You are on page 1of 11

‫ن‬

‫‪ :‬ع وان ‪QURANIC SCIENCES‬‬


‫تق‬ ‫ت ع تف‬ ‫ن‬ ‫ئن‬
‫ہ‬
‫گروپ اسا م ٹ ‪600:‬سے‪ 799‬ج ری ک لم سی ر کا ار اء‬

‫ٹ‬ ‫ن‬
‫ڈاک ر ع ب دالرحمان‬ ‫گران‪:‬‬

‫ت‬
‫ن‬ ‫غ‬ ‫ئ ض‬ ‫ق ن‬
‫عا ش ہ ی اء‪،‬دمحم ص ی ر‪،‬زاہ د سم‪،‬دمحمج ی د‬
‫ب‬ ‫م الہ گار‪:‬‬

‫شعبہ‪ :‬علوم اسالمیہ‬


‫یونیورسٹی آف سیالکوٹ‬
‫ش‬
‫‪2021-‬‬ ‫سی ن‪2023‬‬

‫انسان کی زندگی میں تحقیق بہت اہمیت کا حامل ہے تحقیق ہی سے انسان کی نہ صرف ہر ضرورت‬
‫پوری ہوتی ہے بلکہ زندگی میں بہت سارے آسانیاں پیدا ہوتی ہے اور نئے راستے کھل جاتے ہیں۔‬
‫گذشتہ زمانے میں موجود سختیاں اور مشکالت تحقیق کے فقدان کی وجہ سے تھی۔‬
‫دور حاضر کا انسان بشر تدبر ‪ ،‬تفکر اور تحقیقات کے نتیجے میں مادی زندگی میں کافی ترقی کرچکا‬
‫ہے۔‬
‫تحقیق کا مطلب کسی موضوع پر صحیح معنوں میں غور و فکر کرنا‪ ،‬اس کے تمام جوانب کی جانچ‬
‫پڑتال اور اس میں موجود مخفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے ۔‬
‫‪According to J.Francis Rommel‬‬
‫‪Research is an endeavor/attempt to discover develop and verify knowledge .It is an intellectual‬‬
‫‪process that has developed over hundreds of year ever changing in purpose and form and‬‬
‫‪always researching to truth .1‬‬
‫‪John.w.best‬‬
‫‪Research is considered to be the more formal systematic Intensive process of carrying on the‬‬
‫‪scientific method of analysis .It involves a more systematic structure of Investigation usually‬‬
‫‪resulting in some short of formal record of of procedures and a report of results or conclusion .‬‬

