You are on page 1of 58

‫پارہ ‪12‬‬

‫ع َها ۭ ُك ٌّل فِ ْي ِك ٰت ٍ‬
‫ب ُّمبِي ٍْن‬ ‫ّٰللاِ ِر ْزقُ َها َويَ ْعلَ ُم ُم ْست َــقَ َّرهَا َو ُمسْـت َْو َد َ‬
‫علَي ه‬ ‫َو َما ِم ْن َد ۗابَّ ٍة فِي ْاْلَ ْر ِ‬
‫ض ا َِّْل َ‬
‫‪Č‬۝‬
‫زمين پر چلنے پهرنے والے جتنے جاندار ہيں سب کی روزياں ہللا ٰ‬
‫تعالی پر ہيں (‪ )١‬وہی ان کے‬
‫رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے (‪ )٢‬کی جگہ کو بهی‪ ،‬سب کچه‬
‫واضح کتاب ميں موجود ہے۔‬
‫‪٦‬۔‪ ١‬يعنی وہ کفيل اور ذمے دار ہے۔ زمين پر چلنے والی ہر مخلوق‪ ،‬انسان ہو يا جن‪ ،‬چرند ہو يا‬
‫پرند‪ ،‬چهوٹی ہو يا بڑی‪ ،‬بحری ہو يا بری۔ ہر ايک کو اس کی ضروريات کے مطابق وہ خوراک‬
‫مہيا کرتا ہے۔‬
‫‪٦‬۔‪ ٢‬مستقر اور مستودع کی تعريف ميں اختالف ہے بعض کے نزديک منتہائے سير (يعنی زمين‬
‫ميں چل پهر کر جہاں رک جائے) مستقر ہے اور جس کو ٹهکانا بنائے وہ مستودع ہے۔ بعض کے‬
‫نزديک رحم مادر مستقر اور باپ کی صلب مستودع ہے اور بعض کے نزديک زندگی ميں انسان يا‬
‫حيوان جہاں رہائش پذير ہو وہ اس کا مستقر ہے اور جہاں مرنے کے بعد دفن ہو وہ مستودع ہے‬
‫تفسير ابن کثير امام شوکانی کہتے ہيں مستقر سے مراد رحم مادر اور مستودع سے وہ حصہ زمين‬
‫ہے جس ميں دفن ہو اور امام حاکم کی ايک روايت کی بنياد پر اسی کو ترجيح دی ہے بہرحال جو‬
‫بهی مطلب ليا جائے آيت کا مفہوم واضح ہے کہ چونکہ ہللا ٰ‬
‫تعالی کو ہر ايک کے مستقر ومستودع‬
‫کا علم ہے اس ليے وہ ہر ايک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے اور ذمے دار ہے اور وہ اپنی ذمے‬
‫داری پوری کرتا ہے۔‬

‫ع َم اال ۭ َولَى ْن‬ ‫علَي ْال َم ۗا ِء ِليَ ْبلُ َو ُك ْم اَيُّ ُك ْم اَحْ َ‬


‫س ُن َ‬ ‫ع ْرشُهٗ َ‬ ‫ض فِ ْي ِست َّ ِة اَي ٍَّام َّو َكانَ َ‬ ‫ت َو ْاْلَ ْر َ‬ ‫ي َخلَقَ السَّمٰ ٰو ِ‬ ‫َو ُه َو الَّ ِذ ْ‬
‫‪Ċ‬۝‬ ‫ــر ُّمبِي ٌْن‬ ‫قُ ْلتَ اِنَّ ُك ْم َّم ْبعُ ْوث ُ ْونَ ِم ْۢ ْن بَ ْع ِد ْال َم ْو ِ‬
‫ت لَيَقُ ْولَ َّن الَّ ِذيْنَ َكفَ ُر ْْٓوا ا ِْن ٰه َذآْ ا َِّْل سِحْ ٌ‬
‫ہللا ہی وہ ہے جس نے چه دن ميں آسمان و زمين کو پيدا کيا اور اس کا عرش پانی پر تها (‪ )١‬تاکہ‬
‫وہ تمہيں آزمائے کہ تم ميں سے اچهے عمل واْل کون ہے‪ )٢( ،‬اگر آپ ان سے کہيں کہ تم لوگ‬
‫مرنے کے بعد اٹها کهڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب ديں گے يہ تو نرا صاف‬
‫صاف جادو ہی ہے۔‬
‫‪٧‬۔‪ ١‬يہی بات صحيح احاديث ميں بهی بيان کی گئی ہے۔ چنانچہ ايک حديث ميں آتا ہے کہ ' ہللا‬
‫تعالی نے آسمان و زمين کی تخليق سے پچاس ہزار سال قبل‪ ،‬مخلوقات کی تقدير لکهی ' اس وقت‬ ‫ٰ‬
‫اس کا عرش پانی پر تها۔ صحيح مسلم‬
‫‪٧‬۔‪ ٢‬يعنی يہ آسمان و زمين يوں ہی عبث اور بال مقصد نہيں بنائے‪ ،‬بلکہ اس سے مقصود انسانوں‬
‫(اور جنوں) کی آزمائش ہے کہ کون اچهے اعمال کرتا ہے۔‬
‫ملحوظہ‪ :‬ہللا ٰ‬
‫تعالی نے يہاں يہ نہيں فرمايا کہ کون زيادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمايا کون زيادہ اچهے‬
‫عمل کرتا ہے۔ اس ليے کہ اچها عمل وہ ہوتا ہے جو صرف رضائے الہی کی خاطر ہو اور دوسرا‬
‫يہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرطوں ميں سے ايک شرط بهی فوت ہو جائے گی تو وہ اچها‬
‫عمل نہيں رہے گا‪ ،‬پهر وہ چاہے کتنا بهی زيادہ ہو‪ ،‬ہللا کے ہاں اس کی کوئی حيثيت نہيں۔‬

‫ْٓ‬
‫ص ُر ْوفاا َ‬
‫ع ْن ُه ْم َو َحاقَ بِ ِه ْم‬ ‫ْس َم ْ‬ ‫اب ا ِٰلى ا ُ َّم ٍة َّم ْعد ُْو َدةٍ لَّيَقُ ْولُ َّن َما يَحْ بِ ُ‬
‫سهٗ ۭ ا َ َْل يَ ْو َم يَاْتِ ْي ِه ْم لَي َ‬ ‫ع ْن ُه ُم ْالعَ َذ َ‬‫َولَى ْن ا َ َّخ ْرنَا َ‬
‫‪ۧĎ‬۝‬ ‫َّما َكانُ ْوا بِ ٖه يَ ْست َ ْه ِز ُء ْونَ‬
‫اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چنی مدت تک کے لئے پيچهے ڈال ديں تو يہ ضرور پکار اٹهيں‬
‫گے کہ عذاب کو کون سی چيز روکے ہوئے ہے‪ ،‬سنو! جس دن وہ ان کے پاس آئے گا پهر ان سے‬
‫ٹلنے واْل نہيں پهر تو جس چيز کی ہنسی اڑا رہے تهے وہ انہيں گهير لے گی (‪)١‬‬
‫‪٨‬۔‪ ١‬يہاں استعجال (جلد طلب کرنے) کو استہزا سے تعبير کيا گيا ہے کيونکہ وہ استعجال‪ ،‬بطور‬
‫تعالی کی طرف سے تاخير پر انسان کو‬ ‫اسہزا ہی ہوتا تها بہرحال مقصود يہ سمجهانا ہے کہ ہللا ٰ‬
‫غفلت نہيں کرنی چاہيے اس کی گرفت کسی بهی وقت ہو سکتی ہے‬

‫‪Ḍ‬۝‬ ‫س َكفُ ْو ٌر‬ ‫سانَ ِمنَّا َرحْ َمةا ث ُ َّم نَزَ ع ْٰن َها ِم ْنهُ ۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔ ْ‬
‫ــو ٌ‬ ‫َولَى ْن ا َ َذ ْقنَا ْ ِ‬
‫اْل ْن َ‬
‫اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکها کر پهر اسے اس سے لے ليں تو وہ بہت ہی نااميد‬
‫اور بڑا نا شکرا بن جاتا ہے (‪)١‬‬
‫‪٩‬۔‪ ١‬انسانوں ميں عام طور پر جو مذموم صفات پائی جاتی ہيں اس ميں اور اگلی آيت ميں ان کا بيان‬
‫ہے۔ نا اميدی کا تعلق مستقبل سے ہے اور ناشکری کا ماضی و حال سے۔‬

‫۝‪10‬‬ ‫ــو ٌر‬ ‫سـيِ ٰاتُ َ‬


‫عنِ ْي ۭ اِنَّهٗ لَفَ ِر ٌح فَ ُخ ْ‬ ‫ض َّر ۗا َء َم َّ‬
‫ستْهُ لَيَقُ ْولَ َّن َذه َ‬
‫َب ال َّ‬ ‫َولَى ْن ا َ َذ ْق ٰنهُ نَ ْع َم ۗا َء بَ ْع َد َ‬
‫اور اگر ہم اسے کوئی مزہ چکهائيں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تهی تو وہ کہنے لگتا‬
‫ہے کہ بس برائياں مجه سے جاتی رہيں (‪ )١‬يقينا ا وہ بڑا اترانے واْل شيخی خور ہے (‪)٢‬‬
‫‪١٠‬۔‪ ١‬يعنی سمجهتا ہے کہ سختيوں کا دور گزر گيا‪ ،‬اب اسے کوئی تکليف نہيں آئے گی۔ امۃ کے‬
‫مختلف مفہوم‪ :‬آيت نمبر ‪ ٨‬ميں امۃ کا لفظ آيا ہے۔ يہ قرآن مجيد ميں مختلف مقامات پر مختلف مفہوم‬
‫ميں استعمال ہوا ہے۔ يہ ام سے مشتق ہے‪ ،‬جس کے معنی قصد کے ہيں۔ يہاں اس کے معنی اس‬
‫وقت اور مدت کے ہيں جو نزول عذاب کے ليے مقصود ہے۔ (فتح القدير) سورہ يوسف کی آيت ‪٤۵‬‬
‫( وادکر بعد امۃ) ميں يہی مفہوم ہے اس کے عالوہ جن معنوں ميں اس کا استعمال ہوا ہے‪ ،‬ان ميں‬
‫ايک امام وپيشوا ہے۔ جيسے (ان ابراہيم کان امۃ) ملت اور دين ہے‪ ،‬جيسے انا وجدنا آباءنا علی‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫امۃ) جماعت اور طائفہ ہے۔ جيسے (ولما ورد ماء امدين وجد عليہ امۃ من الناس) ومن قوم‬
‫امۃ وغيرہا۔ وہ مخصوص گروہ يا قوم ہے جس کی طرف کوئی رسول مبعوث ہو۔ ولکل امۃ رسول‬
‫اس کو امت دعوت بهی کہتے ہيں اور اسی طرح پيغمبر پر ايمان ْلنے والوں کو بهی امت يا امت‬
‫اتباع يا امت اجابت کہا جاتا ہے۔ (ابن کثير)‬
‫‪١٠‬۔‪ ٢‬يعنی جو کچه اس کے پاس ہے‪ ،‬اس پر اتراتا اور دوسروں پر فخر و غرور کا اظہار کرتا‬
‫ٰ‬
‫مستشنی ہيں جيسا کہ اگلی آيت‬ ‫ہے۔ تاہم ان صفات مذمومہ سے اہل ايمان اور صاحب اعمال صالحہ‬
‫سے واضح ہے۔‬
‫ُ ٰۗ‬
‫۝‪11‬‬ ‫ولىكَ لَ ُه ْم َّم ْغ ِف َرة ٌ َّواَجْ ٌر َكبِي ٌْر‬ ‫ع ِملُوا ال ه‬
‫ص ِلحٰ ِ‬
‫ت ۭا‬ ‫ا َِّْل الَّ ِذيْنَ َ‬
‫صبَ ُر ْوا َو َ‬
‫سوائے ان کے جو صبر کرتے ہيں اور نيک کاموں ميں لگے رہتے ہيں۔ انہيں لوگوں کے لئے‬
‫بخشش بهی ہے اور بہت بڑا بدلہ بهی (‪)١‬۔‬
‫‪١١‬۔‪ ١‬اہل ايمان‪ ،‬راحت و فراغت ہو يا تنگی اور مصيبت‪ ،‬دونوں حالتوں ميں ہللا کے احکام کے‬
‫مطابق طرز عمل اختيار کرتے ہيں جيسا کہ حديث ميں آتا ہے نبی نے قسم کها کر فرمايا ' قسم ہے‬
‫تعالی مومن کے لئے جو بهی فيصلہ فرماتا ہے‪،‬‬ ‫اس ذات کی جس کے ہاته ميں ميری جان ہے‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫ا س ميں اس کے لئے بہتری کا پہلو ہوتا ہے۔ اگر اس کو کئی راحت پہنچتی ہے تو اس پر ہللا کا‬
‫شکر کرتا ہے اور اگر کوئی تکليف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے‪ ،‬يہ بهی اس کے لئے بہتر (يعنی‬
‫اجر و ثواب کا باعث) ہے۔ يہ امتياز ايک مومن کے سوا کسی کو حاصل نہيں۔ (صحيح مسلم‪ ،‬کتاب‬
‫الزهد‪ ،‬باب امومن امرہ کلہ خير) اور ايک اور حديث ميں فرمايا کہ "مومن کو جو بهی فکر و غم‬
‫تعالی اس کی وجہ سے اس کی غلطياں‬ ‫اور تکليف پہنچتی ہے حتی کہ اسے کانٹا چبهتا ہے تو ہللا ٰ‬
‫معاف فرما ديتا ہے"(مسند احمد جلد ‪ ،۳‬ص‪ )٤‬سورہ معاج کی آيات ‪ ١٩،٢٢‬ميں بهی يہ مضمون‬
‫بيان کيا گيا ہے۔‬

‫علَ ْي ِه َك ْن ٌز ا َ ْو َج ۗا َء َمعَهٗ َملَكٌ ۭ‬ ‫ض ۗاى ْۢ ٌق بِ ٖه َ‬


‫صد ُْركَ ا َ ْن يَّقُ ْولُ ْوا لَ ْو َ ْٓ‬
‫ْل ا ُ ْن ِز َل َ‬ ‫ض َما ي ُْوحٰ ْٓ ى اِلَيْكَ َو َ‬ ‫فَلَعَلَّكَ ت َِار ْۢكٌ بَ ْع َ‬
‫ۭ۝‪12‬‬ ‫ع ٰلي ُك ِل ش ْ‬
‫َيءٍ َّو ِك ْي ٌل‬ ‫اِنَّ َما ْٓ ا َ ْنتَ نَ ِذي ٌْر ۭ َو ه‬
‫ّٰللاُ َ‬
‫پس شايد کہ آپ اس وحی کے کسی حصے کو چهوڑ دينے والے ہيں جو آپ کی طرف نازل کی‬
‫جاتی ہے اور اس سے آپ کا دل تنگ ہے‪ ،‬صرف ان کی اس بات پر کہ اس پر کوئی خزانہ کيوں‬
‫نہيں اترا؟ يا اس کے ساته فرشتہ ہی آتا‪ ،‬سن ليجئے! آپ تو صرف ڈرانے والے ہی ہيں (‪ )١‬اور‬
‫ہرچيز کا ذمہ دار ہللا ٰ‬
‫تعالی ہے۔‬
‫‪١٢‬۔‪ ١‬مشرکين نبی کی بابت کہتے رہتے تهے کہ اس کے ساته کوئی فرشتہ نازل کيوں نہيں ہوتا‪ ،‬يا‬
‫اس کی طرف سے کوئی خزانہ کيوں نہيں اتار ديا جاتا‪ ،‬ايک دوسرے مقام پر فرمايا گيا ' ہميں‬
‫معلوم ہے کہ يہ لوگ آپ کی بابت جو باتيں کہتے ہيں ' ان سے آپ کا سينہ تنگ ہوتا ہے۔ سورة‬
‫الحجر اس آيت ميں انہی باتوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ شايد آپ کا سينہ تنگ ہو اور‬
‫کچه باتيں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہيں اور وہ مشرکين پر گراں گزرتی ہيں ممکن ہے آپ‬
‫وہ انہيں سنانا پسند نہ کريں آپ کا کام صرف انذار و تبليغ ہے‪ ،‬وہ آپ ہر صورت ميں کئے جائيں۔‬

‫ّٰللا ا ِْن ُك ْنت ُ ْم صٰ ِد ِقيْنَ‬ ‫ع ْوا َم ِن ا ْست َ َ‬


‫ط ْعت ُ ْم ِم ْن ُد ْو ِن ه ِ‬ ‫س َو ٍر ِمثْ ِل ٖه ُم ْفت ََر ٰي ٍ‬
‫ت َّوا ْد ُ‬ ‫ا َ ْم َيقُ ْولُ ْونَ ا ْفت َٰرىهُ ۭ قُ ْل فَاْت ُ ْوا ِب َع ْش ِر ُ‬
‫؀‪13‬‬
‫کيا يہ کہتے ہيں کہ اس قرآن کو اسی نے گهڑا ہے۔ جواب ديجئے کہ پهر تم بهی اسی کے مثل دس‬
‫سورتيں گهڑی ہوئی لے آؤ اور ہللا کے سوا جسے چاہو اپنے ساته بال بهی لو اگر تم سچے ہو (‪)١‬۔‬
‫تعالی نے چلينج ديا کہ اگر تم اپنے اس دعوے ميں‬ ‫‪١۳‬۔‪ ١‬امام ابن کثير لکهتے ہيں کہ پہلے ہللا ٰ‬
‫سچے کہ يہ محمد صلی ہللا عليہ وسلم کا بنايا ہوا قرآن ہے‪ ،‬تو اس کی نظير پيش کر کے دکها دو‪،‬‬
‫اور تم جس کی چاہو‪ ،‬مدد حاصل کر لو‪ ،‬ليکن تم کبهی ايسا نہيں کر سکو گے۔ فرمايا "قُ ْل لَّى ِن‬
‫ض َ‬
‫ظ ِهي اْرا "‬ ‫ع ٰلْٓي ا َ ْن يَّاْت ُ ْوا بِ ِمثْ ِل ٰه َذا ْالقُ ْر ٰا ِن َْل يَاْت ُ ْونَ بِ ِمثْ ِل ٖه َولَ ْو َكانَ بَ ْع ُ‬
‫ض ُه ْم ِلبَ ْع ٍ‬ ‫س َو ْال ِج ُّن َ‬ ‫ت ِْ‬
‫اْل ْن ُ‬ ‫اجْ ت َ َمعَ ِ‬
‫‪17‬۔ اْلسراء‪( )88:‬اعالن کر ديجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل ْلنا‬
‫چاہيں تو ان سب سے اس کے مثل ْلنا مشکل ہے‪ ،‬گو وہ آپس ميں ايک دوسرے کے مددگار بهی‬
‫تعالی نے چلنج ديا کہ پورا قرآن بنا کر پيش نہيں کر سکتے تو دس‬ ‫بن جائيں) اس کے بعد ہللا ٰ‬
‫سورتيں ہی بنا کر پيش کر دو۔ جيسا کہ اس مقام پر ہے۔ پهر تيسرے نمبر پر چيلنچ ديا کہ چلو ايک‬
‫سورت بنا کر پيش کرو جيسا کہ سورہ يونس کی آيت نمبر ‪ ۳٩‬اور سورہ بقرہ کے آغاز ميں فرمايا‬
‫(تفسير ابن کثير‪ ،‬زير بحث آيت سورہ يونس) اور اس بنا پر آخری چيلنچ يہ ہو سکتا ہے کہ اس‬
‫ث ِمثْ ِل ٖ ْٓه ا ِْن َكانُ ْوا صٰ ِدقِيْنَ ۭۭ؀‪52 "34‬۔‬ ‫جيسی ايک بات ہی بنا کر پيش کر دو۔ "فَ ْليَاْت ُ ْوا ِب َح ِد ْي ٍ‬
‫الطور‪ )34:‬مگر ترتيب نزول سے چيلنج کی اس ترتيب کی تائيد نہيں ہوتی۔ وہللا اعلم با الصواب۔‬

‫؀‪14‬‬ ‫ْل ا ِٰلهَ ا َِّْل ُه َو ۚ فَ َه ْل ا َ ْنت ُ ْم ُّم ْس ِل ُم ْونَ‬ ‫فَا ِْن لَّ ْم يَ ْست َِج ْيب ُْوا لَ ُك ْم فَا ْعلَ ُم ْْٓوا اَنَّ َما ْٓ ا ُ ْن ِز َل ِب ِع ْل ِم ه ِ‬
‫ّٰللا َوا َ ْن َّ ْٓ‬
‫پهر اگر وہ تمہاری بات کو قبول نہ کريں تو تم يقين سے جان لو کہ يہ قرآن ہللا کے علم کے ساته‬
‫اتارا گيا ہے اور يہ کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہيں‪ ،‬پس کيا تم مسلمان ہوتے ہو (‪)١‬‬
‫‪١٤‬۔‪ ١‬يعنی کيا اس کے بعد بهی کہ تم اس چيلنج کا جواب دينے سے قاصر ہو‪ ،‬يہ ماننے کے لئے‪،‬‬
‫کہ يہ قرآن ہللا ہی کا نازل کردہ ہے‪ ،‬آمادہ نہيں ہوا اور نہ مسلمان ہونے کو تيار ہو؟‬

‫؀‪15‬‬ ‫س ْونَ‬ ‫َم ْن َكانَ ي ُِر ْي ُد ْال َح ٰيوة َ ال ُّد ْن َيا َو ِز ْينَت َ َها نُ َو ِ‬
‫ف اِلَ ْي ِه ْم ا َ ْع َمالَ ُه ْم فِ ْي َها َو ُه ْم فِ ْي َها َْل يُ ْب َخ ُ‬
‫جو شخص دنيا کی زندگی اور اس کی زينت پر فريفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ايسوں کو ان کے کل اعمال‬
‫(کا بدلہ) يہيں بهرپور پہنچا ديتے ہيں اور يہاں انہيں کوئی کمی نہيں کی جاتی۔‬

‫ْس لَ ُه ْم فِي ْ ٰ‬ ‫ُ ٰۗ‬


‫؀‪16‬‬ ‫صنَعُ ْوا فِ ْي َها َو ٰب ِط ٌل َّما َكانُ ْوا يَ ْع َملُ ْونَ‬ ‫اْل ِخ َرةِ ا َِّْل النَّ ُ‬
‫ار ڮ َو َحبِ َ‬
‫ط َما َ‬ ‫ولىكَ الَّ ِذيْنَ لَي َ‬ ‫ا‬
‫ہاں يہی وہ لوگ ہيں جن کے لئے آخرت ميں سوائے آگ کے اور کچه نہيں اور جو کچه انہوں نے‬
‫يہاں کيا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچه اعمال تهے سب برباد ہونے والے ہيں (‪)١‬‬
‫‪١٦‬۔‪ ١‬ان دو آيات کے بارے ميں بعض کا خيال ہے اس ميں اہل ريا کار کا ذکر ہے‪ ،‬بعض کے‬
‫نصاری ہيں اور بعض کے نزديک طالبان دنيا کا ذکر ہے۔ کيونکہ‬ ‫ٰ‬ ‫نزديک اس سے مراد يہود و‬
‫دنيادار بهی بعض اچهے عمل کرتے ہيں‪ ،‬ہللا تعالی ان کی جزا انہيں دنيا ميں دے ديتا ہے‪ ،‬آخرت‬ ‫ٰ‬
‫ميں ان کے لئے سوائے عذاب کے اور کچه نہيں ہوگا۔ اسی مضمون کو قرآن مجيد سورہ بنی‬
‫ع َّجــ ْلنَا لَهٗ فِ ْي َها َما نَشَا ۭۗ ُء ِل َم ْن نُّ ِر ْي ُد ث ُ َّم َج َع ْلنَا لَهٗ َج َهنَّ َم ۭۚ‬‫اجلَةَ َ‬ ‫اسرائيل آيات ‪َ ( ١٨،٢١‬م ْن َكانَ ي ُِر ْي ُد ْال َع ِ‬
‫س ْعيُ ُه ْم‬‫ول ۭۗىكَ َكانَ َ‬ ‫س ْع َي َها َو ُه َو ُمؤْ ِم ٌن فَا ُ ٰ‬ ‫سعٰى لَ َها َ‬ ‫ص ٰلى َها َم ْذ ُم ْو اما َّم ْد ُح ْو ارا ؀‪َ 18‬و َم ْن ا َ َرا َد ْ ٰ‬
‫اْل ِخ َرة َ َو َ‬ ‫َي ْ‬
‫طا ۭۗ ُء َربِكَ َمحْ ُ‬
‫ظ ْو ارا‬ ‫ع َ‬ ‫طا ۭۗ ِء َربِكَ ۭۭ َو َما َكانَ َ‬ ‫ع َ‬ ‫َّم ْش ُك ْو ارا ؀‪ُ 19‬ك اال نُّ ِم ُّد ٰ ْٓهؤ َُْل ۭۗ ِء َو ٰ ْٓهؤ َُْل ۭۗ ِء ِم ْن َ‬
‫ضي اْال ؀‪17 ) 21‬۔‬ ‫ت َّوا َ ْكبَ ُر ت َ ْف ِ‬ ‫ض ۭۭ َولَ ْ ٰ‬
‫ال ِخ َرة ُ ا َ ْكبَ ُر َد َرجٰ ٍ‬ ‫ع ٰلي بَ ْع ٍ‬ ‫ض ُه ْم َ‬‫ْف فَض َّْلنَا بَ ْع َ‬ ‫ظ ْر َكي َ‬‫؀‪ 20‬ا ُ ْن ُ‬
‫اْل ِخ َر ِة ن َِز ْد لَهٗ ِف ْي َح ْر ِث ٖه ۭۚ َو َم ْن‬ ‫ث ْٰ‬ ‫شوری آيت ‪َ ( ٢٠‬م ْن َكانَ ي ُِر ْي ُد َح ْر َ‬ ‫ٰ‬ ‫اْلسراء‪ 18:‬تا ‪ )21‬اور سور‪،‬‬
‫ب ؀‪42 )20‬۔ الشوری‪ )20:‬ميں بيان کيا‬ ‫ص ْي ٍ‬ ‫اْل ِخ َرةِ ِم ْن نَّ ِ‬ ‫ث ال ُّد ْنيَا نُؤْ تِ ٖه ِم ْن َها َو َما لَهٗ فِي ْ ٰ‬ ‫َكانَ ي ُِر ْي ُد َح ْر َ‬
‫گيا ہے۔‬
‫ۗ‬
‫ب ُم ْوسٰ ْٓى اِ َما اما َّو َرحْ َمةا ۭ اُو ٰلىكَ يُؤْ ِمنُ ْونَ بِ ٖه ۭ‬ ‫ع ٰلي بَيِنَ ٍة ِم ْن َّربِ ٖه َويَتْلُ ْوہُ شَا ِه ٌد ِم ْنهُ َو ِم ْن قَ ْب ِل ٖه ِك ٰت ُ‬
‫اَفَ َم ْن َكانَ َ‬
‫اس َْل‬ ‫ٰ‬
‫ار َم ْو ِعد ُٗہ ۚ فَ َال ت َكُ ِف ْي ِم ْر َي ٍة ِم ْنهُ ۤ اِنَّهُ ْال َح ُّق ِم ْن َّر ِبكَ َول ِك َّن ا َ ْكث َ َر النَّ ِ‬ ‫ب فَالنَّ ُ‬ ‫َو َم ْن يَّ ْكفُ ْر ِب ٖه ِمنَ ْاْلَحْ زَ ا ِ‬
‫؀‪17‬‬ ‫يُؤْ ِمنُ ْونَ‬
‫کيا وہ شخص جو اپنے رب کے پاس کی دليل پر ہو اور اس کے ساته ہللا کی طرف کا گواہ ہو اور‬
‫موسی کی کتاب (گواہ ہو) جو پيشوا و رحمت ہے (اوروں کے برابر ہو سکتا ہے)‬
‫ٰ‬ ‫اس سے پہلے‬
‫(‪ )١‬يہی لوگ ہيں جو اس پر ايمان رکهتے ہيں (‪ )٢‬اور تمام فرقوں ميں سے جو بهی اس کا منکر‬
‫ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم (‪ )۳‬ہے پس تو اس ميں کسی قسم کے شبہ ميں نہ رہنا‪،‬‬
‫يقينا ا يہ تيرے رب کی جانب سے سراسر حق ہے‪ ،‬ليکن اکثر لوگ ايمان والے نہيں ہوتے (‪)٤‬۔‬
‫‪١٧‬۔‪ ١‬منکرين اور کافرين کے مقابلے ميں اہل فطرت اور اہل ايمان کا تذکرہ کيا جا رہا ہے ' اپنے‬
‫رب کی طرف سے دليل ' سے مراد وہ فطرت ہے جس پر ہللا ٰ‬
‫تعالی نے انسانوں کو پيدا فرمايا اور‬
‫وہ ہللا واحد کا اعتراف اور اسی کی عبادت جس طرح کہ نبی کا فرمان ہے کہ ' ہر بچہ فطرت پر‬
‫پيدا ہوتا ہے‪ ،‬پس اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے يہودی‪ ،‬نصرانی يا مجوسی بنا ديتے ہيں‬
‫(صحيح بخاری) يتلوہ کے معنی ہيں اس کے پيچهے يعنی اس کے ساته ہللا کی طرف سے ايک‬
‫گواہ بهی ہو گواہ سے مراد قرآن ‪ ،‬يا محمد صلی ہللا عليہ وسلم ہيں ‪ ،‬جو اس فطرت صحيحہ کی‬
‫طرف دعوت ديتے اور اس کی نشاندہی کرتے ہيں اور اس سے پہلے‬
‫موسی عليہ السالم کی کتاب تورات بهی جو پيشوا بهی ہے اور رحمت کا سبب بهی يعنی‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫موسی عليہ السالم بهی قرآن پر ايمان ْلنے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ مطلب يہ ہے‬‫ٰ‬ ‫کتاب‬
‫کہ ايک وہ شخص ہے جو منکر اور کافر ہے اور اس کے مقابلے ميں ايک دوسرا شخص ہے جو‬
‫ہللا ٰ‬
‫تعالی کی طرف سے دليل پر قائم ہے‪ ،‬اس پر ايک گواہ (قرآن۔ يا پيغمبر اسالم بهی ہے‪ ،‬اسی‬
‫طرح اس سے قبل نازل ہونے والی کتاب تورات‪ ،‬ميں بهی اس کے لئے پيشوائی کا اہتمام کيا گيا‬
‫ہے۔ اور وہ ايمان لے آتا ہے کيا يہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہيں۔ کيونکہ ايک مومن ہے اور‬
‫دوسرا کافر۔ ہر طرح کے دْلئل سے ليس ہے اور دوسرا بالکل خالی ہے۔‬
‫‪١٧‬۔ ‪ ٢‬يعنی جن کے اندر مذکورہ اوصاف پائے جائيں گے وہ قرآن کريم اور نبی پر ايمان ْلئيں‬
‫گے۔‬
‫‪١٧‬۔ ‪ ۳‬تمام فرقوں سے مراد روئے زمين پر پائے جانے والے مذاہب ہيں‪ ،‬يہودی‪ ،‬عيسائی‪،‬‬
‫زرتشی‪ ،‬بده مت‪ ،‬مجوسی اور مشرکين و کفار وغيرہ‪ ،‬جو بهی حضرت محمد رسول ہللا صلی ہللا‬
‫عليہ وسلم پر ايمان نہيں ْلئے گا‪ ،‬اس کا ٹهکانا جہنم ہے يہ وہی مضمون ہے جسے اس حديث ميں‬
‫بيان کيا گيا ہے" قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاته ميں ميری جان ہے‪ ،‬اس امت کے جس يہودی‪،‬‬
‫يا عيسائی نے بهی ميری نبوت کی بابت سنا اور پهر مجه پر ايمان نہيں ْليا وہ جہنم ميں جائے‬
‫ہے"(صحيح مسلم کتاب اْليمان‪ ،‬باب وجوب اْليمان برسالۃ نبينا محمد صلی ہللا عليہ وسلم الی جميع‬
‫اب َو َْل ُه ْم‬ ‫ع ْن ُه ُم ْال َع َذ ُ‬‫ف َ‬ ‫الناس) يہ مضمون اس سے پہلے سورہ بقرہ آيت ‪ٰ ( ٦٢‬خ ِل ِديْنَ ِف ْي َها ۭۚ َْل يُ َخفَّ ُ‬
‫س ِل ٖه َوي ُِر ْيد ُْونَ ا َ ْن‬ ‫ظ ُر ْونَ ؁‪ )١٦٢‬اور سورہ نساء آيت ‪( ١۵٢ ،١۵٠‬ا َِّن الَّ ِذيْنَ يَ ْكفُ ُر ْونَ بِ ه ِ‬
‫اّٰلل َو ُر ُ‬ ‫يُ ْن َ‬
‫ض ۭ َّوي ُِر ْيد ُْونَ ا َ ْن يَّت َّ ِخذُ ْوا بَيْنَ ٰذلِكَ َ‬
‫سبِي اْال‬ ‫ض َّونَ ْكفُ ُر بِبَ ْع ٍ‬ ‫س ِل ٖه َويَقُ ْولُ ْونَ نُؤْ ِم ُن بِبَ ْع ٍ‬ ‫يُّفَ ِرقُ ْوا بَيْنَ ه‬
‫ّٰللاِ َو ُر ُ‬
‫ع َذاباا ُّم ِه ْيناا ؁‪َ ١٥١‬والَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا ِب ه‬
‫اّٰللِ‬ ‫ول ۭۗىكَ ُه ُم ْال ٰك ِف ُر ْونَ َحقاا ۭۚ َوا َ ْعت َ ْدنَا ِل ْل ٰك ِف ِريْنَ َ‬ ‫ۭ؀‪ ١٥٠‬ا ُ ٰ‬
‫غفُ ْو ارا َّر ِح ْي اما ۭۧ؀‪) ١٥٢‬‬ ‫ف يُؤْ تِ ْي ِه ْم ا ُ ُج ْو َر ُه ْم ۭۭ َو َكانَ ه‬
‫ّٰللاُ َ‬ ‫س ْو َ‬ ‫ول ۭۗىكَ َ‬ ‫س ِل ٖه َولَ ْم يُفَ ِرقُ ْوا بَيْنَ ا َ َح ٍد ِم ْن ُه ْم ا ُ ٰ‬
‫َو ُر ُ‬
‫‪4‬۔ النساء‪ 150:‬تا ‪ )152‬ميں گزر چکا ہے۔‬
‫اس َولَ ْو‬
‫(و َمآ ا َ ْکث َ ُرالنَّ ِ‬
‫‪١٧‬۔‪ ٤‬يہ وہی مضمون ہے جو قرآن مجيد کے مختلف مقامات پر بيان کيا گيا َ‬
‫اس َولَ ْو َح َرصْتَ بِ ُمؤْ ِمنِيْنَ ؁‪)١٠۳‬‬ ‫(و َما ْٓ ا َ ْكث َ ُر النَّ ِ‬ ‫ص ْ‬
‫ت بِ ُمؤ ِمنِيْنَ ) (سورة يوسف۔ ‪َ )١٠۳‬‬ ‫َح َر َ‬
‫‪12‬۔يوسف‪' )103:‬تيری خواہش کے باوجود اکثر لوگ ايمان نہيں ْلئيں گے ' ابليس نے اپنا گمان‬
‫سچا کر دکهايا‪ ،‬مومنوں کے ايک گروہ کے سوا‪ ،‬سب اس کے پيروکار بن گئے '۔‬

‫ُ ٰۗ‬
‫ع ٰلي َر ِب ِه ْم َويَقُ ْو ُل ْاْلَ ْش َها ُد ٰ ْٓهؤُ َ ْۗل ِء الَّ ِذيْنَ َك َذب ُْوا َ‬
‫ع ٰلي‬ ‫ض ْونَ َ‬
‫ولىكَ يُ ْع َر ُ‬ ‫علَي ه ِ‬
‫ّٰللا َك ِذباا ۭ ا‬ ‫َو َم ْن ا َ ْ‬
‫ظلَ ُم ِم َّم ِن ا ْفت َٰري َ‬
‫۝‪18‬‬ ‫علَي ال ه‬
‫ظ ِل ِميْنَ‬ ‫َربِ ِه ْم ۚ ا َ َْل لَ ْعنَةُ ه ِ‬
‫ّٰللا َ‬
‫اس سے بڑه کر ظالم کون ہوگا جو ہللا پر جهوٹ باندهے (‪ )١‬يہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے‬
‫پيش کيے جائيں گے اور سارے گواہ کہيں گے کہ يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے اپنے پروردگار پر‬
‫جهوٹ باندها‪ ،‬خبردار ہو کہ ہللا کی لعنت ہے ظالموں پر (‪)٢‬۔‬
‫‪١٨‬۔‪ ١‬يعنی جن کا ہللا نے کائنات ميں تصرف کرنے کا يا آخرت ميں شفاعت کا اختيار نہيں ديا ہے۔‬
‫ان کی بابت يہ کہا جائے کہ ہللا نے انہيں يہ اختيار ديا ہے۔‬
‫تعالی ايک مومن سے اس‬ ‫‪١٨‬۔‪ ٢‬حديث ميں اس کی تفسير اس طرح آتی ہے کہ ' قيامت والے دن ہللا ٰ‬
‫کے گناہوں کا اقرار و اعتراف کروائے گا کہ تجهے معلوم ہے کہ تو نے فالں گناہ بهی کيا تها‪،‬‬
‫فالں بهی کيا تها‪ ،‬وہ مومن کہے گا ہاں ٹهيک ہے ہللا ٰ‬
‫تعالی فرمائے گا۔ ميں نے ان گناہوں پر دنيا‬
‫ميں بهی پردہ ڈالے رکها تها‪ ،‬جا آج بهی انہيں معاف کرتا ہوں‪ ،‬ليکن دوسرے لوگ يا کافروں کا‬
‫معاملہ ايسا ہوگا کہ انہيں گواہوں کے سامنے پکارا جائے گا اور گواہ يہ گواہی ديں گے کہ يہی وہ‬
‫لوگ ہيں‪ ،‬جنہوں نے اپنے رب پر جهوٹ باندها تها (صحيح بخاری)۔‬

‫؀‪19‬‬ ‫ّٰللاِ َويَ ْبغُ ْونَ َها ِع َو اجا ۭ َو ُه ْم ِب ْ ٰ‬


‫اْل ِخ َرةِ ُه ْم ٰك ِف ُر ْونَ‬ ‫ع ْن َ‬
‫س ِب ْي ِل ه‬ ‫الَّ ِذيْنَ َي ُ‬
‫صد ُّْونَ َ‬
‫جو ہللا کی راہ سے روکتے ہيں اور اس ميں کجی تالش کر ليتے ہيں (‪ )١‬يہی آخرت کے منکر‬
‫ہيں۔‬
‫‪١٩‬۔‪ ١‬يعنی لوگوں کو ہللا کی راہ سے روکنے کے لئے‪ ،‬اس ميں کجياں تالش کرتے اور لوگوں کو‬
‫متنفر کرتے ہيں۔‬

‫ُ ٰۗ‬
‫ف لَ ُه ُم ْال َع َذ ُ‬
‫اب ۭ َما َكانُ ْوا‬ ‫ّٰللاِ ِم ْن ا َ ْو ِل َي ۗا َء ۘ ي ٰ‬
‫ُض َع ُ‬ ‫ض َو َما َكانَ لَ ُه ْم ِم ْن د ُْو ِن ه‬ ‫ولىكَ لَ ْم َي ُك ْونُ ْوا ُم ْع ِج ِزيْنَ فِي ْاْلَ ْر ِ‬ ‫ا‬
‫؀‪20‬‬ ‫س ْم َع َو َما َكانُ ْوا يُب ِ‬
‫ْص ُر ْونَ‬ ‫يَ ْست َِط ْيعُ ْونَ ال َّ‬
‫نہ يہ لوگ دنيا ميں ہللا کو ہراسکے اور نہ ان کا کوئی حمائتی ہللا کے سوا ہوا‪ ،‬ان کے لئے عذاب‬
‫دگنا کيا جائے گا نہ يہ سننے کی طاقت رکهتے تهے اور نہ ديکهتے ہی تهے (‪)١‬۔‬
‫‪٢٠‬۔‪ ١‬يعنی ان کا حق سے اعراض اور بغض اس انتہا تک پہنچا ہوا تها کہ يہ اسے سننے اور‬
‫ديکهنے کی طاقت ہی نہيں رکهتے تهے يا يہ مطلب ہے کہ ہللا نے ان کو کان اور آنکهيں تو دی‬
‫س ْمعُ ُه ْم َو َ ْٓ‬
‫ْل‬ ‫تهيں ليکن انہوں نے ان سے کوئی بات نہ سنی اور نہ ديکهی۔ گويا ' ( فَ َما ْٓ ا َ ْغ ٰنى َ‬
‫ع ْن ُه ْم َ‬
‫َيءٍ ) ‪46‬۔ اْلحقاف‪ )26:‬نہ ان کے کانوں نے انہيں کوئی فائدہ‬ ‫فــۭ ِۭ َدت ُ ُه ْم ِم ْن ش ْ‬
‫ْل ا َ ْ‬
‫ار ُه ْم َو َ ْٓ‬
‫ص ُ‬‫ا َ ْب َ‬
‫پہنچايا‪ ،‬نہ ان کی آنکهوں اور دلوں نے ' کيونکہ وہ حق سننے سے بہرے اور حق ديکهنے سے‬
‫اندهے بنے رہے‪ ،‬جس طرح کہ وہ جہنم ميں داخل ہوتے ہوئے کہيں گے ( لَ ْو ُكنَّا نَ ْس َم ُع ا َ ْو نَ ْع ِق ُل َما‬
‫س ِعي ِْر ‪ 10‬؀) ‪67‬۔ الملک‪ ' )10:‬اگر ہم سنتے اور عقل سے کام ليتے تو آج جنہم‬ ‫ب ال َّ‬ ‫ُكنَّا فِ ْْٓي ا َ ْ‬
‫صحٰ ِ‬
‫ميں نہ جاتے۔‬

