Professional Documents
Culture Documents
12 para
12 para
ع َها ۭ ُك ٌّل فِ ْي ِك ٰت ٍ
ب ُّمبِي ٍْن ّٰللاِ ِر ْزقُ َها َويَ ْعلَ ُم ُم ْست َــقَ َّرهَا َو ُمسْـت َْو َد َ
علَي ه َو َما ِم ْن َد ۗابَّ ٍة فِي ْاْلَ ْر ِ
ض ا َِّْل َ
Č
زمين پر چلنے پهرنے والے جتنے جاندار ہيں سب کی روزياں ہللا ٰ
تعالی پر ہيں ( )١وہی ان کے
رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے ( )٢کی جگہ کو بهی ،سب کچه
واضح کتاب ميں موجود ہے۔
٦۔ ١يعنی وہ کفيل اور ذمے دار ہے۔ زمين پر چلنے والی ہر مخلوق ،انسان ہو يا جن ،چرند ہو يا
پرند ،چهوٹی ہو يا بڑی ،بحری ہو يا بری۔ ہر ايک کو اس کی ضروريات کے مطابق وہ خوراک
مہيا کرتا ہے۔
٦۔ ٢مستقر اور مستودع کی تعريف ميں اختالف ہے بعض کے نزديک منتہائے سير (يعنی زمين
ميں چل پهر کر جہاں رک جائے) مستقر ہے اور جس کو ٹهکانا بنائے وہ مستودع ہے۔ بعض کے
نزديک رحم مادر مستقر اور باپ کی صلب مستودع ہے اور بعض کے نزديک زندگی ميں انسان يا
حيوان جہاں رہائش پذير ہو وہ اس کا مستقر ہے اور جہاں مرنے کے بعد دفن ہو وہ مستودع ہے
تفسير ابن کثير امام شوکانی کہتے ہيں مستقر سے مراد رحم مادر اور مستودع سے وہ حصہ زمين
ہے جس ميں دفن ہو اور امام حاکم کی ايک روايت کی بنياد پر اسی کو ترجيح دی ہے بہرحال جو
بهی مطلب ليا جائے آيت کا مفہوم واضح ہے کہ چونکہ ہللا ٰ
تعالی کو ہر ايک کے مستقر ومستودع
کا علم ہے اس ليے وہ ہر ايک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے اور ذمے دار ہے اور وہ اپنی ذمے
داری پوری کرتا ہے۔
ْٓ
ص ُر ْوفاا َ
ع ْن ُه ْم َو َحاقَ بِ ِه ْم ْس َم ْ اب ا ِٰلى ا ُ َّم ٍة َّم ْعد ُْو َدةٍ لَّيَقُ ْولُ َّن َما يَحْ بِ ُ
سهٗ ۭ ا َ َْل يَ ْو َم يَاْتِ ْي ِه ْم لَي َ ع ْن ُه ُم ْالعَ َذ ََولَى ْن ا َ َّخ ْرنَا َ
ۧĎ َّما َكانُ ْوا بِ ٖه يَ ْست َ ْه ِز ُء ْونَ
اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چنی مدت تک کے لئے پيچهے ڈال ديں تو يہ ضرور پکار اٹهيں
گے کہ عذاب کو کون سی چيز روکے ہوئے ہے ،سنو! جس دن وہ ان کے پاس آئے گا پهر ان سے
ٹلنے واْل نہيں پهر تو جس چيز کی ہنسی اڑا رہے تهے وہ انہيں گهير لے گی ()١
٨۔ ١يہاں استعجال (جلد طلب کرنے) کو استہزا سے تعبير کيا گيا ہے کيونکہ وہ استعجال ،بطور
تعالی کی طرف سے تاخير پر انسان کو اسہزا ہی ہوتا تها بہرحال مقصود يہ سمجهانا ہے کہ ہللا ٰ
غفلت نہيں کرنی چاہيے اس کی گرفت کسی بهی وقت ہو سکتی ہے
Ḍ س َكفُ ْو ٌر سانَ ِمنَّا َرحْ َمةا ث ُ َّم نَزَ ع ْٰن َها ِم ْنهُ ۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔ ْ
ــو ٌ َولَى ْن ا َ َذ ْقنَا ْ ِ
اْل ْن َ
اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکها کر پهر اسے اس سے لے ليں تو وہ بہت ہی نااميد
اور بڑا نا شکرا بن جاتا ہے ()١
٩۔ ١انسانوں ميں عام طور پر جو مذموم صفات پائی جاتی ہيں اس ميں اور اگلی آيت ميں ان کا بيان
ہے۔ نا اميدی کا تعلق مستقبل سے ہے اور ناشکری کا ماضی و حال سے۔
14 ْل ا ِٰلهَ ا َِّْل ُه َو ۚ فَ َه ْل ا َ ْنت ُ ْم ُّم ْس ِل ُم ْونَ فَا ِْن لَّ ْم يَ ْست َِج ْيب ُْوا لَ ُك ْم فَا ْعلَ ُم ْْٓوا اَنَّ َما ْٓ ا ُ ْن ِز َل ِب ِع ْل ِم ه ِ
ّٰللا َوا َ ْن َّ ْٓ
پهر اگر وہ تمہاری بات کو قبول نہ کريں تو تم يقين سے جان لو کہ يہ قرآن ہللا کے علم کے ساته
اتارا گيا ہے اور يہ کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہيں ،پس کيا تم مسلمان ہوتے ہو ()١
١٤۔ ١يعنی کيا اس کے بعد بهی کہ تم اس چيلنج کا جواب دينے سے قاصر ہو ،يہ ماننے کے لئے،
کہ يہ قرآن ہللا ہی کا نازل کردہ ہے ،آمادہ نہيں ہوا اور نہ مسلمان ہونے کو تيار ہو؟
15 س ْونَ َم ْن َكانَ ي ُِر ْي ُد ْال َح ٰيوة َ ال ُّد ْن َيا َو ِز ْينَت َ َها نُ َو ِ
ف اِلَ ْي ِه ْم ا َ ْع َمالَ ُه ْم فِ ْي َها َو ُه ْم فِ ْي َها َْل يُ ْب َخ ُ
جو شخص دنيا کی زندگی اور اس کی زينت پر فريفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ايسوں کو ان کے کل اعمال
(کا بدلہ) يہيں بهرپور پہنچا ديتے ہيں اور يہاں انہيں کوئی کمی نہيں کی جاتی۔
ُ ٰۗ
ع ٰلي َر ِب ِه ْم َويَقُ ْو ُل ْاْلَ ْش َها ُد ٰ ْٓهؤُ َ ْۗل ِء الَّ ِذيْنَ َك َذب ُْوا َ
ع ٰلي ض ْونَ َ
ولىكَ يُ ْع َر ُ علَي ه ِ
ّٰللا َك ِذباا ۭ ا َو َم ْن ا َ ْ
ظلَ ُم ِم َّم ِن ا ْفت َٰري َ
18 علَي ال ه
ظ ِل ِميْنَ َربِ ِه ْم ۚ ا َ َْل لَ ْعنَةُ ه ِ
ّٰللا َ
اس سے بڑه کر ظالم کون ہوگا جو ہللا پر جهوٹ باندهے ( )١يہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے
پيش کيے جائيں گے اور سارے گواہ کہيں گے کہ يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے اپنے پروردگار پر
جهوٹ باندها ،خبردار ہو کہ ہللا کی لعنت ہے ظالموں پر ()٢۔
١٨۔ ١يعنی جن کا ہللا نے کائنات ميں تصرف کرنے کا يا آخرت ميں شفاعت کا اختيار نہيں ديا ہے۔
ان کی بابت يہ کہا جائے کہ ہللا نے انہيں يہ اختيار ديا ہے۔
تعالی ايک مومن سے اس ١٨۔ ٢حديث ميں اس کی تفسير اس طرح آتی ہے کہ ' قيامت والے دن ہللا ٰ
کے گناہوں کا اقرار و اعتراف کروائے گا کہ تجهے معلوم ہے کہ تو نے فالں گناہ بهی کيا تها،
فالں بهی کيا تها ،وہ مومن کہے گا ہاں ٹهيک ہے ہللا ٰ
تعالی فرمائے گا۔ ميں نے ان گناہوں پر دنيا
ميں بهی پردہ ڈالے رکها تها ،جا آج بهی انہيں معاف کرتا ہوں ،ليکن دوسرے لوگ يا کافروں کا
معاملہ ايسا ہوگا کہ انہيں گواہوں کے سامنے پکارا جائے گا اور گواہ يہ گواہی ديں گے کہ يہی وہ
لوگ ہيں ،جنہوں نے اپنے رب پر جهوٹ باندها تها (صحيح بخاری)۔
ُ ٰۗ
ف لَ ُه ُم ْال َع َذ ُ
اب ۭ َما َكانُ ْوا ّٰللاِ ِم ْن ا َ ْو ِل َي ۗا َء ۘ ي ٰ
ُض َع ُ ض َو َما َكانَ لَ ُه ْم ِم ْن د ُْو ِن ه ولىكَ لَ ْم َي ُك ْونُ ْوا ُم ْع ِج ِزيْنَ فِي ْاْلَ ْر ِ ا
20 س ْم َع َو َما َكانُ ْوا يُب ِ
ْص ُر ْونَ يَ ْست َِط ْيعُ ْونَ ال َّ
نہ يہ لوگ دنيا ميں ہللا کو ہراسکے اور نہ ان کا کوئی حمائتی ہللا کے سوا ہوا ،ان کے لئے عذاب
دگنا کيا جائے گا نہ يہ سننے کی طاقت رکهتے تهے اور نہ ديکهتے ہی تهے ()١۔
٢٠۔ ١يعنی ان کا حق سے اعراض اور بغض اس انتہا تک پہنچا ہوا تها کہ يہ اسے سننے اور
ديکهنے کی طاقت ہی نہيں رکهتے تهے يا يہ مطلب ہے کہ ہللا نے ان کو کان اور آنکهيں تو دی
س ْمعُ ُه ْم َو َ ْٓ
ْل تهيں ليکن انہوں نے ان سے کوئی بات نہ سنی اور نہ ديکهی۔ گويا ' ( فَ َما ْٓ ا َ ْغ ٰنى َ
ع ْن ُه ْم َ
َيءٍ ) 46۔ اْلحقاف )26:نہ ان کے کانوں نے انہيں کوئی فائدہ فــۭ ِۭ َدت ُ ُه ْم ِم ْن ش ْ
ْل ا َ ْ
ار ُه ْم َو َ ْٓ
ص ُا َ ْب َ
پہنچايا ،نہ ان کی آنکهوں اور دلوں نے ' کيونکہ وہ حق سننے سے بہرے اور حق ديکهنے سے
اندهے بنے رہے ،جس طرح کہ وہ جہنم ميں داخل ہوتے ہوئے کہيں گے ( لَ ْو ُكنَّا نَ ْس َم ُع ا َ ْو نَ ْع ِق ُل َما
س ِعي ِْر 10) 67۔ الملک ' )10:اگر ہم سنتے اور عقل سے کام ليتے تو آج جنہم ب ال َّ ُكنَّا فِ ْْٓي ا َ ْ
صحٰ ِ
ميں نہ جاتے۔
ُ ٰۗ
21 ع ْن ُه ْم َّما َكانُ ْوا يَ ْفت َُر ْونَ
ض َّل َ ولىكَ الَّ ِذيْنَ َخ ِس ُر ْْٓوا ا َ ْنفُ َ
س ُه ْم َو َ ا
يہی ہيں جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر ليا اور وہ سب کچه ان سے کهو گيا ،جو انہوں نے گهڑ رکها
تها۔
ُ ٰۗ
23 ب ْال َجــنَّ ِة ۚ ُه ْم فِ ْي َها ٰخ ِلد ُْونَ ولىكَ ا َ ْ
صحٰ ُ ت َوا َ ْخبَت ُ ْْٓوا ا ِٰلي َربِ ِه ْم ا
ص ِلحٰ ِ ا َِّن الَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َو َ
ع ِملُوا ال ه
يقينا ا جو لوگ ايمان ْلئے اور انہوں نے کام بهی نيک کئے اور اپنے پالنے والے کی طرف جهکتے
رہے ،وہی جنت ميں جانے والے ہيں ،جہاں وہ ہميشہ ہی رہنے والے ہيں۔
ۧ24 س ِميْعِ ۭ ه َْل يَ ْست َ ِو ٰي ِن َمث َ اال ۭ اَفَ َال ت َ َذ َّك ُر ْونَ ص ِم َو ْالبَ ِ
صي ِْر َوال َّ َمث َ ُل ْالفَ ِر ْيقَي ِْن َك ْاْلَعْمٰ ى َو ْاْلَ َ
ان دونوں فرقوں کی مثال اندهے ،بہرے اور ديکهنے ،سننے والے جيسی ہے ( )١کيا يہ دونوں
مثال ميں برابر ہيں؟ کيا پهر بهی تم نصيحت حاصل نہيں کرتے۔
٢٤۔ ١پچهلی آيات ميں مومنين اور کافرين اور سعادت مندوں اور بدبختوں ،دونوں کا تذکرہ فرمايا۔
اب اس ميں دونوں کی مثال بيان فرما کر دونوں کی حقيقت کو مزيد واضح کيا جا رہا ہے۔ فرمايا،
ايک کی مثال اندهے اور بہرے کی طرح ہے اور دوسرے کی ديکهنے اور سننے والے کی طرح۔
کافر دنيا ميں حق کا روئے زيبا ديکهنے سے محروم اور آخرت ميں نجات کے راستہ سے
بےبہرہ ،اسی طرح حق کے دْلئل سننے سے بےبہرہ ہوتا ہے ،اسی لئے ايسی باتوں سے محروم
رہتا ہے جو اس کے لئے مفيد ہوں۔ اس کے برعکس مومن سمجه دار ،حق کو ديکهنے واْل اور
حق اور باطل کے درميان تميز کرنے واْل ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ حق اور خير کی پيروی کتا ہے،
دْلئل کو سنتا اور ان کے ذريعے سے شبہات کا ازالہ کرتا اور باطل سے اجتناب کرتا ہے ،کيا يہ
دونوں برابر ہو سکتے ہيں؟ استفہام نفی کے ليے ہے۔ يعنی دونوں برابر نہيں ہو سکتے۔ جيسے
ب ْال َجنَّ ِة ُه ُم ْالفَا ۭۗى ُز ْونَ " 59۔ ب ْال َجنَّ ِة ۭۭ ا َ ْ
صحٰ ُ ار َوا َ ْ
صحٰ ُ ب النَّ ِ ي اَ ْ
صحٰ ُ َ
فرمايا۔"ْل يَ ْست َ ِو ْْٓ دوسرے مقام پر
الحشر( )20:جنتی دوزخی برابر نہيں ہو سکتے جنتی تو کامياب ہونے والے ہيں) ايک اور مقام پر
اسے اس طرح بيان فرمايا " اندها اور ديکهنے واْل برابر نہيں۔ اندهيرے اور روشنی ،سايہ اور
دهوپ برابر نہيں ،زندے اور مردے برابر نہيں۔ (سورہ فاطر۔َ ( )٢٠ ،١٩و َما يَ ْست َ ِوي ْاْلَعْمٰ ى
الظلُمٰ تُ َو َْل النُّ ْو ُر ۭ 20 ) 35۔فاطر)19-20: صي ُْر َۭ 19و َْل َُّو ْال َب ِ
25 ۡ اِنِ ْى لَ ُك ْم نَ ِذي ٌْر ُّمبِي ٌْن س ْلنَا نُ ْو احا ا ِٰلي قَ ْو ِم ٖ ْٓه
َولَقَ ْد ا َ ْر َ
يقينا ا ہم نے نوح (عليہ السالم) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بهيجا کہ ميں تمہيں صاف
صاف ہوشيار کر دينے واْل ہوں۔
فَقَا َل ْال َم َالُ الَّ ِذيْنَ َكفَ ُر ْوا ِم ْن قَ ْو ِم ٖه َما ن َٰرىكَ ا َِّْل بَش اَرا ِمثْلَنَا َو َما ن َٰرىكَ اتَّبَعَكَ ا َِّْل الَّ ِذيْنَ ُه ْم ا َ َرا ِذلُـنَا بَاد َ
ِي
27 ظنُّ ُك ْم ٰك ِذبِيْنَ
ض ْۢ ٍل بَ ْل نَ ُ الراْي ِ ۚ َو َما ن َٰري لَ ُك ْم َ
علَ ْينَا ِم ْن فَ ْ َّ
اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب ديا کہ ہم تو تجهے اپنے جيسا انسان ہی ديکهتے
ہيں ( )١اور تيرے تابعداروں کو بهی ہم ديکهتے ہيں کہ يہ لوگ واضح طور پر سوائے نيچ ()٢
لوگوں کے ( )۳اور کوئی نہيں جو بےسوچے سمجهے (تمہاری پيروی کر رہے ہيں) ہم تو تمہاری
کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہيں ديکه رہے ،بلکہ ہم تو تمہيں جهوٹا سمجه رہے ہيں۔
٢٧۔ ١يہ وہی شبہ ہے ،جس کی پہلے کئی جگہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کافروں کے نزديک
بشريت کے ساته نبوت و رسالت کا اجتماع بڑا عجيب تها ،جس طرح آج کے اہل بدعت کو بهی
عجيب لگتا ہے اور وہ بشريت رسول کا انکار کرتے ہيں۔
٢٧۔ ٢حق کی تاريخ ميں يہ بات بهی ہر دور ميں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتداء ميں اس کو اپنانے
والے ہميشہ وہ لوگ ہوتے ہيں جنہيں معاشرے ميں بےنوا کم تر سمجها جاتا تها اور صاحب حيثيت
اور خوش حال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتی کہ پيغمبروں کے پيروکاروں کی عالمت بن گئی۔
چنانچہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفيان سے نبی کی بابت پوچها تو اس ميں ان سے ايک بات
يہ بهی پوچهی کہ ' اس کے پيروکار معاشرے کے معزز سمجهے جانے والے لوگ ہيں يا کمزور
لوگ ' حضرت
ابو سفيان نے جواب ميں کہا ' کمزور لوگ ' جس پر ہرقل نے کہا ' رسولوں کے پيروکار يہی
لوگ ہوتے ہيں (صحيح بخاری)۔ قرآن کريم ميں بهی وضاحت کی گئی ہے کہ خوش حال طبقہ ہی
سب سے پہلے پيغمبروں کی تکذيب کرتا رہا ہے۔(سورہ زخرف۔َ ( )٢۳و َك ٰذلِكَ َما ْٓ ا َ ْر َ
س ْلنَا ِم ْن قَ ْبلِكَ ِف ْي
ع ٰلْٓي ٰا ٰث ِر ِه ْم ُّم ْقتَد ُْونَ 43 )23۔ قَري ٍة ِم ْن نَّ ِذيْر ا َِّْل قَا َل متْرفُو َها ْٓ ۭاِنَّا وج ْدنَا ْٓ ٰابا ۭۗءنَا ْٓ
ع ٰلي ا ُ َّم ٍة َّواِنَّا َ
َ َ َ َ َ ُ َ ْ ٍ ْ َ
الزخرف )23:اور يہ اہل ايمان کی دنياوی حيثيت تهی اور جس کے اعتبار سے اہل کفر انہيں حقير
ا ور کم تر سمجهتے تهے ،ورنہ حقيقت تو يہ ہے کہ حق کے پيروکار معزز اور اشراف ہيں چاہے
وہ مال و دولت کے اعتبار سے فروتر ہی ہوں اور حق کا انکار کرنے والے حقير اور بےحيثيت
ہيں چاہے وہ دنيوں اعتبار سے مال دار ہی ہوں۔
٢٧۔ ۳اہل ايمان چونکہ ،ہللا اور رسول کے احکام کے مقابلے ميں اپنی عقل و دانش اور رائے کا
استعمال نہيں کرتے ،اس لئے اہل باطل يہ سمجهتے ہيں کہ يہ بےسوچ سمجه والے ہيں کہ ہللا کا
رسول انہيں جس طرف موڑ ديتا ہے ،يہ مڑ جاتے ہيں جس چيز سے روک ديتا ہے ،رک جاتے
ہيں۔ يہ بهی اہل ايمان کی ايک بڑی بلکہ ايمان کا ْلزمی تقاضا ہے۔ ليکن اہل کفر و باطل کے
نزديک يہ خوبی بهی "عيب" ہے۔
علَ ْي ُك ْم ۭ اَنُ ْل ِز ُم ُك ُم ْوهَا َوا َ ْنت ُ ْم لَ َها ع ٰلي بَيِنَ ٍة ِم ْن َّربِ ْي َو ٰا ٰتىنِ ْي َرحْ َمةا ِم ْن ِع ْند ِٖہ فَعُ ِميَ ْ
ت َ قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا َ َر َء ْيت ُ ْم ا ِْن ُك ْنتُ َ
28 ٰك ِر ُه ْونَ
ن وح نے کہا ميری قوم والو! مجهے بتاؤ تو اگر ميں اپنے رب کی طرف سے دليل پر ہوا اور
مجهے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو ( )١پهر وہ تمہاری نگاہوں ميں ( )٢نہ آئی
تو کيا يہ زبردستی ميں اسے تمہارے گلے منڈه دوں حاْلنکہ تم اس سے بيزار ہو ()۳۔
١ ٢٨بينۃ سے مراد ايمان و يقين ہے اور رحمت سے مراد نبوت۔ جس سے ہللا ٰ
تعالی نے حضرت
نوح عليہ السالم کو سرفراز کيا تها۔
٢٨۔ ٢يعنی تم اس کے ديکهنے سے اندهے ہوگئے۔ چنانچہ تم نے اس کی قدر پہچانی اور نہ اسے
اپنانے پر آمادہ ہوئے ،بلکہ اس کو جهٹاليا اور رد کے درپے ہوگئے۔
٢٨۔۳جب يہ بات ہے تو ہدايت و رحمت تمہارے حصے ميں کس طرح آ سکتی ہے؟
ار ِد الَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا ۭ اِنَّ ُه ْم ُّم ٰلقُ ْوا َربِ ِه ْم َو ٰل ِكنِ ْْٓي
ط ِّٰللاِ َو َما ْٓ اَنَا بِ َ ي ا َِّْل َ
علَي ه ْل اَسْـــَٔـلُ ُك ْم َ
علَ ْي ِه َم ا
اْل ۭ ا ِْن اَجْ ِر َ َو ٰيقَ ْو ِم َ ْٓ
29 ا َ ٰرى ُك ْم قَ ْو اما تَجْ ـ َهلُ ْونَ
ميری قوم والو! ميں تم سے اس پر کوئی مال نہيں مانگتا ( )١ميرا ثواب تو صرف ہللا ٰ
تعالی کے
ہاں ہے نہ ميں ايمان داروں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں ( )٢انہيں اپنے رب سے ملنا ہے
ليکن ميں ديکهتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو ()۳۔
٢٩۔ ١تاکہ تمہارے دماغوں ميں يہ شبہ نہ آ جائے کہ اس دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو دولت
دنيا اکٹها کرنا ہے۔ ميں تو يہ کام صرف ہللا کے حکم پر اسی کی رضا کے لئے کر رہا ہوں ،وہی
مجهے اجر دے گا۔
٢٩۔ ٢اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح عليہ السالم کے سرداروں نے بهی معاشرے ميں کمزور
سمجهے جانے والے اہل ايمان کو حضرت نوح عليہ السالم سے اپنی مجلس يا اپنے قرب سے دور
رکهنے کا مطالبہ کيا ہوگا ،جس طرح روسائے مکہ نے رسول ہللا سے اس قسم کا مطالبہ کيا تها،
تعالی نے قرآن کريم کی آيت نازل فرمائيں تهيں ' اے پيغمبر ان لوگوں کو اپنے سے جس پر ہللا ٰ
ع ْونَ(و َْل ت َْط ُر ِد الَّ ِذيْنَ يَ ْد ُ
دور مت کرنا جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہيں (سورہ ،اْل نعام َ )٥٢
ش ْيءٍعلَ ْي ِه ْم ِم ْن َ سابِكَ َ َيءٍ َّو َما ِم ْن ِح َ
سابِ ِه ْم ِم ْن ش ْ َربَّ ُه ْم بِ ْالغ َٰدوةِ َو ْال َع ِشي ِ ي ُِر ْيد ُْونَ َوجْ َههٗ ۭۭ َما َ
علَيْكَ ِم ْن ِح َ
ظ ِل ِميْنَ 6 )52۔ اْلنعام ' )52:اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساته جوڑے َفت َْط ُر َد ُه ْم َفت َ ُك ْونَ ِمنَ ال ه
رکهئے! جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہيں ،اپنے رب کی رضا چاہتے ہيں ،آپ کی آنکهيں ان
سكَ َم َع الَّ ِذيْنَ
ص ِب ْر نَ ْف َ
(وا ْسے گزر کر کسی اور کی طرف تجاوز نہ کريں (سورة الکہف۔ َ )٢٨
ع ْن ُه ْم ۭۚ ت ُ ِر ْي ُد ِز ْينَةَ ْال َح ٰيوةِ ال ُّد ْنيَا ۭۚ َو َْل ت ُ ِط ْع ع ْونَ َربَّ ُه ْم بِ ْالغ َٰدوةِ َو ْالعَ ِشي ِ ي ُِر ْيد ُْونَ َوجْ َههٗ َو َْل ت َ ْع ُد َ
عي ْٰنكَ َ يَ ْد ُ
ا
ع ْن ِذ ْك ِرنَا َواتَّبَ َع ه َٰوىهُ َو َكانَ ا َ ْم ُر ٗہ فُ ُرطا) 18۔ الکہف)28: ْ ْ
َم ْن ا َ ْغفَلنَا قَلبَهٗ َ
٢٩۔ ۳يعنی ہللا اور رسول کے پيروکار کو حقير سمجهنا اور پهر انہيں قرب نبوت سے دور کرنے
کا مطالبہ کرنا ،يہ تمہاری جہالت ہے۔ يہ لوگ تو اس ْلئق ہيں کہ انہيں سر آنکهوں پر بٹهايا جائے
نہ کہ دور دهتکارا جائے۔
ْب َو َْلْٓ اَقُ ْو ُل اِنِ ْى َملَكٌ َّو َْلْٓ اَقُ ْو ُل ِللَّ ِذيْنَ ت َْز َد ِر ْْٓ
ي ا َ ْعيُنُ ُك ْم لَ ْن ِي خَزَ ۗاى ُن ه
ّٰللاِ َو َْلْٓ ا َ ْعلَ ُم ْالغَي َ َو َْلْٓ اَقُ ْو ُل لَ ُك ْم ِع ْند ْ
31 ّٰللاُ ا َ ْعلَ ُم بِ َما فِ ْْٓي ا َ ْنفُ ِس ِه ْم ښ اِنِ ْْٓى اِذاا لَّ ِمنَ ال ه
ظ ِل ِميْنَ ّٰللاُ َخي اْرا ۭ َ ه
يُّؤْ تِيَ ُه ُم ه
ميں تم سے نہيں کہتا کہ ميرے پاس ہللا کے خزانے ہيں ،ميں غيب کا علم بهی نہيں رکهتا ،نہ يہ
ميں کہتا ہوں کہ ميں کوئی فرشتہ ہوں ،نہ ميرا يہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہيں ذلت سے پڑ
تعالی کوئی نعمت دے گا ہی نہيں ( )١ان کے دل ميں جو ہے اسے ہللا ہی خوب رہی ہيں انہيں ہللا ٰ
جانتا ہے ،اگر ميں ايسی بات کہوں تو يقينا ا ميرا شمار ظالموں ميں ہو جائے گا ()٢۔
تعالی نے انہيں ايمان کی صورت ميں خير عظيم عطا کر رکها ہے جس کی بنياد پر ۳١۔ ١بلکہ ہللا ٰ
وہ آخرت ميں بهی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور دنيا ميں بهی ہللا ٰ
تعالی چاہے گا،
تو بلند مرتبے سے ہمکنار ہوں گے۔ گويا تمہارا ان کو حقير سمجهنا ان کے لئے نقصان کا باعث
نہيں ،البتہ تم ہی عند ہللا مجرم ٹهہرو گے کہ ہللا کے نيک بندوں کو ،جن کا ہللا کے ہاں بڑا مقام
ہے ،تم حقير اور فرومايہ سمجهتے ہو۔
۳١۔ ٢کيونکہ ميں ان کی بابت ايسی بات کہوں جس کا مجهے علم نہيں ،صرف ہللا جانتا ہے ،تو يہ
ظلم ہے۔
32 قَالُ ْوا ٰينُ ْو ُح قَ ْد جٰ َد ْلتَنَا فَا َ ْكث َ ْرتَ ِج َدالَنَا فَا ْ ِتنَا ِب َما ت َ ِع ُدنَا ْٓ ا ِْن ُك ْنتَ ِمنَ ال ه
ص ِد ِقيْنَ
(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کر لی اور خوب بحث کر لی ( )١اب تو
جس چيز سے ہميں دهمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ اگر تو سچوں ميں ہے ()٢۔
۳٢۔ ١ليکن اس کے باوجود ہم ايمان نہيں ْلئے۔
۳٢۔ ٢يہ وہی حماقت ہے جس کا ارتکاب گمراہ قوميں کرتی آئی ہيں کہ وہ اپنے پيغمبر سے کہتی
رہی ہيں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا کر ہميں تباہ کروا دے۔ حاْلنکہ ان ميں عقل
ہوتی ،تو وہ کہتيں کہ اگر سچا ہے اور واقعی ہللا کا رسول ہے ،تو ہمارے لئے دعا کر کہ ہللا ٰ
تعالی
ہمارا سينہ بهی کهول دے تاکہ ہم اسے اپنا ليں۔
ۧ35 ي ٌء ِم َّما تُجْ ِر ُم ْونَ ا َ ْم يَقُ ْولُ ْونَ ا ْفت َٰرىهُ ۭ قُ ْل ا ِِن ا ْفت ََر ْيتُهٗ فَ َعلَ َّ
ي اِجْ َر ِام ْي َواَنَا بَ ِر ۗ ْ
کيا يہ کہتے ہيں کہ اسے خود اسی نے گهڑ ليا ہے؟ تو جواب دے کہ اگر ميں نے اسے گهڑ ليا ہو
تو ميرا گناہ مجه پر ہے اور ميں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو ()١
۳٥۔ ١بعض مفسرين کے نزديک يہ مکالمہ قوم نوح عليہ السالم اور حضرت نوح عليہ السالم کے
درميان ہوا اور بعض کا خيال ہے کہ يہ جملہ معترضہ کے طور پر نبی اکرم اور مشرکين مکہ
کے درميان ہونے والی گفتگو ہے۔ مطلب يہ ہے کہ اگر يہ قرآن ميرا گهڑا ہوا ہے اور ميں ہللا کی
طرف سے منسوب کرنے ميں جهوٹا ہوں تو ميرا جرم ہے ،اس کی سزا ميں ہی بهگتوں گا۔ ليکن تم
جو کچه کر رہے ہو ،جس سے ميں بری ہوں ،اس کا بهی تمہيں پتہ ہے؟ اس کا وبال تو مجه پر
نہيں ،تم پر ہی پڑے گا کيا اس کی بهی تمہيں کچه فکر ہے؟
36ښ ي ا ِٰلي نُ ْوحٍ اَنَّهٗ لَ ْن يُّؤْ ِمنَ ِم ْن قَ ْو ِمكَ ا َِّْل َم ْن قَ ْد ٰا َمنَ فَ َال ت َ ْبت َى ْ
س بِ َما َكانُ ْوا يَ ْفعَلُ ْونَ َوا ُ ْو ِح َ
نوح کی طرف وحی بهيجی گئی کہ تيری قوم ميں سے جو ايمان ْل چکے ان کے سوا اور کوئی اب
ايمان ْلئے گا ہی نہيں ،پس تو ان کے کاموں پر غمگين نہ ہو ()١۔
۳٦۔ ١يہ اس وقت کہا گيا کہ جب قوم نوح عليہ السالم نے عذاب کا مطالبہ کيا اور حضرت نوح
عليہ السالم نے بارگاہ ٰالہی ميں دعا کی کہ يا رب! زمين پر ايک کافر بهی بسنے واْل نہ رہنے دے۔
