You are on page 1of 9

‫ن ٹ‬ ‫ق‬

‫عالمہ ا ب ال اوپ ن یو ی ورس ی اسالمہ آب اد‬

‫امتحانی مشق نمبر ‪1‬‬


‫‪)5‬‬ ‫( یونٹ ‪ 1‬تا‬
‫کورس کوڈ (‪)8667‬‬
‫اسال میاتـ‪1‬‬
‫معلم کا نام؛‬
‫ق‬
‫عامر عالم ا ب ال ملکصا حب‬
‫نام طالب علم؛‬
‫کاشفہ کنول‬
‫سمسٹر بہار‬
‫‪2023‬‬
‫سطح بی ایڈ(‪4‬سالہ)‬
‫امتحانی مشق نمبر ‪1‬‬
‫سوال ‪ -1‬سورۃ آل عمران کی آیات ‪ 28-26‬کالفظی اور بامحاورہ ترجمہ کیجیے مشکل کلمات دمرکبات کی‬
‫وضاحت کیجے اور توجیہات تحریر کیجیے؟‬
‫جواب نمبر ‪1‬‬
‫آية‪27 :‬‬
‫َغيِر‬ ‫َتَش‬ ‫ُق‬ ‫ُز‬ ‫َت‬
‫خِر ُج ٱۡلَم ِّي ِم َن ٱۡلَحِّي ۖ َو َترۡ َم ن ٓاُء ِب ۡ‬ ‫ُتوِلُج ٱَّليَۡل ِفي ٱل َهاِر َو وِلُج ٱل َهاَر ِفي ٱ يِۡل ۖ َو خِۡر ُج ٱۡلَحَّي ِم َن ٱۡلَم ِّيِت َو ۡ‬
‫ُت‬ ‫ُت‬ ‫َّل‬ ‫َّن‬ ‫ُت‬ ‫َّن‬
‫ِحَس اٖب‬
‫تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں لے جاتا ہے(‪ ، )1‬تو ہی بے جان سے جاندار پیدا‬
‫کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے(‪ ،)2‬تو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے شمار روزی‬
‫دیتا ہے۔‬
‫رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں۔ رات لمبی ہوتی ہے تو )‪(1‬‬
‫دن چھوٹا ہو جاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے۔ یعنی‬
‫کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کردیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے‬
‫یا بڑے ہوجاتے ہیں۔‬
‫جیسے نطفہ (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکالتا ہے پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان۔ اسی طرح مردہ )‪(2‬‬
‫انڈے سے پہلے مرغی اور پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے کافر پیدا‬
‫فرماتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت معاذ (رضي هللا عنه) نے نبی (صلى هللا عليه وسلم) سے اپنے‬
‫اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ (صلى هللا عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”تم آیت «ُقِل الَّلُهَّم َم اِلَك اْلُم ْلِك » (آل‬
‫عمران) پڑھ کر یہ دعا کرو ”َر ْح َم َن الُّد ْنَيا َو اآلِخَر ِة َو َر ِح يَم ُهَم ا ُتْع ِط ي َم ْن َتَش اُء ِم ْنُهَم ا َو َتْم َنُع َم ْن َتَش اُء ‪ ،‬اْر َحْمِني‬
‫َر ْح َم ًة ُتْغ ِنيِني ِبَها َع ْن َر ْح َم ِة َم ْن ِسَو اَك ‪ ،‬الَّلُهَّم أْغ ِنِني ِم َن اْلَفْقِر ‪َ ،‬و اْقِض َع ِّني الَّدْيَن “ ایک دوسری روایت میں ہے‬
‫کہ ”یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو توہللا تعالٰی اس کی ادائیگی کا تمہارے لئے انتظام‬
‫فرما دے گا۔“ (مجمع الزوائد‪ -10/186 :‬رجاله ثقات)‬
‫عرض التراجم األخرى‬

‫التفاسير العربية‪ :‬الُم يَّسر السعدي البغوي ابن كثير الطبري‬


‫آية‪28 :‬‬
‫ل َٰذ ِلَك َفَليَۡس ِم َن ٱِهَّلل ِفي َش ۡ‬
‫يٍء ِإٓاَّل َأن َتَّتُقوْا ِم نۡ ۡ‬
‫ُهم ُتَقٰى ٗة ۗ‬ ‫اَّل َيَّتِخِذ ٱۡلُم ۡؤِم ُنوَن ٱۡلَٰك ِفِريَن َأ ۡوِلَيٓاَء ِم ن ُدوِن ٱۡلُم ۡؤِمِنيَن ۖ َو َم ن َي ۡفَع ۡ‬
‫َو ُيَح ِّذ ُر ُك ُم ٱُهَّلل ۡ‬
‫َنفَس ۗۥُه َو ِإَلى ٱِهَّلل ٱۡلَم ِص يُر‬
‫مومنوں کو چاہئے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں(‪ )1‬اور جوایسا کرے گا وه‬
‫ہللا تعالٰی کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو(‪ ،)2‬اور ہللا تعالٰی‬
‫خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور ہللا تعالٰی ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔‬
‫اولیا ولی کی جمع ہے۔ ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے ولی محبت اورخصوصی تعلق ہو۔ )‪(1‬‬
‫جیسے ہللا تعالٰی نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ «ُهَّلل َو ِلُّي اَّلِذ يَن آَم ُنوا» ( البقرۃ‪ )257 :‬یعنی‬
‫”ہللا اہل ایمان کا ولی ہے“۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور خصوصی تعلق ہے‬
‫اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ ہللا تعالٰی نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی‬
‫کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ کیونکہ کافر ہللا کے بھی دشمن ہیں اور اہل‬
‫ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لئے ہللا تعالٰی نے‬
‫اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ اہل ایمان کافروں کی‬
‫مواالت (دوستی) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت ومصلحت‬
‫ان سے صلح ومعاہدہ بھی ہو سکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر‪ ،‬مسلمانوں کے دشمن‬
‫نہ ہوں‪ ،‬ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے (جس کی تفصیل سورٔہ ممتحنہ میں ہے)‬
‫کیونکہ یہ سارے معامالت‪ ،‬مواالت (دوستی ومحبت) سے مختلف ہے۔‬
‫یہ اجازت ان مسلمانوں کے لئے ہے جو کسی کافر حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لئے اگر کسی )‪(2‬‬
‫وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا‬
‫اظہار کرسکتے ہیں۔‬
‫عرض التراجم األخرى۔‬
‫سوال‪ -2‬سورۃ آل عمران کی آیات ‪ 63-61‬کا بامحاورہ ترجمہ کیجیے مشکل کلمات دمرکبات کی وضاحت کر‬
‫میں اور توجیہات تحریر کریں؟‬
‫جواب نمبر ‪2‬‬
