ ''جمالیات'' کیا جاتا ہے۔
ِ
لفظ جمالیات کے بارے میں مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:
'' اردو پڑھنے والوں میں ایسوں کی کافی تعداد نکلے گی جو اس اصطالح اور اس کے مفہوم
کو اچھی طرح نہ سمجھ سکیں…جس انگریزی لفظ کے جواب میں یہ اردو کا لفظ گھڑا گیا ہے ،اس کا
یہ صحیح مترادف نہیں۔ انگریزی میں Aestheticsجمالیات سے کہیں زیادہ جامع اور بلیغ ہے۔
حس لطیف سے Aestheticsکے لغوی معنی ہر اس چیز کے ہیں جن کا تعلق ِحس اور بالخصوص ِ
ہو۔ اس اعتبار سے اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو Aestheticsکے لیے حسیات یا وجدانیات یا
فنون لطیفہ سے ہے۔ ّاول ّاول
ِ ''ذوقیات'' بہترین اصطالح ہو … Aestheticsکا موضوع حسن اور
فنون لطیفہ کے معنوں میں استعمال کیا۔ اسی وجہ سے عربی اور اردو میں
ِ ہیگل نے اس لفظ کو فلسفہ
اس کا ترجمہ جمالیات کیا گیا۔''((١٤
'' حسن موجود ہو یا مخلوق اسی کا تجزیہ کرنا ادبیات کے نقاد کا فرض ہے۔ اب سوال یہ ہے
انداز نگارش میں ،بیان میں
ِ کہ ادب میں حسن کہاں ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پیکر میں شکل،
حسن کے مدارج نہیں ہوتے بل کہ وہ تکمیل کا دوسرا نام ہے اس لیے ماننا پڑے گا کہ اس کا تعلق
صرف آرٹ کی شکل اور پیکر سے ہے۔ ادبیات میں سب سے مشکل اور پیچیدہ صنف شعر ہے جب
آپ اس کے حسن کا تجزیہ کریں گے تو گویا اس کی نگارش اور اظہار کا تجزیہ کریں گے۔''((١٥
اس سے واضح ہوتا ہے کہ جمالیاتی تنقید محض ذاتی پسند و ناپسند کے اظہار تک محدود نہیں
اور نہ ہی یہ خارجی ذریعہ یعنی مواد ،موضوع یا ہیئت وغیرہ سے وجود میں آتی ہے اس کے
حسن لطیف جیسی مبہم اصطالحات کا سہارا لے کر ان ثانویِ برعکس جمالیاتی تنقید ذوق ،وجدا ن اور
عناصر کو بنیاد بناتی ہے جن سے اُسلوب میں ُحسن اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔ دراصل جمالیاتی تنقید
ادب برائے ادب کے نظریے کے تحت وجود میں آتی ہے اور اس نظریے کے تحت ادب کا زندگی اور
متنوع تلخ تقاضوں اور بدصورتی سے کوئی تعلق نہیں اس لیے جمالیاتی تنقید کے لیے بھی اس کے ّ
زندگی اور اس کے متنوع مظاہر سے رشتہ منقطع کرنا الزمی امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمالیاتی
تنقید کو فن یا ادبی تخلیق کے مواد کے مقابلے میں اس کی ہیئت کی تنقید کہا گیا ہے اور یہی چیز اس
کے اور تنقید کی دوسری سمتوں کے درمیان امتیاز کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔
ادب اور زندگی کا تعلق یک طرفہ نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں زندگی ادب کو متاثر کرتی
ہے وہاں ادب بھی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ اگر زندگی عمل کے مواقع دیتی ہے تو ادب ر ِدّعمل کا
اظہار کرتا ہے۔ یہی عمل او رر ِدّعمل ہی زندگی اور ادب کے ارتقا کا باعث بنتے ہیں۔ تنقید میں حقیقت
زیر اثر کئی رجحانات سامنے آئے۔ اس کے علم برداروں میں سے بعض نگاری کی تحریک کے ِ
تاریخی تنقید ) (Historical Criticismکو مدنظر رکھتے ہیں اور بعض حقیقت نگار ہونے کے
باوجود روائتی تنقید سے کام لیتے نظر آتے ہیں۔
تاریخی تنقید کے ارتقا کے بارے میں پروفیسر عابد علی عابد ،اڈمنڈ ولن کی کتاب "Piple
"Thinkerکے ایک اقتباس کا ترجمہ لکھتے ہیں:
'' تاریخی نقطہ نظر سے ادب کے انتقاد کا باقاعدہ آغاز اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے ہوتا ہے۔
علم جدید )(Lascienzaunova ١٧٢٥ء میں نیپلر کے فلسفی ویچو (١٦٦٨ئ١٧٤٤ ،ئ) کا رسالہ ِ
شائع ہوا۔ یہ رسالہ فلسفہ تاریخ کے متعلق بحث کرتا ہے۔ اسی رسالے میں اس نے غالبا ً تاریخ میں پہلی
مرتبہ ادب کی تاریخی تعبیر کرنے کی کوشش کی۔''()١٦
ایڈمنڈشیرر ) (Edmond Schererکو تاریخی تنقید کا باقاعدہ نقاد سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی
تنقید کے بارے میں شیرر کا اصول تھا کہ کسی مصنف کی صالحیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کا
تعین کرنا کہ اس نے اپنے عہد کے حاالت سے متاثر ہو کر اپنی صالحیتوں کا رخ کس طرف
موڑا۔اس کے ساتھ ساتھ شیرر مصنف کے کردار اور شخصیت کی تفہیم اور اس کے عہد کا تجزیہ کر
کے ہی تخلیقات پر تنقید کرتا تھا۔ جرمنی میں شلیگل ) (Schlegaelنے بھی اسی انداز سے تنقید
کرنے پر زور دیا۔ شلیگل ڈارون کی طرح ادبیات اور تخلیقات میں تصور ارتقاء کا قائل اور حیات کی
طرح ادب کو بھی مختلف اقسام میں تقسیم کرنے کا حامی تھا۔ ایسے ہی فرانسیسی نقاد ساں بوا (Saint
)Beaveنے تاریخی تنقید پر شیرر کے خیاالت کو مزید وسعت دیتے ہوئے اس میں سائنس جیسی
قطعیت پیدا کرنے پر زور دیا۔ اس کا قول ہے کہ ''درخت کے بارے میں حصو ِل معلومات سے پھل
کی نوعیت کا خود ہی اندازہ ہوتا ہے۔ درخت ادیب ہے اور پھل اس کا ادب۔'' ساں بو کے خیاالت کو
تین ) (Taineنے مزید وسعت دی۔ اس نے اپنی کتاب ""Literary History of English People
میں انگریزی ادب ،ادیبوں اور شعر کا تاریخی تنقید کے تناظر میں جائزہ لیا۔ تین) (Taineنے ادب
کی تفہیم اور تخلیقی محرکات کے تجزیہ کے لیے تین اصول وضع کیے:
ماحول)(Milieo ٢۔
تاثراتی تنقید اگرچہ کوئی زیادہ اہمیت کی حامل نہیں۔ اس میں جو انفرادیت نظر آتی ہے اس
میں نقادوں کے شعور کی رو کا دخل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاثراتی نقاد تنقید کے کوئی خاص
اصول نہیں بنا سکتے کیوں کہ اس کی نوعیت سائنٹیفک نہیں ہوتی۔ دائرہ کار کے لحاظ سے بھی دیکھا
جائے تو تاثراتی تنقید ،تنقید کی دوسری اقسام کی نسبت خاصی محدود ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ
اس میں صرف اور صرف تاثرات سے کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی محدود پیمانے پر تاثراتی تنقید کے
متعلق ڈاکٹر عبادت بریلوی رقمطراز ہیں:
'' تاثراتی تنقید کا تعلق ہر حال میں انفرادیت سے ہوتا ہے لیکن یہ خصوصیت نقاد کے شعور پر
داللت نہیں کرتی بل کہ اس کی بے بسی کو ہمارے سامنے التی ہے۔ وہ خود اپنی انفرادیت سے کام
لینے کا خواہش مند نہیں ہوتا بل کہ اس کو کام لینا پڑتا ہے۔'' ( (١٧
بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو تاثراتی تنقید کی سب سے بڑی خامی یہ نظر آتی ہے کہ
اس میں ادبی تنقید کے بنیادی مقاصد یعنی ادب میں پہلے سے تعین کردہ اقدار کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
تفنن طبع کا ذریعہ سمجھا جائے اور اس سے اخذ و تاثر کی توقع اس کے برعکس اگر ادب کو محض ِ
رکھی جائے تو پھر تاثراتی تنقید اپنے وجود کا جواز مہیا کرتی ہے لیکن تاثراتی تنقید کی یہ انفرادیت
اس وقت ناکام ثابت ہوتی ہے۔ جب یہ ادب سے تاثرات کے عالوہ مزید توقعات وابستہ کرتی ہے۔ اس
کے عالو ہ کسی معمولی معیار کے نہ ہونے کے سبب بھی ہر نقاد اپنی سوچ کے مطابق مختلف اقسام
کے تاثرات کو جیسے چاہے ،بیان کر سکتا ہے۔ نتیجتا ً ایک ہی فن پارے یا ادب پارے کے بارے میں
اچھے برے اور متنازع تاثرات سے قاری فن پارے کو سمجھنے کی بجائے مزید الجھنوں کا شکار ہو
جاتا ہے۔
تاثراتی تنقید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تاثراتی نقاد کو خیاالت کی طرف توجہ دینے کی
کوئی ضرورت نہیں کیونکہ خیاالت کی پرکھ نقاد کا کام نہیں بل کہ فلسفی کا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا
ہے کہ تاثراتی تنقید میں مواد کی کوئی اہمیت نہیں لیکن ایک باشعور نقاد یہ کیسے کر سکتا ہے کہ وہ
زندگی کے مسائل کے بارے میں ازخود کوئی رائے نہ رکھتا ہو۔ کلیم الدین احمد تاثراتی تنقید کی شدید
مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''تاثراتی کی یہی مخصوص کمی ہے کہ اس کا مرکز نقاد کی شخصیت ہوتی ہے۔ فنّی کارنامہ
نہیں ہوتا اس میں تعلق ہوتا ہے بے تعلقی نہیں ہوتی۔ اس میں تاثرات کا دھندلکا ہوتا ہے۔ سمجھ بوجھ
کی روشنی نہیں ہوتی۔ فوری جذبات کا ابھار ہوتا ہے۔ ذہنی توازن نہیں ہوتا ،ضبط نہیں ہوتا ،احتیاط
نہیں ہوتی ،اس میں اضطراری کیفیت ہوتی ہے۔باقی رہنے واال احساس حسن و خیر صداقت نہیں ہوتا۔''
()١٨
تاثراتی تنقید پر کلیم الدین احمد کی مندرجہ باال رائے کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے
کیونکہ کوئی بھی باشعور قاری یا نقاد محض ان تاثرات پر کیسے یقین کر سکتا ہے جو کہ ادب پارہ
کے وقتی اثرکی بنا پر شدید بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر تاثراتی تنقید واقعی محض تاثرات کا نام ہے تو اس
پس پشت ڈال کر صرف کا مطلب تو یہ ہوا کہ نقاد اپنے شعوری مطالعہ اور زندگی کے مشاہدے کو ِ
مصنف کی ذہنی صالحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے تاثرات کو بیان کرتا ہے۔ تاثراتی تنقید ادبی
محاسن کی طرف ایک خاص ادبی اور شاعرانہ انداز میں قاری کی توجہ مبذول نہیں کراتی جب کہ
محض تاثر کے ذریعے ادب پارے کا مطالعہ کرواتی ہے اس لیے اس کا معیار تقریبا ً انفرادی ہوتا ہے
اس بناپر اس میں فرد کے جذبات اور ر ِدّعمل کو بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔
اس لحا ظ سے دیکھا جائے تو خود تاثراتی تنقید کی اہمیت ،منصب اور افادیت بھی خطرے
میں پڑی نظر آتی ہے جو تنقید جذباتی ر ِدّعمل اور ہنگامی تاثرات کی پیداوار ہو۔ اس میں بھال افادیت
کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
رومانی تنقید ادب کی رومانوی تحریک کے تحت وجود میں آئی۔ رومانوی تحریک کے ساتھ
ساتھ رومانی تنقید نے بھی نشوونما پائی اور اس کے زوال کے ساتھ ہی رومانوی تنقید کا وجود بھی
ختم ہو گیا۔ گویا اب نہ تو رومانوی تحریک زندہ ہے اور نہ ہی رومانوی ناقدین نظر آتے ہیں لیکن
طرز احساس اور رومانوی زاویہ نگاہ جیسے الفاظِ رومان ،رومانیت ،رومانی ،رومانی کرب ،رومانی
آج بھی استعمال کیے جاتے ہیں مگر کثرت استعمال کے باوجود ان کے مفہوم میں کوئی قطعیت نہیں
پائی جاتی۔ رومانویت کے مفہوم کے بارے میں ڈاکٹر سید عبدہللا اپنے ایک مضمون ''رومانویت '' میں
لکھتے ہیں:
'' اور جب ہم اپنی لغات الفون کی ترتیب کے دوران رومانویت کی اصطالح پر آئے تو اپنی بے
چارگی کا گہرا احساس ہوا ،معلوم ہوا کہ یہ لفظ جتنا دل خوش کن اور دلچسپ ہے ،اتنا سہل اور
باآسانی قابل تشریح نہیں۔ لغات اور فرہنگ اور اصطالحات کے انسائیکلو پیڈیا اور تنقید کی کتابیں ایک
اور سب کی سب الگ الگ کہانی سنا رہی ہیں۔''((١٩
اردو تنقید میں رومان اور رومانی جیسی اصطالحات نے بہت زیادہ الجھن پیدا کی۔ یہی وجہ
ہے کہ اختر شیرانی کو رومانی شاعر کہا گیا تو سجاد حیدر یلدرم کو رومانی افسانہ نگار اور نیاز فتح
پوری رومانی نقاد قرار پائے۔ ان پر یہ لیبل اتنی طویل مدت سے چسپاں ہے کہ کبھی کبھی تو شک
ہونے لگتا ہے کہ یہ حقیقت ہے۔
رومانوی ادب اور رومانوی تنقید میں لفظ 'رومان' کلیدی حیثیت رکھتا ہے اگرچہ یہ لفظ
انگریزی زبان کا سمجھا جاتا ہے مگر اس لفظ کی اشتقاقی تاریخ کے ضمن میں موکس کی فراہم کی
گئی معلومات کو ڈاکٹر سلیم اختر اپنی کتاب ''تنقیدی دبستان'' میں لکھتے ہیں:
لفظ رومان کی تاریخ اور اس سے منسلک مختلف مفاہیم اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ
یہ لفظ ایک لمبی تاریخ کا حامل تو ہے مگر اس سے منسلک مختلف معانی مختلف اہمیت رکھتے ہیں۔
یہ ادبی مفہوم میں سب سے پہلے ١٧٨١ء میں جرمنی میں متعارف ہوا۔ اس ضمن میں محمد حسن
عسکری کا نظریہ ہے:
''ادبیات کے سلسلے میں سب سے پہلے ١٧٨١ء میں وارٹن اور ہرڈر نے یہ لفظ استعمال کیا
اور اس کے بعد گوئٹے اور شلر نے ١٨٠٢ء میں ادبیات کے سلسلہ میں اس کا اطالق کرنا شروع کیا
لیکن شلیگل اور مادام ڈی اسٹائل ) (Destealنے اسے ایک اصطالح کی شکل میں رائج کیا۔ اس
طرح یہ لفظ جو پہلے زبان کا نام تھا۔ اس کے بعد زبان کی مخصوص ادبیات اور داستانوں کا لقب بنا،
وسطی کی قدروں کی نمائندگی کرنے لگا اور آہستہ آہستہ ادب
ٰ پھر ادب میں ماورائیت آراستگی ،عہ ِد
کے ایک مخصوص مزاج کا مظہر بن گیا۔''((٢١
انگریزی ادب میں ورڈز ورتھ ،کولرج اور شیلے کو رومانی نقاد مانا جاتاہے۔ انھوں نے شاعری کو
الہامی قوت تسلیم کرتے ہوئے شاعری کو جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ گردانا۔ اگرچہ ورڈز
ورتھ ،کولرج اور شیلے نے اپنی تحریروں میں رومان اور رومانیت جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے
مگر اس کے باوجود رومانوی تنقید ان ہی کے نام سے موسوم ہے۔ رومانی تنقید دراصل اس عہد کے
قدامت پسند انگلستان میں ایسی بغاوت تھی جس نے تخلیقی سطح پر اپنا اظہار کیا اور رومانی تنقید
میں ُحسن ،مسرت اور جذبات و احساسات پر زور دیا گیا۔اس ضمن میں ڈاکٹر انور سدید رائے زن ہے:
'' رومانیت کا تعقل چونکہ شعور کے بجائے الشعور سے ہے اس لیے یہ ایک بے حد پیچیدہ
نفسیاتی کیفیت ہے۔ اب تک اس کے متعدد زاویے سامنے آچکے ہیں لیکن کوئی جامع تعریف مرتّب
نہیں ہو سکی۔''((٢٢
الغرض لفظ رومانیت کی اساس جذبات ،مسرت اور حسن قرار پائے۔ ورڈزورتھ نے خاص
طور پر شاعری کی زبان پر زور دیتے ہوئے تخلیق اور اس سے منسلک جذبات و احساسات اور پھر
ان کے اظہار کے لیے منتخب کی گئی زبان کے باہمی روابط کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کاوش
کی۔ ورڈز و رتھ چونکہ فطرت اور ادیب کو ایک ساتھ دیکھنا پسند کرتا تھا اس لیے اس نے فطرت کی
مانند سیدھی سادھی اور تصنّع سے عاری زبان کو اپنانے پر زور دیا مگر کولرج نے اس سے اختالف
کیا اور اس نے ادبی تنقید کو فن پاروں کے حسن و قبیح کی جانچ تک محدود رکھنے کی بجائے تنقید
ک و فلسفیانہ گہرائی سے روشناس کرایا۔ کولرج نے عملی تنقید اور نظریاتی بحثوں سے یہ ثابت کیا کہ
مروجہ علوم کا جاننا بھی ضروری ہے۔ اس نقاد کے لیے فلسفہ ،منطق اور ادب کے ساتھ ساتھ دیگر ّ
نے صحیح معنوں میں رومانی شاعری کے اس بنیادی اصول کو ادبی تنقید پر الگو کیا کہ شاعری کی
مانند تنقید کا سرچشمہ بھی روحانی قوت اور الہام ہے۔ اس کے نزدیک شاعر اور نقاد دونوں ہی الہام
کی مدد سے حقیقت تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ دونونمیں بنیادی فرق یہ ہے کہ شاعر تخلیق کرتا
ہے جب کہ نقاد تنقید کرتا ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ رومانی تنقید اور شاعری دراصل اپنے عہد کے قدامت پسند
انگلستان میں ایسی بغاوت تھی ،جس نے تخلیقی سطح پر اپنا اظہار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومان
طرز احساس جیسے الفاظ زندہ رہ گئے لیکن رومانی تنقید میں حسن ،مسرت اور جذبات و ِ اور رومانی
احساس پر جو زور دیا گیا ،اس پر آنے والے وقتوں میں شدید ر ِدّعمل ہوا۔ سب سے شدید ردعمل
میتھیو آرنلڈ کا تھا جس نے ادب کو زندگی کی تفسیر قرار دیا۔ دوسری طرف رومانوی تحریک کی
انتہا پسندانہ صورتوں میں رومانی تنقید کا جمالیاتی تنقید کے نظریات سے امتیاز کرنا بھی مشکل ہو
گیا چنانچہ مارکسی تنقید میں رومانوی اور جمالیاتی تنقید دونوں کی مذمت کی گئی۔
تنقید میں حقیقت نگاری کی تحریک کے تحت کئی نئے زاویے اور ُرجحانات سامنے آئے۔ اس
کے علم برداروں میں سے بعض تاریخی تنقید ) (Historical Criticismکو اپنے پیش نظر رکھتے
ہیں اور بعض حقیقت نگار ہونے کے باوجود روایتی تنقید سے کام لیتے ہیں جب کہ کچھ نقاد عمرانیات
اور علم اللسان سے اس کی حدیں مال لیتے ہیں جس کے نتیجے میں )(Sociological Criticism
عمرانی تنقید کی ابتدا ہوتی ہے تاہم جہاں عمرانی تنقید کے مباحث کو باقاعدہ اصولوں کی روشنی میں
مدون کرنے کا تعلق ہے ،تو یہ بھی تنقید کے اُن جدید رجحانات کی پیداوار ہے جس کے تحت نفسیاتی
اور مارکسی تنقید وجود میں آئی۔
عمرانیات کے لیے انگریزی لفظ ) (Sciologyاستعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصطالح اُنیسویں
صدی کے وسط میں ایک فرانسیسی مفکر کومت نے) (Socialکی بنیاد پر وضع کی تھی۔ اردو میں
عمرانیات کے لیے سماجیات ،معاشریات کی اصطالح بھی استعمال ہوتی ہے کیونکہ اس میں انفرادی
فرد کا مطالعہ کرنے کی بجائے بہت سے افراد کے باہمی میل جول سے وجود میں آنے والے سماج کا
مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ روسو اور سپنسر کے خیاالت میں بھی عمرانیاتی تنقید کا تصور موجود
ہے مگر عمرانیات کے مباحث کو وسعت ڈارون کے نظریہ ارتقا ،فرائڈ کی تحلی ِل نفسی اور مارکس
کی مادی جدلیات نے دی۔ جب عمرانیات کی روشنی میں ادیبوں اور نقادوں نے اپنے مطالعے کا آغاز
کیا تو فرد اور سماج علیحدہ علیحدہ خانوں میں بند نہ رہے بل کہ ان کے باہمی عمل اور ر ِدّعمل کو
سماج اور سماجی اداروں سے وابستہ سیاسی اور تہذیبی عوامل کے تناظر میں پرکھا گیا اور یہی عمل
عمرانی نقاد کو بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ ادب معاشرے کے کئی ایک اصولوں کو وضع کرتا ہے اس
لیے یہ معاشرے سے متعلق ہونے کی وجہ سے ایک معاشرتی ادارہ کی حیثیت بھی اختیار کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ادب معاشرتی ابالغ کا ایک مخصوص انداز ہونے کے عالوہ ہماری ذہنی جستجو اور
تخیل کا برا ِہ راست اظہار بھی ہوتا ہے۔
عمرانی تنقید میں سماج اور ماحول کی اصطالحات کو محدود معنی میں استعمال کرنے کی
بجائے سماج کو بطور ُکل استعمال کیا جاتا ہے جس میں تہذیب اور تمدن ہر دو عناصر شامل ہوتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج کی تشکیل میں جو تمدنی اور تہذیبی عناصر کارفرما ہوتے ہیں ،ان کا
علیحدہ علیحدہ مطالعہ علم کے نئے زاویوں سے روشناس کرواتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے رسوم و
رواج بظاہر تو خود رو اور آزاد دکھائی دیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ایک ایسی لڑی میں پروئے ہوتے
ہیں جس کے پس منظر میں صدیوں اور نسلوں کا شعور کارفرما ہوتا ہے۔
عمرانی نقاد کو دو سطحوں پر کام کرنا ہوتا ہے۔ ایک تو اُسے مخصوص سماج اور معاشرے
سے وابستہ رج حانات کے تجزیے سے ایک خاص عہد کے ذہنی شعور کا تجزیہ و تعین کرنا ہوتا ہے۔
دوسرا اُسے کسی بھی معاشرے کے ذہنی شعور کے پس منظر اور اس کی تشکیل کرنے والے تمدنی
عناصر کا تجزیہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمرانی تنقید کے سبب کسی بھی معاشرے کے
خاص عہد ،خاص نوع کے ادب کا اندازہ لگانے کے ساتھ اس بات کا بھی بآسانی تجزیہ کیا جا سکتا
ہے کہ ایک عہد کا ادیب دوسرے عہد کے ادیب سے کیسے اور کس لحاظ سے مختلف ہے۔ اس کے
متعلق ہڈسن یوں کہتا ہے ''کسی عہد کی توانائی اپنے اظہار و اخراج کے لیے جن وسائل کو بروئے
کار التی ہے ،ادب بھی ان میں سے ایک ہے یہ اس لیے کہ سیاسی تحریکوں ،مذہبی تصورات،
فنون لطیفہ سبھی میں یہی توانائی رقص فرماتی ہے۔''
ِ فلسفیانہ افکار اور
عمرانی تنقید ایک ایسا طریقہ تنقید ہے جو کہ ادب خاص طور پر ادبی مورخ کے لیے فائدہ
صنف ادب کے ارتقا سے ِ مند ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادبی مورخ تمام ادب یا کسی خاص
دلچسپی رکھتا ہے۔ اس لیے اگر ادبی مورخ ادب کے مخصوص ادوار ،مختلف دبستانوں اور ادبی
تحریکوں کو ان کے مخصوص عہد کے تناظر میں جائزہ لے تو اس کے فیصلوں میں غلطی کا امکان
نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے الزم ہے کہ وہ تمام ادبی شخصیات کی مختلف ادبی
تحریکات کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے معاشرتی اور سماجی دھارے کے تناظر میں جائزہ لے اور ان
نظریہ تحریک یا ر ِدّعمل کو جنم
ٔ مخصوص سماجی عوامل کی نشان دہی کرے جنھوں نے کسی خاص
دیا۔
ا ُسلوب ادب میں استعمال ہونے والی قدیم اصطالح ہے۔ اُسلوب کے بارے میں افالطون کا
نظریہ یہ تھا کہ ہر خیال مواد اور ہیئت کے اعتبار سے جامع ہوتا ہے اور کوئی بھی خیال جب اپنی
اصل ہیئت میں سامنے آتا ہے تو اسلوب وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح دبستان ارسطو کے ناقدین اُسلوب
کو اضافی شکل میں پیش کرتے ہوئے اسے بہت سے عناصر سے ملتی جلتی چیز تصور کرتے ہیں۔
ان کے مطابق جتنی اقسام کی تحریریں ہوتی ہیں ،اتنے ہی اقسام کا اسلوب ہوتا ہے اور ہر اسلوب
دوسرے اسلوب سے جدا ہوتا ہے۔
جدید نظریات نے اسلوب کے حوالے سے اسلوبیاتی تنقید کی زیادہ بامعنی اور اصول و
ضابطے کے تحت بحث کی ہے۔ اسلوبیات کے جدید نظریات کے مطابق ادبی تحریریں زبان کے
وسیلے کا صرف ایک گوشہ ہیں جس کے مطابق ایک خیال کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا
ہے۔ اصل میں اسلوبیات زبان کا مطالعہ ہے ،اگرچہ لسانیات خود ایک آزاد مضمون ہے لیکن اسے
اُسلوبیات سے غیرمتعلق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جدید ادبی مطالعہ فن پارے کے لیے کسی خاص اُسلوب کو اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔
یہ صرف اس اسلوب کا تجزیہ کرتا ہے جس کو اظہار کے لیے چنا گیا۔ اس لحاظ سے اُسلوب لسانیاتی
مطالعے کے برابر ہے جو صحیح قواعد لکھنے کے اصول پر زور نہیں دیتا۔ بعض اوقات ساختیات
اور اُسلوبیات کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کی بنیاد
زبان کے مطالعہ پر ہے مگر اس کے باوجود دونوں میں بعض امور کے لحاظ سے اساسی امتیاز ہے۔
ساختیات میں تخلیق کی صورت پذیری میں زبان کے اساسی ڈھانچہ کو پرکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف
عناصر ترکیبی اور اس کی بنیاد بننے والی آوازوں کے تجزیاتی مطالعہ پر
ِ اُسلوبیات میں ،اُسلوب کے
علم بیان ،صنائع اور بدائع کے برعکس لفظ کو تشکیل کرنے والے اصرار کیا جاتا ہے اور اس میں ِ
صوتی عناصر کی ت حلیل کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلوبیات میں تشبیہہ ،استعارہ اور صنعتونسے
متعلق نظریات کو موضوع بحث بنانے کی بجائے صوتیات ) (Phoneticsکی معروف اصطالحات کا
تجزیہ کیا جاتا ہے جیسے مصوتہ) ، (Vowelمصمتہ ) ، (Consonentدوہرا مصوتہ
) ،(Dipthongانفی مصمتہ ) ، (Nasal Constantانفیا مصوتہ ) ، (Vowel Nasalizedھکاری
آواز ) (Aspirated Soundجیسے (ٹ ،ڈ ،ڑ) وغیرہ صغیری آوازیں )(Fricative Sounds
جیسے (س ،ش ،ژ) وغیرہ یعنی اسلوبیات میں تمام صوتیات شامل ہوتی ہیں اسی لیے اسلوبیاتی نقاد
کے لیے لسانیات کے جدید تصورات کے ساتھ ساتھ صوتیات کے علم سے آگاہی بھی الزمی ہے۔
ماہرین لسانیات ادب کو ایک ساختیاتی وحدت مانتے ہیں۔ یہ ساختیاتی وحدت کئی طرح سے
ِ
حاصل ہو سکتی ہے۔ مثالً ایک غنائیہ شاعر کے ذہن میں ایک آہنگ بحر چونکہ پہلے سے ہوتی ہے
اسی لیے وہ اس کے مطابق الفاظ منتخب کرتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کے اصولوں پر بحث کرتے ہوئے
پروفیسر شارب رودولوی کہتے ہیں:
'' اسلوبیاتی تنقید کے اصولوں کا تعین کسی قدر دشوار کام ہے اس لیے کہ اسلوبیات عام طور
پر زبان کے استعمال سے بحث کرتی ہے اور زبان کے استعمال کے بے شمار پہلو ہیں۔ ان میں سے
اسلوبیاتی مطالعہ ک رنے واال نقاد کسی ایک پہلو پر زیادہ زور دیتا ہے یا اس کے اپنے مزاج اور پسند
کے مطابق اس کا کوئی پہلو زیادہ اہم ہو سکتا ہے۔ اس طرح اسلوبیاتی نقاد ایک ہی چیز کے مطالعے
میں مختلف اور متضاد نتیجے نکال سکتے ہیں۔ اس کا ایک نازک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم کسی چیز کو
کس طرح یا کس موقع پر پڑھتے ہیں۔ اس سے بھی اس کی معنوی جہت میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن
عام طور پر اسلوبیاتی تنقید میں زبان کے جن پہلوؤں پر توجہ دی جاتی ہے ،اسے اس طرح تقسیم کر
سکتے ہیں۔ پھر بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی اسلوبیاتی مطالعہ ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرے،
ان میں سے کسی ایک پہلو یا ایک سے زیادہ پہلوؤں کی وضاحت یا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔''((٢٣
اسلوبیاتی نقاد کو الفاظ کی اصوات سے اساسی دلچسپی ہوتی ہے اسی لیے اُسلوبیاتی تنقید میں اُسلوب
قائم بالذات بنتا ہے۔اسلوبیاتی نقاد مارکسی ناقدین کی طرح مقصد کے حصول کو ذریعہ نہیں سمجھتے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اُسلوبیاتی نقاد اُسلوب کے مطالعہ میں جمالیاتی نقاد کی طرح جمالیاتی اقدار
اور الفاظ سے فن کار کے فن پاروں کا جائزہ لینے کی بجائے الفاظ کے تجزیہ سے پیدا ہونے والے
اچھے برے یا دلکش قبیح تاثرات میں تاثراتی نقاد کی طرح دلچسپی لیتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
اسلوبیاتی نقاد تخلیق یا فن پارے کو تمام عوامل و محرکات سے الگ کر کے الفاظ ،حروف اور ان کی
آوازوں کو شمار کرتا ہے۔ بقول گوپی چند نارنگ:
''اُسلوبیات کے پاس خبر ہے نظر نہیں ،جمالیاتی قدر شناسی اسلوبیات کا کام نہیں ،اُسلوبیات کا
کام بس اس قدر ہے کہ وہ لسانی امتیازات کی حتمی طور پر نشان دہی کر دے۔ ان کی جمالیاتی تعین
قدر ادبی تنقید کا کام ہے۔ اس کی توقع ادبی تنقید سے کرنا چاہیے نہ کہ اسلوبیات سے''()٢٤
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلوبیاتی تنقید کے اصولوں کا تعین کسی قدر مشکل کام ہے کیوں
کہ اسلوبیات میں زیادہ تر زبان کے استعمال پر بحث کی جاتی ہے چونکہ زبان کے استعمال کے
مختلف پہلو ہیں اور اسلوبیاتی نقاد ان میں سے کسی ایک پہلو پر زیادہ توجہ دے سکتا ہے یا اپنے
مزاج اور پسند کے مطابق نقاد کے نزدیک اس کا کوئی پہلو زیادہ اہم ہو سکتا ہے۔ یوں اُسلوبیاتی نقاد
ایک ہی فن پارے کے مطالعے سے مختلف نتائج اخذ کر سکتا ہے جس سے فن پارے کی معنوی جہت
میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن عام طور پراُسلوبیاتی تنقید میں زبان کے مختلف پہلوؤں پر توجہ دی
جاتی ہے۔
تنقید کے جدید نظریات میں ساختیاتی تنقید کو اہمیت حاصل ہے۔ دراصل ساختیات جدید لسانیات
کا ایک یورپی رجحان ہے جس نے ادبی تنقید پر گہرے نقوش مرتّب کیے۔ ١٩٤٠ء کے قریب ساختیات
کی ابتدا ہوئی۔ مشہور ناقدین روالں بارتھ ) (Roland Barthاور سوتین تو دوروف (Tzventan
) Todorovنے ساختیاتی تنقید کو مزید وسعت دی۔ خاص طور پر بیانیہ تنقید کے لیے اسے استعمال
کیا۔ اُسلوبیاتی نقاد کو الفاظ کے اصوات سے خصوصی لگاؤ ہوتا ہے۔ ان الفاظ کو اسلوب کی ماال میں
پرونے والے تخل یق کار کی تخلیقی شخصیت کی بنیاد بننے والے نفسی محرکات سے نفسیاتی نقاد کی
طرح کوئی لگاؤ نہیں ہوتا اور نہ ہی اسلوبیاتی نقاد ،جمالیاتی نقاد کی طرح اسلوب کا مطالعہ جمالیاتی
اقدار اور الفاظ سے کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسلوبیاتی نقاد اسلوب کا مطالعہ تخلیق یا ادب پارے کو
اس کے تمام عوامل و محرکات سے جدا کر کے اسے کسی ہوا بند بوتل میں بند کر کے ،سائنس دان
جیسی التعلقی سے الفاظ ،حروف اور ان کی آوازوں اور مخارج کو شمار کرتا ہے۔ اس ضمن میں
ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ لکھتے ہیں:
''فن پارے کی تخلیق میں سب سے پہلے ،اصوات کا وجود عمل میں آتا ہے ،پھر مختلف تنظیم
و ترکیب اور نظم و ضبط کے ذریعہ یہ اصوات معنی کا روپ اختیار کر لیتی ہیں۔ اگر آوازیں ہی نہیں
ہوں تو معنیاتی عمل کہاں سے پیدا ہو گا۔''((٢٥
جہاں تک ادب کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساختیاتی نقادوں نے ادب کی
ت نقید بہ طور زبان ہی کی اور ان کی نظر میں ہر متن کی حیثیت ایک مخصوص محاورہ زبان کی سی
ہے جس کو ساختیاتی نقادوں نے ادب کی شعریات کی تالش سے منسوب کیا ہے۔ اس لحاظ سے
اصناف ادب کے ذریعے مطالعہ کی توسیع کہا جا سکتا ہے۔ ساختیاتی نقاد کی نگاہ ِ ساختیاتی تنقید کو
م یں فن پارے یا ادب پارے کا کوئی لفظ یا ہیئت متبادل لفظ یا ہیئت کے انتخاب کے امکانات سے خالی
نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ متبادل لفظ یا ہیئت اس کے معنی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ساختیاتی تنقید
میں زبان کی سطحی یا ظاہری ساخت ،ترتیب الفاظ اور معنوی یا داخلی ساخت کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ:
''اُسلوبیات کے پاس خبر ہے نظر نہیں ،جمالیاتی قدر شناسی اُسلوبیات کا کام نہیں ،اُسلوبیات کا
کام بس اس قدر ہے کہ وہ لسانی امتیازات کی حتمی طور پر نشان دہی کر دے ،ان کی جمالیاتی تعین
قدر ادبی تنقید کا کام ہے۔ اس کی توقع ادبی تنقید سے کرنا چاہیے نہ کہ اُسلوبیات سے۔''((٢٦
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادبی تنقید کے ساختیاتی مطالعہ میں بہت سی نزاکتیں ہیں۔ ساختیاتی نقاد ادب
کو حقیقت کا عکس یا ادیب کی شخصیت کا آئینہ نہیں سمجھتا۔ اس طرح ساختیاتی نقاد ادب کو انسانی
دعوی کہ
ٰ روایات اور سماج سے وابستگی کے نظریے کو بھی مسترد کر دیتا ہے۔ ساختیاتی نقاد کا یہ
وہ لفظی ترتیب کے ذریعے لفظ اور آہنگ اور اس سے پیدا ہونے والی معنویت کے آشکار پر زور دیتا
ہے ،ناقاب ِل قبول ہے کیونکہ آہنگ اور اس سے پیدا ہونے والی معنویت کسی ادبی تخلیق کے حظ کا
ایک پہلو تو ہو سکتا ہے مگر اس نقطہ نظر پر قدروں کے تعین کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔
بہرحال ایسے وجدان بہت کم تھے اور ایسی بہت سی سرگرمیوں میں انسانی دماغ مصروف
عمل رہتا تھا۔ اسے تخلیقی عمل کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اس سرگرمی کو فن کی تخلیقات یعنی
انسانی فطری کوششوں کا نتیجہ سمجھا گیا۔ اس سے پہلے آرٹ یا فن کی فطرت کو سمجھنا اور ادیب
یا مصنف کے دماغ کے عمل کو سمجھنا اور الفاظ کی ایسی بھول بھلیاں جو کہ حیرت و استعجاب اور
مبہم خیاالت پیدا کرتی ہیں ان کو پرکھنا ایک فضول سا عمل تھا۔ دوسرے لفظوں میں اگر تشریحات
ہوتی بھی تھیں تو صحیح طور پر کسی چیز یا خیال کو واضح نہیں کر پاتی تھیں۔
علم نفسیات کے آغاز سے پہلے فن اور فن کار کے متعلق غور و فکر نہیں ہوتا تھا اور اگر ِ
ہوتا بھی تو باقاعدہ سائنٹیفک نقطہ نظر سے نہیں ہوتا تھا یعنی باقاعدہ تفتیش کی کوئی کوشش نہیں کی
علم نفسیات کی راہ روشن کی ،صداقت کی جستجو ہوئی اور تخیل جاتی تھی۔ ان حاالت میں وجدان نے ِ
ماہرین نفسیات نے جب ادب کی طرف رجوع کیا تو انھوں نے ِ کے ذریعہ اس تک رسائی ممکن ہوئی۔
فن کار کے دماغ کے عمل کی تفتیش کو سب سے زیادی نظری عمل قرار دیا۔ اس بارے میں ژونگ
""Modern Man in search of a Soulمیں لکھتے ہیں:
علم نفسیات زندگی اور ادب میں انقالب النے جا رہا ہے۔ رچرڈ
ماہرین ِ نفسیات کو یقین تھا کہ ِ
کا خ یال ہے کہ ''یہ بات بہت دنوں سے مانی جاتی رہی ہے کہ اگر نفسیات کے دائرہ میں ایسی کچھ
ترقی ہوئی جس کا طبیعیات کی ترقی سے تھوڑا بہت بھی موازنہ کیا جا سکتا تو اس سے جو علمی
نتائج نکلتے وہ کسی انجینئر کے کارنامے سے بھی زیادہ قاب ِل تحسین ہوتے''۔ دماغ کے سائنسی
م طالعہ میں پہلے مثبت اقدام اگرچہ بہت سست رفتار ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان نظریات نے پورے
انسانی نظام پر اثرانداز ہونا شروع کر دیا۔
نفسیاتی نظریات اگرچہ بہت قدیم نہیں لیکن اس مختصر عرصہ میں اس نے تحلی ِل نفسی کے
ذریعے انسانی سوچ کا ُرخ بدل دیا اور مذہب ،اخالق ،جمالیات اور معاشرتی اصولوں میں ایک انقالب
اصناف ادب اور تخلیقی سانچوں میں بعض اساسی تغیرات کی
ِ برپا کر دیا۔ ایسے ہی نفسیاتی تنقید نے
سامان فکر کا باعث بنی۔
ِ وجہ بن کر اظہار و ابالغ کے مختلف انواع کے تجربات کے لیے
کولرج ،ورڈزورتھ اور شیلے کا شمار رومانی تنقید نگاروں میں ہوتا ہے مگر اس کے باوجود
انھوں نے شاعر اور شاعری اور تخلیقی عمل کے ضمن میں کئی ایک اساسی نوعیت کے سواالت
اٹھائے۔ مثالً یہ کہ شاعر کیا ہے؟ وہ کس ذہنی کیفیت کے تحت تخلیق کرتا ہے…؟ تخیل اور وجدان کیا
ہے؟… شاعرانہ جذبات کی کیا اہمیت ہے؟… درحقیقت ان سواالت میں ایک نفسیاتی نقاد کی جھلک
نظر آتی ہے جو کہ شاعر کی ذہنی حالت کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ہربرٹ ریڈ کے بقول کولرج پہال
نفسیاتی نقادہونے کے ساتھ وہ پہال شخص بھی ہے جس نے تنقید میں لفظ " "Psychologyاستعمال
کیا۔
'' ادب پاروں کی نفسیاتی تشریح کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تنقید کا دوسرا فریضہ مصنف کی
نفسیاتی ساخت کے تعین اور پھر اس کی روشنی میں اس کی تخلیقی کاوشوں کا جائزہ لینا ہے۔ بعض
اوقات یہ جائزہ صرف تخلیقی کاوشوں تک ہی محدود رہتا ہے جب کہ بعض نقاد یہ بھی دریافت کرنے
کی سعی کرتے ہیں کہ یہ تخلیق کس حد تک مصنف کی نفسی ساخت اور اس سے جنم لینے والی
مرہون منت ہیں۔'' ((٢٨
ِ پیچیدگیوں کی
نفسیاتی تنقید کو فرائڈ کے نظریہ الشعور اور تحلی ِل نفسی نے بڑی وسعت دی۔ پھر اس کو
ایڈلر کے نظریہ انفرادی نفسیات اور ژونگ کے اجتماعی الشعور کے نظریہ نے مزید تقویت دی مگر
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس سے پہلے کسی نقاد نے تنقید میں نفسیاتی انداز اختیار نہیں کیا
اور نہ ہی فرائڈ ،ایڈلر اور ژونگ کے نفسیاتی نظریات ادب میں نفسیاتی طریق کا موجب بنے۔ البتہ
نظریہ ال شعور اور تحلی ِل نفسی نے نفسیات کو نئی وسعت اور گہرائی ضرور عطا کی۔
ٔ فرائڈ کے
فرائڈ نے تحلی ِل نفسی کا یہ نظریہ اعصابی خلل کے مریضوں کے لیے پیش کیا تھا اور جنس کے
ارتفاع ) (Sublimationکے سلسلہ میں تخلیقی محرکات کی بات کی تھی۔
حقیقت میں فرائڈ نہ تو ادبی نقاد تھا اور نہ ہی اس نے خود اپنے نظریات کی روشنی میں ادبی
تنقید کے اصول و قوانین مرتب کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ اس نے دستو فسکی پر "Dostovesky
" and Paricideکے عنوان کے تحت مضمون لکھا اور پھر ''مونا لیزا'' کے خالق لیونارڈو پر بھی
ایک مفصل مضمون تحریر کیا لیکن اس کے باوجود ان تحریروں کا ّاولین مقصد ادبی مباحث کی تفہیم
تنوع کی وضاحت کے لیے شواہد فراہم کرنا تھا۔ فرائڈ کے کے ساتھ جنس اور اس کی کارکردگی کے ّ
بعد اس کے شاگردوں نے باقاعدہ طور پر ادبی تشریحات کے لیے تحلیل ِنفسی کو بنیاد بنا کر الشعور
میں جھانکنے کی کوشش کی۔ فرائڈ کے شاگرد ڈاکٹر ارنسٹ جونز نے اپنی کتاب "Hamlet and
"Oedipusمیں شیکسپیئر کے ہیملٹ کی الجھی ہوئی شخصیت کا نفسیاتی تجزیہ کیااور شیکسپئر کی
ذہنی گہرائیوں کو بھی بیان کیا۔ اس کتاب میں ڈاکٹر ارنسٹ جونز نے ٧٤صفحات پر مشتمل ہیملٹ
کے کردار کا نفسیاتی تجزیہ پیش کیا اور آخر میں اس نے ہیملٹ کو مالیخولیا کا مریض قرار دیا۔
فرائڈین نظریات کے برعکس ایڈلر نے عظیم شخصیات اور فن کاروں ،ادیبوں کے جسمانی
کوائف اور عضوی نقائص کو شواہد کے طور پر استعمال کیا اور پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی
احساس کمتری ہوتا ہے۔ ایڈلر کے ہاں مخصوص خامیوں کے احساس کا ارتفاع
ِ کہ عظمت کی اساس
تخلیقات کی صورت میں ہوتا ہے لیکن اس کے خیال نے جب حد سے تجاوز کیا تو پھر آنے والے
نفسیات دانوں نے تخلیق کار کو ابنارمل سمجھنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے میکس
ّ
منظم صورت میں پیش کیا اور یہ ثابت کرنے کی نورڈن ) (Max Nordonنے ایڈلر کے نظریہ کو
کوشش کی کہ دراصل ہر فن کار ذہنی لحاظ سے ابنارمل ہے یا اعصابی خلل کا مریض ہے۔
مگر یہ انداز نقد نہ تو جدید ہے اور نہ ہی نفسیاتی تنقید کے زمرے میں آتا ہے اس کی وجہ یہ
ہے کہ یونانیوں نے سب سے پہلے شاعرانہ دیوانگی کو ایک حقیقت سمجھتے ہوئے اس کا باعث
Museکو قرار دیا۔ ان کے خیال میں تخلیقی عمل ایک دیوی کی مرہون منت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں
ژونگ کی رائے قاب ِل غور ہے۔ وہ اپنی کتاب " "Contribution to analytical Psychologyمیں
لکھتا ہے'' :فن کار کی ربانی دیوانگی کا خطرناک حد تک مریضانہ حالتوں سے تعلق ہے گو یہ وہ
نہیں ہوتی۔'' نفسیاتی تنقید میں فن کاروں کی نفسیاتی الجھنوں اور ذہنی پیچیدگیوں سے برا ِہ راست اور
بالو اسطہ تعلق دریافت کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ نفسی دریافت کے لیے عام طور پر تین طریقے
استعمال کیے جاتے ہیں:
فن پاروں کے تجزیہ کے لیے ایسے اصولوں کا استخراج کیا جاتا ہے جن کی مدد سے تخلیق ١۔
کار کی ذہنی حالت کا بھی اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یا تو فن کار کے تمام ادب پاروں یا
پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
فن پاروں کا تجزیہ کیا جاتا ہے یا پھر مخصوص تخلیقات کو ِ
فن کار یا ادیب کی زندگی کے خارجی واقعات کو م ِدّنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ نجی خطوط، ٢۔
ڈائریوں ،خود نوشت ،سوانح عمریوں ،اعترافات اور تذاکیر وغیرہ کی مدد سے بھی اس کی شخصیت
اور تخلیقی ذہن کی تشکیل کرنے والے عوامل کے تعین سے زندگی کے اہم نفسی وقوعات اور حوادث
کا سراغ لگایا جاتا ہے اور پھر ان کی روشنی میں ادب پاروں کا عمومی جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ
کار پہلے طریقے کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ اور باوثوق ہے۔
ان دونوں طریقوں کو مال کر تیسرا طریقہ کار بھی وضع کیا جا سکتا ہے۔ بعض نقاد فن کار ٣۔
کے سوانحی حاالت اور تخلیقات کا پہلو بہ پہلو جائزہ لیتے ہوئے مخصوص تخلیقات کو زندگی کے
مخصوص واقعات کے تابع کرتے ہیں۔ یہ طریقہ دلچسپ مگر دقت طلب ہے اور اس کی کامیابی کا
انح صار اس بات پر ہے کہ نقاد کو نفسیاتی اہمیت کے تمام وقوعات کا علم ہو کیونکہ یہ ایک حقیقت
ہے کہ ادیب اپنے کام کی نوعیت کی بنا پر کسی نہ کسی صورت میں فینٹسی ) (Fantasyسے تعلق
رکھنے پر بھی مجبور ہوتا ہے کیونکہ اس کا کام ہی ایسا ہے کہ وہ اپنے الشعور کا اظہار چاہتا ہے
لیکن حاالت کی وجہ سے تخلیق کار کا الشعور بھیس بدلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بھیس بدلنے
سے مراد خود کو چھپانا نہیں بل کہ ایک ادیب یا تخلیق کار اپنی تخلیقات کو اپنی ذات سے جتنا دور
لے جائے گا ،اس کا شعور اور فہم و فراست اتنی ہی کھل کے سامنے آئے گی۔ اس بارے میں جرمن
نفسیات دان ہربرٹ کا خیال ہے کہ ''ہر خیال توانائی کا حامل ہوتا ہے'' اور اسی کا نظریہ تھا کہ ''ہر
خیال شعور میں آنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ ذہنی زندگی خیاالت کی اسی شوریدہ سری اور ہنگامہ
خیزی کا نام ہے۔'' یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض کو دبا دیا جاتا ہے جو الشعور کی تاریکی میں
پناہ گزیں ہو جاتے ہیں اور وہاں سے سب مل کر شعور پر دھاوے کے لیے سعی کرتے ہیں۔
''تخلیق کارکا تو یقینا ً اعصابی خلل سے گہرا تعلق ہے ،ویسے اس ضمن میں ان التعداد تخلیق
کاروں کی زندگیاں بطورمثال پیش کی جا سکتی ہیں جنھوں نے تمام عمر ذہنی بوالعجبیوں میں بسر
کی۔ (میرا جی) افیون کے عادی تھے۔ (کولرج ،ڈی کوئنسی) جو اعصابی خلل کے مریض تھے۔
(شیلے ،پادلیر) جو نامرد تھے (رسکن ہوفٹ) جو مجرم تھے۔ (او۔ ہنری) قاتالنہ حملہ کیا (نارمن میلر)
بول وبرازسے جنسی دلچسپی رکھتے تھے۔ (ژاں ژینے) جنسی امراض میں مبتال تھے۔ (موپساں)
جنسی کجروی کے شکار تھے۔ (دستو فسکی) جنسی کارکردگی سے کبھی دل نہ بھرا۔ (بائرن) ہم جنس
پرست تھے (آسکروائلڈ) اخالقی لحاظ سے بالکل دیوالیہ تھے (ویلن) ذہنی امراض میں مبتال تھے۔ (نذر
االسال ،ورجینا وولف) نے باآلخر خود کشی کی۔ (ارنسٹ ہیمنگوے ،مائی کونسلی) ایکومسٹ تھے
(منٹو) پاگل پن میں جان دے دی۔''((٢٩
یہی وجہ ہے کہ ایڈلر انسان کو جبلتوں کے ہاتھ محض کھلونا سمجھتے ہوئے زندگی کی
محرک قوتوں کی تالش کو انسان کا منتہائے مقصود قرار دیتا ہے۔ ایڈلر شعور اور الشعور کے فرق
احساس کمتری بیان کرتا ہے اور
ِ کو تسلیم کرنے کی بجائے فن کار یا ادیب کے محرکات کی بنیاد
اپنے اس نظریے کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے لیے وہ فن کاروں اور ادیبوں کے خطوط،
ڈائریوں اور خود نوشت سوانح عمریوں کا سہارا لیتا ہے جن کے تحت وہ فن کاروں کے ذہنی کرب
اور جسمانی عیوب کی نشان دہی کرتا ہے۔
فرائڈ نے انسان کے حیاتیاتی زاویے کو اہمیت دی اور اسے نیوراتی کیفیت سے نجات دالئی،
پھر ژونگ نے فرائڈ کے اس نظریے کو وسعت دے کر اس کادائرہ پوری نس ِل انسانی تک وسیع کر
دیا۔ نتیجتا ً فرد کے داخل اور معاشرے کے خارج میں ایک نئی ہم آہنگی کا احساس پیدا ہو یوں فرائڈ
کے نظریات کو وسعت مل گئی۔
محرکات کی تفہیم و
ّ فرائڈ ایڈلر ،ژونگ نے انسانی ذہن کی گتھیاں سلجھانے اور الشعوری
توضیح کے لیے جو نظریات پیش کیے ،ان نظریات نے تنقید کے میدان میں ادیبوں ،فن کاروں اور ان
کی تخلیقات کی تفہیم و تحسین کے لیے ایک نیا اور منفرد معیار مہیا کیا۔ دنیائے ادب و نقد میں ان
نظریات نے ایک انقالب برپا کر دیا۔ نفسیاتی تنقید ،ادب اور فن کے تخلیقی عمل کو زیادہ وضاحت اور
نئے ذخیرہ اصطالحات کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیات کی مدد سے کرداروں کا
تجزیہ کرنے کے عالوہ فن اور فن کار کے درمیان داخلی رشتہ کو فن کے حوالے سے اجاگر کرنے
میں بھی آسانی ہو گئی۔
کارل مارکس کے مطابق خارجی دنیا اپنا علیحدہ وجود رکھتی ہے اسی لیے یہ داخلی فکر و
خیال سے آزاد ہے چونکہ شعور مادے کو جنم نہیں دیتا بل کہ مادہ شعور کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔
اس طرح مارکس نے معاشیات کے پس منظر میں جدلیات کا مادی تصور تشکیل دیا اور مادی تضاد
کو اصل حقیقت اور اس کی آویزش کو نئے معاشرے کی تخلیق کی اساس قرار دیا۔ مارکس کے خیال
میں مثالی معاشرہ اس وقت وجود میں آئے گا جب ایک غیر طبقاتی معاشرہ وجود میں آئے گا اور
مارکس نے اس مثالی معاشرے کو اشتراکی سماج کا نام دیا ہے۔ یوں مارکس کے فلسفہ میں انسان اور
اس کی مادی دنیا کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گئی۔ ایسے میں جو ادب وجود میں آتا ہے وہ بالواسطہ
طور پر معاشرے کے ارتقا میں فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر ادب کا جائزہ لیا جائے
توادراک ہوگا ادب کی تخلیق داخل کی فکر و خیال کی بجائے مادی حاالت اور معاشی اسباب ادب کی
تخلیق کاباعث بنتے ہیں۔
کارل مارکس کے ان نظریات کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادیب یا فن کار کا تخلیق سے رشتہ نامعلوم
سے معلوم کے ساتھ قائم ہو گیا۔ سماجی نشوونما کے قانون کو کارل مارکس نے ''مادی جدلیت ''
ق
)(Material Delecticsکا نام دیا۔ اس کے نزدیک زندگی اور اس کے مادی تقاضے پہلے طری ِ
ت زر میں تغیرات پیدا کرتے ہیں جو بعد میں پیداوار اور آالت مل کر پیداوار کو تبدیل کر کے آال ِ
معاشرے میں سماجی ،سیاسی اور ذہنی انقالب النے کا باعث بنتے ہیں اور زندگی کو ارتقا کا ایک اور
مرحلہ طے کراتے ہیں۔ مارکس سے پہلے انسانی علم ،فکر ،شعور ،عقل اور وجدان کو انسانی زندگی
مینمرکزی مقام حاصل تھا لیکن مارکس نے انسانی شعور اور علم کو واضح اور اعال مقام دینے سے
انکار کر دیا کیونکہ شعور انسانی زندگی اور سماجی مقام کا تعین نہیں کرتا بل کہ خود سماجی حیثیت
اور مادی اسباب انسانی شعور ،علم ،سوچ اور عقل کا انداز اپناتے ہیں۔
مارکس کے نظریات کو کامیابی مارکس کی وفات (١٨٨٣ئ) کے بہت عرصہ بعد روس میں
زار روس کی حکومت کا تختہ حاصل ہوئی۔ یہاں لینن کی راہ نمائی میں بالشویکوں نے (١٩١٧ئ) میں ِ
اُلٹ دیا۔ مارکس اور لینن کے فلسفہ نے سائنٹیفک انداز کے ذریعے علم کے جوہر کی تعریف و
توضیح کرتے ہوئے انسانی وقوف اور معروضی صداقت کے حصول سے وابستہ اعمال کے
خصائص ،نوعیت اور حدود پر روشنی ڈالی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فرد کے ذہن میں
مادی دنیا اور خارجی اشیاء ہی وقوف کی بنیاد مہیا کرتی ہیں۔ مارکسی تحریک نے زندگی کو جامعیت
اور صداقت کے ساتھ اور خارجیت کو حقیقت نگاری کے ساتھ ادب میں شمولیت پر زور دیا۔
پیش نظر سماجی حاالت ،طبقاتی تقسیم اور تاریخی مارکسی تنقید میں ادب کے مطالعہ کے ِ
عوامل کا جائزہ لینا ضروری قرار دیا کیوں کہ ادب کا سماجی اور تاریخی جائزہ لیے بغیر کسی ادب
پارے کا درست تجزیہ کرنا ممکن نہیں۔ مارکسی تنقید کی انفرادیت کاتذکرہ ڈاکٹر سلیم اختر کچھ اس
انداز میں کرتے ہیں:
'' تنقید کے دیگر دبستانوں جیسے جمالیاتی ،نفسیاتی یا تاثراتی___ ان تمام مادی عوامل کی
اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے اسی لیے مارکسی تنقید ان تمام اور اسی نوع کے دیگر دبستانوں کو ادبی
مطالعہ کے لیے ناموزوں ہی نہیں بل کہ گمراہ کن قرار دیتی ہے۔ شاید اسی لیے مارکسی ناقدین نے
تاثراتی اور نفسیاتی تنقید کے دبستانوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے ان دونوں کے ادبی نتائج کو
سرمایہ دارانہ نظام کی آلہ کاری بل کہ فریب کاری کے مترادف جانا۔''((٣٠
مارکسی تحریک میں ادب اور فن کو انقالبی تحریک کا حصہ بنانے پر زور دیا گیا۔ مارکسی
تحریک کے ایک او رہنما ماؤزے تنگ نے بھی ادب اور فن کو سیاسی ،سماجی اور ذہنی انقالب کا
حصہ بنانے کی تجویز پیش کی۔ ان کے مطابق عوامی زندگی کے اس تانے بانے سے ہی کچھ حاصل
ہو گا۔ اگر ادب کو سیاسی اور سماجی زندگی سے الگ کر دیا گیا تو ہمارے شاعر اور ادیب اپنی منزل
کھو بیٹھیں گے۔ مارکسی نقاد کو ادب کا تجزیہ اس لحاظ سے کرنا ہوتا ہے کہ ادیب کیا کہتا ہے۔ اسے
اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ کیسے کہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض انتہا پسند
مارکسی ناقدین نے ادب کو محض اشتراکیت کا ماخذ قرار دے دیا جس سے ادبی حسن متاثر ہوا۔ ادب
کے مقصد کی اہمیت سے شاید کسی بھی ناقد کو انکار نہ ہو مگر جب مخصوص قسم کا مقصد ہی ادب
تصور کیا جانے لگے تو ادب کی افادیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
مارکسی تحریک نے ادب و نقد کے فکری زاویے کو متاثر کیا عالوہ ازیں ادیب کو عوام کی
زبان میں ادب تخلیق کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ اس تحریک نے ادب کو بالواسطہ انسان کے ساتھ
کرتے ہوئے ادیب کی غیرجانبداری کو یکسر ختم کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کا موقف یہ
ٹھہرا کہ جب سماج کی بنیاد طبقاتی تقسیم پر مبنی ہے تو ادب غیرطبقاتی کس طرح ہو سکتا ہے۔
مارکسی تنقید میں سوشلسٹ حقیقت نگاری کو اتنی اہمیت دی گئی کہ ایک طرح سے مارکسی تنقید کی
بنیاد سوشلسٹ حقیقت نگاری ہی سمجھی جانے لگی۔ سوشلسٹ حقیقت نگاری کی اصطالح اتنی وسیع
اور جاندار ہے کہ اس میں انسان کی تمام تخلیقی کاوشیں سما جاتی ہیں۔
جن نقادوں نے ابتدا میں ادبی تخلیق کو سماجی پس منظر میں دیکھا اور اس کی افادیت کا
تجزیہ کیا ،ان میں برنارڈ شاہ کرسٹوفر کاڈویل اور رڈیارڈ کپلگ پر جارج آرویل شامل ہیں۔
کسی بھی زبان وادب میں تنقید کا آغاز ادب کے آغاز سے ہو جاتا ہے کیوں کہ کوئی بھی
مصرع ،شعر یا نثر کا جملہ قلم سے نکلتے ہی اپنے معیار کا سوال بلند کرتا ہے اور یہ سوال ہی تنقید
ہے۔ بالکل یہی بات اردو ادب پر بھی صادق آتی ہے اسی لیے اردو تنقید کی کہانی اردو زبان وادب
کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ اردو کی تنقیدی روایات کے ضمن میں غور کریں تو معلوم ہو گا کہ
اردو تنقید کا آغاز اسی دن سے ہو گیا جس دن پہال اردو مشاعرہ ہوا۔ مشاعروں میں کیے جانے والے
اعتراضات ہی اردو تنقید کی ابتدا تھی۔ اردو شاعری کے متعلق تنقیدی نظریات ہمیں اردو کے قدیم
شاعر اور نثر نگار مال وجہی کے ہاں ملتے ہیں۔ مندرجہ ذیل خیاالت اس نے اپنی مثنوی ''قطب
مشتری'' میں لکھے ہیں:
شعر وہی قاب ِل تعریف ہے جس میں ربط اور سالست ہو۔ ١۔
زیادہ مہمل کالم کہنے سے تھورا سا منتخب کالم کہنا زیادہ موزوں ہے۔ ٢۔
زبان اور بیان میں اساتذہ سلف کی پیروی کرنی چاہیئے۔ ٣۔
شعر اگرچہ بغیر آرایش و زیبائش کے بھی اچھا ہو سکتا ہے لیکن صنائع اور بدائع سے اس ٤۔
کے حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میں تنقید کا رواج غیرمحسوس طریقے سے ّاول دن سے رہا
اور شاعر کے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال رہا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وقت اسے قبول کرے گا کہ
ت نمو کا نمونہ ہوتی ہے یعنی تنقید ادب کو متاثر بھی کرتی ہے
نہیں۔ تنقید کسی بھی قوم کی ادبی قو ِ
اور ادب سے متاثر ہوتی بھی ہے۔ تنقید کے معیار بھی انہی حاالت و افکار و خیاالت کے نتیجے میں
وقوع پذیر ہوتے ہیں جن حاالت اور افکار و خیاالت میں ادب جنم لیتا ہے۔
اردو ادب کا جب آغاز ہوا تو ہر طرف فارسی زبان و ادب کا دور دورہ تھا۔یعنی اردو ادب
فارسی ادب ہی سے متاثر ہوا اور فارسی ادب کی تمام خصوصیات اس میں بھی آگئیں۔ صوری اور
معنوی دونوں اعتبار سے اردو ادب ،فارسی ادب کے بنائے ہوئے رستوں پر چلنے لگی۔ چنانچہ ان
حاالت کا نتیجہ یہ نکال کہ ابتدا میں اردو تنقید میں ادب و شعر کو جانچنے کے جو معیار قائم ہوئے،
مروج تھے۔ جس میں معانی سے زیادہ صورت پر ترجیح وہ وہی نظریات تھے جو فارسی تنقید میں ّ
دی جاتی تھی اور خیال سے زیادہ اسلوب کو فوقیت دی جاتی تھی اور ساتھ ہی ساتھ سماجی اور افادی
پہلو سے زیادہ لسانی اور لفظی خوبیوں کو اہمیت دی جاتی تھی۔
ہندوستان کے سماجی حاالت بھی اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ اس قسم کے معیار قائم ہوں
کیوں کہ جاگیردارانہ نظام نے ایسی فضا پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے زندگی ساکن اور
غیرمتحرک تھی۔ ان کو ہر چیز میں ُحسن کی تالش تھی خواہ اس کی نوعیت کیسی ہی ہو؟ نتیجتا ً تنقید
طرز ادا ،اسلوب اور زبان وبیان کو ِ میں بھی جو معیار بنے ،اس میں ادب و شعر کے جمالیاتی پہلو
خصوصی اہمیت دی گئی۔
١٨٥٧ء سے پہلے کے شعر وادب کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس وقت کے ادب میں انسان
صوف ،جذبات اور کیفیات کی مصوری نظر آتی ہے اس وقت کے زبان وادب دوستی ،تہذیبی رنگ ،ت ّ
کے بارے میں ڈاکٹر شمیمہ بیگم لکھتی ہیں:
''اس وقت کے شعر گوئی کا فن شرفا کا فن محسوس ہو گا جس میں مشرق کے درباروں سے
جمالیات اور بے نام رومانیت کا اضافہ ہوا تھا۔ الفاظ کی تراش خراش ،محاوروں کی صحت و بیان،
ت بیان اور
فصاحت و بالغت پر زیادہ زور تھا۔ ایک سطحی نشاط و کیف اس کا سبب کچھ تھا البتہ ندر ِ
نازک خیالی نے بھی اپنی جگہ بنا لی تھی۔''()٣١
١٨٥٧ء کے انقالب تک شعر و ادب اور تنقید پر سماجی ،معاشرتی اور سیاسی حاالت کا اثر
مروجہ نظام میں تبدیلیاں ہوئیں اور دم توڑتے جاگیردارانہ نظام کی جگہ
ّ پڑا۔ حاالت بدلنے سے
انگریزوں کے سرمایہ دارانہ نظام کا چرچا ہونے لگا جس نے زندگی اور ادب پر طاری جمود کو توڑ
دیا۔ حاالت نے متوسط طبقے کو پیدا کیا جس کے مسائل یکسر مختلف تھے جس کا سوچنے اور غور
و فکر کرنے کا انداز جدا تھا۔ ان حاالت کے اثرات ادب پر بھی پڑے اور اس کے ساتھ ساتھ تنقید بھی
مروجہ نظریات کی عمارت بڑی حد تک ہل گئی۔ زندگی کے نئے رجحانات کے متاثر ہوئی۔ نتیجتا ً ّ
ساتھ ساتھ تنقید میں بھی نئے رجحانات اور نظریات سامنے آئے۔ ایسے حاالت میں ادب و شعر کو
زندگی کا ترجمان گردانا گیا اور ادب و سخن کی نوعیت سماجی اور عمرانی ہو گئی۔ یہ تصور عام ہوا
کہ سماجی زندگی شعر و ادب پر اثرانداز ہوتی ہے اور ادب و شعر سماجی زندگی کو متاثر کرتے ہیں
اسی لیے ادب میں صرف حسن کاری مقصد نہ رہ گیا بل کہ لفظی اور لسانی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ
اخالق کو بھی موضوعِ سخن بنایا گیا اور پھر ان تمام نظریات کے نتیجے میں نظریاتی تنقید کا چراغ
روشن ہوا۔
ایسے میں سرسید تحریک ادب و تنقید میں ایک نیا موڑ الئی اور مغرب سے مستعار لی ہوئی
سائنسی عقلیت اور علمی افکارنے اردو ادب و تنقید کا دامن کشادہ کیا۔ اسی زمانے میں موالنا آزاد نے
ب حیات لکھی جس میں تنقیدی جھلکیاں نمودار ہوئیں ۔ پھر حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر آ ِ
انداز تحریر
ِ اردو تنقید کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کتاب میں ہر دو طرح کی جہتیں ملتی ہیں۔ اس میں قدیم
بھی دکھائی دیتا ہے اور مستقبل کی تنقید کے لیے ایک اشاریہ بھی ملتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کتاب
اپنی بعض خامیوں کے باوجود دائمی اثر رکھتی ہے۔ یہ اردو کے پہلے نقاد ہیں جنھوں نے ادب کی
افادیت پر زور دیا اور غزل پر کڑی تنقید کی مگر اس کے باوجود ان کا انداز ہر جگہ ہمدردانہ تھا۔
اس بارے میں کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:
'' تنقید یہ ہے کہ ہم شاعروں یا کسی شاعر کی خوبیوں اور خامیوں اور حدود سب ہی کو واضح
طور پر بے کم و کاست بیان کریں۔ اگر ہم ان کی صرف خامیاں بیان کریں تو یہ تنقیدی بددیانتی ہو گی
،اس طرح ہم ان کی خوبیوں کو اچھالیں اور ان کی خامیوں سے چشم پوشی کریں تو یہ بھی تنقیدی
بددیانتی ہو گی لیکن اردو میں اس بددیانتی کو اصل تنقید سمجھا جاتا ہے۔'' ((٣٢
اردو تنقید میں حالی کے بعد شبلی کا نام آتا ہے جن کی تصانیف موازنہ انیس و دبیر اورشعر
العجم بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔موازنہ انیس و دبیر شخصی تنقید پر لکھی جانے والی اردو کی پہلی کتاب
ہے۔ اس کتاب میں شبلی نے انیس کی شاعری پر تنقید کے ساتھ ساتھ عام شعری اصولوں پر بھی
روشنی ڈالی۔ شبلی کی تنقید میں جس عنصر کو فوقیت ہے وہ ہے ''تخیل اور محاکات'' یعنی شبلی کے
نزدیک فطرت کی نقل کے ساتھ ساتھ خیال آرائی بھی الزمی جزو ہے۔ اس کے باوجود ان کی نظر
نفس مضمون اور مواد کی بجائے جمالیاتی پہلو کی طرف زیادہ ہے۔
شعر میں ِ
اردو تنقید میں حالی کے ساتھ ایک اور شخصیت نظر آتی ہے جس نے اردو تنقید کو نئے موڑ
کالم موزوں کے بارے میں اپنے نظریات بیان ِ سے آشنا کیا۔ وہ ہیں ''موالنا آزاد''۔ آزاد نے نظم اور
کرتے ہوئے شعر کی تاثیر پر زور دیا۔ وہ شاعری میں اخالقی نظریے کے قائل تھے۔ حالی ،شبلی اور
آزاد کے دور کو عہد تغیر کا نام بھی دیا گیا۔ عہ ِد تغیر کی تنقید کے اثرات بڑے گہرے اور دیرپا ثابت
ہوئے اور وہ ایک زمانے تک اردو تنقید پر چھائے بھی رہے کیوں کہ عہ ِد تغیر کی تنقید میں مغربی
تنقیدی اثرات کا بھی عمل دخل رہا لیکن اس کے باوجود مشرقی تنقیدی نظریات پر مغربی تنقیدی
نظریات حاوی نہ ہو سکے۔ عہ ِد تغیر کے اکثر نقاد مغربی تعلیم یافتہ اور مغربی ادبیات سے واقفیت
رکھتے تھے لیکن انھوں نے مغرب کے تنقیدی اصولوں کا کوئی ایسا نظریہ قبول نہ کیا جس سے
انداز تنقید سے رشتہ ٹوٹے۔
ِ عہد ِتغیر کے
حالی اور شبلی کے بعد جو دو بڑے نقاد سامنے آئے ،ان میں وحید الدین سلیم اور مولوی
عبدالحق شامل ہیں۔ یہ دونوں نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے اچھے محقق بھی ہیں۔ ان دونوں نقادوں
کے بارے میں ڈاکٹر احسن اخترکی رائے ہے:
'' وحید الدین سلیم کے مقابلے میں مولوی عبدالق کا مقام بلند ہے۔ انھوں نے اردو ادب اور تنقید
کو کئی جہتوں سے فائدہ پہنچایا ۔ مولوی عبدالحق نے اردو تنقید میں مقدمہ نگاری سے ایک نئے باب
کا اضافہ کیا۔ انھوں نے مقدمات اور تنقیدات عبدالحق میں تنقید کو حالی سے آگے لے جانے کی
کوشش کی اور اکثر کامیاب بھی ہوئے لیکن مقدمہ بازی میں وہ کہیں کہیں شکست بھی کھا
گئے۔''((٣٣
تغیر میں مغربی شاعروں ،ادیبوں اور نقادوں کے خیاالت کو اردو شاعروں کی تنقید کے ّ اُس ِ
دور
سلسلے میں استعمال کیا گیا اور اردو شعرا کا مغربی شعرا کے کالم سے مقابلہ کیا گیا جس کا مقصد
اپنے شعرا کو مغربی شعرا کے برابر یا برتر ثابت کرنا تھا۔ تنقید کایہ نیا ُرجحان مغرب کے اثرات کا