‫قرآن انسان کو تحقیق کرنے کی طرف ترغیب دیتا ہے اور اس بات کا پابند بناتاہے کہ وہ سچائی اور‬
‫حقیقت کی پیروی کرے۔ یہ صرف تحقیق سے ہی ممکن ہے۔ جو کائنات کے رازوں واسرار سے پردہ‬
‫اٹھاتی ہے۔ اس لیے اسالم میں عقائدو اصول دین کی قبولیت تحقیق پر مبنی ہے ورنہ تحقیق کے بغیر‬
‫انسان کا ایمان ناقص ہے اور کسی بھی عمل سے پہلے تحقیق ضروری ہے۔‬
‫تحقیق‪،‬تعقل( عقل سے کام لینا)‪ ،‬تدبر( ہر چیز میں غور و فکر کرنا)اور تفکر( انسان کا ذہن اور دماغ‬
‫سے کام لینا) کا مجموعہ ہے۔قرآن کریم میں تعقل‪ ،‬تدبر اور تفکر کی طرف انسانوں کو نہ صرف‬
‫ترغیب دالیا ہے بلکہ ان کاحکم دیا ہے اور تعقل و تدبر نہ کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔‬
‫تحقیق کا پہال قدم‬
‫تحقیق کا اولین مرحلہ علم ہے جس کے پاس علم نہ ہو وہ تحقیقی میدان میں قدم نہیں رکھ سکتا۔تحقیق‬
‫کے لئے علم کا ہونا ضروری ہے۔‬
‫ُقْل َهْل یْس َتِوی اَّلِذ یَن یْع َلُم وَن َو اَّلِذ یَن ال یْع َلُم وَن ِاَّنَم ا َیَتَذ َّک ُر ُاوُلوا الَۡا ۡلَباِب ۔کہدیجئے‪ :‬کیا جاننے والے اور نہ‬
‫جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔‬
‫تحقیق کا دوسرا قدم‬
‫تحقیق کا دوسرا قدم تدبر ہے جس کا مطلب کسی چیز کے پوشیدہ پہلو میں غور کرنا ہے تاکہ اس کے‬
‫باطن سے واقف ہوسکے ۔‬
‫‪َ -۱‬أَفاَل َيَتَدَّبُروَن اْلُقْر آَن َو َلْو َك اَن ِم ْن ِع ْنِد َغ ْيِر ِهَّللا َلَو َج ُدوا ِفيِه اْخ ِتاَل ًفا َك ِثيًر ا» [النساء‪.]82 /‬۔‬
‫کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ ہللا کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ‬
‫اس میں بڑا اختالف پاتے۔‬
‫تحقیق کا تیسرا قدم‬
‫تحقیق کا تیسرا مرحلہ تعقل ہے اس کا مطلب مختلف چیزوں کو سمجھنے اور ان کو اپنی دنیوی اور‬
‫اخروی زندگی کو سنوارنے کے لئے استعمال کرنے کی خاطر عقل سے کام لینا‪-‬‬
‫ِإَّن َش َّر الَّد َو اِّب ِع ْنَد ِهَّللا الُّص ُّم اْلُبْک ُم اَّلذیَن ال َیْعِقُلوَن »‬
‫تحقیق کا چوتھا قدم‬
‫حصول علم‪ ،‬تدبر اور تعقل کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج پر خود عمل کرنے کے بعد‬
‫دوسروں تک پہنچانے کی خاطر ان کو قلم بند کرنا اور تحریری شکل میں النا ہے ۔‬
‫رسول اکرم ص کا فرمان ہے کہ ‪:‬‬
‫ہللا تعالی نے قلم کی عظمت کو بیان کرنے کی خاطر قلم کے ساتھ قسم کھائی ہے۔‬

