Professional Documents
Culture Documents
8667 01
8667 01
سوال -4سورۃ آل عمران کی آیات 158-156کا بامحاورہ ترجمہ کر میں مشکل کلمات و مرکبات کی
وضاحت کیجیے اورتوجیہات تحریر کریں؟
جواب نمبر 4
بھائیوں کے بارے میں کہا جب انھوں نے زمین میں سفر کیا ،یا وہ لڑنے والے تھے ،اگر وہ ہمارے پاس
ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے ،تاکہ ہللا اسے ان کے دلوں میں حسرت بنا دے اور ہللا زندگی
بخشتا اور موت دیتا ہے اور ہللا اس کو جو تم کرتے ہو ،خوب دیکھنے واال ہے۔
تفسیر السعدی -عبدالرحٰم ن بن ناصر السعدی
ہللا تبارک و تعالٰی نے اپنے اہل ایمان بندوں کو کفار اور منافقین وغیرہ کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا
ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس نے ہر چیز میں ان کی مشابہت اختیار
کرنے سے روکا ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے۔ خاص طور پر اس معاملے
میں کہ وہ اپنے دینی یا نسبی بھائیوں سے کہتے ہیں ِ ﴿ :إَذ ا َضَر ُبوا ِفي اَأْلْر ِض﴾ یعنی جب تجارت وغیرہ کے
لیے سفر کرتے ہیں ﴿ َأْو َك اُنوا ُغ ًّز ى﴾ یا وہ غزوات کے لیے نکلتے ہیں۔ پھر اس دوران میں انہیں موت
آجاتی ہے یا وہ قتل ہوجاتے ہیں تو وہ ہللا تعالٰی کی قضا و قدر پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿َّلْو َك ا وا
ُن
ِع نَدَنا َم ا َم اُتوا َو َم ا ُقِتُلوا﴾ ” اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو وہ نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے“ یہ ان کا جھوٹ ہے۔
ہللا تعالٰی فرماتا ہے ﴿ُقل َّلْو ُك نُتْم ِفي ُبُيوِتُك ْم َلَبَر َز اَّلِذ يَن ُك ِتَب َع َلْيِهُم اْلَقْتُل ِإَلٰى َم َض اِج ِع ِه ْم ﴾ (آل عمران 3:؍ ” )154
کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھا تھا توہ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں
کی طرف نکل آتے۔“ مگر اس تکذیب نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا البتہ ہللا تعالٰی نے ان کے اس قول اور
عقیدے کو ان کے دلوں میں حسرت بنا دیا پس ان کی مصیبت میں اور اضافہ ہوگیا۔ رہے اہل ایمان ،تو وہ
جانتے ہیں کہ یہ ہللا تعالٰی کی تقدیر ہے پس وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں اور یوں
ہللا تعالٰی ان کے دلوں کو ہدایت دیتا ہے اور ان کو مضبوط کردیتا ہے اور اس طرح ان کی مصیبت میں
تخفیف کردیتا ہے۔ ہللا تعالٰی منافقین کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے َ﴿ :و الَّلـُه ُيْح ِيي َو ُيِم يُت ﴾ یعنی زندہ کرنے
اور موت دینے کا اختیار وہ اکیال ہی رکھتا ہے۔ اس لیے صرف احتیاط تقدیر سے نہیں بچا سکتی۔ ﴿ َو الَّلـُه
ِبَم ا َتْع َم ُلوَن َبِص يٌر ﴾ ” اور ہللا جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھ رہا ہے۔“ اس لیے وہ تمہارے اعمال اور
تمہاری تکذیب کا بدلہ ضرور دے گا۔
عبدالسالم بن محمد
اور بالشبہ یقینًا اگر تم ہللا کے راستے میں قتل کردیے جاؤ ،یا فوت ہوجاؤ تو یقین ہللا کی طرف سے تھوڑی
ًا
سی بخشش اور رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں۔
تفسیر السعدی -عبدالرحٰم ن بن ناصر السعدی
پھر ہللا تعالٰی نے آگاہ فرمایا ہے کہ ہللا تعالٰی کے راستے میں قتل ہوجانا یا مر جانا ،اس میں کوئی نقص یا
کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے پرہیز کیا جائے بلکہ یہ تو ایک ایسا معاملہ ہے جس میں رغبت کے لیے
لوگوں کو مسابقت کرنی چاہئے کیونکہ یہ ایک سبب ہے جو ہللا تعالٰی کی مغفرت اور رحمت تک پہنچاتا
ہے اور یہ اس دنیاوی مال و متاع سے کہیں بہتر ہے جسے دنیا والے جمع کرتے ہیں ،نیز مخلوق کو جب
بھی موت آئے گی یا کسی بھی حالت میں ان کو قتل کیا جائے انہیں ہللا ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ ہر
ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ اس لیے ہللا کے سوا کوئی جائے فرار نہیں اور مخلوق کو کوئی
بچانے واال نہیں ،سوائے اس کے کہ اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے۔
سوال 5۔ سورۃ آل عمران کی روشنی میں منافقوں کا کردار اور اہل کتاب کی خرابیوں پر علیحدہ علیحدہ
نوٹ تحریر کر یں؟
جواب نمبر 5
قرآن و حدیث اور منافقین کی پہچان
محترم قارئیِن کرام :قرآن کریم کی معروف اصطال حات میں سے ایک اصطالح منافق بھی ہے۔ اسالمی سو
سائٹی میں جو عناصر بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن باطن میں وہ اسالم کے سخت ترین دشمن ہیں ،
ایسے افراد کو منافق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ’’ دوست نما دشمن‘‘ کا کردار کرتے ہیں ۔
سورۃ العنکبوت کے شروع ہی میں ہللا تعالٰی کا ارشاد ہے ،ترجمہ :اور ہللا کو تو ضرور دیکھنا ہے کہ
ایمان النے والے کون ہیں اور منافق کون ۔ (سورہ العنکبوت)۱۱ :
ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم نے ایک حدیث میں منافق کی پہچان کی وضاحت کچھ اس طرح کی
ہے :چار باتیں جس میں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں
منافق کی ایک نشا نی رہے گی ۔ یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے ۔ پھر آپ صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم نے
فرمایا جب امانتدار بنا یا جائے تو خیانت کرے ،جب بولے تو جھوٹ بولے ،جب معاہدہ کرے تو خالف
ورزی کرے ،جب جھگڑا کرے تو گالی دے ۔ (صحیح البخاری باب عالمۃ المنافق)
بد قسمتی سے ہمارے نام نہاد مسلم معاشرہ میں یہ رزائل بہت تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور اس پر
مزید یہ کہ اس منا فقانہ طرز عمل کو چاالکی اور ہوشیاری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی
میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے ۔
امانت میں خیانت
اس حدیث مبارک میں منافق کی پہلی خصلت امانت میں خیانت بتا ئی گئی ہے ۔ امانت کی پاسداری دراصل
مومن کی پہچان ہے ،آپ صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم نے فرمایا :مومن کے اندر ہر عادت ہو سکتی ہے
جھوٹ اور خیانت کے سوا ۔ (رواہ احمد عن ابی امامہ ورواہ البزار)
امانت میں خیانت کی درج ذیل شکلیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ،اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن
⬇ :ہے
۔ امانت میں خیانت یعنی کم مال واپس کرنا ،اچھے مال سے خراب مال بدل لینا۔۱
۔ ہللا اور اس کے رسول کی نا فرمانی بھی امانت میں خیانت ہے۔ ۲
۔ ناپ تول میں کمی کرنا بھی امانت میں خیانت ہے۔۳
۔ راز بھی امانت ہے ،اس کی حفاظت نہ کرنا خیانت ہے۔۴
۔ وقت کا ضیاع ،کام چوری اور غیر متعلق امور سے دلچسپی بھی خیانت ہے۔۵
۔ رشوت لے کر کام کرنا اور ناحق فائدہ پہنچانا بھی خیانت ہے۔۶
کذب بیانی