نتیجہ ضرور تھا لیکن اس نے اردو تنقیدی نظریات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا البتہ اس دور میں
اردو کے چند بڑے نق اد سامنے آئے۔ ان میں ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری اور عبدالقادر سروری کے نام
نمایاں ہیں۔
حالی اور شبلی کے بعد ایک زمانے تک کسی اور نقاد نے اردو تنقید کے اصولوں پر کوئی
بحث نہ کی۔ صرف چند ایک مضامین میں تنقیدی خیاالت کا اظہار ہوا مگر جب مغربی تنقید کے
نظریات پور ی طرح اردو پر اثرانداز ہونے لگے تو اس زمانے میں چند نقادوں نے اردو میں اس کمی
کو محسوس کیا اور نئے تنقیدی نظریات پر خصوصی توجہ دی چنانچہ اردو تنقید میں دو کتابیں
صہ ّاول) اور دوسری حامد ہللا
روح تنقید (ح ّ
ِ منظرعام پر آئیں۔ ایک تو ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی
ِ
افسر کی نقد االدب ۔
یہ دونوں کتابیں مغرب کے تنقیدی نظریات کا برا ِہ راست نتیجہ ہیں۔ انگریزی زبان میں جو
کتابیں اس موضوع پر لکھی گئیں ،ان کو سامنے رکھتے ہوئے ان دونوں نقادوں نے اُردو میں اصو ِل
تنقید کے نظریات پر بحث کی۔ ان دونوں کتابوں میں مغربی ادیبوں اور نقادوں کے نظریات کا ترجمہ
پیش کیا گیا ہے۔ کوئی نیا نظریہ یا مباحث تخلیق نہیں کیا۔
ادب میں جو تبدیلیاں رونما ہوتیں رہیں ،تنقید بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوتی رہی۔ حالی کے
معیار ادب کے لیے سند
ِ دور کی تنقید کا جائزہ لیں تو وہ دور توضیحی اور تشریعی تنقید کا دور تھا۔
کا سکہ چلتا تھا پھر آہستہ آہستہ تاریخی اور عمرانی تنقید کا اضافہ ہوا اور جب رومانی تحریک
زوروں پر تھی تو رومانی تنقید وجود میں آئی اور ساتھ ہی ساتھ جمالیاتی تنقید بھی َدر آئی۔ ترقی پسند
تحریک کے وجود میں آنے سے قبل ہی بیشتر مغربی ادبی اور تنقیدی نظریات اردو میں رواج پا
چکے تھے۔ اس دور میں نفسیاتی اور تقابلی تنقید کی نسبت تاثراتی اور ادبی تنقید کا زیادہ رواج تھا
چونکہ ادب مختلف نظریات کا مجموعہ ہوتا ہے اس لیے تنقید کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ
مختلف زاویہ نگاہ رکھتی ہو۔ تنقید کی وسیع النظری کے بارے میں ڈاکٹر سجاد رضوی لکھتے ہیں:
''ادبی تنقیدی اصول ہمیشہ فنّی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوئے اور عظیم فن پاروں سے اخذ
کیے جاتے ہیں۔''((٣٤
مختلف تحریکوں سے وابستہ نقادوں کی مختصر خصوصیات ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔
امداد امام اثر نے تنقید پر کتاب کاشف الحقائق لکھی۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس میں
انھوں نے اردو کے مختلف شعرا کے کالم پر تبصرہ کیا۔ ان کے نزدیک شاعری دو قسم کی ہوتی ہے
( )١داخلی ( )٢خارجی۔ وہ خیال اور ہیئت کی ہم آہنگی کو ّاولیت کا درجہ دیتے ہیں لیکن اکثر وہ تنقید
میں ایسا لہجہ استعمال کر جاتے ہیں جس سے اُن کی تنقید مدح سرائی بن جاتی ہے۔ یہاں ان کی تنقید
میں تاثراتی تنقید کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
سرسید تحریک سے اثرات قبول کرنے والے نقادوں میں مہدی افادی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ ان
انداز نقد محاکاتی ہے جب کہ تقابلی تنقید کی جھلک بھی کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے۔ وہ تنقید میں ِ کا
صوری پہلوؤں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جس سے ان کی تنقید میں جمالیاتی عنصر بھی شامل ہو جاتا
ب لطیف بنایا۔
ہے۔ اردو ادب میں وہ پہلے نقاد ہیں جنھوں نے تنقید کو اد ِ
ماہر لسانیات بھی ہیں۔ انھوں نے مغربی اور ِ پنڈت دتاثریہ کیفی نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ
مشرقی تنقیدی نظریات سے استفادہ کیا۔ ان کے نزدیک ادب محض فنّی خوبیوں کا مجموعہ نہیں بل کہ
اس میں حقیقت نگاری بھی ہونی چاہیے۔ انھوں نے ادب پاروں یا فن پاروں کا سائنٹیفک تجزیہ کیا۔
حامد حسن قادری کی بطور نقاد بہت سی تصانیف ہیں جن سے ان کے تنقیدی خیاالت اور
نظریات واضح ہوتے ہیں۔ ان مینداستان تاریخ اردو'،تاریخ و تنقید،ادبیات اوراردو نقد و نظر خاص طور
پر قاب ِل ذکر ہیں۔ وہ تنقید میں روایت پسندی کے دلدادہ ہیں اس کے باوجود وہ ادب برائے ادب کی
بجائے ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ادب کے صوری اور جمالیاتی پہلوؤں
کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
موالنا عبدالماجد دریاآبادی تنقید میں تاثراتی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ وہ اشعار کو نقل کر کے ان
کی تشریح کرنے پر زور دیتے ہیں یوں وہ تجزیے سے دور چلے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے
انداز نقد مشرقی تھا۔
ِ کہ اُن کا
سر عبدالقادر سے تنقید کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے۔ انھوں نے مغربی تنقیدی نظریات
ت جاوید پرفن تنقید اور حیا ِ
کو اردو ادب میں متعارف کروانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی کتاب ِ
ت تنقید ہیں۔
ایک تنقیدی نظرمیں جن تنقیدی اصولوں پر بحث کی ہے۔ وہ سراسر مغربی نظریا ِ
عبدالرحمن بجنوری اردو نقادوں میں واحد نقاد ہیں جن کو یورپ کی بہت سی زبانوں پر عبور
حاصل تھا اور مشرق و مغرب دونوں ادبیات سے گہری شناسائی تھی۔ بجنوری بڑے اچھے نقاد تھے
دیوان غالب کا تعارف ایک نئے انداز سے کرایا۔ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ایک وید
ِ انھوں نے
دیوان غالب۔ان کی تنقید سراسر داخلی ہے۔
ِ مقدس ،دوسری
ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی بہت سی ادبی تصانیف ہیں جو کہ رومانیات سے متعلق بھی
ہیں اور تنقید کے بارے میں بھی۔ البتہ تنقید میں ان کی دو کتابیں اہمیت کی حامل ہیں۔ ( )١اردو کے
روح تنقید میں انھوں نے تنقید کی تعریف ،اس کا مقصد ،ضرورت و اہمیت ِ روح تنقید۔
ِ ب بیان ()٢
اسالی ِ
اور ادب سے اس کے تعلق کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ تنقید سے متعلق انھوں نے یہ غلط فہمی
دور کرنے کی کوشش کی ،کہ تنقید محض نکتہ چینی کا نام ہے اس طرح انھوں نے تنقید کاد رست
مفہوم پیش کرنے کی کوشش کی۔
،روح تنقیدکی طرز پر لکھی جانے والی اردو ادب کی ِ حامد ہللا افسر کی کتاب نقد االدب
دوسری کتاب ہے۔ اس کتاب میں تنقید کے بنیادی مسائل کے ساتھ ساتھ قدیم یونانی تنقیدی افکار ،یورپ
اصناف سخن پر ایک ساتھ نظر ڈالی گئی ہے۔
ِ کے جدیدتنقیدی نظریات اور اردو
تاثراتی اور جمالیاتی تنقید کے ر ِدّعمل کے طور پر مجنوں گورکھپوری ترقی پسند تحریک کے
علم برداروں میں سے ایک تھے۔ ان کے نزدیک ادب زندگی کا ترجمان ہے اسی لیے انھو ننے ادب
اور زندگی کے موضوع پر قلم اٹھایا۔ وہ ادب کو صرف زندگی کا ترجمان ہی نہیں خیال کرتے بل کہ
میتھیو آرنلڈ کے نظریے کی مانند ادب کو زندگی کا نقاد بھی تصور کرتے ہیں اور ادب میں افادیت
کے قائل ہیں۔ افادیت سے یہ ربط ہی انھیں اشتراکی اور مارکسی نظریات کی طرف لے جاتا ہے اسی
لیے وہ ترقی پسند تحریک کے دل دادہ ہیں۔
سیّد سجاد ظہیر کانام بھی ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ انھوں نے ناول ،افسانہ اور تنقید تینوں کو ترقی پسند نظریات کے تحت لکھا۔ تنقید میں خاص کر
انھوں نے ترقی پسند نظریات کی پوری طرح وضاحت کی۔ ان کی تحریروں میں مارکسی رجحانات کا
عکس بھی نظر آتا ہے۔ وہ ادب کی مقصدیت کے قائل ہیں اور سیّد سجاد ظہیر کے نزدیک ادب کے
مقصد کی نوعیت سماجی ہونی چاہیے۔ وہ شاعری کو نعرہ بازی بنانے کی بجائے اسے خارجی مسائل
کا موضوع بنانے پر زور دیتے ہیں۔
ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے تنقیدی نظریات ترقی پسند خیاالت سے پوری طرح ہم آہنگ
ہیں۔ انھوں نے اپنے مشہور مضمون ادب اور زندگی اور اپنی تنقیدی مضامین کے مجموعہ ادب اور
انقالب میں ادب کو زندگی کا ترجمان کہا۔ زندگی کی نوعیت چونکہ معاشی اور اقتصادی ہے۔ اس لیے
ان کے نزدیک ادب بھی معاشی زندگی کا ایک شعبہ ہے۔
سیّد احتشام حسین کا شمار اردو تنقید کے اہم ستونوں میں ہوتا ہے ۔ انھو ننے تنقید کو اپنا
اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے بے شمار مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور سیکڑوں
مضامین ایسے ہیں جن میں احتشام حسین اصولی اور نظریاتی بحث کرتے ہیں۔ اس کے عالوہ لسانیات
میں بھی وہ ماہر ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریریں ترقی پسند انہ رجحانات کی علمبردار ہیں۔ وہ تنقید میں
مادی جدلت یا مارکیسیت کے خواہاں ہیں۔ ان کے نزدیک تنقید ایک مشکل فن ہے۔ وہ تنقید کے ذریعے
ان حاالت کا تجزیہ کرتے ہیں ،جس میں شاعری جنم لیتی ہے۔ احتشام حسین جب کسی ادبی تخلیق پر
نظر ڈالتے ہیں تو سب سے پہلے اس کی تاریخی اور سماجی اہمیت کا پتہ لگاتے ہیں کہ کس قسم کے
حاالت کے اثرات ادیب نے قبول کیے۔ آیا ادیب اپنے ماحول اور زمانے کی عکاسی کرنے میں کامیاب
ہوا ہے۔
انداز نقد سائنٹیفک ہے۔ وہ تنقید میں انتہا پسندی کے قائل نہیں۔ وہ نقاد کے
ِ آل احمد سرور کا
لیے نقطہ نظر کے بھی قائل ہیں لیکن اس نقطہ نظر کے لیے کسی خاص جماعت سے خود کو وابستہ
کرنے کے خالف ہیں۔ وہ روایات کو احترام کی نظر سے دیکھنے کے ساتھ ادب میں نئے تجربات کے
بھی خواہاں ہیں۔ وہ تنقید کو تشریح کے ساتھ ادبی شعور حاصل کرنے کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ ان
کے نزدیک ادب زندگی کا ترجمان ہے۔ سرور صاحب نا تو خود کسی گروہ میں شامل ہوئے اور نہ ہی
وہ نقادوں کو گروہ بندی میں دیکھنے کے قائل ہیں۔
سیّد وقار عظیم کے بطور نقاد اردو ادب کے سبھی شعبوں میں ژرف نگاہی سے کام لیا۔ یہی
اصناف شعر سے جدید ترین
ِ وجہ ہے کہ کہ انھوں نے داستان سے لے کر افسانے تک اور قدیم
تجربات تک سبھی کا عمیق تجزیہ کیا۔ بطور نقاد سیّد وقار عظیم کی خصوصیت ان کی اعتدال پسندی
ہے۔ وہ سائنٹیفک نظریات کے بھی ترجمان ہیں اور ساتھ ساتھ ترقی پسند رجحانات کے بھی قائل ہیں۔
ان کی رائے میں جب تک ادیب کے پاس تجربات کا وافر سرمایہ نہ ہو اور وہ اس سرمائے سے ،اپنے
کام کی چیزیں نہ ُچن سکے اس کے لیے کوئی اچھی ادبی تخلیق ممکن نہیں۔
کلیم الدین احمد مغربی ادبیات سے بہت متاثر ہیں۔ ان کی دو کتابیناردو شاعری پر ایک نظر
اور اردو تنقید پر ایک نظر مغربی تنقیدی اصولوں کا پرچار کرتی ہیں۔ ان کی تنقید میں حد درجہ
قطعیت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے مغربی تنقید کو اپنے الفاظ میں ڈھال کر پیش کرنے کی بجائے اسے
سمجھ کر اور مغربی تنقید کی روشنی میں مشرقی ادب کو پرکھنے کی کوشش کی۔
عبادت بریلوی کاشمار اردو کے بڑے ناقدین میں ہوتا ہے۔ وہ تنقید کی تاریخ اور تنقیدی
نظریات پر گہری نظر رکھتے ہیں البتہ وہ خود ترقی پسند نظریات کے حامی ہیں۔ انھوں نے ادب کو
سیاسی ،سماجی ،معاشی اور اقتصادی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک تنقید میں
زیادہ اہمیت حقیقت پسندی کے رجحان کو حاصل ہے اور اس میں بھی وہ اشتراکی حقیقت نگاری کو
زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔
اردو ادب میں بہت سی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ کچھ پھلی پھولی اور زندہ رہیں جب کہ کچھ وقت
کی دھول کی نذر ہو گئیں لیکن ان تحریکوں کی کشمکش اور رقابت نے بہت سے نقادوں کو جنم دیا۔
ان نقادوں کے خیاالت میں رنگارنگی ہے۔ نظریات میں فکر کا عنصر نمایاں ہے۔ ہمارے ہاں جن
نہایت باشعور تنقید نگاروں نے تنقیدی نظریات کو فروغ دیا۔ ان میں ڈاکٹر سید عبدہللا ،سید عابد علی
عابد ،پروفیسر احمد علی ،ڈاکٹر احسن فاروقی ،ڈاکٹر ابوللیث صدیقی ،سلیم احمد ،شمیم احمد ،ریاض
مجتبی حسین ،ممتاز شیریں ،ڈاکٹر وحید قریشی ،ڈاکٹر
ٰ احمد ،ن۔م راشد ،میرا جی ،ڈاکٹر سالم سندیلوی،
وزیرآغا ،ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار ،ڈاکٹر انور سدید ،شہزاد منظر ،ڈاکٹر جمیل جالبی ،فتح محمد
ملک ،مظفر علی سید ،ڈاکٹر معین الدین عقیل ،جمیل ملک ،ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور کئی اور نام قاب ِل
ذکر ہیں۔ ان سب نقادوں نے اردو تنقید کو فروغ دیا۔
نفسیات کے علم نے موجودہ دور میں بہت ترقی کی۔ فر ِد واحد کے شعور اور تحت الشعور
میں جو تبدیلیاں آتی ہیں اور پھر ان تبدیلیوں کے نتیجے میں انسان کا تخلیقی جوہر کیسے متاثر ہوتا
ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ،عملی طور پر اس سے متعلق عجیب و غریب تجربات بھی کئے گئے۔
طرز
ِ بعض نقادوں نے ان تجربات کی روشنی میں ادب اور ادبی تخلیقات کا جائزہ بھی لیا۔ نفسیاتی
فکر نے اردو نقد و ادب کو مستقل متاثر نہیں کیا ،لیکن تنقیدی تحریروں میں نفسیاتی اثرات جزوی
طور پر نظر ضرور آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو نقادوں نے مغربی نفسیاتی اصو ِل نقد
کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا۔
نفسیاتی تنقید نے ہمیں ادبی کارناموں کے پوشیدہ اور مبہم خیاالت اور معنی کا زندہ شعور دیا۔
گویا ادب بھی اپنے تخلیق کار کی مانند ایک زندہ اور تضاد کا حامل ہے۔ نفسیاتی نقاد کی تالش ان
محرکات پر ہوتی ہے جن کے باعث کوئی تخلیق کار اپنے فن پارے یا ادب پارے کی تخلیق کرتا ہے۔
دراصل نفسیاتی نقاد ادب پارے کے مفہوم و معنی کو اس انداز میں اجاگر کرتا ہے جس کے باعث
مصنف کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔
انداز فکر ّاول روز سے ہی رہا۔ محبوب کی سراپا نگاری اور اعضائے ِ اردو میں نفسیاتی
محرک عام طور پر برا ِہ راست اظہار نہیں
ّ جسمانی کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری میں جنسی
پاتا بل کہ کسی نہ کسی انداز میں کیمو فالج ہو کر آتا ہے۔ اردو شاعری کی ایک خاصیت یہ بھی ہے
کہ اردو شاعر محبوب کے تمام جسم سے بیک وقت دلچسپی لینے کی بجائے ایک یا دو اعضا سے
زیادہ رغبت ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح انسانی اعضا سے منسلک جنسی دلچسپی جب فن و ادب میں
وقوع پذیر ہوتی ہے تو ) (Fettishismکی شکل میں سامنے آتی ہے جو تحلیل نفسی کے اہم اور
دلچسپ مباحث میں سے ایک ہے۔
جمالیات فلسفہ کی وہ شاخ ہے جس میں ادب پارے کے حسن و جمال کی ف ّنی تخلیق پر گفتگو
کی جاتی ہے۔ جمالیات کا جذبہ دراصل تخیّل کی مسرت ہے نہ کہ تعقل کی۔ بعض اوقات عقل جذبہ و
فنون
ِ سرتسلیم خم کر دیتی ہے تاکہ جذبے کا قرب حاصل کرے۔ یہی تخیلی فکر ہے جو
تخیل کے آگے ِ
لطیفہ میں اپنے آپ کو جذبے میں ضم کر لیتی ہے۔ ایسی صورت حال میں عقل کا وجود جذبے کے
وجود سے وابستہ ہو جاتا ہے اور ان میں علیحدگی باقی نہیں رہتی۔ بعض اوقات تعقل اپنے اوپر
حکم امتناعی جاری کر دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں عقل ِ پیش نظر
اخالقی یا اجتماعی مقاصد کے ِ
حسن سے لذت اندوزی کو خود پر اور دوسروں پر حرام قرار دیتا ہے۔ تاثرات فراہم کرتے ہیں جو
تخلیق کار کے تخیل میں شامل ہو کر حسن وجمال کی شکل میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ جب یہ خیاالت
روح کاحصہ بن جاتے ہیں تو ان میں حسن آفرینی کی تخلیقی توانائی پیداہوتی ہے۔ ایسے میں فن کار یا
تخلیق کار ایسا محسوس کرتاہے جیسے اس کے الشعور میں جذبہ و احساس کاچشمہ بہہ رہاہے۔ جسے
وہ تخیل سے قابو میں النے کی کوشش کرتاہے۔
شاعری میں جب لفظ و معنی الشعور سے شعور میں جلوہ افروز ہوتے ہیں تو ان کا ُحسن نکھر
آتاہے۔ پہلے یہ خیاالت دھندلے دھندلے اور مبہم ہوتے ہیں۔ شعور میں آنے کے بعد یہ خیاالت روشن
اور واضح ہوجاتے ہیں۔ ان میں کہیں خود کالمی ہوتی ہے اور کہیں تمثیلی انداز ۔غرض دونوں
ق معانی کاطلسم ہمینمسحور کرتاہے۔ فن طلسماتی دھوپ میں اپناکھیل کھیلتا ہے طریقوں سے تخلی ِ
۔اسے ن ہ تاریکی پسند ہے اور نہ آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنی۔ درحقیقت فن کار یا تخلیق کار
اپنی تخلیق میں روشنی اور تاریکی دونوں سے مستفید ہوتاہے جسے نفسیات کی روشنی میں شعور
اور الشعور کہتے ہیں۔
روز ّاول سے اردو غزل کامحبوب ترین موضوع عشق رہاہے ۔اردو شاعری میں عاشق کا ِ
ایک مخصوص تصور ابھرتا ہے۔ کہیں عشق ایک جابر قوت کانام ہے تو کہیں احترام محبوب اپنی
جنون عشق کی حکایات غزل مینجابجا ملتی ہیں۔ کہیں عشق حقیقیِ مثال آپ بنتاہے۔اسی عشق اور
ملتاہے تو کہیں عشق مجازی۔اردوشاعری میں عشق کادوسرا روپ امردپرستی کی شکل میں سامنے
آتاہے۔ عشق کی مختلف صورتیں انسان کی جبلتوں ،احساسات ،ادراک ،خیاالت جذبات اور نفسی اعمال
کو ظاہر کرتی ہیں۔ فن کار کاتعلق چوں کہ نوع انسانی سے ہوتاہے اسی لیے اس نوع کی تمام نمائندہ
خصوصیات اس مینبھی موجود رہتی ہیں اور یہی چیزیں فن کار کی تخلیق میں عالمگیر جاذبیت
کاباعث ہوتی ہیں۔خاص طور پر فن کار کے ساتھ یہ اس لیے ہوتاہے کہ وہ اپنے تجربات سے ان ذاتی
عناصر کو ہٹا سکتا ہے جو دوسروں کو برے معلوم ہوں۔ اگر فن کار اجتماعی شخص ہوتا تووہ اپنے
نوع کاسب سے ذہین اور حساس نمائندہ ہوتا لیکن فن کار چوں کہ انفرادی نوعیت کاحامل شخص
ہوتاہے ۔اس لیے وہ اپنے تجربات کااستعمال شعوری طور پر کرتاہے۔
نفسیات کے ظہور سے پہلے فن اور فن کار کے متعلق غور وفکر ہوتاتھا مگر یہ غور و فکر
سائٹیفک بنیادوں پر نہیں ہوتا تھا پھر آہستہ آہستہ وجدان نے راہ روشن کی اور صداقت کی جستجو
ہوئی اور تخیل کے ذریعے سچائی تک رسائی کو ممکن بنایا گیا۔شروع میں ادب کوبالکل ایک الگ
چیز سمجھا جاتاتھا اور اسے دیگر انسانی سرگرمیوں سے یکسر عالحدہ تصور کیاجاتاتھا۔ایسے میں
نفسیات کے ماہرین نے جب ا دب کی طرف رجوع کیا تو فن کے دماغ کے عمل کی تفتیش انھیں سب
سے زیادہ فطری معلو م ہوئی۔اس ضمن میں رچرڈ لکھتے ہیں:
"It has long recognized that if only somehing could be done in Psychology
remotely comparable to what has been achieved in Physis, Partical
consequences might be expected even more remarkable than anything that
the engineer can contrive the first positive steps in the science of mind
)have been slow in coming."(35
ماہرین نفسیات کو علم تھا کہ نفسیات زندگی اور ادب میں انقالب النے جا رہے ہیں۔ اردو میں
ِ
نفسیاتی تنقید کا ظہور مغرب کے مقابلے میں کافی دیر سے آیا۔ اردو نقادوں نے جن مغربی نقادوں کے
سر فہرست فرائڈ کا نظریہ الشعور اور تحلیل نفسی تھا۔ اس کے نظریات سے اثر قبول کیا ،ان میں ِ
ساتھ ساتھ ژونگ کے ادبی تنقید کے تصور اور ایڈلر کی انفرادی نفسیاتی کی انتقادی اہمیت نے بھی
اردو نفسیاتی نقادوں کو متاثر کیا۔ ذیل میں مختصرا ً فرائڈ ،ژونگ اور ایڈلر کے نظریات کا جائزہ لیتے
ہیں جن کے نظریات نے اردو تنقید پر برا ِہ راست اثر ڈاال۔
بیسویں صدی کے آغاز مینآسٹریلیا کے ایک یہودی ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے الشعور کا
صہ شعوری ہے اور باقی نوذکر چھیڑتے ہوئے یہ اعالن کیا کہ انسانی دماغ کا صرف ایک دسواں ح ّ
صے الشعور میں ڈوبے ہوئے ہیں جہاں تک الشعور کی دریافت کا تعلق ہے تو دریافت کا یہ عمل ح ّ
دو صدیوں ١٧٠٠ء سے لے کر ١٩٠٠ء تک محیط ہے۔ ١٦٨٠ء سے لے کر ١٨٨٠ء تک جرمنی،
فرانس ،انگلینڈ میں کم از کم پچاس ایسے مفکرین ہیں جن کی تحریروں میں الشعور کی دریافت کے
عمل کو مالحظہ کیا جا سکتا ہے مگر فرائڈ کے نفسیاتی نظریات میں علّت اور معلول کی جو یکجائی
ماہرین نفسیات سے منفرد کیا۔
ِ ہے ،ان نظریات نے فرائڈ کو دوسرے
فرائڈ کے نظریہ کے مطابق انسانی دماغ کی ہر کارکردگی کی پشت پر کوئی نہ کوئی شعوری
یا غیرشعوری محرک ضرور ہے۔ اس طرح علت اور معلول کا یہ مضبوط تعلق صرف فرائڈ ہی کے
ہاں ملتا ہے۔ انسان کا ہر خواب ہر لفظی بھول چوک ،ہر غیرارادی فعل اگرچہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں
نہ ہو ،اسی الشعور کی ترجمانی کرتا ہے۔ جب الشعور دبائے ہوئے جبلی تقاضوں کا مجموعہ بنتا ہے
تو ذہنی الجھاؤ کا باعث ہوتا ہے۔ فرائڈ کی ان معلومات سے پہلے ذہنی امراض مثالً ہسٹریا ،خوف،
مالیخولیا وغیرہ کو بھوت پریت کا اثر سمجھا جاتا تھا اور انسان ان ذہنی مریضوں کو زنجیروں میں
جکڑ کر کوڑوں سے پیٹا کرتاتھا۔ مثال کے طور پر مرگی کے مریض کے بارے میں پہلے جو بھی
خیال رہا ہو ،فرائڈ نے یہ ثابت کیا کہ مرگی کا مرض کے اس بے پناہ غصے اور غیظ و غضب کا
اظہار ہے۔ جو اس کے الشعور میں دبا ہوا ہے اور جس کا وہ اظہار بے ہوشی کی حالت میں کرتا ہے۔
''طبعی یا غیر طبعی کردار کی محرک قوتیں انھیں میں سے کسی ایک حصہ الشعور سے
نفس اماّرہ ،خودی اور ضمیر کے ناموں
اٹھتی ہیں۔ مناسب اصطالحات نہ ملنے کے باعث ہم انھیں ِ
سے یاد کرتے ہیں۔''((٣٦
فرائڈ نے انسانی ذہن کی شخصیتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور جب بھی کسی کی
شخصیت کا تصور کیا جاتا ہے تو یہ اکائی کی صورت میں نہیں ہوتا بل کہ تین صورتوں میں تشکیل
پاتا ہے یعنی نفس امارہ ) ، (Idخودی ) (Egoاور ضمیر) (Superego۔ نفس امارہ ہماری تمام جائز
او رناجائز خواہشات اور اچھی بری اکتاہٹوں کا مجموعہ ہے۔ اس کا عمل عام طور پر الشعور میں
جاری رہتا ہے اور کبھی کبھار شعوری طور پر بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک وحشیانہ جذبہ ہے۔ یہ کسی نظم
و ضبط کے تحت نہیں ہوتا اور نہ ہی موقع ڈھونڈتا اور انتظار کرنا اس کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔
یہ تمام اخالقیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اصو ِل مسرت ) (Pleasure Principleکی پابند ہے۔
نفس امارہ ) (Idاپنی خواہش کی پوری تکمیل چاہتا ہے۔ کئی بار اس کی خواہشات شخصیت کے متضاد
زیراثر کام کرتی ہے۔ ان دونوں کی مخالفت جونفس اماّرہ کی طرح خودی بھی جبلّت کے ِ ہوتی ہیں۔ ِ
چیز کرتی ہے وہ ہے ضمیر ) (Super ego۔ ہر آدمی کی کوئی نہ کوئی منز ِل مقصود ہوتی ہے لیکن
نفس اس میں رخنہ اندازی کرتا ہے۔ نفس جس چیز کی فوری تکمیل چاہتا ہے۔ ضمیر اس کا گال گھونٹ
دیتا ہے۔ غرض نفس ِاماّرہ اور ضمیر میں سب تضاد ہے ان میں سمجھوتا ایگو کراتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہن کے قوانین بہت زیادہ گنجلک ہیں۔ پہلے پہل فرائڈ کے پاس ایسے
مریض آتے تھے جو مختلف اعصابی بیماریوں میں مبتال تھے۔ ان کے عالج کے دوران میں اسے
بعض غیرمعمولی دریافتیں ہوئیں ۔ یہی نہیں بل کہ ان کا دائرہ اثر اور بھی وسیع ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ
آج لوک گیت ،مذہب ،اقتصادیات ،عمرانیات ،تاریخ ،ادبی تنقید ،ساختیات اور سوانح نگاری ایسے تمام
موضوعات میں تحلی ِل نفسی کی روشنی میں نئی اقدار فروغ پا رہی ہیں۔ فرائڈ کا فن سے متعلق تصور
اس کی انسانی ثقافت اور تمدنی تصور سے منسلک ہے۔ فرائڈ کا یقین ہے کہ:
"Civilization has been built up under the pressure of the struggle for
existence, by scarificies in gratification of the primitive impulses.... The
sexual are amongst the most important of the instinctive forces thus
utilized; they are in this way sublimated that is to say, their energy, is tuned
aside from its sexual goal and directed towards other ends, no longer
)sexual and socially valuable."(37
ت
اس سے واضح ہوتا ہے کہ فرائڈ کے لیے جبّلت کی تسکین وہ واحد تسکین ہے جس کی فطر ِ
ت انسانی کی
انسانی کو ضرورت ہے۔ فرائڈ کے مطابق باقی دوسری تسکین مصنوعی ہیں۔ تہذیب فطر ِ
ضرورت نہیں کیوں کہ یہ مصنوعی چیز ہے جو انسانیت کے ذریعے ابتدائی احساسات کی تسکین کی
خاطر کی گئی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ فرائڈ کا ایک اور غیرمعمولی کام یہ ہے کہ اس نے سائنٹیفک
طریق سے انسان کی نارمل ذہنی سرگرمیوں کو غیرمعمولی سرگرمیوں سے مالیا اور ان میں ایک
وحدت کو بھی ثابت کیا۔ پھر نارمل اور غیرمعمولی ذہن کو الشعور کے اعمال سے منسلک کیا یعنی
وہ چیز جسے فرد کا شعور دیتا ہے اس کے الشعور کی تخلیق کرتی ہے جسے فرائڈ ماقبل شعور
)(Preconciousکہتا ہے۔ فرائڈ کے مطابق:
"There are two kinds of unconscious: we have two kindes of
unconscious.... that which is latent but capable of becoming conscious, and
that which is repressed and not capable of becoming conscious in the
ordinary way.... that which is latent, and only unconscious in the descriptive
and not in the dynamic sense, we call preconscious: the term unconcious
)we reserve for the dynamically unconcious."(38
انسانی زندگی میں واہمہ اور اس کی نوعیت اور طریقہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرائڈ کہتا
ہے کہ حقیقت کو سمجھنے اور حقیقت کے اصولوں سے انسانی نفس امارہ ) (Idتربیت حاصل کرتا
ہے اور ایسا کرنے میں اس کی جنسی خواہش بھی شامل ہے۔ مختلف مقاصد کو مستقل یا غیرمستقل
بنیادوں پر ترک کرنا ضروری ہوتا ہے مگر کسی بھی انسان کے لیے مسرت کو ترک کرنا مشکل ہوتا
ہے۔ انسان بغیر کسی وجہ کے ان کو ترک نہیں کر سکتا۔ اس کو دبانے کے متعلق فرائڈ لکھتا ہے:
"Every longing is soon transformed into the idea of its fulfilment; there
is no doubt that dwelling upon a wish fulfilment in phantasy brings
satisfaction, although the knowledge that it is not reality remains thereby
unobscured. In phantasy, therefore, man can continue to enjoy a freedom
from the grip of the external world, one which he has long relinquished in
)actuality."(40
"It is these day dreams which from the raw material of poetic
production for the writer by transforming disquising, or curtailing them
creates out of his day dreams the situations which he embodies in his
stories, novels and dreams. The hero of the day dream is however, always
the subject himself, either directly imagined in part or transparently
)identified with someone else.."(41
فرائڈ کی نظر میں ہر فن پارہ خواب بیداری ہے۔ ایسی انسان کی دلی خواہش ،جو وہ سب سے
منظرعام پر بھی النا چاہتا ہو۔ اس کے لیے فن کار اپنی د لی آرزو یا
ِ چھپا کر بھی رکھنا چاہتا ہواور
ب بیداری کے احساسات میں جمالیاتی خصوصیات شامل کر دیتا ہے اور پھر اس انداز میں خوا ِ
وضاحت کرتا ہے کہ فن پارے میں ذاتی چھاپ ختم ہو جاتی ہے جو دوسروں کو ناگوار گزرتی ہے۔
اس خواب بیداری میں جمالیاتی خصوصیات شامل کرنے سے فن پارہ پُرلطف بن جاتا ہے اور فن کار
کی حقیقی ماہیت کو چھپا دیتا ہے۔ اس طرح فن بھی حقیقت کی آزمائشوں کے تقاضوں سے بری ہو
جاتا ہے اور ساتھ ہی فن کار کی دلی خواہشیں بھیپوری ہو جاتی ہیں جنھیں حقیقی زندگی میں حاصل
کرنا مشکل ہوتا ہے۔ فرائڈ رقم طراز ہے:
"Seek happiness, they want to become happy and to remain so, they,
there are two sides to this strivings, a positive and a negative; it wims on
the one hand at eliminating pain and discomfort, on the other at the
)experience of intense pleasure."(42
عام آدمی کی طرح فن کار بھی زندگی میں آسودگی اور ذہنی اطمینان چاہتا ہے اور وہ یہ
آسودگی اور ذہنی اطمینان اپنے تخلیقی کام سے حاصل کرتا ہے۔ ایسا صرف فن کار ہی نہیں کرتا بل
کہ ہر انسان جو ذہنی اور تخلیقی کاموں سے لطف اندوز ہونے کی صالحیت رکھتا ہے ،وہ اپنی تخلیق
سے یا فن پارے سے ذہنی آسودگی اور اطمینان حاصل کرتا ہے۔ اس بارے میں فرائڈ مزید لکھتا ہے:
"These who are sensitive to the influence of art do not know how to
)rate it high enough as a source of happiness and consolation in life."(43
مندرجہ باال اقتباس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنی سوچ سے آسودگی محض چند لوگ ہی پا سکتے
ہیں جو کہ تخلیق کا فن جانتے ہیں اور تخلیق کا فن جاننا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یہ
تسکین چند مہذب افراد تک ہی محدود رہتی ہے اور فرائڈ کے مطابق یہ فن ہی ہے جو سب سے
پرانے ثقافتی ترک تعلق کی قائم مقام تسکین پیش کرتا ہے اور تہذیب کی تخلیق ،ابتدائی محرکات کی
تسکین کی قربانی سے حاصل ہوتی ہے اور ہمیشہ اس میں تجدید ہوتی رہتی ہے کیونکہ فن اور
دوسری ثقافتی سرگرمیاں ہماری جنسی اور دوسری غیرمہذب محرکات کی قربانی کے بدلے وقتی
آسودگی دیتے ہیں۔ یہ قربانی سماج کا ہر فرد دیتا ہے لیکن بدلے میں فن سے جو آسودگی اور اطمینان
حاصل ہوتا ہے ،وہ محض چند لوگوں کو ہی دستیاب ہوتا ہے۔ فرائڈ مزید لکھتا ہے:
"On the other hand works of art promote the feelings of identification,
of which every cultured group has so much need, in the occasion they
provide for the sharing of highly, valued emotional experiences and when
they represent the achievements of a particular culture,, thus in an
impressive way recalling it to its ideals they also subserve a narcissistic
)gratification."(44
نتیجہ کے طور پر فن انسان کی جنسی اور دیگر غیرمہذب محرکات کی عکاسی کرتا ہے یعنی
فن غیرمہذب محرکات کی قربانی کی وقتی تسکین بہم پہنچاتا ہے۔ جب یہ کسی خاص کلچر کی
کامیابیوں کی ترجمانی کرتا ہے تو وہ تسکین خود پرستانہ بن جاتی ہے۔ دراصل فرائڈ کو جمالیاتی
اقدار سے غرض نہیں ہے جو ادبی نقاد کے لیے اہم ہے۔ فرائڈ کی ادبی تنقید کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ
اس نے بھی دیگر ناقدین کی طرح فن پاروں کے فن اور حسن و قبیح پر مباحث لکھے اور نہ ہی فرائڈ
تاریخ ادب کے حوالے سے بات کی بل کہ اس نے پہلی مرتبہ تخلیقات کو الشعوری محرکات کا ِ نے
نتیجہ قرار دیتے ہوئے ان کے حوالے سے فن کار کی شخصیت کرداری ،رجحانات ،میالنات اور
خاص کر تخلیقی محرکات پر روشنی ڈالی۔
کسی بھی فن پارے کی واحد تشریح جو فرائڈ پیش کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ فن کار کی
تیکنیک کسی طرح سے انفرادی انا کے درمیان رکاوٹوں کو توڑ دینے کا ذریعہ ہے جو ان کو
عناصر
ِ اجتماعی انا کی شکل میں متحد کیے رہتے ہیں۔ فرائڈ کے نزدیک فن پارہ خالص شکل اور
ُحسن کی مسرت کو بڑھاتا ہے۔ اس طرح فن پارہ سنجیدہ سطح پر پیدا ہونے والی اعال قسم کی آسودگی
کا رستہ کھول دیتا ہے۔ اس بارے میں ریڈ ایچ کا کہنا ہے:
دعوی نہیں کرتا کہ واہمہ سے ہر فن پارے کی تشریح ممکن ہے لیکن ٰ یہ ٹھیک ہے کہ فرائڈ یہ
فرائڈ فن کار میں رہنے والی کسی پُراسرار صالحیت کا تذکرہ کرتا ہے جو اپنے الشعور کی
معروضی شکل اس طور ڈھالتا ہے کہ اس کا نتیجہ ذہنی آسودگی ہوتا ہے لیکن فرائڈ ہمیں یہ نہیں بتاتا
کہ کسی فن پارہ کا محاسبہ کیسے کرنا چاہیے کہ جس سے فن پارے کے نسبتی اقدار کا تعین ہو سکے
یعنی فرائڈ فن کار کی تحلی ِل نفسی تو کرتا ہے مگر فن پارے کی تشریح و توضیح کرنے میں اُسے
ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ فرائڈ فن پارہ کی معروضی قوت سے آگاہ ہے اور اس سے فن
کار یا قاری کو جو مسرت اور سکون ملتا ہے ،اس سے بھی آگاہ ہے مگر وہ فن پاروں کے فن اور
حسن و قبیح پر بحث نہیں کر سکا۔
فرائڈ کا ایک اور غیرمعمولی کام یہ ہے کہ اس نے سائنٹیفک طریق سے انسان کی نارمل ذہنی
سرگرمیوں کو غیرمعمولی سرگرمیوں سے مالتے ہوئے ان میں ایک وحدت کو بھی ثابت کیا۔ اس نے
سائنٹیفک طریقے سے الشعور کی تحقیقات کیں اور باقاعدہ اصولوں پر اس کے مختلف پہلوؤں کو
اجاگر کیا۔ فرائڈ تحلی ِل نفسی کرتے ہوئے خیاالت کی منطقی اقدار کی بجائے جذباتی اقدار پر زور
دیتے ہیں اور فن سے متعلق تصور کو انسانی ثقافت اور تمدنی تصور سے مشروط قرار دیتے ہیں۔
فرائڈ کے مطابق تہذیب و تمدن کی تخلیقی قوتوں میں جن جبّلی قوتوں کا استعمال کیا جاتا ہے ان میں
جنس سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے یعنی اس کا یقین ہے کہ جبّلت کی تسکین وہ واحد تسکین ہے
جس کی انسانی فطرت کو ضرورت ہوتی ہے جب کہ باقی ساری تسکین مصنوعی ہیں اسی لیے تہذیب
ت انسانی کو ان کی ضرورت نہیں۔ یہاں پر فرائڈ انسانی عقل اور ارادے کی حقیقت کو فراموش فطر ِ
کردیتے ہیں کیونکہ انسان حیوان نہیں ہے اور محض جبّلت ہی اس کی راہ نما نہیں ہوتی اس کے
برعکس انسان کے پاس سب سے اہم اور افضل چیز عقل ہے اور جبّلت پر جو چیز قابو پاتی ہے وہ
ہے تہذیب ،کیونکہ انسان میں تہذیب کی طرف بڑھنے کی صالحیت فطری ہوتی ہے اور یہ تحریک
اتنی ہی فطری ہے جتنی کہ جنسی تحریک۔ اگرچہ یہ تحریک مختلف ہے لیکن ارفع ہے۔ ارفع اس لئے
کہ یہ انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے اور انسان تہذیب کی تحریک کی تسکین کے لیے جنسی
تحریک کی تسکین کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے کیونکہ تہذیب سے جو لطف حاصل ہوتا
ہے اگرچہ وہ شدید نہیں ہوتا لیکن اس کا اثر دائمی ضرور ہوتا ہے۔
"The universal fact of creative evolution of living things can teach us
that a good is appointed for the development in every species the good of
perfection of active adaptation to cosmicdemonds..... We have to realise
that we are dealing here with something primordial, with something that has
clung to primeral life. It is always a question of overcoming of the stability of
the individual and human race. It is always a question of promoting a
)favourable relation between the individual and external word."(46
فرائڈ کے نظریہ حیات کے برعکس ایڈلر کی انفرادی نفسیات میں سماجی تقاضوں کو بھی
خصوصی اہمیت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈلر نے خصوصی طور پر نفسیات اور سماج کے باہمی
رابطے کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی مگر اس سب کے باوجود ایڈلر کے نظریات نے ادبی تنقید کو
خاص متاثر نہ کیا۔ ایڈلر کی ادبی تنقید کو متاثر نہ کر سکنے کی وجہ ڈاکٹر سلیم اختر یہ بیان کرتے
ہیں:
'' ایڈلر کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ فرائڈ او ر ژونگ کی مانند نہ تو اسے ادب سے
گہری دلچسپی تھی اور نہ ہی اس نے اپنی نفسیات میں ادب و نقد کے مسائل سے خصوصی شغف
ظاہر کیا۔ ایڈلر نے انفرادی نفسیات کی اساس ''فرد وحدت'' کے تصور پر استوار کی۔''((7٤
صوں میں تقسیم کیا۔ ( )١نفسیات تصرف ()٢ عمومی لحاظ سے ایڈلر نے نفسیات کو دو ح ّ
نفسیات مصرف۔ نفسیات کے نظریہ تصرف کے حامیوں کے مطابق کچھ جبلتیں اور رجحانات انسان
کی پیدائشی ہوتی ہیں اور انسان ان کے تصرف میں ہوتا ہے اور انھیں جبلتوں اور رجحانات کی بدولت
انسان کی تمام زندگی کا ارتقا ہوتا ہے جب کہ نفسیات مصرف کے حامیوں کا نظریہ ہے کہ انسان کے
تصرف میں جبلّتیں اور رجحانات ثانوی درجہ رکھتے ہیں کیوں کہ ان جبلتوں اور رجحانات کی بنیادی
اہم یت ان کے مصرف میں پنہاں ہے۔ ایڈلر کے نزدیک انسانی شخصیت ایک پھول ہے اور معاشرہ
ایک گلستان ۔ جیسے ایک باغ میں کھلنے والے پھول مختلف رنگ اور خوشبو کے مالک ہوتے ہیں
ایسے ہی ایک معاشرے میں رہنے والے انسان منفرد دلچسپیوں اور مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔
سرفہرست اصول یہ١٩١٣ء میں ایڈلر نے انفرادی نفسیات کے حوالے سے جو اصول بنائے ،ان میں ِ
تھا:
اگرچہ فرد کو شعوری طور پر اس کا احساس نہیں ہوتامگر ایڈلر کے نزدیک بچپن کی غربت
احساس کمتری پیدا کر سکتا ہے۔ کبھی بھی فن کار
ِ یا کوئی نقص ایک خاص حد تک انسان میں شدید
احساس کمتری کو تالش کیا جا
ِ کے مقص ِد حیات کی نفسی اساس کے ذریعے اس میں جنم لینے والے
فنون لطیفہ کے شعبوں سے بہت سی مثالیں
ِ سکتا ہے چنانچہ اس نقطہ نظر سے ایڈلر نے ادب اور
پیش کیں۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی۔ عضوی خامی الزمہ عظمت نہیں اور
احساس کمتری میں مبتال ہوتے
ِ نہ ہی لوگ اس لیے ادیب ،شاعر اور فن کار بن جاتے ہیں کہ وہ محض
ہیں۔ ایڈلر کے نزدیک:
اگرچہ ایڈلر نے شعوری طور پر اپنے نظریے کو صرف اعصابی خلل تک ہی محدود رکھا
اور اپنے اس نظریے کے ذریعے تخلیقات اور تخلیق پر خصوصی توجہ نہ دی مگر اس کے باوجود
ایڈلر کہتا ہے کہ عظمت کی یہ خواہش ہم میں سے بہت سے لوگوں میں موجود ہوتی ہے جو پُراسرار
تاریکی میں چھپی ہوتی ہے مگر شاعری یا مجنونانہ حالت میں یہ خواہش یقینی طور پر اُبھر کر
سامنے آتی ہے۔ ایڈلر مزید لکھتا ہے:
فن کار کے متعلق ایڈلر کا تصور بہت بلند ہے۔ اس کے نزدیک فن کار اور مجنوں یا ینوراتی
خمیر کی اٹھان ایک ہی مٹی سے ہے۔ فن کار اس غیریقینی کیفیت سے چھٹکارا پانے کے لیے ادب
ب طبع ) (Geniusلوگ انسانیت کے راہ نما ہیں اور
تخلیق کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ فن کار اور صاح ِ
ب طبع ،مفکروں اور محققوں کی کامیابیوں کے طفیل اچھی زندگی گزار رہے ہم لوگ فن کاروں ،صاح ِ
تقسیم کار کیوں کہ فن کار ،فن کار ہے،
ِ ہیں۔ دنیا میں وہ لوگ حرکی قوت ہیں اور ہم لوگ محض
عصبیاتی مریض نہیں۔ ایڈلر کا یہ اصول بنیادی طور پر فرائڈ سے مختلف نہیں ہے۔ ایڈلر کا نظریہ
ہے:
"Artists and geniuses are without doubt the leader of hmanity and
they pay the penalty for their audactity, burning in their own flame which
they kindled in childhood. "I suffered___ so I become poet". Our impressed
vision, our better perception of colour, From and line we one to the the
painters our more accurate hearing and along with it, a finer modulation of
our vocal organs we have acquired from the musicians. The poets have
)taught us to speak, feel and think."(52
ایڈلر اپنی ایک کتاب " :What Life should mean to youمیں آرٹ اور خوابوں کے
حوالے سے بحث کرتے ہوئے ،آرٹ کے منصب کو واضح کیا۔ اس کے نزدیک آرٹ اور خواب میں
بڑا فرق مقصد کا فرق ہوتا ہے۔ خواب کی طرح آرٹ بھی ایک خاص ذہنی حالت میں جنم لیتے ہیں۔
انداز زیست سے مطابقت رکھتے ہوئے فرد کو آنے والے خوشگوار اور ِ ایڈلر کے خیال میں خواب
ناخوش گوار واقعات کی اطالع دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے فرد کو
تیار بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ایڈلر خوابوں کو مستقبل کی پیش گوئی تسلیم کرتا ہے اور اس بات پر
زور دیتا ہے کہ مناسب انداز سے خوابوں کے ذریعے پیش آنے والے مسائل کا حل بھی دریافت کیا جا
سکے۔
اس انداز سے ایڈلر ہمیں خواب ہی کی طرح عمل کی طرف مائل کرتا ہے لیکن یہ عمل پیرائی
کسی خاص مقصد کے لیے نہیں ہوتی بل کہ اس سے فن اور پروپیگنڈے میں فرق واضح ہوتا ہے۔
اصل میں فن زندگی کے متعلق ہمارے رویوں کو متاثر کرتا ہے اور ہم میں جرات اور ذہنی رفعت
جیسے خصائص پیدا کرتا ہے۔ ہر فن کار حقیقت سے الگ ہو کر زندگی کے اندر زندگی کی کھوج
لگاتا ہے۔ اس طرح ہر فن کار یا ادیب کی تخلیق اس کی واہمہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔فرائڈ کے لیے
فن تصعید ہے جب کہ ایڈلر کے نزدیک فن نقصان کی تالفی کی شکل ہے لیکن ایسا فن جس کی کوئی
اہمیت نہ ہو ،وہ نہ تو تصعید ہے اور نہ نقصان کی تالفی۔ یہی ایڈلر اور فرائڈ میں سب سے بڑا فرق
ہے۔
ایڈلر نہ تو جمالیاتی عمل کی وضاحت کرتا ہے اور نہ ہی ہمیں کسی فن کار یا ادیب کی
جمالیاتی خاصیت کے بارے میں کچھ بتاتا ہے۔ اس کے لیے فن پارہ یا ادب پارہ کسی نفسیاتی عمل کی
ایک مثال ہے۔ جس میں ان کی دلچسپی ہے۔ فنّی اور انسانی اقدار میں اسے کوئی دلچسپی نہیں البتہ
ایڈلر فن کار کی کھلے دل سے تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
فن کار کی اس تعریف کو دنیا کا کوئی نقاد بھی رد نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں کوئی نئی
بات نہیں جس کے لیے ہمیں تحلی ِل نفسی یا انفرادی نفسیات کے فروغ کا انتظار کرنا پڑے۔ ایڈلر کے
اس خیال کو شیلے کے مشہور اشعار اور وسعت دیتے ہیں۔ شیلے ) (Selleyلکھتا ہے:
اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ فن کار ابتدا میں اُفتا ِد طبع کے لحاظ سے عصباتی
مریض ہوتا ہے لیکن اس کا فن باآلخر اُسے افتا ِد طبع کی تباہی سے بچا لیتا ہے۔ فن کار یا شاعر کے
الفاظ دوسروں کے دلوں پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ گویاشعرا دنیا کے غیرتسلیم شدہ قانون ساز ہوتے ہیں۔
ماہرین تحلی ِل نفسی کا تعلق زیادہ تر عصباتی مریضوں سے ہوتا ہے ،اس لیے ماہرین تحلی ِل نفسی کا
کام ہے کہ وہ عصباتی اختالل اور اس کے پیدا ہونے والے مسائل تک رسائی حاصل کرے اور اس
کے نتائج وضع کرے۔ اس سلسلے میں ایڈلر کا کہنا ہے:
"The essential point to notice is that Psycho-analysis seems to show
that the artist is initially by tendency a neurotic, but that in becoming on
artist he, as it were, escapes the ultimate fate of his tendency and his
thought are finds his way back to reality. I think it will be seen now where
Psycho-analysis can be of some assistance to the critic-namely, in the
verification of reality of the sublimation of any given neurotic tendency. The
Phych analyst should be able to divide sharply for us, an any given artistic
or Pseudo-artistic expression, the real and the neurotic. There is much in
literature that is one the boarder line of reality, it would be useful for the
critic to be able to determine by some scientific process the exact course of
)this border-line."(55
ژونگ کے علمی کردار کا خاص پہلو یہ تھا کہ وہ کسی نظریہ کو محض اس وجہ سے تسلیم
نہیں کرتا کہ اس نظریہ پر کسی مشہور انسان کے نام کی چھاپ لگی ہے۔ وہ فرائڈ کے نظریات سے
متاثر تو ضرور تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ فرائڈ کے نظریات کی جزوی صداقت کو بھی تسلیم
کرتا تھا۔ جہاں تک ژونگ کی ادبی تنقید کا تعلق ہے تو اس نے اپنے بنائے ہوئے نفسیاتی نظریات کی
روشنی میں ادب کی تحلیل و تفہیم کی اور اجتماعی الشعور کو ادب کا ماخذ قرار دیا۔ اگرچہ ژونگ
ماہرین نفسیات کی طرح ادب اور نفسیات میں گہرے رابطے کو تسلیم کرتے ہوئے ادبِ نے فرائڈ ین
اور ادیب کی تفہیم اور تحلی ِل نفسی کی ژونگ کا مؤقف ہے:
یہ اقتباس ظاہر کرتی ہے کہ ژونگ ،فرائڈ اور ایڈلر سے متفق نہیں کیونکہ فرائڈ اجتماعی
الشعور پر زور دیتا ہے تو ایڈلر انفرادی تحلی ِل نفسی کا رنگ جماتا ہے۔ ان دونوں کے برعکس
ژونگ ،فن کار بحیثیت انسان اور انسان بحیثیت فن کار کے مسئلے پر امتیاز برتتا ہے۔ ژونگ کا
مؤقف ہے:
"As a human being he may bave moods and an will and personal
aims, but as an artist he is 'man' in a higher sense- he is collective man
'one who carries and shapes the unconscious, Psychotic life of mankind. to
perform his difficult office it is saometimes necessary for him to sacrifice
happiness and everything that makes life worth living for the ordinary
)human being."(57
ژونگ کے نزدیک ہر انسان کے اس کے مزاج اور خواہش کے مطابق مقاصد عالحدہ عالحدہ
ہو سکتے ہیں لیکن بحیثیت فن کار یا ادیب کے وہ اجتماعی انسان ہے کیونکہ فن پارہ یا ادب پارہ تخلیق
کرتے وقت پر ادیب یا فن کار نظریہ اجتماعی الشعور کے تحت سوچتا اور تخلیق کرتا ہے۔ اس طرح
انھوننے جہاں ایک طرف انسانی سائیکی کے حیات بخش تصور کو اجاگر کرتا ہے تو دوسری طرف
وہ اس سے جنم لینے والے ادب و فن سے اس کے رشتے کی حیثیت کو بھی متعین کرتا ہے۔ژونگ فن
کار یا تخلیق کار کی زندگی کی غیرتسلی بخش فطرت سے آگاہ ہے اسی لیے وہ اس کی وضاحت اس
طرح کرتا ہے:
"It is as thoguh each of us were endowned at birth with a certain
capital energy. The strongest force in our makeup with seize and all but
monopolize this energy, leaving so little... over that nothing of value can
come of it. In this way, the creative force can drain the human impulses to
such a degree that the personal ego must develop all sorts of bad qualities,
rethlessness, selfishness and vanity even every kind of voice, in order to
)maintain the spark of life and to keep it self from being wholly herefit."(58
ژونگ فن کار یا ادیب کو عصباتی مرض کی آلودگی سے باالتر قرار دیتے ہوئے فن یا ادب
پارے کو تصعید کے کلنک سے بھی دور کر دیتا ہے۔ فرائڈ کے مطابق کوئی انسان فن کار اس لیے
نہیں ہوتا کہ وہ عصباتی مریض ہے بل کہ وہ عصباتی مریض اپنے فن کی وجہ سے ہو جاتا ہے
کیونکہ اس کی تمام توانائی ایک خاص سمت مرکوز ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر اس کی زندگی کا
دوسرا پہلو متاثر ہوتا ہے اسی لیے فرائڈ کے مطابق اکثر فن کار خصوصا ً اختالل عصبی سے اپنی
صالحیتوں کے جزوی رکاوٹ میں مبتال رہتے ہیں جب کہ ژونگ کے نزدیک عصباتی اختالل سبب
نہیں بل کہ تخلیقی طاقت کا نتیجہ ہے جو انسانی جذبات کو اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ ذاتی انا کی
طرح کی خامیوں کو فروغ دے سکے۔ اس سے ایک اور بات ثابت ہوتی ہے کہ ژونگ ادب کو تخلیق
کار یا ادیب کا ذاتی مسئلہ نہینسمجھتا اسی لیے وہ ادیب یا فن کار کے انسانیت اور اپنے زمانے سے
گہرے نفسی روابط کو تسلیم کرتے ہوئے تخلیقات کے سماجی منصب پر خاصا زور دیتے ہیں۔ وہ
شاعر کی تخلیق کو معاشرے کی روحانی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
اس طرح ژونگ ادب کے ایک ایسے تصور کو پیش کرتا ہے جو ادب کے مادی تصورات
سے علیحدہ ہے کیونکہ اس کا مذہب کی مثبت اقدار پر ایمان تھا اور وہ زندگی میں روحانیت کی اہمیت
کا قائل تھا لیکن اس کے ساتھ اس نے کبھی اندھا دھند مذہب پرستی نہ کی۔ اسی لیے وہ ادب برائے
اخالق یا ادب برائے مذہب کا قائل نہ تھا اور نہ ہی افالطون کی طرح شعرا یا ادیب کو جالوطن کرنے
کا روادار تھا۔ جب ژونگ اجتماعی انسان کی بات کرتا ہے تو اسے سمجھانے کے لیے اجتماعی
الشعور کی وضاحت یوں کرتاہے:
"The experience that furishes the material for artistic expression is a
strange something that derives its existence of time, seperating us from
pre-human ages or evokes a super-human world of orasting light and
darkness. It is a primodal experience which surpasses man's
understanding. It arises from timeless depth; it is foreign and cold, many-
sided, demonic and grotesque.... it is a vision of other worlds, or of the
obscuration of the spirit, or of the beginning of things before the age of
)man, or of unborn generations of future."(59
مندرجہ باال اقتباس ژونگ کے نظریات کا واضح تصور پیش کرتی ہیں کہ یہ اجتماعی الشعور
ہی ہوتا ہے جو کسی بھی تخلیق کار یا ادیب کی تخلیق کا باعث بنتا ہے اور فن کار کو ایسے تجربات
متحرک چیز
ّ فراہم کرتا ہے کہ اس کے فن پارے کا حصہ بن جاتے ہیں کیوں کہ اجتماعی الشعور ایک
ہے اور ایک ایسا ہوا کا جھونکا ،جو اظہار کی خواہش رکھتا ہے اور باآلخر اس میں کامیاب بھی ہوتا
ہے ،اس طرح اجتماعی الشعور فن کار کو تخلیق پر مجبور کرتا ہے۔ انھوں نے تخلیق کے معاملے
میں فن کار کی مجبوری پر بہت زور دیا۔ ژونگ کے خیال میں:
فن کار کا تعلق بنی نوع انسان سے ہوتا ہے اسی لئے اس میں انسانوں والی تمام خصوصیات موجود
ہوتی ہیں۔ اس کی جبلّت ،تحریک ،احساسات ،خیاالت ،جذبات ،ادراک اور تمام عادتیں انسانی ہیں اور
یہی وہ چیز ہے جو فن کار کی تخلیق میں عالمگیر جاذبیت اور دلکشی پیدا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ فن کار اپنے تجربات سے ان ذاتی عناصر کو ہٹا سکتا ہے جو دوسروں کو بُرے معلوم ہوتے
ہیں۔ بقول ژونگ ایک تو اس میں " "Partticipation Mystiqueکی حالت کی طرف واپسی نہیں
ہوتی دوسرا فن میں فن کار کی شخصیت ڈھونڈنی ہو تی ہے اس لئے اگر فن کار اجتماعی شخص ہوتا
تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ انسانوں میں سب سے ذہین اور حساس نمائندہ ہے۔ مگر فن کار تولطیف
تر نظام او ر زیادہ پیچیدہ فہم کا حامل فرد ہوتا ہے اور عام آدمی کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور مؤثر
طریقہ سے محسوس کرتا ہے۔انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ فن کی تخلیق میں
الشعوری اعمال بھی کارفرما ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ بات بھی کرتا ہے کہ ان الشعوری اعمال
سے کسی شائستہ فن کی تخلیق نہیں ہوتی بل کہ یہ الشعوری اعمال صرف خام مواد فراہم کرتے ہیں
جن پر فن کار شعوری طور پر کام کرتا ہے۔
ژونگ ادبی تخلیقات کی تشکیل کے لیے اجتماعی الشعور کو ادب کا ماخذ قرار دیتا ہے ۔ فرائڈ
ماہرین نفسیات کی طرح انھوں نے ادب اور نفسیات میں گہرے روابط کو تسلیم کرتے ِ اور دوسرے
ہوئے تخلیق ،تخلیق کار ،تخلیقی عمل کی تفہیم اور تحلیل و تشریح کے لیے نفسیات کے علم کو بروئے
کار النے کی حمایت کی۔ ژونگ ادب کے مطالعے کے لیے نفسی اعمال کے مطالعہ کا بھی حامی ہے
کیوں کہ اس کے نزدیک انسانی سائیکی تمام انسانی علوم و فنون کے لیے رحم جیسی حیثیت رکھتی
ہے۔ ان کے نزدیک رحم کا لفظ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس سے وہ ایک طرف انسانی سائیکی کے
حیات بخش تصور کو اُجاگر کرتا ہے تو دوسری طرف وہ ادب و فن سے انسان کے رشتے کی حیثیت
کو بھی متعین کرتا ہے۔ انھوننے تخلیق کار یا فن کارکو جو بلند مقام و مرتبہ دیا ،اس کی بڑی وجہ یہ
ہے کہ وہ نہ تو تخلیق کو اعصابی خلل کی صورت سمجھتا ہے اور نہ ہی وہ تخلیق کار کو اعصابی
خلل کا مریض تصور کرتا ہے۔
فرائڈ ،ایڈلر اور ژونگ کے نظریات کا انفرادی جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ
فرائڈ کے نزدی ک تہذیب ،مذہب اور فن یہ سب اتصال کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس کے مطابق کچھ
انسانوں میں اکملیت کی جانب بڑھنے کی جو اَن تھک لگن ہوتی ہے وہ ان سہل محرکات کے کچلے
جانے کا نتیجہ ہیں جس پر انسانی تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے۔ فرائڈ اپنے خیاالت کی وضاحت کرتے
ہوئے اکملیت کی طرف بڑھنے والے نام نہاد محرک کو صرف ایک دل فریب تخیل قرار دیتا ہے جس
کی فطرت انسانی میں کوئی بنیاد نہیں جب کہ ایڈلر فرائڈ سے اتفاق نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ جاندار
چیزوں کا تخلیقی ارتقا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہر قسم کے ارتقا کی منزل پہلے سے متعین ہے۔ ہمیں یہ
با ت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم یہاں ایک ایسی چیز پر بحث کر رہے ہیں جو قدیم ہے اور قدیم
زندگی سے متعلق ہے۔
نظریہ جبلّت کے برعکس ایڈلر انفرادی نفسیات میں سماجی تقاضوں کو خصوصی ٔ فرائڈ کے
اہمیت دیتا ہے۔ اسی سبب ایڈلر نے خصوصی طور پر نفسیات اور سماج کے باہمی رابطے کو اجاگر
کرنے کی کوشش کی جب کہ فرائڈ کے نزدیک جبلّت کی تسکین وہ واحد تسکین ہے جس کی فطر ِ
ت
انسانی کو ضرورت ہے اور دوسری تمام تسکین مصنوعی قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرائڈ
خیاالت کی منطقی اقدار کی بجائے جذباتی اقدار پر زور دیتا ہے۔
احساس کمتری پر رکھتے ہوئے اس کی اساس خاندانی ماحولِ ایڈلر انفرادی نفسیات کی بنیاد
کو قرار دیتے ہیں مگر فن کار کے متعلق ایڈلر کے تصورات میں بہت گہرائی ہے۔ ان کے نزدیک فن
ب
کار نیوراتی امراض سے چھٹکارا پانے کے لیے ادب تخلیق کرتا ہے۔ اس طرح وہ فن کار اور صاح ِ
طبع لوگوں کو انسانیت کا راہ نما کہتا ہے۔ فرائڈ خواب یا واہمہ کو خود پسند آرزؤں اور شہوانی
انداز زیست سے مطابقت رکھتے ہوئےِ خواہشات کی تکمیل کہتا ہے جب کہ ایڈلر کے نزدیک خواب
فرد کو آنے والے خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات کی اطالع دیتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے اصو ِل نقد اور نظریات کا مطالعہ جب اردو نقادوں نے کیا تو
ِ مندرجہ باال
انھوں نے بھی ان نظریات کی روشنی میں ادب ،فن کاروں اور ادیبوں کا تجزیہ کیا۔
نفسیاتی تنقید کے تحت اردو تنقید جو نئے نظریات اور رجحانات سامنے آئے ،وہ فرائڈ کے
نظریہ تحلی ِل نفسی Psycho-Analysisسے ہی متعلق تھے۔ فرائڈ کے نظریہ تحلی ِل نفسی میں
انسانی زندگی کے جنسی جذبے کو بہت اہمیت دی گئی۔ فرائڈ کے مطابق انسان کی تمام خواہشات
پوری نہیں ہوتیں اور پوری نہ ہونے والی خواہشات کا وجود ختم نہیں ہو تا بل کہ ان کا اثر تحت
الشعور میں ہمیشہ رہتا ہے۔ اسی سے ذہنی الجھن ایڈپس کمپلیکس وجود میں آتی ہے۔
اردو نفسیاتی تنقید کی اساس پہلے فرائڈ کا نظریہ الشعور بنا پھر اس میں ایڈلر اور ژونگ کے
نظریات سے مزید گہرائی اور وسعت پیدا ہوئی۔ یوں اردو کے مختلف نقادوں نے ادب اور آرٹ کا
ماہرین نفسیات کے نظریات کے
ِ تجزیہ نفسیاتی انداز سے کیا۔ انھوں نے فن اور ادب کا فرائڈ اور دیگر
مطابق جائزہ لیا۔ اس ط رح ادیب اور فن کار دونوں کے لیے ادب اور فن ،تحت الشعور میں دبی ہوئی
انداز نقد کے اثرات مغرب کے مقابلے میں تاخیر سے ِ خواہشات کا نتیجہ قرار پائے۔ اردو میں نفسیاتی
آئے۔ نفسیاتی نظریات پر ایمان رکھنے والے نقاد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ لکھنے والوں کی
نجی زندگ ی اور اس کے حاالت کو معلوم کرے تاکہ اس کی روشنی میں اس کو لکھنے والے کی دبی
ہوئی خواہشات اور ذہنی الجھنوں کا معلوم ہو سکے اور نقاد ان نظریات کے مطابق فن پارے یا ادب
اصناف ادب کے نفسیاتی محرکاتِ پارے کا صحیح طور پر تجزیہ کر سکے۔ نفسیاتی تنقید میں مختلف
کا س راغ ،وضاحت اور تخلیقی عمل یا مخصوص تخلیقات سے ان کے رابطہ کی تفہیم و توضیح کے
ساتھ ساتھ تخلیق کار کی شخصیت کی نفسی اساس کی دریافت کی جاتی ہے اور پھر اس کی روشنی
میں تخلیقی شخصیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح نفسیاتی اصولوں کو م ِدّنظر رکھتے ہوئے
مخصوص تخلیقی کاوشوں کی تشریح و توضیح اور پھر ان کے ادبی مقام و مرتبہ کا تعین کیا جاتا ہے۔
اردو تنقید میں نفسیاتی نظریات کے اثرات مغرب کے مقابلے میں دیر سے آئے۔ انیسویں صدی
کی تیسری اور چوتھی دہائی میں چند نئے نقادوں نے فرائڈ ،ایڈلر اور ژونگ کے نظریات کی روشنی
میں ار دو میں نفسیاتی تنقید کا آغاز کیا جنھوں نے مختلف رسائل میں بعض شعرا کی نظموں پر
سرفہرست ہیں۔ نفسیاتی نظریے کی روشنی میں چند مضامین تحریر کیے ان میں مرزا ہادی رسوا ِ
جنھوننے نفسیاتی کتب کا ترجمہ بھی کیا جس کی بدولت انھوں نے اردو شاعری کا علم النفس کی
روشنی می ں تجزیہ و تفہیم بھی کیا۔ اس کے بعد وحید الدین سلیم او رڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کا نام آتا
انداز نقد ملتا ہے۔ مرزا محمد سعید نے بھی چند ایک
ِ ہے جن کی تحریروں میں کئی ایک جگہ نفسیاتی
مقاالت نفسیاتی تناظر میں لکھے۔وقت کے ساتھ ساتھ نفسیات کی روشنی میں ادب کو سمجھنے اور
پرکھنے والے ناقدین میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگرچہ اضافے کی یہ رفتار کافی سست رہی لیکن نفسیات
سے دلچسپی کے عمل میں برقراری دیکھنے میں آئی۔ ان میں میرا جی ،اختر اورینوی ،ڈاکٹر وحید
قریشی او ریاض احمد کے نام لیے جا سکتے ہیں جنھوں نے مختلف رسائل میں بعض شعرا اور ادیب
