Professional Documents
Culture Documents
ناظرین آج ہم آپ کو ایک دو روایات جو پیش کی جاتی ہیں ان کا ایک اصولی جواب بریلویوں کے
اعلی حضرت فاضل بریلی احمد رضا خان صاحب کے اصول کی روشنی میں دیتے ہیں۔۔
احمد رضا خان ایک موضوع روایت سے دلیل پکڑتے ہوئے لکھتے ہے:
حضرت صدیق کا مقام (ہیڈنگ ڈال کر روایت نقل کرتے ہیں از ناقل) رسول صلی ہللا علیہ وسلم
فرماتے ہیں :اے علی! میں نے ہللا عزوجل سے تین بار سوال کیا ہے کہ تجھے تقدیم (یعنی دیگر
تعالی نے نہ مانا مگر ابوبکر کو مقدم رکھنا
ٰ سے افضلیت عطا کرے از ناقل) دے ہللا
حوالہ :فتاوی رضویہ جلد 15ص 687طبع جدید۔
تبصرہ :ناظرین ادھر واضح طور پر دو چیزیں پیش نظر رکھیں
االول ،رسول ص کی ذاتی خواہش امیر المؤمنین ع کو تقدیم دینا ہی تھی لیکن خدا کو وہ پسند نہیں
آئی اور خدا نے ابوبکر کو افضل رکھا
الثانی ،رسول ص کی بعض التجائ یں خدا کی بارگاہ میں بھی قبول نہیں ہوتی ،کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو
امیر المؤمنین ع کو قطعا تقدیم ملتی لیکن خدا نے ابوبکر کو ہی دینا چاہی۔۔
اب میں زیادہ کالم اس روایت پر مزید نہیں کروں گا لیکن ہمارے مخالفین معاویہ کے حق میں دو
روایات پیش کرتے ہیں
پہلی :اللّٰھ م اجعلہ ھادیا مھدیا واھد بہ (اے ہللا! تو معاویہ کو ہادی اور ہدایت یافتہ بنا،ان کو ہدایت
عطافرما اور اس کے ذریعے ہدایت دے)
دوسری :اللّٰھم علّم معاویة الکتاب والحساب وقہ العذاب (اے ہللا! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم
عطا فرما،اور اس کو عذاب سے محفوظ فرما۔)
اب واضح طور پر ادھر بھی دعا ہی مانگی گئی ہے لیکن چونکہ قاعدہ یہ ہے کہ احمد رضا خان
بریلوی کے تحت رسول ص کی بعض التجائیں غیرمستجیب ہوتی ہیں تو اگر بالفرض محال ان
روایات مذکورہ کو سندا قبول بھی کرلیا جائے تو جب بھی اس سے مدلول یعنی معاویہ بالفعل ھادی،
عذاب س ے بری اور کتاب خدا کا عالم ثابت نہیں ہوتا۔ ان کا اصول ان کے ہی خالف۔ الحمد ہلل
خیر طلب
Fakhar Ul Zaman
یھاں یہ بات تو خود نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے بتایا کہ "میری یہ دعا قبول نھیں ھوئی"
سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے بارے میں تو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ نھیں فرمایا.
شاید شیعوں کو وحی آئی ھوگی کہ یہ دعا بھی قبول نھیں ھوئی جیسا کہ وہ اپنی مجلسوں میں کھتے
ھیں کہ
"آواز آئی"
پتا .نھیں کس کی آوازیں آتی ہیں ان کو
Khair Talab
احسنت۔۔ استدالل بھی یہی ہے کہ منطق میں موجبہ کلیہ کی نقیض سالبہ جزئیہ ہے یعنی کل دعائیں
قبول کی نقیض بعض کا عدم قبول ہے۔۔ احسنت۔ دوسری بات ہے کہ معاویہ کے اعمال رزیلہ و باطلہ
اس بات پر داللت ہے کہ بالفرض صحت اس دعا کا صدور مان بھی لیا جائے تو خارج میں کثرت
بداعمالی اف معاویہ اس کی عدم قبولیت پر دال ہے۔
Fakhar Ul Zaman
موجبہ کلیہ کی نقض تو واقعی سالبہ جزئیہ ھی ھے لیکن کس بات کو موجبہ کلیہ کھہ رھے ھیں
آپ؟
اگر اس بات کو کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ھر دعا قبول ھوئی ھے،تو ھم نے یہ موجبہ
کھاں لکھا ھے جو سالبہ جزئیہ اس کی نقیض ھو؟
تو ہمارا ماننا یہ تھا کہ اگر اس روایت کی صحت کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ مجرد دعا ہے جو
مقبولیت پر داللت نہیں کرسکتی اور اس کے لئے ہم نے یہ اسکین لگایا تھا۔
اب معاویہ کا امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دینا اور امیر المؤمنین ع سے بغض کرنا ہی اس امر
کے اثبات میں کافی ہے معاویہ غیر ہادی تھا اور منافق تھا۔۔ یہ دونوں چیزیں صحاح اہلسنت سے
ثابت ہیں۔ اور یوں یہ دعا آپ کے احادیث تراث کے مبانی کے تحت غیر مقبول ہوئی
باقی امامت کس طرح زد میں آتی ہے اس پر بات ہوسکتی ہے۔ انشاء ہللا پہلے موضوع کے اول
حصہ کو پورا کرلیں دوسرے کو بھی دیکھتے ہیں۔
Fakhar Ul Zaman
Khair Talab
چلیں بات کو بڑھاتے ہیں۔۔ پہلے آپ بتائے کہ آپ کے مذہب کے مطابق کیا رسالت مآب صلی ہللا
علیہ و آلہ وسلم کی تمام حوائج مقبول ہیں یا نہیں؟ بعد میں دیگر چیزوں پر بحث کرتے ہیں۔۔ کون
سی چیز خارج میں قبول ہوئی یا نہیں اس کے بارے میں تو بحث انشاء ہللا تفصیل سے ہوگی۔ تفضل
Fakhar Ul Zaman
اب آپ اپنا موقف بتائیں پہر آگے سوال کریں ورنہ جواب نہیں ملیگا
Khair Talab
احسنت۔۔ فخر الزماں صاحب آپ کا کہنا کہ ہم نے مانا کہ ہمارا استدالل باطل ہوا یہ بالکل آپ کے
مذہب کی طرح غل ط ہے۔ استدالل اب بھی باقی ہے۔ اور رسول ص کی معاویہ کے حق میں دعا
(بشرط تسلیم صحت) آپ کے مذہب کے مبنی کے تحت قبول نہیں ہوئی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ
خود رسول ص کی بددعا معاویہ کے حق میں صحیح مسلم سے ثابت ہے (اے خدا معاویہ کا پیٹ
کبھی نہ بھر) اور دوسرا کہ خلیفہ رسول امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دینے اور ان سے بغض
کرنے کی وجہ سے معاویہ منافق ثابت ہوتا ہے اور منافق کبھی ہادی نہیں ہوتا اور یوں خارج میں
دعا متحقق نہیں ہوئی۔
Fakhar Ul Zaman
خیر طلب صاحب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی بددعا وہ دراصل ھے کہ نھیں یہ الگ بحث ہے،
اور سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے بارے میں دعا قبول ھوئی کہ نھیں اس پر بھی آگے بات ھوگی
فی الحال آپ اپنا نظریہ بتائیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی دعا کی بارے میں
اور اس پر بھی آتے ھیں کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ھر بدعا بھی قبول ھوتی ھے کہ نھیں
Khair Talab
میرے نزدیک رسول ص کی کوئی ایسی دعا نہیں جو غیر مقبول ہے
Fakhar Ul Zaman
Khair Talab
تفضل۔۔۔ اصل مدعا پر آئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاویہ کے بارے میں مزعوم دعا کیا خارج میں
متحقق ہوئی یا نہیں،
Fakhar Ul Zaman
اس سے پہلے یہ سوال ھے کہ آپ کا اس پوسٹ میں استدالل اپنے نظریے کے مطابق ھے یہ
ھمارے؟
Khair Talab
آپ کے نظریہ کے مطابق بات چل رہی ہے ،ہم معاویہ کے رزائل میں احادیث کو مانتے ہیں لیکن
فضائل میں کچھ نہیں ،جو بھی بات ہورہی ہے وہ آپ کا تراثی مبنہ کے تحت ہے
Fakhar Ul Zaman
تو ھماری کتابوں سے ظاھر ھے آپ اپنا نظریہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے؟
Fakhar Ul Zaman
Khair Talab
فخر الزماں۔۔ یہ اصول مناظرہ ہے آپ جانتے ہیں کہ خصم کے مبانی کے تحت اس کو ملزم کیا
جاسکتا ہے ،اور اس کی کتب ہی سے دلیل پیش کی جاتی ہے۔ بیشک معاویہ آپ کی کتب سے منافق
اور باغیوں کا سردار ثابت ہے۔
Fakhar Ul Zaman
وضاحت اس لیے کروا رھا ھوں تاکہ عام دیکھنے والے بھی سمجھ سکیں اور آگے ان کو بات
سمجھنے میں ان کو مشکل نہ ھو.
اب آپ جو نظریہ ثابت کرنے جا رھے ھیں اس سے جو آپ کے دوسرے عقائد پر زد پڑے گی وہ
آپ کی کتابوں کے مطابق ھی بات ھوگی.
Khair Talab
جی بالکل معاویہ راس فئتہ الباغیتہ ہے اور غیر مھتدی ہے اور اس کے جتنے لوازمات بقول آپ
کے زعم کے مطابق میرے عقائد پر پڑ سکتے ہیں اس کا میں جواب دوں گا۔ شرط بحث یہ ہے کہ
آپ کے جن مصادر سے استدالل کریں گے اس کے لئے شرط ہے کہ وہ حجیت کے قائم میں
Khair Talab
پہلی بات معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو سب کا حکم دیا تھا ،جیسے کہ صحیح مسلم میں موجود
ہے:
ع ِلیًّا فَقَدْ َ
سبه ِني» سله َم َیقُولَُ « :م ْن َ
سبه َ ص هلى ہللاُ َ
علَ ْی ِه َو َ سو َل ه ِ
َّللا َ س ِم ْعتُ َر ُ
اور یہ واضح صحیح حدیث ہےَ :
.
لہذا ثابت ہوا کہ معاویہ کا امیر المؤمنین پر سب کا حکم دینا گویا ایسا تھا کہ جیسے رسول ص پر
سب کا حکم اور جو رسول ص پر سب کا حکم دے وہ جہنمی اور ضال ،مضل ہے اور وہ ہرگز
ہادی نہیں ہوسکتا۔
ح، ي بْنُ َ
صا ِل ٍ ي ،قَالََ :حدهثَنَا خَا ِلد ُ بْنُ َم ْخلَدٍ ،قَالََ :حدهثَنَا َ
ع ِل ُّ - 3006أ َ ْخبَ َرنَا أَحْ َمد ُ بْنُ عُثْ َمانَ ب ِْن َح ِك ٍیم ْاْل َ ْو ِد ُّ
هاسِ ،ب َع َرفَاتٍ، عب ٍس ِعی ِد ب ِْن ُج َبی ٍْر ،قَالَ :كُ ْنتُ َم َع اب ِْن َع ْن َ ع ْم ٍروَ ، ع ْن ْال ِم ْن َھا ِل ب ِْن َ
بَ ، س َرة َ ب ِْن َح ِبی ٍ ع ْن َم ْی ََ
اط ِه ،فَقَالَ: َ ُ
اسِ ،م ْن ف ْسط ِ عبه ٍ َ ُ ْ
اس یُلبُّونَ ؟» قلتُ :یَخَافونَ ِم ْن ُمعَا ِویَة ،فَخ ََر َج ابْنُ َُ َ َ
فَقَالََ « :ما ِلي َال أ ْس َم ُع النه َ
ي ٍ»علِ ّ
ض َ سنهةَ ِم ْن بُ ْغ ِ «لَ هبیْكَ الله ُھ هم لَبهیْكَ ،لَبهیْكَ فَإِنه ُھ ْم قَدْ ت ََركُوا ال ُّ
ابن عباس کے بقول معاویہ اور اس کی پارٹی نے امیر المومنین کے بغض میں سنت کو چھوڑ دیا۔
ثابت ہوا کہ معاویہ امیر المؤمنین ع سے بغض رکھتا تھا اور ہر وہ شخص جو امیر المؤمنین سے
بغض رکھے وہ منافق ہے ،صحیح مسلم کی روایت مالحظہ ہو:
لہذا ثابت ہوا کہ معاویہ منافق تھا۔۔ اور جو منافق ہو وہ ہادی نہیں ہوسکتا۔
Fakhar Ul Zaman
میں جن شیعہ مصادر سے استدالل کرونگا اس کو شیعہ علماء نے معتبر تسلیم کیا ھوگا بے فکر
رہیں.
Khair Talab
Fakhar Ul Zaman
سب سے پہلے تو آپ کی پہلی دلیل پر بات کرتے ھیں پہر باقیوں پر بھی آتے ھیں ترتیب وار
Fakhar Ul Zaman
پہلی بات تو یہ کہ آپ نے جو ترجمہ کیا کہ "معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ امیر المومنین کو سب
کرو" .سوال یہ ھے کہ گالیوں کا حکم دینے کا ترجمہ آپ نے کیسے کیا؟ یہ عربی عبارت ھے اس
کے مطابق اپنا ترجمہ صحیح ثابت کر کے دکھائیں؟
أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَان سعدا َ فَقَالََ :ما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ
ب؟
دوسرا یہ کہ اس روایت میں سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے جو فضائل حضرت سعد رضی ہللا عنہ
نے جو بیان کیے اس کا رد سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ نے کیا کہ نھیں؟ اگر نھیں کیا تو کیا اس سے
یہ ثابت نھیں ھوتا کہ وہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل کے قائل تھے؟
·
Khair Talab
ادھر جس چیز کا حکم دیا ہے وہ محذوف ہے اور اس کا تعین کوئی مسئلہ کی بات نہیں کیونکہ اس
کے بعد ہی جملہ ہے:
چنانچہ واضح طور پر ثابت ہوا کہ ادھر سب امیر المؤمنین ہی کا حکم دیا گیا تھا ،یہ کرامت ہے کہ
آپ کے علماء نے اس کو نقل نہین کیا لیکن روایت کا دوسرا جملہ اس امر پر داللت کرتا ہے کہ
ادھر سب ہی کا حکم تھا۔
وأما حد یث سعد لما أمرہ معاویة بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن أبي طالب فقال ثالث قالھن
رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم فلن أسبه ْلن یكون لي واحدة منھن أحب إلي من حمر النعم الحدیث فھذا
حدیث صحیح رواہ مسلم في صحیحه
اور سعد بن ابی وقاص کی حدیث کہ جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا اور سعد نے انکار کیا
اور کہا۔۔ (پھر فضائل نقل کئے)۔۔ اور یہ حدیث صحیح ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا۔
تو محترم کیا آپ پسند کریں گے کہ کوئی آپ کے خلفائے ثالثہ پر سب کا حکم دے؟ اور امیر
المومنین ع کے لئے نص موجود ہے کہ جو علی ع پر سب کرے گویا اس نے رسول ص پر کیا (کما
نقلتھا سابقا)
اب آپ کا کہنا:
(دوسرا یہ کہ اس روایت میں سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے جو فضائل حضرت سعد رضی ہللا عنہ
نے جو بیان کیے اس کا رد سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ نے کیا کہ نھیں؟ اگر نھیں کیا تو کیا اس سے
یہ ثابت نھیں ھوتا کہ وہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل کے قائل تھے؟)
جوا ب :فضائل کا سن کر رد نہ کرنا کیا اس بات کو مستلزم کرتا ہے۔ تو یہ آپ ثابت کریں کہ ہمیشہ
جب بھی فضیلت بتائی جائے اور رد نہ ہو تو وہ گویا قبولیت پر داللت کرتا ہے ،اور دوسرا ہم کہتے
ہیں کہ ہم آپ کی اس بات کو مان بھی لیں تو یہ کب الزم ہے کہ کسی کے فضیلت کو ماننا اس سے
عقیدت اور محبت پر داللت کرتا ہے ،کیا یہودی رسول ص کو نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی وہ
ایمان نہ الئے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خداوند متعال ہے:
َاب یَ ْع ِرفُونَهُ َك َما یَ ْع ِرفُونَ أ َ ْبنَا َء ُھ ْم ۖ َوإِ هن فَ ِریقًا ِّم ْن ُھ ْم لَیَ ْكت ُ ُمونَ ْال َح هق َوھُ ْم یَ ْعلَ ُمونَ
الهذِینَ آت َ ْینَا ُھ ُم ْال ِكت َ
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ،وہ ان (پیغمبر آخرالزماں) کو اس طرح پہچانتے ہیں ،جس طرح
اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں ،مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا
ہے
اب بتائے کہ لوگ رسول ص کو جاننے کے باوجود ان پر ایمان نہیں الئے تو معاویہ اگر فضائل
امیر ع کا قائل ہو بھی تو اس سے یہ کون سا قاعدہ کلیہ جس سے الزم آئے کہ وہ ایمان لے آیا ہرگز
نہیں۔۔ بلکہ اس کا بغض امیر ع کی زندگی کے بعد بھی چلتا رہا (جیسے کہ ابن عباس کی روایت نقل
کی گئی ہے اس باب میں سنن نسائی سے)۔
مزید آپ بتائے کہ کیا آپ کے نزدیک علی ع پر سب رسول ص پر سب ہے یا نہیں؟
Fakhar Ul Zaman
آپ اب یہ کھہ رھے ھیں کہ یھاں حکم محذوف ھے لیکن پہلے تو آپ نے صاف لکھا تھا کہ گالی کا
حکم دیا.
اور آپ نے ان الفاظ سے گالیوں کا حکم سمجھا
ما منعک ان تسب ابا تراب.
میں پوچھتا ھوں کہ
یہ الفاظ حکم کیسے ھوئے؟
آگے آپ نے عالمہ ابن تیمیہ قول نقل کیا ھے کہ "جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا"...
تو میرا سوال ہے کہ یہ عالمہ ابن تیمیہ کا قول ھے یا انھوں نے شیعہ کا قول نقل کیا ھے؟
Khair Talab
محترم پک اور چوز مت کیجئے ،پورا جواب دیں ،میں پھر آپ کے ہر اعتراض کا جواب دوں گا،
جب آپ پورے جواب سے فراغت پاجائیں۔
آپ کا سوال
میرا جواب :میاں میں نے تشریح کی ہے اس کے بعد واال جملہ اس پر داللت کرتا ہے کہ ادھر سب
ہی کا حکم تھا ورنہ سب نہ کرنے کی وجہ کیوں پوچھی گئی ،آپ عقل لگائیں تو سمجھ جائیں گے کہ
دیکھئے کہ فالں بندے حکم دے اور وہ حکم معلوم نہ ہو لیکن وہ ایک چیز کی بابت سوال کرے کہ
تم نے یہ کیوں نہیں کیا تو اس صورت میں وہی حکم سمجھا جائے گا ،باقی دالئل اس معنی پر میں
کافی سارے دوں گا لیکن ابھی ایک ہی دلیل دی ہے
آپ کا کہنا:
(آگے آپ نے عالمہ ابن تیمیہ قول نقل کیا ھے کہ "جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا"...
تو میرا سوال ہے کہ یہ عالمہ ابن تیمیہ کا قول ھے یا انھوں نے شیعہ کا قول نقل کیا ھے؟)
جواب :ابن تیمیہ نے عالمہ ابن مطہر کا قول ص ١٩پر نقل کیا اور ص ٢٠پر ابن تیمیہ کی خود
عبارت ہے۔۔ اور یہ ابن تیمیہ ہی کا اعتراف ہے۔ شیعہ کا قول نہیں۔
اگال جواب جب ہی ملے گا جب ہمارے تمام دالئل کے جوابات دئے جائیں گے
Fakhar Ul Zaman
دوسری بات آپ کا یہ کھنا "ھمیشہ جب بھی فضیلت بتائی جائے اور رد نہ ھو تو وی گویا قبولیت پر
داللت کرتا ھے".
تو عرض ھے کہ اس وقت معاویہ رضی ہللا عنہ خلیفہ تھے ،اگر ان کو سیدنا علی رضی ہللا عنہ
سے اتنا بغض ھوتا جتنا آپ لوگ دعوے کرتے ھیں تو وہ ضرور رد کرتے .کیونکہ حکومت اور
طاقت ان کے ھاتھ میں تھی .مجھے ذرا بتائیں کہ شیعہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے فضائل سن
کے برداشت کرتے ہیں؟ کبھی بھی نھیں ،حاالنکہ شیعوں کی حکومت بھی نھیں اور جھاں شیعوں
کی حکومت ھے وھاں تو کھل کر تبرا لعنتیں کرتے ھیں.
رھی یھود والی بات جو آپ نے آیت بھی پیش کی ،تو اس جگہ یہ فٹ نھیں ھوتی.
کیونکہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی فضیلت سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کی زبانی بھی ثابت ھے جو
میں ان شاءہللا پیش کرونگا.
یھودی تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تنقیص کرتے تھے جو اھل علم سے مخفی نھیں
Khair Talab
فخر الزماں صاحب اس سے پہلے بات کو آگے بڑھائیں کچھ چیزیں طے کرلیں
، ١فریقین ایک دوسرے کے تمام دالئل کا جواب دیں گے جب ہی بحث آگے بڑھے گی
، ٢جب جواب ختم ہوجائے تو ختم شد لکھا جائے گا
، ٣فریقین کی معتبر مصادر سے دلیل نقل کی جائے گی۔
اب آپ پہلے تمام باتوں کا جواب دیں تاکہ میں آپ کو پھر جواب دے سکوں ،شکریہ۔
ظفر قریشی صاحب کوشش کیجئے عزت دیں اور عزت لیں کے اصول پر کمنٹ کیجئے ورنہ میں
آپ کے گھر کا داماد نہیں کہ لحاظ کروں بلکہ مجبورا ایسی حرکتوں کی وجہ سے آپ کو بالک کرنا
پڑے گا ،عزت سے رہیں تو عزت ملے گی ورنہ معاویہ منافق کی طرح صحیح درگت بھی بنائے
جاسکتی ہے ،شکریہ۔
Fakhar Ul Zaman
خیر طلب صاحب آپ کے باتوں کا جواب میں دے چکا ھوں اب آپ آگے ان کا رد کریں.
آپ کی نیچے بیان کردہ باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں.
فخر الزماں صاحب اس سے پہلے بات کو آگے بڑھائیں کچھ چیزیں طے کرلیں
، ١فریقین ایک دوسرے کے تمام دالئل کا جواب دیں گے جب ہی بحث آگے بڑھے گی
، ٢جب جواب ختم ہوجائے تو ختم شد لکھا جائے گا
، ٣فریقین کی معتبر مصادر سے دلیل نقل کی جائے گی۔
اب آپ پہلے تمام باتوں کا جواب دیں تاکہ میں آپ کو پھر جواب دے سکوں ،شکریہ۔
Fakhar Ul Zaman
فی الحال آپ کی پہلی بیان کردہ دلیل پر بات ھو رھے ھے .اس کی حقیقت سامنے آنے کے بعد
دوسری بات پر آئیں گے ان شاءہللا
Khair Talab
فخر الزماں اور دیگر قارئین کی سہولت کے لئے کچھ بتاتا چلوں کہ ہم نے شروع میں دو استدالل
پیش کئے تھے
پہال ،صحیح مسلم کی روایت :جس میں معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المؤمنین ع کو سب
کرنے کا حکم دیا تھا اور پھر حدیث نقل کی تھی جو علی ع پر سب کرے گویا رسول ص پر سب
کرے گا
دوسری روایت ابن عباس کی بحوالہ سنن نسائی نقل کی تھی جس میں ابن عباس کے بقول معاویہ
امیر المؤمنین ع سے بغض کرتا تھا۔
محترم فخر الزماں نے دوسری دلیل کو بعد کے لئے چھوڑ دیا ہے اور پہلی دلیل پر بات کررہے ہیں
تو ان کے نزدیک الفاظ روایت میں فقط امر معاویہ سعدا ہے اور اس میں چونکہ سب کا حکم کا
موجود نہیں ہے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ بالفعل حکم سب تھا یا نہیں تو ہم نے دو جوابات دئے تھے
کہ خود روایت کے بالکل مابعد کا جملہ جس میں معاویہ سب نہ کرنے کی وجہ پوچھتا ہے وہ واضح
کرتا ہے کہ ادھر سوال سب ہی کا تھا (اس پر محترم نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے ورنہ وہ بتائیں
کس چیز کا حکم تھا روایت کا ما بعد دیکھ کر)۔۔ اور پھر ہم نے ابن تیمیہ کا اعتراف نقل کیا جو اس
کو سب کا حکم ہی تعبیر کرتے ہوئے صحیح مسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں جس پر فخر الزماں
نے سوال کیا تھا کہ آیا یہ شیعہ کی رائے ہے یا ابن تیمیہ کی تو ہم نے کہا تھا کہ جس صفحہ سے ہم
نے نقل کی ہے وہ خود ابن تیمیہ ہی کی رائے ہے شیعہ کی نہیں (اس پر بھی فخر الزماں صاحب کا
کوئی تبصرہ نہیں آیا)
بہرحال فخر الزماں صاحب کا ماننا ہے کہ انہوں نے میری تمام باتوں کا جس کا تعلق دلیل اول سے
ہے جواب دے دیا ہے ،تو کیا جواب دیا ہے یا نہیں وہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
Khair Talab
اب محترم فخر الزماں کا جدید اعتراض آیا تھا جس میں انہوں نے عدم تعرض معاویہ کو دلیل قبول
فضائل بتائے تھے تو اس پر ہم نے اعتراض کیا تھا کہ یہودی بھی رسول ص کے فضائل کے
معترف تھے درحاآلنکہ پھر بھی رسول ص کو نہیں مانتے تھے تو اس کے جواب میں موصوف نے
کہا ہے
(رھی یھود والی بات جو آپ نے آیت بھی پیش کی ،تو اس جگہ یہ فٹ نھیں ھوتی.
کیونکہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی فضیلت سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کی زبانی بھی ثابت ھے جو
میں ان شاءہللا پیش کرونگا.
