You are on page 1of 7

NATIONAL TEXTILE UNIVERSTY

Master of Science in Textile Technology

Assignment no:01

TITLE: Describe key concepts discussed in


Quran lectures.
SUBMITTED BY: Muhammad Mubashar Hassan

REG # 23-NTU-MSTT-FL-002

SEMESTER: 1st
COURSE TITLE: Quran Translation (QT-5001)

Department Textile Technology

SUBMITTED TO: Dr. Tanweer Hussain

SUBMISSION DATE: 29/01/2024


‫‪Describe key concepts discussed in Quran lectures‬‬
‫انسانی تخلیق کا مقصد‪:‬‬
‫انسانی تخلیق کا مقصد میں چار نقطے اہم ترین ہیں۔ ان میں تخلیق‪ ،‬عبادت‪ ،‬تقوی تزکیہ اور فالح شامل‬
‫ہیں۔‬
‫ہللا تعالی نے انسان میں تجسس کا مادہ ودیعت کیا ہے اس بنا پر انسان کائنات کی ماہیت اور گرد و نواح‬
‫میں رونما ہونے والے مظاہر کے مطالعہ میں مصروف عمل ہے۔ جوں جوں اس کا علم بڑھتا ہے وہ‬
‫چیزیں ایجاد کرتا ہے اور اس کو اپنی اسائش کے لیے استعمال کرتا ہے ‪،‬اس ضمن میں یہ نقطے اہم‬
‫ترین ہیں۔‬
‫عبادت کا مقصد ہللا کو راضی کرنا ہے۔ہللا تعالی قران پاک میں فرماتا ہے کہ تم عبادت کرو‬
‫تاکہ فالح پاؤ۔اگر ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہماری نماز پڑھنے کا مقصد حاصل‬
‫ہو رہا ہے کہ نہیں۔‬
‫ہدایت کا مقصد فالح ہے‪،‬عبادت کے معنی میں قول کا اتباع‪ ،‬امر کی تعمیل‪ ،‬بندگی‪ ،‬غالمی ‪،‬محکومی‬
‫(احکام و ہدایات کی پیروی) شامل ہے‪ .‬جبکہ عبادت کا دوسرا مطلب پرستش یا پوجا پاٹ ہے‪.‬‬
‫تقوی کے مفہوم میں پرہیزگاری‪ ،‬برے کاموں سے بچنا‪،‬حفاظت یا بچاؤ شامل ہیں۔ یہ تو ہے برے کاموں‬
‫سے بچنا۔ اب اگر دیکھیں تو اس کا ایک مفہوم صحیح کام کرنے کی طرف توجہ دالتا ہے جس میں‬
‫درست رویہ اپنانا‪ ،‬راست بازی اور نیکو کاری شامل ہے۔‬
‫جبکہ تزکیہ کے مطلب میں ‪ development‬اور ‪ poverty‬شامل ہیں اب ہم نے ان دونوں میں سے‬
‫ایک بات تو یاد رکھی ہوئی ہے جبکہ دوسری بات بھول چکے ہیں۔تزکیہ کے معنی میں‪ growth‬شامل‬
‫ہے‪ .‬نفس کا ترجمہ اقبال نے خودی کے لفظ میں کیا ہے۔‬
‫فالح کے معنی کسان کے یا کھیتی باڑی کے ہیں۔ہللا تعالی نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ کن کاموں‬
‫پر عمل کر کے انسان فالح پا سکتا ہےاوراگر انسان اپنی پوری طاقت سے کام کرے تو فالح حاصل کر‬
‫سکتا ہے۔‬