کی نظموں اور ادب پارونپر نفسیاتی نظریے کی روشنی میں چند مضامین تحریر کیے۔ یہ لوگ فرد کی
نجی زندگی کے حاالت کو خصوصیت کے ساتھ ساتھ پرکھتے اور ان کی ذہنی الجھنوں کا معلوم
کرتے جن کی نوعیت عمومی جنسی ہوتی اور پھر انہی کی روشنی میں لکھنے والے کے فن کا جائزہ
لیتے۔ ان ناقدین نے اپنے زمانے کی تنقیدی شعور کے مطابق اردو میں نفسیاتی تنقید کے قابل قدر
نمونے پیش کیے۔
اردو میں مرزا ہادی ُرسوا نے اپنا شہرہ آفاق ناول امراؤ جان ادا لکھ کر شہرت دوام حاصل
کی۔ ناول نگاری مرزا ہادی ُرسوا کی شخصیت کا ایک پہلو تھا۔ انھوں نے دو نفسیاتی کتب کا ترجمہ
بھی کیا:
ُمبادی علم النفس از اسٹیورٹ ،مترجم مرزا محمد ہادی رسوا١٩٢٣ ،ئ )(١
معاشرتی نفسیات از مکیڈ گل ،مترجم مرزا محمد ہادی رسوا١٩٢٧ ،ئ )(٢
ت مطالعہ کا بخوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ان تراجم سے مرزا رسوا کا نفسیات سے لگاؤ اور وسع ِ
انھی نفسیاتی کتب کے تراجم نے مرزا رسوا کو سوچ کا وہ زاویہ عطا کیا جس کی بدولت انھوں نے
اردو شاعری سے منسلک کچھ مسائل کی علم النفس کی روشنی میں تشریح و تفہیم کی کوشش کی۔
انھوں نے لکھنؤ سے جاری ہونے والے ایک رسالے ''معیار'' کے لیے پانچ مضامین مراسالت کی
طرز میں لکھے جو بعد میں ''زمانہ'' رسالہ جو کہ کانپور سے نکلتا تھا ،اس میں بھی شائع ہوئے۔ ان
نفسیاتی تنقید کی طرز پر لکھے گئے مراسالت کو ڈاکٹر محمد حسن نے مرزا ُرسوا کے تنقیدی
مراسالت کے نام سے مرتب کر کے کتابی شکل میں چھپوایا۔ ان تنقیدی مراسالت میں مرزا ُرسوا
لکھتے ہیں:
'' میرے اس خط اور دوسرے خطوں کا جو اس کے بعد لکھے جائیں گے یہ منشا ہو گا کہ علم
شعر کی ان خوبیوں کو ،جنھیں اردو زبان کی شاعری ڈھونڈ رہی ہے ،حتی الوسع بیان کروں مگر
سخت مشکل یہ ہے کہ ان امور کو سمجھنے کے لیے جنھیں میں ذکر کیا چاہتا ہوں ،مبادی اور مسائل
علم النفس سے واقف ہونا بہت ضروری ہے اور اس علم کی کوئی کتاب بالفعل زبان اردو میں
نہیں۔''((٦١
اس تنقیدی مراسلہ سے مرزا رسوا کی علمی شخصیت کا ایک نیا پہلو سامنے آنے کے عالوہ
یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ اردو زبان میں اس سے پہلے بھی نفسیاتی تنقید کے حوالے سے کوئی
کتاب یا مضمون نہیں ملتا۔ اس لحاظ سے مرزا ہادی رسواکے مراسالت سے اردو تنقید میں نفسیات
کے اثرات کی قدیم ترین مثال بھی سامنے آتی ہے۔ اسی بنا پر انھیں اردو نفسیاتی تنقید کا ّاولین نقاد کہا
جا سکتا ہے۔ اگرچہ ُرسوا باقاعدہ نفسیاتی نقاد نہ تھے مگر وہ اپنے دور کے محدود وسائل اور علم
طرز نقد کو کسی حد تک استعمال ِ النفس کے حوالے سے اردو شاعری کی تنقیدی روایت میں نفسیاتی
کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد حسن اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
''مرزا رسوا کے تنقیدی مراسالت علم النفس کی جدید معلومات کی روشنی میں ادب اور اس
کے اجزا و عناصر کو سمجھنے کی پہلی کوشش کہی جا سکتی ہے۔ ان میں بصیرت بھی ہے اور
قدرت بھی۔ اس اعتبار سے مرزا رسوا اپنے اکثر معاصرین سے کہیں زیادہ جدید ہیں اور ان کا زوایہ
نظر بعض حیثیتوں سے کہیں زیادہ جامع ہے۔''((٦٢
مرزا ہادی ُرسوا اپنی تنقید کو ''نفسیاتی تنقید'' کہنے کی بجائے علم النفس کہنا پسند کرتے ہیں
اور جب وہ علم النفس کی بات کرتے ہیں تو محض چند نئی اصطالحات اور نظریات کو پیش نہیں
کرتے بل کہ ان کی اصطالحات کے پیچھے ژرف نگاہی کا ثبوت ملتا ہے جہاں تک ان کی نفسیاتی
تنقید کا تعلق ہے تو اس مینانھوں نے کہیں بھی فرائڈین نقطہ نظر یا نظریہ الشعور کا تذکرہ نہیں کیا
مگر اس کے باوجود ڈاکٹر محمد حسن کی رائے یہ ہے:
'' توہمات ،خواب ،مستنی فی النوم اور جنوں… انسانی ذہن کے ان چار غیر طبعی درجات کا
ذکر مرزا نے کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرزا اس فن کو محض شعور کا کرشمہ ہی نہیں
سمجھتے تھے بل کہ اس میں انسانی ذہن کے ان گوشوں کی کارفرمائی پر بھی نظر رکھنا چاہتے تھے
جو شعور کی قلمرو سے باہر ہیں۔ مرزا نے کہیں الشعور اور تحت الشعور کی اصطالحیں استعمال
نہیں کی ہیں لیکن انسانی ذہن کے ان غیر طبعی درجات کا ذکر ماورائے شعور سے ان کی دلچسپی
کی غمازی ضرور کرتا ہے۔''((٦٣
مرزا محمد ہادی ُرسوا ،حالی اور شبلی کے معاصر نقاد تھے۔ اس دور میں سرسید تحریک
زیر اثر انگریزی تعلیم سے آگاہی اور انگریزی علوم کے اردو میں تراجم ہو رہے تھے۔ رسوا نے
کے ِ
بھی یہی طرز اختیار کیا۔ انھوں نے انگریزی تعلیم سے خود استفادہ کرنے کے ساتھ نفسیاتی کتب کا
اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ بقول رشید احمد صدیقی:
'' لکھنؤ کے تھے جو قدیم سے جدید کی طرف آنے پر سب سے کم تیار یا رضا مند تھے…
ت نظر کا پتہ چلتا ہے۔''((٦٤
اس سے رسوا کی مال اندیشی اور وسع ِ
اگرچہ شاعری کے حوالے سے جو نظریات رسوانے بیان کیے ،حالی کے ہاں بھی وہی
نظریات ملتے ہیں مگر حالی اور رسوا میں فرق یہ ہے کہ رسوا نے ان نظریات کی وضاحت کچھ اس
انداز میں کر دی کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں شاعری کے عالوہ دوسرے علوم پر بھی دسترس
حاصل ہے۔انھوں نے نہ تو کوئی دیوان مرتب کیا او رنہ ہی کوئی باضابطہ تنقیدی کتاب ۔ ان کے
صرف چند مراسالت ہیں جو اپنے دور کے مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے مگر اس کے باوجود
رسوا کے یہ مراسالت اردو تنقید کو ایک نیا نظریہ اور آہنگ دے رہے ہیں۔ ان کے نظریات میں
ماضی کی بازگشت نہیناس کے برعکس آنے والے دور کی بصیرت کارفرما ہے۔ مرزا رسوا کے یہ
پانچ تنقیدی مراسالت اس لحاظ سے اہم نہیں کہ انھوں نے ان میں سب سے پہلے اردو زبان و ادب میں
علم النفس کی اصطالح استعمال کی بل کہ اس لحاظ سے اہم اور منفرد ہیں کہ انھوں نے مختلف
تفہیم نو کی۔
ِ نفسیاتی مباحث کی روشنی میں اردو شاعری اور اس کے بعض مباحث کی
وحید الدین سلیم کا شمار اردو کے ان ناقدین میں ہوتا ہے جنھوں نے نفسیاتی تنقید کو بطور
خاص تو نہ اپنایا لیکن ان کی تنقید میں کہیں کہیں نفسیاتی نظریات ضرور ملتے ہیں۔ ان کے تنقیدی
ت سلیم کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں ان کا ایک مضمون ہمارے مقاالت کا مجموعہ افادا ِ
شاعروں کی نفسیات ملتا ہے جس میں انھوں نے اردو زبان و ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شعر و
سخن سے منسلک تخلیقی عمل کی نفسیات کو سمجھنے کی کاوش کی۔ اس مضمون میں وحید الدین
سلیم نے قافیے اور اس کے حسن و قبیح پر بحث کی۔ نتیجتا ً ان کے نفسیاتی مطالعے کی حدود محدود
ہو گئی۔ مقالے کا آغاز وحید الدین سلیم اس انداز سے کرتے ہیں:
''شعر کہتے وقت اردو زبان کے شاعر کی نفسیات کیا ہوتی ہے؟ اس پر توجہ کرنے سے پہلے
یہ امر واضح ہونا چاہیے کہ یورپ کی شاعری کا اقتضا اور ہے اور ہماری شاعری کا اقتضا اور
یورپ میں شاعر کے نزدیک خیال قافیہ پر مقدم ہے۔ برخالف اس کے ہمارے ہاں قافیہ خیال پر مقدم
ہے۔ اس اختالف کے سبب یورپ کے شاعر اور ہمارے شاعر کی نفسیات میں بڑا اختالف ہو گیا
ہے۔''((٦٥
اگرچہ وحید الدین سلیم نے اپنے تنقیدی مضمون کا نام ہمارے شاعروں کی نفسیات رکھا مگر نفسیات
کے متعلق ان کے نظریات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس میں وہ نفسیاتی نظریات پر بات کرنے کی
بجائے قافیے اور اس کے حسن و قبیح کی گنجلک میں الجھے رہے اور غزل کی تخلیق میں شاعر کی
شخصیت اور نفسی عوامل و محرکات کو نظرانداز کر دیا۔ اگروحید الدین سلیم اپنے مضمون کے
زیراثر رہتے تو بالشبہ یہ مضمون اردو میں نفسیاتی تنقید کے نقطہ نظر سے بہترین
عنوان کے ِ
مضمون ہوتا۔
ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کا شمار اردو زبان کے ان ّاولین ناقدین میں ہوتا ہے جنھیں اردو
زبان کے عالوہ یورپ کی کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مطالعہ میں
کالم غالب (١٩٢١ئ) ہے۔ ان کے ِ بہت وسعت تھی۔ اردو تنقید میں اُن کی سب سے اہم کتاب محاسن
ت بجنوری کے نام سے رشید احمد صدیقی نے مرتّب کیے۔ انھو متفرق مضامین ،خطوط اور نظمینباقیا ِ
فنون لطیفہ سے آگہی کا ثبوت کچھ اس انداز میں دیا
ِ ننے اپنے مضامین میں مغربی فلسفے ادبیات اور
کہ ان کی تحریروں میں نفسیاتی تنقید کے نظریات خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ عبدالرحمن بجنوری کی
نفسیاتی بصیرت کے متعلق رشید احمد صدیقی رقم طراز ہیں:
'' اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ غالب کو نفسیاتی اسلوب تنقید کی روشنی میں پہلے پہل
بجنوری مرحوم ہی نے پیش کیا… یہ بجنوری مرحوم کے مقالے کا تصرف ہے کہ آج کل کے پڑھے
ب ذوق و فکر نے غالب ہی نہیں بل کہ دوسرے لکھوں میں غالب سے شیفتگی پیدا ہوئی اور اربا ِ
انداز تنقید سے جانچنا پرکھنا شروع کیا۔''((٦٦
ِ شعراء کو بھی بجنوری ہی کے
بجنوری کی تنقید دراصل تقابل کی تنقید ہے اور ایسی تقابلی تنقید جس کی بنیاد ذاتی تاثرات پر رکھی
کالم
ِ ''محاسن
ِ انداز نقد سے مناسبت نہیں رکھتا۔ عبدالرحمن بجنوریِ انداز تنقید نفسیاتی
ِ گئی اور یہ
غالب'' میں لکھتے ہیں:
''غالب کا فلسفہ سپی نواز ،ہیگل ،برکلے اور نطشے سے ملتا ہے۔''((٦٧
اس سے عبدالرحمن بجنوری کے وسعت مطالعہ کا ادراک ہوتا ہے کہ انھوں نے غالب پر شرح
لکھنے سے پہلے عظیم فلسفی سپی نواز ،ہیگل ،برکلے اور نطشے کو بھی پڑھ رکھا تھا اسی لیے
بجنوری نے اپنی شرح میں غالب کے مختلف اشعار کا نفسیاتی تجزیہ کیا جس سے بجنوری کی
نفسیات سے آگاہی کا ادراک ہوتا ہے:
'' اگر طبیعت پر مانیا یا وحشت یا ہول کا اکثر ہو تو اس اس افعی سے ڈرنا کوئی عجب
نہیں۔''((٦٨
مرزا محمد سعید:
مرزا محمد سعید نے بہت کم لکھا۔ ان کے صرف تین مقاالت قاب ِل ذکر ہیں جو انھوں نے
نفسیاتی تنقید کے تناظر میں لکھے۔ آج ان مقاالت کی اہمیت اس لیے ہے کہ ان میں نفسیاتی تنقید کی
قدیم ترین مثالیں مل جاتی ہیں۔
آج سے تقریبا ً ایک صدی پہلے لکھے جانے والے ان مقاالت میں مرزا سعید نفسیاتی تنقید کی
فن تنقید میں رقمطراز ہیں:
اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے مقالہ ِ
زمانہ حال میں فن تنقید کو جو فوقیت حاصل ہے ،وہ تمام کمال علم ِالنفس کی تحقیق کا نتیجہ
ٔ ''
ہے۔ ''((٦٩
'' شاعری و نفسیات'' اپنے اس مقالے میں مرزا محمد سعید نے شبلی ،حالی اور آزاد کے تنقیدی
نظریات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی تنقیدی نظریات کو بھی تفصیالً بیان کیا ہے۔ انھوں نے
انداز
ِ ارسطو اور افالطون کے تصور نقد پربحث بھی کی اور ان سب کے تنقیدی نظریات کو نفسیاتی
فکر سے پرکھا۔ مرزا محمد سعید کو ارسطو کے تصور تخیل پر اعتراض تھا ،اُن کا موقف تھا:
''ارسطو نے بھی ادبیات کے اجزائے متخیلہ کی ترکیب کو کماحقہ' نہیں سمجھا اور اس کی
وجہ غالبا ً یہ تھی کہ اس کے زمانے میں ِ
علم النفس کا مطالعہ اتنا وسیع نہیں تھا کہ تخیل اور اس کے
کرشموں کو شرح وبسط کے ساتھ بیان کر سکے۔''((٧٠
اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا محمد سعید کو علم النفس کے بارے میں آگہی تھی۔ یہی
تصور تخیل کو نہ
ِ وجہ ہے کہ انھوں نے ارسطو کے نظریات پر نقطہ چینی کی اور ارسطو کے
سمجھنے کی بڑی وجہ اُن کے ِ
علم النفس سے ناآشنائی کو قرار دیا۔ مرزا محمد سعید نے اپنے ایک
اور مقالے شاعر اور نفسیات میں شاعر کے تخلیقی عمل کی تفہیم کی کوشش کی اور شاعر کے عقل
و شعور پر بحث کرتے ہوئے مختلف سوال اٹھائے:
''آیا شاعری تصنیف و تالیف کی دیگر انواع مثالً مضمون نگاری سے بجائے ذہنی صفات کے
بالکل مختلف ہے یا یہ کہ ہر قسم کی تصنیف و تالیف ایک ہی قسم کے وظائف نفسیانیہ کا اثر و نتیجہ
ہے۔''((٧١
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرزا محمد سعید شاعر اور ادیب کے جداگانہ تخیل اور شعور کے قائل ہیں۔
ان کے نزدیک شاعری اور نثر ذہنی لحاظ سے مختلف ہیں کیونکہ شاعری ایک عام ذہن کا آدمی نہیں
کر سکتا دوسرا شاعری کے لیے خاص قسم کے ذہنی قوا کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی بھی نقاد
شاعر کے ذہنی قوا کو بیان کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ شاعر شاعری خاص قسم کے قوا کی کمی یا
زیادتی کی وجہ سے کرتا ہے۔ اس طرح مرزا محمد سعید نے شاعر کی تحلی ِل نفسی کی کوشش کی۔
اگرچہ مرزا محمد سعید تحلی ِل نفسی میں کامیاب نہیں ہو سکے مگر اردو ادب و نقد میں یہ کوشش
شعوری طور پر پہلی مرتبہ کی گئی۔
شاعری اور نفس یات پانچ صفحات کے اس مقالے میں مرزا محمد سعید نے الشعور کی بات
کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر یہاں وہ لفظ الشعور استعمال کرنے کی بجائے ''دماغ کا تاریک حصہ''
لکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مرزا محمد سعید الشعور کے تخلیقی وظائف سے بھی واقف ہیں۔ خیاالت
کی رو کے متعلق مرزا محمد سعید لکھتے ہیں:
'' ہر شخص یہ تجربہ کر سکتا ہے کہ اگر وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے ماحول سے خالی الذہن
ہو کر اپنی توجہ کو کسی خاص چیز یا خاص خیال پر جمنے نہ دے بل کہ خیاالت کی رو کو اپنے
طور پر بہنے دے تو بہت سے ایسے تصورات کہ جو عالم ِبیداری میں شاید ہی کسی وقت اس کے
پیش نظر رہتے ہوں ،ایک عجیب بے قاعدگی کے ساتھ نمودار ہو کر چلتی چالتی تصویروں کی مانند
اپنا تماشہ دکھانے لگتے ہیں۔ بعض وقت یہ تصورات ان اشیاء یا خیاالت کے متمثل بن جاتے ہیں جو
اس شخص کے علم میں ہوتی ہیں۔''((٧٢
مرزا محمد سعید کا مؤقف ہے کہ دماغ اپنا بہت سا کام بے خبری کے عالم میں کرتا رہتا ہے
مثالً یہ کہ بعض اوقات انسان کے ذہن میں ایسی بات آ جاتی ہے کہ جس سے وہ خود بھی آگاہ نہیں
ہوتا۔ یہی کچھ خواب میں بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات ذہن سے محو ہوئی باتیں یکدم حافظے میں آ
جاتی ہیں۔ اس طرح مرزا محمد سعید شعور اور الشعور کے فرق کو بیان کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
اس ضمن میں مرزا محمد سعید کاموقف ہے:
'' دماغ کے اس غیرمعلوم حصے کا مطالعہ بجائے خود بہت مفید اور دلچسپ ہے ،ایسا معلوم
ہوتا ہے کہ زمانہ آئندہ میں نفسیات کے ماہرین کا بڑا کام اسی تاریک خطے کے متعلق تجسس ہو گا…
صہ جہاں بہت سی خرابیوں کا منبع ہے وہاں بہت سی خوبیوں کا بھی سرچشمہ دماغ کا یہ تاریک ح ّ
ہے۔ اسی میں وہ خوب صورت تصورات اور خوشنما تخیالت جمع ہوتے رہتے ہیں جن کو شاعر الفاظ
ق سخن سے داد دیتا ہے اور جن کو موسیقی دان خوشگوار اصوات کے سلسلے میں کا جامہ پہنا کر ذو ِ
منسلک کر کے سامع کے لیے ل ّذت کا سامان پیدا کرتا ہے۔''((٧٣
اس اقتباس سے مرزا محمد سعید کے خیاالت سے آگاہی ہوتی ہے کہ وہ الشعوری تخلیقی
فنون لطیفہ میں ایک نفسی محرک
ِ محرکات سے آگاہ ہیں اسی سبب وہ الشعور کو ادب کی تخلیق اور
کے طور پر تسلیم کرتے ہ یں۔ اس کے عالوہ وہ مذہب اور اعتقادات کو بھی الشعور کے تحت مانتے
ہیں۔ اگر آج سے ایک صدی پہلے کے ان تصورات کو دیکھا جائے تو ادب اور مذہب میں نفسیات کا
ت الشعور اور مذہب یا ادب
استعمال نہیں ملتا اس لیے اپنے زمانے میں مرزا محمد سعید کے تصورا ِ
کو باغیانہ تسلیم ک یا گیا۔ اس کے عالوہ ان کے ایک اور مقالے ادبیات اور ذوق عامہ میں وہ فرائڈ کے
ہم نوا ہیں کہ تخلیق دراصل جنسی تسکین کا ایک انداز ہے۔ اس سلسلے میں ان کا موقف ہے:
فنون لطیفہ انسان کے جذبات شہوانی کے لیے ایک بے
ِ ''علم النفس کے ماہرین کا خیال ہے کہ
ضرر اخراج کا پیرایہ مہیا کرتے ہیں۔ اگرچہ مذہب اور فلسفہ اخالق کو اس خیال پر اصرار ہے کہ
خلقت انسانی کا مدعا فرض کی ادائیگی ہے لیکن جہاں تک اس کی جسمانی اور دماغی خلقت کا پتہ
چلتا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی جسم و دماغ جنسی خواہشات و تحریکات کی آماجگاہ ہے جو ہر
لحظہ اپنی تسکین و تشفی کے لیے بے چین رہتی ہیں۔''((٧٦
الغرض مرزا محمد سعید اردو ادب و نقد میں باقاعدہ پہلے نفسیاتی نقاد کے طور پر سامنے
آتے ہیں۔ انھوں نے شعور اور الشعور کے فرق کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ خواب کی حقیقت کی
بیان کی۔ اس کے عالوہ وہ شاعر کی تحلیل نفسی کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے
نظریات میں ابہام ہے مگر اردو تنقید میں پہلی مرتبہ نظریہ الشعور کو بیان کرنا اور تخلیقی ادب اور
فنون لطیفہ میں الشعور کو بطور نفسی محرک تسلیم کرنا واقعی قاب ِل تحسین کام ہے۔
ِ
محمد حسین ادیب:
نفسیاتی تنقید کے تناظر میں محمد حسین ادیب کا ایک مقالہ شاعری میں عشقیہ مضامین کی
اہمیت ہمایوں میں شائع ہوا۔ یہ اردو کا پہال نفسیاتی مضمون ہے جس میں جنسی نقطہ نظر کے تناظر
میں اردو شاعری کا جائزہ لیا گیا۔ اس میں اردو شعرا کے ساتھ ساتھ انگریزی شعرا کے کالم کا بھی
جنسی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا گیا۔ جنس کے بارے میں محمد حسین ادیب کا کہنا ہے کہ ''یہ ایسا نفسی
تجربہ ہے جس کی کوئی نظیر نہیں'' حسن و عشق کی وضاحت میں یہ ''جیمز لیگ'' کے نظریہ کے
حامی ہیں۔ ان کے نزدیک محبت کی تمام اقسام میں مرد اور عورت کی محبت میں ایک خاص جنسی
تڑپ پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعرا کے کالم کا زیادہ تر حصہ عورت اور مرد کی محبت کا
ترجمان ہوتا ہے۔ اس ضمن میں محمد حسین ادیب مغربی اور مشرقی شعرا میں فرق اس انداز میں بیان
کرتے ہیں:
''انگریزی شاعر کا تخیل صرف جنسی محبت تک محدود ہے لیکن اردو شعراء حقیقت اور
مجاز دونوں پر حاوی ہیں۔''((٧٥
محمد حسین ادیب فرائڈ کے نظریہ ارتفاع کے حامی ہیں۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے:
'' کوئی جذبی کیفیت کتنی ہی پیچیدہ ،نازک ،لطیف اور بظاہر اخالقی کیوں نہ معلوم ہوتی ہو
لیکن اگر نفسیاتی اصول پر اس کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو اس کی تہہ میں ایک سادہ و بسیط خود
ماہرین نفسیات کا بیان ہے
ِ ادنی جانوروں میں بھی موجود ہے۔
شرمانہ جذبہ کارفرما پایا جائے گا جو ٰ
ادنی حیوانی جذبات ہی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔''((٧٦
کہ اکثر و بیشر انسانی جذبات ٰ
محمد حسین ادیب نے ارتفاع کی روشنی میں مغربی اور مشرقی شعرا کی جنسی تڑپ کا
موازنہ کیا اور اردو شعرا کی جنسی شاعری کا محرک عورت اور مرد کے تعلقات میں فاصلہ اور
پردہ کو قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شعرا کے ہاں موضوعات عشق میں رنگارنگی ہے۔ اس طرح
محمد حسین ادیب نے اردو انداز نقد میں جنسی نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے نئے آہنگ کا اضافہ
کیا۔
رفیع الزماں خاں نے تحلی ِل نفسی کی روشنی میں شاعر کی شخصیت اور اس کی شاعری کے
باہمی تعلق کو ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ وہ شخصیت کو ،یا شاعر کو شاعری سے علیحدہ رکھنے
کے روادار نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں شاعرانہ کماالت کی اصل شاعر کی شخصیت کی
گہرائی میں پوشیدہ ہوتی ہے نہ کہ اس کی شاعری میں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رفیع الزماں خاں
فرائڈین نظریات کے حامی تھے۔ انھوں نے تنقید کے لیے خاص نفسیاتی انداز اپنایا۔ انھوں نے نفسیات
انداز نقد معذرت خواہ تھا اس کے برعکس ِ کو نہ تو کبھی بطور جواز استعمال کیا اور نہ ہی ان کا
انھوں نے ایک سائنٹیفک ذہن رکھنے والے نقاد کی مانند جدید نفسیات کے نظریات کو م ِدّنظر رکھتے
منور کیا۔
ہوئے اردو ادبیات کے نئے گوشوں کو ّ
رفیع الزماں خاں چونکہ فرائڈین نقطہ نظر کے حامی تھے۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون
نظریہ جنسیت میں فرائڈ کے بیان کردہ جنسی تصورات اور نظریہ تحلی ِل نفسی کے تحت ادب کا جائزہ
لیا۔ اس مضمون میں انھوں نے فرائڈ کے جنسی ارتفاع کے تصور کو مانتے ہوئے یہ نظریہ بیان کیا
کہ جنسی جذبے کا ارتفاع کر کے علمی و ادبی مشاغل میں تبدیلی الئی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں
رفیع الزماں خاں لکھتے ہیں:
''تحلی ِل نفسی کی رو سے ہمارے خواب قیاس آرائیاں ،جھوٹ اور ہر قسم کے خیالی پالؤ اور
ان کے ساتھ ہی تمام اعصابی بیماریاں اور علمی و فنّی تخلیقات زندگی کی تلخیوں سے گریز کے
طریقے ہیں۔''((٧٧
رفیع الزماں خاں کے نفسیاتی مضامین کی فہرست مندرجہ ذیل ہے جس میں انھوں نے تحلی ِل
نفسی کی روشنی میں اردو ادبیات کا مطالعہ کیا:
غزلیہ شاعری اور غزل گو شعراء مطبوعہ ''ہمایوں'' الہور ،دسمبر ١٩٤٩ئ ٤۔
اردو ادب پر ماں کے احسانات مطبوعہ ''ہمایوں'' ،الہور ،اکتوبر ١٩٤٦ئ ٦۔
اردو شاعری کا نفسیاتی تجزیہ مطبوعہ ''ہمایوں'' ،الہور ،اگست ١٩٤٣ئ ٧۔
رفیع الزماں خاں نے ایڈی پس الجھاؤ کے حوالے سے اردو کے بعض معروف شاعروں اور ادیبوں
جیسے اقبال ،پریم چند ،کرشن چندر ،جوش اور فیض وغیرہ کی تخلیقات کا نفسیاتی تجزیہ کیا۔ اس
ضمن میں اُن کا موقف یہ ہے:
''لڑکے کی ماں سے محبت اور باپ سے رقابت ایک ایسی نفسی بنیادی قوت ہے جس نے ہمیں
آرٹ کی دنیا میں بڑے بڑے شاہ کار دیئے ہیں۔ اردو ادب میں اس کی مثالیں منشی پریم چند اور اقبال
سے لے کر عصمت ،کرشن چندر ،راشد اور یوسف ظفرتک کی تخلیقات میں مل سکتی ہیں۔''((٧٨
رفیع الزماں خاں کا تنقیدی کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے سیاسی تناظر میں لکھی گئی اردو
شاعری کا اس کے نفسیاتی پس منظر میں تجزیہ کیا۔ انھوں نے ابوالکالم آزاد ،محمد علی جوہر ،کرشن
چندر ،جوش ،فیض اور تاثیر وغیرہ کے ُحب الوطنی ادب کے نفسیاتی تجزیے کے بعد اپنے موقف کا
اظہار اس طرح کیا:
'' یہاں سیاسی ماحول نے ماں کی محبت کو حب الوطنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ بنیادی نفسی
الجھن ایک ہے۔ صرف اس کے اظہار کے ذریعے مختلف ہیں۔ مادر ہند ،بھارت ماتا اور ناموس وطن
ایسی تراکیب شاہد ہیں کہ وطن ہمیشہ ماں کا درجہ رکھتا ہے۔''((٧٩
رفیع الزماں خاں کے نزدیک ش اعر کا جنسی جذبہ بھی اپنی طبع پختگی کو پہنچنے سے بیشتر ان
منازل میں سے کسی ایک پر ُرک سکتا ہے جس کا اثر اس کی شاعری پر پڑتا ہے۔ فرائڈ کے مطابق
ذہنی آسودگی کا الشعوری احساس ارتفاع پا کر فن پارے کی صورت میں ظہور پذیر ہو سکتا ہے جس
میں منہ مرکز تصور ہوتا ہے۔ فرائڈ کے نظریات کے تحت رفیع الزماں یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ
سگریٹ نوشی سے لے کر مے نوشی تک اور پھر شاعری تک شعرا میں جو صد رنگی ملتی ہے اس
کا ذمہ دار دراصل ماں کی چھاتی اور دودھ سے وابستہ جنسی لذت میں ناکامی حصول کی بنیاد ہے
جس پر جنس کے منہ کی منزل پر رک جانے کا اشارہ ملتا ہے۔
اپنے مضمون اردو شاعری کا نفسیاتی تجزیہ میں رفیع الزماں خاں نے لکنت کے نفسیاتی
اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے شاعری میں اس کے تخلیقی اظہار سے بھی بحث کی اور قاآنی کی ایک
نظم کی مثال دیتے ہوئے اسے جنسی جذبے کی رجعت کی انتہا قرار دیا۔ان کے نزدیک مسجع و
طرز تحریر اسی غیرشعوری ذہنی لذت کی بدولت ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ شاعریِ مرصع اور پرشکوہ
میں مشکل پسندی اور نامانوس تراکیب کے استعمال کو بھی اسی حظ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو کہ
ماں سے جنسی لگائو اور ذہنی منزل کی غمازی کرتا ہے۔
الغرض رفیع الزماں خاں نے اردو تنقید میں پہلی مرتبہ فرائڈین نظریات کو مدنظر رکھتے
ہوئے اردو شعرا کا نفسیاتی تجزیہ کیا۔
مظہر عزیز:
مظہر عزیز جنس او رادب میں جنس کے متعلق بلند خیاالت کے حامل نقاد تھے۔ وہ ادب میں
محض جنس برائے جنس کے قائل نہیں تھے بل کہ اس سے بھی بڑھ کر کچھ اور دیکھنے کے خواہش
مند تھے اسی لیے ان کا کہنا ہے:
'' ہمیں توقع ہے کہ آنے والی نسلوں کے شعرا ہمیں اسی قسم کے عشقیہ گیت دیں گے جو تحت
الشعور کی اُلجھنوں سے آزاد صرف اصلی جنسی کیفیات کے حامل ہو نگے۔''((٨٠
جنس اور ادب کے باہمی تعلق کی تشریح و توضیح کے لیے مظہر عزیز نے گہری ژرف
نگاہی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے نزدیک فحاشی اور ادب میں فرق ہے فحاشی اور ادب میں فن کارانہ
جذبہ جنس
ٔ جنس نگاری میں تفہیم کرتے ہوئے وہ اس بات کے خالف ہیں کہ شاعر ،فن کار یا ادیب
سے مغلوب ہو کر جو کچھ کرتاہے ،وہ شاعری یا ادب کا موضوع سخن نہیں بن سکتا۔ اُن کا ایک مقالہ
اردو شاعری میں جنسی جذبے کی کارفرمائیاں ماہنامہ ادیب الہ آباد میں شائع ہوا۔ اس مضمون کی ابتدا
مظہرعزیز ان الفاظ سے کرتے ہیں:
'' کوئی اسے مانے یا نہ مانے مگر فرائڈ کی بتائی ہوئی یہ بات اب لوگوں کی سمجھ میں آنے
جذبہ جنس زندگی کی سب سے اہم اور بے پناہ طاقت ٔ اور اس کے دلوں میں گھر کرنے لگی ہے کہ
جذبہ جنس کے مختلف مظاہروں کا نام ہے۔ ارتفاع جنس یا ٔ ہے… عشق خواہ مجازی ہو یا حقیقی ،اسی
بالفاظ دیگر جسمانی خواہشات کو ارادتا ً یا (ناسازگار حاالت کی بنا پر) مجبورا ً مار ڈالنا ہی ہماری کل
صوفیانہ شاعری کی اساس ّاولین ہے۔ اسی طرح اردو غزل میں معاملہ بندی اور ّ
تغزل بھی اسی جذبہ
رہین منت ہے۔ اگر ّاول الذکر میں اس جذبے کا انکاری پہلو واضح ہوتا ہے تو مؤخرالذکر میں ِ جنس کا
اقراری۔''((٨١
مظہر عزیز کا ناقدانہ رویہ سراسر فرائڈین ہے۔ فرائڈین نظریات کی روشنی میں انھوں نے اپنا
مقالہ اردو شاعری میں جنسی جذبے کی کارفرمائیاں لکھا۔ اس مقالہ میں انھوں نے اپنے دور کے
بعض معروف شعرا کی تخلیقات کا تحلی ِل نفسی کی روشنی میں بھی جائزہ لیا۔ ان شعرا کی فہرست
مندرجہ ذیل ہے:
فیض احمد فیض :مجھ سے پہلی سی محبت ،چند روز اور میری جان ،ہم لوگ )(٣
مظہر عزیز نئے اور پرانے شعرا کا تقابل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ
عشقیہ (جنسی) فعل معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی
غیرمعروف اور بدنام شاعر جنسی فعل کو اپنا موضوعِ سخن بنا لیتے ہیں اور جب یہ اشعار مقبو ِل عام
ہو جاتے ہیں تو ایک بلند پایہ شاعر کو بھی ان میں جمالیاتی اقدار نظر آنے لگتی ہیں اور وہ بھی اسی
زبان اور لہجے میں شاعری کرنے لگتا ہے۔ اس ضمن میں مظہر عزیز لکھتے ہیں:
تجزیہ نفس کی تیز روشنی میں پرانی اردو شاعری کا معتدبہ حصہ ایک بیمار
ٔ ''آج موجودہ علم
اور اعصابی ذہنیت کی پیداوار نظر آتا ہے اور ان پرانے شعرا کے تیار کیے ہوئے جنسی اور جذباتی
سانچے ان کی جنسی ناواقفیت اور تنگ نظری اور سماجی ناانصافی کا ثبوت ہیں۔''((٨٢
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرائڈ کی پیروی میں مظہر عزیز ادب کو جنس کا ارتفاع سمجھتے ہیں اسی
لیے انھوں نے قدیم اور جدید شعرا کی شعری تخلیقات کا تحلیل نفسی کی روشنی میں جائزہ لیا۔
میرا جی:
میرا جی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے ایسے زمانے میں ادب پارے کی بنت میں
نفسی عوامل کی موجودگی کا احساس دالیا کہ جس میں ادب کی پرکھ کے سلسلے میں سماجی
محرکات کی تالش کو مقدم جانا جاتا تھا کیونکہ میراجی کا خیال تھا کہ ادب پارے کو صرف خارجی
معیاروں سے نہیں پرکھا جا سکتا اس کے لیے لکھنے والے کی شخصیت اور ا س کے زمانی حاالت
کو بھی م ِدّنظر رکھنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے میراجی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اردو نقد و ادب کو
مروجہ اصول سے نکال کر نفسیاتی اور جمالیاتی اقدار سے ہم آہنگ کیا۔
ّ
جہاں تک باقاعدہ نفسیاتی تنقید کا تعلق ہے تو یہ بات برمال کہی جا سکتی ہے کہ اردو ادب میں
باقاعدہ نفسیاتی تنقید کا آغاز میراجی سے ہوا۔ میرا جی نے اپنی تنقید میں ان عوامل پر بحث کی جن
کی بنا پر فن پارہ وجود میں آتا ہے۔ انھوں نے تنقید کا جو انداز اپنایا ،اس میں فن پارے کے ساتھ ساتھ
شخصی اور اجتماعی عوامل کے کھوج لگانے کی بھی کوشش کی گئی۔ ریاض احمد تنقید کے اس نئے
انداز کا سہرا میراجی کے سر لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
'' نفسیاتی تنقید کو اردو میں متعارف کرانے کا سہرا میراجی کے سر ہے۔ میرا جی نے اس کا
آغاز غالبا ً ''ادبی دنیا'' میں ان مضامین سے کیا جنہیں دو مختلف نظموں پر تعارفی نوٹ کی حیثیت
سے لکھا کرتا تھا۔ ان مضمونوں میں وہ عام طور پر ان میالنات سے جو اس کی جنسی نظموں میں
نظر آتے ہیں بچا رہا۔ ان کے فن و تاثر کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔''((٨٣
انداز نقد کا یہ رنگ اُن نفسیاتی علوم کے نتیجے میں پیدا ہوا ،جو مغربی ادب
ِ میرا جی کے
کے حوالے سے خاص طور پر فرائڈ اور ژونگ کے تناظر میں اردو نقادوں تک پہنچا۔ دراصل
نفسیاتی تنقید نے شخصی اور اجتماعی محرکات کے تناظر میں یہ جاننے کی سعی کی کہ وہ کون سے
محرکات یا عوامل تھے جن کے باعث ایک عام تخلیقی ادب پارہ وجود میں آتا ہے۔ اس ضمن میں داخل
اور خارجی ہر دو محرکات کا جائزہ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ میرا جی نے بھی داخلی او رخارجی
محرکات کو مدنظر رکھتے ہوئے مغرب اور مشرق کے امتزاج سے تنقید کا ایک ایسا رنگ روشناس
اندازنقد بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر انور سدید کا کہنا ہے
ِ کرایا جس میں نظریہ سازی کے ساتھ ساتھ مشرقی
کہ:
''میرا جی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری
جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق و مغرب کے اس دلچسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے
گرد ایک پراسرار جال سا بن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے واال ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہو
جاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔''((٨٤
میرا جی کی تنقید وسعت مطالعہ کی حامل تھی ،خاص طور پر انھوں نے مغربی ادب سے جو
استفادہ کیا ،اسے اپنے تخلیقی ادب کے ساتھ تنقیدی نظریات میں بھی استعمال کیا۔ تنقید لکھنے سے
پہلے انھوں نے والٹ وٹمن ،بود لیئر ،میالرمے ،الرنس ،چنڈی دالس و دیاپتی اور امارد وغیرہ کا
م طالعہ کر رکھا تھا۔ اس طرح وہ اردو کے پہلے نقاد ہیں جنھوں نے فن پارے کا تجزیہ کر کے فن
کار اور فن پارے کے درمیان نفسی عوامل کو تالش کرنے کی کوشش کی اور اس طرح تخلیق کے
اس سفر کو سمجھنے کی ابتدا کی جس کے ذریعے فن پارہ وجود مینآتا ہے۔ محمد حسن عسکری
لکھتے ہیں:
''میرا جی نے مغربی ادب برا ِہ راست پڑھا تھا اور اس سے زیادہ سے زیادہ اثر قبول کرنے
کی کوشش بھی کی تھی۔ ان کی توضیحی تنقیدوں کا نئے ادب کی تحریک پر بڑا احسان ہے۔ اگر
میراجی نہ ہوتے تو غالبا ً بہت سے نئے ادیب اور شاعر پیدا ہی نہ ہوتے یا کم ازکم اتنا نہ لکھتے جتنا
انھوں نے لکھا۔ ادیبوں کے لیے خصوصا ً شاعروں کے لیے وہ ایک بہت بڑا سہارا تھے۔''((٨٥
میرا جی بڑے بے الگ انداز میں تنقید کرتے۔ وہ تنقید یا تبصرہ کے عالوہ نظموں کے مخفی اور بین
السطور تاثرات و کیفیات کو عام قاری تک پہنچاتے ،اس سے اُن کا مقصد یہ ہوتا کہ قاری نظم کی
دروں بینی لذت سے لطف اندوز ہو سکے۔ اس کے لیے انھوں نے نظم کو ایک نثری پیرائے میں
کہانی بنا کر پیش کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ اس طریقہ کار میں وہ نظم کے ساتھ ان محرکات کو بھی
تالش کرنے کی کوشش کرتے جو اس کی تخلیق کا باعث بنے۔ مسعود علی فاروقی کی نظم ''جھیل
کنارے'' کو نفسیاتی انداز سے پرکھتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' نئی نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ جنسی تسکین کی غیرموجودگی انسان کو مناظر
فطرت کی طرف مائل کر دیتی ہے اور اس لیے وہ نیچرل شاعری کو بھی عام خیال کے برعکس
نوعی چیز ہی کہتے ہیں۔ اس خیال سے بھی یہ نظم قاب ِل غور ہے۔ اگرچہ اس میں خیالی جنت یعنی
جھیل کے کنارے ایک ہمدم کا ساتھ اس کی نوعی حیثیت کی واضح دلیل ہے لیکن اگر ہم نفسیات کے
استعاروں کی زبان کے لحاظ سے بھی دیکھیں تو کئی سراغ ہیں۔ اس کی جنسی نوعیت کے سلسلے
میں ملیں گے۔ نغمہ جھیل ہی کو دیکھئے ،سنائی پیکر پر مخصوص اور مرکوز توجہ کا نفیس استعارہ۔
طیور کی پرواز دبی ہوئی جنسی خواہش کی عالمت ہے۔ مختصرا ً نظم سے ظاہر ہے کہ شاعر کا نفس
شعوری نوعی لحاظ سے غیرمطمئن ہے اور اس بے اطمینانی کی کیفیت کو شہری ماحول کے بیزار
کن تاثر نے اور بھی بڑھا دیا ہے اور اسی لیے اب اس کا نفس غیرشعوری نفسیاتی اشاروں کی زبان
میں آسودہ خواہشات کو پورا کرنے کا سامان مہیا کرتا ہے۔''((٨٦
انھوں نے معروف شعرا کے ساتھ ساتھ غیرمعروف شعرا کی شاعری کا بھی تجزیہ کیا
کیونکہ نئی نظم کو متعارف اور مقبول بنانے کی طرف ان کا رجحان زیادہ تھا۔ ''اس نظم میں'' کے
عنوان کے تحت انھوں نے جن نظموں کا تجزیہ کیا ،وہ اپنے موضوع اور ہیئت کے حوالے سے اپنے
عہد کی اہم نظمیں تھیں۔ یہ نظمیں معاشرتی ،سیاسی ،نفسیاتی ،جنسیاتی اور زندگی کے کئی دوسرے
پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔
'' میرا جی کے تنقیدی خیاالت پر فرائڈ کے اثرات بھی موجود ہیں لیکن انہوں نے اپنے نقطہ
نظر کو فرائڈ کے نظریات کی تشریح و تعبیر نہیں ہونے دیا۔ وہ فن پارے کی حیثیت اور اہمیت کا
اندازہ ک رتے ہوئے ان کوائف کی بھی تحقیق کرتے ہیں جو سماجی ،سیاسی اور تاریخی حادثات سے
پیدا ہوتے ہیں اور ان کی نوعیت انفرادی ر ِدّعمل کی صورت میں ملتی ہے۔''((٨٧
جہاں تک میرا جی کی عملی نفسیات کا تعلق ہے تو یہ سراسر فرائڈین ہے۔ فرائڈین تنقیدی نظریات کی
طرح وہ بھی مصنف یا تخلیق کار کی شخصیت کی نفسی تشکیل اور اس سے منسلک جنسی اور
جذباتی محرکات کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے تخلیق سے تخلیق کار کے رابطے کی نشان دہی
کرتے ہیں۔
ایڈگرایلن پو اور بودلیئر کے نفسیاتی مطالعہ میرا جی کی تنقید کا بہترین کام ہے۔ انھوں نے
ایڈگرایلن پو کے کردارونکا اس کی شخصیت کے مخصوص نفسی رجحانات کے تناظر میں جائزہ لیا۔
انھوں نے ان کرداروں کا طفالنہ جنسیت اور مادرانہ وابستگی کے حوالے سے تجزیہ کیا۔ میرا جی
نے نہایت ژرف نگاہی سے ایڈگرایلن پو کی زندگی کے مختلف پہلو عیاں کرنے کے لیے اُن کی
زندگی کا مطالعہ کیا اور پھر ایڈ گرایلن کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو م ِدّنظر رکھتے ہوئے اُن کے
تخلیق کردہ کرداروں کا تجزیاتی مطالعہ کیا۔
میرا جی نظریہ شعور اور الشعور اور تخلیق سے اس کے باہمی تعلق سے مکمل آگاہ تھے۔
اس سلسلے میں انھوں نے دستوفسکی اوربودلیئر کی تخلیقات کا جائزہ لیا:
'' دونوں کے کام کی بنیاد نفس غیرشعوری کے اس تاریک خطے پر ہے جہاں پر ہر طرح کی
مختلف النوع باتیں موجود ہیں جو اپنی کیفیات کے لحاظ سے ایک اجتماع ضد پن ہے اور جہاں نیکی
اور بدی بہت بے ڈھب طریق پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
ان کی ہستی ایک دوسرے کے لیے الزم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہے جس طرح دستو فسکی کے
ناول قدماء کے تناظر میں ناگفتہ بہ جذبات و احساسات سے بھرپور ہیں ،اسی طرح اس احساس
غیرشعوری کی تیرہ و تار سرزمین ہی سے بودلیئر کے ''گلہائے بدی'' کھل کر نمودار ہوئے۔''((٨٨
فن شاعری اور اس کا نفسیاتی پس منظر کے عنوان کے تحت اختر اورینوی نے غالب کا ِ
رسالہ اردو دہلی میں ایک مفصل مضمون لکھا۔ ١٩٤١ء میں لکھے جانے والے اس مقالے کے ٦٠
صفحات ہیں۔ اس مضمون میں انھوں نے غالب کے نفسیاتی پس منظر کی تالش میں نفسی عوامل و
محرکات کا تجزیہ کیا۔ اس مقالے کے بارے میں اختر اورینوی کی اپنی رائے یہ ہے:
'' میں نے غالب کے ادبی ،ذہنی اور نفسی ورثوں اور پھر اس کے ماحول کا تجزیہ کر کے اس
جلیل القدر شاعر کی قماش کو سمجھانے کی کوشش کی تھی اور میں نے یہ بھی دکھالیا تھا کہ اس
طرز ادا پر نمایاں طور سے پڑا ہے۔''((٨٧
ِ قماش نفس کا ٹھپہ غالب کی شاعری ،مضامین اور
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اختر اورینوی نے غالب کی شاعری کا جائزہ لینے کے لیے
غالب کے ذہن اور نفسیات کو م ِدّنظر رکھنے کے ساتھ غالب کے سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی میالنات
پیش نظر رکھا۔ انھوں نے شروع ہی سے نفسیاتی اصو ِل نقد کو برتنے کے لیے اچھے خاصے کو بھی ِ
شعور کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اختر اورینوی نے اپنے پہلے تنقیدی مقاالت کے مجموعے
کسوٹی میں اردو کی رومانی شاعری اور اختر شیرانی کے عنوان کے تحت ایک مقالہ لکھا۔ ٣٠
صفحات کے اس مقالے میں انھوں نے رومانی شاعری کے نفسیاتی پس منظر کے بارے میں یہ جملہ
لکھا:
''موجودہ رومانی شاعری نفسیاتی اثر کے ماتحت ظہور پذیر ہوئی ہے۔''((٩٠
'' ادب و فن کی تخلیق کی یہ نفسی بنیاد وجدان کہالتی ہے۔ اس کا بھی امکان پایا جاتا ہے کہ یہ
نفسی جوالنی عالم ظاہر کے ماورا آفاقی و کائناتی قوتوں کو بھی اپنی طرف کھینچتی اور ان سے اثر
قبول کرتی ہے۔ یہ عمل ادب و صناعت کا الہامی محرک ہوتا ہے اور انقالبی میالنات کی آفرینش میں
سروش غیبی
ِ ممدو معاون بنتا ہے۔ یہ تحریک جدت کو چار چاند لگاتی ہے ،اس الہامی محرک کو
کہتے ہیں۔''((٩١
یہ اقتباس کولرج کے نظریات او رومانی دبستان تنقید کی عکاسی کرتی ہے بقول ڈاکٹر سلیم
اختر ''نفسیاتی اور رومانی سوچ کی یہ آمیزش دراصل اس ذہنی الجھاؤ کے باعث ہے جو اردو کے
ادیبوں اور ناقدین کی (اختر اورینوی ہی کے الفاظ میں) ''نفسی قماش'' میں مضمر ہے۔ تنقید جدید کے
عصر غالب اور غالب کے ماقبل و مابعد کے میالنات میں بھی رومانی اور ِ ایک اور تنقیدی مضمون
نفسیاتی نظریات کی آمیزش ہے۔ اس مقالے میں اختر اورینوی نے ''غالب کی تخلیق اور شخصیت کا
تجزیہ فرائڈ یا ژونگ کے تصورات پر مبنی نہیں کیا بل کہ ان کا یہ مضمون ڈاکٹر واٹ سن کے
نظریات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں غالب کا شخصی تجزیہ ''کرداری دبستان'' کے حوالے سے کیا
گیا ہے۔ اگرچہ اس مضمون میں انھوں نے ڈاکٹر واٹ سن کے نظریات کا ذکر نہیں کیا لیکن جس انداز
میں انھوں نے غالب کی نفسی شخصیت کا تجزیہ کیا اور ماحول و شخصیت کے تناظر میں غالب کی
شاعری کی تفہیم کی وہ سب کرداری نفسیات کی یاد دالتے ہیں۔
انداز نقد کو خود پہ حاوی نہ ہونے دیا اور آخر میں وہ فرائڈین
ِ اختر اورینوی نے اپنے نفسیاتی
نظریات سے تائب ہوتے نظر آتے ہیں۔وہ اپنی تنقیدی کتاب نقد و نظرکے ایک مضمون ادب اور
نفسیات میں نفسیاتی نقطہ نظر سے قدرے متنفر نظر آتے ہیں:
''کہا جاتا ہے کہ ایک ناول نگار ،ایک افسانہ نویس ایک تمثیل طراز اور ایک شاعر کے لیے
ماہر نفسیات ہونا ضروری ہے۔ اردو ادب اور شاعری میں بھی یہ وبا پھیل رہی ہے۔ ادب و شعر کو ِ
شعور ،تحت الشعور اور الشعور کا گورکھ دھندا بنایا جا رہا ہے۔''((٩٢
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اختر اورینوی نے فرائڈ یا ژونگ کے نظریات کے تناظر میں تنقید کرنے
انداز نقد اپنایا اور ماحول اور شخصیت کے باہمی عمل اور
ِ کی بجائے کرداری نفسیات کے تحت
پیش نظر رکھتے ہوئے تنقید کی۔
ر ِدّعمل کو ِ
١٠۔ حزب ہللا:
فرائڈین نقطہ نظر کے حامل نقاد حزب ہللا کی وجہ شہرت ان کی کتاب تحلی ِل نفسی بنی۔ ادب
برائے ادب پر بحث اردو تنقید میں کوئی خاص بات نہیں رہی تھی مگر اس کتاب کی خاص بات اس کا
انداز نقد تھا اور اس میں حزب ہللا نے ادبی عمل ،شعری عمل اور ابہام کو الشعور کے تابع
ِ نفسیاتی
کرتے ہوئے اردو شعر و ادب پر سیر حاصل مباحث لکھے۔ اس کے عالوہ ان کے دو مقاالت ادبی دنیا
الہور میں شائع ہوئے۔
مندرجہ باال دونوں مقاالت ان کی نفسیاتی تنقید سے گہری دلچسپی کے آئینہ دار ہیں۔ ہماری
جنسی شاعری ایک ضخیم مقالہ ہے جس میں جنس اور شاعری کو بنیاد بنا کر قدیم شعری اصناف
سے لے کر جدید نظم گو شعرا کے فن پاروں کی جنسی تحلیل کے عالوہ ادب میں جنس کے ذکر کے
متعلق مختلف مباحث پر گفتگو بھی کی۔ اس مقالے میں انھو ننے اردو شاعری کی قدیم ترین مثال
ریختی سے لے کر قدیم غزل میں امرد پرستی کو بھی موضوعِ بحث بنایا۔ انھوں نے جدید شعرا کی
فحش نگاری اور ادبی احتساب تک سبھی کا موازنہ فرائڈین نظریات تحلیل نفسی او رالشعور کے تحت
کیا۔ جنسی شاعری اور ادب کے متعلق اُن کا موقف ہے:
''شاعر اپنی صالحیتوں کو بروئے کار ال کر ہمارے جنسی نظریات کو بناتے یا بگاڑتے ہیں۔
زیراثر ڈھلتی رہتی ہے۔ فرق صرف صورت ہر تمدن اور ہر دور کی جنسی شاعری نئے تقاضوں کے ِ
کا ہے ،بنیادی شے ایک ہی رہتی ہے۔''((٩٣
ادب برائے ادب کے مباحث میں کوئی نیا تذکرہ نہیں ملتا لیکن حزب ہللا نے اس میں اردو
شاعری کی سوچ کو الشعور کے ذریعے اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ یہ مقالہ بھی سراسر فرائڈین
نظریات کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادب کو جنس کا ارتفاع سمجھتے ہیں۔
انداز نقد کے حامی وجیہہ الدین نے ادب کا نفسیاتی اور معاشی محرکات کے تحت تجزیہ ِ جدید
کرنے کے عالوہ ادبی تخلیقات کے جمالیاتی تاثر کا بھی تجزیہ کیا لیکن انھو ننے ادب کے تعلیمی پہلو
انداز نقد کی خاص بات ہے کہ انھوں نے ادب کے تعلیمی پہلو کو ِ کو نظرانداز نہ کیا اور یہی اُن کے
م ِدّنظر رکھتے ہوئے ادب کے اخالقی مقاصد پر زور دیا۔ وجیہ الدین نے اپنے مضمون جنسی فساد اور
احتساب کا آغاز ان الفاظ میں کیا:
انداز تنقید کے حامی ادب کے نفسیاتی اور معاشی محرکات کا سراغ لگانے اور ادبی ِ ''جدید
تخلیقات کے جمالیاتی تاثر پر بحث کرنے میں تو بہت کاوش سے کام لیتے ہیں ،لیکن وہ عام طور پر
ادب کے تعلیمی پہلو کو نظرانداز کر جاتے ہیں… جنسیات کے متعلق ادب کو قاب ِل احتساب قرار دینے
ماہرین نفسیات اور خود ادیب ہونے
ِ کا ارادہ کچھ ایسا غیرمستحسن نہیں۔ ہاں البتہ محتسب ماہرین تعلیم،
چاہئیں۔ نام نہاد اخالقیات کے اجارہ دار نہیں۔''((٩٤
نفسیاتی تنقید کے تناظر میں لکھے گئے مندرجہ ذیل مضامین وجیہہ الدین کے فرائڈین نظریات
کی عکاسی کرتے ہیں:
جنسی فساد اور احتساب ،ادبی دنیا ،الہور ،نومبر ١٩٤٩ئ )(١
کچھ مسرت کے بارے میں ،ادبی دنیا ،الہور ،نومبر ١٩٥٣ئ )(٤
شمشاد عثمانی اردو ادب و نقد میں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایڈپس نظریات کے تحت
اردو شاعری کے اہم رجحانات کا جائزہ لیا۔ انھوں نے اردو شاعری کے ساتھ فارسی اور بھاشا زبان
میں لکھی گئی شاعری کا بھی ایڈپس نظریات کے تحت تجزیہ کیا۔ انھوں نے اردو شاعری میں ناقاب ِل
حصول محبوب کے تصور کی تشریح مادرانہ وابستگی کے حوالے سے کی۔ اس ضمن میں وہ لکھتے
ہیں:
''باپ سے الشعوری رقابت کا احساس رقیب یا ''غیر کے تصور کی صورت میں… اُبھرتا ہے
اور غیر کے اسی تصور نے اردو شاعری کے تمام قنوطی پہلو کا نفسیاتی پس منظر پیدا کیا ہے…
ایسے قنوطی شعرا کے جذبات عام طور پر ایک ایسے محبوب کی ذات کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ
گئے جس کا حصول ان کے لیے ناممکن بن گیا ہو۔ اس کے جذبات کی روانی اسی ایک مرکز پر ہی آ
کر ُرک گئی اور وہاں ہی طوفان اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔''((٩٥
شمشاد عثمانی نے اردو شاعری میں رقیب کے تصور میں مومن ،داغ ،حالی کے مختلف اشعار
کی نفسیاتی توضیح پیش کی۔ ان کے نفسیاتی استدالل کا اندازہ مندرجہ ذیل اشعار کی نفسیاتی توضیح
سے ہوتا ہے۔ غالب کے سفر کے متعلق لکھتے ہیں:
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شمشاد عثمانی نے تحلیل نفسی کی روشنی میں انفرادی شخصیات
کے عمومی ُرجحانات کا بڑا عمدہ سے تجزیہ کیا۔
ڈاکٹر وحید قریشی کی تنقید کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ انھوں نے اردو ادب و نقد میں سب سے
انداز نقد کو اپنایا اور تنقید میں معروضی رویہ اختیار کرتے ہوئے فرائڈین
ِ پہلے دو ٹوک اور بے الگ
تحلیل نفسی سے بھی فائدہ اٹھایا۔ وحید قریشی نے فرائڈ کے نقطہ نظر سے شبلی کی شخصیت کا
تجزیہ کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے پہلے شبلی کی شخصیت کی تحلیل کی ،پھر اس کے تضادات
دریافت کیے اور آخر میں اُن کی شخصیت کی اساس نرگسیت پر قائم کرتے ہوئے لکھا:
'' یہ ان کے مشاغل کا ایک دائرہ تھا جس میں وہ مجلس مقام اور لیڈری کے خواہاں تھے۔
زیراثر اتر چکا تھا ،حسن
دوسری طرف ان کی نرگسیت ،جس سے تنگ نظری کا غالف سرسید کے ِ
و عشق کی رنگینیوں میں راستہ تالش کر رہی تھی۔ اس رجحان کے ابتدائی آثار قیام حیدر آباد اور اس
کے بعد اعظم گڑھ میں نظر آتے ہیں جس کے تین مرکز تھے :ایک ابوالکالم کی ذات ،دوسرے عطیہ
منظرعام پر نہیں آ سکیں) البتہ ان دو
ِ بیگم اور تیسرے مدارس کی کوئی ہستی (اس کی تفصیالت ابھی
طرح کے عشقوں کی نوعیت میں اتنا فرق ضرور ہے کہ یہ لیڈرانہ مواقع اور قومی و ملّی کاموں میں
اس کا اہم عنصر جاہ کی خواہش ہے اور افراد کی محبت میں خاص پہلو جنسی ہے ،اگرچہ دونوں کا
محرک قوی اپنی ذات ہے۔''((٩٦
ّ
وحید قریشی نے شبلی اور دیگر احباب کے خطوط کی مدد سے شبلی کی زندگی کا نفسیاتی
تجزیہ کیا۔اس میں جنس کو اولیت حاصل ہے۔ نفسیاتی تنقید کے اہم ترین مباحث میں سے ایک یہ بھی
ہے کہ مصنف کی روز مرہ زندگی کے معامالت کے نفسی وقوعات اور جذبات کی روشنی میں اس
کے فن پاروں کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مخصوص نفسی کیفیات کسی
بھی تخلیق کار کی تخلیق پر کس انداز سے اثرانگیز ہوتی ہے۔ اگر اردو تنقید کا جائزہ لیا جائے تو
معلوم ہو گا کہ اردو میں حالی اور شبلی نے جس انداز سے سوانحی خاکے لکھے ،ان کی اساس
ت
نفسیاتی کی بجائے حقیقت پسندی پر بھی مبنی تھی۔ اس بارے میں ڈاکٹر وحید قریشی شبلی کی حیا ِ
معاشقہ میں لکھتے ہیں:
'' ہمارے زمانے میں جو سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں ،ان کا یہ عذر کیا جاتا ہے کہ ابھی قوم
کی یہ حالت نہیں کہ تصویر کے دونوں ُرخ اس کو دکھائے جائیں لیکن عذر کرنے والے خود اپنی
اظہار حق سے روکا ،وہ ایشیائی شخص پرستی ہے جس ِ نسبت غلطی کرتے ہیں ،جس چیز نے انھیں
کا اثر رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے۔''((٩٧
١٤۔ ریاض احمد:
ب ذوق کے اُن ناقدین میں ہوتا ہے جنھوں نے تنقید کرتے ہوئےریاض احمد کاشمار حلقہ اربا ِ
اصناف ادب کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے تنقید کے ذریعے ادیبو ں
ِ نفسیاتی قوانین کی روشنی میں مختلف
کے داخل کی کھوج لگانے اور ان کے فن کی مرکزی جہت دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ ادب کی
اقدار اور نظریات کی نئی تہذیب و ترتیب کا کام بھی سرانجام دیا۔ ان کے عہد کے نفسیاتی نقادوں نے
تنقید کو محض ذہنی عوارض کی تشخیص کے لیے استعمال کیا اور فرائڈ کے نظریات کی روشنی میں
ادب و فن کا تجزیہ اس انداز میں کیا جیسے فن پارہ ادب کے مریض کہنہ کی کیس ہسٹری ہے اور نقاد
اس کیس ہسٹری سے ادیب کی بیماری کی نوعیت دریافت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ریاض احمد نے اپنے زمانے کے ناقدین پر یہ بات واضح کی کہ تنقید کے نفسیاتی دبستان کا
مقصد محض نفسیاتی زاویہ نگاہ نہیں بل کہ جمالیاتی پرکھ اور تجزیاتی مطالعہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ انھوں نے فرائڈ کے عالوہ ایڈلر اور ژونگ کے نظریات سے بھی استفادہ کیا۔ خاص طور پر
ژونگ کے ثقافتی تناظر کے نظریات کے تحت ادب کو مذہبی اور ثقافتی اقدار کے پہلو بہ پہلو
ب ذوق کے اُن ناقدین میں ہوتا ہے جنھوں نے اردوجانچنے کا آغاز کیا۔ ریاض احمد کا شمار حلقہ اربا ِ
تنوع ہے۔ انھوں نے ادب
تنقید میں ایک نئے رویے کو روشناس کروایا۔ ان کی تنقید میں موضوعات کا ّ
علم عروض کے قوانین کے تحت کا تجزیہ جدید نفسیاتی نظریات کے ساتھ ساتھ علم معانی و بیان اور ِ
بھی کیا۔ اس ضمن میں ریاض احمد لکھتے ہیں:
''دراصل یہ مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں اس کے لیے ماننا پڑے گا کہ فن کار بیک وقت دو ذہنی
کیفیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ کیفیت ہے جسے فن میں پیش کیا جاتا ہے اور دوسری طرف
ذہن کا تخلیقی فعل۔''((٩٨
اردو میں نفسیات کی روشنی میں ادب کے مطالعہ کا میالن خاصا پرانا ہو چکا ہے مگر
اصناف ادب کے مزاج کے تعین کے لیے نفسیات کو باضابطہ طور پر بروئے کار النے کے سلسلہ
میں اولیّت کا سہرا ریاض احمد کے سر ہے۔ ادب پارے سے تخلیقی شخصیت کی دریافت ریاض احمد
کا فن بھی ہے اور ان کی تنقید کا خوبصورت انداز بھی۔ انھوں نے تحلیل ِنفسی کے ذریعے مختلف
مرہون منت ہوتا ہے
ِ شعرا کا تجزیہ کیا۔ ان کے نزدیک شعر کا وجود شاعر کے اس تخیلی تجربے کا
جو پہلے لفظ و معنی کی قیود سے آزاد ہو کر شاعر کے شعور پر حاوی ہوتا ہے۔ پھر متخیلہ اس
مرکزی تصور کے گرد جمالیاتی اور جذبی کیفیتوں کا ایک جال بُن دیتا ہے۔ ریاض احمد شاعر کی
جذباتی اور جمالیاتی کیفیتوں کو بیان کرتے ہوئے جون ١٩٨٣ء کے ''ادبی دنیا'' میں لکھتے ہیں:
پیش نظر خارجی متعلقات مرکزی تصور کی ''زندگی کی متلون اور گوناگوں کیفیتوں کے ِ
وحدت اور یکجہتی کے منافی نظر آتے ہیں لیکن نظم میں بھی شاعر کے ذہن میں ان جزئیات کی
اساسی وحدت کے متوازی ایک داخلی سلسلہ کارفرما ہوتا ہے جو برا ِہ راست تاثر کی ہم آہنگی اور
نتیجہ خیزی کے لیے ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس داخلی کیفیت کو ہم نظم کا موضوع کہتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں وہ خارجی اسباب جو اس موضوع کو ہم تک پہنچاتے ہیں ،نظم کا اسلوب کہالتے
ہیں۔''((٩٩
ریاض احمد اپنے ایک مضمون اردو شاعری میں جنسیات مشمولہ ریاضتیں میں شعرا کے ہاں
جنسی رویوں پر بحث کرتے ہیں۔ یہا ں وہ فرائڈ کے نظریات کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں ،وہ اس
بات کی کھوج لگانے کی سعی کرتے ہیں کہ شاعری میں جنسی رویوں کا دخل کن بنیادوں پر ہوتا ہے۔
منظرعام پر
ِ ریاض احمد کے خیال میں شاعرانہ تصور اور اس سے منسلک رومانوی خیاالت اس وقت
آتے ہیں جب انسان یا شاعر اپنی جنسی خواہش کو دبا دیتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کی بھی
وضاحت کرتے ہیں کہ یہ الزمی نہیں کہ ہم شاعرانہ تخلیق کی وجہ جنسی جذبات کی شدت میں تالش
کریں۔ اس سلسلے میں انھوں نے مغربی اور مشرقی شاعری کا موازنہ بھی کیااور معاملہ بندی پر
بحث کرتے ہوئے مثالیں بھی پیش کیں۔ ریاض احمد قدیم اور جدید شاعری میں جنسیات کا تقابل کرتے
ہوئے ژونگ کے افکار کے پیروکار دکھائی دیتے ہیں:
''قدیم شعراء کے ہاں جنسی موضوعات کا حامل صرف ایک لفظ تھا۔ ''عشق'' جو بہت حد تک
ایک روحانی کیفیت کی ترجمانی کرتا تھا اور اس سے اخالقی اقدار بھی وابستہ تھیں ،اس کے
برعکس جدید شاعری میں محبت یا عشق ایک جسمانی فعل ہے۔ جنسی جذبات کو دبانے کی ایسی
کوشش کا نفسیاتی نتیجہ یہ تھا کہ طبیعتوں پر ایک گہری اداسی اور قنوطیت چھا چکی تھی اس لیے
غالبا ً ہماری قدیم شاعری میں رجائیت کا عنصر بہت کم ملتا ہے۔''((١٠٠
ریاض احمد کے مطابق اردو شاعری میں ''سکندر اور خضر'' سے متعلق ایک خاص قسم کا
رقیبانہ رشتہ بالعموم ہر شاعر کے ہاں نظرآ تا ہے ،تحلی ِل نفسی کی رو سے یہ تعلق اُس نفسی الجھن
صے میں کا نتیجہ ہے جسے ایڈی پس کمپلیکس کہا جاتا ہے۔ اسی طرح انھوں نے یوسف زلیخا کے ق ّ
معنی تالش کیے ہیں۔ ان کے مطابق یوسف سورج دیوتا کی قسم کا ایک جنسی بدل ٰ بھی نئے نفسیاتی
ہے جو ہر عورت کی جنسی خواہشات کا پیکر ہے او رمردوں کے ہاں اپنی جنسی فوقیت کی وجہ سے
محبوب ہوت ا ہے۔ ریاض احمد اردو شاعری کے ان بنیادی تصورات کو بلحاظ نوعیت فرائڈین قرار دیتا
معنی پہنا دیئے
ٰ ہے۔ جیسا کہ تحلی ِل نفسی کے ابتدائی دور میں نفسیاتی نقادوں نے ہر شے کو جنسی
ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے اس کی اساس جنس اور
ِ اور ادب و فن کا تحلی ِل نفسی کے نظریات کے تحت
ایڈی پس الجھاؤ پر استوار کی۔ ایسے ہی ریاض احمد نے اردو شعر و ادب کا تحلیل نفسی کے اصولوں
مروجہ ادبی اقدار کی تشریح و توضیح نفسیاتی نقطہ نظر سے کرنے کے ساتھ کے تحت جائزہ لیا اور ّ
ساتھ مصنف کے نفسیاتی اور ذہنی رجحانات کا جائزہ لینے کی بھی کوشش کی۔ انھوں نے نظم کے
حسن اور ان کی نفسیاتی قوتوں کو بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا۔ خصوصا ً انھوں نے مغربی ادب
اور تنقیدی نظریات سے جو استفادہ کیا۔اس نے ان کی تنقیدی بصیرت کو وسعت دی۔
ریاض احمد اردو کے پہلے نقاد ہیں جنھوں نے فن پارے کا تجزیہ کر کے فن کار اور فن
پارے کے در میانی رشتوں کو تالش کرنے کی سعی کی اور اس طرح تخلیق کے اس سفر کو بیان کیا
تصوف کے بارے میں لکھتے ہیں:
ّ جس کے توسط سے فن پارہ وجود میں آتا ہے۔ اردو شاعری میں
'' صحیح نفسیاتی تنقید کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی قدیم ادبی روایات کو مذہبی اور ثقافتی
تصوف کو محض جنسی گمراہی ّ اقدار کے پہلو بہ پہلو جانچیں ،مثالً تصوف ایک بڑی اہم روایت ہے۔
تصوف کے عام پہلوؤں کا نفسیاتی اصولوں کے تحت ّ قرار دے کر آگے بڑھ جانے سے بات نہیں بنتی۔
جائزہ لینے کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ صوفیانہ شاعری میں وہ کون سے رجحانات کارفرما تھے جو
اس کی تاثیر اور مقبولیت کا راز قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ ''((١٠١
ریاض احمد نفسیاتی تنقید کو عملی نفسیات ) (Applied Psychologyکی ایک شاخ قرار
دیتے ہوئے ادبی مسائل ،ادبی محاسن اور ادبی روایت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔انھوں نے
اظہار معانی کی ایک صورت کہتے ہوئے ان تمام مسائل کا جائزہ لینے کی سعی کی جو ادبی ِ ادب کو
رویہ مغرب میں آئی اے رچرڈ اور اس کے ساتھی سی۔کے اگڈن کے ہاں تنقید میں اہم ہیں۔ تنقید کا یہ ّ
موجود ہے کیوں کہ وہ ہر ادبی مسئلے پر اس طرح بحث کرتے ہیں کہ فن پارے کی نفسیاتی توضیح
نقطہ نظر تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔ اردو نقد و ادب میں ریاض ٔ اور توجیہہ سے ایک صحیح
احمد کا مطالعہ نفسیات اتنا وسیع ہے جتنا کہ ان مصنفین کا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی ادب پارے
کی تشریح و تجزیہ اس انداز سے کرتے ہیں جس سے ادبی مسائل کی بجائے ادبی اظہار کے
مخصوص پیمانے نفسیاتی تحلیل و تجزیہ کے ذریعے اجاگر ہوتے ہیں۔وہ ان عوامل کی نشان دہی
معرض وجود میں آتا ہے۔ انھوں نے ایک طرف تو مذہب ،ادب
ِ کرتے ہیں جن کے باعث ایک فن پارہ
اور تہذیب کے رویوں پر تحلی ِل نفسی کے تحت بحث کی تو دوسری طرف نفسیات کے حوالے سے یہ
کہا کہ انسان تاریخی قوتو ں سے زیادہ اپنی داخلی قوتوں کے تحت ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی
داخلی قوتیں یا کیفیات اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتیں ،صرف اپنی تخلیقی توانائی سے اسلوب یا اظہار
کو بننے سنورنے کے اسباب فراہم کرتی ہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنے ایک مضمون لکھت اور لکھاری
میں لکھتے ہیں:
''تخلیقی تجربہ یا واردات کے مرکزی منطقے میں ایک جذباتی کیفیت ہوتی ہے۔ واردات کا
وقوفی ) (Cognitiveتانا بانا اسی سے توانائی حاصل کر کے تخلیقی فن پارے میں ڈھلتا ہے۔ بظاہر
یہ کہا جاتا ہے کہ تخلیقی تحریریں بھی یہی جذباتی کیفیت اور اس سے حاصل ہونے والی توانائی
اظہار پاتی ہے۔''((١٠٢
ریاض احمد کے نزدیک حسی اور تخیلی قوتیں مل کر نئی راہیں تخلیق کرتی ہیں۔ ان کے