‫اقسام تحقیق بلحاظ منہج‬


‫‪ 1‬منہج کا کیا مطلب ہے؟‬
‫منہج کا مطلب ہے وہ راستہ‪ ،‬وہ طریقہ جس سے دین اسالم کو سمجھا جائے۔ ہللا تعالی نے قرآن میں‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫َو َم ن ُيَش اِقِق الَّرُسوَل ِم ن َبْع ِد َم ا َتَبَّيَن َلُه اْلُهَد ٰى َو َيَّتِبْع َغْيَر َس ِبيِل اْلُم ْؤ ِمِنيَن ُنَو ِّلِه َم ا َتَو َّلٰى َو ُنْص ِلِه َج َهَّنَم ۖ َو َس اَء ْت‬
‫َم ِص يًرا‬
‫ترجمہ‪ :‬جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی ہللا علیہ وسلم) کا‬
‫خالف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے‪ ،‬ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود‬
‫متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے‪ ،‬وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے‬
‫(سورۃ النساء ‪ 4‬آیت‪)115 :‬‬
‫گویا منہج عام ہوتا ہے۔ یعنی َس ِبيِل اْلُم ْؤ ِمِنيَن یا مؤمنین کا راستہ ہوتا ہے‪ ،‬منہج زندگی کے ہر پہلو میں‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬یعنی عقیدہ میں‪ ،‬سلوک میں‪ ،‬اخالق و معامالت میں‪ ،‬عبادات میں وغیرہ۔‬
‫نہج کا لغوی معنٰی ‪:‬‬
‫منہج عربی زبان میں ایسے راستے کے لئے بوال جاتا ہے جس کے اندر تین خصوصیات پائی جائیں۔‬
‫وضاحت‬ ‫‪۱‬‬
‫‪ 2‬ظہور‬
‫‪3‬سیدھا ہونا ۔‬
‫اسی سے ایک دوسرا لفظ ’’منہاج ‘‘ اسی معنی کے لئے ٓاتا ہے جس کو قرٓان نے بھی استعمال کیا ہے ۔‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫{ ِلُك ٍّل َج َع ْلَنا ِم نُك ْم ِش ْر َع ًة َّو ِم ْنَهاًجا } (المائدہ‪)۴۸:‬‬
‫ابن عباس رضی ہللا عنہ نے اس ٓایت میں منہاج کی تفسیر ’’سبیل اور سنۃ‘‘ سے کی ہے ۔اور سبیل و‬
‫سنۃ دونوں کا معنی راستہ ہوتا ہے۔‬
‫منہج کی اصطالحی تعریف‪:‬‬
‫منہج دراصل ایسے قواعد کو کہتے ہیں جو علمی مطالعہ کی کسی بھی محنت کو محکم کر دیتے ہیں ۔‬
‫مثًال ‪ :‬عربی زبان کے قواعد ‪ ،‬تفسیر ‪ ،‬فقہ اور عقیدہ کے اصول منہج کہالئیں گے ۔ اس کی جو یہ ہے‬
‫کہ یہ علوم اسالم کا مطالعہ اور اسالم کے اصولوں کو منضبط اور مرتب کردیتے ہیں۔‬
‫(منھج االستدالل ‪)۲۰:‬‬
‫تعریف کی تشریح‪:‬‬
‫منہج ایک طرح سے کسی بھی چیز کے اصول و ضوابط کا نام ہے اگر اسالم کے مطالعہ میں عربی‬
‫زبان کے قواعد تفسیر ‪ ،‬فقہ ‪،‬حدیث وغیرہ کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا‬
‫ہے کہ اسالم کے مطالعے میں اسالم کا منہج بھی پیش نظر رہا ہے ۔‬
‫منہج کی اہمیت‪ :‬منہج کی اہمیت کو درجہ ذیل نکات سے سمجھا اور جانا جا سکتا ہے ‪:‬‬
‫‪۱‬۔منہج اول تو علم کی حفاظت کرتا ہے اور اس سے ٓاگے کی بات یہ ہے کہ منہج کے ذریعہ علم کا‬
‫نظام درست ہونے کے ساتھ اس کا میدان کشادہ ہو جاتا ہے ۔ اور اہل علم سطحیت سے نکل کر ایک‬
‫معیار پا لیتے ہیں ۔‬
‫‪۲‬۔ منہج انسانی عقل اور ذہن سے تعلق رکھنے والے امور کو طے شدہ اصولوں کا پابند بناتا ہے اس کا‬
‫نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ مطلوب موضوعات کی حقیقت تک رسائی ہو جاتی ہے۔‬
‫‪۳‬۔منہج انسانی فکر کو ایک محور پرمرکوز کر دیتا ہے یوں انسانی فکرکسی بھی شٔے کو مکمل شرح و‬
‫بسط ‪ ،‬نئے تسلسل اور نمایاں اسلوب میں بیان کرنے کی پابند ہوجاتی ہے ۔‬
‫منہج کی اقسام‪:‬‬
‫اب تک ہم نے یہ جان لیا کہ منہج وہ عمل ہے جو کسی کام کا راستہ زاویہ اور اسلوب بتالتا ہے ۔ اس‬
‫لحاظ سے دیکھا جائے تو منہج کی کئی اقسام بھی ہیں یہاں بعض قسموں کا اجمالی ذکر کیا جارہا ہے ۔‬
‫اقسام ؛‬ ‫منہج کی‬
‫منہج کی اقسام میں سے مطلوبہ اقسام کو پیش کیا جاتا ہے۔‬

‫سماجی منہج‬
‫سماج سنسکرت الفاظ سم اور آج سے مل کر بنا ہے سم کے معنی اکٹھا کرنا اور آج کے معنی متحد‬
‫رہنے کے ہیں۔‬
‫‪ACCODING TO P.V. Younge‬‬

‫‪Social research may be defined as a scientific undertaking which by means of‬‬


‫‪logical and systematize techniques aims discover new facts or verify and test old‬‬
‫‪facts, analyze, their sequence interrelationships and casual explanation which were‬‬
‫‪drive within a appropriate theoretical frame of reference, develops new scientific‬‬
‫‪tools concepts and theories which would facilitate reliable and valid study of‬‬
‫‪human behavior‬‬
‫کتاب ؛تحفظ سماج‪ :‬مصنف بشرٰی نوشین‬