‫ُ ٰۗ‬
‫؀‪21‬‬ ‫ع ْن ُه ْم َّما َكانُ ْوا يَ ْفت َُر ْونَ‬
‫ض َّل َ‬ ‫ولىكَ الَّ ِذيْنَ َخ ِس ُر ْْٓوا ا َ ْنفُ َ‬
‫س ُه ْم َو َ‬ ‫ا‬
‫يہی ہيں جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر ليا اور وہ سب کچه ان سے کهو گيا‪ ،‬جو انہوں نے گهڑ رکها‬
‫تها۔‬

‫؀‪22‬‬ ‫س ُر ْونَ‬ ‫َْل َج َر َم اَنَّ ُه ْم ِفي ْ ٰ‬


‫اْل ِخ َرةِ ُه ُم ْاْلَ ْخ َ‬
‫بيشک يہ لوگ آخرت ميں زياں کار ہوں گے۔‬

‫ُ ٰۗ‬
‫؀‪23‬‬ ‫ب ْال َجــنَّ ِة ۚ ُه ْم فِ ْي َها ٰخ ِلد ُْونَ‬ ‫ولىكَ ا َ ْ‬
‫صحٰ ُ‬ ‫ت َوا َ ْخبَت ُ ْْٓوا ا ِٰلي َربِ ِه ْم ا‬
‫ص ِلحٰ ِ‬ ‫ا َِّن الَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َو َ‬
‫ع ِملُوا ال ه‬
‫يقينا ا جو لوگ ايمان ْلئے اور انہوں نے کام بهی نيک کئے اور اپنے پالنے والے کی طرف جهکتے‬
‫رہے‪ ،‬وہی جنت ميں جانے والے ہيں‪ ،‬جہاں وہ ہميشہ ہی رہنے والے ہيں۔‬

‫ۧ؀‪24‬‬ ‫س ِميْعِ ۭ ه َْل يَ ْست َ ِو ٰي ِن َمث َ اال ۭ اَفَ َال ت َ َذ َّك ُر ْونَ‬ ‫ص ِم َو ْالبَ ِ‬
‫صي ِْر َوال َّ‬ ‫َمث َ ُل ْالفَ ِر ْيقَي ِْن َك ْاْلَعْمٰ ى َو ْاْلَ َ‬
‫ان دونوں فرقوں کی مثال اندهے‪ ،‬بہرے اور ديکهنے‪ ،‬سننے والے جيسی ہے (‪ )١‬کيا يہ دونوں‬
‫مثال ميں برابر ہيں؟ کيا پهر بهی تم نصيحت حاصل نہيں کرتے۔‬
‫‪٢٤‬۔‪ ١‬پچهلی آيات ميں مومنين اور کافرين اور سعادت مندوں اور بدبختوں‪ ،‬دونوں کا تذکرہ فرمايا۔‬
‫اب اس ميں دونوں کی مثال بيان فرما کر دونوں کی حقيقت کو مزيد واضح کيا جا رہا ہے۔ فرمايا‪،‬‬
‫ايک کی مثال اندهے اور بہرے کی طرح ہے اور دوسرے کی ديکهنے اور سننے والے کی طرح۔‬
‫کافر دنيا ميں حق کا روئے زيبا ديکهنے سے محروم اور آخرت ميں نجات کے راستہ سے‬
‫بےبہرہ‪ ،‬اسی طرح حق کے دْلئل سننے سے بےبہرہ ہوتا ہے‪ ،‬اسی لئے ايسی باتوں سے محروم‬
‫رہتا ہے جو اس کے لئے مفيد ہوں۔ اس کے برعکس مومن سمجه دار‪ ،‬حق کو ديکهنے واْل اور‬
‫حق اور باطل کے درميان تميز کرنے واْل ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ حق اور خير کی پيروی کتا ہے‪،‬‬
‫دْلئل کو سنتا اور ان کے ذريعے سے شبہات کا ازالہ کرتا اور باطل سے اجتناب کرتا ہے‪ ،‬کيا يہ‬
‫دونوں برابر ہو سکتے ہيں؟ استفہام نفی کے ليے ہے۔ يعنی دونوں برابر نہيں ہو سکتے۔ جيسے‬
‫ب ْال َجنَّ ِة ُه ُم ْالفَا ۭۗى ُز ْونَ " ‪59‬۔‬ ‫ب ْال َجنَّ ِة ۭۭ ا َ ْ‬
‫صحٰ ُ‬ ‫ار َوا َ ْ‬
‫صحٰ ُ‬ ‫ب النَّ ِ‬ ‫ي اَ ْ‬
‫صحٰ ُ‬ ‫َ‬
‫فرمايا۔"ْل يَ ْست َ ِو ْْٓ‬ ‫دوسرے مقام پر‬
‫الحشر‪( )20:‬جنتی دوزخی برابر نہيں ہو سکتے جنتی تو کامياب ہونے والے ہيں) ايک اور مقام پر‬
‫اسے اس طرح بيان فرمايا " اندها اور ديکهنے واْل برابر نہيں۔ اندهيرے اور روشنی‪ ،‬سايہ اور‬
‫دهوپ برابر نہيں‪ ،‬زندے اور مردے برابر نہيں۔ (سورہ فاطر۔‪َ ( )٢٠ ،١٩‬و َما يَ ْست َ ِوي ْاْلَعْمٰ ى‬
‫الظلُمٰ تُ َو َْل النُّ ْو ُر ‪ۭ 20‬؀ ) ‪35‬۔فاطر‪)19-20:‬‬ ‫صي ُْر ۭ؀‪َ 19‬و َْل ُّ‬‫َو ْال َب ِ‬
‫؀‪25‬‬ ‫ۡ اِنِ ْى لَ ُك ْم نَ ِذي ٌْر ُّمبِي ٌْن‬ ‫س ْلنَا نُ ْو احا ا ِٰلي قَ ْو ِم ٖ ْٓه‬
‫َولَقَ ْد ا َ ْر َ‬
‫يقينا ا ہم نے نوح (عليہ السالم) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بهيجا کہ ميں تمہيں صاف‬
‫صاف ہوشيار کر دينے واْل ہوں۔‬

‫؀‪26‬‬ ‫اب يَ ْو ٍم ا َ ِلي ٍْم‬ ‫علَ ْي ُك ْم َ‬


‫ع َذ َ‬ ‫ا َ ْن َّْل ت َ ْعبُد ُْْٓوا ا َِّْل ه‬
‫ّٰللاَ ۭ اِنِ ْْٓى اَخ ُ‬
‫َاف َ‬
‫کہ تم صرف ہللا ہی کی عبادت کرو (‪ )١‬مجهے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے (‪)٢‬۔‬
‫(و َما ْٓ‬
‫‪٢٦‬۔‪ ١‬يہ وہی دعوت توحيد ہے جو ہر نبی نے آ کر اپنی اپنی قوم کو دی۔ جس طرح فرمايا َ‬
‫ْل ا ِٰلهَ ا َّ ْٓ‬
‫ِْل اَنَا فَا ْعبُد ُْو ِن ؀‪21 )25‬۔ اْلنبياء‪ )25:‬جو‬ ‫س ْلنَا ِم ْن قَ ْبلِكَ ِم ْن َّر ُ‬
‫س ْو ٍل ا َِّْل نُ ْو ِح ْْٓي اِلَ ْي ِه اَنَّهٗ َ ْٓ‬ ‫ا َ ْر َ‬
‫پيغمبر‬
‫ہم نے آپ سے پہلے بهيجے‪ ،‬ان کی طرف يہی وحی کی کہ ميرے سوا کوئی معبود نہيں‪ ،‬پس‬
‫ميری ہی عبادت کرو۔‬
‫‪٢٦‬۔ ‪ ٢‬يعنی اگر مجه پر ايمان نہيں ْلئے اور اس دعوت توحيد کو نہيں اپنايا تو عذاب ٰالہی سے‬
‫نہيں بچ سکو گے‪،‬‬

‫فَقَا َل ْال َم َالُ الَّ ِذيْنَ َكفَ ُر ْوا ِم ْن قَ ْو ِم ٖه َما ن َٰرىكَ ا َِّْل بَش اَرا ِمثْلَنَا َو َما ن َٰرىكَ اتَّبَعَكَ ا َِّْل الَّ ِذيْنَ ُه ْم ا َ َرا ِذلُـنَا بَاد َ‬
‫ِي‬
‫‪ 27‬؀‬ ‫ظنُّ ُك ْم ٰك ِذبِيْنَ‬
‫ض ْۢ ٍل بَ ْل نَ ُ‬ ‫الراْي ِ ۚ َو َما ن َٰري لَ ُك ْم َ‬
‫علَ ْينَا ِم ْن فَ ْ‬ ‫َّ‬
‫اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب ديا کہ ہم تو تجهے اپنے جيسا انسان ہی ديکهتے‬
‫ہيں (‪ )١‬اور تيرے تابعداروں کو بهی ہم ديکهتے ہيں کہ يہ لوگ واضح طور پر سوائے نيچ (‪)٢‬‬
‫لوگوں کے (‪ )۳‬اور کوئی نہيں جو بےسوچے سمجهے (تمہاری پيروی کر رہے ہيں) ہم تو تمہاری‬
‫کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہيں ديکه رہے‪ ،‬بلکہ ہم تو تمہيں جهوٹا سمجه رہے ہيں۔‬
‫‪٢٧‬۔‪ ١‬يہ وہی شبہ ہے‪ ،‬جس کی پہلے کئی جگہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کافروں کے نزديک‬
‫بشريت کے ساته نبوت و رسالت کا اجتماع بڑا عجيب تها‪ ،‬جس طرح آج کے اہل بدعت کو بهی‬
‫عجيب لگتا ہے اور وہ بشريت رسول کا انکار کرتے ہيں۔‬
‫‪٢٧‬۔‪ ٢‬حق کی تاريخ ميں يہ بات بهی ہر دور ميں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتداء ميں اس کو اپنانے‬
‫والے ہميشہ وہ لوگ ہوتے ہيں جنہيں معاشرے ميں بےنوا کم تر سمجها جاتا تها اور صاحب حيثيت‬
‫اور خوش حال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتی کہ پيغمبروں کے پيروکاروں کی عالمت بن گئی۔‬
‫چنانچہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفيان سے نبی کی بابت پوچها تو اس ميں ان سے ايک بات‬
‫يہ بهی پوچهی کہ ' اس کے پيروکار معاشرے کے معزز سمجهے جانے والے لوگ ہيں يا کمزور‬
‫لوگ ' حضرت‬
‫ابو سفيان نے جواب ميں کہا ' کمزور لوگ ' جس پر ہرقل نے کہا ' رسولوں کے پيروکار يہی‬
‫لوگ ہوتے ہيں (صحيح بخاری)۔ قرآن کريم ميں بهی وضاحت کی گئی ہے کہ خوش حال طبقہ ہی‬
‫سب سے پہلے پيغمبروں کی تکذيب کرتا رہا ہے۔(سورہ زخرف۔‪َ ( )٢۳‬و َك ٰذلِكَ َما ْٓ ا َ ْر َ‬
‫س ْلنَا ِم ْن قَ ْبلِكَ ِف ْي‬
‫ع ٰلْٓي ٰا ٰث ِر ِه ْم ُّم ْقتَد ُْونَ ؀‪43 )23‬۔‬ ‫قَري ٍة ِم ْن نَّ ِذيْر ا َِّْل قَا َل متْرفُو َها ْٓ ۭاِنَّا وج ْدنَا ْٓ ٰابا ۭۗءنَا ْٓ‬
‫ع ٰلي ا ُ َّم ٍة َّواِنَّا َ‬
‫َ َ َ‬ ‫َ َ‬ ‫ُ َ ْ‬ ‫ٍ‬ ‫ْ َ‬
‫الزخرف‪ )23:‬اور يہ اہل ايمان کی دنياوی حيثيت تهی اور جس کے اعتبار سے اہل کفر انہيں حقير‬
‫ا ور کم تر سمجهتے تهے‪ ،‬ورنہ حقيقت تو يہ ہے کہ حق کے پيروکار معزز اور اشراف ہيں چاہے‬
‫وہ مال و دولت کے اعتبار سے فروتر ہی ہوں اور حق کا انکار کرنے والے حقير اور بےحيثيت‬
‫ہيں چاہے وہ دنيوں اعتبار سے مال دار ہی ہوں۔‬
‫‪٢٧‬۔‪ ۳‬اہل ايمان چونکہ‪ ،‬ہللا اور رسول کے احکام کے مقابلے ميں اپنی عقل و دانش اور رائے کا‬
‫استعمال نہيں کرتے‪ ،‬اس لئے اہل باطل يہ سمجهتے ہيں کہ يہ بےسوچ سمجه والے ہيں کہ ہللا کا‬
‫رسول انہيں جس طرف موڑ ديتا ہے‪ ،‬يہ مڑ جاتے ہيں جس چيز سے روک ديتا ہے‪ ،‬رک جاتے‬
‫ہيں۔ يہ بهی اہل ايمان کی ايک بڑی بلکہ ايمان کا ْلزمی تقاضا ہے۔ ليکن اہل کفر و باطل کے‬
‫نزديک يہ خوبی بهی "عيب" ہے۔‬

‫علَ ْي ُك ْم ۭ اَنُ ْل ِز ُم ُك ُم ْوهَا َوا َ ْنت ُ ْم لَ َها‬ ‫ع ٰلي بَيِنَ ٍة ِم ْن َّربِ ْي َو ٰا ٰتىنِ ْي َرحْ َمةا ِم ْن ِع ْند ِٖہ فَعُ ِميَ ْ‬
‫ت َ‬ ‫قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا َ َر َء ْيت ُ ْم ا ِْن ُك ْنتُ َ‬
‫‪ 28‬؀‬ ‫ٰك ِر ُه ْونَ‬
‫ن وح نے کہا ميری قوم والو! مجهے بتاؤ تو اگر ميں اپنے رب کی طرف سے دليل پر ہوا اور‬
‫مجهے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو (‪ )١‬پهر وہ تمہاری نگاہوں ميں (‪ )٢‬نہ آئی‬
‫تو کيا يہ زبردستی ميں اسے تمہارے گلے منڈه دوں حاْلنکہ تم اس سے بيزار ہو (‪)۳‬۔‬
‫‪ ١ ٢٨‬بينۃ سے مراد ايمان و يقين ہے اور رحمت سے مراد نبوت۔ جس سے ہللا ٰ‬
‫تعالی نے حضرت‬
‫نوح عليہ السالم کو سرفراز کيا تها۔‬
‫‪٢٨‬۔‪ ٢‬يعنی تم اس کے ديکهنے سے اندهے ہوگئے۔ چنانچہ تم نے اس کی قدر پہچانی اور نہ اسے‬
‫اپنانے پر آمادہ ہوئے‪ ،‬بلکہ اس کو جهٹاليا اور رد کے درپے ہوگئے۔‬
‫‪٢٨‬۔‪۳‬جب يہ بات ہے تو ہدايت و رحمت تمہارے حصے ميں کس طرح آ سکتی ہے؟‬

‫ار ِد الَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا ۭ اِنَّ ُه ْم ُّم ٰلقُ ْوا َربِ ِه ْم َو ٰل ِكنِ ْْٓي‬
‫ط ِ‬‫ّٰللاِ َو َما ْٓ اَنَا بِ َ‬ ‫ي ا َِّْل َ‬
‫علَي ه‬ ‫ْل اَسْـــَٔـلُ ُك ْم َ‬
‫علَ ْي ِه َم ا‬
‫اْل ۭ ا ِْن اَجْ ِر َ‬ ‫َو ٰيقَ ْو ِم َ ْٓ‬
‫؀‪29‬‬ ‫ا َ ٰرى ُك ْم قَ ْو اما تَجْ ـ َهلُ ْونَ‬
‫ميری قوم والو! ميں تم سے اس پر کوئی مال نہيں مانگتا (‪ )١‬ميرا ثواب تو صرف ہللا ٰ‬
‫تعالی کے‬
‫ہاں ہے نہ ميں ايمان داروں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں (‪ )٢‬انہيں اپنے رب سے ملنا ہے‬
‫ليکن ميں ديکهتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو (‪)۳‬۔‬
‫‪٢٩‬۔‪ ١‬تاکہ تمہارے دماغوں ميں يہ شبہ نہ آ جائے کہ اس دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو دولت‬
‫دنيا اکٹها کرنا ہے۔ ميں تو يہ کام صرف ہللا کے حکم پر اسی کی رضا کے لئے کر رہا ہوں‪ ،‬وہی‬
‫مجهے اجر دے گا۔‬
‫‪٢٩‬۔‪ ٢‬اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح عليہ السالم کے سرداروں نے بهی معاشرے ميں کمزور‬
‫سمجهے جانے والے اہل ايمان کو حضرت نوح عليہ السالم سے اپنی مجلس يا اپنے قرب سے دور‬
‫رکهنے کا مطالبہ کيا ہوگا‪ ،‬جس طرح روسائے مکہ نے رسول ہللا سے اس قسم کا مطالبہ کيا تها‪،‬‬
‫تعالی نے قرآن کريم کی آيت نازل فرمائيں تهيں ' اے پيغمبر ان لوگوں کو اپنے سے‬ ‫جس پر ہللا ٰ‬
‫ع ْونَ‬‫(و َْل ت َْط ُر ِد الَّ ِذيْنَ يَ ْد ُ‬
‫دور مت کرنا جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہيں (سورہ‪ ،‬اْل نعام ‪َ )٥٢‬‬
‫ش ْيءٍ‬‫علَ ْي ِه ْم ِم ْن َ‬ ‫سابِكَ َ‬ ‫َيءٍ َّو َما ِم ْن ِح َ‬
‫سابِ ِه ْم ِم ْن ش ْ‬ ‫َربَّ ُه ْم بِ ْالغ َٰدوةِ َو ْال َع ِشي ِ ي ُِر ْيد ُْونَ َوجْ َههٗ ۭۭ َما َ‬
‫علَيْكَ ِم ْن ِح َ‬
‫ظ ِل ِميْنَ ؀‪6 )52‬۔ اْلنعام‪ ' )52:‬اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساته جوڑے‬ ‫َفت َْط ُر َد ُه ْم َفت َ ُك ْونَ ِمنَ ال ه‬
‫رکهئے! جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہيں‪ ،‬اپنے رب کی رضا چاہتے ہيں‪ ،‬آپ کی آنکهيں ان‬
‫سكَ َم َع الَّ ِذيْنَ‬
‫ص ِب ْر نَ ْف َ‬
‫(وا ْ‬‫سے گزر کر کسی اور کی طرف تجاوز نہ کريں (سورة الکہف۔ ‪َ )٢٨‬‬
‫ع ْن ُه ْم ۭۚ ت ُ ِر ْي ُد ِز ْينَةَ ْال َح ٰيوةِ ال ُّد ْنيَا ۭۚ َو َْل ت ُ ِط ْع‬ ‫ع ْونَ َربَّ ُه ْم بِ ْالغ َٰدوةِ َو ْالعَ ِشي ِ ي ُِر ْيد ُْونَ َوجْ َههٗ َو َْل ت َ ْع ُد َ‬
‫عي ْٰنكَ َ‬ ‫يَ ْد ُ‬
‫ا‬
‫ع ْن ِذ ْك ِرنَا َواتَّبَ َع ه َٰوىهُ َو َكانَ ا َ ْم ُر ٗہ فُ ُرطا) ‪18‬۔ الکہف‪)28:‬‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫َم ْن ا َ ْغفَلنَا قَلبَهٗ َ‬
‫‪٢٩‬۔‪ ۳‬يعنی ہللا اور رسول کے پيروکار کو حقير سمجهنا اور پهر انہيں قرب نبوت سے دور کرنے‬
‫کا مطالبہ کرنا‪ ،‬يہ تمہاری جہالت ہے۔ يہ لوگ تو اس ْلئق ہيں کہ انہيں سر آنکهوں پر بٹهايا جائے‬
‫نہ کہ دور دهتکارا جائے۔‬

‫؀‪30‬‬ ‫ّٰللا ا ِْن َ‬


‫ط َر ْدت ُّ ُه ْم ۭ اَفَ َال ت َ َذ َّك ُر ْونَ‬ ‫َو ٰيقَ ْو ِم َم ْن يَّ ْن ُ‬
‫ص ُرنِ ْي ِمنَ ه ِ‬
‫ميری قوم کے لوگو! اگر ميں ان مومنوں کو اپنے پاس سے نکال دوں تو ہللا کے مقابلے ميں ميری‬
‫مدد کون کر سکتا ہے (‪ )١‬کيا تم کچه بهی نصيحت نہيں پکڑتے۔‬
‫‪۳٠‬۔‪ ١‬گويا ايسے لوگوں کو اپنے سے دور کرنا‪ ،‬ہللا کے غضب اور ناراضگی کا باعث ہے۔‬

‫ْب َو َْلْٓ اَقُ ْو ُل اِنِ ْى َملَكٌ َّو َْلْٓ اَقُ ْو ُل ِللَّ ِذيْنَ ت َْز َد ِر ْْٓ‬
‫ي ا َ ْعيُنُ ُك ْم لَ ْن‬ ‫ِي خَزَ ۗاى ُن ه‬
‫ّٰللاِ َو َْلْٓ ا َ ْعلَ ُم ْالغَي َ‬ ‫َو َْلْٓ اَقُ ْو ُل لَ ُك ْم ِع ْند ْ‬
‫‪ 31‬؀‬ ‫ّٰللاُ ا َ ْعلَ ُم بِ َما فِ ْْٓي ا َ ْنفُ ِس ِه ْم ښ اِنِ ْْٓى اِذاا لَّ ِمنَ ال ه‬
‫ظ ِل ِميْنَ‬ ‫ّٰللاُ َخي اْرا ۭ َ ه‬
‫يُّؤْ تِيَ ُه ُم ه‬
‫ميں تم سے نہيں کہتا کہ ميرے پاس ہللا کے خزانے ہيں‪ ،‬ميں غيب کا علم بهی نہيں رکهتا‪ ،‬نہ يہ‬
‫ميں کہتا ہوں کہ ميں کوئی فرشتہ ہوں‪ ،‬نہ ميرا يہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہيں ذلت سے پڑ‬
‫تعالی کوئی نعمت دے گا ہی نہيں (‪ )١‬ان کے دل ميں جو ہے اسے ہللا ہی خوب‬ ‫رہی ہيں انہيں ہللا ٰ‬
‫جانتا ہے‪ ،‬اگر ميں ايسی بات کہوں تو يقينا ا ميرا شمار ظالموں ميں ہو جائے گا (‪)٢‬۔‬
‫تعالی نے انہيں ايمان کی صورت ميں خير عظيم عطا کر رکها ہے جس کی بنياد پر‬ ‫‪۳١‬۔‪ ١‬بلکہ ہللا ٰ‬
‫وہ آخرت ميں بهی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور دنيا ميں بهی ہللا ٰ‬
‫تعالی چاہے گا‪،‬‬
‫تو بلند مرتبے سے ہمکنار ہوں گے۔ گويا تمہارا ان کو حقير سمجهنا ان کے لئے نقصان کا باعث‬
‫نہيں‪ ،‬البتہ تم ہی عند ہللا مجرم ٹهہرو گے کہ ہللا کے نيک بندوں کو‪ ،‬جن کا ہللا کے ہاں بڑا مقام‬
‫ہے‪ ،‬تم حقير اور فرومايہ سمجهتے ہو۔‬
‫‪۳١‬۔‪ ٢‬کيونکہ ميں ان کی بابت ايسی بات کہوں جس کا مجهے علم نہيں‪ ،‬صرف ہللا جانتا ہے‪ ،‬تو يہ‬
‫ظلم ہے۔‬

‫؀‪32‬‬ ‫قَالُ ْوا ٰينُ ْو ُح قَ ْد جٰ َد ْلتَنَا فَا َ ْكث َ ْرتَ ِج َدالَنَا فَا ْ ِتنَا ِب َما ت َ ِع ُدنَا ْٓ ا ِْن ُك ْنتَ ِمنَ ال ه‬
‫ص ِد ِقيْنَ‬
‫(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کر لی اور خوب بحث کر لی (‪ )١‬اب تو‬
‫جس چيز سے ہميں دهمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ اگر تو سچوں ميں ہے (‪)٢‬۔‬
‫‪۳٢‬۔‪ ١‬ليکن اس کے باوجود ہم ايمان نہيں ْلئے۔‬
‫‪۳٢‬۔‪ ٢‬يہ وہی حماقت ہے جس کا ارتکاب گمراہ قوميں کرتی آئی ہيں کہ وہ اپنے پيغمبر سے کہتی‬
‫رہی ہيں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا کر ہميں تباہ کروا دے۔ حاْلنکہ ان ميں عقل‬
‫ہوتی‪ ،‬تو وہ کہتيں کہ اگر سچا ہے اور واقعی ہللا کا رسول ہے‪ ،‬تو ہمارے لئے دعا کر کہ ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫ہمارا سينہ بهی کهول دے تاکہ ہم اسے اپنا ليں۔‬

‫ّٰللاُ ا ِْن ش َۗا َء َو َما ْٓ ا َ ْنت ُ ْم ِب ُم ْع ِج ِزيْنَ‬


‫‪ 33‬؀‬ ‫قَا َل اِنَّ َما َيا ْ ِت ْي ُك ْم ِب ِه ه‬
‫تعالی ہی ْلئے گا اگر وہ چاہے اور ہاں تم اسے ہرانے والے نہيں ہو‬ ‫جواب ديا کہ اسے بهی ہللا ٰ‬
‫(‪)١‬۔‬
‫‪۳۳‬۔‪ ١‬يعنی عذاب کا آنا خالص ہللا کی مشيت پر موقوف ہے‪ ،‬يہ نہيں ہے کہ جب ميں چاہوں‪ ،‬تم پر‬
‫عذاب آ جائے۔ تاہم جب ہللا عذاب کا فيصلہ کر لے گا يا بهيج دے گا‪ ،‬تو پهر اس کو کوئی عاجز‬
‫کرنے واْل نہيں ہے۔‬

‫ّٰللاُ ي ُِر ْي ُد ا َ ْن يُّ ْغ ِو َي ُك ْم ۭ ُه َو َربُّ ُك ْم ۣ َواِلَ ْي ِه ت ُ ْر َجعُ ْونَ‬


‫ص َح لَ ُك ْم اِ ْن َكانَ ه‬
‫ْت ا َ ْن ا َ ْن َ‬ ‫َو َْل يَ ْنفَعُ ُك ْم نُ ْ‬
‫ص ِح ْْٓي ا ِْن ا َ َرد ُّ‬
‫ۭ؀‪34‬‬
‫تمہيں ميری خير خواہی کچه بهی نفع نہيں دے سکتی‪ ،‬گو ميں کتنی ہی تمہاری خير خواہی کيوں نہ‬
‫چاہوں‪ ،‬بشرطيکہ ہللا کا ارادہ تمہيں گمراہ کرنے کا ہو (‪ )١‬وہی تم سب کا پروردگار ہے (‪ )٢‬اور‬
‫اسی کی طرف لوٹ جاؤ گے۔‬
‫‪۳٤‬۔‪ ١‬اغواء بمعنی اضالل (گمراہ کرنا ہے)۔ يعنی تمہارا کفر وجحود اگر اس مقام پر پہنچ چکا ہے‪،‬‬
‫جہاں سے کسی انسان کو پلٹ کر آنا اور ہدايت کو اپنا لينا ناممکن ہے‪ ،‬تو اسی کيفيت کو ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫کی طرف سے مہر لگا دينا کہا جاتا ہے‪ ،‬جس کے بعد ہدايت کی کوئی اميد باقی نہيں رہ جاتی۔‬
‫مطلب يہ ہے کہ اگر تم بهی اسی خطرناک موڑ تک پہنچ چکے ہو تو پهر ميں تمہاری خير خواہی‬
‫بهی کرنی چاہوں يعنی ہدايت پر ْلنے کی اور زيادہ کوشش کروں‪ ،‬تو يہ کوشش اور خير خواہی‬
‫تمہارے لئے مفيد نہيں‪ ،‬کيونکہ تم گمراہی کے آخری مقام پر پہنچ چکے ہو۔‬
‫‪۳٤‬۔‪٢‬ہدايت اور گمراہی بهی اسی کے ہاته ميں ہے اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے‪،‬‬
‫جہاں وہ تمہيں تمہارے عملوں کی جزا دے گا۔ نيکوں کو انکے نيک عمل کی جزا اور بروں کو ان‬
‫کی برائی کی سزا دے گا۔‬

‫ۧ؀‪35‬‬ ‫ي ٌء ِم َّما تُجْ ِر ُم ْونَ‬ ‫ا َ ْم يَقُ ْولُ ْونَ ا ْفت َٰرىهُ ۭ قُ ْل ا ِِن ا ْفت ََر ْيتُهٗ فَ َعلَ َّ‬
‫ي اِجْ َر ِام ْي َواَنَا بَ ِر ۗ ْ‬
‫کيا يہ کہتے ہيں کہ اسے خود اسی نے گهڑ ليا ہے؟ تو جواب دے کہ اگر ميں نے اسے گهڑ ليا ہو‬
‫تو ميرا گناہ مجه پر ہے اور ميں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو (‪)١‬‬
‫‪۳٥‬۔‪ ١‬بعض مفسرين کے نزديک يہ مکالمہ قوم نوح عليہ السالم اور حضرت نوح عليہ السالم کے‬
‫درميان ہوا اور بعض کا خيال ہے کہ يہ جملہ معترضہ کے طور پر نبی اکرم اور مشرکين مکہ‬
‫کے درميان ہونے والی گفتگو ہے۔ مطلب يہ ہے کہ اگر يہ قرآن ميرا گهڑا ہوا ہے اور ميں ہللا کی‬
‫طرف سے منسوب کرنے ميں جهوٹا ہوں تو ميرا جرم ہے‪ ،‬اس کی سزا ميں ہی بهگتوں گا۔ ليکن تم‬
‫جو کچه کر رہے ہو‪ ،‬جس سے ميں بری ہوں‪ ،‬اس کا بهی تمہيں پتہ ہے؟ اس کا وبال تو مجه پر‬
‫نہيں‪ ،‬تم پر ہی پڑے گا کيا اس کی بهی تمہيں کچه فکر ہے؟‬

‫؀‪36‬ښ‬ ‫ي ا ِٰلي نُ ْوحٍ اَنَّهٗ لَ ْن يُّؤْ ِمنَ ِم ْن قَ ْو ِمكَ ا َِّْل َم ْن قَ ْد ٰا َمنَ فَ َال ت َ ْبت َى ْ‬
‫س بِ َما َكانُ ْوا يَ ْفعَلُ ْونَ‬ ‫َوا ُ ْو ِح َ‬
‫نوح کی طرف وحی بهيجی گئی کہ تيری قوم ميں سے جو ايمان ْل چکے ان کے سوا اور کوئی اب‬
‫ايمان ْلئے گا ہی نہيں‪ ،‬پس تو ان کے کاموں پر غمگين نہ ہو (‪)١‬۔‬
‫‪۳٦‬۔‪ ١‬يہ اس وقت کہا گيا کہ جب قوم نوح عليہ السالم نے عذاب کا مطالبہ کيا اور حضرت نوح‬
‫عليہ السالم نے بارگاہ ٰالہی ميں دعا کی کہ يا رب! زمين پر ايک کافر بهی بسنے واْل نہ رہنے دے۔‬
‫ہللا نے فرمايا‪ ،‬اب مزيد کوئی ايمان نہيں ْلئے گا‪ ،‬تو ان پر غم نہ کها۔‬

‫ظلَ ُم ْوا ۚ اِنَّ ُه ْم ُّم ْغ َرقُ ْونَ‬


‫‪ 37‬؀‬ ‫صنَعِ ْالفُ ْلكَ ِبا َ ْعيُنِنَا َو َوحْ يِنَا َو َْل تُخ ِ‬
‫َاط ْبنِ ْي فِي الَّ ِذيْنَ َ‬ ‫َوا ْ‬
‫اور کشتی ہماری آنکهوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تيار کر (‪ )١‬اور ظالموں کے بارے‬
‫ميں ہم سے کوئی بات چيت نہ کر وہ پانی ميں ڈبو ديئے جانے والے ہيں (‪)٢‬‬
‫‪۳٧‬۔‪ ١‬يعنی ہماری آنکهوں کے سامنے ' اور ' ہماری ديکه بهال ميں ' اس آيت ميں ہللا رب العزت‬
‫کے لئے صفت ' عين ' کا اثبات ہے جس پر ايمان رکهنا ضروری ہے اور ' ہماری وحی سے ' کا‬
‫مطلب‪ ،‬اس کے طول و عرض وغيرہ کی جو کيفيات ہم نے بتالئی ہيں‪ ،‬اس طرح اسے بنا۔ اس مقام‬
‫پر بعض مفسرين نے کشتی کے طول و عرض‪ ،‬اس کی منزلوں اور کس قسم کی لکڑی اور ديگر‬
‫سامان اس ميں استعمال کيا گيا‪ ،‬اس کی تفصيل بيان کی ہے‪ ،‬جو ظاہر بات ہے کہ کسی مستند ماخذ‬
‫پر مبنی نہيں ہے۔ اس کی پوری تفصيل کا صحيح علم صرف ہللا ہی کو ہے۔‬
‫‪۳٧‬۔‪ ٢‬بعض نے اس سے مراد حضرت نوح عليہ السالم کے بيٹے اور اہليہ کو ليا ہے جو مومن‬
‫نہيں تهے اور غرق ہونے والوں ميں سے تهے۔ بعض نے اس سے غرق ہونے والی پوری قوم‬
‫مراد لی ہے اور مطلب يہ ہے کہ ان کے لئے کوئی مہلت طلب مت کرنا کيونکہ اب ان کے ہالک‬
‫ہونے کا وقت آ گيا ہے يا يہ مطلب ہے کہ ان کی ہالکت کے لئے جلدی نہ کريں‪ ،‬وقت مقرر ميں يہ‬
‫سب غرق ہو جائيں گے‪،‬‬
‫(فتح القدير)۔‬

‫ۣ َو ُكلَّ َما َم َّر َ‬


‫علَ ْي ِه َم َالٌ ِم ْن قَ ْو ِم ٖه َ‬
‫س ِخ ُر ْوا ِم ْنهُ ۭقَا َل ا ِْن ت َ ْسخ َُر ْوا ِمنَّا فَ ِانَّا نَ ْسخ َُر ِم ْن ُك ْم َك َما‬ ‫صنَ ُع ْالفُ ْلكَ‬
‫َويَ ْ‬
‫ۭ؀‪38‬‬ ‫ت َ ْسخ َُر ْونَ‬
‫وہ (نوح) کشتی بنانے لگے ان کی قوم کے جو سردار ان کے پاس سے گزرے وہ ان کا مذاق‬
‫اڑاتے (‪ )١‬وہ کہتے اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بهی تم پر ايک دن ہنسيں گے جيسے تم ہم پر‬
‫ہنستے ہو۔‬
‫‪۳٨‬۔‪ ١‬مثال کہتے‪ ،‬نوح! نبی بنتے بنتے اب بڑهئی بن گئے ہو؟ يا اے نوح! خشکی ميں کشتی کس‬
‫لئے تيار کر رہے ہو؟‬
‫؀‪39‬‬ ‫علَ ْي ِه َ‬
‫ع َذابٌ ُّم ِق ْي ٌم‬ ‫ف ت َ ْعلَ ُم ْونَ َم ْن يَّاْتِ ْي ِه َ‬
‫ع َذابٌ ي ُّْخ ِز ْي ِه َويَ ِح ُّل َ‬ ‫فَ َ‬
‫س ْو َ‬
‫تمہيں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے اور اس پر ہميشگی‬
‫کی سزا (‪ )١‬اتر آئے۔‬
‫‪۳٩‬۔‪ ١‬اس سے مراد جہنم کا دائمی عذاب ہے‪ ،‬جو اس دنيوی عذاب کے بعد ان کے لئے تيار ہے۔‬

‫علَ ْي ِه ْالقَ ْو ُل َو َم ْن‬ ‫ﱑ اِ َذا َج ۗا َء ا َ ْم ُرنَا َوفَ َ‬


‫ار التَّنُّ ْو ُر قُ ْلنَا احْ ِم ْل فِ ْي َها ِم ْن ُك ٍل زَ ْو َجي ِْن اثْنَي ِْن َوا َ ْهلَكَ ا َِّْل َم ْن َ‬
‫سبَقَ َ‬
‫؀‪40‬‬ ‫ٰا َمنَ ۭ َو َما ْٓ ٰا َمنَ َم َعهٗ ْٓ ا َِّْل قَ ِل ْي ٌل‬
‫يہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا (‪ )١‬ہم نے کہا کہ کشتی ميں ہر قسم کے‬
‫(جانداروں ميں سے) جوڑے (يعنی) دو (جانور‪ ،‬ايک نر اور ايک مادہ) سوار کرا لے (‪ )٢‬اور‬
‫اپنے گهر کے لوگوں کو بهی‪ ،‬سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی (‪ )۳‬اور سب ايمان‬
‫والوں کو بهی (‪ )٤‬اس کے ساته ايمان ْلنے والے بہت ہی کم تهے (‪)٥‬۔‬
‫‪٤٠‬۔‪ ١‬اس سے بعض نے روٹی پکانے والے تنور‪ ،‬بعض نے مخصوص جگہيں مثال عين الوردہ‬
‫اور بعض نے سطح زمين مراد لی ہے۔ حافظ ابن کثير نے اسی آخری مفہوم کو ترجيح دی ہے‬
‫يعنی ساری زمين ہی چشموں کی طرح ابل پڑی‪ ،‬اوپر سے آسمان کی بارش نے رہی سہی کسر‬
‫پوری کر دی۔‬
‫‪٤٠‬۔‪ ٢‬اس سے مراد مذکر اور مؤنث يعنی نر مادہ ہے اس طرح ہر ذی روح مخلوق کا جوڑا کشتی‬
‫ميں رکه ليا گيا اور بعض کہتے ہيں کہ نباتات بهی رکهے گئے تهے۔ وہلل اعلم۔‬
‫‪٤٠‬۔‪ ۳‬يعنی جن کا غرق ہونا تقدير ٰالہی ميں ثبت ہے اس سے مراد عام کفار ہيں‪ ،‬يا يہ استشناء‬
‫ک سے ہے يعنی اپنے گهر والوں کو بهی کشتی ميں سوار کرا لے‪ ،‬سوائے ان کے جن پر ہللا‬ ‫ا َ ْهلَ َ‬
‫(و‬
‫کی بات سبقت کر گئی ہے يعنی ايک بيٹا (کنعان يا۔ يام) اور حضرت نوح عليہ السالم کی اہليہ َ‬
‫ٰ‬
‫مستشنی کر ديا گيا۔‬ ‫ِعلَۃ) يہ دونوں کافر تهے‪ ،‬ان کو کشتی ميں بيٹهنے والوں سے‬
‫‪٤٠‬۔‪ ٤‬يعنی سب اہل ايمان کو کشتی ميں سوار کرا لے۔‬
‫‪٤٠‬۔‪ ٥‬بعض نے ان کی کل تعداد (مرد اور عورت مال کر) ‪ ٨٠‬اور بعض نے اس سے بهی کم‬
‫بتالئی ہے۔ ان ميں حضرت نوح عليہ السالم کے تين بيٹے‪ ،‬جو ايمان والوں ميں شامل تهے‪ ،‬سام‪،‬‬
‫حام‪ ،‬يافت اور ان کی بيوياں اور چوتهی بيوی‪ ،‬يام کی تهی‪ ،‬جو کافر تها‪ ،‬ليکن اس کی بيوی‬
‫مسلمان ہونے کی وجہ سے کشتی ميں سوار تهی۔ (ابن کثير)‬