:منافق کی دوسری خصلت کذب بیانی کہی گئی ہے ،اس کی درج ذیل مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں
۔ ہللا کے معاملے میں جھوٹ بولنا یعنی حالل کو حرام اور حرام کو حالل بتا نا۔۱
،۔ ہللا کے رسول کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا
۔ جھوٹی خبریں ،اور جھوٹے واقعات بیان کرنا ،سنسنی خیز صحافت بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔۳
۔ جھوٹی قسمیں ،جھوٹے وعدے ،جھوٹے مقدمات قائم کرنا۔ جھوٹی گواہی دینے والے کے تعلق سے ارشاد۴
خدا وندی ہے ’’:جو لوگ ہللا کے عہد اور اپنی قسموں کو حقیر قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ان کے لیے
آخرت میں کوئی حّصہ نہیں اور ہللا نہ ان سے بات کرے گا ،نہ ان کی طرف دیکھے گا‘‘۔( آل عمران)۷۷ :
اس معاملے کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ نبؐی نے ارشاد فرمایا’’ :کیا میں تمہیں سب
سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہللا کے ساتھ شریک ٹھہرانا ،والدین کی نا فرمانی کرنا ،سنو! جھوٹ
بولنا ،جھوٹی گواہی دینا۔ آپ بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ راوی نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ
خاموش ہو جاتے۔‘‘ (بخاری ،مسلم ،ترمذی)
جھوٹی قسم کھاکر تجارت کو فروغ دینا ،غلط طریقے سے سامان بیچنا ،اور خریدار کو فریب دینا بھی
جھوٹ کی ایک قسم ہے ،اس ضمن میں نبؐی کا ارشاد ہے ’’:تین ایسے آدمی ہیں جن کی طرف روز قیامت
ہللا تعالی نہ دیکھے گا ،نہ ان کا تزکیہ کرے گا ،اس روز ان کو درد ناک عذاب ہوگا( )۱تہبند کو ٹخنے سے
نیچے لٹکانے واال (متکبر) )۲( ،احسان جتانے واال )۳( ،جھوٹی قسم کھاکر اپنی تجارت کو فروغ دینے
واال۔
۔ ایک اور انتہائی درجہ بد اخالقی کی جیتی جاگتی تصویر جس میں نوجوان طبقہ خاص طور سے ملوث۵
ہے ،بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر بد چلنی کا الزام لگانا ،حق تعالٰی شانٗہ کا ارشاد ہے’’ :بے شک جو
لوگ پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہوگی اور ان کے
لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (النور)۳۳ :
اسالمی معاشرہ کی اصل روح تو یہ ہے کہ دوسروں کے واقعی عیبوں پر بھی پردہ ڈاال جائے اور کسی
بھی مومن یا مومنہ کی سِر بازار پگڑی نہ اچھالی جائے۔ ورنہ نفرت ،بغض وکینہ وغیرہ سے معاشرہ کا
پاک رہ جانا بڑا ہی مشکل ہو گا ۔ اگر اتفاقًا کسی کی کوئی غلط حرکت سامنے آبھی جائے تو خلوت میں
حکمت کے ساتھ اسے سمجھانا ہی افضل ہے ۔
بد عہدی یا معا ہدہ شکنی
منافق کی تیسری خصلت بد عہدی یا معا ہدہ شکنی ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ہللا تعالٰی کا ارشاد ہے :
’’اور عہد کو پورا کر و کیونکہ عہد کی پرسش ہونی ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل)
ًا
اس عہد میں ہر قسم کا عہد شامل ہے خواہ وہ کسی معا ہدے کی صورت میں وجود میں آئے ،لیکن عادت ’’
اور عرفََاُان کو عہد ہی سمجھا اور مانا جاتا ہو ،جس نوعیت کا بھی عہد ہو ،اگر وہ خالف شریعت نہیں ہے
:تو اس کو پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔ عہد کی دو قسمیں ہیں
الف) ہللا اور بندے کے درمیان یعنی ہر شخص کا ہللا سے یہ عہد کہ وہ سچا پکا مومن ہوگا اور جملہ
معامالت میں شریعت الہی کی اتباع کرے گا۔ یہی بات سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں بھی کہی گئی ہے،