یھودی تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تنقیص کرتے تھے جو اھل علم سے مخفی نھیں)
میرا جواب :دیکھئے ہمارا اصل استدالل ہی اس بات پر تھا کہ فضائل کا اعتراف ہرگز اس بات کا
موجب نہیں کہ بالفعل انسان اس شخص کی فضیلت کا بھی قائل ہے ،سیرت کی کتب اٹھا کر دیکھ لیں
کہ کس طرح کفار اور مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کر برمال
اظہار بھی کرتے تھے اس کے باوجود یہ اعتراف ان کی فضیلت کا باعث نہیں بن سکتا۔۔ یہی حال
معاویہ کا تھا۔ کہ اس کا روایت کا تتمہ میں عدم تعرض کرنا اس بات کو کب الزم کرتا ہے کہ وہ
واقعی محب علی ع تھا ،کیونکہ بہت بار انسان دوسرے کی قوت استدالل کے آگے خاموش ضرور
ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی اس کے برعکس کا قائل رہتا ہے۔
می ں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ امام اوزاعی جو مشہور امام ہے وہ نماز میں رفع الیدین کو مشروع
سمجھتے تھے جیسا کہ یہ اہل علم کے ہاں معروف بات ہے اور علماء نے اس کو نقل کیا لیکن اس
کے باوجود ہمارے احناف دوستان ایک مناظرہ کو نقل کرتے ہیں جس میں بقول ان کے ابوحنیفہ نے
اوزاعی کو شکست دی اور اوزاعی خاموش ہوگئے ،الفاظ روایت یوں ہے:
فقال له أبو حنیفة :كان حماد أفقه من الزھري ،وكان إبراھیم أفقه من سالم ،وعلقمة لیس بدون ابن عمر
في الفقه ،وإن كانت البن عمر صحبة ،فله فضل صحبة ،واْلسود له فضل كثیر ،وعبد ہللا عبد ہللا،
فسكت اْلوزاعي
یعنی ابوحنیفہ کی دلیل سن کر اوزاعی خاموش ہوگئے۔
حوالہ :جامع المسانید للخوارزمي جلد اول ص 353 - 352طبع حیدرآباد دکن
تو محترم خاموش ہوجانا یا عدم تعرض کرنا ہر بار قبولیت کے اوپر داللت نہیں ممکن ہے قوت
استدالل ہو یا کوئی اور معاملہ ہو جس کی وجہ سے تعرض ممکن نہ ہو۔ لیکن ہمارے ذمہ میں کلیہ
کو توڑنا تھا جو ہم نے توڑ دیا۔
باقی آپ کا کہنا کہ امیر معاویہ امیر المؤمنین ع کی تعریف کرتا تھا تو بیشک آپ ایک ایسی روایت
نقل کریں جو صحت کے معیار پر پوری اترے ،اور پھر داللت بھی بطور استدالل نقل کریں کیونکہ
کسی فضیلت کا اقرار اعم ہے بنسبت قلبی طور سے ماننا جو اخص ہے تو آپ ایک اخص دعوی کے
لئے اعم دلیل سے استدالل نہیں کرسکتے۔
(تو عرض ھے کہ اس وقت معاویہ رضی ہللا عنہ خلیفہ تھے ،اگر ان کو سیدنا علی رضی ہللا عنہ
سے اتنا بغض ھوتا جتنا آپ لوگ دعوے کرتے ھیں تو وہ ضرور رد کرتے .کیونکہ حکومت اور
طاقت ان کے ھاتھ میں تھی .مجھے ذرا بتائیں کہ شیعہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے فضائل سن
کے برداشت کرتے ہیں؟ کبھی بھی نھیں ،حاالنکہ شیعوں کی حکومت بھی نھیں اور جھاں شیعوں
کی حکومت ھے وھاں تو کھل کر تبرا لعنتیں کرتے ھیں.
)
جواب :یہ دلیل تو آپ کو دینی ہے کہ معاویہ نے اس کو برداشت کیا اور معاویہ امیر المؤمنین ع سے
محبت کرتا تھا ،ہمارے ذمہ میں اثبات حکم سب تھا جس پر آپ بالکل کالم نہیں فرمارہے اور بعد
میں معاویہ اپنے اس جرم سے تائب ہوا یہ صرف دعوی سے نہیں چلے گا بلکہ دعوی پر دلیل دینے
ہوگی۔ ہاں البتہ اس کے برعکس میں آپ کو آپ کے عالم کی زبانی ہی ایک قول نقل کرتا ہوں جو
ابن عباس نے معاویہ سے بقول طحاوی تقیہ کیا تھا اس تاویل کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہے:
(طحاوی کا) تقیہ کی تاویل کرنا بعید نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی رکاکت اور تعصب ہے۔ تقیہ جس
معنی میں عالمہ طحاوی نے استعمال کیا ہے مطلق حرام نہیں بلکہ بعض صورتوں میں جائز بھی
ہے۔ (طحاوی کی ابن عباس کی تقیہ والی بات پر) اعتراض کرنے واال کیا جانتا نہیں کہ ابن عباس
حضرت علی رضی ہللا عنہ کے خواص (بہت قربت رکھنے والے) ساتھیوں میں سے تھے جنہوں
نے معاویہ (کی مشروعیت) کا انکار کیا اور معاویہ سے بغض رکھتے اور امام علی ع کی زندگی
میں معاویہ سے جنگ بھی کی۔ اور پھر معاویہ کی بیعت غالبا تقیہ کے طور پر کی اور اس (کے
بعض امور) پر راضی ہونا بہت کم تھا۔ اور یہی ان لوگوں (جو امیر المؤمنین کے خواص اصحاب
تھے) کا یزید کی بیعت کرنے کا معاملہ ہے (وہ بھی تقیہ کے طور پر تھی) البتہ جو تاویل ہم نے کی
وہ طحاوی کی تاویل سے بہتر ہے لیکن طحاوی کی تاویل بھی بالکل محتمل ہے اور اس کو فرض
کرنا بعید نہیں۔ چناچہ (معترض کو چاہئے اس بات کو) سمجھے۔
تو جناب یہ تو خود آپ کے علماء کا اعتراف ہے کہ معاویہ کا سلوک خواص امیر المؤمنین ع کے
ساتھ اچھا نہیں تھا تو اگر وہ اتنا محبت کرتے تھے تو ایسا سلوک کیوں؟ سوچ کر جواب دیجئے گا،
لیکن آپ کے اوپر پہلے اس مقدمہ کا اثبات باقی ہے اور اس کے بعد اب میری دلیل پر نقد کریں
گے ،تفضل
----ختم شد-----
٭حضرت ابن عباس کا تقیہ اور معاویہ سے بغض کا اثبات حنفی عالم کے قلم سے٭
بسم ہللا الرحمان الرحیم۔
کچھ دن قبل ہم نے عالمہ زاہد کوثری جو موجودہ احناف اہلسنت کے ہاں ایک عظیم شخصیت مانے
جاتے ہیں ان کا قول نقل کیا تھا جس میں ابن عباس کی طرف سے معاویہ کی تعریف اور دوسری
طرف اس کو گدھے کہنے کے قول میں یوں تطبیق دی کہ پہال قول جناب ابن عباس کا تقیہ کے
عنوان سے ہے اور دوسرا قول حقیقی ہے (جس قول میں معاویہ کو گدھا کہا گیا)۔ اس بحث میں
جائے بغیر کہ کیا ابن عباس واقعی خود ایک وتر کے قائل تھے یا نہیں اور اگر قائل نہیں تھے تو
ایک رکعت وتر پڑھنے کی تصویب کے کیا معنی؟ یہ تمام وہ سواالت ہیں جن پر کالم کرنا بھی
چاہوں تو خوف طوالت کی وجہ نہیں کرپاؤں گا اور اس کا معاملہ فقہاء اہلسنت کی طرف چھوڑوں
گا البتہ ہماری جب تحقیق کا سفر 'ابن عباس کے تقیہ' کے عنوان پر شروع ہوا تو شروع میں سمجھا
کہ فقط طحاوی ہی کی یہ رائے ہے اور دیگر اہلسنت عین ممکن ہے کہ اس رائے کو جائز قرار
نہیں دیں لیکن پھر جو م حققین احناف کی تحقیقات پڑھنے کا اتفاق ہوا تو پتا چال کہ اس قول میں فقط
عالمہ طحاوی منفرد نہیں بلکہ دیگر نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔ اور اس بات کو دلیل سے ثابت
کیا ہے کہ ابن عباس سے تقیہ عین جائز ہے۔
عالمہ ظفر تھانوی جو اہلسنت احناف کے بڑے عظیم سپوت مانے جاتے ہیں ،اور ان کی تحقیقات پر
کافی انحصار کیا جاتا ہے ،ان کی کتاب میں ایک باب کا مطالعہ کررہا تھا ،اثنائے مطالعہ میں جب
ابن عباس کے مذہب پر بات کی اور طحاوی کی جب اس تاویل پر پہنچے (اپنی شخصی رائے کو
بیان کرنے کے بعد) کہ ابن عباس نے تقیہ میں یہ بات کہی ہے تو اس کو نقل کرکے اس کے اوپر
اعتراض کرنے والوں کے جواب میں کہا:
(طحاوی کا) تقیہ کی تاویل کرنا بعید نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی رکاکت اور تعصب ہے۔ تقیہ جس
معنی میں عالمہ طحاوی نے استعمال کیا ہے مطلق حرام نہیں بلکہ بعض صورتوں میں جائز بھی
ہے۔ (طحاوی کی ابن عباس کی تقیہ والی بات پر) اعتراض کرنے واال کیا جانتا نہیں کہ ابن عباس
حضرت علی رضی ہللا عنہ کے خواص (بہت قربت رکھنے والے) ساتھیوں میں سے تھے جنہوں
نے معاویہ (کی مشروعیت) کا انکار کیا اور معاویہ سے بغض رکھتے اور امام علی ع کی زندگی
میں معاویہ سے جنگ بھی کی۔ اور پھر معاویہ کی بیعت غالبا تقیہ کے طور پر کی اور اس (کے
بعض امور) پر راضی ہونا بہت کم تھا۔ اور یہی ان لوگوں (جو امیر المؤمنین کے خواص اصحاب
تھے) کا یزید کی بیعت کرنے کا معاملہ ہے (وہ بھی تقیہ کے طور پر تھی) البتہ جو تاویل ہم نے کی
وہ طحاوی کی تاویل سے بہتر ہے لیکن طحاوی کی تاویل بھی بالکل محتمل ہے اور اس کو فرض
کرنا بعید نہیں۔ چناچہ (معترض کو چاہئے اس بات کو) سمجھے۔
،1تقیہ مطلق حرام نہیں اور جو اہلسنت اس کا مذاق اڑاتے ہیں انہیں فکر کرنی چاہئے کہ جب خود
اپ کے مذہب کے علماء کی ایک تعداد اس کو جائز قرار دے تو اس کا مذاق اڑانا گویا شیعوں کا
مذاق اڑانا ہی نہیں بلکہ ان علماء کا مذاق اڑانا بھی ہے جن کی تحقیقات اور روایات پر اعتماد کیا
جاتا ہے
،2اگر کسی روایت میں کسی مقدس شخصیت کی کسی طاغی و باغی کی بیعت نظر آجائے تو اس
سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ہر حالت میں اس کی رضا اور خوشنودی کے بعد ہی
منعقد ہوئی ہوگی۔ ہرگز نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ تقیہ میں کی گئی ہو (جیسے ادھر معاویہ اور
یزید کی بیعت کا ذکر ہے) اور تقیہ چونکہ حرام نہیں اس لئے ان کا بیعت کرنا حرام نہیں ہوگا۔
بالخصوص اگر ان مقدس شخصیات کے اقوال اس طاغی و باغی کے خالف بھی موجود ہوں۔
، 3یہ مقولہ 'ہر صحابی عادل ہے اور وہ ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے تھے' جھوٹا ثابت
ہوجاتا ہے کیونکہ ادھر واضح طور پر عالمہ ظھر تھانوی نے لکھا ہے کہ کہ ابن عباس جس گروہ
میں شامل تھے وہ معاویہ سے بغض رکھتے تھے۔ اور اگر شدید محبت ہوگی تو بغض نہیں ہوگا۔
، 4یہ مقولہ 'صحابی ستاروں کی مانند ہے اور جس صحابی کی پیروی کرو گے تو ہدایت پاؤ گے'۔
اس کی پیروی کرتے ہوئے اگر ہم ابن عباس کے اسوہ پر عمل کریں تو ہمارے لئے تقیہ بھی جائز
ہوجاتا ہے اور طاغیوں سے برات اور بغض بھی۔
، 5امام علی ع کے جو بہت قریب ساتھی اور ان کے پروانے تھے وہ ہرگز طاغی و باغی سے ہرگز
محبت نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے جنگ کرتے ،اس سے بغض رکھتے اور اس کا شدید انکار
کرتے ۔ ہم چونکہ امیر المؤمنین ع کے ماننے والے ہیں اور ان کے خواص سے محبت کرتے ہیں تو
ہم اس نعرہ 'علی معاویہ بھائی بھائی' کو جوتے کی نوک پر رکھ کر کہتے ہیں کہا امیر المؤمنین و
امام الراشدین علی بن ابی طالب ع اور کہا یہ طاغی و باغی و امیر الفاسقین وامام البغاتہ معاویہ۔
اختتام :ہم تمام انصاف پسند بھائیوں کو کہتے ہیں کہ وہ اس طاغی و باغی و پسر جگر خور سے
برات کا اختیار کریں اور خدا سے قربت کا ذریعہ اس باغی سے نفرت کو بھی دیگر اچھے اعمال
کے ساتھ بنائیں۔ اور تقیہ کے فقہی حکم پر کبھی اعتراض نہ کریں۔
خیر طلب۔
Fakhar Ul Zaman
محترم قارئین آپ کے سامنے خیر طلب صاحب کی پہلی دلیل جو انہوں نے صحیح مسلم سے پیش
کی ھے ،اس پر بات چل رھی ھے.
میرے جوابی میسج کے بعد جو ان کے کمنٹس آئے ھیں اب میں ان کا جواب دیتا ہوں.
جواب.
جناب میں اوپر ھی آپ کی اس بات پر میں ایک سوال کرچکا تھا کہ
ما منعک ان تسب ابا تراب.
یہ الفاظ حکم کیسے ھوئے؟
آپ اس سوال کا جواب ابھی تک نھیں دے سکے.
اب آگے دیکھیں کہ جناب خیر طلب نے کیا لکھ دیا ،لکھا کہ
"ہم نے دو جوابات دئے تھے کہ خود روایت کے بالکل مابعد کا جملہ جس میں معاویہ سب نہ کرنے
کی وجہ پوچھتا ہے وہ واضح کرتا ہے کہ ادھر سوال سب ہی کا تھا".
اب آگے چلتے ہیں ،جناب خیر طلب صاحب لکھتے ہیں کہ
"اور پھر ہم نے ابن تیمیہ کا اعتراف نقل کیا جو اس کو سب کا حکم ہی تعبیر کرتے ہوئے صحیح
مسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں جس پر فخر الزماں نے سوال کیا تھا کہ آیا یہ شیعہ کی رائے ہے
یا ابن تیمیہ کی تو ہم نے کہا تھا کہ جس صفحہ سے ہم نے نقل کی ہے وہ خود ابن تیمیہ ہی کی
رائے ہے شیعہ کی نہیں (اس پر بھی فخر الزماں صاحب کا کوئی تبصرہ نہیں آیا)"
جواب.
میں نے اپنے آخری کمنٹس کے بعد ابھی جواب دیا ھے تو پہلے تبصرہ کیسے کرتا.
عالمہ ابن تیمیہ شیعہ والے الفاظ نقل کررھے ھیں ،کیونکہ شیعہ نے بھی یھی الفاظ لکھے ہیں.
شاید کوئی یہ کھے کہ پہر اس بات کا رد کیوں نہیں کیا عالمہ صاحب نے؟
تو عرض ھے کہ وھاں بحث امامت پر چل رھی ھے نہ کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں
دلوانے کی جو اس کی وضاحت عالمہ صاحب کر دیتے.
عالمہ صاحب خود لکھتے ہیں
وفیه ثالث فضائل لعلي لكن لیست من خصائص اْلئمة..
تو یھاں شیعہ جس مقصد سے یہ حدیث الیا ھے اس کا رد کررھے ھیں.
Fakhar Ul Zaman
دیکھئے ہمارا اصل استدالل ہی اس بات پر تھا کہ فضائل کا اعتراف ہرگز اس بات کا موجب نہیں کہ
بالفعل انسان اس شخص کی فضیلت کا بھی قائل ہے ،سیرت کی کتب اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طرح
کفار اور مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کر برمال اظہار بھی
کرتے تھے اس کے باوجود یہ اعتراف ان کی فضیلت کا باعث نہیں بن سکتا۔۔ یہی حال معاویہ کا
تھا۔....
آگے جناب نے امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی رحمھما ہللا کا واقعہ نقل کیا ھے کہ سامنے والے کی
قوت استدالل سے خاموش ھو جاتا ھے.....
جواب.
، 1فضائل کا اقرار تو فضیلت کا ھی اقرار ھے ،یہ عجیب بات کردی جناب نے ،پڑھنے والے
دوست بھی پریشان ھوگئے ھونگے کہ یہ کیا لکھ دیا خیر طلب صاحب نے.
آپ یہ بتائیں کہ فضائل کے اقرار کے ساتھ فضیلت کا انکار کیسے ھوتا ھے؟
، 2یہودیوں کو چھوڑ کر اب مشرکین پر آگئے جناب ،مشرکین کہ بارے میں بھی جناب نے یہ لکھ
دیا کہ
"مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھےاس
کے باوجود یہ اعتراف ان کی فضیلت کا باعث نھیں بن سکتا"..
جناب کے اس جملے میں تضاد مالحظہ فرمائیں ،پہلے لکھا کہ مشرکین فضیلت کے قائل تھے ،اور
آگے لکھ دیا کہ ان کا اعتراف فضیلت کا باعث نہیں بن سکتا....
فضیلت کا اقرار اور انکار دونوں ایک ساتھ لکھ دیا ہے آپ نے ،جناب اصل میں آپ خود پریشان ہیں
کہ فضیلت و فضائل کو الگ سمجھ کر.
، 3رھا مشرکین کا معاملہ تو وہ رسالت سے پہلے واقعی فضائل کے قائل تھے لیکن اعالن نبوت
کے بعد وھی جادوگر ،مجنون کھنا شروع ھوگئے اور تکالیف دینا شروع کردی.
تو یہ مثال بھی نھیں بنتی آپ کی اس مقام پر.
،4رھا قوت است دالل سے مغلوب ھونا تو یھاں یہ مثال بھی نھیں بنتی ،کیونکہ بقول شیعوں کے سیدنا
معاویہ رضی ہللا عنہ تو سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے پکے دشمن تھے ان سے بغض رکھتے تھے،
تو حکمرانی اور طاقت رکھنے واال ،دشمن اور بغض رکھنے واال اگرچہ مغلوب بھی ھوجائے تو
بھی اپنے مخالف کے حامی کو ایسے نھیں چھوڑتا کہ کوئی اس کے دشمن کے فضائل بیان کر کے
چال جائے اور وہ خاموش بیٹھا رھے.
ایران میں یا جھاں شیعوں کی حکومت ھے وھاں صحابہ سے محبت رکھنے والوں سے کیا سلوک
کرتے ہیں شیعہ وہ سب جانتے ہیں.
فاطمی اور صفوی حکومت میں صحابہ سے محبت رکھنے والے سنیوں کے ساتھ شیعہ حکمرانوں
نے کیا کیا وہ کسی سے مخفی نھیں.
، 5اور دوسرا یہ کی قوت استدالل سے مغلوب ھونے واال خود اس بات کا قائل ھوجائے جس کا
پہلے منکر تھا تو پہر کیا اعتراض؟
جب وہ زبان سے ھی اعتراف کرلے تو بات ختم ھوجاتی ھے نہ؟
باقی آپ کا کہنا کہ امیر معاویہ امیر المؤمنین ع کی تعریف کرتا تھا تو بیشک آپ ایک ایسی روایت
نقل کریں جو صحت کے معیار پر پوری اترے ،اور پھر داللت بھی بطور استدالل نقل کریں کیونکہ
کسی فضیلت کا اقرار اعم ہے بنسبت قلبی طور سے ماننا جو اخص ہے تو آپ ایک اخص دعوی کے
لئے اعم دلیل سے استدالل نہیں کرسکتے۔
الجواب.
، 1شیعہ کتاب اصل و اصول الشیعہ محمد حسین آل کاشف الغطاء کی ،مترجم صفحہ 86پر احنف بن
قیس کا سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے سامنے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کا فضائل بیان کرنا اور
سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا جواب میں یہ کھنا منقول ھے کہ...
"معاویہ نے کھا ،احنف تم نے اس وقت ایسے شخص کی یاد تازہ کردی جس کے فضائل کا انکار
مشکل ہے".
تو شیعہ کتابوں سے بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی فضائل کا اقرار
خود معاویہ رضی ہللا عنہ کی زبانی ثابت ھے.
، 2جناب کو اتنا تو پتا ھوگا کہ کسی کے قلب میں کیا ھے اس کو تو ہللا ھے جانتا ہے ،ھم کو تو
ظاھر پر چلنا ھوتا ھے.
ورنہ جناب پہر ان شیعوں کے ایمان کی فکر کریں جو شیعہ اھل بیت کی محبت کے زبانی دعوے
کرتے ہیں.
میں نے لکھا تھا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کی حکومت اور طاقت تھی انھوں نے کیسے اپنے دشمن
(بقول شیعہ) کے فضائل سننے کو کیسے برداشت کیا؟
اس کے جواب میں جناب لکھتے ہیں کہ
یہ دلیل تو آپ کو دینی ہے کہ معاویہ نے اس کو برداشت کیا اور معاویہ امیر المؤمنین ع سے محبت
کرتا تھا ،ہمارے ذمہ میں اثبات حکم سب تھا جس پر آپ بالکل کالم نہیں فرمارہے اور بعد میں
معاویہ اپنے اس جرم سے تائب ہوا یہ صرف دعوی سے نہیں چلے گا بلکہ دعوی پر دلیل دینے
ہوگی۔
پہر آگے إعالء السنن کی عبارت پیش کی....
الجواب.
، 1تائب ھونے کی بات تو تب ھو نہ جب گناھ ثابت ھو؟ ابھی تک تو آپ اسی کوشش میں لگے
ھوئے ھیں اور تائب ھونے کی بات کردی.
واہ سبحان ہللا
، 2سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا حضرت سعد رضی ہللا عنہ سے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے
فضائل سن کر چپ ھوجانا برداشت کی ھی دلیل ھے.
ورنہ بتائیں کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل بیان کرنے پر
کیا سزا دی حضرت سعد رضی ہللا عنہ کو؟
، 3إعالء السنن کا حوالہ جناب نے یھاں کیا ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ھے؟ یہ ثابت کرنے کے
لیے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ سے بغض رکھتے تھے؟
تو دکھائیں إعالء السنن کی اس عبارت میں کھاں ھے یہ بات؟
، 4خیر طلب صاحب کا یہ اعالء السنن کے غیر متعلق حوالہ نقل کرنے کے بعد یہ لکھنا کہ
"آپ کے علماء کا اعتراف ھے کہ معاویہ کا سلوک خواص امیر المومنین کے ساتھ اچھا نھیں
تھا"...
جناب میری آپ سے گزارش ہے کہ زرا یہ بات آپ اعالء السنن میں اس جگہ پر دکھادیں؟
===ختم شد===
Khair Talab
ہم اب محترم فخر الزماں کے جملہ اعتراضات کے جوابات دینے جارہے ہیں اور ہمارے جواب کی
ترتیب کچھ یوں ہوگی
الف ،حکم کس چیز کا دیا گیا تھا اور کیا فقط معاویہ نے عدم وجہ سب پوچھی تھی اور حکم سب
موجود نہیں تھا؟
ب ،کیا معاویہ کا عدم تعرض فضیلت کرنا دلیل اعتراف فضیلت ہوسکتی ہے مع جواب عدم توبیخ
سعد؟
ج ،کیا معاویہ کا اعتراف فضیلت کرنا دلیل ایمان لی جاسکتی ہے؟
الف ،سنن ابن ماجہ کی روایت (معاویہ اور سعد بن ابی وقاص کا واقعہ)
ب ،تاریخ دمشق از ابن عساکر کی روایت (معاویہ اور سعد بن ابی وقاص کا واقعہ)
ج ،صلح امام حسن ع میں عدم سب کی شرط روایات کی روشنی میں۔
،٦اختتامی کالم۔
أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَان سعدا َ َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ
ب
ترجمہ :حکم دیا معاویہ ابوسفیان کے بیٹے نے سعد کو۔ کیا چیز روکتی ہے کہ تم (اے سعد) ابو
تراب (یعنی امیر المؤمنین) پر سب کرو۔
اس میں واضح طور پر معاویہ کی طرف سے سعد کو ایک حکم دیا گیا تھا اور ما بعد کا جملہ بتاتا
ہے کہ چونکہ سوال سب نہ کرنے پر کیا گیا تھا تو حکم بھی اس ہی کے متعلق تھا ،روایت بہت
واضح ہے اور یہی معنی کافی اہلسنت علماء نے لئے ہیں۔
اس کے بعد میں نے حکم سب امیر المؤمنین بتایا تھا ،جو یوں تھا:
ع ِلیًّا فَقَدْ َ
سبهنِي» . سله َم یَقُولَُ « :م ْن َ
سبه َ صلهى ہللاُ َ
علَ ْی ِه َو َ س ِم ْعتُ َرسُو َل ه ِ
َّللا َ یہ واضح صحیح حدیث ہےَ :
اب اصوال اس قاعدے کے مطابق معاویہ سب علی ع کرنے کی وجہ سے سب رسول ص کے درجہ
تک پہنچا اور یوں وہ منافق ثابت ہوا کیونکہ رسول ص کی حدیث ہے:
الف ،حکم کس چیز کا دیا گیا تھا اور کیا فقط معاویہ نے عدم وجہ سب پوچھی تھی اور حکم سب
موجود نہیں تھا؟
ناظرین اس حوالے سے ہمارے بار بار پوچھنے پر اب تک فخر الزماں صاحب ہمیں یہ نہیں بتارہے
ہیں کہ حکم کس چیز کا دیا گیا تھا اور میں پھر بصد ادب و احترام گذارش کرتا ہوں کہ محترم اب
بتائے کہ کس چیز کا حکم تھا ،اب کی توجہ کا مرکز صرف دوسرا جملہ َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ
ب
بنا ہوا ہے جب کہ ہماری مستدل عبارت فقط یہ جملہ نہیں بلکہ یہ پورا جملہ ایک ساتھ ہے أ َ َم َر
ب یعنی پہلے کسی چیز کا حکم دیا گیا اور پھر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَان سعدا َ َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ
اس حکم کی عدم تعمیل پر اس کی وجہ پوچھی گئی کہ سب کیوں نہیں کیا۔
(جناب میں اوپر ھی آپ کی اس بات پر میں ایک سوال کرچکا تھا کہ
ما منعک ان تسب ابا تراب.
یہ الفاظ حکم کیسے ھوئے؟ )
جواب :محترم آپ براہ کرم میری پہلی شق کا جواب دیں کہ واضح طور پر أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْف َیان
ب ہے تو آپ کا پوچھا کہ الفاظ حکم سعدا َ جملہ موجود ہے اور اس کے بعد َما َمنَ َعكَ أ َ ْن تَسُبه أ َ َبا الت ُّ َرا ِ
کیسے ہوئے عجیب بنتا ہے کیونکہ جب کسی چیز کا حکم دیا جائے اور پھر اس کو نہ کرنے کی
صورت میں صرف اس ہی کے بارے میں ہی سوال کیا جاتا ہے۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک روایت مسند احمد میں جناب ابوبکر کی امامت نماز (مزعوم)
کے متعلق یوں وارد ہوئے ہیں:
ترجمہ :رسول ص نے ابوبکر کو حکم دیا کہ وہ نماز میں لوگوں کی امامت کروائیں۔
روایت کے مطابق جب ابوبکر تھوڑا تامل کا شکار ہوئے تو ما بعد رسول ص نے جناب ابوبکر سے
فرمایا:
قَالَ " :یَا أ َ َبا بَ ْك ٍر َما َمنَ َعكَ ِإذْ أ َ ْو َمأْتُ ِإلَیْكَ أ َ ْن َال تَكُونَ َم َ
ضیْتَ ؟ "
ترجمہ :رسول ص نے فرمایا :کہ اے ابوبکر کیا چیز مانع ہوئی کہ جب میں نے آپ کو نماز پڑھانے
کا کہا تو آپ تشریف نہیں الئے۔
نوٹ :شعیب ارنووط نے اس روایت کی سند کو بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
تبصرہ :ادھر میں فخر الزماں صاحب اور قارئین کی توجہ بتانا چاہوں گا کہ ادھر بھی لفظ امر ہے
اور ما بعد مامنعک کے بعد سوال ہے یعنی جس چیز کا حکم دیا تھا اور اس کی عدم بجا آوری پر
سوال اس حکم کے متعلق ہی ہے ،چنانچہ جب واضح بات ہے کہ ادھر ایک چیز کا حکم تھا اور پھر
معاویہ نے سعد سے سوال کیا تو واضح ہوگیا کہ حکم اور ما بعد سوال میں مطابقت ہونا ضروری
ہے اور وہ فقط اس ہی وقت ہوگی کہ جب حکم سب دیا گیا ہو۔
ناظرین اس روایت میں حکم سب کے حوالے سے میں نے ابن تیمیہ کے قول سے استدالل کیا تھا
جو بایں ہے:
وأما حدیث سعد لما أمرہ معاویة بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن أبي طالب فقال ثالث قالھن
رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم فلن أسبه ْلن یكون لي واحدة منھن أحب إلي من حمر النعم الحدیث فھذا
حدیث صحیح رواہ مسلم في صحیحه
اور سعد ب ن ابی وقاص کی حدیث کہ جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا اور سعد نے انکار کیا
اور کہا۔۔ (پھر فضائل نقل کئے)۔۔ اور یہ حدیث صحیح ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا۔
ناظرین یہ الفاظ صاف ہے کہ خود ابن تیمیہ معترف ہے کہ معاویہ نے سعد کو سب ہی کا حکم دیا،
تعجب یہ ہوا کہ محترم فخر الزماں نے ہم سے سوال کیا کہ یہ قول شیعہ کا نقل کیا ہے یا ابن تیمیہ کا
خود جس کے جواب میں نے کہا:
ابن تیمیہ نے عالمہ ابن مطہر کا قول ص ١٩پر نقل کیا اور ص ٢٠پر ابن تیمیہ کی خود عبارت
ہے۔۔ اور یہ ابن تیمیہ ہی کا اعتراف ہے۔ شیعہ کا قول نہیں
(میں نے اپنے آخری کمنٹس کے بعد ابھی جواب دیا ھے تو پہلے تبصرہ کیسے کرتا.