‫؀‪41‬‬ ‫ــر۩ى َها َو ُم ْرسٰ ى َها ۭ ا َِّن َر ِب ْي لَغَفُ ْو ٌر َّر ِح ْي ٌم‬ ‫َوقَا َل ْ‬
‫ار َكب ُْوا فِ ْي َها ِبس ِْم ه‬
‫ّٰللاِ َمجْ ٖ‬
‫نوح نے کہا اس کشتی ميں بيٹه جاؤ ہللا ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹهہرنا ہے‪ )١( ،‬يقينا ا ميرا‬
‫رب بڑی بخشش اور بڑے رحم واْل ہے۔‬
‫‪٤١‬۔‪ ١‬يعنی ہللا ہی کے نام سے اس کا پانی کی سطح پر چلنا اور اسی کے نام پر اس کا ٹهہرنا ہے۔‬
‫اس سے ايک مقصد اہل ايمان کو تسلی اور حوصلہ دينا بهی تها کہ بال خوف و خطر کشتی ميں‬
‫تعالی ہی اس کشتی کا محافظ اور نگران ہے اسی کے حکم سے چلے گی اور‬ ‫سوار ہو جاؤ‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫تعالی نے دوسرے مقام پر فرمايا کہ ' اے نوح! جب‬ ‫اسی کے حکم سے ٹهہرے گی۔ جس طرح ہللا ٰ‬
‫ِی نَ هجنَا ِمنَ ْالقَ ْو ِم ال ه‬
‫ظ ِل ِميْنَ ہ‬ ‫تو اور تيرے ساتهی کشتی ميں آرام سے بيٹه جائيں تو کہو (ا َ ْل َح ْم ُد ِللله ِہ الَّذ ْ‬
‫ب ا َ ْن ِز ْلنِ ْی ُم ْنزَ اْل ُّم ٰب َرکَا َّو ا َ ْنتَ َخي ُْر ْال ُم ْن ِز ِليْنَ ) (المومنون ‪ ' )٢٨،٢٩‬سب تعريف ہللا ہی کے لئے‬
‫َو قُ ْل َّر ِ‬
‫ہے‪ ،‬جس نے ہميں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی اور کہہ کہ اے ميرے رب! مجهے بابرکت‬
‫اتارنا اتار اور تو ہی بہتر اتارنے واْل ہے '۔‬
‫ّٰللاِ َمجْ ٖرها و ُم ْرسٰ ِها) کا پڑهنا مستحب قرار ديا‬ ‫بعض علماء نے کشتی يا سواری پر بيٹهتے وقت (بِس ِْم ه‬
‫س َّخــ َر لَنَا ٰه َذا َو َما ُكنَّا لَهٗ ُم ْق ِرنِيْنَ ) ‪43‬۔ الزخرف‪)13:‬‬ ‫سبْحٰ نَ الَّذ ْ‬
‫ِي َ‬ ‫(وتَ ـقُ ْولُ ْوا ُ‬
‫ہے‪ ،‬مگر حديث سے َ‬
‫پڑهنا ثابت ہے۔‬

‫ار َكبْ َّمعَنَا َو َْل ت َ ُك ْن َّم َع‬


‫ي ْ‬‫ي ِب ِه ْم فِ ْي َم ْوجٍ َك ْال ِجبَا ِل ۣ َون َٰادي نُ ْو ُۨ ُح ا ْبنَهٗ َو َكانَ فِ ْي َم ْع ِز ٍل يهبُنَ َّ‬
‫ِى تَجْ ِر ْ‬‫َوه َ‬
‫؀‪42‬‬ ‫ْال ٰك ِف ِريْنَ‬
‫وہ کشتی انہيں پہاڑوں جيسی موجوں ميں لے کر جا رہی تهی (‪ )١‬اور نوح (عليہ السالم) نے اپنے‬
‫لڑکے کو جو ايک کنارے پر تها‪ ،‬پکار کر کہا کہ اے ميرے پيارے بچے ہمارے ساته سوار ہو جا‬
‫اور کافروں ميں شامل نہ رہ (‪)٢‬۔‬
‫‪٤٢‬۔‪ ١‬يعنی جب زمين پر پانی تها‪ ،‬ح ٰتی کے پہاڑ بهی پانی ميں ڈوبے ہوئے تهے‪ ،‬يہ کشتی حضرت‬
‫نوح عليہ السالم اور ان کے ساتهيوں کو دامن ميں سميٹے‪ ،‬ہللا کے حکم سے اور اس کی حفاظت‬
‫ميں پہاڑ کی طرح رواں دواں تهی۔ ورنہ اتنے طوفانی پانی ميں کشتی کی حيثيت ہی کيا ہوتی ہے؟‬
‫طغَا ْال َما ۭۗ ُء َح َم ْل ٰن ُك ْم فِي‬ ‫اسی لئے دوسرے مقام پر ہللا ٰ‬
‫تعالی نے اسے بطور احسان ذکر فرمايا۔(اِنَّا لَ َّما َ‬
‫ْال َج ِ‬
‫ار َي ِة ۝‪ِ 11‬لنَجْ َعلَ َها لَ ُك ْم ت َ ْذ ِك َرة ا َّوت َ ِع َي َها ْٓ اُذُ ٌن َّوا ِع َيةٌ ۝‪59 )12‬۔ الحاقہ‪ )11-12:‬جب پانی ميں‬
‫طغيانی آ گئی تو اس وقت ہم نے تمہيں کشتی ميں چڑها ليا تاکہ اسے تمہارے لئے نصيحت اور‬
‫يادگار بنا ديں اور تاکہ ياد رکهنے والے کان اسے ياد رکهيں (وحملنہ علی ذات الواح ودسر*تجری‬
‫باعيننا جزاء لمن کان کفر) (القمر) اور ہم نے اسے تخنوں اور کيلوں والی کشتی ميں سوار کر ليا‬
‫جو ہماری آنکهوں کے سامنے چل رہی تهی بدلہ اسکی طرف سے جس کا کفر کيا گيا تها۔‬
‫‪٤٢‬۔‪ ٢‬يہ حضرت نوح عليہ السالم کا چوتها بيٹا تها جس کا لقب کنعان اور نام ' يام ' تها‪ ،‬اسے‬
‫حضرت نوح عليہ السالم نے دعوت دی کہ مسلمان ہو جا اور کافروں کے ساته شامل رہ کر غرق‬
‫ہونے والوں ميں سے مت ہو۔‬

‫اص َم ْال َي ْو َم ِم ْن ا َ ْم ِر ه‬
‫ّٰللاِ ا َِّْل َم ْن َّر ِح َم ۚ َو َحا َل بَ ْينَ ُه َما‬ ‫ع ِ‬‫ص ُمنِ ْي ِمنَ ْال َم ۗا ِء ۭ قَا َل َْل َ‬‫ي ا ِٰلي َج َب ٍل يَّ ْع ِ‬
‫س ٰا ِو ْْٓ‬
‫قَا َل َ‬
‫؀‪43‬‬ ‫ْال َم ْو ُج فَ َكانَ مِنَ ْال ُم ْغ َرقِيْنَ‬
‫اس نے جواب ديا کہ ميں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناہ ميں آجاؤں گا جو مجهے پانی سے بچا‬
‫لے گا (‪ )١‬نوح نے کہا آج ہللا کے امر سے بچانے واْل کوئی نہيں‪ ،‬صرف وہی بچيں گے جن پر‬
‫ہللا کا رحم ہوا۔ اسی وقت ان دونوں کے درميان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں ميں سے‬
‫ہوگيا (‪)٢‬۔‬
‫‪٤۳‬۔‪ ١‬اس کا خيال تها کہ کسی بڑے پہاڑ کی چوٹی پر چڑه کر ميں پناہ حاصل کرلوں گا‪ ،‬وہاں‬
‫پانی کيونکر پہنچ سکے گا۔‬
‫‪٤۳‬۔‪ ٢‬باپ بيٹے کے درميان يہ گفتگو ہو ہی رہی تهی کہ ايک طوفانی موج نے اسے اپنی طغيانی‬
‫کی زد ميں لے ليا۔‬

‫علَي ْال ُج ْودِي ِ َو ِق ْي َل بُ ْعداا‬ ‫ي ْاْلَ ْم ُر َواسْـت ََو ْ‬


‫ت َ‬ ‫ْض ْال َم ۗا ُء َوقُ ِ‬
‫ض َ‬ ‫س َم ۗا ُء ا َ ْق ِل ِع ْي َو ِغي َ‬
‫ض ا ْبلَ ِع ْي َم ۗا َء ِك َو ٰي َ‬‫َو ِق ْي َل ٰ ْٓيا َ ْر ُ‬
‫؀‪44‬‬ ‫ِل ْلقَ ْو ِم ال ه‬
‫ظ ِل ِميْنَ‬
‫فرما ديا گيا کہ اے زمين اپنے پانی کو نگل جا (‪ )١‬اور اے آسمان بس کر تهم جا‪ ،‬اسی وقت پانی‬
‫سکها ديا گيا اور کام پورا کر ديا گيا (‪ )٢‬اور کشتی ' جودی ' نامی (‪ )۳‬پہاڑ پر جا لگی اور فرما ديا‬
‫گيا کہ ظالم لوگوں پر لعنت نازل ہو (‪)٤‬۔‬
‫‪٤٤‬۔‪ ١‬نگلنا‪ ،‬کا استعمال جانور کے لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ کی خوراک کو نگل جاتا ہے۔ يہاں‬
‫پانی کے خشک ہونے کو نگل جانے سے تعبير کرنے ميں يہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ پانی‬
‫بتدريخ خشک نہيں ہوا تها بلکہ ہللا کے حکم سے زمين نے سارا پانی دفعتا اس طرح اپنے اندر نگل‬
‫ليا جس طرح جانور لقمہ نگل جاتا ہے۔‬
‫‪٤٤‬۔‪ ٢‬يعنی تمام کافروں کو غرق آب کر ديا گيا۔‬
‫‪٤٤‬۔‪ ۳‬جودی‪ ،‬پہاڑ کا نام ہے جو بقول بعض موصل کے قريب ہے‪ ،‬حضرت نوح عليہ السام کی قوم‬
‫بهی اسی کے قريب آباد تهی۔‬
‫‪٤٤‬۔‪ ٤‬بُ ْعدا‪ ،‬يہ ہالکت اور لعنت ٰالہی کے معنی ميں ہے اور قرآن کريم بطور خاص غضب ٰالہی کی‬
‫مستحق بننے والی قوموں کے لئے اسے کئی جگہ استعمال کيا گيا ہے۔‬

‫؀‪45‬‬ ‫ب ا َِّن ا ْبنِ ْي ِم ْن ا َ ْه ِل ْي َوا َِّن َو ْعدَكَ ْال َح ُّق َوا َ ْنتَ اَحْ َك ُم ْالحٰ ِك ِميْنَ‬
‫َون َٰادي نُ ْو ٌح َّربَّهٗ فَقَا َل َر ِ‬
‫نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا ميرے رب ميرا بيٹا تو ميرے گهر والوں ميں سے ہے‪،‬‬
‫يقينا ا تيرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے (‪)١‬۔‬
‫‪٤٥‬۔‪ ١‬حضرت نوح عليہ السالم نے غالبا شفقت پدری کے جذبے سے مغلوب ہو کر بارگاہ ٰالہی ميں‬
‫يہ دعا کی اور بعض کہتے ہيں کہ انہيں يہ خيال تها کہ شايد يہ مسلمان ہو جائے گا‪ ،‬اس لئے اس‬
‫کے بارے ميں يہ استدعا کی۔‬

‫ْس لَكَ بِ ٖه ِع ْل ٌم ۭ اِنِ ْْٓى ا َ ِع ُ‬


‫ظكَ ا َ ْن‬ ‫ڶ فَ َال تَسْـــَٔ ْـل ِن َما لَي َ‬ ‫صا ِلحٍ‬
‫غي ُْر َ‬ ‫قَا َل ٰينُ ْو ُح اِنَّهٗ لَي َ‬
‫ْس ِم ْن ا َ ْهلِكَ ۚ اِنَّهٗ َ‬
‫ع َم ٌل َ‬
‫؀‪46‬‬ ‫ت َ ُك ْونَ مِنَ ْالجٰ ِه ِليْنَ‬
‫ہللا ٰ‬
‫تعالی نے فرمايا اے نوح يقينا ا وہ تيرے گهرانے سے نہيں ہے (‪ )١‬اس کے کام بالکل ہی‬
‫ناشائستہ ہيں (‪ )٢‬تجهے ہرگز وہ چيز نہ مانگنی چاہيے جس کا تجهے مطلقا علم نہ ہو (‪ )۳‬ميں‬
‫تجهے نصيحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں ميں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے (‪)٤‬۔‬
‫‪٤٦‬۔‪ ١‬حضرت نوح عليہ السالم نے قرابت نسبی کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اپنا بيٹا قرار ديا۔ ليکن‬
‫تعالی نے ايمان کی بنياد پر قرابت دين کے اعتبار سے اس بات کی نفی فرمائی کہ وہ تيرے‬ ‫ہللا ٰ‬
‫گهرانے سے ہے۔ اس لئے کہ ايک نبی کا اصل گهرانہ تو وہی ہے جو اس پر ايمان ْلئے‪ ،‬چاہے‬
‫وہ کوئی بهی ہو۔ اور اگر کوئی ايمان نہ ْلئے تو چاہے وہ نبی کا باپ ہو‪ ،‬بيٹا ہو يا بيوی‪ ،‬وہ نبی‬
‫کے گهرانے کا فرد نہيں۔‬
‫‪٤٦‬۔‪ ٢‬يہ ہللا ٰ‬
‫تعالی نے اس کی علت بيان فرما دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس ايمان اور‬
‫عمل‬
‫صا لح نہيں ہوگا‪ ،‬اسے ہللا کے عذاب سے ہللا کا پيغمبر بهی بچانے پر قادر نہيں۔ آج کل لوگ‬
‫پيروں‪ ،‬فقيروں اور سجادہ نشينوں سے وابستگی کو ہی نجات کے ليے کافی سمجهتے ہيں اور عمل‬
‫صالح کی ضرورت ہی نہيں سمجهتے حاْلنکہ جب عمل صالح کے بغير نبی سے نسبی قرابت بهی‬
‫کام نہيں آتی‪ ،‬تو يہ وابستگياں کيا کام آ سکتی ہيں۔‬
‫‪٤٦‬۔‪ ۳‬اس سے معلوم ہوا کہ نبی عالم الغيب نہيں ہوتا‪ ،‬اس کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا وحی کے‬
‫تعالی اسے عطا فرما ديتا ہے۔ اگر حضرت نوح عليہ السالم کو پہلے سے علم ہوتا‬ ‫ذريعے سے ہللا ٰ‬
‫کہ ان کی درخواست قبول نہيں ہوگی تو يقينا وہ اس سے پرہيز فرماتے۔‬
‫تعالی کی طرف سے حضرت نوح عليہ السالم کو نصيحت ہے‪ ،‬جس کا مقصد ان کو‬ ‫‪٤٦‬۔‪ ٤‬يہ ہللا ٰ‬
‫اس مقام بلند پر فائز کرنا ہے جو علمائے عالمين کے لئے ہللا کی بارگاہ ميں ہے۔‬

‫ْس ِل ْي بِ ٖه ِع ْل ٌم ۭ َوا َِّْل ت َ ْغ ِف ْر ِل ْي َوت َْر َح ْمنِ ْْٓي ا َ ُك ْن ِمنَ ْال ٰخ ِس ِريْنَ‬
‫ع ْوذُ بِكَ ا َ ْن اَسْـــَٔـلَكَ َما لَي َ‬
‫ب اِنِ ْْٓى ا َ ُ‬
‫قَا َل َر ِ‬
‫؀‪47‬‬
‫نوح نے کہا ميرے پالنہار ميں تيری ہی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجه سے وہ مانگوں جس کا‬
‫مجهے علم ہی نہ ہو اگر تو مجهے نہ بخشے گا اور تو مجه پر رحم نہ فرمائے گا‪ ،‬تو ميں خسارہ‬
‫پانے والوں ميں ہو جاؤنگا (‪)١‬۔‬
‫‪٤٧‬۔‪ ١‬جب حضرت نوح عليہ السالم يہ بات جان گئے کہ ان کا سوال واقعہ کے مطابق نہيں تها‪ ،‬تو‬
‫تعالی سے اس کی رحمت و مغفرت کے طالب ہوئے۔‬ ‫فورا اس سے رجوع فرما ليا اور ہللا ٰ‬

‫ت علَيْكَ و ْٓ‬
‫ع َذابٌ ا َ ِل ْي ٌم‬
‫س ُه ْم ِمنَّا َ‬ ‫ع ٰلي ا ُ َم ٍم ِم َّم ْن َّم َعكَ ۭ َوا ُ َم ٌم َ‬
‫سنُ َمتِعُ ُه ْم ث ُ َّم َي َم ُّ‬ ‫َ َ‬ ‫س ٰل ٍم ِمنَّا َو َب َر ٰك ٍ َ‬ ‫قِ ْي َل ٰينُ ْو ُح ا ْه ِب ْ‬
‫ط ِب َ‬
‫؀‪48‬‬
‫فر ما ديا گيا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سالمتی اور ان برکتوں کے ساته اتر‪ )١( ،‬جو تجه پر‬
‫ہيں اور تيرے ساته کی بہت سی جماعتوں پر (‪ )٢‬اور بہت سی وہ امتيں ہونگی جنہيں ہم فائدہ تو‬
‫ضرور پہنچائيں گے ليکن پهر انہيں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا (‪)۳‬۔‬
‫‪٤٨‬۔‪ ١‬يہ اترنا کشتی سے يا اس پہاڑ سے ہے جس پر کشتی جا کر ٹهہر گئی تهی۔‬
‫‪٤٨‬۔‪ ٢‬اس سے مراد يا تو وہ گروہ ہيں جو حضرت نوح عليہ السالم کے ساته کشتی ميں سوار‬
‫تهے‪ ،‬يا آئندہ ہونے والے وہ گروہ ہيں جو ان کی نسل سے ہونے والے تهے‪ ،‬اگلے فقرے کے پيش‬
‫نظر يہی دوسرا مفہوم زيادہ صحيح ہے۔‬
‫‪٤٨‬۔‪ ۳‬يہ وہ گروہ ہيں جو کشتی ميں بچ جانے والوں کی نسل سے قيامت تک ہوں گے۔ مطلب يہ‬
‫ہے کہ ان کافروں کو دنيا کی چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے ہم دنيا کا سازو سامان ضرور ديں‬
‫گے ليکن باآلخر عذاب اليم سے دو چار ہوں گے۔‬

‫صبِ ْر ړا َِّن ْال َعاقِبَةَ‬ ‫تِ ْلكَ ِم ْن ا َ ْۢ ْنبَ ۗا ِء ْالغَ ْي ِ‬


‫ب نُ ْو ِح ْي َها ْٓ اِلَيْكَ ۚ َما ُك ْنتَ ت َ ْعلَ ُم َها ْٓ ا َ ْنتَ َو َْل قَ ْو ُمكَ ِم ْن قَ ْب ِل ٰه َذا ړ فَا ْ‬
‫ۧ؀‪49‬‬ ‫ِل ْل ُمت َّ ِقيْنَ‬
‫يہ خبريں غيب کی خبروں ميں سے ہيں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہيں انہيں اس سے‬
‫پہلے آپ جانتے تهے اور نہ آپ کی قوم (‪ )١‬اس لئے کہ آپ صبر کرتے رہيئے (يقين مانيئے) کہ‬
‫انجام کار پرہيزگاروں کے لئے ہے (‪)٢‬۔‬
‫‪٤٩‬۔‪ ١‬يہ نبی سے خطاب ہے اور آپ سے علم غيب کی نفی کی جا رہی ہے کہ يہ غيب کی خبريں‬
‫ہيں‬
‫جن سے ہم آپ کو خبردار کر رہے ہيں ورنہ آپ اور آپ کی قوم ان سے ْل علم تهی۔‬
‫‪٤٩‬۔‪ ٢‬يعنی آپکی قوم آپ کی جو تکذيب کر رہی ہے اور آپ کو ايذائيں پہنچا رہی ہے‪ ،‬اس پر صبر‬
‫سے کام ليجئے اس لئے کہ آپ کے مددگار ہيں اور حسن انجام آپ کے اور آپ کے پيرو کاروں‬
‫تقوی کی صفت سے متصف ہيں۔ عاقبت‪ ،‬دنيا و آخرت کے اچهے انجام کو‬ ‫ٰ‬ ‫کے لئے ہی ہے‪ ،‬جو‬
‫کہتے ہيں۔ اس ميں متقين کی بڑی بشارت ہے کہ ابتدا ميں چاہے انہيں کتنا بهی مشکالت سے‬
‫دوچار ہونا پڑے‪ ،‬تاہم باآلخر ہللا کی مدد و نصرت اور حسن انجام کے وہی مستحق ہيں جس طرح‬
‫سلَنَا َوالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا فِي ْال َح ٰيوةِ ال ُّد ْنيَا َويَ ْو َم يَقُ ْو ُم ْاْلَ ْش َهادُ) ‪40‬۔ المو‬ ‫دوسرے مقام پر فرمايا ( اِنَّا لَنَ ْن ُ‬
‫ص ُر ُر ُ‬
‫من۔‪ ' ) 51‬ہم اپنے رسولوں کی اور ايمان والو کی مدد‪ ،‬دنيا ميں بهی کريں گے اور اس دن بهی جب‬
‫س ِليْنَ ؀‪١٧١‬ښ اِنَّ ُه ْم لَ ُه ُم‬ ‫ت َك ِل َمتُنَا ِل ِع َبا ِدنَا ْال ُم ْر َ‬ ‫(ولَقَ ْد َ‬
‫سبَقَ ْ‬ ‫گواہی دينے والے کهڑے ہوں گے۔ َ‬
‫ص ْو ُر ْونَ ۭ؀‪َ ١٧٢‬وا َِّن ُج ْن َدنَا لَ ُه ُم ْال ٰغ ِلب ُْونَ ؁‪37 ) ١٧۳‬۔ الصافات‪ 171:‬تا ‪ )172‬اور البتہ‬ ‫ْال َم ْن ُ‬
‫وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے ليے صدر ہو چکا ہے کہ وہ مظفر منصور ہوں گے اور ہمارا ہی‬
‫لشکر غالب اور برتر رہے گا۔‬

‫؀‪50‬‬ ‫ّٰللا َما لَ ُك ْم ِم ْن ا ِٰل ٍه َ‬


‫غي ُْر ٗہ ۭ ا ِْن ا َ ْنت ُ ْم ا َِّْل ُم ْفت َُر ْونَ‬ ‫َوا ِٰلي َ‬
‫عا ٍد اَخَا ُه ْم ُه ْوداا ۭ قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا ْعبُدُوا ه َ‬
‫اور قوم عاد کی طرف سے ان کے بهائی ہود کو ہم (‪ )١‬نے بهيجا‪ ،‬اس نے کہا ميری قوم والو! ہللا‬
‫ہی کی عبادت کرو‪ ،‬اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہيں‪ ،‬تم صرف بہتان بانده رہے ہو (‪)٢‬۔‬
‫‪٥٠‬۔‪ ١‬بهائی سے مراد انہی کی قوم کا ايک فرد۔‬
‫‪٥٠‬۔‪ ٢‬يعنی ہللا کے ساته دوسروں کو شريک ٹهہرا کر تم ہللا پر جهوٹ بانده رہے ہو۔‬

‫‪ 51‬؀‬ ‫ط َرنِ ْي ۭ اَفَ َال ت َ ْع ِقلُ ْونَ‬ ‫علَي الَّذ ْ‬


‫ِي فَ َ‬ ‫ي ا َِّْل َ‬ ‫ْل اَسْـــَٔـلُ ُك ْم َ‬
‫علَ ْي ِه اَجْ ارا ۭ ا ِْن اَجْ ِر َ‬ ‫ٰيقَ ْو ِم َ ْٓ‬
‫اے ميری قوم! ميں تم سے اس کی کوئی اجرت نہيں مانگتا‪ ،‬ميرا اجر اس کے ذمے ہے جس نے‬
‫مجهے پيدا کيا تو کيا پهر بهی تم عقل سے کام نہيں ليتے (‪)١‬۔‬
‫‪٥١‬۔‪ ١‬اور يہ نہيں سمجهتے کہ جو بغير اجرت کے اور ْللچ کے تمہيں ہللا کی طرف بال رہا ہے وہ‬
‫تمہارا خير خواہ ہے‪ ،‬آيت ميں يَا قَ ْو ِم! سے دعوت ايک طريقہ کار معلوم ہوتا ہے يعنی بجائے يہ‬
‫کہنے کے‬
‫' اے کافرو ' اے مشرکو ' اے ميری قوم سے مخاطب کيا گيا ہے۔'‬

‫ارا َّو َي ِز ْد ُك ْم قُ َّوة ا ا ِٰلي قُ َّوتِ ُك ْم َو َْل تَت ََولَّ ْوا‬ ‫س َم ۗا َء َ‬


‫علَ ْي ُك ْم ِمد َْر ا‬ ‫َو ٰيقَ ْو ِم ا ْست َ ْغ ِف ُر ْوا َربَّ ُك ْم ث ُ َّم ت ُ ْوب ُْْٓوا اِلَ ْي ِه ي ُْر ِس ِل ال َّ‬
‫؀‪52‬‬ ‫ُمجْ ِر ِميْنَ‬
‫اے ميری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو اور اس کی‬
‫جناب ميں توبہ کرو‪ ،‬تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بهيج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت‬
‫قوت بڑها دے (‪ )١‬تم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو (‪)٢‬۔‬
‫‪٥٢‬۔‪ ١‬حضرت ہود عليہ السالم نے توبہ و استغفار کی تلقين اپنی امت يعنی اپنی قوم کو کی اور اس‬
‫کے دو فوائد بيان فرمائے جو توبہ اور استغفار کرنے والی قوم کو حاصل ہوتے ہيں۔ جس طرح‬
‫قرآن کريم اور بهی بعض مقامات پر يہ فوائد بيان کئے گئے ہيں (مالحظہ سورت نوح ا۔‪ )١١‬اور‬
‫نبی کا بهی فرمان ہے من لزم اْلستغفار جعل ہللا لہ من کل هم فرجا‪ ،‬ومن کل ضيق مخرجا ورزقہ‬
‫تعالی اس کے لئے ہر فکر سے‬‫من حيث ْل يحتسب (ابوداود)' جو پابندی سے استغفار کرتا ہے‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫کشادگی‪ ،‬اور ہر تنگی سے راستہ بنا ديتا ہے اور اس کو ايسی جگہ سے روزی ديتا ہے جو اس‬
‫کے وہم و گمان ميں بهی نہيں ہوتی۔‬
‫‪٥٢‬۔‪ ٢‬يعنی ميں تمہيں جو دعوت دے رہا ہوں‪ ،‬اس سے اعراض اور اپنے کفر پر اصرار مت کرو۔‬
‫ايسا کرو گے تو ہللا کی بارگاہ ميں مجرم اور گناہ گار بن کر پيش ہو گے۔‬

‫؀‪53‬‬ ‫َحْن بِت َِار ِك ْْٓي ٰا ِل َهتِنَا َ‬


‫ع ْن قَ ْولِكَ َو َما نَحْ ُن لَكَ بِ ُمؤْ ِم ِنيْنَ‬ ‫قَالُ ْوا ٰي ُه ْو ُد َما ِجئْتَنَا بِبَيِنَ ٍة َّو َما ن ُ‬
‫انہوں نے کہا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی دليل تو ْليا نہيں اور ہم صرف تيرے کہنے سے اپنے‬
‫معبودوں کو چهوڑنے والے نہيں اور نہ ہم تجه پر ايمان ْلنے والے ہيں (‪)١‬‬
‫‪٥۳‬۔‪ ١‬ايک نبی دْلئل و براہين کی پوری قوت اپنے ساته رکهتا ہے ليکن شپرہ چشموں کو وہ نظر‬
‫نہيں آتے قوم ہود عليہ السالم نے بهی اسی ڈهٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بغير دليل کے‬
‫محض تيرے کہنے سے اپنے معبودوں کو کس طرح چهوڑيں؟‬

‫ّٰللا َوا ْش َهد ُْْٓوا اَنِ ْى بَ ِر ۗ ْ‬


‫ي ٌء ِم َّما ت ُ ْش ِر ُك ْونَ‬ ‫ض ٰا ِل َهتِنَا بِ ُ‬
‫س ۗ ْوءٍ ۭ قَا َل اِنِ ْْٓى ا ُ ْش ِه ُد ه َ‬ ‫ا ِْن نَّقُ ْو ُل ا َِّْل ا ْعت َٰرىكَ بَ ْع ُ‬
‫؀‪54‬‬
‫بلکہ ہم تو يہی کہتے ہيں کہ ہمارے کسی معبود کے بڑے جهپٹے ميں آگيا ہے (‪ )١‬اس نے جواب‬
‫ديا کہ ميں ہللا کو گواہ کرتا ہوں اور تم بهی گواہ رہو کہ ميں ہللا کے سوا ان سب سے بيزار ہوں‪،‬‬
‫جنہيں تم شريک بنا رہے ہو (‪)٢‬۔‬
‫‪٥٤‬۔‪ ١‬يعنی تو جو ہمارے معبودوں کی توہين اور گستاخی کرتا ہے کہ يہ کچه نہيں کر سکتے‪،‬‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معبودوں نے تيری اس گستاخی پر تجهے کچه کہہ ديا ہے اور تيرا دماغ‬
‫ماؤف ہو گيا ہے۔ جيسے آج کل کے نام نہاد مسلمان بهی اس قسم کے توہمات کا شکار ہيں جب‬
‫انہيں کہا جاتا ہے کہ يہ فوت شدہ اشخاص اور بزرگ کچه نہيں کر سکتے‪ ،‬تو کہتے ہيں کہ ان کی‬
‫شان ميں گستاخی ہے اور خطرہ ہے کہ اس طرح کی گستاخی کرنے والوں کا وہ بيڑا غرق کر‬
‫ديں۔ نعوذ باہلل من الخرافات واْلکاذيب۔‬
‫‪٤٥‬۔‪ ٢‬يعنی ان تمام بتوں اور معبودوں سے بيزار ہوں اور تمہارا يہ عقيدہ کہ انہوں نے مجهے کچه‬
‫کر ديا ہے‪ ،‬بالکل غلط ہے‪ ،‬ان کے اندر يہ قدرت ہی نہيں کہ کسی کا مافوق اْل سباب طريقے سے‬
‫نفع يا نقصان پہنچا سکيں۔‬

‫؀‪55‬‬ ‫ِم ْن د ُْونِ ٖه فَ ِك ْيد ُْونِ ْي َج ِم ْيعاا ث ُ َّم َْل ت ُ ْن ِظ ُر ْو ِن‬


‫اچها تم سب ملکر ميرے خالف چاليں چل لو مجهے بالکل مہلت بهی نہ دو (‪)١‬۔‬
‫‪٥٥‬۔‪ ١‬اور اگر تمہيں ميری بات پر يقين نہيں ہے بلکہ تم اپنے اس دعوے ميں سچے ہو کہ يہ بت‬
‫کچه کر سکتے ہيں تو لو ميں حاضر ہوں‪ ،‬تم اور تمہارے معبود سب ملکر ميرے خالف کچه کر‬
‫کے دکهاؤ۔ مزيد اس سے نبی کے انداز کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس قدر بصير پر ہوتا ہے کہ اسے‬
‫اپنے حق پر ہونے کا يقين ہوتا ہے۔‬

‫ْۢ‬
‫ع ٰلي ِ‬
‫ص َراطٍ ُّم ْست َ ِقي ٍْم‬ ‫ّٰللاِ َربِ ْي َو َربِ ُك ْم ۭ َما ِم ْن َد ۗابَّ ٍة ا َِّْل ُه َو ٰا ِخذٌ بِن ِ‬
‫َاصيَتِ َها ۭ ا َِّن َربِ ْي َ‬ ‫اِنِ ْى ت ََو َّك ْلتُ َ‬
‫علَي ه‬
‫؀‪56‬‬
‫تعالی پر ہے جو ميرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بهی پاؤں دهرنے‬‫ميرا بهروسہ صرف ہللا ٰ‬
‫والے ہيں سب کی پيشانی وہی تهامے ہوئے ہے (‪ )١‬يقينا ا ميرا رب بالکل صحيح راہ پر ہے (‪)٢‬۔‬
‫‪٥٦‬۔‪ ١‬يعنی جس ذات کے ہاته ميں ہرچيز کا قبضہ و تصرف ہے‪ ،‬وہی ذات ہے جو ميرا اور تمہارا‬
‫رب ہے ميرا توکل اسی پر ہے۔ مقصد ان الفاظ سے حضرت ہود عليہ السالم کا يہ ہے کہ جن کو تم‬
‫نے ہللا کا شريک ٹهہرا رکها ہے ان پر بهی ہللا ہی کا قبضہ و تصرف ہے‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫تعالی ان کے ساته‬
‫جو چاہے کر سکتا ہے‪ ،‬وہ کسی کا کچه نہيں کر سکتے۔‬
‫‪٥٦‬۔‪ ٢‬يعنی وہ جو توحيد کی دعوت دے رہا ہے يقينا ا يہ دعوت ہی صراط مستقيم ہے اس پر چل کر‬
‫نجات اور کاميابی سے ہمکنار ہو سکتے ہو اور اس صراط مستقيم سے اعراض انحراف تباہی و‬
‫بربادی کا باعث ہے۔‬

‫غي َْر ُك ْم ۚ َو َْل ت َ ُ‬


‫ض ُّر ْونَهٗ شَـيْـــًٔـا ۭ ا َِّن َربِ ْي‬ ‫فَا ِْن ت ََولَّ ْوا فَقَ ْد ا َ ْبلَ ْغت ُ ُك ْم َّما ْٓ ا ُ ْر ِس ْلتُ بِ ْٖٓه اِلَ ْي ُك ْم ۭ َويَ ْست َْخ ِل ُ‬
‫ف َربِ ْي قَ ْو اما َ‬
‫؀‪57‬‬ ‫َيءٍ َح ِف ْي ٌ‬
‫ظ‬ ‫ع ٰلي ُك ِل ش ْ‬ ‫َ‬
‫پس اگر تم روگردانی کرو تو کرو ميں تمہيں وہ پيغام پہنچا چکا جو دے کر مجهے تمہاری طرف‬
‫بهيجا گيا (‪ )١‬تها‪ ،‬ميرا رب تمہارے قائم مقام اور لوگوں کو کر دے گا اور تم اس کا کچه بهی بگاڑ‬
‫نہ سکو گے (‪ )٢‬يقينا ا ميرا پروردگار ہرچيز پر نگہبان ہے (‪)۳‬‬
‫‪٥٧‬۔‪ ١‬يعنی اس کے بعد ميری ذمہ داری ختم اور تم پر حجت تمام ہوگی۔‬
‫‪٥٧‬۔‪ ٢‬يعنی تمہيں تباہ کر کے تمہاری زمينوں اور امالک کا وہ دوسروں کو مالک بنا دے‪ ،‬تو وہ‬
‫ايسا کرنے پر قادر ہے اور تم اس کا کچه بهی نہيں بگاڑ سکتے بلکہ وہ اپنی مشيت و حکمت کے‬
‫مطابق ايسا کرتا رہتا ہے۔‬
‫‪٥٧‬۔‪ ۳‬يقينا ا وہ مجهے تمہارے مکرو فريب اور سازشوں سے بهی محفوظ رکهے گا اور شيطانی‬
‫چالوں سے بهی بچائے گا‪ ،‬عالوہ ازيں ہر نيک بد کو ان کے اعمال کے مطابق اچهی اور بری جزا‬
‫دے گا۔‬

‫؀‪58‬‬ ‫ب َ‬
‫غ ِليْظٍ‬ ‫َولَ َّما َج ۗا َء ا َ ْم ُرنَا نَ َّج ْينَا ُه ْوداا َّوالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َم َعهٗ ِب َرحْ َم ٍة ِمنَّا ۚ َونَ َّجي ْٰن ُه ْم ِم ْن َ‬
‫ع َذا ٍ‬
‫اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ہود کو اور اس کے مسلمان ساتهيوں کو اپنی خاص رحمت سے‬
‫نجات عطا فرمائی اور ہم نے ان سب کو سخت عذاب سے بچا ليا (‪)١‬‬
‫الر ْي َح ْالعَ ِقي َْم تيز آندهی کا عذاب ہے جس کے ذريعے سے‬
‫‪٥٨‬۔‪ ١‬سخت عذاب سے مراد وہی ِ‬
‫حضرت ہود عليہ السالم کی قوم عاد کو ہالک کيا گيا جس سے حضرت ہود عليہ السالم اور ان پر‬
‫ايمان ْلنے والوں کو بچا ليا گيا۔‬

‫؀‪59‬‬ ‫عنِ ْي ٍد‬ ‫سلَهٗ َواتَّبَعُ ْْٓوا ا َ ْم َر ُك ِل َجب ٍ‬


‫َّار َ‬ ‫ص ْوا ُر ُ‬
‫ع َ‬ ‫ڐ َج َحد ُْوا بِ ٰا ٰي ِ‬
‫ت َربِ ِه ْم َو َ‬ ‫َو ِت ْلكَ َ‬
‫عا ٌد‬
‫يہ تهی قوم عاد‪ ،‬جنہوں نے اپنے رب کی آيتوں کا انکار کيا اور اس کے رسولوں کی (‪ )١‬نافرمانی‬
‫کی اور ہر ايک سرکش نافرمان کے حکم کی تابعداری کی (‪)٢‬۔‬
‫‪٥٩‬۔‪ ١‬عاد کی طرف صرف ايک نبی حضرت ہود عليہ السالم ہی بهيجے گئے تهے‪ ،‬يہاں ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫نے فرمايا کہ انہوں نے ہللا کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ اس سے يا تو يہ واضح کرنا مقصود ہے‬
‫کہ ايک رسول کی تکذيب‪ ،‬يہ گويا تمام رسولوں کی تکذيب ہے۔ کيونکہ تمام رسولوں پر ايمان‬
‫رکهنا ضروری ہے۔ يا مطلب يہ ہے کہ يہ قوم اپنے کفر اور انکار ميں اتنی آگے بڑه چکی تهی کہ‬
‫حضرت ہود عليہ السالم کے بعد اگر ہم اس قوم ميں متعدد رسول بهی بهيجتے‪ ،‬تو يہ قوم ان سب‬
‫کی تکذيب ہی کرتی۔ اور اس سے قطعا ا يہ اميد نہ تهی کہ وہ کسی بهی رسول پر ايمان لے آتی۔ يا‬
‫ہو سکتا ہے کہ اور بهی انبياء بهيجے گئے ہوں اور اس قوم نے ہر ايک کی تکذيب کی۔‬
‫‪٥٩‬۔‪ ٢‬يعنی ہللا کے پيغمبروں کی تکذيب کی ليکن جو لوگ ہللا کے حکموں سے سرکشی کرنے‬
‫والے اور نافرمان تهے‪ ،‬ان کی اس قوم نے پيروی کی۔‬

‫‪ۧ 60‬؀‬ ‫عاداا َكفَ ُر ْوا َربَّ ُه ْم ۭ ا َ َْل بُ ْع ادا ِل َعا ٍد قَ ْو ِم ُه ْو ٍد‬ ‫َواُتْ ِبعُ ْوا فِ ْي ٰه ِذ ِہ ال ُّد ْنيَا لَ ْعنَةا َّو َي ْو َم ْال ِق ٰي َم ِة ۭ ا َ َ ْٓ‬
‫ْل ا َِّن َ‬
‫دنيا ميں بهی ان کے پيچهے لعنت لگا دی گئی اور قيامت کے دن بهی (‪ )١‬ديکه لو قوم عاد نے‬
‫اپنے رب سے کفر کيا‪ ،‬ہود کی قوم عاد پر دوری ہو (‪)٢‬۔‬
‫‪٦٠‬۔‪ ١‬لَ ْعنَہ کا مطلب ہللا کی رحمت سے دوری‪ ،‬امور خير سے محرومی اور لوگوں کی طرف سے‬
‫مالمت و بيزاری۔ دنيا ميں يہ لعنت اس طرح کہ اہل ايمان ميں ان کا ذکر ہميشہ مالمت اور بيزاری‬
‫کے انداز ميں ہوگا اور قيامت ميں اس طرح کہ وہاں ٰ‬
‫علی رؤوس الشہاد ذلت اور رسوائی سے دو‬
‫چار اور عذاب ٰالہی ميں مبتال ہوں گے۔‬
‫‪٦٠‬۔‪ ٢‬بُ ْعد کا يہ لفظ رحمت سے دوری اور لعنت اور ہالکت کے معنی کے لئے ہے‪ ،‬جيسا کہ اس‬
‫سے قبل بهی وضاحت کی جا چکی ہے۔‬