‫ترجمة معاني القرآن الكريم ‪ -‬الترجمة األردية * ‪ -‬فهرس التراجم‬
‫آية‪61 :‬‬
‫ُث‬ ‫ُك‬ ‫ُف‬ ‫َأ‬ ‫ُف‬ ‫َأ‬ ‫ُك‬ ‫ُك‬ ‫َأ‬ ‫َأ‬ ‫ْا‬ ‫َل‬ ‫ُق‬
‫ن َب ۡعِد َم ا َج ٓاَء َك ِم َن ٱۡلِع ۡلِم َف لۡ َتَع ا وۡ َندُۡع بَۡنٓاَء َنا َو بَۡنٓاَء ۡم َو ِنَس ٓاَء َنا َو ِنَس ٓاَء مۡ َو ن َس َنا َو ن َس ۡم َّم‬ ‫َفَم نۡ َح ٓاَّجَك ِفيِه ِم ۢ‬
‫َنجَع ل َّلعَۡنَت ٱِهَّلل َع َلى ٱۡلَٰك ِذ ِبيَن‬
‫َۡنبَتِهلۡ َف ۡ‬
‫اس لئے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں‬
‫کہ آو ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کواور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو‬
‫باللیں‪ ،‬پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر ہللا کی لعنت کریں۔(‪)1‬‬
‫یہ آیت مباہلہ کہالتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بددعا کرنا۔ مطلب )‪(1‬‬
‫یہ ہے کہ جب دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختالف ونزاع ہو اور دالئل سے وہ‬
‫ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہٰی میں یہ دعا کریں کہ یاہللا ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے‪ ،‬اس‬
‫پر لعنت فرما۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی (صلى‬
‫هللا عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسٰی (عليه السالم) کے بارے میں وہ جو غلو آمیز‬
‫عقائد رکھتے تھے اس پر بحث ومناظرہ کرنے لگا۔ باآلخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی (صلى هللا عليه وسلم)‬
‫نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی۔ حضرت علی س‪ ،‬حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رضي هللا‬
‫عنهم) کو بھی ساتھ لیا‪ ،‬اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل وعیال کو باللو اور پھر مل کر جھوٹے‬
‫پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورہ کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ‬
‫آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں‪ ،‬چنانچہ نبی (صلى هللا عليه وسلم) نے ان پر جزیہ‬
‫مقرر فرما دیا جس کی وصولی کے لئے آپ (صلى هللا عليه وسلم) نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رضي هللا‬
‫عنه) کو‪ ،‬جنہیں آپ (صلى هللا عليه وسلم) نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا‪ ،‬ان کے ساتھ بھیجا‬
‫(ملخص از تفسیر ابن کثیر وفتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں) کو‬
‫دعوت توحید دی جا رہی ہے۔‬
‫عرض التراجم األخرى‬

‫التفاسير العربية‪ :‬الُم يَّسر السعدي البغوي ابن كثير الطبري‬


‫رقم الصفحة‪58 :‬‬
‫آية‪62 :‬‬
‫ُز‬ ‫َل‬ ‫َّن‬
‫ُهَّلل َو ِإ ٱَهَّلل ُهَو ٱلَۡع ِزي ٱۡلَحِكيُم‬ ‫اَّل‬ ‫َٰل‬
‫ِإَّن َٰه َذ ا ُهَو ٱۡل َص ُص ٱۡلَح ۚ َو َم ا ِم نۡ ِإ ٍه ِإ ٱ ۚ‬
‫ُّق‬ ‫َق‬ ‫َل‬
‫یقینًا صرف یہی سچا بیان ہے اور کوئی معبود برحق نہیں بجز ہللا تعالٰی کے اور بے شک غالب اور حکمت‬
‫واﻻ ہللا تعالٰی ہی ہے۔‬
‫عرض التراجم األخرى‬

‫التفاسير العربية‪ :‬الُم يَّسر السعدي البغوي ابن كثير الطبري‬


‫آية‪63 :‬‬
‫ْا‬
‫َفِإن َتَو َّل ۡو ِإَّن ٱَهَّلل َع ِليُم ۢ ِبٱۡلُم ۡفِسِد يَن‬
‫َف‬
‫پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو ہللا تعالٰی بھی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے واﻻ ہے۔‬
‫عرض التراجم األخرى‬

‫التفاسير العربية‪ :‬الُم يَّسر السعدي البغوي ابن كثير الطبري‬


‫آية‪64 :‬‬
‫شِرَك ِبِهۦ َش يٗٔۡـا َو اَل َيَّتِخ َذ َبعُۡضَنا َبعًۡضا َأ ۡرَباٗب ا‬ ‫ُقلۡ َٰٓيَأهَۡل ٱۡلِكَٰت ِب َتَع اَلوْۡا ِإَلٰى َك ِلَم ٖة َس َو ٓاِء ۭ َب ۡيَنَنا َو َب ۡيَنُك ۡم َأاَّل ۡ‬
‫َنعُبَد ِإاَّل ٱَهَّلل َو اَل ُن ۡ‬
‫سِلُم وَن‬ ‫شَهُدوْا ِبَأَّنا ُم ۡ‬ ‫ِهَّلل َفِإن َتَو َّل ۡوْا َفُقوُلوْا ٱ ۡ‬
‫ِّم ن ُدوِن ٱ ۚ‬
‫آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم ہللا‬
‫تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں(‪ ، )1‬نہ ہللا تعالٰی کو چھوڑ‬
‫کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں(‪)2‬۔ پس اگر وه منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواه رہو ہم تو‬
‫مسلمان ہیں۔(‪)3‬‬
‫کسی بت کو نہ صلیب کو‪ ،‬نہ آک کو اور نہ کسی اور چیز کو‪ ،‬بلکہ صرف ایک ہللا کی عبادت کریں )‪(1‬‬
‫جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔‬
‫یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہما السالم کی )‪(2‬‬
‫ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ گھڑ رکھا ہے یہ غلط ہے‪ ،‬وہ رب نہیں ہیں انسان ہی ہیں۔ دوسرا‪ ،‬اس بات‬
‫کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے اپنے احبار ورہبان کو حالل وحرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے‪ ،‬یہ بھی‬
‫ان کو رب بنانا ہے جیسا کہ آیت اَّتَخ ُذ وا َأْح َباَر ُهْم اس پر شاہد ہے‪ ،‬یہ بھی صحیح نہیں ہے‪ ،‬حالل وحرام کا‬
‫اختیار بھی صرف ہللا ہی کو ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر )‬
‫صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ (صلى هللا عليه وسلم) نے ہرقل شاہ )‪(3‬‬