مطابق یہ را ہیں صرف شعر و ادب تک محدود رہنے کی بجائے دنیا کے تمام معامالت پر اثرانداز
ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ جب احساس کے دائرہ عمل میں آ جاتا ہے تو اس کے مدلوالت منطقی
یا عقلی ہونے کی بجائے مبتدانہ ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک حسی تالزمات کی بات ہے تو وہ بعض اوقات
ایسے جذباتی اُسلوب کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں کہ جب بھی وہ لفظ آنکھوں کے سامنے آتا ہے،
جذبات کے دھارے بہہ نکلتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جذبات ہمیشہ اپنی آسودگی کے لیے
کلبالتے ہیں۔ انسانی جذبات اور الفاظ کی کیفیات کے بارے میں ریاض احمد کا موقف ہے:
'' حسی مناسبتوں بل کہ زیادہ صحیح ہو گا کہ حسی مغالطوں سے جذبات کچھ ایسی کیفیتیں
ترتیب دے لیتے ہیں او ران کیفیتوں کو کچھ ایسے لفظوں سے تعبیر کر لیتے ہیں جو شعوری گرفت
میں نہیں آتے لیکن جن کی جذباتی توانائی بے پناہ ہوتی ہے۔ تحلی ِل نفسی نے بعض اجتماعی اور بعض
شخصی عالمتوں کا سراغ لگایا ہے جن کا سلسلہ مذہب کے واسطے سے ہوتا ہوا جنس تک چال جاتا
ہے۔''((١٠٣
جدید نفسیات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اصول لذت و مسرت ہر شخص میں جبلی طور پر
موجود ہوتا ہے اور اصول لذت و مسرت انسانی شعور میں اَنا کے استحکام سے پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ اچھا ادب تخلیق کرنا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے وسیع مطالعے ،معاشرتی ،اخالقی ،سماجی،
تہذیبی ،تجزیوں اور مشاہدوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان تجزیوں اور مشاہدوں کی روشنی میں ادیب
سچائی کا مفہوم سمجھتا ہے ،درد کی لذت سے آشنا ہوتا ہے۔ پھر اس کا شعور خوشبو کی طرح ذہنوں
پر اثرانداز ہوتا ہے۔ فطرت کا مطالعہ ادیب اور فن کار کو آفاقی اقدار کے سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
احساس کمتری ،زندگی سے بیزاری جیسی حقیقتوں کو ان ِ آالم دہر ،مایوسی ،محرومی ،ناکامی،
دکھِ ،
کے اصل روپ میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے اور یہ سب جذبات اس کی تخلیق پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
تخلیق ،زندگی کے دو اصولوں (١۔ اصو ِل حقیقت ٢ ،۔ اصول مسرت) کے توازن ،مطابقت اور ہم
آہنگی سے پیدا ہوتی ہے۔ اصول مسرت کو اصو ِل حقیقت پر ترجیح دینے والے انتشار کا شکار ہو
جاتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ رسم و رواج ،مذہبی ،تہذیبی اور تمدنی شعائر کی پابندی جذبات
کی تحریک کو بعض پابندیوں کے تابع بنا دیتی ہے مگر بعض اوقات جذبات کو جتنا دبایا جائے وہ
اتنے ہی اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ ریاض احمد کے مطابق:
'' جذبہ ہمیشہ ایک والہانہ سرمستی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور اردو ادب میں جب اس سرمستی کا
ذکر کرنا چاہا تو شراب کا کنایہ موجود تھا لیکن تجریدی صورتیں ایک ایسے غیرمعمولی دل و دماغ
کی متقاضی تھیں جو ہر کسی کے بس کا نہیں۔ خمریات کو بے کیف بنانا رندی کو ادباعنی اور تصوف
کو معاملہ بندی کے داغ سے بچا لینا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی اور جتنا کوئی اصل کیفیت سے
محروم ہوا ،اتنا ہی اس نے جذبے کو غلو ،مبالغہ او رجوش سے بیان کیا۔''((١٠٤
ریاض احمد ادبی تخلیق کی ہیئتوں اور جمالیاتی بنیادوں سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔ وہ
جمالیاتی تنقید میں ان محرکات اور عوامل کا جائزہ لیتے تھے جو نفسیاتی طور پر اشیاء کی اُن
خوبیوں سے متعلق ہوتیں جنھیں ہم حسن کہتے ہیں مگر ریاض احمد کے نزدیک جمالیات کا موضوع
اور مطالعہ میں وہ اسباب و علل نہیں جو خارجی طور پر موجود جبلتوں کو متاثر کرتے ہیں بل کہ اُن
کے نزدیک جمال جبلی مقصود کی وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان خود جبلی تحریک کا باعث
بن سکتا ہے۔ نفسیاتی مطالعہ کا موضوع جبلّت اور جذبات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید نفسیات نے
ادبی تنقید کے لیے نئے نئے میدان دریافت کیے ہیں۔ ان میں ایک جمالیاتی عنصر یوں موجود ہے کہ
جب ہم مصنف یا قاری کے جذباتی اسلوب یا ر ِدّعمل سے بحث کرتے ہیں تو نتیجتا ً ہمارا موقف یہ ہوتا
ہے کہ خاص ادب پارے میں متاثر کرنے کی صالحیت کس طرح پیدا ہوئی اور یہی جمالیاتی تنقید کا
موضوع ہے یعنی تنقید کی نوعیت خواہ فلسفیانہ ہو یا تکنیکی یا نفسیاتی ،ان میں جمالیاتی عوامل کی
نشان دہی کا کوئی نہ کوئی جزو ضرور نکل آتا ہے۔ جمالیاتی تنقید نفسیاتی تنقید پر کس طرح اثرانداز
ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ریاض احمد کا موقف ہے:
'' جمالیاتی عمل مقصود بالذات بن جانے کی سعی کرتا ہے۔ جمالیاتی تنقید میں یہ اصول اس
مروجہ اقدار یا
طرح ظہور پذیر ہوتا ہے کہ تنقید کے اخالقی نفسیاتی یا تکنیکی دبستانوں میں بعض ّ
اصول وہ معیار مہیا کرتے ہیں جن سے ادب کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کی سعی کی جاتی ہے۔
فلسفیانہ یا اخالقی دبستان میں جمال ایک قدر بن جاتا ہے تاآنکہ خیر اورجمال کو ایک دوسرے پر
منطبق کرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔''((١٠٥
ریاض احمد جنسی تصورات کے ذریعے تخلیق ہونے والی معنوی کیفیات کی طرف توجہ
دالتے ہیں اور شاعری میں صوتی اثرات کے صناعانہ استعمال کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔ جنس کا
موضوع بھی ان کے لیے اہم ہے۔ ہیئت ،اسلوب اور جمالیات سے ان کی دلچسپی انھیں ترقی پسند تنقید
نگاروں سے قرابت کرتی ہے مگر وہ ترقی پسند تنقید کی تاریخیت کے مقابل نفسیاتی بصیرت کو التے
ہوئے کہتے ہیں:
'' اگر ترقی پسند تحریک نے ہمیں یہ شعور عطا کیا کہ ادب زبان و بیان کی خوبیوں سے آگے
بڑھ کر قوم اور ملک کی سیاسی اور سماجی کشمکش کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ہمیں اپنے ادیبوں میں
اس کشمکش کے آثار دیکھ کر ان کی قدر وقیمت اور اہمیت کا اندازہ کرنا چاہیے تو نفسیاتی تنقید نے
ہمیں یہ بتایا کہ ان ظاہری اور پیش پا افتادہ معانی کے پیچھے ایسے شخصی اور اجتماعی محرکات
کی ایک وسیع دنیا کارفرما ہوتی ہے جو نوعیت کے اعتبار سے غیرشعوری ہوتے ہیں۔ انہی عوامل
کی تفہیم ،خواہ وہ غیرشعوری ہی کیوں نہ ہو ،ادب کو معنوی ُحسن اور تاثیر بخشتی ہے۔''((١٠٦
طرزفکر یا احساس کا نام نہیں بل کہ ایک مخصوص طرز اظہار کا ِ ادب بنیادی طور پر کسی
نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی طرز اظہار سائنسی ،تاریخی ،فلسفیانہ یا رضیاتی طرز اظہار سے
طرز
ِ مختلف ہوتا ہے۔ اگر اسلوب کا بغور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سائنسی اور ریاضیاتی
طرز اظہار میں
ِ طرز استدالل اور ادبی
ِ طرز اظہار میں واقعیت ،فلسفیانہ
ِ اظہار میں قطعیت ،تاریخی
حسن آفرینی بنیادی شرط ہے ،ایسے ہی فلسفے کا موضوع کائنات کے بنیادی اصول و اقدار میں سے
ایک ہے۔ سائنس کا موضوع مادہ اور اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ تاریخ کا موضوع واقعات ماضی
ہیں۔ ریاضی کا موضوع اعداد ہیں اس کے برعکس ادب کا کوئی موضوع مختص و متعین نہیں۔ ادب
کسی بھی موضوع پر تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ ادب کا موضوع ماضی بھی ہو سکتا ہے۔ ادب کا تعلق
زمانہ حال اور مستقبل بھی ہو سکتا ہے ،ادب کا موضوع کائنات کے اصول و اقدار بھی۔ ایسے ہی
ادب کا موضوع سیاسیات بھی ہو سکتی ہے یعنی ادب میں موضوع کی کوئی قید نہیں۔ ادب کا بنیادی
مسئلہ یہ نہیں کہ ''کیا کہا جائے'' بل کہ ادب کااصل مسئلہ یہ ہے کہ ''کیسے کہا جائے؟''
ادب میں اُسلوب کی اہمیت موضوع سے زیادہ ہے۔ ادب کے فنّی اور جمالیاتی تقاضے اس کے
موضوعاتی ،معاشرتی اور اخالقی تقاضوں سے زیادہ اہم ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک
شاعر فلسفہ ،تصوف یا سیاست کو اپنے اشعار میں بیان کرتا ہے تو اس میں جذبات کی آمیزش بھی
جنگ عظیم
ِ کرتا ہے یعنی شاعر ایک خارجی کیفیت کو داخلی کیفیت کی آمیزش سے پیش کرتا ہے۔
کے بعد انسانی ذہنیت میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اس سے ہندوستان بھی متاثر ہوا۔ اس کی مثال ہماری
شاعری میں ملتی ہے اس ضمن میں یہ تجزیہ کرنا ہو گا کہ وہ اسالیب آہستہ آہستہ کس نئے انداز میں
شاعری کا موضوع بنے ،کس نوعیت کے تھے۔ سماجی اور سیاسی حاالت نے ان کی تشکیل کس انداز
جنگ عظیم کے بعد لکھی گئی سیاسی نظموں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ان نظموں ِ میں کی۔
میں شکوہ الفاظ کے ساتھ ساتھ جذبات بھی موجود تھے۔ اردو میں سیاسی نظموں کو متعارف کروانے
محرک بیان کرتے ہوئے ریاض احمد رقم ّ سر ہے۔ سیاسی نظموں کا نفسیاتی کا سہرا عالمہ اقبال کے َ
طراز ہیں:
جنگ عظیم کے بعد کی سیاسی بیداری کے اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں ،قوم کی اجتماعی ِ ''
نفسیات میں اپنی پستی اور ذلّت کا احساس جس شدّت سے نمودار ہوا ،وہ ایک طرف تو اس عالمگیر
جنگ عظیم کے کشت و خون ،ہالکت او ربربادی کے لیے ِ جمہوری تحریک کا نتیجہ تھا ،جس نے
سامراجی قوتوں کے حریصانہ منصوبوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور دوسری طرف خود قوم کے رہنماؤں
طرز عمل افراد میں ان کی استطاعت اور مقام و
ِ کی دور اندیشی کا پیدا کردہ تھا۔ قوم کا یہ مجموعی
مرتبہ کے لحاظ سے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوا۔ شعراء کے ہاں اس کی صورت یہ تھی کہ ایک
طرف تو انھیں اپنا فن اس جدید ذہنیت کا ہم آہنگ نظر نہ آیا اور انھوں نے اپنے اقتدار کو برقرار
رکھنے کے لیے سیاسی نظمیں لکھنا شروع کر دیں… دوسری طرف خود ان کی فطرت کی رومان
جہان تصور
ِ پسندی ،ان کی طبیعت سیاسی ہنگاموں کے شو رو شغب سے بہت دور خلوت میں اپنا
بسانے کی آرزومند تھی:
نظم کے بنیادی خیال کی تالش ریاض احمد کی تنقید کا مرکزی نقطہ ہے اور اس مرکزی
نقطے کو وہ اکثر نفسیاتی توجیہات سے واضح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعر کے
ذہن میں نظم لکھتے وقت جزئیات کی اساسی وحدت کے متوازی ایک داخلی سلسلہ کارفرما ہوتا ہے
جسے وہ برا ِہ راست تاثر کی ہم آہنگی اور نتیجہ خیزی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ
وہ داخلی کیفیت کو نظم کا موضوع اور خارجی اسباب کو نظم کا اسلوب کہتے ہیں۔ فیض احمد فیض
کی نظم ''مرے ہمدم مرے دوست'' کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے اسی نظم کو براہ راست ایک
مظلوم قوم کا مرثیہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
'' اس نظم میں انقالب کا جذبہ پوشیدہ ہے۔ انقالب جو تباہی التا ہے اس کا احساس موجود ہے…
سب سے پہلے شاعر یہ کوشش کرتا ہے کہ ہم اس کو اپنا ہمدرد اور مخلص سمجھنے لگ جائیں۔ اس
میں وہ ہمارے دکھوں کو بیان کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو ہر مناسب اور ممکن خدمت کے لیے
پیش کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ شاعر سے لوگ محض گیت سننے کے عادی ہیں۔''((١٠٨
ریاض احمد نے نفسیاتی تجزیوں کی بدولت نظموں کے فکری اور موضوعاتی پہلوؤں کی
عمدہ تشریح کی ہے ان کی تنقید کا دائرہ موضوعاتی اور نفسیاتی تجزیے تک کا محدود نہیں بل کہ
تنوع ہے۔ وہ
انھوں نے فن پارے کاتجزیہ فنی اور ہیئتی سطح پر بھی کیا اور ان کے تجزیوں میں ایک ّ
فیض احمد فیض کی نظموں کا فنّی اور ہیئتی تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' اس کے کالم میں ہمیں کافی ناہمواری نظر آتی ہے جس سے ٹپکتا ہے کہ وہ فنی لحاظ سے
پختہ کار نہیں۔ اس کی بعض نظمیں موضوع سے قطع نظر نہایت بلند انداز کی حامل ہوتی ہیں لیکن ان
طرز ادا کے لحاظ
ِ کے مقابلے میں ''آخری خط'' اور ''ایک رہگذر پر'' ایسی نظمیں بھی ملتی ہیں جو
سے نہایت معمولی واقع ہوئی ہے… بعض جگہ فیض کی اچھی نظموں میں بھی تراکیب نہایت بھدی
اور پھسپھسی آئی ہیں اور بعض جگہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بحر کے ارکان پورے کرنے کے لیے
اس میں چند الفاظ بے وجہ لکھ دیے ہیں۔ مثالً یہ مصرع'' :جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں
میں'' اس میں ''موہوم'' کا لفظ زائد ہے۔''((١٠٩
ریاض احمد نے اپنے تنقیدی افکار میں نفسیات کے ساتھ ساتھ جمالیات کو بھی اہمیت دی اور
اسے موضوعی اور معروضی دونوں سطحوں پر محسوس کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی تنقید
تصوف ،نفسیاتی افکار کا بھی سہارا لیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
ّ میں مذہب،
ریاض احمد نے اپنی تنقید میں فرائڈ ،ایڈلر اور ژونگ تینوں کے افکار سے مدد لی۔ بعض
جگہوں پر ریاض احمد ،فرائڈ سے بیزار نظر آتے ہیں لیکن اگر اُن کی تنقید کا مجموعی جائزہ لیا
جائے تو انھوں نے اپنی تنقید مینفرائڈ سے مکمل کنارہ کشی بھی نہیں کی۔ کئی جگہوں پر یوں
محسوس ہوتا ہے کہ وہ فرائڈ کی طرف مائل بھی ہوتے ہیں اور اس سے گریز کا خواہش مند بھی ہے۔
ان کی ابتدائی تحریروں میں فرائڈ کے نظریات کے اثرات زیادہ تھے مگر انھوں نے خود کو فرائڈ تک
ہی محدود نہ رکھ ا کیونکہ ان کی بعد کی تحریریں فرائڈ کے اثرات سے آزاد ہوتی نظر آتی ہیں۔ انھوں
نے اس توقع پر فرائڈ کے ساتھ ساتھ ایڈلر اور ژونگ کے تصورات کی وضاحت کی کہ اس سے کم
از کم ان تینوں ماہرین کے اختالف کا تو احساس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر ،ریاض احمد کے تنقیدی
نظریات کے بارے میں لکھتے ہیں:
''گو بعض اوقات ریاض احمد فرائڈ سے بے زار نظر آتا ہے ،لیکن اپنی تنقید میں کلیتا ً اس سے
کنارہ کشی بھی نہ کی جا سکی۔ وہ اس کی طرف رجوع بھی کرتا ہے اور اس سے گریز کا خواہاں
بھی ہے۔ اس نفسیاتی الجھن کی وجہ سے بعض اوقات اس کی تنقید اُس قطعیت سے محروم نظر آتی
ہے جسے ہر نوع کی تنقید کا وصف سمجھا جاتا ہے۔''((١١١
جہاں تک ریاض احمد کے حلقہ اثر کی بات ہے تو ان کی تنقید کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی
ہے کہ انھوں نے اپنے ابتدائی تنقیدی مضامین میں فرائڈ کے نقطہ نظر سے بات کی ہے ،پھر آہستہ
آہستہ وہ فرائڈ کے حلقہ اثر سے باہر ہو گئے اسی لیے ریاض احمد خود لکھتے ہیں کہ ''ہمارے ہاں
ابھی فرائڈ سے آشنائی پیدا ہوئی ہے حاالنکہ ایڈلر اور بالخصوص ژونگ اس ضمن میں ہماری زیادہ
رہبری کر سکتے ہیں۔'' اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاض احمد اپنے تنقیدی نظریات میں
س یدھے ژونگ تک نہیں جا پہنچے بل کہ قدم بہ قدم اور منزل بہ منزل۔ اگرچہ انھوں نے اپنی تنقید کا
آغاز فرائڈ سے کیا مگر انتہا اس پر نہ ہوئی اسی لیے وہ باآلخر اس نتیجے پر پہنچے کہ:
''ہمیں تنقید میں جس حد تک ژونگ سے مدد مل سکتی ہے ،وہ شاید کسی اور سے نہیں۔''
ریاض احمد نے جس تنقیدی فضا میں قلم اٹھایا ،وہ تنقید تاثراتی اور تعریفی ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنی
ب ذوق (١٩٩٢ئ) سے کیا۔ جب انھوں نے اپنا پہال مضمون عورت مشرق و تنقید کا آغاز حلقہ اربا ِ
ب ذوق میں تازہ خون کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ مغرب میں پڑھا۔ ریاض احمد کے آنے سے حلقہ اربا ِ
انھوں نے نئے تجربوں خاص طور پر نظم کا جمالیاتی اور نفسیاتی تجزیہ کرنے کی روایت کو
استحکام بخشا۔ اردو میں تنقید کا یہ مزاج میراجی کے ہاتھوں پروان چڑھا اور ریاض احمد نے اسے
بلوغت سے آشنا کیا۔ ریاض احمد کی تنقیدی بصیرت کے متعلق ڈاکٹر سجاد باقر رضوی رقم طراز
ہیں:
'' معروضی نقطہ نظر ،متوازن آرائ ،جانچ پرکھ میں اعتدال ،ریاض احمد کی تنقید کی اہم
اعلی قدروں کے ٰ خصوصیات ہیں۔ قدیم اور جدید کے تعصبات سے باالتر رہتے ہوئے وہ شعر کی
متالشی نظر آتے ہیں۔ وہ کالسیکی دور کی غزلوں کے بھی اتنے ہی مداح ہیں جتنے ن۔م راشد کی
نظموں کے مزاج کے اسی توازن کے باعث ان کی آراء نہایت سنجیدہ اور ان کے محاکمہ قاب ِل قدر
ہیں۔ وہ نہ تو دور کی کوڑی التے ہیں اور نہ شدید آراء سے چونکانے کی فکر کرتے ہیں اور یہی
باتیں انہیں دیگر نقادوں سے ممیز کرتی ہیں۔''((١١٢
ریاض احمد کی تنقید کے دو بنیادی نقطہ ہائے نظر ہیں۔ جمالیاتی اور نفسیاتی۔ اس بات کی
توضیح یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ ریاض احمد کی تنقید کا بنیادی نقطہ جمالیاتی ہے جس کی تفہیم
کے لیے وہ نفسیاتی بصیرت کو بروئے کار التے ہیں۔ انھوں نے ادب اور نفسیات کے تعلق اور ادبی
اظہار میں نفسیاتی عوامل کی کارفرمائی سے متعلق بہت سے مضامین لکھے جو ان کی چار تنقیدی
کتابوں کے عالوہ مختلف ادبی رسائل مینچھپتے رہے۔ انھوں نے میر ،غالب اور اقبال کی شاعری کا
نفسیاتی محرک اور فنّی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ بہت سے جدید اردو شعراء جیسا کہ میرا جی ،قیوم
نظر ،ن۔م راشد ،مخمور جالندھری ،فیض احمد فیض کی شاعری کا بھی نفسیاتی و جمالیاتی تجزیہ کیا۔
اس سے انداز ہوتاہے کہ ریاض احمد جدید شعری تنقید کا ایک اہم نام ہے۔ تنقید کے نفسیاتی
کاشماراولین معماروں میں ہوتاہے۔ ان کے تنقیدی نظریات ایک مربوط نظریاتی سطح
ّ دبستان میں ان
کے ہیں کیوں کہ انھوں نے زیادہ تر عملی تنقید کی۔ اس کے اثرات صرف جدید اردو تنقید پر ہی
مرتب نہیں ہوئے بل کہ ان کی تنقید کے اثرات جدید اردو نظم پر بھی بہت گہرے ہیں۔
حوالہ جات
حنیف فوق ،ڈاکٹر ،مضمون تنقید ایک تخلیقی عمل مشمولہ ادب لطیف ،الہور ،مارچ ١٩٦٠ئ، ١۔
ص ٥٥
آل احمد سرور ،تنقید کیا ہے ،دہلی ،مطبوعہ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ١٩٥٢ ،ئ ،ص ١٩ ٣۔
سلیم اختر ،ڈاکٹر ،تنقیدی دبستان ،الہور ،سنگ میل پبلی کیشنز١٩٩٧ ،ئ ،ص ٢٥ ٤۔
کشور ناہید (مترجم) باقی ماندہ خواب ،الہور ،سنگ میل پبلی کیشنز١٩٨١ ،ئ ،ص ٢٨ ٧۔
١٠۔ احسن فاروقی ،ڈاکٹر ،مضمون تنقید و تنقید نگاری ،مطبوعہ ''نئی نسلیں'' کراچی ،اکتوبر
١٩٧٨ئ ،ص ١٩
مجنوں گورکھپوری ،تاریخ جمالیات ،کراچی ،مکتبہ عزم و عمل١٩٦٦ ،ئ ،ص ١٠ ،٩ ١٤۔
سید عابد علی عابد ،انتقاد ،الہور ،ادارہ فروغ اردو١٩٥٩ ،ئ ،ص ٢٠۔١٦ ١٥۔
سید عابد علی عابد ،اصول انتقا ِد ادبیات ،الہور ،سنگ میل پبلی کیشنز٢٠٠٦ ،ئ ،ص١٣٨ ١٦۔
عبادت بریلوی ،ڈاکٹر ،اردو تنقید کا ارتقائ ،کراچی ،انجمن ترقی اردو١٩٥١ ،ئ ،ص ٣٦٨ ١٧۔
کلیم الدین احمد ،اردو تنقید پر ایک نظر ،الہور ،عشرت پبلشنگ ہاؤس١٩٦٥ ،ئ ،ص ٣٥٤ ١٨۔
محمد حسن عسکری ،اردو ادب میں رومانوی تحریک ،الہور ،شیخ محمد شبیر ،س ن ،ص ٢١۔
١٥۔١٦
٢٢۔ انور سدید ،ڈاکٹر ،اردو ادب کی تحریکیں ،کراچی ،انجمن ترقی اردو پاکستان ،اشاعت چہارم،
١٩٩٩ئ ،ص ٨٩
٢٣۔ شارب ردولوی ،پروفیسر ،آزادی کے بعد دہلی میناردو تنقید ،دہلی،اردو اکادمی ،طبع سوم،
٢٠٠٣ئ،ص٩٦
گوپی چند نارنگ ،ڈاکٹر ،ادبی تنقید اور اسلوبیات ،دہلی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس١٩٨٩ ،ئ، ٢٤۔
ص ١٣
٢٥۔ مرزا خلیل بیگ ،ڈاکٹر ،زبان ،اسلوب اور اسلوبیات ،علی گڑھ ،ادارہ زبان واسلوب١٩٨٣ ،ئ،
ص ٤٦٥
گوپی چند نارنگ ،ڈاکٹر ،ادبی تنقید اور اسلوبیات ،ص ١٩ ٢٦۔
Jung, Modren Man in Search of a Soul, London. Kegan paul, Trench ٢٧۔
Trubner and Co. 1943, P.110
٣١۔ شمیمہ طارق،ڈاکٹر ،ترقی پسند تنقید کا ارتقا اور احتشام حسین ،کراچی ،اردو اکیڈمی ،سندھ،
١٩٨٧ئ ،ص ٢٢٤
کلیم الدین احمد ،میری تنقید ،پٹنہ ،خدا بخش اورئنٹل الئبریری١٩٧٨ ،ئ ،ص ١٩ ٣٢۔
احسن اختر ،ڈاکٹر ،تنقیدی اور تحقیقی جائزے ،الہور ،سنگ میل پبلی کیشنز١٩٨٣ ،ئ ،ص ٣٣۔
٢٢٠
طبع، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، اسالم آباد، مغرب کے تنقیدی اصول، ڈاکٹر،۔ سجاد رضوی٣٤
١٩ ص،ئ٢٠١١ ،ہفتم
١٧ ص،١٠ شمارہ،ئ١٩٤٩ جنوری، الہور، رسالہ نفسیات تحلی ِل نفسی نمبر،عبدالحئی ۔٣٦
…do…, p.378 ٣٨
…do…, p.384 ٣٩
…do…, p.415. ٤٣
do , p.82. ٥١
do , p.95. ٥٢
…do … p.195. ٥٧
…do … p.201. ٥٨
…do … p.148. ٥٩
…do … p.157. ٦٠
، ادارہ تصنیف، علی گڑھ، مرزا رسوا کے تنقیدی مراسالت:)۔ محمد حسن ڈاکٹر (مرتب٦١
٤١ ص،ئ١٩٦١
٧ ص،ًایضا ۔٦٢
) ص (الف،ًایضا ۔٦٤
٣٩ ص، س۔ن، ناشر سید اشرف حیدر آبادی، حیدر آباد، افادات سلیم،وحید الدین سلیم ۔٦٥
ص الف،س۔ن،مکتبہ جامعہ
ٔ ، دہلی، باقیات بجنوری،رشید احمد صدیقی ۔٦٦
٣٠ ص،ًایضا ۔٦٨
مرزا محمد سعید ،الہور ،ماہنامہ ہمایوں ،مارچ ١٩٢٢ئ ،ص ٧ ٦٩۔
ایضا ً ٧٠۔
مرزا محمد سعید ،الہور ،ماہنامہ ہمایوں ،جنوری ١٩٢٣ئ ،ص ٢١ ٧١۔
ایضا ً ٧٢۔
ایضا ً ٧٣۔
ایضاً،ص٣١ ٧٦۔
ایضاً،ص١٢ ٧٩۔
ایضاً،ص٣٢ ٨١۔
ایضاً،ص٣٨ ٨٢۔
٨٤۔ انورسدید،ڈاکٹر ،اردو ادب کی تحریکیں ،الہور انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی،
١٩٨٣ئ،ص٥٥٩
٨٥۔ محمد حسن عسکری ،مضمون ،میراجی ،مشمولہ ،میراجی ایک مطالعہ،مرتب:ڈاکٹر جمیل
جالبی ،سنگ میل پبلی کیشنز،الہور١٩٩٠ ،ئ،ص٧٩
اختر اورینوی ،تنقید جدید ،پٹنہ :شاد بک ڈپو ،س ن ،ص ١٦٥ ٨٩۔
اختر اورینوی ،کسوٹی ،پٹنہ :مکتبہ خیال پبلشرز ،س ن ،ص ٥٣ ٩٠۔
اختر اورینوی ،قدر و نظر ،لکھنؤ ،ادارہ فروغ اردو١٩٥٥ ،ئ ،ص ١٤٩ ٩٢۔
وجیہ الدین ،مضمون جنسی فساد اور احتساب ،ادبی دنیا ،الہور ،نومبر ١٩٤٩ئ،ص١٤ ٩٤۔
٩٥۔ شمشاد عثمانی ،مضمون اردو شاعری کا نفسیاتی پس منظر ،ماہنامہ ''نفسیات'' تحلیل نفسی
نمبر ،الہور ،جنوری ١٩٤٩ئ،ص٥٩
ریاض احمد ،تنقیدی مسائل ،مضمون ''ادب اور جمالیات'' ،ص ٨٥ ٩٨۔
ریاض احمد ،مضمون جدید شاعری کی چند خصوصیات ،مشمولہ ''ادبی دنیا'' الہور ،ص ١٢ ٩٩۔
١٠٠۔ ریاض احمد ،ریاضتیں مضمون اردو شاعری میں جنسیات ،الہور ،سنگ میل پبلشرز،
١٩٨٦ئ ،ص ١٥٨۔١٥٩
١٠١۔ ریاض احمد ،ریاضتیں ،مضمون اردو تنقید کا نفسیاتی دبستان ،ص ٢٤
١٠٢۔ ریاض احمد ،مضمون لکھت اور لکھاری ،مشمولہ ماہنامہ ''صریر'' کراچی ،اگست ٢٠٠٣ئ،
ص ١٤
ریاض احمد ،مضمون عالمتی اظہار مشمولہ ''اوراق'' ،شمارہ خاص ١٩٦٦ئ ،ص ٧٤ ١٠٣۔
١٠٤۔ ریاض احمد ،قیوم نظر :ایک تنقیدی مطالعہ ،ص ١٢
١٠٥۔ ریاض احمد ،تصدیق مضمون جمالیاتی تنقید ،الہور ،پولیمر پبلی کیشنز١٩٩٤ ،ئ ،ص ٩٠
١٠٦۔ ریاض احمد ،ریاضتیں مضمون اردو شاعری کی بعض خصوصیات ،الہور ،سنگ میل پبلی
کیشنز١٩٨٦ ،ئ ،ص ٦٠
١٠٧۔ ریاض احمد ،مضمون تین نظمیں مشمولہ ادبی دنیا ،الہور ،دسمبر ١٩٤٤ئ ،ص ٤٨
١٠٨۔ ریاض احمد ،مضمون جدید شاعری کی چند خصوصیات مشمولہ ادبی دنیا ،الہور ،جون
١٩٤٣ئ ،ص ٢٦
١٠٩۔ ایضاً،ص٣٠
١١٠۔ وزیر آغا ،ڈاکٹر ،تنقید اور جدید اردو تنقید ،کراچی ،انجمن ترقی اردو پاکستان ،س ن ،ص
٢١٧
١١٢۔ سجاد باقر رضوی ،ڈاکٹر ،دریاب ،پیش لفظ ،الہور ،پولیمر پبلی کیشنز١٩٨٦ ،ئ ،ص ٩
باب سوم:
ریاض احمد کی تنقید نگاری کے اختصاصی پہلو
اردو شاعری کی روایت اور جدید نظم کی اقسام ١۔
لفظ ومعانی اور عالمت کاتعلق ٢۔
علم معانی و بیان
ِ ٣۔
اردو ہندی اور پنجابی بحروں کاتقابل ٤۔
رباعی کافن ٥۔
اردو تنقید کاپس منظر ٦۔
اعال ناول نگاری کے لوازمات ٧۔
جمال اورذوق جمال ٨۔
وقت کاتصور ٩۔
ادب اور صحافت ١٠۔
ادبی روایات کسی معاشرے یا تہذیب کی مخصوص ذہنی افتاد ،اُس کے اُسلو ِ
ب
احساس اقدار اور مجموعی جذباتی ر ِدّعمل سے عبارت ہوتی ہیں۔ اردو کی سب سے
ِ فکر،
بہترین صنف غزل ہے۔ ریاض احمد ،اقبال کے الفاظ میں لکھتے ہیں کہ عجم کے بہترین
حکیمانہ خیاالت کا اظہار غزل ہی کے منفرد اشعار کی صورت میں ہوا ہے۔'' تقریبا ً ایک
مروج و مقبول رہی لیکن پھر ایک ایسا دور بھی آیا کہ
ہزار سال تک غزل اردو ادب میں ّ
جب غزل نظم کے مقابلے میں ذرا دب گئی۔ ریاض احمد کے نزدیک غزل کی وقتی تنزلی
کے اسباب مغربی علوم و فنون سے شناسائی کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی تھے۔
ق ایشاں '' سمجھا جاتا رہا مگر وقت
''ذکر زنان و ذکر ِ عش ِ
ِ غزل کو ابتدا سے
گزرنے کے ساتھ ساتھ غزل میں بہت سے موضوع اور مضامین ایسے داخل ہو گئے جو
فکر و احساس کی کسی خاص حقیقت کے باعث نہ صرف حسن و عشق سے متعلق تھے
بل کہ اس میں کائنات کے اسرار و رموز بھی پوشیدہ تھے۔ موضوع سے ہٹ کر غزل کا
ایک مخصوص لہجہ بھی ہے ِجسے کسی نے بذلہ سنجی یا نکتہ آفرینی قرار دیا تو کسی
نے غزل کے لہجے کو ابہام اور رمز و کنایہ میں مضمر کہا۔ ریاض احمد غزل میں بیان
تصوف ،عشق ،جذبات اور زبان و بیان کے ّ کیے جانے والے مختلف فکری سطحوں
مختلف ادوار کے بارے میں رقم طراز ہیں:
'' غزل ہمیشہ ایک ہی رنگ میں نہیں کہی جاتی رہی۔ داخلیت و خارجیت ،سطحیت،
معنویت اور لفظ پرستی مختلف ادوار میں غزل کو کبھی بلندی کی طرف اور کبھی پستی
کی طرف دھکیلتے رہے۔ ایہام گوئی اور تازہ گوئی کی روایت کا خیال کیجیے۔ ایک شعر
کہنے کے لیے ذہن کو کیا کچھ ک رنا پڑتا ہو گا۔ سوچ بچار تو بہرحال موجود تھی۔ سوچ
بچار کے زاویے بدلتے رہے۔''((٢٩
اب یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ غزل میں سوچ بچار کے زاویے کیوں کر بدلتے
رہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اس میں خیال و فکر اور سوچ بچار کے مقابلے میں احساس اور
جذبات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک خاص فکری ر ِدّعمل بھی غزل
میں جذباتی ر ِدّعمل نظر آنے لگتا ہے۔ غزل کے جذباتی ر ِدّعمل کی ریاض احمد بڑے
اچھے انداز میں وضاحت دیتے ہیں:
'' خدا کی وحدانیت کا عقلی تصور ،جب جذباتی وفاداری کا تقاضا کرتا ہے ،تو بات
ہمہ اوست یا ہمہ از اوست تک پہنچ کر ہی نہیں ُرک جاتی بل کہ انالحق کی سرحدوں کو
جا چھوتی ہے۔ مختصر یوں کہ غزل میں نظریہ منطق کا سہارا لے کر پیش نہیں کیا جاتا،
بل کہ ایک جذباتی ر ِدّعمل کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔''((٣٠
مغربی علوم اور فکر و نظر نے اردو ادب کو بھی متاثر کیا۔ مغربی علوم و فنون کے
مطالعہ نے اردو غزل میں فلسفہ اور منطق کا اضافہ کیا۔ اردو میں جدید غزل کا بانی
غالب کو کہا جا سکتا ہے جس نے اردو روایتی غزل سے ہٹ کر مضمون باندھے۔ ریاض
احمد غالب کو فلسفی شاعر کا نام دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اقبال کو بڑا فلسفی شاعر
مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقبال کی غزل اپنی مثال آپ تھی۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت اس
بات میں مضمر ہے کہ انھوں نے غزل کو ایک نئی معنوی وسعت دی مگر غزل کے
لہجے کو نہ بدال۔ ریاض احمد کے نزدیک یہ ایک اچھااقدام تھا کیوں کہ لہجہ کی تبدیلی
سے غزل ،غزل نہیں رہتی۔
مغربی علوم و فنون کے مطالعہ نے اور ملک کے سیاسی حاالت نے ادب خاص
کر شاعری کو نئی راہیں دکھائیں۔ جدید تہذیب کے مادی تصورات نے ذہن کو عشق و
عاشقی ،تصوف اور مذہب کے احساسات سے کسی حد تک آزاد کر دیا۔ اس سیاسی
ماحول نے شعر و ادب کو بحیثیت مجموعی متاثر کیا۔ یہ تحلیلی طریقہ کار بظاہر غزل
کی روایت کے خالف تھا مگر اردو شعرا نے اسے قبول کیا اور کئی ایک اردو غزل
گوشعرا نے سیاسی حاالت پر غزلیں لکھیں۔ اس ضمن میں ریاض احمد ،اقبال کو سب
سے بڑا غزل گو شاعر مانتے ہیں جس نے روایتی ہیئت ،استعارے اور کنایوں میں
سیاسی حاالت کی عکاسی کی۔ اسی طرح وہ فراق کی شاعری کو بھی قدر کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں جس نے حسن و عشق کی دنیا سے نکل کر اپنی غزل میں مذہبی فلسفہ اور
خالص سیاسی اقدار کے عالوہ زندگی کے کئی ایک مسائل کو بیان کیا۔ فراق کے مادی
اقدار کے احساس نے جدید غزل گوؤں کو روایتی عشق کی حدود کو توڑنے کی جرأت
دالئی۔
غزل میں روایت سے ہٹ کر نئی بات کہنے کے انداز نے غزل میں مخصوص
جذباتی کیفیت کے تحت زندگی کے مختلف روپ کو ایک ہی غزل کے دامن میں سمو دیا
ہے۔ ایسے میں شعرا نے غزل کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے لمبی ردیف کا
سہارا لیا۔ جہاں تک غزل میں تسلسل کا ذکر ہے تو ریاض احمد غزل میں تسلسل کو
سرے سے مانتے نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا غزل کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے
لمبی ردیف کا سہارا لینا غزل کا تسلسل ہے؟… ایک ہی کیفیت کے مختلف اجزائے
ترکیبی کو ایک غزل میں بیان کر دینا بھی ان کے نزدیک تسلسل کی شرط کو پورا نہیں
کر سک تا۔ ان کے نزدیک ''شعر میں تسلسل دراصل نام ہے۔ ایک ایسی ارتقائی کیفیت کے
مقام عروج تک ہماری راہبری کر نقطہ آغاز سے اس کے ِ ٔ اشتہاد کا ،جو ایک تصور کے
سکے''۔( )٣١اسی لیے ریاض احمد کا یہ مؤقف درست معلوم ہوتا ہے کہ جدید نظم میں تو
تسلسل ہو سکتا ہے لیکن غزل میں نہیں کیوں کہ غزل میں ربط و تسلسل کو سمجھنے
کے لیے دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک خارجی آہنگ اور دوسرا داخلی آہنگ۔ ان دونوں کا تعلق
مضمون یامعنی کی بجائے آہنگ سے ہے۔ خارجی آہنگ غزل کی زمین سے متعین ہوتا
ہے جب کہ داخلی آہنگ اس کیفیت کا آئینہ دار ہوتا ہے جو ہنگامی بنیادوں پر شاعرانہ
تجزیے کے دوران میں شاعر پر طاری ہوتی ہے۔
داخلی اور خارجی آہنگ مل کر ایک ہی عروضی وزن میں مختلف غنائی کیفیتوں
کو ظاہر کرتے ہیں اور پھر ان میں ایک تیسری چیز یعنی قافیہ ردیف بھی شامل ہو جاتے
ہیں۔ اس سے پتا چلتاہے کہ ردیف اور قافیہ ایک بے معنی چیز نہینبل کہ یہ ہیئت یا
استھائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ریاض احمد کے نزدیک غزل کے ردیف قافیہ اور
عروضی وزن دراصل جذباتی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور یہی وہ نقطہ آغاز ہے
جو اُن کے مطابق غزل کے داخلی ربط و نظم کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی اصول کی
وضاحت سید عابد علی عابد نے اپنے مضمون ''حروف تہجی کی غنائی اہمیت'' میں
کرتے ہیں۔ ریاض احمد غزل میں قافیہ کی تکرار اور اس کے آہنگ کا جدید غزل اور
قدیم غزل سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' قدیم غزل کا آہنگ قوالی کے غنائی آہنگ کے مماثل ہے۔ ردیف و قافیہ اس ٹکڑے
کی مانند ہیں جن کی ہر دور کے بعد مل کر تکرار کی جاتی ہے… جدید غزل کے دو
مصرعوں میں وہ تقابل اور بھنبھناتی ہوئی تھاپ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ جدید غزل میں
دوسرے مصرع کو وہ معنوی اور غنائی اہمیت اب حاصل نہیں رہی جو پہلے تھی۔''((٣٢
زمین غزل کے معاملے
ِ مندرجہ باال اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں
میں حد سے تجاوز نہیں کیا جاتا۔ ماضی کی لمبی ردیفوں کی بجائے چھوٹی ردیفیں
استعمال کی جاتی ہیں۔ ریاض احمد کے نزدیک ماضی میں جو کام پہلے زمین دیتی تھی،
موجودہ دور میں زمین کی بجائے آہنگ کی معنوی کیفیت پر زور دیا جانے لگا ہے۔
ریاض احمدنے غزل کے موضوع ،اُسلوب اور ہیئت کا جس انداز میں عہد بہ عہد
جائزہ لیا ہے۔ اُس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدید دور میں غزل آہستہ آہستہ آزاد
تسلسل اور آزاد تالزمات کی بجائے زیادہ واضح احساس یا مزاج کو پیش کرنے لگی ہے۔
ان کے اس مضمون سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدید نظم غزل کی حریف نہیں ہے
بل کہ اس نے غزل میں نئے اسلوب اور نئے انداز کی ترویج میں مدد دی ہے۔ غزل کے
متعلق اس مضمون سے ریاض احمد پر لگا یہ دھبہ بھی دھل جاتا ہے کہ انھیں جدید نظم
کے عالوہ ادب کی کسی اور شکل سے خاص مانوسیت نہیں ہے۔
معر ٰی کی ترویج
نظم ّ
اردو میں ِ ٭
اردو شاعری میں قصیدہ ،غزل ،قطعہ ،مثنوی ،مثلث ،رباعی ،مسدّس اور ترجیع
متنوع موضوعات اور مسائل پر بہتبند جیسی صنفیں موجود ہیں جن میں زندگی کے ّ
اعال پائے کی شاعری کی گئی۔ المیہ ،طربیہ اور رزمیہ غرض ہر طرح کے احساسات پر
لکھا گیا۔ فطرت کے مناظر ہوں یا معاشرت کے مظاہر ،یا پھر تاریخ و سیاست کے
واقعات ،غرض کوئی موضوع ایسا نہیں جس پر اردو شعرا نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ ان
تخلیقات میں ّ
تغزل بھی ہے اور تنظیم بھی۔ اردو شاعری کے آغاز کو م ِدّنظر رکھیں تو
معلوم ہو گا کہ قافیہ و ردیف کی صوتی ہم آہنگی شعر کے ُحسن میں اضافہ کرنے کے
ساتھ داخلی طور پر منتشر خیاالت کو ایک جگہ اکٹھا بھی کرتی ہے۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کالسیکی شعرا کے ہاں غزلیں مضامین کے اعتبار
سے متفرق ہوتی تھیں مگر ان کی غزلیں کیفیت کے لحاظ سے یکساں ہوتی تھیں۔ یہی
وجہ ہے کہ احساسات اور تخیالت غزل سے مس ہوتے ہی ایک عمومی اور اجتماعی
کیفیت میں ڈھل جاتے ہیں۔ اس کے برعکس نظم میں احساسات اور تخیالت اپنی پوری
انفرادیت کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ نظم کے ضمن میں یہ بات قاب ِل غور ہے کہ بہ حیثیت
مجموعی نظم کو ''مغرب'' میں فروغ حاصل ہوا جب کہ غزل سراسر ''مشرق'' کی پیداوار
انداز فکر
ِ ہے۔ ریاض احمد نظم کو مغربی تقلید کا نتیجہ سمجھنے کی بجائے نظم کو اُس
کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو مغربی تعلیم نے ہمیں سکھایا۔ اس ضمن میں ریاض احمد کا
موقف ہے:
'' فی زمانہ شاعر کا نصب العین اپنے محسوسات اور نظریات کو ایک خاص
مرکزی کیفیت کے ڈھب پر النا نہیں،بل کہ ان کے مختلف ارتقائی مدارج کا اظہار ہے ۔
انداز فکر اب یہ نہیں کہ ایک مرکز مقرر کر کے اس کے اردگرد رقص کیا ِ اس کا
جائے ،بل کہ اس کے برعکس اب وہ ایک خاص مقام سے شروع ہو کر آگے ہی آگے
ب اظہار کے مخالف ہیں بڑھتا جاتا ہے ،چنانچہ اب قافیہ وردیف نہ صرف اس کے اسلو ِ
بل کہ اس کے اُسلوب فکر سے بھی ہم آہنگ نہیں۔ قدیم شعرا دقیق مضامین کو ایک شعر
میں بند کر دیتے تھے اور قافیہ و ردیف گویا اس پر ایک مہر ہوا کرتی تھی۔ جدید شعرا
چھوٹے چھوٹے مضامین کو پھیال کر ایک پوری نظم تخلیق کر سکتے ہیں اور اسی لیے
یہاں قافیہ و ردیف ان کے ہر طرف پھیلے ہوئے فکر پر ایک ناگوار قسم کی پابندی
محسوس ہوتی ہے۔''()٤١
مندرجہ باال اقتباس جدید نظم کے متعلق اس نظریے کی نفی کرتا ہے جس میں یہ
کہا جاتا ہے کہ آزاد نظم یا آزاد شاعری مانگے کا اجاال یا پھر مغربی تقلید کا نتیجہ ہے
مذکورہ باال اقتباس یہ ظاہر بھی کرتی ہے کہ جدید نظم وقت کا تقاضا تھا کیوں کہ قدیم
شاعری میں بعض اوقات شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے ،وہ ایک ہی مصرع میں کہہ دیتا۔
لیکن پھر نظم یا غزل کی ہیئت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے دوسرا مصرع الزمی
کہنا پڑتا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ شاعر دوسرے مصرعے میں وزن کو پورا کرنے
کے لیے اسی مضمون کے الفاظ بدل کر شعر مکمل کرتا ،اسی لیے ریاض احمد جدید
اسلوب نظم کے رواج کو شاعر کے نفسیاتی اور ذہنی حالت کے تغیّر کا نتیجہ قرار دیتے
ہیں جس میں شاعر قافیہ و ردیف کی بے جا پابندیوں سے آزاد ہو کراپنا نقطہ نظر پیش
کرتا ہے۔ جہاں تک نظم کی ہیئت اور صوتی مناسبت کا تعلق ہے ،خاص طور پر نظم آزاد
میں ارکان کے تغیّر و تبدل پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ نظم میں مختلف ٹکڑوں کو
محض مضمون کی وحدت کے وسیلے سے اکٹھا کر کے ان سے ایک مجموعی تاثر پیدا
کرنا بہت مشکل تھا لیکن قافیہ کے اُڑ جانے سے یہ قید باقی نہ رہی ،اسی لیے نظم میں
اگر کوئی داخلی تقسیم باقی رہ جاتی ہے ،تو وہ محض مضمون سے متعلق ہوتی ہے جس
معر ٰی میں ،جب کہ مصرعوں میں نظم ّسے نظم کے تاثر میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور ِ
ب ضرورت قطع و برید کی اجازت ہو تو یہ کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ بھی حس ِ
تصور مغربی شاعری نے ہمیں دیا ،اس
ّ ریاض احمد کا خیال ہے کہ نظم کا جو
کے لیے ضروری تھا کہ ہم ہیئت کی بے جا پابندیوں کو قدرے نرم کر دیں تاکہ اردو نظم
معنوی لحاظ سے مغربی نظم کے معیار کے قریب تر ہو سکے۔ جدید اردو نظم نے محض
قافیہ و ردیف کو ہی نہیں چھوڑا بل کہ اردو شعرا نے عروض کے دیگر قوانین سے بھی
اختالف کیا۔ اس ضمن میں ریاض احمد،احمد مختار کی نظم ''رسوائی'' کی مثال پیش
کرتے ہیں جس میں ایک پابند نظم میں بھی مختلف بحریں استعمال کی گئی ہیں۔ اسی طرح
قیوم نظر کی نظم'' جوانی'' کی مثال دیتے ہیں جس میں ایک بحر کے ارکان میں قدرے
تصرف سے دو مختلف بحریں پیدا کی گئیں اور پھر پوری نظم ان بحروں میں مکمل کی۔
نظم میں قافیہ و ردیف کے حامی یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ قافیہ و ردیف شاعری
معری یا آزاد نظم میں چوں کہ
ٰ میں تر ّنم اور نغمگی کی فضا کو پیدا کرتا ہے اور ِ
نظم
قافیہ و ردیف سرے سے ہی موجود نہیں ہوتا اس لیے اس قسم کی شاعری گائی نہیں جا
سکتی۔ ریاض احمد اس اعتراض کو اساسی طور پر بودا تصور کرتے ہیں۔ نظم میں
موسیقیت یا تر ّنم کی وضاحت وہ کچھ یوں دیتے ہیں:
''فرض کر لیا گیا کہ شاعری کی ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ وہ گائی جا
سکے حاالنکہ ایسا خیال خود مح ِل نظر ہے۔ دنیاکی بہترین شاعری کبھی گائی نہیں گئی۔
صے میں صرف گیت اور غزل آئے۔ گیت ایک نازک اور لطیف کویتا سے سنگیت کے ح ّ
چیز ہے۔ اچھے گیت کے لیے جذباتی تاثر اور صوتی مناسبت ہی کافی ہیں لیکن اچھی
قسم کی شاعری ان چیزوں کے عالوہ تاثر کی گہرائی ،زندگی کے عام طور پر مسلمہ
روح انسانی کی الجھنیں اور ان کا حل وغیرہ ایسی بہت سی
ِ قدور کا عرفان و مطالعہ،
چیزیں ہیں ،جن سے ایک اضافی حیثیت میں وابستہ ہیں۔ ڈانئٹے ،ورجل ،ہومر ،شیکسپیئر،
موالنا روم ،غالب اور اقبال کا کالم محض حرف و صوت کا طلسم نہیں بل کہ اس میں
حقیقت کا بھی مخصوص انداز سے اظہار استشہا دپایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بات بھی
یاد رکھنی چاہیے کہ تر ّنم یا موسیقی محض اس چیز کا نام نہیں ،جو گویوں کا فن ہے۔
موسیقی کا احساس نظم کو تحت اللفظ پڑھنے میں بھی ہو سکتا ہے اور غالبا شعر و نظم
کے لیے یہی تحت اللفظ کافی ہے۔''((٤٢
جہاں تک شاعری میں نغمگی اور موسیقیت کی بات ہے تو یہ بات قاب ِل غور ہے
کہ اردو شاعری کی بحور فارسی اور عربی زبان و ادب سے لی گئیں فارسی اور عربی
زبان و ادب کے مقابلے میں ہندی بحور گائے جانے کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ اس ضمن
میں مولوی عظمت ہللا خان نے اپنی تمام تر شعری قوتیں ہندی بحور کو اردو شاعری میں
مروج کرنے پر صرف کیں۔ عظمت ہللا خان کا کہنا ہے کہ ہندی بحور میں گائے جانے ّ
معر ٰی کی تخلیق کا
نظم ّ
کی صالحیتیں زیادہ ہیں۔ ریاض احمد کے نزدیک آزاد نظم یا ِ
باعث بھی ہندی بحور رہی ہیں۔ اس ضمن میں وہ یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ''انگریزی
ری کی مخصوص بحر ) (iambic Pentameterاور ہندی عروض یا پنگل میں نظم معّ ٰ
میں اس کے مقابلے میں ماترک طریقے سے جو بحر پیدا کی گئی ،اس میں ارکان کی
ترتیب یہ ہو گی کہ شروع میں ایک لگھ آئے اور اس کے بعد ایک گرو ،اور اس کو پانچ
دفعہ دہرایا جائے۔'' ((٤٣
ہندی عروض ''لگھ'' اور ''گروہ'' کا اگر اردو میں جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں
عروض اردو زبان و ادب کے لیے اجنبی ہیں کیوں کہ اردو زبان و ادب کے عروض میں
ارکان کے مختلف اجزا ،سبب اور وتد سے مرکب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یک حرفی
متحرک آواز اردو میں کسی اساسی وقعت کی مالک نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس ہندی
میں ''وتد'' کا پتہ نہیں چلتا اور یک حرفی یا دو حرفی اجزاء کے مالنے سے مختلف
ارکان وجود میں آتے ہیں چناں چہ اس لحاظ سے اردو کا ''سبب'' ہندی عروض میں
''گروہ'' کے برابر سمجھا جاتا ہے وتد ایک مرکب رکن کے برابر ہوتا ہے ،جو ایک لگھ
اور ایک گروہ کے مالنے سے تخلیق ہوتا ہے۔
معری کا مخصوص وزن ٰ نظم
ریاض احمد ہندی عروض کو م ِدّنظر رکھتے ہوئے ِ
ف ،عل ،پانچ بار لکھتے ہیں اور وہ اردو عروض کی رو سے اسے مفاعلن ،مفاعلن ،فِعل
یا (مفعول) ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعر اس بات کا مجاز ہوتا ہے کہ وہ یک
حرفی یا دو حرفی اجزاء کی ترتیب بدل سکے۔ (اُردو عروض کی ُرو سے اس قسم کی
تبدیلی کو زحاف کا نام دیا جاتا ہے) اس ضمن میں ریاض احمدمختلف شعرا کے اشعار
کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
اگر قدیم اور جدید شاعری کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قدیم شاعری میں
مضمون کا ایک مصرعے سے بڑھ جانا اور دوسرے مصرعے تک جاری رہنا بہت بڑا
عیب سمجھا جاتا تھا کیوں کہ غزل کا اصول ہے کہ ایک مصرع ایک جامع و مانع وحدت
معری کے
ٰ کا حامل ہو جس میں پورا مضمون بیان کیا جا سکتا ہو۔ اس کے برعکس نظم
لیے یہ الزمی امر ہے کہ ایک ہی مضمون اور ایک جملہ یا فقرہ متعدد مصرعوں پر
مشتمل ہو اور اس طرح مصرعوں کو تقسیم کیا جائے کہ مصرع کی عروضی ساخت اس
کے تسلسل میں حائل نہ ہو مگر اس سلسلے میں کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ آزاد نظم میں
مصرعے لخت لخت ہو کر بکھر جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ شاعری کے ضروری
معری کو شعریت کے نام پر شاعری ٰ نظم و ضبط سے محروم ہو جاتے ہیں اور وہ نظم
کی آبرو ریزی تک کہتے ہیں مگر ریاض احمد نے ان سب اعتراضات کا بڑے مدلل انداز
معری کو اُس
ٰ معری کو مغربی تقلید کی بجائے نظم
ٰ میں جواب دیا ہے۔ انھوں نے نظم
انداز فکر کا شاخسانہ قرار دیاہے جو مغربی تعلیم نے اردو ادب کو دیا۔ اس کے ساتھ ِ
ساتھ وہ آزاد نظم کی بحور کو ہندی بحور سے منسلک قرار دیتے ہیں اور اس ضمن میں
معری کے مختلف ٰ انھوں نے ہندی بحور اور اوزان پر بڑی تفصیل سے بحث کی اور نظم
پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے کئی شعرا کے کالم سے مثالیں بھی پیش کیں۔
معری یا آزاد نظم اردو شعرا کے نفسیاتی اور ذہنی تغیر کاٰ ریاض احمد کے نزدیک نظم
نتیجہ ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزل گو کا انتخاب مخصوص الفاظ اور اوزان تک
محدود ہے۔ آزاد نظم کا لفظی دائرہ اور معنوی دائرہ بہت وسیع ہے۔ آزاد نظم کا شاعر
فکر کی پیچیدگیوں کو واضح بھی کرتا ہے اور بسااوقات پیچیدہ تر بھی کرتا ہے اسی لیے
یہ کہنا بے جا ہو گا کہ آزاد نظم کو شاعر اس لیے منتخب کرتا ہے کہ وہ سہل پسند ہے
معری نئے عہد کی اہم ضرورت ہے۔ ٰ اس کے برعکس حقیقت تو یہ ہے ،نظم
ق جمال
جمال اور ذو ِ ٨۔
فن کا مقصد خواہ کچھ ہی ہو ،ف ّنی تحریکات کا سرچشمہ معلومات فراہم کرنا ہو یا
کسی نظریے کا پرچار کرنا ،ایک قدر پر سب ادیب اور نقاد متفق ہیں وہ ُحسن ہے۔ ہر
ادیب یا شاعر اپنے فن پارے کو حسین بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ُحسن و
جمال کے معیار مختلف ادوار میں مختلف معاشروں اور مختلف زبانوں میں جدا جدا ہو
سکتے ہیں مگر کہیں بھی کسی بھی زبان و ادب میں فن کی تخلیق کے لیے ُحسن کی
اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا ،اسی لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اظہار کی ہر کوشش
ق ُحسن کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ بیک وقت تخلی ِ
جمالیاتی احساس کی اساس اور اس سے حاصل شدہ مسرت کے بارے میں ہر دور
کے فلسفی نے اپنے انداز سے بات کی ہے۔ افالطون سے لے کر کروچے تک ہر فلسفی
نے جمالیاتی قدر کا ایک مخصوص معیار تالش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس کی
بنیاد پر چیزوں کے حسن و قبح پر بات کی جا سکے۔ ایک طویل عرصہ تک فلسفہ جمال
اخالقیات کے اص ولوں میں دبا رہا۔ پھر بعد میں فن کا مطالعہ ایک آزاد اور مستقل انسانی
فعل کی حیثیت سے کیا گیا۔ افالطون اور ارسطو دونوں نے مابعد الطبیعیاتی نظریات کی
مدد سے جمالیات کی تہہ تک پہنچنے کی سعی کی۔ اسی لیے انھوں نے فن کو تیسرے
درجے کی نقالی کہا جس میں ازلی تصورات کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعد
احساس حقیقت روشن ہو
ِ میں فلسفہ اشراق نے فن کو ایسی نقالی کہا ،جس کی مدد سے
جاتا ہے۔ البتہ ہر دور کے فلسفیوں نے حسن کو خیر اعال سے مالنے کی کوشش کی اور
اس طرح فن کو اخالق کے تابع بنانا چاہا۔
مغرب میں سب سے پہلے تحلیل نفسی کے علمبرداروں نے فن اور فن کار کا
تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں مختلف فلسفیوں نے کم و بیش گیارہ مختلف
نظریات پیش کیے۔ ان مختلف نظریات میں باہم اتنا الجھاؤ ہے کہ ان میں سے ایک
مرکزی خیال اخذ کرنا ناممکن ہے مگر ان نظریات میں قاب ِل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں
حسن و لذت کا کوئی خارجی معیار قائم کرنے کی کوشش نہیں کی اس کے برعکس انھوں
احساس جمال اور فن کی نفسیاتی توضیح پیش کرنے کی کوشش کی۔ روجر فرائی پہال ِ نے
علم
شخص تھا جس نے تحلی ِل نفسی کے علمبرداروں کے جنسی نظریات کے خالف ِ
بغاوت بلند کیا۔
ریاض احمد روجر فرائی کے جمالیاتی احساس کی اساس اور اس سے حاصل شدہ
مسرت کے نظریات پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ روجرفرائی نے یہ کوشش کی کہ جمالیات
کو ایک علیحدہ آزاد شعبہ کے طور پر قائم کرے اور اسے نفسیات کے تابع نہ ہونے دے۔
ریاض احمد ،روجر فرائی کے نظریات سے دو نتائج اخذ کرتے ہیں:
ّاول :ذہنی سرگرمی خود ایک طرح کے احساس انبساط کی حامل ہوتی ہے۔
دوم :ہم فطری طور پر ہم آہنگی اور تنظیم کا ادراک کر کے مسرت محسوس کرتے ہیں۔
مگر ریاض احمد اس موقف کے حامل نہیں۔ ان کے نزدیک جذبے کی تحریک اور
اس کے عملی اظہار کے درمیان وقفے کے باعث جذبہ زیادہ شدید گہرا اور طویل ہو جاتا
ہے اور اس کا حاصل جمالیاتی احساس ہوتا ہے۔ جمالیاتی احساس کی یہ توضیح فرائڈ کے
احساس جمال کے بعد ُحسن کی تعریف
ِ نفسیاتی تصورات سے ہم آہنگ ہے۔ ریاض احمد
کرتے ہوئے اسی نکتے کو مزید پھیالتے ہیں۔ اُن کے نزدیک فن کار بیک وقت دو ذہنی
کیفیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ کیفیت جسے فن میں پیش کیا جاتا ہے اور
دوسری طرف ذہن کا تخلیقی فعل یعنی وہ فن کار کو ایک تماشائی بھی کہتے ہیں اور
تماشا بھی۔
ق
کسی بھی شاعر یا ادیب کے اسلوب کا جائزہ لیتے وقت ریاض احمد جمال اور ذو ِ
جمال کو بھی جذبات کے ساتھ منسلک کرتے ہیں ،ان کا خیال ہے کہ فن کار اپنے ف ّنی
تاثرات کے حصول کے لیے استدالل اور منطق کی قوتوں کو برانگیخت سے معطل کر
دیتا ہے جس سے یک گونہ آسودگی کا احساس ہوتا ہے اور جن ذرائع سے آسودگی اور
اطمینان نصیب ہوتا ہے ،وہی اقدار یا ذرائع حسن کے مظہر بن جاتے ہیں۔ اس ضمن میں
ریاض احمد مزید لکھتے ہیں:
تنوع بل کہ متضاد حیثیتوں کے حامل ہیں ''فنون اپنی اپنی حدود کے اندر بھی اتنے ّ
کہ انھیں ایک ہی جبلّت سے منسلک کرنا کچھ مشکل نظر آتا ہے یا پھر ہمیں اس قدر
مشترک کا سراغ لگانا پڑے گا جو ان تمام فنون میں یکساں طور پر موجود ہو اور جس
قدر مشترک حسن و جمال کی موجودگی بنیادی جبلی تقاضے کی آسودگی کا باعث ہو۔ یہ ِ
کے عالوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ ہیئت کے تنوع ،موضوع کی وسعت اور ذریعہ اظہار
کے اختالف کے باوصف ہر فن میں ایک صوری یا معروضی اور ایک داخلی یا
ق جمال ایک بنیادی جبلی تقاضے کا موضوعی حسن کا سراغ ضرور ملتا ہے ،گویا ذو ِ
نتیجہ ہے۔''()٦٤
اس طرح ریاض احمد یہ ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں کہ ُحسن کی حیثیت معروضی
نہیں ،موضوعی ہے۔ ان کے خیال میں ُحسن کے معروضی احساس کا شبہ ہمیں یوں ہوتا
ہے کہ جمالیاتی اثرات بالعموم حسی تاثرات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات تسلیم کر
بھی لی جائے کہ ہر فن انسانی سطح پر بھی ایک جبلی تقاضے کی آسودگی کا نام ہے تو
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں دوسرے حیوانات میں جبلّت اور جبلی عمل کے درمیان
ایک واضح تعلق استوار ہے تو انسان کے معاملے میں یہ رشتہ اتناظاہر اور واضح کیوں
نہیں۔ ریاض احمد تحلی ِل نفسی کی رو سے اس سوال کا یوں جواب دیتے ہیں:
'' انسانی معاشرے نے بعض پابندیاں ایسی عائد کر دی ہیں کہ جبلی تقاضوں کی
برا ِہ راست علی االعالن اور مخصوص پابندیوں کا احترام کیے بغیر آسودگی ممکن نہیں۔
بھوک کی تسلّی کے لیے بھی آپ کو تہذیب و شائستگی کے کئی مدارج طے کرنے پڑتے
ہینلیکن بھوک کی جبلّت پر یہ پابندیاں کسی نفسی تناؤ اور پھر اس تناؤ کی آسودگی کے
شعور ذات
ِ لیے کسی فن کی تخلیق نہ کر سکیں تو آخر یہ کیوں ہو کہ صرف جنس اور
جو برتری اور کمتری کے احساسات پیدا کرتا ہے ،تمام تر نفسیاتی الجھنوں کا باعث ہوں
اور تمام فنون انھیں ّ
جبلتوں کے در پردہ اظہار تک محدود رہ جائیں۔''()٦٥
فنون لطیفہ کا بنیادی
ِ اگر تحلی ِل نفسی کے اس تجزیے کو تسلیم کر لیا جائے کہ
فنون
ِ محرک جنسی جذبہ ہے اور جنس کے ساتھ جو لذت وابستہ ہے ،اس کو بیان کرنا
لطیفہ کی ذمہ داری ہے تو ُحسن کو اس کیفیت کا حامل کہا جا سکتا ہے جو اصل محرک
کی قائم مقام ہو اور ُحسن ان خوشگوار حسیات کو پیدا کر سکتا ہے جو جبلی عمل کے
دوران وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ گویا ریاض احمد یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آسودگی سے
ق جمال کے ساتھ ساتھ ایک مستقل سوز و گداز کی کیفیت بھی پیدا محرومی حسن اور ذو ِ
کر دیتی ہے اور اس طرح فن پارے میں کیف و سرور اور سوز و گداز کی کیفیات بیک
وقت وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔ محرومی کابیان شعر وادب کا مستقل موضوع ہے۔ اکثر
اوقات محرومی کے ساتھ ساتھ لذت کاپہلو بھی در آتاہے۔ ریاض احمد اس کی وجہ یہ
بتاتے ہیں کہ ہر جبلی عمل ایک ہیجان سے منسلک ہوتا ہے۔ تسکین اور آسودگی کے بعد
تعطل پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ تعطلجب ہیجان انگیز کیفیت ختم ہوتی ہے تو اعصاب میں ایک ّ
نفسیاتی اعتبار سے تھکن اور پژمردگی کی کیفیت پر ختم ہوتا ہے۔ حسن کی طلب کی
توضیح ریاض احمد یہ پیش کرتے ہیں:
'' حسن تو اس ترغیب اور تحریص کے خوشگوار تاثرات تک محدود ہے جو جبلی
عمل پر ابھارتے ہیں۔ جبلّی عمل کے بعد یہ تحریک از خود ختم ہو جاتی ہے اس لیے
حسن کا تاثر بھی ختم ہو جاتا ہے ،چناں چہ ادب میں یہ موضوع مستقل ملتا ہے کہ حسن
کے حصول کے مقابلے میں حسن کی طلب کو برتری حاصل ہے۔''()٦٦
مندرجہ باال اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمالیاتی احساس ایک خاص قسم کی
نفسیاتی رکاوٹ کے احساس کا نتیجہ ہوتا ہے جو ایک جذبہ یا احساس کی تحریک اور
اس کے فطری عملی اظہار کی راہ میں حائل ہو کر جذبے کے ہیجان کو مزید شدید اور
ت حال میں اظہار جذبہ کو ایک
طویل کر دیتی ہے۔ ریاض احمد کے نزدیک ایسی صور ِ
باقاعدہ اور مربوط شکل دے کر اسے ایک پائندگی بخش دیتا ہے۔ اس کے عالوہ وہ اظہار
کو جذبہ یا احساس کے پھیلنے اور سنبھال رکھنے میں بھی معاون سمجھتے ہیں۔ دراصل
زیر اثر
حسن ایک موضوعی کیفیت کا نام ہے ،یہی وجہ ہے کہ موضوعی حیثیت کے ِ
حسن کے خارجی اور مادی مظاہر ،آہنگ اور توازن بہت جلد مجرد تصورات کی دنیا میں
پہنچ جاتے ہیں۔
محرک:
ّ میر کی شاعری کا نفسیاتی
ریاض احمد کے نزدیک کسی بھی فن کار کے فن کو جو چیز ترغیب دیتی ہے ،وہ
ق ُحسن کا بے پناہ جذبہ ایک فن کار کی فن کی دنیا ق جمال اور تخلی ِ
ہے فن کار کا ذو ِ
خارجی دنیا سے الگ قائم بالذات ہوتی ہے او روہ دنیا کے ہنگاموں سے ہٹ کر بیابانوں
میں پناہ لینے کو ترجیح دیتا ہے یعنی تخلیق کا عمل ایک ابدی محرومی کا حامل ہوتا ہے
اور فن میں جن احساسات اور خواہشات کا اظہار ملتا ہے۔ فن کار عملی زندگی میں بھی
ان محرومیوں سے دوچار رہتا ہے۔ اس ضمن میں ریاض احمد کا موقف ہے:
'' فن کار خارجی دنیا سے جب اپنی شخصیت کو کسی طور ہم آہنگ نہیں کر پاتا تو
اپنی داخلی دنیا کی وادیوں میں چال جاتا ہے۔ یہاں نشاط و مسرت ایک مثبت حقیقت کے
طور پر اس کے سامنے نہیں آتے ،لیکن اسے ایک گونہ سکون ضرور مل جاتا ہے۔''()١
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سکون اور مسرت کی تالش انسان کو تنہا رہنے پر
مجبور کر دیتی ہے۔ بعض مذاہب میں تو دنیا کو تیاگ کر اور بھوک مٹا کر اعال و ارفع
مقام حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کہ اسالمی نکتہ نظر سے اس سے
متصادم ہے۔ اسالم میں زندگی گزارنے کا ایک متوازن طریقہ موجود ہے۔ اسالم نے
انس انی خودی اور خود اعتمادی کا تصور دیا۔ نفسیاتی نکتہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو
معلوم ہو گا کہ ہر جبلی خواہش اپنے ساتھ ایک لذت ،ایک کیفیت اور مسرت پیدا کرتی
ہے۔ مسرت کی یہ کیفیت محض خواہش کی تکمیل سے حاصل نہیں ہوتی بل کہ کسی
احساس لذت رکھتی ہے۔ اس لیے ریاضِ جذبے کی تڑپ بھی اپنے اندر ایک مخصوص
احساس محرومی یا دبا دبا احساس اُسے یک گونہ سکون دیتاِ احمد کا یہ کہنا کہ فن کار کا
ہے ،نفسیاتی نکتہ نظر سے درست ہے۔
ریاض احمد میر کی شاعری کا نفسیاتی محرک جاننے کے لیے اس کی ابتدائی
ذکرمیرکا سہارا لیتے ہیں۔ اُن
زندگی کے واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ ِ
کے مطابق میر کے حزنیہ شاعرانہ مزاج کے ذمہ دار اُن کے بچپن کے حاالت ہیں۔ وہ
میر کے غور و فکر کا بنیادی محرک اُس بے اطمینانی ،کرب اور نامساعد حاالت کو
ذکر میر میں میر صاحب اپنے قرار دیتے ہیں جن کا میر کو بچپن میں سامنا کرنا پڑا۔ ِ
خاندان کے تمام افراد کا ذکر کرتے ہیں ،سوائے اپنی ماں کے۔ ریاض احمد کے مطابق یہ
صورت حال میر کے جذبہ مادر پرستی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہاں پر وہ میر کا
تجزیہ فرائڈ کے نظریہ ایڈی پس کمپلیکس کے مطابق کرتے ہیں۔
نظریہ ایڈی پس کمپلیکس کے مطابق جب ایک جذبے کو بہت زیادہ دبا دیا جاتا ہے
تو وہ مخالف صورت میں نظر آتا ہے۔ ریاض احمد کے بقول میر اپنے والد سے نفرت
کے باوجود ان کی تعریف کرتے ہیں اور ماں سے گہری وابستگی کے باوجود انھیں
ذکر میر سے ایک نظرانداز کرتے ہیں اور اپنی سوانح میں ان کا تذکرہ تک نہیں کرتے۔ ِ
اور بھی بات سامنے آتی ہے کہ میر صاحب اپنے والد کی بجائے چچا میر امان ہللا سے
زیادہ قرب کا اظہار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عبدہللا اس بات پر متفق ہیں کہ میر کی ذہنی ہم
آہنگی اپنے والد کی نسبت چچا سے زیادہ ہے۔ اس سے ریاض احمد کا موقف درست تسلیم
ہوتا ہے جو وہ فرا ئڈ کے نظریہ ایڈی پس کمپلیکس کے نتیجے میں اخذ کرتے ہیں کہ میر
اپنے والد کی بجائے والدہ سے زیادہ قربت رکھتے تھے اسی لیے وہ اپنے چچا کو اپنے
باپ سے برتر تصور کرتے ہیں گویا باپ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔
دعوی
ٰ ریاض احمد میر کی ایک اور خصلت جذبہ خود رحمی اور ایذا طلبی کا بھی
کرتے ہیں کہ میر کی شاعری میں میر خود کو مظلوم اور دنیا کو ظالم تصور کرتے ہیں۔
احساس برتری ایک
ِ دوسرا ہر وقت وہ غیبی طاقت کے انتظار میں رہتے ہیں گویا ان میں
ناقاب ِل شکست احساس پیدا کرتی ہے۔ نفسیاتی نکتہ نظر سے اسے Bitalar disorder
تصور
ّ کی بیماری کانام دیا جاتا ہے جس میں مریض خود کو سب سے برتر اور مظلوم
کرتا ہے۔ اس کے نزدیک باقی تمام دنیا ایک ظلم کدہ ہے۔ ریاض احمد میر کی خود رحمی
اور ایذا طلبی کا موازنہ میرا جی سے بھی کرتے ہیں۔ جیسے میرا جی ساری عمر اپنے
ہاتھوں میں لوہے کے گولے لیے پھرتے رہے اور خود کو اذیت دیتے رہے۔ ایسے ہی
میر بھی کرتے۔ میر بھی اپنی دیوانگی کی حالت کے دوران دو پتھر کے ٹکڑے ہاتھ میں
رکھتے۔ میر صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ وہ سپاہیانہ لباس زیب تن کرتے ،ہاتھ میں