‫اس میں دو اشیاء کا آپس میں موازنہ کیا جاتا ہے ایسا طریقہ کار جس میں محقق علوم‬ ‫تقابلی منہج‬
‫انسانیہ میں مقارنہ و موازنہ کرتا ہے یہ مقارنہ ایک علم کے مثبت یا منفی پہلو کے مابین بھی ہو سکتا‬
‫ہے یا مختلف علوم کے مابین بھی۔ تقابلی مطالعہ ہو یا موازنہ غیر جانبدارانہ رویہ الزمی ہے اگر‬
‫رجحانات اور خواہشات سے مبرا ہوکر تقابلی مطالعہ اور تجزیہ نہ کیا جائے تو جو بھی رائے قائم کی‬
‫جائے اور جو بھی نتائج اخذ کئے جائیں وہ بہرحال یک طرفہ اور جانبدارانہ ہوں گے اور اسے تقابل‬
‫اور موازنہ کا فن اور اس کی روح مجروح ہوں گیں۔‬

‫کتاب ؛تقابل ادیان موالنا یوسف خان صاحب‬


‫زیر نظر کتاب میں بے جا تفصیل اور حد سے زیادہ اختصار سے کام کیے بغیر بنیادی اور اہم مذاہب‬
‫سے متعلق مفید مواد جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ذکر کرنے کے بعد اس مذہب کے اہم امور‬
‫کا اسالم کے ساتھ تقابلی تبصرہ بھی پیش کیا گیا ہے لیکن اس میں تمام جزئیات کا احاطہ کرنے کی‬
‫کوشش نہیں کی گئی بلکہ بطورنمونہ صرف چند امور کے تقابل پر اتفاق کیا گیا ہے جس پر آپ کے‬
‫دیگر مذاہب اور اسالم کے مطالعہ کے بعد پیش کر سکتے ہیں‬

‫منہج سے مراد ایسا منہج جس میں منتخب کردہ موضوع کو خاص زمانہ یا عرصہ تک‬ ‫تاریخی‬
‫محدود کیا جاتا ہے اس تحقیقی مطالعہ میں کسی متعین چیز حالت ادارے یا زندگی کے کسی شعبہ کو‬
‫تاریخی اعتبار سے جانچتا ہے۔ تاریخی لغت کی کتابوں میں تاریخ کے معنی وقت کے تعین کے ہیں‬
‫کسی ایسے قدیم اور مشہور واقعہ کی مدت ابتدا معین کرنا جو عہِد گزشتہ میں رونما ہوا ہو اور دوسرا‬
‫واقعہ اس کے بعد ظہور پذیر ہو اس میں کسی انسانی خبر یا منقولہ کی صحت اور عدم صحت معلوم‬
‫کی جاتی ہے وہ صاحب شریعت کا ہو یا کسی انسان کی طرف منسوب ہو یہ منہج اقوال کو پرکھنے کی‬
‫کسوٹی ہے اور اس کی روشنی میں اس کی تصدیق یا تردید کی جاتی ہے‬
‫کتاب ؛ایوبی کی یلغاریں مصنف محمد طاہر نقاش‬
‫اسالمی تاریخ میں جو شخصیات مسلمانوں کے لئے سرمایہ افتخار کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں ایک‬
‫نمایاں نام سلطان یوسف المعروف صالح الدین ایوبی کا ہے جنہوں نے اپنی بے مثال شجاعت اور جرات‬
‫اور استقالل سے قبلہ اول فلسطین کو صلیبیوں کے پنجے سے آزاد کروایا یا ہللا ایوبی کی پوری زندگی‬
‫ان کے دلیر اور بہادر کاموں سے بڑی ہے ہے نے ہمیشہ ملت کے دفاع کا اور اسالم کی سربلندی کے‬
‫لیے اپنی شمشیر کو بے نیام کرتے ہوئے میدان قتال میں داد شجاعت دی ہے زیر نظر کتاب میں ان کی‬
‫زندگی کے آخری ‪ 6‬سالوں کے مختلف واقعات کو جمع کیا گیا ہیں جو سلطان کی حیات کی سب سے‬
‫قیمتی اور یادگار ایام ہے۔‬