‫روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے اس آیت کے حوالے سے قبول اسالم کی دعوت دی اور‬
‫اسے کہاکہ تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دہرا اجر ملے گا‪ ،‬ورنہ ساری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔‬
‫”َفَأْس ِلْم َتْس َلْم ‪َ ،‬يْؤ ِتَك ُهللا َأْج َر َك َم َّرَتْيِن ‪َ ،‬فِإْن َتَو َّلْيَت ‪َ ،‬فِإَّن َع َلْيَك ِإْثَم اَألِريِس ِّييَن “(صحيح بخاري‪ ،‬كتاب بدء الوحي‬
‫نمبر) ”اسالم قبول کر لے‪ ،‬سالمتی میں رہے گا۔ اسالم لے آ‪ ،‬ہللا تعالٰی تجھے دوگنا اجر دے گا۔ لیکن اگر تو‬
‫نے قبول اسالم سے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہی ہو گا“۔ کیونکہ رعایا کے عدم قبول اسالم‬
‫کاسبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت میں مذکور تین نکات یعنی (‪ )1‬صرف ہللا کی عبادت کرنا۔(‪ )2‬اسکے ساتھ کسی‬
‫کو شریک نہ ٹھہرانا۔(‪ )3‬اورکسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا وہ کلمٔہ سواء ہے جس پر اہل‬
‫کتاب کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ لٰہ ذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان ہی تین نکات‬
‫اور اس کلمٔہ سواء کو بدرجہ اولٰی ا‬
‫سوال ‪3‬۔ سورۃ آل عمران کی آیات ‪ 103-100‬کی روشنی میں مسلمانوں کی کامیابی کے راہنما اصول‬
‫تحریر کیجیے؟‬
‫جواب نمبر ‪2‬‬
‫سورة آل عمران ‪ -‬آیت ‪100‬‬
‫َيا َأُّيَها اَّلِذ يَن آَم ُنوا ِإن ُتِط يُعوا َفِريًقا ِّم َن اَّلِذ يَن ُأوُتوا اْلِكَتاَب َيُر ُّد وُك م َبْع َد ِإيَم اِنُك ْم َك اِفِريَن‬
‫ترجمہ عبدالسالم بھٹوی ‪ -‬عبدالسالم بن محمد‬
‫اے لوگو جو ایمان الئے ہو! اگر تم ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا مانو گے‪ ،‬جنھیں کتاب دی گئی ہے‪ ،‬تو‬
‫وہ تمھیں تمھارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں گے۔‬
‫تفسیر السعدی ‪ -‬عبدالرحٰم ن بن ناصر السعدی‬
‫ُك‬ ‫ُك‬ ‫ْل‬ ‫ُت‬ ‫ُأ‬
‫چنانچہ فرمایا ‪َ ﴿:‬يا َأُّيَها اَّلِذ يَن آَم ُنوا ِإن ُتِط يُعوا َفِري ا ِّم َن ا ِذ يَن و وا ا ِكَتاَب َيُر ُّد و م َبْع َد ِإيَم اِن ْم َك اِفِريَن ﴾” اے‬
‫َّل‬ ‫ًق‬
‫ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں‪ ،‬تمہارے ایمان النے کے بعد‬
‫مرتد کافر بنا دیں گے۔“ اس کی وجہ ان کا حسد‪ ،‬ظلم اور تمہیں مرتد کردینے کی شدید خواہش ہے جیسے‬
‫ہللا تعالٰی نے فرمایا ‪َ﴿ :‬و َّد َك ِثيٌر ِّم ْن َأْهِل اْلِكَتاِب َلْو َيُرُّدوَنُك م ِّم ن َبْع ِد ِإيَم اِنُك ْم ُك َّفاًرا َحَس ًدا ِّم ْن ِع نِد َأنُفِس ِه م ِّم ن َبْع ِد َم ا‬
‫َتَبَّيَن َلُهُم الَح ُّق ﴾ (البقرہ ‪2:‬؍ ‪ ” )109‬اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے‪ ،‬محض حسد و‬
‫بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔“ پھر ہللا تعالٰی نے مومنوں کی اپنے ایمان پر ثابت‬
‫قدمی کا اور یقین میں ڈانواں ڈول نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب بیان کیا ہے اور یہ کہ ان کا ایمان سے پھر‬
‫جانا انتہائی ناممکن ہے۔‬
‫سورة آل عمران ‪ -‬آیت ‪103‬‬
‫َو اْعَتِصُم وا ِبَح ْبِل ِهَّللا َجِم يًعا َو اَل َتَفَّر ُقوا ۚ َو اْذ ُك ُروا ِنْع َم َت ِهَّللا َع َلْيُك ْم ِإْذ ُك نُتْم َأْع َداًء َفَأَّلَف َبْيَن ُقُلوِبُك ْم َفَأْص َبْح ُتم ِبِنْع َم ِتِه‬
‫ِإْخ َو اًنا َو ُك نُتْم َع َلٰى َشَفا ُح ْفَرٍة ِّم َن الَّناِر َفَأنَقَذُك م ِّم ْنَها ۗ َك َٰذ ِلَك ُيَبِّيُن ُهَّللا َلُك ْم آَياِتِه َلَع َّلُك ْم َتْهَتُد وَن‬
‫ترجمہ عبدالسالم بھٹوی ‪ -‬عبدالسالم بن محمد‬
‫اور سب مل کر ہللا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ اور اپنے اوپر ہللا کی نعمت یاد‬
‫کرو‪ ،‬جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی‬
‫بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح‬
‫ہللا تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے‪ ،‬تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‬
‫تفسیر السعدی ‪ -‬عبدالرحٰم ن بن ناصر السعدی‬
‫چنانچہ فرمایا ‪َ﴿ :‬و اْذ ُك ُروا ِنْع َم َت الَّلـِه َع َلْيُك ْم ِإْذ ُك نُتْم َأْع َداًء ﴾” اور ہللا کی اس وقت کی نعمت یاد کرو‪ ،‬جب تم‬
‫(یہ نعمت حاصل ہونے سے پہلے) ایک دوسرے کے دشمن تھے“ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ ایک‬
‫دوسرے کا مال چھینتے تھے‪ ،‬قبیلوں کی قبیلوں سے دشمنی تھی‪ ،‬ایک ہی شہر کے رہنے والے آپس میں‬
‫عداوت اور جنگ وجدل کا شکار تھے۔ غرض بہت بری حالت تھی۔ یہ وہ حالت ہے جو نبی صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی بعث سے پہلے عرب میں عام تھی۔ جب ہللا تعالٰی نے آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کو مبعوث‬
‫فرمایا اور وہ لوگ ایمان لے آئے‪ ،‬تو وہ اسالم کی بنیاد پر اکٹھے ہوگئے‪ ،‬ان کے دلوں میں ایمان کی وجہ‬
‫سے محبت پیدا ہوگئی۔ وہ باہمی محبت اور مدد کے لحاظ سے فرد واحد کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اسی لئے‬
‫ہللا تعالٰی نے فرمایا ‪َ﴿ :‬فَأَّلَف َبْيَن ُقُلوِبُك ْم َفَأْص َبْح ُتم ِبِنْع َم ِتِه ِإْخ َو اًنا ﴾” اس نے تمہارے دلوں میں الف ڈال دی‪ ،‬پس‬