ارشاد ربانی ہے ’’:اے لوگو جو ایمان الئے ہو ،بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘۔( سورۃ المائدۃ ،آیت)۱:
یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورہ میں تم پر عائد کی جارہی ہیں اور جو بالعموم خدا ’’
‘‘ کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں
عہد کی دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے درمیان ہے ،اس کی مثال ہے کام چوری کرنا ،دھوکہ دینا ،وعدہ
پورا نہ کرنا ،وغیرہ
بد زبانی و بد کالمی
منا فق کی چوتھی خصلت بد زبانی اور بد کالمی ہے ،یعنی وہ مخاصمت کے وقت آپے سے باہر ہو جاتا
ہے ،نبؐی نے ارشاد فرمایا’’ :لوگ جہنم میں اپنی بد زبانی کے سبب جائیں گے‘‘(ترمذی) جنت کی نعمتوں
میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں اہل ایمان کوئی ال یعنی اور لغو یات نہیں سنیں گے ،جیسا سورۃ
الواقعۃ میں ہللا تعالی کا ارشاد ہے’’ :وہاں وہ کوئی بے ہودہ کالم یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی
ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی‘‘۔ (سورۃ الواقعۃ۲۵ :۔)۲۶
سطور باالکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور سے ہی سہی
منافقت کے مہلک مرض میں مبتال تو نہیں ہو رہے ہیں ؟
عزت تو ہّٰللا اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کےلیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں
محترم قارئیِن کرام :بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے پاکستان کے موجودہ وزیِر اعظم مسٹر عمران خان نیازی
آئے دن کوئی نہ کوئی اول فول بکتے رہتا ہے حال ہی میں تاجداِر کائنات صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم کی
طرف لفظ ذلیل کی نسبت کر کے اس شخص نے پھر اپنی ذلت و رسوائی کو دعوت دی ہے اور غالماِن
مصطفٰی صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم پر مظالم کی انتہا کردی ہے اس شخص ٕن ۔ یاد رہے جس نے بھی
ناموِس رسالت صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم پر حملہ کیا ذلتیں ُاس کا مقدر بنیں یہی الفاظ فقیر ڈاکٹر فیض احمد
چشتی نے نواز شریف صاحب کےلیے لکھے تھے آج ُاس کا حال دیکھ لیں اب فقیر کہتا ہے عمران خان
نیازی کا انجام ُاس سے بھی ُبرا ہوگا ان شاء ہللا ۔
ۤا
محترم قارئیِن کرام ہللا تعالٰی نے ارشاد فرمایا َ :یُقْو ُلْو َن َلٕىْن َّر َج ْعَن ِاَلى اْلَم ِد ْیَنِة َلُیْخ ِر َج َّن اَاْلَع ُّز ِم ْنَها اَاْلَذ َّل َؕ-و ِهّٰلِل
اْلِع َّزُة َو ِلَر ُسْو ِلٖه َو ِلْلُم ْؤ ِمِنْیَن َو ٰل ِكَّن اْلُم ٰن ِفِقْیَن اَل َیْع َلُم ْو َن ۠ ۔ (سورہ منافقون آیت نمبر )8
ترجمہ :کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت واال ہے وہ اس میں سے نکال دے گا
ُاسے جو نہایت ذلت واال ہے اور عزت تو ہّٰللا اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر
منافقوں کو خبر نہیں ۔
َیُقْو ُلْو َن :وہ کہتے ہیں ۔ یعنی منافق کہتے ہیں :اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف
لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت واال ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا ۔ منافقوں
نے اپنے ٓاپ کو عزت واال کہا اور مسلمانوں کو ذلت واال ،ہّٰللا تعالٰی ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے
کہ عزت تو ہّٰللا اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ،اگر وہ یہ
بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے چند ہی روز بعد عبد ہّٰللا بن ُابی
منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا ۔ (تفسیر خازن المنافقون )۴/۲۷۴ ،۸ :
عبد ہّٰللا بن ُابی منافق کے بیٹے کا عشق رسول (صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم)
ہّٰللا ہّٰللا
عبد بن ُابی کے بیٹے کا نام بھی عبد رضی ہللا عنہ تھا اور یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشِق
رسول تھے ،جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے
کہنے لگے اس وقت تک مدینہ میں داخل ہونے نہیں دوں گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے
اور محمد مصطفی َص َّلی ُہّٰللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم عزیز ہیں ۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے
ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے والے تھے مگر نبی کریم َص َّلی ُہّٰللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم کے مقابلے میں باپ کی کوئی
عزت و محبت دل میں نہ رہی ۔ ٓاخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ وہّٰللا میں ذلیل ہوں اور محمد مصطفی
َص َّلی ُہّٰللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم عزیز ہیں ،اس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔( سیرت حلبیہ ،باب ذکر مغازیہ
صلی ہّٰللا علیہ وسلم ،غزوۃ بنی المصطلق ،۲/۳۹۳،چشتی)(مدارج النبوۃ ،قسم سوم ،باب پنجم)۲/۱۵۷ ،
اس ٓایت سے معلوم ہوا
ہر مومن عزت واال ہے کسی مسلم قوم کو ذلیل جاننا یا اسے کمین کہنا حرام ہے۔ )(1
مومن کی عزت ایمان اور نیک اعمال سے ہے ،روپیہ پیسہ سے نہیں ۔ )(2
مومن کی عزت دائمی ہے فانی نہیں اسی لئے مومن کی الش اور قبر کی بھی عزت کی جاتی ہے ۔ )(3
جو مومن کو ذلیل سمجھے وہ ہّٰللا تعالٰی کے نزدیک ذلیل ہے ،غریب مسکین مومن عزت واال ہے جبکہ )(4
مالدار کافر بد تر ہے ۔
ِاَّن َاْك َر َم ُك ْم ِع ْنَد ِهّٰللا َاْتٰق ى ْم ؕ ۔ (سورہ حضرات آیت نمبر )13
ُك
ترجمہ :ہللا کے یہاں تم میں زیادہ عزت واال وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔
ِاَّن َاْك َر َم ُك ْم ِع ْنَد ِهّٰللا َاْتٰق ىُك ْم :بیشک ہللا کے یہاں تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔
ٓایت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت و فضیلت کا سبب ہے
اور جس سے اسے ہللا تعالٰی کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا :بیشک ہللا تعالٰی
کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت واال وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک ہللا تعالٰی
تمہیں جاننے واال اور تمہارے باطن سے خبردار ہے ۔
شاِن نزول :نبی کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ،وہاں مالحظہ
فرمایا کہ ایک حبشی غالم یہ کہہ رہا تھا :جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے نبی
کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم کی ِاقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے ۔ اس غالم کو ایک
شخص نے خرید لیا ،پھر وہ غالم بیمار ہوگیا تو نبی کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم اس کی عیادت کے لئے