‫بسم ہللا الرحمن الرحیم کے معنی‪:‬‬


‫بسم ہللا الرحمن الرحیم بولنے اور لکھنے کے اعتبار سے مختصر ترین لیکن معنی کے لحاظ سے وسیع‬
‫احاطہ رکھتی ہے۔قران پاک میں ہللا کا لفظ بار بار اتا ہے اس کا مطلب ہے کہ جس کی عبادت کی جائے۔‬
‫ہللا تعالی قران پاک میں فرماتا ہے میرے سوا کوئی الہ نہیں پس میرا تقوی اختیار کرو۔ ب کے مطلب میں‬
‫شروع کرنا بھی اتا ہے۔‬
‫بسم ہللا شروع ہللا کے نام سے۔‬
‫الرحمن اور الرحیم دونوں اسم ہیں۔‬ ‫‪‬‬
‫الرحمن کا لفظ وہ لفظ ہے جس کا دوسری زبان میں ترجمہ نہیں ہے۔‬ ‫‪‬‬
‫الرحمن کا لفظ صرف ہللا تعالی کے ساتھ ہی منصوب ہے۔‬ ‫‪‬‬
‫الرحیم رحمت کے ساتھ یہ لفظ اضافہ کرتا ہے۔یہ صفت محمد صلی ہللا علیہ والہ وسلم کے لیے‬ ‫‪‬‬
‫پیش ہوئی ہے۔ہللا تعالی نے قران پاک میں بارش کو رحمت کہا ہے۔ہللا تعالی نے انسان پر رحمت‬
‫کرنی ہی کرنی ہوتی ہے لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ انسان اپنے اعمال اس قابل کریں کہ وہ‬
‫ہللا کی رحمت کا صحیح حقدار بن سکے۔ہللا تعالی قران پاک میں فرماتا ہے کہ اگر غلطی ہو گئی‬
‫ہے تو توبہ کر لو تو رحمت مل جائے گی۔‬

‫سورہ فاتحہ کا مفہوم ‪:‬‬


‫سورہ فاتحہ نماز میں استعمال ہونے والی اہم سورت ہے اس کا ہر لفظ وسیع و عریض معنی رکھتا ہے۔‬
‫ل کا لفظ اسم نکرہ کو‬ ‫‪ ‬الحمدہلل رب العالمین تمام حمد ہللا کے لیے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‬
‫اسم معرفہ میں تبدیل کر دیتا ہے۔حمد کا لفظ تحسین و ستائش اور شکر کہ معنی میں اتا ہے۔‬
‫‪ ‬حمد کی اٹھ خصوصیات ‪:‬‬
‫‪ ‬جن اوصاف و افعال کی بنیاد پر حمد کی جا رہی ہو وہ حقیقی ہو‬
‫‪ ‬کسی دوسرے کی عطا نہ ہو‬
‫‪ ‬دوسروں کے لیے منفعت بخش ہو‬
‫‪ ‬حمد و ستائش اور شکر بجا النے والے کے دل میں ذوق سلیم‬
‫‪ ‬فہم و ادراک‬
‫‪ ‬خلوص نیت‬
‫‪ ‬عز و انکسار‬
‫‪ ‬تعظیم و احترام ہو‬
‫‪ ‬مالک یوم الدین مالک یوم (کا) دین (کے)‪ .‬مالک کے معنی ملکیت اور قبضہ رکھنے واال ہے‪.‬‬
‫قران پاک میں ہللا تعالی فرماتے ہیں کہ اصل حاکمیت ہللا ہی کی ہے۔دنیا کا لفظ ادنا لفظ سے نکال‬
‫ہے۔اخرت کا لفظ مرنے کے بعد کی دنیا ہے۔‬
‫‪ ‬ایاک نعبد و ایاک نستعین ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔انسان‬
‫کو غور کرنا چاہیے کہ کس طرح ہللا تعالی نے اس کو نقطہ اغاز سے حد کمال تک پہنچایا۔‬
‫‪ ‬اھد ناالصراط المستقیم۔ سیدھے راستے کی ہدایت دے۔ہللا تعالی قران پاک میں فرماتا ہے کہ جو‬
‫میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ ان پر کوئی خوف (طاری )ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں‬
‫گے‪.‬حضرت محمد صلی ہللا علیہ والہ وسلم نے فرمایا بے شک ہللا کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔‬
‫قران پاک کن لوگوں کے لیے ہدایت ہے؟‬
‫متقی لوگوں کے لیے۔ متقی اس شخص کو کہتے ہیں جو خواردار راستوں سے بچ کر نکل جائے۔‬
‫ہللا تعالی کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا؟‬
‫‪.1‬کافر ‪.2‬ظالم ‪.3‬فاسقین۔‬
‫قران کی روشنی میں صراط مستقیم کیا ہے؟‬
‫صراط کا مطلب واضح ‪،‬کھال‪ ،‬صاف اور اسان راستہ ۔ مستقیم کا مطلب سیدھا‪ ،‬ہموار ‪ ،‬درست اور‬
‫متوازن ہے۔‬

