Professional Documents
Culture Documents
TTQ
TTQ
1|Page
ذکر کی فضیلت
ذکرالہی کا طریقہ
ذکرالہی اور احادیث مبارک
حاصل کالم
حوالہ جات
2|Page
سورة الرعد
3|Page
زمانۂ نزول :
رکوع چار اور رکوع چھ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورت
بھی اسی دور کی ہے جس میں سورۂ یونس ،ہود اور اعراف نازل
ہوئی ہیں ،یعنی زمانۂ قیام مکہ کا آخری دور۔ انداز بیاں سے صاف
ظاہر ہو رہا ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی ہللا علیہ و آلہ
وسلم کو اسالم کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدِت دراز گذر چکی ہے۔
مخالفین آپ کو زک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کرنے کے لیے
طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں ،مومنین بار بار تمنائیں کر رہے
ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر الیا
جائے اور اہلل تعاٰل ی مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ
دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر دشمناِن حق کی
رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے جس سے تم گھبرا
اٹھو۔ پھر آیت 31سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ
دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہوچکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم
ہوتا ہے کہ اگر قبروں سے مردے بھی اٹھ کر آجائیں تو یہ لوگ نہ
مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے۔
ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورت مکہ کے آخری
دور میں نازل ہوئی ہوگی۔
4|Page
موضوع
ذکر اٰل ہی اور کی ا س فضیلت
ذکر کے معنی
ذکر کے معنی یاد کرنا ،زبان پر جاری کرنا ،شہرت ،ثنا خوانی ،دعiiا اور ورد
وغیرہ ہیں،اور عارفوں کی اصطالح میں ذکر ،یاد کiiرنے ،عمiiل پiiر ھوشiiیار،
تحفظ ،اطاعت ،نماز اور قرآن وغیرہ کے معی میں آیا ہے-
خداوند متعiiال کے سiiاتھ عاشiiقانہ رابطہ کے خوبصiiورت تiiرین جلiiووں میں
سے ایک جلوہ اور سیر و سلوک کی بنیادی راھوں میں سے ایک راہ ذکر ہے
،خدا کا ذکر ،اسمائے الہی کو یاد کرتے ھوئے اپنی محدود ہستی کو فرامiiوش
کرنا ہے اور اس کا استمرار اور تداوم ،دلiiوں پiر سiے گنiاھوں کی آالئش کiو
دور کرتا ہے ،کیونکہ حق تعالی کی نسiiبت غفلت اور فراموشiiی دل کiiو آلiiودہ
کiiرتی ہے -یہی وجہ ہے کہ اولیiiائے الہی اور آسiiمانی کتiiابوں کی ترسiiیل ان
آالئشوں اور تاریکیوں کiiو دور کiiرتے ہیں اور اسiiی لiiئے " ذکiiر" کiiو پیغمiiبر
{ص} کے اوصاف میں سے ایک وصف اور قرآن مجیدکا ایک نiام شiمار کیiا
گیا ہے -چنانچہ قiiرآن مجیiiد ،پیغمiiبر کے "ذکiiر" ھiiونے کے بiiارے میں یiiوں
اشارہ فرماتا ہے:
" .قد انزل هللا اليكم ذكرًا رسوًال يتلوا عليكم آيات هللا" .
"ہللا نے تمھاری طرف اپنے ذکر کونازل کیا ہے ،وہ رسول جو ہللا کی واضح
آیات کی تالوت کرتا ہے"
اسی طرح قرآن مجید کے ناموں میں سے ایک نام بھی "ذکر" ہے
"اّنا نحن نّز لنا الذكر و اّنا له لحافظون
ہم نے ذکر {قرآن} کو تم پر نازل کیا ہے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے"-
قرآن مجید اور پیغمبر {ص} کو ذکر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں خدا
وند متعال کو یاد کرانے والے ہیں ،کیونکہ یاد دہانی گزشتہ علم پر منحصر
ھوتی ہے اور یہ انبیائے الہی اور آسمانی کتابیں ہیں جو دلوں سے غفلت اور
فراموشی کے پردوں کو ہٹا کر ان پر نور الہی کی روشنی ڈالتے ہیں -اس بنا
پر خدا کی یاد انسان کو مادیت کی پستی سے معنویت کے کمال تک پہنچاتی
5|Page
ہے اور انسان کے اندر امید کو زندہ کرتی ہے اورمادی زندگی کے تعطل اور
– انسانی معادالت کی پیداوار یاس و ناامیدی کو دور کرتی ہے
6|Page
ذکر کے اثرات
خدا کا ذکر ،عبد سالک کا رب مالک سے معنوی رابطہ ہے اور اس رابطہ
کے معجزہ نما اور پر شکوہ نتائج ھوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا انسان
کے روح و اخالق کی تعمیر میں کلیدی رول ھوتا ہے -ان اثرات میں سے
بعض اہم حسب ذیل ہیں:
-۱بندہ کی نسبت خدا کی یاد
خدا کی یاد کا سب سے پہال اثر یہ ہے کہ خداوند متعال بھی اپنے بندہ کو یاد
کرتا ہے ":فاذکرونی اذکر مجھے یاد کرو تاکہ تمھیں یاد کروں" -چونکہ اس
آیہ شریفہ میں خداوند متعال کی یاد ،بندہ کی طرف سے اسے یاد کرنے پر
منحصر ہے ،اس لئے اس سے ایک خاص اور دقیق نکتہ معلوم ھوتا ہے اور
وہ نکتہ خدا کی طرف سے دوقسم کے ذکر کا تصور ہے:
الف :عام ذکر
ب :خاص ذکر
عام ذکر کے معنی عام الہی ہدایت ہے ،جiو تمiام مخلوقiات سiے متعلiق ہے
اور یہ کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ھوتا ہے اور اس کی مثiiال ،کiiرہ
