You are on page 1of 25

‫آ‬

‫ترجمہ تدریس اور قر ن‬


‫فہر ست مضامین‬
‫عنوانات‬
‫سورہ الرعد کا تعارف‬
‫مقاِم نزول‬
‫رکوع اور ٓایات کی تعداد‬
‫نام کے معنی‬
‫اعراف نام رکھے جانے کی وجہ‬
‫زمانۂ نزول‬
‫ذکر کے معنی‬
‫ذکر کی قسمیں اور اس کے درجات‬
‫ذکر کے اثرات‬
‫بندہ کی نسبت خدا کی یاد‬
‫گناھوں کی بخشش‬
‫ذاکروں کا معنوی مقام و منزلت اور ان کا ذکر‬
‫دل کی روشنی‬
‫اسالم میں ذکر اٰل ہی کی فضیلت‬
‫رآنی آیات‬
‫آیت نمبر‪28‬‬

‫‪1|Page‬‬
‫ذکر کی فضیلت‬
‫ذکرالہی کا طریقہ‬
‫ذکرالہی اور احادیث مبارک‬
‫حاصل کالم‬
‫حوالہ جات‬

‫‪2|Page‬‬
‫سورة الرعد‬

‫سورہ الرعد کا تعارف‬


‫‪ :‬مقاِم نزول‬
‫سورٔہ الرعد مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے‬
‫ہوئی۔‬ ‫حضور نبی کریم صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کی مدنی زندگی میں نازل‬
‫‪ :‬رکوع اور ٓایات کی تعداد‬
‫اس میں ‪ 6‬رکوع اور ‪ 43‬آیتیں ہیں۔‬
‫‪:‬نام کے معنی‬
‫'' اس سورت کے نام معنی ہیں '' بادل کی گرج‬
‫اعراف " نام رکھے جانے کی وجہ‬
‫آیت نمبر ‪ 13‬میں استعمال ہونے والے لفظ الرعد کو اس سورت کا نام قرار دیا‬
‫گیا ہے۔ اس نام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سورت میں بادل کی گرج کے‬
‫مسئلے پر بحث کی گئی ہے‪ ،‬بلکہ یہ صرف عالمت کے طور پر ظاہر کرتا‬
‫ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ الرعد آیا ہے یا جس میں رعد کا ذکر آیا‬
‫ہے۔‬

‫‪3|Page‬‬
‫زمانۂ نزول ‪:‬‬
‫رکوع چار اور رکوع چھ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورت‬
‫بھی اسی دور کی ہے جس میں سورۂ یونس‪ ،‬ہود اور اعراف نازل‬
‫ہوئی ہیں‪ ،‬یعنی زمانۂ قیام مکہ کا آخری دور۔ انداز بیاں سے صاف‬
‫ظاہر ہو رہا ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی ہللا علیہ و آلہ‬
‫وسلم کو اسالم کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدِت دراز گذر چکی ہے۔‬
‫مخالفین آپ کو زک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کرنے کے لیے‬
‫طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں‪ ،‬مومنین بار بار تمنائیں کر رہے‬
‫ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر الیا‬
‫جائے اور اہلل تعاٰل ی مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ‬
‫دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر دشمناِن حق کی‬
‫رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے جس سے تم گھبرا‬
‫اٹھو۔ پھر آیت ‪ 31‬سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ‬
‫دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہوچکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم‬
‫ہوتا ہے کہ اگر قبروں سے مردے بھی اٹھ کر آجائیں تو یہ لوگ نہ‬
‫مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے۔‬
‫ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورت مکہ کے آخری‬
‫دور میں نازل ہوئی ہوگی۔‬

‫‪4|Page‬‬
‫موضوع‬
‫ذکر اٰل ہی اور کی ا س فضیلت‬
‫ذکر کے معنی‬
‫ذکر کے معنی یاد کرنا‪ ،‬زبان پر جاری کرنا‪ ،‬شہرت‪ ،‬ثنا خوانی‪ ،‬دع‪ii‬ا اور ورد‬
‫وغیرہ ہیں‪،‬اور عارفوں کی اصطالح میں ذکر‪ ،‬یاد ک‪ii‬رنے‪ ،‬عم‪ii‬ل پ‪ii‬ر ھوش‪ii‬یار‪،‬‬
‫تحفظ‪ ،‬اطاعت‪ ،‬نماز اور قرآن وغیرہ کے معی میں آیا ہے‪-‬‬
‫خداوند متع‪ii‬ال کے س‪ii‬اتھ عاش‪ii‬قانہ رابطہ کے خوبص‪ii‬ورت ت‪ii‬رین جل‪ii‬ووں میں‬
‫سے ایک جلوہ اور سیر و سلوک کی بنیادی راھوں میں سے ایک راہ ذکر ہے‬
‫‪ ،‬خدا کا ذکر‪ ،‬اسمائے الہی کو یاد کرتے ھوئے اپنی محدود ہستی کو فرام‪ii‬وش‬
‫کرنا ہے اور اس کا استمرار اور تداوم ‪ ،‬دل‪ii‬وں پ‪i‬ر س‪i‬ے گن‪i‬اھوں کی آالئش ک‪i‬و‬
‫دور کرتا ہے ‪ ،‬کیونکہ حق تعالی کی نس‪ii‬بت غفلت اور فراموش‪ii‬ی دل ک‪ii‬و آل‪ii‬ودہ‬
‫ک‪ii‬رتی ہے‪ -‬یہی وجہ ہے کہ اولی‪ii‬ائے الہی اور آس‪ii‬مانی کت‪ii‬ابوں کی ترس‪ii‬یل ان‬
‫آالئشوں اور تاریکیوں ک‪ii‬و دور ک‪ii‬رتے ہیں اور اس‪ii‬ی ل‪ii‬ئے " ذک‪ii‬ر" ک‪ii‬و پیغم‪ii‬بر‬
‫{ص} کے اوصاف میں سے ایک وصف اور قرآن مجیدکا ایک ن‪i‬ام ش‪i‬مار کی‪i‬ا‬
‫گیا ہے‪ -‬چنانچہ ق‪ii‬رآن مجی‪ii‬د ‪ ،‬پیغم‪ii‬بر کے "ذک‪ii‬ر" ھ‪ii‬ونے کے ب‪ii‬ارے میں ی‪ii‬وں‬
‫اشارہ فرماتا ہے‪:‬‬
‫"‪ .‬قد انزل هللا اليكم ذكرًا رسوًال يتلوا عليكم آيات هللا‪" .‬‬
‫"ہللا نے تمھاری طرف اپنے ذکر کونازل کیا ہے ‪ ،‬وہ رسول جو ہللا کی واضح‬
‫آیات کی تالوت کرتا ہے"‬
‫اسی طرح قرآن مجید کے ناموں میں سے ایک نام بھی "ذکر" ہے‬
‫"اّنا نحن نّز لنا الذكر و اّنا له لحافظون‬
‫ہم نے ذکر {قرآن} کو تم پر نازل کیا ہے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے‪"-‬‬
‫قرآن مجید اور پیغمبر {ص} کو ذکر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں خدا‬
‫وند متعال کو یاد کرانے والے ہیں‪ ،‬کیونکہ یاد دہانی گزشتہ علم پر منحصر‬
‫ھوتی ہے اور یہ انبیائے الہی اور آسمانی کتابیں ہیں جو دلوں سے غفلت اور‬
‫فراموشی کے پردوں کو ہٹا کر ان پر نور الہی کی روشنی ڈالتے ہیں‪ -‬اس بنا‬
‫پر خدا کی یاد انسان کو مادیت کی پستی سے معنویت کے کمال تک پہنچاتی‬

‫‪5|Page‬‬
‫ہے اور انسان کے اندر امید کو زندہ کرتی ہے اورمادی زندگی کے تعطل اور‬
‫– انسانی معادالت کی پیداوار یاس و ناامیدی کو دور کرتی ہے‬