ہللا نے فرمايا ،اب مزيد کوئی ايمان نہيں ْلئے گا ،تو ان پر غم نہ کها۔
41 ــر۩ى َها َو ُم ْرسٰ ى َها ۭ ا َِّن َر ِب ْي لَغَفُ ْو ٌر َّر ِح ْي ٌم َوقَا َل ْ
ار َكب ُْوا فِ ْي َها ِبس ِْم ه
ّٰللاِ َمجْ ٖ
نوح نے کہا اس کشتی ميں بيٹه جاؤ ہللا ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹهہرنا ہے )١( ،يقينا ا ميرا
رب بڑی بخشش اور بڑے رحم واْل ہے۔
٤١۔ ١يعنی ہللا ہی کے نام سے اس کا پانی کی سطح پر چلنا اور اسی کے نام پر اس کا ٹهہرنا ہے۔
اس سے ايک مقصد اہل ايمان کو تسلی اور حوصلہ دينا بهی تها کہ بال خوف و خطر کشتی ميں
تعالی ہی اس کشتی کا محافظ اور نگران ہے اسی کے حکم سے چلے گی اور سوار ہو جاؤ ،ہللا ٰ
تعالی نے دوسرے مقام پر فرمايا کہ ' اے نوح! جب اسی کے حکم سے ٹهہرے گی۔ جس طرح ہللا ٰ
ِی نَ هجنَا ِمنَ ْالقَ ْو ِم ال ه
ظ ِل ِميْنَ ہ تو اور تيرے ساتهی کشتی ميں آرام سے بيٹه جائيں تو کہو (ا َ ْل َح ْم ُد ِللله ِہ الَّذ ْ
ب ا َ ْن ِز ْلنِ ْی ُم ْنزَ اْل ُّم ٰب َرکَا َّو ا َ ْنتَ َخي ُْر ْال ُم ْن ِز ِليْنَ ) (المومنون ' )٢٨،٢٩سب تعريف ہللا ہی کے لئے
َو قُ ْل َّر ِ
ہے ،جس نے ہميں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی اور کہہ کہ اے ميرے رب! مجهے بابرکت
اتارنا اتار اور تو ہی بہتر اتارنے واْل ہے '۔
ّٰللاِ َمجْ ٖرها و ُم ْرسٰ ِها) کا پڑهنا مستحب قرار ديا بعض علماء نے کشتی يا سواری پر بيٹهتے وقت (بِس ِْم ه
س َّخــ َر لَنَا ٰه َذا َو َما ُكنَّا لَهٗ ُم ْق ِرنِيْنَ ) 43۔ الزخرف)13: سبْحٰ نَ الَّذ ْ
ِي َ (وتَ ـقُ ْولُ ْوا ُ
ہے ،مگر حديث سے َ
پڑهنا ثابت ہے۔
اص َم ْال َي ْو َم ِم ْن ا َ ْم ِر ه
ّٰللاِ ا َِّْل َم ْن َّر ِح َم ۚ َو َحا َل بَ ْينَ ُه َما ع ِص ُمنِ ْي ِمنَ ْال َم ۗا ِء ۭ قَا َل َْل َي ا ِٰلي َج َب ٍل يَّ ْع ِ
س ٰا ِو ْْٓ
قَا َل َ
43 ْال َم ْو ُج فَ َكانَ مِنَ ْال ُم ْغ َرقِيْنَ
اس نے جواب ديا کہ ميں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناہ ميں آجاؤں گا جو مجهے پانی سے بچا
لے گا ( )١نوح نے کہا آج ہللا کے امر سے بچانے واْل کوئی نہيں ،صرف وہی بچيں گے جن پر
ہللا کا رحم ہوا۔ اسی وقت ان دونوں کے درميان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں ميں سے
ہوگيا ()٢۔
٤۳۔ ١اس کا خيال تها کہ کسی بڑے پہاڑ کی چوٹی پر چڑه کر ميں پناہ حاصل کرلوں گا ،وہاں
پانی کيونکر پہنچ سکے گا۔
٤۳۔ ٢باپ بيٹے کے درميان يہ گفتگو ہو ہی رہی تهی کہ ايک طوفانی موج نے اسے اپنی طغيانی
کی زد ميں لے ليا۔
45 ب ا َِّن ا ْبنِ ْي ِم ْن ا َ ْه ِل ْي َوا َِّن َو ْعدَكَ ْال َح ُّق َوا َ ْنتَ اَحْ َك ُم ْالحٰ ِك ِميْنَ
َون َٰادي نُ ْو ٌح َّربَّهٗ فَقَا َل َر ِ
نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا ميرے رب ميرا بيٹا تو ميرے گهر والوں ميں سے ہے،
يقينا ا تيرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے ()١۔
٤٥۔ ١حضرت نوح عليہ السالم نے غالبا شفقت پدری کے جذبے سے مغلوب ہو کر بارگاہ ٰالہی ميں
يہ دعا کی اور بعض کہتے ہيں کہ انہيں يہ خيال تها کہ شايد يہ مسلمان ہو جائے گا ،اس لئے اس
کے بارے ميں يہ استدعا کی۔
ْس ِل ْي بِ ٖه ِع ْل ٌم ۭ َوا َِّْل ت َ ْغ ِف ْر ِل ْي َوت َْر َح ْمنِ ْْٓي ا َ ُك ْن ِمنَ ْال ٰخ ِس ِريْنَ
ع ْوذُ بِكَ ا َ ْن اَسْـــَٔـلَكَ َما لَي َ
ب اِنِ ْْٓى ا َ ُ
قَا َل َر ِ
47
نوح نے کہا ميرے پالنہار ميں تيری ہی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجه سے وہ مانگوں جس کا
مجهے علم ہی نہ ہو اگر تو مجهے نہ بخشے گا اور تو مجه پر رحم نہ فرمائے گا ،تو ميں خسارہ
پانے والوں ميں ہو جاؤنگا ()١۔
٤٧۔ ١جب حضرت نوح عليہ السالم يہ بات جان گئے کہ ان کا سوال واقعہ کے مطابق نہيں تها ،تو
تعالی سے اس کی رحمت و مغفرت کے طالب ہوئے۔ فورا اس سے رجوع فرما ليا اور ہللا ٰ
ت علَيْكَ و ْٓ
ع َذابٌ ا َ ِل ْي ٌم
س ُه ْم ِمنَّا َ ع ٰلي ا ُ َم ٍم ِم َّم ْن َّم َعكَ ۭ َوا ُ َم ٌم َ
سنُ َمتِعُ ُه ْم ث ُ َّم َي َم ُّ َ َ س ٰل ٍم ِمنَّا َو َب َر ٰك ٍ َ قِ ْي َل ٰينُ ْو ُح ا ْه ِب ْ
ط ِب َ
48
فر ما ديا گيا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سالمتی اور ان برکتوں کے ساته اتر )١( ،جو تجه پر
ہيں اور تيرے ساته کی بہت سی جماعتوں پر ( )٢اور بہت سی وہ امتيں ہونگی جنہيں ہم فائدہ تو
ضرور پہنچائيں گے ليکن پهر انہيں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا ()۳۔
٤٨۔ ١يہ اترنا کشتی سے يا اس پہاڑ سے ہے جس پر کشتی جا کر ٹهہر گئی تهی۔
٤٨۔ ٢اس سے مراد يا تو وہ گروہ ہيں جو حضرت نوح عليہ السالم کے ساته کشتی ميں سوار
تهے ،يا آئندہ ہونے والے وہ گروہ ہيں جو ان کی نسل سے ہونے والے تهے ،اگلے فقرے کے پيش
نظر يہی دوسرا مفہوم زيادہ صحيح ہے۔
٤٨۔ ۳يہ وہ گروہ ہيں جو کشتی ميں بچ جانے والوں کی نسل سے قيامت تک ہوں گے۔ مطلب يہ
ہے کہ ان کافروں کو دنيا کی چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے ہم دنيا کا سازو سامان ضرور ديں
گے ليکن باآلخر عذاب اليم سے دو چار ہوں گے۔
ْۢ
ع ٰلي ِ
ص َراطٍ ُّم ْست َ ِقي ٍْم ّٰللاِ َربِ ْي َو َربِ ُك ْم ۭ َما ِم ْن َد ۗابَّ ٍة ا َِّْل ُه َو ٰا ِخذٌ بِن ِ
َاصيَتِ َها ۭ ا َِّن َربِ ْي َ اِنِ ْى ت ََو َّك ْلتُ َ
علَي ه
56
تعالی پر ہے جو ميرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بهی پاؤں دهرنےميرا بهروسہ صرف ہللا ٰ
والے ہيں سب کی پيشانی وہی تهامے ہوئے ہے ( )١يقينا ا ميرا رب بالکل صحيح راہ پر ہے ()٢۔
٥٦۔ ١يعنی جس ذات کے ہاته ميں ہرچيز کا قبضہ و تصرف ہے ،وہی ذات ہے جو ميرا اور تمہارا
رب ہے ميرا توکل اسی پر ہے۔ مقصد ان الفاظ سے حضرت ہود عليہ السالم کا يہ ہے کہ جن کو تم
نے ہللا کا شريک ٹهہرا رکها ہے ان پر بهی ہللا ہی کا قبضہ و تصرف ہے ،ہللا ٰ
تعالی ان کے ساته
جو چاہے کر سکتا ہے ،وہ کسی کا کچه نہيں کر سکتے۔
٥٦۔ ٢يعنی وہ جو توحيد کی دعوت دے رہا ہے يقينا ا يہ دعوت ہی صراط مستقيم ہے اس پر چل کر
نجات اور کاميابی سے ہمکنار ہو سکتے ہو اور اس صراط مستقيم سے اعراض انحراف تباہی و
بربادی کا باعث ہے۔
58 ب َ
غ ِليْظٍ َولَ َّما َج ۗا َء ا َ ْم ُرنَا نَ َّج ْينَا ُه ْوداا َّوالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َم َعهٗ ِب َرحْ َم ٍة ِمنَّا ۚ َونَ َّجي ْٰن ُه ْم ِم ْن َ
ع َذا ٍ
اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ہود کو اور اس کے مسلمان ساتهيوں کو اپنی خاص رحمت سے
نجات عطا فرمائی اور ہم نے ان سب کو سخت عذاب سے بچا ليا ()١
الر ْي َح ْالعَ ِقي َْم تيز آندهی کا عذاب ہے جس کے ذريعے سے
٥٨۔ ١سخت عذاب سے مراد وہی ِ
حضرت ہود عليہ السالم کی قوم عاد کو ہالک کيا گيا جس سے حضرت ہود عليہ السالم اور ان پر
ايمان ْلنے والوں کو بچا ليا گيا۔
ۧ 60 عاداا َكفَ ُر ْوا َربَّ ُه ْم ۭ ا َ َْل بُ ْع ادا ِل َعا ٍد قَ ْو ِم ُه ْو ٍد َواُتْ ِبعُ ْوا فِ ْي ٰه ِذ ِہ ال ُّد ْنيَا لَ ْعنَةا َّو َي ْو َم ْال ِق ٰي َم ِة ۭ ا َ َ ْٓ
ْل ا َِّن َ
دنيا ميں بهی ان کے پيچهے لعنت لگا دی گئی اور قيامت کے دن بهی ( )١ديکه لو قوم عاد نے
اپنے رب سے کفر کيا ،ہود کی قوم عاد پر دوری ہو ()٢۔
٦٠۔ ١لَ ْعنَہ کا مطلب ہللا کی رحمت سے دوری ،امور خير سے محرومی اور لوگوں کی طرف سے
مالمت و بيزاری۔ دنيا ميں يہ لعنت اس طرح کہ اہل ايمان ميں ان کا ذکر ہميشہ مالمت اور بيزاری
کے انداز ميں ہوگا اور قيامت ميں اس طرح کہ وہاں ٰ
علی رؤوس الشہاد ذلت اور رسوائی سے دو
چار اور عذاب ٰالہی ميں مبتال ہوں گے۔
٦٠۔ ٢بُ ْعد کا يہ لفظ رحمت سے دوری اور لعنت اور ہالکت کے معنی کے لئے ہے ،جيسا کہ اس
سے قبل بهی وضاحت کی جا چکی ہے۔
قَالُ ْوا ٰيصٰ ِل ُح قَ ْد ُك ْنتَ فِ ْينَا َم ْر ُج اوا قَ ْب َل ٰه َذآْ اَت َ ْنهٰ ىنَا ْٓ ا َ ْن نَّ ْعبُ َد َما َي ْعبُ ُد ٰابَ ۗا ُؤنَا َواِنَّنَا لَ ِف ْي ش ٍَك ِم َّما ت َ ْد ُ
ع ْونَا ْٓ اِلَ ْي ِه
62 بُم ِر ْي ٍ
انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو ہم تجه سے بہت کچه اميديں لگائے ہوئے تهے ،کيا تو
ہميں ان کی عبادت سے روک رہا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ،ہميں تو
اس دين ميں حيران کن شک ہے جس کی طرف تو ہميں بال رہا ہے ()١۔
٦٢۔ ١يعنی پيغمبر اپنی قوم ميں چونکہ اخالق و کردار اور امانت و ديانت ميں ممتاز ہوتا ہے اس
لئے قوم کی اس سے اچهی اميديں وابستہ ہوتی ہيں۔ اسی اعتبار سے حضرت صالح عليہ السالم کی
قوم نے بهی ان سے يہ کہا۔ ليکن دعوت توحيد ديتے ہی ان کی اميدوں کا يہ مرکز ،ان کی آنکهوں
کا کانٹا بن گيا اور اس دين ميں شک کا اظہار کيا جس طرف حضرت صالح عليہ السالم انہيں بال
رہے تهے يعنی دين توحيد
س ْۗوءٍ فَ َيا ْ ُخ َذ ُك ْم َ
ع َذابٌ قَ ِريْبٌ ّٰللاِ َو َْل ت َ َم ُّ
س ْوهَا ِب ُ ض ه ّٰللاِ لَ ُك ْم ٰايَةا فَ َذ ُر ْوهَا تَا ْ ُك ْل فِ ْْٓي ا َ ْر ِ
َو ٰيقَ ْو ِم ٰهذ ِٖہ نَاقَــةُ ه
64
اور اے ميری قوم والو! ہللا کی بهيجی ہوئی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ايک معجزہ ہے اب تم
اسے ہللا کی زمين ميں کهاتی ہوئی چهوڑ دو اور اسے کسی طرح کی ايذا نہ پہنچاؤ ورنہ فوری
عذاب تمہيں پکڑ لے گا ()١
تعالی نے ان کے کہنے پر ان کی آنکهوں کے سامنے ايک پہاڑ يا ايک ٦٤۔ ١يہ وہی اونٹنی جو ہللا ٰ
چٹان سے برآمد فرمائی اس لئے اسے (ہللا کی اونٹنی) کہا گيا ہے کيونکہ يہ خالص ہللا کے حکم
سے معجزانہ
طور پر مذکورہ خالف عادت طريقے سے ظاہر ہوئی تهی۔ اس کی بابت انہيں تاکيد کر دی گئی
تهی کہ اسے ايذا نہ پہنچانا ورنہ تم عذاب ٰالہی کی گرفت
ميں آ جاؤ گے۔
65 ب فَ َعقَ ُر ْوهَا فَقَا َل ت َ َمتَّعُ ْوا فِ ْي َد ِار ُك ْم ث َ ٰلثَةَ اَي ٍَّام ۭ ٰذلِكَ َو ْع ٌد َ
غي ُْر َم ْكذُ ْو ٍ
پهر بهی لوگوں نے اس اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے ،اس پر صالح نے کہا کہ اچها تم اپنے گهروں
ميں تين تين دن تو رہ لو ،يہ وعدہ جهوٹا نہيں ()١
٦٥۔ ١ليکن ان ظالموں نے اس زبردست معجزے کے باوجود نہ صرف ايمان ْلنے سے گريز کيا
بلکہ حکم ٰالہی سے صريح سرتابی کرتے ہوئے اسے مار ڈاْل ،جس کے بعد انہيں تين دن کی مہلت
دے دی گئی کہ تين دن کے بعد تمہيں عذاب کے ذريعے سے ہالک کر ديا جائے گا۔