‫َلَع َّلُك ۡم ُتۡف ِلُحوَن‬


‫‪Perhaps you will succeed‬‬
‫ئ‬
‫ش ای د آپ کام ی اب ہ و ج ا ی ں گے‬
‫َع َّلُك ْم ُتْفِلُحوَن " یہ عبارت قرآن مجید کی متداول آیات میں سے ایک ہے اور اس کا مطلب ہے‪" :‬شاید تم کامیاب ہو جاؤ"۔‬
‫یہ عبارت مختلف آیات میں مرتبط طور پر آئی ہے اور مومنوں کو اعمال صالحہ اور تقوٰی کی راہوں میں راہنمائی‬
‫کرتی ہے۔‬

‫ہللا تعالی نے مخلوقات کو دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اپنے حکمات اور راہنمائی فراہم کی ہے۔ یہ‬
‫عبارت مومنوں کو اپنی زندگی میں نیکیوں کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور انہیں کامیابی اور برکت حاصل ہونے کی‬
‫دعوت دیتی ہے‬

‫ٱۡل َخ ِبيُث َو ٱلَّط ِّيُب‬


‫‪The bad and the good‬‬
‫برے اور اچھے‬
‫ٱۡلَخ ِبيُث َو ٱلَّطِّيُب " یہ عبارت قرآن مجید میں آتی ہے اور اس کا مطلب ہے‪" :‬ناپاک اور پاک"۔ یہ آیت ہللا تعالی کی صفات‬
‫کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ بے نقص اور پاک ہیں‪ ،‬جبکہ دنیا میں کچھ چیزیں ناپاک ہوتی ہیں۔ یہ عبارت ایمانی اصولوں‬
‫اور اخالقی اقدار کو بیان کرتی ہے اورٱلَخ ِبيُث َو ٱلَّطِّيُب " کا ذکر ہللا تعالی کی پاکیزگی اور بے نقصی کو ظاہر کرتا ہے۔‬
‫ہللا خود ہر قسم کی پاکیزگی اور بڑائی میں مکمل ہیں جبکہ دنیا میں ہر چیز مختلف حالتوں میں پائی جاتی ہے‪ ،‬بعض‬
‫پاک اور بعض ناپاک‪.‬‬