ارض پر الہی عام ذکiiر کے اثiiرات ہیں اور وہ خداونiiد متعiiال کی طiiرف سiiے
تمام مخلوقات کو گونا گون نعمتیں عطا کرنا ہے اور یہ عام یiiاد خداونiiد متعiiال
کا مسلسل فیض ہے ،جو کبھی رکتا نہیں ہے-
لیکن خدا کا خاص ذکر خدا کے خاص بندوں اور ذکر کرنے والوں سے متعلiiق
ہے اور یہ خداوند متعال کی طرف سے ایک قسم کی توجہ اور مہر بانی ہے-
-۲دل کی روشنی
خدا وند متعال اپنے ذکر کو دلوں کے نورانی اور بیدار کرنے کا سبب جانتiiا
ہے -امام علی{ع نے اپنے بیٹے امام حسن مجتبی کو ایک خط میں یہ تاکید کی
ہے کہ:سب سے زیادہ اپنے دل کو آباد کرنے کی فکر کرنا":
فانى اوصيك بتقوى هللا -اى بنى -و لزوم امره و عمارة قلبك بذكره
میرے بیٹے؛ میں تجھے تقوی ،خدا کی فرمانبرداری اور ذکر خدا اور خiiدا کی
رسی کو پکڑ کر اپنے قلب و روح کو آباد کرنے کی وصیت کرتا ھوں
7|Page
دل کی موت کے عالج اور اسے زندہ کرنے کا ایک سiiب سiiے مiiوثر سiiبب
خداوند متعال کے ذکر میں پناہ لینا ہے ،خدا کا ذکر نور ہے اور اسiiے مسلسiiل
جiiاری رکھنiiا دل کiiو تiiاریکی اور نiiا امیiiدی سiiے نجiiات دیتiiا ہے اور اس میں
گرمی اور تازہ نشاط ڈالتاہے-
-۳گناھوں کی بخشش
خدا وند متعال کی یاد کے اخروی نتائج اور پھل میں سiiے مغفiiرت الہی ہے کہ
خدا کی یاد کرنے والوں کو عطiiا ھiiوتی ہے اور اس کے عالوہ خداونiiد متعiiال
نے اس کے عوض میں بڑے اجر و ثواب کiiا وعiiدہ بھی کیiiا ہے – اس سلسiiلہ
میں قرآن مجید کا ارشاد ہے" :
و الذاكرين هللا كثيرًا و الّذ اكرات اعّد هللا لهم مغفرة و اجرًا عظيمًا؛
" خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتوں کے لiiئے ہللا نے مغفiiرت
اور عظیم اجر مہیا کر رکھا ہے"-
خدا وند متعال نے اپنے بندوں کو بخشنے کے لئے متعدد کام اور راہیں قرار
دی ہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی وسیلہ سے اپنے لئے مغفرت طلب کرسiiکتا
ہے ،ان وسائل میں خداوند متعال کا بکثرت ذکر کرنا بھی شامل ہے-
8|Page
مجیiiد میں اس موضiiوع کی طiiرف اشiiارہ کیiiا گیiiا ہے " :جنھiiوں نے خiiدا کiiو
فراموش کیا ہے ،انھوں نے خود کو بھی فراموش کیا ہے:
"َو ال َتُك وُنوا َك اَّلِذ يَن َنُسوا َهَّللا َفَأْنساُهْم َأْنُفَس ُهْم "؛[ " ]15اور خبر دار ان لوگiiوں
کی طرح نہ ھو جانا جنھوں نے خدا کو بھال دیiiا تiiو خiiدا نے خiiود ان کے نفس
کو بھی بھال دیا" اس بنا پر نماز ،قرآن ،پیغمبر {ص} اور دوسiiرے امiiور جiiو
ذکر کے دائرے میں آئے ہیں اور ان سے ذکر کے طور پر استفادہ کیاگیiiا ہے،
سب یاد آوری کے معنی میں ہیں اور اسی لئے انھیں ذکر کہا گیا ہے-
اس نظریہ کے مطابق ظاہر ہے کہ ہر ایک اس ذکiiر کے ایiiک خiiاص درجہ
پر واقع ہے اور ممکن ہے ایسے افراد بھی ھوں جو حقیقت الہی کے کسی اثiiر
کو یاد نہ کرتے ھوں اور صرف زبانی ذکر پر اکتفا کرتے ھوں-
بعض افراد اس الہی شناخت سے آگاہ ھوکر خدا کی طرف پلٹنے کے طiiالب
ھوئے ہیں اور ذکر کی راہ پر گامزن ہیں ،یہاں تک کہ ذکiiرو مiiذکور آپس میں
ایک ہی ھو جائیں – اس بنا پiiر ذکiiر کے بiiارے میں ہiiر ایiiک کiiا نظiiریہ ایiiک
خاص مقام پر ھوتا ہے جو صرف اس سے متعلق ھوتا ہے-
لیکن ذکر کی تکرار اور ورد کے معنی کے بارے میں قابل بیiiان ہے کہ :یہ
مسئلہ اسالم میں دو نظریات اور پہلووں سے متفاوت ہے:
-۱شریعت کا پہلو
-۲عرفان و طریقت کا پہلو
-۱شqqریعت کے پہلqqو کے بiiارے میں بہت سiiی احiiادیث کی طiiرف اشiiارہ کیiiا
جاسiiکتا ہے ،جن میں مقiiدس اذکiiار و اوراد کی تاکیiiد کی گiiئی ہے ،کہ انھیں
بجاالنا معنوی ترقی اور تقرب الہی کiiا سiiبب بن جاتiiا ہے اور اس کے مطلiiوبہ
نتائج حاصل ھوتے ہیں -اس لحاظ سiiے تمiiام اذکiiار اور اوراد مطلiiوب ہیں اور
ہر شخص اپنے معنوی مقام و منزلت میں ان اذکiiار کiiو بجiiا السiiکتا ہے ،مثiiال
کے طور پر ذکر صلوات کی زیادہ سفارش کی گئی ہے یا استغفار اور ال حول
وال قوۃ اال باہلل وغiiیرہ ،جiiو دعiiا کی کتiiابوں اور روایتiiوں میں درج ہے – اہiiل
عرفان اور اہل ریاضت جن خاص حاالت کے تحت ان اذکار کو عiiام طiiور پiiر
بجاالتے ہیں ،بجا نہیں الئے جاتے ہیں اور یہ معنوی معراج اور خاص مقام و
گiiiروہ سiiiے بھی مخصiiiوص نہیں ہے اور یہ سiiiب اذکiiiار حقیقت میں دل کی
آمادگی کا پہلو رکھتے ہیں تiiاکہ ذاکiiر میں معنiiوی معiiراج اور خiiدا کی طiiرف
پلٹنے کے باطنی سفر کا آغاز ھو جائے-
-۲لیکن عرفانی پہلو میں عام طور پر بعض عرفانی دستور العمل میں مشiiاہدہ
کیا جارہا ہے کہ سالک کے لئے ایiiک خiiاص ذکiiر کiiو ایiiک خiiاص تعiiداد اور
خiiاص دنiiوں میں { مثiiال کے طiiور پiiر ایiiک اربعین کے دوران} پڑھiiنےکی
9|Page
سفارش کی جiiاتی ہے کہ اس کے خiiاص نفسiiیاتی اور روحiiانی اثiiرات ھiiوتے