‫شا َ ُك ْم ِمنَ ْاْلَ ْر ِ‬


‫ض‬ ‫ّٰللا َما لَ ُك ْم ِم ْن ا ِٰل ٍه َ‬
‫غي ُْر ٗہ ۭ ُه َو ا َ ْن َ‬ ‫] َوا ِٰلي ث َ ُم ْو َد اَخَا ُه ْم صٰ ِل احا ۘ قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا ْعبُدُوا ه َ‬
‫‪ 61‬؀‬ ‫َوا ْست َ ْع َم َر ُك ْم فِ ْي َها فَا ْست َ ْغ ِف ُر ْوہُ ث ُ َّم ت ُ ْوب ُْْٓوا اِلَ ْي ِه ۭ ا َِّن َربِ ْي قَ ِريْبٌ ُّم ِجيْبٌ‬
‫اور قوم ثمود کی طرف ان کے بهائی صالح کو بهيجا (‪ )١‬اس نے کہا کہ اے ميری قوم تم ہللا کی‬
‫عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہيں (‪ )٢‬اس نے تمہيں زمين سے پيدا کيا (‪ )۳‬اور‬
‫اسی نے اس زمين ميں تمہيں بسايا ہے (‪ )٤‬پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف‬
‫رجوع کرو۔ بيشک ميرا رب قريب اور دعاؤں کا قبول کرنے واْل ہے۔‬
‫سلنَا اِلَ ٰی ث ُ ُم ْو َد ہم نے ثمود کی طرف بهيجا۔ يہ قوم‬
‫‪٦١‬۔‪َ ١‬و اِلَ ٰی ث َ ُم ْو َد عطف ہے ما قبل پر۔ يعنی َو ا َ ْر َ‬
‫تبوک اور مدينہ کے درميان مدائن (حجر) ميں رہائش پذير تهی اور يہ قوم عاد کے بعد ہوئی۔‬
‫حضرت صالح عليہ السالم کو يہاں بهی ثمود کا بهائی کہا۔ جس سے مراد انہی کے خاندان اور‬
‫قبيلے کا ايک فرد ہے۔‬
‫‪٦١‬۔‪ ٢‬حضرت صالح عليہ السالم نے بهی سب سے پہلے اپنی قوم کو توحيد کی دعوت دی‪ ،‬جس‬
‫طرح کہ انبياء کا طريق رہا ہے۔‬
‫‪٦١‬۔‪ ۳‬يعنی ابتدا ميں تمہيں زمين سے پيدا کيا اس طرح کہ تمہارے باپ آدم عليہ السالم کی تخليق‬
‫مٹی سے ہوئی اور تمام انسان صلب آدم عليہ السالم سے پيدا ہوئے يوں گويا تمام انسانوں کی‬
‫پيدائش زمين سے ہوئی۔ يا يہ مطلب ہے کہ تم جو کچه کهاتے ہو‪ ،‬سب زمين ہی سے پيدا ہوتا ہے‬
‫اور اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے۔ جو رحم مادر ميں جا کر وجود انسانی کا باعث ہوتا ہے۔‬
‫‪٦١‬۔‪ ٤‬يعنی تمہارے اندر زمين کو بسانے اور آباد کرنے کی استعداد اور صالحيت پيدا کی‪ ،‬جس‬
‫سے تم رہائش کے لئے مکان تعمير کرتے‪ ،‬خوراک کے لئے کاشت کاری کرتے اور ديگر‬
‫ضروريات زندگی مہيا کرنے کے لئے صنعت و حرفت سے کام ليتے ہو۔‬

‫قَالُ ْوا ٰيصٰ ِل ُح قَ ْد ُك ْنتَ فِ ْينَا َم ْر ُج اوا قَ ْب َل ٰه َذآْ اَت َ ْنهٰ ىنَا ْٓ ا َ ْن نَّ ْعبُ َد َما َي ْعبُ ُد ٰابَ ۗا ُؤنَا َواِنَّنَا لَ ِف ْي ش ٍَك ِم َّما ت َ ْد ُ‬
‫ع ْونَا ْٓ اِلَ ْي ِه‬
‫؀‪62‬‬ ‫ب‬‫ُم ِر ْي ٍ‬
‫انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو ہم تجه سے بہت کچه اميديں لگائے ہوئے تهے‪ ،‬کيا تو‬
‫ہميں ان کی عبادت سے روک رہا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے‪ ،‬ہميں تو‬
‫اس دين ميں حيران کن شک ہے جس کی طرف تو ہميں بال رہا ہے (‪)١‬۔‬
‫‪٦٢‬۔‪ ١‬يعنی پيغمبر اپنی قوم ميں چونکہ اخالق و کردار اور امانت و ديانت ميں ممتاز ہوتا ہے اس‬
‫لئے قوم کی اس سے اچهی اميديں وابستہ ہوتی ہيں۔ اسی اعتبار سے حضرت صالح عليہ السالم کی‬
‫قوم نے بهی ان سے يہ کہا۔ ليکن دعوت توحيد ديتے ہی ان کی اميدوں کا يہ مرکز‪ ،‬ان کی آنکهوں‬
‫کا کانٹا بن گيا اور اس دين ميں شک کا اظہار کيا جس طرف حضرت صالح عليہ السالم انہيں بال‬
‫رہے تهے يعنی دين توحيد‬

‫ۣ فَ َما‬ ‫ص ْيتُهٗ‬ ‫ّٰللاِ ا ِْن َ‬


‫ع َ‬ ‫ع ٰلي بَيِنَ ٍة ِم ْن َّربِ ْي َو ٰا ٰتىنِ ْي ِم ْنهُ َرحْ َمةا فَ َم ْن يَّ ْن ُ‬
‫ص ُرنِ ْي ِمنَ ه‬ ‫قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا َ َر َء ْيت ُ ْم ا ِْن ُك ْنتُ َ‬
‫؀‪63‬‬ ‫غي َْر ت َْخ ِسي ٍْر‬ ‫ت َِز ْيد ُْونَنِ ْي َ‬
‫اس نے جواب ديا کہ اے ميری قوم کے لوگو! ذرا بتاؤ تو اگر ميں اپنے رب کی طرف سے کسی‬
‫مضبوط (‪ )١‬دليل پر ہوا اور اس نے مجهے اپنے پاس کی رحمت عطا کی ہو پهر اگر ميں نے اس‬
‫کی نافرمانی کر دی (‪ )٢‬تو کون ہے جو اس کے مقابلے ميں ميری مدد کرے؟ تم تو ميرا نقصان‬
‫ہی بڑها رہے ہو (‪)۳‬۔‬
‫‪٦۳‬۔‪ ١‬بِ ْينَ ٍۃ سے مراد وہ ايمان و يقين ہے‪ ،‬جو ہللا ٰ‬
‫تعالی پيغمبر کو عطا فرماتا ہے اور رحمت سے‬
‫نبوت‪ ،‬جيسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔‬
‫‪٦۳‬۔‪ ٢‬نافرمانی سے مراد يہ ہے کہ اگر ميں تمہيں حق کی طرف اور ہللا واحد کی عبادت کی طرف‬
‫بالنا چهوڑ دوں‪ ،‬جيسا کہ تم چاہتے ہو۔‬
‫‪٦۳‬۔‪ ۳‬يعنی اگر ميں ايسا کروں تو مجهے کوئی فائدہ تو نہيں پہنچا سکتے‪ ،‬البتہ اس طرح تم ميرے‬
‫نقصان و خسارے ميں ہی اضافہ کرو گے۔‬

‫س ْۗوءٍ فَ َيا ْ ُخ َذ ُك ْم َ‬
‫ع َذابٌ قَ ِريْبٌ‬ ‫ّٰللاِ َو َْل ت َ َم ُّ‬
‫س ْوهَا ِب ُ‬ ‫ض ه‬ ‫ّٰللاِ لَ ُك ْم ٰايَةا فَ َذ ُر ْوهَا تَا ْ ُك ْل فِ ْْٓي ا َ ْر ِ‬
‫َو ٰيقَ ْو ِم ٰهذ ِٖہ نَاقَــةُ ه‬
‫؀‪64‬‬
‫اور اے ميری قوم والو! ہللا کی بهيجی ہوئی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ايک معجزہ ہے اب تم‬
‫اسے ہللا کی زمين ميں کهاتی ہوئی چهوڑ دو اور اسے کسی طرح کی ايذا نہ پہنچاؤ ورنہ فوری‬
‫عذاب تمہيں پکڑ لے گا (‪)١‬‬
‫تعالی نے ان کے کہنے پر ان کی آنکهوں کے سامنے ايک پہاڑ يا ايک‬ ‫‪٦٤‬۔‪ ١‬يہ وہی اونٹنی جو ہللا ٰ‬
‫چٹان سے برآمد فرمائی اس لئے اسے (ہللا کی اونٹنی) کہا گيا ہے کيونکہ يہ خالص ہللا کے حکم‬
‫سے معجزانہ‬
‫طور پر مذکورہ خالف عادت طريقے سے ظاہر ہوئی تهی۔ اس کی بابت انہيں تاکيد کر دی گئی‬
‫تهی کہ اسے ايذا نہ پہنچانا ورنہ تم عذاب ٰالہی کی گرفت‬
‫ميں آ جاؤ گے۔‬

‫؀‪65‬‬ ‫ب‬ ‫فَ َعقَ ُر ْوهَا فَقَا َل ت َ َمتَّعُ ْوا فِ ْي َد ِار ُك ْم ث َ ٰلثَةَ اَي ٍَّام ۭ ٰذلِكَ َو ْع ٌد َ‬
‫غي ُْر َم ْكذُ ْو ٍ‬
‫پهر بهی لوگوں نے اس اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے‪ ،‬اس پر صالح نے کہا کہ اچها تم اپنے گهروں‬
‫ميں تين تين دن تو رہ لو‪ ،‬يہ وعدہ جهوٹا نہيں (‪)١‬‬
‫‪٦٥‬۔‪ ١‬ليکن ان ظالموں نے اس زبردست معجزے کے باوجود نہ صرف ايمان ْلنے سے گريز کيا‬
‫بلکہ حکم ٰالہی سے صريح سرتابی کرتے ہوئے اسے مار ڈاْل‪ ،‬جس کے بعد انہيں تين دن کی مہلت‬
‫دے دی گئی کہ تين دن کے بعد تمہيں عذاب کے ذريعے سے ہالک کر ديا جائے گا۔‬

‫فَلَ َّما َج ۗا َء ا َ ْم ُرنَا نَ َّج ْينَا صٰ ِل احا َّوالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َم َعهٗ بِ َرحْ َم ٍة ِمنَّا َو ِم ْن ِخ ْزي ِ يَ ْو ِمى ٍذ ۭ ا َِّن َربَّكَ ُه َو ْالقَ ِو ُّ‬
‫ي ْال َع ِزي ُْز‬
‫؀‪66‬‬
‫پهر جب ہمارا فرمان آپہنچا (‪ )١‬ہم نے صالح کو اور ان پر ايمان ْلنے والوں کو اپنی رحمت سے‬
‫اسے بهی بچا ليا اور اس دن کی رسوائی سے بهی‪ ،‬يقينا ا تيرا رب نہايت توانا اور غالب ہے۔‬
‫‪٦٦‬۔ ا ‪١‬س سے مراد وہی عذاب ہے جو وعدے کے مطابق چوتهے دن آيا اور حضرت صالح عليہ‬
‫السالم اور ان پر ايمان ْلنے والوں کے سوا‪ ،‬سب کو ہالک کر ديا گيا۔‬

‫؀‪67‬‬ ‫ار ِه ْم جٰ ثِ ِميْنَ‬ ‫ص ْي َحةُ فَا َ ْ‬


‫صبَ ُح ْوا فِ ْي ِديَ ِ‬ ‫َوا َ َخ َذ الَّ ِذيْنَ َ‬
‫ظلَ ُموا ال َّ‬
‫اور ظالموں کو بڑے زور کی چنگهاڑ نے آدبوچا (‪ )١‬پهر وہ اپنے گهروں ميں اوندهے پڑے ہوئے‬
‫رہ گئے (‪)٢‬‬
‫ص ْي َح اۃ (چيخ زور کی کڑک) کی صورت ميں آيا‪ ،‬بعض کے نزديک يہ حضرت‬ ‫‪٦٧‬۔‪ ١‬يہ عذاب َ‬
‫جبرائيل عليہ السالم کی چيخ تهی اور بعض کے نزديک آسمان سے آئی تهی۔ جس سے ان کے دل‬
‫پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقعہ ہو گئی‪ ،‬اس کے بعد يا اس کے ساته ہی بهونچال رجفہ بهی‬
‫الرجْ فَةُ فَا َ ْ‬
‫صبَ ُح ْوا فِ ْي َد ِار ِه ْم‬ ‫آيا‪ ،‬جس نے سب کچه تہ باْل کر ديا۔ جيسا کہ سورہ اعراف ‪( ٧٨‬فَا َ َخ َذتْ ُه ُم َّ‬
‫جٰ ثِ ِميْنَ ) ميں فاخذتهم الرجفہ کے الفاظ ہيں‬
‫‪٦٧‬۔‪ ٢‬جس طرح پرندہ مرنے کے بعد زمين پر مٹی کے ساته پڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح يہ موت سے‬
‫ہم‬
‫کنار ہو کر منہ کے بل زمين پر پڑے رہے۔‬

‫ۧ؀‪68‬‬ ‫ــو َد ۟ا َكفَ ُر ْوا َربَّ ُه ْم ۭ ا َ َْل بُ ْعداا ِلث َ ُم ْو َد‬ ‫َكا َ ْن لَّ ْم يَ ْغن َْوا فِ ْي َها ۭ ا َ َ ْٓ‬
‫ْل ا َِّن ث َ ُم ْ‬
‫ايسے کہ گويا وہ وہاں کبهی آباد ہی نہ تهے (‪ )١‬آگاہ رہو کہ قوم ثمود نے اپنے رب سے کفر کيا۔‬
‫سن لو ان ثموديوں پر پهٹکار ہے۔‬
‫‪٦٨‬۔‪ ١‬ان کی بستی يا خود يہ لوگ يا دونوں ہی‪ ،‬اس طرح حرف غلط کی طرح مٹا ديئے گئے‪ ،‬گويا‬
‫وہ کبهی وہاں آباد ہی نہ تهے۔‬

‫؀‪69‬‬ ‫س ٰل ٌم فَ َما لَبِ َ‬


‫ث ا َ ْن َج ۗا َء بِعِجْ ٍل َحنِ ْي ٍذ‬ ‫س ٰل اما ۭ قَا َل َ‬
‫سلُنَا ْٓ اِب ْٰر ِهي َْم بِ ْالبُ ْش ٰري قَالُ ْوا َ‬ ‫َولَقَ ْد َج ۗا َء ْ‬
‫ت ُر ُ‬
‫اور ہمارے بهيجے ہوئے پيغمبر ابراہيم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے (‪ )١‬اور سالم کہا (‪)٢‬‬
‫انہوں نے بهی جواب ميں سالم ديا (‪ )۳‬اور بغير کسی تاخير کے بچهڑے کا بهنا ہوا گوشت لے آئے‬
‫(‪)٤‬‬
‫‪٦٩‬۔‪ ١‬يہ دراصل حضرت لوط اور ان کی قوم کے قصے کا ايک حصہ ہے۔ حضرت لوط عليہ‬
‫السالم‪ ،‬حضرت ابراہيم عليہ السالم کے چچا زاد بهائی تهے۔ حضرت لوط عليہ السالم کی بستی‬
‫بحرہ‪ ،‬ميت کے جنوب مشرق ميں تهی‪ ،‬جبکہ حضرت ابراہيم عليہ السالم فلسطين ميں مقيم تهے۔‬
‫جب حضرت لوط عليہ السالم کی قوم کو ہالک کرنے کا فيصلہ کر ليا گيا۔ تو ان کی طرف سے‬
‫فرشتے بهيجے گئے۔ يہ فرشتے قوم لوط عليہ السالم کی طرف جاتے ہوئے راستے ميں حضرت‬
‫ابراہيم عليہ السالم کے پاس ٹهہرے اور انہيں بيٹے کی بشارت دی۔‬
‫‪٦٩‬۔‪ ٢‬يعنی سلمنا سالما عليک ہم آپ کو سالم عرض کرتے ہيں۔‬
‫‪٦٩‬۔‪ ۳‬جس طرح پہال سالم ايک فعل مقدر کے ساته منصوب تها۔ اس طرح يہ سالم مبتدا يا خبر‬
‫ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبادت ہوگی‪:‬‬
‫علَ ْي ُک ْم َ‬
‫س َالم‪ُ،‬۔‬ ‫ا َ ْم ُر ُک ْم َ‬
‫س َال م‪ ُ،‬يا َ‬
‫‪٦٩‬۔‪ ٤‬حضرت ابرا ہيم عليہ السالم بڑے مہمان نواز تهے وہ يہ نہيں سمجه پائے کہ يہ فرشتے ہيں‬
‫جو انسانی صورت ميں آئے ہيں اور کهانے پينے سے معزور ہيں‪ ،‬بلکہ انہوں نے انہيں مہمان‬
‫سمجها اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بهنا ہوا بچهڑا ْل کر ان کی خدمت ميں پيش کر‬
‫ديا۔ نيز اس سے يہ بهی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچهنے کی ضرورت نہيں بلکہ جو موجود ہو‬
‫حاضر خدمت کر ديا جائے۔‬

‫َف اِنَّا ْٓ ا ُ ْر ِس ْلنَا ْٓ ا ِٰلي قَ ْو ِم لُ ْوطٍ‬


‫س ِم ْن ُه ْم ِخ ْيفَةا ۭ قَالُ ْوا َْل تَخ ْ‬ ‫فَلَ َّما َر ٰا ْٓ ا َ ْي ِد َي ُه ْم َْل ت ِ‬
‫َص ُل اِلَ ْي ِه نَ ِك َر ُه ْم َوا َ ْو َج َ‬
‫ۭ؀‪70‬‬
‫اب جو ديکها کہ ان کے تو ہاته بهی اس کی طرف نہيں پہنچ رہے تو ان سے اجنبيت محسوس کر‬
‫کے دل ہی دل ميں ان سے خوف کرنے لگے (‪ )١‬انہوں نے کہا ڈرو نہيں ہم تو قوم لوط کی طرف‬
‫بهيجے ہوئے آئے ہيں (‪)٢‬۔‬
‫‪٧٠‬۔‪ ١‬حضرت ابرا ہيم عليہ السالم نے جب ديکها کہ ان کے ہاته کهانے کی طرف نہيں بڑه رہے‬
‫تو انہوں کو خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہيں کہ ان کے ہاں يہ چيز معروف تهی کہ آئے ہوئے مہمان‬
‫اگر‬
‫ضيافت سے فائدہ نہ اٹهاتے تو سمجها جاتا تها کی آنے والے مہمان کسی اچهی نيت سے نہيں آئے۔‬
‫اس سے يہ بهی معلوم ہوا کہ ہللا کے پيغمبروں کو غيب کا علم نہيں ہوتا۔ اگر ابراہيم عليہ السالم‬
‫غيب دان ہوتے تو بهنا ہوا بچهڑا بهی نہ ْلتے اور ان سے خوف بهی محسوس نہ کرتے۔‬
‫‪٧٠‬۔‪ ٢‬اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کيا‪ ،‬يا ان کے آثار سے جو ايسے موقع پر انسان کے‬
‫چہرے پر ظاہر ہوتے ہيں يا اپنی گفتگو ميں حضرت ابراہيم عليہ السالم نے اظہار فرمايا‪ ،‬جيسا کہ‬
‫دوسرے مقام پر وضاحت ہے ' ہميں تو تم سے ڈر لگتا ہے ' چنانچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہيں‪ ،‬آپ‬
‫جو سمجه رہے ہيں‪ ،‬ہم وہ نہيں ہيں بلکہ ہللا کی طرف سے بهيجے گئے ہيں اور ہم قوم لوط عليہ‬
‫السالم کی طرف جا رہے ہيں۔‬
‫؀‪71‬‬ ‫ش ْر ٰن َها بِ ِا ْسحٰ قَ َو ِم ْن َّو َر ۗا ِء اِ ْسحٰ قَ يَ ْعقُ ْو َ‬
‫ب‬ ‫ت فَبَ َّ‬ ‫َو ْام َراَتُهٗ قَ ۗاى َمةٌ فَ َ‬
‫ض ِح َك ْ‬
‫اس کی بيوی کهڑی ہوئی تهی وہ ہنس پڑی (‪ )١‬تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پيچهے‬
‫يعقوب کی خوشخبری دی۔‬
‫‪٧١‬۔‪ ١‬حضرت ابراہيم کی اہليہ کيوں ہنسيں؟ بعض کہتے ہيں کہ قوم لوط عليہ السالم کی فساد‬
‫انگيزيوں سے وہ بهی آگاہ تهيں‪ ،‬ان کی ہالکت کی خبر سے انہوں نے مسرت کی۔ بعض کہتے ہيں‬
‫اس لئے ہنسی آئی کہ ديکهو آسمانوں سے ان کی ہالکت کا فيصلہ ہو چکا ہے اور يہ قوم غفلت کا‬
‫شکار ہے۔ اور بعض کہتے ہيں کہ تقديم و تاخير ہے۔ اور اس ہنسنے کا تعلق اس بشارت سے ہے‬
‫جو فرشتوں نے بوڑهے جوڑے کو دی۔ وہللا اعلم۔‬

‫؀‪72‬‬ ‫ع ِجيْبٌ‬ ‫ش ْي اخا ۭ ا َِّن ٰه َذا لَش ْ‬


‫َي ٌء َ‬ ‫ت ٰي َو ْيلَ ٰتْٓى َءا َ ِل ُد َوا َنَا َ‬
‫ع ُج ْو ٌز َّو ٰه َذا بَ ْع ِل ْي َ‬ ‫قَالَ ْ‬
‫وہ کہنے لگی ہائے ميری کم بختی! ميرے ہاں اوْلد کيسے ہوسکتی ہے ميں خود بڑهيا اور يہ‬
‫ميرے خاوند بهی بہت بڑی عمر کے ہيں يہ يقينا ا بڑی عجيب بات ہے (‪)١‬۔‬
‫‪٧٢‬۔‪ ١‬يہ اہليہ حضرت سارہ تهيں‪ ،‬جو خود بهی بوڑهی تهيں اور ان کا شوہر حضرت ابراہيم عليہ‬
‫السالم بهی بوڑهے تهے۔ اس لئے تعجب ايک فطری امر تها‪ ،‬جس کا اظہار ان سے ہوا۔‬

‫؀‪73‬‬ ‫علَ ْي ُك ْم ا َ ْه َل ْال َب ْي ِ‬


‫ت ۭ اِنَّهٗ َح ِم ْي ٌد َّم ِج ْي ٌد‬ ‫ّٰللاِ َو َب َر ٰكتُهٗ َ‬ ‫قَالُ ْْٓوا اَت َ ْع َج ِبيْنَ ِم ْن ا َ ْم ِر ه ِ‬
‫ّٰللا َرحْ َمتُ ه‬
‫فرشتوں نے کہا کيا تو ہللا کی قدرت سے تعجب کر رہی (‪ )١‬ہے؟ تم پر اے اس گهر کے لوگوں ہللا‬
‫کی رحمت اور اس کی برکتيں نازل ہوں (‪ )٢‬بيشک ہللا حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان واْل ہے۔‬
‫تعالی کے قضا و قدر پر کس طرح تعجب کا اظہار‬ ‫‪٧۳‬۔‪ ١‬يہ استفہام انکار کے لئے ہے۔ يعنی تو ہللا ٰ‬
‫کرتی ہے جبکہ اس کے لئے کوئی چيز مشکل نہيں۔ اور نہ وہ اسباب عاديہ ہی کا محتاج ہے‪ ،‬وہ تو‬
‫جو چاہے‪ ،‬اس کے لفظ ُک ْن (ہو جا) سے معرض وجود ميں آ جاتا ہے۔‬
‫‪٧۳‬۔‪ ٢‬حضرت ابراہيم عليہ السالم کی اہليہ محترمہ کو يہاں فرشتوں نے ' اہل بيت ' سے ياد کيا اور‬
‫علَ ْي ُ‬
‫ک ْم) کا صيغہ استعمال کيا۔ جس سے يہ بات ثابت‬ ‫دوسرے ان کے لئے جمع مذکر مخاطب ( َ‬
‫ہوگئی کہ' اہل بيت ' کے لئے جمع مذکر کے صيغے کا استعمال بهی جائز ہے۔ جيسا کہ سورہ‬
‫تعالی نے رسول ہللا کی ازواج مطہرات کو بهی اہل بيت کہا ہے اور انہيں جمع‬ ‫احزاب‪ ۳۳،‬ميں ہللا ٰ‬
‫مذکر کے صيغے سے مخاطب بهی کيا ہے۔‬

‫ۭ؀‪74‬‬ ‫الر ْوعُ َو َج ۗا َءتْهُ ْالبُ ْش ٰري يُ َجا ِدلُنَا فِ ْي قَ ْو ِم لُ ْوطٍ‬


‫ع ْن اِب ْٰر ِهي َْم َّ‬ ‫فَلَ َّما َذه َ‬
‫َب َ‬
‫جب ابراہيم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بهی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے‬
‫ميں کہنے سننے لگے (‪)١‬‬
‫‪٧٤‬۔‪ ١‬اس مجادلہ سے مراد يہ ہے کہ حضرت ابراہيم عليہ السالم نے فرشتوں سے کہا کہ جس‬
‫بستی کو تم ہالک کرنے جا رہے ہو‪ ،‬اسی ميں حضرت لوط عليہ السالم بهی موجود ہيں۔ جس پر‬
‫فرشتوں ن ے کہا ہم جانتے ہيں کہ لوط عليہ السالم بهی وہاں رہتے ہيں۔ ليکن ہم ان کو اور ان کے‬
‫گهر والوں کو سوائے ان کی بيوی کے بچا ليں گے۔‬

‫؀‪75‬‬ ‫ا َِّن اِب ْٰر ِهي َْم لَ َح ِل ْي ٌم ا َ َّواہٌ ُّم ِنيْبٌ‬


‫يقينا ا ابراہيم بہت تحمل والے نرم دل اور ہللا کی جانب جهکنے والے تهے۔‬

‫؀‪76‬‬ ‫غي ُْر َم ْرد ُْو ٍد‬ ‫ع ْن ٰه َذا ۚ اِنَّهٗ قَ ْد َج ۗا َء ا َ ْم ُر َر ِبكَ ۚ َواِنَّ ُه ْم ٰا ِت ْي ِه ْم َ‬
‫ع َذابٌ َ‬ ‫ٰ ْٓيـــ ِاب ْٰر ِه ْي ُم اَع ِْر ْ‬
‫ض َ‬
‫اے ابراہيم! اس خيال کو چهوڑ ديجئے‪ ،‬آپ کے رب کا حکم آپہنچا ہے‪ ،‬اور ان پر نہ ٹالے جانے‬
‫واْل عذاب ضرور آنے واْل ہے (‪)١‬‬
‫‪٧٦‬۔‪ ١‬يہ فرشتوں نے حضرت ابراہيم عليہ السالم سے کہا کہ اب اس بحث و تکرار کا کوئی فائدہ‬
‫نہيں‪ ،‬اسے چهوڑيئے ہللا کا وہ حکم (ہالکت کا) آ چکا ہے‪ ،‬جو ہللا کے ہاں مقدر تها۔ اور اب يہ‬
‫عذاب نہ کسی کے مجادلے سے روکے گا نہ کسی کی دعا سے ٹلے گا۔‬

‫؀‪7‬‬ ‫صيْبٌ‬ ‫عا َّوقَا َل ٰه َذا يَ ْو ٌم َ‬


‫ع ِ‬ ‫ضاقَ بِ ِه ْم َذ ْر ا‬ ‫سلُنَا لُ ْو ا‬
‫طا ِس ۗ ْي َء بِ ِه ْم َو َ‬ ‫َولَ َّما َج ۗا َء ْ‬
‫ت ُر ُ‬
‫جب ہمارے بهيجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگين ہوگئے‬
‫اور دل ہی دل ميں کڑهنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصيبت کا دن ہے (‪)١‬‬
‫‪٧٧‬۔‪ ١‬حضرت لوط عليہ السالم کی اس سخت پريشانی کی وجہ مفسرين نے لکهی ہے کہ يہ‬
‫فرشتے نوجوانوں کی شکل ميں آئے تهے‪ ،‬جو بےريش تهے‪ ،‬جس سے حضرت لوط عليہ السالم‬
‫نے اپنی قوم کی عادت قبيحہ کے پيش نظر سخت خطرہ محسوس کيا۔ کيونکہ ان کو يہ پتہ نہيں تها‬
‫کہ آنے والے يہ نوجوان‪ ،‬مہمان نہيں ہيں‪ ،‬بلکہ ہللا کے بهيجے ہوئے فرشتے ہيں جو اس قوم کو‬
‫ہالک کرنے کے لئے آئے ہيں۔‬

‫ت ۭ قَا َل ٰيقَ ْو ِم ٰ ْٓهؤ َ ۗ‬


‫ُْل ِء بَنَاتِ ْي ُه َّن ا َ ْ‬
‫ط َه ُر لَ ُك ْم فَاتَّقُوا‬ ‫سيِ ٰا ِ‬ ‫َو َج ۗا َء ٗہ قَ ْو ُمهٗ يُ ْه َر ُ‬
‫ع ْونَ اِلَ ْي ِه ۭ َو ِم ْن قَ ْب ُل َكانُ ْوا يَ ْع َملُ ْونَ ال َّ‬
‫؀‪78‬‬ ‫ض ْي ِف ْي ۭ اَلَي َ‬
‫ْس ِم ْن ُك ْم َر ُج ٌل َّر ِش ْي ٌد‬ ‫ّٰللا َو َْل ت ُ ْخ ُز ْو ِن فِ ْي َ‬ ‫هَ‬
‫اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی‪ ،‬وہ تو پہلے ہی سے بدکاريوں ميں مبتال تهی (‪)١‬‬
‫لوط نے کہا اے قوم کے لوگو! يہ ميری بيٹياں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکيزہ ہيں (‪ )٢‬ہللا سے ڈرو‬
‫اور مجهے ميرے مہمانوں کے بارے ميں رسوا نہ کرو۔ کيا تم ميں ايک بهی بهال آدمی نہيں (‪)۳‬۔‬
‫‪٧٨‬۔‪ ١‬جب اغالم بازی کے ان مريضوں کو پتہ چال کہ چند خوبرو نوجوان لوط عليہ السالم کے‬
‫گهر آئے ہيں تو دوڑے ہوئے آئے اور انہيں اپنے ساته لے جانے پر اصرار کيا‪ ،‬تاکہ ان سے اپنی‬
‫غلط خواہشات پوری کريں۔‬
‫‪٧٨‬۔‪ ٢‬يعنی تمہيں اگر جنسی خواہش ہی کی تسکين مقصود ہے تو اس کے لئے ميری اپنی بيٹياں‬
‫موجود ہيں‪ ،‬جن سے تم نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کر لو۔ يہ تمہارے لئے ہر طرح سے بہتر‬
‫ہے۔ بعض نے کہا کہ بنات سے مراد عام عورتيں ہيں اور انہيں اپنی لڑکياں اس لئے کہا کہ پيغمبر‬
‫اپنی امت کے لئے ايک طرح کا باپ ہوتا ہے۔ مطلب يہ ہے کہ اس کام کے لئے عورتيں موجود‬
‫ہيں‪ ،‬ان سے نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کرو (ابن کثير)‬
‫‪٧٨‬۔‪ ۳‬يعنی ميرے گهر آئے مہمانوں کے ساته زيادتی اور زبردستی کر کے مجهے رسوا نہ کرو۔‬
‫کيا تم ميں ايک آدمی بهی ايسا سمجهدار نہيں ہے‪ ،‬جو ميزبانی کے تقاضوں اور اس کی نزاکت کو‬
‫سمجه سکے‪ ،‬اور تمہيں اپنے برے ارادوں سے روک سکے‪ ،‬حضرت لوط عليہ السالم نے يہ‬
‫ساری باتيں اس بنياد پر کہيں کہ وہ ان فرشتوں کو فی الواقع نو وارد مسافر اور مہمان ہی سمجهتے‬
‫رہے۔ اس لئے بجا طور پر ان کی مخالفت کو اپنی عزت و وقار کے لئے ضروری سمجهتے رہے۔‬
‫اگر ان کو پ تہ چل جاتا يا وہ عالم الغيب ہوتے تو ظاہر بات ہے کہ انہيں يہ پريشانی ہرگز ْلحق نہ‬
‫ہوتی‪ ،‬جو انہيں ہوئی اور جس کا نقشہ يہاں قرآن مجيد نے کهينچا ہے۔‬

‫؀‪79‬‬ ‫ق ۚ َو ِانَّكَ لَت َ ْعلَ ُم َما نُ ِر ْي ُد‬ ‫قَالُ ْوا لَقَ ْد َ‬


‫ع ِل ْمتَ َما لَنَا فِ ْي بَ ٰنتِكَ ِم ْن َح ٍ‬
‫انہوں نے جواب ديا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہميں تو تيری بيٹيوں پر کوئی حق نہيں ہے اور تو‬
‫اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے (‪)١‬‬
‫‪٧٩‬۔‪ ١‬يعنی ايک جائز اور فطری طريقے کو انہوں نے بالکل رد کر ديا اور غير فطری کام اور‬
‫بےحيائی پر اصرار کيا‪ ،‬جس سے اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ وہ قوم اپنی اس بےحيائی کی عادت‬
‫خبيثہ ميں کتنی آگے جا چکی تهی اور کس قدر اندهی ہوگئی تهی۔‬

‫‪ 80‬؀‬ ‫ي ا ِٰلي ُر ْك ٍن َ‬
‫ش ِد ْي ٍد‬ ‫قَا َل لَ ْو ا َ َّن ِل ْي بِ ُك ْم قُ َّوة ا ا َ ْو ٰا ِو ْْٓ‬
‫لوط نے کہا کاش مجه ميں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی يا ميں کسی زبردست کا اسرا پکڑ‬
‫پاتا (‪)١‬۔‬
‫‪٨٠‬۔‪ ١‬قوت سے اپنے دست بازو اور اپنے وسائل کی قوت يا اوْلد کی قوت مراد ہے اور شديد‬
‫(مضبوط اسرا) سے خاندان‪ ،‬قبيلہ يا اسی قسم کا کوئی مضبوط سہارا۔ يعنی نہايت بےبسی کے عالم‬
‫ميں آرزو کر رہے ہيں کہ کاش! ميرے اپنے پاس کوئی قوت ہوتی يا کسی خاندان اور قبيلے کی‬
‫پناہ اور مدد مجهے حاصل ہوتی تو آج مجهے مہمانوں کی وجہ سے يہ ذلت و رسوائی نہ ہوتی‪،‬‬
‫ميں ان بد قماشوں سے نمٹ ليتا اور مہمانوں کی حفاظت کر ليتا۔ حضرت لوط عليہ السالم کی يہ‬
‫تعالی پر توکل کے منافی نہيں ہے۔ بلکہ ظاہری اسباب کے مطابق ہے۔ اور توکل علی ہللا‬ ‫آرزو ہللا ٰ‬
‫کا صحيح مفہوم و مطلب بهی يہی ہے۔ کہ پہلے تمام ظاہر اسباب و وسائل بروئے کار ْلئے جائيں‬
‫اور پهر ہللا پر توکل کيا جائے۔ يہ توکل کا نہايت غلط مفہوم ہے کہ ہاته پير توڑ کر بيٹه جاؤ اور‬
‫کہو کہ ہمارا بهروسہ ہللا پر ہے۔ اس ليے حضرت لوط عليہ السالم نے جو کچه کہا‪ ،‬ظاہر اسباب‬
‫کے اعتبار سے بالکل بجا کہا۔ جس سے يہ بات معلوم ہوئی کہ ہللا کا پيغمبر جس طرح عالم الغيب‬
‫نہيں ہوتا اسی طرح مختار کل بهی نہيں ہوتا‪ ،‬جيسا کہ آج کل لوگوں نے يہ عقيدہ گهڑ ليا ہے اگر‬
‫نبی دنيا ميں اختيارات سے بہرہ ور ہوتے تو يقيينا ا حضرت لوط عليہ السالم اپنی بےبسی کا اور اس‬
‫آرزو کا اظہار نہ کرتے جو انہوں نے مذکورہ الفاظ ميں کيا۔‬
‫طعٍ ِمنَ الَّ ْي ِل َو َْل يَ ْلت َ ِف ْ‬
‫ت ِم ْن ُك ْم ا َ َح ٌد ا َِّْل ْام َراَتَكَ ۭ اِنَّهٗ‬ ‫َّصلُ ْْٓوا اِلَيْكَ فَاَس ِْر بِا َ ْهلِكَ بِ ِق ْ‬
‫س ُل َربِكَ لَ ْن ي ِ‬ ‫ط اِنَّا ُر ُ‬ ‫قَالُ ْوا ٰيلُ ْو ُ‬
‫؀‪81‬‬ ‫ص ْب ُح ِبقَ ِر ْي ٍ‬
‫ب‬ ‫ْس ال ُّ‬ ‫ص ْب ُح ۭ اَلَي َ‬ ‫ص ْيبُ َها َما ْٓ ا َ َ‬
‫صا َب ُه ْم ۭ ا َِّن َم ْو ِع َد ُه ُم ال ُّ‬ ‫ُم ِ‬
‫اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تيرے پروردگار کے بهيجے ہوئے ہيں ناممکن ہے کہ يہ تجه تک‬
‫پہنچ جائيں پس تو اپنے گهر والوں کو لے کر کچه رات رہے نکل کهڑا ہو۔ تم ميں سے کسی کو مڑ‬
‫کر بهی نہ ديکهنا چاہيئے‪ ،‬بجز تيری بيوی کے‪ ،‬اس لئے کہ اسے بهی وہی پہنچنے واْل ہے جو ان‬
‫سب کو پہنچے گا يقينا ا ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے‪ ،‬کيا صبح بالکل قريب نہيں (‪)١‬‬
‫‪٨١‬۔‪ ١‬جب فرشتوں نے حضرت لوط عليہ السالم کی بےبسی اور ان کی قوم کی سرکشی کا مشاہدہ‬
‫کر ليا تو بولے‪ ،‬اے لوط! گهبرانے کی ضرورت نہيں ہے‪ ،‬ہم تک تو کيا‪ ،‬اب يہ تجه تک بهی نہيں‬
‫پہنچ سکتے۔ اب رات کے ايک حصے ميں‪ ،‬سوائے بيوی کے‪ ،‬اپنے گهر والوں کو لے کر يہاں‬
‫سے نکل جا! صبح ہوتے ہی اس بستی کو ہالک کر ديا جائے گا۔‬

‫؀‪2‬‬ ‫ض ْو ٍد‬ ‫علَ ْي َها ِح َج َ‬


‫ارة ا ِم ْن ِس ِج ْي ٍل ڏ َّم ْن ُ‬ ‫سافِلَ َها َوا َ ْم َ‬
‫ط ْرنَا َ‬ ‫فَلَ َّما َج ۗا َء ا َ ْم ُرنَا َجعَ ْلنَا َ‬
‫عا ِليَ َها َ‬
‫پهر جب ہمارا حکم آپہنچا‪ ،‬ہم نے اس بستی کو زير زبر کر ديا اوپر کا حصہ نيچے کرديا اور ان‬
‫پر کنکريلے پتهر برسائے جو تہ بہ تہ تهے۔‬

‫ۧ؀‪83‬‬ ‫ِي ِمنَ ال ه‬


‫ظ ِل ِميْنَ بِ َب ِع ْي ٍد‬ ‫س َّو َمةا ِع ْن َد َر ِبكَ ۭ َو َما ه َ‬
‫ُّم َ‬
‫تيرے رب کی طرف سے نشان دار تهے اور وہ ان ظالموں سے کچه بهی دور نہ تهے (‪)١‬‬
‫‪٨۳‬۔‪ ١‬اس آيت ميں هی کا مرجع بعض مفسرين کے نزديک وہ نشان زدہ کنکريلے پتهر ہيں جو ان‬
‫پر برسائے گئے اور بعض کے نزديک اس کا مرجع وہ بستياں ہيں جو ہالک کی گئيں اور جو شام‬
‫اور مدينہ کے درميان تهيں اور ظالمين سے مراد مشرکين مکہ اور ديگر منکرين ہيں۔ مقصد ان کو‬
‫ڈرانا ہے کہ تمہارا حشر بهی ويسا ہہی ہو سکتا ہے جس سے گزشتہ قوميں دو چار ہوئيں۔‬

‫صوا ْال ِم ْكيَا َل َو ْال ِميْزَ انَ اِنِ ْْٓى‬ ‫ّٰللاَ َما لَ ُك ْم ِم ْن ا ِٰل ٍه َ‬
‫غي ُْر ٗہ ۭ َو َْل ت َ ْنقُ ُ‬ ‫َوا ِٰلي َم ْديَنَ اَخَا ُه ْم ُ‬
‫شعَ ْيباا ۭ قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا ْعبُدُوا ه‬
‫؀‪84‬‬ ‫اب يَ ْو ٍم ُّم ِحيْطٍ‬ ‫علَ ْي ُك ْم َ‬
‫ع َذ َ‬ ‫ا َ ٰرى ُك ْم بِ َخي ٍْر َّواِنِ ْْٓى اَخ ُ‬
‫َاف َ‬
‫اور ہم نے مدين والوں (‪ )١‬کی طرف ان کے بهائی شعيب کو بهيجا‪ ،‬اس نے کہا اے ميری قوم! ہللا‬
‫کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہيں اور تم ناپ تول ميں بهی کمی نہ کرو (‪ )٢‬ميں‬
‫تمہيں آسودا حال ديکه رہا ہوں (‪ )۳‬اور مجهے تم پر گهيرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بهی)‬
‫ہے۔‬
‫‪٨٤‬۔‪ ١‬مدين کی تحقيق کے لئے ديکهئے سورة اْل عراف‪ ،‬آيت ‪ ٨٥‬کا حاشيہ۔‬
‫‪٨٤‬۔‪ ٢‬توحيد کی دعوت دينے کے بعد اس قوم ميں جو نماياں اخالقی خرابی۔ ناپ تول ميں کمی کی‬
‫تهی اس سے انہيں منع فرمايا۔ ان کا معمول بن چکا تها جب ان کے پاس فروخت کندہ (بائع) اپنی‬
‫چيز لے کر آتا تو اس سے ناپ اور تول ميں زائد چيز ليتے اور جب خريدار (مشتری) کو کوئی‬
‫چيز فروخت کرتے تو ناپ ميں بهی کمی کر کے ديتے اور تول ميں ڈنڈی مار ليتے۔‬
‫‪٨٤‬۔‪ ۳‬يہ اس منع کرنے کی علت ہے کہ جب ہللا ٰ‬
‫تعالی تم پر اپنا فضل کر رہا ہے اور اس نے‬
‫تمہيں آسودگی اور مال و دولت سے نوازا ہے تو پهر تم يہ قبيح حرکت کيوں کرتے ہو۔‬
‫‪٨٤‬۔‪٤‬يہ دوسری علت ہے کہ اگر تم اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو پهر انديشہ ہے کہ قيامت‬
‫والے دن کے عذاب سے تم نہ بچ سکو۔ گهيرنے والے دن سے مراد قيامت کا دن ہے کہا اس دن‬
‫کوئی گناہ گار مواخذہ الہی سے بچ سکے گا نہ بهاگ کر کہيں چهپ سکے گا۔‬