‫تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔“ اس کے بعد فرمایا ‪َ﴿ :‬و ُك نُتْم َع َلٰى َشَفا ُح ْفَرٍة ِّم َن الَّناِر ﴾ ”اور تم‬
‫آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے“ یعنی تم جہنم کے مستحق ہوچکے تھے۔ صرف اتنی کسر‬
‫رہ گئی تھی کہ تمہیں موت آجائے تو جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ (َفَأنَقَذُك م ِّم ْنَها) ” تو اس نے تمہیں اس سے بچا‬
‫لیا“ وہ اس طرح کہ تم پر یہ احسان کیا کہ تمہیں محمد صلی ہللا علیہ وسلم پر ایمان نصیب فرما دیا۔ ﴿َك ٰذ ِلَك‬
‫ُيَبِّيُن الَّلـُه َلُك ْم آَياِتِه﴾” ہللا اسی طرح تمارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے“ یعنی ان کی وضاحت اور تشریح‬
‫کرتا ہے اور تمہارے لئے حق و باطل اور ہدایت و گمراہی الگ الگ کر کے واضح کردیتا ہے ﴿ َلَع َّلُك ْم‬
‫َتْهَتُد وَن ﴾ ” تاکہ تم (حق کو پہچان کر اور اس پر عمل کر کے) ہدایت پاؤ“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہللا‬
‫تعالٰی کو یہ بات پسند ہے کہ بندے دلوں اور زبانوں کے ساتھ اس کی نعمت کو یاد کریں‪ ،‬تاکہ ان میں شکر‬
‫اور ہللا کی محبت کے جذبات پروان چڑھیں اور ہللا تعالٰی مزید فضل و احسانات سے نوازے۔ ہللا کی جو‬
‫نعمت سب سے زیادہ ذکر کئے جانے کے قابل ہے وہ ہے اسالم کا شرف حاصل ہوجانے کی نعمت‪ ،‬اتباع‬
‫رسول کی توفیق مل جانے کی نعمت اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی موجودگی اور اختالف و افتراق نہ‬
‫ہونے کی نعمت۔‬

‫سوال‪ -4‬سورۃ آل عمران کی آیات ‪ 158-156‬کا بامحاورہ ترجمہ کر میں مشکل کلمات و مرکبات کی‬
‫وضاحت کیجیے اورتوجیہات تحریر کریں؟‬
‫جواب نمبر ‪4‬‬
‫بھائیوں کے بارے میں کہا جب انھوں نے زمین میں سفر کیا‪ ،‬یا وہ لڑنے والے تھے‪ ،‬اگر وہ ہمارے پاس‬
‫ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے‪ ،‬تاکہ ہللا اسے ان کے دلوں میں حسرت بنا دے اور ہللا زندگی‬
‫بخشتا اور موت دیتا ہے اور ہللا اس کو جو تم کرتے ہو‪ ،‬خوب دیکھنے واال ہے۔‬
‫تفسیر السعدی ‪ -‬عبدالرحٰم ن بن ناصر السعدی‬
‫ہللا تبارک و تعالٰی نے اپنے اہل ایمان بندوں کو کفار اور منافقین وغیرہ کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا‬
‫ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس نے ہر چیز میں ان کی مشابہت اختیار‬
‫کرنے سے روکا ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے۔ خاص طور پر اس معاملے‬
‫میں کہ وہ اپنے دینی یا نسبی بھائیوں سے کہتے ہیں ‪ِ ﴿ :‬إَذ ا َضَر ُبوا ِفي اَأْلْر ِض﴾ یعنی جب تجارت وغیرہ کے‬
‫لیے سفر کرتے ہیں ﴿ َأْو َك اُنوا ُغ ًّز ى﴾ یا وہ غزوات کے لیے نکلتے ہیں۔ پھر اس دوران میں انہیں موت‬
‫آجاتی ہے یا وہ قتل ہوجاتے ہیں تو وہ ہللا تعالٰی کی قضا و قدر پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿َّلْو َك ا وا‬
‫ُن‬
‫ِع نَدَنا َم ا َم اُتوا َو َم ا ُقِتُلوا﴾ ” اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو وہ نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے“ یہ ان کا جھوٹ ہے۔‬
‫ہللا تعالٰی فرماتا ہے ﴿ُقل َّلْو ُك نُتْم ِفي ُبُيوِتُك ْم َلَبَر َز اَّلِذ يَن ُك ِتَب َع َلْيِهُم اْلَقْتُل ِإَلٰى َم َض اِج ِع ِه ْم ﴾ (آل عمران ‪3:‬؍ ‪” )154‬‬
‫کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھا تھا توہ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں‬
‫کی طرف نکل آتے۔“ مگر اس تکذیب نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا البتہ ہللا تعالٰی نے ان کے اس قول اور‬
‫عقیدے کو ان کے دلوں میں حسرت بنا دیا پس ان کی مصیبت میں اور اضافہ ہوگیا۔ رہے اہل ایمان‪ ،‬تو وہ‬
‫جانتے ہیں کہ یہ ہللا تعالٰی کی تقدیر ہے پس وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں اور یوں‬
‫ہللا تعالٰی ان کے دلوں کو ہدایت دیتا ہے اور ان کو مضبوط کردیتا ہے اور اس طرح ان کی مصیبت میں‬
‫تخفیف کردیتا ہے۔ ہللا تعالٰی منافقین کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے ‪َ﴿ :‬و الَّلـُه ُيْح ِيي َو ُيِم يُت ﴾ یعنی زندہ کرنے‬
‫اور موت دینے کا اختیار وہ اکیال ہی رکھتا ہے۔ اس لیے صرف احتیاط تقدیر سے نہیں بچا سکتی۔ ﴿ َو الَّلـُه‬
‫ِبَم ا َتْع َم ُلوَن َبِص يٌر ﴾ ” اور ہللا جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھ رہا ہے۔“ اس لیے وہ تمہارے اعمال اور‬
‫تمہاری تکذیب کا بدلہ ضرور دے گا۔‬
‫عبدالسالم بن محمد‬
‫اور بالشبہ یقینًا اگر تم ہللا کے راستے میں قتل کردیے جاؤ‪ ،‬یا فوت ہوجاؤ تو یقین ہللا کی طرف سے تھوڑی‬
‫ًا‬
‫سی بخشش اور رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں۔‬
‫تفسیر السعدی ‪ -‬عبدالرحٰم ن بن ناصر السعدی‬
‫پھر ہللا تعالٰی نے آگاہ فرمایا ہے کہ ہللا تعالٰی کے راستے میں قتل ہوجانا یا مر جانا‪ ،‬اس میں کوئی نقص یا‬
‫کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے پرہیز کیا جائے بلکہ یہ تو ایک ایسا معاملہ ہے جس میں رغبت کے لیے‬
‫لوگوں کو مسابقت کرنی چاہئے کیونکہ یہ ایک سبب ہے جو ہللا تعالٰی کی مغفرت اور رحمت تک پہنچاتا‬
‫ہے اور یہ اس دنیاوی مال و متاع سے کہیں بہتر ہے جسے دنیا والے جمع کرتے ہیں‪ ،‬نیز مخلوق کو جب‬