‫ذکر کی قسمیں اور اس کے درجات‬


‫چونکہ‪ ،‬ذکر خداوند متعال کی عبادتوں ک‪ii‬ا ای‪ii‬ک حص‪ii‬ہ ہے‪ ،‬اس ل‪ii‬ئے دوس‪ii‬ری‬
‫عبادتوں کے مانند اس کی بھی ک‪i‬ئی قس‪i‬میں ہیں‪ ،‬مث‪i‬ال کے ط‪i‬ور پ‪i‬ر ع‪i‬ام ذک‪i‬ر‬
‫اور خاص ذکر‪ ،‬ع‪ii‬ام ذک‪ii‬ر کس معین مخل‪ii‬وق س مخص‪ii‬وص نہیں ہے‪ ،‬بلکہ ہ‪ii‬ر‬
‫چیز میں پایا جات‪i‬ا ہے‪ ،‬یع‪i‬نی تم‪i‬ام اش‪i‬یاء خ‪i‬دا کی ی‪i‬اد ک‪i‬رنے میں مش‪i‬غول ہیں‪-‬‬
‫خاص ذکر‪ ،‬خاص مخلوقات کی خصوصیت ہے‪ ،‬مثال کے طور پر فرشتوں کا‬
‫خاص ذکر یا انسانوں کا خاص ذکر‪ -‬ذکر‪ ،‬کبھی قلبی ھوتا ہے اور کبھی لسانی‬
‫– البتہ اس قس‪ii‬م کی تقس‪ii‬یم ص‪ii‬رف انس‪ii‬ان س‪ii‬ے مخص‪ii‬وص نہیں ہے‪ ،‬کی‪ii‬ونکہ‬
‫دوسری باشعورمخلوقات بھی کبھی خدا کو ی‪ii‬اد ک‪ii‬رتی ہیں‪ ،‬کہ وہی ان ک‪ii‬ا قل‪ii‬بی‬
‫ذکر ہے اور کبھی اپنی مخصوص زبان میں خدا کا نام لے کر اسے ی‪ii‬اد ک‪ii‬رتی‬
‫ہیں کہ وہی ان کا لسانی ذکر ھوتا ہے‪ -‬امام محمد غ‪ii‬زالی اپ‪ii‬نی کت‪ii‬اب " کیمی‪ii‬ای‬
‫سعادت" میں کہتے ہیں‪ " :‬ذکر کے چار درجے ہیں‪:‬‬
‫اول‪ :‬وہ ذکر جو زبان پر جاری ھوتا ہے اور دل اس سے غاف‪ii‬ل ھوت‪ii‬ا ہے‪ ،‬اس‬
‫قس‪ii‬م کے ذک‪ii‬ر ک‪ii‬ا اث‪ii‬ر ض‪ii‬عیف ھوت‪ii‬ا ہے ‪ ،‬لیکن بالک‪ii‬ل ہی بے اث‪ii‬ر نہیں ہے‪،‬‬
‫کیونکہ جو زبان خ‪i‬دمت میں مش‪i‬غول ھ‪i‬وتی ہے‪ ،‬اس زب‪i‬ان س‪i‬ے بہ‪i‬تر ہے ج‪i‬و‬
‫بیہودگی میں مشغول ھو‪-‬‬
‫امام خمینی {رح} زبانی ذکر کے بارے میں اعتقاد رکھتے ہیں کہ‪ ":‬اگر چہ‬
‫خدا کا ذکر قلبی صفات میں سے ہے اور اگ‪i‬ر قلب مت‪i‬ذکر ھ‪ii‬و ج‪ii‬ائے‪ ،‬ت‪i‬و ذک‪i‬ر‬
‫سے متعلق تمام فوائ‪ii‬د م‪ii‬ترتب ھ‪ii‬وتے ہیں‪ ،‬لیکن بہ‪ii‬تر یہ ہے کہ ذک‪ii‬ر قل‪ii‬بی کے‬
‫ساتھ ذکر لسانی بھی ھو‪ ،‬تمام ذکروں کی مکم‪i‬ل اور افض‪ii‬ل ص‪ii‬ورت یہ ہے کہ‬
‫ذکر انسان کی انسانیت کے مراتب پر جاری ھو اور اس کا حکم ظ‪ii‬اہر و ب‪ii‬اطن‬
‫اور مخفی و علنی جاری ھوجائے‪ - - -‬لسان ذک‪ii‬ر بھی قاب‪ii‬ل قب‪ii‬ول اور مطل‪ii‬وب‬
‫ہے اور انس‪ii‬ان ک‪ii‬و آخ‪ii‬ر ک‪ii‬ار حقیقت ت‪ii‬ک پہنچات‪ii‬ا ہے‪ -‬اس‪ii‬ی ل‪ii‬ئے اح‪ii‬ادیث اور‬
‫کتابوں میں لسانی ذکر کی مدح سرائی کی گئی ہے‪-‬‬
‫دوم‪ :‬وہ ذکر جو دل میں تمکین اور قرار پیدا نہ کرسکا ہو–‬
‫سوم‪ :‬وہ ذکر جو دل میں اس طرح قرار پایا ھو کہ اسے دوسرے کام کے لئے‬
‫استعمال کرنا مشکل ھو‪-‬‬
‫چہارم‪ :‬وہ ذکر جو مذکور کے دل پر غالب ھو‪ ،‬اور وہ ح‪ii‬ق تع‪ii‬ا لی ہے‪ ،‬نہ کہ‬
‫ذکر‪-‬‬

‫‪6|Page‬‬
‫ذکر کے اثرات‬
‫خدا کا ذکر‪ ،‬عبد سالک کا رب مالک سے معنوی رابطہ ہے اور اس رابطہ‬
‫کے معجزہ نما اور پر شکوہ نتائج ھوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا انسان‬
‫کے روح و اخالق کی تعمیر میں کلیدی رول ھوتا ہے‪ -‬ان اثرات میں سے‬
‫بعض اہم حسب ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ -۱‬بندہ کی نسبت خدا کی یاد‬
‫خدا کی یاد کا سب سے پہال اثر یہ ہے کہ خداوند متعال بھی اپنے بندہ کو یاد‬
‫کرتا ہے‪ ":‬فاذکرونی اذکر مجھے یاد کرو تاکہ تمھیں یاد کروں"‪ -‬چونکہ اس‬
‫آیہ شریفہ میں خداوند متعال کی یاد‪ ،‬بندہ کی طرف سے اسے یاد کرنے پر‬
‫منحصر ہے‪ ،‬اس لئے اس سے ایک خاص اور دقیق نکتہ معلوم ھوتا ہے اور‬
‫وہ نکتہ خدا کی طرف سے دوقسم کے ذکر کا تصور ہے‪:‬‬
‫الف‪ :‬عام ذکر‬
‫ب‪ :‬خاص ذکر‬
‫عام ذکر کے معنی عام الہی ہدایت ہے‪ ،‬ج‪i‬و تم‪i‬ام مخلوق‪i‬ات س‪i‬ے متعل‪i‬ق ہے‬
‫اور یہ کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ھوتا ہے اور اس کی مث‪ii‬ال‪ ،‬ک‪ii‬رہ‬
‫ارض پر الہی عام ذک‪ii‬ر کے اث‪ii‬رات ہیں اور وہ خداون‪ii‬د متع‪ii‬ال کی ط‪ii‬رف س‪ii‬ے‬
‫تمام مخلوقات کو گونا گون نعمتیں عطا کرنا ہے اور یہ عام ی‪ii‬اد خداون‪ii‬د متع‪ii‬ال‬
‫کا مسلسل فیض ہے‪ ،‬جو کبھی رکتا نہیں ہے‪-‬‬
‫لیکن خدا کا خاص ذکر خدا کے خاص بندوں اور ذکر کرنے والوں سے متعل‪ii‬ق‬
‫ہے اور یہ خداوند متعال کی طرف سے ایک قسم کی توجہ اور مہر بانی ہے‪-‬‬

‫‪ -۲‬دل کی روشنی‬
‫خدا وند متعال اپنے ذکر کو دلوں کے نورانی اور بیدار کرنے کا سبب جانت‪ii‬ا‬
‫ہے‪ -‬امام علی{ع نے اپنے بیٹے امام حسن مجتبی کو ایک خط میں یہ تاکید کی‬
‫ہے کہ‪:‬سب سے زیادہ اپنے دل کو آباد کرنے کی فکر کرنا‪":‬‬
‫فانى اوصيك بتقوى هللا ‪ -‬اى بنى‪ -‬و لزوم امره و عمارة قلبك بذكره‬
‫میرے بیٹے؛ میں تجھے تقوی‪ ،‬خدا کی فرمانبرداری اور ذکر خدا اور خ‪ii‬دا کی‬
‫رسی کو پکڑ کر اپنے قلب و روح کو آباد کرنے کی وصیت کرتا ھوں‬

‫‪7|Page‬‬
‫دل کی موت کے عالج اور اسے زندہ کرنے کا ایک س‪ii‬ب س‪ii‬ے م‪ii‬وثر س‪ii‬بب‬
‫خداوند متعال کے ذکر میں پناہ لینا ہے‪ ،‬خدا کا ذکر نور ہے اور اس‪ii‬ے مسلس‪ii‬ل‬
‫ج‪ii‬اری رکھن‪ii‬ا دل ک‪ii‬و ت‪ii‬اریکی اور ن‪ii‬ا امی‪ii‬دی س‪ii‬ے نج‪ii‬ات دیت‪ii‬ا ہے اور اس میں‬
‫گرمی اور تازہ نشاط ڈالتاہے‪-‬‬
‫‪ -۳‬گناھوں کی بخشش‬
‫خدا وند متعال کی یاد کے اخروی نتائج اور پھل میں س‪ii‬ے مغف‪ii‬رت الہی ہے کہ‬
‫خدا کی یاد کرنے والوں کو عط‪ii‬ا ھ‪ii‬وتی ہے اور اس کے عالوہ خداون‪ii‬د متع‪ii‬ال‬
‫نے اس کے عوض میں بڑے اجر و ثواب ک‪ii‬ا وع‪ii‬دہ بھی کی‪ii‬ا ہے – اس سلس‪ii‬لہ‬
‫میں قرآن مجید کا ارشاد ہے‪" :‬‬
‫و الذاكرين هللا كثيرًا و الّذ اكرات اعّد هللا لهم مغفرة و اجرًا عظيمًا؛‬
‫" خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتوں کے ل‪ii‬ئے ہللا نے مغف‪ii‬رت‬
‫اور عظیم اجر مہیا کر رکھا ہے‪"-‬‬
‫خدا وند متعال نے اپنے بندوں کو بخشنے کے لئے متعدد کام اور راہیں قرار‬
‫دی ہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی وسیلہ سے اپنے لئے مغفرت طلب کرس‪ii‬کتا‬
‫ہے‪ ،‬ان وسائل میں خداوند متعال کا بکثرت ذکر کرنا بھی شامل ہے‪-‬‬