‫‪85‬‬ ‫اس ا َ ْش َي ۗا َء ُه ْم َو َْل ت َ ْعث َ ْوا فِي ْاْلَ ْر ِ‬


‫ض ُم ْف ِس ِديْنَ‬ ‫سوا النَّ َ‬ ‫َو ٰيقَ ْو ِم ا َ ْوفُوا ْال ِم ْك َيا َل َو ْال ِميْزَ انَ ِب ْال ِقس ِ‬
‫ْط َو َْل ت َ ْب َخ ُ‬
‫؀‬
‫اے ميری قوم! ناپ تول انصاف کے ساته پوری پوری کرو لوگوں کو ان کی چيزيں کم نہ دو (‪)١‬‬
‫اور زمين ميں فساد اور خرابی نہ مچاؤ۔ (‪)٢‬‬
‫‪٨٥‬۔‪ ١‬انبياء عليہم السالم کی دعوت دو اہم بنيادوں پر مشتمل ہوتی ہے ‪١‬۔ حقوق ہللا کی ادائيگی ‪،٢‬‬
‫صوا‬‫ّٰللا) اور آخر الذکر کی جانب ( َو َْل ت َ ْنقُ ُ‬ ‫حقوق العباد کی ادائيگی۔ اول الذکر کی طرف لفظ (ا َ ْعبُدُو ه َ‬
‫ْال ِم ْكيَا َل َو ْال ِميْزَ انَ ) ‪11‬۔ہود‪ )84:‬سے اشارہ کيا گيا اور اب تاکيد کے طور پر انہيں انصاف کے ساته‬
‫پورا پورا ناپ تول کا حکم ديا جا رہا ہے اور لوگوں کو چيزيں کم کر کے دينے سے منع کيا جا‬
‫تعالی نے ايک پوری سورت‬ ‫تعالی کے ہاں يہ بهی ايک بہت بڑا جرم ہے۔ ہللا ٰ‬ ‫رہا ہے کيونکہ ہللا ٰ‬
‫ط ِف ِفيْنَ ‪Ǻ‬۝‬ ‫ہے۔(و ْي ٌل ِلـ ْل ُم َ‬
‫َ‬ ‫ميں اس جرم کی شناعت و قباحت اور اس کی اخروی سزا بيان فرمائی‬
‫اس يَ ْست َْوفُ ْونَ ‪Ą‬۝ڮ َواِ َذا َكالُ ْو ُه ْم ا َ ْو َّوزَ نُ ْو ُه ْم ي ُْخ ِس ُر ْونَ ‪ۭǼ‬۝) ‪83‬۔‬ ‫الَّ ِذيْنَ اِ َذا ا ْكت َالُ ْوا َ‬
‫علَي النَّ ِ‬
‫الطففين‪ 1:‬تا ‪ )3‬مطففين کے ليے ہالکت ہے۔ يہ وہ لوگ ہيں کہ جب لوگوں سے ناپ کر ليتے ہيں‬
‫تو پورا ليتے ہيں اور جب دوسروں کو ناپ کر يا تول کر ديتے ہيں‪ ،‬تو کم کر کے ديتے ہيں‬
‫‪٨٥‬۔‪ ٢‬ہللا کی نافرمانی سے‪ ،‬بالخصوص جن کا تعلق حقوق العباد سے ہو‪ ،‬جيسے يہاں ناپ تول کی‬
‫کمی بيشی ميں ہے‪ ،‬زمين ميں يقينا ا فساد اور بگاڑ پيدا ہوتا ہے جس سے انہيں منع کيا گيا۔‬

‫؀‪86‬‬ ‫ّٰللاِ َخي ٌْر لَّ ُك ْم ا ِْن ُك ْنت ُ ْم ُّمؤْ ِمنِيْنَ ڬ َو َما ْٓ اَنَا َ‬
‫علَ ْي ُك ْم بِ َح ِفيْظٍ‬ ‫بَ ِقيَّتُ ه‬
‫تعالی کا حالل کيا ہوا جو بچ رہے تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم ايمان والے ہو (‪ )١‬ميں‬ ‫ہللا ٰ‬
‫تم پر کچه نگہبان (اور دروغہ) نہيں ہوں (‪)٢‬۔‬
‫‪٨٦‬۔‪( ١‬بَ ِقيَّتُ ه‬
‫ّٰللاِ) سے مراد جو ناپ تول ميں کسی قسم کی کمی کئے بغير‪ ،‬ديانتداری کے ساته سودا‬
‫دينے کے بعد حاصل ہو۔ يہ چونکہ حالل و طيب ہے اور خيرو برکت بهی اسی ميں ہے‪ ،‬اس لئے‬
‫ہللا کا بقيہ قرار ديا گيا ہے۔‬
‫‪٨٦‬۔‪ ٢‬يعنی ميں تمہيں صرف تبليغ کر سکتا ہوں اور ہللا کے حکم سے کر رہا ہوں۔ ليکن برائيوں‬
‫سے ميں تمہيں روک دوں يا اس پر سزا دوں‪ ،‬يہ ميرے اختيار ميں نہيں ہے‪ ،‬ان دونوں باتوں کا‬
‫اختيار صرف ہللا کے پاس ہے۔‬
‫ص ٰلوتُكَ تَا ْ ُم ُركَ ا َ ْن نَّتْ ُركَ َما يَ ْعبُ ُد ٰابَ ۗاؤُ نَا ْٓ ا َ ْو ا َ ْن نَّ ْفعَ َل فِ ْْٓي ا َ ْم َوا ِلنَا َما ن َٰۗشؤُ ا ۭ اِنَّكَ َْلَ ْنتَ ْال َح ِل ْي ُم‬
‫ْب ا َ َ‬ ‫قَالُ ْوا ٰي ُ‬
‫شعَي ُ‬
‫؀‪87‬‬ ‫الر ِش ْي ُد‬
‫َّ‬
‫انہوں نے جواب ديا کہ اے شعيب! کيا تيری صالة (‪ )١‬تجهے يہی حکم ديتی ہے کہ ہم اپنے باپ‬
‫دادوں کے معبودوں کو چهوڑ ديں اور ہم اپنے مالوں ميں جو کچه چاہيں اس کا کرنا بهی چهوڑ‬
‫ديں (‪ )٢‬تو تو بڑا ہی با وقار اور نيک چلن آدمی ہے (‪)۳‬۔‬
‫صلَ ٰوة ا سے مراد عبادت دين يا تالوت ہے۔‬
‫‪٨٧‬۔‪َ ١‬‬
‫‪٨٧‬۔‪ ٢‬اس سے مراد بعض مفسرين کے نزديک زکوة و صدقات ہيں‪ ،‬جس کا حکم ہر آسمانی مذہب‬
‫زکو ة و صدقات کا اخراج‪ ،‬ہللا کے نافرمانوں پر نہايت شاق‬
‫ميں ديا گيا ہے ہللا کے حکم سے ٰ‬
‫گزرتا ہے اور وہ سمجهتے ہيں کہ جب ہم اپنی محنت و لياقت سے مال کماتے ہيں تو اس کے خرچ‬
‫کرنے يا نہ کرنے ميں ہم پر پابندی کيوں ہو۔ اور اس کا کچه حصہ ايک مخصوص مد کے ليے‬
‫نکالنے پر ہميں مجبور کيوں کيا جائے؟ اسی طريقے سے کمائی اور تجارت ميں حالل و حرام اور‬
‫جائز وناجائز کی پابندی بهی ايسے لوگوں پر نہايت گراں گزرتی ہے‪ ،‬ممکن ہے ناپ تول ميں کمی‬
‫سے روکنے کو بهی انہوں نے اپنے مالی تصرفات ميں دخل درمعقوْلت سمجها ہو۔ اور ان الفاظ‬
‫ميں اس سے انکار کيا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحيح ہيں۔‬
‫‪٨٧‬۔‪ ۳‬حضرت شعيب عليہ السالم کے لئے يہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔‬

‫سـناا ۭ َو َما ْٓ ا ُ ِر ْي ُد ا َ ْن اُخَا ِلفَ ُك ْم ا ِٰلي َما ْٓ ا َ ْنهٰ ى ُك ْم‬ ‫ع ٰلي بَ ِينَ ٍة ِم ْن َّر ِب ْي َو َرزَ قَنِ ْي ِم ْنهُ ِر ْزقاا َح َ‬‫قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا َ َر َء ْيت ُ ْم ا ِْن ُك ْنتُ َ‬
‫؀‪88‬‬ ‫علَ ْي ِه ت ََو َّك ْلتُ َواِلَ ْي ِه اُنِي ُ‬
‫ْب‬ ‫ط ْعتُ ۭ َو َما ت َْوفِ ْي ِق ْْٓي ا َِّْل بِ ه‬
‫اّٰللِ ۭ َ‬ ‫ص َال َح َما ا ْست َ َ‬ ‫ع ْنهُ ۭ ا ِْن ا ُ ِر ْي ُد ا َِّْل ْ ِ‬
‫اْل ْ‬ ‫َ‬
‫کہا اے ميری قوم! ديکهو تو اگر ميں اپنے رب کی طرف سے روشن دليل لئے ہوئے ہوں اور اس‬
‫نے مجهے اپنے پاس سے بہترين روزی دے رکهی ہے (‪ )١‬ميرا يہ ارادہ بالکل نہيں کہ تمہارے‬
‫خالف کرکے خود اس چيز کی طرف جهک جاؤں جس سے تمہيں روک رہا ہوں (‪ )٢‬ميرا ارادہ تو‬
‫اپنی طاقت بهر اصالح کرنے کا ہی ہے (‪ )۳‬ميری توفيق ہللا ہی کی مدد سے ہے (‪ )٤‬اسی پر ميرا‬
‫بهروسہ ہے اور اسی کی طرف ميں رجوع کرتا ہوں۔‬
‫‪٨٨‬۔‪ ١‬رزق حسن کا دوسرا مفہوم نبوت بهی بيان کيا گيا ہے۔ (ابن کثير)‬
‫‪٨٨‬۔‪ ٢‬يعنی جس کام سے ميں تجهے روکوں‪ ،‬تم سے خالف ہو کر وہ ميں خود کروں‪ ،‬ايسا نہيں ہو‬
‫سکتا۔‬
‫‪٨٨‬۔‪ ۳‬ميں تمہيں جس کام کے کرنے يا جس سے روکنے کا حکم ديتا ہوں‪ ،‬اس سے مقصد اپنی‬
‫مقدور بهر‪ ،‬تمہاری اصالح ہی ہے۔‬
‫‪٨٨‬۔‪ ٤‬يعنی حق تک پہنچنے کا جو ميرا ارادہ ہے‪ ،‬وہ ہللا کی توفيق سے ہی ممکن ہے‪ ،‬اس لئے‬
‫تمام معامالت ميں ميرا بهروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف ميں رجوع کرتا ہوں۔‬

‫اب قَ ْو َم نُ ْوحٍ ا َ ْو قَ ْو َم ُه ْو ٍد ا َ ْو قَ ْو َم صٰ ِلحٍ ۭ َو َما قَ ْو ُم لُ ْوطٍ‬


‫ص َ‬‫ُّص ْي َب ُك ْم ِمثْ ُل َما ْٓ ا َ َ‬
‫َو ٰيقَ ْو ِم َْل َيجْ ِر َمنَّ ُك ْم ِشقَا ِق ْْٓي ا َ ْن ي ِ‬
‫‪ 89‬؀‬ ‫ِم ْن ُك ْم بِبَ ِع ْي ٍد‬
‫اور اے ميری قوم (کے لوگو!) کہيں ايسا نہ ہو کہ تم کو ميری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے‬
‫جو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح کو پہنچے ہيں۔ اور قوم لوط تو تم سے کچه دور نہيں (‪)١‬‬
‫‪٨٩‬۔‪ ١‬يعنی ان کی جگہ تم سے دور نہيں‪ ،‬يا اس سبب ميں تم سے دور نہيں جو ان کے عذاب کا‬
‫موجب بنا۔‬

‫‪ 90‬؀‬ ‫َوا ْست َ ْغ ِف ُر ْوا َربَّ ُك ْم ث ُ َّم ت ُ ْوب ُْْٓوا اِلَ ْي ِه ۭ ا َِّن َر ِب ْي َر ِح ْي ٌم َّود ُْو ٌد‬
‫تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو‪ ،‬يقين مانو کہ ميرا رب بڑی مہربانی‬
‫واْل اور بہت محبت کرنے واْل ہے۔‬

‫علَ ْينَا‬ ‫ض ِع ْيفاا ۚ َولَ ْو َْل َر ْه ُ‬


‫طكَ لَ َر َج ْم ٰنكَ ۡ َو َما ْٓ ا َ ْنتَ َ‬ ‫ْب َما نَ ْفقَهُ َكثِي اْرا ِم َّما تَقُ ْو ُل َواِنَّا لَن َٰرىكَ فِ ْينَا َ‬ ‫قَالُ ْوا ٰي ُ‬
‫شعَي ُ‬
‫؀‪91‬‬ ‫ِب َع ِزي ٍْز‬
‫انہوں نے کہا اے شعيب! تيری اکثر باتيں تو ہماری سمجه ميں ہی نہيں آتيں (‪ )١‬اور ہم تجهے اپنے‬
‫اندر بہت کمزور پاتے ہيں (‪ )٢‬اگر تيرے قبيلے کا خيال نہ ہوتا تو ہم تجهے سنگسار کر ديتے (‪)۳‬‬
‫اور ہم تجهے کوئی حيثيت والی ہستی نہيں گنتے (‪)٤‬۔‬
‫‪٩١‬۔‪ ١‬يہ يا تو انہوں نے بطور مذاق تحقير کہا درانحاليکہ ان کی باتيں ان کے لئے ناقابل فہم نہيں‬
‫تهيں۔ اس صورت ميں يہاں فہم کی نفی مجازا ہوگی۔ يا ان کا مقصد ان باتوں کے سمجهنے سے‬
‫معذوری کا اظہار ہے جن کا تعلق غيب سے ہے۔ مثال بعث بعدالموت‪ ،‬حشر نشر‪ ،‬جنت و دوزخ‬
‫وغيرہ اس لحاظ سے‪ ،‬فہم کی فنی حقيقتا ہوگی۔‬
‫‪٩١‬۔‪ ٢‬يہ کمزوری جسمانی لحاظ سے تهی‪ ،‬جيسا کہ بعض کا خيال ہے کہ حضرت شعيب عليہ‬
‫السالم کی بينائی کمزور تهی يا وہ نحيف و ْلغر جسم کے تهے يا اس اعتبار سے انہيں کمزور کہا‬
‫کہ وہ خود بهی مخالفين سے تنہا مقابلہ کرنے کی سکت نہيں رکهتے تهے۔‬
‫‪٩١‬۔‪ ۳‬حضرت شعيب عليہ السالم کا قبيلہ کہا جاتا ہے کہ ان کا مددگار نہيں تها‪ ،‬ليکن وہ قبيلہ‬
‫چونکہ کفر و شرک ميں اپنی ہی قوم کے ساته تها‪ ،‬اس لئے اپنے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے اس‬
‫قبيلے کا لحاظ‪ ،‬بہرحال حضرت شعيب عليہ السالم کے ساته سخت رويہ اختيار کرنے اور انہيں‬
‫نقصان پہنچانے ميں مانع تها۔‬
‫‪٩١‬۔‪ ٤‬ليکن چونکہ تيرے قبيلے کی حيثيت بہرحال ہمارے دلوں ميں موجود ہے‪ ،‬اس لئے ہم درگزر‬
‫سے کام لے رہے ہيں۔‬

‫ّٰللاِ ۭ َوات َّ َخ ْذت ُ ُم ْوہُ َو َر ۗا َء ُك ْم ِظ ْه ِرياا ۭ ا َِّن َربِ ْي ِب َما ت َ ْع َملُ ْونَ ُم ِح ْي ٌ‬
‫ط‬ ‫علَ ْي ُك ْم ِمنَ ه‬
‫ع ُّز َ‬
‫قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا َ َر ْه ِط ْْٓي ا َ َ‬
‫؀‪92‬‬
‫انہوں نے جواب ديا کہ اے ميری قوم کے لوگو! کيا تمہارے نزديک ميرے قبيلے کے لوگ ہللا سے‬
‫بهی زيادہ ذی عزت ہيں کہ تم نے اسے پس پشت ڈال (‪ )١‬ديا ہے يقينا ا ميرا رب جو کچه تم کر‬
‫رہے ہو سب کو گهيرے ہوئے ہے۔‬
‫‪٩٢‬۔‪ ١‬کہ تم مجهے تو ميرے قبيلے کی وجہ سے نظر انداز کر رہے ہو۔ ليکن جس ہللا نے مجهے‬
‫منصب نبوت سے نوازا ہے اس کی کوئی عظمت نہيں اور اس منصب کا کوئی احترام تمہارے‬
‫دلوں ميں نہيں ہے اور اسے تم نے پس پشت ڈال ديا ہے۔ يہاں حضرت شعيب عليہ السالم نے اعز‬
‫عليکم منی (مجه سے زيادہ ذی عزت) کی بجائے اعز عليکم من ہللا ہللا سے زيادہ ذی عزت کہا‬
‫جس سے يہ بتالنا مقصود ہے کہ نبی کی توہين يہ دراصل ہللا کی توہين ہے۔ اس ليے کہ نبی ہللا کا‬
‫مبعوث ہوتا ہے۔ اور اسی اعتبار سے اب علمائے حق کی توہين اور ان کو حقير سمجهنا يہ ہللا کے‬
‫دين کی توہين اور اس کا استخفاف ہے‪ ،‬اس ليے کہ وہ ہللا کے دين کے نمائندے ہيں۔ واتخذتموہ ميں‬
‫ها کا مرجع ہللا ہے اور مطلب يہ ہے کہ ہللا کے اس معاملے کو‪ ،‬جسے لے کر اس نے مجهے‬
‫بهيجا ہے‪ ،‬اسے تم نے پس پشت ڈال ديا ہے اور اس کی کوئی پروا تم نے نہيں کی۔‬

‫ارت َ ِقب ُْْٓوا‬ ‫ف ت َ ْعلَ ُم ْونَ َم ْن يَّاْتِ ْي ِه َ‬


‫ع َذابٌ ي ُّْخ ِز ْي ِه َو َم ْن ُه َو َكاذِبٌ ۭ َو ْ‬ ‫ام ٌل ۭ َ‬
‫س ْو َ‬ ‫ع ِ‬‫ع ٰلي َم َكانَتِ ُك ْم اِنِ ْى َ‬
‫َو ٰيقَ ْو ِم ا ْع َملُ ْوا َ‬
‫؀‪93‬‬ ‫اِنِ ْى َمعَ ُك ْم َرقِيْبٌ‬
‫اے ميری قوم کے لوگو! اب تم اپنی جگہ عمل کيئے جاؤ ميں بهی عمل کر رہا ہوں‪ ،‬تمہيں عنقريب‬
‫معلوم ہو جائے گا کہ کس کے پاس وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے اور کون ہے جو جهوٹا‬
‫ہے تم انتظار کرو ميں بهی تمہارے ساته منتظر ہوں (‪)١‬۔‬
‫‪٩۳‬۔‪ ١‬جب انہوں نے ديکها کہ يہ قوم اپنے کفر و شرک پر مصر ہے اور وعظ و نصيحت کا بهی‬
‫کوئی اثر ان پر نہيں ہو رہا‪ ،‬تو کہا اچها تم اپنی ڈگر پر چلتے رہو‪ ،‬عنقريب تمہيں جهوٹے سچے کا‬
‫اور اس بات کا کہ رسوا کن عذاب کا مستحق کون ہے؟ علم ہو جائے گا۔‬

‫ص ْي َحةُ فَا َ ْ‬
‫ص َب ُح ْوا ِف ْي‬ ‫ظلَ ُموا ال َّ‬ ‫َولَ َّما َج ۗا َء ا َ ْم ُرنَا نَ َّج ْينَا ُ‬
‫ش َع ْيباا َّوالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َم َعهٗ ِب َرحْ َم ٍة ِمنَّا َوا َ َخ َذ ِ‬
‫ت الَّ ِذيْنَ َ‬
‫؀‪94‬‬ ‫ار ِه ْم جٰ ثِ ِميْنَ‬
‫ِديَ ِ‬
‫جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا ہم نے شعيب کو اور ان کے ساته (تمام) مومنوں کو اپنی خاص‬
‫رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگهاڑ کے عذاب نے دهر دبوچا (‪ )١‬جس سے وہ‬
‫اپنے گهروں ميں اوندے پڑے ہوئے ہوگئے۔‬
‫‪٩٤‬۔‪ ١‬اس چيخ سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے معا بعد‬
‫الرجْ فَةُ فَا َ ْ‬
‫ص َب ُح ْوا فِ ْي َد ِار ِه ْم جٰ ثِ ِميْنَ ) اور‬ ‫ہی بهو نچال بهی آيا‪ ،‬جيسا کہ سورة اعراف۔ ‪( ٩١‬فَا َ َخ َذتْ ُه ُم َّ‬
‫صبَ ُح ْوا فِ ْي َد ِار ِه ْم جٰ ثِ ِميْنَ ) ‪29‬۔ العنکبوب‪ )37:‬ميں ہے۔‬ ‫الرجْ فَةُ فَا َ ْ‬
‫سورة عنکبوت (فَا َ َخ َذتْ ُه ُم َّ‬

‫ۧ؀‪95‬‬ ‫َكا َ ْن لَّ ْم َي ْغن َْوا فِ ْي َها ۭ ا َ َْل بُ ْعداا ِل َم ْد َينَ َك َما َب ِع َد ْ‬
‫ت ث َ ُم ْو ُد‬
‫گويا کہ وہ ان گهروں ميں کبهی بسے ہی نہ تهے‪ ،‬آگاہ رہو مدين کے لئے بهی ويسی ہی دوری (‪)١‬‬
‫ہو جيسی دوری ثمود کو ہوئی۔‬
‫‪٩٥‬۔‪ ١‬يعنی لعنت‪ ،‬پهٹکار‪ ،‬ہللا کی رحمت سے محرومی اور دوری۔‬
‫؀‪96‬‬ ‫س ْل ٰط ٍن ُّمبِي ٍْن‬
‫س ْلنَا ُم ْوسٰ ى بِ ٰا ٰيتِنَا َو ُ‬
‫َولَقَ ْد ا َ ْر َ‬
‫موسی کو اپنی آيات اور روشن دليلوں کے ساته بهيجا تها (‪)١‬‬
‫ٰ‬ ‫اور يقينا ا ہم نے ہی‬
‫‪٩٦‬۔‪ ١‬آيات سے بعض کے نزديک تورات اور سلطان مبين سے معجزات مراد ہيں‪ ،‬اور بعض‬
‫کہتے ہيں کہ آيات سے‪ ،‬آيات تسعہ اور سلطان مبين (روشن دليل) سے عصا مراد ہے۔ عصا‪،‬‬
‫اگرچہ آيات تسعہ ميں شامل ہے ليکن معجزہ چونکہ نہايت ہی عظيم الشان تها‪ ،‬اس لئے اس کا‬
‫خصوصی طور پر ذکر کيا گيا ہے۔‬

‫؀‪97‬‬ ‫ع ْونَ ۚ َو َما ْٓ ا َ ْم ُر فِ ْر َ‬


‫ع ْونَ ِب َر ِش ْي ٍد‬ ‫ا ِٰلي فِ ْر َ‬
‫ع ْونَ َو َم َ ۟الى ٖه فَاتَّبَعُ ْْٓوا ا َ ْم َر فِ ْر َ‬
‫فرعون اور اس کے سرداروں (‪ )١‬کی طرف‪ ،‬پهر بهی ان لوگوں نے فرعون کے احکام کی پيروی‬
‫کی اور فرعون کا کوئی حکم درست تها ہی نہيں (‪)٢‬۔‬
‫‪٩٧‬۔‪َ ١‬م َالء قوم کے اشراف اور ممتاز قسم کے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ (اس کی تشريح پہلے گزر‬
‫چکی ہے) فرعون کے ساته‪ ،‬اس کے دربار کے ممتاز لوگوں کا نام اس لئے ليا گيا ہے کہ اشراف‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫قوم ہی ہر معاملے کے ذمہ دار ہوتے تهے اور قوم ان ہی کے پيچهے چلتی تهی۔ اگرچہ‬
‫عليہ السالم پر ايمان لے آتے تو يقينا ا فرعون کی ساری قوم ايمان لے آتی۔‬
‫موسی عليہ السالم کی رشد وہدايت‬
‫ٰ‬ ‫‪٩٧‬۔‪َ ٢‬ر ِش ْي ٍد ذی رشد کے معنی ميں ہے۔ يعنی بات تو حضرت‬
‫والی تهی‪ ،‬ليکن اسے ان لوگوں نے رد کر ديا اور فرعون کی بات‪ ،‬رشدو ہدايت سے دور تهی‪ ،‬اس‬
‫کی انہوں نے پيروی کی۔‬

‫؀‪98‬‬ ‫س ْال ِو ْر ُد ْال َم ْو ُر ْو ُد‬ ‫يَـ ْق ُد ُم قَ ْو َمهٗ يَ ْو َم ْال ِق ٰي َم ِة فَا َ ْو َر َد ُه ُم النَّ َ‬


‫ار ۭ َوبِئْ َ‬
‫وہ قيامت کے دن اپنی قوم کا پيش رو ہو کر ان سب کو دوزخ ميں جا کهڑا کرے گا (‪ )١‬وہ بہت ہی‬
‫برا گهاٹ (‪ )٢‬ہے جس پر ْل کهڑے کيے جائيں گے۔‬
‫‪٩٨‬۔‪ ١‬يعنی فرعون‪ ،‬جس طرح دنيا ميں ان کا رہبر اور پيش رو تها‪ ،‬قيامت والے دن بهی يہ آگے‬
‫آگے ہی ہوگا اور اپنی قوم کو اپنی قيادت ميں جہنم ميں لے کر جائے گا۔‬
‫‪٩٨‬۔‪ِ ٢‬و ْرد پانی کے گهاٹ کو کہتے ہيں‪ ،‬جہاں پياسے جا کر اپنی پياس بجهاتے ہيں۔ ليکن يہاں‬
‫جہنم کو ورد کہا گيا ہے گهاٹ يعنی جہنم جس ميں لوگ لے جائے جائيں گے يعنی جگہ بهی بری‬
‫اور جانے والے بهی برے۔ اعاذنا ہللا منہ‬

‫؀‪99‬‬ ‫الر ْف ُد ْال َم ْرفُ ْو ُد‬


‫س ِ‬ ‫َواُتْبِعُ ْوا فِ ْي ٰهذ ِٖہ لَ ْعنَةا َّويَ ْو َم ْال ِق ٰي َم ِة ۭ بِئْ َ‬
‫ان پر اس دنيا ميں بهی لعنت چپکا دی گئی اور قيامت کے دن بهی (‪ )١‬برا انعام ہے جو ديا گيا۔‬
‫‪٩٩‬۔‪ ١‬لَ ْعنَۃ سے پهٹکار اور رحمت ٰالہی سے دوری و محرومی ہے‪ ،‬گويا دنيا ميں بهی وہ رحمت‬
‫ٰالہی سے محروم اور آخرت ميں ميں بهی اس سے محروم ہی رہيں گے‪ ،‬اگر ايمان نہ ْلئے۔‬
‫‪٩٩‬۔‪ِ ٢‬ر ْف اد انعام اور عطيے کو کہا جاتا ہے۔ يہاں لعنت کو رفد کہا گيا ہے۔ اسی لئے اسے برا انعام‬
‫قرار ديا گيا َم ْرفُ ْود وہ انعام جو کسی کو ديا جائے۔ يہ الرفد کی تاکيد ہے۔‬

‫؀‪١٠٠‬‬ ‫علَيْكَ ِم ْن َها قَ ۗاى ٌم َّو َح ِ‬


‫ص ْي ٌد‬ ‫ٰذلِكَ ِم ْن ا َ ْۢ ْنبَ ۗا ِء ْالقُ ٰري نَقُ ُّ‬
‫صهٗ َ‬
‫بستيوں کی يہ بعض خبريں جنہيں ہم تيرے سامنے بيان فرما رہے ہيں ان ميں سے بعض تو موجود‬
‫ہيں اور بعض (کی فصليں) کٹ گئی ہيں (‪)١‬۔‬
‫صيْد بمعنی محصود سے مراد‬ ‫‪١٠٠‬۔‪ ١‬قائم سے مراد وہ بستياں‪ ،‬جو اپنی چهتوں پر قائم ہيں اور َح ِ‬
‫وہ بستياں جو کٹے ہوئے کهيتوں کی طرح نابود ہوگئيں۔ يعنی جن گزشتہ بستيوں کے واقعات ہم‬
‫بيان کر رہے ہيں‪ ،‬ان ميں سے بعض تو اب بهی موجود ہيں‪ ،‬جن کے آثار و کهنڈرات نشان عبرت‬
‫ہيں اور بعض بالکل ہی صفہ ہستی سے معدوم ہو گيئں اور ان کا وجود صرف تاريخ کے صفحات‬
‫پر باقی رہ گيا ہے۔‬

‫َيءٍ لَّ َّما َج ۗا َء ا َ ْم ُر‬


‫ّٰللاِ ِم ْن ش ْ‬ ‫ع ْن ُه ْم ٰا ِل َهت ُ ُه ُم الَّتِ ْي يَ ْد ُ‬
‫ع ْونَ ِم ْن د ُْو ِن ه‬ ‫س ُه ْم فَ َما ْٓ ا َ ْغن ْ‬
‫َت َ‬ ‫ظلَ ْم ٰن ُه ْم َو ٰل ِك ْن َ‬
‫ظلَ ُم ْْٓوا ا َ ْنفُ َ‬ ‫َو َما َ‬
‫؁‪١٠١‬‬ ‫غي َْر تَتْبِ ْي ٍ‬
‫ب‬ ‫َر ِبكَ ۭ َو َما زَ اد ُْو ُه ْم َ‬
‫ہم نے ان پر کوئی ظلم نہيں کيا (‪ )١‬بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کيا (‪ )٢‬اور انہيں ان‬
‫کے معبودوں نے کوئی فائدہ نہ پہنچايا جنہيں وہ ہللا کے سوا پکارا کرتے تهے‪ ،‬جب کہ تيرے‬
‫پروردگار کا حکم آپہنچا‪ ،‬بلکہ اور ان کا نقصان ہی انہوں نے بڑهايا (‪)۳‬‬
‫‪١٠١‬۔‪ ١‬ان کو عذاب اور ہالکت سے دو چار کر کے۔‬
‫‪١٠١‬۔‪ ٢‬کفر ومعاصی کا ارتکاب کر کے۔‬
‫‪١٠١‬۔‪ ۳‬جب کہ ان کا عقيدہ يہ تها کہ يہ انہيں نقصان سے بچائيں گے اور فائدہ پہنچائيں گے۔ ليکن‬
‫جب ہللا کا عذاب آيا تو واضح ہوگيا کہ ان کا يہ عقيدہ فاسد تها‪ ،‬اور يہ بات ثابت ہوگئی کہ ہللا کے‬
‫سوا کوئی کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہيں۔‬

‫ٰ‬
‫؀‪١٠٢‬‬ ‫ظا ِل َمةٌ ۭ ا َِّن ا َ ْخ َذ ٗہْٓ ا َ ِل ْي ٌم َ‬
‫ش ِد ْي ٌد‬ ‫َو َكذلِكَ ا َ ْخذُ َربِكَ اِ َذآْ ا َ َخ َذ ْالقُ ٰري َوه َ‬
‫ِى َ‬
‫تيرے پروردگار کی پکڑ کا يہی طريقہ ہے جب کہ وہ بستيوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا‬
‫ہے بيشک اس کی پکڑ دکه دينے والی اور نہايت (‪ )١‬سخت ہے۔‬
‫‪١٠٢‬۔‪ ١‬يعنی جس طرح گزشتہ بستيوں کو ہللا ٰ‬
‫تعالی نے تباہ اور برباد کيا‪ ،‬آئندہ بهی وہ ظالموں کی‬
‫اسی طرح گرفت کرنے پر قادر ہے۔ حديث ميں آتا ہے کہ نبی صلی ہللا عليہ وسلم نے فرمايا ان ہللا‬
‫ليملی للظالم حتی اذا اخذہ لم يفلتہ ہللا ٰ‬
‫تعالی يقينا ا ظالم کو مہلت ديتا ہے ليکن جب اس کی گرفت‬
‫کرنے پر آتا ہے تو پهر اس طرح اچانک گرتا ہے کہ پهر مہلت نہيں ديتا۔‬
‫اس َو ٰذلِكَ يَ ْو ٌم َّم ْش ُه ْو ٌد‬ ‫ۭ ٰذلِكَ يَ ْو ٌم َّمجْ ُم ْو ٌ‬
‫ع لَّهُ النَّ ُ‬ ‫اب ْ ٰ‬
‫اْل ِخ َرةِ‬ ‫ع َذ َ‬ ‫ا َِّن فِ ْي ٰذلِكَ َ ْٰليَةا ِل َم ْن خ َ‬
‫َاف َ‬
‫؁‪١٠۳‬‬
‫يقينا ا اس ميں (‪ )١‬ان لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے جو قيامت کے عذاب سے ڈرتے ہيں۔ وہ دن‬
‫جس ميں سب لوگ جمع کئے جائيں گے اور وہ‪ ،‬وہ دن ہے جس ميں سب حاضر کئے جائيں گے‬
‫(‪)٢‬۔‬
‫‪١٠۳‬۔‪ ١‬يعنی مواخذہ ٰالہی ميں يا ان واقعات ميں جو عبرت و موعظبت کے لئے بيان کئے گئے ہيں۔‬
‫‪١٠۳‬۔‪ ٢‬يعنی حساب اور بدلے کے لئے۔‬

‫ۭ؀‪١٠٤‬‬ ‫َو َما نُ َؤ ِخ ُر ٗ ْٓہ ا َِّْل ِْلَ َج ٍل َّم ْعد ُْو ٍد‬
‫اسے ہم ملتوی کرتے ہيں وہ صرف ايک مدت معين تک ہے (‪)١‬‬
‫تعالی نے اس کے‬‫‪١٠٤‬۔‪ ١‬يعنی قيامت کے دن ميں تاخير کی وجہ صرف يہ ہے کہ ہللا تبارک و ٰ‬
‫لئے ايک وقت معين کيا ہوا ہے۔ جب وہ وقت مقرر آ جائے گا‪ ،‬تو ايک لمحے کی تاخير نہيں ہوگی۔‬

‫؁‪١٠٥‬‬ ‫س ِع ْي ٌد‬
‫ي َّو َ‬
‫ش ِق ٌّ‬ ‫ت َْل ت َ َكلَّ ُم نَ ْف ٌ‬
‫س ا َِّْل ِب ِا ْذنِ ٖه ۚ فَ ِم ْن ُه ْم َ‬ ‫َي ْو َم َيا ْ ِ‬
‫جس دن وہ آجائے گی مجال نہ ہوگی کہ ہللا کی اجازت کے بغير کوئی بات بهی کر (‪ )١‬لے‪ ،‬سو ان‬
‫ميں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نيک بخت۔‬
‫تعالی سے کسی طرح کی بات يا شفاعت کرنے کی‬ ‫‪١٠٥‬۔‪ ٤‬گفتگو نہ کرنے سے مراد‪ ،‬کسی کو ہللا ٰ‬
‫ہمت نہيں ہوگی۔ اْل يہ کہ وہ اجازت دے دے۔ طويل حديث شفاعت ميں ہے۔ رسول ہللا عليہ وسلم‬
‫نے فرمايا " اس دن انبياء کے عالوہ کسی کو گفتگو کی ہمت نہ ہوگی اور انبياء کی زبان پر بهی‬
‫اس دن صرف يہی ہوگا کہ يا ہللا! ہميں بچا لے‪ ،‬ہميں بچا لے '۔‬

‫؀‪١٠٦‬‬ ‫ار لَ ُه ْم فِ ْي َها زَ فِ ْي ٌر َّو َ‬


‫ش ِهي ٌْق‬ ‫فَا َ َّما الَّ ِذيْنَ َ‬
‫شقُ ْوا فَ ِفي النَّ ِ‬
‫ليکن جو بدبخت ہوئے وہ دوزخ ميں ہونگے وہاں چيخيں گے چالئيں گے۔‬

‫؁‪١٠٧‬‬ ‫ض ا َِّْل َما ش َۗا َء َربُّكَ ۭ ا َِّن َربَّكَ فَعَّا ٌل ِل َما ي ُِر ْي ُد‬
‫ت السَّمٰ ٰوتُ َو ْاْلَ ْر ُ‬
‫ٰخ ِل ِديْنَ فِ ْي َها َما َدا َم ِ‬
‫وہ وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں جب تک آسمان و زمين برقرار رہيں (‪ )١‬سوائے اس وقت کے جو‬
‫تمہارا رب چاہے (‪ )٢‬يقينا ا تيرا رب جو کچه چاہے کر گزرتا ہے۔‬
‫‪١٠٧‬۔‪ ١‬ان الفاظ سے بعض لوگوں کو يہ مغالطہ لگا ہے کہ کافروں کے لئے جہنم کا عذاب دائمی‬
‫نہيں ہے بلکہ موقت ہے يعنی اس وقت تک رہے گا جب تک آسمان و زمين رہيں گے۔ ليکن يہ بات‬
‫ض) اہل عرب کے روز مرہ کی گفتگو اور‬ ‫ت السِمٰ ٰو تُ َو ْاْلَ ْر ُ‬
‫صحيح نہيں۔ کيونکہ يہاں ( َما َد ا َم ِ‬
‫محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔ عربوں کی عادت تهی کہ جب کسی چيز کا دوام ثابت کرنا‬
‫مقصود ہوتا تو وہ کہتے تهے (يہ چيز اسی طرح ہميشہ رہے گی۔ جس طرح آسمان و زمين کا دوام‬
‫ہے) اسی محاورے کو قرآن کريم ميں استعمال کيا گيا ہے‪ ،‬جس کا مطلب يہ ہے کہ اہل کفر و‬
‫شرک جہنم ميں ہميشہ رہيں گے۔ جس کو قرآن نے متعدد جگہ خالدين فيها کے الفاظ سے ذکر کيا‬
‫ہے۔ ايک دوسرا مفہوم اس کا يہ بهی بيان کی گيا ہے کہ آسمان و زمين سے مراد جنس ہے۔ يعنی‬
‫دنيا کے آسمان و زمين اور ہيں جو فنا ہو جائيں گے ليکن آخرت کے آسمان و زمين ان کے عالوہ‬
‫ض‬‫غي َْر ْاْلَ ْر ِ‬
‫ض َ‬ ‫اور ہوں گے‪ ،‬جيسا کہ قران کريم ميں اس کی صراحت ہے‪( ،‬يَ ْو َم ت ُ َب َّد ُل ْاْلَ ْر ُ‬
‫ار ؁‪14 )48‬۔ ابراہيم‪ ،)48:‬اس دن يہ زمين دوسری زمين سے‬ ‫اح ِد ْالقَ َّه ِ‬
‫َوالسَّمٰ ٰوتُ َوبَ َر ُز ْوا ِ هّٰللِ ْال َو ِ‬
‫بدل دی جائے گی اور آسمان بهی بدل دئيے جائيں گے۔ اور آخرت کے يہ آسمان وزمين‪ ،‬جنت اور‬
‫دوزخ کی طرح ہميشہ رہيں گے۔ اس آيت ميں يہی آسمان وزمين مراد ہے نہ کہ دنيا کے آسمان‬
‫وزمين جو فنا ہو جائيں گے۔ (ابن کثير) ان دونوں مفہوموں ميں سے کوئی بهی مفہوم مراد لے ليا‬
‫جائے‪ ،‬آيت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے اور وہ اشکال پيدا نہيں ہوتا جو مذکور ہوا۔ امام شوکانی نے‬
‫اس کے اور بهی کئی مفہوم بيان کيے ہيں جنہيں اہل علم مالحظہ فرما سکتے ہيں۔‬
‫‪١٠٧‬۔‪ ٢‬اس استثناء کے بهی کئی مفہوم بيان کئے گئے ہيں۔ ان ميں سب سے زيادہ صحيح مفہوم‬
‫يہی ہے کہ يہ استثناء ان گناہ گاروں کے لئے ہے جو اہل توحيد و اہل ايمان ہوں گے۔ اس اعتبار‬
‫ش ِقی کا لفظ عام يعنی کافر اور عاصی دونوں کو شامل ہوگا اور (اِ َّْل‬ ‫سے اس سے ما قبل آيت ميں َ‬
‫َآء ميں َما‪َ ،‬م ْن کے معنی ميں‬
‫ک) سے عاصی مومنوں کا استثناء ہو جائے گا اور َما ش ِ‬ ‫َما شَآ َء َربُّ َ‬
‫ہے۔‬