‫َي ٰٓـَأُّي َه ا ٱلَّن اُس‬


‫‪O people‬‬
‫اے لوگو‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن ن‬ ‫ق‬ ‫ن ن ن‬
‫ے اس عمال‬ ‫ے کے لی‬‫ت‬ ‫کر‬ ‫اطب‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫کو‬ ‫ت‬ ‫ف قی‬ ‫سا‬ ‫ا‬ ‫وری‬ ‫پ‬ ‫سے‬ ‫رت‬
‫ث‬
‫ک‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫تی‬‫رآن‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬
‫ہ‬ ‫ظ‬
‫ف‬
‫ل‬ ‫ی‬ ‫عر‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫سان)‬‫ف‬ ‫ا‬ ‫وع‬ ‫ی‬ ‫ج ملہ "َيـَٰٓأُّيَها ٱل َّناُس " ت(اے ب‬
‫ت‬ ‫ہ ب‬ ‫ی‬ ‫ثق ت‬ ‫ت‬
‫ے۔ ی ہ ج امع‬ ‫ی‬ ‫کر‬ ‫کام‬ ‫کا‬ ‫دعوت‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫آ‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫لوگوں‬ ‫مام‬ ‫وکر‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫اال‬ ‫سے‬ ‫حدود‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫مذ‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ں‪،‬‬ ‫م‬ ‫مات‬ ‫ع‬
‫ہخ و ہ ش ن ن لتی‬
‫المی‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ل ی‬ ‫ن ئ بف ق‬ ‫ی ی‬
‫ے۔ "َيـَٰٓأُّيَها" کا اس عمال ای ک ہ نمدرد اور ج امع ل جہ ہ کی عکاسی‬ ‫نوں‪ ،‬اور القہی رہ ما یق کی آ ا ی ت پر زور دی ت ا‬ ‫رکہ ا سا ی ج رب ات‪ ،‬غذمہ دار‬ ‫طاب ت‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ک‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫سا‬ ‫ا‬ ‫مام‬ ‫ہ‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫دعوت‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫عم‬ ‫ر‬ ‫اصولوں‬ ‫ی‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ور‬ ‫ر‬ ‫اعمال‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫راد‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫کر‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ےم ں ش ت‬ ‫سجم ن‬ ‫پ‬
‫اددہ ا ی کی عالمت ے‪ ،‬ج و ا حاد کے ا ساس اور را ت ازی کی ت تالش اور ال ہی پ غ‬ ‫ت‬
‫پ‬ ‫پ‬ ‫ہ‬
‫ے۔ت ی ہ ج ملہ اج نماعی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫روغ‬ ‫کو‬ ‫صد‬ ‫م‬ ‫رکہ‬ ‫ئ‬ ‫کو‬ ‫ام‬ ‫س‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ے زن دگیہسے علق رک‬ ‫ش ئ‬
‫ہ‬ ‫ی ف ہ ھ ی ہمن‬ ‫ق‬ ‫ب خ‬ ‫ف ح ت‬ ‫ہ‬‫ی کاسی اور اخ ال ی طرز عم‬
‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ما‬ ‫ر‬ ‫کردہ‬ ‫م‬ ‫را‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫کو‬ ‫ال‬ ‫ی‬ ‫اس‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ی‬ ‫زا‬ ‫ا‬ ‫حوصلہ‬ ‫کی‬ ‫ل‬
‫علے لوگوں کے ی ت ق ف ئ ن‬
‫ے۔‬ ‫ے م عل ہ اور ا دہ م د ہ‬ ‫ل‬ ‫وا‬

‫َلَع َّلُك ۡم َت َّتُقوَن‬


‫‪That you may become righteous‬‬
‫تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‬
‫"َلَع َّلُك مۡ َتَّتُقوَن " (تاکہ تم متقی بن جاؤ) ایک بار بار چلنے واال قرآنی اظہار ہے جو لوگوں کو تقوٰی اور خدا کے شعور کو‬
‫فروغ دینے کی تاکید کرتا ہے۔ عربی اصطالح "تقوى" (تقوٰی ) میں جڑی ہوئی ہے‪ ،‬یہ کسی کے اعمال کو ذہن میں‬
‫رکھنے‪ ،‬غلط کاموں سے بچنے اور نیکی کی تالش کے خیال کو بیان کرتی ہے۔ تقوٰی کی یہ دعوت اسالمی تعلیمات‬
‫میں ایک مرکزی موضوع ہے‪ ،‬جس میں خدا سے آگاہ اور اخالقی طور پر راست زندگی گزارنے کی اہمیت پر زور دیا‬
‫گیا ہے۔ یہ جملہ بتاتا ہے کہ اخالقی اور روحانی اصولوں پر عمل پیرا ہونا ذاتی ترقی اور سماجی ہم آہنگی کا باعث بنتا‬
‫ہے۔ تقوٰی کو فروغ دینے سے‪ ،‬افراد کو انصاف سے کام لینے‪ ،‬ہمدردی کا مظاہرہ کرنے‪ ،‬اور اخالقی اقدار کو برقرار‬
‫رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے‪ ،‬جو ایک نیک اور ہم آہنگ معاشرے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ مجموعی طور پر‪ ،‬یہ‬
‫اظہار تقوٰی کی تبدیلی کی طاقت کی یاددہانی کے طور پر کام کرتا ہے جو افراد اور برادریوں کو نیکی اور اخالقی‬
‫فضیلت کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔‬

‫ُأِع َّد ۡت ِلۡل َٰك ِفِر يَن‬


‫‪It has been prepared for the disbelievers‬‬

‫یہ کافروں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔‬


‫ت‬ ‫تن‬ ‫ن ئ‬ ‫خ‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫َن‬ ‫َّد ْت‬
‫ے وج‬ ‫ارےئمی ں ای ک ب ی ہہ کر ا‬ ‫کے‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫لوگوں‬ ‫ان‬ ‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫وذ‬ ‫ما‬ ‫سے‬ ‫رآن‬ ‫کردہ)‬ ‫ار‬ ‫ےت‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫روں‬ ‫(کا‬ ‫"‬ ‫اِف‬ ‫ِلْل‬ ‫"ُأِع‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ظ‬ ‫ہ‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫ا مان کا ان کار کرِرے ں ا ال ہی پ غ‬
‫َك‬
‫ے ت ا ج ی ا ای ک نح تساب کت اب ت ی ار ک ی ا‬
‫ي‬
‫کے لی‬
‫ن ف‬ ‫لوگوں‬ ‫ان‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ال‬ ‫اس‬ ‫ہ‬ ‫ں۔‬
‫ی ت یت‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ت‬‫کر‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ام‬
‫ی یش ی ی‬ ‫ہ‬
‫ہن ظ‬
‫ت‬
‫س‬
‫ی‬
‫ٹ‬ ‫ھ‬ ‫ج‬ ‫یاےج وخ‬
‫اعمال‬
‫ان کے ا خ اب اور ئ‬ ‫غ‬ ‫ت‬‫کی‬ ‫راد‬‫ن‬ ‫ا‬ ‫اہ‬ ‫ت‬
‫ی ب‬ ‫ا‬‫ف‬ ‫ہ‬ ‫ں‪،‬‬
‫غ‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫المی‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫رد‬ ‫س‬ ‫م‬
‫ین‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫ال‬‫من‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫طور‬ ‫عوری‬ ‫کو‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫دا‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫دا‬ ‫گی ہ‬
‫ے‪ ،‬ج و خ دا ی‬ ‫ے ا مان اور خ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ج‬
‫ی ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫ب‬ ‫ت ی‬‫ر‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫کر‬ ‫و‬ ‫ور‬ ‫ر‬ ‫پ‬‫ن‬ ‫اطاعت‬ ‫کی‬ ‫کام‬ ‫ح‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫دا‬
‫ض ت‬ ‫کے ل سب پن ی ہ ی ت ج ن ی ہ پ ی‬
‫ا‬ ‫کو‬ ‫ن‬ ‫مو‬ ‫ملہ‬ ‫ہ‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫زور‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫وا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫نئ‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫رہ مانی کو لی م کرے اور اس ت‬ ‫ت‬
‫نب دی‬ ‫ے کہ ای مان نکی پ ا‬ ‫ے۔ ی ہ ای ک ی اد دہسا ی کے قطور پر ث‬
‫کام خکر ا قہ‬ ‫کے ا ع کرےفکی خا می ت کو نوا ح کر ا نہئ‬
‫ن‬
‫ک‬ ‫پ‬
‫ے۔ رآن اک ر ا ال ی اس ب اق کو ہ چ اے اور سی‬ ‫اعث ب ن کت ت ا ہ ت‬ ‫ف‬
‫اپ‬
‫ے‪ ،‬ب تکہ غ ر آ رتنمی ں س دی دہ ت ا ج کا ب‬ ‫ک‬ ‫ج‬ ‫لے ج ا غی ہ ف‬ ‫روحا یق کم ی ل کی طرف ن ئ‬
‫ئ‬
‫ے۔‬ ‫ے اس طرح کے ال اظ کا اس عمال کر ا ہ‬ ‫ے کے یل‬ ‫کے ع ا د اور اعمال کے ت ا ج پر ور و کر کی ر ی ب دی‬
‫َفٱَّتُقوْا ٱلَّن اَر ٱَّلِتي‬
‫‪So fear the Fire that is coming‬‬