ہیں -اس مسiiئلہ میں قابiiل تiiوجہ نکتہ یہ ہے کہ اس قسiiم کے عرفiiانی دسiiتور
العمل کے لئے استاد اور اجازت کی ضرورت ھوتی ہے اور اس کiiو ہiiر ایiiک
کے لئے انجام دینے کی سفارش نہیں کی جاسiiکتی ہے -لیکن اس مقiiام پiiر ہiiر
ورد اور ہر ذکر ،سالک کے معنوی مقiام اور خiاص مواقiع کے مناسiب ھوتiا
ہے اور اسی لحاظ سے استاد کامل اپنے علم پر مبنی اپنے مرید اور سالک کiiو
اذکار و اوراد کے بارے میں خاص پروگiiرام دیتiiا ہے اور در حقیقت ان اذکiiار
سے معنوی نتائج کا استفادہ کرتا ہے-
اس نظiiریہ کے مطiiابق اذکiiار اور اوراد سiiے ایiiک امiiداد کے عنiiوان سiiے
استفادہ کیا جاتا ہے ،تاکہ سالک کے لئے معنوی معراج اور غیبی مقامiiات میں
داخل ھونے کے مرتبے حاصل ھو جائیں اور حقیقت میں ذکر کے ایک مiiرتبہ
پر فائز ھونا ،معنوی عوالم کی یاد شمار ھوتا ہے-
قابل بیان ہے کہ بعض کتابوں میں کچھ مطالب اور دسiiتور العمiiل نقiiل کiiئے
گئے ہیں ،جو خiاص اوراد پiر مشiتمل ہیں اور ان سiے مiاوراء الطiبیعہ غیiبی
امور کو حاصل کرنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے – آگاہ و عارف اسiiتاد کے
بغیر ایسے مسائل میں الجھنا سالک کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے ،اس
لئے ایسے امور میں ایک کامل اور عارف استاد کا ھونا ضروری ہے
اسالم میں ذکر اٰل ہی کی فضیلت
ٰل
اسالم میں ذکر ا ہی کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جو بندہ ذکِر
اٰل ہی میں مشغول ہو خود ہللا رب العزت اسے یاد رکھتا ہے اور مالء اعلٰی میں
اس کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاِد باری تعالٰی ہے :
10 | P a g e
اس آیِت کریمہ میں ہللا تبارک و تعالٰی نے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا کہ اے
میرے بندو! میرا ذکر کرو ،اگر تم میرا ذکر کروگے تو میں اس کے بدلے میں
تمہارا ذکر کروں گا اور یہ ذکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔ صحیح بخاری اورصحیح
مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے مروی حدیث قدسی میں حضور
نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہللا عزوجل کا ارشاد ہے :
َاَنا ِع ْنَد َظِّن َعْبِد ْي ِبْي َو أَنا َم َعه ِإَذ ا َذ َک َرِنْي َفِإْن َذ َک َرِني ِفي َنْفِس ِه َذ َک ْر ُته
ِفی َنْفِس يَ ،و ِإْن َذ َک َرِنی ِفي َم اَل ٍء َذ َک ْر ُتُه ِفی َم اَل ٍء َخ ْيٍر ِم ْنُهْم َ ،و ِإْن
َتَقَّرَب ِإَلَي ِبِش ْبٍر َتَقَّرْبُت ِإَلْيِه ِذَر اعًاَ ،و ِإْن َتَقَّرْب ِإَلَّي ِذَر اًع ا ُتَقَّرْبُت ِإَلْيِه
’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا
ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے
تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھے کسی مجمع کے
اندر یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع کے اندر یاد کرتا ہوں اور
اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے
قریب ہوجاتا ہوں ،اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں
دونوں بازؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں ،اگر وہ چل کر میری
طرف آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘
َباًع ا َو ِإْن أَتاِنْي َيْم ِش ْي أَتْيُتُه َهْر َو َلًة
ترجمہ
[بخاری ،الصحيح ،کتاب التوحيد ،باب قول اﷲ تعالٰی ويحّذ رکم اﷲ نفسه
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی اس حدیث نبوی صلی ہللا
علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ ذاکر جب تنہا ذکر کرتا ہے تو ہللا تعالٰی
بھی اس کا ذکر تنہا کرتا ہے اور جب وہ زمین پر مخلوق کا اجتماع منعقد کر
کے خود بھی ذکر کرتا ہے اور بندوں سے بھی ذکر کرواتا ہے تو ہللا تعالٰی
بھی عرش پر ارواِح مالئکہ اور انبیاء علیہم السالم کی محفل میں اس کے نام
11 | P a g e
کا ذکر کرتا ہے۔ جس مجلس میں بندہ ذکر کرتا ہے وہ کمتر ہے کیونکہ زمین
پر یہ اجتماع ہم جیسے گنہگاروں کا ہے جبکہ عرش پر منعقد ہونے واال
مجمع ذکر مالئکہ کاہوتا ہے اور وہ بلند تر ہوتا ہے۔
امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں ذکر کی فضیلت میں حضرت عبدہللا بن
بسر رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے۔ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم
:صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا
یا رسول ہللا! اسالمی احکام مجھ پر غالب آگئے ہیں آپ صلی ہللا علیہ وآلہ
وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں ،جسے میں انہماک سے کرتا رہوں۔
:حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
اَل َيَز اُل ِلَس اُنَک َر َطًبا ِم ْن ِذ ْک ِر اِﷲ
.