‫ط ۗا اء َ‬
‫غي َْر َمجْ ذُ ْو ٍذ‬ ‫ض ا َِّْل َما ش َۗا َء َربُّكَ ۭ َ‬
‫ع َ‬ ‫س ِعد ُْوا فَ ِفي ْال َجنَّ ِة ٰخ ِل ِديْنَ فِ ْي َها َما َدا َم ِ‬
‫ت السَّمٰ ٰوتُ َو ْاْلَ ْر ُ‬ ‫َوا َ َّما الَّ ِذيْنَ ُ‬
‫؁‪١٠٨‬‬
‫ليکن جو نيک بخت کئے گئے وہ جنت ميں ہونگے جہاں ہميشہ رہيں گے جب تک آسمان و زمين‬
‫باقی رہے مگر جو تيرا پروردگار چاہے (‪ )١‬يہ بے انتہا بخشش ہے (‪)٢‬۔‬
‫‪١٠٨‬۔ ‪ ١‬يہ استثناء بهی عصاة اہل ايمان کے لئے ہے۔ يعنی ديگر جنتيوں کی طرح يہ نافرمان مومن‬
‫ہميشہ سے جنت ميں نہيں رہيں ہوں گے‪ ،‬بلکہ ابتدا ميں ان کا کچه عرصہ جہنم ميں گزرے گا اور‬
‫پهر انبياء اور اہل ايمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت ميں داخل کيا جائے گا‪،‬‬
‫جيسا کہ احاديث صحيحہ سے يہ باتيں ثابت ہيں۔‬
‫‪١٠٨‬۔‪ ٢‬غير مجذوذ کے معنی ہيں غير مقطوع۔ يعنی نہ ختم ہونے والی عطاء۔ اس جملے سے يہ‬
‫واضح ہو جاتا ہے کہ جن گناہ گاروں کو جہنم سے نکال کر جنت ميں داخل کيا جائے گا‪ ،‬يہ دخول‬
‫عارضی نہيں‪ ،‬ہميشہ کے لئے ہوگا اور تمام جنتی ہميشہ ہللا کی عطاء اور اس کی نعمتوں سے‬
‫لطف اندوز ہوتے رہيں گے‪ ،‬اور يہ ہميشہ کيلئے جاری رہے گا۔ اس ميں کبهی انقطاع نہيں ہوگا۔‬

‫فَ َال ت َكُ ِف ْي ِم ْريَ ٍة ِم َّما َي ْعبُ ُد ٰ ْٓهؤُ َ ْۗل ِء ۭ َما َي ْعبُد ُْونَ ا َِّْل َك َما َي ْعبُ ُد ٰا َب ۗاؤُ ُه ْم ِم ْن قَ ْب ُل ۭ َواِنَّا لَ ُم َوفُّ ْو ُه ْم ن ِ‬
‫َص ْي َب ُه ْم َ‬
‫غي َْر‬
‫ۧ؀‪١٠٩‬‬ ‫ص‬‫َم ْنقُ ْو ٍ‬
‫اس لئے آپ ان چيزوں سے شک و شبہ ميں نہ رہيں جنہيں يہ لوگ پوج رہے ہيں‪ ،‬ان کی پوجا تو‬
‫اس طرح ہے جس طرح ان کے باپ دادوں کی اس سے پہلے تهی۔ ہم ان سب کو ان کا پورا پورا‬
‫حصہ بغير کسی کمی کے دينے والے ہيں (‪)١‬‬
‫‪١٠٩‬۔‪ ١‬اس سے مراد وہ عذاب ہے جس کے وہ مستحق ہوں گے‪ ،‬اس ميں کوئی کمی نہيں کی‬
‫جائے گی۔‬

‫ي بَ ْينَ ُه ْم ۭ َواِنَّ ُه ْم لَ ِف ْي ش ٍَك ِم ْنهُ ُم ِر ْي ٍ‬


‫ب‬ ‫ت ِم ْن َّربِكَ لَقُ ِ‬
‫ض َ‬ ‫ف فِ ْي ِه ۭ َولَ ْو َْل َك ِل َمةٌ َ‬
‫سبَقَ ْ‬ ‫اخت ُ ِل َ‬
‫ب فَ ْ‬ ‫َولَقَ ْد ٰات َ ْينَا ُم ْو َ‬
‫سى ْال ِك ٰت َ‬
‫؁‪١١٠‬‬
‫موسی (عليہ السالم) کو کتاب دی۔ پهر اس ميں اختالف کيا گيا‪ )١( ،‬اگر پہلے ہی آپ‬ ‫ٰ‬ ‫يقينا ا ہم نے‬
‫کے رب کی بات صادر نہ ہوگئی ہوتی تو يقينا ا ان کا فيصلہ کر ديا جاتا (‪ )٢‬انہيں تو اس ميں سخت‬
‫شبہ ہے۔‬
‫‪١١٠‬۔‪ ١‬يعنی کسی نے اس کتاب کو مانا اور کسی نے نہيں مانا۔ يہ نبی کو تسلی دی جا رہی ہے کہ‬
‫پچهلے انبياء کے ساته بهی يہی معاملہ ہوتا آيا ہے‪ ،‬کچه لوگ ان پر ايمان ْلنے والے ہوتے اور‬
‫دوسرے تکذيب کرنے والے۔ اس لئے آپ اپنی تکذيب سے نہ گهبرائيں۔‬
‫‪١١٠‬۔‪ ٢‬اس سے مراد يہ ہے کہ اگر ہللا ٰ‬
‫تعالی نے پہلے ہی سے ان کے لئے عذاب کا ايک وقت‬
‫مقرر کيا ہوا نہ ہوتا تو وہ انہيں فورا ہالک کر ڈالتا۔‬

‫؁‪١١١‬‬ ‫َوا َِّن ُك اال لَّ َّما لَي َُوفِيَنَّ ُه ْم َربُّكَ ا َ ْع َمالَ ُه ْم ۭ اِنَّهٗ بِ َما يَ ْع َملُ ْونَ َخبِي ٌْر‬
‫يقينا ا ان ميں سے ہر ايک جب ان کے روبروجائے گا تو آپ کا رب اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ‬
‫دے گا بيشک وہ جو کر رہے ہيں ان سے وہ باخبر ہے۔‬

‫؁‪١١٢‬‬ ‫َاب َمعَكَ َو َْل ت َْطغ َْوا ۭ اِنَّهٗ بِ َما ت َ ْع َملُ ْونَ بَ ِ‬
‫صي ٌْر‬ ‫فَا ْست َ ِق ْم َك َما ْٓ ا ُ ِم ْرتَ َو َم ْن ت َ‬
‫پس آپ جمے رہيئے جيسا کہ آپ کو حکم ديا گيا ہے اور وہ لوگ بهی جو آپ کے ساته توبہ کر‬
‫چکے ہيں خبردار تم حد سے نہ بڑهنا (‪ )١‬ہللا تمہارے تمام اعمال کا ديکهنے واْل ہے۔‬
‫‪١١٢‬۔‪ ١‬اس آيت ميں نبی اور اہل ايمان کو ايک تو استقامت کی تلقين کی جا رہی ہے‪ ،‬جو دشمن‬
‫کے مقابلے کے لئے ايک بہت بڑا ہتهيار ہے۔ دوسرے حد سے بڑه جانے سے روکا گيا ہے‪ ،‬جو‬
‫اہل ايمان کی اخالقی قوت اور رفعت کردار کے لئے بہت ضروری ہے۔ ح ٰتی کہ يہ تجاوز‪ ،‬دشمن‬
‫کے ساته معاملہ کرتے وقت بهی جائز نہيں ہے۔‬

‫ّٰللاِ ِم ْن ا َ ْو ِليَ ۗا َء ث ُ َّم َْل ت ُ ْن َ‬


‫ص ُر ْونَ‬ ‫ار َو َما لَ ُك ْم ِم ْن د ُْو ِن ه‬ ‫َو َْل ت َْر َكنُ ْْٓوا اِلَى الَّ ِذيْنَ َ‬
‫ظلَ ُم ْوا فَت َ َم َّ‬
‫س ُك ُم النَّ ُ‬
‫؁‪١١۳‬‬
‫ديکهو ظالموں کی طرف ہرگز نہيں جهکنا ورنہ تمہيں بهی (دوزخ کی) آگ لگ جائے گی (‪ )١‬اور‬
‫ہللا کے سوا اور تمہارا مددگار نہ کهڑا ہو سکے گا اور نہ تم مدد ديئے جاؤ گے۔‬
‫‪١١۳‬۔‪ ١‬اس کا مطلب يہ ہے کہ ظالموں کے ساته نرمی کرتے ہوئے ان سے مدد حاصل مت کرنا۔‬
‫اس سے ان کو يہ تأثر ملے گا کہ گويا تم ان کی دوسری باتوں کو بهی پسند کرتے ہو۔ اس طرح يہ‬
‫تمہارا ايک بہت بڑا جرم بن جائے گا جو تمہيں بهی ان کے ساته‪ ،‬نار جہنم کا مستحق بنا سکتا ہے۔‬
‫اس سے ظالم حکمرانوں کے ساته ربط و تعلق کی بهی ممانعت نکلتی ہے‪ ،‬اگر مصلحت عامہ يا‬
‫دينی منافع متقاضی ہوں۔ ايسی صورت ميں دل سے نفرت رکهتے ہوئے ان سے ربط و تعلق کی‬
‫اجازت ہوگی۔ جيسا کہ بعض احاديث سے واضح ہے۔‬

‫ت ۭ ٰذلِكَ ِذ ْك ٰري ِللذه ِك ِريْنَ‬


‫س ِـي ٰا ِ‬
‫ت يُ ْذ ِهبْنَ ال َّ‬ ‫ار َو ُزلَفاا ِمنَ الَّ ْي ِل ۭ ا َِّن ْال َح َ‬
‫س ٰن ِ‬ ‫ص ٰلوة َ َ‬
‫ط َرفَي ِ النَّ َه ِ‬ ‫َوا َ ِق ِم ال َّ‬
‫ۚ؀‪١١٤‬‬
‫دن کے دونوں سروں ميں نماز برپا رکه اور رات کی کئی ساعتوں ميں بهی (‪ )١‬يقينا ا نيکياں‬
‫برائيوں کو دور کر ديتی ہيں (‪ )٢‬يہ نصيحت ہے نصيحت پکڑنے والوں کے لئے۔‬
‫‪١١٤‬۔‪ ١‬دونوں سروں سے مراد بعض نے صبح اور مغرب‪ ،‬اور بعض نے عشاء اور مغرب دونوں‬
‫کا وقت مراد ليا ہے۔ امام ابن کثير فرماتے ہيں کہ ممکن ہے کہ يہ آيت معراج سے قبل نازل ہوئی‬
‫ہو‪ ،‬جس ميں پانچ نمازيں فرض کی گئيں۔ کيونکہ اس سے قبل صرف دو ہی نما زيں ضروری‬
‫تهيں‪ ،‬ايک طلوع شمس سے قبل اور ايک غروب سے قبل اور رات کے پچهلے پہر ميں نماز تہجد۔‬
‫پهر نماز تہجد امت سے معاف کر دی گئی‪ ،‬پهر اس کا وجوب بقول بعض آپ سے بهی ساقط کر ديا‬
‫گيا۔ (ابن کثير) وہللا اعلم۔‬
‫‪١١٤‬۔‪ ٢‬جس طرح کہ احاديث ميں بهی اسے صراحت کے ساته بيان فرمايا گيا ہے۔ مثال پانچ‬
‫نمازيں‪ ،‬جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک‪ ،‬ان کے مابين ہونے والے‬
‫گناہوں کو دور کرنے والے ہيں‪ ،‬بشرطيکہ کبيرہ گناہوں سے اجتناب کيا جائے‪ ،‬ايک اور حديث‬
‫ميں رسول ہللا صلی ہللا عليہ وسلم نے فرمايا ' بتالؤ! اگر تم ميں سے کسی کے دروازے پر بڑی‬
‫نہر ہو‪ ،‬وہ ر وزانہ اس ميں پانچ مرتبہ نہاتا ہو‪ ،‬کيا اس کے بعد اس کے جسم پر ميل کچيل باقی‬
‫رہے گا؟ صحابہ نے عرض کيا ' نہيں' آپ نے فرمايا ' اسی طرح پانچ نمازيں ہيں‪ ،‬ان کے ذريعے‬
‫سے ہللا ٰ‬
‫تعالی گناہوں اور خطاؤں کو مٹا ديتا ہے '۔ (مسلم بخاری)‬

‫ض ْي ُع اَجْ َر ْال ُمحْ ِسنِيْنَ‬


‫؁‪١١٥‬‬ ‫ّٰللاَ َْل يُ ِ‬
‫صبِ ْر فَا َِّن ه‬
‫َوا ْ‬
‫تعالی نيکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہيں کرتا۔‬‫آپ صبر کرتے رہيئے يقينا ا ہللا ٰ‬

‫ع ِن ْالفَ َ‬
‫سا ِد فِي ْاْلَ ْر ِ‬
‫ض ا َِّْل قَ ِلي اْال ِم َّم ْن ا َ ْن َج ْينَا ِم ْن ُه ْم ۚ َواتَّبَ َع‬ ‫فَلَ ْو َْل َكانَ ِمنَ ْالقُ ُر ْو ِن ِم ْن قَ ْب ِل ُك ْم اُولُ ْوا بَ ِقيَّ ٍة يَّ ْن َه ْونَ َ‬
‫؁‪١١٦‬‬ ‫الَّ ِذيْنَ َ‬
‫ظلَ ُم ْوا َما ْٓ اُتْ ِرفُ ْوا فِ ْي ِه َو َكانُ ْوا ُمجْ ِر ِميْنَ‬
‫پس کيوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں ميں سے ايسے اہل خبر لوگ ہوئے جو زمين ميں‬
‫فساد پهيالنے سے روکتے‪ ،‬سوائے ان چند کے جنہيں ہم نے ان ميں سے نجات دی تهی (‪ )١‬ظالم‬
‫لوگ تو اس چيز کے پيچهے پڑ گئے جس ميں انہيں آسودگی دی گئی تهی اور وہ گنہگار تهے (‪)٢‬‬
‫‪١١٦‬۔ ‪ ١‬يعنی گزشتہ امتوں ميں ايسے نيک لوگ کيوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل منکر کو شر‪،‬‬
‫منکرات اور فساد سے روکتے؟ پهر فرمايا‪ ،‬ايسے لوگ تهے تو سہی‪ ،‬ليکن بہت تهوڑے۔ جنہيں ہم‬
‫نے اس وقت نجات دے دی‪ ،‬جب دوسروں کو عذاب کے ذريعے سے ہالک کيا گيا۔‬
‫‪١١٦‬۔‪ ٢‬يعنی يہ ظالم۔ اپنے ظلم پر قائم اور اپنی مد ہوشيوں ميں مست رہے ح ٰتی کہ عذاب نے انہيں‬
‫آ ليا۔‬

‫؁‪١١٧‬‬ ‫ظ ْل ٍم َّوا َ ْهلُ َها ُم ْ‬


‫ص ِل ُح ْونَ‬ ‫َو َما َكانَ َربُّكَ ِلـيُ ْهلِكَ ْالقُ ٰري بِ ُ‬
‫آپ کا رب ايسا نہيں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہالک کر دے اور وہاں کے لوگ نيکوکار ہوں۔‬

‫؀‪١١٨‬‬ ‫اح َدة ا َّو َْل يَزَ الُ ْونَ ُم ْخت َ ِل ِفيْنَ‬ ‫َولَ ْو ش َۗا َء َربُّكَ لَ َجعَ َل النَّ َ‬
‫اس ا ُ َّمةا َّو ِ‬
‫اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ايک ہی راہ پر ايک گروہ کر ديتا۔ وہ تو برابر اختالف‬
‫کرنے والے ہی رہيں گے۔‬

‫‪١١٩‬‬ ‫اس اَجْ َم ِعيْنَ‬ ‫ا َِّْل َم ْن َّر ِح َم َربُّكَ ۭ َو ِل ٰذلِكَ َخلَقَ ُه ْم ۭ َوت َ َّم ْ‬
‫ت َك ِل َمةُ َر ِبكَ َْلَ ْملَــــَٔ َّن َج َهنَّ َم ِمنَ ْال ِجنَّ ِة َوالنَّ ِ‬
‫؁‬
‫بجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے‪ ،‬انہيں تو اس لئے پيدا کيا ہے‪ )١( ،‬اور آپ کے رب‬
‫کی يہ بات پوری ہے کہ ميں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا (‪)٢‬‬
‫‪١١٩‬۔‪ ' ١‬اسی لئے ' کا مطلب بعض نے اختالف اور بعض نے رحمت ليا ہے۔ دونوں صورتوں ميں‬
‫مفہوم يہ ہوگا کہ ہم نے انسانوں کو آزمائش کے لئے پيدا کيا ہے۔ جو دين حق سے اختالف کا‬
‫ٰ‬
‫راستہ اختيار کرے گا‪ ،‬وہ آزمائش ميں ناکام اور جو اسے اپنا لے گا‪ ،‬وہ کامياب اور رحمت الہی کا‬
‫مستحق ہوگا۔‬
‫‪١١٩‬۔‪ ٢‬يعنی ہللا کی تقدير اور قضاء ميں يہ بات ثبت ہے کہ کچه لوگ ايسے ہونگے جو جنت کے‬
‫اور کچه ايسے ہونگے جو جہنم کے مستحق ہوں گے اور جنت و جہنم کو انسانوں اور جنوں سے‬
‫بهر ديا جائے گا۔ جيسا کہ حديث ميں ہے‪ ،‬نبی نے فرمايا ' جنت اور دوزخ آپس ميں جهگڑ پڑيں‪،‬‬
‫جنت نے کہا‪ ،‬کيا بات ہے کہ ميرے اندر وہی لوگ آئيں گے جو کمزور اور معاشرے کے گرے‬
‫پڑے لوگ ہوں گے؟ ' جہنم نے کہا ميرے اندر تو بڑے بڑے جبار اور متکبر قسم کے لوگ ہوں‬
‫تعالی نے‪ ،‬جنت سے فرمايا ' تو ميری رحمت کی مظہر ہے‪ ،‬تيرے ذريعے سے ميں جس‬ ‫گے ہللا ٰ‬
‫پر چاہوں اپنا رحم کروں۔ اور جہنم سے ہللا ٰ‬
‫تعالی نے فرمايا تو ميرے عذاب کی مظہر ہے تيرے‬
‫ذريعے سے ميں جس کو چاہوں سزا دوں۔ ہللا ٰ‬
‫تعالی جنت اور دوزخ دونوں کو بهر دے گا۔ جنت‬
‫ميں ہميشہ اس کا فضل ہوگا‪ ،‬ح ٰتی کہ ہللا ٰ‬
‫تعالی ايسی مخلوق پيدا فرمائے گا جو جنت کے باقی ماندہ‬
‫رقبے ميں رہے گی اور جہنم‪ ،‬جہنميوں کی کثرت کے باوجود نعرہ بلند کرے گی‪ ،‬يہاں تک کہ ہللا‬
‫تعالی اس ميں اپنا قدم رکهے گا جس پر جہنم پکار اٹهے گی قط قط وعزتک‪ ،‬بس‪ ،‬بس‪ ،‬تيری عزت‬ ‫ٰ‬
‫و جالل کی قسم ' (صحيح بخاری)‬

‫س ِل َما نُث َ ِبتُ ِب ٖه فُ َؤادَكَ ۚ َو َج ۗا َءكَ ِف ْي ٰه ِذ ِہ ْال َح ُّق َو َم ْو ِع َ‬


‫ظةٌ َّو ِذ ْك ٰري ِل ْل ُمؤْ ِمنِيْنَ‬ ‫علَيْكَ ِم ْن ا َ ْۢ ْن َب ۗا ِء ُّ‬
‫الر ُ‬ ‫َو ُك اال نَّقُ ُّ‬
‫ص َ‬
‫؁‪١٢٠‬‬
‫رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکين کے لئے بيان فرما رہے ہيں۔ آپ‬
‫کے پاس اس سورت ميں بهی حق پہنچ چکا جو نصيحت و وعظ ہے مومنوں کے لئے۔‬

‫؀‪١٢١‬‬ ‫ع ٰلي َم َكانَتِ ُك ْم ۭ اِنَّا ٰع ِملُ ْونَ‬


‫َوقُ ْل ِللَّ ِذيْنَ َْل يُؤْ ِمنُ ْونَ ا ْع َملُ ْوا َ‬
‫ايمان نہ ْلنے والوں سے کہہ ديجئے کہ تم اپنے طور پر عمل کئے جاؤ ہم بهی عمل ميں مشغول‬
‫ہيں۔‬

‫؁‪١٢٢‬‬ ‫َوا ْنت َِظ ُر ْوا ۚ اِنَّا ُم ْنت َِظ ُر ْونَ‬


‫اور تم بهی انتظار کرو ہم بهی منتطر ہيں (‪)١‬۔‬
‫‪١٢٢‬۔‪ ١‬يعنی عنقريب تمہيں پتہ چل جائے گا کہ حسن انجام کس کے حصے ميں آتا ہے اور يہ بهی‬
‫معلوم ہو جائے گا کہ ظالم لوگ کامياب نہيں ہونگے۔ چنانچہ يہ وعدہ جلد ہی پورا ہوا اور ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫نے مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمايا اور پورہ جزيرہ عرب اسالم کے زير نگين آ گيا۔‬

‫ع َّما ت َ ْع َملُ ْونَ‬ ‫ض َواِلَ ْي ِه ي ُْر َج ُع ْاْلَ ْم ُر ُكلُّهٗ فَا ْعبُ ْدہُ َوت ََو َّك ْل َ‬
‫علَ ْي ِه ۭ َو َما َربُّكَ ِبغَافِ ٍل َ‬ ‫ت َو ْاْلَ ْر ِ‬
‫ْب السَّمٰ ٰو ِ‬
‫غي ُ‬ ‫َو ِ ه ِ‬
‫ّٰلل َ‬
‫ۧ؀‪١٢۳‬‬
‫زمينوں اور آسمانوں کا علم غيب ہللا ٰ‬
‫تعالی ہی کو ہے‪ ،‬تمام معامالت کا رجوع بهی اسی کی جانب‬
‫ہے‪ ،‬پس تجهے اس کی عبادت کرنی چاہيے اور اسی پر بهروسہ رکهنا چاہيے اور تم جو کچه‬
‫کرتے ہو اس سے ہللا ٰ‬
‫تعالی بےخبر نہيں۔‬

‫سورة يوسف‬
‫(سورة يوسف ۔ سورہ نمبر ‪ ١٢‬۔ تعداد آيات ‪)١١١‬‬

‫۝‬ ‫الر ِحي ِْم‬ ‫ّٰللاِ َّ‬


‫الرحْ مٰ ِن َّ‬ ‫ِبس ِْم ه‬
‫شروع کرتا ہوں ميں ہللا ٰ‬
‫تعالی کے نام سے جو بڑا مہربان نہايت رحم واْل ہے‬

‫‪ۣǺ‬۝‬ ‫ۗال ٰر ۣ ِت ْلكَ ٰايٰتُ ْال ِك ٰت ِ‬


‫ب ْال ُمبِي ِْن‬
‫يہ روشن کتاب کی آيتيں ہيں۔‬
‫‪Ą‬۝‬ ‫اِنَّا ْٓ ا َ ْنزَ ْل ٰنهُ قُ ْرءٰ ناا َ‬
‫ع َربِياا لَّعَلَّ ُك ْم ت َ ْع ِقلُ ْونَ‬
‫يقينا ا ہم نے اس قرآن کو عربی زبان ميں نازل فرمايا ہے کہ تم سمجه سکو (‪)١‬‬
‫‪٢‬۔‪ ١‬آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد‪ ،‬لوگوں کی ہدايت اور رہنمائی ہے اور يہ مقصد اس وقت‬
‫حاصل ہو سکتا ہے جب وہ کتاب اس زبان ميں ہو جس کو وہ سمجه سکيں‪ ،‬اس لئے ہر آسمانی‬
‫کتاب اس قومی زبان ميں نازل ہوئی‪ ،‬جس قوم کی ہدايت کے لئے اتاری گئی تهی۔ قرآن کريم کے‬
‫مخاطب اول چونکہ عرب تهے‪ ،‬اس لئے قرآن بهی عربی زبان ميں نازل ہوا عالوہ ازيں عربی‬
‫زبان اپنی فصاحت و بالغت اور ادائے معانی کے لحاظ سے دنيا کی بہترين زبان ہے۔ اس لئے ہللا‬
‫تعالی نے اس اشرف الکتاب (قرآن مجيد) کو اشرف اللغات (عربی) ميں اشرف الرسل (حضرت‬ ‫ٰ‬
‫محمد صلی ہللا عليہ و سلم) پر اشرف المالئکہ (جبرائيل) کے ذريعے سے نازل فرمايا اور مکہ‪،‬‬
‫جہاں اس کا آغاز ہوا‪ ،‬دنيا کا اشرف ترين مقام ہے اور جس مہينے ميں نزول کی ابتدا ہوئی وہ بهی‬
‫اشرف ترين مہينہ۔ رمضان ہے۔‬

‫ص بِ َما ْٓ ا َ ْو َح ْينَا ْٓ اِلَيْكَ ٰه َذا ْالقُ ْر ٰانَ ڰ َوا ِْن ُك ْنتَ ِم ْن قَ ْب ِل ٖه لَ ِمنَ ْال ٰغ ِف ِليْنَ‬ ‫سنَ ْالقَ َ‬
‫ص ِ‬ ‫علَيْكَ اَحْ َ‬ ‫نَحْ ُن نَقُ ُّ‬
‫ص َ‬
‫‪Ǽ‬۝‬
‫ہم آپ کے سامنے بہترين بيان (‪ )١‬پيش کرتے ہيں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب يہ قرآن‬
‫وحی کے ذريعے نازل کيا اور يقينا ا آپ اس سے پہلے بےخبروں ميں تهے (‪)٢‬۔‬
‫‪۳‬۔‪ ١‬قصص‪ ،‬يہ مصدر ہے معنی ہيں کسی چيز کے پيچهے لگنا مطلب دلچسپ واقعہ ہے قصہ‪،‬‬
‫محض کہانی يا طبع زاد افسانے کو نہيں کہا جاتا بلکہ ماضی ميں گزر جانے والے واقعے کے بيان‬
‫کو قصہ کہا جاتا ہے۔ يہ گويا ماضی کا واقعی اور حقيقی بيان ہے اور اس واقع ميں حسد و عناد کا‬
‫انجام‪ ،‬تائيد ٰالہی کی کرشمہ سازياں‪ ،‬نفس امارہ کی شورشيں اور سرکشيوں کا نتيجہ اور ديگر‬
‫انسانی عوارض و حوارث کا نہايت دلچسپ بيان اور عبرت انگيز پہلو ہيں‪ ،‬اس لئے اس قرآن نے‬
‫احسن القصص(بہترين بيان) سے تعبير کيا ہے۔‬
‫‪۳‬۔‪ ٢‬قرآن کريم کے ان الفاظ سے بهی واضح ہے نبی کريم عالم الغيب نہيں تهے‪ ،‬ورنہ ہللا ٰ‬
‫تعالی آپ‬
‫کو بےخبر قرار نہ ديتا‪ ،‬دوسری بات يہ معلوم ہوئی کہ آپ ہللا کے سچے نبی ہيں کيونکہ آپ پر‬
‫وحی کے ذريعے سے ہی سچا واقعہ بيان کيا گيا ہے۔ آپ نہ کسی کے شاگرد تهے‪ ،‬کہ کسی استاد‬
‫سے سيکه کر بيان فرما ديتے‪ ،‬نہ کسی اور سے ہی ايسا تعلق تها کہ جس سے سن کر تاريخ کا يہ‬
‫تعالی ہی نے وحی کے ذريعے سے‬ ‫واقعہ اپنے اہم جزئيات کے ساته آپ نشر کر ديتے۔ يہ يقينا ا ہللا ٰ‬
‫آپ پر نازل فرمايا ہے جيسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔‬

‫‪Ć‬۝‬ ‫س َو ْالقَ َم َر َرا َ ْيت ُ ُه ْم ِل ْي سٰ ِج ِديْنَ‬ ‫عش ََر َك ْو َكباا َّوال َّ‬
‫ش ْم َ‬ ‫ف ِْلَبِ ْي ِه ٰيْٓاَبَ ِ‬
‫ت اِنِ ْى َراَيْتُ ا َ َح َد َ‬ ‫اِ ْذ قَا َل ي ُْو ُ‬
‫س ُ‬
‫جب کہ يوسف (‪ )١‬نے اپنے باپ سے ذکر کيا کہ ابا جان ميں نے گيارہ ستاروں کو اور سورج‬
‫چاند کو (‪ )٢‬ديکها کہ وہ سب مجهے سجدہ کر رہے ہيں۔‬
‫‪٤‬۔‪ ١‬يعنی اے محمد! (صلی ہللا عليہ وسلم) اپنی قوم کے سامنے يوسف عليہ السالم کا قصہ بيان‬
‫کرو‪ ،‬جب اس نے اپنے باپ کو کہا باپ حضرت يعقوب عليہ السالم تهے‪ ،‬جيسا کہ دوسرے مقام پر‬
‫صراحت ہے اور حديث ميں بهی يہ نسب بيان کيا گيا ہے۔ (يوسف بن يعقوب بن اسحاق بن ابراہيم)۔‬
‫او ر حديث ميں نسب بيان کيا گيا ہے۔ الکريم ابن الکريم ابن الکريم ابن الکريم يوسف بن يعقوب بن‬
‫اسحاق بن ابراہيم (مسند احمد جلد ‪ ،٢‬ص‪)٩٦‬‬
‫‪٤‬۔‪ ٢‬بعض مفسرين نے کہا ہے کہ گيارہ ستاروں سے مراد حضرت يوسف عليہ السالم کے بهائی‬
‫ہيں جو گيارہ تهے چاند سورج سے مراد ماں اور باپ ہيں اور خواب کی تعبير چاليس يا اسی سال‬
‫کے بعد اس وقت سامنے آئی جب يہ سارے بهائی اپنے والدين سميت مصر گئے اور وہاں حضرت‬
‫يوسف عليہ السالم کے سامنے سجدہ ريز ہوگئے‪ ،‬جيسا کہ يہ تفصيل سورت کے آخر ميں آئے گی۔‬

‫‪Ĉ‬۝‬ ‫عد ٌُّو ُّم ِبي ٌْن‬


‫ان َ‬
‫س ِ‬‫ال ْن َ‬ ‫ع ٰلْٓي ا ِْخ َوتِكَ فَيَ ِك ْيد ُْوا لَكَ َك ْيداا ۭ ا َِّن ال َّ‬
‫شي ْٰطنَ ِل ْ ِ‬ ‫ص ُر ْءيَاكَ َ‬ ‫ي َْل ت َ ْق ُ‬
‫ص ْ‬ ‫قَا َل ٰيبُنَ َّ‬
‫يعقوب نے کہا پيارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بهائيوں سے نہ کرنا۔ ايسا نہ ہو کہ وہ‬
‫تيرے ساته کوئی فريب کاری کريں (‪ )١‬شيطان تو انسان کا کهال دشمن ہے (‪)٢‬۔‬
‫‪٥‬۔‪ ١‬حضرت يعقوب عليہ السالم نے خواب سے اندازہ لگا ليا کہ ان کا يہ بيٹا عظمت شان کا حامل‬
‫ہوگا‪ ،‬اس لئے انہيں انديشہ ہوا کہ يہ خواب سن کر اس کے دوسرے بهائی بهی اس کی عظمت کا‬
‫اندازہ کر کے کہي ں اسے نقصان نہ پہنچائيں‪ ،‬بنا بريں انہوں نے يہ خواب بيان کرنے سے منع‬
‫فرمايا۔‬
‫‪٥‬۔‪ ٢‬يہ بهائيوں کے مکروفريب کی وجہ بيان فرما دی کہ شيطان چونکہ انسان کا ازلی دشمن ہے‬
‫اس لئے وہ انسانوں کو بہکانے‪ ،‬گمراہ کرنے اور انہيں حسد و بغض ميں مبتال کرنے ميں ہر وقت‬
‫کوشاں اور تاک ميں رہتا ہے۔ چنانچہ يہ شيطان کے لئے بڑا اچها موقع تها کہ وہ حضرت يوسف‬
‫عليہ السالم کے خالف بهائيوں کے دلوں ميں حسد اور بغض کی آگ بهڑکا دے۔ جيسا کہ فی الواقع‬
‫بعد ميں اس نے ايسا ہی کيا اور حضرت يعقوب عليہ السالم کا انديشہ درست ثابت ہوا۔‬
‫ع ٰلْٓي‬
‫ب َك َما ْٓ اَت َ َّمــ َها َ‬
‫ث ويُـــتِم نِعمت َهٗ علَيْكَ و ْٓ‬
‫ع ٰلي ٰا ِل َي ْعقُ ْو َ‬
‫َ َ‬ ‫ُّ ْ َ َ‬ ‫َو َك ٰذلِكَ َيجْ تَبِيْكَ َربُّكَ َويُ َع ِل ُمكَ ِم ْن تَا ْ ِو ْي ِل ْاْلَ َحا ِد ْي ِ َ‬
‫‪ۧČ‬۝‬ ‫اَبَ َويْكَ ِم ْن قَ ْب ُل اِب ْٰر ِهي َْم َواِ ْسحٰ قَ ۭ ا َِّن َربَّكَ َ‬
‫ع ِل ْي ٌم َح ِك ْي ٌم‬
‫اور اسی طرح تجهے (‪ )١‬تيرا پروردگار برگزيدہ کرے گا اور تجهے معاملہ فہمی (يا خوابوں کی‬
‫تعبير) بهی سکهائے گا اور اپنی نعمت تجهے بهرپور عطا فرمائے گا (‪ )٢‬اور يعقوب کے گهر‬
‫والوں کو بهی (‪ )۳‬جيسے کہ اس نے پہلے تيرے دادا پردادا يعنی ابراہيم و اسحاق کو بهی بهرپور‬
‫اپنی رحمت دی‪ ،‬يقينا ا تيرا رب بہت بڑے علم واْل اور زبردست حکمت واْل ہے۔‬
‫‪٦‬۔ ‪ ١‬يعنی جس طرح تجهے تيرے رب نے نہايت عظمت واْل خواب دکهانے کے لئے چن ليا‪ ،‬اسی‬
‫طرح تيرا رب تجهے برگزيدگی بهی عطا کرے گا اور خوابوں کی تعبير سکهائے گا۔ تاويل‬
‫اْلحاديث کے اصل معنی باتوں کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ يہاں خواب کی تعبير مراد ہے۔‬
‫‪٦‬۔‪ ٢‬اس سے مراد نبوت ہے جو يوسف عليہ السالم کو عطا کی گئی۔ يا وہ انعامات ہيں جن سے‬
‫مصر ميں يوسف عليہ السالم نوازے گئے۔‬
‫‪٦‬۔‪ ۳‬اس سے مراد حضرت يوسف عليہ السالم کے بهائی‪ ،‬ان کی اوْلد وغيرہ ہيں‪ ،‬جو بعد ميں‬
‫انعامات ٰالہی کے مستحق بنے۔‬

‫‪Ċ‬۝‬ ‫س ۗاى ِليْنَ‬


‫ف َوا ِْخ َوتِ ٖ ْٓه ٰايٰتٌ ِلل َّ‬ ‫لَقَ ْد َكانَ فِ ْي ي ُْو ُ‬
‫س َ‬
‫يقينا ا يوسف اور اس کے بهائيوں ميں دريافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانياں (‪ )١‬ہيں۔‬
‫تعالی کی عظيم قدرت اور نبی کريم کی نبوت کی صداقت کی بڑی‬ ‫‪٧‬۔‪ ١‬يعنی اس قصے ميں ہللا ٰ‬
‫نشانياں ہيں۔ بعض مفسرين نے يہاں ان بهائيوں کے نام اور ان کی تفصيل بهی بيان کی ہے۔‬
‫‪Ď‬۝ښ‬ ‫ض ٰل ٍل ُّمبِي ُۨ ِْن‬
‫صبَةٌ ۭ ا َِّن اَبَانَا لَ ِف ْي َ‬ ‫ف َوا َ ُخ ْوہُ ا َ َحبُّ ا ِٰلْٓي اَبِ ْينَا ِمنَّا َونَحْ ُن ُ‬
‫ع ْ‬ ‫اِ ْذ قَالُ ْوا لَي ُْو ُ‬
‫س ُ‬
‫جب کہ انہوں نے کہا کہ يوسف اور اس کا بهائی (‪ )١‬بہ نسبت ہمارے‪ ،‬باپ کو بہت زيادہ پيارے‬
‫ہيں حاْلنکہ ہم (طاقتور) جماعت (‪ )٢‬ہيں‪ ،‬کوئی شک نہيں کہ ہمارے ابا صريح غلطی ميں ہيں۔‬
‫‪٨‬۔‪ ' ١‬اس کا بهائی ' سے مراد بنيامين ہے۔‬
‫‪٨‬۔‪ ٢‬يعنی ہم دس بهائی طاقتور جماعت اور اکثريت ميں ہيں‪ ،‬جب کہ يوسف عليہ السالم اور بنيامين‬
‫(جن کی ماں الگ تهی) صرف دو ہيں‪ ،‬اس کے باوجود باپ کی آنکهوں کا نور اور دل کا سرور‬
‫ہيں۔‬
‫‪٨‬۔‪ ۳‬يہاں ضالل سے مراد غلطی ہے جو ان کے زعم کے مطابق باپ سے يوسف عليہ السالم اور‬
‫بنيامين سے زيادہ محبت کی صورت ميں صادر ہوئی۔‬

‫‪Ḍ‬؁‬ ‫ضا ي َّْخ ُل لَ ُك ْم َوجْ هُ اَبِ ْي ُك ْم َوت َ ُك ْونُ ْوا ِم ْۢ ْن َب ْعد ِٖہ قَ ْو اما صٰ ِل ِح ْينَ‬ ‫ف ا َ ِو ْ‬
‫اط َر ُح ْوہُ ا َ ْر ا‬ ‫ا ْقــتُلُ ْوا ي ُْو ُ‬
‫س َ‬
‫يوسف کو مار ہی ڈالو اسے کسی (نامعلوم) جگہ پهينک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری‬
‫طرف ہی ہو جائے۔ اس کے بعد تم نيک ہو جانا (‪)١‬۔‬
‫‪٩‬۔‪ ١‬اس سے مراد تائب ہو جانا ہے يعنی کنوئيں ميں ڈال کر يا قتل کر کے ہللا سے اس گناہ کے‬
‫لئے توبہ کرليں گے۔‬

‫َّارةِ ا ِْن ُك ْنت ُ ْم ٰف ِع ِليْنَ‬


‫سـي َ‬ ‫ب َي ْلت َ ِق ْ‬
‫طهُ َب ْع ُ‬
‫ض ال َّ‬ ‫ت ْال ُج ِ‬ ‫ف َوا َ ْلقُ ْوہُ فِ ْي َ‬
‫غ ٰي َب ِ‬ ‫قَا َل قَ ۗاى ٌل ِم ْن ُه ْم َْل ت َـ ْقتُلُ ْوا ي ُْو ُ‬
‫س َ‬
‫۝‪10‬‬
‫ان ميں سے ايک نے کہا يوسف کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کسی اندهے کنوئيں (کی تہ) ميں ڈال آؤ‬
‫کہ (‪ )١‬اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹها لے جائے اگر تمہيں کرنا ہی ہے تو يوں کرو (‪)٢‬۔‬
‫‪١٠‬۔‪ ١‬جب کنويں کو اور َ‬
‫غيَابَۃ اس کی تہ اور گہرائی کو کہتے ہيں‪ ،‬کنواں ويسے بهی گہرا ہی ہوتا‬
‫ہے اور اس ميں گری ہوئی چيز کسی کو نظر نہيں آتی۔ جب اس کے ساته کنويں کی گہرائی کا‬
‫بهی ذکر کيا تو گويا مبالغے کا اظہار کيا۔‬
‫‪١٠‬۔‪ ٢‬يعنی آنے جانے والے نو وارد مسافر‪ ،‬جب پانی کی تالش ميں کنوئيں پر آئيں گے تو ممکن‬
‫ہے کسی کے علم ميں آ جائے کہ کنوئيں ميں کوئی انسان گرا ہوا ہے اور وہ اسے نکال کر اپنے‬
‫ساته لے جائيں۔ يہ تجويز ايک بهائی نے ازراہ شفقت پيش کی تهی۔ قتل کے مقابلے ميں يہ تجويز‬
‫واقعتا ہمدردی کے جذبات ہی کی حامل ہے۔ بهائيوں کی آتش حسد اتنی بهڑکی ہوئی تهی کہ يہ‬
‫تجويز بهی اس نے ڈرتے ڈرتے ہی پيش کی کہ اگر تمہيں کچه کرنا ہی ہے تو يہ کام اس طرح کر‬
‫لو۔‬
‫؀‪11‬‬ ‫ف َواِنَّا لَهٗ لَ ٰن ِ‬
‫ص ُح ْونَ‬ ‫ع ٰلي ي ُْو ُ‬
‫س َ‬ ‫قَالُ ْوا ٰيْٓاَبَانَا َمالَكَ َْل تَا ْ َمنَّا َ‬
‫انہوں نے کہا ابا! آخر آپ يوسف (عليہ السالم) کے بارے ميں ہم پر اعتبار کيوں نہيں کرتے ہم تو‬
‫اس کے خير خواہ ہيں (‪)١‬۔‬
‫‪١١‬۔‪ ١‬اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شايد اس سے قبل بهی برداران يوسف عليہ السالم نے يوسف عليہ‬
‫السالم کو اپنے ساته لے جانے کی کوشش کی ہوگی اور باپ نے انکار کر ديا ہوگا۔‬