‫پس اس آگ سے ڈرو جو آنے والی ہے۔‬


‫ن ئ‬ ‫ن‬ ‫ْا َر‬
‫ے‬
‫بن‬
‫سے‬ ‫عذاب‬ ‫کے‬ ‫م‬
‫ن جن‬
‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ے‬‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ار‬
‫ہ ش‬
‫و‬ ‫سے‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫کے‬ ‫اعمال‬ ‫ے‬
‫ن‬
‫ا‬ ‫کو‬ ‫وں‬
‫ن‬
‫مو‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫کم‬‫س گآ سے ڈرو) ا ک ق رآ ی ح‬ ‫ن‬ ‫(‬ ‫"‬ ‫اَّلِت‬
‫نچ‬
‫عم‬
‫ی‬ ‫ہئ م خ پ‬ ‫یت‬ ‫تق‬ ‫پ‬ ‫ي‬ ‫"َفٱت قَّتُقو ال َّنا ت‬
‫کے احکام پر ل کرے تکی‬ ‫اس ت‬ ‫کے بنارے می نںئ ذہ ن سازی اور ض‬ ‫ے‪ ،‬ج و دا ن ف‬ ‫ے۔ ی ہ یص حت وٰی تکے نصور نسے ج ڑی ہ و ی ہ‬ ‫ن شکی ن ل ی ن کرت ا ہ‬
‫ل‬ ‫ا دہ ی کر یمنہ‬
‫کام کر ا‬
‫عارہ کے طور پر ش‬
‫ت‬
‫اس‬
‫ے ای ک وا حخ ق‬ ‫کے یلن‬
‫ب‬
‫اور ا ٰہی ہ خدای ت کی ا رما ی کے ت خا ج‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ذکرہ گ اہ ا ہ روی‬
‫ےب‬ ‫غ‬ ‫کا‬
‫َّنار" (گآ)ن‬ ‫ن‬ ‫ے۔ "ال‬
‫ے کو ش‬ ‫ے ا ال ی ب ہ ری کے ی‬‫ن‬‫ے کے یل‬ ‫سے قود نکو چئ ا غ‬‫ے‪ ،‬جاور فآ رت نکی نمتمک ہ سزا خ‬ ‫گزارے‪ ،‬لط کاموں سے چ‬ ‫ے۔ ی ہ تموغ ی ن کو صالح ز دگی ظ‬ ‫ہن‬
‫ل ن‬
‫ے ا خ اب کے ا ال ی ت ا ج پر ور کرے اور اس کے م طابق ز دگی‬ ‫ے‪ ،‬و ا راد کو پا‬ ‫ہ‬ ‫دعوت‬ ‫کی‬ ‫داری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ہار‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫کر ن ت یغ ی ہ ی‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫کی‬ ‫ے‬
‫ے۔‬ ‫گزارے کی ر ی ب دی ت ا ہ‬