‫منہج ‪:‬تجزیادتی منہج سے مراد خاص نمونوں کو متعین زاویوں سے پرکھنا اس نہج پر‬ ‫تجزیاتی‬
‫کی جانے والی تحقیق میں کسی چیز کی کیفیت صورتحال اس کے مثبت و منفی اچھے برےپہلو اور اس‬
‫تحقیق کے مقاصد کے حوالے سے گہرا مشاہدہ کیا جاتا ہے بعد ازاں اس تجزیے کی بنیاد پر بہتری کی‬
‫تجاویز پیش کی جاتی ہیں اور اس طرح کی تحقیق عموما ایسے شعبوں میں کی جاتی ہے جس کا تعلق‬
‫انسانی زندگی کے ساتھ ہو مثال تعلیم و تربیت معشیت وتجارت ۔سب سے پہلےاس منهج تحقیق کی‬
‫معلومات اکٹھی کی جاتی ہے اور پھر خاکہ تحقیق میں کی شدہ اسلوب کے مطابق ان معامالت کا تحقیقی‬
‫و تجزیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے اور آخر میں نتائج تحقیق مرتب کر دیئے جاتے ہیں ہیں‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت ت ن‬
‫کتاب ؛ ج زی ا ی م ہج رج مان ال رآن‪:‬‬
‫مصنف پروفیسر خورشید احمد‬

‫تنقیدی منہج ؛‬
‫لفظی معنی؛ پرکھ چھان بین کھوٹا کھڑا جانچنا لفظ تنقیداصل میں نقد سے نکال ہے گزشتہ زمانے میں‬
‫رقم مال دینار سکوں کو پرکھا جاتا تھا اور اس کے جانچنے کے بعد اسے نقدی کا نام دیا جاتا اصطالحی‬
‫معنی ایسی رائے جوہر بوڑھے یا صحیح اور غلط کی تمیز کرےیہ لفظ علم المصطلح الحدیث میں بھی‬
‫مستعمل ہے جس سے کسی حدیث کے راویوں پر جرح و تعدیل کرتے ہوئے انہیں پرکھا جاتا ہے تاکہ‬
‫غلط ارو صحیح میں تمیز کی جا سکے‬
‫کتاب؛ تنقیدی تناظر میں قمر رئیس کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے اس کتاب میں شامل‬
‫مضامین مختلف اوقات اور مختلف تناظر میں لکھے گئے تھے اس لئے مضامین کے موضوعات میں‬
‫کافی تنوع پایا جاتا ہے اس کتاب میں غالب اور جدید کالسیکی غزل سید احتشام حسین اور اصلی تنقید‬
‫کے مسائل اردو افسانے کی نصف صدی کے اردو اسید احتشام حسین اور عصری تنقید کے‬
‫مسائل ‪،‬مسائل اردو افسانے کی نصف صدی ‪،‬اردو افسانے میں میں انگارے کی روایت جدید اردو ناول‬
‫میں اظہار شاعر اور اسلوب کے تجربے ا‪،‬قبال کا تصور پسند ادبی تحریک‪ ،‬کرشن چندرایک جائزہ‪،‬‬
‫ترقی پسند تحریک اور اردو ناول عصر حاضر میں اردو مزح اور مزاج جاں ‪،‬نثار اختر کی طویل‬
‫نظمیں اور عمیق حنفی ایک مطالعہ جیسے مضامین شامل ہیں اس کتاب میں شامل مضامین کا زیادہ تر‬
‫تعلق فکشن تنقید سے ہے‬

‫فلسفانہ منہج‬
‫فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکال ہے فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند‬
‫کرنا ممکن نہیں فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے ہے فلسفہ اشیاء کی‬
‫ماہیت کے الزمی اور ابدی علم کا نام ہے جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے‬
‫کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہے۔‬