‫ذاکروں کا معنوی مقام و منزلت اور ان کا ذکر‬


‫چ‪ii‬ونکہ ذک‪ii‬ر‪ ،‬ی‪ii‬اد کے دومع‪ii‬نی { ی‪ii‬اد ک‪ii‬رنے} اور ورد یع‪ii‬نی اس‪ii‬ماء ہللا کی‬
‫تکرار کے لسانی یا ذہنی صورت میں آیے ہیں‪ ،‬اس ل‪ii‬ئے ذک‪ii‬ر کے م‪ii‬راتب کی‬
‫بحث کے دوران اس کے ذاکروں کے معنوی رابطہ کے لح‪ii‬اظ س‪ii‬ے بھی بحث‬
‫کی جانی چاہئے‪-‬‬
‫‪-۱‬یاد کے عنوان سے ذکر کے بارے میں قابل بیان ہے کہ‪ :‬ہر انس‪ii‬ان اور ف‪ii‬رد‬
‫س‪ii‬الک اپ‪ii‬نے ذک‪ii‬ر کے دوران‪ ،‬حقیقت میں ای‪ii‬ک ایس‪ii‬ی راہ ک‪ii‬و ی‪ii‬اد ک‪ii‬رنے میں‬
‫مشغول ھوت‪i‬ا ہے ج‪ii‬و خ‪ii‬دا س‪i‬ے ش‪i‬روع ھ‪ii‬وئی ہے اور " اس‪i‬فل الس‪i‬افلین" ت‪i‬ک‬
‫پہنچتی ہے– یعنی سالک اس راہ کو خدا کی طرف پلٹنے کے لئے یاد کرتا ہے‬
‫اور اس میں معن‪ii‬وی و عرف‪ii‬انی ح‪ii‬االت بھی س‪ii‬اتھ ھ‪ii‬وتے ہیں کہ بعض اوق‪ii‬ات‬
‫اسے" یاد یار و دیار" اور " یاد روز گار وصال" کے عن‪ii‬وان س‪ii‬ے بھی تعب‪ii‬یر‬
‫کیا گیا ہے‪ ،‬کیونکہ انسان کی روح ایک ایس‪ii‬ا پرن‪ii‬دہ ہے جس ک‪ii‬ا آش‪ii‬یانہ ع‪ii‬رش‬
‫ہے اور اس دنیا میں ہجرت و غربت ک‪ii‬ا احس‪ii‬اس کرت‪ii‬ا ہے اور رفتہ رفتہ اپ‪ii‬نی‬
‫اصلی جگہ کی یاد کرتا ہے اور اسی جگہ کی طرف ح‪ii‬رکت کرت‪ii‬ا ہے‪ -‬اور یہ‬
‫راہ وہی ذکر اور خداوند متعال کو یاد کرن‪ii‬ا ہے‪ -‬انس‪ii‬ان اس چ‪ii‬یز ک‪ii‬و ی‪ii‬اد کرت‪ii‬ا‬
‫ہے‪ ،‬جسے اس نے پہلے دیکھا اور اسے فرام‪ii‬وش کرگی‪ii‬ا ھ‪ii‬و‪ ،‬جیس‪ii‬ا کہ ق‪ii‬رآن‬

‫‪8|Page‬‬
‫مجی‪ii‬د میں اس موض‪ii‬وع کی ط‪ii‬رف اش‪ii‬ارہ کی‪ii‬ا گی‪ii‬ا ہے‪ " :‬جنھ‪ii‬وں نے خ‪ii‬دا ک‪ii‬و‬
‫فراموش کیا ہے‪ ،‬انھوں نے خود کو بھی فراموش کیا ہے‪:‬‬
‫"َو ال َتُك وُنوا َك اَّلِذ يَن َنُسوا َهَّللا َفَأْنساُهْم َأْنُفَس ُهْم "؛[‪ " ]15‬اور خبر دار ان لوگ‪ii‬وں‬
‫کی طرح نہ ھو جانا جنھوں نے خدا کو بھال دی‪ii‬ا ت‪ii‬و خ‪ii‬دا نے خ‪ii‬ود ان کے نفس‬
‫کو بھی بھال دیا" اس بنا پر نماز‪ ،‬قرآن‪ ،‬پیغمبر {ص} اور دوس‪ii‬رے ام‪ii‬ور ج‪ii‬و‬
‫ذکر کے دائرے میں آئے ہیں اور ان سے ذکر کے طور پر استفادہ کیاگی‪ii‬ا ہے‪،‬‬
‫سب یاد آوری کے معنی میں ہیں اور اسی لئے انھیں ذکر کہا گیا ہے‪-‬‬
‫اس نظریہ کے مطابق ظاہر ہے کہ ہر ایک اس ذک‪ii‬ر کے ای‪ii‬ک خ‪ii‬اص درجہ‬
‫پر واقع ہے اور ممکن ہے ایسے افراد بھی ھوں جو حقیقت الہی کے کسی اث‪ii‬ر‬
‫کو یاد نہ کرتے ھوں اور صرف زبانی ذکر پر اکتفا کرتے ھوں‪-‬‬
‫بعض افراد اس الہی شناخت سے آگاہ ھوکر خدا کی طرف پلٹنے کے ط‪ii‬الب‬
‫ھوئے ہیں اور ذکر کی راہ پر گامزن ہیں‪ ،‬یہاں تک کہ ذک‪ii‬رو م‪ii‬ذکور آپس میں‬
‫ایک ہی ھو جائیں – اس بنا پ‪ii‬ر ذک‪ii‬ر کے ب‪ii‬ارے میں ہ‪ii‬ر ای‪ii‬ک ک‪ii‬ا نظ‪ii‬ریہ ای‪ii‬ک‬
‫خاص مقام پر ھوتا ہے جو صرف اس سے متعلق ھوتا ہے‪-‬‬
‫لیکن ذکر کی تکرار اور ورد کے معنی کے بارے میں قابل بی‪ii‬ان ہے کہ‪ :‬یہ‬
‫مسئلہ اسالم میں دو نظریات اور پہلووں سے متفاوت ہے‪:‬‬
‫‪ -۱‬شریعت کا پہلو‬
‫‪ -۲‬عرفان و طریقت کا پہلو‬
‫‪ -۱‬ش‪qq‬ریعت کے پہل‪qq‬و کے ب‪ii‬ارے میں بہت س‪ii‬ی اح‪ii‬ادیث کی ط‪ii‬رف اش‪ii‬ارہ کی‪ii‬ا‬
‫جاس‪ii‬کتا ہے‪ ،‬جن میں مق‪ii‬دس اذک‪ii‬ار و اوراد کی تاکی‪ii‬د کی گ‪ii‬ئی ہے‪ ،‬کہ انھیں‬
‫بجاالنا معنوی ترقی اور تقرب الہی ک‪ii‬ا س‪ii‬بب بن جات‪ii‬ا ہے اور اس کے مطل‪ii‬وبہ‬
‫نتائج حاصل ھوتے ہیں‪ -‬اس لحاظ س‪ii‬ے تم‪ii‬ام اذک‪ii‬ار اور اوراد مطل‪ii‬وب ہیں اور‬
‫ہر شخص اپنے معنوی مقام و منزلت میں ان اذک‪ii‬ار ک‪ii‬و بج‪ii‬ا الس‪ii‬کتا ہے‪ ،‬مث‪ii‬ال‬
‫کے طور پر ذکر صلوات کی زیادہ سفارش کی گئی ہے یا استغفار اور ال حول‬
‫وال قوۃ اال باہلل وغ‪ii‬یرہ‪ ،‬ج‪ii‬و دع‪ii‬ا کی کت‪ii‬ابوں اور روایت‪ii‬وں میں درج ہے – اہ‪ii‬ل‬
‫عرفان اور اہل ریاضت جن خاص حاالت کے تحت ان اذکار کو ع‪ii‬ام ط‪ii‬ور پ‪ii‬ر‬
‫بجاالتے ہیں ‪ ،‬بجا نہیں الئے جاتے ہیں اور یہ معنوی معراج اور خاص مقام و‬
‫گ‪iii‬روہ س‪iii‬ے بھی مخص‪iii‬وص نہیں ہے اور یہ س‪iii‬ب اذک‪iii‬ار حقیقت میں دل کی‬
‫آمادگی کا پہلو رکھتے ہیں ت‪ii‬اکہ ذاک‪ii‬ر میں معن‪ii‬وی مع‪ii‬راج اور خ‪ii‬دا کی ط‪ii‬رف‬
‫پلٹنے کے باطنی سفر کا آغاز ھو جائے‪-‬‬
‫‪ -۲‬لیکن عرفانی پہلو میں عام طور پر بعض عرفانی دستور العمل میں مش‪ii‬اہدہ‬
‫کیا جارہا ہے کہ سالک کے لئے ای‪ii‬ک خ‪ii‬اص ذک‪ii‬ر ک‪ii‬و ای‪ii‬ک خ‪ii‬اص تع‪ii‬داد اور‬
‫خ‪ii‬اص دن‪ii‬وں میں { مث‪ii‬ال کے ط‪ii‬ور پ‪ii‬ر ای‪ii‬ک اربعین کے دوران} پڑھ‪ii‬نےکی‬

‫‪9|Page‬‬
‫سفارش کی ج‪ii‬اتی ہے کہ اس کے خ‪ii‬اص نفس‪ii‬یاتی اور روح‪ii‬انی اث‪ii‬رات ھ‪ii‬وتے‬
‫ہیں‪ -‬اس مس‪ii‬ئلہ میں قاب‪ii‬ل ت‪ii‬وجہ نکتہ یہ ہے کہ اس قس‪ii‬م کے عرف‪ii‬انی دس‪ii‬تور‬
‫العمل کے لئے استاد اور اجازت کی ضرورت ھوتی ہے اور اس ک‪ii‬و ہ‪ii‬ر ای‪ii‬ک‬
‫کے لئے انجام دینے کی سفارش نہیں کی جاس‪ii‬کتی ہے‪ -‬لیکن اس مق‪ii‬ام پ‪ii‬ر ہ‪ii‬ر‬
‫ورد اور ہر ذکر ‪ ،‬سالک کے معنوی مق‪i‬ام اور خ‪i‬اص مواق‪i‬ع کے مناس‪i‬ب ھوت‪i‬ا‬
‫ہے اور اسی لحاظ سے استاد کامل اپنے علم پر مبنی اپنے مرید اور سالک ک‪ii‬و‬
‫اذکار و اوراد کے بارے میں خاص پروگ‪ii‬رام دیت‪ii‬ا ہے اور در حقیقت ان اذک‪ii‬ار‬
‫سے معنوی نتائج کا استفادہ کرتا ہے‪-‬‬
‫اس نظ‪ii‬ریہ کے مط‪ii‬ابق اذک‪ii‬ار اور اوراد س‪ii‬ے ای‪ii‬ک ام‪ii‬داد کے عن‪ii‬وان س‪ii‬ے‬
‫استفادہ کیا جاتا ہے‪ ،‬تاکہ سالک کے لئے معنوی معراج اور غیبی مقام‪ii‬ات میں‬
‫داخل ھونے کے مرتبے حاصل ھو جائیں اور حقیقت میں ذکر کے ایک م‪ii‬رتبہ‬
‫پر فائز ھونا‪ ،‬معنوی عوالم کی یاد شمار ھوتا ہے‪-‬‬
‫قابل بیان ہے کہ بعض کتابوں میں کچھ مطالب اور دس‪ii‬تور العم‪ii‬ل نق‪ii‬ل ک‪ii‬ئے‬
‫گئے ہیں‪ ،‬جو خ‪i‬اص اوراد پ‪i‬ر مش‪i‬تمل ہیں اور ان س‪i‬ے م‪i‬اوراء الط‪i‬بیعہ غی‪i‬بی‬
‫امور کو حاصل کرنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے – آگاہ و عارف اس‪ii‬تاد کے‬
‫بغیر ایسے مسائل میں الجھنا سالک کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے‪ ،‬اس‬
‫لئے ایسے امور میں ایک کامل اور عارف استاد کا ھونا ضروری ہے‬
‫اسالم میں ذکر اٰل ہی کی فضیلت‬
‫ٰل‬
‫اسالم میں ذکر ا ہی کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جو بندہ ذکِر‬
‫اٰل ہی میں مشغول ہو خود ہللا رب العزت اسے یاد رکھتا ہے اور مالء اعلٰی میں‬
‫اس کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاِد باری تعالٰی ہے ‪:‬‬