‫بھی موت آئے گی یا کسی بھی حالت میں ان کو قتل کیا جائے انہیں ہللا ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ ہر‬
‫ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ اس لیے ہللا کے سوا کوئی جائے فرار نہیں اور مخلوق کو کوئی‬
‫بچانے واال نہیں‪ ،‬سوائے اس کے کہ اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے۔‬
‫سوال‪ 5‬۔ سورۃ آل عمران کی روشنی میں منافقوں کا کردار اور اہل کتاب کی خرابیوں پر علیحدہ علیحدہ‬
‫نوٹ تحریر کر یں؟‬
‫جواب نمبر ‪5‬‬
‫قرآن و حدیث اور منافقین کی پہچان‬
‫محترم قارئیِن کرام ‪ :‬قرآن کریم کی معروف اصطال حات میں سے ایک اصطالح منافق بھی ہے۔ اسالمی سو‬
‫سائٹی میں جو عناصر بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن باطن میں وہ اسالم کے سخت ترین دشمن ہیں ‪،‬‬
‫ایسے افراد کو منافق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ’’ دوست نما دشمن‘‘ کا کردار کرتے ہیں ۔‬
‫سورۃ العنکبوت کے شروع ہی میں ہللا تعالٰی کا ارشاد ہے‪ ،‬ترجمہ ‪ :‬اور ہللا کو تو ضرور دیکھنا ہے کہ‬
‫ایمان النے والے کون ہیں اور منافق کون ۔ (سورہ العنکبوت‪)۱۱ :‬‬
‫ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم نے ایک حدیث میں منافق کی پہچان کی وضاحت کچھ اس طرح کی‬
‫ہے ‪ :‬چار باتیں جس میں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں‬
‫منافق کی ایک نشا نی رہے گی ۔ یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے ۔ پھر آپ صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم نے‬
‫فرمایا جب امانتدار بنا یا جائے تو خیانت کرے ‪ ،‬جب بولے تو جھوٹ بولے ‪ ،‬جب معاہدہ کرے تو خالف‬
‫ورزی کرے ‪ ،‬جب جھگڑا کرے تو گالی دے ۔ (صحیح البخاری باب عالمۃ المنافق)‬
‫بد قسمتی سے ہمارے نام نہاد مسلم معاشرہ میں یہ رزائل بہت تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور اس پر‬
‫مزید یہ کہ اس منا فقانہ طرز عمل کو چاالکی اور ہوشیاری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی‬
‫میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے ۔‬
‫امانت میں خیانت‬
‫اس حدیث مبارک میں منافق کی پہلی خصلت امانت میں خیانت بتا ئی گئی ہے ۔ امانت کی پاسداری دراصل‬
‫مومن کی پہچان ہے ‪ ،‬آپ صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم نے فرمایا ‪ :‬مومن کے اندر ہر عادت ہو سکتی ہے‬
‫جھوٹ اور خیانت کے سوا ۔ (رواہ احمد عن ابی امامہ ورواہ البزار)‬
‫امانت میں خیانت کی درج ذیل شکلیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ‪ ،‬اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن‬
‫⬇ ‪ :‬ہے‬
‫۔ امانت میں خیانت یعنی کم مال واپس کرنا‪ ،‬اچھے مال سے خراب مال بدل لینا۔‪۱‬‬
‫۔ ہللا اور اس کے رسول کی نا فرمانی بھی امانت میں خیانت ہے۔ ‪۲‬‬
‫۔ ناپ تول میں کمی کرنا بھی امانت میں خیانت ہے۔‪۳‬‬
‫۔ راز بھی امانت ہے‪ ،‬اس کی حفاظت نہ کرنا خیانت ہے۔‪۴‬‬
‫۔ وقت کا ضیاع‪ ،‬کام چوری اور غیر متعلق امور سے دلچسپی بھی خیانت ہے۔‪۵‬‬
‫۔ رشوت لے کر کام کرنا اور ناحق فائدہ پہنچانا بھی خیانت ہے۔‪۶‬‬
‫کذب بیانی‬
‫‪:‬منافق کی دوسری خصلت کذب بیانی کہی گئی ہے‪ ،‬اس کی درج ذیل مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں‬
‫۔ ہللا کے معاملے میں جھوٹ بولنا یعنی حالل کو حرام اور حرام کو حالل بتا نا۔‪۱‬‬
‫‪،‬۔ ہللا کے رسول کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا‬
‫۔ جھوٹی خبریں‪ ،‬اور جھوٹے واقعات بیان کرنا‪ ،‬سنسنی خیز صحافت بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔‪۳‬‬
‫۔ جھوٹی قسمیں‪ ،‬جھوٹے وعدے‪ ،‬جھوٹے مقدمات قائم کرنا۔ جھوٹی گواہی دینے والے کے تعلق سے ارشاد‪۴‬‬
‫خدا وندی ہے‪ ’’:‬جو لوگ ہللا کے عہد اور اپنی قسموں کو حقیر قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ان کے لیے‬
‫آخرت میں کوئی حّصہ نہیں اور ہللا نہ ان سے بات کرے گا‪ ،‬نہ ان کی طرف دیکھے گا‘‘۔( آل عمران‪)۷۷ :‬‬
‫اس معاملے کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ نبؐی نے ارشاد فرمایا‪’’ :‬کیا میں تمہیں سب‬
‫سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہللا کے ساتھ شریک ٹھہرانا‪ ،‬والدین کی نا فرمانی کرنا‪ ،‬سنو! جھوٹ‬
‫بولنا‪ ،‬جھوٹی گواہی دینا۔ آپ بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ راوی نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ‬
‫خاموش ہو جاتے۔‘‘ (بخاری‪ ،‬مسلم‪ ،‬ترمذی)‬
‫جھوٹی قسم کھاکر تجارت کو فروغ دینا‪ ،‬غلط طریقے سے سامان بیچنا ‪،‬اور خریدار کو فریب دینا بھی‬
‫جھوٹ کی ایک قسم ہے‪ ،‬اس ضمن میں نبؐی کا ارشاد ہے‪ ’’:‬تین ایسے آدمی ہیں جن کی طرف روز قیامت‬
‫ہللا تعالی نہ دیکھے گا‪ ،‬نہ ان کا تزکیہ کرے گا‪ ،‬اس روز ان کو درد ناک عذاب ہوگا(‪ )۱‬تہبند کو ٹخنے سے‬
‫نیچے لٹکانے واال (متکبر)‪ )۲( ،‬احسان جتانے واال‪ )۳( ،‬جھوٹی قسم کھاکر اپنی تجارت کو فروغ دینے‬
‫واال۔‬
‫۔ ایک اور انتہائی درجہ بد اخالقی کی جیتی جاگتی تصویر جس میں نوجوان طبقہ خاص طور سے ملوث‪۵‬‬
