Professional Documents
Culture Documents
اخلاص و تقوی تا حسن معاشرت
اخلاص و تقوی تا حسن معاشرت
تقوی اخالص و
تقوی کی اہمیت پر نوٹ لکھیں۔ ٰ ۲۔ اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں
اعلی مثال اور نمونہ ہے۔ آپﷺ ٰ ٰ
تقوی کی جواب :رسول ہللاﷺ کی پوری زندگی اخالص و
اپنی ازواج مطہرات میں مکمل برابری اور مساوات کا سلوک فرماتے۔ ہمیشہ سادہ خوراک
کو ترجیح دیتے۔ غالموں کے ساتھ برا سلوک نہ فرماتے۔ تمام انسانوں کو برابر سمجھتے۔
تعالی کی خوشنودی،
ٰ کفار مکہ کی شدید مخالفت کے باوجود دین اسالم کی تبلیغ میں ہللا
تعالی نے آپﷺ کی کلی مغفرت کا ٰ اخالص نیت ہی تھی۔ باوجود اس کے کہ ہللا
ِ ٰ
تقوی اور
حتی کہ
اعالن فرمایا لیکن پھر بھی آپﷺ اور زیادہ اخالص و محبت سے عبادت کرتے ٰ
پاؤں مبارک میں ورم آجاتے۔ اپنے کردار اور رویے سے آپﷺ نے امت کو بتا دیا کہ ہر
ٰ
تقوی کے بغیر اس کی ہللا نیکی چاہے وہ کتنی بڑی یا چھوٹی ہی کیوں نہ ہو ،اخالص اور
تعالی کے ہاں کوئی وقعت نہیں۔
ٰ
تقوی و اخالص کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ وضاحت کریں۔ ٰ ۳۔ عبادات اور
ٰ
تقوی کے بغیر عبادت کی ٰ
تقوی ہے۔ کیونکہ اخالص و جواب :عبادات کی روح اخالص و
کوئی قدر و قیمت نہیں بلکہ وبال جان بن جاتی ہے۔ دنیوی و اخروی کامیابی کے حصول
کے لیے ہللا کا خوف اور عبادات میں اخالص اہم کردار کرتے ہیں۔ عبادت میں اپنے رب
کی رضا کی تالش اور اس کے غضب اور ناراضگی jسے بچنے کی کوشش کرنا ،عبادت
کی روح ہے۔ اس کی رضا جوئی اور خوشنودی کو مدنظر رکھ کر ہی عبادت کی لذت سے
شناسائی ہو سکتی ہے۔ نجات کا واحد ذریعہ ہی یہی ہے۔ کہ احکامات خداوندی کو خلوص
دل سے مان لیا جائے۔
نوٹ :درج زیل سواالت کے مختصر Aجواب لکھیں۔
۱۔ ہللا کے لیے دین کوخالص کرنے سے کیا مراد ہے؟
جواب :ہللا کے لیے دین کو خالص کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہللا کی اطاعت میں ہللا کے
سوا اور کسی کو شریک نہ بنایا جائے نہ کسی مخلوق اور نہ ہی کسی نفسانی غرض کو۔
تمام عبادات صرف ہللا کی خشنودی کے لیے ادا کی جائے جس میں کسی بھی قسم کی
ریاکای اور دکھالوہ نہ ہو۔
ٰ
تقوی کی کیفیت کہاں پیدا ہوئی ہے؟ ۳۔
ٰ
تقوی کی کیفیت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ دل ہی تمام نیکیوں کا محرک ہے۔ایک جواب:
ٰ
تقوی یہاں ہے۔ دفعہ رسول ہللاﷺنے دل کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایا کہ
حسن معاشرت
تعالی اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو اپنے ساتھیوں سے ممتاز بنتا ہے۔
ٰ سوال :۲ہللا
اسوۂ رسول ﷺ کی روشنی میں تحریر Aکریں۔
جواب :اسوۂ رسولﷺ پر نظر ڈال کر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور واضح ہوتی
ہے کہ آپﷺ کبھی بھی اپنے ساتھیوں سے خود کو ممتاز کرنا پسند نہ فرماتے تھے اور
ہر قسم کی صورتحال میں عدل و مساوات کو ہی پسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ سفر کے
کرام نے بکری زبح کرکے اس کے پکانے کے لیے مختلف ذمہ داریاں دوران صحابہ ؓ
تعالی
ٰ تقسیم کیں۔ آپﷺ نے لکڑی جمع کرنے کی ذمہ داری قبول فرمائی اور فرمایا ہللا
ت غ
جو اپنے ساتھیوں سے ممتاز بنتا ہے۔) زوہ ب در می ں ی ن
فرماتا ہے ق تایسے بندے کو پسند نہیں
ن
ے ای ک ای ک او ٹ واال صہ(ی ن مج اہ دی ن کے لی
سوال :۳نبی اکرمﷺ بچوں ،عورتوں ،غالموں کی کس طرح دلجوئی فرمایا کرتے تھے،
واقعات کی روشنی میں تحریر کریں۔
جواب :نبی اکرم ﷺ بچوں ،عورتوں ،غالموں کی دلجوئی فرمایا کرتے تھے اور کبھی
انس کے چھوٹے بھائی کے پاس ایک چڑیا کبھی خوش طبعی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ؓ
تھی جو مرگئی۔ اس کے بعد وہ جب بھی آپﷺ کے پاس آتے تو آپﷺ خوش طبعی سے
فرماتے:
اے ابو عمیر! وہ چڑیا کہاں گئی؟
غفاری نے اپنے ایک عجمی غالم کو بُرا بھال کہہ دیا۔ غالم نے
ؓ صحابی رسول سیدنا ابوذر
آپﷺ سے شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا :ابوذر! تم میں جاہلیت ہے۔ وہ تمہارے بھائی
ہیں۔ اسی طرح آپﷺ عورتوں پر بہت شفقت فرماتے ۔ اگر آپﷺ نماز کی حالت میں کسی
بچے کی آواز سنتے تو اس کی ماں کی مشقت کے خیال سے نماز ہلکی فرمادیتے۔