جذبہ ایذا رسانی کا مظہر ہے۔
ٔ تلوار پکڑتے۔ نفسیاتی نقطہ نظر سے یہ وضع قطع بھی
ریاض احمد کو میر اور میرا جی میں یہ ذہنی ہم آہنگی تخلص میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
''فیض میر'' میں جو پانچ بزرگوں کی کہانیاں بیان کی ہیں۔ ان بزرگوں کے
ِ میر نے
کرداروں کے متعلق ریاض احمد کا کہنا ہے:
'' ان پانچوں کہانیوں میں میر نے صوفیوں کے عجیب و غریب احوال درج کیے
ہیں اور پانچوں کہانیو نمیں ان فقیروں سے جو کرامتیں ظاہر ہوئیں ،وہ تباہی و بربادی،
موت ،آگ اور ایسے ہی دوسرے خوفناک مناظر پر مشتمل ہیں۔ مافوق الفطرت چیزوں
سے شغف بھی ایک ذہنی بیماری کی عالمت ہے۔ کسمپرسی کا ایک ایسا عالم جہاں آدمی
زور بازو پر بھروسہ کرنے کی بجائے کسی غیبی طاقت یا امداد کا سہارا ڈھونڈنے اپنے ِ
لگتا ہے۔''()٢
ان قصوں سے میر کی اعصابی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک عصبی مریض کے
لیے اپنے گردو پیش مصائب و آرام کا وجود محسوس کرنا ایک الزمی امر ہے۔ نفسیاتی
اعتبار سے بھی کہا جاتا ہے کہ جفا طلبی کا حد سے بڑھا ہوا جذبہ خود پر رحم کھانے کا
بھی ایک انداز ہوتا ہے۔ میر کی شخصیت کا ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ وہ کسی پر بھی
جذبہ برتری اور
ٔ اعتماد نہ کرتے۔ ریاض احمد کے بقول یہ بے اعتمادی کا رویہ ،ان کے
'ذکر میر'' کا مطالعہ کریں تو
جذبہ مادر پرستی کو ظاہر کرتا ہے۔میر صاحب کی سوانح ' ِ
ایک اور بھی بات معلوم ہوتی ہے کہ انھیں زندگی بھر کسی شخص یا کام پر اطمینان
حاصل نہ ہوا۔ انھیں اپنے دور کے امرا سے یہ شکایت رہی کہ انھوں نے میر کی کماحقہ
دربار لکھنو سے رہی اسی لیے انھوں نے دربار
ِ قدردانی نہیں کی۔ ایسی ہی شکایت انھیں
جانا ترک کر دیا مگر خود بھی میر کسی کو تعظیم دینے کے کبھی روادار نہ ہوئے۔ بازار
سے نواب کی سواری کا گزرنا اور میر کا تعظیم کے لیے نہ اٹھنا ،اُس سے ان کی ذہنی
کشمکش کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے ریاض احمد کے اس مؤقف کی بھی تائید ہوتی ہے
جس میں وہ میر کو ایذا طلب انسان قرار دیتے ہیں۔
میر کی مثنویوں میں عشق کا انفرادی تصور نہیں ملتا۔ اس کی بجائے ان کے ہاں
عشق کا ایک روایتی یا تاریخی تصور ضرور ملتا ہے اسی لیے ان کی شاعری میں ہوس
ناکی ،رندی و مستی اور جنسی کشمکش کا اظہار نہیں ملتا۔ ان کی تمام مثنویوں میں ان
ک ے ہیرو یا عاشق خوبرو ،نیک سیرت نوجوان ہیں جو بیک وقت عاشق بھی ہیں اور
معشوق بھی البتہ ان کی مثنویوں کے ہیروز کی تمنائے ہم آغوشی موت کے بعد پوری
ہوتی نظر آتی ہے کہ ایک شعلہ دوسرے شعلے سے لپٹ جاتا ہے۔ ان کی مثنویوں کے
تمام ہیروز کا انجام موت پر ہوا۔ میر کی مثنویوں میں آگ اور پانی کا استعارہ بہت
استعمال ہوا۔ آگ اور پانی کے استعارے کی ریاض احمد نفسیاتی توضیح یوں پیش کرتے
ہیں:
'' ان کی مثنویوں میں بعض اوقات عاشق و معشوق کا انجام غرقابی دکھایا گیا ہے۔
دریا میں ڈوبنے کے ساتھ ایک شعلہ بھی نظر آتا ہے۔ نفسیات کی رو سے آگ استعارہ
ہے ،تخلیقی قوت کا اور پانی میں ڈوبنا بھی تخلیقی فعل ہی کی ایک صورت ہے۔ کیوں کہ
آفرینش کی بعض کہانیوں میں بھی یہ مذکور ہے کہ خدا نے پانی سے کائنات کو جنم دیا۔
رحم مادر کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ مثنوی ''خواب و خیال'' میں جو
ِ یہیں سے استعارہ
ذکر میر میں بھی کیا گیا ہے۔ اس سے بھی
واردات بیان کی گئی ہے اور جس کا اعادہ ِ
یہی نتیجہ نکلتا ہے محبوبہ کا چاند سے نکل کے آنا والدہ کی وفات کی طرف اشارہ کرتا
ہے جو موت اور محبوبہ کے بھیس میں چاند سے اتر کر آتی ہے۔ اس سے وابستہ ماضی
آغوش مادر کی طرف کھینچتے ِ پرستی کے جذبات ہیں جو فرد کو ایک دفعہ پھر
ہیں۔''()٣
ریاض احمد کی مندرجہ باال اقتباس سے میر کے عشق اور اس کے مخصوص
عنفوان شباب کا عشق بنیادی طور
ِ ر ِدّعمل پر روشنی پڑتی ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے بھی
جذبہ مادر پرستی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس عشق کے اثرات عمر بھر رہتے ہیں ،دوسرا
ٔ پر
اس میں شدید قسم کے جنسی رجحان کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ میر
ت امروز کی بجائے ایک روایتی یا آدرشی اُسلوبکے ہاں بھی عشق کا تصور عشر ِ
اختیار کیے ہوئے ہے۔ البتہ میر کے اشعار میں اعضا پرستی Fetishismsکا تصور
ملتا ہے۔ مثالً میر کے یہ اشعار:
پائے جاناں سے گفتگو ہے اب
خاک میں ملنے کا یہی ہے ڈھب
وہ قدم کاش فرق سر پر ہو
سان سیمیں مری کمر پر ہو
ِ
کف پا قریب ہو میرے
وہ ِ
ٹھوکر اس کی نصیب ہو میرے
شاخ سنبل کی
ِ پنڈلی نازک ہے
ت پا پنکھڑی سی ہے گل کی
پش ِ
ان اشعار میں اعضاء پرستی پاؤں یا پنڈلی سے وابستہ ہے۔ فرائڈین نظریہ کے
مطابق اعضاء پرستی سے مراد جنسی جذبہ کسی غیرمتعلقہ عضو سے وابستہ ہو جاتا ہے
اور انھی انتہائی حالتوں میں اس مرض میں مبتال شخص کے لیے جنسی تسکین صرف
اس عضویے کے لمس یا دید تک ہی محدود رہتی ہے۔ میر کی اعضا پرستی کے متعلق
ریاض احمد یوں لکھتے ہیں:
'' میر کی افتادگی ،پامالی اور اسی قسم کے دوسرے خاک بسر تصورات شاید کسی
حد تک اسی اعضا پرستی کے تصور سے بھی وابستہ ہوں۔ ایک اور بات اس ضمن میں
قاب ِل غور ہے کہ میر کی عشقیہ مثنویوں میں محبوبہ کے حسن و جمال کا تذکرہ کہیں
نہیں ملتا لیکن ہیرو ک ے حسن کی تعریف میں چند اشعار ہر جگہ نکل آتے ہیں۔ یہ الزمی
طور پر ہم جنسی میالن کی صورت نہیں بل کہ فرار کی راہ ہے۔''()٤
ریاض احمد میر کی شاعری کے ایک اور رجحان نمائش پسندی
)(Exhibitionismکا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق میر کی بعض مثنویوں میں
مثالً خوا جہ سرا کی ہجو اوربالشی رائے کی ہجو میں تو میر دائرہ تہذیب سے بالکل باہر
ہو جاتے ہیں۔ ریاض احمد کا خیال ہے کہ میر اس نمود اور عریانی میں یک گونہ جنسی
آسودگی مضمر ہے۔ اُن کے نزدیک جنسی اعضا کی گالیاں بکنا بھی اسی رجحان کی
عکاسی کرتا ہے مگر میر کے کالم میں کہیں بھی شراب کا تذکرہ نہیں ہوا۔ اگر کہیں ہوا
سرچشمہ کیف
ٔ بھی تو برائے نام بقول ریاض احمد ،میر کی زندگی میں شراب کبھی بھی
مسرت بن کر داخل نہیں ہوئی۔
ّ و
جہاں تک بات میر کے فن کی ہے تو اس کے متعلق ریاض احمد کا کہنا ہے کہ
میر کی شاعری میں پر گو ہونے کے عالوہ اور کوئی ف ّنی کمال نہیں ہے۔ ان کے بقول
میر کی شاعری کی نمایاں خصوصیات زبان و بیان کی سادگی ،سہ ِل ممتنع اشعار ،جذبات
و احساسات کی سادہ اور عام تصویریں اور خلوص اظہار ہے۔ وہ میر کو حسیات یا
مصورکہتے ہیں۔ یہاں پر وہ
ّ مجرد تصورات کےّ حواس خمسہ کا شاعر کہنے کی بجائے
ِ
ڈاکٹر سیّد عبدہللا سے بھی اختالف کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عبدہللا نے میر کی مندرجہ ذیل
لفظی تصویروں کی طرف اشارہ کیا تھا۔
''شکستہ
ٔ ''بجھے ہوئے چراغ'' '' ،اجڑی ہوئی بستیاں'''' ،مشیت خاک'''' ،گر ِد راہ'' ،
پائی'''' ،سر راہ کانٹا'''' ،مفلس کا چراغ'''' ،مکڑی کا گھر'' وغیرہ۔ ڈاکٹر سید عبدہللا کے
نزدیک یہ سب تصویریں خارجی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ ریاض احمد کا مؤقف
ان سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ ان کے نزدیک ان تصورات ِ شعر میں خارجی تصور
کی بجائے تباہی و بردبادی ذلت اور ناکامی کا ذہنی تصور بیدارہوتا ہے۔ اس ضمن میں
ریاض احمد میر کے مندرجہ ذیل اشعار کی توضیح یوں پیش کرتے ہیں:
کچھ کرو فکر مجھ سے دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
یا پھر یہ شعر:
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
''ان اشعار سے یقینا ً شعر میں افسانے جاگ اٹھتے ہیں ،لیکن یہ افسانے عبارت میں
مجرد تصورات سے۔ میر بحیثیت ایک خارجی فن کار ّ روایات سے یا بہار اور جنوں کے
اظہار بیان کا خلوص اس
ِ کسی بلند مرتبے پر فائز نہینآتے البتہ جذبات و احساسات اور
کمزوری کا چھپا لیتا ہے۔ میر کے کسی اچھے سے اچھے شعر میں کسی ف ّنی کمال کا
جسے خلوص اظہار کے عالوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکے ،نہیں ملے گا۔'' ()٥
ریاض احمد کے مندرجہ باال اقتباس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا میر کے
سوگوار لہجے اور غم انگیز تاثرات کے مقابل ان کی جمالیاتی اقدار کوئی اہمیت نہیں
رکھتی تھیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ میر نے جس زمانے میں غزل کہی ،اس وقت تک
اردو زبان ارتقا کے مراحل سے گزر رہی تھی او رزبان و بیان کے سانچے اس قابل نہ
ہوئے تھے کہ اظہار کے لیے مزید سہولتیں فراہم کر سکیں۔ ریاض احمد نے اس مضمون
میں میر کے ذہنی ارتقاء کا تجزیہ فرائڈین نکتہ نظر کے تحت کیا۔ انھوں نے میر کی
شاعری کا تجزیہ اُن کے ذہنی شعور کو م ِدّنظر رکھ کر کیا البتہ وہ میر کے فن کا مکمل
ادراک نہ کر سکے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ریاض احمد کی پوری توجہ میر
کے عہد اور حاالت کے مطابق اُن کی ذہنی سوچ اور ارتقا پر رہی۔ تاہم ریاض احمد اس
مضمون میں میر کے ذہنی ارتقا اور تصورات کا تجزیہ کرنے میں کافی حد تک کامیاب
رہے۔
اقبال
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمیں پر گزر فلک پہ میرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے مرا
م ِثل خضر خجستہ پا ہوں میں
آزاد
مورخ عہد قدیم نے
ِ اور ہے لکھا
روما پہ کی جو فوج کشی ایک غنیم نے
کار زار تھے
تیار اہل فوج پئے ِ
پر اہ ِل ملک ان سے سوا جاں نثار تھے
اقبال
لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے
اہ ِل قلم میں جس کا بہت احترام ہے
گہ سکندر رومی تھا ایشیا
جوالں ٔ
گردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا
اقبال ،حالی اور آزاد کے باہمی موازنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اقبال
انداز بیان
ِ نے اپنے پیش روئوں سے فکری اکتساب حاصل کرنے کے ساتھ اسلوب اور
کو بھی اپنانے کی کوشش کی۔ اقبال نے اپنے دور کی ہیئت کی نئی نئی صورتوں ہندی
عروض ،گیت کی ترویج ،رومانیت وغیرہ سب کو اپنایا۔ اس ضمن میں ریاض احمد کا
کہنا ہے کہ اقبال کی شاعری کی ف ّنی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے ترنم اور شعری ُحسن
ملحوظ خاطر رکھا۔
ِ کے ساتھ ساتھ معنویت کو بھی
اس کے بعد ریاض احمد ،اقبال کے خیاالت میں برپا انقالب کی بات کرتے ہیں۔ ان
کے نزدیک اقبال کے ذہنی انقالب کی وجہ ان کا گہرا فلسفیانہ مطالعہ ہے۔ اس ضمن میں
ریاض احمد ،اقبال کی نوٹ بک) (Stray Raflectiosکا حوالہ دیتے ہیں جس میں اقبال
نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ جرمن فلسفی نیٹشے کے متعلق بہت غور و فکر کرتے
ت اظہار سے متاثر تھے۔ ریاض احمد ، رہے۔ خاص طور پر وہ نیٹشے کی شاعرانہ قو ِ
اقبال کے غیرمسلم فلسفیوں سے متاثر ہونے کی نفسیاتی توضیح یہ پیش کرتے ہیں:
''انسان ،ان مفکرین سے بہتر طور پر متاثر ہوتا ہے جن کی سوچ کے دھارے اس
کی اپنی سوچ کے متوازی بہہ رہے ہوں۔ اقبال کو یقین تھا کہ انسانی زندگی کے معامالت
کو سنوارنے کی قوت انسان کو ودیعت ہوئی ہے۔ اطالوی فلسفی کے خیاالت سے انہیں یہ
شعور حاصل ہوا کہ انسانی ثقافت انسان کی اپنی تخلیق ہے۔ اقبال اس فکر میں تھے کہ
اپنی قوم کو کس طرح اس امر کا احساس دالئیں کہ وہ برطانوی تسلط کا جوا اُتار پھینکیں
اور اپنے لیے ایک برتر تہذیب کی تعمیر کریں۔''()١٢
اقبال نے ١٩١٠ء سے نیٹشے کے متعلق سوچ بچار شروع کی۔ یہ وہ زمانہ تھا
جب یورپی تہذیب خود اعتمادی کے زعم میں گرفتار تھی۔ ان حاالت میں اقبال کو یورپی
تہذیب پر نیٹشے کی تنقید دلچسپ معلوم ہوئی۔ چوں کہ اقبال کو مسلمانوں کے برطانوی
سامراج کے ظلم سہنا اذیت پہنچاتا۔ ایسے میں انھیں نیٹشے کی یورپ پر تنقید اپنے غموں
کا مداوا معلوم ہوتی چنانچہ انھوں نے بھی نیٹشے کے طرز پر سوچنا شروع کیا۔ اس
مرحلہ پر اقبال کی عمر تیس سال تھی مگر انھوں نے نیٹشے کے اقوال کے ذریعے یہ
جان لیا کہ انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر اس امر کا فیصلہ خود کرتا ہے کہ اس کی
ثقافتی اقدار کیا ہوں گی؟ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ریاض احمد کا یہ کہنا بجا ہے کہ
''انسان ان مفکرین سے بہترین طور پر متاثر ہوتا ہے جن کی سوچ کے دھارے اس کی
اپنی سوچ کے متوازی بہہ رہے ہوں۔''
رموز بے خودی کا زمانہ تخلیق اور اشاعت ١٩١٨ء ۔ ١٩١٤ء ِ اسرار خودی اور
ِ
جنگ ّاول کا دور تھا جس میں بہت سی تہذیبیں شکست و ِ کے مابین ہے۔ یہ دور عالمی
ریخت کی زد میں تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ نیٹشے کے کچھ اصول اقبال کے دل کو بھائے
مگر اس کے باوجود بھی اقبال یہ سمجھتے تھے کہ یہ صرف مذہب اسالم ہے جو لوگوں
نظام زندگی فراہم کرتا ہے۔ بقول ریاض احمد ،ابتدا میں اقبال اس حد
ِ کو یکساں اور برتر
تک نیٹشے سے متعلق تھے کہ شاید وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح ہم اپنے وسیع تر
معاشرے کے امکانات کے متعلق اپنی سوچ بدل سکتے ہیں تاہم بعد میں اقبال نیٹشے کی
امارت پرستی کے نظریے کو یکسر رد کر دیتے ہیں۔
عالمہ اقبال کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کی بنیاد سائنسی
شعور یا فلسفیانہ نظریات پر رکھی۔ اس ضمن میں ریاض احمد ،رشید نثار کے مضمون
''غالب اور اقبال کے سائنسی شعور'' کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انھوں نے کہا کہ ''اقبال
نے آئن سٹائن کے تصورات کو Poetizeکیا۔'' مگر ریاض احمد ،رشید نثار کے اس
مؤقف سے متفق نہیں۔ ریاض احمد ان کے مؤقف کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' عقل پر وجدان کی ترجیح عالمہ کے نزدیک زیادہ معتبر تھی۔ زماں مسلسل ،زماں
مطلق کے متعلق انھوں نے کسی ایک ) (Sourceپر تکیہ نہیں کیا جہاں تک ممکن ہو
سکا ،مشرق و مغرب کے مفکرین سے استفادہ کیا اور ان کی آرا کا محاکمہ بھی کیا۔ آئن
اسٹائن کے جملہ نظریات کو Poetizeکرنے کا فیصلہ عالمہ کے متعلق درست معلوم
نہیں ہوتا۔ اقبال نے حکیمانہ خیاالت کو پہلی دفعہ شعر کا جامہ نہیں پہنایا۔ فارسی میں یہ
روایت بہت عرصے سے قائم تھی۔… سائنسی شعور تخلیق کے لیے کیسے کارآمد ہو
سکتا ہے۔ جب کہ اقبال کا تو اصرار تھا کہ:
خون جگر سے
ِ جو فلسفہ لکھا نہ گیا
یا مردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار''()١٣
خون جگر سےِ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال تو فلسفہ و حکمت کے لیے بھی
آبیاری کے قائل ہیں ،اس لیے ان کے اشعار کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اُن کے اشعار
ریاضیاتی فارم ولوں سے تشکیل پانے والے تصورات کے تراجم پر مشتمل ہیں ،سراسر
غلط ہے۔ ریاض احمد ،اقبال کے ایک لیکچر کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں انھوں نے
کہا کہ ''میں نے کوئی نیا منظم و فلسفیانہ نظام تشکیل نہیں دیا۔ البتہ زمان و مکاں کے
مسئلے سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی۔ اقبال ،آئن سٹائن کے وہائٹ ہیڈ )(White Head
کے نظریے کو اسالمی نکتہ نظر سے مربوط سمجھتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے آئن
سٹائن کے ) (Purificationکے نظریہ کو بہت سراہا ہے۔ آئن سٹائن کے نظریات کو
سراہنے کے متعلق ریاض احمد کا کہنا ہے کہ وہ آئن سٹائن کے نظریات سے Inspire
ضرور تھے مگر انھوں نے کبھی بھی ان کے نظریات کو Poetizeنہیں کیا۔
خراج عقیدت
ِ جہاں تک اقبال کا برگساں کے نظریات خصوصا ً Elamvitalکو
پیش کرنے کا تعلق ہے ،اس کے متعلق ریاض احمد کا کہنا ہے کہ اقبال نے اُن کے اس
Elamvitalکے نظریہ کو اپنے فلسفیانہ نظریات کی توسیع کے لیے استعمال کیا۔ اس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کے خیاالت میں انقالب کی وجہ گہرا فلسفیانہ مطالعہ ہے جو
قیام یورپ کے دوران میں ''فلسفہ عجم'' کی تاریخ کو سمجھنے میں کیا لیکن
انھوں نے ِ
اسالمی علوم و فنون کے مطالعہ سے انھیں اسالمی نظریات اور ثقافت کے متعلق ایک
خاص بصیرت بھی حاصل ہوئی۔ ریاض احمد کا خیال ہے کہ فلسفہ عجم اور اسالمی
فلسفہ کے مطالعہ نے اقبال کی رہبری زندگی کے اس تصور کی طرف کی جو بعد میں
ان کا مخصوص فلسفہ خودی قرار پایا۔
اقبال کے خیاالت کا محور و مرکز خودی کا شعور ہے جو انسان میں ودیعت ہے۔
یہ خود شناسی بھی ہے اور خودکشائی بھی۔ ان کے خودی کے تصور میں اسالمی
تعلیمات ،موالنا روم کے خیاالت اور مغربی فلسفے کے حکیمانہ تصورات سب کا اثر
ہے۔ خودی کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ فطرت ہے۔اقبال نے خودی کو کہیں
سمندر سے تشبیہہ دی ہے تو کہیں خودی کو فطرت اور ماورائے فطرت کو جوڑنے والی
کڑی قرار دیا ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی وہ فلسفہ ہے ،جس کے لیے اقبال نے خودی
کی اصطالح وضع کی۔ اس کے متعلق ریاض احمد رقم طراز ہیں:
'' خودی کا تصور جو کچھ اقبال کے ذہن میں تھا ،اسے پوری طرح سمجھنے میں
ابھی کچھ الجھاؤ باقی ہے۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے قطع نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
خودی کا تصور انسان کی عظمت و برتری کا تصور ہے ،جسے اقبال نے قرآن پاک اور
قرون اولی کے مسلمانوں کی زندگی سے اخذ کیا۔ یہ ایک روحانی تصور تھا۔…''()١٤ِ
ریاض احمد کے اس موقف کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے
نزدیک انسان کی معراج اور ارتقاء کا راز اس کی ذہنی اور روحانی ترقی میں مضمر
ہے۔ خودی انسان کے احساس ،ارادے اور فیصلے میں موجود رہتی ہے۔ یہ کسی خارجی
شے کے مثل نہیں بل کہ اپنے اندرونی عمل سے تعین پذیر ہوئی ہے۔ ریاض احمد نے
اقبال کے مختلف فلسفیانہ افکار اور ف ّنی تغیرات کو جدید نفسیات کے تناظر میں اجاگر کیا۔
انھوں نے اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت کے لیے ان کی شاعری اور مختلف لیکچر
سے اقتباسات پیش کرتے ہوئے ان کے فکری ارتقا پر سیر حاصل بحث کی۔ اقبال کے
فنی تغیّر کی وضاحت کے لیے اردو کے مختلف شعرا سے اقبال کا موازنہ بھی کیا۔
مشرقی اور مغربی مفکرین کے افکار کے تناظر میں اقبال کی شاعری کا تجزیہ کرتے
ہوئے یہ نتیجہ نکاال کہ اقبال ،مغربی مفکرین اور سائنسدانوں کے نظریات سے متاثر
ضرور ہوئے مگر انھوں نے ان کے افکار کو شاعری میں استعمال نہیں کیا ۔ اس ضمن
میں ریاض احمد نے اقبال کی ذاتی ڈائری اور تعلیمی ریکارڈ سے بھی استفادہ کیا جس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاض احمد نقاد کے ساتھ محقق بھی ہیں۔ انھوں نے اقبال کے
فلسفہ خودی کے تصورات کا اسالمی تعلیمات ،موالنا روم کے خیاالت اور مغربی
فلسفیوں کے افکار کے تحت جائزہ لیا اور اقبال کو انسانی شعور کا ترجمان شاعر قرار
دیا۔
حوالہ جات
اسلم رانا ،ڈاکٹر (مرتب) ،دریاب ،الہور ،پولیمر پبلی کیشنز ،فروری ١٩٨٦ئ ،ص ١۔
١٤٢
ایضاً ،ص ١٤٩ ٢۔
ایضاً ،ص ١٥٣ ٣۔
ایضاً ،ص ١٦٤ ٤۔
ایضاً ،ص ١٦٨ ٥۔
ایضاً ،ص ١٧٧ ٦۔
ایضاً ،ص ١٧٨ ٧۔
ایضاً ،ص ١٧١ ٨۔
ایضاً ،ص ١٨١ ٩۔
١٠۔ ایضاً ،ص ١٩١
١١۔ ایضاً ،ص ١٩٧
ریاض احمد ،مضمون مشمولہ ''صریر'' ،کراچی ،جون ٢٠٠٤ئ ،ص ٨٦ ١٢۔
١٣۔ ریاض احمد ،مضمون اقبال اور غالب کا سائنسی شعورمشمولہ صریر ،کراچی،
اگست ١٩٩٦ئ ،ص ٢١
١٤۔ اسلم رانا ،ڈاکٹر (مرتب) ،دریاب ،الہور ،پولیمر پبلی کیشنز ،فروری ١٩٨٦ئ ،ص
١٩٩
ریاض احمد ،قیوم نظر…ایک تنقیدی مطالعہ ،الہور ،اتحاد پریس ،س ن ،ص ٨ ١٥۔
١٦۔ ایضاً ،ص ٢٢
١٧۔ ایضاً ،ص ٤٥
١٨۔ ایضاً ،ص ٥٠
١٩۔ ایضاً ،ص ٥٤
٢٠۔ ایضاً ،ص ٧٩
٢١۔ ایضاً ،ص ٩٧
٢٢۔ ایضاً ،ص ١٠٦
٢٣۔ ایضاً ،ص ١٢٦
٢٤۔ ایضاً ،ص ١٧١
٢٥۔ ایضاً ،ص ١٩٦
٢٦۔ ایضاً ،ص ٢٢٠
مظفر علی سید ،تنقید کی آزادی ،الہور ،دستاویز مطبوعات ،س ن ،ص ١٠٢ ٢٧۔
غالم حسین ساجد ،خط ١٢ ،مئی ٢٠١٥ئ ٢٨۔
٢٩۔ ریاض احمد ،مضمون خواب کی بستی :ن۔ م راشد مشمولہ ماہنامہ صریر ،کراچی،
جون ۔جوالئی ١٩٩٤ئ ،ص٤٢
٣٠۔ ایضاً ،ص ٤٣
٣١۔ ایضاً ،ص ٤٣
٣٢۔ ریاض احمد ،مضمون اس نظم میں مشمولہ ادبی دنیا ،الہور ،شمارہ دسمبر
١٩٤٤ئ ،ص ٤٩
٣٣۔ ایضاً ،ص ٤٨
٣٤۔ ایضاً ،ص ٤٧
٣٥۔ ایضاً ،ص ٤٧
٣٦۔ ریاض احمد ،مضمون وگرنہ گوئم مشکل فرحت زاہد،مشمولہ عالمت ،الہور ،شمارہ
اگست ١٩٩٦ ،ئ ،ص ٥٧
٣٧۔ ایضاً ،ص ٥٨
٣٨۔ ریاض احمد ،مضمون آسیبی رات :منیر نیازی ،مشمولہ عالمت ،الہور ،شمارہ
اکتوبر ١٩٦١ئ ،ص٥٩
٣٩۔ ایضاً ،ص ٦١
٤٠۔ ریاض احمد ،مضمون ہماری بستی :رضی ترمذی'' ،مشمولہ عالمت ،الہور ،شمارہ
جوالئی ٢٠٠٠ئ ،ص ٥٧
٤١۔ ریاض احمد ،مضمون متحجر :مجید امجد'' ،مشمولہ عالمت ،الہور ،شمارہ جنوری
١٩٩٧ئ ،ص ١٢٤
٤٢۔ ریاض احمد ،مضمون آٹو گراف :مجید امجد'' ،مشمولہ نئی تحریریں ،الہور ،شمارہ
١٩٥٦ئ ،ص ٣٠١
٤٣۔ ریاض احمد ،تصدیق ،مضمون زنداں :ایک مطالعہ ،الہور ،پولیمر پبلی کیشنز،
مئی ١٩٩٦ئ ،ص ٢٠٧
٤٤۔ ایضاً ،ص ٢١٣
ق ابرو ،الہور ،پولیمر پبلی کیشنز ،مئی
٤٥۔ ریاض احمد ،تصدیق ،مضمون طا ِ
١٩٩٦ئ ،ص ٢٨٢
٤٦۔ ایضاً ،ص ٢٩١
٤٧۔ ریاض احمد ،مضمون اترے میری خاک پر ستارہ ،مشمولہ عالمت ،الہور ،شمارہ
نومبر ١٩٩٧ئ ،ص ٤٣
٤٨۔ ریاض احمد ،مضمون اور نظمیں ،مشمولہ عالمت ،الہور ،شمارہ جون ١٩٩٨ئ،
ص ٢١
٤٩۔ ریاض احمد ،تصدیق ،مضمون قندیل :ایک تبصرہ ،الہور ،پولیمر پبلی کیشنز ،مئی
١٩٩٦ئ ،ص ٢٢٤
٥٠۔ ریاض احمد ،تصدیق ،مضمون کچے دھاگے ،الہور ،پولیمر پبلی کیشنز ،مئی
١٩٩٦ئ ،ص ١٧٧
٥١۔ ریاض احمد ،مضمون دل کی دنیا :ڈاکٹر حمید شیخ ،مشمولہ عالمت ،الہور ،شمارہ
دسمبر ١٩٩٥ئ ،ص ٤٩
٥٢۔ ریاض احمد ،مضمون کرن نگر :ڈاکٹر حمید شیخ ،مشمولہ عالمت الہور ،شمارہ
اکتوبر ١٩٩٨ئ ،ص ٦٢
٥٣۔ ریاض احمد ،مضمون ناراض عورتیں :انیس ناگی مشمولہ دانش ور ،الہور ،شمارہ
اپریل ٢٠٠٤ئ ،ص ٥٩
الہیات :مشکور حسین یاد ،مشمولہ عالمت
ق ٰ ٥٤۔ ریاض احمد ،مضمون غالب کا ذو ِ
الہور ،شمارہ اپریل ٢٠٠٠ئ ،ص ٢٦
٥٥۔ ریاض احمد ،مضمون کلچر کے روحانی عناصر :ڈاکٹر داؤد رہبر ،مشمولہ
عالمت الہور ،شمارہ ستمبر ١٩٩٨ئ ،ص ٩
تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ :ڈاکٹر رفیع
ِ ٥٦۔ ریاض احمد ،مضمون
الدین ہاشمی'' مشمولہ بازیافت ،الہور ،س ن ،ص ٢٢٠
٥٧۔ ریاض احمد ،مضمون برسبیل سخن :ایک مطالعہ ،مشمولہ مخزن ،الہور ،مجلہ
نمبر ،١٢ص ١٣١
٥٨۔ ریاض احمد ،مضمون نفائس ادب مشمولہ مخزن الہور ،مجلہ نمبر ٢٠٠٥ ،٩ئ،
ص ٨٤
باب پنجم:
ریاض احمد کی دیگر ادبی جہات کاتجزیاتی مطالعہ
ریاض احمد بحیثیت نعت گو فصل ّاول:
ریاض احمد بحیثیت نظم نگار فصل دوم:
ریاض احمد بحیثیت غزل گو فصل سوم:
فصل چہارم :ریاض احمد بحیثیت ترجمہ نگار
ریاض احمدکاافسانہ فصل پنجم:
فصل ّاول:
ریاض احمد بحیثیت نعت گو
نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تعریف و توصیف بیان کرنے کے ہیں۔
اگرچہ عربی میں اس کے لیے مدح کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے لیکن ادبیات میں نعت
آنحضرت صلی ہللا علیہ وآلہ کے اوصاف و محاسن اورسیرت کے بیان کے لیے مختص
ہے۔ لفظ نعت کے متعلق ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق لکھتے ہیں:
''نعت کے معنی یوں تو وصف کے ہیں لیکن ہمارے ادب میں اس کا استعمال مجازا ً
صرف حضرت رسول کریم سید المرسلین کے وصف محمود و ثنا کے لیے ہوا ہے جس
کا تعلق دینی احساس اور عقیدت مندی سے ہے۔''()١
زیر اثر پروان چڑھا۔ اردو
اردو میں نعت گوئی کا فن عربی اور فارسی کے ِ
شاعری کی چار سو سالہ تاریخ میں نعت کا اتنا وسیع ذخیرہ جمع ہو چکا ہے کہ اس کا
اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ نعت کہنا ہر مسلمان شاعر اپنے لیے خیر و برکت کا باعث
سمجھتا ہے۔ حضورۖ سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ عربی و فارسی
ادبیات میں یہ روایت بہت مضبوط ہے ۔ اسی طرح فارسی ادب کی پیروی کرتے ہوئے
اردو ادب میں ابتدا ہی سے یہ روایت در آئی اور مسلمان شعرا نے بالخصوص اور
غیرمسلم شعرا نے بالعموم اپنے اپنے شعری دیوان میں خیر وبرکت کے لیے نعتیہ کالم
ضرور شامل کیا اور حضورۖ سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ موجودہ دور میں
اردو ادب میں نعتیہ ادب کا بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے۔ بعض شعرا نے ساری عمر صرف
ت دوام بھی حاصل ہوئی۔نعت ہی لکھی اور اسی سبب انھیں شہر ِ
دیگر شعرا کی مانند ریاض احمد نے بھی نعت گوئی کی طرف خاص توجہ دی
ت بابرکت سے کیا جس کے لیے محف ِل کائنات اور اپنی عقیدت و محبت کا اظہار اس ذا ِ
دہان زخم میں بس ایک ہی نعت شامل ہے۔سجائی گئی۔ ریاض احمد کے شعری مجموعے ِ
اس کے عالوہ ان کا نعتیہ کالم ادبی رسائل میں بھی چھپتا رہا۔ ریاض احمد کے نعتیہ کالم
میں عقیدت ،محبت اور والہانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ عشق کی کیفیات ،جذبات کی روانی،
صہ ہے ،ان کے نعتیہ کالم میں
قلبی واردات اور مشاہدات ان کے نعتیہ کالم کا نمایاں ح ّ
جذب و سرور کی فضا ملتی ہے۔ نعت میں نئے مضامین نکالنا مشکل امر ہے۔ ہر شاعر
اپنی بساط کے مطابق مضمون آفرینی کی کوشش کرتا ہے۔ ریاض احمد کے ہاں ہمیں یہ
کاوش شعوری اور الشعوری ہر دو سطح پر دکھائی دیتی ہے۔ وہ نعت کو روایتی اظہار کا
وسیلہ سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ سچی محبت اور عقیدت ان کی نعتوں کا خاص
وصف ہے۔
دہان زخم کا آغاز بھی روایت کے مطابق نعت اور
ریاض احمد کی شعری کتاب ِ
منقبت سے ہوا۔ ریاض احمد نے غزل یا پابند نظم کی ہیئت میں نعت لکھنے کی بجائے
یوم حساب اور اس کی سختیوںآزاد نظم کی تکنیک کو اختیار کیا۔ اس نعت میں انھوں نے ِ
حوض کوثر پر اُن کی موجودگی کا ذکر
ِ کے دوران میں حضرت محمدۖ کی شفاعت اور
روز قیامت کی منظرکشی سے ہوتا ہے ،جب سورج ،چاند ،ستارے کیا ہے۔ نعت کا آغاز ِ
بجھ جائینگے ،پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند اُڑ رہے ہوں گے اور بادِسموم چل رہی
ہوگی۔ انسانوں کے گروہ خوف زدہ ،بدکے ہوئے وحشی جانوروں کی مانند امن کے طلب
گارہوں گے۔ لوگوں کے لیے میزان قائم ہو چکی ہے اور پھر درو ِد پاک کے سہارے
ہدیہ درود پاک کی
ت محمدی کو نجات حاصل ہو گی۔ ٔ ساقی کوثر سے فیض یاب ہو کر ام ِ
بدولت اعمال میں نیکی کا پلڑا بھاری ہو گا اور امت کو را ِہ نجات ملے گی۔
انداز بیاں سے مختلف ہے۔ اس میں قیامت کے دن کا منظرِ نعت کا آغاز روایتی
قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے ،مثالً کہسار کا دھنکی ہوئی روئی
کے گالوں کی طرح اُڑنا ،دریاؤں میں شعلوں کی لپک اور انسانوں کا بدکے ہوئے
چرندوں کی طرح ادھر اُدھر دوڑنا اور اعضاء کو زبان کا عطا ہونا کہ وہ کردہ اعمال پر
تصورات قرآنی آیات سے ماخوذ ہیں:
ّ گواہی دے سکیں ،سب
(سورة الزلزال) اذا زلزلت االرض زلزالھا o
یوم یکون ال ّناس کالفراش المبثوث( oسورة القارعة)
وتکون الجبال کالعھن المنفوش ( oالقارعة)
(سورہ عمہ) ّوسیّرت الجبال فکانت سرابًا o
ساقی کوثر حضرت محمدۖ کی شفاعت سے بہر مند ِ نعت کے آخر میں دور ِد پاک اور
ہونے کا تصور پیش کیا ہے۔ ریاض احمد نے جا بجا تشبیہات کا استعمال کر کے بیان کی
تاثیر میں اضافہ کیا ،جیسے کہساروں کو روئی کے گالوں سے تشبیہ دی۔ بکھرے ہوئے
پریشان حال انسانوں کو بدکے ہوئے وحشی چرندوں کی طرح قرار دینا۔ رحمت کو دریا
رنگ سخن کی غمازی کرتی ہے
ِ سے تشبیہہ دینا وغیرہ ۔ بحیثیت مجموعی یہ نعت جدید
اور ایک مسلمان کی رسو ِل پاکۖ سے عقیدت ،محبت اور نبی پاکۖ سے شفاعت کی
امید کو اجاگر کرتی ہے۔
رحمة اللعالمین یہ نعت ریاض احمد کے شعری مجموعے میں شامل نہیں بل کہ یہ
عالمت رسالے میں شائع ہوئی۔ یہ نعت بھی گذشتہ نعت کا تسلسل ہے کیوں کہ اس نعت
میں بھی ریاض احمد نبیۖ سے رحمت اللعالمین کے وصف اور درو ِد پاک کی اہمیت کے
انداز نعت سے انحراف ہے اور اس ِ معترف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ نعت بھی روایتی
کی ہیئت بھی روایت سے مختلف ہے۔ ان کی اس نعت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جدید
معری نظموں سے زیادہ متاثر ہیں اسی لیے نعت گوئی میں بھی
ٰ انداز شاعری ،آزاد اور
ِ
رنگ سخن کو اپناتے ہیں۔ اس نعت کے آخر میں ریاض احمد حضورۖ کے دیدار ِ اسی
کے متالشی بھی دکھائی دیتے ہیں۔
تکرار لفظی سے کیا:
ِ نعت کا آغاز ریاض احمد نے
عالم بے نام ،بے حد و ثغور
اک ِ
عالم بے حرف و صوت
اک ِ
عالم بے رنگ و نور()٢
اک ِ
حرف عطف کا استعمال بہت زیادہ ہوا ہے۔ بے حد و ِ ریاض احمد کی اس نعت میں
ثغور ،حرف و صوت ،رنگ و نور ،ماضی و فرد و حال ،نور و ظلمت ،کیف و کم ،غیب
حرف اضافت کا
ِ و حضور ،بے کیف ونون ،کون و مکاں اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے
طلبگار جمال،
ِ جبر تنہائی ،جال ِل بے اماں،
استعمال کر کے مرکبات بھی پیش کیے ہیں۔ ِ
نیاز ماضی وغیرہ۔
عالم بے نامِ ،
عالم بے حرفِ ،
ِ
عقبہ ثانیہ بھی گذشتہ نعتوں کا
عالمت رسالے میں شائع ہونے والی ایک اور نعت ُ
تسلسل ہے۔ اس نعت میں بھی ریاض احمد رسولۖ سے عقیدت و محبت کا اظہار کرنے
کے ساتھ ساتھ ان کی شفاعت کے طلب گار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں انھوں نے یہ باور
کرانا چاہا ہے کہ اگر مسلمان محمدۖ سے محبت کا دعوے دار ہو تو نبی پاکۖ کے َدر
سے خالی نہیں آتا۔ اس نعتیہ کالم میں انھوں نے حضورۖ کے اُس وعدے کو بیان کیا
ہے ،جو انھوں نے اہل مدینہ سے کیا تھا۔ ''میرا جینا میرا مرنا اب تمہارے ساتھ ہے''۔ اس
حرف عطف کا استعمال کیا گیا ہے۔ِ تکرار لفظی اور
ِ نعتیہ کالم میں
عرض نیاز
ِ ق طلب،
اس طرف ذو ِ
()٣ جوش پذیرائی ،سراپا التفات
ِ اس طرف
ریاض احمد نے اپنا نعتیہ کالم آزاد نظم کی ہیئت میں لکھنے کو ترجیح دی ،مگر
ان کی ایک نعت جو جنوری ١٩٩٩ء کے عالمت کے رسائے میں شائع ہوئی ،روایتی
ت عالم کا سابقہ
غزل کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس نعت میں بھی شفاعت اور رحم ِ
رحجان ملتا ہے۔ یہ مردّف غزل ہے جو سات اشعار پر مشتمل ہے ،اس کا پہال شعر کا
مطلع ہے اور اس کی ردیف سہ حرفی ردیف ہے مثالً:
میری زبان پر تیری زباں پر بات انہی کی ہے
کون و مکاں مینرونق جس سے ذات انھی کی ہے ()٤
حرف عطف کا بہت
ِ تکرار لفظی کے ساتھ ساتھِ ریاض احمد کی اس نعت میں
ت تضاد کا بھی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ سحر اور استعمال ہے۔ اس میں صنع ِ
شب ،فرش اور عرش ،جن اور انس تضاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ انھوں نے حضورۖ کے
تابناک چہرے کو دن کے اجالے سے تشبیہہ دی ہے اور ان کی کالی کملی کو رات سے
ت عالم قرار دینے کے ساتھتشبیہہ دی ہے۔ آخری شعر میں ریاض احمد ،حضور کو رحم ِ
ساتھ ان کی شفاعت کے طلب گار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس آخری شعر میں انھوں نے
ت سیاق االعداد کا بڑا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ مثالً:
صنع ِ
تکوین کا باعث حشر میں شافع رحمت عالم
ماوی ذات انھی کی ہے()٥
ٰ ہر دو جہاں کا ملجا
'' کبھی تو ایسا بھی وقت آئے'' یہ نظم بھی ریاض احمد نے نعتیہ انداز میں لکھی ہے۔ اس
العلی
ٰ صوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ ساری نظم عربی نعت ''بلغنظم کو انھوں نے چار ح ّ
الدجی بجما ِلہ ،حسنت جمیع خصا ِلہ ،صلّو علیہ و آ ِلہ'' سے ماخوذ ہے۔ مثالً
ٰ بکمالہ۔ کشف
العلی بکمالہ کو اس انداز سے بیان کیا ہے:
ٰ پہلے حصے بلغ
کبھی تو ایسا بھی وقت آئے
کہ آپ کا نام لوں اگر میں
اسری بعبدہ سے جواب آئے
ٰ تو مقام
مقام جتنے ہیں رفعتوں کے
کمال کی جو حدیں ہیں وہ
حضورۖ ہی کے قدوم رحمت لزوم سے ہیں۔
العلی بکمالہ ۔ ()٦
ٰ بلغ
اس نعت میں ریاض احمد نے حضورۖ کی شان کو بیان کرنے کے لیے مختلف
استعارے استعمال کیے ہیں مثالً ''جما ِل اطہر کی طلعتوں سے'' اس میں جما ِل اطہر کو
سوزیقین کو شمع
ِ سوز یقین ہو روشن'' یہاں پر
ِ طلعت سے استعارہ کیا گیا ہے۔ ''نو شمع
سے استعارہ کیا ہے۔ ''بس ایک نغمے کی تان گونجیصلّو علیہ وآ ِلہ'' شاعر نے یہاں درود
خاک
ِ کو نغمہ سے استعارہ کیا ہے۔ ''بس اتنی دعا'' ریاض احمد کی دعائیہ نظم ہے جو
مزین ہے۔ یہ نظم بھی گذشتہ نظموں کا تسلسل ہے جس میں مدینہ کو چھونے کی تمنا سے ّ
شاعر کو اپنے گنہگار ہونے کے احساس کے ساتھ ساتھ شفاعت کی تمنا بھی ہے:
درخواست شفاعت کی نہیں کر سکتا
کہ اس راند ٔہ درگاہ کا دامن ہے عمل سے خالی
مگر اے داور محشر!
بس اتنی دعا ہے
اس خاک پہ اک سجدہ ادا کر لوں۔ ()٧
اس نظم کے دو ُرخ ہیں۔ ایک تو یہ نعتیہ انداز میں لکھی گئی ہے ،جس میں
حضورۖ کی سیرت اور صورت کا بیان ہے تو دوسری طرف شاعر کو اپنی کم مائیگی کا
احساس ہے۔ اُن کے دل میں حسرت ہے کہ وہ اُس پاک سرزمین کو چھوئیں ،جہاں آقائے
دو جہاں حضورۖ رہتے تھے مگر ساتھ ہی انھیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کیا اُن کے
ہاتھ اس قابل ہیں کہ وہ اس پاک زمین کو چھو سکیں۔ کیا اُن کے پاؤں اس قابل ہیں کہ پاک
دھرتی کی دھول تک پہنچ سکیں۔ وہ اپنی پلکوں کو ''آلودہ عصیان'' سمجھتے ہیں مگر
ساتھ ہی انھیں شفاعت کا وعدہ بھی یاد آتا ہے۔ ایسے میں شاعر پھر سے پرجوش ہو جاتا
ہے کہ میں جیسا بھی گنہ گار ہوں ،مگر اس رب کی رحمتیں اس قدر ہیں کہ وہ مجھ
جیسے گنہ گار کو بھی معاف کر دے گا اور مجھے اس قابل بنا دے گا کہ میں اس پاک
دھرتی پر اک سجدہ کر سکوں ،جس دھرتی کی خاک نے آقائے دو جہاں کے قدم پاک
چومے ہیں۔
اس نظم میں ریاض احمد نے اعضائے جسمانی کا بیان بہت کیا ہے مثالً جبیں،
پلکیں ،آنکھ ،ہاتھ ،پاؤں وغیرہ۔ انھوں نے کردار کے عروج و زوال کو بڑی عمدگی سے
بیان کیا ہے کہ اگرچہ انسان کی خطائیں اُس کے زوال کی ذمہ دار ہیں مگر ہللا کی
رحمت اس قدر بے پایاں ہیں کہ انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
''مسجد نبویۖ'' اس نظم میں ریاض احمدقدیم اور جدید مسجد نبوی کا موازنہ
کرتے ہیں۔ پہلے تو شاعر نے یہ بتایا ہے کہ قدیم مسجد نبوی کی تعمیر کیسی تھی۔ اس
کی دیواریں کچی مٹی سے بنائی گئیں۔ چھت کھجور کے پتوں اور مسجد کا فرش ناہموار
پتھروں سے چنا گیا۔ نہ تو اس مسجد کے اونچے مینار تھے او رنہ ہی سونے کا گنبد۔ اس
کے باوجود یہ مسجد روشنی کا مینار تھی اور اس مسجد کی عظمت کی گواہی عرش دیتا
تھا اور دیتا ہے اور اسی مسجد سے سورج ،چاند ،ستارے ،روشنی مستعار لیتے ہیں۔ اس
نور مجسم حضرت محمد صلی ہللا علیہ کی وجہ شاعر یہ بیان کرتا ہے کہ اس مسجد کو ِ
وسلّم نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا۔
اس نظم میں ریاض احمد جدید دور اور مسجد نبویۖ کا قدیم دور اور مسجد نبوی
کی تعمیر سے موازنہ کرتے ہوئے جذبوں کی تفاوت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ قدیم
مسجد نبوی کے درودیوار اگرچہ کچے تھے ،اس کی چھت ناپختہ اور فرش بھی ناہموار
تھا۔ اس کے باوجود اس دور کے مسلمانوں کے جذبات ،احساسات اور اعتقادات بہت بلند
تھے۔ موجودہ دور میں مسجد نبوی کی تعمیر عالیشان ہے ،اس کے اونچے مینار اور
سونے کے گنبد ہیں مگر افسوس مسلمانوں کے جذبات میں اتنی گہرائی نہیں جتنی کہ
ماضی میں تھی۔ اس طرح ریاض احمد باور کروانا چاہ رہے ہیں کہ ساری بات جذبات کی
ہوتی ہے نہ کہ عالیشان تعمیرات کی۔ اگر جذبات میں سچائی اور خلوص نہیں تو پھر
عالیشان تعمیرات بھی کوئی نفع نہیں پہنچاتی۔ اگر جذبات میں سچائی اور خلوص ہے تو
پھر کچے درودیوار کے درجات بھی اس قدر بلند ہو جاتے ہیں کہ سورج ،چاند ستارے
اس سے روشنی مستعار لیتے ہیں۔ اس نظم کی بدولت ریاض احمد مسلمانوں کو ان کی
ت رفتہ کا احساس دالتے ہیں۔
عظم ِ
ریاض احمد نے تین منقبت بھی لکھیں جس میں تمام تر واقعہ کربال کا تذکرہ کیا گیا
ہے۔ اس میں سالم کا سا انداز اپنایا گیا ہے۔ سالم عموما ً غزل کی ہیئت میں پیش کیا جاتا
ہے لیکن ریاض احمد نے یکسر مختلف انداز اپنایا ہے۔ پہلی نظم ''محرم میں'' مربع ہیئت
میں ہے۔ اس نظم میں کل ٧بند ہیں جن میں ٣بند پہال ،نواں اور آخری مردّف ہیں ،جب
کہ باقی نو( )٩بند غیر مردّف ہیں۔ اس نظم کے پہلے پانچ بند نعت کے مضامین پر مشتمل
ہیں اور بعد کے بند جناب امام حسین اور شہدائے کربال سے جذبات میں ڈوبی ہوئی
عقیدت کا اظہار ہیں۔
ت تضاد کا استعمال بہت کیا ہے۔ عالم فاضل ،
ریاض احمد نے اس نظم میں صنع ِ
جاہل نادان ،خفی و جلی ،مشرق مغرب ،اونچے نیچے ،صبح و شام وغیرہ۔ انھوں نے
تشبیہات کے استعمال سے بھی اس نظم کی اثر انگیزی میں اضافہ کیا۔ انھوں نے روح کو
س ّچے موتی سے تشبیہہ دی اور جسم کو اللہ فام سے۔ ایسے ہی گیارھویں بند میں انھوں
نے آنکھ کو جام سے اور آنسوؤں کو چھلکتی شراب کے ساتھ تشبیہہ دی ہے۔ اس نظم کی
تکرار لفظی ،صنعت مراة النظیر کا استعمال اور منظرکشی ہے۔
ِ نمایاں خصوصیات میں
اس نظم میں گذشتہ نظمو نکی طرح امید شفاعت کا بیان ہے۔ اس نظم کے پہلے
اور آخری شعرمیں ایک ہی خواہش کا بیان ملتا ہے۔ وہ ہے محرم میں زیارات پر جانے
کی خواہش۔ یہ نظم ظاہر کرتی ہے کہ ریاض احمد کو مذہب کے ساتھ ساتھ نبی پاکۖ اور
آ ِل نبیۖ سے خاص الفت و موانست ہے۔ کربال کے موضوع پر لکھی گئی باقی دونوں
رنگ سخن میں لکھی گئی ہے۔ ریاض احمد کے نزدیک کربال کا معرکہ حق ِ نظمیں جدید
کے لیے سرکٹانے کی تم ّنا ایک کنایہ ہے اور جناب امام حسین اور ان کے ساتھی دین کی
آبرو اور انسانیت کا فخر ہیں۔ وہ رسول کریمۖ سے محبت اور اہ ِل بیت سے محبت کو
ایمان کا جزو سمجھتے ہیں۔ کربال کے واقعات کو حق و صداقت اور باطل کا ایک معرکہ
سمجھتے ہیں جس میں بظاہر باطل کامیاب ہوا لیکن دراصل وہ ناکام و نامراد رہا۔
حروف عطف کے ساتھ ساتھ
ِ اس نظم میں ریاض احمد نے حرف ِ اضافت اور
تکرار لفظی کا بھی استعمال کیا ہے۔
ِ
ایسے بھی سر ہیں جن میں ہے سودا ،تو بس سودا یہی
انداز بیان جدید ہے مگر اس میں روایتی مرثیے کا رنگ بھی نظر آتا ہے:
ِ اس نظم کا
اے کربال تجھ کو قسم
عون و محمدۖ کی قسم
حلقوم اصغر کی قسم
ِ
زینب کی چادر کی قسم
شا ِہ شہیداں کی قسم()٨
'' کربال سے ایک آواز'' اس نظم میں ریاض احمد نے عالماتی انداز اختیار کرتے
ہوئے حضرت امام حسین کی قربانی کو یاد رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اگر ہم آج اُن کی
قربانی کو نظرانداز کر دیں گے تو دنیا میں سر اٹھا کر جینا مشکل ہو جائے گا۔ ذلت و
تکرار لفظی کا
ِ رسوائی اور اغیار کی غالمی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ اس نظم میں
استعمال کیا گیا ہے۔ ایک ہی لفظ ''ماتم کرو'' پوری نظم میں ٩مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
ماتم کرو ماتم کرو
اس شخص کا ماتم کرو()٩
ریاض احمد کی نعتیں اور منقبت آزاد نظم کی ہیئت میں کہی گئی۔ یہاں انھوں نے
اپنے مخصوص اسلوب اور ف ّنی مہارت کو خوبصورتی سے استعمال کیا۔ اپنی پسندیدہ
لفظیات رحمة ال لعالمین ،شفاعت ،نور و ظلمت کو انھوں نے نعتیہ فضا سے ہم آہنگ کیا۔
انداز بیان اور الفاظ میں
ِ نعتوں کی زبان سلیس اور رواں ہے۔ انھوں نے سیدھے سادھے
حضورۖ کی ذات سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا۔ سوز و گداز میں ڈوبا ہوا دھیما دھیما
لہجہ ایک پُرکیف فضا تشکیل کرتا ہے۔
دوم:
فصل ّ
ریاض احمد بحیثیت نظم نگار
قیام پاکستان سے پہلے ہی نظم اردو ادب میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی۔ ِ
١٨٧٤ء میں محمد حسین آزاد کی کاوشوں سے الہور میں انجمن ِپنجاب کے زیر اہتمام
نظم کے مشاعرے شروع ہوئے۔ نظم کی مقبولیت میں انجمن پنجاب نے ہی بنیادی کردار
ادا کیا۔ موالنا حالی اُن دنوں الہور میں مقیم تھے اور وہ بھی انجمن کے مشاعروں میں
شریک رہے۔ بعد میں اسماعیل میرٹھی ،شبلی ،اکبر الہ آبادی وغیرہ نے مختلف
موضوعات پر کامیاب نظمیں لکھیں۔ فطرت نگاری ،وطن پرستی ،اخالقیات ،تاریخ،
سیاسیات ا ور دیگر موضوعات پر بے شمار نظمیں کہی گئی۔ وہ شعرا جو پہلے غزل
گوئی کی طرف مائل تھے۔ انھوں نے بھی نظمیں کہنا شروع کر دیا۔ سرور جہاں آبادی،
نادر کاکوروی ،ہمایوں ،خوشی محمد ناظر ،نیرنگ ،محروم اور بہت سے دوسرے شعرا
نے نظمیں کہیں اور پھر عالمہ اقبال نے نظم کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا۔
تحریک اقبال نے جمود کو حرکت اور قنوطیت کو رجائیت میں بدلنے کی سعی
ِ ''
فلسفہ نفسیات اور تاریخ کو محرک قوت کے طور پر استعمال
ٔ کی اور اس کے لیے
کیا۔''()١٠
اوج
اقبال نے نظم کے موضوعات کو وسعت دی اور جدید اسلوب کی بدولت پابند نظم کو ِ
کمال پر پہنچا دیا:
'' اقبال نے اردو نظم کی اس ہموار زمین میں جدیدیت کا بیج اس انداز سے بکھیرا
کہ اسے جڑ پکڑنے میں زیادہ دیر نہ لگی او رپھر اس کے برگ و بار بہت جلد اثمار
سے لد گئے۔''()١١
اردو ادب میں رومانوی تحریک کا عروج بیسویں صدی کی پہلی چار دہائیوں تک
زیراثر لفظ و خیال نے نئے فکری آسمانوں تک رسائی حاصل چھایا رہا۔ اس تحریک کے ِ
کی۔ ادیبوں اور شعرا کو خارجیت سے داخلیت کا رستہ دکھایا اور پھر ان کے امتزاج
سے نئی ف ّنی جہتوں سے روشناس کیا۔ تنگ نظری سے ف ّنی حدود کی وسعت ،خیال اور
اسلوب میں ہمہ گیر تغیّر اس تحریک کی دین ہیں۔ اردو ادب پر اس کے گہرے اثرات ہیں:
'' اقبال کی زندگی کے آخری چند برسوں میں رومانوی تحریک مقبول ہو چکی تھی
اور اختر شیرانی ،جوش ملیح آبادی ،حفیظ جالندھری وغیرہ رومانوی نظم نگاروں کی
حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے جب کہ ترقی پسند تحریک بھی پر پُرزے نکال
رہی تھی۔''()١٢
صہ لیا ،عظمت ہللا
اختر شیرانی اور عظمت ہللا نے نظم کی ترویج میں بھرپور ح ّ
نے نظم میں ہندی بحور کا اضافہ کیا۔ ہیئت کے تجربات کیے ،انھوں نے مختلف نئے
سانچوں کو اختیار کر کے نظم میں نئے امکانات کو فروغ دیا۔ اختر شیرانی نے نظم میں
عورت کو مرکز و محور بناتے ہوئے اسے منبع عشق قرار دیا۔ عالمہ اقبال کی نظموں
نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک والہانہ جذبہ پیدا کیا اور قائد اعظم کی قیادت میں
پاکستان کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ بعد میں ترقی پسند تحریک نے اردو نظم
کو بہت وسعت دی۔
''اردو نظم کے تدریجی ارتقا میں ترقی پسند نظم کی اہمیت اس بات میں ہے کہ اس
نے شاعر کے باطن کو ِمس کیا ہے اور محبت کے جذبے کو ایک کشادہ کینوس عطا
کرنے کی کوشش کی ہے۔''()١٣
ت حال کچھ یوں تھی کہ ان میں پہال طبقہ
قیام پاکستان کے وقت اردو نظم کی صور ِ
ِ
ان شعرا کا تھا جو تقسیم سے پہلے ہی اپنے تخلیقی سرمائے کی بدولت اپنی شناخت کا
قیام پاکستان کے بعد عمالً اپنے ماضی کی تخلیقات کے بل پر ہی نمایاں
کروا چکا تھا اور ِ
رہا۔ موالنا ظفر علی خان ،حفیظ جالندھری ،جوش ملیح آبادی ،احسان دانش وغیرہ ان میں
سر فہرست ہیں۔ وہ نظم نگار جنھیں ہم جدید نظم نگاری کے حوالے سے نظرانداز نہیںِ
کر سکتے ،ان میں ن۔م راشد ،فیض احمد فیض ،قیوم نظر ،مجید امجد ،یوسف ظفر ،احمد
ندیم قاسمی ،جعفر طاہر ،مختار صدیقی ،وزیر آغا ،ظہیر کاشمیری ،ظہور نظر ،ضیا
ابن انشائ ،عرش صدیقی ،عزیز حامد مدنی ،مصطفی زیدی ،اخترجالندھری ،منیر نیازیِ ،
حسین جعفری ،آفتاب اقبال ،فارغ بخاری ،محب عارفی ،جمیل ملک ،عارف عبدالمتین،
سر فہرست ہیں۔ اس کے متعلق ڈاکٹر انور
ساقی فاروقی ،اعجاز فاروقی ،احمد فراز وغیرہ ِ
سدید لکھتے ہیں:
'' آزادی کے بعد متعارف ہونے والے شعرا نے نظم کے نئے مزاج کو بڑی خوبی
ربط باہم تالش کیا بل کہ انھوں نے
سے سمجھا اور نہ صرف ذات اور کائنات میں نیا ِ
پس پردہ اسرار کو روح کا تعاقب بھی کیا۔ اپنے اندر کی آواز بھی سنی اور حقیقت کے ِ
تخلیقی عمل سے کھولنے کی سعی بھی کی چناں چہ آزادی کے بعد کی چار دہائیوں میں
نظم نے صرف استعارہ ،عالمت اور تمثال کے تخلیقی استعمال سے ایک نئی شعری زبان
وضع کی ،جس میں تازگی بھی تھی اور توانائی بھی ،نئی نظم نے بیسویں صدی کی
بڑھتی ہوئی میکانکیت ،تنہائی اور مایوسی کو متعدد بار اہم موضوع کی حیثیت دی لیکن
جب احساس نے رومانوی مدار کو ِمس کیا تو اس نے ''روح کل'' تک رسائی کی کاوش
بھی کی۔ چناں چہ اس دور میں نئی نظم محض ایک شعری تجربہ نہ رہا بل کہ شعرا نے
اس کی تدریس میں بھی دلچسپی لی۔ موضوعاتی نظم مسلسل روبہ زوال ہوتی چلی گئی
اور اب جو سامنے آئی۔ اس نے ف ّنی ابہام اور تخلیقی تہہ داری کے لیے عالمتی فضا کو
زیادہ قبول کیا اور معنی کی کئی جہتوں کو بیک وقت اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔''()١٤
گذشتہ پچاس سالوں میں نظم نے اظہار و ابالغ کے عالوہ ہیئت ،اسلوب میں نئے امکانی
طرز احساس کے تحت استعارہ ،تمثال
ِ در َوا کیے۔ نئی لسانی تشکیالت نئی آگہی اور جدید
اور ہیئت کو نئے تخلیقی منطقے سے آشنا کیا۔ استعاراتی اسلوب میں لطیف ابہام نے نظم
کے آفاق کو وسعت دی۔
برصغیر پر انگریزوں کے اثر و رسوخ نے اردو کی ادبی فضا پر اپنے گہرے
اثرات مرتب کیے۔ انگریزی ادب کے برا ِہ راست مطالعے کے نتیجے میں اردو ادب میں
رومانیت ،مارکسیت ،نفسیات ،عالمت پسندی ،ماورائیت ،تاثریت اور وجودیت وغیرہ کے
اثرات نمایاں ہوئے۔ مغربی تحریکوں نے اردو شعرا کو بہت متاثر کیا اور انھوں نے
مغربی ادب سے نہ صرف موضوعات لیے بل کہ نظم کی صنف میں بہت سے نئے
تجربات بھی کیے۔ ان شعرا کی نظموں پر مغربی شعرا کے اثرات بڑے واضح ہیں۔ انھوں
نے آزاد نظم کے سانچے کو بڑی مہارت سے استعمال کیا اور آزاد نظم کو موجودہ
مقبولیت تک النے میں اہم کردار ادا کیا۔
برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی ترقی پسند تحریک بھی تقسیم ہو گئی۔ پاکستان میں
اس تحریک سے وابستہ شعرا میں فیض احمد فیض ،ندیم قاسمی ،ظہیر کاشمیری اور قتیل
شفائی وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ترقی پسند تحریک نے اپنے خیاالت کے اظہار کا ذریعہ
نظم کو بنایا۔ فیض نے اپنے دھیمے اسلوب ،ایمائی انداز ،نرم لہجے سے نظم کو نیا انداز
دیا۔ انھوں نے کئی ایسی نظمیں لکھیں جو اردو نظم کے سرمائے میں نمایاں اہمیت کی
حامل ہیں۔ فیض نے نظم کو اختر شیرانی کی محدود رومانیت سے نکال کر اسے نئی
عرفان کائنات تک پھیال دیا
ِ جہتوں سے روشناس کیا۔ ''اس نے عرفان ذات کی حدود کو
اور اپنے ذاتی غم کو کائناتی غم میں مبدل کرنے کی کوشش کی۔''()١٥
قیام پاکستان سے چند برس پہلے عمل میں آیا اور جلد ہی اسے ب ذوق کا ِحلقہ اربا ِ
ایک رجحان ساز ادبی انجمن سمجھا جانے لگا۔ حلقے کی تعمیر و ترقی میں میرا جی کی
ب ذوق کے شعرا کی نظم کا خاصہ ہے۔ میرا خدمات ناقاب ِل فراموش ہیں۔ داخلیت حلقہ اربا ِ
جی ،یوسف ظفر ،مختار صدیقی اور قیوم نظر حلقے کے اہم ترین نمائندے تسلیم کیے
گئے۔ ر یاض احمد بھی حلقہ ارباب ذوق سے منسلک تھے مگر یہ حلقے کے دیگر شعرا
کی طرح نمایاں نہ تھے۔ اس کے باوجود ١٩٦٣ء میں ان کی نظم ''جب سرد ہوا چلی'' کو
حلقہ ارباب ذوق کی بہترین نظم قرار دیا گیا۔
مکتبہ فکر کی طرف رہا اور انھوں نے
ٔ تنقید میں ریاض احمد کا رجحان نفسیاتی
خارجی موضوعات کے برا ِہ راست اظہار کو اتنی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا مگر
ریاض احمد کی نظموں میں خارجی موضوعات کا عکس بھی بڑا واضح دکھائی دیتا ہے۔
دہان زخم میں کچھ نظمیں تو خارجی موضوعات کے تحت لکھی ِ ان کے مجموعہ کالم
گئی اور کچھ نظمیں داخلی موضوعات کے تحت لکھی گئی۔ گویا ریاض احمد نے نظم کو
نئے رنگ اور نئے موضوعات کے ساتھ پیش کیا اور ان میں جو واقعات بیان کیے ان
انداز سخن میں طبع آزمائی
ِ میں مبالغہ آرائی اور مافوق الفطرت عناصر کی بجائے جدید
کی۔ ڈاکٹر اسلم رانا لکھتے ہیں:
ب ذات کی پیداوار ہیں ،ان کے مقابلے میں وہ نظمیں، ''وہ نظمیں جو خالصت ًہ آشو ِ
ب شہر کی کیفیت رکھتی ہیں ،اس اعتبار سے بھی ممیز کی جا سکتی ہیں کہ پہلی جو آشو ِ
قسم کی نظموں میں احساس اور نفسیاتی کیفیت کا الجھاؤ زیادہ نمایاں ہے۔ خارجی حاالت
سے متعلق منظومات میں ،بھی بالواسطہ اظہار کا پردہ موجود ہے لیکن جب اس قسم کی
عالمات ایک دفعہ موضوع پر منطبق ہو جائیں تو پھر یہ الجھاؤ باقی نہیں رہتا۔ ان
عالمات کے انتخابات میں شاعر نے کالسیکی داستانوں کے بعض تصورات کا سہارا لیا
ہے۔''()١٦
ریاض احمد نے کالسیکی داستانوں کے تصورات کو نئے معانی بھی پہنائے۔ انھوں
مکتبہ فکر کو اپنے
ٔ نے اپنی شاعری میں سوچ کے کسی خاص اسلوب یا کسی خاص
ردِعمل کا شعوری محرک بنانے کی بجائے کیفیت کی ذاتی نوعیت کو ترجیح دی یعنی
مکتبہ فکر کی پیروی نہیں کی۔ یہی وجہ
ٔ ریاض احمد نے نظم لکھتے وقت کسی خاص
دہان زخم میں کچھ نظمیں داخلی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے کہ اُن کے مجموعہ کالم ِ
ب شہر کے عنوان کے تحت ہیں۔ ہیں تو کچھ خارجی موضوعات کا۔ جبکہ کچھ نظمیں آشو ِ
یہ نظمیں اگرچہ تعداد میں زیادہ نہیں مگر موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح پر انفرادیت
کی حامل ہیں۔
مروجہ
ب ذات سے منسلک ہے ،اس میں ّ دہان رخم کی پہلی نظم ''محبت'' جو آشو ِ
ِ
جذباتیت سے گریز کا رجحان بڑا واضح دکھائی دیتا ہے۔ اس نظم میں انھوں نے اُس
طلسماتی کیفیت کی شکست کا نقشہ کھینچا ہے جو حسن و عشق کے تصورات سے جنم
لیتا ہے۔ اُن کے نزدیک اس کی حقیقت ایک جسمانی تشنگی سے زیادہ کچھ بھی نہیں:
جسم نازنین سے
ِ مجھے نفرت ہے تجھ سے تیرے
اور ہر شے سے
ہم آغوشی کی لذت کا تصور ذہن میں نقشہ جماتا تھا۔ ()١٧
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاض احمد کو جسمانی محبت سے دلچسپی نہیں ہے،
اس کے مقابلے میں وہ روح سے محبت کو فوقیت دیتے ہیں۔ یہ نظم بھی آزاد نظم کی
لیلی کی تلمیحات کا بڑا
تکنیک میں لکھی گئی۔ اس نظم میں ریاض احمد نے شیریں اور ٰ
تکرار لفظی کا استعمال بھی ملتا ہے۔
ِ برمحل استعمال کیا ہے۔ اس کے عالوہ اس نظم میں
انھوں نے ایک مصرع میں ایک ہی لفظ کو تین مرتبہ لکھا:
مگر یہ تشنگی یہ تشنگی یہ تشنگی میری
دوسری نظم ''جسم'' بھی پہلی نظم کا تسلسل ہے۔ اس نظم میں ریاض احمد یہ باور کرانا
چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر شخص اپنے جسم سے پہچانا جاتا ہے مگر ساتھ ہی وہ جسم
کو ایک سراب سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جسم سے اگرچہ انسان
کی پہچان بنتی ہے مگر اصل چیز انسان کی روح ہے۔ ہر انسان کی اصلیت روح کے
اندر چھپی ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے کو محض جسم کی بنا پر جانتے ہیں اور جسم کی
بنا پر چاہتے ہیں یعنی جسم محض پہچان کا ذریعہ ہے۔ اصل چیز جو ہمیشہ رہ جانے
والی ہے وہ روح ہے اور ریاض احمد کو روح سے محبت ہے۔
ریاض احمد نے نظم کا آغاز جسم کی اہمیت بیان کرنے سے کیا ،پھر وہ روح کی
اہمیت کو بیان کرتے ہیں کہ روح ہے کیا:۔
تیری روح
تیری روح جما ِل معنی کا اک پرتَو ہے
اک چھل بل روپ ()١٨
تکرار لفظی کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ یہ نظم
ِ اس نظم میں ریاض احمد نے
بھی جدید ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ نظم جسم کی اہمیت بیان کرنے
کے لیے ہو گی مگر نظم کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ریاض احمد جسم
کی بجائے روح کی اہمیت بیان کر رہے ہیں۔ اس نظم میں بھی گذشتہ نظم کی طرح خطاب
کا انداز پایا گیا ہے۔
نظم ''کہانی'' کو بھی ریاض احمد نے جدید نظم کی ہیئت میں لکھا ہے مگر اس میں
انداز بیان پایا جاتا ہے۔ اس کہانی کے مرکزی کردار نسوانی ہے۔ ان میں سے
ِ داستانوی
ایک کردار محبت کے عمل سے گزر رہا ہے تو دوسرا کردار فراق کے غم میں جل چکا
ہے۔ ایک کردار دوسرے کردار کو بتاتا ہے کہ محبت ہے کیا۔ محبت شروع میں پھولوں
کی سیج لگتی ہے لیکن وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ یہ کانٹوں کا بستربن جاتی ہے۔ نظم
کی کہانی ڈرامائی رنگ لیے ہوئے ہیں جس میں خوشیوں کی روشنی بھی ہے اور یاسیت
کے اندھیرے بھی۔
روشنی ،اندھیرا ریاض احمد کے خاص استعارے ہیں۔ اس نظم میں بھی انھوں نے
امید کو روشنی اور یاسیت کو اندھیرے سے مستعار کیا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار اپنے
آپ کو کسی پرانی داستان کی شہزادی کے روپ میں اپنے خواب و خیال میں اپنے
محبوب سے ملن کا تصور باندھتی ہے مگر دوسرا کردار سمجھتا ہے کہ ہر عورت
(شہزادی) کا مقدر انتظار ہے اور وہ ہمیشہ اپنے محبوب کا انتظار ہی کرتی رہے گی
مگر محبوب ان راہوں سے کبھی نہ گزرا اور نہ گزر سکے گا۔
نظم ''کہہ مکرنی'' میں اسی بات کو نرگسیت کے روپ میں دکھایا گیا ہے کہہ
صنف شاعری ہے۔ یہ نظم ریاض احمد نے خالص ہندوستانی فضا میں لکھی ِ مکرنی ایک
ہے اور اس میں ہندی لفظیات کا استعمال بھی کیا ہے جیسا کہ دیوی ،جھانجھن ،دیوداسی،
درشن ،سکھیُ ،رت ،دیپک ،من ،پجارن ،پوجتی وغیرہ۔ یہ نظم عشق و محبت کے جذبات
سے لبریز ایک دیوی کی کہانی ہے جو بہار کے موسم میں آنکھوں میں کاجل لگائے،
ہونٹوں پہ نغمہ سجائے آئینے کے سامنے کھڑی سوچ رہی ہے کہ میرے ساجن کب آئیں
گے۔ اُن کے آنے سے میری آنکھوں کی خوبصورتی بڑھ جائے گی۔ میرے ہونٹوں پر
مسکان آ جائے گی۔
پھر یکایک سین بدلتا ہے اور وہ دیوی جو محبوب کے درشن کو ترس رہی ہوتی
ہے ،وہ سوچتی ہے کہ محبوب تو میرے اندر میری روح میں سما چکا ہے۔ میں اسے
کہاں تالش کرتی پھر رہی ہوں ،میرا ساجن مرے من میں بستا ہے۔ اب کوئی دن یا رات
ایسی نہیں ہوتی جب میں اپنے ساجن پہ واری نہ جاؤں۔ دنیا کے سامنے وہ آئیں یا نہ آئیں،
اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ اب میرا ساجن میرے من میں بستے ہیں لیکن
نظم کے آخری مصرعوں میں بہار کی یہ دیوی پھر سے افسردہ ہو جاتی ہے اور سوچتی
ہے کہ ساجن کے درشن کی تمنا میری جھوٹی تھی اسی لیے تو ساجن لوٹ کے نہیں آئے
کیوں کہ میں ساجن کو پوجنے کی بجائے اپنے ہی من کی پجارن بنی رہی:
لیکن اِک آواز آتی ہے
اور مجھ سے کہتی ہے
کہ میں دیوداسی تھی
لیکن مری کوئی دیوی تو تھی ہی نہیں
میں اپنی پجارن تھی
میں اپنے ہی روپ کو پوجتی تھی
میں دیوداسی تھی()١٩
ریاض احمد نے مندرجہ باال نظم خود کالمی کے انداز میں لکھی۔ اس نظم میں
تکرار لفظی بہت ہے۔ یہ نظم ریاض احمد نے خالص ہندوستانی
ِ گذشتہ نظموں کی طرح
فضا میں گیت کے انداز میں لکھی ہے کہ کیسے ایک کنواری لڑکی اپنے محبوب کے
انتظار میں بنتی سنورتی اور بگڑتی ہے۔ یہ نظم ریاض احمد کی اپنی مٹی ،تہذیب اور
فضاؤں سے محبت کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
انداز شاعری میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں ریاض احمد
ِ نظم ''واپسی'' بھی جدید
محبت کا فلسفہ بیان کرتے ہیں ،ان کے نزدیک محبت ایک چاہ الحاصل ہے اس لیے خود
کو محبت میں گم نہیں کرنا چاہیے بل کہ دنیا کی طرف پلٹ آ جانا چاہیے۔
اس نظم میں ریاض احمد نے محبت کو خوشبو سے استعارہ کیا ہے جیسے خوشبو
کا احساس آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے ،ایسے ہی محبت بھی دھیرے دھیرے بوجھل ہوتی
جاتی ہے ۔ اس لیے خود کو محبت کے احساس میں گم نہیں کرنا چاہیے اور شام کے
سائے گہرے ہونے سے قبل واپس لوٹ آنا چاہیے۔
اگلی ''نظم واپس آتے ہوئے '' بھی گذشہ نظم کا تسلسل ہے۔ اس نظم میں شہر کی
گلیوں سے گزرتے ہوئے کسی معروضی تجربے کی ذہنی بازگشت ہے۔ پہلی نظم
''واپسی'' میں تو بات صرف اتنی بیان کی گئی کہ گھروں کے آنگن میں کھلنے والی رات
کی رانی کی خوشبو پوری گلی میں پھیل جاتی ہے۔ یہ خوشبو کسی رومانی کیفیت کو پیدا