تشریف الئے ،پھر اس کی وفات ہوگئی اور رنبی کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم اس کی تدفین میں تشریف
الئے ،اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر مدارک،
الحجرات ،تحت آالیۃ ،۱۳ :ص ،۱۱۵۶جاللین ،الحجرات ،تحت آالیۃ ،۱۳ :ص،۴۲۸چشتی)
عزت اور فضیلت کا مدار پرہیزگاری ہے
اس سے معلوم ہوا کہ ہللا تعالٰی کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لٰہ ذا ہر
مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقوٰی و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ ہللا تعالٰی
کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو ۔
َّل ٰا َّل
حضرت عبدہللا بن عمر َرِض َی ہللا َع ْنُہَم ا فرماتے ہیں :فتِح مکہ کے دن نبی کریم َص ی ہللا َع ْیِہ َو ِلٖہ َو َس َم نے
َل
خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ :اے لوگو ! ہللا تعالٰی نے تم سے جاہِلَّیت کا غرور اور ایک دوسرے پر
خاندانی فخر دور کر دیا ہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں ( )1نیک اور متقی شخص جو کہ ہللا تعالٰی
کی بارگاہ میں معزز ہے ۔ ( )2گناہگار اور بد بخت ٓادمی ،ہللا تعالٰی کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔ تمام
لوگ حضرت ٓادم َع َلْیِہ الَّص ٰل وُۃ َو الَّساَل م کی اوالد ہیں اور حضرت ٓادم َع َلْیِہ الَّص ٰل وُۃ َو الَّساَل م کو ہللا تعالٰی نے
مٹی سے پیدا کیا ہے ،ہللا تعالٰی ارشاد فرماتا ہے ٰۤ’’ :ی َاُّیَها الَّناُس ِاَّنا َخ َلْقٰن ُك ْم ِّم ْن َذ َك ٍر َّو ُاْنٰث ى َو َجَع ْلٰن ُك ْم ُش ُعْو ًبا َّو
َقَبإٓىَل ِلَتَع اَر ُفْو اِؕ-اَّن َاْك َر َم ُك ْم ِع ْنَد ِهّٰللا َاْتٰق ىُك ْم ِؕ-اَّن َهّٰللا َع ِلْیٌم َخ ِبْیٌر‘‘ ۔
ترجمہ :اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم
آپس میں پہچان رکھو ،بیشک ہللا کے یہاں تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے
بیشک ہللا جاننے واال خبردار ہے ۔ (ترمذی ،کتاب التفسیر ،باب ومن سورۃ الحجرات ،۵/۱۷۹ ،الحدیث:
)۳۲۸۱
َل َّل
حضرت عداء بن خالد َر ِض َی ہللا َتَع ا ی َع ُہ فرماتے ہیں :میں حجۃ الوداع کے دن نبی کریم َص ی ہللا َع ْیِہ ْن ٰل
َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم کے منبرِ اقدس کے نیچے بیٹھا ہوا تھا ٓ ،اپ َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم نے ہللا تعالٰی کی حمد و ثنا
کی ،پھر فرمایا ’’ بے شک ہللا تعالٰی ارشاد فرماتا ہے ٰۤ’’ :ی َاُّیَها الَّناُس ِاَّنا َخ َلْقٰن ُك ْم ِّم ْن َذ َك ٍر َّو ُاْنٰث ى ۔
ترجمہ :اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور َو َجَع ْلٰن ُك ْم ُش ُعْو ًبا َّو َقَبإٓىَل ِلَتَع اَر ُفْو اِؕ-اَّن َاْك َر َم ُك ْم ِع ْنَد ِهّٰللا َاْتٰق ىُك ْم ‘‘ ۔
ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو ،بیشک ہللا کے یہاں
تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔
تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل
ہے ،کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل
ہے بلکہ فضیلت صرف تقوٰی و پرہیزگاری سے ہے (تو جو ُم َّتقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے) ۔ (معجم
الکبیر ،عداء بن خالد بن ہوذہ العامری ،۱۸/۱۲ ،الحدیث،۱۶ :چشتی)