فَلَ َّما َج ۗا َء ا َ ْم ُرنَا نَ َّج ْينَا صٰ ِل احا َّوالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َم َعهٗ بِ َرحْ َم ٍة ِمنَّا َو ِم ْن ِخ ْزي ِ يَ ْو ِمى ٍذ ۭ ا َِّن َربَّكَ ُه َو ْالقَ ِو ُّ
ي ْال َع ِزي ُْز
66
پهر جب ہمارا فرمان آپہنچا ( )١ہم نے صالح کو اور ان پر ايمان ْلنے والوں کو اپنی رحمت سے
اسے بهی بچا ليا اور اس دن کی رسوائی سے بهی ،يقينا ا تيرا رب نہايت توانا اور غالب ہے۔
٦٦۔ ا ١س سے مراد وہی عذاب ہے جو وعدے کے مطابق چوتهے دن آيا اور حضرت صالح عليہ
السالم اور ان پر ايمان ْلنے والوں کے سوا ،سب کو ہالک کر ديا گيا۔
ۧ68 ــو َد ۟ا َكفَ ُر ْوا َربَّ ُه ْم ۭ ا َ َْل بُ ْعداا ِلث َ ُم ْو َد َكا َ ْن لَّ ْم يَ ْغن َْوا فِ ْي َها ۭ ا َ َ ْٓ
ْل ا َِّن ث َ ُم ْ
ايسے کہ گويا وہ وہاں کبهی آباد ہی نہ تهے ( )١آگاہ رہو کہ قوم ثمود نے اپنے رب سے کفر کيا۔
سن لو ان ثموديوں پر پهٹکار ہے۔
٦٨۔ ١ان کی بستی يا خود يہ لوگ يا دونوں ہی ،اس طرح حرف غلط کی طرح مٹا ديئے گئے ،گويا
وہ کبهی وہاں آباد ہی نہ تهے۔
76 غي ُْر َم ْرد ُْو ٍد ع ْن ٰه َذا ۚ اِنَّهٗ قَ ْد َج ۗا َء ا َ ْم ُر َر ِبكَ ۚ َواِنَّ ُه ْم ٰا ِت ْي ِه ْم َ
ع َذابٌ َ ٰ ْٓيـــ ِاب ْٰر ِه ْي ُم اَع ِْر ْ
ض َ
اے ابراہيم! اس خيال کو چهوڑ ديجئے ،آپ کے رب کا حکم آپہنچا ہے ،اور ان پر نہ ٹالے جانے
واْل عذاب ضرور آنے واْل ہے ()١
٧٦۔ ١يہ فرشتوں نے حضرت ابراہيم عليہ السالم سے کہا کہ اب اس بحث و تکرار کا کوئی فائدہ
نہيں ،اسے چهوڑيئے ہللا کا وہ حکم (ہالکت کا) آ چکا ہے ،جو ہللا کے ہاں مقدر تها۔ اور اب يہ
عذاب نہ کسی کے مجادلے سے روکے گا نہ کسی کی دعا سے ٹلے گا۔
80 ي ا ِٰلي ُر ْك ٍن َ
ش ِد ْي ٍد قَا َل لَ ْو ا َ َّن ِل ْي بِ ُك ْم قُ َّوة ا ا َ ْو ٰا ِو ْْٓ
لوط نے کہا کاش مجه ميں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی يا ميں کسی زبردست کا اسرا پکڑ
پاتا ()١۔
٨٠۔ ١قوت سے اپنے دست بازو اور اپنے وسائل کی قوت يا اوْلد کی قوت مراد ہے اور شديد
(مضبوط اسرا) سے خاندان ،قبيلہ يا اسی قسم کا کوئی مضبوط سہارا۔ يعنی نہايت بےبسی کے عالم
ميں آرزو کر رہے ہيں کہ کاش! ميرے اپنے پاس کوئی قوت ہوتی يا کسی خاندان اور قبيلے کی
پناہ اور مدد مجهے حاصل ہوتی تو آج مجهے مہمانوں کی وجہ سے يہ ذلت و رسوائی نہ ہوتی،
ميں ان بد قماشوں سے نمٹ ليتا اور مہمانوں کی حفاظت کر ليتا۔ حضرت لوط عليہ السالم کی يہ
تعالی پر توکل کے منافی نہيں ہے۔ بلکہ ظاہری اسباب کے مطابق ہے۔ اور توکل علی ہللا آرزو ہللا ٰ
کا صحيح مفہوم و مطلب بهی يہی ہے۔ کہ پہلے تمام ظاہر اسباب و وسائل بروئے کار ْلئے جائيں
اور پهر ہللا پر توکل کيا جائے۔ يہ توکل کا نہايت غلط مفہوم ہے کہ ہاته پير توڑ کر بيٹه جاؤ اور
کہو کہ ہمارا بهروسہ ہللا پر ہے۔ اس ليے حضرت لوط عليہ السالم نے جو کچه کہا ،ظاہر اسباب
کے اعتبار سے بالکل بجا کہا۔ جس سے يہ بات معلوم ہوئی کہ ہللا کا پيغمبر جس طرح عالم الغيب
نہيں ہوتا اسی طرح مختار کل بهی نہيں ہوتا ،جيسا کہ آج کل لوگوں نے يہ عقيدہ گهڑ ليا ہے اگر
نبی دنيا ميں اختيارات سے بہرہ ور ہوتے تو يقيينا ا حضرت لوط عليہ السالم اپنی بےبسی کا اور اس
آرزو کا اظہار نہ کرتے جو انہوں نے مذکورہ الفاظ ميں کيا۔
طعٍ ِمنَ الَّ ْي ِل َو َْل يَ ْلت َ ِف ْ
ت ِم ْن ُك ْم ا َ َح ٌد ا َِّْل ْام َراَتَكَ ۭ اِنَّهٗ َّصلُ ْْٓوا اِلَيْكَ فَاَس ِْر بِا َ ْهلِكَ بِ ِق ْ
س ُل َربِكَ لَ ْن ي ِ ط اِنَّا ُر ُ قَالُ ْوا ٰيلُ ْو ُ
81 ص ْب ُح ِبقَ ِر ْي ٍ
ب ْس ال ُّ ص ْب ُح ۭ اَلَي َ ص ْيبُ َها َما ْٓ ا َ َ
صا َب ُه ْم ۭ ا َِّن َم ْو ِع َد ُه ُم ال ُّ ُم ِ
اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تيرے پروردگار کے بهيجے ہوئے ہيں ناممکن ہے کہ يہ تجه تک
پہنچ جائيں پس تو اپنے گهر والوں کو لے کر کچه رات رہے نکل کهڑا ہو۔ تم ميں سے کسی کو مڑ
کر بهی نہ ديکهنا چاہيئے ،بجز تيری بيوی کے ،اس لئے کہ اسے بهی وہی پہنچنے واْل ہے جو ان
سب کو پہنچے گا يقينا ا ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے ،کيا صبح بالکل قريب نہيں ()١
٨١۔ ١جب فرشتوں نے حضرت لوط عليہ السالم کی بےبسی اور ان کی قوم کی سرکشی کا مشاہدہ
کر ليا تو بولے ،اے لوط! گهبرانے کی ضرورت نہيں ہے ،ہم تک تو کيا ،اب يہ تجه تک بهی نہيں
پہنچ سکتے۔ اب رات کے ايک حصے ميں ،سوائے بيوی کے ،اپنے گهر والوں کو لے کر يہاں
سے نکل جا! صبح ہوتے ہی اس بستی کو ہالک کر ديا جائے گا۔
صوا ْال ِم ْكيَا َل َو ْال ِميْزَ انَ اِنِ ْْٓى ّٰللاَ َما لَ ُك ْم ِم ْن ا ِٰل ٍه َ
غي ُْر ٗہ ۭ َو َْل ت َ ْنقُ ُ َوا ِٰلي َم ْديَنَ اَخَا ُه ْم ُ
شعَ ْيباا ۭ قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا ْعبُدُوا ه
84 اب يَ ْو ٍم ُّم ِحيْطٍ علَ ْي ُك ْم َ
ع َذ َ ا َ ٰرى ُك ْم بِ َخي ٍْر َّواِنِ ْْٓى اَخ ُ
َاف َ
اور ہم نے مدين والوں ( )١کی طرف ان کے بهائی شعيب کو بهيجا ،اس نے کہا اے ميری قوم! ہللا
کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہيں اور تم ناپ تول ميں بهی کمی نہ کرو ( )٢ميں
تمہيں آسودا حال ديکه رہا ہوں ( )۳اور مجهے تم پر گهيرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بهی)
ہے۔
٨٤۔ ١مدين کی تحقيق کے لئے ديکهئے سورة اْل عراف ،آيت ٨٥کا حاشيہ۔
٨٤۔ ٢توحيد کی دعوت دينے کے بعد اس قوم ميں جو نماياں اخالقی خرابی۔ ناپ تول ميں کمی کی
تهی اس سے انہيں منع فرمايا۔ ان کا معمول بن چکا تها جب ان کے پاس فروخت کندہ (بائع) اپنی
چيز لے کر آتا تو اس سے ناپ اور تول ميں زائد چيز ليتے اور جب خريدار (مشتری) کو کوئی
چيز فروخت کرتے تو ناپ ميں بهی کمی کر کے ديتے اور تول ميں ڈنڈی مار ليتے۔
٨٤۔ ۳يہ اس منع کرنے کی علت ہے کہ جب ہللا ٰ
تعالی تم پر اپنا فضل کر رہا ہے اور اس نے
تمہيں آسودگی اور مال و دولت سے نوازا ہے تو پهر تم يہ قبيح حرکت کيوں کرتے ہو۔
٨٤۔٤يہ دوسری علت ہے کہ اگر تم اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو پهر انديشہ ہے کہ قيامت
والے دن کے عذاب سے تم نہ بچ سکو۔ گهيرنے والے دن سے مراد قيامت کا دن ہے کہا اس دن
کوئی گناہ گار مواخذہ الہی سے بچ سکے گا نہ بهاگ کر کہيں چهپ سکے گا۔
86 ّٰللاِ َخي ٌْر لَّ ُك ْم ا ِْن ُك ْنت ُ ْم ُّمؤْ ِمنِيْنَ ڬ َو َما ْٓ اَنَا َ
علَ ْي ُك ْم بِ َح ِفيْظٍ بَ ِقيَّتُ ه
تعالی کا حالل کيا ہوا جو بچ رہے تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم ايمان والے ہو ( )١ميں ہللا ٰ
تم پر کچه نگہبان (اور دروغہ) نہيں ہوں ()٢۔
٨٦۔( ١بَ ِقيَّتُ ه
ّٰللاِ) سے مراد جو ناپ تول ميں کسی قسم کی کمی کئے بغير ،ديانتداری کے ساته سودا
دينے کے بعد حاصل ہو۔ يہ چونکہ حالل و طيب ہے اور خيرو برکت بهی اسی ميں ہے ،اس لئے
ہللا کا بقيہ قرار ديا گيا ہے۔
٨٦۔ ٢يعنی ميں تمہيں صرف تبليغ کر سکتا ہوں اور ہللا کے حکم سے کر رہا ہوں۔ ليکن برائيوں
سے ميں تمہيں روک دوں يا اس پر سزا دوں ،يہ ميرے اختيار ميں نہيں ہے ،ان دونوں باتوں کا
اختيار صرف ہللا کے پاس ہے۔
ص ٰلوتُكَ تَا ْ ُم ُركَ ا َ ْن نَّتْ ُركَ َما يَ ْعبُ ُد ٰابَ ۗاؤُ نَا ْٓ ا َ ْو ا َ ْن نَّ ْفعَ َل فِ ْْٓي ا َ ْم َوا ِلنَا َما ن َٰۗشؤُ ا ۭ اِنَّكَ َْلَ ْنتَ ْال َح ِل ْي ُم
ْب ا َ َ قَالُ ْوا ٰي ُ
شعَي ُ
87 الر ِش ْي ُد
َّ
انہوں نے جواب ديا کہ اے شعيب! کيا تيری صالة ( )١تجهے يہی حکم ديتی ہے کہ ہم اپنے باپ
دادوں کے معبودوں کو چهوڑ ديں اور ہم اپنے مالوں ميں جو کچه چاہيں اس کا کرنا بهی چهوڑ
ديں ( )٢تو تو بڑا ہی با وقار اور نيک چلن آدمی ہے ()۳۔
صلَ ٰوة ا سے مراد عبادت دين يا تالوت ہے۔
٨٧۔َ ١
٨٧۔ ٢اس سے مراد بعض مفسرين کے نزديک زکوة و صدقات ہيں ،جس کا حکم ہر آسمانی مذہب
زکو ة و صدقات کا اخراج ،ہللا کے نافرمانوں پر نہايت شاق
ميں ديا گيا ہے ہللا کے حکم سے ٰ
گزرتا ہے اور وہ سمجهتے ہيں کہ جب ہم اپنی محنت و لياقت سے مال کماتے ہيں تو اس کے خرچ
کرنے يا نہ کرنے ميں ہم پر پابندی کيوں ہو۔ اور اس کا کچه حصہ ايک مخصوص مد کے ليے
نکالنے پر ہميں مجبور کيوں کيا جائے؟ اسی طريقے سے کمائی اور تجارت ميں حالل و حرام اور
جائز وناجائز کی پابندی بهی ايسے لوگوں پر نہايت گراں گزرتی ہے ،ممکن ہے ناپ تول ميں کمی
سے روکنے کو بهی انہوں نے اپنے مالی تصرفات ميں دخل درمعقوْلت سمجها ہو۔ اور ان الفاظ
ميں اس سے انکار کيا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحيح ہيں۔
٨٧۔ ۳حضرت شعيب عليہ السالم کے لئے يہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔
سـناا ۭ َو َما ْٓ ا ُ ِر ْي ُد ا َ ْن اُخَا ِلفَ ُك ْم ا ِٰلي َما ْٓ ا َ ْنهٰ ى ُك ْم ع ٰلي بَ ِينَ ٍة ِم ْن َّر ِب ْي َو َرزَ قَنِ ْي ِم ْنهُ ِر ْزقاا َح َقَا َل ٰيقَ ْو ِم ا َ َر َء ْيت ُ ْم ا ِْن ُك ْنتُ َ
88 علَ ْي ِه ت ََو َّك ْلتُ َواِلَ ْي ِه اُنِي ُ
ْب ط ْعتُ ۭ َو َما ت َْوفِ ْي ِق ْْٓي ا َِّْل بِ ه
اّٰللِ ۭ َ ص َال َح َما ا ْست َ َ ع ْنهُ ۭ ا ِْن ا ُ ِر ْي ُد ا َِّْل ْ ِ
اْل ْ َ
کہا اے ميری قوم! ديکهو تو اگر ميں اپنے رب کی طرف سے روشن دليل لئے ہوئے ہوں اور اس
نے مجهے اپنے پاس سے بہترين روزی دے رکهی ہے ( )١ميرا يہ ارادہ بالکل نہيں کہ تمہارے
خالف کرکے خود اس چيز کی طرف جهک جاؤں جس سے تمہيں روک رہا ہوں ( )٢ميرا ارادہ تو
اپنی طاقت بهر اصالح کرنے کا ہی ہے ( )۳ميری توفيق ہللا ہی کی مدد سے ہے ( )٤اسی پر ميرا
بهروسہ ہے اور اسی کی طرف ميں رجوع کرتا ہوں۔
٨٨۔ ١رزق حسن کا دوسرا مفہوم نبوت بهی بيان کيا گيا ہے۔ (ابن کثير)
٨٨۔ ٢يعنی جس کام سے ميں تجهے روکوں ،تم سے خالف ہو کر وہ ميں خود کروں ،ايسا نہيں ہو
سکتا۔
٨٨۔ ۳ميں تمہيں جس کام کے کرنے يا جس سے روکنے کا حکم ديتا ہوں ،اس سے مقصد اپنی
مقدور بهر ،تمہاری اصالح ہی ہے۔
٨٨۔ ٤يعنی حق تک پہنچنے کا جو ميرا ارادہ ہے ،وہ ہللا کی توفيق سے ہی ممکن ہے ،اس لئے
تمام معامالت ميں ميرا بهروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف ميں رجوع کرتا ہوں۔
90 َوا ْست َ ْغ ِف ُر ْوا َربَّ ُك ْم ث ُ َّم ت ُ ْوب ُْْٓوا اِلَ ْي ِه ۭ ا َِّن َر ِب ْي َر ِح ْي ٌم َّود ُْو ٌد
تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو ،يقين مانو کہ ميرا رب بڑی مہربانی
واْل اور بہت محبت کرنے واْل ہے۔