کرنے کا بہانہ بنتی ہے لیکن گلی کے موڑ تک پہنچتے پہنچتے خوشبو راہرو کا ساتھ
چھوڑ دیتی ہے اور یوں اس کے رومانی تصورات ایک بوجھل پن مینڈھل جاتے ہیں۔ نظم
''واپس آتے ہوئے'' گزشتہ نظم کا تسلسل ہے جس میں منظر مزید واضح ہو جاتا ہے جو
سی تصورات اس نظم میں استعمال کیے گئے ہیں۔ ان سے کہانی کچھ یوں بنتی ہے کہ ح ّ
ایک تاریک سرد رات میں کوئی شخص کسی گلی سے گزر رہا ہے۔ کھڑکیوں اور
دروازوں سے روشنی کی شعاعیں گلی میں نور و ظلمت کا بالترتیب نقشہ پیش کرتی ہیں۔
احساس تنہائی
ِ ریاض احمد نے اس نظم ''واپس آتے ہوئے'' میں اداسی ،اجنبیت،
اور جوانی کے کرب کو بیان کیا ہے۔ اس نظم کو انھوں نے چار حصوں میں تقسیم کیا
ہے۔ پہلے حصے میں صحرائے محبت میں بھٹکتے ہوئے مسافر کی کہانی بیان کی ہے
جسے ہنوز اپنی منزل نہیں مل سکی۔ یہ شخص شہروں سے بھی بیزار ہے جہاں ہر
شخص اپنی زندگی آپ جیتا ہے اور ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہے۔ شہروں میں لوگوں
کا کثیر ہجوم ہے مگر دل سب کے ویران اور تنہا ہیں ،اسی لیے یہ مسافر صحرا میں
بھٹکتا ہے اور فرار کی راہ تالش کرتا ہے۔
دوسرے بند میں ریاض احمد نے رات کی منظرکشی کی ہے۔ انھوں نے رات کو
مایوس روح سے تشبیہہ دی ہے اور نور کو نازک بدن چنچل حسینہ سے انھوں نے گلی
سے گزرتے ہوئے مختلف آوازوں کو راہرو کے الشعور یا تحت الشعور میں دبی ہوئی
خواہ شیں کہاہے جس سے حلقہ عشاق سے بھاگی ہوئی حسینہ کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے
لیکن نور کی شعائیں اور آوازوں کی یہ لہریں راہرو کو مزید بھٹکا دیتی ہیں ،اُسے منزل
کی طرف لے کر نہیں جاتیں۔ ان گھروں میں اس کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں چناں چہ نور
کی کرنوں کو اور اٹھتی ہوئی تان کو اندھیرے کا عفریت نگل لیتا ہے۔ ریاض احمد کے
بقول اس دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ،اسی نور وظلمت کے طفیل وقوع پذیر ہو رہا
ہے:
اور یہاں اس نور و ظلمت کے طفیل
زندگی کا ہر شعور
زیست کا ہر اعتبار
اور ابعا ِد ثالثہ کا طلسم
خواب بن کر رہ گیا ہے ()٢٠
تیس رے بند میں اجنبی کو پراسرار تان سے تشبیہہ دی ہے جو اپنی منزل کی تالش میں
کبھی وادیوں میں اور کبھی پہاڑوں میں بھٹک رہا ہے۔ وہ ایک گلی سے دوسری گلی تک
جاتا ہے کہ کاش! اُسے اس کی منزل یعنی عشق مل جائے۔ ریاض احمد نے عاشق کی اس
سی تصور کی صورت کیفیت کو ٹوٹتی لے ،ایک زخمی تان اور ہکالتے سرور کے ح ّ
میں بیان کیا ہے۔ چوتھے بند میں عشق کا مسافر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اُسے اُس کی
منز ِل عشق مل جائے مگر اس کی دعا قبول نہیں ہوتی جس سے وہ نااُمید ہو جاتا ہے اور
اس کے حوصلہ ٹوٹ جاتے ہیں لیکن وفا کے اِس مسافر کی امیدپروری ختم نہیں ہوتی۔
اپنی گذشتہ نظموں کی طرح ریاض احمد اس نظم میں بھی عشق کو الحاصل قرار دیتے
ہیں۔
حرف اضافت کا استعمال کیا ہے
ِ اس نظم میں ریاض احمد نے فارسی لفظیات اور
انداز بے پروا،
ِ جور گردش،
ِ بار عصیاں،
ت فرارِ ،نقش پا ،سم ِ
ت مضحلِ ، جیسے کہ سکو ِ
ت تضاد ،دھوپ ت سیاہ وغیرہ۔ پھر صنع ِفراز عرش ،عفری ِ
ِ ت وجود،
پیکر ظلمت ،اعتبارا ِ
ِ
چھاؤں ،نورو ظلمت ،قہقہے اور ہچکیاں کا استعمال کرتے ہوئے ریاض احمد اس دنیا کی
بے ترتیبی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے عالماتی انداز اختیار کرتے ہوئے اس دنیا
تصورات کو بڑے
ّ کی ناپائیداری کا تذکرہ کیا ہے۔ اس ساری نظم میں سمعی اور بصری
انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
ِ معنی خیز
اگلی نظم ''آئینہ'' کے عنوان سے لکھی گئی ہے۔ آئینہ ابتدا ہی سے شاعری میں اہم
ت عشق و تصوف کی اصطالحات کا بھی حصہ رہا اور جذبا ِ ّ ذریعہ اظہار رہا ہے۔ یہ
محبت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ عام طور پر آئینے کے بیان میں عاشق اور معشوق
دونوں کا ذکر ہوتا ہے مگر ریاض احمد نے اس نظم ''آئینہ'' میں صرف اپنی ذات کو
سوز دروں کو واضح کیا ہے:
ِ مرکز نگاہ بنا کر
ِ
میرے چہرے پر ہنسی یوں اجنبی سی لگ رہی تھی
جیسے کوئی اور تھا ،وہ میں نہ تھا ()٢١
ریاض احمد کے نزدیک آئینہ خود سے مالقات کا ذریعہ بھی ہے۔ شاعر تحلی ِل نفسی کر
رہا ہے کہ میرے ذہن میں کیا چل رہا ہے اور آئینہ کیا بتا رہا ہے۔
''فسون شب'''' ،سحر ہونے تک''،
ِ ''اس لمحے کو روکو'' ''،لمحے کے آئینے میں''،
''ادھیڑ عمری'' '' ،میری زندگی'''' ،نوحہ گر'' ان نظموں کا بنیادی موضوع ایک ہے۔ ان
رنگ سخن سےِ میں ایک خوفزدہ شخص کا تصور ابھرتا ہے۔ جو ناصر کاظمی کے
مماثلت رکھتا ہے مگر ریاض احمد کا پیرائیہ اظہار جدیدیت کو لیے ہوئے ہے۔ ان نظموں
کے کردار اک انجانے خوف کے باعث اپنے مستقبل سے خوف زدہ ہے اور ماضی یا
ب وقت کے عنوان کے تحت لکھی حال میں پناہ لینے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ نظمیں آشو ِ
گئیں۔ نظم ''اس لمحے کو روکو'' میں ریاض احمد محبت کے فلسفہ کو بیان کرتے ہیں کہ
محبت وقت کی پابند نہیں ہوتی بل کہ محبت میں وقت تھم جاتا ہے۔ محبت میں انسان اپنی
دنیا میں جیتا ہے۔ اس میں بار بار پرانے زخم ملتے ہیں۔ اس نظم کو انھوں نے پانچ
حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے بند میں ریاض احمد محبت کے لمحات کو اپنی مٹھی میں
بند کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے بند میں وہ تشبیہات و استعارات کا استعمال کرتے ہوئے
سرخ زبان سے ڈسنا چاہتا محبت کو زہریلے ناگ سے تشبیہہ دیتے ہیں جو ہر وقت اپنی ُ
ہے۔ ان کے نزدیک محبت میں ایسے بھی لمحات آتے ہیں جب ہر طرح کی اذیت ختم ہو
عالم برزخ کی تالش میں نکلتا ہے:
جاتی ہے اور انسان ِ
بیتے لمحوں کا رستہ ُرک جائے گا
آنے والے لمحوں کا رستہ رک جائے گا
اس لمحے کی اذیت بڑھتے بڑھتے
پر درد کسیلی خواب آلودہ لذت میں ڈھل جائے گی
اس لمحے کو روکو()٢٢
تیسرے بند میں ریاض احمد محبت کے لمحات کو سودو زیاں سے آزاد قرار دیتے
ہیں۔ وہ گذشتہ نظموں میں بیان کیے جانے واال محبت کا فلسفہ یہاں بھی دہراتے ہیں کہ
محبت چا ِہ الحاصل ہے۔ عاشق کے ذہن کو اجاڑ بیابان صحرا سے تشبیہہ دیتے ہوئے وہ
یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ دل کے آگے دماغ بے بس ہے۔ اسی لیے محبت کو
لمحات میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ محبت کے لمحات میں بس دکھ اور کرب ہے اور یہ
لمحات سودوزیاں کی الجھن سے آزاد ہیں۔
چوتھے بند میں ریاض احمد وقت کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وقت ہے کیا؟…
وقت بہتا دھارا نہیں ہے جو اپنے ساتھ خوشیاں مسرتیں بھی لے جاتا ہے اور نہ ہی وقت
پھیال ہوا ساحل ہے جس سے موجیں ٹکراتی ہیں اور واپس پلٹ جاتی ہیں۔ وقت اِک یاد
بھی نہیں ہے جس کے دامن میں فتنے سو جائیں بل کہ وقت تو اٹل حقیقت ہے ،وقت
ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
وقت فقط اک یاد نہیں
وقت اگر ہو یادوں کا خزینہ
آج کے فتنے اس کے دامن میں سو جائیں
آج کے بعد پھر کبھی سر نہ اٹھائیں ()٢٣
ت موسیقی اور موسیقیت کا ذکر کرتے ہیں۔ وقت پانچویں بند میں ریاض احمد آال ِ
ت موسیقی ہے جس کی تان کانوں میں گونجتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے وہ گویا آال ِ
وقت کی زمانی کیفیات کو ماضی ،حال ،مستقبل کو نوروظلمت سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ وقت
محض نور و ظلمت کا کھیل ہے ،اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ نظم کے آخر میں شاعر
کیفیت دوام چاہتا ہے کہ کاش ظلمت کا یہ کھیل ختم ہو جائے۔ ہر سو نور کا ہالہ ہو اور
ماضی ،حال ،مستقبل اس نور میں تھم جائیں۔
انسان نے اپنے شعور کی ابتدا ہی سے کائنات سے اپنے تعلق کی نوعیت سمجھنے
کی کوششیں شروع کر دی تھی اور اس کے ذہن میں اُبھرنے والے ان گنت سوالوں میں
سے ایک یہ بھی تھا کہ اس کی زندگی کی بقا کا دارومدار کن عوامل پر ہے۔ کیا وقت
ہمیشہ سے ہے یا اس کا کوئی نقطہ آغاز بھی ہے؟ اگر وقت کا کوئی جنم ہے تو موت بھی
ہو گی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وقت ساکن ہو اور ہم گزر رہے ہوں؟ اور اگر وقت بہہ رہا
ہے تو اس کا بہاؤ کس طرف سے کس طرف کو ہے؟ کیا وقت گھنٹوں ،دنوں ،مہینوں اور
سالوں میں قاب ِل تقسیم ہے یا پھر ماضی اور مستقبل صرف ذہنی کیفیات ہیں۔ انھی سب
سواالت کو ریاض احمد نے مختلف تشبیہات اور استعارات کے ساتھ نظم کیا ہے اور یہ
نتیجہ نکاال ہے کہ وقت کے لمحات کو کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ ازل سے ہے اور ابد
تک رہیں گے۔
اگلی نظم ''لمحے کے آئینے میں'' بھی پچھلی نظموں کا تسلسل ہے۔ اس نظم میں
ریاض احمد نے لمحے اور آئینے کے استعارے کا استعمال کیا ہے۔ خود شناسی کے
لمحات میں شاعر خود کو پرکھ رہا ہے کہ میں کیا ہوں۔ کیا میں وہ ہوں جو بظاہر آئینے
میں نظر آ رہا ہوں یا پھر میرے مختلف چہرے ہیں۔ ہر چہرہ دوسرے چہرے سے مختلف
ہے۔ اگرچہ یہ بے خبری کا عالم ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بے خبری میں بھی شاعر
کے احساسات جاگ رہے ہیں۔ شاعر نے آئینے کو دہکتی لو سے تشبیہہ دیتے ہوئے یہ
بتایا ہے کہ میرے خود شناسی کے احساسات مجھے اندر سے جال رہے ہیں یعنی اذیت کا
تکرار لفظی
ِ باعث بن رہے ہیں اور انھوں نے احساس کو االؤ سے استعارہ کیا ہے اور
سے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ خود شناسی کیا ہے:
تمھیں بھی کوئی خبر نہیں ہے
مجھے بھی کوئی خبر نہیں ہے
کسی کو کوئی خبر نہیں ہے
مگر احساس کا االؤ سلگ رہا ہے
دہکتی لو ہے کہ آئینہ ہے ()٢٤
خود شناسی یا تحلی ِل نفسی کا یہ لمحہ زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے جب ارد گرد
کے لوگ بھی اجنبی دکھائی دیتے ہیں۔ شاعر نے یہ اجنبیت اس لیے بیان کی ہے کہ انسان
اپنے ذہن اور اس کے خیاالت سے خود تو آگاہ ہوتا ہے مگر دوسروں کے لیے یہ خیاالت
اور احساسات اجنبی ہوتے۔ نظم کے آخر میں شاعر وقت کو آئینے سے تشبیہہ دیتا ہے کہ
جس طرح ایک لمحے میں کئی قسم کے خیاالت ذہن میں آتے ہیں ،اسی طرح آئینے میں
بھی کئی ٹکڑے ہیں۔ ہر ٹکڑے میں ہزار چہرے اور آئینے کے ہر ٹکڑے میں موجود
چہرے کا الگ سے بہروپ ہے۔
گذشتہ نظموں کی طرح اس نظم میں بھی شاعر نے لمحہ اور اذیّت کا اعادہ پیش
کیا ہے۔ اس نظم میں بھی اذیت کا لمحہ اپنی شدّت کھو چکا ہے۔ یہانریاض احمد نے سیاق
تکرار لفظی اور تشبیہات و استعارات کا بڑا برمحل اور مناسب استعمال کیا ہے۔
ِ االعداد،
صے میں زندگی کے نشیب و فراز صے ہیں۔ ہر ح ّفسون شب'' اس نظم کے چھ ح ّ ِ ''
بازار
ِ مختلف لوگوں کی زبان سے بیان کیے گئے ہیں لیکن منظر ایک ہی ہے ،وہ ہے
بازار حسن ہماری تہذیب کا اہم حصہ رہا
ِ ُحسن ،جس میں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔
بازار حسن سے تہذیب جنم لیتی ہے مگر تہذیب سے
ِ ہے۔ بعض مفکرین کا کہنا ہے کہ
بازار جنم نہیں لیتا۔
ت مراة النظیر کا استعمال کرتے ہوئے رقص نظم کے پہلے حصے میں شاعر صنع ِ
ت موسیقی کا بیان کرتا ہے کہ کیسے دھیمے ،مدھم ساز اور شمعوں کی روشنی اور آال ِ
میں خواب جالئے جاتے ہیں۔ یہاں لفظ بھی سہمے ہوئے ہیں اور یہاں کی فضا بھی
غمگین ہے۔ یہاں زندگی کا مفہوم خوف میں الجھا ہوا ہے۔ یہاں جسم ناچ تو رہے ہیں لیکن
یہ جسم سایوں کی طرح بے جان ہیں ،کوئی نہیں بتا سکتا کہ ظلم کا دور کب ختم ہو گا؟
ریاض احمد نظم کے اس حصے جس کا عنوان ''پس منظر ہے'' میں تہذیب کی تنزلی اور
زبوں حالی کو بیان کرتے ہیں۔ یہاں اُن کے لہجے میں دکھ کی کسک ہے۔ یہاں رات کو
انھوں نے تاریکی ،تنزلی اور موت سے استعارہ کیا ہے۔
صہ جس کا عنوان ہے ''مغینہ گاتی ہے '' گیت کے انداز میں پیش
نظم کا دوسرا ح ّ
کیا ہے ،اس حصے میں ٹیپ کے مصرعوں میں ایک نسوانی لہجے میں زندگی کا کرب
بیان کیا گیا ہے۔
''دکھ ہے اک سنگین حقیقت… دکھ کا دارو کوئی نہیں ہے
آنکھ میں آنسو کوئی نہیں ہے …آنکھ میں آنسو کوئی نہیں ہے۔''()٢٥
شاعر کے نزدیک دکھ اس دنیا کی سب سے اٹل حقیقت ہے ،اسی لیے وہ دکھ کو
خوشی کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ دکھ ہی انسان کو آگہی دیتا ہے اور اس کا مداوا
کوئی نہیں کر سکتا۔ اس حصے میں ریاض احمد نے ہندی لفظیات کا استعمال کیا ہے،
جیسے کہ دارو،چھایا ،سپنوں کی مایا وغیرہ۔
نظم کا تیسرا حصہ ''ایک آواز'' کے نام سے بیان کیا گیا ہے ،اس حصے میں ایک
اور مغینہ کی زبان سے زندگی کے دکھ اور کرب کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہاں انھوں نے
گیت کو زہر س ے استعارہ کیا ہے اور مچلتی ناگن کو ناچنے والی کے جسم سے۔ ریاض
احمد مختلف جذبوں کو بیان کرتے ہوئے یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ بعض اوقات
موسیقی بجائے سکون دینے کے ،دکھ اور زہریلے احساسات سے بھر دیتی ہے اور رقص
میں اندرونی خلش اور الجھنیں مجسم صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسے میں موت کی
خواہش بھی خود کو فریب دینے کی کاوش ہے کیوں کہ جسے زندگی میں سکون نہیں مل
سکا ،اُسے مرنے کے بعد کیسے سکون ملے گا۔ یہ خواہش استاد ابراھیم ذوق کی اس
خواہش سے ملتی جلتی ہے:
اب تو گھبرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
نظم کا چوتھا حصہ''ایک اور آواز'' کے عنوان سے نظم کیا گیا ہے۔ اس حصے میں
ریاض احمد نے رات کو ظلمت سے تشبیہہ دی ہے اور آسمان کو چیرتی وادی کے مزار
سے۔ نور و ظلمت ریاض احمد کے مخصوص استعارے ہیں۔ یہاں بھی انھوں نے اس کا
ساحر شب کے جادو کو
ِ استعمال کرتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ ننھی پریاں کبھی بھی
نہیں توڑ سکتیں۔ یہاں پر تاریکی اور اجالے کا آپس میں موازنہ کیا گیا ہے۔ رات کو
تہذیب کے زوال اور صبح کو تہذیب کے عروج سے استعار کیا گیا ہے مگر اگلے
مصرعے میں شاعر کی طرف سے متضاد بیان آتا ہے۔ پہلے تو وہ رات کے فسوں میں
مدہوش ہوتا ہے اور یہ آرزو ہوتی ہے کہ رات کب ختم ہو گی اور دن کا آغاز کب ہو گا
مگر پھر یکایک الٹ بیان دیتا ہے کہ صبح کیا دے گی جو رات نہ دے سکی۔
یوں ریاض احمد ایک طنزیہ لہجے میں معاشرے کے دکھ کو بیان کرتے ہیں کہ
ہمارے دکھ کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا۔ ہر نئے آنے واال دن اس دکھ میں مزید اضافہ
کرتا ہے ،اس لیے رات کو مور ِد الزام ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہے رات تو شاید کچھ لمحوں کا
سکون دے دیتی ہو مگر دن میں تو ہر لمحہ اذیت ہے:
ہنگامہ فردا کا حریف
ٔ کون ہو سکتا ہے
بے اماں نور کا سیالب سوا نیزے پر
کرنیں جیسے کسی جاسوس کی عیار نظر
انداز سکوں
ِ رات کی سست روی میں ہے اِک
دوستو ،ہم نفسو ،رات کو الزام نہ دو ()٢٦
نظم کے آخری حصے میں ریاض احمد ایک مسخرے کی زبان میں تمام دکھوں
کے حل کا مداوا پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ شام و سحر کا چکر ختم ہو جائے تو اس دنیا
کے دکھ ختم ہو جائیں یعنی ہر کوئی بس حال میں زندہ ہو اور آج کبھی کل نہ بنے۔ ریاض
احمد کی پچھلی نظم ''لمحے کو روکو'' میں بیان کی جانے والی خواہش اس نظم میں بھی
دکھائی دیتی ہے کہ ماضی ،حال اور مستقبل کی کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے بس لمحہ
موجود یعنی حال ہونا چاہیے جس میں آسودگی ہو اور کسی قسم کا سودوزیاں نہ ہو۔
'' سحر ہونے تک'' کا موضوع بھی قدرے پیچیدہ ہے اور مختلف بندوں کو پس
منظر اور پیش منظر کے ذیلی عنوان کے تحت تقسیم کر کے ایک دوسرے سے جدا کیا
گیا ہے۔ اس نظم میں بھی اُسی خوف زدہ انسان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنے
مستقبل اور انجام کے خوف سے سہما ہوا ہے۔ پس منظر میں اس کے تحت الشعور میں
خوف ہے اور پیش منظر میں اس کے حال کا شعوربے سکون ہے۔
اس نظم کے پس منظر میں ایک ہنستے بستے گھر کی کہانی پیش کی گئی ہے
جس میں خوب صورت عورتوں کے قہقہے گونجتے ہیں۔ ان کے لبوں کو پھول سے اور
آنکھوں کو چمکتے ستاروں سے تشبیہہ دیتے ہوئے ریاض احمد ان خوبصورت عورتوں
کو گھروں کی رونق کہتے ہیں۔ پھر یکایک منظر بدلتا ہے اور موت کا انجانا خوف تحت
الشعور میں جاگتا ہے اور اس منظر کو فنا کی آغوش میں دھکیل دیتا ہے کہ کہیں ان
پھول سے نازک بچوں کو اندھیرے کا ناگ ڈس نہ لے۔ یہاں ریاض احمد موت کو تاریکی
سے استعارہ کرتے ہوئے منظر کو مزید دہشت ناک بتاتے ہیں۔
نظم کے دوسرے حصے میں ریاض احمد کہانی کا پیش منظر بیان کرتے ہیں اور
حال کی بیزار کن کیفیت کو ایک گرم حبس زدہ شام کے استعارے کی صورت میں پیش
کرتا ہے۔ پھر پروا کے جھونکے آتے ہیں لیکن خوف زدہ انسان ان سے کسی طور
مطمئن نہیں ہوتا کیوں کہ اس کے ذہن میں خوف بھرا ہوا ہے اور اُسے معلوم ہے کہ
سرت کے عارضی لمحے ہیں۔ صبح ،دوپہر ،شام، ٹھنڈے ہوا کے جھونکے بھولی بھٹکی م ّ
ماضی ،حال ،مستقبل سب کے سب اذیّت میں ہیں ،امید کی کوئی کرن نہیں۔
ت تذبیح کا ذکر کرتے ہوئے ایک اندھے کے خواب کا ذکرکرتے ریاض احمد صنع ِ
ہیں ،اس خواب کا تانا بانا رنگوں سے بُنا گیا ہے۔ اندھے رنگوں سے ہولی کھیلنے کی
بے معنی آرزو کرتے ہیں اور قسمت کی ناکامی کا نوحہ لکھتے ہیں:
میرے سامنے نیلے پیلے ،سبز ،سنہرے رنگوں کا ایک ڈھیر لگا ہے
اور میں اپنی اندھی آنکھوں سے
ان کو دیکھ رہا ہوں
میں جس رنگ کو سبز سمجھ کر اپنے ہاتھ میں لیتا ہوں
میرے ہاتھ میں آ کر کاال سا ہو جاتا ہے ()٢٧
یہ خواب گویا ایک طنز ہے اور اندھوں کا مجمع ایک ایسی قوم کا استعارہ ہے
جسے کھلونے دے کر بہالیا گیا ہے۔ اس اندھے کی آنکھ صبح کاذب جا کر کھلتی ہے۔
ریاض احمد نے صبح کی منظر کشی خوب کی ہے۔ نیم خوابیدہ شعور اور صبح کا نیم
روشن منظر باہم مال دیئے گئے ہیں مگر پھر وہی بیزاری اور خوف کی کیفیت بیان کی
گئی ہے اور انسان اپنے وجود کے متعلق سوچتا ہے کہ یہ کائنات کتنی کم مایہ ہے ،انسان
کا بے معنی عمل لفظ کی سولی پر لٹکی ہوئی مفہوم کی الش ہے لیکن جب یہ الش بھی
اٹھے گی تو گویا سارے راز فاش کر دے گی۔
آج لٹکے گی سوا نیزے پر ہرراز کی الش
آج کے بعد مکافات کے بھوت
رات کے سائے میں پیچھا نہ کریں گے کسی مجرم کا ((٢٨
اس نظم کی منظر کشی میں خالص ہندوستانی تہذیب ہولی اور نیلے پیلے سرخ ،سبز،
سنہرے رنگوں کو نظم کرتے ہوئے ریاض احمد قدرت کے ُحسن کی ثنائی بیان کرتے
تکرار لفظی سے معانی کی ِ تکرار لفظی ریاض احمد کی شاعری کا خاصہ ہے کہ وہِ ہیں۔
کئی جہات پیدا کر لیتے ہیں مگر اس نظم کا انجام گزشتہ نظموں کے انجام سے قدرے
مختلف ہے۔ گزشتہ نظموں میں ریاض احمد وقت کے تھم جانے کی تم ّنا کرتے ہیں تاکہ وہ
لمحوں کی اذیّت سے بچ سکیں البتہ اس نظم میں انھوں نے انسان کی بیداری کی تم ّنا کی
ہے تاکہ وہ لمحوں کی اذیّت سے بچ سکے اور اپنا حال ماضی سے اچھا بنا سکے۔
اگلی نظم ''ادھیڑ عمر'' کے عنوان کے تحت لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں سوکھے
ہوئے پیڑ کو ادھیڑ عمر شخص سے استعارہ کیا گیا ہے جو اپنے ماضی میں کھویا ہوا
ہے جس کے امیدوں کے شہر اور خوابوں کے محل محض یادیں بن چکی ہیں۔ یہ نظم
زندگی کے بے مصرف گزرنے کا نوحہ ہے اسی لیے بڑھاپے میں اب خوشی کی کوئی
امید باقی نہیں رہی۔ بس ویرانی ہی ویرانی ہے۔
یہ نظم بھی وقت کا نوحہ ہے۔ ماضی کی تلخ یادیں انسان کو بہت اذیت دیتی ہیں۔
ایسے میں شاعر یہ خواہش کر سکتا ہے کہ کاش وقت تھم جائے اور وہ ماضی میں کی
گئی غلطیوں کا ازالہ کر سکے۔
نظم ''میری زندگی'' میں ریاض احمد اپنی زندگی کو صحرا میں خود رو اُگنے
والے پودے کی مانند سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا خود رو پودا جس کو اپنی بقا کی تگ و دو
سر نہیں۔ ایسے میں ریاضخود کرنی پڑتی ہے کیوں کہ اُسے زندگی کی کوئی سہولت می ّ
احمد آسمان کی جانب امید سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ لمحہ کب آئے گا جب ان کی زندگی
کے دکھوں کا مداوا ہو گا اور وہ زندگی کی ہر آسایش سے لطف اٹھا سکیں گے:
سوچ رہا ہے
برف کبھی تو پگھلے گی…… پھر پھول کھلیں گے
میں بھی یونہی سوچتا ہوں
زیست کی برف کبھی تو آخر پگھلے گی ((٢٩
''نوحہ گر'' نظم بھی گذشتہ نظموں کا تسلسل ہے۔ یہ نظم بھی عمر کے بے مصرف
کف افسوس ہی ملتا ہے اور
گزرنے کا نوحہ ہے ،جب وقت گزر جاتا ہے تو انسان بس ِ
پھر اس کے پاس گزرے لمحے کو سنوارنے کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔ ریاض احمد کو
وقت ،صحرا ،درد ،نور و ظلمت الفاظ سے جیسے الفاظ سے خاص رغبت ہے اور
ب وقت'' کے عنوان کے تحت لکھی جانے والی ساتوں نظموں میں ان الفاظ کو بہت ''آشو ِ
زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔
'' میرے اپنے'' کے عنوان کے تحت لکھی جانے والی نظموں میں ریاض احمد اپنے
ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہیں۔ اس حصے میں ''ننھیال کا گاؤں''''' ،روایت'' اور''
اجنبی'' تین مختلف کہانیوں پر مشتمل نظمیں ہیں۔ پہلی نظموں میں وقت کے تھم جانے اور
حال میں رہنے کی تمنا کرنے والے ،ماضی اور مستقبل سے چھٹکارا پانے والے ریاض
احمد اس نظم میں ماضی کی یادوں میں گم نظر آتے ہیں۔ اس نظم میں وہ اپنے ننھیال کے
گاؤں کی منظرکشی کرتے ہیں کہ ان کا بچپن کیسا تھا؟ پھر وہ اپنے بزرگوں کی قبروں
کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ ایسی قبریں ہیں جن کے ورثا ً انھیں بھول چکے ہیں اور یہ قبریں
کسی کے آنے کی منتظر ہیں کہ کوئی آئے اور سرہانے بیٹھ کر چراغ جالئے اور پھول
چڑھائے لیکن راہی راستہ بھول گئے ہیں۔ یہاں راہی کو ورثا سے استعارہ کیا ہے۔
نظم ''روایت'' میں اسی بھٹکے ہوئے راہی کے لیے بالوا ہے ،اس نظم میں ریاض
احمد اپنے بھائیوں اور بیٹوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور انھیں یہ تنبیہہ کر رہے ہیں کہ
کبھی بھی اپنے ورثا کو نظرانداز نہ کرنا۔ اگرچہ اُن کے اور تمھارے درمیان وقت کی
بہت بڑی فصیل حائل ہے مگر میں تمہیں یہ بات باور کرانا چاہتا ہوں کہ تم اپنے بزرگوں
رویے اور تجربات نسل در نسل چلتے کی باتوں کو کبھی بھی نظرانداز نہ کرنا کیوں کہ ّ
ہیں اور بزرگوں سے نئی نسل میں منتقل ہوتے ہیں ان سے بڑا تمہارا کوئی خیرخواہ نہیں
ہے۔ ہو سکتا ہے وقتی طور پر تمھیں اپنے بزرگوں کی باتیں بُری محسوس ہوں مگر اس
پرسان حال نہ ہو گا،ایسا
ِ بات کا اندازہ تمھیں بعد میں ہو گا کہ اُن کے بعد تمھارا کوئی
کوئی نہینہوگا جو تمھیں اپنے گلے لگا کر تمھارے دکھ درد بانٹے ،اس لیے بہتر ہے کہ
تم اپنی مصروف زندگی سے کچھ فرصت کے لمحات نکال کر اپنے بزرگوں کے پاس
بھی بیٹھ جایا کرو۔
اگلی نظم ''اجنبی'' میں خاندان میں کسی نئے وجود کی آمد پر خوشی اور حیرت کا
اظہار کیا گیا ہے کہ چند دن پہلے تک جس وجود کا خاندان میں نام و نشان نہ تھا اب وہ
اجنبی چہرہ ہمارے اجداد کی میراث کا وارث بن بیٹھا ہے اور خاندان کا ہر فرد اس کی
نازبرداری میں مصروف ہے۔
''رشتے'' کے عنوان کے تحت لکھی جانے والی نظموں میں ''کشمیر'''' ،گم گشتہ''
بھائی سے جنگ'' '' ،نئے سال کی دعا'''' ،ابو محجن'' شامل ہیں۔ یہ سب نظمیں قومی اور
سیاسی کشمکش کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔ نظم ''کشمیر'' میں کشمیر میں بسنے
والی ماں ،بہن اور بیوی کی زندگی کی درد بھرے انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔ سب
سے پہلے کشمیری ماں کی عظمت کو سالم پیش کیا گیا ہے جس نے بیٹوں کو فخر سے
جینا سکھایا۔ پھر بہن کے کردار کو سراہا جس نے اپنے دوپٹے اپنے بھائیوں کے سروں
پر کفن کے طور پر باندھ دیئے تاکہ ان کے شملے اونچے رہیں۔ ریاض احمد استعاراتی
انداز اپناتے ہوئے کشمیری جوانوں کی بیویوں کے عظمت کے گن گاتے ہیں جنھوں نے
اپنے عروسی جوڑوں کو آگ لگا دی اور اپنے شوہروں کی ہر مشکل وقت میں حوصلہ
افزائی کی تاکہ وہ غاصبوں سے لڑیں اور شہادت کا رتبہ پا لیں۔
ریاض احمد کی یہ نظم کشمیر سے یکجہتی اور محبت کے جذبات کی عکاسی
کرتی ہے۔ اس میں حقائق کا بیان دکھ بھرے مگر حوصلہ افزا انداز میں کیا گیا ہے۔
نظم ''گم گشتہ'' منزل کی بجائے راستوں سے محبت کرنے والے جنون پیشہ کی
ق جنوں میں نکلےکہانی ہے۔ آزاد ہیئت میں لکھی گئی اس نظم میں ریاض احمد شو ِ
مسافر کی کہانی بیان کرتے ہیں:
مجھے تو راستوں سے عشق ہے
میرا اپنا راستہ کوئی نہیں ہے
پھر کوئی کہتا ہے اسے غو ِل بیاباں
نور جادہ کو مٹا دو
شمع منزل گل کر دو ((٣٠
ِ
انداز بیان اختیار کرتے ہوئے ایک ایسے
ِ تکرار لفظی کا
ِ ریاض احمد اس نظم میں
جنون سفر میں خود کو فنا کر دیا۔ وہ خود کو
ِ مہم ُجو کی کہانی بیان کرتے ہیں جس نے
سرکٹی الش تصور کرتا ہے جس کا دھڑ پانی میں پڑا ہے اور سر کہیں شاخ پر لٹکا ہے۔
کلمہ حق
ٔ یہاں ریاض احمد اُن لوگو ں کی نمائندگی کرتے ہیں جو ظالم سماج کے خالف
بلند کرتے رہے اور سر کٹواتے رہے۔
اظہار محبت کرتے ہیں اور
ِ ''بھائی سے'' اس نظم میں ریاض احمد اپنے بھائی سے
انھیں یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ دشمن مجھے اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا کہ
تکرار لفظی کا استعمال کرتے ہوئے ریاض ِ تمھاری بے ُرخی مجھے نقصان پہنچاتی ہے۔
احمد لکھتے ہیں:
دشمن کے وار کو سہہ جاتا ہوں
لیکن میرا بھائی جو مجھ کو
پھول بھی مارے
مر جاتا ہوں
مر جاتا ہوں
مر جاتا ہوں ((٣١
اپنوں کا دیا ہوا درد جان لیوا ہوتا ہے۔ ریاض احمد یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں اس
لیے انھوں نے یہ مصرع تین مرتبہ دہرایا۔ نظم کے دوسرے حصے میں ریاض احمد
ت تضاد کا استعمال کرتے ہوئے اپنے بھائی کو سمجھاتے ہیں کہ ہمیں دشمن کے صنع ِ
مقابلے کے لیے آپس کے جھگڑے چھوڑ کر ایک سیسہ پالئی دیوار بن جانا چاہیے۔ اگر
ہم آج بھی جدا جدا رہے تو دشمن ہمیں زیر کر دے گا۔ آخر میں وہ خدا سے دعا کرتے
ہیں کہ اے خدا! جب تک میری آخری سانس بھی باقی ہے مجھے ایک کانٹے کی مانند
دشمن کے سینے میں کھٹکنے کی توفیق عطا فرما۔
اس نظم میں ریاض احمد پہلے تو ایک ناصح کی طرح اپنے بھائی کو سمجھاتے
ہیں کہ ہمیں آپس کے جھگڑے اور نفاق ختم کر کے یکجا ہو جانا چاہیے۔ پھر وہ ایک
فریادی کی طرح خدا سے فریاد کرتے ہیں کہ اے خدا ہمیں دشمن پر فوقیت دے اور ہمیں
متحد کر دے۔
نظم ''جنگ'' قومی اور سیاسی کشمکش کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ اس میں
١٩٧١ء کی جنگ کے نتیجے میں ملنے والے گھاؤ کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ کیسے شہر
اور گاؤں اجڑ گئے۔ مگر انھیں اصل غم پاکستانی فوج کا ہتھیار ڈالنا اور دشمن کے
سامنے ذلت آمیر شکست کاتسلیم کرناہے۔
یونہی جھک جانا تھا
کٹ کے گر جاتا تو بہتر ہوتا
چڑھ کے سولی پہ ڈھلک جاتا تو بہتر ہوتا ((٣٢
ریاض احمد ١٩٧١ء کی اس عبرت ناک شکست پر انتہائی شرمندہ ہیں کیوں کہ یہ
بزدلی کانتیجہ تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں کیا سوچیں گی ،مستقبل کا
بطور تلمیح
ِ مورخ ہمارے بارے میں کیا لکھے گا۔ وہ بدر اور اُحد کے میدانوں کو
استعمال کرتے اپنی درخشاں تاریخ کو یاد کرتے ہیں۔ جب مسلمانوں نے بہادری اور
شجاعت کی مثالیں قائم کیں۔ پھر واقعہ کربال کا تذکرہ کرتے ہیں کہ حقیقی مسلمان تو وہ
تھے ،جنھوں نے شہادت قبول کی مگر جھکنا گوارانہیں کیا۔ مسلمان سالطین محمد بن
قاسم اور محمود کی یلغار کا تذکرہ کرتے ہوئے ریاض احمد انتہائی پرجوش ہو جاتے ہیں
کہ مسلمان سالطین تو وہ تھے جنھوں نے عرب اور عجم پر حکمرانی کی۔ مگر موجودہ
مورخ اس باب میں اب کیا لکھے گا۔ اس کے قلم سے لکھے گئے حروف داغِ ندامت بن
جائیں گے ،اس لیے ریاض احمد نوحہ کناں ہیں:
مجھ کو بچا لو مستقبل کے مورخ سے
آنے والی نسلوں سے
مجھ کو ان سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو ان سے شرم آتی ہے ((٣٣
نظم کے دوسرے حصے میں ریاض احمد مشرقی پاکستان کو اپنے جسم کا ٹکڑا کہتے
ہیں اور غم زدہ ہیں کہ وہ اپنے بازو کو کھو کر کیوں کر زندہ رہ پائیں گے۔ کاش کہ
دوحصے دوبا رہ سے ایک ہو جائیں۔ وہ جب دنیا کا نقشہ دیکھتے ہیں تو مشرقی اور
مغربی پاکستان کے درمیان میں کھنچی لکیر دیکھ کر ایک شعلہ ان کے سینے سے نکلتا
ہے جو ان کا سکون اور نیندیں غارت کر دیتا ہے۔ یہاں ریاض احمد نے شعلے ،آگ،
حرات کے تالزمات کا برمحل استعمال کیا ہے۔
صے میں ریاض احمد جنگ کی تباہ کاریوں کو نظم کرتے ہیں نظم کے آخری ح ّ
اور شہیدوں کی ماؤں ،بہنوں ،بیویوں اور بے سہارا باپ کا نوحہ لکھتے ہیں۔ وہ اس
کف افسوس ملتے ہیں جو یوں مارے گئے۔ ان شہدا کا شہید جنگ کے شہدا کی شہادت پر ِ
ہونا رائیگاں گیا کیوں کہ دشمن سیاسی چال چل گیا۔ اس طرح ریاض احمد اس شکست کو
سیاسی شکست قرار دیتے ہیں۔ یہ نظم ''گم گشتہ'' کا تسلسل ہے جس میں انھوں نے اپنے
بھائی کو نصیحت کی تھی کہ خدارا آؤ ہم ایک ہو جائیں ورنہ ہم شکست سے دوچار ہو
جائیں گے۔ ہمیں ہمارا دشمن تو شکست نہیں دے سکتا مگر ہمارا آپس کا نفاق ہمیں شکست
میدان جنگ
ِ سے دوچار کر دے گا۔ ١٩٧١ء کی جنگ کے متعلق بھی ان کا کہنا ہے کہ ہم
میں تو جیت گئے مگر ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی وجہ سے جنگ ہار گئے اس سے ان
ب اختیار کی بدولتکا واضح اشارہ شیخ مجیب الرحمان اور بھٹو کی طرف ہے کہ ان اربا ِ
اشک ندامت ہی بہا سکتےِ ہمیں سیاسی مات ہوئی۔ ایسے میں ہم بزدل عوام اپنی قسمت پر
ہیں کیوں کہ ہماری قسمتوں کے فیصلے ایوانوں میں بیٹھے حکمران کرتے ہیں۔
نظم کے آخری بند میں ریاض احمد اس ذلّت آمیز شکست کا دشمن سے بدلہ لینے
کی تمنا کرتے ہیں اور خطیبانہ انداز اپناتے ہوئے کہتے ہیں:
لیکن تم!
تم نفرت کے ان شعلوں کو
اور غصے کے ان جذبوں کو
سرد نہ ہونے دینا ((٣٤
تکرار لفظی کا بڑا مناسب
ِ ت اضافت اور
اس نظم میں ریاض احمد نے صنعت تلمیح ،صنع ِ
استعمال کیا ہے۔
اگلی نظم ''نئے سال کی دعا'' بھی گذشتہ نظم کا تسلسل ہے۔ نئے سال کی آمد پر
بھی وہ یہی دعا کرتے ہیں کہ اے ہللا ہمیں دشمن کو شکست دینے کی ہمت دے۔ جب تک
میرا دشمن زندہ ہے تُو میرے اندر کے وحشی انسان کو جگائے رکھنا اور میری تلوار کو
تیز اور مزید کاٹ دار بنا۔
نظم ''ابو محجن کہاں ہے'' میں بھی ریاض احمد ١٩٧١ء کی جنگ کی شکست پر
نوحہ کناں ہیں۔ اس میں وہ اپنے حکمرانوں کو کوس رہے ہیں جو شراب پی کے اوندھے
پڑے ہیں اور رات کی تاریکی میں عوام کی زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مائیں فریادی ہیں
جن کے بیٹے اس جنگ میں شہید ہوئے مگر ان کو انصاف دینے واال کوئی نہیں۔ کبھی
بہنیں نوحہ کناں ہوتی ہیں کہ ہمارے بھائیوں کا انتقام کون لے گا مگر افسوس اس وقت
کے حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بس اپنی حکمرانی کے نشے میں ُچور حکمرانی
میدان جنگ سورماؤں سے خالی پڑا ہے ،ہر سو اندھیرے اورِ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
ظلم کے سائے ہیں ،ایسے میں شاعر ابومحجن کو صدائیں دے رہا ہے کہ تم کہاں ہو؟ آؤ
اور ہماری شکست کا بدلہ لو۔
ت حاضرہ کے شہر آشوب'' کے عنوان کے تحت لکھی گئی نظموں میں حاال ِ
'' ِ
مسائل کی عکاسی کی گئی ہے خصوصا ً سیاسی حاالت کا تذکرہ بڑی تفصیل سے کیا گیا
ہے۔ زیادہ تر نظموں میں استعارے یا تلمیح کا سہارا لے کر موضوع کو پیش کیا گیا ہے۔
ت تلمیح کو
موسی'' کے عنوان کے تحت لکھی گئی جس میں صنع ِ ٰ پہلی نظم ''عصائے
استعمال کرتے ہوئے ریاض احمد قومی اداروں پر طنز کرتے ہیں جو اپنے دفتری اوقات
موسی علیہ السالم کے
ٰ خوش گپیوں میں صرف کرتے ہیں اور فارغ بیٹھے حضرت
ت حال میں ریاض احمد موسی'' کا انتظار کر رہے ہیں۔اس صور ِ
ٰ معجزے ''عصائے
تنہائی ،مایوسی اور کرب کا اظہار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے
بیٹھے دیکھ کرغمگین ہیں ،جو خود تو کوئی حرکت نہیں کرتے اور غیبی مدد کے انتظار
میں بیٹھے ہیں۔ ریاض احمد اُنھیں ایسے فتنہ پرور کہتے ہیں جو مسلمانوں میں مایوسی
ت تکرار کا استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:پھیال رہے ہیں۔ وہ صنع ِ
ساحران فتنہ گر
ِ یہ سامری یہ
جو شہر شہر سے اُمڈ کر آئے ہیں
کھڑے ہیں کس کے منتظر
یہ کس کے منتظر ہیں((٣٥
نظم ''مشورہ'' میں ریاض احمد استعاراتی انداز اپناتے ہیں۔ اس نظم میں انھوں نے
سہمی ہ وئی آواز کو ناصح سے استعارہ کیا ہے اور برائی کو بھونکتے کتوں سے ۔ کتوں
کے بھونکنے کی آواز اس طرح اونچی ہے کہ اس میں ناصح کی کمزور آواز دب جاتی
ہے۔ ناصح بار بار نصیحت کر رہا ہے کہ اٹھو اور اپنے مقدر کو اپنی محنت سے بدلو
مگر برائی کی آواز میں اس کی آواز دب کر رہ گئی ہے کیوں کہ برائی پکار پکار کر
کہہ رہی ہے سو رہو ،سو رہو۔ ریاض احمد اس نظم میں خوابیدہ قوم سے مخاطب ہیں کہ
دشمن کے کہنے میں آ کر اپنی زندگی برباد نہ کرو بل کہ اٹھو اور اپنی زندگی سنوارو۔
ت
ت تکرار کا نہایت برمحل استعمال کیا ہے جس سے ندر ِ اس نظم میں انھوں نے صنع ِ
معنی میں اضافہ ہوا ہے:
سو رہو ،سوئے رہو
تم سو رہو ،سوتے رہو ((٣٦
'' شاعر سے سوال'' نظم ایوب خاں کی وفات پر لکھی گئی۔ اس نظم میں ریاض
احمد ایوب خاں کے عروج و زوال کی کہانی پیش کرتے ہیں۔ وہ قاری کو یہ بتانا چاہتے
ہیں کہ انسان کچھ نہیں ہے ،سب کچھ اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ اگر کوئی نیک اعمال کر
جائے گا تو رہتی دنیا تک اس کا نام زندہ رہے گا۔ اگر کوئی حکمران بھی ہو مگر اس
کے اعمال اچھے نہ ہوں تو دنیا اُسے بھولنے میں دیر نہیں لگاتی۔ اس نظم میں وہ
شاعروں سے بھی سوال پوچھ رہے ہیں کہ ایوب خاں کی زندگی میں تو اس کی ہاتھوں
کی جنبش ،جبین کی شکن اور ہونٹوں کی لرزش کے متعلق بہت کچھ لکھتے تھے۔ اب کیا
ہوا ہے تمھیں؟ اس کی وفات پر تمھارے قلم کیوں خاموش ہیں۔ زندگی میں تو بہت سے
قصیدے لکھے۔ اب ایک مرثیہ لکھنا اتنا دشوار کیوں ہو گیا؟ یہ نظم انسان کے عمومی
رویوں کی عکاسی بھی کرتی ہے کہ ہر انسان چڑھتے سورج کا پجاری ہے۔ ڈوبے ہوئے
سورج کے متعلق کوئی سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔
نظم ''بے بسی'' میں بینا اور نابینا کے درمیان فرق بیان کیا گیا ہے۔ ریاض احمد
کے نزدیک نابینا وہ ہے جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی انجان ہو اور بینا وہ ہے جس
کے پاس آنکھیں نہ بھی ہوں مگر وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکے۔ انھوں نے
ایک اندھے کی کہانی نظم کی ہے جو قوت بصارت سے محروم تھا مگر اس کے اندر
قوت موجود تھی۔ وہ جو بھی کہتا سچ ہی کہتا۔ پھر
اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کی ّ
ایک دن اس کی آنکھوں کو بصارت مل گئی لیکن پھر اس نے جو بھی سوچا ،غلط سوچا
،جو بھی دیکھا غلط دیکھا۔ یہ نظم آنکھیں رکھنے والوں پر طنز ہے جو آنکھیں رکھنے
کے باوجود برائی کو روک نہیں سکتے بل کہ خود برائی کا حصہ بن جاتے ہیں۔
انداز بیان رکھتی
ِ ''سالمتی کونسل'' کے عنوان کے تحت لکھی گئی نظم بھی طنزیہ
ہے۔ اس نظم میں ریاض احمد کے لہجے کی کاٹ واضح دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے
کہ سالمتی کونسل کے دفتر کے باہر تمام ممالک کے پرچم لگے ہیں مگر اس کے قوانین
مسلمان ممالک کے لیے کچھ اور ہیں اور غیرمسلم ممالک کے لیے اور ۔
انداز
ِ اگلی نظم ''عالمی انصاف'' بھی پچھلی نظم کا تسلسل ہے۔ اس میں بھی طنزیہ
تکرار لفظی سے معنی کی ندرت میں اضافہ کیا گیا ہے ،اس کے ساتھ ساتھِ بیان اور
ت تضاد کا استعمال بھی کیا گیا ہے:
صنع ِ
جب بھی کوئی پلڑا ناحق جھک جاتا ہے
جب بھی کوئی پلڑا ناحق اٹھ جاتا ہے((٣٧
ت تلمیح کا استعمال کیا
نظم ''ایک سوال (یروشلم کے باسیوں سے) میں بھی صنع ِ
عیسی کے معجزات کا بیان ملتا ہے۔ یہاں ریاض احمد
ٰ گیا ہے۔ اس نظم میں حضرت
یروشلم کے باسیوں سے طنزیہ لہجے میں پوچھتے ہینکہ تم اب کس غیبی مدد کے منتظر
ابن مریم آئے گا جو تمھیں تباہی و بربادی سے بچا لے گا۔ اس نظم
ہو۔ کیا اب بھی کوئی ِ
میں بھی گذشتہ نظمو نکا رجحان ملتا ہے جن میں ریاض احمد مسلمانوں کو ہاتھ پر ہاتھ
دھرے بیٹھے دیکھ کر غمگین ہوتے ہیں ،اُن کی خواہش ہے کہ مسلمان غیبی مدد کا
انتظار کرنا چھوڑیں اور اپنے عمل سے اپنی تقدیر سنواریں۔ ان نظموں میں اقبال کی فکر
رنگ سخن برقرار رکھاہے۔ِ دکھائی دیتی ہے مگر ریاض احمد نے اپنامخصوص
نظم ''ہولی'' مینتین سامراج کے مظالم کی داستان بیان کی گئی ہے جن کے ہاتھوں
پر کالے خون کے داغ کوڑھ کے داغوں کی طرح ابھرے ہوئے ہیں اور یہ داغ ایسے
گہرے ہیں کہ یہ کبھی بھی دھل نہیں سکیں گے۔ یہ نظم گیت کے انداز میں خالصتا ً
ہندوستانی فضا میں لکھی گئی ہے۔ اس میں ہندی تہذیب اور لفظیات کا استعمال ملتا ہے۔
تتکرار لفظی اور صنع ِِ مثالً ہولی ،عبیر گالل ،گگن وغیرہ۔ اس کے عالوہ اس نظم میں
تذبیح یعنی رنگوں کا ذکر بھی بہت ملتا ہے۔ ریاض احمد نے یہ نظم خالصتا ً ہندوتہوار
ہولی کے پس منظر میں لکھی ہے مگر اس نظم میں انھوننے ہولی کا مفہوم مکمل طور
پر بدل دیا ہے اور اسے رنگوں کی ہولی کی بجائے خون کی ہولی قرار دی ہے۔ یہ خونی
ہولی ہمارے حکمران کھیلتے ہیں۔ اس نظم میں گیت کے مزاج کے برعکس لہجے کی
کاٹ واضح دکھائی دیتی ہے:
ہولی کے دن آئے
رنگ رنگ سے ہولی کھیلی
پیلے خون سے ہولی کھیلی
کالے خون سے ہولی کھیلی
اب اپنے خون سے ہولی کھیلنے کے دن آئے
ہولی کے دن آئے ری گوری ((٣٨
'' افسر شاہی'' میں بیوروکریسی کی فرعونیت پر طنز ہے۔ اس نظم میں
بیوروکریسی کی بے حسی اور ریشہ دوانیوں کو نظم کیا گیا ہے۔ یہ ایسے فرعون ہیں
جنھوں نے اس دنیا میں ہی دوزخ بنا رکھی ہے اور لوگ ان کے ظلم و ستم سے خوف
تکرار لفظی کی مدد سے بیان کرتے ہیں کہ
ِ زدہ ہیں مگر نظم کے آخر میں ریاض احمد
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ان فرعونوں نے جو دوزخ کی آگ سلگا رکھی ہے اس میں
کون جلے گا:
کچھ نہ تھا ،کچھ بھی نہ تھا
آگ دوزخ کی دہک اٹھی تھی
اب فقط دیکھنا یہ باقی تھا
کون جلتا ہے
ق خداون ِد جہاں ((٣٩
خداوند کہ مخلو ِ
نظم ''حکمت'' میں ریاض احمد نے کم عقل انسان کو بنجارے سے استعارہ کیا ہے،
تاجر جس طرح ایک ہر چیز کا مول اپنی مرضی سے طے کرتا ہے۔ اسی طرح کم عقل
زیر
ث مبارکہ اپنی کج فہمی کی بنا پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ ِ انسان قرآن اور احادی ِ
نظر نظم میں انھوں نے موجودہ دور کے انسان پر طنز کیا ہے جو کہ اپنی غرض اور
اپنے فائدے کی خاطر قرآنی آیات اور احادیث میں تحریف کرتے ہیں۔
اگلی نظم ''آسیب زدہ مکان'' میں بھی ریاض احمد بنجارے کا استعارہ استعمال
کرتے ہیں جو ایک مکان کا سودا کرتا ہے مگر یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس
مکان کے مزدور ہی اس مکان میں نقب لگا رہے ہیں اور اس بات کا برمال اعتراف کرتے
ہیں کہ نقب لگانا اور دیوار چاٹنا ازل سے ان کا خاص عمل ہے۔ یاجوج ماجوج کی طرف
ت تلمیح کا استعمال کیا ہے جیسے اُن کی فطرت میں دیوار چاٹنااشارہ کرتے ہوئے صنع ِ
لکھا ہے ایسے ہی غدار اور منافق لوگوں کی فطرت میں دھوکہ دینا شامل ہوتا ہے اور یہ
لوگ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں جس گھر میں رہتے ہیں اسی
کی بنیادوں کو کھوکھال کر دیتے ہیں۔یہ لوگ جس ملک میں رہتے ہیں،اسی سے غداری
کرتے ہیں۔ یہ بظاہر تو ملک کے خیرخواہ اور رکھوالے دکھائی دیتی ہیں مگر اندروں بین
زیر نظر نظم فسادی اور منافق لوگوں کے ملک میں فساد پھیالنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ِ
طرزعمل پر گہرا طنز ہے جن کے باطن کچھ اور ظاہر کچھ اور ہوتے ہیں۔ِ
حرف سچ کو
ِ نظم ''زہر کا پیالہ'' میں سقراط کی طرف اشارہ ہے کہ جب اُس کے
مانا نہیں گیا تو اس نے زہر کا پیالہ پی لیا۔ اس نظم میں بھی بنجارے کا استعارہ استعمال
کیا ہے جو دانش وروں کی مجلس میں آتا ہے۔ اس مجلس میں بقراط ،افالطون ،ارسطو
اور سقراط سب کے ہاتھ میں زہر کا پیالہ ہے۔ اس سے ریاض احمد یہ بتانا چاہتے ہیں کہ
موجودہ دور کا ہر دانش ورز ہرپی کر مرنے کو ترجیح دیتا ہے مگر ساتھ ہی نظم
ڈرامائی انداز اختیار کر لیتی ہے کیوں کہ زہر پینے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی
دانش ور نہیں مرا۔
دیکھ کر یہ حال گہری سوچ میں وہ کھو گیا
حرف حق نہ تھا
ِ یا تو ان کے لب پہ
یا وہ پیالے زہر کے پیالے نہ تھے
زہر کے بدلے شراب ناب تھی ((٤٠
اس سے شاعر کا یہ بتانا مقصود ہے کہ موجودہ دور میں دانشور بھی جھوٹے ہیں ،فراڈ
ہیں۔ سب نے علم و دانش کو تجارت بنا رکھا ہے جس قوم کے دانش وروں کے افکار
جھوٹ اور فریب کا پلندہ ہوں ،اُس قوم میں سچ بولنے والے کومار دیاجاتاہے۔ آخر میں
شاعر بھی خود کو سچی بات کہنے سے روکتا ہے کہ کہیں اُسے بھی زہر کا پیالہ نہ پینا
''افسر شاہی'' ''،حکمت'' ''،آسیب زدہ مکان'' ''،زہر
ِ پڑے کیوں کہ اب سچ کا مقدریہی ہے۔
کا پیالہ''۔ یہ سب نظمیں ثابت کرتی ہیں کہ ریاض احمد کو جھوٹ،فریب ،مکاری ،دھوکہ
دہی سے کتنی نفرت ہے۔ وہ بڑے موزوں الفاظ میں قاری کو یہ بات باور کروانا چاہتے
ہیں کہ ہماری تنزلی کا باعث کون سے امور ہیں اور سچ سے پہلو تہی کرکے جھوٹ کی
روش کو رواج دینا معاشرے کا کتنا بڑا ناسور ہے۔
'' دائرے کا افتاد'' میں گذشتہ نظموں کی طرح ایک اور معاشرتی برائی کی طرف
اشارہ کیا گیا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے کو غدار ثابت کرنے میں مصروف
ہے۔ ہر شخص دوسرے کی برائی کو اچھالتا ہے مگر خود کی تصحیح نہیں کرتا۔ ایسا ہی
حال ہمارے سیاست دانوں کا ہے جو ایک دوسرے کے کردار پر تو انگلی اٹھاتے ہیں
طرز عمل کیسا ہے۔
ِ مگر خود یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اُن کا اپنا
کوئی بھی ایسا نہ تھا جو دوسرے کے لفظ کے مفہوم سے آگاہ ہو
کوئی بھی ایسا نہ تھا جو خود بھی اپنے لفظ کے مفہوم سے آگاہ ہو ((٤١
سب کوبس اپنی پڑی ہے۔ ہر شخص نہ تو اپنی بات صحیح انداز میں سمجھا سکا ہے اور
نہ دوسرے کی سمجھ سکتاہے۔ ریاض احمد نے عوام کو بنجارے سے استعارہ کیا ہے کہ
عوام ایسی صورت حال میں چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستی ہے کیوں کہ اُس کے
مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہ نظم ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کی
سیاسی روش پر گہرا طنز ہے۔
'' لفظ کا آسیب'''' ،شور'''' ،گونگا'' ان نظموں میں عالمتی انداز اختیار کرتے ہوئے
ریاض احمد لکھتے ہیں کہ آج کے افالطون ایسی گفتگو کرتے ہیں جن میں معنویت مفقود
ہے۔ موجودہ دور کا انسان محض سن سکتا ہے مگر اردگرد کی دنیا کو سمجھنا اس کے
لیے انتہائی دشوار ہے۔ گھن گرج کے ساتھ تقریر کرنے والے لیڈر کو ،مجمع میں آپے
سے باہر ہونے والے شخص کو ریاض احمد نے گونگے سے تشبیہہ دی ہے۔ اس کے
چاروں اطراف شور تو بہت ہے لیکن اس شور میں کچھ سمجھ نہیں آتا ،اس سے بظاہر یہ
محسوس ہوتا ہے کہ دو متحارب اور متضاد خارجی قوتوں کی کشمکش میں اس کی اپنی
ذات ٹکڑے ٹکڑے ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اُن کی نظموں میں لفظ کی اہمیت کے متعلق
ڈاکٹر اسلم رانا کا کہنا ہے:
'' یہ تصور ان کی نظموں میں بار بار ابھرتا ہے کہ لفظ ایک جابر قوت ہے جو
اپنی من مانی کرنے پرمصر ہے لیکن ہم لوگ مجبور ہیں کہ اس کے آگے سپر ڈال دیں
کیوں کہ ہم لفظ کے مفہوم سے آشنا نہیں یا اس کے برعکس لفظ خود بے معنی ہو چکا
ہے۔'' ()٤٢
ت تلمیح کا استعمال کرتے ہوئے حضرتنظم ''اجڑی ج ّنت'' میں ریاض احمد صنع ِ
حوا کے جنت سے نکالے جانے کا قصہ دہراتے ہیں مگر اس نظم میں یاسیت کی آدم و ّ
حوا کے جنت سے نکل کر دنیا میں
جگہ ایک امید دکھائی دیتی ہے۔ ریاض احمد آدم و ّ
آباد ہونے کے متعلق بیان کرتے ہیں:
جب بھی کوئی جنت اجڑے
دنیا کے ویرانے بس جاتے ہیں ((٤٣
اس نظم میں ریاض احمد کے مذہبی میالن کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی
حال میں ہللا سے ناامید نہیں ہوتے ،اسی لیے انھوں نے یہ اہم نکتہ اٹھایا کہ اگر آدم و حوا
کو ہللا نے جنت سے نکال دیا تو بدلے میں دنیا آباد کر دی اور ان کے گناہ کو معاف کر
دیا۔
انداز بیان لیے ہوئے ہے۔ اس نظم کے چار حصے ہیں
ِ نظم ''کو ِہ ندا'' داستانوی
جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان نے خود کو دنیا کے جھمیلوں میں اس قدر الجھا رکھا
ہے کہ اپنی پہچان تک بھول گیا ہے۔ انسان اس دنیا کی بھول بھلّیوں میں اس قدر کہیں
ازسر نو
ِ کھو گیا ہے کہ اُسے اپنا مقصد تخلیق ہی بھول گیا ہے ،کاش کوئی انسان کو
بتائے کہ اس کی تخلیق کی غایت کیا ہے اور وہ کیا کر رہا ہے۔
نظم ''سائے'' میں تنہائی اور اندھیرے کے خوف کا بیان ملتا ہے۔ اندھیرے سے
بچنے کے لیے انسان دیئے جالتا ہے جس سے اس کی تنہائی بھی دور ہو جاتی ہے کیوں
کہ تب وہ اکیال نہیں ہوتا بل کہ اس کے چاروں اطراف ان کے سائے ہوتے ہیں مگر کبھی
کبھی ان سایوں میں انسان اس قدر کھو جاتا ہے کہ اُسے اپنا وجود بھی حقیقت نہیں لگتا۔
اس نظم میں ریاض احمد نے اندھیرے کو موت اور روشنی کو زندگی سے استعارہ کیا
ہے۔ موت سے خوف کی انسانی کمزوری کو ریاض احمد نے بڑے فلسفیانہ انداز میں بیان
کیا ہے۔ انسان نے موت کے خوف سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خود کو دنیاوی
کاموں میں الجھا رکھا ہے ،روشنی اور حرکت ہی زندگی ہے اور اندھیرا موت۔ اس نظم
تکرار لفظی کا معنی خیز بیان ملتا ہے۔
ِ ت
میں صنع ِ
'' نفرت کا زہر'' اس نظم میں ریاض احمد نے منافق لوگوں کو سانپ سے استعارہ
کیا ہے۔ سانپ کی طرح ان لوگوں کی فطرت میں بھی انسان کو ڈسنا ہوتا ہے۔ ایسے منافق
لوگ تو سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیوں کہ سب کو پتا ہوتا ہے کہ یہ انسان
کا ازلی دشمن ہے مگر منافق لوگوں کے کئی روپ ہوتے ہیں۔ وہ ایک ہی لمحے میں
انسان کو ختم نہیں کرتے بل کہ وہ تو قطرہ قطرہ زہر انسان کے اندر داخل کرتے ہیں۔
تکرار
ِ نظم کے آخر میں ریاض احمد منافق لوگوں کے لیے اپنے نفرت بھرے جذبات کو
لفظی میں بیان کرتے ہیں:
میرے خون میں مرے جسم کے ہر ریشے میں
زہر ہی زہر ہے
نفرت کا زہر
نفرت جسم کا زہر
نفرت روح کا کرب
نفرت ،نفرت ،نفرت ((٤٤
ت تلمیح کا استعمال کرتے ہیں۔
اگلی نظم ''وقت کا نوحہ'' میں بھی ریاض احمد صنع ِ
اس نظم میں انھوں نے داستانوی کردار حاتم کا تذکرہ کیا ہے جس نے شہزادی کی
فرمائش پر سات سوالوں کے جواب ڈھونڈ نکالے اور کامیاب رہا۔ مگر موجود زمانے میں
کوئی حاتم نہیں ہے۔ یہاں ہر کوئی سوالی ہے۔ کوئی کسی کو جواب نہیں دے سکتا۔ اگر
کوئی دیتا بھی ہے تو جھوٹا یعنی ریاض احمد اس نظم میں بھی گذشتہ نظموں کی طرح
انسانی رویوں سے دلبرداشتہ ہیں کہ موجودہ وقت میں کوئی کسی کے غم کا مداوا نہیں
کرتا بل کہ محض طف ِل تسلی ہی دیتا ہے۔ سب ایک دوسرے سے جھوٹ بھولتے ہیں ،سب
اپنی اپنی اناؤں کے اسیرہیں۔
دہان زخم میں شامل ہیں۔ اس
ِ مندرجہ باال نظمیں ریاض احمد کے شعری مجموعے
کے عالوہ ریاض احمد کی کچھ نظمیں مختلف ادبی رسائل میں بھی چھپتی رہیں۔ عالمت
رسالے میں ان کی نظم ''ایک بات '' شائع ہوئی۔ اس نظم میں ریاض احمد ماضی کے
دریچوں میں جھانکتے ہیں کہ اپنے لڑکپن میں وہ کیا سوچتے تھے اور ان کے جذبات
کیسے ہوتے تھے؟ یہ وہ دور تھا جب ہر چمکتی چیز سونا دکھائی دیتی تھی اور جب وہ
بن سنور کے گلی میں اپنے خیاالت میں کھوئے نکلتے تو لڑکیاں انھیں دیکھ کر آپس میں
سرگوشیاں کرتی۔ مگر آج وہ سب دن کہیں کھو گئے ہیں ،اس مادیت پسند دنیا میں اب
انھیں اپنے لیے فرصت کے کوئی لمحات میسر نہیں ہیں ،ایسے میں ریاض احمد خواہش
کرتے ہیں کہ کاش وہ پرآسائش ماضی پھر سے لوٹ آئے۔ ماضی کے دریچوں میں
جھانکتے ہوئے انھیں اپنی کھوئی ہوئی محبت یاد آتی ہے وہ اپنی محبوبہ کے متعلق
سوچتے ہیں کہ پتا نہیں وہ اب کس دیس میں ہے؟ کس حال میں ہے؟ میں اسے یاد بھی
رہا کہ بھول گیا۔
یکا یک ر یاض احمد حال میں واپس آ جاتے ہیں اوریہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اب
صوں پر لعنت بھیجو۔
ایسی فرصت کے ایام واپس نہیں آ سکتے ،اس لیے ماضی کے ان ق ّ
اس نظم کا اختتام بڑا چونکا دینے واال ہے۔ پہلے تو ریاض احمد اپنی ماضی کے سنہری
دنوں کو یاد کرتے ہیں،ماضی کی ان کہی محبت کے تصورات میں کھو جاتے ہیں ،مگر
پھر ان یادوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تم ّنا کرتے ہیں۔
اس طرح ریاض احمد اس نظم میں انسانی ذہن کے تغیّرات کو بیان کرتے ہیں کہ
جوانی اور لڑکپن میں جن چیزوں کا تصور انسان کو خوشی اور اطمینان دیتا ہے۔ بڑھاپے
میں انسان انھی چیزوں کو بے معنی سمجھتا ہے اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھتا
صہ بن جاتے ہیں پھر انسان انھیں اپنی یاد سے محو
ہے۔ ماضی کے جذبات محض ایک ق ّ
کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس نظم میں انھوں نے انسانی جذبات کی عکاسی بھی کی ہے
کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ محبت کے بدلے میں اُسے بھی محبت ملے مگر جب
انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ دل و جان سے چاہتا ہے ،وہ اسے بھول چکا ہے
تو یہ رویہ ذہنی آزار کا باعث بنتا ہے ایسے میں انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی
تکرار لفظی
ِ ایسے لوگوں کو اپنی سوچ سے نکال پھینکے۔ اس نظم میں شاعر نے جابجا
کا استعمال کیا ہے۔
معلوم نہیں کس حال میں ہے
معلوم نہیں کس دیس میں ہے
معلوم نہیں یہ باتیں اس کو یاد بھی ہیں
یا بھول چکی ہیں ((٤٥
نظم ''دل دریا'' میں شاعر انسانی جذبات کے نشیب و فراز کو بیان کرتا ہے کہ بظاہر
پرسکون دکھائی دینے والے انسان میں بھی بہت سے طوفان چ ُھپے ہوئے ہیں۔ اس نظم
میں انھوں نے تظمین کے مصرع ''دل دریا سمندروں ڈونگھے'' کو دو مرتبہ لکھا ہے۔ اس
طرز بیان سے ہٹ کر جسمانی اعضاء کو ِ نظم میں ریاض احمد نے اپنے مخصوص
تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ نظم انھوں نے سلطان باہو کے کالم سے متاثر ہو کر لکھی۔
نظم ''نیند ک ے ماتے'' میں انسان کی سستی اور کاہلی کو طنزیہ انداز میں بیان کیا
گیا ہے کہ کیسے ایک سست اور کاہل انسان سوتے میں اچھے دنوں کے خواب دیکھتا
ہے مگر حقیقت میں وہ ہمیشہ محنت سے جی چراتا ہے۔ شاعر کے نزدیک ایسے لوگ
بس اچھے دنوں کے خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ،کبھی محنت نہیں کر سکتے۔ اسی لیے
وہ ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتے ہیں۔ نورو ظلمت ،اندھیرا اجاال ،ریاض احمد کی شاعری
کے خاص استعارے ہیں مگر اس نظم میں انھو ننے بالکل جدا انداز میں انھیں استعمال کیا
ہے ،یہاں انھوں نے ''کالی رات'' کو انسان کی کم ہمتی ،سستی اور کاہلی سے استعارہ کیا
ہے۔
پھر بھی کبھی کھل جائے آنکھ
تو یہ دیکھ کے یہ کہ رات ابھی تک باقی ہے
پھر سو جاتے ہیں
روشن دن کے خواب میں کھوئے رہتے ہیں
اور سوئے رہتے ہیں ((٤٦
انداز بیان ملتا ہے جو کبھی بھی
ِ نظم ''جھولی'' میں ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا
خدا کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتا۔ ریاض احمد اس نظم میں ہللا کی رحمت سے پر امید
نظر آتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ ہللا بغیر کسی تخصیص کے ہر
گنہ گار ،عابد ،زاہد اور متقی کی دعا سنتا ہے اور پوری کرتا ہے۔ اس نظم کے ذریعے
ریاض احمد قاری کو بتاتے ہیں کہ کبھی ذہن میں یہ خیال مت الؤ کہ ہم گنہ گار ہیں اس
لیے خدا ہماری دعا رد کر دے گابل کہ وہ تو غفور و رحیم ہے ۔ وہ تو خود کہتا ہے کہ
ابن انشاء کے اس
ہے کوئی مانگنے واال جسے میں عطا کروں۔ ریاض احمد کی یہ نظم ِ
مصرع کا جواب بھی ہے جس میں انھوں نے کہا:
جس جھولی میں سو چھید ہوئے
اس جھولی کا پھیالنا کیا
اس کے جواب میں ریاض احمد لکھتے ہیں:
میں نے جھولی پھیالئی
اس کی عطا سے
جھولی بھی تو سل جاتی ہے ((٤٧
نظم ''حیلہ خو'' میں انسان کے عروج و زوال ،نشیب و فراز کی داستان بیان کی
گئی ہے ریاض احمد حقیقت پسندی کا سامنا کرتے ہوئے اپنا احتساب خود کر رہے ہیں کہ
انھوں نے اپنی پوری زندگی کیا کام کیے اور کون سے کام ادھورے چھوڑ دیے۔ ساتھ
ساتھ وہ اپنی کمزوری بھی بیان کر رہے ہیں جس نے ساری عمر ان کا پیچھا نہیں
چھوڑا ،وہ ہے سفر پر جانے کا خوف۔
اس نظم کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ریاض احمد اپنے جوانی کے ایام
کو یاد کرتے ہیں۔ جب ان کا جسم بھی توانا تھا اور ان کے ساتھ ساتھیوں کا ہجوم بھی
تھامگر تب بھی انھوں نے راہزنوں کے خوف سے سفر نہیں کیا ،حاالنکہ ان کے پاس زا ِد
صے میں بڑھاپے کا بیان ملتا ہے۔ اب ان کا جسم الغر ہو راہ بھی تھا۔ نظم کے دوسرے ح ّ
گیا ہ ے اور ساتھی بھی ساتھ چھوڑ گئے ہیں مگرراہزنوں کا خوف ان کے دل سے نہیں
نکل سکا۔ آخری بند میں ریاض احمد اپنے اس وہم کو آرام پسندی قرار دیتے ہوئے خود
احتساب کرتے ہیں کہ میں نے ساری عمر حقیقت سے فرار میں گزار دی۔ میں بہانہ طراز
تھا۔ ہر کام کو ٹالتا رہا ،محنت سے جی چراتا رہا۔ جب جسم توانا اور میں جواں ہمت تھا
اور سب ذرائع میری دسترس میں تھے تب بھی کچھ اور نہ کر سکا اور اب بڑھاپے میں
تو میرا الغر جسم میرا بہت بڑا بہانہ ہے۔وہ آخر میں زندگی کو تساہل پسندی سے
کف افسوس ملتے ہیں۔ اس نظم سے انسانی ذہنی کیفیت کا بھی ادراک ہوتا ہے گزارنے پر ِ
کہ جو وہم یا خوف انسان کے دماغ میں بچپن میں آ جائے ،اس سے ساری عمر چھٹکارا
نہیں پایا جا سکتا۔ اس نظم سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاض احمد بھی اسی خوف میں مبتال
رہے۔ ان کا کئی ایک مرتبہ تبادلہ دور دراز عالقوں میں ہوا مگر سفر کے خوف کے
باعث انھوں نے وہاں جانے سے معذوری ظاہر کی۔
نظم ''بھگوان کی لیال''بھی ہندوستانی تہذیب کے پس منظر میں لکھی گئی۔ اس نظم
میں ہندی لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے ۔ مثالً برکھا ،سوریہ چرتر ،میگھ چرتر ،بھگوان
کی لیال ،وغیرہ اس نظم میں شاعر سورج کی روشنی میں پڑنے والی بارش کا تذکرہ
کرتے ہیں۔ یہ نظم عالمت رسالے میں جوالئی ١٩٩٤ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ بعد
میں یہی نظم ''یاللعجب!'' کے عنوان کے تحت ماہنامہ صریر کے شمارے ستمبر ١٩٩٥ء
میں بھی شائع ہوئی۔
نظم ''قبرستان'' میں ریاض احمد ایک اور معاشرتی برائی کا تذکرہ کرتے ہیں کہ
موجودہ دور میں دھوکہ ،فریب ،چوری اس قدر عام ہو گئی ہے کہ زندہ انسان تو ایک
طرف مردے بھی قبرستانو ں میں محفوظ نہیں ہیں اور لوگ ان کی قبروں سے پھول یہاں
تک کہ کفن بھی چوری کر رہے ہیں۔ ریاض احمد الشوں کے کاروبار کو عالمتی انداز
میں بیان کرتے ہیں کہ قبروں میں پڑے مردے بھی اب کسی مسیحائی کی تالش میں ہیں۔
ریاض احمد نے چشم تصور سے بڑی عمدہ منظرنگاری کی ہے۔
اپنی اپنی قبروں سے
مردے باہر جھانک رہے ہیں
بوسیدہ کفن سے ہاتھ نکالے
نوحہ کناں ہیں… نوحہ کناں ہیں ((٤٨
''شاعر کا جرم'' اس نظم میں ریاض احمد ایک شاعر کی کہانی نظم کرتے ہیں جو
حاالت سے تنگ آ کر ایک اونچے مینار کی چوٹی سے چھالنگ لگا کر خود کشی کرنے
لگتا ہے کہ یکایک ایک اُچھوتا خیال اس کے ذہن میں ابھرتا ہے اور وہ اُسے نظم کرنے
کے لیے اپنی پھانسی کو کچھ عرصہ کے لیے مؤخر کر دیتا ہے مگر جب اس کے
ب اختیار کوملی تو انھوں نے اسے تختہ دار پر لٹکا دیا۔
اچھوتے خیال کی بھنک اربا ِ
حاکم شہر نے
ِ پھر یہ سنا کہ
اس کو پکڑ بالیا ہے
کیا جرم تھا اس کا؟ کون کہے!