‫‪ 12‬؀‬ ‫غداا ي َّْرت َْع َويَ ْل َعبْ َواِنَّا لَهٗ لَحٰ ِف ُ‬


‫ظ ْونَ‬ ‫ا َ ْر ِس ْلهُ َم َعنَا َ‬
‫کل آپ اسے ضرور ہمارے ساته بهيج ديجئے کہ خوب کهائے پيئے اور کهيلے (‪ )١‬اس کی‬
‫حفاظت کے ہم ذمہ دار ہيں۔‬
‫‪١٢‬۔‪ ١‬کهيل اور تفريح کا رجحان‪ ،‬انسان کی فطرت ميں شامل ہے۔ اسی لئے جائز کهيل اور تفريح‬
‫پر ہللا ٰ‬
‫تعالی نے کسی دور ميں بهی پابندی عائد نہيں کی۔ اسالم ميں بهی اجازت ہے ليکن مشروط۔‬
‫يعنی ايسے کهيل اور تفريح جائز جن ميں شرع قباحت نہ ہو يا محرمات تک پہنچنے کا ذريعہ بنيں۔‬
‫چنانچہ حضرت يعقوب عليہ السالم نے بهی کهيل کود کی حد تک کوئی اعتراض نہيں کيا۔ البتہ يہ‬
‫خدشہ ظاہر کيا کہ تم کهيل کود ميں مدہوش ہو جاؤ اور اسے بهڑيا کها جائے‪ ،‬کيونکہ کهلے‬
‫ميدانوں اور صحراؤں ميں وہاں بهيڑيئے عام تهے۔‬

‫‪ 13‬؀‬ ‫ع ْنهُ ٰغ ِفلُ ْونَ‬ ‫الذئْ ُ‬


‫ب َوا َ ْنت ُ ْم َ‬ ‫قَا َل اِنِ ْى لَيَحْ ُزنُنِ ْْٓي ا َ ْن ت َ ْذ َهب ُْوا بِ ٖه َواَخ ُ‬
‫َاف ا َ ْن يَّا ْ ُكلَهُ ِ‬
‫(يعقوب عليہ السالم نے کہا) اسے تمہارا لے جانا مجهے تو سخت صدمہ دے گا اور مجهے يہ بهی‬
‫کهٹکا لگا رہے گا کہ تمہاری غفلت ميں اس بهيڑيا کها جائے۔‬

‫؀‪14‬‬ ‫صبَةٌ اِنَّا ْٓ اِذاا لَّ ٰخ ِس ُر ْونَ‬


‫ع ْ‬ ‫ب َون ُ‬
‫َحْن ُ‬ ‫قَالُ ْوا لَى ْن ا َ َكلَهُ ِ‬
‫الذئْ ُ‬
‫انہوں نے جواب ديا کہ ہم جيسی (زور آور) جماعت کی موجودگی ميں بهی اگر اسے بهيڑيا کها‬
‫جائے تو ہم بالکل نکمے ہی (‪ )١‬ہوئے۔‬
‫‪١٤‬۔‪ ١‬يہ باپ کو يقين دْليا جا رہا ہے کہ يہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اتنے بهائيوں کی‬
‫موجودگی ميں بهيڑيا يوسف عليہ السالم کو کها جائے۔‬

‫ت ْال ُج ِ‬
‫ب ۚ َوا َ ْو َح ْينَا ْٓ اِلَ ْي ِه لَتُنَبِئَنَّ ُه ْم بِا َ ْم ِر ِه ْم ٰه َذا َو ُه ْم َْل يَ ْشعُ ُر ْونَ‬ ‫فَلَ َّما َذ َهب ُْوا بِ ٖه َواَجْ َمعُ ْْٓوا ا َ ْن يَّجْ َعلُ ْوہُ فِ ْي َ‬
‫غ ٰيبَ ِ‬
‫؀‪15‬‬
‫پهر جب اسے لے چلے اور سب نے ملکر ٹهان ليا اسے غير آباد گہرے کنوئيں کی تہ ميں پهينک‬
‫ديں‪ ،‬ہم نے يوسف (عليہ السالم) کی طرف وحی کی کہ يقينا ا (وقت آرہا ہے کہ) تو انہيں اس ماجرا‬
‫کی خبر اس حال ميں دے گا کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں (‪)١‬‬
‫‪١٥‬۔‪ ١‬قرآن کريم نہايت اختصار کے ساته واقعہ بيان کر رہا ہے۔ مطلب يہ ہے کہ جب سوچے‬
‫ٰ‬
‫سمجهے منصوبے کے مطابق انہوں نے يوسف عليہ السالم کو کنويں ميں پهينک ديا‪ ،‬تو ہللا تعالی‬
‫نے حضرت يوسف عليہ السالم کی تسلی اور حوصلے کے لئے وحی کی کہ گهبرانے کی‬
‫ضرورت نہيں ہے‪ ،‬ہم تيری حفاظت ہی نہيں کريں گے بلکہ ايسے بلند مقام پر تجهے فائز کريں‬
‫گے کہ يہ بهائی بهيک مانگتے ہوئے تيری خدمت ميں حاضر ہونگے اور پهر تو انہيں بتائے گا کہ‬
‫تم نے اپنے ايک بهائی کے ساته اس طرح سنگ دْلنہ معاملہ کيا تها‪ ،‬جسے سن کر وہ حيران اور‬
‫پشيمان ہو جائيں گے۔ حضرت يوسف عليہ اْلسالم اس وقت اگرچہ بچے تهے‪ ،‬ليکن جو بچے‪،‬‬
‫نبوت پر سرفراز ہونے والے ہوں‪ ،‬ان پر بچپن ميں بهی وحی آ جاتی ہے‬
‫عيسی و ٰ‬
‫يحيی وغيرہ عليہم السالم پر آئی۔‬ ‫ٰ‬ ‫جيسے حضرت‬

‫ۭ۝‪16‬‬ ‫َو َج ۗا ُء ْْٓوا اَبَا ُه ْم ِعش َۗا اء يَّ ْب ُك ْونَ‬


‫اور عشاء کے وقت (وہ سب) اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے پہنچے۔‬

‫ب ۚ َو َما ْٓ ا َ ْنتَ ِب ُمؤْ ِم ٍن لَّنَا َولَ ْو ُكنَّا صٰ ِدقِيْنَ‬ ‫ف ِع ْن َد َمت َا ِعنَا فَا َ َكلَهُ ِ‬
‫الذئْ ُ‬ ‫قَالُ ْوا ٰيْٓا َ َبانَا ْٓ اِنَّا َذ َه ْبنَا نَ ْستَبِ ُق َوت ََر ْكنَا ي ُْو ُ‬
‫س َ‬
‫؀‪17‬‬
‫اور کہنے لگے ابا جان ہم تو آپس ميں دوڑ ميں لگ گئے اور يوسف (عليہ السالم) کو ہم نے اسباب‬
‫نہ مانيں گے‪ ،‬گو ہم بالکل سچے ہی‬‫کے پاس چهوڑا تها پس اسے بهيڑيا کها گيا‪ ،‬آپ تو ہماری بات ٰ‬
‫ہوں (‪)١‬‬
‫‪١٧‬۔ ‪ ١‬يعنی اگر ہم آپ کے نزديک معتبر اور اہل صدق ہوتے‪ ،‬تب بهی يوسف عليہ السالم کے‬
‫معاملے ميں آپ ہماری بات کی تصديق نہ کرتے‪ ،‬اب تو ويسے ہماری حيثيت متہم افراد کی سی‬
‫ہے‪ ،‬اب آپ کس طرح ہماری بات کی تصديق کريں گے؟‬

‫ع ٰلي َما‬ ‫ّٰللاُ ْال ُم ْست َ َع ُ‬


‫ان َ‬ ‫ت لَ ُك ْم ا َ ْنفُ ُ‬
‫س ُك ْم ا َ ْم ارا ۭ فَ َ‬
‫صب ٌْر َج ِم ْي ٌل ۭ َو ه‬ ‫س َّولَ ْ‬
‫ب ۭ قَا َل َب ْل َ‬ ‫ع ٰلي قَ ِمي ِ‬
‫ْص ٖه ِب َد ٍم َك ِذ ٍ‬ ‫َو َج ۗا ُء ْو َ‬
‫؀‪18‬‬ ‫َصفُ ْونَ‬ ‫ت ِ‬
‫اور يوسف کے کرتے کو جهوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بهی کر ْلئے تهے‪ ،‬باپ نے کہا‬
‫يوں نہيں‪ ،‬بلکہ تم نے اپنے دل ہی ميں سے ايک بات بنالی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے‪ ،‬اور تمہاری‬
‫بنائی ہوئی باتوں پر ہللا ہی سے مدد کی طلب ہے۔‬
‫‪١٨‬۔‪ ١‬کہتے ہيں کہ ايک بکری کا بچہ ذبح کر کے يوسف عليہ السالم کی قميص خون ميں لت پت‬
‫کر لی اور يہ بهول گئے کہ بهيڑيا اگر يوسف عليہ السالم کو کهاتا تو قميص کو بهی پهٹنا تها‪،‬‬
‫قميص ثابت کی ثابت ہی تهی جس کو ديکه کر‪ ،‬عالوہ ازيں حضرت يوسف عليہ السالم کے خواب‬
‫اور فراست نبوت سے اندازہ لگا کر حضرت يعقوب عليہ السالم نے فرمايا کہ يہ واقعہ اس طرح‬
‫پيش نہيں آيا جو تم بيان کر رہے ہو‪ ،‬بلکہ تم نے اپنے دلوں سے ہی يہ بات بنا لی ہے‪ ،‬حضرت‬
‫يعقوب اس کی تفصيل سے بےخبر تهے‪ ،‬اس لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ اور ہللا کی مدد‬
‫کے عالوہ کوئی سہارا نہ تها۔‬
‫‪١٨‬۔‪ ١‬منافقين نے جب حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا پر تہمت لگائی تو انہوں نے بهی نبی صلی‬
‫ہللا عليہ وسلم کے افہام وارشاد کے جواب ميں فرمايا تها۔ وہللا ْل اجدلی وْللکم مثال اْل ابا يوسف‬
‫(فصبر جميل وہللا المستعان علی ماتصفون) ہللا کی قسم ميں اپنے اور آپ لوگوں کے ليے وہی مثال‬
‫پاتی ہوں جس سے يوسف عليہ السالم کے باپ يعقوب عليہ السالم کو سابقہ پيش آيا تها اور انہوں‬
‫نے فصبر جمعيل کہہ کر صبر کا راستہ اختيار کيا تها‪ ،‬يعنی ميرے ليے بهی سوائے صبر کے‬
‫کوئی چارہ نہيں۔‬

‫ع ِل ْي ْۢ ٌم ِب َما‬ ‫عةا ۭ َو ه‬
‫ّٰللاُ َ‬ ‫ضا َ‬ ‫غ ٰل ٌم ۭ َوا َ َ‬
‫س ُّر ْوہُ ِب َ‬ ‫سلُ ْوا َو ِار َد ُه ْم فَاَد ْٰلى َد ْل َو ٗہ ۭ قَا َل ٰيبُ ْش ٰري ٰه َذا ُ‬
‫َّارة ٌ فَا َ ْر َ‬
‫سي َ‬ ‫َو َج ۗا َء ْ‬
‫ت َ‬
‫۝‪19‬‬ ‫َي ْع َملُ ْونَ‬
‫اور ايک قافلہ آيا اور انہوں نے اپنے پانی ْلنے والے کو بهيجا اس نے اپنا ڈول لٹکا ديا‪ ،‬کہنے لگا‬
‫واہ واہ خوشی کی بات ہے يہ تو ايک لڑکا ہے (‪ )١‬انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چهپا‬
‫ليا (‪ )٢‬اور ہللا ٰ‬
‫تعالی اس سے باخبر تها جو وہ کر رہے تهے۔‬
‫‪١٩‬۔‪ ١‬وارد اس شخص کو کہتے ہيں جو قافلے کے لئے پانی وغيرہ انتظام کرنے کی غرض سے‬
‫قافلے کے آگے آگے چلتا ہے تاکہ مناسب جگہ ديکه کر قافلے کو ٹهيرايا جا سکے يہ وراد (جب‬
‫کنويں پر آيا اور اپنا ڈول نيچے لٹکايا تو حضرت يوسف عليہ السالم نے اس کی رسی پکڑ لی‪،‬‬
‫وارد نے ايک خوش شکل بچہ ديکها تو اسے اوپر کهنچ ليا اور بڑا خوش ہوا۔ ‪١٩‬۔‪٢‬بضاعۃ سامان‬
‫تجارت کو کہتے ہيں اسروہ کا فاعل کون ہے؟ يعنی يوسف کو سامان تجارت سمجه کر چهپانے واْل‬
‫کون ہے؟ اس ميں اختالف ہے۔ حافظ ابن کثير نے برادران يوسف عليہ السالم کو فاعل قرار ديا ہے‬
‫مطلب يہ ہے کہ جب ڈول کے ساته يوسف عليہ السالم بهی کنويں سے باہر نکل آئے تو وہاں يہ‬
‫بهائی بهی موجود تهے‪ ،‬تاہم انہوں نے اصل حقيقت کو چهپائے رکها‪ ،‬يہ نہيں کہا کہ يہ ہمارا بهائی‬
‫ہے اور حضرت يوسف عليہ السالم نے بهی قتل کے انديشے سے اپنا بهائی ہونا ظاہر نہيں کيا بلکہ‬
‫بهائيوں نے انہيں فروختنی قرار ديا تو خاموش رہے اور اپنا فروخت ہونا پسند کر ْليا۔ چنانچہ اس‬
‫وارد نے اہل قافلہ کو يہ خوشخبری سنائی کہ ايک بچہ فروخت ہو رہا ہے۔ مگر يہ بات سياق سے‬
‫ميل کهاتی نظر نہيں آتی۔ ان کے برخالف امام شوکانی نے اسروہ کا فاعل وارد اور اس کے‬
‫ساتهيوں کو قرار ديا ہے کہ انہوں نے يہ ظاہر نہيں کيا کہ يہ بچہ کنويں سے نکال ہے کيونکہ اس‬
‫طرح تمام اہل قافلہ اس سامان تجارت ميں شريک ہو جاتے بلکہ اہل قافلہ کو انہوں نے جا کر يہ‬
‫بتاليا کہ کنويں کے مالکوں نے يہ بچہ ان کے سپرد کيا ہے تاکہ اسے وہ مصر جا کر بيچ ديں۔‬
‫مگر اقرب ترين بات يہ ہے کہ اہل قافلہ نے بچے کو سامان تجارت قرار دے کر چهپا ليا کہ کہيں‬
‫اس کے عزيز واقارب اس کی تالش ميں نہ آ پہنچيں۔ اور يوں لينے کے دينے پڑ جائيں کيونکہ بچہ‬
‫ہونا اور کنويں ميں پايا جانا اس بات کی عالمت ہے کہ وہ کہيں قريب ہی کا رہنے واْل ہے اور‬
‫کهيلتے کودتے آ گرا ہے۔‬
‫‪١٩‬۔‪۳‬يعنی يوسف عليہ السالم کے ساته يہ جو کچه ہو رہا تها‪ ،‬ہللا کو اس کا علم تها۔ ليکن ہللا نے‬
‫يہ سب کچه اس ليے ہونے ديا کہ تقدير الہی بروئے کار آئے۔ عالوہ ازيں اس ميں رسول ہللا صلی‬
‫تعالی اپنے پيغمبر کو بتال رہا ہے کہ آپ کی قوم کے‬ ‫ہللا عليہ وسلم کے ليے اشارہ ہے يعنی ہللا ٰ‬
‫لوگ يقينا ا ايذا پہنچا رہے ہيں اور ميں انہيں اس سے روکنے پر قادر بهی ہوں۔ ليکن ميں اسی طرح‬
‫انہيں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران يوسف عليہ السالم کو مہت دی تهی۔ اور پهر باآلخر‬
‫ميں نے يوسف عليہ السالم کو مصر کے تخت پر جا بٹهايا اور اس کے بهائيوں کو عاجز وْلچار‬
‫کر کے اس کے دربار ميں کهڑا کر ديا اے پيغمبر ايک وقت آئے گا کہ آپ بهی اسی طرح سرخرو‬
‫ہوں گے اور سرداران قريش آپ کے اشارہ ابرو اور جنبش لب کے منتظر ہوں گے۔ چنانچہ فتح‬
‫مکہ کے موقع پر يہ وقت جلد ہی آ پہنچا۔‬

‫ۧ۝‪20‬‬ ‫َوش ََر ْوہُ بِث َ َم ْۢ ٍن بَ ْخ ٍس َد َراه َِم َم ْعد ُْو َدةٍ ۚ َو َكانُ ْوا فِ ْي ِه ِمنَ َّ‬
‫الزا ِه ِديْنَ‬
‫انہوں نے (‪ )١‬اسے بہت ہی ہلکی قيمت پر گنتی کے چند درہموں پر بيچ ڈاْل‪ ،‬وہ تو يوسف کے‬
‫بارے ميں بہت ہی بےرغبت تهے (‪)٢‬‬
‫‪٢٠‬۔‪ ١‬بهائيوں يا دوسری تفسير کی رو سے اہل قافلہ نے بيچا۔‬
‫‪٢٠‬۔‪ ٢‬کيونکہ گری پڑی چيز انسان کو يوں ہی کسی محنت کے بغير مل جاتی ہے‪ ،‬اس لئے چاہے‬
‫وہ کتنی بهی قيمتی ہو‪ ،‬اس کی صحيح قدر وقيمت انسان پر واضح نہيں ہوتی۔‬

‫ف‬ ‫عسٰ ْٓى ا َ ْن يَّ ْن َفعَنَا ْٓ ا َ ْو نَت َّ ِخ َذ ٗہ َو َلداا ۭ َو َك ٰذلِكَ َم َّكنَّا ِلي ُْو ُ‬
‫س َ‬ ‫ص َر ِْل ْم َراَتِ ٖ ْٓه ا َ ْك ِر ِم ْي َمثْ ٰوىهُ َ‬
‫َوقَا َل الَّذِي ا ْشت َٰرىهُ ِم ْن ِم ْ‬
‫ْٓ‬
‫‪21‬‬ ‫ع ٰلي ا َ ْم ِر ٖہ َو ٰل ِك َّن ا َ ْكث َ َر النَّ ِ‬
‫اس َْل يَ ْعلَ ُم ْونَ‬ ‫ّٰللاُ غَالِبٌ َ‬
‫ث ۭ َو ه‬‫ض ۡ َو ِلنُعَ ِل َمهٗ ِم ْن تَا ْ ِو ْي ِل ْاْلَ َحا ِد ْي ِ‬
‫فِي ْاْلَ ْر ِ‬
‫؀‬
‫مصر والوں ميں سے جس نے اسے خريدا تها اس نے اپنی بيوی (‪ )١‬سے کہا کہ اسے بہت عزت‬
‫و احترام کے ساته رکهو‪ ،‬بہت ممکن ہے کہ يہ ہميں فائدہ پہنچائے يا اسے ہم اپنا بيٹا ہی بنا ليں‪،‬‬
‫يوں ہم نے مصر کی سرزمين پر يوسف کا قدم جما ديا (‪ ،)٢‬کہ ہم اسے خواب کی تعبير کا کچه علم‬
‫سکها ديں۔ ہللا اپنے ارادے پر غالب ہے ليکن اکثر لوگ بےعلم ہوتے ہيں۔‬
‫‪٢١‬۔‪ ١‬کہا جاتا ہے کہ مصر پر اس وقت ريان بن وليد حکمران تها اور يہ عزيز مصر‪ ،‬جس نے‬
‫يوسف عليہ السالم کو خريدا اس کا وزير خزانہ تها‪ ،‬اس کی بيوی کا نام بعض نے راعيل اور بعض‬
‫نے زليخا بتاليا ہے وہللا اعلم۔‬
‫‪٢١‬۔‪ ٢‬يعنی جس طرح ہم نے يوسف عليہ السالم کو کنويں سے ظالم بهائيوں سے نجات دی‪ ،‬اسی‬
‫طرح ہم نے يوسف عليہ السالم کو سرزمين مصر ميں ايک معقول اچها ٹهکانا عطا کيا۔‬

‫؀‪22‬‬ ‫شد ٗ َّْٓہ ٰات َ ْي ٰنهُ ُح ْك اما َّو ِع ْل اما ۭ َو َك ٰذلِكَ نَجْ ِزي ْال ُمحْ ِس ِنيْنَ‬
‫َولَ َّما بَلَ َغ ا َ ُ‬
‫جب (يوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے ہم نے اسے قوت فيصلہ اور علم ديا (‪ )١‬ہم نيکوں‬
‫کاروں کو اسی طرح بدلہ ديتے ہيں۔‬
‫‪٢٢‬۔‪ ١‬يعنی نبوت يا نبوت سے قبل کی دانائی اور قوت فيصلہ۔‬

‫ت َهيْتَ لَكَ ۭ قَا َل َمعَا َذ ه ِ‬


‫ّٰللا اِنَّهٗ َربِ ْْٓي اَحْ َ‬
‫سنَ‬ ‫اب َوقَالَ ْ‬ ‫ع ْن نَّ ْف ِس ٖه َوغَلَّقَ ِ‬
‫ت ْاْلَب َْو َ‬ ‫َو َر َاو َدتْهُ الَّتِ ْي ُه َو فِ ْي بَ ْيتِ َها َ‬
‫؀‪23‬‬ ‫ظ ِل ُم ْونَ‬ ‫َمثْ َو َ‬
‫اي ۭ اِنَّهٗ َْل يُ ْف ِل ُح ال ه‬
‫اس عورت نے جس کے گهر ميں يوسف تهے‪ ،‬يوسف کو بہالنا پهسالنا شروع کيا کہ وہ اپنے نفس‬
‫کی نگرانی چهوڑ دے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی لو آجاؤ يوسف نے کہا ہللا کی پناہ! وہ‬
‫ميرا رب‪ ،‬مجهے اس نے بہت اچهی طرح رکها ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بهال نہيں ہوتا‬
‫(‪)١‬۔‬
‫‪٢۳‬۔‪ ١‬يہاں سے حضرت يوسف عليہ السالم کا نيا امتحان شروع ہوا عزيز مصر کی بيوی‪ ،‬جس کو‬
‫اس کے خاوند نے تاکيد کی تهی کہ يوسف عليہ السالم کو اکرام و احترام کے ساته رکهے‪ ،‬وہ‬
‫حضرت يوسف عليہ السالم کے حسن و جمال پر فريفتہ ہوگئی اور انہيں دعوت گناہ دينے لگی‪،‬‬
‫جسے حضرت يوسف عليہ السالم نے ٹهکرا ديا۔‬

‫س ۗ ْو َء َو ْالفَحْ ش َۗا َء ۭ اِنَّهٗ ِم ْن ِعبَا ِدنَا‬


‫ع ْنهُ ال ُّ‬
‫ف َ‬ ‫ْل ا َ ْن َّر ٰا ب ُْرهَانَ َربِ ٖه ۭ َك ٰذلِكَ ِلنَ ْ‬
‫ص ِر َ‬ ‫ت بِ ٖه ۚ َو َه َّم بِ َها لَ ْو َ ْٓ‬‫َولَقَ ْد َه َّم ْ‬
‫؀‪24‬‬ ‫صيْنَ‬ ‫ْال ُم ْخلَ ِ‬
‫اس عورت نے يوسف کی طرف کا قصد کيا اور يوسف اس (‪ )١‬کا قصد کرتے اگر وہ اپنے‬
‫پروردگار کی دليل نہ ديکهتے (‪ )٢‬يونہی ہوا کہ ہم اس سے برائی اور بےحيائی دور کر ديں (‪)۳‬‬
‫بيشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں ميں سے تها۔‬
‫ْل ا َ ْن َّر ٰا ب ُْرهَانَ َربِ ٖه) ‪12‬۔يوسف‪)24:‬‬
‫‪٢٤‬۔‪ ١‬بعض مفسرين نے اس کا مطلب يہ بيان کيا ہے کہ ( لَ ْو َ ْٓ‬
‫را برهان ربہ‬ ‫کا تعلق ماقبل يعنی وهم بها سے نہيں بلکہ اس کا جواب محذوف ہے يعنی لوْل ان ٰ‬
‫لفعل ماهم بہ اگر يوسف عليہ السالم ہللا کی دليل نہ ديکهتے تو جس چيز کا قصد کيا تها وہ کر‬
‫گزرتے۔ يہ ترجمہ اکثر مفسرين کی تفسير کے مطابق ہے اور جن لوگوں نے اسے لَ ْو َْل کے ساته‬
‫جوڑ کر يہ معنی بيان کئے‬
‫ہيں کہ يوسف عليہ السالم نے قصد ہی نہيں کيا‪ ،‬ان مفسرين نے اسے عربی اسلوب کے خالف قرار‬
‫ديا ہے۔ اور يہ معنی بيان کئے ہيں کہ قصد تو يوسف عليہ السالم نے بهی کر ليا تها ليکن ايک تو‬
‫يہ اختياری نہيں تها بلکہ عزيز مصر کی بيوی کی ترغيب اور دباؤ اس ميں شامل تها۔ دوسرے يہ‬
‫کہ گناہ کا قصد کر لينا عصمت کے خالف نہيں ہے‪ ،‬اس پر عمل کرنا عصمت کے خالف ہے (فتح‬
‫القدير‪ ،‬ابن کثير) مگر محققين اہل تفسير نے يہ معنی بيان کيے ہيں کہ يوسف عليہ السالم بهی اس‬
‫کا قصد کر ليتے۔ اگر اپنے رب کی برہان نہ ديکهے ہوتے۔ يعنی انہوں نے اپنے رب کی برہان‬
‫ديکه رکهی تهی۔ اس ليے عزيز مصر کی بيوی کا قصد ہی نہيں کيا۔ بلکہ دعوت گناہ ملتے ہی پکار‬
‫اٹهے معاذ ہللا۔ البتہ قصد نہ کرنے کے يہ معنی نہيں کہ نفس ميں ہيجان اور تحريک ہی پيدا نہيں‬
‫ہوئی۔ ہيجان اور تحريک پيدا ہو جانا الگ بات ہے۔ اور قصد کر لينا الگ بات ہے اور حقيقت يہ ہے‬
‫کہ اگر سرے سے ہيجان اور تحريک ہی پيدا نہ ہو تو ايسے شخص کا گناہ سے بچ جانا کوئی کمال‬
‫نہيں۔ کمال تو تب ہی ہے کہ نفس کے اندر داعيہ اور تحريک پيدا ہو اور پهر انسان اس پر کنٹرول‬
‫کرے اور گناہ سے بچ جائے۔ حضرت يوسف عليہ السالم نے اسی کمال صبر و ضبط کا بےمثال‬
‫نمونہ پيش فرمايا۔ ‪٢٤‬۔‪٢‬يہاں پہلی تفسير کے مطابق لوْلء کا جواب محذوف ہے لفعل ماهم بہ يعنی‬
‫اگر يوسف عليہ السالم رب کی برہان ديکهتے تو جو قصد کيا تها کر گزرتے۔ يہ برہان کيا تهی؟‬
‫اس ميں مختلف اقوال ہيں۔ مطلب يہ ہے کہ رب کی طرف سے کوئی ايسی چيز آپ کو دکهائی گئی‬
‫کہ اسے ديکه کر آپ نفس کے داعيئے کے دبانے اور رد کرنے ميں کامياب ہوگئے۔ ہللا ٰ‬
‫تعالی اپنے‬
‫پيغمبروں کی اسی طرح حفاظت فرماتا ہے۔‬
‫‪٢٤‬۔‪ ۳‬يعنی جس طرح ہم نے يوسف عليہ السالم کو برہان دکها کر برائی يا اس کے ارادے سے بچا‬
‫ليا‪ ،‬اسی طرح ہم نے اسے ہر معاملے ميں برائی اور بےحيائی کی باتوں سے دور رکهنے کا اہتمام‬
‫کيا۔ کيونکہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں ميں سے تها۔‬

‫ت َما َجزَ ۗا ُء َم ْن ا َ َرا َد بِا َ ْهلِكَ ُ‬


‫س ۗ ْو اءا ا َّ ْٓ‬
‫ِْل ا َ ْن‬ ‫سيِ َدهَا لَ َدا ْالبَا ِ‬
‫ب ۭ قَالَ ْ‬ ‫صهٗ ِم ْن ُدب ٍُر َّوا َ ْلفَيَا َ‬
‫َّت قَ ِم ْي َ‬‫اب َوقَد ْ‬ ‫َوا ْستَبَقَا ْالبَ َ‬
‫؀‪25‬‬ ‫ع َذابٌ ا َ ِل ْي ٌم‬
‫يُّ ْس َجنَ ا َ ْو َ‬
‫دونوں دروازے کی طرف دوڑے (‪ )١‬اور اس عورت نے يوسف کا کرتا پيچهے کی طرف سے‬
‫کهينچ کر پهاڑ ڈاْل اور دروازے کے پاس اس کا شوہر دونوں کو مل گيا تو کہنے لگی جو شخص‬
‫تيری بيوی کے ساته برا ارادہ کرے بس اس کی سزا يہی ہے کہ اسے قيد کر ديا جائے يا اور کوئی‬
‫دردناک سزادی جائے (‪)٢‬۔‬
‫‪٢٥‬۔‪ ١‬جب حضرت يوسف عليہ السالم نے ديکها کہ وہ عورت برائی کے ارتکاب پر مصر ہے‪ ،‬تو‬
‫وہ باہر نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑے‪ ،‬يوسف عليہ السالم کے پيچهے انہيں پکڑنے‬
‫کے لئے عورت بهی دوڑی۔ يوں دونوں دروازے کی طرف لپکے اور دوڑے۔‬
‫‪٢٥‬۔‪ ٢‬يعنی خاوند کو ديکهتے ہی خود معصوم بن گئی اور مجرم تمام تر يوسف عليہ السالم کو‬
‫قرار دے کر ان کے لئے سزا بهی تجويز کر دی۔ حاْلنکہ صورت حال اس کے برعکس تهی‪،‬‬
‫مجرم خود تهی جب کہ حضرت يوسف عليہ السالم بالکل بےگناہ اور برائی سے بچنے کے خواہش‬
‫مند اور اس کے لئے کوشاں تهے۔‬

‫ت َو ُه َو ِمنَ ْال ٰك ِذ ِبيْنَ‬ ‫صهٗ قُ َّد ِم ْن قُبُ ٍل فَ َ‬


‫ص َدقَ ْ‬ ‫ع ْن نَّ ْف ِس ْي َو َ‬
‫ش ِه َد شَا ِه ٌد ِم ْن ا َ ْه ِل َها ۚ ا ِْن َكانَ قَ ِم ْي ُ‬ ‫ِى َر َاو َدتْنِ ْي َ‬
‫قَا َل ه َ‬
‫؀‪26‬‬
‫يوسف نے کہا يہ عورت ہی مجهے پهسال رہی تهی (‪ )١‬اور عورت کے قبيلے کے ہی کے ايک‬
‫شخص نے گواہی دی (‪ )٢‬کہ اگر اس کا کرتہ آگے سے پهٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور يوسف‬
‫جهوٹ بو لنے والوں ميں سے ہے۔‬
‫‪٢٦‬۔‪ ١‬حضرت يوسف عليہ السالم نے جب ديکها کہ وہ عورت تمام الزام ان پر ہی دهر رہی ہے‬
‫صورت حال واضح کر دی اور کہا کہ مجهے برائی پر مجبور کرنے والی يہی ہے۔ ميں اس سے‬
‫بچنے کے لئے باہر دروازے کی طرف بهاگتا ہوا آيا ہوں۔‬
‫‪٢٦‬۔‪ ٢‬يہ انہی کے خاندان کا کوئی سمجهدار آدمی تها جس نے يہ فيصلہ کيا۔ فيصلے کو يہاں‬
‫شہادت کے لفظ سے تعبير کيا گيا‪ ،‬کيونکہ معاملہ ابهی تحقيق طلب تها۔ شير خوار بچے کی شہادت‬
‫والی بات مستند روايات سے ثابت نہيں۔ صحيحين ميں تين شير خوار بچوں کے بات کرنے کی‬
‫حديث ہے جن ميں يہ چوتها نہيں ہے جس کا ذکر اس مقام پر کيا جاتا ہے۔‬

‫؀‪27‬‬ ‫صهٗ قُ َّد ِم ْن ُدب ٍُر فَ َك َذ َب ْ‬


‫ت َو ُه َو ِمنَ ال ه‬
‫ص ِد ِقيْنَ‬ ‫َوا ِْن َكانَ قَ ِم ْي ُ‬
‫اور اگر اس کا کرتہ پيچهے کی جانب سے پهاڑا گيا ہے تو عورت جهوٹی ہے اور يوسف سچوں‬
‫ميں سے ہے۔‬
‫؀‪28‬‬ ‫ع ِظ ْي ٌم‬ ‫فَلَ َّما َر ٰا قَ ِم ْي َ‬
‫صهٗ قُ َّد ِم ْن ُدب ٍُر قَا َل اِنَّهٗ ِم ْن َك ْي ِد ُك َّن ۭ ا َِّن َك ْي َد ُك َّن َ‬
‫خاوند نے جو ديکها کہ يوسف کا کرتہ پيٹه کی جانب سے پهاڑا گيا ہے تو صاف کہہ ديا يہ تو‬
‫عورتوں کی چال بازی ہے‪ ،‬بيشک تمہاری چال بازی بہت بڑی ہے (‪)١‬‬
‫‪٢٨‬۔‪ ١‬يہ عزيز مصر کا قول ہے جو اس نے اپنی بيوی کی حرکت قبيحہ ديکه کر عورتوں کی بابت‬
‫کہا‪ ،‬يہ نہ ہللا کا قول ہے نہ ہر عورت کے بارے ميں صحيح‪ ،‬اس لئے اسے ہر عورت پر چسپاں‬
‫کرنا اور اس بنياد پر عورت کو مکر وفريب کا پتال باور کرانا‪ ،‬قرآن کا ہرگز منشا نہيں ہے۔ جيسا‬
‫کہ بعض لوگ اس جملے سے عورت کے بارے ميں يہ تاثر ديتے ہيں۔‬

‫ۧ؀‪29‬‬ ‫ي ِل َذ ْۢ ْنبِ ِك ښ اِنَّ ِك ُك ْن ِ‬


‫ت ِمنَ ْال ٰخ ِطــيْنَ‬ ‫َ۫وا ْست َ ْغ ِف ِر ْ‬ ‫ع ْن ٰه َذا‬ ‫ف اَع ِْر ْ‬
‫ض َ‬ ‫س ُ‬
‫ي ُْو ُ‬
‫يوسف اب اس بات کو آتی جاتی کرو (‪ )١‬اور (اے عورت) تو اپنے گناہ سے توبہ کر‪ ،‬بيشک تو‬
‫گنہگاروں ميں سے ہے (‪)٢‬۔‬
‫‪٢٩‬۔‪ ١‬يعنی اس کا چرچا مت کرو۔‬
‫‪٢٩‬۔‪ ٢‬اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزيز مصر پر حضرت يوسف عليہ السالم کی پاک دامنی واضح‬
‫ہو گئی تهی۔‬

‫ض ٰل ٍل ُّم ِبي ٍْن‬


‫شغَفَ َها ُحباا ۭ اِنَّا لَن َٰرى َها فِ ْي َ‬ ‫َوقَا َل نِس َْوة ٌ فِي ْال َم ِد ْينَ ِة ْام َراَتُ ْال َع ِزي ِْز ت ُ َرا ِو ُد فَ ٰتى َها َ‬
‫ع ْن نَّ ْف ِس ٖه ۚ قَ ْد َ‬
‫؀‪30‬‬
‫اور شہر کی عورتوں ميں چرچا ہونے لگا کہ عزيز کی بيوی اپنے (جوان) غالم کو اپنا مطلب‬
‫نکالنے کے لئے بہالنے پهسالنے ميں لگی رہتی ہے‪ ،‬ان کے دل ميں يوسف کی محبت بيٹه گئی‬
‫ہے‪ ،‬ہمارے خيال ميں تو وہ صريح گمراہی ميں ہے (‪)١‬۔‬
‫‪۳٠‬۔‪ ١‬جس طرح خوشبو کو پردوں سے چهپا يا نہيں جا سکتا ‪ ،‬عشق و محبت کا معاملہ بهی ايسا‬
‫ہی ہے۔ گو عزيز مصر نے حضرت يوسف عليہ السالم کو اسے نظر انداز کرنے کی تلقين کی اور‬
‫يقينا ا آپ کی زبان مبارک پر اس کا کبهی ذکر بهی نہيں آيا ہوگا اس کے باوجود يہ واقعہ جنگل کی‬
‫آگ کی طرح پهيل گيا اور زنان مصر ميں اس کا چرچا عام ہو گيا‪ ،‬عورتيں تعجب کرنے لگيں کی‬
‫عشق کرنا تها تو کسی پيکر حسن و جمال سے کيا جاتا‪ ،‬يہ کيا اپنے ہی غالم پر زليخا فريفتہ ہو‬
‫گئی‪ ،‬يہ تو اس کی ہی نادانی ہے۔‬

‫علَ ْي ِه َّن ۚ‬ ‫ت ْ‬
‫اخ ُرجْ َ‬ ‫ت لَ ُه َّن ُمت َّ َكا ا َّو ٰات َْت ُك َّل َو ِ‬
‫اح َدةٍ ِم ْن ُه َّن ِس ِك ْيناا َّوقَالَ ِ‬ ‫ت اِلَ ْي ِه َّن َوا َ ْعت َ َد ْ‬
‫سلَ ْ‬
‫ت ِب َم ْك ِره َِّن ا َ ْر َ‬‫س ِم َع ْ‬ ‫فَلَ َّما َ‬
‫؀‪31‬‬ ‫ّٰلل َما ٰه َذا بَش اَرا ۭ ا ِْن ٰه َذآْ ا َِّْل َملَكٌ َك ِر ْي ٌم‬ ‫ط ْعنَ ا َ ْي ِديَ ُه َّن ۡ َوقُ ْلنَ َح َ‬
‫اش ِ ه ِ‬ ‫فَلَ َّما َرا َ ْينَهٗ ْٓ ا َ ْكبَ ْرنَهٗ َوقَ َّ‬

‫اس نے جب ان کی اس فريب پر غيبت کا حال سنا تو انہيں بلوا بهيجا (‪ )١‬اور ان کے لئے ايک‬
‫مجلس مرتب کی (‪ )٢‬اور ان ميں سے ہر ايک کو چهری دی۔ اور کہا اے يوسف ان کے سامنے‬
‫چلے آؤ (‪ )۳‬ان عورتوں نے جب اسے ديکها تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاته کاٹ لئے (‪ )٤‬اور‬
‫زبانوں سے نکل گيا کہ ما شاءہللا! يہ انسان تو ہرگز نہيں‪ ،‬يہ تو يقينا ا کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ‬
‫ہے۔‬
‫‪۳١‬۔‪ ١‬زنان مصر کی غائبانہ باتوں اور طعن و مالمت کو مکر سے تعبير کيا گيا‪ ،‬جس کی وجہ‬
‫سے بعض مفسرين نے يہ بيان کيا ہے کہ ان عورتوں کو بهی يوسف کے بےمثال حسن و جمال کی‬
‫اطالعات پہنچ چکی تهيں۔‬
‫چنانچہ وہ اس پيکر حسن کو ديکهنا چاہتی تهيں چنانچہ وہ اپنے اس مکر خفيہ تدبير ميں کامياب‬
‫ہوگئيں اور امرأة العزيز نے يہ بتالنے کے ليے کہ ميں جس پر فريفتہ ہوئی ہوں‪ ،‬محض ايک غالم‬
‫يا عام آدمی نہيں ہے بلکہ ظاہر و باطن کے ايسے حسن سے آراستہ ہے کہ اسے ديکه کر نقد دل و‬
‫جان ہار جانا کوئی انہونی بات نہيں‪ ،‬لہذا ان عورتوں کی ضيافت کا اہتمام کيا اور انہيں دعوت طعام‬
‫دی۔‬
‫‪۳١‬۔‪ ٢‬يعنی ايسی نشست گاہيں بنائيں جن ميں تکئے لگے ہوئے تهے‪ ،‬جيسا کہ آج کل بهی عربوں‬
‫ميں ايسی فرشی نشست گاہيں عام ہيں۔ حتی کہ ہوٹلوں اور ريستورانوں ميں بهی ان کا اہتمام ہے۔‬
‫‪۳١‬۔‪ ۳‬يعنی حضرت يوسف عليہ السالم کو پہلے چهپائے رکها‪ ،‬جب سب عورتوں نے ہاتهوں ميں‬
‫چهرياں پکڑ ليں تو امراة العزيز (زليخا) نے حضرت يوسف عليہ السالم کو مجلس ميں حاضر‬
‫ہونے کا حکم ديا۔‬
‫‪۳١‬۔‪ ٤‬يعنی حسن يوسف عليہ السالم کی جلوہ آرائی ديکه کر ايک تو ان کے عظمت و جالل شان کا‬
‫اعتراف کيا اور دوسرے‪ ،‬ان پر بےخودی کی ايسی کيفيت طاری ہوئی کہ چهرياں اپنے ہاتهوں پر‬
‫چال ليں۔ جس سے ان کے ہاته زخمی اور خون آلودہ ہوگئے۔ حديث ميں آتا ہے کہ حضرت يوسف‬
‫عليہ السالم کو نصف حسن ديا گيا ہے (صحيح مسلم)‬
‫‪۳١‬۔‪۵‬اس کے يہ معنی نہيں ہيں کہ فرشتے شکل وصورت ميں انسان سے بہتر يا افضل ہيں۔ کيونکہ‬
‫فرشتوں کو تو انسانوں نے ديکها ہی نہيں ہے۔ عالوہ ازيں انسان کے بارے ميں تو ہللا ٰ‬
‫تعالی نے‬
‫خود قرآن کريم ميں صراحت کی ہے کہ ہم نے اسے احسن تقويم بہترين انداز ميں پيدا کيا ہے۔ ان‬
‫عورتوں نے بشريت کی نفی محض اس ليے کی کہ انہوں نے حسن وجمال کا ايک ايسا پيکر ديکها‬
‫تها جو انسانی شکل ميں کبهی ان کی نظروں سے نہيں گزرا تها اور انہوں نے فرشتہ اس ليے قرار‬
‫ديا کہ عام انسان يہی سمجهتا ہے فرشتے ذات وصفات کے لحاظ سے ايسی شکل رکهتے ہيں جو‬
‫انسانی شکل سے باْلتر ہے۔ اس سے يہ معلوم ہوا کہ انبياء کی غير معمولی خصوصيات و‬
‫امتيازات کی بناء پر انہيں انسانيت سے نکال کر نورانی مخلوق قرار دينا‪ ،‬ہر دور کے ايسے لوگوں‬
‫کا شيوہ رہا ہے جو نبوت اور اس کے مقام سے ناآشنا ہوتے ہيں۔‬