‫پروفیسر وقاص‬
‫فلسفانہ منہج درحقیقت ایک ایسا منہج علمی ہے جسے ہر چیز کو عقل کی بنیاد پر پرکھاجاتا ہے ہے‬
‫فلسفی حضرات صرف اسی کے وجود کے قائل ہوتے ہیں جو چیز عقل سے ماورا ہے فلسفی اسے‬
‫جانے کے قائل نہیں‬
‫؛ امام غزالی کی اہم تصنیف اکسیر ہدایت جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی لیکن بعد میں خود‬ ‫کتاب‬
‫ہی اس کا ترجمہ فارسی میں کیمیائے سعادت کے نام سے کیا کیمیائے سعادت امام غزالی کی عربی کی‬
‫تصنیف احیاء العلوم الدین کا فارسی زبان میں ترجمہ و خالصہ ہے اس عظیم کتاب کا موضوع‬
‫اخالقیات ہے اور یہ کتاب حسب ذیل چار عنوانات اور چار ارکان پر مشتمل ہے‬
‫زیر نظر کتاب اسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے‬
‫نفس کی پہچان‬
‫اہللا کی پہچان‬
‫دنیا کی پہچان‬
‫آخرت کی پہچان‬
‫ارکان‬
‫عبادات‬
‫معامالت‬
‫مہلکات‬
‫منجات‬
‫اس کتاب کا موضوع اخالقیات ہے اور اس کی بنیاد دین پر ہے چھوٹے جملوں میں بڑی سہولت سے‬
‫سمجھا دیتے ہیں کبھی کبھی فلسفانہ لکھتےاور اسے واضح کرنے کے لئے غیر ضروری چیزیں شامل‬
‫نہیں آنے دیتے ہیں‬

‫نفسیاتی منہج‬
‫موجودہ صورتحال کو دیکھ کر جو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے نفسیاتی منہج کہالتا ہے کبھی کوئی‬
‫ایک طریقہ مناسب ہوتا ہے تو کبھی دوسرا ۔‬
‫افراد کے کردار کے مطالعہ میں دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں مطالعہ باطن اور خارجی مشاہدہ‬
‫اس حوالے سے حضرت عالمہ غالم رسول قاسمی کی معروف کتاب اسالم اور نفسیات شائع ہو کر‬
‫مارکیٹ میں آچکی ہے اس کتاب میں عمومی نفسیات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے‬
‫مرکزی عنوانات‬
‫بچوں کی نفسیات‬
‫نوجوانوں کی نفسیات‬
‫عورتوں کی نفسیات‬
‫تبلیغی نفسیات‬
‫نفسیاتی اثرات‬