نظم بھی لکھی جا نہ سکی!
موت بھی ٹالے ٹل نہ سکی ((٤٩
ریاض احمد اس نظم میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سچ بولنا کتنا دشوار ہو گیا ہے۔ سچ
بولنے کی پاداش میں شاعر بھی مجرم قرار دیئے جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی شعرا پر ظلم
کیا گیا ،جعفرزٹلی کو قتل کیا گیا اور ترقی پسند شعرا جن میں فیض احمد فیض سب سے
نمایاں ہیں ،انھیں پابن ِد سالسل کیا گیا۔ ریاض احمد اسی پس منظر کا تذکرہ اس نظم میں
بھی کرتے ہیں اور آنے والے شعرا کو خبردار کرتے ہیں کہ ایسی کوئی سچی بات منہ
ب اختیار کے لیے ناگوار ہو ورنہ تمھارا انجام بھی جعفرزٹلی اور سے نہ نکالنا جو اربا ِ
فیض احمد فیض سے مختلف نہ ہو گا۔
'' جو بھی چاہے مانگ'' اور ''میرے موال'' ان دونوں نظموں میں تسلسل ہے۔ ان میں
ب کریم سے امید کے سہارے زندہ رہنے کی تلقین کی گئی ہے کہ جو بھی مانگنا ہے ،ر ِ
مانگو۔ اس کا فضل بے پایاں ہے۔ وہ کبھی بھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ اس
میں ایک درویش کا حال بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک درویش مانگنے کے لیے کتنے جتن
کرتا ہے۔
ایک سخی کے دوارے جا کر
دھونی رمائی الکھ جگائی
سنکھ بجایا ((٥٠
مگر خدا سے مانگنے کے لیے کسی جتن کی ضرورت نہیں ،بس خاموش فریادی بننا پڑتا
تکرار
ِ ہے۔ لب ہالئے بغیر وہ خدا ہر ایک کو دیتا ہے۔ اس نظم میں ہندی لفظیات اور
لفظی کا استعمال کیا گیا ہے۔
''روشنی بانٹنے والے'' اس نظم میں ریاض احمد پھر سے روشنی اور اندھیرے
کے استعارے استعمال کرتے ہیں۔ جتنی مرضی تاریکی ہو جائے ،روشنی ختم نہیں ہو
سکتی۔ ہر رات کے بعد سویرا ضرور آتا ہے انھوں نے روشنی کو اچھائی اور اندھیرے
کو برائی سے استعارہ کیا ہے کہ برائی خواہ کتنی بھی طاقت ور کیوں نہ ہو جائے ،یہ
اچھائی پر غالب نہیں آ سکتی۔ برائی کتنے ہی چراغ ُگل کر دے یعنی قتل و غارت کے
موسی
ٰ دریا بہا دے مگر برائی ایک دن ختم ہو جائے گی کیوں کہ ہر فرعون کے لیے
ت تلمیح کا
تکرار لفظی اور صنع ِ
ِ ضرور آتا ہے۔ اس نظم میں ریاض احمد نے استعارے
استعمال کیا ہے۔
کہہ دو اندھیاروں سے
کچھ اور بھی گہرے ہو جائیں
کہ ہم روشنی بانٹنے والے آئے ہیں ((٥١
نظم ''اک پاگل لڑکی'' میں ایک نوجوان لڑکی کے جذبات کی عکاسی اسی کی زبان
میں کی گئی ہے کہ جب ایک لڑکی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اس کی سوچ کیا
انداز بیان کیا ہو جاتا ہے اور اس کے جذبات کیسے ہو جاتے ہیں۔ اُسے
ِ ہوتی ہے ،اس کا
اپنے جذبات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رویوں کی بھی فکر ستانے لگتی ہے۔ خود کالمی
کے انداز میں لکھی گئی یہ نظم ایک نوجوان لڑکی کے جذبات ،احساسات کی ترجمانی
کرتی ہے کہ ایک طرف تو اُسے اپنے بچپن کے کھیل اور سرگرمیوں کو چھوڑنے کا غم
ہے تو دوسری طرف اُس کے جسم میں ہونے والی خوش گوار تبدیلیاں ،اُسے مستقبل کے
تکرار
ِ سنہری خواب دکھاتی ہیں۔ ریاض احمد نے اس نظم میں انسانی زندگی کے تغیر کو
لفظی کے تحت بڑے عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے:
سوچ کے دھارے بہتی جاؤں
بہتی جاؤں ڈوبتی جاؤں
کچھ کچھ پگلی تو میں ہوں ((٥٢
نظم ''جب کی بات'' میں بچوں کی ذہنیت اور رویوں کی عکاسی کی گئی ہے کہ
جس کھلونے کی خاطر وہ دونوں کل تک دست و گریباں تھے۔ آج وہ کھلونا صحن میں
اوندھا پڑا ہے اور بچے اُسے بھولے ہوئے کسی اور کھیل میں مگن ہیں ،شاید آج وہ اسے
یکسر فر اموش کر گئے ہیں۔ اگر کوئی اور اس کی طرف متوجہ ہوا تو پھر سے اس
کھلونے کے حصول کے لیے جھگڑا کرنا شروع کر دیں۔
رویوں کو نظم کرتےریاض احمد اس نظم میں عالمتی انداز اپناتے ہوئے انسانی ّ
ہیں کہ جب انسان کے پاس اس کی من پسند چیز ہوتی ہے تو وہ اس کی قدر نہیں کرتا
اور اس کی اہمیت کو نظرانداز کر دیتا ہے مگر جب کوئی دوسرا اس کی طرف متوجہ
ہوتا ہے تواسے پھر سے اپنی چیز کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور انسان کی خواہش
ہوتی ہے کہ وہ دوسرے سے چھین کر اپنے پاس رکھ لے۔
کل کا کھلونا اوندھا پڑا ہے
اور وہ دنوں جو اس کی خاطر
تھوڑی دیر ہی پہلے آپس میں
کیسے کیسے جھگڑے تھے
اب دوسری جانب
اک دوسرے کھیل میں کھوئے ہیں ((٥٣
ماہنامہ صریر کے مارچ ١٩٩٧ء کے شمارے میں ریاض احمد کی ایک ساتھ تین
فلسفہ حسن بیان کیا گیا ہے کہ چھوٹے
ٔ نظمیں شائع ہوئیں۔ پہلی نظم ''ویران گلی'' میں
چھوٹے ،ٹوٹے پھوٹے گھر حسن کی دولت سے بھرے ہوئے ہیں مگر افسوس کہ یہاں پر
اُن کا پجاری کوئی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اونچے اور بڑے گھر جہاں زندگی کی ہر
تکرار
ِ آسائش ہوتی ہے ،حسن کی دولت سے محروم ہیں۔ اس نظم میں ریاض احمد نے
ت سیاق اعداد کا بھی استعمال کیا ہے۔
لفظی کے ساتھ ساتھ صنع ِ
دوسری نظم بھی آزادہیئت میں لکھی گئی اور مختصر سی ہے۔ ''کوئی پوچھے تو''
تکرار لفظی کا عمدہ بیان ملتا ہے۔ اس نظم میں شاعر
ِ کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں
اپنی گزشتہ محبت کے دنوں کو یاد کرتے ہیں کہ میری اور میری محبوبہ کی محبت ایک
خاموش محبت تھی۔ ہمیں کبھی بھی اپنے جذبات بیان کرنے کے لیے مکالمہ یا تکرار نہیں
کرنی پڑی بل کہ ہم تو ایک دوسرے کو نظروں سے اپنا مفہوم سمجھا دیتے تھے۔ یہاں
ریاض احمد نظروں کو نظم سے استعارہ کرتے ہیں ہماری نظریں نظم کی مانند اظہار
بھی تھیں اور مفہوم بھی۔
نظریں جیسے نظمیں
جو اظہار بھی تھیں ،مفہوم بھی تھیں
خود اپنا مقصود بھی تھیں ((٥٤
ریاض احمد ماہنامہ صریر کے جون ١٩٩٧ء کے شمارے میں دو مرثیے ایک
ساتھ لکھے ہیں۔ پہلے مرثیے میں وہ اپنے دوست کی وفات پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتے
ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی اُن سے یہ نہ کہے کہ وہ مر گیا ہے وہ شخص جو مجھ سے
روز مال کرتا تھا ،اس کے بغیر میں کیسے جی پاؤں گا۔ چار مصرعوں پر مشتمل جدید
رنگ بیان لیے ہوئے یہ مرثیہ ریاض احمد کے گہرے دکھ اور کرب کی وضاحت کر نا ِ
ہے مگر اس مرثیے سے یہ نہیں معلوم ہو تاکہ ریاض احمد کس دوست کی وفات پر
اظہار مالل کر رہے ہیں۔
ِ
دوسرے مرثیے میں ریاض احمد یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ محبت کبھی مر
ت تکرار اور سیاق االعداد کا استعمال کرتے ہوئے ریاض احمد اپنے
نہیں سکتی۔ صنع ِ
دوست سے خاص اُنسیت کا اظہار کرتے ہیں اور جس جس چیز سے دوست کی نسبت
تھی ،اس کو سنبھالے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اس کی ٹیلی فون کا نمبر بھی اپنی ڈائری
سے مٹانا نہیں چاہتے۔
جب بھی ٹیلی فون کا کوئی نمبر
مجھ کو ڈھونڈنا ہوتا ہے
تو پرانی بیاض کے ایک ورق سے
ایک بجھا بجھا سا نمبر
ابھر ابھر کر سامنے آنے لگتا ہے((٥٥
دوسری طرف یہ نظم زندگی کی بے ثباتی کا نوحہ بھی ہے کہ انسانی ہاتھ کی
بنائی چیزیں تو جوں کی توں رہ جاتی ہیں مگر انسان خود فنا ہو جاتا ہے۔
ت تلمیح کا استعمال کرتے ہوئے اپنے
نظم ''ہمزاد سے'' میں ریاض احمد صنع ِ
ساتھی کو باخبر کر رہے ہیں کہ موجودہ دور میں پھر سے سامری کا فتنہ زندہ ہو گیا ہے
کیوں کہ مجھے سامری کے بچھڑے ''خوار'' کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ یہ آواز کل
موسی نے کو ِہ
ٰ سامان فتنہ تھی اور آج بھی فسا ِد آدمیت ہے۔ ماضی میں تو حضرت
ِ بھی
طور سے واپسی پر سامری کے فتنہ کو یدِبیضا سے شکست دے دی تھی مگر موجودہ
موسی کا انتظار کرنا
ٰ موسی تمھاری مدد کے لیے نہیں آئے گا اس لیے
ٰ زمانے میں کوئی
ت ارادی سے سامری کے فتنہ کو شکست دینا ہو گی بے کار ہے۔ ہمیں اپنے اعمال اور قو ِ
ورنہ سامری کا فتنہ آدمیت کو ذلیل کر دے گا۔
موسی نہ لوٹیں گے سوا ِد طور سے
ٰ اب کبھی
بے فائدہ ہے انتظار!
اے میرے ہمزاد جاگ ((٥٦
ریاض احمد موجودہ زمانے کی مذہبی بے راہ روی ،قتل و غارت گری اور فساد
فتنہ سامری سے تشبیہہ دیتے ہوئے ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنی آنکھیں
کو ٔ
اور کان کھلے رکھنے چاہئیں اور مذہب میں بے جا تحریف نہیں کرنی چاہیے بل کہ ہمیں
حروف لوح کو ڈھال بنا کر ہر فتنے سے بچاؤ خود کرنا ہے کیوں کہ بنی اسرائیل کو تو
ِ
موسی نے سامری کے فتنوں سے نجات دال دی مگر ہمیں نجات صرف قرآن ہی ٰ حضرت
دال سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں قرآنی احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اپنی زندگیاں
ت رسولۖ کے تحت گزارنی چاہیے ورنہ ہم ذلت و رسوائی کی دلدل میں پھنس جائیں سن ِ
گے۔
انداز بیان ملتا ہے کہ ایک خوبصورت اونچی
ِ نظم ''آسیب زدہ شہر'' میں داستانوی
فصیلوں والے شہر کو ایک جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے پتھر میں تبدیل کر دیا
اور پھر اس پر شیش ناگ کا پہرہ بٹھا دیا۔ اب دور سے آنے والے لوگ اس شہر کو دیکھ
کر ڈر جاتے ہیں اور رستہ بدل لیتے ہیں۔
ریاض احمد اس نظم میں تباہ ہونے والے شہر موہنجو داڑو اور ہڑپہ کا ذکر کر
رہے ہیں جو کبھی اپنی عالیشان تعمیرات اور تہذیب کی بدولت اہم جانا جاتا تھا مگر آج
اس کی تباہ حال عمارتوں اور ان میں نصب مجسموں نے اسے آسیب زدہ بنا دیا ہے۔ یوں
محسوس ہوتا ہے جیسے ان پر کسی نے جادو کر رکھا ہو اور اب یہاں انسان کی بجائے
زہریلے ناگ رہتے ہوں۔ ناگ اور زہر ریاض احمد کے خاص شعری استعارے ہیں جو وہ
خوف کی عالمت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
دور سے آنے والے مسافر
اس شہر کو دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
رستہ بدل کر دائیں ُمڑ جاتے ہیں ((٥٧
نظم ''نک اال چاہتا ہے کام…'' میں فلسفہ وحدت الوجود کامکالماتی انداز ملتا ہے۔ اس
نظم میں ریاض احمد نے خدا اور مسلمان کے درمیان مکالمے کو نظم کیا ہے کہ خدا غنی
ت واحد کا جس کے قبضے میں آسمان و زمین ہیں۔ خدا کی ہے تو انسان محتاج ہے اُس ذا ِ
بخشش اگر بے حساب ہے تو انسان کو اس سے امید بھی بے انتہا لگانی چاہیے۔
اس نظم میں پھر سے شفاعت کا بیان ملتا ہے کہ انسان کو ہر حالت میں خدا سے
انداز بیان ملتا ہے:
ِ تکرار لفظی اور مکالمانہ
ِ شفاعت کی امید رکھنی چاہیے۔ اس نظم میں
میں نے کہا محتاج کون؟
اس نے کہا محتاج تو
میں نے کہا تو پھر غنی کون؟
اس نے کہا میں ہوں غنی ((٥٨
نظم ''ایک دیوی۔ اک نار'' میں ہندی مذہب ،تہذیب اور الفاظ کا بیان ملتا ہے کہ ایک
ب آفتاب کے وقت آسمان پر جنگل میں دو بھکشو اپنے گیان دھیان میں گم تھے۔ غرو ِ
گہرے بادل امڈ آئے اور دریا کے پانی میں بھی تیزی آ گئی۔ ایسے میں ایک خوبصورت
لڑکی دریا کے کنارے پر کھڑی تھی جسے دریا پار کرنا تھا مگر اس کے لیے اس موسم
میں دریا پار کرنا ناممکن تھا۔ ایسے میں ہوا تیز چلی اور لڑکی کے جسم سے آنچل ڈھلک
گیا اور وہ مارے شرم کے وہیں سمٹی بیٹھ گئی اور ایک بھکشو نے اپنی عبادت چھوڑ
اس لڑکی کو اپنے ک ندھوں پر بٹھا کر دریا پار کروا دیا۔ جب رات کو یہ بھکشو اپنی کٹیا
میں واپس آیا تو دوسرا بھکشو بوال کہ تم نے آج ایک عورت کو ہاتھ لگا کر پاپ کیا ہے۔
تمھاری ساری عبادت اور ریاضت آج ختم ہو گئی۔ اس پر پہال بھکشو کہتا ہے کہ میں نے
اپنے حصے کا بوجھ اٹھا کر ندی پار رکھ آیا مگر آپ تو اپنے حصے کا بوجھ ابھی بھی
کندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہو۔
اس نظم میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ ریاض احمد نے حقوق العباد کی اہمیت کو
بیان کیا ہے کہ حقوق ہللا تو معاف ہو سکتے ہیں مگر حقوق العباد نہیں۔ اگر آپ ہللا کی
عبادت میں خود کو مصروف رکھ کر دنیا کو تیاگ دیتے ہیں تو آپ نہ تو خدا کو راضی
کر سکتے ہیں او رنہ ہی دنیا کو۔ دوسری طرف اس نظم میں انسانی جبلّت کا بیان بھی ملتا
ہے کہ ہر انسان کو اس دنیا میں ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب انسان دنیا
کو تیاگ دیتا ہے اور خود پر بے جا پابندیاں لگا دیتا ہے تو جبلت کا غلبہ اس پر شدید ہو
جاتا ہے کیوں کہ انسان جس چیز سے دور بھاگتا ہے وہ ہر وقت اس کے حواس پر سوار
رہتی ہے:
دوسرا بوال اے بھیا اک بات کہوں
برا نہ مانیں
میں تو دیوی جی کو کب کا پار اتار بھی آیا
لیکن آپ تو اب تک
اپنے کاندھوں پر اک نار اٹھائے پھرتے ہیں ((٥٩
یہ نظم ہندی مذہب کے تناظر میں لکھی گئی ہے جس میں دنیا کو تیاگ دینا عبادت
سمجھتا جاتا ہے۔ ریاض احمد نے اس نظم میں ہندی تہذیب کی عکاسی ہندی زبان میں کی
ہے اور ہندی لفظیات گھنیرے پیڑ ،بھکشو ،گیان دھیان ،پرواسنکی ،ڈال ہلے ،کھیون ہار،
الج ،دیوی ماتا ،آگیاں دیں ،بالک ،کٹیا ،پاپ ،بھرشٹ ،تپسیا ،نشٹ کا عمدہ استعمال کیا ہے
جس سے نظم کی فضا ایک خاص تاثر پیش کر رہی ہے۔
ماہنامہ صریر کے مختلف رسالوں میں شائع ہونے والی نظموں ''آنے واال'' ،
''بھوک'' دیوار کے ڈھلتے سائے'' میں ریاض احمد عالمتی انداز اپناتے ہوئے ایک ہی
مضمون کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں کہ موسم تو بدلتے ہیں مگر دل کا موسم
جوں کا توں رہتا ہے۔ دل کا موسم تب بدلتا ہے جب کوئی خوشی کی خبر ملتی ہے ۔ ان
نظموں میں بڑی عمدہ منظر کشی ملتی ہے۔
نظم ''چا ِہ یوسف'' عالمتی انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں ایک مسافر کی
کہانی بیان کی گئی ہے جسے سخت پیاس لگی ہے مگر قرب وجوار میں کہیں بھی پانی
نہیں ہے نہ کوئی ندی ہے نہ دریا او رنہ ہی کنواں۔ ایسے میں مسافر ایک کنواں کھودتا
ہے مگر ہائے افسوس کہ اسی کنویں سے ایک بھی پانی کا چشمہ نہ پھوٹا۔ اب مسافر
کسی ایسے شخص کی جستجو کرتا ہے جو آئے اور اپنا ڈول کنویں میں ڈالے جس سے
پانی نکل آئے مگر مسافر یہ جستجو کرتے ہوئے بھول گیا کہ اس کا کوئی حضرت
یوسف جیسا بھائی نہیں ہے۔
یہ نظم امید کے تناظر میں لکھی گئی ہے کہ انسان کو اچھے حاالت کی اُمید ہر
وقت اور ہر حال میں رکھنی چاہیے۔ اگرچہ مسافر اپنی تمام کوشش کے باوجود بھی پانی
نہیں نکال سکا مگر پھر بھی اُسے امید ہے کہ شاید کوئی اور آئے اور اُسے اس مشکل
سے نجات دالئے۔
شاید کوئی بھوال بھٹکا قافلے واال
اپنا ڈول کنوئیں میں ڈالے
اور فضا میں ایک دفعہ پھر
یابشری'' کا نعرہ گونجے ((٦٠
ٰ ''
ت تلمیح کا استعمال کرتے ہوئے حضرت یوسف کا واقعہ بیان اس نظم میں صنع ِ
کیا گیا ہے کہ جب کنعان میں قحط پڑا تو حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کی مدد کی
اور انھیں غلّہ دے کر فاقہ کشی سے بچایا۔ ایسے ہی مسافر بھی اپنے بھائی کی آمد کا
منتظر ہے کہ وہ آئے اور اُسے پانی پالئے مگر شاعر کہتا ہے کہ مسافر کی یہ اُمید
فضول ہے کیوں کہ اُس کا بھائی یوسف جیسا نہیں ہے جو اپنے اوپر ہونے والے تمام ظلم
و ستم کو بھول کر بھائی کی مدد کرے گا۔
'' نظم'' کے عنوان سے لکھی جانے والی نظم میں ریاض احمد پھر لمحے کا
استعارہ استعمال کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جب کوئی نظم وجود میں آتی ہے تو لمحہ
بھر کے لیے وقت کی َرو تھم جاتی ہے۔ بہتے پانی پہ موج کا نقش ُرک جاتا ہے اور
صحرا میں ریت کے اُڑنے سے جو نقوش بنتے ہیں ،اُن کے مٹنے سے پہلے اک لمحہ
بھر کو وقت کی َرو تھم جاتی ہے ،اسی اک لمحہ میں شاعر کے تخیل میں کوئی خیال
ابھرتا ہے جسے وہ لکھ لیتا ہے۔ اس نظم میں ریاض احمد وقت کا استعارہ استعمال کرتے
ہیں۔
سطح آب پر موج کا نقش
ِ لیکن
ریگ رواں پر مر مر کی تحریر کے مٹ جانے سے پہلے ((٦١
''صور اسرافیل'' میں دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے
ِ نظم
''صور اسرافیل'' کی تلمیح
ِ والی اموات کو بڑے کرب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ریاض احمد
نفحہ
ٔ روز قیامت اسرافیل صور پھونکیں گے تو اُس کے
کو استعمال کرتے ہیں کہ جیسے ِ
نفخہ ثانی پر سب لوگ جی اٹھیں گے ،ایسے ہیٔ اولی پر سب لوگ مر جائیں گے اور پھر ٰ
صور سرافیل کہتے ہوئے ریاض احمد لکھتے ِ موجودہ دور میں ہو رہا ہے۔ بم کی آواز کو
صور اسرافیل چوری ہو گیا ہے۔ یہ اب ایک کھلونا بن چکا
ِ ہیں کہ مجھے تو لگتا ہے کہ
ہے ،اس کو جب جس کا جی چاہتا ہے بجاتا ہے مگر چور کے سینے میں اسرافیل کے
سینے کا دم نہیں ہے اس لیے جب وہ صور پھونکتا ہے تو کچھ لوگ مر جاتے ہیں اور
کچھ جیتے رہتے ہیں مگر جو جیتے رہتے ہیں ان کے لیے زندگی موت سے بھی زیادہ
ابتر ہو جاتی ہے۔
مرنے والوں کے لیے…
جینے والوں کے لیے…
اک سسکتی موت
ایک سسکتی زندگانی
اب مقدر ہو چکی ہے … ((٦٢
صور اسرافیل سے استعارہ
ِ اس نظم میں ریاض احمد نے بم کے پھٹنے کی آواز کو
کیا ہے او رپھر بم پھٹنے کے بعد کے حاالت کی عکاسی کی ہے جس میں بہت سے لوگ
مارے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ معذور ہو کر ایک سسکتی زندگی بسر کرتے ہیں۔
'' تو آ پھر سامنے آ'' کے عنوان سے لکھی جانے والی نظم میں ریاض احمد دشمن
کو للکارتے ہیں کہ اگر تیرے پاس مہلک ہتھیار ہیں تو میرے پاس بھی مہلک ہتھیار ہیں۔
اگر تو خود کو بہادر سمجھتا ہے تو میں بھی سورما ہوں اور میری تلوار کی دھار بھی
بہت تیز ہے تو اگر میرے سامنے آیا تو پھر میں تجھے اچھا سبق سکھاؤں گا مگر ساتھ
ہی ریاض احمد سوالیہ لہجہ اپناتے ہوئے دشمن سے پوچھتے ہیں کہ تو اب کس بل پر
سامنے آئے گا۔ کیا اب بھی تیری تلوار کی دھار تیز ہے جس پر تجھے گھمنڈ تھا ،کیا اب
بھی تو اپنی ڈھال پہ میری تلوار کا وار روک سکے گا۔
یہ نظم ریاض احمد نے پاکستان کے جوہری ہتھیار بنانے پر لکھی۔ وہ دشمن کو
للکار رہے ہیں کہ تو جس ہتھیار پر گھمنڈی ہو کر ہمیں آنکھیں دکھا رہا تھا۔ وہ ہتھیار ہم
نے بھی بنا لیے ہیں اور تم سے بہتر بنائے ہیں کیا اب بھی تو طب ِل جنگ بجائے گا؟
ت حرب کا استعمال کرتے ہوئے دشمن
تکرار لفظی ،محاورے اور آال ِ
ِ ریاض احمد
کو للکارتے ہیں:
تو ہے بہادر … میں ہوں بہادر
اپنے پاس ایک سے بڑھ کر ایک
تیز کٹیال مہلک ہتھیار
اٹھ دشمن کو للکار ((٦٣
تعالی کی وحدانیت کا ذکر کرتے ہیں۔ ریاضی
ٰ نظم ''توحید'' میں ریاض احمد ہللا
کے اصول اپناتے ہوئے ریاض احمد ہللا کی بڑائی بیان کرتے ہیں:
ایک تو ایک ہے
حاص ِل ضرب بھی ایک
حاصل قسمت ایک
جذر بھی ایک مربع ایک ((٦٤
ریاض احمد ،ہللا کی ثنائی بیان کرتے ہیں کہ ایک کے بعد تو دو آتا ہے۔ اگر ایک کے
بعد ایک اور آئے تو پھر مل کردو بنیں مگر میں دوسرا ایک کہاں سے الؤں۔ ریاض احمد
تکرار لفظی کو اپناتے ہوئے ہللا کی وحدانیت کو ایک نئے انداز میں نظم کرتے ہیں۔
''چور مہاراج کی جے!'' یہ نظم راجھستان کے ایک مندر سے دو بھگوان چوری
ہو جانے کے تناظر میں لکھی گئی۔ اس نظم میں ریاض احمد طنزیہ لہجہ اپناتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ یہ کیسے بھگوان میں جو اپنی حفاظت نہ کر سکے اور چوری ہو گئے۔ یہ
کیسے پالن ہار ہیں ،یہ کیسے رب ہیں جو اپنی حفاظت نہ کر سکے۔ اب اس کے پجاری
کس کے دوارے پر جا کر طاقت مانگیں کہ جس سے وہ اپنے چوری ہوئے بھگوانوں کو
ڈھونڈ سکیں کیوں کہ ان کے بھگوان تو خود چوروں کے سامنے بے بس ہیں۔
ریاض احمد ہندؤں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اب اپنی سرسوتی ،کالی میا،
برھما شو کی بھی خیر مناؤ ،یہ نہ ہو کہ یہ بھی کسی دن چوری ہو جائیں۔ اگر یہ سب
چوری ہو گئے تو تمھیں کہاں سے شکتی ملے گی۔ بہتر یہ ہے کہ تم ایک نیا مندر بنا لو
اور ان سب کو وہاں محفوظ کر لو کیوں کہ تمھارے خدا ،اپنی حفاظت خود نہیں کر
سکتے یا پھر اُس چور کو اپنا بھگوان بنا لو جس نے ان کو چرایا ہے کیوں کہ اس کے
پاس بھی بہت زیادہ شکتی ہے اور ایک چور کو بھگوان بنانا تمھارے لیے مشکل نہیں
ہے۔ تمھارے کرشن مہاراج بھی تو مکھن چور تھے ،اس لیے تم پوجا کا سامان اکٹھا کرو
اور چور مہاراج کی جے بولو۔
آرتی اتار ،پوجا کے سامان کرو
سونا ،روپا ،بھینٹ چڑھاؤ
بھگوانوں کی آن بچاؤ ((٦٥
عالمتی انداز میں لکھی جانے والی اس نظم میں ریاض احمد نے ہندو دھرم کو
بیان کرنے کے لیے ہندی لفظیات کا استعمال کیا ہے مثالً بھگوان ،مندر ،دیوتا ،شکتی
مان ،وشنو گنیش ،مہاراج ،بھگت ،دوار ،بھکشا ،سرسوتی ،کالی میا ،بر.ھما شو ،کرشن
مہاراج ،آرتی ،روپا ،بھینٹ اور مہاراج کی جے۔ یہ سب لفظ ہندو دھرم سے مخصوص
ہیں۔
'' جب دودھ پانی بنے'' کے عنوان کے تحت لکھی جانے والی نظم میں ریاض احمد
گاؤں کی سادہ زندگی اور ماضی کے پرسکون لمحوں کو یاد کرتے ہیں۔ اس نظم کے تین
صے ہیں۔ پہلے حصے میں فطرت کی عکاسی کی گئی ہے اور شہر سے دور دیہات ح ّ
کے مناظر بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں امید کا پہلو نظر آتا ہے اور آخری
صے میں مایوسی کا اظہار ملتا ہے۔ اس حصے میں پکی سڑکوں کے استعارے ملتے ح ّ
ہیں۔
اس نظم میں ایک تصوراتی کردار بیان کیا گیا ہے جب یہ کردار گاؤں سے شہر آتا
ہے تو اس کی ساری معصومیت چھن جاتی ہے کیوں شہر آ کر اس نے دنیا داری سیکھ
لی اور جب وہ واپس گاؤں آیا تو وہ اپنی سادگی اور معصومیت شہر ہی چھوڑ آیا۔ اس نظم
میں ریاض احمد نے لیلة القدر کو استعاراتی انداز میں بیان کیا ہے:
کون جانے آج کی ہی رات آ جائے وہ ساعت
جس میں پانی دودھ بن جاتا ہے۔
اور جو مانگو مل جاتا ہے ((٦٦
جب انسان دیہات میں رہتا تھا تو اتنا معصوم تھا کہ خدا کی عنایات بھی اس پر بے شمار
تھیں اور وہ جو چاہتا اسے مل جاتا لیکن اب ہم سادگی کے ماحول سے تصنع کی طرف
آئے ہیں اور ایسے میں ہم جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتے ہیں ،تو وہ پانی بن جاتی ہے۔ کاش
کہ ہم اس ماحول میں واپس جا سکتے جہاں کھویا ہوا سکون دوبارہ مل سکے۔
ریاض احمد کی نظموں کا موضوعاتی اور ف ّنی تجزیہ اُن کے فکری پہلوؤں کو
نظام معاشیات ،حب الوطنی ،ریاکاری جیسے موضوعات ِ بھی عیاں کرتا ہے ،انھوں نے
کو نظم کیا۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں شاعری کی اور آزاد نظم لکھتے وقت غزل
کی لفظیات سے مکمل گریز کیا۔ اُن کی نظموں میں فارسی اور ہندی لفظیات کے ساتھ
ساتھ مخصوص ہندوستانی فضا بھی ملتی ہے۔ ان کی نظموں میں پیش کیے جانے والے
کرداروں کا چناؤ حقیقی زندگی سے کیا گیا ہے ،کئی نظموں میں ٹیپ کے مصرعے
علم بیان اور بدیع سے بھی
استعمال کرتے ہوئے گیت کا انداز اپنایا گیا۔ ریاض احمد ِ
ت
ت تضاد ،مراة النظیر ،سیاق االعداد ،صنع ِ
تکرار لفظی ،صنع ِ
ِ مستفید ہوئے۔ انھوں نے
ت تلمیح اور حرف اضافت کا بکثرت استعمال کیا۔ ریاض احمد کی نظمونمیں تذبیح ،صنع ِ
رنگ سخن کی عکاسی ِ استعمال کیے جانے والے تشبیہات و استعارات اُن کے مخصوص
کرتے ہیں مثالً ظلمت ،نور ،زہر ،ناگ ،شفاعت ،بت ،پتھر ،صحرا ،طلسم ریاض احمد
کے خاص استعارے ہیں۔ انھوں نے کسی خاص مکتبہ فکر کی پیروی نہیں کی۔ اس ضمن
میں ڈاکٹر اسلم رانا کا مؤقف ہے۔
'' انھوں نے اپنی نظموں میں سوچ کے کسی خاص اسلوب یا کسی خاص مکتبہ فکر
کو اپنے ر ِدّعمل کا شعوری محرک بنانے کی بجائے کیفیت کی ذاتی نوعیت کو ترجیح
انداز فکر کی پاسداری مطلوب
ِ دی۔ دوسرے لفظوں میں نظم لکھتے ہوئے کسی خاص
نہیں رہی۔''((٦٧
انداز سخن اور لفظیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں مذہب سے خاص
ِ ریاض احمد کے
شہر آشوب کے عنوان کےلگاؤ تھا۔ انھیں جھوٹ ،فریب ،مکاری سے سخت نفرت تھی۔ ِ
افسران شاہی کو آڑے ہاتھوں لینے کے ساتھ
ِ تحت لکھی جانے والی نظموں میں انھو ننے
ساتھ معاشرتی برائیوں کا بھی تذکرہ کیا۔
ریاض احمد کی غزل گوئی فصل سوم:
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف ہے ۔غزل ایک ایساآئینہ خانہ ہے جس
میں فکری بوقل مونیاں ،موضوعات کاتنوع اور فنی مہارتوں کی کرنیں عکس درعکس
جہان معانی کی نئی نئی جہات کو سامنے التی رہی ہیں۔ غزل کے اندر ایک جیتی جاگتی
ِ
زندگی موجودہے ۔اس میں احساسات ،جذبات ،رنگ و بو ،موسم اور ہنستی روتی کیفیات
ملتی ہیں جو کہ زندگی کاخاصا ہیں۔غزل کے اشعار میں زندگی کے مختلف رویے اور
صنف سخن ہے جسے اردو ادب کے ِ نظریات سمٹ آتے ہیں ۔غزل اردو ادب کی اہم ترین
مزاج نے بہت جلد قبول کیا۔ یہ وہ صنف ہے جس کی مختلف ادوار مینمخالفت بھی کی
گئی ۔کبھی اسے گردن زدنی کہاگیا۔کبھی اس سے تنگ دامنی کاشکوہ کیاگیا تو کسی نے
غزل پر منتشر خیالی کاالزام لگادیا۔ کبھی اس کے قافیہ ردیف پر اعتراضات کیے گئے تو
کبھی اس کی ہیئت پر لیکن اس کے باوجود ارد وغزل برصغیر کی تہذیب میں اور
برصغیر کی تہذیب اردو غزل میں سماگئی۔ڈاکٹر یوسف حسین رقم طرازہیں:
''گزشتہ دوسوبرس میں میر صاحب کے زمانے سے لے کر حسرت اور جگر کے
موجودہ دور تک اردو غزل کے اسلوب میں برابر تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ۔لیکن اس کی
بنیادی حقیقت میں کوئی فرق نہینپیداہوا۔ اس سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ یہ صنف
اپنی اصلی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف حاالت سے مطابقت کی صالحیت
رکھتی ہے جواس کے جاندار ہونے کی دلیل ہے۔''()٦٨
غزل کی اتنی شدید مخالفت کے باوجود اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بل کہ وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت اور پسندیدگی میں اضافہ ہی ہواہے۔ غزل اپنی ابتدا سے
موجودہ عہد تک آتے آتے موضوعاتی اور ہیئتی اعتبار سے مختلف تجربات سے گزری
ہے۔ کبھی آزادغزل کی روش کواپنایاگیا تو کبھی بحروں کے ارکان کی کمی بیشی سے
اسے نیا آہنگ دینے کی سعی کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تین سو سال سے غزل ایشیائی
شاعری کی مقبول ترین صنف سخن رہی ہے ۔ اس کے دم سے اردو شاعری کاباغ شاداب
صنف شعر اس میں کچھ ایسی لچک پائی جاتی ہے جو ہر آنے والے ِ ہے بہ حیثیت ایک
دور کے نئے تقاضوں میں باآسانی ڈھل جاتی ہے اور اپنے کالسیکی آہنگ کو برقرار
رکھتے ہوئے ہر عہد کے نئے فکری،سماجی عوامل اور تہذیبی رجحانات سے اکتساب
کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے:
''اردو غزل جو تین سو سال تک جاگیردارانہ تصورا ت کی عکاسی بنی رہی۔ آج بڑی
کامیابی کے ساتھ بیسویں صدی کے تمدنی بحران اور تہذیبی خلفشار کو اپنی مخصوص
رمزیت وایمائیت کے دامن میں سمیٹے ہوئے نظر آتی ہے۔''((٦٩
غزل نے جو طویل سفر طے کیا اس مینکتنے ہی تہذیبی وتمدنی بحران پڑائو کیے ہوئے
''دیوان ولی'' سے
ِ نظر آتے ہیں۔ اس عظیم الشان ف ّنی سرمائے اور شعری ذخیرے کی ابتدا
ہوئی۔''دیوان ولی'' جب شمالی ہند پہنچا تو اتنامقبول ہواکہ اردو غزل کے فنی و فکری
لحاظ سے اپنے پائوں پر کھڑی ہونے کے امکانات روشن ہوگئے۔ مغلوں کے زوال کے
بعد ہندوستان جہاں سیاسی طور پر منتشر ہوا۔ وہیں اردو ادب بھی دو دبستانوں میں تقسیم
ہوگیا۔ تاہم یہ تقسیم ارد وغزل کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی۔دبستان دہلی نے جہاں غالب
،ذوق اور ظفر جیسے شعرا پیداکیے وہاں لکھنؤ میں بھی آتش ،انشا اور مصحفی جیسے
شاعر سامنے آئے۔دلی میں اردو غزل داخلی کیفیات سوز وگداز اور اندیشہ ہائے دور
دراز سے معمور ہوئی تو لکھنؤ میں خارجی عناصر سے غزل کادامن وسیع ہوا۔
١٨٥٧ء کے بعد انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی جب نظم کومقبولیت ملی تو
موالناحالی نے غزل کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی لیے لفظی اور فکری
جدتوں کاپیغام عام کیا۔ یوں اردو غزل کے فکری رویوں میں تبدیلی کاآغاز ہوا۔ اس کے
بعد اقبال نے غزل میں قومی فکر وشعور کو جس طرح اجاگر کیا ۔وہ ارد وغزل کے لیے
سنگ میل ثابت ہوا۔ ١٩٣٦ء میں ترقی پسندتحریک سے وابستہ شعرا نے زیادہ تر ِ ایک نیا
نظموں کو وسیلہ اظہاربنایا۔ تاہم انھوں نے غزل کو بھی نظر انداز نہینکیا۔ بل کہ غزل کی
پرانی عالمتوں کو نئے تناظر میں استعمال کیا۔ اس حوالے سے فیض کے اشعار جام کہن
ب ذوق کے شعرا نے جب بادہ نو کی مثال ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ حلقہ اربا ِ
ب ذوق کے روح رواں غزل کے مقابلے میں نظم کو ترجیح دی تو ایسے میں حلقہ اربا ِ
میراجی نے غزل کو ''سداسہاگن'' قرار دیا۔ حلقے کے شعرا پر سب سے بڑا اعتراض یہ
ہوا کہ یہ غزل نہیں کہہ سکتے مگر یہ تاثر بھی وقتی ثابت ہوا ،کیوں کہ غزل کو جدید
اسالیب سے ہم آہنگ کرنے کاسہرا بھی حلقے کے جدید شعرا کے سر ہے ۔
ریاض احمد نے اپنے شعری سفر کے دوران غزل کی طرف سے بہت کم توجہ
دی ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں چند ایک
بنیادی پابندیوں کو قبول کرناپڑا۔ہیئتی سطح پربھی شاعر معین حدود سے تجاوز نہیں کر
جہان معنی آباد کرنے کی گنجائش موجود
ِ سکتا ۔یہ اور بات ہے کہ ان حدود میں بھی ایک
مروجہ ہیئتوں کو بہت کم برتا جاتاہے بل کہ ہئیتوں کے نت
ہوتی ہے۔ جب کہ نظموں میں ّ
رویہ غزل میں کام نہیں آسکتا۔
نئے تجربات سے نظم تشکیل کی جاتی ہے ۔یہ ّ
ریاض احمد نے کل اکیس غزلیں لکھیں۔ ان میں سے تیرہ غزلیں ان کے شعری
مجموعے دہان زخم میں شامل ہیں اور چار غزلیں ''عالمت'' رسالے میں شائع ہوئیں۔
دوغزلیں'' نیادور'' رسالے میں ،دو غزلیں''ماہنامہ صریر'' میں شائع ہوئی۔اس طرح کل
اکیس غزلیں بنتی ہیں۔
نظم کی طرح ریاض احمد کی غزل کے بھی موضوعاتی لحاظ سے کئی رنگ ہیں
۔ان کی غزلوں میں حسن وعشق کابیان ،ہجر ووصال کے قصے،ماضی کی یادیں ،تنہائی
غم دوراں،احساس ِفنا ،حقائق ،عقائد کی کشمکش کے عالوہ سیاسی ،سماجی اور
کاکربِ ،
معاشرتی موضوعات کا بیان بھی ملتاہے۔ نظم کے برعکس غزل میں ریاض احمد نے ان
موضوعات کو روایتی ہیئت میں بیان کرتے ہیں اور غزل کی شعری روایت سے راہ
نمائی لیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
ہجر ووصال کابیان: ٭
اردو غزل میں ہجر وووصال کاموضوع ایک عمومی موضوع ہے اور اردوغزل
کے ہر شاعرنے اس موضوع کو شاعری کا حصہ بنایا۔کہیں حقیقی رنگ میں اور کہیں
مجاز کے رنگ میں۔ کہیں شاعر کادل ہجر میں تڑپتا ہے توکہیں وصل کی لذت سے
سرشار ہوتاہے گویا یہ ایساموضوع ہے جسے ہر شاعر نے اپنے نکتہ نظر سے بیان کیا۔
ریاض احمد کے ہاں ہجر ووصال کی کیفیتوں کاجدابیان ملتاہے۔ ان کے نزدیک وہ شب
ب وصل ہے جس میں محبوب کی یاد انھیں تڑپاتی ہے۔بھی ش ِ
کیسی عجیب شب تھی جوگزری فراق میں
یادیں اسی کی تھیں مگر اس کانشان نہ تھا ((٧٠
تکرار لفظی کااستعمال کرتے ہوئے شب ِفراق کاقصہ کچھ
ِ ریاض احمد صنعت ِتضاد اور
اس اندازمیں بیان کرتے ہیں:
ہوئی صبح جب تو نگار غم نے کہا کہ مجھ کو دعائیں دو
مرے دم سے رات فراق کی نہ اداس تھی نہ گراں رہی ((٧١
جب تک محبوب کی صورت شاعر کے تصویر میں بسی نہیں تھی اُس وقت تک انھیں نہ
تو شب ِفراق کاغم رہتاتھا اور نہ ہی شب وصل کی آرزوتھی۔
تھا اسی کافیض کہ عشق میں نہ فراق تھا نہ وصال تھا
تیری ایک صورت دلبری جو مری نظر سے نہاں رہی ((٧٢
ریاض احمد اپناعہد ماضی یاد کرتے ہیں جب ان کے دن بھی محبوب کی یاد میں کٹتے
تھے اور رات بھی محبوب کے خواب دیکھتے ہوئے گزرتی تھی:
ہجر کے دن کی سرشاری ،ہجر کی رات کے خواب
یاد بہت آتا ہے اب بھی اپنا عہ ِد شباب ((٧٣
زندگی کو کتاب کے ساتھ استعارہ کرتے ہوئے ریاض احمد اپنے عہ ِد ماضی کویاد کرتے
ہیں اس میں انھیں بس فراق کے رات دن ہی یاد آتے ہیں وصل کا کہیں نام ونشان نہیں
ہے:۔
آخر وصا ِل یار کا پیغام آگیا
باقی جو رہ گیا وہ الزام آگیا ((٧٤
ریاض احمد کے ہاں ہجرو فراق کا بیان حسن پرستی سے ماخو ذ ہے۔ وہ حسن پرستی
کے اتنے دلداہ ہیں جس کانتیجہ درد و غم اور ہجر و فراق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے
مگر ریاض احمد وصال کے کہیں بھی طلب گار دکھائی نہیں دیتے۔ ہجر وفراق کے بیان
میں بھی کہیں یاسیت دکھائی نہیں دیتی۔ بل کہ فراق کاغم بھی انھیں اِک گونہ نشاطیہ
کیفیت سے دوچار کرتاہے۔
فصل پنجم:
ریاض احمد نے کئی ایک افسانے بھی تحریر کیے مگر بدقسمتی سے وہ سب کے
سب ضائع ہو گئے اور شائع نہ ہو سکے۔ ریاض احمد کا بس ایک افسانہ ملتا ہے جو کہ
'' ُمتلّی سانسی'' کے نام سے ''صحیفہ'' رسالہ میں شائع ہوا۔
ریاض احمد کا تحریر کردہ افسانہ ''متلی سانسی'' کا موضوع محبت ہے مگر یہ
محبت ایک نچلی ذات کے مرد کی انا کی کہانی ہے۔ ایک طرف تو وہ محبت میں قربانی
اور ایثار کا علم بردار ہے مگر دوسری طرف ان کے اندر کا مرد اُسے اپنی انانیت کی
تسکین پر اُکساتا ہے اور وہ باآلخر مجبور ہو کر ایسی روش اختیار کرتا ہے کہ اُس کی
محبوبہ اُس کی طرف لوٹ آتی ہے۔
ب ذوق سے کہانی کا انداز عالمت یا تجرید کا سا نہیں ہے۔ ریاض احمد حلقہ اربا ِ
وابستہ تھے اور حلقہ ارباب ذوق اردو نثر و نظم میں جدیدیت کا پیروکار رہا مگر ریاض
انداز تحریر کا نمونہ ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر استعاراتی اندازِ احمد کا یہ افسانہ سادہ
َدر آتا ہے مگر کہانی میں افسانہ پن برقرار رہتا ہے۔
''متّلی سانسی'' اپنے کتے کے ہمراہ شکار کرتا ہے اور ساری رات گاؤں کا پہرہ
دیتا ہے۔ پوری کہانی واحد متکلم کی زبانی ہے جو ُم ّتلی سانسی کی پریم کتھا کو اس کے
اتار چڑھاؤ کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ ُمتلّی خود کو رانجھے کا جانشین سمجھتا ہے۔ وہ اپنی
ملحوظ خاطر
ِ حفظ مراتب کو
ِ محبوبہ فتے کو ہیر کی مانند قرار دیتا ہے۔وہ اُس سے تمام
رکھتے ہوئے محبت کرتا ہے۔ وہ اپنی انا اور خودداری کے خول میں رہتا ہے اور باآلخر
فتے کا بیاہ ہو جاتا ہے مگر کہانی میں اہم موڑ تب آتا ہے جب فتے بیوہ ہو جاتی ہے اور
اس کے شوہر کا قاتل گم ہو جاتا ہے۔ واحد متکلم اُسے طعنہ دیتا ہے کہ تو بھی رانجھے
کی طرح بزدل عاشق ہے اور خود کو فتے کے قابل نہیں سمجھتا۔ اس موقعے پر وہ ایک
معنی خیز جملہ ادا کرتا ہے:
'' جی آپ بھی یہی کہنا چاہتے ہیں نا کہ میں بزدل ہوں ،نامرد ہوں۔ پہلی بات تو میں
نے غلط ثابت کر دی اور دوسری…''((١٣٤
اس کے منہ سے بے اختیاری کی حالت میں راز فاش ہو جاتا ہے کہ فتے کے
شوہر کا قتل اس نے کیا ہے۔ پھر یکدم فتے گھر سے غائب ہو جاتی ہے اور ُمتّلی سب
جانتا ہے۔ افسانے کا آخری جملہ بڑا معنی خیز ہے۔
''وہ آئے گی ،واپس آئے گی ،آج شام سے پہلے'' اس نے لپک کر الٹھی اٹھائی اور
کوہی کو تھپکتے ہوئے بوال چچا نتھے سے کہہ دیجیے میں اُس سے بیاہ کروں
گا۔''((١٣٥
گویا وہ فتے کو ایک فاتح کی طرح قبول کرتا ہے۔ اُسے موقع دیتاہے کہ وہ آزاد پھرے
لیکن باآلخر اُسے لوٹ کر اُسی کے پاس آنا ہے۔
ریاض احمد نے بظاہر ایک نچلی ذات کے مرد کی کہانی بیان کی مگر انھوں نے
ت نفس اور اخالقیات کی پاس داری کا ذکر کیا۔
اس طبقے میں بھی انا ،خودداری ،عز ِ
اس افسانے کے کردار حقیقی رنگ سے مزین ہیں۔ واحد متکلم یعنی قصہ گو،
ُمتّلی ،فتے ،چچا نتھا اور ُکتا'' کو ہی سب اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ ُمتّلی اس کہانی کا
مرکزی کردار ہے۔ اُسے اپنے کتے'' کوہی'' سے بہت محبت ہے۔ اس نے ایک بیمار،
خارش زدہ پلّے کی شکل میں اسے اپنایا تھا اور بعد میں اسے ایک خوب صورت کتے
کی شکل میں بدل دیا۔
ُمتّلی ہر وقت جذبات کے اُتار چڑھاؤ کا شکار رہتا ہے۔ گندگی سے محبت ہے اسی
حتی کہ چودھری سے ملنے واال گرم کوٹ بھی وہ کسی لیے صاف کپڑے کم پہنتا ہے ٰ
بوڑھے کو دے دیتا ہے۔ ا س سے اس کے جذبہ ایثار اور انسان دوست ہونے کا پتہ چلتا
ہے ،اُسے شکار سے خاص شغف ہے۔ کباڑیے کی دکان بھی کرتا ہے مگر عجیب و
غریب سے شوق پال رکھے ہیں۔
اُس کا دائرہ عمل ایک محدود عالقہ ہے اور وہ اجنبی راستوں اور عالقوں سے
اجتناب کرتا ہے۔ ُمتّلی فتے سے ناراض ہو جاتا ہے اور باوجود چچا چچی کے اصرار
اظہار محبت نہیں
ِ کے ،اس سے بیاہ نہیں کرتا۔ وہ اُس کی یاد میں روتا ،بلکتا ہے مگر
ی کہ وہ اُسے پھول دینا چاہتا ہے مگر دے نہیں پاتا۔ کرتا حت ّٰ
'' فتے اور وہ اکٹھے پروان چڑھے لیکن ایک دفعہ کسی بات پر فتے سے ایسا
روٹھا کہ پھر کبھی اس سے بات نہ کی۔ یہ قطع کالمی دراصل ایک قسم کی جھجک تھی
جس نے اس کی تمام قوتیں سلب کر لی تھیں ،وہ فتے پر جان چھڑکتا تھا لیکن دور ہی
دور سے جس جگہ اُسے فتے کے سائے کا بھی گمان گزرتا وہاں سے کھسک جاتا۔ گھر
میں وہ کبھی ایسے موقعہ پر داخل ہوا ہوا جب فتے کے تنہا ہونے کا امکان ہوتا۔ اس کے
چچا چچی کی خواہش تھی کہ متلی سے فتے کو بیاہ دیں لیکن ُمتّلی نے صاف انکار کر
دیا۔ اس کے بعد وہ بھی مجھے بتاتا رہا کہ اس کا عشق صادق ہے۔ وہ اپنے عشق پر قائم
ہے لیکن خدا جانے یہ کس قسم کا عشق تھا اور اس عشق کے تقاضے کیا تھے اور اس
عشق میں ُمتّلی کو کیا مزا آتا۔ بعض اوقات میں نے اسے روتے بھی دیکھا اور اس وقت
مجھے یقین آ جاتا کہ ُمتّلی کے عشق میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے۔''((١٣٦
فتّے کی بیوگی کے بعد ُمتّلی کے شب و روز بدل جاتے ہیں۔ وہ اضطراب اور غیریقینی
حرکات اور جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اُسے یوں لگتا ہے کہ اگر اُس نے کسی سے بگاڑ
خالف معمول دور دراز کے عالقوں میں جانا
ِ لی تو کہیں پھانسی نہ چڑھ جائے۔ اب وہ
پسند کرتا۔
صہ گو کا ہے۔ یہ کردار واضح نہیں نہ اس کے خدوخال نمایاں ہیں
دوسرا کردار ق ّ
مگر افسانے کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ متّلی کا قریبی دوست ہے اور اس
سس ہے اور کے شب و روز اس کے ساتھ گزرتے ہیں۔ وہ ُمتّلی کا مزاج شناس ہے ،پرتج ّ
چاہتا ہے کہ متلّی کی پریم کہانی احسن طریقے سے انجام کو پہنچے۔ وہ باتوں باتوں میں
اُس سے اہم راز بھی اگلوا لیتا ہے یعنی فتے کے شوہر کے قتل کا۔ وہ جان بوجھ کر اُسے
رانجھے کے کردار کی خامیوں کا بتاتا ہے تاکہ عقلی متلّی کے اندر کے چھپے ہوئے
عاشق کو باہر السکے۔ بحیثیت مجموعی یہ کردار ذہین اور فطرت شناس ہے۔
فتے ایک شرم و حیا میں لپٹی ہوئی لڑکی ہے جو ُمتّلی
تیسرا کردار فتّے کا ہے۔ ّ
کے انکار کے بعد والدین کی رضا پر سر جھکا کر شادی کر لیتی ہے اور بیوگی کے دُکھ
کو بھی سہہ لیتی ہے۔ ریاض احمد نے فتّے کا سراپا یوں بیان کیا ہے۔
''وہ ایک اس قسم کی لڑکی تھی ،جس سے کوئی بھی عجیب بات منسوب نہ ہو۔
وہی گھریلو قسم کا دیہاتی چہرہ۔ وہی سادگی اور جوانی کی رعنائی لیکن پھر بھی وہ کچھ
دل میں کھب سی جاتی تھی۔ وہ کچھ ایسی شرمیلی تھی کہ بدن چرانا اس کی مستقل ادا بن
کر ہو گئی تھی۔ ہر وقت یوں محسوس ہوتا جیسے مشتاق نظروں کی حدت کے سامنے وہ
گھلی جا رہی ہو۔ مدافعت کے لیے لجائی ،کسمساتی سمٹتی چلی جا رہی ہو۔ یہ ادا دیکھنے
والوں کو خواہ مخواہ اپنے اشتیاق کا احساس دال جاتی۔ بیوگی کے بعد وہ بات تو نہ رہی
دیوار گلستاں پر!''((١٣٧
ِ لیکن اب بھی کچھ دھوپ سی باقی تھی
ت نفس اور شفقت سے معمور ہے۔ اُسے ایک مختصر کردار چچا نتھے کا ہے جو عز ِ
اپنی بیٹی کے یوں غائب ہونے کا قلق ہے اور وہ ُمتّلی کی ہٹ دھرمی اور فتّے سے بیاہ
کے انکار پر رنجیدہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایک اور اہم کردار ''کو ہی'' کا ہے جو کتے کا
کردار ہے۔ ریاض احمد نے اس کا سراپا یوں بیان کیا:
'' کتے کا نام کوہی تھا۔ وہ تازی نسل کا بڑے قد کا سفید کتا تھا۔ جلد اتنی نازک کہ
نیچے رگوں میں خون کی اللی صاف جھلکتی اور چھوٹے چھوٹے سفید بال کچھ سنہری
سے نظر آئے۔ منہ لمبوترا ،سر چھوٹا ،گردن کسی قدر لمبی ،پٹھے خاصے چوڑے اور
دُم پچھلی ٹانگوں م یں گھٹنوں کے قریب پہنچ کر قدرے اوپر کو اٹھی ہوئی۔ وہ تنا ہوا کھڑا
تھا۔ زبان باہر لٹک رہی تھی۔ انگ انگ سے ایک بے چینی ٹپک رہی تھی اور پچھلی
ٹانگوں کے پٹھے پھڑک رہے تھے۔''((١٣٨
اس کتے کی پھرتی ،تیزی اور شکار کی استطاعت بے مثل ہے۔ وہ مالک کا وفادار ہے
اور جس طرح مالک نے اُسے ایک خارش زدہ بیمار پلّے سے سنبھال کر بڑا کیا اس پر
وہ اپنے مالک کا شکر گزار بھی ہے۔
ریاض احمد نے اس افسانے کی تخلیق میں اپنے اسلوب کی جھلک پیش کی۔ اس کا
سسپالٹ جان دار اور دل چسپی سے بھرپور ہے۔ ایک واقعہ دوسرے سے جڑا ہے۔ تج ّ
اور استعاراتی انداز نے اسے اور بھی قاب ِل غور بنا دیا ہے۔ مکالماتی انداز ،منظر کشی
اور صوتی عالمات نے کہانی میں خاص رنگ پیدا کیا ہے۔ خاص طور پر منظرکشی کے
عمدہ نمونے اس افسانے کا ہیں۔
منظر کشی کے نمونے:
( '' (١سامنے کھال سفید میدان تھا۔ ایک بھورے رنگ کا روئی کا گاال سا زمین سے
تقریبا ً ایک فٹ اونچا اپنے پیچھے غبار کی ایک ہلکی سی لکیر چھوڑتا ہوا اڑا جا رہا تھا
اور اس کے پیچھے ایک مٹیالی کمان تنی ہوئی تھی جس کے دونوں کونے ہر لمحے زہ
ہو کر ایک دوسرے کے قریب آ جاتے اور پھر اپنی پوری لمبائی تک پھیل جائے''((١٣٩
('' )٢دوپہر کو گھنٹہ گھنٹہ سورج خوب چمکا لیکن اب اُفق کے قریب قرمزی بدلیاں
سی نظر آنے لگی تھیں۔ پہلے پہل ان کا سفید رنگ بڑا بھال معلوم ہو رہا تھا لیکن جب
ایک بدلی کھسکتی ہوئی سورج کے سامنے آ گئی تو سارا منظر اُداس ہو گیا۔ گندم کے
ننھے ننھے پودے کچھ مرجھائے ہوئے نظر آنے لگے۔''((١٤٠
افسانے کے مکالمے دل چسپ ہیں اور کئی سوالوں کو جنم دیتے ہیں اور کئی سوالوں
صہ گو کے مکالموں سے اُس کے کردار کو سمجھنے میں کے جواب بھی دیتے ہیں۔ ق ّ
بھی مدد دیتی ہے:
''یار تم کہاں غائب ہو گئے تھے۔
جی میں یہیں تھا۔
ہم تو تمہیں ڈھونڈتے رہے تمہارا کہیں پتہ ہی نہ چال۔
جی ذرا پیپل والے کنویں پر سائے میں لیٹ گیا تھا ،بس آنکھ لگ گئی۔
''فتے تو اب پرسوں آئے گی''
وہ جیسے پھوٹ پڑا۔ ((١٤١
بطور تنقید نگار جانا جاتا ہے مگر ان کے افسانے نے ثابت کر
ِ ریاض کو ادبی میدان میں
دیا کہ وہ اچھے افسانہ نگار بھی ہیں اس کے باوجودانھوں نے افسانہ نگاری کی طرف
خاص توجہ نہیں دی۔ اس کی وجہ غالبا ً اُن کی تنقیدی بصیرت تھی اور وہ خود کو بطور
تنقید نگار منوانا چاہتے تھے۔
الغرض ریاض احمد کا یہ افسانہ پالٹ ،کردار نگاری ،مکالمہ نگاری اور
منظرنگاری ہر لحاظ سے مکمل افسانہ ہے۔ اُن کا یہ افسانہ معاشرے کی جیتی جاگتی
تصویر ہے۔ اُن کے کردار حقیقت سے قریب تر ہیں۔ افسانے کے کہانی سے محسوس ہوتا
ہے کہ اُن کا مشاہدہ عمیق اور مطالعہ وسیع ہے اور وہ معاشرتی رویوں سے بخوبی آگاہ
ہیں۔ انھیں انسانی نفسیات کی خاص سمجھ بوجھ ہے۔ اُن کے ہاں منظرنگاری اور سراپا
نگاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ ریاض احمد کے ہاں جملوں کی برجستگی ،مکالماتی
انداز بیان موجود ہے۔ بحیثیت مجموعی اُن کے افسانے کو اردو ادب میں عمدہ اضافہ کہا
ِ
جا سکتا ہے۔
حوالہ جات
سید رفیع الدین اشفاق ،ڈاکٹر ،اردو میں نعتیہ شاعری ،کراچی ،اردو اکیڈمی سندھ، ١۔
اکتوبر ١٩٧٦ئ ،ص ٣٠
ریاض احمد ،رحمة اللعالمین ،مشمولہ عالمت رسالہ ،الہور ،ستمبر ١٩٩١ئ، ٢۔
شمارہ ،١١ص ١٧
ریاض احمد،عقبہ ثانی،مشمولہ،عالمت،رسالہ،الہور،اکتوبر١٩٩١ئ،ص٢٣ ٣۔
ریاض احمد،نعت،مشمولہ،عالمت،رسالہ،الہور،جنوری١٩٩٩ئ،ص٣٥ ٤۔
ایضا ً ٥۔
ریاض احمد ،کبھی کو ایسا بھی وقت آئے ،مشمولہ عالمت رسالہ ،الہور ٢ ،نومبر ٦۔
١٩٩١ئ ،شمارہ ،١٣ص ٣١
ریاض احمد ،بس اتنی دعا ،مشمولہ عالمت رسالہ ،الہور ،جنوری ١٩٩١ئ ،شمارہ ٧۔
،٣٠ص ١٣
دہان زخم ،مرتبہ :ڈاکٹر اسلم رانا ،الہور ،ضیائے
ِ ریاض احمد ،نظم ''محرم میں''، ٨۔
ادب ،جنوری ١٩٨٣ئ ،ص ٢٦
دہان زخم ،ص ٣١
ِ ریاض احمد ،نظم ''کربال سے ایک آواز، ٩۔
وزیر آغا ،ڈاکٹر ،اردو شاعری کا مزاج ،الہور ،مکتبہ عالیہ١٩٩٩ ،ئ ،ص ٢٧ ١٠۔
خاقان خاور مضمون اقبال اور اردو ،بیاض نمبر ،٢٨س ن ،ص ١٩ ١١۔
خواجہ محمد زکریا ،اردو نظم کے پچاس سال ،الہور ،مکتبہ عالیہ١٩٨٦ ،ئ ،ص ١٢۔
٧٨
وزیر آغا ،ڈاکٹر ،اردو شاعری کا مزاج ،ص ٣٧٥ ١٣۔
١٤۔ انور سدید ،ڈاکٹر ،اردو ادب کی مختصر تاریخ ،اسالم آباد ،مقتدرہ قومی زبان،
فروری ١٩٩١ئ ،ص ٥١٦
وزیر آغا ،ڈاکٹر ،اردو شاعری کا مزاج ،ص ٣٧ ١٥۔
دہان زخم ،مرتبہ :ڈاکٹر اسلم رانا ،الہور (ضیائے ادب) ،جنوری
ِ ١٦۔ اسلم رانا ،ڈاکٹر،
١٩٨٣ئ ،ص ١٣
دہان زخم ،ص ٣٣
١٧۔ ریاض احمد ،نظم ''محبت''ِ ،
١٨۔ ریاض احمد ،نظم ''جسم'' ،ایضاً ،ص ٣٤
١٩۔ ریاض احمد ،نظم ''کہہ مکرنی'' ،ایضاً ،ص ٣٦
٢٠۔ ریاض احمد ،نظم ''واپس آتے ہوئے'' ،ایضاً ،ص ٤٧
٢١۔ ریاض احمد ،نظم ''آئینہ'' ،ایضاً ،ص ٤٥
٢٢۔ ریاض احمد ،نظم ''اس لمحے کو روکو'' ،ایضاً ،ص ٥٢
٢٣۔ ایضاً ،ص ٥٣
٢٤۔ ریاض احمد ،نظم ''لمحے کے آئینے میں'' ،ایضاً ،ص ٥٩
''منسون شب'' ،ایضاً ،ص ٦٢
ِ ٢٥۔ ریاض احمد ،نظم
٢٦۔ ایضاً ،ص ٦٥
٢٧۔ ریاض احمد ،نظم ''سحر ہونے تک'' ،ایضاً ،ص ٧٢
٢٨۔ ایضاً ،ص ٧٧
٢٩۔ ریاض احمد ،نظم ''میری زندگی'' ،ایضاً ،ص ٨٢
٣٠۔ ریاض احمد ،نظم ''گم گشتہ'' ،ایضاً ،ص ٩٦
٣١۔ ریاض احمد ،نظم ''بھائی سے'' ،ایضاً ،ص ١٠٢
ریاض احمد ،نظم ''جنگ'' ،ایضاً ،ص١٠٣ ٣٢۔
٣٣۔ ایضاً ،ص ١٠٥
٣٤۔ ایضاً ،ص ١١١
موسی'' ،ایضاً ،ص ١١٧
ٰ ٣٥۔ ریاض احمد ،نظم ''اعصائے
٣٦۔ ریاض احمد ،نظم ''مشورہ'' ،ایضاً ،ص ١١٨
٣٧۔ ریاض احمد ،نظم ''عالمی انصاف'' ،ایضاً ،ص ١٢٥
''ہولی'' ،ایضاً ،ص ١٢٨
ٰ ٣٨۔ ریاض احمد ،نظم
٣٩۔ ریاض احمد ،نظم ''افسر شاہی'' ،ایضاً ،ص١٣٠
٤٠۔ ریاض احمد ،نظم ''زہر کا پیالہ'' ،ایضاً ،ص ١٣٧