ّٰللاِ ۭ َوات َّ َخ ْذت ُ ُم ْوہُ َو َر ۗا َء ُك ْم ِظ ْه ِرياا ۭ ا َِّن َربِ ْي ِب َما ت َ ْع َملُ ْونَ ُم ِح ْي ٌ
ط علَ ْي ُك ْم ِمنَ ه
ع ُّز َ
قَا َل ٰيقَ ْو ِم ا َ َر ْه ِط ْْٓي ا َ َ
92
انہوں نے جواب ديا کہ اے ميری قوم کے لوگو! کيا تمہارے نزديک ميرے قبيلے کے لوگ ہللا سے
بهی زيادہ ذی عزت ہيں کہ تم نے اسے پس پشت ڈال ( )١ديا ہے يقينا ا ميرا رب جو کچه تم کر
رہے ہو سب کو گهيرے ہوئے ہے۔
٩٢۔ ١کہ تم مجهے تو ميرے قبيلے کی وجہ سے نظر انداز کر رہے ہو۔ ليکن جس ہللا نے مجهے
منصب نبوت سے نوازا ہے اس کی کوئی عظمت نہيں اور اس منصب کا کوئی احترام تمہارے
دلوں ميں نہيں ہے اور اسے تم نے پس پشت ڈال ديا ہے۔ يہاں حضرت شعيب عليہ السالم نے اعز
عليکم منی (مجه سے زيادہ ذی عزت) کی بجائے اعز عليکم من ہللا ہللا سے زيادہ ذی عزت کہا
جس سے يہ بتالنا مقصود ہے کہ نبی کی توہين يہ دراصل ہللا کی توہين ہے۔ اس ليے کہ نبی ہللا کا
مبعوث ہوتا ہے۔ اور اسی اعتبار سے اب علمائے حق کی توہين اور ان کو حقير سمجهنا يہ ہللا کے
دين کی توہين اور اس کا استخفاف ہے ،اس ليے کہ وہ ہللا کے دين کے نمائندے ہيں۔ واتخذتموہ ميں
ها کا مرجع ہللا ہے اور مطلب يہ ہے کہ ہللا کے اس معاملے کو ،جسے لے کر اس نے مجهے
بهيجا ہے ،اسے تم نے پس پشت ڈال ديا ہے اور اس کی کوئی پروا تم نے نہيں کی۔
ص ْي َحةُ فَا َ ْ
ص َب ُح ْوا ِف ْي ظلَ ُموا ال َّ َولَ َّما َج ۗا َء ا َ ْم ُرنَا نَ َّج ْينَا ُ
ش َع ْيباا َّوالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َم َعهٗ ِب َرحْ َم ٍة ِمنَّا َوا َ َخ َذ ِ
ت الَّ ِذيْنَ َ
94 ار ِه ْم جٰ ثِ ِميْنَ
ِديَ ِ
جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا ہم نے شعيب کو اور ان کے ساته (تمام) مومنوں کو اپنی خاص
رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگهاڑ کے عذاب نے دهر دبوچا ( )١جس سے وہ
اپنے گهروں ميں اوندے پڑے ہوئے ہوگئے۔
٩٤۔ ١اس چيخ سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے معا بعد
الرجْ فَةُ فَا َ ْ
ص َب ُح ْوا فِ ْي َد ِار ِه ْم جٰ ثِ ِميْنَ ) اور ہی بهو نچال بهی آيا ،جيسا کہ سورة اعراف۔ ( ٩١فَا َ َخ َذتْ ُه ُم َّ
صبَ ُح ْوا فِ ْي َد ِار ِه ْم جٰ ثِ ِميْنَ ) 29۔ العنکبوب )37:ميں ہے۔ الرجْ فَةُ فَا َ ْ
سورة عنکبوت (فَا َ َخ َذتْ ُه ُم َّ
ۧ95 َكا َ ْن لَّ ْم َي ْغن َْوا فِ ْي َها ۭ ا َ َْل بُ ْعداا ِل َم ْد َينَ َك َما َب ِع َد ْ
ت ث َ ُم ْو ُد
گويا کہ وہ ان گهروں ميں کبهی بسے ہی نہ تهے ،آگاہ رہو مدين کے لئے بهی ويسی ہی دوری ()١
ہو جيسی دوری ثمود کو ہوئی۔
٩٥۔ ١يعنی لعنت ،پهٹکار ،ہللا کی رحمت سے محرومی اور دوری۔
96 س ْل ٰط ٍن ُّمبِي ٍْن
س ْلنَا ُم ْوسٰ ى بِ ٰا ٰيتِنَا َو ُ
َولَقَ ْد ا َ ْر َ
موسی کو اپنی آيات اور روشن دليلوں کے ساته بهيجا تها ()١
ٰ اور يقينا ا ہم نے ہی
٩٦۔ ١آيات سے بعض کے نزديک تورات اور سلطان مبين سے معجزات مراد ہيں ،اور بعض
کہتے ہيں کہ آيات سے ،آيات تسعہ اور سلطان مبين (روشن دليل) سے عصا مراد ہے۔ عصا،
اگرچہ آيات تسعہ ميں شامل ہے ليکن معجزہ چونکہ نہايت ہی عظيم الشان تها ،اس لئے اس کا
خصوصی طور پر ذکر کيا گيا ہے۔
ٰ
١٠٢ ظا ِل َمةٌ ۭ ا َِّن ا َ ْخ َذ ٗہْٓ ا َ ِل ْي ٌم َ
ش ِد ْي ٌد َو َكذلِكَ ا َ ْخذُ َربِكَ اِ َذآْ ا َ َخ َذ ْالقُ ٰري َوه َ
ِى َ
تيرے پروردگار کی پکڑ کا يہی طريقہ ہے جب کہ وہ بستيوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا
ہے بيشک اس کی پکڑ دکه دينے والی اور نہايت ( )١سخت ہے۔
١٠٢۔ ١يعنی جس طرح گزشتہ بستيوں کو ہللا ٰ
تعالی نے تباہ اور برباد کيا ،آئندہ بهی وہ ظالموں کی
اسی طرح گرفت کرنے پر قادر ہے۔ حديث ميں آتا ہے کہ نبی صلی ہللا عليہ وسلم نے فرمايا ان ہللا
ليملی للظالم حتی اذا اخذہ لم يفلتہ ہللا ٰ
تعالی يقينا ا ظالم کو مہلت ديتا ہے ليکن جب اس کی گرفت
کرنے پر آتا ہے تو پهر اس طرح اچانک گرتا ہے کہ پهر مہلت نہيں ديتا۔
اس َو ٰذلِكَ يَ ْو ٌم َّم ْش ُه ْو ٌد ۭ ٰذلِكَ يَ ْو ٌم َّمجْ ُم ْو ٌ
ع لَّهُ النَّ ُ اب ْ ٰ
اْل ِخ َرةِ ع َذ َ ا َِّن فِ ْي ٰذلِكَ َ ْٰليَةا ِل َم ْن خ َ
َاف َ
١٠۳
يقينا ا اس ميں ( )١ان لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے جو قيامت کے عذاب سے ڈرتے ہيں۔ وہ دن
جس ميں سب لوگ جمع کئے جائيں گے اور وہ ،وہ دن ہے جس ميں سب حاضر کئے جائيں گے
()٢۔
١٠۳۔ ١يعنی مواخذہ ٰالہی ميں يا ان واقعات ميں جو عبرت و موعظبت کے لئے بيان کئے گئے ہيں۔
١٠۳۔ ٢يعنی حساب اور بدلے کے لئے۔
ۭ١٠٤ َو َما نُ َؤ ِخ ُر ٗ ْٓہ ا َِّْل ِْلَ َج ٍل َّم ْعد ُْو ٍد
اسے ہم ملتوی کرتے ہيں وہ صرف ايک مدت معين تک ہے ()١
تعالی نے اس کے١٠٤۔ ١يعنی قيامت کے دن ميں تاخير کی وجہ صرف يہ ہے کہ ہللا تبارک و ٰ
لئے ايک وقت معين کيا ہوا ہے۔ جب وہ وقت مقرر آ جائے گا ،تو ايک لمحے کی تاخير نہيں ہوگی۔
١٠٥ س ِع ْي ٌد
ي َّو َ
ش ِق ٌّ ت َْل ت َ َكلَّ ُم نَ ْف ٌ
س ا َِّْل ِب ِا ْذنِ ٖه ۚ فَ ِم ْن ُه ْم َ َي ْو َم َيا ْ ِ
جس دن وہ آجائے گی مجال نہ ہوگی کہ ہللا کی اجازت کے بغير کوئی بات بهی کر ( )١لے ،سو ان
ميں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نيک بخت۔
تعالی سے کسی طرح کی بات يا شفاعت کرنے کی ١٠٥۔ ٤گفتگو نہ کرنے سے مراد ،کسی کو ہللا ٰ
ہمت نہيں ہوگی۔ اْل يہ کہ وہ اجازت دے دے۔ طويل حديث شفاعت ميں ہے۔ رسول ہللا عليہ وسلم
نے فرمايا " اس دن انبياء کے عالوہ کسی کو گفتگو کی ہمت نہ ہوگی اور انبياء کی زبان پر بهی
اس دن صرف يہی ہوگا کہ يا ہللا! ہميں بچا لے ،ہميں بچا لے '۔
١٠٧ ض ا َِّْل َما ش َۗا َء َربُّكَ ۭ ا َِّن َربَّكَ فَعَّا ٌل ِل َما ي ُِر ْي ُد
ت السَّمٰ ٰوتُ َو ْاْلَ ْر ُ
ٰخ ِل ِديْنَ فِ ْي َها َما َدا َم ِ
وہ وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں جب تک آسمان و زمين برقرار رہيں ( )١سوائے اس وقت کے جو
تمہارا رب چاہے ( )٢يقينا ا تيرا رب جو کچه چاہے کر گزرتا ہے۔
١٠٧۔ ١ان الفاظ سے بعض لوگوں کو يہ مغالطہ لگا ہے کہ کافروں کے لئے جہنم کا عذاب دائمی
نہيں ہے بلکہ موقت ہے يعنی اس وقت تک رہے گا جب تک آسمان و زمين رہيں گے۔ ليکن يہ بات
ض) اہل عرب کے روز مرہ کی گفتگو اور ت السِمٰ ٰو تُ َو ْاْلَ ْر ُ
صحيح نہيں۔ کيونکہ يہاں ( َما َد ا َم ِ
محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔ عربوں کی عادت تهی کہ جب کسی چيز کا دوام ثابت کرنا
مقصود ہوتا تو وہ کہتے تهے (يہ چيز اسی طرح ہميشہ رہے گی۔ جس طرح آسمان و زمين کا دوام
ہے) اسی محاورے کو قرآن کريم ميں استعمال کيا گيا ہے ،جس کا مطلب يہ ہے کہ اہل کفر و
شرک جہنم ميں ہميشہ رہيں گے۔ جس کو قرآن نے متعدد جگہ خالدين فيها کے الفاظ سے ذکر کيا
ہے۔ ايک دوسرا مفہوم اس کا يہ بهی بيان کی گيا ہے کہ آسمان و زمين سے مراد جنس ہے۔ يعنی
دنيا کے آسمان و زمين اور ہيں جو فنا ہو جائيں گے ليکن آخرت کے آسمان و زمين ان کے عالوہ
ضغي َْر ْاْلَ ْر ِ
ض َ اور ہوں گے ،جيسا کہ قران کريم ميں اس کی صراحت ہے( ،يَ ْو َم ت ُ َب َّد ُل ْاْلَ ْر ُ
ار 14 )48۔ ابراہيم ،)48:اس دن يہ زمين دوسری زمين سے اح ِد ْالقَ َّه ِ
َوالسَّمٰ ٰوتُ َوبَ َر ُز ْوا ِ هّٰللِ ْال َو ِ
بدل دی جائے گی اور آسمان بهی بدل دئيے جائيں گے۔ اور آخرت کے يہ آسمان وزمين ،جنت اور
دوزخ کی طرح ہميشہ رہيں گے۔ اس آيت ميں يہی آسمان وزمين مراد ہے نہ کہ دنيا کے آسمان
وزمين جو فنا ہو جائيں گے۔ (ابن کثير) ان دونوں مفہوموں ميں سے کوئی بهی مفہوم مراد لے ليا
جائے ،آيت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے اور وہ اشکال پيدا نہيں ہوتا جو مذکور ہوا۔ امام شوکانی نے
اس کے اور بهی کئی مفہوم بيان کيے ہيں جنہيں اہل علم مالحظہ فرما سکتے ہيں۔
١٠٧۔ ٢اس استثناء کے بهی کئی مفہوم بيان کئے گئے ہيں۔ ان ميں سب سے زيادہ صحيح مفہوم
يہی ہے کہ يہ استثناء ان گناہ گاروں کے لئے ہے جو اہل توحيد و اہل ايمان ہوں گے۔ اس اعتبار
ش ِقی کا لفظ عام يعنی کافر اور عاصی دونوں کو شامل ہوگا اور (اِ َّْل سے اس سے ما قبل آيت ميں َ
َآء ميں َماَ ،م ْن کے معنی ميں
ک) سے عاصی مومنوں کا استثناء ہو جائے گا اور َما ش ِ َما شَآ َء َربُّ َ
ہے۔
ط ۗا اء َ
غي َْر َمجْ ذُ ْو ٍذ ض ا َِّْل َما ش َۗا َء َربُّكَ ۭ َ
ع َ س ِعد ُْوا فَ ِفي ْال َجنَّ ِة ٰخ ِل ِديْنَ فِ ْي َها َما َدا َم ِ
ت السَّمٰ ٰوتُ َو ْاْلَ ْر ُ َوا َ َّما الَّ ِذيْنَ ُ
١٠٨
ليکن جو نيک بخت کئے گئے وہ جنت ميں ہونگے جہاں ہميشہ رہيں گے جب تک آسمان و زمين
باقی رہے مگر جو تيرا پروردگار چاہے ( )١يہ بے انتہا بخشش ہے ()٢۔
١٠٨۔ ١يہ استثناء بهی عصاة اہل ايمان کے لئے ہے۔ يعنی ديگر جنتيوں کی طرح يہ نافرمان مومن
ہميشہ سے جنت ميں نہيں رہيں ہوں گے ،بلکہ ابتدا ميں ان کا کچه عرصہ جہنم ميں گزرے گا اور
پهر انبياء اور اہل ايمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت ميں داخل کيا جائے گا،
جيسا کہ احاديث صحيحہ سے يہ باتيں ثابت ہيں۔
١٠٨۔ ٢غير مجذوذ کے معنی ہيں غير مقطوع۔ يعنی نہ ختم ہونے والی عطاء۔ اس جملے سے يہ
واضح ہو جاتا ہے کہ جن گناہ گاروں کو جہنم سے نکال کر جنت ميں داخل کيا جائے گا ،يہ دخول
عارضی نہيں ،ہميشہ کے لئے ہوگا اور تمام جنتی ہميشہ ہللا کی عطاء اور اس کی نعمتوں سے
لطف اندوز ہوتے رہيں گے ،اور يہ ہميشہ کيلئے جاری رہے گا۔ اس ميں کبهی انقطاع نہيں ہوگا۔
فَ َال ت َكُ ِف ْي ِم ْريَ ٍة ِم َّما َي ْعبُ ُد ٰ ْٓهؤُ َ ْۗل ِء ۭ َما َي ْعبُد ُْونَ ا َِّْل َك َما َي ْعبُ ُد ٰا َب ۗاؤُ ُه ْم ِم ْن قَ ْب ُل ۭ َواِنَّا لَ ُم َوفُّ ْو ُه ْم ن ِ
َص ْي َب ُه ْم َ
غي َْر
ۧ١٠٩ صَم ْنقُ ْو ٍ
اس لئے آپ ان چيزوں سے شک و شبہ ميں نہ رہيں جنہيں يہ لوگ پوج رہے ہيں ،ان کی پوجا تو
اس طرح ہے جس طرح ان کے باپ دادوں کی اس سے پہلے تهی۔ ہم ان سب کو ان کا پورا پورا
حصہ بغير کسی کمی کے دينے والے ہيں ()١
١٠٩۔ ١اس سے مراد وہ عذاب ہے جس کے وہ مستحق ہوں گے ،اس ميں کوئی کمی نہيں کی
جائے گی۔
١١١ َوا َِّن ُك اال لَّ َّما لَي َُوفِيَنَّ ُه ْم َربُّكَ ا َ ْع َمالَ ُه ْم ۭ اِنَّهٗ بِ َما يَ ْع َملُ ْونَ َخبِي ٌْر
يقينا ا ان ميں سے ہر ايک جب ان کے روبروجائے گا تو آپ کا رب اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ
دے گا بيشک وہ جو کر رہے ہيں ان سے وہ باخبر ہے۔
١١٢ َاب َمعَكَ َو َْل ت َْطغ َْوا ۭ اِنَّهٗ بِ َما ت َ ْع َملُ ْونَ بَ ِ
صي ٌْر فَا ْست َ ِق ْم َك َما ْٓ ا ُ ِم ْرتَ َو َم ْن ت َ
پس آپ جمے رہيئے جيسا کہ آپ کو حکم ديا گيا ہے اور وہ لوگ بهی جو آپ کے ساته توبہ کر
چکے ہيں خبردار تم حد سے نہ بڑهنا ( )١ہللا تمہارے تمام اعمال کا ديکهنے واْل ہے۔
١١٢۔ ١اس آيت ميں نبی اور اہل ايمان کو ايک تو استقامت کی تلقين کی جا رہی ہے ،جو دشمن
کے مقابلے کے لئے ايک بہت بڑا ہتهيار ہے۔ دوسرے حد سے بڑه جانے سے روکا گيا ہے ،جو
اہل ايمان کی اخالقی قوت اور رفعت کردار کے لئے بہت ضروری ہے۔ ح ٰتی کہ يہ تجاوز ،دشمن
کے ساته معاملہ کرتے وقت بهی جائز نہيں ہے۔
ع ِن ْالفَ َ
سا ِد فِي ْاْلَ ْر ِ
ض ا َِّْل قَ ِلي اْال ِم َّم ْن ا َ ْن َج ْينَا ِم ْن ُه ْم ۚ َواتَّبَ َع فَلَ ْو َْل َكانَ ِمنَ ْالقُ ُر ْو ِن ِم ْن قَ ْب ِل ُك ْم اُولُ ْوا بَ ِقيَّ ٍة يَّ ْن َه ْونَ َ
١١٦ الَّ ِذيْنَ َ
ظلَ ُم ْوا َما ْٓ اُتْ ِرفُ ْوا فِ ْي ِه َو َكانُ ْوا ُمجْ ِر ِميْنَ
پس کيوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں ميں سے ايسے اہل خبر لوگ ہوئے جو زمين ميں
فساد پهيالنے سے روکتے ،سوائے ان چند کے جنہيں ہم نے ان ميں سے نجات دی تهی ( )١ظالم
لوگ تو اس چيز کے پيچهے پڑ گئے جس ميں انہيں آسودگی دی گئی تهی اور وہ گنہگار تهے ()٢
١١٦۔ ١يعنی گزشتہ امتوں ميں ايسے نيک لوگ کيوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل منکر کو شر،
منکرات اور فساد سے روکتے؟ پهر فرمايا ،ايسے لوگ تهے تو سہی ،ليکن بہت تهوڑے۔ جنہيں ہم
نے اس وقت نجات دے دی ،جب دوسروں کو عذاب کے ذريعے سے ہالک کيا گيا۔
١١٦۔ ٢يعنی يہ ظالم۔ اپنے ظلم پر قائم اور اپنی مد ہوشيوں ميں مست رہے ح ٰتی کہ عذاب نے انہيں
آ ليا۔
١١٨ اح َدة ا َّو َْل يَزَ الُ ْونَ ُم ْخت َ ِل ِفيْنَ َولَ ْو ش َۗا َء َربُّكَ لَ َجعَ َل النَّ َ
اس ا ُ َّمةا َّو ِ
اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ايک ہی راہ پر ايک گروہ کر ديتا۔ وہ تو برابر اختالف
کرنے والے ہی رہيں گے۔
١١٩ اس اَجْ َم ِعيْنَ ا َِّْل َم ْن َّر ِح َم َربُّكَ ۭ َو ِل ٰذلِكَ َخلَقَ ُه ْم ۭ َوت َ َّم ْ
ت َك ِل َمةُ َر ِبكَ َْلَ ْملَــــَٔ َّن َج َهنَّ َم ِمنَ ْال ِجنَّ ِة َوالنَّ ِ
بجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے ،انہيں تو اس لئے پيدا کيا ہے )١( ،اور آپ کے رب
کی يہ بات پوری ہے کہ ميں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا ()٢
١١٩۔ ' ١اسی لئے ' کا مطلب بعض نے اختالف اور بعض نے رحمت ليا ہے۔ دونوں صورتوں ميں
مفہوم يہ ہوگا کہ ہم نے انسانوں کو آزمائش کے لئے پيدا کيا ہے۔ جو دين حق سے اختالف کا
ٰ
راستہ اختيار کرے گا ،وہ آزمائش ميں ناکام اور جو اسے اپنا لے گا ،وہ کامياب اور رحمت الہی کا
مستحق ہوگا۔
١١٩۔ ٢يعنی ہللا کی تقدير اور قضاء ميں يہ بات ثبت ہے کہ کچه لوگ ايسے ہونگے جو جنت کے
اور کچه ايسے ہونگے جو جہنم کے مستحق ہوں گے اور جنت و جہنم کو انسانوں اور جنوں سے
بهر ديا جائے گا۔ جيسا کہ حديث ميں ہے ،نبی نے فرمايا ' جنت اور دوزخ آپس ميں جهگڑ پڑيں،
جنت نے کہا ،کيا بات ہے کہ ميرے اندر وہی لوگ آئيں گے جو کمزور اور معاشرے کے گرے
پڑے لوگ ہوں گے؟ ' جہنم نے کہا ميرے اندر تو بڑے بڑے جبار اور متکبر قسم کے لوگ ہوں
تعالی نے ،جنت سے فرمايا ' تو ميری رحمت کی مظہر ہے ،تيرے ذريعے سے ميں جس گے ہللا ٰ
پر چاہوں اپنا رحم کروں۔ اور جہنم سے ہللا ٰ
تعالی نے فرمايا تو ميرے عذاب کی مظہر ہے تيرے
ذريعے سے ميں جس کو چاہوں سزا دوں۔ ہللا ٰ
تعالی جنت اور دوزخ دونوں کو بهر دے گا۔ جنت
ميں ہميشہ اس کا فضل ہوگا ،ح ٰتی کہ ہللا ٰ
تعالی ايسی مخلوق پيدا فرمائے گا جو جنت کے باقی ماندہ
رقبے ميں رہے گی اور جہنم ،جہنميوں کی کثرت کے باوجود نعرہ بلند کرے گی ،يہاں تک کہ ہللا
تعالی اس ميں اپنا قدم رکهے گا جس پر جہنم پکار اٹهے گی قط قط وعزتک ،بس ،بس ،تيری عزت ٰ
و جالل کی قسم ' (صحيح بخاری)
ع َّما ت َ ْع َملُ ْونَ ض َواِلَ ْي ِه ي ُْر َج ُع ْاْلَ ْم ُر ُكلُّهٗ فَا ْعبُ ْدہُ َوت ََو َّك ْل َ
علَ ْي ِه ۭ َو َما َربُّكَ ِبغَافِ ٍل َ ت َو ْاْلَ ْر ِ
ْب السَّمٰ ٰو ِ
غي ُ َو ِ ه ِ
ّٰلل َ
ۧ١٢۳
زمينوں اور آسمانوں کا علم غيب ہللا ٰ
تعالی ہی کو ہے ،تمام معامالت کا رجوع بهی اسی کی جانب
ہے ،پس تجهے اس کی عبادت کرنی چاہيے اور اسی پر بهروسہ رکهنا چاہيے اور تم جو کچه
کرتے ہو اس سے ہللا ٰ
تعالی بےخبر نہيں۔
سورة يوسف
(سورة يوسف ۔ سورہ نمبر ١٢۔ تعداد آيات )١١١
ص بِ َما ْٓ ا َ ْو َح ْينَا ْٓ اِلَيْكَ ٰه َذا ْالقُ ْر ٰانَ ڰ َوا ِْن ُك ْنتَ ِم ْن قَ ْب ِل ٖه لَ ِمنَ ْال ٰغ ِف ِليْنَ سنَ ْالقَ َ
ص ِ علَيْكَ اَحْ َ نَحْ ُن نَقُ ُّ
ص َ
Ǽ
ہم آپ کے سامنے بہترين بيان ( )١پيش کرتے ہيں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب يہ قرآن
وحی کے ذريعے نازل کيا اور يقينا ا آپ اس سے پہلے بےخبروں ميں تهے ()٢۔
۳۔ ١قصص ،يہ مصدر ہے معنی ہيں کسی چيز کے پيچهے لگنا مطلب دلچسپ واقعہ ہے قصہ،
محض کہانی يا طبع زاد افسانے کو نہيں کہا جاتا بلکہ ماضی ميں گزر جانے والے واقعے کے بيان
کو قصہ کہا جاتا ہے۔ يہ گويا ماضی کا واقعی اور حقيقی بيان ہے اور اس واقع ميں حسد و عناد کا
انجام ،تائيد ٰالہی کی کرشمہ سازياں ،نفس امارہ کی شورشيں اور سرکشيوں کا نتيجہ اور ديگر
انسانی عوارض و حوارث کا نہايت دلچسپ بيان اور عبرت انگيز پہلو ہيں ،اس لئے اس قرآن نے
احسن القصص(بہترين بيان) سے تعبير کيا ہے۔
۳۔ ٢قرآن کريم کے ان الفاظ سے بهی واضح ہے نبی کريم عالم الغيب نہيں تهے ،ورنہ ہللا ٰ
تعالی آپ
کو بےخبر قرار نہ ديتا ،دوسری بات يہ معلوم ہوئی کہ آپ ہللا کے سچے نبی ہيں کيونکہ آپ پر
وحی کے ذريعے سے ہی سچا واقعہ بيان کيا گيا ہے۔ آپ نہ کسی کے شاگرد تهے ،کہ کسی استاد
سے سيکه کر بيان فرما ديتے ،نہ کسی اور سے ہی ايسا تعلق تها کہ جس سے سن کر تاريخ کا يہ
تعالی ہی نے وحی کے ذريعے سے واقعہ اپنے اہم جزئيات کے ساته آپ نشر کر ديتے۔ يہ يقينا ا ہللا ٰ
آپ پر نازل فرمايا ہے جيسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔
Ć س َو ْالقَ َم َر َرا َ ْيت ُ ُه ْم ِل ْي سٰ ِج ِديْنَ عش ََر َك ْو َكباا َّوال َّ
ش ْم َ ف ِْلَبِ ْي ِه ٰيْٓاَبَ ِ
ت اِنِ ْى َراَيْتُ ا َ َح َد َ اِ ْذ قَا َل ي ُْو ُ
س ُ
جب کہ يوسف ( )١نے اپنے باپ سے ذکر کيا کہ ابا جان ميں نے گيارہ ستاروں کو اور سورج
چاند کو ( )٢ديکها کہ وہ سب مجهے سجدہ کر رہے ہيں۔
٤۔ ١يعنی اے محمد! (صلی ہللا عليہ وسلم) اپنی قوم کے سامنے يوسف عليہ السالم کا قصہ بيان
کرو ،جب اس نے اپنے باپ کو کہا باپ حضرت يعقوب عليہ السالم تهے ،جيسا کہ دوسرے مقام پر
صراحت ہے اور حديث ميں بهی يہ نسب بيان کيا گيا ہے۔ (يوسف بن يعقوب بن اسحاق بن ابراہيم)۔
او ر حديث ميں نسب بيان کيا گيا ہے۔ الکريم ابن الکريم ابن الکريم ابن الکريم يوسف بن يعقوب بن
اسحاق بن ابراہيم (مسند احمد جلد ،٢ص)٩٦
٤۔ ٢بعض مفسرين نے کہا ہے کہ گيارہ ستاروں سے مراد حضرت يوسف عليہ السالم کے بهائی
ہيں جو گيارہ تهے چاند سورج سے مراد ماں اور باپ ہيں اور خواب کی تعبير چاليس يا اسی سال
کے بعد اس وقت سامنے آئی جب يہ سارے بهائی اپنے والدين سميت مصر گئے اور وہاں حضرت
يوسف عليہ السالم کے سامنے سجدہ ريز ہوگئے ،جيسا کہ يہ تفصيل سورت کے آخر ميں آئے گی۔
Ḍ ضا ي َّْخ ُل لَ ُك ْم َوجْ هُ اَبِ ْي ُك ْم َوت َ ُك ْونُ ْوا ِم ْۢ ْن َب ْعد ِٖہ قَ ْو اما صٰ ِل ِح ْينَ ف ا َ ِو ْ
اط َر ُح ْوہُ ا َ ْر ا ا ْقــتُلُ ْوا ي ُْو ُ
س َ
يوسف کو مار ہی ڈالو اسے کسی (نامعلوم) جگہ پهينک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری
طرف ہی ہو جائے۔ اس کے بعد تم نيک ہو جانا ()١۔
٩۔ ١اس سے مراد تائب ہو جانا ہے يعنی کنوئيں ميں ڈال کر يا قتل کر کے ہللا سے اس گناہ کے
لئے توبہ کرليں گے۔
ت ْال ُج ِ
ب ۚ َوا َ ْو َح ْينَا ْٓ اِلَ ْي ِه لَتُنَبِئَنَّ ُه ْم بِا َ ْم ِر ِه ْم ٰه َذا َو ُه ْم َْل يَ ْشعُ ُر ْونَ فَلَ َّما َذ َهب ُْوا بِ ٖه َواَجْ َمعُ ْْٓوا ا َ ْن يَّجْ َعلُ ْوہُ فِ ْي َ
غ ٰيبَ ِ
15
پهر جب اسے لے چلے اور سب نے ملکر ٹهان ليا اسے غير آباد گہرے کنوئيں کی تہ ميں پهينک
ديں ،ہم نے يوسف (عليہ السالم) کی طرف وحی کی کہ يقينا ا (وقت آرہا ہے کہ) تو انہيں اس ماجرا
کی خبر اس حال ميں دے گا کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں ()١
١٥۔ ١قرآن کريم نہايت اختصار کے ساته واقعہ بيان کر رہا ہے۔ مطلب يہ ہے کہ جب سوچے
ٰ
سمجهے منصوبے کے مطابق انہوں نے يوسف عليہ السالم کو کنويں ميں پهينک ديا ،تو ہللا تعالی
نے حضرت يوسف عليہ السالم کی تسلی اور حوصلے کے لئے وحی کی کہ گهبرانے کی
ضرورت نہيں ہے ،ہم تيری حفاظت ہی نہيں کريں گے بلکہ ايسے بلند مقام پر تجهے فائز کريں
گے کہ يہ بهائی بهيک مانگتے ہوئے تيری خدمت ميں حاضر ہونگے اور پهر تو انہيں بتائے گا کہ
تم نے اپنے ايک بهائی کے ساته اس طرح سنگ دْلنہ معاملہ کيا تها ،جسے سن کر وہ حيران اور
پشيمان ہو جائيں گے۔ حضرت يوسف عليہ اْلسالم اس وقت اگرچہ بچے تهے ،ليکن جو بچے،
نبوت پر سرفراز ہونے والے ہوں ،ان پر بچپن ميں بهی وحی آ جاتی ہے
عيسی و ٰ
يحيی وغيرہ عليہم السالم پر آئی۔ ٰ جيسے حضرت
ب ۚ َو َما ْٓ ا َ ْنتَ ِب ُمؤْ ِم ٍن لَّنَا َولَ ْو ُكنَّا صٰ ِدقِيْنَ ف ِع ْن َد َمت َا ِعنَا فَا َ َكلَهُ ِ
الذئْ ُ قَالُ ْوا ٰيْٓا َ َبانَا ْٓ اِنَّا َذ َه ْبنَا نَ ْستَبِ ُق َوت ََر ْكنَا ي ُْو ُ
س َ
17
اور کہنے لگے ابا جان ہم تو آپس ميں دوڑ ميں لگ گئے اور يوسف (عليہ السالم) کو ہم نے اسباب
نہ مانيں گے ،گو ہم بالکل سچے ہیکے پاس چهوڑا تها پس اسے بهيڑيا کها گيا ،آپ تو ہماری بات ٰ
ہوں ()١
١٧۔ ١يعنی اگر ہم آپ کے نزديک معتبر اور اہل صدق ہوتے ،تب بهی يوسف عليہ السالم کے
معاملے ميں آپ ہماری بات کی تصديق نہ کرتے ،اب تو ويسے ہماری حيثيت متہم افراد کی سی
ہے ،اب آپ کس طرح ہماری بات کی تصديق کريں گے؟
ع ِل ْي ْۢ ٌم ِب َما عةا ۭ َو ه
ّٰللاُ َ ضا َ غ ٰل ٌم ۭ َوا َ َ
س ُّر ْوہُ ِب َ سلُ ْوا َو ِار َد ُه ْم فَاَد ْٰلى َد ْل َو ٗہ ۭ قَا َل ٰيبُ ْش ٰري ٰه َذا ُ
َّارة ٌ فَا َ ْر َ
سي َ َو َج ۗا َء ْ
ت َ