قرآنی آیات
آیت نمبر28
اَّلِذ يَن آَم ُنوا َو َت ْط َم ِئُّن ُقُلوُبُهم ِبِذ ْك ِر ِهَّللاۗ َأاَل ِبِذ ْك ِر ِهَّللا
َت ْط َم ِئُّن اْلُقُلوُب ٌ
:ترجمہ
جو اس کی طرف رجوع ہوئے تو یہ وہ لوگ (ہیں) کہ
ایمان الئے اور ان کے دل ہللا کے ذکر سے مطمئن
ہوگئے ،اور یاد رکھو یہ ہللا کا ذکر ہی ہے جس سے دلوں
کو چین اور قرار ملتا ہے اور شک و شبہ اور خوف و
غم کے سارے کانٹے نکل جاتے ہیں)ایسا ہوا کہ
12 | P a g e
ذکر کی فضیلت
ذکر روحانی و جسمانی بیماریوں کا عالج ،قلب و نظر کا سکون اور اطمینان،
مشکالت سے نکلنے کا آسان راستہ ،ہللا تعالٰی کے قرب اور اس کی نصرت و
حمایت کا ذریعہ ،ذکر کرنے والے کا حریم کبریا میں تذکرہ اور فالح و
کامیابی کا زینہ ہے لٰہ ذا ہر حال میں ہللا تعالٰی کو کثرت کے ساتھ یاد کیجیے۔
ذکر دنیاوآخرت کی کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ بشرطیکہ الفاظ اور انداز قرآن اور
نبی (ﷺ) کے فرمان کے مطابق ہو۔ من گھڑت یا بزرگوں کے حوالے
سے مصنوعی درودو وظائف سے ممکن ہے کہ مشکالت آسان ہوجائیں مگر
قرآن اور نبی (ﷺ) کے الفاظ کی برکت اور سنت رسول سے محرومی
اس کا مقدر ہوگی۔
َع ْن َأِبْی الَّد ْر َد اِء (رض) َقاَل َقال الَّنِبُی (ﷺ) َأَال ُأِنِبُئُک ْم ِبَخ ْیِر (
َأْع َم اُلُک ْم َو َأْز َک اَہا ِع ْنَد َم ِلْیِکُک ْم َو َأْر َفَعًہا ِفْی َد َرَج اِتُک ْم َو َخ ْیٌر َّلُک ْم ِم ْن
ِإْنَفاق الَّذ َہِب َو اْلَو َر ِق َو َخ ْیُر َّلُک ْم ِم ْن اأْن َتْلُقْو ا َعُد َّو ُک ْم َفَتْض ِر ُبْو ا
َأْع َناَقُہْم َو َیْض ِرُبْو ا َأْع َناَقُک ْم ؟ َقاُلْو ا َبٰل ی َقاَل ِذ ْک َر ِہّٰللا َتَعاٰل ی َفَقاَل ُم َعاُذ
]ْبُن َج َبٍل (رض) َم اَشیٍء َأْنٰج ی ِم ْن َع َذ اب ِہّٰللا ِم ْن ِذ ْک ِر ِہّٰللا
حضرت ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول ہللا (ﷺ) نے فرمایا
'' کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور
تمہارے درجات کو دوسرے اعمال سے زیادہ بلند کرنے واال ہے اور راہ
خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے
لیے بہتر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری
گردنیں ماریں؟۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کیوں نہیں ہللا کے رسول
ضرور بتالئیں فرمایا وہ ہللا کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے
13 | P a g e
کہا ہللا کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز ہللا کے عذاب سے بچانے والی نہیں
ہے۔ ''
[ رواہ الترمذی :باب ماجاء فی فضل الذکر]
ذکرالہی کا طریقہ
ضرت علی المرتضٰی رضی ہللا تعالٰی عنہ‘ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ نبی
کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ ہللا کے بندوں کے لئے زیادہ
آسان اور زیادہ فضیلت والی چیز جس سے ہللا کا قرب حاصل ہو وہ کیا ہے؟
آپ ا نے فرمایا ہللا کا ذکر ہے ۔
حضرت علی رضی ہللا تعالٰی عنہ‘ نے عرض کیا کہ اس کا طریقہ کیا ہے ؟
آپ ا نے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو ،پھر آپ ا نے تین مرتبہ الا لہ اال ہللا پڑھا
اور حضرت علؓی نے سنا ،پھر حضرت علؓی نے پڑھا اور حضور ا نے سنا ۔
اس طرح حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہؒ نے یہ طریقہ حضرت خواجہ
حسن بصری رحمۃ ہللا علیہ کو بتالیا یہاں تک کہ یہ سلسلِۂ سند ہم تک پہنچا۔
البتہ جس طرح ایک مریض کے عالج کے لئے معا لجین کے مختلف طریقے
ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی معالج مختلف نسخے بھی تجویز کرتا ہے توا سی طرح
بزرگان دین سے ذکر کی مختلف ہیئات وترکیبات منقول ہیں جو کہ ان کے
تجربات میں آئیں اور مقصود سب طریقوں سے دین کو اور رضا اٰل ہی کو
حاصل کرنا ہے۔ (مجالس درخواستی ۔ص)۱۶
نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمام اذکار میں افضل ال الہ اال
ہللا ہے اور تمام دعاؤں میں افضل الحمد ہلل ہے۔ (ترمذی)
14 | P a g e
حضرت مال علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تما م
اذکار میں افضل اور سب سے بڑھا ہوا ذکر کلمہ طیبہ ہے کہ یہی دین کی
بنیاد ہے جس پر سارے دین کی تعمیر ہے اور یہ وہ پاک کلمہ ہے کہ دین کی
چکی اسی کے گرد گھو متی ہے۔اسی وجہ سے صوفیہ اور عارفین اسی کلمہ
کا اہتمام فرماتے ہیں اور سارے اذکار پر اس کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی کی
جتنی ممکن ہو کثرت کراتے ہیں کہ تجربہ سے اس میں جس قدر فوائد اور