‫َو َن ۡف ٖس َو َم ا َس َّو ٰى َه ا‬
‫‪And the soul and everything else‬‬
‫اور روح اور باقی سب کچھ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن ن‬ ‫ق ن‬ ‫ن‬
‫ے ج و ا سا وں می ں موج ود اٰلہی خ یل ن‬ ‫ےناس کا ت ن اسب ک ا) ا ک رآ ی آی ت‬ ‫َو َّو‬ ‫َو‬
‫قف اور وازن کو‬ ‫صہ‬
‫خ ح ہ‬ ‫کا‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ی ئی‬ ‫(اور روح اور وہ جس ن‬ ‫" ضَنْف ت َما َس ٰى َها"‬
‫ٖس‬
‫ے۔ن عربی اص ط تالح "َنْف " ( تس) سے مراد‬ ‫ہ‬ ‫روح کی دیچیپہ ڈضیزا ن اور ب ام نصد ن یل ن فق پر زور دی ت ا‬ ‫ت‬ ‫ے۔َّوی ہ خ دا کی طرف سے ا سا ی‬ ‫ہ‬ ‫وا ح کر ی‬
‫ٖس‬ ‫ے‪ ،‬اور "َس ٰى َها" (سووہ) کا م طلبشے م ن اسب ا و ع ت‬
‫اور‬
‫ے ئ‬ ‫ذول کرا ی ہ ف‬ ‫دار۔ آی ت ا سا ی س کیعب اری ک ب ی ی کی ئطرف غوج ہ م بن‬ ‫خ‬ ‫ی ظ‬ ‫نہ ت‬ ‫پ‬ ‫خ‬
‫ت‬
‫روح ہ‬
‫نکرے کی حوصلہ ا زا ی‬ ‫ے۔ ی ہ ا ہارت یل ق کار قکے گہرے لم اور ن‬
‫ارادی ڈفیزا ن پر ور‬
‫ن‬ ‫ے ال ہی حکمت پر روق ی ڈالس ی نہ‬ ‫کے یچ ھ‬‫ق ت‬ ‫اس کی یل ت‬ ‫ت‬
‫ے۔‬
‫ے الزمی ہ ت‬ ‫س‬
‫سی کے روحاخ ی ر کو پورا کرے کے یل‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ھ‬‫ک‬ ‫ر‬ ‫رار‬
‫ت‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫وازن‬ ‫کے‬ ‫اس‬
‫ن‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫ھ‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫کو‬ ‫ت‬
‫صد‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫روح‬ ‫کہ‬ ‫ے‬
‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ز‬ ‫ی‬‫و‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ف‬ ‫ا‬ ‫کر‬
‫ے‪ ،‬کر گزاری‪ ،‬ود آگاہ ی‪ ،‬اور ذمہ داری کا احساس پ ی دا کر ا‬
‫ش‬
‫ا‬ ‫کر‬ ‫کام‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ہ‬‫د‬ ‫اد‬ ‫کی‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ہ ا راد اوری ان کےئ خ الش خق کے درم ان ال ہی ع‬
‫ہ‬ ‫پ ت‬ ‫ی‬ ‫یے کہ کس طرح کو ی ص اپ نی زن یدگی کو خ‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ال‬ ‫چ‬ ‫ق‬ ‫ب‬‫طا‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ارادوں‬ ‫کے‬ ‫دا‬ ‫ہ‬