عالمہ ابن تیمیہ شیعہ والے الفاظ نقل کررھے ھیں ،کیونکہ شیعہ نے بھی یھی الفاظ لکھے ہیں.
شاید کوئی یہ کھے کہ پہر اس بات کا رد کیوں نہیں کیا عالمہ صاحب نے؟
تو عرض ھے کہ وھاں بحث امامت پر چل رھی ھے نہ کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں
دلوانے کی جو اس کی وضاحت عالمہ صاحب کر دیتے.
عالمہ صاحب خود لکھتے ہیں
وفیه ثالث فضائل لعلي لكن لیست من خصائص اْلئمة..
تو یھاں شیعہ جس مقصد سے یہ حدیث الیا ھے اس کا رد کررھے ھیں)
جواب :محترم فخر الزماں صاحب آپ پر واجب تھا کہ آپ ثابت کرتے کہ یہ قول عالمہ ابن مطہر
الحلی الشیعی کا ہے جب کہ ہم نے خود منھاج السنتہ کی عبارت کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا تھا کہ
ماقبل صفحہ میں عالمہ حلی کا قول ہے اور ما بعد ابن تیمیہ کا اور اگر بالفرض یہ مجرد نقل تھی تو
براہ کرم یہ بتائے کہ اس پر نقد کیوں نہ کیا بلکہ ما بعد ہی ابن تیمیہ صاحب فرماتے ہے:
محترم اب آپ ضد چھوڑئے اور خود ابن تیمیہ کا واضح اعتراف دیکھئے ،مجھے نہیں معلوم کہ
کس منطق کے تحت یہ شیعہ کا قول ہوگیا۔ بغیر دلیل کے بات بیکار ہے
دیکھئے محترم میں آپ کو ابن تیمیہ کی کچھ مزید عبارات پیش خدمت کرتا ہوں کہ شاید آپ کے دل
میں میری بات اتر جائے
فمعلوم أن الذین قاتلوہ ولعنوہ وذموہ من الصحابة والتابعین وغیرھم ھم أعلم وأدین من الذین یتولونه
ویلعنون عثمان
یہ بات معلوم شدہ ہے کہ صحابہ اور تابعین میں وہ افراد جنہوں نے امیر المؤمنین ع کے ساتھ جنگ
کی ،امیرالمؤمنین ع پر لعنت کی اور امیر المؤمنین ع کی مذمت کی وہ ان حضرات جو امیر
المؤمنین ع سے محبت کرتے تھے اور عثمان پر لعنت کرتے تھے کے مقابلہ میں زیادہ علم والے
اور دین کے حامل تھے۔
اہل صفین نے ایک دوسرے پر لعنت کی تھی جیسے کہ امیر المؤمنین ع اور ان کے ساتھیوں نے
اپنے قنوت نماز میں بعض معین اشخاص پر لعنت کی تھی اہل شام میں سے ،اور یوں ہی اہل شام
لعنت کرتے تھے
اور عثمان کے چاہنے والوں میں سے حضرات امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے اور اس بات کا
بھی کھلے عام اظہار کرتے تھے منبر اور دیگر جگاہوں پر( ،اس کی وجہ یہ تھی) کہ ان (عثمان
کے چاہنے والوں) اور علی ع پر درمیان جنگ ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ شیعان عثمان معاویہ کی رعایہ والے ہی تھے جیسے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہےَ :و َر ِعیهةُ
ُم َعا ِویَ َة ِشی َعةُ عُثْ َمانَ (دیکھئے منھاج السنتہ جلد ٥ص )٤٦٦
اب اس مصدر کو سامنے رکھئے اور پھر باقی تین مصادر کو مزید رکھئے تو یہ بات کھل کر
سامنے آجاتی ہے کہ عثمان کے چاہنے والے جو معاویہ کی رعایتہ میں سے تھے ،اہل صفین جس
کا سرغنہ معاویہ تھا اور امیر المؤمنین ع سے جنگ کرنے والے صحابہ جس کا سرغنہ معاویہ تھا
امیر ع پر سب اور لعنت کرتے تھے۔ اب میں نہیں سمجھتا کہ ابن تیمیہ کی اتنی ساری عبارات کے
بعد بھی کسی چیز کی کوئی گنجائش رہتی ہے۔
عن سعید قال :أمر معاویة سعدًا أن یسب أبا تراب۔۔۔۔ خرجه مسلم والترمذي.
ترجمہ :راوی سے مروی ہے کہ معاویہ نے سعد کو امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دیا۔۔۔۔ (پوری
روایت نقل کرتے ہیں) ،اس کو مسلم اور ترمذی نے نقل کیا ہے۔
تبصرہ :اس کے عالوہ بھی ہمارے پاس کافی اقوال ہیں لیکن فی الحال دو اقوال پر ہی اکتفاء کررہے
ہیں۔
خالصہ :چنانچہ ان تمام دالئل سے ثابت ہوا کہ ادھر حکم سب ہی تھا اور آپ کوئی بھی جواب دینے
سے پہلے مجھے یہ واضح کریں گے کہ معاویہ نے سعد کو کس چیز کا حکم دیا تھا بعد میں کچھ
فرمائے گا۔
فخر الزماں صاحب نے معاویہ کو بچانے کی خاطر یہ فرمایا کہ چونکہ معاویہ نے سعد سے روایت
سن کر خاموشی اختیار کی تو یہ ان کا فضیلت تسلیم کرنے کا موجب ہے۔ تو ہم پہلے بتاتے چلیں کہ
ادھر کوئی ہمارے کالم میں تناقض نہ کہے ،ہم ان تمام کے اشکاالت کے جوابات برسبیل تنزل دے
رہے ہیں کہ پہلی بات عدم تعر ض سے ہمیشہ قبولیت لینا غلط ہے اور برسبیل تنزل قبولیت فضیلت
مان بھی لیں جب بھی وہ اس شخص (قائل فضیلت) کے اچھے ہونے پر داللت نہیں کرے گا ،فی
الحال ہماری بحث مقدمہ اولی سے ہے کہ عدم تعرض کبھی قبولیت فضیلت کا باعث بن سکتی ہے
اور کبھی نہیں۔۔ تو جہاں دو احتمال موجود ہوں وہاں ایک ہی معنی مراد لینا غلط ہے جب تک کہ
کوئی قرینہ ایسا نہ ہو جو ایک معنی کو متعین کردے۔
اس حوالے سے میں نے امام اف اہلسنت اوزاعی کا ابوحنیفہ کے ہاتھوں بقول ہمارے حنفی بھائیوں
کے شکست مناظرہ کو دیکھایا یہاں تک کہ اوزاعی سکوت کرگئے اس کے باوجود وہ رفع الیدین
کے قائل رہے تو ہمارا استدالل فقط اتنا تھا کہ اگر خاموشی ہر بار قبولیت کو مستلزم کرتی ہے تو
یہاں بھال اوزاعی عدم رفع الیدین کے قائل کیوں نہ ہوئے ،محترم نے فرمایا
(رھا قوت استدالل سے مغلوب ھونا تو یھاں یہ مثال بھی نھیں بنتی ،کیونکہ بقول شیعوں کے سیدنا
معاویہ رضی ہللا عنہ تو سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے پکے دشمن تھے ان سے بغض رکھتے تھے،
تو حکمرانی اور طاقت رکھنے واال ،دشمن اور بغض رکھنے واال اگرچہ مغلوب بھی ھوجائے تو
بھ ی اپنے مخالف کے حامی کو ایسے نھیں چھوڑتا کہ کوئی اس کے دشمن کے فضائل بیان کر کے
چال جائے اور وہ خاموش بیٹھا رھے.
ایران میں یا جھاں شیعوں کی حکومت ھے وھاں صحابہ سے محبت رکھنے والوں سے کیا سلوک
کرتے ہیں شیعہ وہ سب جانتے ہیں.
فاطمی اور صفوی حکومت میں صحابہ سے محبت رکھنے والے سنیوں کے ساتھ شیعہ حکمرانوں
نے کیا کیا وہ کسی سے مخفی نھیں)
تو اب ہم ان کے ان اشکالت کے جوابات میں کہتے ہیں کہ محترم آپ ایک اخص چیز کے قائل ہیں
اور ہم کہتے ہیں کہ آپ کی دلیل اعم ہے۔ اور اخص دعوی پر اعم دلیل سے استدالل کرنا ہی غلط
ہے۔ دی کھئے آپ کہتے ہیں کہ خاموش رہنا اور عدم تعرض کرنا ہمیشہ قبولیت پر داللت کرے گی
ورنہ آپ کا استدالل تام نہیں بنتا اور میں کہتا ہوں کہ خاموش رہنا اور عدم تعرض کرنا کبھی دالئل
سے مغلوب ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں ،کبھی تعارض ادلتہ کی وجہ سے ،کبھی قبولیت کی وجہ
سے و غیرہ وغیرہ تو اس صورت میں آپ کس طرح فقط ایک قبولیت ہی کو لے سکتے ہیں۔ اس کو
بغیر دلیل لینا ہی غلط ہے۔
میں مثال دیتا ہوں کہ شافعی کا قول حنفی عالم یوں نقل کرتے ہیں جو ابھی ہمارا مستدل ہے:
للشافعى رحمه ہللا جواز :أن یكون سكوته للتأمل أو للتوقف بعدہ لتعارض اْلدلة أو للتوقیر أو الھیبة أو
خوف الفتنة أو غیرہ كاعتقاد حقیة كل مجتھد فیه وكون القائل أكبر سنًا أو أعظم قدرا أو أوفر
شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت کبھی مختلف
دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے ،کبھی کسی انسان کے
وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے ،کبھی اس انسان کے رعب کی وجہ سے ،کبھی فتہ کے
خوف کی وجہ سے ہے یا ان کے عالوہ یا جیسے کہ ہر مجتہد اس میں صحیح ہے اس وجہ سے،
کبھی دوسرا آدمی عمر میں بڑا ہوتا ہے ،یا عزت میں زیادہ ہوتا ہے۔
محترم فخر الزماں صاحب خود دیکھئے کہ شافعی کے ہاں کافی ساری وجوہات سکوت ممکن ہے،
اور اس کا ایک عملی مصداق اوزاعی کی صورت می ں دے چکا ہوں تو عدم تعرض کرنا ایک اعم
چیز ہے اور آپ کا دعوی اخص ہے اور اعم دلیل اخص دعوی پر نہیں چلتی۔۔ یعنی آپ کس دلیل
سے کہہ رہے ہیں کہ عدم تعارض قبولیت کی نشانی ہے؟
ج ،کیا معاویہ کا اعتراف فضیلت کرنا دلیل ایمان لی جاسکتی ہے؟
اس ذیل میں ہم مقدمہ ثانی یعنی برسبیل تنزل مان بھی لیں کہ معاویہ نے فضائل امیر المؤمنین ع کو
تسلیم بھی کیا تو وہ تسلیم کرنا کافی نہیں اگر معاویہ کا سب کرنا ،لعنت کرنا ،جنگ کرنا ،اور بغض
رکھنا دیگر دالئل سے ثابت ہوں۔۔ اس پر میں نے آپ کو یہودیوں اور مشرکین کی مثالیں دیں تھیں
جو اگرچہ فضیلت رسول ص کے قائل تھے لیکن پھر بھی وہ ان کو باایمان ثابت نہیں کرتی۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ مزید کہوں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب خود ایک معاصر اہلسنت کی
ایک قوی رائے کو پیش کردوں وہ فرماتے ہے:
ْلن شھادة العدو بالخیر أقوى من شھادة الصدیق فالفضل ما شھدت به اْلعداء
ترجمہ :کسی کے دشمن کی اس کے بارے میں اچھی رائے اس کے دوست کی اچھی رائے سے
زیادہ قوی ہے کیونکہ فضیلت وہ ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کرے۔
اب یہ اصول تو خود آپ کے حضرات مانتے ہیں اور مال علی قاری کا اقرار بھی میں ابھی عنقریب
نقل کروں گا ،تو بتائے کہ اگر معاویہ امیر المؤمنین ع کی فضیلت کو مانتا بھی تھا تو کیا بڑی بات
ہے اس کی دشمنی اور بغض رکھنا اس حالت میں بھی ممکن ہے۔ کتنے ہی مستشرقین رسول ص
کی تعریف کرتے ہیں تو کیا وہ رسول ص کی رسالت پر ایمان لے آئے ،خود آپ کے دیوبندی
اکابرین اپنے علماء کی تعریفات بریلوی کتب سے نقل کرتے ہیں تو کیا اس کے باوجود بریلیوں کی
ایک تعداد نے آپ کو کافر کہنا چھوڑ دیا؟ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے لیکن یہ میں آپ کی منطق عوج
پر نقد پیش کررہا ہوں۔
( ، 1فضائل کا اقرار تو فضیلت کا ھی اقرار ھے ،یہ عجیب بات کردی جناب نے ،پڑھنے والے
دوست بھی پریشان ھوگئے ھونگے کہ یہ کیا لکھ دیا خیر طلب صاحب نے.
آپ یہ بتائیں کہ فضائل کے اقرار کے ساتھ فضیلت کا انکار کیسے ھوتا ھے؟
، 2یہودیوں کو چھوڑ کر اب مشرکین پر آگئے جناب ،مشرکین کہ بارے میں بھی جناب نے یہ لکھ
دیا کہ
"مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھےاس
کے باوجود یہ اعتراف ان کی فضیلت کا باعث نھیں بن سکتا"..
جناب کے اس جملے میں تضاد مالحظہ فرمائیں ،پہلے لکھا کہ مشرکین فضیلت کے قائل تھے ،اور
آگے لکھ دیا کہ ان کا اعتراف فضیلت کا باعث نہیں بن سکتا....
فضیلت کا اقرار اور انکار دونوں ایک ساتھ لکھ دیا ہے آپ نے ،جناب اصل میں آپ خود پریشان ہیں
کہ فضیلت و فضائل کو الگ سمجھ کر) .
جواب :محترم آپ کے فہم کا قصور ہے ،میری بات میں کوئی تناقض نہیں دیکھئے۔ مشرکین بھی
رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھےاس کے باوجود یہ
اعتراف ان (ادھر ضمیر مشرکین کی طرف پلٹ رہی ہے) کی فضیلت کا باعث نھیں بن سکتا۔۔ یہ
پورا جملہ تھا کہ ایک طرف مشرکین کا فضائل تسلیم کرنا موجود ہے لیکن وہ ان کی اپنی ذاتی
فضیلت نہیں بن سکتی کیونکہ وہ اعترافات کے باوجود بھی ایمان نہیں الئے بعینیہ یہی حالت معاویہ
کے ساتھ ہے۔ اب اصل جواب نہیں دے رہے بلکہ تاویالت باطلہ سے کام لے رہے ہیں،
محترم فخر الزماں مشرکین کی تعریفات والی بات کے جواب میں فرماتے ہیں:
(رھا مشرکین کا معاملہ تو وہ رسالت سے پہلے واقعی فضائل کے قائل تھے لیکن اعالن نبوت کے
بعد وھی جادوگر ،مجنون کھنا شروع ھوگئے اور تکالیف دینا شروع کردی.
تو یہ مثال بھی نھیں بنتی آپ کی اس مقام پر) .
جواب :محترم یہ آپ کا فقط ایک دعوی ہی ہے جو غلط ہے ،میں آپ کو ما بعد بعثت ،مشرکین کی
تعریفات دیکھتا ہوں رسول ص کے لئے۔ اس سے پہلے کہ میں وہ روایت نقل کروں ،عالمہ بیھقی
کی تبویب سے ایک باب کا عنوان جو ان کی فقہ پر داللت کرتا ہے نقل کئے دیتا ہوں:
از َوأَنههُ َال یُ ْش ِبهُ َ
ش ْیئًا ِم ْن لُغَاتِ ِھ ْم َم َع َك ْونِ ِھ ْم ہللا [ت َ َعالَى] ِمنَ ْ ِ
اْل ْع َج ِ ب ِ اف ُم ْش ِر ِكي قُ َری ٍْش ِب َما فِي ِكت َا ِ اب ا ْعتِ َر ِ َب ُ
ِم ْن أ َ ْھ ِل اللُّغَ ِة َوأ َ ْربَا ِ
ب ال ِلّ َس ِ
ان
باب :اس بیان میں کہ مشرکین قریش اس کے معترف تھے کہ جو بھی ہللا تعالی کی کتاب میں ہے وہ
معجزہ ہے اور اس امر کے باوجود کہ وہ اہل لغت تھے اور اہل زبان تھے ان پر (قرآن کا اعجاز)
بالکل مشتبہ نہیں تھا۔ (ملخص فقط)
حوالہ :دالئل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشریعة ،جلد ،٢ص ١٩٨
اب دیکھئے واضح طور پر خود بیھقی کہہ رہے ہیں کہ کتاب خدا جو ما بعد بعثت رسول ص ہی
نازل ہوئی ،اس کی حقانیت پر خود مشرکین عرب کو شبہ نہیں تھا۔ تو آپ کا کہنا کہ اعتراف فضائل
فقط ما قبل بعثت تھا غلط جزئی طور پر غلط ہے اور کلی ابطال کے لئے ایک روایت کا سہارا لیتا
ہوں جس کو ابن اسحاق نقل کرتے ہے اس میں ایک مکی زندگی میں ما بعد بعثت ایک واقعہ نقل کیا
گیا جس کو مال علی قاری نقل کرتے ہے اور فرماتے ہے:
(وأصدقكم حدیثا) أي قوال ووعدا (وأعظمكم أمانة) أي صدقا ودیانة وھذہ الشھادة لكونھا من أھل العداوة
حجة لما قیل الفضل ما شھدت به اْلعداء
رسول ص قول اور وعدے میں سب سے زیادہ سچے ہیں ،اور صداقت اور دیانت کے معاملہ میں
سب سے عظیم۔۔ (مال علی قاری پھر قاعدہ بتاتے ہیں) یہ گواہی ایک ایسے شخص کی طرف سے
جو رسول ص کا دشمن تھا لیکن اس کے باوجود یہ گواہی قابل قبول ہے کیونکہ یہ کہا گیا ہے کہ
فضیلت وہ جس کا اقرار دشمن بھی کرے۔
تبصرہ :اب محترم فخر الزماں کو مان لینا چاہئے کہ خود ان کے علماء کا پسندہ فرمودہ قاعدہ ہے
جس میں ماضی سے مال علی قاری اور بیھقی کی مثال دی اور معاصر سے ایک کہ اگرچہ دشمن
تعریف کرے وہ تعریف کرنے والے کو پھر بھی دائرہ ایمان میں نہیں التا۔ اور یہ واقعہ جو بیھقی
اور مال علی قاری نے اشارہ کیا ہے وہ ما بعد بعثت ہے۔
ناظرین اب ہم صحیح مسلم کی تائید میں کچھ روایات سے استدالل کرتے ہیں تاکہ یہ حقیقت واضح
ہوجائے کہ یہ روایت کے معنوی شواہد کافی ہیں۔۔
الف ،سنن ابن ماجہ کی روایت (معاویہ اور سعد بن ابی وقاص کا واقعہ)
الرحْ َم ِن-ع ْبد ُ هسا ِبطٍ َ -وھ َُو َ ع ْن اب ِْن َ سى بْنُ ُم ْس ِل ٍمَ ، ي بْنُ ُم َح همدٍَ ،حدهثَنَا أَبُو ُم َعا ِو َی َةَ ،حدهثَنَا ُمو َ َ - 121حدهثَنَا َ
ع ِل ُّ
سعْد ٌ ،فَذَ َك ُروا َ
ع ِلیًّا ،فَنَا َل ِم ْنهُ، علَ ْی ِه َض َح هجاتِ ِه ،فَدَ َخ َل َ اص ،قَالَ :قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ س ْع ِد ب ِْن أَبِي َوقه ٍ ع ْن َ َ
سله َم -یَقُولَُ " :م ْن كُ ْنتُ َم ْو َالہُ علَ ْی ِه َو َ صلهى ه
َّللاُ َ َّللا َ - س ِم ْعتُ َرسُو َل ه ِ س ْعد ٌَ ،وقَالَ :تَقُو ُل َھذَا ِل َر ُج ٍل َ ب َ َض َ فَغ ِ
س ِم ْعتُهُ َیقُولُ:ي َب ْعدِي"َ ،و َ سى ِإ هال أَنههُ َال نَ ِب ه َارونَ ِم ْن ُمو َ س ِم ْعتُهُ َیقُولُ" :أ َ ْنتَ ِمنِّي ِب َم ْن ِزلَ ِة ھ ُي َم ْو َالہُ" َو َفَ َع ِل ٌّ
َّللا َو َرسُولَهُ "؟ "ْلُع ِْطیَ هن ه
الرایَةَ ْالیَ ْو َم َر ُج ًال ی ُِحبُّ ه َ َ
بحذف سند سعد بن ابی وقاص فرماتے ہے کہ معاویہ اپنی بعض حوائج کو لے کر ان کے پاس آیا،
پس وہ سعد کے ہاں مالقات کے لئے آیا ،اور امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر المؤمنین ع کی
تنقیص کی جس کے بعد سعد بن ابی وقاص غضباک ہوگئے (غصہ میں آگئے) اور پھر رسول ص
کی زبانی تین فضائل امیر ع کا ذکر کیا یعنی ،١حدیث من کنت موالہ ،٢حدیث منزلت ،٣حدیث
خیبر (ملخص)
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شعیب ارنووط رقم طراز ہے:
تبصرہ :ادھر واضح طور پر معاویہ کا امیر المؤمنین ع کا تنقیص کرنا اور اس پر سعد کا غضبناک
ہوکر تین فضائل سنانا یہی بتاتا ہے کہ معاویہ نے ادھر سعد کو بالفعل سب ہی کا حکم دیا تھا۔
ب ،تاریخ دمشق از ابن عساکر کی روایت (معاویہ اور سعد بن ابی وقاص کا واقعہ)
ایک مزید روایت پیش خدمت ہے جو اس عنوان پر ہی ہے ،ابن عساکر تاریخ دمشق میں نقل فرماتے
ہے:
فلما فرغ أدخله في دار الندوة فأجلسه معه على سریرہ ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فیه قال أدخلتني
دارك وأقعدتني على سریرك ثم وقعت فیه تشتمه وہللا ْلن أكون في إحدى خالله الثالث أحب إلي من أن
یكون لي ما طلعت علیه الشمي وْلن یكون قال لي ما قاله له حین راہ غزا تبوكا أال ترضى أن تكون مني
منزلة ھارون من موسى إال أنه النبي بعدي أحب إلي من أن یكون لي ما طلعت علیه الشمس وْلن یكون
قال لي ما قال له یوم خیبر ْلعطین الرایة رجال یحب ہللا ورسوله یفتح ہللا على یدیه لیس بفرار أحب إلي
من أن یكون لي ما طلعت علیه الشمس وْلن أكون صھرہ على ابنته ولي منھا من الولد ما له أحب إلي
من أن یكون لي ما طلعت علیه الشمس ال أدخل علیك دارا بعد الیوم ثم نفض رداءہ ثم خرج
جب معاویہ گارغ ہوگیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کے لے کر دار الندوہ میں داخل ہوا اور سعد بن ابی
وقاص کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور پھر معاویہ نے امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر
المؤمنین ع کی تنقیص کی تو سعد نے طور احتجاج کہا کہ تم مجھے ہاں الئے اور اپنے پلنگ پر
صرف اس وجہ سے بٹھایا کہ تم امیر المومنین ع پر شتم کرو۔۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس وہ تین
فضائل ہوتے جو علی ع کے پاس ہیں وہ مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہوتے جس پر
سورج چمکتا ہے اور پھر ،١حدیث مزنلت ،٢حدیث خیبر ،٣سیدہ فاطمہ ع کا شوہر ہونا کہا ہے۔۔
(آخر میں سعد فرماتے ہے) اے معاویہ میں آج کے بعد تیرے پاس کبھی نہیں آؤں گا اور پھر چلے
گئے (ملخص فقط)
تبصرہ :اس روایت کی سند میں راویان بظاھر ثقہ ہیں ،مجھے بعض علل معلوم ہیں جو محترم
السکتے ہیں لیکن جب وہ الئیں گے تو اس کا جواب اس ہی فقط احنافی منھج کے مطابق ہوگا۔ اور
یوں ثابت ہوا کہ معاویہ نے امیر المؤمنین ع پر شتم کیا تھا
ج ،صلح امام حسن ع میں عدم سب کی شرط روایات کی روشنی میں۔
اب میں اس امر کے اثبات میں تاریخ دمشق ہی سے روایت نقل کروں گا۔ ابن عساکر روایت کو نقل
کرتے ہیں کہ جب معاویہ اور امام حسن ع میں صلح ہوئی تو اس کی ایک شرط کچھ یوں تھی ،اس
سے پہلے کہ شرط نقل کروں پہلے سند نقل کئے دیتا ہوں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا
الحسین بن محمد بن سعد أنا أبو عبید عن مجالد عن الشعبي وعن یونس بن أبي إسحاق عن أبیه وعن
أبي السفر وغیرھم
یہی بات تقریبا طبری ،ابن اثیر ،ذھبی ،ابن الوردی ،ابن خلدون ،ابن کثیر ،ابوالفدا اور صفدی وغیرھم
نے اس شرط کو نقل کیا ہے یعنی یہ تاریخی حوالے سے ایک مشہور مستفیض بات ہے کہ اس کو
تقریبا مورخین کے جم غفیر نے نقل کیا ہے۔ یوں ایک اور معنوی دلیل سے معاویہ کا سب ثابت ہوا۔
ہم ذیل میں دو علماء اہلسنت کی آراء کو پیش کررہے ہیں۔۔ اگرچہ اس حوالے سے ہمارے پاس کافی
اقوال و نقول ہیں۔۔
إال أنھم لم یعلنوا بسب أحد من الصحابة ،رضوان ہللا علیھم ،بخالف ما كان بنو أمیة یستعملون من لعن
علي بن أبي طالب رضوان ہللا علیه ،ولعن بنیه الطاھرین بني الزھراء؛ وكلھم كان على ھذا حاشا عمر
بن عبد العزیز ویزید بن الولید رحمھما ہللا تعالى ،فإنھما لم یستجیزا ذلك.