)منافع معلوم ہوئے ہیں کسی دوسرے میں نہیں ۔( فضائل ذکر ۔ص)
1۔ َعْن َٔاِبي ُهَر ْيَر َة رضي هللا عنه َقاَل َ :قاَل الَّنِبُّي ﷺ َ :یُقْو ُل ُهللا َتَعاَلی َٔ :اَنا ِع ْنَد
َظِّن َعْبِد ي ِبي َو َٔاَنا َم َعُه ِإَذ ا َذ َک َر ِني َف ِإْن َذ َک َر ِني ِفي َنْفِس ِه َذ َک ْر ُت ُه ِفي َنْفِس يَ ،و ِإْن
َذ َک َر ِني ِفي َم ـٍإَل َذ َک ْر ُتُه ِفي َمـٍإَل َخ ْيٍر ِم ْنُهْم َو ِإْن َتَقَّرَب ِإَلَّي ِبِش ْبٍر َتَق َّرْبُت ِإَلْي ِه ِذَر اًع ا
َو ِإْن َتَقَّرَب ِإَلَّي ِذَر اًع ا َتَقَّرْبُت ِإَلْيِه َباًع ا َو ِإْن َٔاَت اِني َیْم ِش ئَ ،اَتْيُت ُه َهْر َو َل ًة۔ ُم َّتَف ٌق
َع َلْي ِه
ترجمہ’’ :حضرت ابiiو ہریiiرہ رضiiی ہللا عنہ سiiے روایت ہے کہ حضiiور نiiبی
اکرم ﷺ نے فرمایا :ہللا تعالٰی فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلiiق جیسiiا
گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ مiiیرا ذکiiر
کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگiiر وہ اپiiنے دل میں مiiیرا ذکiiر (ذکiiر
خفی) کرے تو میں بھی(اپنے شایان شان) خفیہ اس کا ذکر کرتا ہiiوں ،اور اگiiر
وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تiiو میں اس کی جمiiاعت سiiے بہiiتر
15 | P a g e
جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایiiک بالشiiت مiiیرے نزدیiiک آئے تiiو
میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہiiوں۔ اگiiر وہ ایiiک بiiازو کے
برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازٔووں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتiiا
ہوں اور اگر وہ میری طiiرف چiiل کiiر آئے تiiو میں اس کی طiiرف دوڑ کiiر آتiiا
ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے
َ :2عْن َٔاِبي ُهَر ْيَر َة َو َٔاِبي َسِع ْيٍد اْلُخ ْد ِرِّي رضي هللا عنھما َٔ :اَّنُھَم ا َش ِھَد ا َع َلی الَّنِبِّي
ﷺ َٔاَّنُه َقاَل :اَل َیْقُعُد َقْو ٌم َیْذ َک ُر ْو َن َهللا عزوجل ِإاَّل َح َّفْتُھُم اْلَم اَل ِئَک ُة َو َغ ِشَیْتُھُم
الَّرْح َم ُةَ ،و َنَز َلْت َع َلْيِھُم الَّسِکْيَنُةَ ،و َذ َک َر ُھُم ُهللا ِفْيَم ْن ِع ْن َد ُه۔َر َو اُه ُم ْس ِلٌم َو الِّتْر ِم ِذُّي ،
َو َقاَل َٔاُبو ِع ْيَس ی َ :هَذ ا َح ِد ْيٌث َح َس ٌن َصِح ْيٌح
ترجمہ’’ :حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رضiiی ہللا عنھمiiا دونiiوں نے
حضiiiور نiiiبی اکiiiرم ﷺ کے بiiiارے میں گiiiواہی دی کہ آپ ﷺ نے
فرمایا :جب بھی لوگ ہللا تعiالٰی کے ذکiر کے لiiئے بیٹھiتے ہیں انہیں فرشiتے
ڈھiiانپ لیiiتے ہیں اور رحمت انہیں اپiiنی آغiiوش میں لے لیiiتی ہے اور ان پiiر
سکینہ (سکون و طمانیت) کا نزول ہوتا ہے ہللا تعالٰی ان کا ذکر اپنی بارگاہ کے
حاضرین میں کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امiiام ترمiiذی کہiiتے
ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے
َ :3عْن َٔاَنٍس رضي هللا عنه َقاَل َ :قاَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ :اَل َتُقْو ُم الَّس اَع ُة َع َلی َٔاَح ٍد
َیُقْو ُل ُ :هللاُ ،هللا۔ َر َو اُه ُم ْس ِلٌم ۔
16 | P a g e
َو ِفي ِرَو اَی ِة َع ْن ُه َق اَل َ :ق اَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ :اَل َتُق ْو ُم الَّس اَع ُة َح َّتی اَل ُیَق اَل ِفي
أَاْلْر ِض ُ :هللاُ ،هللا۔ َر َو اُه ُم ْس ِلٌم ۔
ترجمہ’’ :حضرت انس رضiی ہللا عنہ سiے مiروی ہے کہ رسiول ہللا ﷺ
نے فرمایا :ہللا ہللا کہنے والے کسی شiiخص پiiر قیiiامت نہ آئے گی (یعiiنی جب
قیامت آئے گی تو دنیا میں کوئی بھی ہللا ہللا کرنے واال نہ ہو گا)۔‘
حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول ہللا ﷺ
نے فرمایا کہ قیامت اس وقت برپا ہو گی ،جب دنیا میں ہللا ہللا کہنے واال کiiوئی
نہ رہے گا۔‘‘ ان دونوں روایات کو امام مسلم نے ذکر کیا ہے۔
َ :4عْن َٔاِبي الَّqqد ْر َد اء رضqqي هللا عنqqه َق اَل َ :ق اَل الَّنِبُّي ﷺ َٔ :ا اَل ُٔاَنِّبُئُک ْم ِبَخ ْي ِر
َٔاْع َم اِلُک ْم َو َٔاْز َک اَھ ا ِع ْن َد َم ِلْيِکُک ْم َ ،و َٔاْر َفِع َھ ا ِفي َد َر َج اِتُک ْم َ ،و َخ ْي ٍر َلُک ْم ِم ْن ِإْنَف اِق
الَّذ َھِب َو اْل َو ِرِقَ ،و َخ ْي ٍر َلُک ْم ِم ْن َٔاْن َتْلَق ْو ا َع ُد َّو ُک ْم َ ،فَتْض ِرُبْو ا َٔاْع َن اَقُھْم َو َیْض ِرُبْو ا
َٔاْع َناَقُک ْم ؟ َقاُلْو ا َ :بَلی۔ َقاَل ِ :ذ ْک ُر ِهللا َتَعاَلی۔