‫َفاْذ ُک ُر ْو ِنْي َاْذ ُک ْر ُک ْم َو اْش ُک ُر ْو اِلْي َو اَل َتْک ُفُر ْو ِن ‪o‬‬


‫ترجمہ‬
‫’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا‬
‫شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘‬
‫[البقره‪]152 : 2 ،‬‬

‫‪10 | P a g e‬‬
‫اس آیِت کریمہ میں ہللا تبارک و تعالٰی نے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا کہ اے‬
‫میرے بندو! میرا ذکر کرو‪ ،‬اگر تم میرا ذکر کروگے تو میں اس کے بدلے میں‬
‫تمہارا ذکر کروں گا اور یہ ذکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔ صحیح بخاری اورصحیح‬
‫مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے مروی حدیث قدسی میں حضور‬
‫نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہللا عزوجل کا ارشاد ہے ‪:‬‬

‫َاَنا ِع ْنَد َظِّن َعْبِد ْي ِبْي َو أَنا َم َعه ِإَذ ا َذ َک َرِنْي َفِإْن َذ َک َرِني ِفي َنْفِس ِه َذ َک ْر ُته‬
‫ِفی َنْفِس ي‪َ ،‬و ِإْن َذ َک َرِنی ِفي َم اَل ٍء َذ َک ْر ُتُه ِفی َم اَل ٍء َخ ْيٍر ِم ْنُهْم ‪َ ،‬و ِإْن‬
‫َتَقَّرَب ِإَلَي ِبِش ْبٍر َتَقَّرْبُت ِإَلْيِه ِذَر اعًا‪َ ،‬و ِإْن َتَقَّرْب ِإَلَّي ِذَر اًع ا ُتَقَّرْبُت ِإَلْيِه‬
‫’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا‬
‫ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے‬
‫تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھے کسی مجمع کے‬
‫اندر یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع کے اندر یاد کرتا ہوں اور‬
‫اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے‬
‫قریب ہوجاتا ہوں‪ ،‬اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں‬
‫دونوں بازؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں‪ ،‬اگر وہ چل کر میری‬
‫طرف آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘‬
‫َباًع ا َو ِإْن أَتاِنْي َيْم ِش ْي أَتْيُتُه َهْر َو َلًة‬

‫ترجمہ‬
‫[بخاری‪ ،‬الصحيح‪ ،‬کتاب التوحيد‪ ،‬باب قول اﷲ تعالٰی ويحّذ رکم اﷲ نفسه‬
‫صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی اس حدیث نبوی صلی ہللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ ذاکر جب تنہا ذکر کرتا ہے تو ہللا تعالٰی‬
‫بھی اس کا ذکر تنہا کرتا ہے اور جب وہ زمین پر مخلوق کا اجتماع منعقد کر‬
‫کے خود بھی ذکر کرتا ہے اور بندوں سے بھی ذکر کرواتا ہے تو ہللا تعالٰی‬
‫بھی عرش پر ارواِح مالئکہ اور انبیاء علیہم السالم کی محفل میں اس کے نام‬
‫‪11 | P a g e‬‬
‫کا ذکر کرتا ہے۔ جس مجلس میں بندہ ذکر کرتا ہے وہ کمتر ہے کیونکہ زمین‬
‫پر یہ اجتماع ہم جیسے گنہگاروں کا ہے جبکہ عرش پر منعقد ہونے واال‬
‫مجمع ذکر مالئکہ کاہوتا ہے اور وہ بلند تر ہوتا ہے۔‬
‫امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں ذکر کی فضیلت میں حضرت عبدہللا بن‬
‫بسر رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے۔ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم‬
‫‪ :‬صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا‬
‫یا رسول ہللا! اسالمی احکام مجھ پر غالب آگئے ہیں آپ صلی ہللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں‪ ،‬جسے میں انہماک سے کرتا رہوں۔‬
‫‪ :‬حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‬
‫اَل َيَز اُل ِلَس اُنَک َر َطًبا ِم ْن ِذ ْک ِر اِﷲ‬
‫‪.‬‬

‫’’تیری زبان ذکِر اٰل ہی سے ہمیشہ تر رہنی چاہئے۔‬

‫قرآنی آیات‬
‫آیت نمبر‪28‬‬
‫اَّلِذ يَن آَم ُنوا َو َت ْط َم ِئُّن ُقُلوُبُهم ِبِذ ْك ِر ِهَّللاۗ َأاَل ِبِذ ْك ِر ِهَّللا‬
‫َت ْط َم ِئُّن اْلُقُلوُب ٌ‬
‫‪:‬ترجمہ‬
‫جو اس کی طرف رجوع ہوئے تو یہ وہ لوگ (ہیں) کہ‬
‫ایمان الئے اور ان کے دل ہللا کے ذکر سے مطمئن‬
‫ہوگئے‪ ،‬اور یاد رکھو یہ ہللا کا ذکر ہی ہے جس سے دلوں‬
‫کو چین اور قرار ملتا ہے اور شک و شبہ اور خوف و‬
‫غم کے سارے کانٹے نکل جاتے ہیں)ایسا ہوا کہ‬
‫‪12 | P a g e‬‬
‫ذکر کی فضیلت‬
‫ذکر روحانی و جسمانی بیماریوں کا عالج‪ ،‬قلب و نظر کا سکون اور اطمینان‪،‬‬
‫مشکالت سے نکلنے کا آسان راستہ‪ ،‬ہللا تعالٰی کے قرب اور اس کی نصرت و‬
‫حمایت کا ذریعہ‪ ،‬ذکر کرنے والے کا حریم کبریا میں تذکرہ اور فالح و‬
‫کامیابی کا زینہ ہے لٰہ ذا ہر حال میں ہللا تعالٰی کو کثرت کے ساتھ یاد کیجیے۔‬
‫ذکر دنیاوآخرت کی کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ بشرطیکہ الفاظ اور انداز قرآن اور‬
‫نبی (ﷺ) کے فرمان کے مطابق ہو۔ من گھڑت یا بزرگوں کے حوالے‬
‫سے مصنوعی درودو وظائف سے ممکن ہے کہ مشکالت آسان ہوجائیں مگر‬
‫قرآن اور نبی (ﷺ) کے الفاظ کی برکت اور سنت رسول سے محرومی‬
‫اس کا مقدر ہوگی۔‬
‫َع ْن َأِبْی الَّد ْر َد اِء (رض) َقاَل َقال الَّنِبُی (ﷺ) َأَال ُأِنِبُئُک ْم ِبَخ ْیِر (‬
‫َأْع َم اُلُک ْم َو َأْز َک اَہا ِع ْنَد َم ِلْیِکُک ْم َو َأْر َفَعًہا ِفْی َد َرَج اِتُک ْم َو َخ ْیٌر َّلُک ْم ِم ْن‬
‫ِإْنَفاق الَّذ َہِب َو اْلَو َر ِق َو َخ ْیُر َّلُک ْم ِم ْن اأْن َتْلُقْو ا َعُد َّو ُک ْم َفَتْض ِر ُبْو ا‬
‫َأْع َناَقُہْم َو َیْض ِرُبْو ا َأْع َناَقُک ْم ؟ َقاُلْو ا َبٰل ی َقاَل ِذ ْک َر ِہّٰللا َتَعاٰل ی َفَقاَل ُم َعاُذ‬
‫]ْبُن َج َبٍل (رض) َم اَشیٍء َأْنٰج ی ِم ْن َع َذ اب ِہّٰللا ِم ْن ِذ ْک ِر ِہّٰللا‬
‫حضرت ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول ہللا (ﷺ) نے فرمایا‬

‫'' کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور‬
‫تمہارے درجات کو دوسرے اعمال سے زیادہ بلند کرنے واال ہے اور راہ‬
‫خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے‬
‫لیے بہتر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری‬
‫گردنیں ماریں؟۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کیوں نہیں ہللا کے رسول‬
‫ضرور بتالئیں فرمایا وہ ہللا کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے‬
‫‪13 | P a g e‬‬
‫کہا ہللا کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز ہللا کے عذاب سے بچانے والی نہیں‬
‫ہے۔ ''‬
‫[ رواہ الترمذی ‪ :‬باب ماجاء فی فضل الذکر]‬