19 َي ْع َملُ ْونَ
اور ايک قافلہ آيا اور انہوں نے اپنے پانی ْلنے والے کو بهيجا اس نے اپنا ڈول لٹکا ديا ،کہنے لگا
واہ واہ خوشی کی بات ہے يہ تو ايک لڑکا ہے ( )١انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چهپا
ليا ( )٢اور ہللا ٰ
تعالی اس سے باخبر تها جو وہ کر رہے تهے۔
١٩۔ ١وارد اس شخص کو کہتے ہيں جو قافلے کے لئے پانی وغيرہ انتظام کرنے کی غرض سے
قافلے کے آگے آگے چلتا ہے تاکہ مناسب جگہ ديکه کر قافلے کو ٹهيرايا جا سکے يہ وراد (جب
کنويں پر آيا اور اپنا ڈول نيچے لٹکايا تو حضرت يوسف عليہ السالم نے اس کی رسی پکڑ لی،
وارد نے ايک خوش شکل بچہ ديکها تو اسے اوپر کهنچ ليا اور بڑا خوش ہوا۔ ١٩۔٢بضاعۃ سامان
تجارت کو کہتے ہيں اسروہ کا فاعل کون ہے؟ يعنی يوسف کو سامان تجارت سمجه کر چهپانے واْل
کون ہے؟ اس ميں اختالف ہے۔ حافظ ابن کثير نے برادران يوسف عليہ السالم کو فاعل قرار ديا ہے
مطلب يہ ہے کہ جب ڈول کے ساته يوسف عليہ السالم بهی کنويں سے باہر نکل آئے تو وہاں يہ
بهائی بهی موجود تهے ،تاہم انہوں نے اصل حقيقت کو چهپائے رکها ،يہ نہيں کہا کہ يہ ہمارا بهائی
ہے اور حضرت يوسف عليہ السالم نے بهی قتل کے انديشے سے اپنا بهائی ہونا ظاہر نہيں کيا بلکہ
بهائيوں نے انہيں فروختنی قرار ديا تو خاموش رہے اور اپنا فروخت ہونا پسند کر ْليا۔ چنانچہ اس
وارد نے اہل قافلہ کو يہ خوشخبری سنائی کہ ايک بچہ فروخت ہو رہا ہے۔ مگر يہ بات سياق سے
ميل کهاتی نظر نہيں آتی۔ ان کے برخالف امام شوکانی نے اسروہ کا فاعل وارد اور اس کے
ساتهيوں کو قرار ديا ہے کہ انہوں نے يہ ظاہر نہيں کيا کہ يہ بچہ کنويں سے نکال ہے کيونکہ اس
طرح تمام اہل قافلہ اس سامان تجارت ميں شريک ہو جاتے بلکہ اہل قافلہ کو انہوں نے جا کر يہ
بتاليا کہ کنويں کے مالکوں نے يہ بچہ ان کے سپرد کيا ہے تاکہ اسے وہ مصر جا کر بيچ ديں۔
مگر اقرب ترين بات يہ ہے کہ اہل قافلہ نے بچے کو سامان تجارت قرار دے کر چهپا ليا کہ کہيں
اس کے عزيز واقارب اس کی تالش ميں نہ آ پہنچيں۔ اور يوں لينے کے دينے پڑ جائيں کيونکہ بچہ
ہونا اور کنويں ميں پايا جانا اس بات کی عالمت ہے کہ وہ کہيں قريب ہی کا رہنے واْل ہے اور
کهيلتے کودتے آ گرا ہے۔
١٩۔۳يعنی يوسف عليہ السالم کے ساته يہ جو کچه ہو رہا تها ،ہللا کو اس کا علم تها۔ ليکن ہللا نے
يہ سب کچه اس ليے ہونے ديا کہ تقدير الہی بروئے کار آئے۔ عالوہ ازيں اس ميں رسول ہللا صلی
تعالی اپنے پيغمبر کو بتال رہا ہے کہ آپ کی قوم کے ہللا عليہ وسلم کے ليے اشارہ ہے يعنی ہللا ٰ
لوگ يقينا ا ايذا پہنچا رہے ہيں اور ميں انہيں اس سے روکنے پر قادر بهی ہوں۔ ليکن ميں اسی طرح
انہيں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران يوسف عليہ السالم کو مہت دی تهی۔ اور پهر باآلخر
ميں نے يوسف عليہ السالم کو مصر کے تخت پر جا بٹهايا اور اس کے بهائيوں کو عاجز وْلچار
کر کے اس کے دربار ميں کهڑا کر ديا اے پيغمبر ايک وقت آئے گا کہ آپ بهی اسی طرح سرخرو
ہوں گے اور سرداران قريش آپ کے اشارہ ابرو اور جنبش لب کے منتظر ہوں گے۔ چنانچہ فتح
مکہ کے موقع پر يہ وقت جلد ہی آ پہنچا۔
ۧ20 َوش ََر ْوہُ بِث َ َم ْۢ ٍن بَ ْخ ٍس َد َراه َِم َم ْعد ُْو َدةٍ ۚ َو َكانُ ْوا فِ ْي ِه ِمنَ َّ
الزا ِه ِديْنَ
انہوں نے ( )١اسے بہت ہی ہلکی قيمت پر گنتی کے چند درہموں پر بيچ ڈاْل ،وہ تو يوسف کے
بارے ميں بہت ہی بےرغبت تهے ()٢
٢٠۔ ١بهائيوں يا دوسری تفسير کی رو سے اہل قافلہ نے بيچا۔
٢٠۔ ٢کيونکہ گری پڑی چيز انسان کو يوں ہی کسی محنت کے بغير مل جاتی ہے ،اس لئے چاہے
وہ کتنی بهی قيمتی ہو ،اس کی صحيح قدر وقيمت انسان پر واضح نہيں ہوتی۔
ف عسٰ ْٓى ا َ ْن يَّ ْن َفعَنَا ْٓ ا َ ْو نَت َّ ِخ َذ ٗہ َو َلداا ۭ َو َك ٰذلِكَ َم َّكنَّا ِلي ُْو ُ
س َ ص َر ِْل ْم َراَتِ ٖ ْٓه ا َ ْك ِر ِم ْي َمثْ ٰوىهُ َ
َوقَا َل الَّذِي ا ْشت َٰرىهُ ِم ْن ِم ْ
ْٓ
21 ع ٰلي ا َ ْم ِر ٖہ َو ٰل ِك َّن ا َ ْكث َ َر النَّ ِ
اس َْل يَ ْعلَ ُم ْونَ ّٰللاُ غَالِبٌ َ
ث ۭ َو هض ۡ َو ِلنُعَ ِل َمهٗ ِم ْن تَا ْ ِو ْي ِل ْاْلَ َحا ِد ْي ِ
فِي ْاْلَ ْر ِ
مصر والوں ميں سے جس نے اسے خريدا تها اس نے اپنی بيوی ( )١سے کہا کہ اسے بہت عزت
و احترام کے ساته رکهو ،بہت ممکن ہے کہ يہ ہميں فائدہ پہنچائے يا اسے ہم اپنا بيٹا ہی بنا ليں،
يوں ہم نے مصر کی سرزمين پر يوسف کا قدم جما ديا ( ،)٢کہ ہم اسے خواب کی تعبير کا کچه علم
سکها ديں۔ ہللا اپنے ارادے پر غالب ہے ليکن اکثر لوگ بےعلم ہوتے ہيں۔
٢١۔ ١کہا جاتا ہے کہ مصر پر اس وقت ريان بن وليد حکمران تها اور يہ عزيز مصر ،جس نے
يوسف عليہ السالم کو خريدا اس کا وزير خزانہ تها ،اس کی بيوی کا نام بعض نے راعيل اور بعض
نے زليخا بتاليا ہے وہللا اعلم۔
٢١۔ ٢يعنی جس طرح ہم نے يوسف عليہ السالم کو کنويں سے ظالم بهائيوں سے نجات دی ،اسی
طرح ہم نے يوسف عليہ السالم کو سرزمين مصر ميں ايک معقول اچها ٹهکانا عطا کيا۔
22 شد ٗ َّْٓہ ٰات َ ْي ٰنهُ ُح ْك اما َّو ِع ْل اما ۭ َو َك ٰذلِكَ نَجْ ِزي ْال ُمحْ ِس ِنيْنَ
َولَ َّما بَلَ َغ ا َ ُ
جب (يوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے ہم نے اسے قوت فيصلہ اور علم ديا ( )١ہم نيکوں
کاروں کو اسی طرح بدلہ ديتے ہيں۔
٢٢۔ ١يعنی نبوت يا نبوت سے قبل کی دانائی اور قوت فيصلہ۔
علَ ْي ِه َّن ۚ ت ْ
اخ ُرجْ َ ت لَ ُه َّن ُمت َّ َكا ا َّو ٰات َْت ُك َّل َو ِ
اح َدةٍ ِم ْن ُه َّن ِس ِك ْيناا َّوقَالَ ِ ت اِلَ ْي ِه َّن َوا َ ْعت َ َد ْ
سلَ ْ
ت ِب َم ْك ِره َِّن ا َ ْر َس ِم َع ْ فَلَ َّما َ
31 ّٰلل َما ٰه َذا بَش اَرا ۭ ا ِْن ٰه َذآْ ا َِّْل َملَكٌ َك ِر ْي ٌم ط ْعنَ ا َ ْي ِديَ ُه َّن ۡ َوقُ ْلنَ َح َ
اش ِ ه ِ فَلَ َّما َرا َ ْينَهٗ ْٓ ا َ ْكبَ ْرنَهٗ َوقَ َّ
اس نے جب ان کی اس فريب پر غيبت کا حال سنا تو انہيں بلوا بهيجا ( )١اور ان کے لئے ايک
مجلس مرتب کی ( )٢اور ان ميں سے ہر ايک کو چهری دی۔ اور کہا اے يوسف ان کے سامنے
چلے آؤ ( )۳ان عورتوں نے جب اسے ديکها تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاته کاٹ لئے ( )٤اور
زبانوں سے نکل گيا کہ ما شاءہللا! يہ انسان تو ہرگز نہيں ،يہ تو يقينا ا کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ
ہے۔
۳١۔ ١زنان مصر کی غائبانہ باتوں اور طعن و مالمت کو مکر سے تعبير کيا گيا ،جس کی وجہ
سے بعض مفسرين نے يہ بيان کيا ہے کہ ان عورتوں کو بهی يوسف کے بےمثال حسن و جمال کی
اطالعات پہنچ چکی تهيں۔
چنانچہ وہ اس پيکر حسن کو ديکهنا چاہتی تهيں چنانچہ وہ اپنے اس مکر خفيہ تدبير ميں کامياب
ہوگئيں اور امرأة العزيز نے يہ بتالنے کے ليے کہ ميں جس پر فريفتہ ہوئی ہوں ،محض ايک غالم
يا عام آدمی نہيں ہے بلکہ ظاہر و باطن کے ايسے حسن سے آراستہ ہے کہ اسے ديکه کر نقد دل و
جان ہار جانا کوئی انہونی بات نہيں ،لہذا ان عورتوں کی ضيافت کا اہتمام کيا اور انہيں دعوت طعام
دی۔
۳١۔ ٢يعنی ايسی نشست گاہيں بنائيں جن ميں تکئے لگے ہوئے تهے ،جيسا کہ آج کل بهی عربوں
ميں ايسی فرشی نشست گاہيں عام ہيں۔ حتی کہ ہوٹلوں اور ريستورانوں ميں بهی ان کا اہتمام ہے۔
۳١۔ ۳يعنی حضرت يوسف عليہ السالم کو پہلے چهپائے رکها ،جب سب عورتوں نے ہاتهوں ميں
چهرياں پکڑ ليں تو امراة العزيز (زليخا) نے حضرت يوسف عليہ السالم کو مجلس ميں حاضر
ہونے کا حکم ديا۔
۳١۔ ٤يعنی حسن يوسف عليہ السالم کی جلوہ آرائی ديکه کر ايک تو ان کے عظمت و جالل شان کا
اعتراف کيا اور دوسرے ،ان پر بےخودی کی ايسی کيفيت طاری ہوئی کہ چهرياں اپنے ہاتهوں پر
چال ليں۔ جس سے ان کے ہاته زخمی اور خون آلودہ ہوگئے۔ حديث ميں آتا ہے کہ حضرت يوسف
عليہ السالم کو نصف حسن ديا گيا ہے (صحيح مسلم)
۳١۔۵اس کے يہ معنی نہيں ہيں کہ فرشتے شکل وصورت ميں انسان سے بہتر يا افضل ہيں۔ کيونکہ
فرشتوں کو تو انسانوں نے ديکها ہی نہيں ہے۔ عالوہ ازيں انسان کے بارے ميں تو ہللا ٰ
تعالی نے
خود قرآن کريم ميں صراحت کی ہے کہ ہم نے اسے احسن تقويم بہترين انداز ميں پيدا کيا ہے۔ ان
عورتوں نے بشريت کی نفی محض اس ليے کی کہ انہوں نے حسن وجمال کا ايک ايسا پيکر ديکها
تها جو انسانی شکل ميں کبهی ان کی نظروں سے نہيں گزرا تها اور انہوں نے فرشتہ اس ليے قرار
ديا کہ عام انسان يہی سمجهتا ہے فرشتے ذات وصفات کے لحاظ سے ايسی شکل رکهتے ہيں جو
انسانی شکل سے باْلتر ہے۔ اس سے يہ معلوم ہوا کہ انبياء کی غير معمولی خصوصيات و
امتيازات کی بناء پر انہيں انسانيت سے نکال کر نورانی مخلوق قرار دينا ،ہر دور کے ايسے لوگوں
کا شيوہ رہا ہے جو نبوت اور اس کے مقام سے ناآشنا ہوتے ہيں۔
ص َم ۭ َولَى ْن لَّ ْم يَ ْفعَ ْل َما ْٓ ٰا ُم ُر ٗہ لَيُ ْس َجن ََّن َولَيَ ُك ْوناا ِمنَ ت فَ ٰذ ِل ُك َّن الَّذ ْ
ِي لُ ْمتُنَّنِ ْي فِ ْي ِه ۭ َولَقَ ْد َر َاو ْدتُّهٗ َ
ع ْن نَّ ْف ِس ٖه فَا ْست َ ْع َ قَالَ ْ
32 ص ِغ ِريْنَال ه
اس وقت عزيز مصر کی بيوی نے کہا ،يہی ہيں جن کے بارے ميں تم مجهے طعنے دے رہی تهيں
( )١ميں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا ،ليکن يہ بال بال بچا رہا ،اور جو کچه
ميں اسے کہہ رہی ہوں اگر يہ نہ کرے گا تو يقينا ا يہ قيد کر ديا جائے گا اور بيشک يہ بہت ہی
بےعزت ہوگا ()٢۔
۳٢۔ ١جب زليخا نے ديکها اس کی چال کامياب رہی ہے اور عورتيں يوسف عليہ السالم کے جلوہ
حسن آراء سے مد ہوش ہوگئيں تو کہنے لگی ،کہ اس کی ايک جهلک سے تمہارا يہ حال ہو گيا ہے
تو کيا تم اب بهی مجهے اس کی محبت ميں گرفتار ہونے پر طعنہ زنی کروگی؟ يہی وہ غالم ہے
جس کے بارے ميں تم مجهے مالمت کرتی ہو۔
۳٢۔ ٢عورتوں کی مد ہوشی ديکه کر اس کو مزيد حوصلہ ہو گيا اور شرم و حيا کے سارے
حجاب دور کر کے اس نے اپنے برے ارادے کا ايک مرتبہ پهر اظہار کيا۔
ۧ35 ت لَ َي ْس ُجنُنَّهٗ َحتهي ِحي ٍْن ث ُ َّم َب َدا لَ ُه ْم ِم ْۢ ْن َب ْع ِد َما َرا َ ُوا ْ ٰ
اْل ٰي ِ
پهر ان تمام نشانيوں کے ديکه لينے کے بعد بهی انہيں يہی مصلحت معلوم ہوئی کہ يوسف کو کچه
مدت کے لئے قيد خانہ ميں رکهيں ()١۔
۳٥۔ ١عفت و پاک دامنی واضح ہو جانے کے باوجود يوسف عليہ السالم کو حوالہ زنداں کرنے ميں
يہی مصلحت ان کے پيش نظر ہو سکتی تهی کہ عزيز مصر حضرت يوسف عليہ السالم کو اپنی
بيوی سے دور رکهنا چاہتا ہوگا تاکہ وہ دوبارہ يوسف عليہ السالم کو اپنے دام ميں پهنسانے کی