‫ہے‪ ،‬بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر بد چلنی کا الزام لگانا‪ ،‬حق تعالٰی شانٗہ کا ارشاد ہے‪’’ :‬بے شک جو‬
‫لوگ پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہوگی اور ان کے‬
‫لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (النور‪)۳۳ :‬‬
‫اسالمی معاشرہ کی اصل روح تو یہ ہے کہ دوسروں کے واقعی عیبوں پر بھی پردہ ڈاال جائے اور کسی‬
‫بھی مومن یا مومنہ کی سِر بازار پگڑی نہ اچھالی جائے۔ ورنہ نفرت‪ ،‬بغض وکینہ وغیرہ سے معاشرہ کا‬
‫پاک رہ جانا بڑا ہی مشکل ہو گا ۔ اگر اتفاقًا کسی کی کوئی غلط حرکت سامنے آبھی جائے تو خلوت میں‬
‫حکمت کے ساتھ اسے سمجھانا ہی افضل ہے ۔‬
‫بد عہدی یا معا ہدہ شکنی‬
‫منافق کی تیسری خصلت بد عہدی یا معا ہدہ شکنی ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ہللا تعالٰی کا ارشاد ہے ‪:‬‬
‫’’اور عہد کو پورا کر و کیونکہ عہد کی پرسش ہونی ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل)‬
‫ًا‬
‫اس عہد میں ہر قسم کا عہد شامل ہے خواہ وہ کسی معا ہدے کی صورت میں وجود میں آئے‪ ،‬لیکن عادت ’’‬
‫اور عرفََاُان کو عہد ہی سمجھا اور مانا جاتا ہو‪ ،‬جس نوعیت کا بھی عہد ہو‪ ،‬اگر وہ خالف شریعت نہیں ہے‬
‫‪:‬تو اس کو پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔ عہد کی دو قسمیں ہیں‬
‫الف) ہللا اور بندے کے درمیان یعنی ہر شخص کا ہللا سے یہ عہد کہ وہ سچا پکا مومن ہوگا اور جملہ‬
‫معامالت میں شریعت الہی کی اتباع کرے گا۔ یہی بات سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں بھی کہی گئی ہے‪،‬‬
‫ارشاد ربانی ہے‪ ’’:‬اے لوگو جو ایمان الئے ہو‪ ،‬بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘۔( سورۃ المائدۃ‪ ،‬آیت‪)۱:‬‬
‫یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورہ میں تم پر عائد کی جارہی ہیں اور جو بالعموم خدا ’’‬
‫‘‘ کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں‬
‫عہد کی دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے درمیان ہے‪ ،‬اس کی مثال ہے کام چوری کرنا‪ ،‬دھوکہ دینا‪ ،‬وعدہ‬
‫پورا نہ کرنا‪ ،‬وغیرہ‬
‫بد زبانی و بد کالمی‬
‫منا فق کی چوتھی خصلت بد زبانی اور بد کالمی ہے‪ ،‬یعنی وہ مخاصمت کے وقت آپے سے باہر ہو جاتا‬
‫ہے‪ ،‬نبؐی نے ارشاد فرمایا‪’’ :‬لوگ جہنم میں اپنی بد زبانی کے سبب جائیں گے‘‘(ترمذی) جنت کی نعمتوں‬
‫میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں اہل ایمان کوئی ال یعنی اور لغو یات نہیں سنیں گے‪ ،‬جیسا سورۃ‬
‫الواقعۃ میں ہللا تعالی کا ارشاد ہے‪’’ :‬وہاں وہ کوئی بے ہودہ کالم یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی‬
‫ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی‘‘۔ (سورۃ الواقعۃ‪۲۵ :‬۔‪)۲۶‬‬
‫سطور باالکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور سے ہی سہی‬
‫منافقت کے مہلک مرض میں مبتال تو نہیں ہو رہے ہیں ؟‬
‫عزت تو ہّٰللا اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کےلیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں‬
‫محترم قارئیِن کرام ‪ :‬بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے پاکستان کے موجودہ وزیِر اعظم مسٹر عمران خان نیازی‬
‫آئے دن کوئی نہ کوئی اول فول بکتے رہتا ہے حال ہی میں تاجداِر کائنات صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم کی‬
‫طرف لفظ ذلیل کی نسبت کر کے اس شخص نے پھر اپنی ذلت و رسوائی کو دعوت دی ہے اور غالماِن‬
‫مصطفٰی صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم پر مظالم کی انتہا کردی ہے اس شخص ٕن ۔ یاد رہے جس نے بھی‬
‫ناموِس رسالت صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم پر حملہ کیا ذلتیں ُاس کا مقدر بنیں یہی الفاظ فقیر ڈاکٹر فیض احمد‬
‫چشتی نے نواز شریف صاحب کےلیے لکھے تھے آج ُاس کا حال دیکھ لیں اب فقیر کہتا ہے عمران خان‬
‫نیازی کا انجام ُاس سے بھی ُبرا ہوگا ان شاء ہللا ۔‬
‫ۤا‬
‫محترم قارئیِن کرام ہللا تعالٰی نے ارشاد فرمایا ‪َ :‬یُقْو ُلْو َن َلٕىْن َّر َج ْعَن ِاَلى اْلَم ِد ْیَنِة َلُیْخ ِر َج َّن اَاْلَع ُّز ِم ْنَها اَاْلَذ َّل ؕ‪َ-‬و ِهّٰلِل‬
‫اْلِع َّزُة َو ِلَر ُسْو ِلٖه َو ِلْلُم ْؤ ِمِنْیَن َو ٰل ِكَّن اْلُم ٰن ِفِقْیَن اَل َیْع َلُم ْو َن ۠ ۔ (سورہ منافقون آیت نمبر ‪)8‬‬
‫ترجمہ ‪ :‬کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت واال ہے وہ اس میں سے نکال دے گا‬
‫ُاسے جو نہایت ذلت واال ہے اور عزت تو ہّٰللا اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر‬
‫منافقوں کو خبر نہیں ۔‬
‫َیُقْو ُلْو َن ‪ :‬وہ کہتے ہیں ۔ یعنی منافق کہتے ہیں ‪ :‬اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف‬
‫لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت واال ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا ۔ منافقوں‬
‫نے اپنے ٓاپ کو عزت واال کہا اور مسلمانوں کو ذلت واال ‪ ،‬ہّٰللا تعالٰی ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے‬
‫کہ عزت تو ہّٰللا اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ‪ ،‬اگر وہ یہ‬
‫بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے چند ہی روز بعد عبد ہّٰللا بن ُابی‬