بنو عباس نے کسی بھی صحابی (خدا کی رضوان ہوں ان پر) پر سب نہیں کیا بنو امیہ کے برخالف
جنہوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر لعنت کا طریقہ اپنایا ،اور ان کی پاک
اوالد بنی زھراء پر بھی لعنت کی ،اور تمام بنو امیہ ایسے تھے ماسوائے عمر بن عبدالعزیز اور
یزید بن ولید کے (خدا کی رحمت ہو ا ن دونوں پر) ،کہ ان دونوں نے اس لعن کی اجازت نہیں دی۔
ابن حجر اپنی شہرت آفاق کتاب میں رقم طراز ہے:
ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على
المنابر سنة
ووافقھم الخوارج على بغضه
اس کے بعد امیر المؤمنین کا معاملہ (کچھ یوں بیٹھا) کہ ایک گروہ نے امیر المؤمنین ع سے جنگ
کی اور پھر معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگ یا کہ اس لڑنے والے گروہ (اشارہ قوم معاویہ کی طرف)
امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرنے لگے اور ان پر منبروں پر لعنت کو طریقہ بنالیا اور خوارج نے
اس بغض علی میں ان حضرات کی موافقت کی۔
تبصرہ :ادھر واضح طور پر وہ گروہ جس نے جنگ کی تھی جس کا سرغنہ معاویہ تھا ،اس گروہ
کی طرف سے تنقیص علی کا صدور کو نقل کیا ہے
محترم فخر الزماں صاحب نے اپنے زعم کے مطابق ایک روایت سے استدالل کیا ہے درحاآلنکہ یہ
بات ہمارے اور ان کے ہاں طے شدہ تھی کہ ایسے مصادر سے استدالل کیا جائے گا جو فریق
مخالف کے ہاں قابل قبول ہوں گے ،اب دیکھتے ہیں کہ فخر الزماں صاحب نے اس شرط کی کتنی
الج رکھی۔
جواب :ہمارے پاس جو نسخہ عربیہ ہے اس میں یہ واقعہ بایں موجود ہے:
ویحدثنا الوزیر أبو سعید منصور بن الحسین الآلبي المتوفى سنة ( ) 422في كتابه ( نثر الدرر ) ما
صه . :ن ه
قال أحنف بن قیس :دخلتُ على معاویة فقدهم لي من الحار والبارد ،والحلو والحامض ،ما كثر تعجبي
منه ،ثم قد هم لونا ً لم أعرف ما ھو :فقلتُ :ما ھذا ؟
وذر علیه بالطبرزد .
محشوة بالمخ ،قد قلي بدھن الفستق ،هه فقال :ھذا مصارین البط
فبكیتُ ،فقال :ما یُبكیك ؟
قلت :ذكرتُ علیا ً ،بینا أنا عندہ وحضر وقت الطعام وإفطارہ ـ وسألني المقام ـ فجيء له بجراب مختوم ،
قلتُ :ما في الجراب ؟
قال :سویق شعیر.
أن یُؤخذ أو بخلتَ به ؟ قلتُ :خفتَ علیه ْ
أن یلته الحسن والحسین بسمن أو زیت . قال :ال وال أحدھما ،ولكن خفتُ ْ
محرم ھو یا أمیر المؤمنین ؟
ه فقلتُ :
فقرہُ .
الفقیر ُ
َ یطغي
َ الحق ْ
أن یعتد ُوا أنفسھم من ضعفة الناس لئال ِّ فتھال :ال ،ولكن یجب على أئمة
فقال معاویة :ذكرتَ َم ْن ال ینكر فضله
درحاآلنکہ یہ روایت کے شروع ہی میں لکھا ہے اس کو نقل کرنے واال أبو سعد اآلبى ہے جس نے
اپنی کتاب میں نقل کیا ہے
ہم نے اعالء السنن سے ایک عبارت پیش کی تھی جس میں ابن عباس کے تقیہ کو مشروع بتاتے
ہوئے معاویہ سے اختالف کا ذکر موجود ہے۔۔ دراصل اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ معاویہ نے
ایک رکعت وتر پڑھی تھی تو بعض روایات میں ابن عباس کی طرف سے اس فعل کی تصویب
منقول ہے اور دیگر روایات میں معاویہ کو گدھا تک کہا گیا ہے یعنی دو متضاد افعال کا صدور ہے
تو اس کی اب کیا تطبیق کی جائے تو طحاوی نے کہا کہ ابن عباس کا معاویہ کی مدح کرنا تقیہ پر
مبنی تھا اور نقد کرنا حقیقی تھا۔ طحاوی کی اس تاویل کا دفاع کرتے ہوئے۔ حنفی امام ظفر تھانوی
فرماتے ہے:
(طحاوی کا) تقیہ کی تاویل کرنا بعید نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی رکاکت اور تعصب ہے۔ تقیہ جس
معنی میں عالمہ طحاوی نے استعمال کیا ہے مطلق حرام نہیں بلکہ بعض صورتوں میں جائز بھی
ہے۔ (طحاوی کی ابن عباس کی تقیہ والی بات پر) اعتراض کرنے واال کیا جانتا نہیں کہ ابن عباس
حضرت علی رضی ہللا عنہ کے خواص (بہت قربت رکھنے والے) ساتھیوں میں سے تھے جنہوں
نے معاویہ (کی مشروعیت) کا انکار کیا اور معاویہ سے بغض رکھتے اور امام علی ع کی زندگی
میں معاویہ سے جنگ بھی کی۔ اور پھر معاویہ کی بیعت غالبا تقیہ کے طور پر کی اور اس (کے
بعض امور) پر راضی ہونا بہت کم تھا۔ اور یہی ان لوگوں (جو امیر المؤمنین کے خواص اصحاب
تھے) کا یزید کی بیعت کرنے کا معاملہ ہے (وہ بھی تقیہ کے طور پر تھی) البتہ جو تاویل ہم نے کی
و ہ طحاوی کی تاویل سے بہتر ہے لیکن طحاوی کی تاویل بھی بالکل محتمل ہے اور اس کو فرض
کرنا بعید نہیں۔ چناچہ (معترض کو چاہئے اس بات کو) سمجھے۔
اب ان واضح حقائق کو دیکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جو بھی خؤاص امیر ع میں
سے تھا وہ معاویہ کی حکومت میں کافی مشکالت پریشانی کا شکار تھا جب ہی کبھی تقیہ کیا جاتا
تھا۔۔
اس پر محترم فخر الزماں فرماتے ہے:
(خیر طلب صاحب کا یہ اعالء السنن کے غیر متعلق حوالہ نقل کرنے کے بعد یہ لکھنا کہ
"آپ کے علماء کا اعتراف ھے کہ معاویہ کا سلوک خواص امیر المومنین کے ساتھ اچھا نھیں
تھا"...
جناب میری آپ سے گزارش ہے کہ زرا یہ بات آپ اعالء السنن میں اس جگہ پر دکھادیں؟)
جواب :محترم یہ داللت التزامی ہے کہ انسان اگر کسی سے بغض رکھے ،اس کی مشروعیت کا
انکار کرے اور اس سے خوف کے ظروف میں تقیہ کرے اور وجہ یہ ہو کہ وہ ایک آدمی سے
منسوب ہوں تو اس سے واضح طور پر بات سامنے آجاتی ہے کہ جس سے بغض ،تقیہ کیا جارہا ہے
وہ اس منسوب شخصیت سے کافی بغض رکھتا ہے۔ اگر ہماری بات نہیں سمجھ آرہی ہے تو امیر
المؤمنین ع کے خواص ابن عباس (بقول آپ کے علماء) کا ہی قول پیش کئے دیتا ہوں:
ح، ي بْنُ َ
صا ِل ٍ ي ،قَالََ :حدهثَنَا خَا ِلد ُ بْنُ َم ْخلَدٍ ،قَالََ :حدهثَنَا َ
ع ِل ُّ - 3006أ َ ْخبَ َرنَا أَحْ َمد ُ بْنُ عُثْ َمانَ ب ِْن َح ِك ٍیم ْاْل َ ْو ِد ُّ
هاسِ ،ب َع َرفَاتٍ، عب ٍس ِعی ِد ب ِْن ُج َبی ٍْر ،قَالَ :كُ ْنتُ َم َع اب ِْن َع ْن َ ع ْم ٍروَ ، ع ْن ْال ِم ْن َھا ِل ب ِْن َ
بَ ، س َرة َ ب ِْن َح ِبی ٍ ع ْن َم ْی ََ
اط ِه ،فَقَالَ:
ط ِ هاسِ ،م ْن فُ ْس َعب ٍ ْ
اس یُلَبُّونَ ؟» قُلتُ :یَخَافُونَ ِم ْن ُم َعا ِویَةَ ،فَخ ََر َج ابْنُ َ َ
فَقَالََ « :ما ِلي َال أ ْس َم ُع النه َ
ي ٍ»علِ ّ
ض َ سنهةَ ِم ْن بُ ْغ ِ «لَ هبیْكَ الله ُھ هم لَبهیْكَ ،لَبهیْكَ فَإِنه ُھ ْم قَدْ ت ََركُوا ال ُّ
ابن عباس کے بقول معاویہ اور اس کی پارٹی نے امیر المومنین کے بغض میں سنت کو چھوڑ دیا۔
چنانچہ ثا بت ہوا کہ معاویہ اور اس کی پارٹی امیر المؤمنین ع سے بغض رکھتی تھی اور اصحاب
امیر المؤمنین ع بھی معاویہ سے بغض رکھتے تھے۔
محترم فخر الزماں اور دیگر تمام قارئین آپ تمام نے دیکھا کہ ہم نے اپنے موقف پر دالئل نقل کئے
ہیں اور ہم اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ محترم فخز الزماں صاحب تمام دالئل کا باالستعیاب
جواب دیں گے اور صرف آکر ایسے کمنٹ نہیں کریں گے جس سے اصل مدعا پر بحث نہ ہو۔۔
محترم جتنا وقت چاہیں لیں کیونکہ یہ بحث پہلے طے نہیں ہوئی تھی اس وجہ سے اس میں وقت کی
قید لگانا بیکار ہے ورنہ اگر مناظرہ رسمی ہوتا تو پھر وقت کی پابندی بھی کروائی جاتی۔۔ محترم
سے گذارش ہے کہ آپ اپنی اخرت کی فکر کیجئے ایسے شخص سے اپنا رشتہ توڑ دیں جو اہلبیت
ع کا گستاخ تھا اور جس کے گورنروں سے بھی سب امیر المؤمنین ثابت ہے۔۔ افسوس یہ ہوتا ہے کہ
اب اس ناصبی کا دفاع کرتے ہیں جو ،١باغی گروہ کا سرغنہ تھا ،٢امیر المؤمنین ع سے جنگ
کرنے میں پیش پیش تھا ،٣امیر المؤمنین ع کا پر سب کرتا تھا ،٤امیر المؤمنین ع کے خاص
اصحاب کو قتل کرتا اور بعض کو اپنی روایتی خوف کے پنجے میں رکھتا تھا۔۔ اور بہت ساری
چیزیں ہیں جو کہی جاسکتی ہیں ،،تمام قارئین غور کریں اور پھر خود فیصلہ کیجئے
Fakhar Ul Zaman
قارئین کرام آپ نے خیر طلب صاحب کے کمنٹس ضرور پڑھے ھونگے .
اس بار کے کمنٹس میں آپ نے نوٹ کیا ھوگا کہ
،1خ یر طلب صاحب نے خواہمخواہ لمبے لمبے کمنٹس بھیجے ھیں ،جو باتیں کم الفاظ میں ھو
سکتی تھی ان کو کھینچ تان کر زیادہ کیا ھے.
کم الفاظ میں زیادہ بات کھہ دینا زیادہ بھتر ھوتا ھے .عربی کا ایک مقولہ ھے کہ
*خیر الکالم ما قل و دل*
یعنی اچھا کالم وہ ھے جو کم ھو اور با مقصد ھو.
، 3پہلی دلیل پر ابھی بات ھی مکمل نھیں ھوئی اور انھوں نے سنن نسائی کی ابن عباس رضی ہللا
عنہما والی دوسری روایت بھی آخر میں بھیج دی جس پر میں الگ بحث کا پہلے ھی کھہ چکا ہوں.
، 4جن باتوں کا پابند مجھے کرنے کی کوشش کرتے رہے ،خود ان کی پابندی نھیں کی.
1#
جناب اپنے استدالل کو دہراتے ھوئے لکھتے ہیں
ہم نے صحیح مسلم کی روایت سے بایں استدالل کیا تھا
أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَان سعدا َ َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ
ب
اس میں واضح طور پر معاویہ کی طرف سے سعد کو ایک حکم دیا گیا تھا اور ما بعد کا جملہ بتاتا
ہے کہ چونکہ سوال سب نہ کرنے پر کیا گیا تھا تو حکم بھی اس ہی کے متعلق تھا ،روایت بہت
واضح ہے اور یہی معنی کافی اہلسنت علماء نے لئے ہیں۔
الجواب.
، 1جناب اصل میں آپ خود پریشان ہیں .کبھی کچھ کھتے ھیں تو کبھی کچھ.
17اپریل 9.22pmکو جناب نے اپنے کمنٹس میں کھا کہ
"جس چیز کا حکم دیا ہے وہ محذوف ھے"
اور اس کمنٹ میں کھہ دیا کہ حکم واضح ھے .پہلے آپ خود ایک رائے قائم کرلیں پہر اعتراض
کرنا.
،2جناب کا یہ کھنا کہ
"سوال سب نہ کرنے کے بارے میں کیا گیا تھا تو حکم بھی اسی کا تھا"..
جناب یہ بات محتاج دلیل ھے کہ واقعی حکم سب کا ھی تھا ،ھوسکتا ھے کسی اور بات کا ھو؟ جب
حکم کے الفاظ ھی واضح نھیں تو کیسے یقین کے ساتھ آپ یہ کھہ سکتے ہیں؟
جب بقول آپ کے حکم محذوف ھی تو آپ اس محذوف کو متعین کرنے کی دلیل الئیں.
، 3جب یہ احتمال بھی موجود ھے کہ حکم کسی اور چیز کا تھا یا سب(گالی) کا ،تو آپ کا اس
روایت سے دلیل پکڑنا باطل.
کیونکہ آپ ھی اوپر اسی اصول کو اپناتے ھوئے میری ایک دلیل کا رد کرنے کی کوشش کرچکے
ھیں
اذا جاء االحتمال بطل االستدالل..
ع ِلیًّا فَقَدْ َ
سبهنِي» . « َم ْن َ
سبه َ
2#
پہر جناب صحیح مسلم والی حدیث سے اپنے مزعومہ مطلب کو ثابت کرنے کے لیے لکھتے ہیں کہ
"مسند احمد میں جناب ابوبکر کی امامت نماز (مزعوم) کے متعلق یوں وارد ہوئے ہیں:
روایت کے مطابق جب ابوبکر تھوڑا تامل کا شکار ہوئے تو ما بعد رسول ص نے جناب ابوبکر سے
فرمایا:
قَالََ " :یا أ َ َبا َب ْك ٍر َما َمنَ َعكَ ِإذْ أ َ ْو َمأْتُ ِإ َلیْكَ أ َ ْن َال تَكُونَ َم َ
ضیْتَ ؟ "
تبصرہ :ادھ ر میں فخر الزماں صاحب اور قارئین کی توجہ بتانا چاہوں گا کہ ادھر بھی لفظ امر ہے
اور ما بعد مامنعک کے بعد سوال ہے یعنی جس چیز کا حکم دیا تھا اور اس کی عدم بجا آوری پر
سوال اس حکم کے متعلق ہی ہے ،چنانچہ جب واضح بات ہے کہ ادھر ایک چیز کا حکم تھا اور پھر
معاویہ نے سعد سے سوال کیا تو واضح ہوگیا کہ حکم اور ما بعد سوال میں مطابقت ہونا ضروری
ہے اور وہ فقط اس ہی وقت ہوگی کہ جب حکم سب دیا گیا ہو۔
الجواب.
جناب نے اب تک جو مثالیں بھی دی ھیں وہ ان کے دلیل سے مطابقت رکھتی ھی نھیں .اب اس مثال
کو بھی دیکھیں.
اس روایت میں حکم واضح ھے نماز پڑھانے کا ،اس کے برعکس مسلم والی روایت میں سب
(گالی) کا حکم واضح ھی نھیں.
3#
اپنے مطلب کی تائید میں جناب نے عالمہ ابن تیمیہ کا قول نقل کیا تھا جس پر میں نے ان سے پوچھا
تھا کہ
آپ کی پیش کردہ عبارت عالمہ صاحب کی ھے یہ شیعہ کی؟
اس کی جواب میں جناب نے لکھا کہ
محترم فخر الزماں صاحب آپ پر واجب تھا کہ آپ ثابت کرتے کہ یہ قول عالمہ ابن مطہر الحلی
الشیعی کا ہے جب کہ ہم نے خود منھاج السنتہ کی عبارت کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا تھا کہ ماقبل
صفحہ میں عالمہ حلی کا قول ہے اور ما بعد ابن تیمیہ کا اور اگر بالفرض یہ مجرد نقل تھی تو براہ
کرم یہ بتائے کہ اس پر نقد کیوں نہ کیا بلکہ ما بعد ہی ابن تیمیہ صاحب فرماتے ہے:
الجواب.
،1جناب آپ ابن مطھر حلی صاحب کے الفاظ دیکھتے تو یہ سوال نہ کرتے.
ان کے یہ الفاظ ھیں
وعن سعد بن أبي وقاص قال أمر معاویة بن أبي سفیان سعدا بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن
أبي طالب.
منھاج ص 19
یہ الفاظ عالمہ ابن تیمیہ کے جواب سے پہلے ابن مطھر حلی کے ھیں جن کو عالمہ ابن تیمیہ نے
جواب میں صرف نقل کیا ھے.
، 2رھا آپ کا نقد نہ کرنے کا سوال ،تو میں آپ کے سوال کرنے سے پہلے ھی جواب دے چکا تھا
جو میں دوبارہ کاپی پیسٹ کرتا ھوں ،شاید آپ کی نظر نھیں پڑی ھوگی اس پر.
یہ دیکھیں
شاید کوئی یہ کھے کہ پہر اس بات کا رد کیوں نہیں کیا عالمہ صاحب نے؟
تو عرض ھے کہ وھاں بحث امامت پر چل رھی ھے نہ کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں
دلوانے کی جو اس کی وضاحت عالمہ صاحب کر دیتے.
عالمہ صاحب خود لکھتے ہیں
وفیه ثالث فضائل لعلي لكن لیست من خصائص اْلئمة..
تو یھاں شیعہ جس مقصد سے یہ حدیث الیا ھے اس کا رد کیا جا رہا ہے.
4#
جناب نے آگے عالمہ ابن تیمیہ کی چند عبارتیں اپنی تائید میں پیش کی کہ
فمعلوم أن الذین قاتلوہ ولعنوہ وذموہ من الصحابة والتابعین وغیرھم ھم أعلم وأدین من الذین یتولونه
ویلعنون عثمان
حوالہ :منھاج السنتہ ،جلد ،٥ص ١٠
یاد رہے کہ شیعان عثمان معاویہ کی رعایہ والے ہی تھے جیسے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہےَ :و َر ِعیهةُ
ُم َعا ِو َی َة ِشی َعةُ عُثْ َمانَ (دیکھئے منھاج السنتہ جلد ٥ص )٤٦٦
الجواب.
، 1خیر طلب صاحب کی بڑی خامی یہ ھے کہ سیاق و سباق دیکھے بغیر بیچ میں سے عبارت کاٹ
کر بھیج دیتے ہیں جو ان کی مقصد کے مطابق بھی نہیں ھوتی.
پہلے حوالے میں عالمہ ابن تیمیہ ابن مطھر حلی شیعہ کو الزامی جواب دے رھے ھیں.
کیونکہ ابن مطھر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی امامت ثابت کرنے کے لیے یہ لکھا تھا کہ سیدنا
علی رضی ہللا عنہ کو موافقین و مخالفین دونوں برا بھال نھیں کھتے.
اس بات کا رد کرتے ہوئے عالمہ ابن تیمیہ نے یہ بات کھی ھے کہ سیدنا علی رضی ہللا کو برا
کہنے والے زیادہ اھل علم اور دیندار تھے اور سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کو برا کہنے والے شیعہ
ایسے نھیں.
اور شیعہ یہ بات مانتے ھیں کہ صحابہ کرا م سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر لعنتیں کرتے ھیں ،تو اسی
کے مطابق شیعہ کو جواب دیا نہ کہ اپنا موقف بیان کیا.
، 2دوسرے حوالے کا بھی یھی حال ھے کہ آگے پیچھے کی بحث دیکھے بغیر ھی عبارت بھیج
دی.
یھاں ان چند لوگوں کی بات چل رھی ھے جیسے ابن جوزی اور کیالھراسی وغیرہ جو یزید کو لعنت
کرنے کے قائل ہیں .دیکھیں عبارت عالمہ ابن تیمیہ کی
ص َی ِة َو ِإ ْن لَ ْم َیحْ كُ ْم ِب ِف ْس ِق ِه َك َما لَ َعنَ أ َ ْھ ُل صفین َب ْع ُ
ض ُھ ْم .....الخ ب ْال َم ْع ِ
اح ِ
ص َِوقَدْ َیقُولُونَ ِبلَ ْع ِن َ
یعنی یزید پر لعنت کرنے والے لوگ صاحب معصیت(گناہگار) کو لعنت کا کھتے ھیں اگرچہ ان پر
فاسق کا حکم نھیں لگاتے جیسا کہ اھل صفین میں سے بعض ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے...
دعوی
،3تیسرا حوالہ بھی واضح نھیں کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ لعنت کرتے تھے ،آپ کا ٰ
دعوی پر عام دلیل
خاص ھے اور دلیل عام دے رھے ھیں اور الٹا مجھے کھہ رھے ھیں کہ خاص ٰ
دے رھے ھو ،حاالنکہ میں آگے ثابت کرنے واال ھوں کہ میری دلیل عام نھیں خاص ھے.
اور شیعان عثمان میں صرف معاویہ رضی ہللا عنہ نھیں تھے بلکہ بنو امیہ کے عالوہ بھی بہت لوگ
تھے جیسا کہ اسی جگہ آپ کے حوالے کے تین صفحات پہلے یہ عبارت ھے
یعنی عثمان رضی ہللا عنہ کے شیعوں میں سے بنو امیہ اور اس کے عالوہ اور بھی تھے..
تو خیر طلب صاحب کے لیے یہ حوالے کچھ فائدہ مند نھیں جیسا کہ اوپر بیان ھو چکا.
جناب نے یہ بھی آگے کھا ھے کہ شیعان عثمان معاویہ رضی ہللا عنہ کی رعایہ تھی اور معاویہ
رضی ہللا عنہ شامیوں کا سرغنہ تھا......
الجواب.
جناب رعایہ کے برے اعمال کا ذمہ دار اگر حکمران یا سرغنہ ھوتا ھے تو یھاں کیا فرمائیں گے آپ
ا ،آپ صحابہ پر یہ طعن کرتے ھو کہ وہ جنگوں سے بھاگ جاتے تھے اور نبی کریم صلی ہللا علیہ
وسلم ان کے سردار تھے تو یہ اعتراض آپ کا اس اصول کے مطابق نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم
پر ھوتا ھے.
ب ،سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے لشکر میں جو غلط عقائد و اعمال والے لوگ تھے ان کا ذمہ دار
آپ کے اصول کے مطابق سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر ھوتا ھے.
اب آگے قارئین خود نتیجہ نکال لیں..
5#
جناب نے کمنٹس کی تعداد بڑھانے کے لیے یہ اقوال بھی نقل کئے ہیں
إال أنھم لم یعلنوا بسب أحد من الصحابة ،رضوان ہللا علیھم ،بخالف ما كان بنو أمیة یستعملون من لعن
علي بن أبي طالب رضوان ہللا علیه ،ولعن بنیه الطاھرین بني الزھراء؛ وكلھم كان على ھذا حاشا عمر
بن عبد العزیز ویزید بن الولید رحمھما ہللا تعالى ،فإنھما لم یستجیزا ذلك.
ابن حجر اپنی شہرت آفاق کتاب میں رقم طراز ہے:
ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على
المنابر سنة
ووافقھم الخوارج على بغضه
حوالہ :فتح الباری جلد ٧ص ٧١
الجواب.
ان حواالجات کا بھی وھی حال ھے جو عالمہ ابن تیمیہ کے پچھلے حواالجات کا تھا.
اس میں بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو سب کرنے کا ثبوت نھیں.
دعوی خاص ھے اور دلیل عام.ٰ
یا تو میری عام دلیل (بقول آپ کے) کو قبول کریں یا خود بھی پیش مت کریں.
6#
آگے جناب نے چند اھل السنت علماء کے حوالہ پیش کیے ھیں .لکھتے ہیں
پہلے ،چنانچہ عالمہ محب ہللا طبری فرماتے ہے:
عن سعید قال :أمر معاویة سعدًا أن یسب أبا تراب۔۔۔۔ خرجه مسلم والترمذي.
حوالہ:الریاض النضرة في مناقب العشرة ،جلد ٣ص ١٥٢
الجواب.
، 1انھوں نے روایت کے الفاظ نقل کیے ھیں اور جناب نے یہ سمجھا کہ یہ ان کے ھمنوا ھیں.
حدیث کے الفاظ پر نھیں آپ جو مطلب ان سے اخذ کر رھے ھیں اس سے ھم کو اختالف ھے.
مال علی قاری نے بھی ریاض النضرہ کے حوالے سے عبارت نقل کی ھے اور جناب نے الگ نمبر
دے کر ان کا نام بڑھایا ھے تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ اتنے سارے سنی علماء ھمارے ساتھ ھیں.
7#
جناب نے سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سے صلح کی ایک شرط نقل کی
کہ
یہی بات تقریبا طبری ،ابن اثیر ،ذھبی ،ابن الوردی ،ابن خلدون ،ابن کثیر ،ابوالفدا اور صفدی وغیرھم
نے اس شرط کو نقل کیا ہے یعنی یہ تاریخی حوالے سے ایک مشہور مستفیض بات ہے کہ اس کو
تقریبا مورخین کے جم غفیر نے نقل کیا ہے۔ یوں ایک اور معنوی دلیل سے معاویہ کا سب ثابت ہوا۔
الجواب.
سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کی اس شرط سے قطعا ً ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی
رضی ہللا عنہ پر سب کرتے تھے.
کسی چیز کے روکنے سے یہ الزم نھیں آتا کہ پہلے ایسا ھوتا تھا ،قرآن میں مسلمانوں کو کتنی
چیزیں سے روکا گیا ھے؟ تو کیا سارے مسلمان ان کو کرتے ھیں جو ہللا نے روکا؟
دعوی کے مطابق نھیں ھے. بطور تنبیہ کہ بھی روکا جاتا ھے .تو آپ کی دلیل ٰ
، 2اگر سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے تھے اور بقول آپ کے
وہ منافق تھے ،تو ایسے شخص کو اسالمی حکومت کا سربراہ بنانے واال امام رھ سکتا ھے؟
اب زرا اپنے اماموں کی امامت کی بھی فکر کریں اور آپ کے مذھب میں بیان کردہ ائمہ کے شرائط
کو سامنے رکھ کر بتائیں.
اچھا ھوا آپ نے سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کا ذکر کر کے یہ بات کھول کر اس سوال کا موقعہ دیا.