حضر ت علی المرتضٰی َکَّر َم ہللا َتَع اٰل ی َو ْج َہُہ اْلَک ِرْیم سے روایت ہے ،نبی کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم نے
ارشاد فرمایا ’’ :جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں کوہللا تعالٰی کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اس حال میں کہ
وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی ،توہللا تعالٰی ارشاد فرمائے گا ’’ :اے میرے بندو ! میں
نے تمہیں حکم دیا اور تم نے میرے حکم کو ضائع کردیا اورتم نے اپنے نسبوں کو بلند کیا اور انہی کے
سبب ایک دوسرے پر فخر کرتے رہے ٓ ،اج کے دن میں تمہارے نسبوں کو حقیر و ذلیل قراردے رہاہوں ،
میں ہی غالب حکمران ہوں ،کہاں ہیں ُم َّتقی لوگ ؟ کہاں ہیں متقی لوگ ؟ بیشک ہللا تعالٰی کے یہاں تم میں
زیادہ عزت واال وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔ (تاریخ بغداد ،ذکر من اسمہ علّی ،حرف االلف من
ٓاباء العلیین-۶۱۷۲ ،علّی بن ابراہیم العمری القزوینی)۱۱/۳۳۷ ،
مسلمانوں کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے
نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا
:ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیِث مبارکہ مالحظہ ہو
َأْط َأْط ُق
ِبا َکْع َبِة َ ،و َي وُلَ :م ا َيَبِک َو َيَب ْل وُف ُطَع ْن َع ْبِد ِﷲ ْبِن ُع َم َر َقاَل َ :ر َأْيُت َر ُسوَل ِﷲ صلی هللا عليه وآله وسلم َي
ِريَحِک َ ،م ا َأْع َظَم ِک َو َأْع َظَم ُحْر َم َتِک َ ،و اَّلِذ ي َنْفُس ُمَحَّمٍد ِبَيِدِهَ ،لُحْر َم ُة ا ُم ْو ِم ِن ْع َظُم ِع ْنَد اِﷲ ُحْر َم ًة ِم ْنِک َم اِلِه
َأ ْل
َو َد ِمِهَ ،و َأْن َنُظَّن ِبِه ِإاَّل َخْيًرا ۔
ترجمہ :حضرت عبد ہللا بن عمر رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ
وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا ( :اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری
خوشبو کتنی پیاری ہے ،تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ،قسم ہے اس ذات کی
جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت ﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے
زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے ۔ (ابن ماجه ،السنن ،کتاب الفتن ،باب
حرمة دم المؤمن وماله ،1297 :2 ،رقم،3932 :چشتی)(طبراني ،مسند الشاميين ،396 :2 ،رقم)1568 :
(منذري ،الترغيب والترهيب ،201 :3 ،رقم)3679 :
حضرت انس رضی ہللا عنہ راوی ہیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یصف اھل النار فیُم ُر ِبِھ م
ُ الرجل من اھل الجنۃ فیقول الرجل منھم یا فالن! اما تعرفنی اناالذی سقیتک شرَبًۃ و قال بعضھم انااّلذی وھبُت
لک وضوًء فیشفعہ لہ فید خلہ الجنۃ ۔ (ابن ماجہ،3685:مشکٰو ۃ)494،
ترجمہ :گنہگار دوزخیوں کو دوزخ میں بھیجنے کیلئے علیحدہ کر دیا جائے گا وہ صِف بستہ کھڑے ہوں
گے کہ ایک جنتی بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے قریب سے گزرے گاتو دوزخی اپنے اس نیک
صالح انسان کو پہچان لیں گے کوئی کہے گا آپ مجھے نہیں پہچانتے فالں موقع پر میں نے آپ کو پانی
پالیا تھا کوئی کہے گا میں نے آپ کو وضو کیلئے پانی ال کر دیا تھا اتنے سے تعارف اور معمولی سی
خدمت پر ہی وہ نیک انسان ان کی شفاعت کرے گا جو قبول کی جائے گی اور وہ انہیں اپنے ساتھ جنت میں
لے جائے گا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