‫منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا ۔ (تفسیر خازن المنافقون ‪)۴/۲۷۴ ،۸ :‬‬
‫عبد ہّٰللا بن ُابی منافق کے بیٹے کا عشق رسول (صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم)‬
‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫عبد بن ُابی کے بیٹے کا نام بھی عبد رضی ہللا عنہ تھا اور یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشِق‬
‫رسول تھے ‪ ،‬جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے‬
‫کہنے لگے اس وقت تک مدینہ میں داخل ہونے نہیں دوں گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے‬
‫اور محمد مصطفی َص َّلی ُہّٰللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم عزیز ہیں ۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے‬
‫ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے والے تھے مگر نبی کریم َص َّلی ُہّٰللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم کے مقابلے میں باپ کی کوئی‬
‫عزت و محبت دل میں نہ رہی ۔ ٓاخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ وہّٰللا میں ذلیل ہوں اور محمد مصطفی‬
‫َص َّلی ُہّٰللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم عزیز ہیں ‪ ،‬اس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔( سیرت حلبیہ‪ ،‬باب ذکر مغازیہ‬
‫صلی ہّٰللا علیہ وسلم ‪،‬غزوۃ بنی المصطلق ‪،۲/۳۹۳،‬چشتی)(مدارج النبوۃ‪ ،‬قسم سوم‪ ،‬باب پنجم‪)۲/۱۵۷ ،‬‬
‫اس ٓایت سے معلوم ہوا‬
‫ہر مومن عزت واال ہے کسی مسلم قوم کو ذلیل جاننا یا اسے کمین کہنا حرام ہے۔ )‪(1‬‬
‫مومن کی عزت ایمان اور نیک اعمال سے ہے ‪ ،‬روپیہ پیسہ سے نہیں ۔ )‪(2‬‬
‫مومن کی عزت دائمی ہے فانی نہیں اسی لئے مومن کی الش اور قبر کی بھی عزت کی جاتی ہے ۔ )‪(3‬‬
‫جو مومن کو ذلیل سمجھے وہ ہّٰللا تعالٰی کے نزدیک ذلیل ہے ‪ ،‬غریب مسکین مومن عزت واال ہے جبکہ )‪(4‬‬
‫مالدار کافر بد تر ہے ۔‬
‫ِاَّن َاْك َر َم ُك ْم ِع ْنَد ِهّٰللا َاْتٰق ى ْم ؕ ۔ (سورہ حضرات آیت نمبر ‪)13‬‬
‫ُك‬
‫ترجمہ ‪ :‬ہللا کے یہاں تم میں زیادہ عزت واال وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔‬
‫ِاَّن َاْك َر َم ُك ْم ِع ْنَد ِهّٰللا َاْتٰق ىُك ْم ‪ :‬بیشک ہللا کے یہاں تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔‬
‫ٓایت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت و فضیلت کا سبب ہے‬
‫اور جس سے اسے ہللا تعالٰی کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ‪ ،‬چنانچہ ارشاد فرمایا‪ :‬بیشک ہللا تعالٰی‬
‫کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت واال وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک ہللا تعالٰی‬
‫تمہیں جاننے واال اور تمہارے باطن سے خبردار ہے ۔‬
‫شاِن نزول ‪ :‬نبی کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ‪ ،‬وہاں مالحظہ‬
‫فرمایا کہ ایک حبشی غالم یہ کہہ رہا تھا ‪ :‬جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے نبی‬
‫کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم کی ِاقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے ۔ اس غالم کو ایک‬
‫شخص نے خرید لیا ‪ ،‬پھر وہ غالم بیمار ہوگیا تو نبی کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم اس کی عیادت کے لئے‬
‫تشریف الئے ‪ ،‬پھر اس کی وفات ہوگئی اور رنبی کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم اس کی تدفین میں تشریف‬
‫الئے ‪ ،‬اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر مدارک‪،‬‬
‫الحجرات‪ ،‬تحت آالیۃ‪ ،۱۳ :‬ص‪ ،۱۱۵۶‬جاللین‪ ،‬الحجرات‪ ،‬تحت آالیۃ‪ ،۱۳ :‬ص‪،۴۲۸‬چشتی)‬
‫عزت اور فضیلت کا مدار پرہیزگاری ہے‬
‫اس سے معلوم ہوا کہ ہللا تعالٰی کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لٰہ ذا ہر‬
‫مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقوٰی و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ ہللا تعالٰی‬
‫کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو ۔‬
‫َّل‬ ‫ٰا‬ ‫َّل‬
‫حضرت عبدہللا بن عمر َرِض َی ہللا َع ْنُہَم ا فرماتے ہیں ‪ :‬فتِح مکہ کے دن نبی کریم َص ی ہللا َع ْیِہ َو ِلٖہ َو َس َم نے‬
‫َل‬
‫خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ‪’’ :‬اے لوگو ! ہللا تعالٰی نے تم سے جاہِلَّیت کا غرور اور ایک دوسرے پر‬
‫خاندانی فخر دور کر دیا ہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں (‪ )1‬نیک اور متقی شخص جو کہ ہللا تعالٰی‬
‫کی بارگاہ میں معزز ہے ۔ (‪ )2‬گناہگار اور بد بخت ٓادمی ‪ ،‬ہللا تعالٰی کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔ تمام‬
‫لوگ حضرت ٓادم َع َلْیِہ الَّص ٰل وُۃ َو الَّساَل م کی اوالد ہیں اور حضرت ٓادم َع َلْیِہ الَّص ٰل وُۃ َو الَّساَل م کو ہللا تعالٰی نے‬
‫مٹی سے پیدا کیا ہے ‪ ،‬ہللا تعالٰی ارشاد فرماتا ہے ‪ٰۤ’’ :‬ی َاُّیَها الَّناُس ِاَّنا َخ َلْقٰن ُك ْم ِّم ْن َذ َك ٍر َّو ُاْنٰث ى َو َجَع ْلٰن ُك ْم ُش ُعْو ًبا َّو‬
‫َقَبإٓىَل ِلَتَع اَر ُفْو اؕ‪ِ-‬اَّن َاْك َر َم ُك ْم ِع ْنَد ِهّٰللا َاْتٰق ىُك ْم ؕ‪ِ-‬اَّن َهّٰللا َع ِلْیٌم َخ ِبْیٌر‘‘ ۔‬