8#
اس ذیل میں ہم مقدمہ ثانی یعنی برسبیل تنزل مان بھی لیں کہ معاویہ نے فضائل امیر المؤمنین ع کو
تسلیم بھی کیا تو وہ تسلیم کرنا کافی نہیں اگر معاویہ کا سب کرنا ،لعنت کرنا ،جنگ کرنا ،اور بغض
رکھنا دیگر دالئل سے ثابت ہوں۔۔ اس پر میں نے آپ کو یہودیوں اور مشرکین کی مثالیں دیں تھیں
جو اگرچہ فضیلت رسول ص کے قائل تھے لیکن پھر بھی وہ ان کو باایمان ثابت نہیں کرتی۔
الجواب.
سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو سب کرنا ،لعنتیں کرنا آپ اب تک ایڑی
چوٹی کا زور لگا کر بھی ثابت نہیں کرسکے اور نہ کر سکیں گے ان شاءہللا.
باقی آپ کا یہ کھنا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ نے جنگ کی ،تو سوال یہ ھے کہ جنگ صفین کھاں
لگی تھی؟ کوفہ کے پاس یا شام کے پاس؟ اس سوال کے جواب سے یہ بات واضح ھوجائے گی کہ
کس نے جنگ کی تھی.
، 2باقی یہ بات تو ھم بھی مانتے ھیں کہ ان کا آپس میں اختالف ھوا تھا قصاص عثمان کے مسئلے
میں جو جنگ صفین کی وجہ بنا اور باآلخر صلح ھوئی.
اب اس صلح کے بعد ان باتوں کو دوبارہ اٹھا کر کسی ایک فریق پر کفر و نفاق کے فتوے لگانے
والی شرارتی فتنے باز ھیں.
کتنے ہی مستشرقین رسول ص کی تعریف کرتے ہیں تو کیا وہ رسول ص کی رسالت پر ایمان لے
آئے ،خود آپ کے دیوبندی اکابرین اپنے علماء کی تعریفات بریلوی کتب سے نقل کرتے ہیں تو کیا
اس کے باوجود بریلیوں کی ایک تعداد نے آپ کو کافر کہنا چھوڑ دیا؟
الجواب.
آپ کا ایک صحابی کو نبی پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ھے .کیونکہ نبی خود پر ایمان النے کی
دعوت خود دیتا ھے ،تو نبی کے فضائل کے اقرار کے ساتھ ان کو نبی بھی ماننا پڑتا ھے.
اور کسی صحابی کو اسی طرح ماننا ھوتا ھے جیسا قرآن اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے
فرمان سے ثابت ھو.
بہرحال میں نے اپنے اگلے کمنٹ میں جناب سے ایک سوال کر رھا ھوں اسی بات پر ،اس کا جواب
دینگے تو بات صاف ھوجائے گی.
یہاں سے آپ کے مستشرقین ،مشرکین و یھود والی بات کا جواب بھی ھوگیا.
رھا دیوبندی کی تکفیر کا مسئلہ تو کافر تو خارجیوں نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو .بھی کھا ھے
نعوذ باہلل.
اور جو سنجیدہ قسم کے علماء دیوبندی علماء کی تعریف کرتے ہیں وہ ان کو کافر نھیں کھتے.
9#
جناب نے مشرکین و یھود کی بات کو دہراتے ھوئے میری بات کا جواب دیا کہ
مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھےاس
کے باوجود یہ اعتراف ان (ادھر ضمیر مشرکین کی طرف پلٹ رہی ہے) کی فضیلت کا باعث نھیں
بن سکتا۔۔ یہ پورا ج ملہ تھا کہ ایک طرف مشرکین کا فضائل تسلیم کرنا موجود ہے لیکن وہ ان کی
اپنی ذاتی فضیلت نہیں بن سکتی کیونکہ وہ اعترافات کے باوجود بھی ایمان نہیں الئے بعینیہ یہی
حالت معاویہ کے ساتھ ھے.
الجواب.
، 1ھم بھی یھی تو کھتے ھیں کہ شیعہ جو حب اھل بیت کے دعوے کرتے ھیں وہ سچے نھیں اور نہ
یہ دعوے ان کے محب اھل بیت ھونے کی دلیل ہے.
جناب نے یہ بات کر کے شیعہ کے بارے میں ھمارے خیال کے تائید کردی.
، 2میں ان سے پوچھتا ھوں کہ ایک شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ان کے دور میں خالفت کا
زیادہ حقدار مانتا ھے ،نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جو ان کے فضائل بتائےھیں ان کو تسلیم
کرتا ھے ،ان کی موت پر افسوس کرتا ھے .تو کیا یہ شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ماننے واال
ھوا کہ نھیں؟
اس کا جواب دیں تاکہ آپ کی اوپر والی بات کا جواب دیا جا سکے.
،3مشرکین جو توھیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی کرتے ھیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ھے،
ان کو جناب کس کھاتے میں ڈالیں گے؟
10#
خیر طلب صاحب لکھتے ھیں
میں آپ کو ما بعد بعثت ،مشرکین کی تعریفات دیکھتا ہوں رسول ص کے لئے۔ اس سے پہلے کہ میں
وہ روایت نقل کروں ،عالمہ بیھقی کی تبویب سے ایک باب کا عنوان جو ان کی فقہ پر داللت کرتا
ہے نقل کئے دیتا ہوں:
ابن اسحاق نقل کرتے ہے اس میں ایک مکی زندگی میں ما بعد بعثت ایک واقعہ نقل کیا گیا جس کو
مال علی قاری نقل کرتے ہے اور فرماتے ہے:
(وأصدقكم حدیثا) أي قوال ووعدا (وأعظمكم أمانة) أي صدقا ودیانة وھذہ الشھادة لكونھا من أھل العداوة
حجة لما قیل الفضل ما شھدت به اْلعداء
الجواب.
، 1اصل میں خیر طلب کے نزدیک کسی شخص کی تعریف کا معیار یہ ھے کہ اس کو صادق و
امین بھی مانے اور جادوگر ،مجنون بھی ساتھ میں مانے.
ان کے نبی ھونے کو جانتا بھی ھو اور ساتھ میں اس کی توھیں کرے بھی اور دوسروں سے
کروائے بھی.
کیونکہ جناب مشرکین و یھود کی مثالیں دے کر یہ کھتے ھیں کہ وہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی
فضائل کے قائل ہیں اور مشرکین و یھود کا حال وھی ھے جو میں بتا چکا ہوں.
،2قرآن کو واقعی وہ معجز کتاب سمجھتے تھے لیکن یہ بھی کھتے تھے کہ محمد صلی ہللا علیہ
وسلم نے اپنی طرف سے گھڑا ھے اس کو.
، 3دشمن جو فضیلت مانے وہ واقعی زیادہ قابل تعریف بات ھے تبھی تو میں نے شیعہ کتاب سے
حوالہ دیا اور آگے بھی دینے واال ھوں..
11#
جناب نے إعالء السنن کا حوالہ دیا تھا جس پر میں نے پوچھا تھا کہ
"اس سے زرا آپ ثابت کریں کہ معاویہ رضی ہللا عنہ علی رضی ہللا عنہ لو گالیاں دیتے تھے؟
اس پر جناب لکھتے ہیں
محترم یہ داللت التزامی ہے کہ انسان اگر کسی سے بغض رکھے ،اس کی مشروعیت کا انکار کرے
اور اس سے خوف کے ظروف میں تقیہ کرے اور وجہ یہ ہو کہ وہ ایک آدمی سے منسوب ہوں تو
اس سے واضح طور پر بات سامنے آجاتی ہے کہ جس سے بغض ،تقیہ کیا جارہا ہے وہ اس منسوب
شخصیت سے کافی بغض رکھتا ہے۔ اگر ہماری بات نہیں سمجھ آرہی ہے تو امیر المؤمنین ع کے
خواص ابن عباس (بقول آپ کے علماء) کا ہی قول پیش کئے دیتا ہوں:
ي بْنُ َ
صا ِلحٍ، ي ،قَالََ :حدهثَنَا خَا ِلد ُ بْنُ َم ْخلَدٍ ،قَالََ :حدهثَنَا َ
ع ِل ُّ - 3006أ َ ْخبَ َرنَا أَحْ َمد ُ بْنُ عُثْ َمانَ ب ِْن َح ِك ٍیم ْاْل َ ْو ِد ُّ
هاسِ ،ب َع َرفَاتٍ، عب ٍس ِعی ِد ب ِْن ُج َبی ٍْر ،قَالَ :كُ ْنتُ َم َع اب ِْن َ
ع ْن َ ع ْم ٍروَ ، ع ْن ْال ِم ْن َھا ِل ب ِْن َ
بَ ، ع ْن َم ْی َ
س َرة َ ب ِْن َح ِبی ٍ َ
اط ِه ،فَقَالَ: َ ُ
هاسِ ،م ْن ف ْسط ِ عب ٍ َ ُ ْ ُ
اس یُلبُّونَ ؟» قلتُ :یَخَافونَ ِم ْن ُمعَا ِویَة ،فَخ ََر َج ابْنُ َ َ َ
فَقَالََ « :ما ِلي َال أ ْس َم ُع النه َ
يٍ
علِ ّ
ض َ «لَ هبیْكَ الله ُھ هم لَبهیْكَ ،لَبهیْكَ فَإ ِنه ُھ ْم قَدْ ت ََركُوا ال ُّ
سنهةَ ِم ْن بُ ْغ ِ
الجواب.
، 1نسائی کی روایت پر بحث مسلم والی روایت کے بعد ھوگی تاکہ ایک ایک دلیل پر تفصیلی بات
ھو اور دیکھنے والے صحیح سے سمجھ سکیں.
اور نسائی کی روایت تو ابن عباس رضی ہللا عنہما کی تقیہ کرنے والی بات کا واضح رد کررھی
ھے .ان دونوں میں سے آپ کو ایک بات کو صحیح کھنا ھوگا.
، 2إعالء السنن کے حوالے سے ان کا مدعا ثابت نھیں ھو رھا تھا اس لیے جناب نے نسائی کی
روایت ال سھارا لیا جو کہ خود إعالء السنن کی تقیہ والی بات کا رد کررھی ھے اور جناب نے
نسائی کی روایت کو اعالء السنن کی تائید میں پیش کیا ہے.
رھا ابن عباس رضی ہللا عنہ کا تقیہ کرنے والی بات ،تو یہ تو بعد کے علماء کی تاویالت ھیں نہ کہ
خود ابن عباس رضی ہللا عنہ کا قول ،اس کے برعکس ابن عباس رضی ہللا عنہ کا معاویہ رضی ہللا
عنہ کے پاس جانا ،ان کے تعریف کرنا اور عطیات لینا کتب تاریخ سے ثابت ہے جو نسائی والی
بحث میں سامنے آئیں گی.
12#
میں نے شیعوں کی معتبر کتاب اصل و اصول الشیعہ سے سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی
رضی ہللا عنہ کے فضائل کا اقرار کرنا نقل کیا تھا.
جس کے جواب میں جناب لکھتے ہیں
یہ روایت کے شرو ع ہی میں لکھا ہے اس کو نقل کرنے واال أبو سعد اآلبى ہے جس نے اپنی کتاب
میں نقل کیا ہے
الجواب.
، 1یہ روایت ان کے مجتھد محمد حسین آل کاشف صاحب نے اپنی کتاب میں اپنی اس بات کو ثابت
کرنے کے لیے پیش کی ھے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کی حکومت مسلمانوں کے خون پسینے کی
کمائی سے عیش و عشرت والی تھی جو اسالمی تعلیمات کے خالف ہے.
تو آل کاشف صاحب نے جس بات کو معاویہ رضی ہللا عنہ کے خالف دلیل کے طور پر پیش کیا
ھسے اس خیر طلب صاحب نے "بے سند" کھہ کر اپنے مجتھد آل کاشف صاحب کو سیدنا معاویہ
رضی ہللا عنہ پر جھوٹا الزام لگانے واال ثابت کردیا.
واہ ایسے دو چار شیعہ مناظر اور مل جائیں تو مزا آجائے.
، 2اصل میں خیر طلب صاحب کا مسئلہ یہ ھے کہ جو بات ان کے نظریے کے خالف ھوتی ھے یہ
اس حوالے یا کتاب کو ھی غیر معتبر یا بے سند وغیرہ کھہ کر جان چھڑانے میں عافیت سمجھتے
کررھے ہیں.
ان کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان کے مجتھد اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اس روایت کو بطور دلیل
پیش ھیں.
، 3اس سے یہ بات بھی ثابت ھوئی کہ شیعہ مجتہدین صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے بے سند و
جھوٹی روایات کا سھارا لیتے ھیں ،یھی بات اھل السنت علماء صدیوں سے کھتے آرھے ھیں جو
خبر طلب صاحب نے کر دی.
13#
میں نے سیدنا سعد رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل بیان کرنے پر سیدنا معاویہ
رضی ہللا عنہ کے خاموش رھنا ان کے فضائل کو ماننے کی دلیل ھے.
اس پر جناب لکھتے ہیں
تو ہم پہلے بتاتے چلیں کہ ادھر کوئی ہمارے کالم میں تناقض نہ کہے ،ہم ان تمام کے اشکاالت کے
جوابات برسبیل تنزل دے رہے ہیں کہ پہلی بات عدم تعرض سے ہمیشہ قبولیت لینا غلط ہے اور
برسبیل تنزل قبولیت فضیلت مان بھی لیں جب بھی وہ اس شخص (قائل فضیلت) کے اچھے ہونے پر
داللت نہیں کرے گا ،فی الحال ہماری بحث مقدمہ اولی سے ہے کہ عدم تعرض کبھی قبولیت فضیلت
کا باعث بن سکتی ہے اور کبھی نہیں۔۔ تو جہاں دو احتمال موجود ہوں وہاں ایک ہی معنی مراد لینا
غلط ہے جب تک کہ کوئی قرینہ ایسا نہ ہو جو ایک معنی کو متعین کردے۔
محترم آپ ایک اخص چیز کے قائل ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ آپ کی دلیل اعم ہے۔ اور اخص دعوی
پر اعم دلیل سے استدالل کرنا ہی غلط ہے.
الجواب.
عرض ہے کہ میں اعم نھیں اخص صورت کی ھی بات کررھا ھوں ،وہ اس طرح کہ ایک شخص
جو حکمران ھو طاقت اس کے پاس ھو ،وہ کسی دوسرے سے (بقول شیعہ) سخت دشمنی بھی رکھتا
ہو ،اس سے جنگ بھی کی ھو ،اس کو ممبروں پر خطبوں میں خود بھی گالیاں دیتا ھو اور دوسروں
سے بھی دلواتا ھو.
وہ اپنے ایسے دشمن کی تعریفیں سن کر پہر بھی خاموش رھتا ھے تو یہ بالکل اس بات کی دلیل
ھے کہ وہ اس کے فضائل مانتا ھے.
شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت کبھی مختلف
دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے ،کبھی کسی انسان کے
وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے ،کبھی اس انسان کے رعب کی وجہ سے ،کبھی فتہ کے
خوف کی وجہ سے ہے یا ان کے عالوہ یا جیسے کہ ہر مجتہد اس میں صحیح ہے اس وجہ سے،
کبھی دوسرا آدمی عمر میں بڑا ہوتا ہے ،یا عزت میں زیادہ ہوتا ہے۔
حوالہ :فصول البدائع
الجواب .اس قول کو ماننے سے ھماری بات پر کوئی فرق نہیں پڑتا .اوپر وضاحت کرچکا ھوں.
====ختم شد====
Khair Talab
محترم فخر الزماں صاحب۔۔۔ چیدہ چیدہ نکات جوابات پڑھ لئے ہیں۔۔ مجھے سنن ابن ماجہ اور تاریخ
ابن عساکر کی روایت جس میں سعد اور معاویہ والے قضیہ کا ذکر ہے اور جو صحیح مسلم والی
روایت کی مزید تشریح کرتی ہے اس کا جواب نظر نہیں آیا۔۔ پورا جواب مکمل کیجئے تاکہ میں
جواب تیار کرنا شر وع کروں اور دوسری بات منھجی اعتبار سے اپ سے پوچھنا تھا کہ آپ کے
مطابق اگر کوئی مجتہد کسی روایت سے استدالل کرے تو کیا وہ قابل احتجاج ہوگا یا نہیں؟ اس کی
وجہ یہ ہے کہ آپ کے بقول صاحب کتاب اصل و اصول شیعہ آل کاشف الغطاء نے ایک روایت سے
استدالل کیا اور مجھے ملزم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔ یہ بتادیجئے۔ تیسری بات آپ نے ایک
جگہ ایک مزید دلیل دینے کا فرمایا تھا چنانچہ آپ یوں گویا ہوئے:
(دشمن جو فضیلت مانے وہ واقعی زیادہ قابل تعریف بات ھے تبھی تو میں نے شیعہ کتاب سے حوالہ
دیا اور آگے بھی دینے واال ھوں).
میں نے آپ کے جواب میں ابھی تک وہ شیعہ کتاب سے دینے واال ہوں کا حوالہ نہیں دیکھا وہ بھی
دے دیجئے تاکہ میں اس کا بھی جواب ساتھ ساتھ دے دوں۔
معذرت سے یہ میں جواب نہیں دے رہا بلکہ جو ناقص جوابات ہیں جن کو آپ نے چھوا تک نہیں
اور جو منھجی باتیں ہیں ان کو کلئیر کرنا چارہا ہوں۔۔ آپ نے جتنے دنوں میں جواب دیا ہے میری
کوشش ہوگی کہ اگر مصروفیت دامن گیر نہ رہے تو اتنے ہی دن میں آپ کو مدلل جواب دے دیا
جائے۔ شکریہ۔ ایک بار توضیح کردیں اگرچہ وہ میرے نزدیک کمزور ہی کیوں نہ ہو لیکن مجھے
جواب دینے میں آسانی ہوگی۔
شکریہ
Fakhar Ul Zaman
جناب نے مسلم کی تائید میں ابن عساكر کے حوالے سے لکھتے ہیں فلما فرغ أدخله في دار الندوة
فأجلسه معه على سریرہ ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فیه قال أدخلتني دارك وأقعدتني على سریرك ثم
وقعت فیه تشتمه وہللا ْلن أكون في ...الخ حوالہ :تاریخ دمشق جلد ،٤٢ص ١١٩الجواب .ان کو بھی
پتہ ہے کہ اس روایت میں کچھ علت ھے جو یہ روایت قابل استدالل نھیں .اس میں محمد بن اسحاق
ھے جو شیعہ ھے .عالمہ ابن حجر تقریب التھذیب میں لکھتے ہیں محمد بن اسحاق بن یسار ....رمی
بالتشیع .کہ یہ شیعہ تھا .یھی بات تاریخ بغداد ج ،١سیر اعالم النبالء میں بھی ھے .اور یہ اصول ھے
کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں قابل قبول نہیں .پہر جناب لکھتے ہیں تبصرہ :اس
روایت کی سند میں راویان بظاھر ثقہ ہیں ،مجھے بعض علل معلوم ہیں جو محترم السکتے ہیں لیکن
جب وہ الئیں گے تو اس کا جواب اس ہی فقط احنافی منھج کے مطابق ہوگا۔ الجواب .ان کے ذھن
میں یہ تھا کہ یہ محمد بن اسحاق کو ضعیف کھیگا تو میں فتح القدیر ،نصب الرایہ وغیرہ سے اس کا
ثقہ ھونا ثابت کرونگا .لیکن ان کو پتا ھونا چاھیے کہ صرف آپ نے ھی نھیں دوسروں نے بھی کچھ
اصول پڑھے ھیں.
خیر طلب صاحب آپ اپنی سمجھ کے بجائے میرے الفاظ کو دیکھ کر جواب لکھیں .میں نے بھی
جواب لکھتے وقت ھی ساری باتیں لکھی ہیں نہ کے بیچ میں
ي بْنُ مسلم کی روایت کی تائید میں جناب نے ابن ماجہ سے روایت پیش کی کہ َ - 121حدهثَنَا َ
ع ِل ُّ
س ْع ِد ب ِْن أ َ ِبي
ع ْن َالرحْ َم ِنَ -ع ْبد ُ ه سا ِبطٍ َ -وھ َُو َ ع ْن اب ِْن َ سى بْنُ ُم ْس ِل ٍمَ ، ُم َح همدٍَ ،حدهثَنَا أَبُو ُم َعا ِو َیةََ ،حدهثَنَا ُمو َ
س ْعد ٌَ ،وقَالَ: ب َ َض َع ِلیًّا ،فَنَا َل ِم ْنهُ ،فَغ ِ علَ ْی ِه َ
س ْعد ٌ ،فَذَ َك ُروا َ ض َح هجا ِت ِه ،فَدَ َخ َل َ اص ،قَالَ :قَد َِم ُم َعا ِو َیةُ ِفي َب ْع ِ َوقه ٍ
سله َم ....الخ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شعیب علَ ْی ِه َو َ ص هلى ه
َّللاُ َ سو َل ه ِ
َّللا َ - س ِم ْعتُ َر ُ تَقُو ُل َھذَا ِل َر ُج ٍل َ
دعوی ھے کہ سیدنا ارنووط رقم طراز ہے :حدیث صحیح ،وھذا سند رجاله ثقات الجواب .جناب کا ٰ
علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے تھے سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ ،1 .اس روایت میں کھیں بھی
نھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا کو گالیاں دی گئی ، 2 .مسلم میں میں بقول جناب کے حکم ھے سب کا،
اور اس روایت میں ایسا کچھ نہیں.
Khair Talab
فخر الزماں صاحب میری باقی دو باتوں کا بھی جواب دیجئے تاکہ میں اپنا جواب بنانا شروع کروں۔۔
براہ کرم کوشش کیجئے مجھے ایک ہی بات کو مختلف مرتبہ نہ دھرانا پڑے۔ شکریہ
Fakhar Ul Zaman
آپ اپنے کمنٹس میں بتانا کہ میں نے آپ کی کس کس بات کا جواب نہیں دیا
Khair Talab
دوسری بات منھجی اعتبار سے اپ سے پوچھنا تھا کہ آپ کے مطابق اگر کوئی مجتہد کسی روایت
سے استدالل کرے تو کیا وہ قابل احتجاج ہوگا یا نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے بقول صاحب
کتاب اصل و اصول شیعہ آل کاشف الغطاء نے ایک روایت سے استدالل کیا اور مجھے ملزم کرنے
کی کوشش کررہے ہیں۔۔ یہ بتادیجئے۔ تیسری بات آپ نے ایک جگہ ایک مزید دلیل دینے کا فرمایا
تھا چنانچہ آپ یوں گویا ہوئے:
(دشمن جو فضیلت مانے وہ واقعی زیادہ قابل تعریف بات ھے تبھی تو میں نے شیعہ کتاب سے حوالہ
دیا اور آگے بھی دینے واال ھوں).
میں نے آپ کے جواب میں ابھی تک وہ شیعہ کتاب سے دینے واال ہوں کا حوالہ نہیں دیکھا وہ بھی
دے دیجئے تاکہ میں اس کا بھی جواب ساتھ ساتھ دے دوں۔
Fakhar Ul Zaman
اصل و اصول الشیعہ آپ کی کتاب نھیں ھے کیا جناب؟ اور میں کیا اور کب پیش کرونگا وہ میں
کسی سے پوچھ کر نھیں کرونگا اپنی مرضی کے مطابق کرونگا
اصل و اصول الشیعہ میں جو میں نے دلیل دی ھے یھاں یھی مراد ہے
احناف کے نزدیک اگر کوئی مجتھد کسی روایت سے استدالل کرتا ہے تو وہ صحیح ھوتی ھے اس
مجتھد کے لیے
Khair Talab
محترم آپ بات بات پر بڑے غصہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور کسی سے پوچھ کر نہیں اور فالں
فالں باتیں ،یہ اپنی خطیبانہ زندگی میں رکھیں تو مناسب ہے ،آپ سے پوچھا تھا نہیں دینا تو مسئلہ
نہیں۔۔ مجھے ایک کم بات ہی کا جواب دینا ہوگا۔ .باقی میں انشاء ہللا جواب دوں گا۔۔ اب جتنے دن میں
آپ نے مکمل کیا جو آج کا دن ہے تو انشاء ہللا اتنے دن کے اندر آپ کو جواب مل جائے گا ،باقی
باتیں میرے جواب میں۔
Fakhar Ul Zaman
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آپ نے کس لفظ سے سمجھ لیا کہ میں غصہ ھوگیا ھوں .اگر خطیبانہ
زندگی میری ھے ھی نھیں اور اگر ھو بھی تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ھونا چاھیے .اگر کسی
کو ہللا نے یہ خوبی نھیں دی تو وہ ہللا سے سوال کرے
Khair Talab
چلیں خوش ہوجائیں فخر الزماں صاحب خطیب صاحب۔۔ اب جواب کا انتظار کیجئے گا۔
Fakhar Ul Zaman
انتظار رہے گا .آپ بھی غصہ تھوک دیں میری خطیبانہ زندگی پر
Khair Talab
ہم اب محترم فخر الزماں صاحب کے اشکاالت اور جوابات شروع کرتے ہیں اور ہمارے جوابات
درج ذیل فصول میں ہوں گے
، ١صحیح مسلم کی روایت (اس ذیل میں ہم محترم فخر الزماں کے جملہ اعتراضات کے جوابات دیں
گے اور جن علماء کے کالم سے استدالل کیا گیا تھا مثل ابن تیمیہ ،محب ہللا طبری ،مال علی قاری۔۔
ان کی گلوخالصی پر جو محترم فخر الزماں نے کالم کیا ہے ان تمام کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور
ساتھ ساتھ دو مزید علماء اہلسنت کے نام اس ذیل میں بتائیں گے)
، ٢سنن ابن ماجہ کی روایت (واقعہ معاویہ اور سعد بن ابی وقاص) پر اعتراض کا جواب
،٣تاریخ دمشق از ابن عساکر کی روایت (واقعہ معاویہ اور سعد بن ابی وقاص) پر اعتراض کا
جواب
، ٤سب امیر ع پر معاویہ کی رضامندی پر ایک اور معنوی شاہد سنن اور مسند اہلسنت سے پیش کیا
جائے گا۔
، ٧اعالء السنن کی عبارت اور ابن عباس والی بات کا جواب (اس ذیل میں ہم نے مزید شواہد نقل
کئے ہیں کہ معاویہ اور اس کی حکومت کا کتنا بیھمانہ سلوک امیر المؤمنین ع کے چاہنے والوں کے
ساتھ ہوتا تھا)
، ٨معاویہ ،اموی اور حکمرانوں کا امیر المؤمنین ع پر سب کرنا علماء اہلسنت کے اقوال سے (اس
ذیل میں ہم نے جو ماضی میں ابن حجر اور ابن حزم کی عبارات کے جوابات پر اپنا تبصرہ دیا ہے
اور تین مزید اقواالت اس ذیل میں پیش کئے ہیں یعنی عالمہ شبلی نعمانی ،عالمہ زاھد کوثری اور
صاحب تاریخ ملت)
، ٩اصل و اصول الشیعہ کتاب سے پیش کردہ روایت جو ہم نے دی تھی اس پر محترم فخر الزماں کا
تبصرہ اور اس پر ہمارا جوابی نوٹ۔
،١٠خالصہ بحث۔
اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ بحث کو شروع کریں تو فخر الزماں صاحب کے تبصرہ کو قارئین پر ہی
چھوڑیں گے مثل ان کا یہ کہنا کہ ہم نے لمبے لمبے کمنٹ کئے۔۔ خدا شاہد ہے کہ ہم نے حتی
االمکان اپنی بات سے زیادہ دالئل پر ہی انحصار کیا ہے اور اس پر اپنا تبصرہ۔۔ اگر اس کو یہ لمبا
لمبا کہیں تو یہی کہا جائے گا کہ جب بحث کے مختلف جوانب کھلتے ہیں تو ان پر دالئل دینا
ضروری ہوجاتا ہے اور اگر اس کو آپ طوالت کا نام دیں تو دیتے رہیں۔۔ آپ کے کہنے سے میرے
جوابات کی کیفیت اور کمیت میں فرق نہیں آئے گا جب تک کہ وہ اصل موضوع پر رہیں۔
محترم نے مزید کہا کہ میں نے موضوع سے غیر متعلق ابحاث کیں تو یہ آپ کا تجزیہ ہے جو بالکل
غلط ہے۔۔ آپ کے کہنے کا میں پابند نہیں۔۔ قارئین خود فیصلہ کریں گے کہ کس کی دلیل موضوع
کے مطابق اور کس کی نہیں۔
محترم نے مزید کہا میں دوسری دلیل کو لے آیا تو اس کا جواب تو میں اس ہی مقام پر دوں گا جب
میں اپنا استدالل پیش کروں گا۔۔ البتہ میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ خود ان کے سواالت کے جوابات میں
دلیل دی گئی تھی۔۔ اگر یہ اپنے سوال ختم کردیں تو میں دالئل اضافی دینا ختم کردوں گا۔۔ یہ تو ہو
نہیں سکتا کہ آپ سواالت اور اعتراضات کی بھرمار رکھیں اور مجھے مجبور کریں کہ میں آپ کی
کتاب سے آئینہ نہ دیکھاؤں۔۔ انصاف ہونا ضروری ہے۔
محترم ن ے کہا کہ میں نے اصولوں کی پابندی نہیں کی تو ان تمام مزعوم باتوں کا جواب بھی انشاء
ہللا دے دیا جائے گا
ناظرین ہم نے مشہور و معروف روایت صحیح مسلم سے پیش کی تھی جس میں معاویہ نے سعد بن
ابی وقاص کو حکم سب دیا تھا
ناظرین ہم اس روایت پر کافی کالم کرچکے ہیں اور کافی سارے دالئل سے اس بات کا اثبات
کرچکے ہیں کہ ادھر معاویہ نے سب امیر المؤمنین ع کا حکم دیا تھا۔۔
اس ذیل میں جو ماضی میں حوالے جات سے مدد لئے گئے تھے وہ پیش خدمت ہے ،١ابن تیمیہ ،٢
مال علی قاری ،٣محب ہللا طبری۔ ان علماء سے ثابت کیا گیا تھا کہ ادھر حکم سب تھا اور پھر ہم
نے سنن ابن ماجہ اور تاریخ دمشق کی دو روایات کو بطور تائید پیش کیا تھا جو اس بات پر داللت
کرتی تھیں۔
اب جو اعترضات کئے گئے ہیں ان کا بالترتیب جواب دیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس بار دو مزید
علماء اہلسنت کے اقوال پیش کئے جائیں گے جو اس سب کے حکم کے اثبات میں ہیں ( ،١شاہ
عبدالعزیز دہلوی ، ٢معاصر شارح موسی شاہین) اور ایک مزید معنوی شاہد پیش کیا گیا ہے جو ان
سعید بن زید اور مغیرہ کے واقعہ میں ملتا ہے۔ طریقہ اور تقریب استدالل انشاء ہللا اپنے مقام پر نقل
کئے جائیں گے۔
آ ئے اب ہم ان جملہ اشکاالت کے جوابات دیتے ہیں جن کو محترم فخر الزماں نے نقل کئے ہیں۔
اور اس کمنٹ میں کھہ دیا کہ حکم واضح ھے .پہلے آپ خود ایک رائے قائم کرلیں پہر اعتراض
کرنا.