‫؛اس کو بیانیہ اور جائزاتی منہج بھی کہتے ہیں ۔ اس منہج میں کسی علمی موضوع‬ ‫منہج وصفی‬
‫کے ظاہری وصف کو منظم انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس میں بیان کی ضرورت پڑتی ہے اور حقائق‬
‫کا تجزیہ کرنے کے لئے سوالنامہ ‪،‬انٹرویو یا مشاہدہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسالمی موضوعات میں اس‬
‫منہج کا اطالق بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے ۔مثاًل کسی خاص عالقے کے علماء اور مشاہیرجو کسی‬
‫مخصوص فن میں مہارت رکھتے ہوں کے بارے میں معلومات جمع کرکے ان کے منہج اورتفردات پر‬
‫تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔ مواد جمع کرنے کے لئے سوالنامہ یا بالمشافہ مالقات سے کام لیا جاسکتا ہے ۔ایم‬
‫اے سے لے کر پی ایچ ڈی کی سطح تک اس طرح کی موضوعات پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔‬
‫منہج وصفی کی دو ذیلی اقسام ہیں‪ :‬مقداری ‪ ۲:‬معیاری‬
‫‪ ۱‬پہلی قسم میں معلومات جمع کرنے میں اس کی معیار کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور ان کی مجموعی‬
‫حیثیت کو ماپا جاتا ہے جب کہ دوسری قسم میں مقدار ی پہلو دیکھا جاتا ہے ۔بعض حقائق ایسی ہیں جن‬
‫کا پس منظر نظریاتی ہوتا ہے جس کے لئے معیاری اسلوب اختیار کیا جاتا ہے ۔کچھ ایسی بھی ہیں‬
‫جنہیں باقاعد ہ اعداد وشمار اور حساب کے اصولوں سے گذارناْ لزمی ہوتا ہے جس کے لئے مقداری‬
‫طریقہ اپنایا جاتا ہے۔مواد کی مقداری پہلو کی تکمیل کے بعد اس کو معیار کی کسوٹی پر پرکھنا پڑتا ہے‬
‫۔‬
‫وصفی منہج میں ضروری ہے کہ مواد جمع کرنے میں صداقت وامانت سے کام لیا جائے ۔ تعصب سے‬
‫کام لینے یا عقیدت میں حد درجہ مبالغہ مواد کی درست پذیرائی میں رکاوٹ بن سکتی ہے ۔ لٰ ہذا کسی‬
‫ایسی رائے کی نسبت نہ کی جائے جو حقیقت کے خالف ہو ۔افراط وتفریط سے بچ کر وسیع فکری تناظر‬
‫میں جائزہ لینا اس منہج کا تقاضا ہے ۔ مثالیں ‪ :‬خیبر پختونخواہ میں بہت سارے علماء ہوگزرے ہیں جن‬
‫میں مفسرین ‪،‬محدثین ‪،‬فقہاء ‪،‬ادباء ‪ ،‬علم میراث اور علم کالم کے عالوہ ہر فن کے ماہر ین شامل ہیں۔‬
‫ہرعالم کے اپنے فن میں تدریسی اور تالیفی خدمات موجودہیں ۔ان کی خدمات کو منظر عام پرْ لنے کے‬
‫لئے ان پر تحقیق کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک ہی فن کے کئی علماء کی آراء کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔‬
‫غ ف سف‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫کت اب ؛م داری م ہج اہ ل حدی ث کا عارف۔۔۔ع ب دال ار ل ی‬
‫کالمی منہج‬
‫علم الکالم اسالمی عقائد اور اس کے متعلق مباحث اور دالئل کو جاننے کا نام علم الکالم ہے اس علم نے‬
‫باری تعالی کے وجود کی صفات انبیاء کرام اور اولیاء کے معجزات اور کرامت وغیرہ امور سے عقلی‬
‫دالئل کی روشنی میں بحث کی جاتی ہے اس سے آدمی کے عقائد پختہ ہوتے ہیں اسالمی عقائد کو کفریہ‬
‫عقائد سے ممتاز کرنے کی صالحیت پیدا ہو جاتی ہے مسلمانوں کا ایجاد کیا گیا ایک علم ہے اس کا‬
‫مقصد اسالمی عقائد و نظریات میں آنے والی خرابیوں کو الگ رکھا جائے۔‬
‫کتاب‬
‫شبلی نعمانی اردو کے مایہ ناز شاعر مورخہ نقاد عالم دین اور متکلم ہیں جن سے ان کی تاریخی‬
‫تصنیف ہے جس میں کتاب علم کالم جدید کے تحت اسالم کے تمام عقائد کو فلسفہ علم کے مطابق‬
‫مقابلے میں نہایت بیان کیا ہے صحیح معنی میں اپنی اس تصنیف میں وہ علی سینا ارسطو کے عالوہ‬
‫دیگر یوتھیوں اور ایشیائی مفکرین کے اقوال کے ساتھ علم فلسفہ کو مدلل بیان کیا گیا ہے‬

‫مصادرو مرجع‬
‫القرآن الکریم‬ ‫‪‬‬
‫ابو عبدہللا محمد بن اسماعیل بخاری۔صحیح البخاری‬ ‫‪‬‬
‫ڈاکٹرحافظ محمد نعیم اسالمی مناہج بحث دارالقرآن والسنہ پاکستان‬ ‫‪‬‬
‫پروفیسر ڈاکٹر محی الدیںہاشمی اصول تحقیق‬ ‫‪‬‬
‫ڈاکٹر حافظ عبدالسالم تحقیق و اصول تحقیق‬ ‫‪‬‬
‫‪Introduction to research procedures in education 1964‬‬ ‫‪‬‬

You might also like