َر َو اُه الِّتْر ِمِذُّي َو اْبُن َم اَج هَ ،و َقاَل اْلَح اِکُم َ :ح ِد ْيٌث َصِح ْيُح اِإْل ْس َناِد ۔
تqqرجمہ’’ :حضiiرت ابiiو درداء رضiiی ہللا عنہ سiiے روایت ہے کہ حضiiورنبی
اکرم ﷺ نے فرمایا :کیiiا میں تمہیں تمہiiارے اعمiiال میں سiiے سiiب سiiے
اچھا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مالiiک کے ہiiاں بہiiتر اور پiiاکیزہ ہے ،تمہiiارے
درجات میں سب سے بلند ہے ،تمہارے سونے اور چاندی کی خیرات سے بھی
افضل ہے ،اور تمہارے دشمن کا سامنا کiiرنے یعiiنی جہiiاد سiiے بھی بہiiتر ہے
درآنحالیکہ تم انہیں قتiiل کiiرو اور وہ تمہیں؟ صiiحابہ کiiرام رضiiی ہللا عنہم نے
عرض کیا :کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا :وہ عمل ہللا کا ذکر ہے۔‘‘
17 | P a g e
5۔ َعْن َعْبِد ِهللا ْبِن ُبْس ٍر رضي هللا عنه َٔاَّن َرُج اًل َق اَل َ :ی ا َر ُس وَل ِهللاِ ،إَّن َش َر اِئَع
اِإْل ْس اَل ِم َقْد َک ُثَر ْت َع َلَّي َفَٔاْخ ِبْر ِني ِبَش ْيٍئ َٔاَتَش َّبُث ِبِه۔ َقاَل :اَل َیَز اُل ِلَس اُنَک َر ْط ًب ا ِم ْن
ِذ ْک ِر ِهللا۔ َر َو اُه الِّتْر ِمِذُّي َو َقاَل َ :هَذ ا َح ِد ْيٌث َح َس ٌن ۔
تqqرجمہ’’ :حضiiرت عبiiد ہللا بن بسiiر رضiiی ہللا عنہ سiiے روایت ہے کہ ایiiک
آدمی نے عiiرض کیiiا :یiiا رسiiول ہللا! احکiiام اسiiالم مجھ پiiر غiiالب آگiiئے ہیں
مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جسے میں انہمiiاک سiiے کرتiiا رہiiوں۔ رسiiول ہللا
ﷺ نے فرمایا :تیری زبان ہر وقت ذکر اٰل ہی سے تر رہنی چاہیے۔‘‘۔
6۔ َعْن َٔاِبي ُهَر ْيَر َة رضي هللا عنه َعْن َر ُس ْو ِل ِهللا ﷺ َٔاَّنُه َقاَل َ :م ْن َقَعَد َم ْقَعًد ا َلْم
َیْذ ُک ِر َهللا ِفْيِه َک اَنْت َع َلْيِه ِم َن ِهللا ِتَر ٌة َو َمِن اْض َطَج َع ُم ْض ِطَج ًعا اَل َیْذ ُک ُر َهللا ِفْيِه َک اَنْت
َع َلْيِه ِم َن ِهللا ِتَر ٌة۔ َر َو اُه َأُبْو َد اُو َد ۔
تqqرجمہ’’ :حضiiرت ابiiو ہریiiرہ رضiiی ہللا عنہ سiiے روایت ہے کہ رسiiول ہللا
ﷺ نے فرمایا :جو اپنے بیٹھنے کی جگہ سے ُاٹھ گیا اور اس مجلس میں
ہللا تعالٰی کا ذکر نہ کیا تو ہللا تعالٰی کی طرف سiiے اس پiiر نiiدامت وارد ہiiو گی
اور جو بستر میں لیٹے اور اس میں ہللا تعالی کا ذکر نہ کرے تiiو ہللا تعiiالٰی کی
طرف سے اسے بھی ندامت ہو گی۔‘‘
7۔ َعْن َٔاِبي َسِع ْيٍد اْلُخ ْد ِرِّي رضي هللا عنه َٔاَّن َر ُس ْو َل ِهللا ﷺ َقاَل َٔ :اْک ِث ُر ْو ا ِذ ک َqر ِهللا
َح َّتی َیُقْو ُلْو ا َ :م ْج ُنْو ٌن ۔ َر َو اُه َٔاْح َم ُد َو اْبُن ِح َّباَن َو َٔاُب و َیْع َلیَ ،و َق اَل اْلَح اِکُم َ :ص ِح ْيُح
اِإْل ْس َناِد ۔
18 | P a g e
تqqqرجمہ’’:حضiiiرت ابiiiو سiiiعید خiiiدری رضiiiی ہللا عنہ سiiiے روایت ہے کہ
حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :ہللا کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لiiوگ
تمہیں دیوانہ کہیں۔‘‘
8۔ َعْن ُم َعاٍذ رضي هللا عنه َعْن َر ُس ْو ِل ِهللا ﷺ َٔ :اَّن َرُج اًل َس َٔاَلُه َفَقاَل َٔ :اُّي اْلِج َه اِد
َٔاْع َظُم َٔاْج ًر ا؟ َقاَل َٔ :اْک َث ُر ُهْم ِ ِهلل َتَب اَرَک َو َتَع اَلی ِذ ْک ًر ا۔ َق اَل َ :ف َٔاُّي الَّص اِئِم ْيَن َٔاْع َظُم
ٔاْج ًر ا؟ َقاَل َٔ :اْک َثُر ُهْم ِ ِهلل َتَب اَرَک َو َتَع اَلی ِذ ْک ًر ا۔ ُثَّم َذ َک َر َلَن ا الَّص اَل َة َو الَّزَک اَة َو اْلَح َّج
َو الَّص َد َقَة ُک ُّل َذ ِلَک َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ َیُقْو ُل َٔ :اْک َثُر ُهْم ِ ِهلل َتَباَرَک َو َتَعاَلی ِذ ْک ًر ا۔ َفَقاَل َٔاُبْو
َبْک ٍر ِلُعَم َر رضي هللا عنهما َ :یا َٔاَبا َح ْفٍصَ ،ذ َهَب الَّذ اِکُر ْو َن ِبُک ِّل َخ ْيٍرَ ،فَقاَل َر ُس ْو ُل
ِهللا ﷺ َٔ :اَج ْل ۔ َر َو اُه َٔاْح َم ُد َو الَّطَبَر اِنُّي ۔
تqqرجمہ’’ :حضiiرت معiiاذ رضiiی ہللا عنہ سiiے روایت ہے کہ ایiiک آدمی نے
حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا :کون سے مجاہد کا ثواب زیادہ ہے؟ آپ
ﷺ نے فرمایا ُ :ان میں سے جو ہللا تبارک و تعالٰی کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔
اس نے دوبارہ عرض کیا :روزہ داروں میں سے کس کا ثiواب زیiادہ ہے؟ آپ
ﷺ نے فرمایا ُ :ان میں سے جو ہللا تبارک و تعالٰی کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔
پھر ُاس نے ہمارے لیے نماز ،زکٰو ۃ ،حج اور صدقے کا ذکر کیا۔ حضiiور نiiبی