،2جناب کا یہ کھنا کہ
"سوال سب نہ کرنے کے بارے میں کیا گیا تھا تو حکم بھی اسی کا تھا"..
جناب یہ بات محتاج دلیل ھے کہ واقعی حکم سب کا ھی تھا ،ھوسکتا ھے کسی اور بات کا ھو؟ جب
حکم کے الفاظ ھی واضح نھیں تو کیسے یقین کے ساتھ آپ یہ کھہ سکتے ہیں؟
جب بقول آپ کے حکم محذوف ھی تو آپ اس محذوف کو متعین کرنے کی دلیل الئیں.
، 3جب یہ احتمال بھی موجود ھے کہ حکم کسی اور چیز کا تھا یا سب(گالی) کا ،تو آپ کا اس
روایت سے دلیل پکڑنا باطل.
کیونکہ آپ ھی اوپر اسی اصول کو اپناتے ھوئے میری ایک دلیل کا رد کرنے کی کوشش کرچکے
ھیں
اذا جاء االحتمال بطل االستدالل) ..
جواب :محترم ادھر بتحقیق اس ہی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میری دونوں باتوں میں کوئی تناقض
نہیں کیونکہ روایت میں اگرچہ جس چیز کا حکم ہے وہ بلفظہ موجود نہیں لیکن جو سیاق و سباق
اور جو دیگر قرائن ہیں وہ تمام اس حکم سب پر ہی داللت کرتے ہیں۔۔۔ اور اس حوالے سے ہم نے
آپ کو روایت پیش کی تھی جس میں تقریب استدالل یوں تھا کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جائے
گا اور اگر تعمیل حکم نہ کی جائے تو تو ہمیشہ اس کے متعلق ہی سوال کیا جائے گا۔۔ یعنی یہ تقریب
استدالل تھا کہ ابوبکر کو حکم نماز دیا گیا اور ابوبکر آگے نہیں بڑھے تو روایت کے جملہ ہے کہ
رسول ہللا ص نے ابوبکر سے نماز نہ پڑھانے کے متعلق ہی سوال کیا۔۔ یعنی یہ اتنی آسان بات ہے
کہ ہر کوئی سم جھے گا اور یہی بات میں نے ادھر بھی رکھی کہ جب کسی چیز کا حکم دیا گیا (جو
روایت صحیح مسلم میں بظاھر موجود نہیں) تو معاویہ کا سوال کرنا اس پر ہی داللت کرتا ہے۔ آپ
میرے اصول پر نقد پیش کی جئے۔ اس پر جناب فرماتے ہے
(الجواب.
جناب نے اب تک جو مثالیں بھی دی ھیں وہ ان کے دلیل سے مطابقت رکھتی ھی نھیں .اب اس مثال
کو بھی دیکھیں.
اس روایت میں حکم واضح ھے نماز پڑھانے کا ،اس کے برعکس مسلم والی روایت میں سب
(گالی) کا حکم واضح ھی نھیں.
ادھر بھی واضح طور پر ثابت ہوا کہ جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کے متعلق ہی سوال ہوتا
چنانچہ اگر سوال کسی چیز پر موجود ہو اور اس کا حکم پہلے بیان نہ بھی ہو تو جب بھی محاورے
عرب کے تحت جس چیز کے متعلق سوال ہو اس کے متعلق ہی حکم سمجھا جائے گا۔
اور اب ایک روایت پیش خدمت ہے جس میں حجاج ایک شخص کو قتل کا حکم دیتا ہے( :أ َ هن ْال َح هجا َج
ع ْب ِد ہللاِ بِقَتْ ِل َر ُج ٍل ) اور نہ کرنے کی صورت میں پوچھتا ہے کہ قتل کیوں نہیں کیا (فَقَا َل أ َ َم َر َ
سا ِل َم بْنَ َ
لَهُ ْال َح هجا ُجَ :ما َمنَعَكَ ِم ْن قَتْ ِل ِه؟) (مالحظہ ہو معجم الکبیر للطبرانی جلد ١٢ص )٣١٢۔۔ چنانچہ ادھر
بھی ثابت ہوا کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جائے گا تو اس ہی کے متعلق سوال ہوگا (اس
صورت میں اگر اس حکم کی بجا آوری نہ ہو)۔۔ اب اس پر مزید کالم کرنا بیکار ہے اور یوں ثابت
ہوا کہ ادھر سب ہی کا حکم تھا۔۔ مزید تفصیالت شاہ عبدالعزیز اور موسی شاہین کے اقوال میں
دیکھئے گا۔
ع ِلیًّا فَقَدْ َ
سبه ِني» . ( َم ْن َ
سبه َ
جواب :خیر ابھی سب اور گالی والی بحث میں نہیں جاؤں گا۔۔ میرا کام فقط سب کا اثبات ہے لیکن
اس کے بعد جو بھی معنی لیں اس کا اطالق یقینا رسول ص پر بھی ہوگا اور جس معنی میں آپ امیر
ع کے لئے سب کو جائز سمجھتے ہیں تو سوال ہے کہ کیا اس معنی میں رسول ص پر سب کیا
جاسکتا ہے یا نہیں؟
ناظرین ہم نے ابن تیمیہ کے اقوال نقل کئے تھے اس بابت میں اور ہم آپ ترتیب وار محترم کے پیش
کردہ اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں۔۔
محترم فخر الزماں عرض کرتے ہے:
الجواب.
،1جناب آپ ابن مطھر حلی صاحب کے الفاظ دیکھتے تو یہ سوال نہ کرتے.
ان کے یہ الفاظ ھیں
وعن سعد بن أبي وقاص قال أمر معاویة بن أبي سفیان سعدا بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن
أبي طالب.
منھاج ص 19
یہ الفاظ عالمہ ابن تیمیہ کے جواب سے پہلے ابن مطھر حلی کے ھیں جن کو عالمہ ابن تیمیہ نے
جواب میں صرف نقل کیا ھے.
، 2رھا آپ کا نقد نہ کرنے کا سوال ،تو میں آپ کے سوال کرنے سے پہلے ھی جواب دے چکا تھا
جو میں دوبارہ کاپی پیسٹ کرتا ھوں ،شاید آپ کی نظر نھیں پڑی ھوگی اس پر.
یہ دیکھیں
شاید کوئی یہ کھے کہ پہر اس بات کا رد کیوں نہیں کیا عالمہ صاحب نے؟
تو عرض ھے کہ وھاں بحث امامت پر چل رھی ھے نہ کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں
دلوانے کی جو اس کی وضاحت عالمہ صاحب کر دیتے.
عالمہ صاحب خود لکھتے ہیں
وفیه ثالث فضائل لعلي لكن لیست من خصائص اْلئمة..
تو یھاں شیعہ جس مقصد سے یہ حدیث الیا ھے اس کا رد کیا جا رہا ہے)
جواب :محترم ادھر عبارت میں اگر کھیچ تان کے مان بھی لیا جائے کہ یہ شیعی لفظ تھے (بقول آپ
کے) تو پھر ابن تیمیہ اس کو اس ہی حد تک نقل کرتے بھال ابن تیمیہ کا یہ کہنا:
یح ِه
ص ِح ِ
ص ِحی ٌح َر َواہُ ُم ْس ِل ٌم فِي َ فَ َھذَا َحد ٌ
ِیث َ
یہ روایت بتحقق صحیح ہے اور اس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا
محترم۔۔ آپ پیچھے پورا عالمہ حلی کا کالم پڑھ لیجئے وہاں ہرگز ہرگز اس مصدر کا اشارہ ہی نہیں
بلکہ مجرد نقل روایت ہے اور ابن تیمیہ نے ادھر اس کو ،١صحیح کہا ،٢صحیح مسلم کی طرف
نسبت کی
اب بتائے کہ ب ھال کس طرح اس کو تفہیم ابن تیمیہ کہا نہ جائے جب کہ ابن تیمیہ نقل روایت اور
مخالف کی نقل روایت پر اتنے سخت تھے کہ ایک بار عالمہ حلی نے روایت نقل کی ( َم ْن َماتَ َ ،ولَ ْم
ام زَ َمانِ ِه َماتَ ِمیتَةً َجا ِھ ِلیهةً) اس کے جواب میں عالمہ ابن تیمیہ نے کہا:
ف إِ َم َ
یَ ْع ِر ْ
وز أ َ ْن یُحْ ت َ هج بِنَ ْق ٍل َ
ع ِن النهبِ ّ
يِ - ِیث بِ َھذَا الله ْف ِظَ ،وأَیْنَ إِ ْسنَادُہُ؟ َ .و َكی َ
ْف یَ ُج ُ یُقَا ُل لَهُ أ َ هو ًالَ :م ْن َر َوى َھذَا ْال َحد َ
سله َم -قَالَهُ؟ َو َھذَا لَ ْو
علَ ْی ِه َو َ صلهى ه
َّللاُ َ يَ - ق الهذِي ِب ِه َیثْبُتُ أ َ هن النه ِب ه ان ه
الط ِری ِ سله َم ِ -م ْن َ
غی ِْر َب َی ِ علَ ْی ِه َو َ صلهى ه
َّللاُ َ َ
ف؟ . ْ ه
ِیث بِ َھذَا اللف ِظ َال یُ ْع َر ُ ْ
ْف َو َھذَا ال َحد ُ ْ ْ ْ َ ْ
َكانَ َمجْ ُھو َل ال َحا ِل ِع ْندَ أ ْھ ِل ال ِعل ِم بِال َحدِیثِ ،فَ َكی َ
معترض سے کہا جائے کہ پہلے تو یہ بتاؤ کہ کس نے ان الفاظ میں اس روایت کو نقل کیا اور اس
کی اسناد کہا ہے؟ اور کس طرح جائز ہے کہ کوئی رسول ص سے روایت نقل کرے بغیر طریق سند
بیان کئے جو ثابت کرے کہ یہ رسول ص کا قول ہے؟ جب کہ یہ اہل علم حضرات جو حدیث پر نظر
رکھتے ہیں ان کے ہاں مجہول ہے۔ بھال کس طرح جب کہ یہ الفاظ غیر معروف ہے
حوالہ :منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة ،جلد اول ص ١١٠
تبصرہ :محترم ادھر تو ابن تیمیہ نے سخت ڈانٹ پالئی ہے کہ الفاظ روایت میں کوتاہی کی تو بھال یہ
طر ز فکر صحیح مسلم والی بات میں کیوں نہیں۔۔۔ محترم مان لیں کہ ابن تیمیہ کی تفہیم بھی ہمارے
موافق ہے حکم سب کے عنوان سے۔۔
محترم فخر الزماں پھر ان عبارات کی طرف آتے ہیں جن کو ہم نے ابن تیمیہ کے ہاں سے نقل کیا
ہے۔۔ ہم باری باری اصل عبارت پیش خدمت کرتے ہیں اور پھر فخر الزماں کا کالم اور پھر اپنا
جوابی تبصرہ۔
یہ بات معلوم شدہ ہے کہ صحابہ اور تابعین میں وہ افراد جنہوں نے امیر المؤمنین ع کے ساتھ جنگ
کی ،امیرالمؤمنین ع پر لعنت کی اور امیر المؤمنین ع کی مذمت کی وہ ان حضرات جو امیر
المؤمنین ع سے محبت کرتے تھے اور عثمان پر لعنت کرتے تھے کے مقابلہ میں زیادہ علم والے
اور دین کے حامل تھے۔
(الجواب.
،1خ یر طلب صاحب کی بڑی خامی یہ ھے کہ سیاق و سباق دیکھے بغیر بیچ میں سے عبارت کاٹ
کر بھیج دیتے ہیں جو ان کی مقصد کے مطابق بھی نہیں ھوتی.
پہلے حوالے میں عالمہ ابن تیمیہ ابن مطھر حلی شیعہ کو الزامی جواب دے رھے ھیں.
کیونکہ ابن مطھر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی امامت ثابت کرنے کے لیے یہ لکھا تھا کہ سیدنا
علی رضی ہللا عنہ کو موافقین و مخالفین دونوں برا بھال نھیں کھتے.
اس بات کا رد کرتے ہوئے عالمہ ابن تیمیہ نے یہ بات کھی ھے کہ سیدنا علی رضی ہللا کو برا
کہنے والے زیادہ اھل علم اور دیندار تھے اور سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کو برا کہنے والے شیعہ
ایسے نھیں.
اور شیعہ یہ بات مانتے ھیں کہ صحابہ کرام سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر لعنتیں کرتے ھیں ،تو اسی
کے مطابق شیعہ کو جواب دیا نہ کہ اپنا موقف بیان کیا) .
جوابی تبصرہ :محترم ادھر آپ خود تضاد کا شکار ہورہے ہیں کہ آپ لکھتے ہیں:
پہلی بات :ابن مطھر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی امامت ثابت کرنے کے لیے یہ لکھا تھا کہ
سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو موافقین و مخالفین دونوں برا بھال نھیں کھتے.
دوسری بات :شیعہ یہ بات مانتے ھیں کہ صحابہ کرام سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر لعنتیں کرتے ھیں،
تو اسی کے مطابق شیعہ کو جواب دیا نہ کہ اپنا موقف بیان کیا.
محترم کیا ابن مطہر شیعہ نہیں۔۔ اگر ابن مطہر یہ کہتے تھے کہ صحابہ امیر المؤمنین ع کو برا بھال
نہیں کہتے (جیسا آپ کا زعم ہے) تو پھر یہ الزامی جواب بن ہی نہیں سکتا ہے کہ صحابہ برا بھال
کہتے تھے۔۔ بلکہ اس کو تحقیقی جواب کہیں گے کہ دیکھو صحابہ تو امیر المؤمنین ع کو برا بھال
کہتے تھے تو تمہاری دلیل ٹوٹ گئی۔۔ الزامی جواب وہ ہوتا ہے جس کو خصم مانتا ہو اور خود آپ
کے اقرار کے مطابق خصم ابن مطہر الحلی کی دلیل ہی یہی تھی کہ صحابہ کو مخالفین و موافقین
دونوں برا نہیں کہتے تھے۔
دوسرا نقد آپ کے جواب پر یہ ہے کہ بھال الزامی جواب کہنا اس وقت درست ہوتا جب خود عالمہ
حلی امیر المؤمنین ع کو برا بھال کہنے والوں کو بہتر جانتے ہوتے بمقابلہ ان افراد کہ جو عثمان کو
برا بھال کہتے تھے۔۔ ہر شیعہ امیر ع پر سب کرنے والوں کو عثمان پر سب کرنے والوں کے مقابلہ
میں ہی نہیں سمجھتا یعنی ہم تو امیر ع پر سب کرنے والوں کو دیندار تو دور کی بات ہے اصال
مومن ہی نہیں سمجھتے۔۔ تو محترم یہ کس طرح الزامی جواب تصور کیا جاسکتا ہے جب کہ خصم
خود اس بات کو نہیں مانتا۔
اہل صفین نے ایک دوسرے پر لعنت کی تھی جیسے کہ امیر المؤمنین ع اور ان کے ساتھیوں نے
اپنے قنوت نماز میں بعض معین اشخاص پر لعنت کی تھی اہل شام میں سے ،اور یوں ہی اہل شام
لعنت کرتے تھے
اس کے جواب میں محترم فخر الزماں کہتے ہے:
( ، 2دوسرے حوالے کا بھی یھی حال ھے کہ آگے پیچھے کی بحث دیکھے بغیر ھی عبارت بھیج
دی.
یھاں ان چند لوگوں کی بات چل رھی ھے جیسے ابن جوزی اور کیالھراسی وغیرہ جو یزید کو لعنت
کرنے کے قائل ہیں .دیکھیں عبارت عالمہ ابن تیمیہ کی
ص َی ِة َو ِإ ْن لَ ْم َیحْ كُ ْم ِب ِف ْس ِق ِه َك َما لَ َعنَ أ َ ْھ ُل صفین َب ْع ُ
ض ُھ ْم .....الخ ب ْال َم ْع ِ
اح ِ
ص َِوقَدْ َیقُولُونَ ِبلَ ْع ِن َ
یعنی یزید پر لعنت کرنے والے لوگ صاحب معصیت(گناہگار) کو لعنت کا کھتے ھیں اگرچہ ان پر
فاسق کا حکم نھیں لگاتے جیسا کہ اھل صفین میں سے بعض ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے)
جواب :محترم ادھر ابن تیمیہ نے اس بات کا انکار ہی کب کیا۔۔ ادھر دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں کہ ابن
جوزی اور دی گر اہل علم اف اہلسنت اس بات کے قائل تھے کہ اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کیا
کرتے تھے اور ابن تیمیہ اس کا رد کرتے ہیں یا وہ نقل کرکے سکوت کرتے ہیں۔۔ دونوں صورتوں
میں کم سے کم اتنا تو ثابت ہوگا کہ بقول آپ کے ابن جوزی اور دیگر اہل علم اف اہلسنت اس بات
کے مقر تھ ے کہ اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے اور یہی ہمارا مقصود ہے کہ خود
علمائے اہلسنت اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ لعنت روا تھی۔۔ اور چونکہ ابن تیمیہ نے اس کا رد نہیں
کیا تو خود امام اہلسنت سرفراز صفدر کے مطابق ان کی موافقت ہی سمجھی جائے گی اور ان کی
عبارت قر ار دینا صحیح ہوگا۔۔ (دیکھئے یہ حوالہ آنے والی پوسٹ میں)۔
ابن تیمیہ کا اس پر سکوت کرنا بالکل صحیح بنتا ہے کیونکہ یہ بات روایت صحیح سے ثابت ہے۔
دیکھئے
اب ہم امیر المؤمنین ع کا جو طریقہ کار تھا اس کو نقل کرتے ہیں۔۔ یعنی امیر المؤمنین ع معاویہ،
عمرو بن عاص اور دیگر افراد پر ہللا تعالی کے حضور بددعا کرتے تھے۔ چنانچہ المصنف میں
روایت یوں درج ہے:
- 7050حدثنا :ھشیم ،قال :أخبرنا :حصین ،قال :حدثنا :عبد الرحمن بن معقل ،قال :صلیت مع
علي صالة الغداة ،قال :فقنت ،فقال في قنوته :اللھم علیك بمعاویة وأشیاعه ،وعمرو بن العاص ،
وأشیاعه ،وأبا السلمي وأشیاعه ،وعبد ہللا بن قیس وأشیاعه.
عبدالرحمان بن معقل فرماتے ہے کہ میں نے امیر المؤمنین ع کے ساتھ نماز پڑھی۔۔ تو امیر ع نے
اپنے قنوت میں یہ بددعا کی:
اللھم علیك بمعاویة وأشیاعه ،وعمرو بن العاص ،وأشیاعه ،وأبا السلمي وأشیاعه ،وعبد ہللا بن قیس
وأشیاعه.
اے ہللا۔۔ معاویہ اور اس کے شیعوں۔ عمرو بن عاص اور اس کے شیعوں ،ابو سلمی اور اس کے
شیوں ،عبدہللا بن قیس اور اس کے شیعوں کے خالف تجھ سے طلب کرتا ہوں۔
حوالہ :المصنف في اْلحادیث واآلثار ،جلد دوم ص ١٠٨۔
اور اسی طرح بیھقی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہے:
- 3142أخبرنا أبو بكر محمد بن إبراھیم الحافظ أنبأ أبو نصر أحمد بن عمرو العراقي ثنا سفیان بن
محمد الجوھري ثنا علي بن الحسن الداربجردي ثنا عبد ہللا بن الولید عن سفیان عن سلمة بن كھیل عن
عبد الرحمن بن معقل :أن علي بن أبي طالب رضي ہللا عنه قنت في المغرب فدعا على ناس وعلى
أشیاعھم وقنت بعد الركعة
عبدالرحمان بن معقل فرماتے ہے کہ امیر المؤمنین ع اپنی نماز مغرب کے قنوت میں بعض افراد اور
ان کے شیعوں پر بددعا کرتے تھے اور ان کا قنوت پہلی رکعت کے بعد ہوتا تھا۔
بطور شاہد ایک مزید روایت نقل کئے دوں جس میں لکھا ہے:
:أن علیا لما بلغه ما فعل عمرو كان یلعن في قنوته معاویة ،وعمرو بن العاص ،وأبا اْلعور السلمي ،
وحبیب بن مسلمة ،والضحاك بن قیس ،و عبد الرحمن بن خالد بن الولید ،والولید بن عتبة.
جب علی کو پتا چال کہ عمرو بن عاص نے کیا کیا ،تو امیر المؤمنین ع معاویہ ،عمرو بن عاص ،ابو
االعور السلمی ،حبیب بن مسلمہ ،ضحاک بن قیس ،عبدالرحمان بن خالد بن ولید ،ولید بن عتبہ اور ان
کے شیعوں پر لعنت کیا کرتے تھے۔
لہذا ثابت ہوا کہ امیر المؤمنین ع معاویہ ،عمرو بن عاص وغیرہ پر بددعا کیا کرتے تھے۔۔ اب
سوچئے جس پر آپ کے خلیفہ چہارم کی بہترین سی بددعا اس کے بارے میں نیک دعا کرنا کیسے؟
اور عثمان کے چاہنے والوں میں سے حضرات امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے اور اس بات کا
بھی کھلے عام اظہار کرتے تھے منبر اور دیگر جگاہوں پر( ،اس کی وجہ یہ تھی) کہ ان (عثمان
کے چاہنے والوں) اور علی ع پر درمیان جنگ ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ شیعان عثمان معاویہ کی رعایہ والے ہی تھے جیسے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہےَ :و َر ِعیهةُ
ُم َعا ِویَةَ ِشی َعةُ عُثْ َمانَ (دیکھئے منھاج السنتہ جلد ٥ص )٤٦٦
دعوی خاص
( ،تیسرا حوالہ بھی واضح نھیں کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ لعنت کرتے تھے ،آپ کا ٰ
دعوی پر عام دلیل دے
ھے اور دلیل عام دے رھے ھیں اور الٹا مجھے کھہ رھے ھیں کہ خاص ٰ
رھے ھو ،حاالنکہ میں آگے ثابت کرنے واال ھوں کہ میری دلیل عام نھیں خاص ھے.
اور شیعان عثمان میں صرف معاویہ رضی ہللا عنہ نھیں تھے بلکہ بنو امیہ کے عالوہ بھی بہت لوگ
تھے جیسا کہ اسی جگہ آپ کے حوالے کے تین صفحات پہلے یہ عبارت ھے
یعنی عثمان رضی ہللا عنہ کے شیعوں میں سے بنو امیہ اور اس کے عالوہ اور بھی تھے..
تو خیر طلب صاحب کے لیے یہ حوالے کچھ فائدہ مند نھیں جیسا کہ اوپر بیان ھو چکا.
جناب نے یہ بھی آگے کھا ھے کہ شیعان عثمان معاویہ رضی ہللا عنہ کی رعایہ تھی اور معاویہ
رضی ہللا عنہ شامیوں کا سرغنہ تھا......
الجواب.
جناب رعایہ کے برے اعمال کا ذمہ دار اگر حکمران یا سرغنہ ھوتا ھے تو یھاں کیا فرمائیں گے آپ
ا ،آپ صحابہ پر یہ طعن کرتے ھو کہ وہ جنگوں سے بھاگ جاتے تھے اور نبی کریم صلی ہللا علیہ
وسلم ان کے سردار تھے تو یہ اعتراض آپ کا اس اصول کے مطابق نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم
پر ھوتا ھے.
ب ،سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے لشکر میں جو غلط عقائد و اعمال والے لوگ تھے ان کا ذمہ دار
آپ کے اصول کے مطابق سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر ھوتا ھے.