‫ذکرالہی کا طریقہ‬
‫ضرت علی المرتضٰی رضی ہللا تعالٰی عنہ‘ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ نبی‬
‫کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ ہللا کے بندوں کے لئے زیادہ‬
‫آسان اور زیادہ فضیلت والی چیز جس سے ہللا کا قرب حاصل ہو وہ کیا ہے؟‬
‫آپ ا نے فرمایا ہللا کا ذکر ہے ۔‬
‫حضرت علی رضی ہللا تعالٰی عنہ‘ نے عرض کیا کہ اس کا طریقہ کیا ہے ؟‬
‫آپ ا نے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو ‪،‬پھر آپ ا نے تین مرتبہ الا لہ اال ہللا پڑھا‬
‫اور حضرت علؓی نے سنا ‪،‬پھر حضرت علؓی نے پڑھا اور حضور ا نے سنا ۔‬
‫اس طرح حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہؒ نے یہ طریقہ حضرت خواجہ‬
‫حسن بصری رحمۃ ہللا علیہ کو بتالیا یہاں تک کہ یہ سلسلِۂ سند ہم تک پہنچا۔‬
‫البتہ جس طرح ایک مریض کے عالج کے لئے معا لجین کے مختلف طریقے‬
‫ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی معالج مختلف نسخے بھی تجویز کرتا ہے توا سی طرح‬
‫بزرگان دین سے ذکر کی مختلف ہیئات وترکیبات منقول ہیں جو کہ ان کے‬
‫تجربات میں آئیں اور مقصود سب طریقوں سے دین کو اور رضا اٰل ہی کو‬
‫حاصل کرنا ہے۔ (مجالس درخواستی ۔ص‪)۱۶‬‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمام اذکار میں افضل ال الہ اال‬
‫ہللا ہے اور تمام دعاؤں میں افضل الحمد ہلل ہے۔ (ترمذی)‬
‫‪14 | P a g e‬‬
‫حضرت مال علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تما م‬
‫اذکار میں افضل اور سب سے بڑھا ہوا ذکر کلمہ طیبہ ہے کہ یہی دین کی‬
‫بنیاد ہے جس پر سارے دین کی تعمیر ہے اور یہ وہ پاک کلمہ ہے کہ دین کی‬
‫چکی اسی کے گرد گھو متی ہے۔اسی وجہ سے صوفیہ اور عارفین اسی کلمہ‬
‫کا اہتمام فرماتے ہیں اور سارے اذکار پر اس کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی کی‬
‫جتنی ممکن ہو کثرت کراتے ہیں کہ تجربہ سے اس میں جس قدر فوائد اور‬
‫)منافع معلوم ہوئے ہیں کسی دوسرے میں نہیں ۔( فضائل ذکر ۔ص)‬

‫ذکرالہی اور احادیث مبارک‬

‫‪1‬۔ َعْن َٔاِبي ُهَر ْيَر َة رضي هللا عنه َقاَل ‪َ :‬قاَل الَّنِبُّي ﷺ ‪َ :‬یُقْو ُل ُهللا َتَعاَلی ‪َٔ :‬اَنا ِع ْنَد‬
‫َظِّن َعْبِد ي ِبي َو َٔاَنا َم َعُه ِإَذ ا َذ َک َر ِني َف ِإْن َذ َک َر ِني ِفي َنْفِس ِه َذ َک ْر ُت ُه ِفي َنْفِس ي‪َ ،‬و ِإْن‬
‫َذ َک َر ِني ِفي َم ـٍإَل َذ َک ْر ُتُه ِفي َمـٍإَل َخ ْيٍر ِم ْنُهْم َو ِإْن َتَقَّرَب ِإَلَّي ِبِش ْبٍر َتَق َّرْبُت ِإَلْي ِه ِذَر اًع ا‬
‫َو ِإْن َتَقَّرَب ِإَلَّي ِذَر اًع ا َتَقَّرْبُت ِإَلْيِه َباًع ا َو ِإْن َٔاَت اِني َیْم ِش ي‪َٔ ،‬اَتْيُت ُه َهْر َو َل ًة۔ ُم َّتَف ٌق‬
‫َع َلْي ِه‬
‫ترجمہ‪’’ :‬حضرت اب‪ii‬و ہری‪ii‬رہ رض‪ii‬ی ہللا عنہ س‪ii‬ے روایت ہے کہ حض‪ii‬ور ن‪ii‬بی‬
‫اکرم ﷺ نے فرمایا ‪ :‬ہللا تعالٰی فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعل‪ii‬ق جیس‪ii‬ا‬
‫گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ م‪ii‬یرا ذک‪ii‬ر‬
‫کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگ‪ii‬ر وہ اپ‪ii‬نے دل میں م‪ii‬یرا ذک‪ii‬ر (ذک‪ii‬ر‬
‫خفی) کرے تو میں بھی(اپنے شایان شان) خفیہ اس کا ذکر کرتا ہ‪ii‬وں‪ ،‬اور اگ‪ii‬ر‬
‫وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے ت‪ii‬و میں اس کی جم‪ii‬اعت س‪ii‬ے بہ‪ii‬تر‬
‫‪15 | P a g e‬‬
‫جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ای‪ii‬ک بالش‪ii‬ت م‪ii‬یرے نزدی‪ii‬ک آئے ت‪ii‬و‬
‫میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہ‪ii‬وں۔ اگ‪ii‬ر وہ ای‪ii‬ک ب‪ii‬ازو کے‬
‫برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازٔووں کے برابر اس کے نزدیک ہو جات‪ii‬ا‬
‫ہوں اور اگر وہ میری ط‪ii‬رف چ‪ii‬ل ک‪ii‬ر آئے ت‪ii‬و میں اس کی ط‪ii‬رف دوڑ ک‪ii‬ر آت‪ii‬ا‬
‫ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے‬

‫‪َ :2‬عْن َٔاِبي ُهَر ْيَر َة َو َٔاِبي َسِع ْيٍد اْلُخ ْد ِرِّي رضي هللا عنھما ‪َٔ :‬اَّنُھَم ا َش ِھَد ا َع َلی الَّنِبِّي‬
‫ﷺ َٔاَّنُه َقاَل ‪ :‬اَل َیْقُعُد َقْو ٌم َیْذ َک ُر ْو َن َهللا عزوجل ِإاَّل َح َّفْتُھُم اْلَم اَل ِئَک ُة َو َغ ِشَیْتُھُم‬
‫الَّرْح َم ُة‪َ ،‬و َنَز َلْت َع َلْيِھُم الَّسِکْيَنُة‪َ ،‬و َذ َک َر ُھُم ُهللا ِفْيَم ْن ِع ْن َد ُه۔َر َو اُه ُم ْس ِلٌم َو الِّتْر ِم ِذُّي ‪،‬‬
‫َو َقاَل َٔاُبو ِع ْيَس ی ‪َ :‬هَذ ا َح ِد ْيٌث َح َس ٌن َصِح ْيٌح‬
‫ترجمہ‪’’ :‬حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رض‪ii‬ی ہللا عنھم‪ii‬ا دون‪ii‬وں نے‬
‫حض‪iii‬ور ن‪iii‬بی اک‪iii‬رم ﷺ کے ب‪iii‬ارے میں گ‪iii‬واہی دی کہ آپ ﷺ نے‬
‫فرمایا ‪ :‬جب بھی لوگ ہللا تع‪i‬الٰی کے ذک‪i‬ر کے ل‪ii‬ئے بیٹھ‪i‬تے ہیں انہیں فرش‪i‬تے‬
‫ڈھ‪ii‬انپ لی‪ii‬تے ہیں اور رحمت انہیں اپ‪ii‬نی آغ‪ii‬وش میں لے لی‪ii‬تی ہے اور ان پ‪ii‬ر‬
‫سکینہ (سکون و طمانیت) کا نزول ہوتا ہے ہللا تعالٰی ان کا ذکر اپنی بارگاہ کے‬
‫حاضرین میں کرتا ہے۔‘‘‬
‫اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ام‪ii‬ام ترم‪ii‬ذی کہ‪ii‬تے‬
‫ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے‬

‫‪َ :3‬عْن َٔاَنٍس رضي هللا عنه َقاَل ‪َ :‬قاَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ ‪ :‬اَل َتُقْو ُم الَّس اَع ُة َع َلی َٔاَح ٍد‬
‫َیُقْو ُل ‪ُ :‬هللا‪ُ ،‬هللا۔ َر َو اُه ُم ْس ِلٌم ۔‬

‫‪16 | P a g e‬‬
‫َو ِفي ِرَو اَی ِة َع ْن ُه َق اَل ‪َ :‬ق اَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ ‪ :‬اَل َتُق ْو ُم الَّس اَع ُة َح َّتی اَل ُیَق اَل ِفي‬
‫أَاْلْر ِض ‪ُ :‬هللا‪ُ ،‬هللا۔ َر َو اُه ُم ْس ِلٌم ۔‬
‫ترجمہ‪’’ :‬حضرت انس رض‪i‬ی ہللا عنہ س‪i‬ے م‪i‬روی ہے کہ رس‪i‬ول ہللا ﷺ‬
‫نے فرمایا ‪ :‬ہللا ہللا کہنے والے کسی ش‪ii‬خص پ‪ii‬ر قی‪ii‬امت نہ آئے گی (یع‪ii‬نی جب‬
‫قیامت آئے گی تو دنیا میں کوئی بھی ہللا ہللا کرنے واال نہ ہو گا)۔‘‬
‫حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول ہللا ﷺ‬
‫نے فرمایا کہ قیامت اس وقت برپا ہو گی‪ ،‬جب دنیا میں ہللا ہللا کہنے واال ک‪ii‬وئی‬
‫نہ رہے گا۔‘‘ ان دونوں روایات کو امام مسلم نے ذکر کیا ہے۔‬