اکرم ﷺ ہر بار فرماتے رہے :جو ُان میں سے ہللا تبارک و تعالٰی کا ذکر
زیادہ کرتا ہے۔ حضرت ابiو بکiر رضiی ہللا عنہ نے حضiرت عمiر رضiی ہللا
عنہ سے کہا :اے ابو حفص! ہللا تعiiالٰی کiiا ذکiiر کiiرنے والے تمiiام نیکیiiاں لے
گئے ،رسول ہللا ﷺ نے فرمایا :بالکل(درست ہے)۔‘‘
19 | P a g e
9۔ َعْن َٔاِبي اْلَج ْو َز اِء رضي هللا عنqqه َق اَل َ :ق اَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ َٔ :اْک ِث ُر ْو ا ِذ ْک َر ِهللا
َح َّتی َیُقْو َل اْلُم َناِفُقْو َن ِ :إَّنُک ْم ُم َر اُؤ ْو َن ۔ َر َو اُه اْلَبْيَهِقُّي ۔
تqqرجمہ’’ :حضiiرت ابiiو جiiوزا رضiiی ہللا عنہ سiiے روایت ہے کہ حضiiورنبی
اکرم ﷺ نے فرمایا :ہللا کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کiiرو کہ منiiافق تمہیں
ریاکار کہیں۔‘‘
10۔ َعْن ُم َعاِذ ْبِن َج َبٍل رضي هللا عنه َقاَل ِ :إَّن آِخ َر َک ـاَل ٍم َفاَر ْقُت َع َلْيِه َر ُس ْو َل ِهللا
ﷺ َٔاْن ُقْلُت َٔ :اُّي أَاْلْع َم اِل َٔاَح ُّب ِإَلی ِهللا؟ َقاَل َٔ :اْن َتُم ْو َت َو ِلَس اُنَک َر ْط ٌب ِم ْن ِذ ْک ِر
ِهللا۔ َر َو اُه اْبُن ِح َّباَن َو الَّطَبَر اِنُّي َو الَّلْفُظ َلُه۔
تqqرجمہ’’ :حضرت معiiاذ بن جبiiل رضiiی ہللا عنہ نے بیiiان کیiiا ہے کہ میں نے
حضور نبی اکرم ﷺ سے جدا ہوتے ہوئے جو آخری بiات کی وہ یہ تھی :
میں نے عرض کیا :ہللا تعالٰی کو کون سا عمل سiiب سiiے زیiiادہ پسiiند ہے؟ آپ
ﷺ نے فرمایا :سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ جب توفوت ہو تو
تیری زبان ہللا کے ذکر سے تر ہو۔‘‘
11۔ َعْن َٔاِبي َسِع ْيٍد اْلُخ ْد ِرِّي رضqqي هللا عنqqه َٔاَّن َر ُس ْو َل ِهللا ﷺ َق اَل َ :لَی ْذ ُک َر َّن َهللا
َقْو ٌم ِفي الُّد ْنَیا َع َلی اْلُفُر ِش اْلُمَم َّهَد ِة ُیْد ِخ ُلُهُم الَّد َرَج اِت اْلُعَلی۔ َر َو اُه اْبُن ِح َّب اَن َو َٔاُب ْو
َیْع َلی۔
ترجمہ’’ :حضرت ابو سعید خدری رضiی ہللا عنہ سiے روایت ہے کہ حضiور
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :کچھ لوگ دنیiiا میں بچھے ہiiوئے پلنگiiوں پiiر ہللا
تعالٰی کا ذکر کریں گے اور وہ انہیں (جنت کے) بلند درجات میں داخل کر دے
گا۔‘‘ اسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
20 | P a g e
َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ ِ :إَّن الَّش ْيَطاَن َو اِض ٌع 12۔ َعْن َٔاَنِس ْبِن ماِلٍک رضي هللا عنه َقاَل
َو ِإْن َنِس َي اْلَتَقَم َقْلَبُه َفَذ ِلَک اْلَو ْس َو اُس ُخ ُطَم ُه َع َلی َقْلِب اْبِن آَد َم َفإْن َذ َک َر َهللا َخ َنَس
اْلَخ َّناُس ۔
’’حضرت انس رضی ہللا عنہ سiiے روایت ہے کہ حضiiور نiiبی اکiiرم ﷺ
نے فرمایا :شیطان نے ابن آدم کے دل پر اپiiنی رسiiیاں ڈالی ہiiوئی ہیں۔ اگiiر وہ
ہللا تعالٰی کا ذکر کرے تو وہ بھاگ جاتا ہے اور اگر وہ بھiiول جiiائے تiiو وہ ُاس
کے دل میں داخل ہو جاتا ہے اور یہی وسوسہ ڈالنے واال خناس ہے۔‘‘
13۔ َعْن ُٔاِّم َٔاَنٍس رضي هللا عنها َٔاَّنَها َقاَلْت َ :یا َر ُس ْو َل ِهللأَ ،اْو ِص ِني۔ َقاَل :اْه ُج ِري
اْلَم َعاِص ي َفِإَّنَها َٔاْفَض ُل اْلِهْج َر ِة َو َح اِفِظ ي َع َلی اْلَفَر اِئِض َفِإَّنَها َٔاْفَض ُل اْلِج َهاِد َو َٔاْک ِثِري
ِذ ْک َر ِهللا َفِإَّنِک اَل َتْٔاِتْيَن َهللا ِبَش ْيٍئ َٔاَح َّب ِإَلْيِه ِم ْن َک ْثَر ِة ِذ ْک ِر ِه۔َر َو اُه الَّطَب َر اِنُّي ِبِإْس َناٍد
َج ِّيٍد ۔
ترجمہ’’ :حضرت ُام انس رضی ہللا عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور
نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیiiا :یiiا رسiiول ہللا! آپ مجھے کiiوئی
وصیت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :گنiiاہوں کiiو چھiiوڑ دے یہ سiiب سiiے
افضل ہجرت ہے اور فرائض کی پابندی کر یہ سب سے افضل جہاد ہے۔ زیادہ
سے زیادہ ہللا تعالٰی کا ذکiiر کiiر۔ تم ہللا تعiiالٰی کی بارگiiاہ میں کiiثرِت ذکiiر سiiے
زیادہ پسندیدہ کوئی چیز پیش نہیں کر سکتیں۔‘‘
14۔ َع ِن اْبِن َع َّباٍس رضي هللا عنهما َقاَل َ :ق اَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ َ :م ْن َع َج َز ِم ْنُک ْم
َع ِن الَّلْيِل َٔاْن ُیَک اِبَد ُه َو َبِخ َل ِباْلَم اِل َٔاْن ُیْنِفَق ُه َو َج ُبَن َع ِن اْلَع ُد ِّو َٔاْن ُیَج اِه َد ُه َفْلُیْک ِث ْر
ِذ ْک َر ِهللا۔ َر َو اُه الَّطَبَر اِنُّی َو َعْبُد ْبُن ُح َم ْيٍد َو الَّلْفُظ َلُه۔
21 | P a g e