اب آگے قارئین خود نتیجہ نکال لیں)
جواب :مح ترم ادھر استدالل اس عنوان سے ہے کہ یہ معاملہ معاویہ کی نگرانی ہوتا تھا اور معاویہ
نے اس پر نکیر نہیں کی کیونکہ خود ایک حوالے سے میں ثابت کرچکا ہوں کہ شیعان عثمان معاویہ
کی رعیت ہی میں تھے اور اگر رعیت میں منکر کام ہوں اور کوئی مصلحت بھی سکوت کا نہ ہو
اس کے باوجود اس پر نکیر نہ کی جائے تو یہ محل اشکال ہوگا۔ دیکھئے اس عبارت کو خود ابن
تیمیہ کی دوسری عبارت کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ فہم پر زیادہ زور لگانا نہ پڑے اور بات
آسانی سے واضح ہوجائے۔
ابن تیمیہ اپنی منھاج السنتہ میں ایک اور جگہ رقم طراز ہے:
عمومی عنوان سے بتحقیق صحابہ اور تابعین ابوبکر اور عمر سے مودت رکھتے تھے درحاآلنکہ
وہ بہترین زمانے والے افراد تھے لیکن حضرت علی کے ساتھ ایسا معاملہ نہ تھا کیونکہ بالشک و
شبہ کافی سارے صحابہ اور تابعین حضرت علی سے بغض رکھتے تھے۔
حوالہ :منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ٧ص ١٣٧
تبصرہ :محترم اب شیعان عثمان جن میں یقینا کچھ صحابہ بھی شامل تھے اور جن کا سربراہ معاویہ
تھا۔ اس کو دیکھئے اس عبارت کی روشنی میں کہ کافی سارے صحابہ اور تابعین امیر ع سے بغض
رکھتے تھے تو س مجھ آجائے گا کہ ادھر معاویہ بھی مراد ہے۔ خیر تطبیق کی صورت اب آپ کے
ذمہ میں ہے
اور اب ایک اور قول کو میں پیش کرتا ہوں تاکہ پوری بحث ہی کا خاتمہ کردیا جائے۔ ابن تیمیہ
کہتے ہے:
ار َبةَُ ،و َكانَ َھؤ َُال ِء َی ْل َعنُونَ ت ْال ُم َح َ يٍ ،فَإ ِ هن الت ه َالعُنَ َو َق َع ِمنَ ه
الطائِ َفتَی ِْن َك َما َو َق َع ِ ع ِل ّ َوأ َ هما َما ذَ َك َرہُ ِم ْن َل ْع ِن َ
َت ت َ ْقنُتُ َ
علَى طائِفَ ٍة َكان ْعائِ ِھ ْمَ .وقِیلَِ :إ هن كُ هل َ وس َھؤ َُال ِء فِي د ُ َ عائِ ِھ ْمَ ،و َھؤ َُال ِء یَ ْلعَنُونَ ُر ُء َ وس َھؤ َُال ِء فِي د ُ َ ُر ُء َ
صیبًا، س َوا ٌء َكانَ ذَ ْنبًا أ َ ِو اجْ تِ َھادًاُ :م ْخ ِطئًا أ َ ْو ُم ِ انَ ،و َھذَا كُلُّهُ َ س ِظ ُم مِنَ الت ه َالعُ ِن بِال ِلّ َْاْل ُ ْخ َرىَ .و ْال ِقت َا ُل ِب ْالیَ ِد أ َ ْع َ
ب ْال ُم َك ِفّ َرةِ َو َ
غی ِْر ذَلِكَ . اح َی ِة َو ْال َم َ
صا ِئ ِ ت ْال َم ِ َّللا َو َرحْ َمتَهُ تَتَن ََاو ُل ذَلِكَ ِبالت ه ْو َب ِة َو ْال َح َ
سنَا ِ فَإ ِ هن َم ْغ ِف َرة َ ه ِ
اور ابن مطہر کا جہاں تک امیر المؤمنین پر لعن کا ذکر کرنا ہے تو یہ دونوں گروہوں کی طرف
سے جنگ میں ایک دوسرے کے حق میں واقع ہوئی تھی۔۔ چنانچہ یہ حضرات دوسرے کے
سرداروں پر لعنت کرتے اور دوسرا گروہ پہلے کے سردراوں پر بددعا کرتے اور یہ بھی کہا گیا کہ
ہر ایک گروہ دوسرے پر قنوت (نازلہ) پڑھتا تھا۔۔ (خیر) جنگ تو بہرحال منہ سے لعنت سے زیادہ
بڑی چیز ہے اور یہ تمام چیزیں اگرچہ گناہ کے عنوان سے ہوں یا اجتہاد کے عنوان سے۔۔ خطا کار
ہوں یا حق پر ہوں۔۔ ان تمام صورتوں میں ہللا کی مغفرت اور رحمت ان تمام کو توبہ ،اچھے اعمال
اور مصائب و پریشانی وغیرہم کے ذریعے ختم کردیتی ہے
حوالہ :منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ٤ص ٤٦٨
تبصرہ :کیا فرمائیں گے محترم۔۔ ادھر تو فیصلہ ہی کردیا۔۔ اب یہ مت کہئے گا کہ معاویہ امیر
المؤمنین ع پر لعنت نہیں کرتا تھا۔۔ ابن تیمیہ سے جاکر مزید پوچھئے گا۔
اب ہم نے جو دو حوالے جات عالمہ محب ہللا طبری اور عالمہ مال علی قاری کے دئے تھے ان کے
جواب پر آتے ہیں
(
الجواب.
، 1انھوں نے روایت کے الفاظ نقل کیے ھیں اور جناب نے یہ سمجھا کہ یہ ان کے ھمنوا ھیں.
حدیث کے الفاظ پر نھیں آپ جو مطلب ان سے اخذ کر رھے ھیں اس سے ھم کو اختالف ھے.
مال علی قاری نے بھی ریاض النضرہ کے حوالے سے عبارت نقل کی ھے اور جناب نے الگ نمبر
دے کر ان کا نام بڑھایا ھے تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ اتنے سارے سنی علماء ھمارے ساتھ ھیں)
جواب :ادھر مجرد الفاظ روایت نقل میرا استدالل نہیں بلکہ جن الفاظ کو نقل کیا ہے اس میں واضح
طور پر یہ الفاظ ہیں جن پر اپنا ہلکا سا بھی تبصرہ نہیں کیا؛
یہ الفاظ محب ہللا طبری کے ہے جس کو مال علی قاری نے نقل کئے اور سکوت اختیار کیا (مزید
اس امر کی تفصیل آگے)۔
بقول آپ کے کہ جس چیز کا حکم تھا وہ حدیث میں نہیں ،میں نے کہا ادھر سب ہی کا حکم ہوسکتا
ہے۔ چنانچہ میں نے اس ذیل میں تفہیم محب ہللا طبری اور مال علی قاری نقل کیا ہے۔ آپ نے اس پر
کیوں تبصرہ نہیں کیا۔
اب آپ کا کہنا کہ میں نے نمبر بڑھانے کے لئے مال علی قاری کا حوالہ دیا ہے جب کہ وہ محب ہللا
طبری ہی کی عبارت ہے تو پیش خدمت ہے کہ بقول آپ کے امام اہلسنت جب کوئی مصنف اپنی تائید
میں حوالہ دے اور خاموش رہے تو وہ اس مؤلف کا بھی نظریہ ہوجاتا ہے۔
سوم جب کوئی مصنف کسی کا حوالہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے اور اس کے کسی حصہ سے
اختالف نہیں کرتا تو وہی مصنف کا نظریہ ہوتا ہے۔ حضرت مال علی قاری نے عالمہ بن مبارک رح
کا جو حوالہ اپنی تائید میں نقل کیا ہے وہی ان کا اپنا نظریہ ہے لہذا عالمہ ابن مبارک رح کے حوالہ
کو حضرت مال علی ن القاری رح کا حوالہ کہہ اور بتادینا بالکل صحیح ہے۔ اور اصول تالیف کے
ہرگز خالف نہیں ہے۔
تبصرہ :محترم فخر الزماں صاحب۔۔ میں آپ کو ہللا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ کا یہ
اعتراض مجھ پر ہے یا امام اہلسنت پر ہے؟ خیر فیصلہ کو کرنا ہے۔۔ مال علی قاری نے اگرچہ محب
ہللا طبری سے نقل کیا لیکن بہرحال اس پر نقد و جرح نہ کی اور نقل کیا تو خود اس سرفرازی قاعدہ
کے مطابق یہ ان ہی کا قول قرار پائے گا۔ باقی میں قارئین پر فیصلہ چھوڑتا ہوں۔
محترم فخر الزماں صاحب کو اب میں دو مزید حوالے اس روایت کے حوالہ سے ہی نقل کئے دیتا
ہوں۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی صاحب صحیح مسلم کی اس روایت کے بارے میں فرماتے ہے:
مسلم اور ترمذی میں حدیث شریف کا یہ لفظ ہے کہ معاویہ بن ابوسفیان ن سعد بن ابی وقاص سے
کہا کہ:
مامنعک ان تسب اباتراب :یعنی کس امر نے تم کو باز رکھا برا کہنے سے ابوتراب کے۔
بعض طرف دار معاویہ بن ابی سفیان کے اس لفظ کی تاویل کرتے ہیں ور کہتے ہیں کہ:
حضرت معاویہ کی مراد یہ تھی کہ کس واسطے حضرت علی المرتضی رض کے ساتھ تم سخت
کالمی نہیں کرتے اور تم نہیں سمجھاتے کہ قاتالن حضرت عثمان رض کی طرف داری سے وہ
دست بر دار ہوجائیں۔ اور ان پر قصاص جاری کرنے کے لئے ان کو ہمارے سپرد کردیں۔
لیکن اس توجیہ میں دو خدشے ہوتے ہیں۔ ایک خدشیہ یہ ہوتا ہے کہ اس مضمون میں الزم آتا ہے کہ
حضرت علی کرم ہللا وجھہ کے زمانہ حیات میں یہ گفتگو ہوئی اور تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ
حضرت معاویہ رض کے ساتھ سعد رض کی مالقات نہیں ہوئی۔ اس واسطے کہ سعد ابتداء فتنہ سے
موضع عقیق میں جو کہ مدینہ منورہ سے باہر ہے گوشہ نشین رہے۔ اور ان ایام میں مدینہ منورہ میں
حضرت معاویہ کے آنے کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ حضرت امام حسن رض اور حضرت معاویہ رض
سے صلح ہونے کے بعد حضرت معاویہ حج کے واسطے آئے اور اس وقت انہوں نے صرف مدینہ
کے لوگوں سے مالقت کی۔
اور دوسرا خدشیہ یہ ہوتا ہے کہ جواب سعد رض کا اما بما ذکرت فالنا الخ اس توجیح کے صراحتہ
منافی ہے ،اس واسطے کہ کسی شخص کے کثرت فضائل مانع نصیحت اور پندگوئی کے لئے مانع
نہیں ہوت ے۔ بلکہ بہتر یہی ہے کہ اس لفظ سے اس کا ظاہر معنی سمجھا جائے۔ غایتہ االمر اس کا
یہی ہوگا کہ ارتکاب اس فعل قبیح یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ رض سے صادر ہونا الزم
آئے گا۔ تو کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسالم میں ہوا ہے اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و
قتال سے ب ہت کم ہیں۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے:
سباب المؤمن فسوق و قتالہ کفر۔۔ یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر
ہے۔
اور جب قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقنی ہے اس سے چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ ان کو
مرتکب کبیرہ کا جاننا چاہئے۔۔۔الخ
وھذا تأویل واضح التعسف والبعد ،والثابت أن معاویة كان یأمر بسب علي ،وھو غیر معصوم ،فھو
یخطئ ،ولكننا یجب أن نمسك عن انتقاص أي من أصحاب رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم ،وسب علي
في عھد معاویة صریح في روایتنا التاسعة
اور یہ تاویل بہت زیادہ مشکل اور بعید ہے اور جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ معاویہ نے (سعد
کو) علی ع پر سب کا حکم دیا ،اور معاویہ معصوم نہیں بلکہ اس سے خطا صادر ہوئی لیکن ہم پر
واجب ہے کہ اصحاب رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی تنقیص نہ کریں۔ اور ہماری روایات میں معاویہ
کا سب علی کرنا بہت بالکل صریح (واضح) ہے
تبصرہ :محترم ہم نے آپ کو دو مزید حوالے دئے ہیں صرف اس حدیث کی تشریح پر ،،ماضی میں
آپ کو ابن تیمیہ ،محب ہللا طبری اور مال علی قاری کے دئے تھے چناچنہ ہماری تفہیم اور آپ کی
تاویل علیل کا رد خود آپ کے علماء کے کالم سے ثابت ہے
اس کے بعد اب ہم اصل داللت پر آتے ہیں کہ اس میں محترم فخر الزماں نے اعتراض کیا تھا کہ
معاویہ کا اعتراض موجود نہیں جو اس بات پر داللت کرتا ہے کہ معاویہ بھی فضیلت علی ع کا قائل
تھا۔۔ اس کے جوابات ہم نے دئے تھے جن پر جو تبصرہ آیا ہے وہ پیش خدمت ہے ہمارے جوابی
تبصرے کے ساتھ۔۔
(الجواب.
آپ کا ایک صحابی کو نبی پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ھے .کیونکہ نبی خود پر ایمان النے کی
دعوت خود دیتا ھے ،تو نبی کے فضائل کے اقرار کے ساتھ ان کو نبی بھی ماننا پڑتا ھے.
اور کسی صحابی کو اسی طرح ماننا ھوتا ھے جیسا قرآن اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے
فرمان سے ثابت ھو)
جواب :محترم یہ قیاس مع الفارق نہیں بلکہ اظہار حقیقت ہے کہ دشمن کا فضیلت کا انکار کرنا بلکہ
خود تعریف کرنا بھی اس کا اس شخص کے حوالے سے اچھے سلوک کی گارنٹی نہیں۔۔۔ آپ نے
میری کسی دلیل کا جواب نہیں دیا اور جو اقوال میں نے پیش کئے کہ تعریف وہ جو دشمن کرے اس
پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔۔ کیا آپ لوگ ثناء ہللا امرتسری کی جو تعریف کرتے ہیں تو کیا وہ ان
کو مسلک اہلسنت دیوبند کا ساتھی بنادیتا ہے؟
دیک ھئے تحریک ختم نبوت کے گرانقدر شخصیت موالنا ہللا وسایا تقدیم میں فرماتے ہے:
قدرت نے آپ (یعنی امرتسری از ناقل) کو فتنہ قادیانیت کے استیصال کے لئے ہی پیدا کیا تھا۔ (ص
)٤
تبصرہ :محترم کیا آپ کو ایک غیر مقلد جو بقول آپ لوگوں کے مرزائیوں کے پیچھے نماز کو
صحیح سمجھتا تھا اس کو مناظر اسالم اور فاتح قادیان تسلیم کریں گے تو تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ
آپ لوگ بالکل معاویہ کی طرح ہے جو آپ کے مبانی کے تحت کسی کی تعریف کا بھی معتقد ہو
اور اسی طرح وہ پھر برائیاں بھی کرتا ہو۔ جو جواب ادھر وہی ہمارا ،آپ مزید اس پر لکھنا بیکار
ہے۔
( ، 2باقی یہ بات تو ھم بھی مانتے ھیں کہ ان کا آپس میں اختالف ھوا تھا قصاص عثمان کے مسئلے
میں جو جنگ صفین کی وجہ بنا اور باآلخر صلح ھوئی.
اب اس صلح کے بعد ان باتوں کو دوبارہ اٹھا کر کسی ایک فریق پر کفر و نفاق کے فتوے لگانے
والی شرارتی فتنے باز ھیں) .
جواب :ہمیں نہ مقدمہ اولی منظور ہے اور نہ مقدمہ ثانی۔۔ مجرد آپ کا دعوی کوئی حیثیت نہیں
رکھتا۔۔ بلکہ معاویہ نے بعد از جنگ بھی فتنہ انگیزی کی اور ماقبل بھی عثمان کا قصاص (ہی)
حقیقتہ مورد جنگ نہیں تھا۔۔ چونکہ آپ نے اپنے مقدمہ پر دلیل دی تو میں بھی نہیں دیتا۔ جب آپ دیں
گے تو میں بعد بھی اس کی پوری تفصیل دون گا۔
(الجواب.
، 1ھم بھی یھی تو کھتے ھیں کہ شیعہ جو حب اھل بیت کے دعوے کرتے ھیں وہ سچے نھیں اور نہ
یہ دعوے ان کے محب اھل بیت ھونے کی دلیل ہے.
جناب نے یہ بات کر کے شیعہ کے بارے میں ھمارے خیال کے تائید کردی)
جواب :یہ کالم فارغ ہے جس کی کوئی علمی دنیا میں حقیقت نہیں ،آپ کا فہم کسی شخص پر حجت
نہیں۔ اس پر بحث کریں تو ہم بات کرتے ہیں کہ کون اہلبیت ع کی سچی اتباع کرتا ہے اور کون اپنی
اصول کی کتب میں اہلبیت ع کے قول کو غیر حجت سمجھتا ہے۔۔ فی الحال یہ بحث نہیں۔
( ، 2میں ان سے پوچھتا ھوں کہ ایک شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ان کے دور میں خالفت کا
زیادہ حقدار مانتا ھے ،نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جو ان کے فضائل بتائےھیں ان کو تسلیم
کرتا ھے ،ان کی موت پر افسوس کرتا ھے .تو کیا یہ شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ماننے واال
ھوا کہ نھیں؟
اس کا جواب دیں تاکہ آپ کی اوپر والی بات کا جواب دیا جا سکے) .
جواب :ان تمام کے دالئل نقل کریں پھر میں سند اور داللت دونوں پر بحث کرتا ہوں۔ صرف دعوی
کافی نہیں ،اگلی ٹرن میں تمام دالئل نقل کیجئے گا ان دعوؤں پر۔۔
( ، 3مشرکین جو توھیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی کرتے ھیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ھے،
ان کو جناب کس کھاتے میں ڈالیں گے؟)
جواب :وہ مشرکین مثل معاویہ تھے جو رسول ص اور اس کے وصی کو اذیت دیتے تھے۔ اور ان کا
کسی چیز کو معجزہ یا ان کی حقانیت کو تسلیم کرکے کفر و شرک کرنا آپ کے مبانی کے تحت مثل
معاویہ تھے جو امیر ع پر سب کرتے اور اذیت دیتے اور جن پر امیر ع بددعا کرتے لیکن پھر بھی
بعض اوقات آپ کے مبانی کے تحت وہ تسلیم فضیلت کرتے۔۔ یہ اعلی درجہ کے احتساب کا ضامن
بناتا ہے کہ فضیلت جان کر کفر کرنا۔
( ، 1اصل میں خیر طلب کے نزدیک کسی شخص کی تعریف کا معیار یہ ھے کہ اس کو صادق و
امین بھی مانے اور جادوگر ،مجنون بھی ساتھ میں مانے.
ان کے نبی ھونے کو جانتا بھی ھو اور ساتھ میں اس کی توھیں کرے بھی اور دوسروں سے
کروائے بھی.
کیونکہ جناب مشرکین و یھود کی مثالیں دے کر یہ کھتے ھیں کہ وہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی
فضائل کے قائل ہیں اور مشرکین و یھود کا حال وھی ھے جو میں بتا چکا ہوں.
، 2قرآن کو واقعی وہ معجز کتاب سمجھتے تھے لیکن یہ بھی کھتے تھے کہ محمد صلی ہللا علیہ
وسلم نے اپنی طرف سے گھڑا ھے اس کو.
، 3دشمن جو فضیلت مانے وہ واقعی زیادہ قابل تعریف بات ھے تبھی تو میں نے شیعہ کتاب سے
حوالہ دیا اور آگے بھی دینے واال ھوں).
جواب :محترم کے استدالل کی داد دینی پڑے گی کیونکہ جزئیہ سے کلیہ پر بغیر کسی قرینہ کے
استدالل کرنا ان ہی کو مبارک ہو۔۔ میں کب کہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان کی تعریف میں محو رہتے
تھے۔۔ میرا کام آپ کے کلیہ کے اصول کو توڑنہ تھا جو میں نے توڑ دیا۔۔ یعنی ان کی دشمنی کے
باوجود انہوں نے رسالت مآب ص کی تعریف کی۔۔
وھذہ الشھادة لكونھا من أھل العداوة حجة لما قیل الفضل ما شھدت به اْلعداء
اور یہ کافر کی شہادت جو اگرچہ رسول ص سے دشمنی رکھتا تھا حجت ہے کیونکہ کہا گیا کہ
فضیلت وہ جس کی گواہی دشمن دے۔
محترم محترم۔۔ یہی میرا استدالل ہے معاویہ کی تعریف ذرہ برابر بھی اس کے ایمان پر داللت نہیں
کرے گی کیونکہ اس سے سب ،اذیت دینا اور بغض امیر ع سب ثابت ہے تو اس صورت میں اس کو
دشمن اور عدو ہی تسلیم کیا جائے گا۔
محترم اگلی بار اتنا لکھنے کی ضرورت نہیں دو ٹوک بتائے کہ کیا مجرد تعریف کرنا ہر بار ان
دونوں کے اچھے تعلقات پر داللت کرتا ہے یا نہیں؟ مال علی قاری ،بیھقی وغیرھما کے اقوال ذھن
میں رکھ کر جواب دیجئے گا۔
(
باقی آپ کا یہ کھنا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ نے جنگ کی ،تو سوال یہ ھے کہ جنگ صفین کھاں
لگی تھی؟ کوفہ کے پاس یا شام کے پاس؟ اس سوال کے جواب سے یہ بات واضح ھوجائے گی کہ
کس نے جنگ کی تھی) .
جواب :جنگ معاویہ کی حرکتوں کی وجہ سے ہوئی تھی جو خلیفہ برحق کے خالف بغاوت کی اور
باغی خود احادیث نبوی سے معاویہ کے لئے ثابت ہے اور ایسے باغی سے جہاں جنگ ہو وہاں قتال
کرنا باعث اجر و ثواب ہے بشرط ایمان۔
(
رھا دیوبندی کی تکفیر کا مسئلہ تو کافر تو خارجیوں نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو .بھی کھا ھے
نعوذ باہلل.
اور جو سنجیدہ قسم کے علماء دیوبندی علماء کی تعریف کرتے ہیں وہ ان کو کافر نھیں کھتے)
جواب :ادھ ر محترم یہی سمجھانا چارہا ہوں کہ ان کی تکفیر کرنا اور ان کی تعریف۔۔ دونوں میں
تطبیق کس طرح دیں گے تو یہی کہیں گے کہ دشمن ہو کر تعریف کی جارہی ہے وہ تعریف کسی
چیز پر داللت نہیں کرتی اگر خارج میں مخالفت موجود ہو۔۔ اور معاویہ کا جنگ کرنا تعریف کے
باوجود واضح طور پر اس پر داللت کرتا ہے۔ دیکھئے اس روایت کو:
حدثناہ أبو العباس محمد بن یعقوب ثنا العباس بن محمد الدوري ثنا مالك بن إسماعیل ثنا أسباط بن نصر
الھمداني عن إسماعیل بن عبد الرحمن السدي عن صبیح مولى أم سلمة عن زید بن أرقم :عن النبي
صلى ہللا علیه و سلم أنه ق ال لعلي و فاطمة و الحسن و الحسین :أنا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم
رسول ص نے امیر المؤمنی ،سیدہ زھرا ،امام حسن ع اور امام حسین ع کو مخاطب کرکے کہا میری
جنگ ان سے جن سے تم جنگ کرو اور میری صلح ان سے جن سے تمہاری صلح
موجودہ دور کے محقق حسین سلم اسد اس روایت کو نقل کرتے ہیں اور تعلیق میں فرماتے ہے:
إسنادہ حسن ،أسباط بن نصر بسطنا القول فیه عند الحدیث المتقدم برقم ( ،)1524والسدي ھو إسماعیل
بن عبد الرحمن ،وصبیح مولى أم سلمة ترجمه البخاري في = = الكبیر 317 /4ولم یورد فیه جرحا ً وال
تعدیالً ،وتبعه على ذلك ابن أبي حاتم في "الجرح والتعدیل" ،450 - 449 /4وذكرہ ابن حبان في ثقاته
، 382 /4وقال الذھبي في كاشفه" :وثق" .وصحح الحاكم حدیثه ،ووافقه الذھبي.
حوالہ :موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان جلد ٧ص ٢٠٢-٢٠١
لہذا یہ حدیث مزید بتاتی ہے کہ معاویہ کا جنگ کرنا گویا رسول ص سے جنگ کرنا تھا۔۔ اب یہ نقد
ہے اور معاویہ کا بشرط تسلیم تعریف ہے تو بتائے کیا تطبیق ہوگی۔
(ال جواب .عرض ہے کہ میں اعم نھیں اخص صورت کی ھی بات کررھا ھوں ،وہ اس طرح کہ ایک
شخص جو حکمران ھو طاقت اس کے پاس ھو ،وہ کسی دوسرے سے (بقول شیعہ) سخت دشمنی
بھی رکھتا ہو ،اس سے جنگ بھی کی ھو ،اس کو ممبروں پر خطبوں میں خود بھی گالیاں دیتا ھو
اور دوسروں سے بھی دلواتا ھو .وہ اپنے ایسے دشمن کی تعریفیں سن کر پہر بھی خاموش رھتا ھے
تو یہ بالکل اس بات کی دلیل ھے کہ وہ اس کے فضائل مانتا ھے) .