‫ترجمہ ‪ :‬اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم‬
‫آپس میں پہچان رکھو ‪ ،‬بیشک ہللا کے یہاں تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے‬
‫بیشک ہللا جاننے واال خبردار ہے ۔ (ترمذی‪ ،‬کتاب التفسیر‪ ،‬باب ومن سورۃ الحجرات‪ ،۵/۱۷۹ ،‬الحدیث‪:‬‬
‫‪)۳۲۸۱‬‬
‫َل‬ ‫َّل‬
‫حضرت عداء بن خالد َر ِض َی ہللا َتَع ا ی َع ُہ فرماتے ہیں ‪ :‬میں حجۃ الوداع کے دن نبی کریم َص ی ہللا َع ْیِہ‬ ‫ْن‬ ‫ٰل‬
‫َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم کے منبرِ اقدس کے نیچے بیٹھا ہوا تھا ‪ٓ ،‬اپ َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم نے ہللا تعالٰی کی حمد و ثنا‬
‫کی ‪ ،‬پھر فرمایا ’’ بے شک ہللا تعالٰی ارشاد فرماتا ہے ‪ٰۤ’’ :‬ی َاُّیَها الَّناُس ِاَّنا َخ َلْقٰن ُك ْم ِّم ْن َذ َك ٍر َّو ُاْنٰث ى ۔‬
‫ترجمہ ‪ :‬اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور َو َجَع ْلٰن ُك ْم ُش ُعْو ًبا َّو َقَبإٓىَل ِلَتَع اَر ُفْو اؕ‪ِ-‬اَّن َاْك َر َم ُك ْم ِع ْنَد ِهّٰللا َاْتٰق ىُك ْم ‘‘ ۔‬
‫ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو‪ ،‬بیشک ہللا کے یہاں‬
‫تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔‬
‫تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل‬
‫ہے ‪،‬کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل‬
‫ہے بلکہ فضیلت صرف تقوٰی و پرہیزگاری سے ہے (تو جو ُم َّتقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے) ۔ (معجم‬
‫الکبیر‪ ،‬عداء بن خالد بن ہوذہ العامری‪ ،۱۸/۱۲ ،‬الحدیث‪،۱۶ :‬چشتی)‬
‫حضر ت علی المرتضٰی َکَّر َم ہللا َتَع اٰل ی َو ْج َہُہ اْلَک ِرْیم سے روایت ہے ‪ ،‬نبی کریم َص َّلی ہللا َع َلْیِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم نے‬
‫ارشاد فرمایا ‪’’ :‬جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں کوہللا تعالٰی کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اس حال میں کہ‬
‫وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی ‪ ،‬توہللا تعالٰی ارشاد فرمائے گا ‪’’ :‬اے میرے بندو ! میں‬
‫نے تمہیں حکم دیا اور تم نے میرے حکم کو ضائع کردیا اورتم نے اپنے نسبوں کو بلند کیا اور انہی کے‬
‫سبب ایک دوسرے پر فخر کرتے رہے ‪ٓ ،‬اج کے دن میں تمہارے نسبوں کو حقیر و ذلیل قراردے رہاہوں ‪،‬‬
‫میں ہی غالب حکمران ہوں ‪ ،‬کہاں ہیں ُم َّتقی لوگ ؟ کہاں ہیں متقی لوگ ؟ بیشک ہللا تعالٰی کے یہاں تم میں‬
‫زیادہ عزت واال وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔ (تاریخ بغداد‪ ،‬ذکر من اسمہ علّی ‪ ،‬حرف االلف من‬
‫ٓاباء العلیین‪-۶۱۷۲ ،‬علّی بن ابراہیم العمری القزوینی‪)۱۱/۳۳۷ ،‬‬
‫مسلمانوں کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا‬
‫‪ :‬ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیِث مبارکہ مالحظہ ہو‬
‫َأْط‬ ‫َأْط‬ ‫ُق‬
‫ِبا َکْع َبِة ‪َ ،‬و َي وُل‪َ :‬م ا َيَبِک َو َيَب‬ ‫ْل‬ ‫وُف‬ ‫ُط‬‫َع ْن َع ْبِد ِﷲ ْبِن ُع َم َر َقاَل ‪َ :‬ر َأْيُت َر ُسوَل ِﷲ صلی هللا عليه وآله وسلم َي‬
‫ِريَحِک ‪َ ،‬م ا َأْع َظَم ِک َو َأْع َظَم ُحْر َم َتِک ‪َ ،‬و اَّلِذ ي َنْفُس ُمَحَّمٍد ِبَيِدِه‪َ ،‬لُحْر َم ُة ا ُم ْو ِم ِن ْع َظُم ِع ْنَد اِﷲ ُحْر َم ًة ِم ْنِک َم اِلِه‬
‫َأ‬ ‫ْل‬
‫َو َد ِمِه‪َ ،‬و َأْن َنُظَّن ِبِه ِإاَّل َخْيًرا ۔‬
‫ترجمہ ‪ :‬حضرت عبد ہللا بن عمر رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا ‪( :‬اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری‬
‫خوشبو کتنی پیاری ہے ‪ ،‬تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ‪ ،‬قسم ہے اس ذات کی‬
‫جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت ﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے‬
‫زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے ۔ (ابن ماجه‪ ،‬السنن‪ ،‬کتاب الفتن‪ ،‬باب‬
‫حرمة دم المؤمن وماله‪ ،1297 :2 ،‬رقم‪،3932 :‬چشتی)(طبراني‪ ،‬مسند الشاميين‪ ،396 :2 ،‬رقم‪)1568 :‬‬
‫(منذري‪ ،‬الترغيب والترهيب‪ ،201 :3 ،‬رقم‪)3679 :‬‬
‫حضرت انس رضی ہللا عنہ راوی ہیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ‪ :‬یصف اھل النار فیُم ُر ِبِھ م‬
‫ُ الرجل من اھل الجنۃ فیقول الرجل منھم یا فالن! اما تعرفنی اناالذی سقیتک شرَبًۃ و قال بعضھم انااّلذی وھبُت‬
‫لک وضوًء فیشفعہ لہ فید خلہ الجنۃ ۔ (ابن ماجہ‪،3685:‬مشکٰو ۃ‪)494،‬‬
‫ترجمہ ‪ :‬گنہگار دوزخیوں کو دوزخ میں بھیجنے کیلئے علیحدہ کر دیا جائے گا وہ صِف بستہ کھڑے ہوں‬
‫گے کہ ایک جنتی بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے قریب سے گزرے گاتو دوزخی اپنے اس نیک‬
‫صالح انسان کو پہچان لیں گے کوئی کہے گا آپ مجھے نہیں پہچانتے فالں موقع پر میں نے آپ کو پانی‬
‫پالیا تھا کوئی کہے گا میں نے آپ کو وضو کیلئے پانی ال کر دیا تھا اتنے سے تعارف اور معمولی سی‬
‫خدمت پر ہی وہ نیک انسان ان کی شفاعت کرے گا جو قبول کی جائے گی اور وہ انہیں اپنے ساتھ جنت میں‬
‫لے جائے گا ۔‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

You might also like