‫َو ٱَّلۡي ِل ِإَذ ا َي ۡغ َش ٰى َه ا‬


‫‪And when the night covers it‬‬
‫اور ج ب رات اسے ڈھان پ لے‬

‫ق ن‬
‫ن‬ ‫ھن‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ن لت‬ ‫"َو ٱَّلۡي َذ ا غ‬
‫رے‬ ‫ی‬
‫غ ف‬ ‫دھ‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ر‬‫د‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫دن‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫ڈ‬ ‫رات‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫صہ‬‫ت‬‫قح‬ ‫کا‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫آ‬ ‫ی‬ ‫رآ‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬
‫نش ن‬ ‫ے)‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ڈھا‬‫ظ‬ ‫کو‬ ‫اس‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫رات‬
‫ت‬ ‫(اور‬
‫ت‬ ‫ا"‬ ‫ٰى‬‫َش‬ ‫ۡ‬ ‫ِل ِإن َي‬
‫خ‬ ‫خ‬ ‫ن‬
‫َه‬
‫دن اور رات کے ردوب دل پر ور و کر‬ ‫کروں اور‬ ‫ت‬ ‫چ‬ ‫کے طور پتر ت در ی‬ ‫وں ت‬ ‫ی‬
‫ئہ ا ہار دا تکی ل ق کی ا ی‬ ‫ے۔‬ ‫ے کی تطرف وج ہ دال ی‬ ‫ن ڈھا‬‫سے‬
‫ش ن ق‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ے کا پکام کر ا ے۔ دن کو لپے ہ وے رات کا ذکرہ کائ ن‬
‫ٹ‬
‫ے‪ ،‬ج فس می ں‬ ‫ین ہغ‬ ‫ہ‬ ‫طر‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫اعرا‬ ‫ک‬ ‫یتمن‬‫ا‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫کو‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫صور‬ ‫ب‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫ات‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ل ہ ٹ یش‬ ‫کر‬
‫ق‬ ‫سی ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫ں‪ ،‬غاس طرحتکی آی ات مو ی ن کو در ی د ی ا ئپر ور و کر‬ ‫اقنمی ت‬ ‫کے و ع ن رش نس ی اق و سپب ن‬ ‫ے۔ شرآن ن‬ ‫کے ا ہی آرکس ر ن پقر زور دی ا گ ی ا ہ‬ ‫کانات‬
‫ی‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ل‬ ‫خ‬
‫ےف‬‫کے یل‬
‫ے کی تر ی ب د ی ہ ی ں۔ ی تہ ت ل ق تکار کے ڈیزا قن غ‬ ‫درت کی طرف ا ارہ کرے والی ا ی وں کو ہچ ا‬ ‫ے اور ا ق کی ت کمت اور ن‬ ‫کر ن‬
‫روحا ی ب ی داری اور عریف کو گہرا کرے کے ای ک ذری عہ کے طور پر دن اور رات کے ال م ی ل می ں موج ود ر ی ب‪ ،‬وازن اور م صد پر ور و کر‬
‫ے۔‬ ‫کی دعوت دی ت ا ہ‬
‫َو َلـَن ۡب ُلَو َّنُك ۡم ِبَشۡى ٍء‬
‫‪And We will certainly test you with something‬‬
‫ئ‬ ‫ت‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ض‬
‫اور ہ م رور ہی ں کسی ہ کسی چ یز سے آزما ی ں گے۔‬

‫قرآن مجید میں آنکھوں کھولنے والی ایک مظبوط آیت ہے۔ اس میں ہللا تعالی کا وعدہ ہے کہ ہمیں زندگی میں مختلف‬
‫امتحانات دینے والے ہیں۔ "ِبَش يٍۡء " کا مطلب ہے "کچھ"‪ ،‬جس سے ظاہر ہے کہ امتحانات مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ یہ‬
‫آیت ہمیں صبر‪ ،‬استقامت اور ایمان میں استمرار کے اہمیت کا سبق دیتی ہے‪ ،‬اور ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کے مشکالت‬
‫ایمان کو بڑھأوں اور مزید مضبوط بناتی ہیں‪.‬‬

‫َو َب ِّش ِر الّٰص ِبِر ۡي َۙن‬


‫‪And give good news to the patient ones‬‬
‫خ شخ‬ ‫ن‬
‫ور صب ر کرے والوں کو و ب ری س ن ا دو‬
‫َبِّش ِر الَّصاِبِريَن " یہ آیت قرآن مجید میں متداول ہے اور اس کا مطلب ہے‪" :‬اور صابرین کو خوشخبری دو"۔ یہ آیت‬
‫مومنوں کو صبر اور استقامت کی اہمیت پر دلیل فراہم کرتی ہے۔ ہللا تعالی ہمیں زندگی کی مشکالت اور امتحانات میں‬
‫صبر کرنے‪ ،‬دنیا و آخرت میں بھالٔيی حاصل کرنے اور مشکالت کا مقابلہ کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ صابرین کو‬
‫خوشخبری دینا ہللا کا ایک بڑا اعزاز ہے اور یہ انہیں ہللا کی رحمتوں اور جنتی بہشت کی بشارت دیتا ہے۔ اس آیت سے‬
‫ہمیں ملتا ہے کہ صبر ایمان کی اہمیتیں میں سے ایک ہے اور ہللا کے حکم پر راضی رہنا ہمارے لیے بہتر ہے‬

You might also like