‫‪َ :4‬عْن َٔاِبي ال‪َّqq‬د ْر َد اء رض‪qq‬ي هللا عن‪qq‬ه َق اَل ‪َ :‬ق اَل الَّنِبُّي ﷺ ‪َٔ :‬ا اَل ُٔاَنِّبُئُک ْم ِبَخ ْي ِر‬
‫َٔاْع َم اِلُک ْم َو َٔاْز َک اَھ ا ِع ْن َد َم ِلْيِکُک ْم ‪َ ،‬و َٔاْر َفِع َھ ا ِفي َد َر َج اِتُک ْم ‪َ ،‬و َخ ْي ٍر َلُک ْم ِم ْن ِإْنَف اِق‬
‫الَّذ َھِب َو اْل َو ِرِق‪َ ،‬و َخ ْي ٍر َلُک ْم ِم ْن َٔاْن َتْلَق ْو ا َع ُد َّو ُک ْم ‪َ ،‬فَتْض ِرُبْو ا َٔاْع َن اَقُھْم َو َیْض ِرُبْو ا‬
‫َٔاْع َناَقُک ْم ؟ َقاُلْو ا ‪َ :‬بَلی۔ َقاَل ‪ِ :‬ذ ْک ُر ِهللا َتَعاَلی۔‬
‫َر َو اُه الِّتْر ِمِذُّي َو اْبُن َم اَج ه‪َ ،‬و َقاَل اْلَح اِکُم ‪َ :‬ح ِد ْيٌث َصِح ْيُح اِإْل ْس َناِد ۔‬
‫ت‪qq‬رجمہ‪’’ :‬حض‪ii‬رت اب‪ii‬و درداء رض‪ii‬ی ہللا عنہ س‪ii‬ے روایت ہے کہ حض‪ii‬ورنبی‬
‫اکرم ﷺ نے فرمایا ‪ :‬کی‪ii‬ا میں تمہیں تمہ‪ii‬ارے اعم‪ii‬ال میں س‪ii‬ے س‪ii‬ب س‪ii‬ے‬
‫اچھا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مال‪ii‬ک کے ہ‪ii‬اں بہ‪ii‬تر اور پ‪ii‬اکیزہ ہے‪ ،‬تمہ‪ii‬ارے‬
‫درجات میں سب سے بلند ہے‪ ،‬تمہارے سونے اور چاندی کی خیرات سے بھی‬
‫افضل ہے‪ ،‬اور تمہارے دشمن کا سامنا ک‪ii‬رنے یع‪ii‬نی جہ‪ii‬اد س‪ii‬ے بھی بہ‪ii‬تر ہے‬
‫درآنحالیکہ تم انہیں قت‪ii‬ل ک‪ii‬رو اور وہ تمہیں؟ ص‪ii‬حابہ ک‪ii‬رام رض‪ii‬ی ہللا عنہم نے‬
‫عرض کیا ‪ :‬کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا ‪ :‬وہ عمل ہللا کا ذکر ہے۔‘‘‬

‫‪17 | P a g e‬‬
‫‪5‬۔ َعْن َعْبِد ِهللا ْبِن ُبْس ٍر رضي هللا عنه َٔاَّن َرُج اًل َق اَل ‪َ :‬ی ا َر ُس وَل ِهللا‪ِ ،‬إَّن َش َر اِئَع‬
‫اِإْل ْس اَل ِم َقْد َک ُثَر ْت َع َلَّي َفَٔاْخ ِبْر ِني ِبَش ْيٍئ َٔاَتَش َّبُث ِبِه۔ َقاَل ‪ :‬اَل َیَز اُل ِلَس اُنَک َر ْط ًب ا ِم ْن‬
‫ِذ ْک ِر ِهللا۔ َر َو اُه الِّتْر ِمِذُّي َو َقاَل ‪َ :‬هَذ ا َح ِد ْيٌث َح َس ٌن ۔‬
‫ت‪qq‬رجمہ‪’’ :‬حض‪ii‬رت عب‪ii‬د ہللا بن بس‪ii‬ر رض‪ii‬ی ہللا عنہ س‪ii‬ے روایت ہے کہ ای‪ii‬ک‬
‫آدمی نے ع‪ii‬رض کی‪ii‬ا ‪ :‬ی‪ii‬ا رس‪ii‬ول ہللا! احک‪ii‬ام اس‪ii‬الم مجھ پ‪ii‬ر غ‪ii‬الب آگ‪ii‬ئے ہیں‬
‫مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جسے میں انہم‪ii‬اک س‪ii‬ے کرت‪ii‬ا رہ‪ii‬وں۔ رس‪ii‬ول ہللا‬
‫ﷺ نے فرمایا ‪ :‬تیری زبان ہر وقت ذکر اٰل ہی سے تر رہنی چاہیے۔‘‘۔‬

‫‪6‬۔ َعْن َٔاِبي ُهَر ْيَر َة رضي هللا عنه َعْن َر ُس ْو ِل ِهللا ﷺ َٔاَّنُه َقاَل ‪َ :‬م ْن َقَعَد َم ْقَعًد ا َلْم‬
‫َیْذ ُک ِر َهللا ِفْيِه َک اَنْت َع َلْيِه ِم َن ِهللا ِتَر ٌة َو َمِن اْض َطَج َع ُم ْض ِطَج ًعا اَل َیْذ ُک ُر َهللا ِفْيِه َک اَنْت‬
‫َع َلْيِه ِم َن ِهللا ِتَر ٌة۔ َر َو اُه َأُبْو َد اُو َد ۔‬
‫ت‪qq‬رجمہ‪’’ :‬حض‪ii‬رت اب‪ii‬و ہری‪ii‬رہ رض‪ii‬ی ہللا عنہ س‪ii‬ے روایت ہے کہ رس‪ii‬ول ہللا‬
‫ﷺ نے فرمایا ‪ :‬جو اپنے بیٹھنے کی جگہ سے ُاٹھ گیا اور اس مجلس میں‬
‫ہللا تعالٰی کا ذکر نہ کیا تو ہللا تعالٰی کی طرف س‪ii‬ے اس پ‪ii‬ر ن‪ii‬دامت وارد ہ‪ii‬و گی‬
‫اور جو بستر میں لیٹے اور اس میں ہللا تعالی کا ذکر نہ کرے ت‪ii‬و ہللا تع‪ii‬الٰی کی‬
‫طرف سے اسے بھی ندامت ہو گی۔‘‘‬

‫‪7‬۔ َعْن َٔاِبي َسِع ْيٍد اْلُخ ْد ِرِّي رضي هللا عنه َٔاَّن َر ُس ْو َل ِهللا ﷺ َقاَل ‪َٔ :‬اْک ِث ُر ْو ا ِذ ک ‪َq‬ر ِهللا‬
‫َح َّتی َیُقْو ُلْو ا ‪َ :‬م ْج ُنْو ٌن ۔ َر َو اُه َٔاْح َم ُد َو اْبُن ِح َّباَن َو َٔاُب و َیْع َلی‪َ ،‬و َق اَل اْلَح اِکُم ‪َ :‬ص ِح ْيُح‬
‫اِإْل ْس َناِد ۔‬

‫‪18 | P a g e‬‬
‫ت‪qqq‬رجمہ‪’’:‬حض‪iii‬رت اب‪iii‬و س‪iii‬عید خ‪iii‬دری رض‪iii‬ی ہللا عنہ س‪iii‬ے روایت ہے کہ‬
‫حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا ‪ :‬ہللا کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ ل‪ii‬وگ‬
‫تمہیں دیوانہ کہیں۔‘‘‬

‫‪8‬۔ َعْن ُم َعاٍذ رضي هللا عنه َعْن َر ُس ْو ِل ِهللا ﷺ ‪َٔ :‬اَّن َرُج اًل َس َٔاَلُه َفَقاَل ‪َٔ :‬اُّي اْلِج َه اِد‬
‫َٔاْع َظُم َٔاْج ًر ا؟ َقاَل ‪َٔ :‬اْک َث ُر ُهْم ِ ِهلل َتَب اَرَک َو َتَع اَلی ِذ ْک ًر ا۔ َق اَل ‪َ :‬ف َٔاُّي الَّص اِئِم ْيَن َٔاْع َظُم‬
‫ٔاْج ًر ا؟ َقاَل ‪َٔ :‬اْک َثُر ُهْم ِ ِهلل َتَب اَرَک َو َتَع اَلی ِذ ْک ًر ا۔ ُثَّم َذ َک َر َلَن ا الَّص اَل َة َو الَّزَک اَة َو اْلَح َّج‬
‫َو الَّص َد َقَة ُک ُّل َذ ِلَک َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ َیُقْو ُل ‪َٔ :‬اْک َثُر ُهْم ِ ِهلل َتَباَرَک َو َتَعاَلی ِذ ْک ًر ا۔ َفَقاَل َٔاُبْو‬
‫َبْک ٍر ِلُعَم َر رضي هللا عنهما ‪َ :‬یا َٔاَبا َح ْفٍص‪َ ،‬ذ َهَب الَّذ اِکُر ْو َن ِبُک ِّل َخ ْيٍر‪َ ،‬فَقاَل َر ُس ْو ُل‬
‫ِهللا ﷺ ‪َٔ :‬اَج ْل ۔ َر َو اُه َٔاْح َم ُد َو الَّطَبَر اِنُّي ۔‬
‫ت‪qq‬رجمہ‪’’ :‬حض‪ii‬رت مع‪ii‬اذ رض‪ii‬ی ہللا عنہ س‪ii‬ے روایت ہے کہ ای‪ii‬ک آدمی نے‬
‫حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ‪ :‬کون سے مجاہد کا ثواب زیادہ ہے؟ آپ‬
‫ﷺ نے فرمایا ‪ُ :‬ان میں سے جو ہللا تبارک و تعالٰی کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔‬
‫اس نے دوبارہ عرض کیا ‪ :‬روزہ داروں میں سے کس کا ث‪i‬واب زی‪i‬ادہ ہے؟ آپ‬
‫ﷺ نے فرمایا ‪ُ :‬ان میں سے جو ہللا تبارک و تعالٰی کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔‬
‫پھر ُاس نے ہمارے لیے نماز‪ ،‬زکٰو ۃ‪ ،‬حج اور صدقے کا ذکر کیا۔ حض‪ii‬ور ن‪ii‬بی‬
‫اکرم ﷺ ہر بار فرماتے رہے ‪ :‬جو ُان میں سے ہللا تبارک و تعالٰی کا ذکر‬
‫زیادہ کرتا ہے۔ حضرت اب‪i‬و بک‪i‬ر رض‪i‬ی ہللا عنہ نے حض‪i‬رت عم‪i‬ر رض‪i‬ی ہللا‬
‫عنہ سے کہا ‪ :‬اے ابو حفص! ہللا تع‪ii‬الٰی ک‪ii‬ا ذک‪ii‬ر ک‪ii‬رنے والے تم‪ii‬ام نیکی‪ii‬اں لے‬
‫گئے‪ ،‬رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ‪ :‬بالکل(درست ہے)۔‘‘‬