‫ص َم ۭ َولَى ْن لَّ ْم يَ ْفعَ ْل َما ْٓ ٰا ُم ُر ٗہ لَيُ ْس َجن ََّن َولَيَ ُك ْوناا ِمنَ‬ ‫ت فَ ٰذ ِل ُك َّن الَّذ ْ‬
‫ِي لُ ْمتُنَّنِ ْي فِ ْي ِه ۭ َولَقَ ْد َر َاو ْدتُّهٗ َ‬
‫ع ْن نَّ ْف ِس ٖه فَا ْست َ ْع َ‬ ‫قَالَ ْ‬
‫؀‪32‬‬ ‫ص ِغ ِريْنَ‬‫ال ه‬
‫اس وقت عزيز مصر کی بيوی نے کہا‪ ،‬يہی ہيں جن کے بارے ميں تم مجهے طعنے دے رہی تهيں‬
‫(‪ )١‬ميں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا‪ ،‬ليکن يہ بال بال بچا رہا‪ ،‬اور جو کچه‬
‫ميں اسے کہہ رہی ہوں اگر يہ نہ کرے گا تو يقينا ا يہ قيد کر ديا جائے گا اور بيشک يہ بہت ہی‬
‫بےعزت ہوگا (‪)٢‬۔‬
‫‪۳٢‬۔ ‪ ١‬جب زليخا نے ديکها اس کی چال کامياب رہی ہے اور عورتيں يوسف عليہ السالم کے جلوہ‬
‫حسن آراء سے مد ہوش ہوگئيں تو کہنے لگی‪ ،‬کہ اس کی ايک جهلک سے تمہارا يہ حال ہو گيا ہے‬
‫تو کيا تم اب بهی مجهے اس کی محبت ميں گرفتار ہونے پر طعنہ زنی کروگی؟ يہی وہ غالم ہے‬
‫جس کے بارے ميں تم مجهے مالمت کرتی ہو۔‬
‫‪۳٢‬۔‪ ٢‬عورتوں کی مد ہوشی ديکه کر اس کو مزيد حوصلہ ہو گيا اور شرم و حيا کے سارے‬
‫حجاب دور کر کے اس نے اپنے برے ارادے کا ايک مرتبہ پهر اظہار کيا۔‬

‫ب اِلَ ْي ِه َّن َوا َ ُك ْن مِنَ ْالجٰ ِه ِليْنَ‬ ‫عنِ ْي َك ْي َد ُه َّن ا َ ْ‬


‫ص ُ‬ ‫ف َ‬ ‫ع ْونَنِ ْْٓي اِلَ ْي ِه ۚ َوا َِّْل ت َ ْ‬
‫ص ِر ْ‬ ‫ب السِجْ ُن ا َ َحبُّ اِلَ َّ‬
‫ي ِم َّما يَ ْد ُ‬ ‫قَا َل َر ِ‬
‫؀‪33‬‬
‫يوسف نے دعا کی اے ميرے پروردگار! جس بات کی طرف يہ عورت مجهے بال رہی ہے اس‬
‫سے تو مجهے جيل خانہ بہت پسند ہے‪ ،‬اگر تو نے ان کا فن فريب مجه سے دور نہ کيا تو ميں ان‬
‫کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں ميں جا ملوں گا (‪)١‬۔‬
‫‪۳۳‬۔‪ ١‬حضرت يوسف عليہ السالم نے يہ دعا اپنے دل ميں کی۔ اس لئے کہ ايک مومن کے لئے دعا‬
‫بهی ايک ہتهيار ہے۔ حديث ميں آتا ہے‪ ،‬سات آدميوں کو قيامت والے دن عرش کا سايہ عطا فرمائے‬
‫گا‪ ،‬ان ميں سے ايک وہ شخص ہے جسے ايک ايسی عورت دعوت گناہ دے جو حسن و جمال سے‬
‫بهی آراستہ ہو اور جاہ و منصب کی حامل ہو۔ ليکن وہ اس کے جواب ميں کہہ دے کہ ميں تو ' ہللا '‬
‫سے ڈرتا ہوں (صحيح بخاری)‬

‫؀‪34‬‬ ‫س ِم ْي ُع ْالعَ ِل ْي ُم‬


‫ع ْنهُ َك ْي َد ُه َّن ۭ اِنَّهٗ ُه َو ال َّ‬
‫ف َ‬ ‫اب لَهٗ َربُّهٗ فَ َ‬
‫ص َر َ‬ ‫فَا ْست َ َج َ‬
‫اس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی اور ان عورتوں کے داؤ پيچ اس سے پهير ديئے‪ ،‬يقينا ا وہ‬
‫سننے واْل جاننے واْل ہے۔‬

‫ۧ؀‪35‬‬ ‫ت لَ َي ْس ُجنُنَّهٗ َحتهي ِحي ٍْن‬ ‫ث ُ َّم َب َدا لَ ُه ْم ِم ْۢ ْن َب ْع ِد َما َرا َ ُوا ْ ٰ‬
‫اْل ٰي ِ‬
‫پهر ان تمام نشانيوں کے ديکه لينے کے بعد بهی انہيں يہی مصلحت معلوم ہوئی کہ يوسف کو کچه‬
‫مدت کے لئے قيد خانہ ميں رکهيں (‪)١‬۔‬
‫‪۳٥‬۔‪ ١‬عفت و پاک دامنی واضح ہو جانے کے باوجود يوسف عليہ السالم کو حوالہ زنداں کرنے ميں‬
‫يہی مصلحت ان کے پيش نظر ہو سکتی تهی کہ عزيز مصر حضرت يوسف عليہ السالم کو اپنی‬
‫بيوی سے دور رکهنا چاہتا ہوگا تاکہ وہ دوبارہ يوسف عليہ السالم کو اپنے دام ميں پهنسانے کی‬
‫کوشش نہ کرے جيسا کہ وہ ايسا ارادہ رکهتی تهی۔‬

‫ْص ُر خ َْم ارا ۚ َوقَا َل ْ ٰ‬


‫اْلخ َُر اِنِ ْْٓى ا َ ٰرىنِ ْْٓي اَحْ ِم ُل فَ ْوقَ َراْ ِس ْي‬ ‫َو َد َخ َل َم َعهُ السِجْ نَ فَت َٰي ِن ۭ قَا َل ا َ َح ُد ُه َما ْٓ اِنِ ْْٓى ا َ ٰرىنِ ْْٓي اَع ِ‬
‫؀‪36‬‬ ‫الطي ُْر ِم ْنهُ ۭ ن َِبئْنَا ِبتَا ْ ِويْـ ِل ٖه ۚ اِنَّا ن َٰرىكَ ِمنَ ْال ُمحْ ِس ِنيْنَ‬ ‫ُخب اْزا تَا ْ ُك ُل َّ‬
‫اس کے ساته ہی دو اور جوان بهی جيل خانے ميں داخل ہوئے‪ ،‬ان ميں سے ايک نے کہا کہ ميں‬
‫نے خواب ميں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے ديکها ہے‪ ،‬اور دوسرے نے کہا ميں نے اپنے آپ کو‬
‫ديکها ہے کہ ميں اپنے سر پر روٹی اٹهائے ہوئے ہوں جسے پرندے کها رہے ہيں‪ ،‬ہميں آپ اس‬
‫کی تعبير بتائيے‪ ،‬ہميں تو آپ خوبيوں والے شخص دکهائی ديتے ہيں (‪)١‬۔‬
‫‪۳٦‬۔‪ ١‬يہ دونوں نوجوان شاہی دربار سے تعلق رکهتے تهے۔ ايک شراب پالنے پر معمور تها اور‬
‫دوسرا نان بهائی تها‪ ،‬کسی حرکت پر دونوں کو قيد ميں ڈال ديا تها۔ حضرت يوسف عليہ السالم ہللا‬
‫تقوی و راست بازی اور اخالق و‬‫ٰ‬ ‫کے پيغمبر تهے‪ ،‬دعوت و تبليغ کے ساته ساته عبادت و رياضت‬
‫کردار کے لحاظ سے جيل ميں ديگر تمام قيديوں سے ممتاز تهے عالوہ ازيں خوابوں کی تعبير کا‬
‫خصوصی علم اور ملکہ ہللا نے ان کو عطا فرمايا تها۔ ان دونوں نے خواب ديکها تو قدرتی طور پر‬
‫حضرت يوسف عليہ السالم کی طرف انہوں نے رجوع کيا اور کہا ہميں آپ محسنين ميں سے نظر‬
‫آتے ہيں‪ ،‬ہميں ہمارے خوابوں کی تعبير بتائيں۔ محسن کے ايک معنی بعض نے يہ بهی کئے ہيں کہ‬
‫خواب کی تعبير آپ اچهی کر ليتے ہيں۔‬

‫طعَا ٌم ت ُ ْرزَ ٰقنِ ٖ ْٓه ا َِّْل نَبَّاْت ُ ُك َما بِتَا ْ ِويْـ ِل ٖه قَ ْب َل ا َ ْن يَّاْتِ َي ُك َما ۭ ٰذ ِل ُك َما ِم َّما َ‬
‫علَّ َمنِ ْي َربِ ْي ۭ اِنِ ْى ت ََر ْكتُ ِملَّةَ‬ ‫قَا َل َْل َياْتِ ْي ُك َما َ‬
‫؀‪37‬‬ ‫اْل ِخ َرةِ ُه ْم ٰك ِف ُر ْونَ‬ ‫اّٰللِ َو ُه ْم بِ ْ ٰ‬ ‫قَ ْو ٍم َّْل يُؤْ ِمنُ ْونَ بِ ه‬
‫يوسف نے کہا تمہيں جو کهانا ديا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ميں تمہيں‬
‫اس کی تعبير بتال دوں گا يہ سب اس علم کی بدولت ہے جو ميرے رب نے سکهايا ہے‪ )١( ،‬ميں‬
‫نے ان لوگوں کا مذہب چهوڑ ديا ہے جو ہللا پر ايمان نہيں رکهتے اور آخرت کے بهی منکر‬
‫ہيں‪)٢٠‬۔‬
‫‪۳٧‬۔‪ ١‬يعنی ميں جو تعبير بتالؤں گا‪ ،‬وہ کاہنوں اور نجوميوں کی طرح ظن و تخمين پر مبنی نہيں‬
‫ہوگی‪ ،‬جس ميں خطا اور نيکی دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ بلکہ ميری تعبير يقينی علم پر مبنی ہوگی‬
‫جو ہللا کی طرف سے مجهے عطا کيا گيا ہے‪ ،‬جس ميں غلطی کا امکان ہی نہيں۔‬
‫‪۳٧‬۔‪ ٢‬يہ الہام اور علم ٰالہی (جن سے آپ کو نوازا گيا) کی وجہ بيان کی جا رہی ہے کہ ميں نے ان‬
‫لوگوں کا مذہب چهوڑ ديا جو ہللا اور آخرت پر يقين نہيں رکهتے‪ ،‬اس کے صلے ميں ہللا ٰ‬
‫تعالی کے‬
‫يہ انعامات مجه پر ہوئے۔‬

‫علَ ْينَا‬ ‫َيءٍ ۭ ٰذلِكَ ِم ْن فَ ْ‬


‫ض ِل ه ِ‬
‫ّٰللا َ‬ ‫ب ۭ َما َكانَ لَنَا ْٓ ا َ ْن نُّ ْش ِركَ بِ ه‬
‫اّٰللِ ِم ْن ش ْ‬ ‫ي اِب ْٰر ِهي َْم َواِ ْسحٰ قَ َويَ ْعقُ ْو َ‬ ‫َواتَّبَ ْعتُ ِملَّةَ ٰابَ ۗا ِء ْْٓ‬
‫؀‪38‬‬ ‫اس َو ٰل ِك َّن ا َ ْكث َ َر النَّ ِ‬
‫اس َْل يَ ْش ُك ُر ْونَ‬ ‫علَي النَّ ِ‬ ‫َو َ‬
‫ميں اپنے باپ دادو ں کے دين کا پابند ہوں‪ ،‬يعنی ابراہيم و اسحاق اور يعقوب کے دين کا (‪ )١‬ہميں‬
‫تعالی کے ساته کسی کو بهی شريک کريں (‪ )٢‬ہم پر اور تمام اور‬ ‫ہرگز يہ سزاوار نہيں کہ ہم ہللا ٰ‬
‫تعالی کا يہ خاص فضل ہے‪ ،‬ليکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہيں۔‬ ‫لوگوں پر ہللا ٰ‬
‫‪۳٨‬۔‪ ١‬اجداد کو بهی آباء کہا‪ ،‬اس لئے کہ وہ بهی آباء ہی ہيں۔ پهر ترتيب ميں جد ٰ‬
‫اعلی (ابراہيم عليہ‬
‫السالم) پهر جد اقرب (اسحاق عليہ السالم) اور پهر باپ (يعقوب عليہ السالم) کا ذکر کيا‪ ،‬يعنی‬
‫پہلے۔ پہلی اصل‪ ،‬پهر دوسری اصل اور پهر تيسری اصل بيان کی۔‬
‫‪۳٨‬۔‪ ٢‬وہی توحيد کی دعوت اور شرک کی ترديد ہے جو ہر نبی کی بنيادی اور اولين تعليم اور‬
‫دعوت ہوتی ہے۔‬

‫ۭ؀‪39‬‬ ‫اح ُد ْالقَ َّه ُ‬


‫ار‬ ‫ّٰللاُ ْال َو ِ‬
‫احبَي ِ السِجْ ِن َءا َ ْربَابٌ ُّمتَفَ ِرقُ ْونَ َخي ٌْر ا َ ِم ه‬
‫ص ِ‬‫ٰي َ‬
‫اے ميرے قيد خانے کے ساتهيو! (‪ )١‬کيا متفرق کئی ايک پروردگار بہتر ہيں؟ (‪ )٢‬يا ايک ہللا‬
‫زبردست طاقتور۔‬
‫‪۳٩‬۔‪ ١‬قيد خانے کے ساتهی۔ اسلئے قرار ديا کہ يہ سب ايک عرصے سے جيل ميں محبوس چلے آ‬
‫رہے تهے۔‬
‫‪۳٩‬۔‪ ٢‬تفريق ذات‪ ،‬صفات اور عدد کے لحاظ سے ہے۔ يعنی وہ رب‪ ،‬جو ذات کے لحاظ سے ايک‬
‫دوسرے سے متفرق‪ ،‬صفات ميں ايک دوسرے سے مختلف اور تعداد ميں باہم متنافی ہيں‪ ،‬وہ بہتر‬
‫ہيں يا ہللا‪ ،‬جو اپنی ذات و صفات ميں متفرد ہے‪ ،‬جس کا کوئی شريک نہيں ہے اور وہ سب پر‬
‫غالب اور حکمران ہے۔‬

‫س ْل ٰط ٍن ۭ ا ِِن ْال ُح ْك ُم ا َِّْل ِ هّٰللِ ۭ ا َ َم َر‬ ‫س َّم ْيت ُ ُم ْو َها ْٓ ا َ ْنت ُ ْم َو ٰابَ ۗاؤُ ُك ْم َّما ْٓ ا َ ْنزَ َل ه‬
‫ّٰللاُ ِب َها ِم ْن ُ‬ ‫ِْل ا َ ْس َم ۗا اء َ‬
‫َما ت َ ْعبُد ُْونَ ِم ْن د ُْونِ ْٖٓه ا َّ ْٓ‬
‫؀‪40‬‬ ‫اس َْل يَ ْعلَ ُم ْونَ‬ ‫الدي ُْن ْالقَيِ ُم َو ٰل ِك َّن ا َ ْكث َ َر النَّ ِ‬ ‫ا َ َّْل ت َ ْعبُد ُْْٓوا ا َِّْلْٓ اِيَّاہُ ۭ ٰذلِكَ ِ‬
‫اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہيں جو تم نے اور تمہارے باپ‬
‫دادوں نے خود ہی گهڑ لئے ہيں۔ ہللا ٰ‬
‫تعالی نے ان کی کوئی دليل نازل نہيں فرمائی (‪ )١‬فرمانروائی‬
‫تعالی کی ہے‪ ،‬اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو‪،‬‬ ‫صرف ہللا ٰ‬
‫يہی دين درست ہے (‪ )٢‬ليکن اکثر لوگ نہيں جانتے (‪)۳‬۔‬
‫‪٤٠‬۔‪ ١‬اس کا ايک مطلب يہ ہے کہ ان کا نام معبود تم نے خود ہی رکه ليا ہے‪ ،‬دراں حاليکہ وہ‬
‫معبود ہيں نہ ان کی بابت کوئی دليل ہللا نے اتاری ہے۔ دوسرا مطلب يہ ہے کہ ان معبودوں کے جو‬
‫مختلف نام تم نے تجويز کر رکهے ہيں۔ مثال خواجہ غريب نواز‪ ،‬گنج بخش کرنی واْل‪ ،‬کرماں واْل‬
‫وغيرہ يہ سب تمہارے خود ساختہ ہيں۔ ان کی کوئی دليل ہللا نے نہيں اتاری۔‬
‫‪٤٠‬۔‪ ٢‬يہی دين‪ ،‬جس کی طرف ميں تمہيں بال رہا ہوں‪ ،‬جس ميں صرف ايک ہللا کی عبادت ہے‪،‬‬
‫درست اور رقيم ہے جس کا حکم ہللا نے ديا ہے۔‬
‫اّٰللِ ا َِّْل َو ُه ْم‬
‫(و َم َاو َما يُؤْ ِم ُن ا َ ْكث َ ُر ُه ْم ِب ه‬
‫‪٤٠‬۔‪ ۳‬جس کی وجہ سے اکثر لوگ شرک کا ارتکاب کرتے ہيں َ‬
‫ُّم ْش ِر ُك ْونَ ) ‪12‬۔يوسف‪ ' )106:‬ان ميں سے اکثر لوگ باوجود ہللا پر ايمان رکهنے کے بهی مشرک‬
‫اس َولَ ْو َح َرصْتَ بِ ُمؤْ ِمنِيْنَ ) ‪12‬۔يوسف‪ )103:‬اے پيغمبر تيری‬ ‫(و َما ْٓ ا َ ْكث َ ُر النَّ ِ‬
‫ہی ہيں ' اور فرمايا َ‬
‫خواہش کے باوجود اکثر لوگ ہللا پر ايمان ْلنے والے نہيں ہيں۔‬

‫ي ْاْلَ ْم ُر‬
‫ض َ‬ ‫ب فَتَا ْ ُك ُل َّ‬
‫الطي ُْر ِم ْن َّراْ ِس ٖه ۭ قُ ِ‬ ‫صلَ ُ‬ ‫احبَي ِ السِجْ ِن ا َ َّما ْٓ ا َ َح ُد ُك َما فَيَ ْس ِق ْي َربَّهٗ خ َْم ارا ۚ َوا َ َّما ْ ٰ‬
‫اْلخ َُر فَيُ ْ‬ ‫ص ِ‬‫ٰي َ‬
‫ۭ؀‪41‬‬ ‫الَّذ ْ‬
‫ِي ِف ْي ِه ت َ ْست َ ْف ِت ٰي ِن‬
‫اے ميرے قيد خانے کے رفيقو! (‪ )١‬تم دونوں ميں سے ايک تو اپنے بادشاہ کو شراب پالنے پر‬
‫مقرر ہو جائے گا (‪ )٢‬ليکن دوسرا سولی پر چڑهايا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر‬
‫کهائيں گے (‪ )۳‬تم دونوں جس کے بارے ميں تحقيق کر رہے تهے اس کام کا فيصلہ کر ديا گيا ہے‬
‫(‪)٤‬۔‬
‫‪٤١‬۔‪ ١‬توحيد کا وعظ کرنے کے بعد اب حضرت يوسف عليہ السالم ان کے بيان کردہ خوابوں کی‬
‫تعبير بيان فرما رہے ہيں۔‬
‫‪٤١‬۔‪ ٢‬يہ وہی شخص ہے جس نے خواب ميں اپنے کو انگور کا شيرہ کرتے ہوئے ديکها تها تاہم‬
‫آپ نے دونوں ميں سے کسی ايک کی تعبين نہيں کی تاکہ مرنے واْل پہلے ہی غم و حزن ميں مبتال‬
‫نہ ہو جائے۔‬
‫‪٤١‬۔ ‪ ۳‬يہ وہ شخص ہے جس نے اپنے سر پر خواب ميں روٹياں اٹهائے ديکها تها۔‬
‫‪٤١‬۔‪ ٤‬يعنی تقدير ٰالہی ميں پہلے سے يہ بات ثبت ہے اور جو تعبير ميں بتالئی ہے۔ ْل محالہ واقع‬
‫ہو کر رہے گا۔ جيسا کہ حديث ميں ہے۔ رسول ہللا نے فرمايا کہ ' خواب‪ ،‬جب تک اس کی تعبير نہ‬
‫کی جائے‪ ،‬پرندے کے پاؤں پر ہے۔ جب اس کی تعبير کر دی جائے تو واقع ہو جاتا ہے ' (مسند‬
‫احم بحوالہ ابن کثير)‬

‫ض َع ِس ِنيْنَ‬ ‫شي ْٰط ُن ِذ ْك َر َربِ ٖه فَلَبِ َ‬


‫ث فِي السِجْ ِن بِ ْ‬ ‫ظ َّن اَنَّهٗ نَاجٍ ِم ْن ُه َما ا ْذ ُك ْرنِ ْي ِع ْن َد َربِكَ ۡ فَا َ ْنسٰ ىهُ ال َّ‬ ‫َوقَا َل ِللَّ ِذ ْ‬
‫ي َ‬
‫ۧ؀‪42‬‬
‫اور جس کی نسبت يوسف کا گمان تها کہ ان دونوں ميں سے يہ چهوٹ جائے گا اس سے کہا کہ‬
‫اپنے بادشاہ سے ميرا ذکر بهی کر دينا پهر اسے شيطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بهال ديا اور‬
‫يوسف نے کئی سال قيد خانے ميں ہی کاٹے (‪)١‬۔‬
‫‪٤٢‬۔‪ ١‬بضع کا لفظ تين سے لے کر نو تک عدد کے ليے بوْل جاتا ہے‪ ،‬وہب بن منبہ کا قول ہے۔‬
‫حضرت ايوب عليہ السالم آزمائش ميں اور يوسف عليہ السالم قيد خانے ميں سات سال رہے اور‬
‫بخت نصر کا عذاب بهی سات سال رہا اور بعض کے نزديک بارہ سال اور بعض کے نزديک چودہ‬
‫سال قيد خانے ميں رہے۔ وہللا اعلم۔‬

‫ت ۭ ٰ ْٓياَيُّ َها ْال َم َالُ‬ ‫س ْۢ ْنب ُٰل ٍ‬


‫ت ُخض ٍْر َّواُخ ََر ٰي ِبسٰ ٍ‬ ‫س ْب َع ُ‬
‫اف َّو َ‬ ‫ان يَّا ْ ُكلُ ُه َّن َ‬
‫س ْب ٌع ِع َج ٌ‬ ‫ت ِس َم ٍ‬ ‫س ْب َع بَقَ ٰر ٍ‬ ‫َوقَا َل ْال َم ِلكُ اِنِ ْْٓى ا َ ٰري َ‬
‫؀‪43‬‬ ‫لر ْءيَا ت َ ْعب ُُر ْونَ‬ ‫ا َ ْفت ُ ْونِ ْي فِ ْي ُر ْءيَ َ‬
‫اي ا ِْن ُك ْنت ُ ْم ِل ُّ‬
‫بادشاہ نے کہا‪ ،‬ميں نے خواب ديکها ہے سات موٹی تازی فربہ گائے ہيں جن کو سات ْلغر دبلی‬
‫پتلی گائيں کها رہی ہيں اور سات بالياں ہيں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک۔ اے درباريو!‬
‫ميرے اس خواب کی تعبير بتالؤ اگر تم خواب کی تعبير دے سکتے ہو۔‬

‫؀‪44‬‬ ‫َاث اَحْ َال ٍم ۚ َو َما نَحْ ُن ِبتَا ْ ِو ْي ِل ْاْلَحْ َال ِم ِبعٰ ِل ِميْنَ‬
‫ضغ ُ‬‫قَالُ ْْٓوا ا َ ْ‬
‫انہوں نے جواب ديا يہ تو اڑتے اڑاتے پريشان خواب ہيں اور ايسے شوريدہ پريشان خوابوں کی‬
‫تعبير جاننے والے ہم نہيں (‪)١‬۔‬
‫تعالی کو اس خواب کے ذريعے‬‫‪٤٤‬۔‪ ١‬يہ خواب اس بادشاہ کو آيا‪ ،‬عزيز مصر جس کا وزير تها۔ ہللا ٰ‬
‫سے يوسف عليہ السالم کی رہائی عمل ميں ْلنی تهی۔ چنانچہ بادشاہ کے درباريوں‪ ،‬کاہنوں اور‬
‫نجوميوں نے اس خواب پريشان کی تعبير بتالنے سے عجز کا اظہار کر ديا‪ ،‬بعض کہتے ہيں کہ‬
‫نجوميوں کے اس قول کا مطلب مطلقا علم تعبير کی نفی ہے اور بعض کہتے ہيں کہ علم تعبير سے‬
‫وہ بےخبر نہيں تهے نہ اس کی انہوں نے نفی کی‪ ،‬انہوں نے صرف خواب کی تعبير بتالنے سے‬
‫ْل علمی کا اظہار کيا۔‬

‫؀‪45‬‬ ‫َوقَا َل الَّ ِذ ْ‬


‫ي نَ َجا ِم ْن ُه َما َوا َّد َك َر بَ ْع َد ا ُ َّم ٍة اَنَا اُنَبِئ ُ ُك ْم بِتَا ْ ِويْـ ِل ٖه فَا َ ْر ِسلُ ْو ِن‬
‫ان دو قيديو ں ميں سے جو رہا ہوا تها اسے مدت کے بعد ياد آگيا اور کہنے لگا ميں تمہيں اس کی‬
‫تعبير بتا دوں گا مجهے جانے کی اجازت ديجئے (‪)١‬۔‬
‫‪٤٥‬۔‪ ١‬يہ قيد کے دو ساتهيوں ميں سے ايک نجات پانے واْل تها‪ ،‬جسے حضرت يوسف عليہ السالم‬
‫نے کہا تها کہ اپنے آقا سے ميرا ذکر کرنا‪ ،‬تاکہ ميری رہائی کی صورت بن سکے۔ اسے اچانک‬
‫ياد آيا اور اس نے کہا کہ مجهے مہلت دو ميں تمہيں آ کر اس کی تعبير بتالتا ہوں‪ ،‬چنانچہ وہ نکل‬
‫کر سيدها يوسف عليہ السالم کے پاس پہنچا اور خواب کی تفصيل بتا کر اس کی تعبير کی بابت‬
‫پوچها۔‬

‫ت‬ ‫س ْۢ ْنب ُٰل ٍ‬


‫ت ُخض ٍْر َّواُخ ََر ٰيبِسٰ ٍ‬ ‫سبْعِ ُ‬
‫اف َّو َ‬ ‫ان يَّا ْ ُكلُ ُه َّن َ‬
‫س ْب ٌع ِع َج ٌ‬ ‫سبْعِ بَقَ ٰر ٍ‬
‫ت ِس َم ٍ‬ ‫الص ِدي ُْق ا َ ْفتِنَا فِ ْي َ‬
‫ف اَيُّ َها ِ‬ ‫س ُ‬ ‫ي ُْو ُ‬
‫؀‪46‬‬ ‫اس لَ َعلَّ ُه ْم َي ْعلَ ُم ْونَ‬
‫لَّ َع ِل ْْٓي ا َ ْر ِج ُع اِلَى النَّ ِ‬
‫اے يوسف! اے بہت بڑے سچے يوسف! آپ ہميں اس خواب کی تعبير بتاليئے کہ سات موٹی تازی‬
‫گائيں ہيں جنہيں سات دبلی پتلی گائيں کها رہی ہيں اور سات سبز خوشے ہيں اور سات ہی دوسرے‬
‫بهی بالکل خشک ہيں‪ ،‬تاکہ ميں واپس جا کر ان لوگوں سے کہوں کہ وہ سب جان ليں۔‬

‫؀‪47‬‬ ‫س ْۢ ْنبُ ِل ٖ ْٓه ا َِّْل قَ ِلي اْال ِم َّما تَا ْ ُكلُ ْونَ‬
‫ص ْدت ُّ ْم فَ َذ ُر ْوہُ فِ ْي ُ‬
‫س ْب َع ِسنِيْنَ َداَباا ۚ فَ َما َح َ‬ ‫قَا َل ت َْز َر ُ‬
‫ع ْونَ َ‬
‫يوسف نے جواب ديا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بويا کرنا‪ ،‬اور فصل‬
‫کاٹ کر اسے باليوں سميت ہی رہنے دينا سوائے اپنے کهانے کی تهوڑی سی مقدار کے۔‬

‫؀‪48‬‬ ‫صنُ ْونَ‬ ‫ث ُ َّم َياْتِ ْي ِم ْۢ ْن َب ْع ِد ٰذلِكَ َ‬


‫س ْب ٌع ِش َدا ٌد يَّا ْ ُك ْلنَ َما قَد َّْمت ُ ْم لَ ُه َّن ا َِّْل قَ ِلي اْال ِم َّما تُحْ ِ‬
‫اس کے بعد سات سال نہايت سخت قحط کے آئيں گے وہ اس غلے کو کها جائيں گے‪ ،‬جو تم نے ان‬
‫کے لئے ذخيرہ رکه چهوڑا تها (‪ )١‬سوائے اس تهوڑے سے کے جو تم روک رکهتے ہو (‪)٢‬۔‬
‫‪٤٨‬۔‪ ١‬حضرت يوسف عليہ السالم کو ہللا ٰ‬
‫تعالی نے علم تعبير سے بهی نوازی تها‪ ،‬اس لئے وہ اس‬
‫خواب کی تہ تک فورا پہنچ گئے انہوں نے موٹی تازہ سات گايوں سے سات سال مراد لئے جن ميں‬
‫خوب پيداوار ہوگی‪ ،‬اور سات دبلی پتلی گايوں سے اس کے برعکس سات سال خشک سالی کے۔‬
‫اسی طرح سات سبز خوشوں سے مراد ليا کہ زمين خوب پيداوار دے گی اور سات خشک خوشوں‬
‫کا مطلب يہ ہے کہ ان سات سالوں ميں زمين کی پيداوار نہيں ہوگی۔ اور پهر اس کے لئے تدبير‬
‫بهی بتالئی کہ سات سال تم متواتر کاشتکاری کرو اور جو غلہ تيار ہو‪ ،‬اسے کاٹ کر باليوں سميت‬
‫ہی سنبهال کر رکهو تاکہ ان ميں غلہ زيادہ محفوظ رہے‪ ،‬پهر جب سات سال قحط کے آئيں گے تو‬
‫يہ غلہ تمہارے کام آئے گا جس کا ذخيرہ تم اب کرو گے۔‬
‫‪٤٨‬۔‪ِ ٢‬م َّما تُحصنُ ْونَ سے مراد وہ دانے ہيں جو دوبارہ کاشت کے لئے محفوظ کر لئے جاتے ہيں۔‬

‫ۧ؀‪49‬‬ ‫ص ُر ْونَ‬
‫اس َوفِ ْي ِه َي ْع ِ‬ ‫ث ُ َّم َيا ْ ِت ْي ِم ْۢ ْن َب ْع ِد ٰذلِكَ َ‬
‫عا ٌم ِف ْي ِه يُغ ُ‬
‫َاث النَّ ُ‬
‫اس کے بعد جو سال آئے گا اس ميں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس ميں (شيرہ‬
‫انگور بهی) خوب نچوڑيں گے (‪)١‬‬
‫‪٤٩‬۔‪ ١‬يعنی قحط کے سال گزرنے کے بعد پهر خوب بارش ہوگی‪ ،‬جس کے نتيجے ميں کثرت‬
‫پيداوار ہوگی اور تم انگوروں سے شيرہ نچوڑو گے‪ ،‬زيتوں سے تيل نکالو گے اور جانوروں سے‬
‫دوده دوہو گے۔ خواب کی اس تعبير کو خواب سے کيسی لطيف مناسبت حاصل ہے‪ ،‬جسے صرف‬
‫وہی شخص سمجه سکتا ہے جسے ہللا ٰ‬
‫تعالی ايسا صحيح وجدان‪ ،‬ذوق سليم اور ملکہ راسخ عطا‬
‫تعالی نے حضرت يوسف عليہ السالم‬‫فرما دے جو ہللا ٰ‬

‫کو عطا فرمايا۔‬

‫ار ِج ْع ا ِٰلي َربِكَ فَسْـــَٔ ْـلهُ َما بَا ُل النِس َْوةِ الهتِ ْي قَ َّ‬
‫ط ْعنَ ا َ ْي ِديَ ُه َّن ۭ‬ ‫س ْو ُل قَا َل ْ‬ ‫َوقَا َل ْال َم ِلكُ ائْت ُ ْونِ ْي بِ ٖه ۚ فَلَ َّما َج ۗا َءہُ َّ‬
‫الر ُ‬
‫؀‪50‬‬ ‫ا َِّن َر ِب ْي ِب َك ْي ِده َِّن َ‬
‫ع ِل ْي ٌم‬
‫اور بادشاہ نے کہا يوسف کو ميرے پاس ْلؤ (‪ )١‬جب قاصد يوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا‪،‬‬
‫اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچه کہ ان عورتوں کا حقيقی واقعہ کيا ہے جنہوں نے‬
‫اپنے ہاته کاٹ لئے (‪ )٢‬تهے؟ ان کے حيلے کو (صحيح طور پر) جاننے واْل ميرا پروردگار ہی‬
‫ہے۔‬
‫‪٥٠‬۔‪ ١‬مطلب يہ ہے کہ جب وہ شخص تعبير دريافت کر کے بادشاہ کے پاس گيا اور اسے تعبير‬
‫بتائی تو وہ اس تعبير سے اور حضرت يوسف عليہ السالم کی بتالئی ہوئی تدبير سے بڑا متاثر ہوا‬
‫اور اس نے اندازہ لگا ليا کہ يہ شخص‪ ،‬جسے ايک عرصے سے حوالہ زنداں کيا ہوا ہے‪ ،‬غير‬
‫معمولی علم و فضل اور اع ٰلی صالحيتوں کا حامل ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہيں دربار ميں پيش‬
‫کرنے کا حکم ديا۔‬
‫‪٥٠‬۔‪ ٢‬حضرت يوسف عليہ السالم نے جب ديکها کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے‪ ،‬تو انہوں نے اس‬
‫طرح محض عنايت خسوانہ سے جيل سے نکلنے کو پسند نہيں فرمايا‪ ،‬بلکہ اپنے کردار کی رفعت‬
‫اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجيح دی تاکہ دنيا کے سامنے آپ کا کردار اور اس کی بلندی واضح‬
‫ہو جائے۔ کيونکہ داعی الی ہللا کے لئے يہ عفت و پاک بازی اور رفعت کردار بہت ضروری ہے۔‬
‫ت ْام َراَتُ ْالعَ ِزي ِْز‬
‫س ۗ ْوءٍ ۭ قَالَ ِ‬
‫علَ ْي ِه ِم ْن ُ‬
‫ع ِل ْمنَا َ‬
‫ّٰلل َما َ‬ ‫ع ْن نَّ ْف ِس ٖه ۭ قُ ْلنَ َح َ‬
‫اش ِ ه ِ‬ ‫ف َ‬ ‫س َ‬ ‫قَا َل َما خ ْ‬
‫َطبُ ُك َّن اِ ْذ َر َاو ْدت ُّ َّن ي ُْو ُ‬
‫؀‪51‬‬ ‫ص ِدقِيْنَ‬ ‫ع ْن نَّ ْف ِس ٖه َواِنَّهٗ لَ ِمنَ ال ه‬‫ص ْال َح ُّق ۡ اَنَا َر َاو ْدتُّهٗ َ‬ ‫ص َح َ‬ ‫ْال ٰــنَ َح ْ‬
‫بادشاہ نے پوچها اے عورتو! اس وقت کا صحيح واقعہ کيا ہے جب تم داؤ فريب کرکے يوسف کو‬
‫اس کی دلی منشا سے بہکانہ چاہتی تهيں انہوں نے صاف جواب ديا کہ معاذہللا ہم نے يوسف ميں‬
‫کوئی برائی نہيں (‪ )١‬پائی‪ ،‬پهر تو عزيز کی بيوی بهی بول اٹهی کہ اب تو سچی بات نتهر آئی ميں‬
‫نے ہی اسے ورغاليا تها‪ ،‬اس کے جی سے‪ ،‬اور يقينا ا وہ سچوں ميں سے ہے (‪)٢‬۔‬
‫‪٥١‬۔‪ ١‬بادشاہ کے استفسار پر تمام عورتوں نے يوسف عليہ السالم کی پاک دامنی کا اعتراف کيا۔‬
‫‪٥١‬۔‪ ٢‬اب زليخا کے لئے بهی يہ اعتراف کئے بغير چارہ نہيں رہا کہ يوسف عليہ السالم بےقصور‬
‫ہے اور يہ پيش دستی ميری ہی طرف سے ہوئی تهی‪ ،‬اس فرشتہ صفت انسان کا اس لغزش سے‬
‫کوئی تعلق نہيں۔‬

‫۝‪52‬‬ ‫ي َك ْي َد ْالخ َۗاى ِنيْنَ‬ ‫ٰذلِكَ ِليَ ْعلَ َم اَنِ ْى لَ ْم ا َ ُخ ْنهُ بِ ْالغَ ْي ِ‬
‫ب َوا َ َّن ه‬
‫ّٰللاَ َْليَ ْه ِد ْ‬
‫بادشاہ نے کہا اسے ميرے پاس ْلؤ ميں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کرلوں (‪ )١‬پهر‬
‫جب اس سے بات چيت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہيں‬
‫(‪)٢‬۔‬
‫‪٥٢‬۔‪ ١‬جب جيل ميں حضرت يوسف عليہ السالم کو ساری تفصيل بتالئی گئی تو اسے سن کر يوسف‬
‫عليہ السالم نے کہا اور بعض کہتے ہيں کہ بادشاہ کے پاس جا کر انہوں نے يہ کہا اور بعض‬
‫مفسرين کے نزديک زليخا کا قول ہے اور مطلب يہ ہے کہ يوسف عليہ السالم کی غير موجودگی‬
‫ميں بهی اس غلط طور پر خيانت کا ارتکاب نہيں کرتی بلکہ امانت کے تقاضوں کو سامنے رکهتے‬
‫ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہوں۔ يا يہ مطلب ہے کہ ميں نے اپنے خاوند کی خيانت نہيں کی‬
‫اور کسی بڑے گناہ ميں واقعہ نہيں ہوئی۔ امام ابن کثير نے اسی قول کو ترجيح دی ہے۔‬
‫‪٥٢‬۔‪ ٢‬کہ وہ اپنے مکر وفريب ميں ہميشہ کامياب ہی رہيں‪ ،‬بلکہ ان کا اثر محدود اور عارضی ہوتا‬
‫ہے۔ باآلخر جيت حق اور اہل حق ہی کی ہوتی ہے‪ ،‬گو عارضی طور پر اہل حق کو آزمائشوں سے‬
‫گزرنا پڑے۔‬

You might also like