تqqرجمہ’’ :حضiiرت عبiiد ہللا بن عبiiاس رضiiی ہللا عنہمiiا سiiے روایت ہے کہ
حضiiور نiiبی اکiiرم ﷺ نے فرمایiiا :تم میں سiiے جiiو شiiخص پiiوری رات
(عبادت کرنے کی) مشقت سiے عiاجز ہے ،دولت خiiرچ کiرنے میں بخیiل ہے
اور دشمن کے ساتھ جہاد کرنے میں بزدل ہےُ ،اسے زیادہ سے زیادہ ہللا تعالٰی
کا ذکر کرنا چاہیے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور عبد بن حمید نے روایت کیiiا ہے۔ مiiذکورہ الفiiاظ عبiiد بن
حمید کے ہیں۔
15۔ َعْن َٔاِبي ُم ْو َس ی رضqي هللا عنqه َق اَل َ :ق اَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ َ :ل ْو َٔاَّن َرُج اًل ِفي
ِح ْج ِر ِه َد َر اِهُم َیْقِس ُم َها َو آَخ ُر َیْذ ُک ُر َهللا َک اَن الَّذ اِکُر ِ ِهّٰلل َٔاْفَض َل ۔ َر َو اُه الَّطَب َر اِنُّي ِبِإْس َناٍد
َح َس ٍن ۔
تqqرجمہ’’ :حضiiرت ابiiو موسٰiiی اشiiعری رضiiی ہللا عنہ سiiے روایت ہے کہ
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :اگر ایiiک آدمی کے دامن میں درہم ہiiوں
اور وہ ِانہیں تقسیم کر رہا ہو اور دوسرا ہللا کا ذکiر کiر رہiا ہiو تiو (ُان دونiوں
میں) ہللا کا ذکر کرنے واال افضل ہو گا۔‘‘ اسے امام طبرانی نے سنِد حسن کے
ساتھ ذکر کیا ہے۔
16۔ َعْن َٔاِبي اْلُم َخ اِرِقَ ،قاَل َ :قاَل الَّنِبُّي ﷺ َ :م َر ْر ُت َلْيَلَة ُٔاْس ِرَي ِبي ِبَر ُج ٍل ُم َغَّيٍب
ِفي ُنْو ِر اْلَعْر ِشُ ،قْلُت َ :م ْن َهَذ ا؟ َم َلٌک ؟ ِقْيَل :اَل ۔ ُقْلُت َ :نِبٌّي ؟ ِقْي َل :اَل ُ ،قْلُت َ :م ْن
ُهَو ؟ َقاَل َ :هَذ ا َرُج ٌل َک اَن ِفي الُّد ْنَیا ِلَس اُنُه َر ْطًبا ِم ْن ِذ ْک ِر ِهللا َو َقْلُبُه ُم َعَّلًق ا ِباْلَم َس اِج ِد
َو َلْم َیْس َتِسَّب ِلَو اِلَدْيِه َقُّط۔
22 | P a g e
ترجمہ’’ :حضرت ابو المخارق نے بیان کیا ہے کہ حضور نiiبی اکiiرم ﷺ
نے فرمایا :معراج کی رات میں ایک آدمی کے پاس سے گزرا۔ وہ عiiرش کے
نور میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا :یہ کون ہے؟ کیا یہ فرشتہ ہے؟ کہا گیiiا :
نہیں۔ میں نے پوچھا :کیا یہ کوئی نبی ہے؟ جواب مال :نہیں۔ میں نے پوچھiiا :
یہ کون ہے؟ (کہنے والے نے) کہا :یہ وہ آدمی ہے جس کی زبان دنیiiا میں ہللا
کے ذکر سے تر رہتی تھی اور اس کا دل مسجد میں معلق رہتا تھا اور اس نے
کبھی اپنے والدین کو گالی نہیں دلوائی۔‘‘
حاصل کالم
خدا کے ذکر اور یاد روح و اخالق کے لئے کافی اثرات رکھiiتے ہیں ،جن میں
خدا کے بندہ کو یاد کرنا ،دل کی نورانیت ،سکون قلب { ،خدا کی نافرمانی} کا
خوف ،گناھوں کی بخشش اور علم و حکمت قابل ذکر ہیں -عiiام طiiور پiiر ذکiiر
کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے :ذکر قلبی اور ذکر لسiiان ،ذکiiر لسiiان کiiو
ورد بھی کہا جاتا ہے -ذکر ،اپنے حقیقی معنی میں یاد کرنا ہے اور اس نظiiریہ
کے مطابق ہر مخلوق اپنے وجودی مرتبہ کے لحاظ سے ایک خiiاص مقiiام پiiر
خدا کو یاد کرتی ہے اور ہر انسان بھی اپنے معبiiود کے بiiارے میں آگiiاہی کے
ایک خاص مرتبہ پر قرار پاتا ہے یا اپنی حقیقی شناخت کے بارے میں نسiiیان
سے دوچار ھوتا ہے ،اسی لحاظ سے انسان کامل خداوند متعال کی یاد کا تجسم
اور عروج ھوتا ہے ،جیسiiا کہ پیغمiiبر اسiiالم کے نiiاموں میں سiiے ایiiک نiiام "
ذکر" ہے-
ورد یا ذکiiر لسiiان کiiو بھی شiiریعت و عرفiiان میں خiiاص اہمیت ہے ،اس کiiا
مقصد انسان کا خدا کی طرف تiiوجہ کرنiiا اور خiiدا کی یiiاد سiiے قلب کiiو زنiiدہ
کرنا ہے تاکہ اس ذکiر اور مسلسiل یiاد کی روشiنی میں ذاکiر اور مiذکور کے
درمیان پردے ہٹائے جائیں -اسی لحiiاظ سiiے عرفiiان میں اذکiiار کiiا طiiریقہ اس
عظیم مقصد تک پہنچiنے کiا ایiک مقiدمہ شiمار ھوتiا ہے جiو عiوالم کiثرت و
ظلمت کے پردوں کو ہٹانے کے لiئے سiالک کے وجiود میں ضiروری قiابلیت
پیدا کرتا ہے-
23 | P a g e
۔
حوالہ جات
تهران، 1۔ سعیدی ،گل بابا ،فرهنگ اصطالحات ابن عربی ،ص ،228انتشارات شفیعی ،طبع دوم،
2۔ سجادی ،سید جعف66ر ،فرهن66گ اص66طالحات عرف66انی ،ص ،402انتش66ارات طه66وری،طب66ع چه66ارم،
تهران،
3۔ طالق 10 ،و .11
4۔ حجر.9 ،
5۔امام خمینی ،شرح چهل حدیث ،ص ،293 -292مؤسس66ه نش66ر آث66ار ام66ام خمی66نی ،ته66ران ،طب66ع
و هشتم، بیست
6۔ غزالی ،کیمیای سعادت ،ج ،1ص ،254انتشارات علمی و فرهنگی ،تهران ،طبع هفتم.1375 ،
بقره.152 ،
8۔ نهجالبالغه ،نامه .31
9۔ ایضا ،خ .222
10۔ رعد.28 ،
11۔ طه.14 ،
12۔ انفال.2 ،
13۔ احزاب.35 ،
14۔ نهج البالغة ،خ .222
حشر 1 ، 15۔
24 | P a g e
25 | P a g e