‫‪19 | P a g e‬‬
‫‪9‬۔ َعْن َٔاِبي اْلَج ْو َز اِء رضي هللا عن‪qq‬ه َق اَل ‪َ :‬ق اَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ ‪َٔ :‬اْک ِث ُر ْو ا ِذ ْک َر ِهللا‬
‫َح َّتی َیُقْو َل اْلُم َناِفُقْو َن ‪ِ :‬إَّنُک ْم ُم َر اُؤ ْو َن ۔ َر َو اُه اْلَبْيَهِقُّي ۔‬
‫ت‪qq‬رجمہ‪’’ :‬حض‪ii‬رت اب‪ii‬و ج‪ii‬وزا رض‪ii‬ی ہللا عنہ س‪ii‬ے روایت ہے کہ حض‪ii‬ورنبی‬
‫اکرم ﷺ نے فرمایا ‪ :‬ہللا کا ذکر اتنی کثرت سے کیا ک‪ii‬رو کہ من‪ii‬افق تمہیں‬
‫ریاکار کہیں۔‘‘‬

‫‪10‬۔ َعْن ُم َعاِذ ْبِن َج َبٍل رضي هللا عنه َقاَل ‪ِ :‬إَّن آِخ َر َک ـاَل ٍم َفاَر ْقُت َع َلْيِه َر ُس ْو َل ِهللا‬
‫ﷺ َٔاْن ُقْلُت ‪َٔ :‬اُّي أَاْلْع َم اِل َٔاَح ُّب ِإَلی ِهللا؟ َقاَل ‪َٔ :‬اْن َتُم ْو َت َو ِلَس اُنَک َر ْط ٌب ِم ْن ِذ ْک ِر‬
‫ِهللا۔ َر َو اُه اْبُن ِح َّباَن َو الَّطَبَر اِنُّي َو الَّلْفُظ َلُه۔‬
‫ت‪qq‬رجمہ‪’’ :‬حضرت مع‪ii‬اذ بن جب‪ii‬ل رض‪ii‬ی ہللا عنہ نے بی‪ii‬ان کی‪ii‬ا ہے کہ میں نے‬
‫حضور نبی اکرم ﷺ سے جدا ہوتے ہوئے جو آخری ب‪i‬ات کی وہ یہ تھی ‪:‬‬
‫میں نے عرض کیا ‪ :‬ہللا تعالٰی کو کون سا عمل س‪ii‬ب س‪ii‬ے زی‪ii‬ادہ پس‪ii‬ند ہے؟ آپ‬
‫ﷺ نے فرمایا ‪ :‬سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ جب توفوت ہو تو‬
‫تیری زبان ہللا کے ذکر سے تر ہو۔‘‘‬

‫‪11‬۔ َعْن َٔاِبي َسِع ْيٍد اْلُخ ْد ِرِّي رض‪qq‬ي هللا عن‪qq‬ه َٔاَّن َر ُس ْو َل ِهللا ﷺ َق اَل ‪َ :‬لَی ْذ ُک َر َّن َهللا‬
‫َقْو ٌم ِفي الُّد ْنَیا َع َلی اْلُفُر ِش اْلُمَم َّهَد ِة ُیْد ِخ ُلُهُم الَّد َرَج اِت اْلُعَلی۔ َر َو اُه اْبُن ِح َّب اَن َو َٔاُب ْو‬
‫َیْع َلی۔‬
‫ترجمہ‪’’ :‬حضرت ابو سعید خدری رض‪i‬ی ہللا عنہ س‪i‬ے روایت ہے کہ حض‪i‬ور‬
‫نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ‪ :‬کچھ لوگ دنی‪ii‬ا میں بچھے ہ‪ii‬وئے پلنگ‪ii‬وں پ‪ii‬ر ہللا‬
‫تعالٰی کا ذکر کریں گے اور وہ انہیں (جنت کے) بلند درجات میں داخل کر دے‬
‫گا۔‘‘ اسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔‬

‫‪20 | P a g e‬‬
‫َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ ‪ِ :‬إَّن الَّش ْيَطاَن َو اِض ٌع‬ ‫‪12‬۔ َعْن َٔاَنِس ْبِن ماِلٍک رضي هللا عنه َقاَل‬
‫َو ِإْن َنِس َي اْلَتَقَم َقْلَبُه َفَذ ِلَک اْلَو ْس َو اُس‬ ‫ُخ ُطَم ُه َع َلی َقْلِب اْبِن آَد َم َفإْن َذ َک َر َهللا َخ َنَس‬
‫اْلَخ َّناُس ۔‬
‫’’حضرت انس رضی ہللا عنہ س‪ii‬ے روایت ہے کہ حض‪ii‬ور ن‪ii‬بی اک‪ii‬رم ﷺ‬
‫نے فرمایا ‪ :‬شیطان نے ابن آدم کے دل پر اپ‪ii‬نی رس‪ii‬یاں ڈالی ہ‪ii‬وئی ہیں۔ اگ‪ii‬ر وہ‬
‫ہللا تعالٰی کا ذکر کرے تو وہ بھاگ جاتا ہے اور اگر وہ بھ‪ii‬ول ج‪ii‬ائے ت‪ii‬و وہ ُاس‬
‫کے دل میں داخل ہو جاتا ہے اور یہی وسوسہ ڈالنے واال خناس ہے۔‘‘‬
‫‪13‬۔ َعْن ُٔاِّم َٔاَنٍس رضي هللا عنها َٔاَّنَها َقاَلْت ‪َ :‬یا َر ُس ْو َل ِهللا‪َٔ ،‬اْو ِص ِني۔ َقاَل ‪ :‬اْه ُج ِري‬
‫اْلَم َعاِص ي َفِإَّنَها َٔاْفَض ُل اْلِهْج َر ِة َو َح اِفِظ ي َع َلی اْلَفَر اِئِض َفِإَّنَها َٔاْفَض ُل اْلِج َهاِد َو َٔاْک ِثِري‬
‫ِذ ْک َر ِهللا َفِإَّنِک اَل َتْٔاِتْيَن َهللا ِبَش ْيٍئ َٔاَح َّب ِإَلْيِه ِم ْن َک ْثَر ِة ِذ ْک ِر ِه۔َر َو اُه الَّطَب َر اِنُّي ِبِإْس َناٍد‬
‫َج ِّيٍد ۔‬
‫ترجمہ‪’’ :‬حضرت ُام انس رضی ہللا عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور‬
‫نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی‪ii‬ا ‪ :‬ی‪ii‬ا رس‪ii‬ول ہللا! آپ مجھے ک‪ii‬وئی‬
‫وصیت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ‪ :‬گن‪ii‬اہوں ک‪ii‬و چھ‪ii‬وڑ دے یہ س‪ii‬ب س‪ii‬ے‬
‫افضل ہجرت ہے اور فرائض کی پابندی کر یہ سب سے افضل جہاد ہے۔ زیادہ‬
‫سے زیادہ ہللا تعالٰی کا ذک‪ii‬ر ک‪ii‬ر۔ تم ہللا تع‪ii‬الٰی کی بارگ‪ii‬اہ میں ک‪ii‬ثرِت ذک‪ii‬ر س‪ii‬ے‬
‫زیادہ پسندیدہ کوئی چیز پیش نہیں کر سکتیں۔‘‘‬

‫‪14‬۔ َع ِن اْبِن َع َّباٍس رضي هللا عنهما َقاَل ‪َ :‬ق اَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ ‪َ :‬م ْن َع َج َز ِم ْنُک ْم‬
‫َع ِن الَّلْيِل َٔاْن ُیَک اِبَد ُه َو َبِخ َل ِباْلَم اِل َٔاْن ُیْنِفَق ُه َو َج ُبَن َع ِن اْلَع ُد ِّو َٔاْن ُیَج اِه َد ُه َفْلُیْک ِث ْر‬
‫ِذ ْک َر ِهللا۔ َر َو اُه الَّطَبَر اِنُّی َو َعْبُد ْبُن ُح َم ْيٍد َو الَّلْفُظ َلُه۔‬

‫‪21 | P a g e‬‬
‫ت‪qq‬رجمہ‪’’ :‬حض‪ii‬رت عب‪ii‬د ہللا بن عب‪ii‬اس رض‪ii‬ی ہللا عنہم‪ii‬ا س‪ii‬ے روایت ہے کہ‬
‫حض‪ii‬ور ن‪ii‬بی اک‪ii‬رم ﷺ نے فرمای‪ii‬ا ‪ :‬تم میں س‪ii‬ے ج‪ii‬و ش‪ii‬خص پ‪ii‬وری رات‬
‫(عبادت کرنے کی) مشقت س‪i‬ے ع‪i‬اجز ہے‪ ،‬دولت خ‪ii‬رچ ک‪i‬رنے میں بخی‪i‬ل ہے‬
‫اور دشمن کے ساتھ جہاد کرنے میں بزدل ہے‪ُ ،‬اسے زیادہ سے زیادہ ہللا تعالٰی‬
‫کا ذکر کرنا چاہیے۔‘‘‬
‫اسے امام طبرانی اور عبد بن حمید نے روایت کی‪ii‬ا ہے۔ م‪ii‬ذکورہ الف‪ii‬اظ عب‪ii‬د بن‬
‫حمید کے ہیں۔‬
‫‪15‬۔ َعْن َٔاِبي ُم ْو َس ی رض‪q‬ي هللا عن‪q‬ه َق اَل ‪َ :‬ق اَل َر ُس ْو ُل ِهللا ﷺ ‪َ :‬ل ْو َٔاَّن َرُج اًل ِفي‬
‫ِح ْج ِر ِه َد َر اِهُم َیْقِس ُم َها َو آَخ ُر َیْذ ُک ُر َهللا َک اَن الَّذ اِکُر ِ ِهّٰلل َٔاْفَض َل ۔ َر َو اُه الَّطَب َر اِنُّي ِبِإْس َناٍد‬
‫َح َس ٍن ۔‬
‫ت‪qq‬رجمہ‪’’ :‬حض‪ii‬رت اب‪ii‬و موس‪ٰii‬ی اش‪ii‬عری رض‪ii‬ی ہللا عنہ س‪ii‬ے روایت ہے کہ‬
‫حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ‪ :‬اگر ای‪ii‬ک آدمی کے دامن میں درہم ہ‪ii‬وں‬
‫اور وہ ِانہیں تقسیم کر رہا ہو اور دوسرا ہللا کا ذک‪i‬ر ک‪i‬ر رہ‪i‬ا ہ‪i‬و ت‪i‬و (ُان دون‪i‬وں‬
‫میں) ہللا کا ذکر کرنے واال افضل ہو گا۔‘‘ اسے امام طبرانی نے سنِد حسن کے‬
‫ساتھ ذکر کیا ہے۔‬