٤١۔ ریاض احمد ،نظم ''دائرے کا افتاد'' ،ایضاً ،ص١٣٩
دہان زخم ،ایضاً ،ص ١٧
ِ ٤٢۔ ڈاکٹر اسلم رانا ،پیش لفظ،
دہان زخم،ص ١٤٤
ِ ٤٣۔ ریاض احمد ،نظم ''اجڑی جنت،
ریاض احمد ،نظم ''نفرت کا زہر'' ،ص ١٥٩ ٤٤۔
٤٥۔ ریاض احمد ،نظم ''ایک بات '' مشمولہ عالمت ،الہور ،اپریل ١٩٩١ئ ،شمارہ ،٦
ص ٢٩
٤٦۔ ریاض احمد ،نظم ''نیند کے سائے'' مشمولہ عالمت ،الہور ،دسمبر ١٩٩١ئ ،شمارہ
،١٢ص ٥١
ریاض احمد ،نظم ''جھولی'' ،مشمولہ،عالمت ،مئی ١٩٩٣ئ ،شمارہ ،٥ص٢٩ ٤٧۔
٤٨۔ ریاض احمد ،نظم ''قبرستان'' ،مشمولہ،عالمت ،اپریل ١٩٩٥ئ ،شمارہ ،٤ص٥
ریاض احمد ،نظم ''شاعر کا جرم'' ،مشمولہ،عالمت ،جنوری ١٩٩٦ئ ،ص٤٤ ٤٩۔
ریاض احمد ،نظم ''جو بھی چاہے مانگ'' ،مشمولہ،عالمت ،مئی ١٩٩٨ئ ،ص٣٧ ٥٠۔
ریاض احمد،نظم''،روشنی بانٹنے والے''،مشمولہ،عالمت،مئی١٩٩٨ئ،ص٤٢ ٥١۔
ریاض احمد ،نظم ''اک پاگل لڑکی'' ،ماہنامہ صریرکراچی ،مئی ١٩٩٥ئ ،ص٥٩ ٥٢۔
ریاض احمد ،نظم ''جب کی بات'' ،ماہنامہ صریر کراچی ،ستمبر ١٩٩٥ئ ،ص٥٣ ٥٣۔
ریاض احمد ،نظم ''کوئی پوچھے تو'' ،ماہنامہ صریرکراچی ،مارچ ١٩٩٧ئ، ٥٤۔
ص٥١
٥٥۔ ریاض احمد ،نظم ''دو مرثیے'' ،ماہنامہ صریر کراچی ،جون۔جوالئی ١٩٩٧ئ،
ص٣٠٣
ریاض احمد ،نظم ''ہم زاد سے'' ،ماہنامہ صریرکراچی ،دسمبر ١٩٩٧ئ ،ص٥٢ ٥٦۔
ریاض احمد ،نظم ''آسیب زدہ شہر'' ،ماہنامہ صریر کراچی ،جنوری ١٩٩٨ئ، ٥٧۔
ص٤٨
ریاض احمد ،نظم ''نکاال چاہتا ہے کام'' ،ماہنامہ صریر کراچی ،اکتوبر ١٩٩٩ئ، ٥٨۔
ص٤٩
٥٩۔ ریاض احمد ،نظم ''اک دیوی۔ اک نار'' ،ماہنامہ صریر کراچی ،جون ،جوالئی
٢٠٠١ئ ،ص٣٣٤
٦٠۔ ریاض احمد نظم ''چا ِہ یوسف'' ،ما ِہ نو کراچی ،جوالئی ١٩٨٢ئ ،ص ٩١
ت خاص ،س ن ،شمارہ نمبر ،٥٤
٦١۔ ریاض احمد ''نظم'' ،ماہنامہ سیارہ ،الہور ،اشاع ِ
ص ١٩٩
''صور اسرافیل'' ،ایضاً ،ص ١٩٩
ِ ٦٢۔ ریاض احمد،
٦٣۔ ریاض احمد'' ،تو آ پھر سامنے آ'' ،ایضاً ،ص ٢٠٠
٦٤۔ ریاض احمد'' ،توحید'' ،ایضاً ،ص ٢٠١
٦٥۔ ریاض احمد'' ،چور مہاراج کی جے'' ،ایضاً ،ص ٢٠٢
٦٦۔ ریاض احمد ،نظم ''جب دودھ پانی بنے'' ،سہ ماہی دانشور ،الہور ،شمارہ نمبر
،٢٩جوالئی ٢٠٠١ئ٩٢ ،
دہان زخم ،ص ١٤
ِ ٦٧۔ اسلم رانا ،ڈاکٹر ،پیش لفظ،
یوسف حسین ،ڈاکٹر ،اردو غزل ،دلی ،مکتبہ لمیٹڈ ،جامعہ نگر١٩٥٢ ،ئ٤٢ ، ٦٨۔
اختر انصاری ،غزل اور غزل کی تعلیم ،دہلی ،ترقی اردو بورڈ١٩٧٩ ،ئ ،ص ٣٩ ٦٩۔
٧٠۔ ریاض احمد،غزل،دہان زخم،ص١٦٨
٧١۔ ایضاً،ص١٩١
٧٢۔ ایضاً،ص١٩٢
ریاض احمد،غزل،مشمولہ،عالمت،الہور،جنوری١٩٩٣ئ،ص١٨ ٧٣۔
ریاض احمد،غزل،دہان زخم،ص١٦٩ ٧٤۔
٧٥۔ ایضاً،ص١٦٧
٧٦۔ ایضاً،ص١٧١
٧٧۔ ایضاً،ص١٧٤
٧٨۔ ایضاً،ص١٩١
٧٩۔ ریاض احمد،غزل،مشمولہ،عالمت،الہور،جنوری١٩٩٣ئ،ص١٨
ریاض احمد،غزل،مشمولہ،عالمت،الہور،اپریل٢٠٠١ئ،ص٢٤ ٨٠۔
ریاض احمد،غزل،دہان زخم،ص١٧٣ ٨١۔
٨٢۔ ایضاً،ص١٨٤
٨٣۔ ایضاً،ص١٨٥
ریاض احمد،غزل،مشمولہ ماہنامہ،صریر،کراچی،جون جوالئی،١٩٩٩ص٣٣٦ ٨٤۔
ریاض احمد،غزل،دہان زخم،ص١٩١ ٨٥۔
٨٦۔ ایضاً،ص١٧٧
٨٧۔ ایضاً،ص١٨٣
٨٨۔ ایضاً،ص١٨٩
٨٩۔ ایضاً،ص١٩٠
٩٠۔ ایضاً،ص١٨١
٩١۔ ایضا ً
تنقید فلسفہ ادب بھی ہے اور ادبی تھیوری بھی۔ جیسے فلسفہ کے بغیرزندگی
کاتصور ممکن نہیں ایسے ہی ادب کاتصور تھیوری کے بغیر ناممکن ہے۔اگر شعر
اچھاہے اوردل کو لگتا ہے تو ہم اس کو محسوس کر سکتے ہیں لیکن یہ اعال کس وجہ
سے ہے اور اس میں کون کون سی خوبیاں ہیناگر یہ بتاناپڑے تو یہ عمل تنقید کہالئے گا۔
اس طرح تنقید ادب میں نئے نئے موضوعات کااضافہ کرتی ہے ۔اردو زبان و ادب کی
تاریخ کاہر دور تحقیق وتنقید کے نئے پہلوئوں سے روشناس کروانے میں اپناکردار ادا
کرتارہاہے۔ انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں میں صداقت کی تالش و جستجو جاری رہی
ہے اور جاری رہے گی ۔نیاآنے واال ہر نقاد ،محقق اور تخلیق کار زبان وادب کے مختلف
تاریک گوشوں کوروشنی میں النے کی اپنی سی کوشش کرتاہے اور اپنے شعور وآگہی
تشنگان زبان و ادب کے قلب و ذہن کی پیاس بجھاتا رہاہے۔
ِ سے
اردو ادب میں ایسے بہت سے ادیب ملیں گے جو بیک وقت شاعر بھی تھے اور
نقاد بھی ،موالناالطاف حسین حالی نقاد بھی تھے اور شاعر بھی۔موالنا محمد حسین آزاد
شاعر اور نقاد تھے۔ ایسے ہی عالمہ شبلی نعمانی نے جہاں شاعری کی وہاں تنقیدی
مضامین بھی لکھے۔ مجنوں گورکھ پوری افسانہ نگار بھی تھے اور نقاد بھی۔بحیثیت
بطور نقاد ملی،
ِ مجموعی ان سب کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ان سب کو شہرت
شاعر یا ادیب کے طور پر نہیں۔ موجودہ دور میں دیکھاجائے تو ہمیں ایسے بہت سے
اصناف سخن میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ان میں
ِ ادیب ملیں گے جو بیک وقت مختلف
سرفہرست شمس الرحمن فاروقی ہیں جو بیک وقت شاعر بھی ہیں ،تنقید نگار ،افسانہ نگار
،ناول نگا راور مترجم بھی۔ مگر ان کو شہرت ان کی تنقید کی بدولت ملی ۔
اردو تنقید میں نفسیاتی تنقید کے نظریات مغربی ادب سے آئے۔ انیسویں صدی کی
تیسری اور چوتھی دہائی میں چند نئے نقادوں نے فرائڈ ایڈلر اور ژونگ کے نظریات کی
روشنی میں اردو میں نفسیاتی تنقید کا آغاز کیا۔ جنھوں نے مختلف رسائل میں بعض شعرا
کی نظموں پر نفسیاتی افکار کی روشنی میں چندمضامین تحریر کیے ان مینمرزاہادی
رسوا سرفہرست ہیں۔ جنھوں نے نفسیاتی کتب کاترجمہ بھی کیا اور اردوشاعری کا علم
النفس کی روشنی میں تجزیہ بھی کیا۔ اس کے بعد وحیدالدین سلیم اور ڈاکٹر عبدالرحمن
بجنوری کانام آتاہے جن کی تحریروں میں کئی ایک جگہ نفسیاتی انداز ِ نقد ملتاہے ۔اسی
طرح مرزامحمدسعید نے بھی چند ایک مقاالت نفسیاتی تناظر میں لکھے وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ نفسیات کی روشنی میں ادب کوسمجھنے اور پرکھنے والے ناقدین میں اضافہ
ہوا۔اگرچہ اضافے کی یہ رفتار کافی سست رہی لیکن نفسیات سے دلچسپی کے عمل میں
برقراری دیکھنے میں آئی۔ ان میں میراجی ،اختر اورینوی ،ڈاکٹر وحیدقریشی اورریاض
احمد کے نام لیے جاسکتے ہیں جنھوں نے مختلف رسائل میں شعرا اور ادیبوں کی نظموں
اور ادب پاروں پر نفسیاتی نظریے کی روشنی میں چند مضامین تحریر کیے۔
اصناف ادب میں طبع آزمائی کی۔ انھوں نے شاعری
ِ ریاض احمد نے مختلف
کی،تنقیدی مضامین لکھے ،مبصر اور مترجم بھی رہے۔ مگر ان کی اصلی پہچان ان کے
ب ذوق کے ان ناقدین مینہوتاہے
تنقیدی مضامین تھے۔ ریاض احمد کاشمار حلقہ اربا ِ
جنھوں نے نفسیاتی تنقید کی طرف توجہ دی اور نفسیاتی قوانین کی روشنی میں مختلف
اصناف ادب کامطالعہ بھی کیا۔ انھوں نے تنقید کے ذریعے فن کار کے داخل کی کھوج
ِ
لگانے اور ان کے فن کی مرکزی جہت دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ ادب کی اقدار
اورنظریات کی نئی تہذیب و ترتیب کا کام بھی سرانجام دیا ۔ان کے عہد کے نفسیاتی
نقادوں نے تنقید کومحض ذہنی عوارض کی تشخیص کے لیے استعمال کیا اور فرائڈ کے
نظریات کی روشنی میں ادب و فن کاتجربہ اس انداز میں کیاجیسے فن پارہ ادب کے
مریض کہنہ کی کیس ہسٹری ہے اورنقاد اس کیس ہسٹری سے ادیب کی بیماری کی
نوعیت دریافت کرنے کی کوشش کررہاہے۔
ریاض احمد اردو کے پہلے نقاد ہیں جنھوں نے فن پارے کاتجزیہ کرکے فن کار
اور فن پارے کے درمیانی رشتوں کو تالش کرنے کی سعی کی اور اس طرح تخلیق کے
اس سفر کو بیان کیا جس کے توسط سے فن پارہ وجود مینآتاہے۔انھوں نے اپنے زمانے
کے ناقدین پر یہ بات واضح کی کہ تنقید کے نفسیاتی دبستان کامقصد نفسیاتی زاویہ نگاہ
کے ساتھ جمالیاتی پرکھ اور تجزیاتی مطالعہ بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوننے فرائڈ
کے عالوہ ایڈلر اور ژونگ کے نظریات سے بھی استفادہ کیا۔ خاص طور پر ژونگ کے
ثقافتی تناظرکے نظریات کے تحت ادب کو مذہبی اور ثقافتی انداز کے پہلو بہ پہلو
جانچنے کاآغاز کیا۔
ریاض احمد نے نفسیاتی تنقید کو عملی نفسیات) (Applied Psychologyکی
ایک شاخ قرار دیتے ہوئے ادبی مسائل،ادبی محاسن اور اور ادبی روایت کو سمجھنے کی
کوشش کی۔ انھوں نے ادب کو اظہار معانی کی ایک صورت کہتے ہوئے ان تمام مسائل
کاجائزہ لینے کی سعی کی جو ادبی تنقید میناہم ہیں۔ انھوں نے ادبی مسائل کی بجائے ادبی
اظہار کے مخصوص پیمانوں کو نفسیاتی تحلیل و تجزیہ کے ذریعے اجاگر کرتے ہوئے ِ
ان عوامل کی نشان دہی کی جن کی بدولت ایک فن پارہ معرض وجود میں آتاہے۔ ان کے
نزدیک انسان کی داخلی قوتیں یاکیفیات اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتیں صرف اپنی تخلیقی
توانائی سے اسلوب یااظہار کو بننے ،سنورنے کے اسباب فراہم کرتی ہیں۔
ریاض احمد نے اپنی تنقید میں فرائڈ ،ایڈلر اور ژونگ تینوں کے افکار سے مدد
لی۔ بعض جگہوں پر ریاض احمد فرائڈ سے بے زار دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر ان کی
تنقید کامجموعی جائزہ لیاجائے تو انھوں نے اپنی تنقید میں فرائڈ سے مکمل کنارہ کشی
بھی نہیں کی۔ کئی جگہوں پر یوں محسوس ہوتاہے کہ وہ فرائڈ کی طرف مائل بھی ہیں
اور گریز کے خواہش مند بھی۔ریاض احمد کی ابتدائی تحریروں میں فرائڈ کے نظریات
کے اثرات زیادہ تھے مگر انھوننے خود کو محض فرائڈ تک ہی محدود نہیں رکھابل کہ
فرائڈ کے سا تھ ساتھ ایڈلر اور ژونگ کے تصورات کی وضاحت اس طرح کی کہ اس
سے کم از کم ان تینوں ماہرین کے اختالف کاقاری کو احساس ہوتاہے۔
ب ذوق سے کیا جب انھوں ریاض احمد نے اپنی تنقیدی مضامین کاآغاز حلقہ اربا ِ
نے اپناپہالمضمون ''عورت مشرق ومغرب میں'' پڑھا۔ اس سے پہلے وہ صرف شاعری
کرتے تھے ۔ حلقہ میں ریاض احمدکایہ مضمون پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا انھوں
نے اردو تنقید میں نئے تجربات کیے خاص طور پر نظم کاجمالیاتی اور نفسیاتی تجزیہ
کرنے کی روایت کواستحکام بخشا۔اردو میں تنقید کایہ مزاج میراجی کے ہاتھوں پروان
چڑھا اور ریاض احمد نے اسے بلوغت سے آشناکیا۔
ریاض احمد نے روایت اورجدیدیت پر بحث کرتے ہوئے روایتی شاعری کی
خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی اس کے بعد ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جدید
شاعری کی حدود بھی بتائیں اور ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کوآڑے ہاتھوں لیا او
رآخر میں اس بات پر خوشی کااظہار کیا کہ روایت سے انحراف کادور مختصر ثابت ہوا
اورجلد ہی اردو شعرا نے یہ بات جان لی کہ ان کامستقبل جدیدیت کے ساتھ ساتھ روایت
سے بھی وابستہ ہے ۔ ان کے نزدیک روایت جدید ادب کاماضی ہے اور جدید ادب روایت
کے تمام امکانات اور ارتقا کی عالمت ہے یہی وجہ ہے کہ روایت اور جدید ادب ایک
دوسرے کے حلیف بھی ہیں اور حریف بھی۔ اسی لیے ایک دوسرے سے جدانہیں
ہوسکتے ۔روایت ماضی کی روداد ہے اور جدید ادب اسی روداد کامحافظ اسی لیے روایت
کو پکڑ کر جدیدیت کی طرف ہاتھ بڑھانے میں ہی فائدہ ہے۔
ریاض احمد نے نفسیاتی تناظر میں ادب اور جنس کاتجزیہ بھی کیا جس میں اردو
شعرا کے ہاں جنسی رویوں پر بحث کی ہے یہاں وہ فرائڈ کے نظریات کی پیروی کرتے
دکھائی دیتے ہیں۔وہ اس بات کی کھوج لگانے کی سعی کرتے ہیں کہ شاعری میں جنسی
رویوں کادخل کن بنیادوں پر ہوتاہے۔ ان کے خیال میں شاعرانہ تصور اور اس سے
منسلک رومانوی خیاالت اس وقت منظر عام پر آتے ہیں ۔ جب ادیب یا شاعر اپنی جنسی
خواہش کو دبا دیتاہے لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ الزمی
نہینکہ ہم شاعرانہ تخلیق کی وجہ جنسی جذبات کی شدت میں تالش کریں۔اس ضمن میں
انھوں نے مشرقی اورمغربی شاعری کاموازنہ بھی کیا۔
ریاض احمد کے مطابق اردوشاعری میں''سکندر اور خضر'' سے متعلق ایک قسم
کا رقیبانہ رشتہ بالعموم ہر شاعر کے ہاں نظرآتاہے ۔ تحلیل ِنفسی کی رو سے یہ تعلق اس
نفسی الجھن کانتیجہ ہے جسے ایڈی پس کمپلیکس کہاجاتاہے۔ اس طرح ریاض احمد نے
یوسف زلی خا کے قصے میں بھی نئے نفسیاتی توضیحات پیش کیں ان کے مطابق یوسف
سورج دیوتا کی قسم کا ایک جنسی پیکر ہے جو ہر عورت کی جنسی خواہشات کاپیکر
ہے اورمردوں کے ہاں اپنی جنسی فوقیت کی وجہ سے محبوب ہوتاہے۔
ریاض احمد کے نزدیک حسی اور تخیلی قوتیں مل کرنئی راہیں تخلیق کرتی ہیں۔
ان کے مطابق یہ راہیں صرف شعر و ادب تک محدودرہنے کی بجائے دنیاکے تمام
معامالت پر اثر انداز ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ لفظ جب احساس کے دائرہ عمل میں
آجاتاہے تواس کے معموالت منطقی یاعقلی نہیں رہ جاتے۔ بل کہ وہ مبتدانہ ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک حسی تالزمات کی بات ہے تو وہ بعض اوقات ایسے جذباتی اسلوب کے ساتھ
وابستہ ہوجاتے ہیں کہ جب بھی وہ لفظ آنکھوں کے سامنے آتاہے تو جذبات کے دھارے
بہہ نکلتے ہیں۔ ریاض احمد کاموقف ہے کہ جذبات ہمیشہ اپنی آسودگی کے لیے کلبالتے
ہیں ۔فطرت کامطالعہ ادیب اور فن کار کوآفاقی اقدار کو سمجھنے میں مدد دیتاہے
۔دکھ،مایوسی ،محرومی،ناکامی ،احساس کمتری ،زندگی سے بے زاری جیسی حقیقتوں
کوان کے اصل روپ میں دیکھنے کا موقع ملتاہے اور جذبات ہی اس کی تخلیق پر اثر
اندازہوتے ہیں۔
ریاض احمد ادبی تخلیق کی ہیئتوں اور جمالیاتی بنیادوں سے خصوصی لگائو
رکھتے تھے ۔وہ جمالیاتی تنقید مینان محرکات اورعوامل کاجائزہ لیتے تھے ،جو نفسیاتی
طور پر اشیا کی ان خوبیوں سے متعلق ہوتی تھیں۔ جنھیں ہم ُحسن کہتے ہیں مگر ریاض
احمد کے نزدیک جمالیات کا موضوع اور مطالعہ میں وہ اسباب وعلل نہیں جو خارجی
طور پر جبلتوں کومتاثر کرتے ہیں۔نفسیاتی مطالعہ کاموضوع جبلت اور جذبات ہوتے
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جدید نفسیات نے ادبی تنقید کے لیے نئے میدان دریافت کیے ہیں ۔ ان
میں ایک جمالیاتی تنقید بھی ہے ۔ یعنی تنقید کی نوعیت خواہ فلسفیانہ ہو یا تکنیکی یا
نفسیاتی ،ان میں جمالیاتی عوامل کی نشان دہی کاکوئی نہ کوئی جزوضرور نکل آتاہے۔
ریاض احمد حسی تصورات کے ذریعے تخلیق ہونے والی معنوی کیفیات کی طرف
توجہ دالتے ہیں اور شاعری میں صوتی اثرات کے صناعانہ استعمال کی بھی وضاحت
کرتے ہیں۔ جنس کاموضوع بھی ان کے لیے اہم ہے ۔ ہیئت ،اسلوب اور جمالیات سے ان
کی دلچسپی انھ یں ترقی پسندتنقید سے جداکرتی ہے ۔ ان کے نزدیک ترقی پسند تنقید نے
ادب اور سماج کو سمجھنے میں غلطیاں کیں ۔اس سلسلے میں وہ شکوہ کرتے ہیں کہ
ایسے سماجی تجزیوں میں مشرقی ذہن کی مخصوص نوعیت کو زیادہ قابل توجہ نہیں
سمجھاگیا۔ ان کے نزدیک ادب کا کوئی موضوع مختص و متعین نہیں۔ادب کسی بھی
موضوع پر تخلیق کیاجاسکتاہے ۔ ادب کاموضوع ماضی بھی ہوسکتاہے زمانہ حال اور
مستقبل بھی۔ ادب کاموضوع کائنات کے اصول واقدار بھی ہوسکتے ہیں اور سیاست بھی۔
اسی لیے ریاض احمد کاموقف ہے کہ ادب میں موضوع کی کوئی قیدنہیں۔ ادب کابنیادی
مسئلہ یہ نہیں کہ ''کیا کہاجائے'' بل کہ ادب کامسئلہ یہ ہے کہ کیسے کیاجائے۔
ب فکر، ادبی روایات کسی معاشرے یاتہذیب کی مخصوص ذہنی افتاد ،اس کے اسلو ِ
احساس ،اقداراور مجموعی جذباتی ردعمل سے عبارت ہوتی ہے ۔اردو کی سب سے
بہترین صنف شاعری غزل ہے۔ریاض احمد ،اقبال کے الفاظ میں لکھتے ہیں کہ عجم کے
بہترین حکیمانہ خیاالت کااظہار غزل ہی کے منفرد اشعار کی صورت میں ہوتاہے ،تقریبا ً
مروج و مقبول رہی لیکن پھر ایک ایسادور بھی آیاایک ہزار سال تک غزل اردو ادب میں ّ
کہ جب غزل نظم کے مقابلے میں ذرا دب گئی۔ریاض احمد کے نزدیک غزل کی وقتی
تنزلی کے اسباب مغربی علوم وفنون سے شناسائی کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی تھے۔
ریاض احمد غالب کوفلسفی شاعر کانام دیتے ہیں ۔اس کے بعد وہ اقبال کو بڑا فلسفی شاعر
مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقبال کی غزل اپنی مثال آپ ہے۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت اس
بات میں مضمر ہے کہ انھوں نے غزل کو ایک نئی معنوی وسعت کو دی ۔مگر غزل کے
لہجے کونہ بدال۔ ریاض احمد کے نزدیک لہجہ کی تبدیلی سے غزل،غزل نہیں رہی۔
جدید اردو نظم کے ارتقا پر بات کرتے ہوئے ریاض احمدنے اردو نظم کے ان
تمام شعرا کاتذکرہ کیاجن کاتعلق پاکستانی اردو شاعری سے تھا۔ انھوں نے ہندوستانی
شعرا کو یکسر فراموش کر دیا ۔یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے امریکی ادب اور
برطانوی ادب کو الگ الگ تصور کیاجاتا ہے ۔ایسے ہی ریاض احمد پاکستانی ادب اور
ہندوستانی ادب کو الگ الگ خیال کرتے ہیں۔انھوں نے جدیدنظم کاآغاز ١٨٧٠ء سے
کیااور پھر تمام جدید نظم کے مسلمان شعرا کاجائزہ لیا اور نظم کے تسلسل کو برقرار
رکھتے ہوئے ترقی پسند تحریک تک وابستہ جدیدنظم کے شعرا کاتذکرہ کیا۔ ریاض احمد
مرہون کار سمجھتے ہیں جو لفظ و
ِ شعر کے وجود کو شاعر کے اس تخیلی تجربے کے
معنی کی قید سے آزاد ہوکر سطح شعور پر وارد ہوتاہے۔ بعدازاں متخیلہ اس مرکزی
تصور کے گرد جمالیاتی اور جذبی کیفیتوں کاجال بن دیتاہے۔وہ جدید اردو نظم کی سب
سے نمایاں خصوصیت ''علم النفس'' کو سمجھتے ہیں۔خاص طور پر اس کی وہ شاخ
جسے تحلیل نفسی کے نام سے پکاراجاتاہے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے ہی ہمینیہ
جرات دی ہے کہ آج ہم جنسی موضوعات پر آزادانہ بات کرسکنے کے ساتھ جذبات
وخیاالت کی نئی معیاری اقدار سے بھی روشناس ہوسکتے ہیں۔جدید اردو شاعری میں
ابہام کے مسئلے کی بڑی وجہ وہ سیاسی اور معاشی حاالت کو قرار دیتے ہیں۔
انداز فکر کاشاخسانہ قرار
ِ معری کومغربی تقلید کی بجائے اس
ٰ ریاض احمد نظم
دیتے ہیں جومغربی تعلیم نے اردو ادب کودیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ آزاد نظم کی بحور کو
ہندی بحور سے منسلک قرار دیتے ہیں اس ضمن میں انھوں نے ہندی بحور اور اوزان پر
معری کے مختلف پہلوئوں پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے کئیٰ تفصیالً بحث کی اور ِ
نظم
معری یا آزاد نظم کو اردوشعرا
ٰ شعرا کے کالم سے مثالیں بھی پیش کیں۔انھوں نے نظم
کے نفسیاتی اور ذہنی تغیر کانتیجہ قراردیا۔
ریاض احمد قدیم اور جدید شعرا کی حیثیت کاموازنہ کرتے ہوئے قدیم شعرا
کوجدید شعرا سے برتر تصور کرتے ہیں۔ جدید شعرا کے فن میں بڑی رکاوٹ ان کی
غم روزگار میں اس قدر الجھا ہے کہ اسے وہ ذہنی معاشرتی حیثیت ہے ۔آج کاشاعر ِ
آسودگی حاصل نہیں جو اس کی جمالیاتی احساسات کو زندہ رکھنے مینمعاون ثابت ہوتی
ہے ۔ان کاموقف ہے کہ شاعر کواپنے مقام پر فائز رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ
مقام افسوس یہ ہے کہ جدیدشاعر
اپنے فن سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ ہو۔ مگر ِ
کا سماج میں بحیثیت شاعر کوئی علیحدہ مقام نہیں۔ جدید شاعر اکثر خود کو اپنے ماحول
میں اجنبی تصور کرتاہے۔ اس کے برعکس قدیم شعرا کامعاشرے میں بڑااہم مقام ہے۔
ت نمو اور لفظ کے جدید پیرائیہ اظہارکا باہمی تعلق تخلیقی سطح پر
معانی کی قو ِ
اس طرح تشکیل پاتاہے کہ لفظ محض کشف واظہار کانا م رہنے کی بجائے وہ معانی
کاپردہ پوش بھی بن جاتاہے اور ریاض احمدکے نزدیک اس پردہ پوشی میں بعض اوقات
حقیقت پر کچھ ایسے رنگین حجابات چھاجاتے ہیں کہ الفاظ کاحقیقی رنگ آنکھ سے
اوجھل ہوجاتاہے یعنی ہمارے افکا رو احساسات خواہ کتنے ہی ماورائی اورمجرد کیوننہ
ہوں،جب ہم انھیں الفاظ کاجامہ پہنا کر دوسروں کے سامنے پیش کریں گے تو یہ قضیے
کی شکل اختیار کر لے گا۔
ریاض احمد یہ سمجھتے ہیں کہ علم معانی اور بیان پر وہ مباحث موجودنہیں جس
کی ضرورت ہے اور زیادہ تر علما نے اس علم کو بطو ِر یادداشت ہی پیش کیاہے۔
دوسراموجودہ تنقیدی اصطالحات مغربی تنقیدی رویوں سے کشیدکی گئی ہیں۔ اس ضمن
میں وہ حالی اور شبلی کے حوالے سے تخیل کی جدید تصویر پیش کرتے ہوئے خیال
اور فکر کے مابین تفاوت پرروشنی ڈالتے ہیں۔عالوہ ازیں مجاز اور کنائے کے اسراربھی
عیانکرت ے ہیں ۔وہ حکیم نجم الغنی کے علم بیان کے حوالے سے بیانات پیش کرکے الزم
وملزوم،وجہ شبہ ،مشبہ بہ اورمستعار لہ کی تشریح کومبہم قرار دیتے ہیں ان صورتوں
سے زبان اور الفاظ کو شعر میں استعمال کرنے کی تمام خصوصیات سامنے آتی ہینکہ
کس طرح فن کار حسی مغالطوں سے حقیقت کے صحیح احساس اور شعور کی صورتیں
پیدا کرتاہے ۔انھوں نے علم معانی و بیان کی اصطالحات کے فلسفیانہ نظام کی تعبیر پیش
نظام فکرمیں نفسیات کے حوالے سے بحث کی۔ عالوہ ازیں ادب میں لفظیات ِ کی اور جدید
کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ نفسیات ،تشریحات میں وہ حسیات ذہن ،تالزمہ خیال
وغیرہ کوموضوع بناتے ہیں۔
علم بدیع خارجی اور مصنوعی لفظی سانچوں تکریاض احمدکے نزدیک ِ
علم بدیع کے زیادہ معترف دکھائی نہیں دتے ،وہ سمجھتے ہیں کہ
محدودہے۔ اسی لیے وہ ِ
طرز تنقید کئی سقم رکھتاہے۔ اس لیے وہ ان تمام علوم کی اصطالحات اور مباحث
ِ پرانا
کی ازسر نو بازیافت کے متمنی ہیں کہ کاش مشرقی علم معانی وبیان کی توضیح تحلیل
نفسی کے قوانین کے تحت کی جاتی۔
ریاض احمد ایک اور اصول کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جسے اصطالحا ً سکتہ
کہاجاتاہے۔پنگل میں سکتہ کاتصور موجودنہیں ہے اس لیے ہندی عروض میں مگھ گرو
کی مختلف ترتیبیں موزوں قرار دی جاتی ہیں جب کہ اردو عروض مینوزن کے بہائو میں
ہلکی سی رکاوٹ بھی ناجائز ہے انھوننے مزاحف بحروں اور سالم بحروں میں موازنہ
بھی کیاہے۔
رباعی جب منطق ،فلسفے اور اخالق سے روگردانی کرتی ہے ،تو بقول ریاض
احمد رباعی میں ایسی مثبت قدریں اجاگر ہوتی ہیں جو اس کی ف ّنی اور معنوی تاثر
انگیزی کی ضامن بنتی ہے ایک طرف تو وہ رباعی کو رند کی بنکار کہتے ہیں اور
دوسری طرف وہ رباعی کو ایسی جذباتی سرمستی اور اپچ کہتے ہیں جو خرد کی غالمی
سے آزاد ہوکرکہی جاسکتی ہے۔ان کے نزدیک رباعی میں قافیے یاردیف کی تکرار ایک
عجیب جھنکار پیداکرتی ہے جن شعرا نے رباعیات لکھیں ریاض احمد نے ان کی تفصیل
بھی بیان کی ۔انھوں نے ان شعرا کی تفصیل بھی بیان کی جنھوں نے رباعی کاترجمہ کیا
۔رباعی کے فن پر لکھتے ہوئے ریاض احمد ایک نقاد کے ساتھ ساتھ محقق بھی دکھائی
دیتے ہیں۔
وقت کیاہے؟…اس کاادراک انسان کو کب ہوا؟… وقت کے متعلق یہ بحث ہمیشہ
ذہنوں کو الجھائے رکھتی ہے۔ ریاض احمد ذہنوں کو الجھائے رکھنے کے اس رجحان کو
تجرید اور مجردات سے شغف کانام دیتے ہیں ۔ان کے خیال میں تصورات خالص ذہن کی
چیز ہے اور مکان خارجی مینکبھی وقوع پذیر نہیں ہوتے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اصل
چیز وہ مکان یا وہ زمان ہے جس میں اشیا خارج میں وجود پذیر ہوتی ہیں۔
نفسیاتی تنقیدی نظریات سے ریاض احمد کو خاص لگائو تھا ،انھوں نے نفسیاتی
اصولوں اور بین االقوامی نفسیاتی نقادوں کو پڑھا،سمجھا اور پھر نفس انسانی کے سمندر
سے گوہر نایاب تالش کرنے کی کاوش کی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے نظریاتی اورعملی
تنقید پر مشتمل مضامین ان کے وسیع مطالعہ کانچوڑ ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے
ب ذوق سے منسلک دیگر شعرا ،نقادوں اور میر،غالب ،اقبال ،قیوم نظر اور حلقہ اربا ِ
مصنفین کے فن پاروں کاتحلیلی نفسی کے اصولوں کے تحت جائزہ لیا۔ ان کے یہ
ب ذوق کے اجالس میں مضامین مختلف ادبی رسائل میں بھی چھپتے رہے اور حلقہ اربا ِ
بحث کے لیے بھی پیش ہوتے رہے۔
ریاض احمد میر کی شاعری کانفسیاتی محرک جاننے کے لیے اس کی ابتدائی
ذکر میر کاسہارالیتے ہیں۔ ان
زندگی کے واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ ِ
کے مطابق میر کے حزنیہ شاعرانہ مزاج کے ذمہ دار ان کے بچپن کے حاالت ہیں۔ وہ
میر کے غور وفکر کابنیادی محرک اس بے اطمینانی،کرب اور نامساعد حاالت کو قرار
دیتے ہینجن کامیر کو بچپن میں سامنا کرناپڑا۔ذکر ِمیر میں میر صاحب اپنے خاندان کے
ت حال
تمام افراد کاذکر تے ہیں سوائے اپنی ماں کے۔ ریاض احمد کے مطابق یہ صور ِ
میر کے جذبہ مادر پرستی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہاں پر وہ میر کاتجزیہ فرائڈ کے
نظریہ ایڈی پس کمپلکس کے مطابق کرتے ہیں۔
ریاض احمد ،میر کو ایک عصبی مریض کہتے ہیں جوخود رحمی اور ایذا طلبی
کاشکا رتھے انھوں نے میر کی مثنویوں میں آگ اور پانی کے استعارے کے استعمال کی
بھی نفسیاتی توضیح پیش کی۔وہ میر کی اعضاپرستی کانفسیاتی نظریات کے تحت جائزہ
لیتے ہیں۔ اس طرح ریاض احمد میر کی شاعری کاتجزیہ فرائڈ ین نکتہ نظر کے تحت
کرتے ہیں۔
ریاض احمد کے نزدیک غالب کی شاعری ان کے جذبہ وتخیل کی داستان سرائی
ہے ۔انھوں نے غالب کی تخیلی فکر اور جذبے کی آمیزش کو ان کے کالم میں جالل
وجمال کی ملی جلی کیفیت قراردیا۔ وہ غالب کو جذبہ ُحسن کاقدر شناس اور حسیات
کاشاعر کہتے ہیں جو ُحسن کے ذریعے سے حسی لذت کاخواہش مند دکھائی دیتاہے ۔ان
کے نزدیک غالب کامسلک ُحسن کی پوجا کرنے کی بجائے اس پر تصرف حاصل
کرناتھا۔ اس لیے جذباتی کیفیت کی شدت میں بھی غالب پروارفتگی کی کیفیت طاری نہیں
ہوتی۔ریاض احمد غالب کے جدلیاتی فن کی نفسیاتی توضیح پیش کرتے ہیں کہ اس کے
ذہن مینکون سے عوامل کارفرماتھے جن کے تحت انھوں نے عام روش سے ہٹ کر
ب بیان اپنایا۔
منفرداسلو ِ
اقبال کی شاعری کاعہد وار جائزہ لیتے ہوئے ریاض احمد اس بات کی نفسیاتی
توضیح پیش کرتے ہیں کہ اقبال اپنی شاعری میں مسلمان مفکرین کی استخراجی منطق
کی بجائے استقرائی طرز استدالل کی اہمیت پر کیوں زور دیا۔انھوں نے اقبال کے فلسفہ
خودی کی وضاحت کے لیے ان کی شاعری اور خطبات کی اقتباسات پیش کرنے کے
ساتھ ان کی ڈائری سے بھی مدد لی اور اقبال کے مختلف فلسفیانہ افکار اور فنی تغیرات
کوجدید نفسیات کے تناظر میں اجاگر کیا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ریاض احمد صرف
نقاد ہی نہیں بل کہ محقق بھی ہیں۔ انھوں نے اقبال کے فلسفہ خود ی کے تصورات
کااسالمی تعلیمات ،موالنا روم کے خیاالت اورمغربی فلسفیوں کے افکار کے تحت جائزہ
لیا اوراقبال کو انسانی شعور کاترجمانی شاعر قراردیا۔
ریاض احمد ،قیوم نظر کو کالرج اور وڑزورتھ کی طرح کاغیر جنسی شاعر کہتے
ہیں۔ ان کے مطابق عشق کاروایتی موضوع کبھی بھی قیوم نظرکے ہاں ایک مسئلہ بن کر
ظاہرنہیں ہوا۔عالوہ ازیں انھیں قیوم نظر کے عشق کی کل کائنات میں ہلکا ہلکا درد
کااحسا س ملتاہے۔ جس مینوالہانہ انداز نہینہے۔البتہ انھوں نے قیوم نظر کی شاعری میں
ایذا دہی اور ایذاطلبی کے ملے جلے تاثرات کی نشان دہی کی ہے۔وہ قیوم نظر کے صحت
مند جنسی ردعمل کاراز مفاہمت کوقرار دیتے ہیں۔
قیوم نظر کی مختلف نظموں کاتجزیہ کرتے ہوئے ریاض احمد یہ باور
کرواناچاہتے ہیں کہ قیوم نظر نہ تو فطری مناظر کی عکاسی کرتاہے اور نہ فطری
مظاہر کاپجاری بنتاہے اس کے برعکس وہ مناظر اور مظاہرمیں سے بعض چیزیں اپنے
لیے اس طور مختص کرتاہے کہ وہ اس کی ذاتی واردات یاانسانیت کی کسی مجموعی
کیفیت یاماحول کی داخلی یاخارجی کشمکش کاایک مکمل اور معنی خیز کنایہ بن کر رہ
جاتاہے۔
نظم کے بنیادی خیال کی تالش ریاض احمد کی تنقید کامرکزی نقطہ ہے اور اس
مرکزی نقطہ کووہ اکثر نفسیاتی توجیہات سے واضح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ان کے
نزدیک شاعر کے ذہن میں نظم لکھتے وقت جزئیات کی اساسی وحدت کے متوازی ایک
داخلی سلسلہ کا رفرما ہوتاہے۔ جسے وہ برا ِہ راست تاثر کی ہم آہنگی اور نتیجہ خیزی
کاذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ داخلی کیفیت کو نظم کاموضوع اور
خارجی اسباب کو نظم کااسلوب کہتے ہیں۔ انھوں نے میراجی ،فیض احمدفیض ،اختر
االیمان ،ن ۔م۔راشد ،فرحت زاہد ،منیر نیازی ،سیدرضی ترمذی ،اطہر ندیم ،مجیدامجد کی
نظموں کاتجزیہ کیا۔اس کے عالوہ یوسف ظفر ،شہرت بخاری،شہزاد احمد ،جیالنی کامران
،غالم حسین ساجد ،ارشدمحمود ناشاد کے شعری مجموعوں کاتجزیہ بھی کیا۔نظموں اور
شعری کتب کے تجزیوں کے ساتھ ساتھ ریاض احمد نے افسانوں کابھی تجزیہ کیا۔ انھوں
نے سید امجد الطاف،ڈاکٹر حمید شیخ ،ڈاکٹر منیرالدین ،عفرابخاری کے افسانوں کاتجزیہ
کیا۔
ریاض احمد اردو کے ان اولین نقادوں مینسے ہیں جنھوں نے فن پاروں کاتجزیہ
کرتے وقت فن کار اور فن پارے کے درمیانی رشتوں کوتالش کرنے کی کاوش کی اور
اس طرح انھوں نے تخلیق کے اس سفر کو جاننے کی سعی کی جس کے توسط سے فن
پارہ یاادب پارہ تخلیق ہوتاہے ۔نظموں کاتجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے لگے بندھے قوانین
کے تحت محض موضوعات تک ہی خود کو محدودنہیں رکھا۔بل کہ انھوں نے تنقید
کادائرہ جمالیاتی ،نفسیاتی اور ہیئتی تنقید کے اصولوں تک پھیالیا۔انھوں نے اپنے تنقیدی
افکار میں نفسیات کے ساتھ ساتھ جمالیات کو بھی اہمیت دی اور اسے موضوعی اور
معروضی ہر دو سطح پر محسوس کرنے کی سعی کی۔ انھوں نے اپنی تنقید میں
مذہب،تصوف ،نفسیاتی افکار کابھی سہارالیا۔بالشبہ ریاض احمد جدیدشعری تنقید کاایک اہم
نام ہے۔ تنقید کی نفسیاتی دبستان کے وہ ّاولین معماروں میں سے ہیں ان کے تنقیدی
نظریات ایک مربوط نظریاتی سطح کے ہیں کیوں کہ انھوں نے زیادہ تر عملی تنقید کی
۔ان کے تنقیدی نظریات کے اثرات صرف جدید اردو تنقید پر ہی مرتب نہیں ہوئے بل کہ
اس کے اثرات جدید اردو نظم پر بھی بہت گہرے ہیں۔
''دہان
ِ ریاض احمد نے تنقید کے ساتھ ساتھ شاعری بھی ۔ ان کاشعری مجموعہ
زخم'' کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس شعری مجموعے کاعنوان غالب کے اس شعر سے
لیاگیا۔
جب تک دہان زخم نہ پیدا کر ے کوئی
سخن وا کر ے کوئی
مشکل کہ تجھ سے را ِہ ُ
ریاض احمد کی نعتیں اور منقبت آزادنظم کی ہیئت میں کہی گئی ۔یہاں انہوں نے اپنے
ب بیان اور فنی مہارت کوخوب صورتی سے استعمال کیا۔ اپنی پسندیدہ مخصوص اسلو ِ
لفظیات رحمة اللعالمین ،شفاعت ،نور و ظلمت کو انھوننے نعتیہ فضاسے ہم آہنگ کیا۔
انداز بیان اور الفاظ میں حضور کی ذات سے عقیدت ومحبتِ انھوں نے سیدھے سادھے
کااظہار کیا۔ سوز وگداز میں ڈوباہوا دھیما دھیما لہجہ ایک پرکیف فضا تشکیل کرتاہے۔
دہان زخم میں کچھ نظمیں توخارجی موضوعات ریاض احمد کے مجموعہ کالم ِ
کے تحت لکھی گئی اور کچھ نظمیں داخلی موضوعات کے تحت۔گویا انھوں نے نظم کو
نئے رنگ اور نئے موضوعات کے ساتھ پیش کیاا ور ان میں جو واقعات بیان کیے ان
انداز سخن میں طبع آزمائی
ِ میں مبالغہ آرائی اور مافوق الفطرت عناصر کی بجائے جدید
کی ۔انھوں نے کالسیکی داستانوں کے تصورات کو نئے معانی بھی پہنائے۔ انھوں نے
اپنی شاعری میں سوچ کے کسی خاص اسلوب یاکسی خاص مکتبہ فکر کو اپنے ردعمل
کاشعوری محرک بنانے کی بجائے کیفیت کی ذاتی نوعیت کو ترجیح دی۔ یعنی ریاض
احمد نے نظم لکھتے وقت کسی خاص مکتبہ فکر کی پیروی نہیں کی۔
ریاض احمد کی نظموں کاموضوعاتی اور فنی تجزیہ ان کے فکری پہلوئوں کو
حب الوطنی ،مذہب ،ریاکاری جیسے نظام معیشتُ ، ِ بھی عیاں کرتاہے۔ انھوں نے
موضوعات کو نظم کیا۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں شاعری کی اور آزاد نظم لکھتے
وقت غزل کی مخصوص لفظیات سے مکمل گریز کیا۔ان کی نظموں میں فارسی اور ہندی
لفظیات کے ساتھ ساتھ مخصوص ہندوستانی فضابھی ملتی ہے ۔ان کی نظمونمیں پیش کیے
جانے والے کرداروں کاچنائو حقیقی زندگی سے کیاگیا۔کئی نظموں میں ٹیپ کے
مصرعے استعمال کرتے ہوئے گیت کاانداز اپنایاگیا۔
علم بدیع سے بھی مستفید ہوئے۔انھوں نے تکرار لفظی،علم بیان اور ِ
ریاض احمد ِ
ت تلمیح
ت اضافت اور صنع ِ صنعت تضاد ،مراة النظیر ،سیاق ا العداد ،صنعت تذبیح ،صنع ِ
کابکثرت استعمال کیا۔ ان کی نظموں میں استعمال کیے جانے والی تشبیہات واستعارات ان
رنگ سخن کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثالً ظلمت ونور،زہر ،ناگ ،شفاعت، ِ کے مخصوص
بت ،پتھر ،صحرا ،طلسم ،ریاض احمد کے خاص استعارے ہیں۔ ان کے انداز سخن اور
لفظیات سے اندازہ ہوتاہے کہ انھیں مذہب سے خاص لگائو تھا۔ انھینجھوٹ فریب مکاری
ہر آشوب کے عنوان کے تحت لکھی جانے والی نظموں میں سے سخت نفرت تھی۔ ش ِ
انھوں نے افسران شاہی کو آڑے ہاتھوں لینے کے ساتھ ساتھ معاشرتی برائیوں کاتذکرہ
بھی کیا۔
نظم کی طرح ریاض احمد کی غزل بھی موضوعاتی لحاظ سے کئی رنگ لیے
ہوئے ہے۔ ان کی غزلوں میں حسن و عشق کابیان ،ہجر ووصل کے قصے ،ماضی کی
احساس فنا ،حقائق ،عقائد کی کشمکش کے عالوہ سیاسی
ِ غم وقت،
یادیں ،تنہائی کاکربِ ،
سماجی اور معاشرتی موضوعات کابیان بھی ملتاہے۔ نظم کے برعکس غزل میں ریاض
احمد نے ان موضوعات کوروایتی ہیئت میں بیان کیا اورغزل کے پیش رو شعرا سے
ب فیض کیا۔ انھوں نے ترکیبوں اور فقروں کی تراش خراش ،الفاظ و محاورات کے
اکتسا ِ
مخصوص استعمال سے اپنی غزل کی مجموعی فضا کو تغزل کااعال نمونہ بنایا۔
ریاض احمد بطور ترجمہ نگار ایسے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں کہ ان کے
ترجمے تخلیق ِنو کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ اپنے تراجم کے ذریعے اصل تخلیق کو ایسی
تخلیقی رعنائی دیتے ہیں کہ اس کاداخلی رنگ یا خارجی آہنگ بھی متاثر نہیں ہوتا۔ ان
کے تراجم فکری طرز احسا س اور جمالیاتی اسلوب لیے ہوئے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ
ہے کہ ریاض احمد مغربی تہذیب اور زبان کے بھی مزاج دان ہیں اور مشرقی تہذیب اور
اردو زبان کے بھی نبض آشنا ہیں۔
ریاض احمد نے برٹرینڈرسل کے مضامین کااردو ترجمہ کیا۔اس کے عالوہ
)(Walte De la Mareکی نظم) (the listenersکااردو ترجمہ'' اور وہ سنتے
رہے''کے عنوان سے کیا۔انھوں نے قومی ڈائجسٹ میں مختلف جانوروں کی زندگی کی
دلچسپ جھلکیاں بھی ترجمہ کرکے شائع کروائیں۔مزید برآں صدر نکسن کی یادداشتوں
کے پہلے باب کااردو میں ترجمہ کیااور افضل احسن رندھاوا کے پنجابی ناول'' دوابہ''
کابھی اردو میں ترجمہ کیا۔
ریاض احمد کے تراجم کی اہم خصوصت ان کی زبان کی سادگی اور سالست ہے۔
ان کے تراجم سے کہیں بھی یہ اندازہ نہینہوتا کہ وہ اپنے مطالعہ کی نمائش کر رہے ہیں
اس کے برعکس ان کے تراجم سے اس بات کااحساس ہوتاہے کہ وہ اردو دنیاکونئے
خیاالت اور نئے افکار سے روشناس کروارہے ہیں۔انھوں نے جہاں مناسب سمجھا اصل
متن سے انحراف کیا اور جہاں ضرورت سمجھی ترجمہ منظوم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ
انھیں ترجمہ کرتے ہوئے جہاں دقت کا سامنا کرناپڑاانھوں نے نثری پیرائیہ اختیار کیا۔
کتابیات
بنیادی مآخذ:
اسلم رانا،ڈاکٹر(مرتبہ) :دہان زخم :الہور ،ضیائے ادب١٩٩٣:ئ
ریاض احمد :تنقیدی مسائل :الہور ،استقالل پریس :جلد ّاول ١٩٦١،ئ
ریاض احمد :ریاضتیں :الہور،سنگ میل پبلی کیشنز :ج ّاول ١٩٨٦ئ
ریاض احمد :دریاب :الہور،پولیمر پبلی کیشنز١٩٦٨:ئ
ریاض احمد:قیوم نظرکاتنقیدی مطالعہ :الہور ،اتحاد پریس:س۔ن
ریاض احمد(مترجم) :رسل کی بنیادی تحریریں :الہور ،مشعل بکس١٩٩١:ئ
ریاض احمد :تصدیق :الہور،پولیمر پبلی کیشنز١٩٩٤:ئ
ثانوی مآخذ:
آل احمد سرور :تنقید کیاہے؟ ٫دہلی ،مطبوعہ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ١٩٥٢:ئ
ابواللیث صدیقی،ڈاکٹر:آج کا اردو ادب :الہور،فیروزسنز١٩١٠:ئ
احتشام حسین :ذوق ادب اور شعور :لکھنو ،ادارہ فروغ اردو١٩٥٥ :ئ
احسن اختر،ڈاکٹر :مغرب کے تنقیدی اصول :اسالم آباد،مقتدرہ قومی زبان:طبع ہفتم
٢٠١٢ئ
اختر انصاری :غزل اور غزل کی تعلیم :دہلی،ترقی اردو بورڈ١٩٧٩:ئ
اختر اورینوری :قدر و نظر :لکھنو،ادارہ فرو غ اردو١٩٥٥:ئ
اختر اورینوری :تنقیدجدید:پٹنہ ،شادبک ڈپو:س۔ن
اختر اورینوری :کسوٹی:پٹنہ ،مکتبہ خیال پبلشرز:س۔ن
اخترعلی تلہری،سید :تنقیدی شعور:لکھنو،کتاب گھر١٩٥٧:ئ
اعجاز راہی(مرتبہ) :اردو زبا ن میں ترجمے کے مسائل :اسالم آباد ،مقتدرہ قومی
زبان:مارچ ١٩٨٦ئ
کراچی،انجمن ترقی اردو پاکستان :اشاعت چہارم
ِ انورسدید،ڈاکٹر :اردوادب کی تحریکیں:
١٩٩٩ئ
انیس ناگی :نثری نظمیں :الہور ،مکتبہ جمالیات١٩٨١:ئ
جمشید اقبال(مترجم) :برٹرینڈرسل کے فکر انگیز مضامین :ملتان،بیکن بکس٢٠٠٩:ئ
جیالنی کامران :نئی نظم کے تقاضے :الہور ،مکتبہ عالیہ:س۔ن
حامد ہللا افسر :تنقیدی اصول اور نظریے :الہور،کوہ نور پبلی کیشنز١٩٦٢:ئ
حامد بیگ مرزا،ڈاکٹر :مغرب سے نثری تراجم :اسالم آباد،مقتد رہ قومی زبان:مئی
١٩٨٨ئ
حتشام حسین :تنقید اور عملی تنقید :دہلی ،آزاد کتاب گھر١٩٥٢:ئ
حتشام حسین :تنقیدی نظریات :الہور،عشرت پبلشنگ ہائوس١٩٦٥:ئ
حکیم الدین احمد :میری تنقید :پٹنہ،خدابخش اورینٹل الئبریری١٩٧٨:ئ
خاطر غزنوی :جدیداردو ادب:الہور،سنگ میل پبلی کیشنز١٩٨٥:ئ
خلیل بیگ مرزا،ڈاکٹر :زبان اسلوب اور اسلوبیات :علی گڑھ ،ادارہ زبان و
اسلوب١٩٨٣:ئ
خواجہ محمد زکریا:اردونظم کے پچاس سال:الہور،مکتبہ عالیہ١٩٨٦:ئ
دیوندرایسر :ادب اور نفسیات :دہلی،مکتبہ شاہراہ١٩٦٨:ئ
رشیداحمد صدیقی :باقیات بجنوری :دہلی،مکتبہ جامعہ:س۔ن
رشیدامجد،ڈاکٹر :اردوشاعری کی سیاسی وفکری روایت :الہور ،دستاویز
مطبوعات١٩٩٣:ئ
رفیع الدین اشفاق،سید،ڈاکٹر :اردو میں نعتیہ شاعری :کراچی ،اردواکیڈمی
سندھ:اکتوبر١٩٧٦ئ
رفیع الدین ہاشمی :اصناف ادب:الہور،سنگ میل پبلی کیشنز١٩٩١:ئ
سجاد باقر رضوی،ڈاکٹر :مغر ب کے تنقیدی اصول:اسالم آباد ،مقتدرہ قومی زبان:طبع ہفتم
٢٠١٢ئ
سرور عالم راز سرور :آسان عروض اور نکات شاعری :راولپنڈی ،الفتح پبلی
کیشنز٢٠١١:ئ
سالم سندیلوی ،ڈاکٹر :ادب کاتنقیدی مطالعہ :الہور،میری الئبریری١٩٨٦:ئ
سلیم اختر:نفسیاتی دبستان :الہور،سنگ میل پبلی کیشنز:طبع دوم ٢٠٠٧ئ
سلیم اختر،ڈاکٹر :تنقیدی دبستان :الہور،سنگ میل پبلی کیشنز١٩٩٧:ئ
شارب دہلوی،پروفیسر(مرتبہ) :آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید :دہلی ،اردو
اکیڈمی٢٠٠٣:ئ
شکیل الرحمن،ڈاکٹر :ادب اور نفسیات :پٹنہ،اشاعت گھر١٩٥١:ئ
شمیمہ طارق،ڈاکٹر :ترقی پسند تنقید کاارتقا اور احتشام حسین :کراچی،اردو
اکیڈمی١٩٨٧:ئ
صدیق جاوید،ڈاکٹر :ڈاکٹر جمیل جالبی ایک مطالعہ :اسالم آباد ،اکادمی ادبیات
پاکستان٢٠٠٧:ئ
صوبیہ سلیم،ڈاکٹر ،محمدصفدر رشید(مرتبین):فن ترجمہ نگاری :اسالم آباد ،ادارہ فروغ
قومی زبان٢٠١٢:ئ
عابد علی عابد،سید :البیان :الہور،سنگ میل پبلی کیشنز٢٠٠٣:ئ
عابد علی عابد،سید :اصول انتقاد ادبیات:الہور،مجلس ترقی ادب اردو١٩٩٢:ئ
عابد علی عابد،سید:انتقاد :الہور،ادارہ فروغ اردو١٩٥٩:ئ
عابد علی عابد،سید:البدیع :الہور،سنگ میل پبلی کیشنز٢٠١١:ئ
عابد علی عابد،سید :اسلوب :الہور،مجلس ترقی ادب :طبع دوم جون ١٩٩٦ئ
عبادت بریلوی،ڈاکٹر :اردوتنقید کاارتقا :الہور،انجمن ترقی اردو پاکستان١٩٦١:ئ
عبدہللا،ڈاکٹر،سید :مباحث:الہور ،مجلس ترقی ادب١٩٦٥:ئ
عبدہللا،ڈاکٹر،سید :اشارات تنقید:الہور ،سنگ میل پبلی کیشنز٢٠٠٠:ئ
غالم حسین ساجد :آئندہ :الہور،قوسین٢٠٠٤:ئ
کشور ناہید(مترجم):باقی ماندہ خواب :الہور،سنگ میل پبلی کیشنز١٩٨١:ئ
کلیم الدین احمد:اردو تنقید پر ایک نظر :الہور،عشرت پبلشنگ ہائوس١٩٦٥:ئ
گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر :ساختیات اور پس ساختیات :الہور،سنگ میل پبلی کیشنز١٩٩٤:ئ
گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر :ادبی تنقید اور اسلوبیات :دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس١٩١٥:ئ
گیان چند جین،ڈاکٹر :لسانی رشتے :الہور،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی٢٠٠٣:ئ
مجنوں گورکھپوری:تاریخ جمالیات :کراچی،مکتبہ عزم وعمل١٩٦٦:ئ
محمد حسین،ڈاکٹر :اردوادب میں رومانوی تحریک :ملتان ،کاروان ادب١٩٨٦:ئ
محمد فخرالحق نوری،پروفیسر ڈاکٹر :نثری نظم :الہور،مکتبہ عالیہ١٩٨٩:ئ
محمداجمل،ڈاکٹر :تحلیلی نفسیات :الہور،نگارشات پبلی کیشنز١٩٤٩:ئ
محمداحسن فاروقی،ڈاکٹر :اردو میں تنقید :الہور،عشرت پبلشنگ ہائوس١٩٦٣:ئ
محمداحسن فاروقی،ڈاکٹر :تخلیقی تنقید:کراچی ،اردو اکادمی سندھ١٩٦٨:ئ
محمدحسن ،ڈاکٹر(مرتب):مرزا رسوا کے تنقیدی مراسالت:علی گڑھ ،ادارہ
تصنیف١٩٦١:ئ
محمودالحسن،ڈاکٹر،سید :اردو تنقید میں نفسیاتی عناصر :لکھنو،ادارہ فروغ اردو١٩٦٨:ئ
مظفر علی سید :تنقید کی آزادی:الہور ،دستاویز مطبوعات:س۔ن
میراجی :مشرق مغرب کے نغمے:کراچی ،آج کی کتابیں :طبع دوم نومبر١٩٩٩ئ
نثار احمد قریشی(مرتبہ) :ترجمہ روایت اور فن:اسالم آباد ،مقتدرہ قومی ڈبان١٩٨٥:ئ
نعیم احمد،پروفیسر :فلسفہ کی ماہیت :الہور ،ادارہ ترجمہ وتالیف ،پنجاب یونیورسٹی
وحید الدین سلیم:افادات سلیم :حید ر آباد ،ناشر سیداشرف حیدر آبادی:س۔ن
وحید قریشی،ڈاکٹر :شبلی کی حیات معاشقہ :الہور،مکتبہ جدید١٩٥٠:ئ
وزیرآغا،ڈاکٹر :تنقید اور مجلسی تنقید :سرگودھا ،مکتبہ اردو زبان:بار ّاول ١٩٧٦ئ
وزیرآغا،ڈاکٹر :اردوشاعری کامزاج :الہور،مکتبہ عالیہ١٩٩٩:ئ
وزیرآغا،ڈاکٹر :تنقید اور جدیدتنقید :کراچی ،انجمن ترقی اردو پاکستان:س۔ن
یوسف حسین خاں،ڈاکٹر :اردوغزل :الہور،آئینہ ادب١٩٦٤:ئ
یونس جاوید،ڈاکٹر :حلقہ ارباب ذوق ،تنظیم ،تحریک نظریہ :اسالم آباد،دوست پبلی
کیشنز٢٠٠٣:ئ
رسائل و جرید:
ادبی دنیا:الہور،متعدد شمارے
اوراق :الہور،متعدد شمارے
بازیافت :الہور،متعدد شمارے
دانشور:الہور ،متعدد شمارے
سیارہ:الہور ،شمارہ نمبر٤٩
صحیفہ :الہور ،متعدد شمارے
صریر:کراچی،متعدد شمارے
عالمت :الہور،مکمل فائل
ماہ نو:کراچی،متعدد شمارے
نیا دور:کراچی،متعدد شمارے
نئی تحریریں :الہور،متعدد شمارے
قومی ڈائجسٹ :الہور،متعدد شمارے
ہمایوں :الہور،متعدد شمارے
خیابان :اصناف نثر نمبر :شعبہ اردو جامعہ پشاور١٩٩٥:ئ
طلوع افکار:ادب و جنس نمبر :ادارہ تحریر کراچی ،دسمبر ١٩٧٥ء متعدد شمارے
ماہ نامہ نفسیات :پیکوآرٹ پریس،الہور،شمارہ،٤٠اپریل ١٩٤٩ئ
نگار پاکستان ،کراچی ،جدید شاعری نمبر،مطبوعہ نگار پاکستان کراچی١٩٦٥،ئ
نفسیات :تحلیل نفسی نمبر،الہور،جنوری١٩٤٩ئ
ماہنامہ ادیب :آلہ آباد ،جنوری ١٩٤٣ئ
مقاالت:
سعدیہ شفقت:حلقہ ارباب ذوق کے ناموررفقا کی تخلیقات کا تخلیقی و تنقیدی جائزہ :اسالم
آباد ،عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی١٩٩٧:ئ
عفت ملک :ریاض احمد بطور نقاد:الہور ،اورینٹل کالج١٩٨٨:ئ
شمیم اختر :اردو میں نفسیاتی تنقید ریاض احمد کی تخصیص کے ساتھ :سرگودھا
،سرگودھا یونیورسٹی٢٠٠٩:ئ
English Books:
Freud Sigmmund, Introduction Lectures on Psycho- Analysis:
London, Mogarth Press:1950.
Freud Sigmmund, Civilization and its discontents: London,
International Psychological Library: 1929.
Freud Sigmmund, The Future of an illusion: London, Mogarth
Press:1928.
Read.H: Collected Essay (inliterary criticism): London, Faber and
Faber: 1988.
Adler Alfred: Social Interest: Achalemge to mankind: London,
Faber and Faber: 1935.
Alder Alfred: The Practic and theory of individual Psycho: London
key an Pual Tranch Trubner and Co. 1940.
Shelly: Defance of Poetry: Boston, Ginn and Company.1891.
Jung, C.G" Modern man in Search of a Soul: London, Kegam
Paul tremch trubner and Co. 1943.
Methew arnold: Essays in criticism: Oxford, harprinter to the
university, Second eddition. 1869.
Bertrand Russell, A Free man;s worship, London, W.H.Free man
Publisher, Ist adition December, 1903
Walter De La Mare, A collection of walter De La mare, London,
constable & company,1912
ضمیمہ
غیر مطبوعہ مضامین:
ریاض احمد نے عالمت رسالے کے مدیر معاون کی حیثیت سے کام بھی کیا۔ ان
کے متعدد تنقیدی مضامین اور تبصرے ماہنامہ،صریر،ادبی دنیا ،عالمت ،صحیفہ ،ما ِہ نو،
بازیافت ،مخرن ،اوراق اور دانشور میں چھپتے رہے۔ ان کے غیر مطبوعہ مضامین کی
فہرست مندرجہ ذیل ہے:
ماہنامہ ادبی دنیا الہور مینشائع ہونے والے ریاض احمد کے مضامین کی فہرست: ٭
جدید شاعری کی بعض خصوصیات :جون ١٩٤٣ئ ١۔
اردو شاعری میں جنسیات :اکتوبر١٩٤٣ئ ٢۔
نقد و نظر(زنداں):جوالئی ١٩٤٤ئ ٣۔
تین نظمونپر بحث :دسمبر١٩٤٤ئ ٤۔
جدید اردو نظم کاارتقا :اشاعت خاص ١٩٥١ئ ٥۔
لفظ اور خیال کارشتہ :خاص نمبر دور پنجم شمارہ پنجم ٦۔
نظم دھوپ چھائوں کاتجزیاتی مطالعہ :دور پنجم شمارہ ششم ٧۔
وقت کیاہے؟ :شمارہ ششم ٨۔
ماہ نو کراچی کے مجلہ میں شائع ہونے والے مضامین کی فہرست: ٭
)نظم)واپسی:جوالئی ١٩٨٢ئ ١۔
پنجاب یونیورسٹی ،الہور کے مجلہ بازیافت میں شائع ہونے واالمضمون: ٭
تصانیف اقبال کا تحقیقی وتوضیحی مطالعہ :شمارہ نمبر١ ١۔
مخزن ،الہور ٭
برسبیل سخن ایک مطالعہ :شمارہ نمبر١٢،٢٠٠٦ئ ١۔
نفائس ادب :شمارہ نمبر٢٠٠٥ ،٩ئ ٢۔
اوراق ،الہور ٭
عالمتی اظہار :شمارہ خاص ۔٢،١٩٦٦ئ ١۔
شاعری یامذہب :جنوری فروری١٩٧٩ئ ٢۔
نیادور،کراچی ٭
غزل :شمارہ نمبر٦٥۔٦٦ ١۔
غزل :شمارہ نمبر٦٣۔٦٤ ٢۔
حلقہ ارباب ذوق کے ادبی مجلے نئی تحریریں مینشائع ہونے والے ریاض احمد ٭
کے مضامین کی فہرست:
بیت کے تجزیے(قیوم نظر تک( ١۔
اس نظم میں ''آٹو گراف''(مجیدامجد( ٢۔
اردو کی فطری شاعری ٣۔
دانشور ٭
جب دودھ پائی بنے :جوالئی٢٠٠٠ ١۔
ناراض عورتیں…… انیس ناگی(تبصرہ) :اپریل ٢٠٠٤ ٢۔