کوشش نہ کرے جيسا کہ وہ ايسا ارادہ رکهتی تهی۔
طعَا ٌم ت ُ ْرزَ ٰقنِ ٖ ْٓه ا َِّْل نَبَّاْت ُ ُك َما بِتَا ْ ِويْـ ِل ٖه قَ ْب َل ا َ ْن يَّاْتِ َي ُك َما ۭ ٰذ ِل ُك َما ِم َّما َ
علَّ َمنِ ْي َربِ ْي ۭ اِنِ ْى ت ََر ْكتُ ِملَّةَ قَا َل َْل َياْتِ ْي ُك َما َ
37 اْل ِخ َرةِ ُه ْم ٰك ِف ُر ْونَ اّٰللِ َو ُه ْم بِ ْ ٰ قَ ْو ٍم َّْل يُؤْ ِمنُ ْونَ بِ ه
يوسف نے کہا تمہيں جو کهانا ديا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ميں تمہيں
اس کی تعبير بتال دوں گا يہ سب اس علم کی بدولت ہے جو ميرے رب نے سکهايا ہے )١( ،ميں
نے ان لوگوں کا مذہب چهوڑ ديا ہے جو ہللا پر ايمان نہيں رکهتے اور آخرت کے بهی منکر
ہيں)٢٠۔
۳٧۔ ١يعنی ميں جو تعبير بتالؤں گا ،وہ کاہنوں اور نجوميوں کی طرح ظن و تخمين پر مبنی نہيں
ہوگی ،جس ميں خطا اور نيکی دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ بلکہ ميری تعبير يقينی علم پر مبنی ہوگی
جو ہللا کی طرف سے مجهے عطا کيا گيا ہے ،جس ميں غلطی کا امکان ہی نہيں۔
۳٧۔ ٢يہ الہام اور علم ٰالہی (جن سے آپ کو نوازا گيا) کی وجہ بيان کی جا رہی ہے کہ ميں نے ان
لوگوں کا مذہب چهوڑ ديا جو ہللا اور آخرت پر يقين نہيں رکهتے ،اس کے صلے ميں ہللا ٰ
تعالی کے
يہ انعامات مجه پر ہوئے۔
س ْل ٰط ٍن ۭ ا ِِن ْال ُح ْك ُم ا َِّْل ِ هّٰللِ ۭ ا َ َم َر س َّم ْيت ُ ُم ْو َها ْٓ ا َ ْنت ُ ْم َو ٰابَ ۗاؤُ ُك ْم َّما ْٓ ا َ ْنزَ َل ه
ّٰللاُ ِب َها ِم ْن ُ ِْل ا َ ْس َم ۗا اء َ
َما ت َ ْعبُد ُْونَ ِم ْن د ُْونِ ْٖٓه ا َّ ْٓ
40 اس َْل يَ ْعلَ ُم ْونَ الدي ُْن ْالقَيِ ُم َو ٰل ِك َّن ا َ ْكث َ َر النَّ ِ ا َ َّْل ت َ ْعبُد ُْْٓوا ا َِّْلْٓ اِيَّاہُ ۭ ٰذلِكَ ِ
اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہيں جو تم نے اور تمہارے باپ
دادوں نے خود ہی گهڑ لئے ہيں۔ ہللا ٰ
تعالی نے ان کی کوئی دليل نازل نہيں فرمائی ( )١فرمانروائی
تعالی کی ہے ،اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، صرف ہللا ٰ
يہی دين درست ہے ( )٢ليکن اکثر لوگ نہيں جانتے ()۳۔
٤٠۔ ١اس کا ايک مطلب يہ ہے کہ ان کا نام معبود تم نے خود ہی رکه ليا ہے ،دراں حاليکہ وہ
معبود ہيں نہ ان کی بابت کوئی دليل ہللا نے اتاری ہے۔ دوسرا مطلب يہ ہے کہ ان معبودوں کے جو
مختلف نام تم نے تجويز کر رکهے ہيں۔ مثال خواجہ غريب نواز ،گنج بخش کرنی واْل ،کرماں واْل
وغيرہ يہ سب تمہارے خود ساختہ ہيں۔ ان کی کوئی دليل ہللا نے نہيں اتاری۔
٤٠۔ ٢يہی دين ،جس کی طرف ميں تمہيں بال رہا ہوں ،جس ميں صرف ايک ہللا کی عبادت ہے،
درست اور رقيم ہے جس کا حکم ہللا نے ديا ہے۔
اّٰللِ ا َِّْل َو ُه ْم
(و َم َاو َما يُؤْ ِم ُن ا َ ْكث َ ُر ُه ْم ِب ه
٤٠۔ ۳جس کی وجہ سے اکثر لوگ شرک کا ارتکاب کرتے ہيں َ
ُّم ْش ِر ُك ْونَ ) 12۔يوسف ' )106:ان ميں سے اکثر لوگ باوجود ہللا پر ايمان رکهنے کے بهی مشرک
اس َولَ ْو َح َرصْتَ بِ ُمؤْ ِمنِيْنَ ) 12۔يوسف )103:اے پيغمبر تيری (و َما ْٓ ا َ ْكث َ ُر النَّ ِ
ہی ہيں ' اور فرمايا َ
خواہش کے باوجود اکثر لوگ ہللا پر ايمان ْلنے والے نہيں ہيں۔
ي ْاْلَ ْم ُر
ض َ ب فَتَا ْ ُك ُل َّ
الطي ُْر ِم ْن َّراْ ِس ٖه ۭ قُ ِ صلَ ُ احبَي ِ السِجْ ِن ا َ َّما ْٓ ا َ َح ُد ُك َما فَيَ ْس ِق ْي َربَّهٗ خ َْم ارا ۚ َوا َ َّما ْ ٰ
اْلخ َُر فَيُ ْ ص ِٰي َ
ۭ41 الَّذ ْ
ِي ِف ْي ِه ت َ ْست َ ْف ِت ٰي ِن
اے ميرے قيد خانے کے رفيقو! ( )١تم دونوں ميں سے ايک تو اپنے بادشاہ کو شراب پالنے پر
مقرر ہو جائے گا ( )٢ليکن دوسرا سولی پر چڑهايا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر
کهائيں گے ( )۳تم دونوں جس کے بارے ميں تحقيق کر رہے تهے اس کام کا فيصلہ کر ديا گيا ہے
()٤۔
٤١۔ ١توحيد کا وعظ کرنے کے بعد اب حضرت يوسف عليہ السالم ان کے بيان کردہ خوابوں کی
تعبير بيان فرما رہے ہيں۔
٤١۔ ٢يہ وہی شخص ہے جس نے خواب ميں اپنے کو انگور کا شيرہ کرتے ہوئے ديکها تها تاہم
آپ نے دونوں ميں سے کسی ايک کی تعبين نہيں کی تاکہ مرنے واْل پہلے ہی غم و حزن ميں مبتال
نہ ہو جائے۔
٤١۔ ۳يہ وہ شخص ہے جس نے اپنے سر پر خواب ميں روٹياں اٹهائے ديکها تها۔
٤١۔ ٤يعنی تقدير ٰالہی ميں پہلے سے يہ بات ثبت ہے اور جو تعبير ميں بتالئی ہے۔ ْل محالہ واقع
ہو کر رہے گا۔ جيسا کہ حديث ميں ہے۔ رسول ہللا نے فرمايا کہ ' خواب ،جب تک اس کی تعبير نہ
کی جائے ،پرندے کے پاؤں پر ہے۔ جب اس کی تعبير کر دی جائے تو واقع ہو جاتا ہے ' (مسند
احم بحوالہ ابن کثير)
44 َاث اَحْ َال ٍم ۚ َو َما نَحْ ُن ِبتَا ْ ِو ْي ِل ْاْلَحْ َال ِم ِبعٰ ِل ِميْنَ
ضغ ُقَالُ ْْٓوا ا َ ْ
انہوں نے جواب ديا يہ تو اڑتے اڑاتے پريشان خواب ہيں اور ايسے شوريدہ پريشان خوابوں کی
تعبير جاننے والے ہم نہيں ()١۔
تعالی کو اس خواب کے ذريعے٤٤۔ ١يہ خواب اس بادشاہ کو آيا ،عزيز مصر جس کا وزير تها۔ ہللا ٰ
سے يوسف عليہ السالم کی رہائی عمل ميں ْلنی تهی۔ چنانچہ بادشاہ کے درباريوں ،کاہنوں اور
نجوميوں نے اس خواب پريشان کی تعبير بتالنے سے عجز کا اظہار کر ديا ،بعض کہتے ہيں کہ
نجوميوں کے اس قول کا مطلب مطلقا علم تعبير کی نفی ہے اور بعض کہتے ہيں کہ علم تعبير سے
وہ بےخبر نہيں تهے نہ اس کی انہوں نے نفی کی ،انہوں نے صرف خواب کی تعبير بتالنے سے
ْل علمی کا اظہار کيا۔
47 س ْۢ ْنبُ ِل ٖ ْٓه ا َِّْل قَ ِلي اْال ِم َّما تَا ْ ُكلُ ْونَ
ص ْدت ُّ ْم فَ َذ ُر ْوہُ فِ ْي ُ
س ْب َع ِسنِيْنَ َداَباا ۚ فَ َما َح َ قَا َل ت َْز َر ُ
ع ْونَ َ
يوسف نے جواب ديا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بويا کرنا ،اور فصل
کاٹ کر اسے باليوں سميت ہی رہنے دينا سوائے اپنے کهانے کی تهوڑی سی مقدار کے۔
ۧ49 ص ُر ْونَ
اس َوفِ ْي ِه َي ْع ِ ث ُ َّم َيا ْ ِت ْي ِم ْۢ ْن َب ْع ِد ٰذلِكَ َ
عا ٌم ِف ْي ِه يُغ ُ
َاث النَّ ُ
اس کے بعد جو سال آئے گا اس ميں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس ميں (شيرہ
انگور بهی) خوب نچوڑيں گے ()١
٤٩۔ ١يعنی قحط کے سال گزرنے کے بعد پهر خوب بارش ہوگی ،جس کے نتيجے ميں کثرت
پيداوار ہوگی اور تم انگوروں سے شيرہ نچوڑو گے ،زيتوں سے تيل نکالو گے اور جانوروں سے
دوده دوہو گے۔ خواب کی اس تعبير کو خواب سے کيسی لطيف مناسبت حاصل ہے ،جسے صرف
وہی شخص سمجه سکتا ہے جسے ہللا ٰ
تعالی ايسا صحيح وجدان ،ذوق سليم اور ملکہ راسخ عطا
تعالی نے حضرت يوسف عليہ السالمفرما دے جو ہللا ٰ
ار ِج ْع ا ِٰلي َربِكَ فَسْـــَٔ ْـلهُ َما بَا ُل النِس َْوةِ الهتِ ْي قَ َّ
ط ْعنَ ا َ ْي ِديَ ُه َّن ۭ س ْو ُل قَا َل ْ َوقَا َل ْال َم ِلكُ ائْت ُ ْونِ ْي بِ ٖه ۚ فَلَ َّما َج ۗا َءہُ َّ
الر ُ
50 ا َِّن َر ِب ْي ِب َك ْي ِده َِّن َ
ع ِل ْي ٌم
اور بادشاہ نے کہا يوسف کو ميرے پاس ْلؤ ( )١جب قاصد يوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا،
اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچه کہ ان عورتوں کا حقيقی واقعہ کيا ہے جنہوں نے
اپنے ہاته کاٹ لئے ( )٢تهے؟ ان کے حيلے کو (صحيح طور پر) جاننے واْل ميرا پروردگار ہی
ہے۔
٥٠۔ ١مطلب يہ ہے کہ جب وہ شخص تعبير دريافت کر کے بادشاہ کے پاس گيا اور اسے تعبير
بتائی تو وہ اس تعبير سے اور حضرت يوسف عليہ السالم کی بتالئی ہوئی تدبير سے بڑا متاثر ہوا
اور اس نے اندازہ لگا ليا کہ يہ شخص ،جسے ايک عرصے سے حوالہ زنداں کيا ہوا ہے ،غير
معمولی علم و فضل اور اع ٰلی صالحيتوں کا حامل ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہيں دربار ميں پيش
کرنے کا حکم ديا۔
٥٠۔ ٢حضرت يوسف عليہ السالم نے جب ديکها کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے ،تو انہوں نے اس
طرح محض عنايت خسوانہ سے جيل سے نکلنے کو پسند نہيں فرمايا ،بلکہ اپنے کردار کی رفعت
اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجيح دی تاکہ دنيا کے سامنے آپ کا کردار اور اس کی بلندی واضح
ہو جائے۔ کيونکہ داعی الی ہللا کے لئے يہ عفت و پاک بازی اور رفعت کردار بہت ضروری ہے۔
ت ْام َراَتُ ْالعَ ِزي ِْز
س ۗ ْوءٍ ۭ قَالَ ِ
علَ ْي ِه ِم ْن ُ
ع ِل ْمنَا َ
ّٰلل َما َ ع ْن نَّ ْف ِس ٖه ۭ قُ ْلنَ َح َ
اش ِ ه ِ ف َ س َ قَا َل َما خ ْ
َطبُ ُك َّن اِ ْذ َر َاو ْدت ُّ َّن ي ُْو ُ
51 ص ِدقِيْنَ ع ْن نَّ ْف ِس ٖه َواِنَّهٗ لَ ِمنَ ال هص ْال َح ُّق ۡ اَنَا َر َاو ْدتُّهٗ َ ص َح َ ْال ٰــنَ َح ْ
بادشاہ نے پوچها اے عورتو! اس وقت کا صحيح واقعہ کيا ہے جب تم داؤ فريب کرکے يوسف کو
اس کی دلی منشا سے بہکانہ چاہتی تهيں انہوں نے صاف جواب ديا کہ معاذہللا ہم نے يوسف ميں
کوئی برائی نہيں ( )١پائی ،پهر تو عزيز کی بيوی بهی بول اٹهی کہ اب تو سچی بات نتهر آئی ميں
نے ہی اسے ورغاليا تها ،اس کے جی سے ،اور يقينا ا وہ سچوں ميں سے ہے ()٢۔
٥١۔ ١بادشاہ کے استفسار پر تمام عورتوں نے يوسف عليہ السالم کی پاک دامنی کا اعتراف کيا۔
٥١۔ ٢اب زليخا کے لئے بهی يہ اعتراف کئے بغير چارہ نہيں رہا کہ يوسف عليہ السالم بےقصور
ہے اور يہ پيش دستی ميری ہی طرف سے ہوئی تهی ،اس فرشتہ صفت انسان کا اس لغزش سے
کوئی تعلق نہيں۔
52 ي َك ْي َد ْالخ َۗاى ِنيْنَ ٰذلِكَ ِليَ ْعلَ َم اَنِ ْى لَ ْم ا َ ُخ ْنهُ بِ ْالغَ ْي ِ
ب َوا َ َّن ه
ّٰللاَ َْليَ ْه ِد ْ
بادشاہ نے کہا اسے ميرے پاس ْلؤ ميں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کرلوں ( )١پهر
جب اس سے بات چيت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہيں
()٢۔
٥٢۔ ١جب جيل ميں حضرت يوسف عليہ السالم کو ساری تفصيل بتالئی گئی تو اسے سن کر يوسف
عليہ السالم نے کہا اور بعض کہتے ہيں کہ بادشاہ کے پاس جا کر انہوں نے يہ کہا اور بعض
مفسرين کے نزديک زليخا کا قول ہے اور مطلب يہ ہے کہ يوسف عليہ السالم کی غير موجودگی
ميں بهی اس غلط طور پر خيانت کا ارتکاب نہيں کرتی بلکہ امانت کے تقاضوں کو سامنے رکهتے
ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہوں۔ يا يہ مطلب ہے کہ ميں نے اپنے خاوند کی خيانت نہيں کی
اور کسی بڑے گناہ ميں واقعہ نہيں ہوئی۔ امام ابن کثير نے اسی قول کو ترجيح دی ہے۔
٥٢۔ ٢کہ وہ اپنے مکر وفريب ميں ہميشہ کامياب ہی رہيں ،بلکہ ان کا اثر محدود اور عارضی ہوتا
ہے۔ باآلخر جيت حق اور اہل حق ہی کی ہوتی ہے ،گو عارضی طور پر اہل حق کو آزمائشوں سے
گزرنا پڑے۔