‫‪16‬۔ َعْن َٔاِبي اْلُم َخ اِرِق‪َ ،‬قاَل ‪َ :‬قاَل الَّنِبُّي ﷺ ‪َ :‬م َر ْر ُت َلْيَلَة ُٔاْس ِرَي ِبي ِبَر ُج ٍل ُم َغَّيٍب‬
‫ِفي ُنْو ِر اْلَعْر ِش‪ُ ،‬قْلُت ‪َ :‬م ْن َهَذ ا؟ َم َلٌک ؟ ِقْيَل ‪ :‬اَل ۔ ُقْلُت ‪َ :‬نِبٌّي ؟ ِقْي َل ‪ :‬اَل ‪ُ ،‬قْلُت ‪َ :‬م ْن‬
‫ُهَو ؟ َقاَل ‪َ :‬هَذ ا َرُج ٌل َک اَن ِفي الُّد ْنَیا ِلَس اُنُه َر ْطًبا ِم ْن ِذ ْک ِر ِهللا َو َقْلُبُه ُم َعَّلًق ا ِباْلَم َس اِج ِد‬
‫َو َلْم َیْس َتِسَّب ِلَو اِلَدْيِه َقُّط۔‬

‫‪22 | P a g e‬‬
‫ترجمہ‪’’ :‬حضرت ابو المخارق نے بیان کیا ہے کہ حضور ن‪ii‬بی اک‪ii‬رم ﷺ‬
‫نے فرمایا ‪ :‬معراج کی رات میں ایک آدمی کے پاس سے گزرا۔ وہ ع‪ii‬رش کے‬
‫نور میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا ‪ :‬یہ کون ہے؟ کیا یہ فرشتہ ہے؟ کہا گی‪ii‬ا ‪:‬‬
‫نہیں۔ میں نے پوچھا ‪ :‬کیا یہ کوئی نبی ہے؟ جواب مال ‪ :‬نہیں۔ میں نے پوچھ‪ii‬ا ‪:‬‬
‫یہ کون ہے؟ (کہنے والے نے) کہا ‪ :‬یہ وہ آدمی ہے جس کی زبان دنی‪ii‬ا میں ہللا‬
‫کے ذکر سے تر رہتی تھی اور اس کا دل مسجد میں معلق رہتا تھا اور اس نے‬
‫کبھی اپنے والدین کو گالی نہیں دلوائی۔‘‘‬

‫حاصل کالم‬
‫خدا کے ذکر اور یاد روح و اخالق کے لئے کافی اثرات رکھ‪ii‬تے ہیں‪ ،‬جن میں‬
‫خدا کے بندہ کو یاد کرنا‪ ،‬دل کی نورانیت‪ ،‬سکون قلب‪ { ،‬خدا کی نافرمانی} کا‬
‫خوف‪ ،‬گناھوں کی بخشش اور علم و حکمت قابل ذکر ہیں‪ -‬ع‪ii‬ام ط‪ii‬ور پ‪ii‬ر ذک‪ii‬ر‬
‫کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے‪ :‬ذکر قلبی اور ذکر لس‪ii‬ان‪ ،‬ذک‪ii‬ر لس‪ii‬ان ک‪ii‬و‬
‫ورد بھی کہا جاتا ہے‪ -‬ذکر‪ ،‬اپنے حقیقی معنی میں یاد کرنا ہے اور اس نظ‪ii‬ریہ‬
‫کے مطابق ہر مخلوق اپنے وجودی مرتبہ کے لحاظ سے ایک خ‪ii‬اص مق‪ii‬ام پ‪ii‬ر‬
‫خدا کو یاد کرتی ہے اور ہر انسان بھی اپنے معب‪ii‬ود کے ب‪ii‬ارے میں آگ‪ii‬اہی کے‬
‫ایک خاص مرتبہ پر قرار پاتا ہے یا اپنی حقیقی شناخت کے بارے میں نس‪ii‬یان‬
‫سے دوچار ھوتا ہے‪ ،‬اسی لحاظ سے انسان کامل خداوند متعال کی یاد کا تجسم‬
‫اور عروج ھوتا ہے‪ ،‬جیس‪ii‬ا کہ پیغم‪ii‬بر اس‪ii‬الم کے ن‪ii‬اموں میں س‪ii‬ے ای‪ii‬ک ن‪ii‬ام "‬
‫ذکر" ہے‪-‬‬
‫ورد یا ذک‪ii‬ر لس‪ii‬ان ک‪ii‬و بھی ش‪ii‬ریعت و عرف‪ii‬ان میں خ‪ii‬اص اہمیت ہے‪ ،‬اس ک‪ii‬ا‬
‫مقصد انسان کا خدا کی طرف ت‪ii‬وجہ کرن‪ii‬ا اور خ‪ii‬دا کی ی‪ii‬اد س‪ii‬ے قلب ک‪ii‬و زن‪ii‬دہ‬
‫کرنا ہے تاکہ اس ذک‪i‬ر اور مسلس‪i‬ل ی‪i‬اد کی روش‪i‬نی میں ذاک‪i‬ر اور م‪i‬ذکور کے‬
‫درمیان پردے ہٹائے جائیں‪ -‬اسی لح‪ii‬اظ س‪ii‬ے عرف‪ii‬ان میں اذک‪ii‬ار ک‪ii‬ا ط‪ii‬ریقہ اس‬
‫عظیم مقصد تک پہنچ‪i‬نے ک‪i‬ا ای‪i‬ک مق‪i‬دمہ ش‪i‬مار ھوت‪i‬ا ہے ج‪i‬و ع‪i‬والم ک‪i‬ثرت و‬
‫ظلمت کے پردوں کو ہٹانے کے ل‪i‬ئے س‪i‬الک کے وج‪i‬ود میں ض‪i‬روری ق‪i‬ابلیت‬
‫پیدا کرتا ہے‪-‬‬

‫‪23 | P a g e‬‬
‫۔‬

‫حوالہ جات‬
‫تهران‪،‬‬ ‫‪1‬۔ سعیدی‪ ،‬گل بابا‪ ،‬فرهنگ اصطالحات ابن عربی‪ ،‬ص ‪ ،228‬انتشارات شفیعی‪ ،‬طبع دوم‪،‬‬
‫‪2‬۔ سجادی‪ ،‬سید جعف‪66‬ر‪ ،‬فرهن‪66‬گ اص‪66‬طالحات عرف‪66‬انی‪ ،‬ص ‪ ،402‬انتش‪66‬ارات طه‪66‬وری‪،‬طب‪66‬ع چه‪66‬ارم‪،‬‬
‫تهران‪،‬‬
‫‪3‬۔ طالق‪ 10 ،‬و ‪.11‬‬
‫‪4‬۔ حجر‪.9 ،‬‬
‫‪5‬۔امام خمینی‪ ،‬شرح چهل حدیث‪ ،‬ص ‪ ،293 -292‬مؤسس‪66‬ه نش‪66‬ر آث‪66‬ار ام‪66‬ام خمی‪66‬نی‪ ،‬ته‪66‬ران‪ ،‬طب‪66‬ع‬
‫و هشتم‪،‬‬ ‫بیست‬
‫‪6‬۔ غزالی‪ ،‬کیمیای سعادت‪ ،‬ج‪ ،1‬ص‪ ،254‬انتشارات علمی و فرهنگی‪ ،‬تهران‪ ،‬طبع هفتم‪.1375 ،‬‬
‫بقره‪.152 ،‬‬
‫‪8‬۔ نهجالبالغه‪ ،‬نامه ‪.31‬‬
‫‪9‬۔ ایضا‪ ،‬خ ‪.222‬‬
‫‪10‬۔ رعد‪.28 ،‬‬
‫‪11‬۔ طه‪.14 ،‬‬
‫‪12‬۔ انفال‪.2 ،‬‬
‫‪13‬۔ احزاب‪.35 ،‬‬
‫‪14‬۔ نهج البالغة‪ ،‬خ ‪.222‬‬
‫حشر ‪1 ،‬‬ ‫‪15‬۔‬

‫( فضائل ذکر ۔ص)‪16‬‬ ‫۔‬

‫[ رواہ الترمذی ‪ :‬باب ماجاء فی فضل الذکر]‬ ‫‪17‬۔‬


‫فانى اوصيك بتقوى هللا ‪ -‬اى بنى‪ -‬و لزوم امره و عمارة قلبك بذكره‬ ‫‪18‬۔‬
‫‪19‬۔ [بخاری‪ ،‬الصحيح‪ ،‬کتاب التوحيد‪ ،‬باب قول اﷲ تعالٰی ويحّذ رکم اﷲ نفسه‬
‫‪20‬۔ [البقره‪]152 : 2 ،‬‬

‫‪24 | P a g e‬‬
25 | P a g e

You might also like