جواب :معاویہ کا سب و شتم کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ جب مغیرہ بن شعبہ کو گورنر
بنایا تو اس وقت بھی یہ چیز چلتی رہی۔۔ دیکھئے خاموشی کا بیان کی کافی صورتیں ہوسکتیں ہیں
کبھی دالئل سے مغلوب ہوکر بھی انسان خاموش ہوجاتا ہے اور اس پر میں نے شافعی کا قول دیا تھا۔
شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت کبھی مختلف
دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے ،کبھی کسی انسان کے
وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے ،کبھی اس انسان کے رعب کی وجہ سے ،کبھی فتہ کے
خوف کی وجہ سے ہے یا ان کے عالوہ یا جیسے کہ ہر مجتہد اس میں صحیح ہے اس وجہ سے،
کبھی دوسرا آدمی عمر میں بڑا ہوتا ہے ،یا عزت میں زیادہ ہوتا ہے۔
اس پر محترم نے تمام جو احتماالت پیش کئے ان تمام پر بیان نہیں فرمایا۔۔ ہم کہتے ہیں کہ اس میں
کتے احتماالت سکوت ہے اور ان میں تعارض ادلتہ (یعنی مختلف دالئل کا تعارض ہونا ہے) تو کیا
پتا معاویہ اس وجہ سے خاموش ہوا ہو۔۔ دلیل دینا آپ کے ذمہ میں ہے کہ وہ خاموش تسلیم فضائل و
شیر و شکر رشتہ کے تحت ہوا۔۔ تفضل دلیل دیجئے مجھے۔ اور بعض روایات میں سعد بن ابی
وقاص کا فورا چلے جانا لکھا ہے جیسا کہ تاریخ بن عساکر سے میں نے نقل کیا تھا (اس پر جواب
آگے آرہا ہے):
اور مجھے کوئی دلیل واضح چاہئے آپ کے تعین کے اثبات میں۔۔ ورنہ کالم فارغ نہیں چلے گی۔۔
بالخصوص اس امر پر کہ خود معاویہ نے مغیرہ کو جب گورنر بنایا تو اس وقت بھی یہ صورتحال
تھی۔۔ ہمارے پاس دالئل ہیں اور آپ کے صرف اراء۔
، ٢سنن ابن ماجہ کی روایت (واقعہ معاویہ اور سعد بن ابی وقاص) پر اعتراض کا جواب
ہم نے سنن ابن ماجہ کی ایک روایت پیش کی تھی جس میں اس بات کا اثبات تھا کہ معاویہ نے امیر
المؤمنین ع کی تنقیص کی اس کے جواب میں محترم نے فرمایا:
( ، 1 .اس روایت میں کھیں بھی نھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا کو گالیاں دی گئی ،2 .مسلم میں میں
بقول جناب کے حکم ھے سب کا ،اور اس روایت میں ایسا کچھ نہیں)
جواب :محترم پھر سے روایت پڑھیں ،قارئین کی سہولت کے لئے پھر سے لگادیتا ہوں۔ یہ روایت
ہے:
ب ع ِلیًّا ،فَنَا َل ِم ْنهُ ،فَغ ِ
َض َ علَ ْی ِه َ
س ْعد ٌ ،فَذَ َك ُروا َ ض َح هجاتِ ِه ،فَدَ َخ َل َ اص ،قَالَ :قَد َِم ُم َعا ِو َیةُ فِي َب ْع ِ س ْع ِد ب ِْن أ َ ِبي َوقه ٍ َ
ي ه
سل َم -یَقُولَُ " :م ْن كُ ْنتُ َم ْو َالہُ فَعَ ِل ٌّ علَ ْی ِه َو َ صلى ه ُ
َّللا َ ه س ِم ْعتُ َرسُو َل ه ِ
َّللا َ - س ْعد ٌَ ،وقَالَ :تَقُو ُل َھذَا ِل َر ُج ٍل َ َ
س ِم ْعتُهُ یَقُولُ:
ي بَ ْعدِي"َ ،و َ سى إِ هال أَنههُ َال نَبِ ه َارونَ ِم ْن ُمو َ س ِم ْعتُهُ یَقُولُ" :أ َ ْنتَ ِم ِّني بِ َم ْن ِزلَ ِة ھ ُ
َم ْو َالہُ" َو َ
َّللا َو َرسُولَهُ "؟ "ْلُع ِْط َی هن ه
الرا َیةَ ْال َی ْو َم َر ُج ًال ی ُِحبُّ ه َ َ
سعد بن ابی وقاص فرماتے ہے کہ معاویہ اپنی بعض حوائج کو لے کر ان کے پاس آیا ،پس وہ سعد
کے ہاں مالقات کے لئے آیا ،اور امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی
جس کے بعد سعد بن ابی وقاص غضباک ہوگئے (غصہ میں آگئے) اور پھر رسول ص کی زبانی
تین فضائل امیر ع کا ذکر کیا یعنی ،١حدیث من کنت موالہ ،٢حدیث منزلت ،٣حدیث خیبر
(ملخص)
ادھر لفظ نَا َل ِم ْنهُ ہے اور یہ واضح طور پر تنقیص کے لئے آتا ہے۔۔ اور یہی اثبات امر ہے کہ
معاویہ خود تنقیص کرتا تھا اور دوسروں کو تنقیص کا حکم دیتا تھا اور دوسروں کو کہنے پر یہ
الفاظ مستدل ہے۔۔ قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ
ض َح هجاتِ ِه۔۔ یعنی بعض حوائج کو لے کر سعد کے پاس آیا۔۔ اور
نالہ منہ کا یہی معنی ارباب لغت کرتے ہیں اور اگر اس کا ہلکا سے ہلکا معنی بھی لیں تو یہ حد
تنقیص تک ضرور جاتا ہے اور اس صورت میں معاویہ کا نفاق پھر بھی ثابت ہوتا ہے۔۔
قوله" :نال منه" أي أصاب منه ،أراد :تكلم في حقه بما یسوؤہ
اور اس شخص کا کہنا "نال منه" یعنی اس سے وہ چیز پہنچی۔۔ مراد یہ ہے کہ اس شخص نے
دوسرے کے حق میں ایسی بات کہی جو اس کی برائی پر مشتمل تھی۔
حوالہ :نخب اْلفكار في تنقیح مباني اْلخبار في شرح معاني اآلثار جلد ٤ص ٧٢
ابھی میں فی الحال دو ہی حوالے جات سے کام چالؤں گا واال اس پر اتنے سارے حوالے ہیں کہ اس
کا انکار ممکن نہیں۔۔ پھر صحیح مسلم کی روایت کو ذہن میں رکھیں جس میں علی ع سے صرف
مومن محبت کرے گ ا اور صرف منافق بغض رکھے گا۔۔ سعد کا غضبناک ہونا مزید بتاتا ہے کہ یہ
معاملہ کتنا سخت تھا۔ ان الفاظ اور سعد کا غضب دونوں بتاتے ہیں کہ معاویہ نے نفاق پر مشتمل بات
کہی۔
، ٣تاریخ دمشق از ابن عساکر کی روایت (واقعہ معاویہ اور سعد بن ابی وقاص) پر اعتراض کا
جواب
ناظرین ہم نے تاریخ ابن عساکر سے ایک روایت نقل کی تھی جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
جب معاویہ گارغ ہوگیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کے لے کر دار الندوہ میں داخل ہوا اور سعد بن ابی
وقاص کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور پھر معاویہ نے امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر
المؤمنین ع کی تنقیص کی تو سعد نے طور احتجاج کہا کہ تم مجھے ہاں الئے اور اپنے پلنگ پر
صرف اس وجہ سے بٹھایا کہ تم امیر المومنین ع پر شتم کرو۔۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس وہ تین
فضائل ہوتے جو علی ع کے پاس ہیں وہ مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہوتے جس پر
سورج چمکتا ہے اور پھر ،١حدیث مزنلت ،٢حدیث خیبر ،٣سیدہ فاطمہ ع کا شوہر ہونا کہا ہے۔۔
(آخر میں سعد فرماتے ہے) اے معاویہ میں آج کے بعد تیرے پاس کبھی نہیں آؤں گا اور پھر چلے
گئے (ملخص فقط)
( ٩الجواب .ان کو بھی پتہ ہے کہ اس روایت میں کچھ علت ھے جو یہ روایت قابل استدالل نھیں .اس
میں محمد بن اسحاق ھے جو شیعہ ھے .عالمہ ابن حجر تقریب التھذیب میں لکھتے ہیں محمد بن
اسحاق بن یسار ....رمی بالتشیع .کہ یہ شیعہ تھا .یھی بات تاریخ بغداد ج ،١سیر اعالم النبالء میں بھی
ھے .اور یہ ا صول ھے کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں قابل قبول نہیں .پہر جناب
لکھتے ہیں تبصرہ :اس روایت کی سند میں راویان بظاھر ثقہ ہیں ،مجھے بعض علل معلوم ہیں جو
محترم السکتے ہیں لیکن جب وہ الئیں گے تو اس کا جواب اس ہی فقط احنافی منھج کے مطابق ہوگا۔
الجواب .ا ن کے ذھن میں یہ تھا کہ یہ محمد بن اسحاق کو ضعیف کھیگا تو میں فتح القدیر ،نصب
الرایہ وغیرہ سے اس کا ثقہ ھونا ثابت کرونگا .لیکن ان کو پتا ھونا چاھیے کہ صرف آپ نے ھی
نھیں دوسروں نے بھی کچھ اصول پڑھے ھیں)
جواب :اب محترم نے محمد بن اسحاق پر تشیع کا الزام اور تشیع کا ہونا قدح روایت والی بات کہی۔۔
اس پر میرے کچھ جوابات ہیں جو صغروی اور کبروی دونوں عنوان سے ہے۔
صغروی عنوان سے اس حوالے سے کہ تشیع خود ہونا جراح نہیں بلکہ تشیع خود ان کے ہاں مقبول
ہے اور بالخصوص محمد بن اسحاق خود اہلسنت کے ہاں امام المغازی اور امیر المحدثین ہے۔ میں
اس پر کچھ حوالے دیتا ہوں۔ اور تمام اقوال توثیق و جرح کو نقل کرنا یقینا طوالت کا باعث ہوگا اس
لئے میں فقط چیدہ چیدہ توثیقی کلمات دیتا ہوں اور پھر خود ان کے علماء کا مخلص فیصلہ عرض
خدمت کرتا ہوں۔۔ کیونکہ تقریبا ہر اہم راوی پر کوئی نہ کوئی توثیقی یا تجریح کا کلمہ یا کلمات
ہوتے ہیں۔ اور پھر میں سوال کروں گا کہ کیا امیر المؤمنین فی الحدیث ہونا ،امیر المحدثین اور امام
المغازی کہا جائے تو کیا وہ شیعہ ہے یا نہیں۔۔ اس پر میں کہوں گا دونوں صورتوں میں کہ یہ آپ
کے ہاں قابل احتجاج ہے۔
قال یونس بن بكیر :سمعت شعبة یقول :محمد بن إسحاق أمیر المحدثین لحفظه .
شعبہ کہتے ہے محمد بن اسحاق اپنے حفظ کی وجہ سے تمام محدثین کے امیر ہے۔
اب دیکھئے یہ فقط شعبہ جو متقدمین میں سے ہیں ان کی شہادت امیر المحدثین ،امیر المؤمنین ،سید
المحدثین کی ہے جو معمولی شہادت نہیں۔۔ آپ کسی شیعہ کو یہ بالکل نہیں کہیں گے۔ خیر اگر کہیں
بھی تو ہمارے لئے اعزاز ہے۔
اور خود تشیع کی جو تعریف متقدمین کے ہاں وہ متاخرین سے مختلف ہے۔۔ متقدمین کے ہاں یہ طے
شدہ بات ہے متقدمین کے ہاں تشیع سے مراد امیر المؤمنین ع سے محبت تھی۔۔ اور ساتھ ساتھ شیخین
سے محبت تھی۔ دیکھئے دکتور صالبی اس بحث میں فرماتے ہے:
فكان من آثار ذلك ما وقع فیه بعض الطلبة المبتدئین ممن ال یعرفوا حقیقة المصطلحات من الخلط الكبیر
بین أحكام الرافضة وأحكام الشیعة ,لما تقرر عندھم إطالق مصطلح التشیع على الرافضة ,فظنوا أن ما
ورد في كالم أھل العلم المتقدمین في حق الشیعة أنه یتنزل على الرافضة في حین أن أھل العلم یفرقون
بینھما في كافة أحكامھم
اور ان غلطیوں میں سے ایک جن میں عموما ابتدائی طالب علم حضرات جو مصطلحات وغیرہ کو
صحیح نہیں جانتے وہ پڑ جاتے ہے کہ وہ روافض اور شیعوں کی اصطالح کو خلط ملط کردیتے
ہیں کیونکہ وہ عادی ہوتے ہیں روافض پر شیعہ اصطالح استمعال کرنے پر تو وہ سمجھتے ہیں کہ
جو متقدمین علما نے شیعہ اصطالح استعمال کی ہے اس کا اطالق روافض پر بھی ہے جب کہ اہل
علم حضرات ان دو شیعہ اور روافض میں جملہ احکامات میں فرق کے قائل ہیں۔
حوالہ :أسمى المطالب في سیرة أمیر المؤمنین علي بن أبي طالب رضي ہللا عنه جلد ٢ص :٧٩٩
اگر شیعہ اس معنی میں ثابت بھی ہوجائیں جیسا آپ بتانے چارہے ہیں تو پھر بھی مسئلہ نہیں کیونکہ
آپ کے امام اہلسنت سرفراز صفدر رقم طراز ہے:
اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کا خارجی یا جہمی معتزلی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت
پر قطعا اثر اندار نہیں ہوتا اور صحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں۔ تدریب الراوی اور
ہدایت السائل میں ان کی کچھ نشاندہی کی گئی ہے۔
اب ہمیں پتا چل گیا کہ اصل جس کو بطور جرح نقل کیا جارہا ہے وہ جراح بنتی ہی نہیں۔۔ اور خود
ابن اسحاق ان کے ہاں امام المغازی ،امیر المؤمنین ،سید المحدثین وغیرہ ہے۔
اور اب میں آپ کو آخر میں اس تشیع والی بات پر خطیب البغدادی کا قول نقل کرتا ہوں:
وقد أمسك عن االحتجاج بروایات بن إسحاق غیر واحد من العلماء ْلسباب منھا أنه كان یتشیع وینسب
إلى القدر ویدلس في حدیثه فأما الصدق فلیس بمدفوع عنه
اور علماء ابن اسحاق کی روایت سے احتجاج میں تامل کرتے ہیں بعض اسباب کی وجہ سے جیسے
اس کی تشیع ،اور اس کا قدری ہونے کا انتساب اور اس کی تدلیس حدیث لیکن (جو اصولی بات ہے)
صدق بیانی ان تمام چیزوں سے زائل نہیں ہوتی
حوالہ :تاریخ بغداد جلد دوم ص ٢١۔
اب میں جمہور سے اس کی توثیق کے لئے عالمہ بدر الدین عینی کا ایک قول نقل کئے دیتا ہوں تاکہ
توثیقی عنوان سے بات ختم ہوجائے۔۔ عینی حنفی کہتے ہے:
تبصرہ :یوں توثیقی عنوان سے ہماری بات ختم ہوئی جس کو میں صغروی بحث سے تعبیر کروں
گا۔۔ اب م یں کبروی بحث پر آتا ہوں کہ کیا بدعتی کی روایت چاہے داعی ہو یا نہیں بقول ہے یا نہیں
تو جواب میں کہا جائے گا کہ مذھب حنفی یعنی ابوحنیفہ کے ہاں قابل قبول ہے۔ مالحظہ ہو سخاوی
کا قول:
قال الخطیب وحكى أیضا أن ھذا مذھب ابن أبي لیلى وسفیان الثوري ونحوہ عن أبي حنیفة بل حكاہ
الحاكم في المدخل عن أكثر أئمة الحدیث وقال الفخر الرازي في المحصول أنه الحق ورجحه ابن دقیق
العید وقیل قبل مطلقا سواء الداعیة وغیرہ
خطیب اور یہ اسی طرح ابن ابی لیلی ،سفیان ثوری اور اسی طرح ابوحنیفہ سے بھی منقول ہے بلکہ
حاکم نے کافی سارے آئمہ احا دیث سے نقل کیا۔۔ اور فخر الدین رازی نے محصول میں اور حق یہی
ہے اور ابن دقیق العید نے اس بات کو راجح قرار دیا کہ بدعتی کی روایت مطلق قبول ہے چاہے وہ
داعی ہو یا غیر داعی۔
یوں یہ روایت جس پر آپ نے تعلیل کی تھی ،اس جراح کو باطل ثابت کردیا گیا ہے
، ٤سب امیر ع پر معاویہ کی رضامندی پر ایک اور معنوی شاہد سنن اور مسند اہلسنت سے پیش کیا
جائے گا۔
اب میں ایک اور روایت اسی باب میں پیش کرتا ہوں جو اس بات پر داللت کرتی ہے کہ معاویہ کے
اشارہ ،رضا مندی کے تحت سب امیر المؤمنین ہوا کرتا تھا۔
حدثنا محمد بن العالء عن ابن إدریس أخبرنا حصین عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم وسفیان
عن منصور عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم المازني ذكر سفیان رجال فیما بینه وبین عبد ہللا بن
ظالم المازني قال سمعت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قال لما قدم فالن إلى الكوفة أقام فالن خطیبا
فأخذ بیدي سعید بن زید فقال أال ترى إلى ھذا الظالم فأشھد على التسعة۔۔الخ
عبدہللا بن ظالم کہتے ہ ے کہ میں سعید بن زید کو سنا کہ جب فالں شکص کوفہ آیا تو ایک فالں خطبہ
کے لئے کھڑا ہوا ،پس سعید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا تم اس ظالم کو دیکھو میں نو لوگوں
کی گواہی دیتا ہوں۔۔الخ
اب یہ دو فالن شخص کون ہے تو اس کی تصریح شمس الحق عظیم آبادی کرتے ہے:
( لما قدم فالن إلى الكوفة أقام فالن خطیبا ) :قال في فتح الودود :ولقد أحسن أبو داود في الكنایة عن
اسم معاویة ومغیرة بفالن سترا علیھما في مثل ھذا المحل لكونھما صحابیین
جب فالں شخص کوفہ اور فالں نے خطابت کی۔۔ تو فتح الودود میں ہے ،ابوداود نے اچھا کیا کہ
معاویہ اور مغیرہ کی جگہ کنایہ (فالن) استعمال کیا۔ تاکہ ان دونوں (کے جرم) کو چھپایا جائے
کیونکہ یہ دونوں صحابیوں میں سے ہے
- 1644حدثنا عبد ہللا حدثني أبي ثنا علي بن عاصم قال حصین أخبرنا عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا
بن ظالم المازني قال :لما خرج معاویة من الكوفة استعمل المغیرة بن شعبة قال فأقام خطباء یقعون في
علي قال وأنا إلى جنب سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قال فغضب فقام فأخذ بیدي فتبعته فقال أال ترى
إلى ھذا الرجل الظالم لنفسه الذي یأمر بلعن رجل من أھل الجنة فاشھد على التسعة۔۔۔الخ
عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ جب معاویہ کوفہ سے گیا تو اس سے مغیرہ بن شعبہ کو گورنر تعین
کیا۔۔ بہرحال مغیرہ نے بعض خطبہ دینے والوں کو اجازت دی جو امیر المؤمنین ع کی تنقیص و شتم
کرتے تھے۔۔ میں سعید بن زید کے ساتھ تھا جو شدید غصہ میں آئے اور کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ
پکڑا ،پس میں ان کے پیچھے ہوا اور کہنے لگے کیا تم اس شخص کو دیکھتے نہیں جو اپنے نفس
پر ظلم کرتا ہے اور جو ایسے شخص پر لعن کا حکم دیتا ہے جو جنت والوں میں سے ہے۔۔۔الخ
چنانچہ ثابت ہوا کہ ایک روایت کے تحت معاویہ کی موجودگی میں اور دوسری روایت میں معاویہ
کی گورنر شپ کے بعد مغیرہ نے یہ جرم انجام دیا۔۔ اور یہ بتاتا ہے کہ بنو امیہ کا عمومی رجحان
سب علی ع کے معاملہ میں بہت ہلکہ تھا۔ اور اس کی پوری قلعی صاحب شرح مسند احمد نے
کھولی ہے۔
(قلت) قوله فى الحدیث لما قدم فالن أقام فالنا الخ قال فى فتح الودود لقد أحسن أبو داود فى الكتایة عن
اسم معاویة والمغیرة بفالن سترا علیھما ْلنھما صحابیان أہـ عون المعبود (قلت) فظھر من ھذا أن القادم
ھو معاویة ابن أبى سفیان والخطیب ھو المغیرة بن شعبة وقد عرض فى خطبته بذم على ومدح معاویة
(( )4سندہ) حدّثنا على بن عاصم قال حصین أخبرنا عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم المازنى الخ
(غریبه) ( )5اى یسبونه وینالون منه كما في روایة أخرى والظاھر ان المغیرة ھو الذى أمر الخطباء لكن
جاء عند أبى داود فى ھذا الحدیث نفسه من طریق عبد ہللا بن ظالم أیضا قال سمعت سعید بن زید بن
عمرو بن نفیل قال لما قدم فالن (یعنى معاویة بن أبى سفیان) أقام فالنا خطیبا (یعنى المغیرة بن شعبة)
ویستفاد منه أن المغیرة ھو الذى خطب وفى الحدیث السابق أن الذى سب علیا رجل من الكوفة ممن
حضروا مجلس المغیرة ،ویمكن الجمع بین ھذہ الروایات بان المغیرة أقام احتفاال لمناسبة تنصیبه أمیرا ً
على الكوفة حضرہ معاویة وكثیر من وجھاء أھل الكوفة فأمر معاویة المغیرة بن شعبة أن یقوم خطیبا فى
ھذا الحفل فخطب ونال من على رضى ہللا عنه كما جاء فى طریق أخرى لألمام أحمد من حدیث عبد ہللا
بن ظالم أیضا قال خطب المغیرة ابن شعبة فنال من على فخرج سعید بن زید فقال (یعنى لعبد ہللا بن
ظالم) أال تعجب من ھذا یسب علیا ً فذكر فضل على وباقى العشرة المبشرین بالجنة رضى ہللا عنھم؛ ثم
أمر المغیرة بعض الحاضرین أن یقوموا خطباء فخطبوا ونالوا من على أیضا تأسیا بما فعله المغیرة ،ثم
جاء رجل من أھل الكوفة فأستقبل المغیرة وسب علیا أیضا ً كما فى الحدیث السابق ھذا ما ظھر وہللا أعلم
میں کہتا ہوں کہ روایت میں یہ آنا کہ فالں بندہ کوفہ آیا اور فالں نے خطابت کی۔۔ تو فتح الودود میں
ہے کہ ابوداود نے بہترین کام کیا کہ ادھر کنایتہ کام لیا یعنی فالن سے کام لیا اور معاویہ اور مغیرہ
کے ناموں کو چھپا کر رکھا کیونکہ وہ دونوں صحابی ہیں۔۔ (عون المعبود سے عبارت)۔۔ میں کہتا
ہوں کہ کوفہ آنے واال معاویہ تھا اور خطیب مغیرہ بن شعبہ تھا اور اس نے اپنے خطبہ میں حضرت
علی کی مذمت کی اور معاویہ کی تعریف کی۔۔۔۔ سند روایت۔۔ یعنی جو خطیب تھے وہ سب اور
تنقیص کیا کرتے تھے جیسے کہ دوسری روایت میں موجود ہے اور جو بات ظاھر ہے وہ یہ کہ
مغیرہ بن شعبہ وہ ش خص تھا جس نے خطیبوں کو حکم دیا (کہ وہ حضرت علی پر سب کریں)۔۔ لیکن
یہ روایت (سنن) ابوداود نے بھی نقل کی ہے اسی راوی عبدہللا بن ظالم سے جو سعید بن زید بن
عمرو بن نفیل سے سنتا ہے کہ جب فالں بندہ یعنی معاویہ آیا تو فالں بندہ خطابت کے لئے کھڑا ہوا
یعنی مغیرہ بن شعبہ۔۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مغیرہ خطیب تھا درحاآلنکہ اس سے پہلی
والی روایت میں جس نے سب کیا وہ ایک کوفی تھا اس مجلس میں جس میں مغیرہ بھی موجود تھا،
اب ان دونوں روایات کو جمع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مغیرہ نے ایک مجلس جشن منعقد کی
کیونکہ وہ کوفہ کا گ ورنر مقرر ہوا تھا پس اس نے خطاب کیا اور امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی
جیسے کہ مسند احمد کے ایک دوسرے طریق میں عبدہللا بن ظالم کی روایت میں آیا ہے کہ مغیرہ
کھڑا ہوا اور حضرت علی کی تنقیص کی پس سعید بن زید پس اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ پس وہ کہنے لگے
کہ تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ وہ حضرت علی پر سب کرتے ہیں پس انہوں نے علی کی فضیلت بیان
کی اور باقی عشرہ مبشرہ کی جنکو جنت کی بشارت تھی ،ہللا ان سے راضی ہو۔۔ اس کے بعد مغیرہ
نے بعض افراد جو وہاں موجود تھے ان کو حکم دیا کہ وہ خطابت کے لئے کھڑے ہوں پس انہوں
نے خطابت کی اور دوران خطابت امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی اس چیز کی پیروی کرتے ہوئے
جو مغیرہ نے (لعن علی کی) کی تھی۔ اس کے بعد ایک کوفی مغیرہ کے سامنے آیا اور حضرت
علی پر سب کیا جیسے کہ ماقبل کی حدیث سے ظاھر ہے ،وہللا اعلم
حوالہ :الفتح الرباني لترتیب مسند اْلمام أحمد بن حنبل الشیباني ،جلد ،٢٢ص ١٩١-١٩٠
تبصرہ :محترم فخر الزماں ان روایات اور تشریحات سے واضح ہے کہ معاویہ سب علی کی مجالس
پر کوئی ایکشن نہیں لیتا تھا۔۔ یہ کیسی محبت ہے جس میں دوسرے کی برائی بیان کی جائے اور وہ
کوئی نکیر نہ کرے۔ فیصلہ آپ پر اور قارئین پر۔
(الجواب.
سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کی اس شرط سے قطعا ً ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی
رضی ہللا عنہ پر سب کرتے تھے.
کسی چیز کے روکنے سے یہ الزم نھیں آتا کہ پہلے ایسا ھوتا تھا ،قرآن میں مسلمانوں کو کتنی
چیزیں سے روکا گیا ھے؟ تو کیا سارے مسلمان ان کو کرتے ھیں جو ہللا نے روکا؟
دعوی کے مطابق نھیں ھے) . بطور تنبیہ کہ بھی روکا جاتا ھے .تو آپ کی دلیل ٰ
جواب :محترم۔۔ ادھر شرائط طے کرنے کی بات ہورہی ہے۔۔ ہدایت نامہ اور پورا دستور نہیں دیا
جارہا۔۔ آپ کا قیاس مع الفارق باطل ہے کیونکہ جس چیز کی نہی کی جارہی ہے وہ چنیدہ ہے نہ کہ
غیبت ،تمہت ،کذب بیانی ،حسد اور باقی گناہوں کی لسٹ دی جارہی تھی۔۔ مجھے یہ بتائے کہ فقط
اس کا ہی تذکرہ کیوں کیا گیا اور باقی دیگر جرائم و گناہوں کی لسٹ کیوں بیان نہیں کی۔۔ جو چیز
ہورہی ہوگی اس کے منع کا ہی ہو کہا جاتا ہے شرائط نامہ میں۔۔ ورنہ قرآن میں کتنی جگہ اور
احادیث میں اسے کئی گنا زیادہ نہی وارد ہوئیں ہیں تو ان تمام کا ذکر امام حسن ع نے کیوں نہ کیا
اور خؤد روایات میں عدم توفق معاویہ کا بھی ذکر ہے تو یہ تو بذات خود اس بات کو تقویت دیتی
ہے کہ معاویہ سے یہ گناہ کا صدور ہو بھی رہا تھا اور وہ اس کو روکنے میں سنجیدہ بھی نہ تھا۔
چنانچہ مورخ ابن اثیر رقم طراز ہے:
ي
الكف عن شتم عل ّ
ّ وأال یشتم علیا ،فلم یجبه إلى
امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر ال مؤمنین ع پر شتم نہ کیا جائے تو معاویہ نے اس شتم علی
ع کو روکنے پر حامی نہ بھری۔
عن السب ف ََوأَن َال یسب علیا؛ فَلم یجب إِلَى ْال َك ّ
امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر المؤمنین ع پر سب نہ کیا جائے تو معاویہ نے اس کو
روکنے پر حامی نہ بھری۔
اس کے عالوہ بھی دیگر مصادر اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔۔ اب مجھے بتائے کہ کیا اب بھی
شک باقی رہتا ہے کہ معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہیں کرتا تھا۔
ناظرین بحث کے دوران محترم فخر الزماں نے صلح امام حسن ع پر بھی اعتراض کیا تو اس کا
جواب بھی دیتا چلتا ہوں۔۔ اس میں ایک تمہید کے بعد امام حسن ع کا اصلی نظریہ معاویہ کے بارے
میں نقل کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ عمار یاسر ع کا نظریہ بھی جو کافی ملتا جلتا ہے اور پھر
سکوت پر الزامی جواب۔
( اگر سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے تھے اور بقول آپ کے وہ
منافق تھے ،تو ایسے شخص کو اسالمی حکومت کا سربراہ بنانے واال امام رھ سکتا ھے؟
اب زرا اپنے امامو ں کی امامت کی بھی فکر کریں اور آپ کے مذھب میں بیان کردہ ائمہ کے شرائط
کو سامنے رکھ کر بتائیں.
اچھا ھوا آپ نے سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کا ذکر کر کے یہ بات کھول کر اس سوال کا موقعہ دیا)
جواب :محترم جس طرح کفار کے ساتھ صلح جائز ہے ویسے ہی معاویہ کے ساتھ جائز ہے۔۔ اور
امام حسن ع کے صلح کرنے سے ان کی امامت پر کوئی نقض نہیں آتا۔۔ یہ بات تو آپ کے ذمہ میں
ہے کہ آپ ثابت کریں کہ اس سے امام حسن ع کی عصمت اور امامت میں فرق آتا ہے۔۔ اور مزید
سنئے کہ امام حسن ع معاویہ کو ایک فاسق ہی تصور کرتے تھے۔۔ اور اس صلح کو ایک وقتی
ضرورت کے تحت ہی کیا گیا۔
اب میں عرض کروں کہ امام حسن ع معاویہ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے تھے۔۔ طبرانی نے ثقہ
راویوں کی سند سے روایت یوں نقل کی:
-2632حدثنا زكریا بن یحیى الساجي ،حدثنا محمد بن بشار بندار ،حدثنا عبد الملك بن الصباح
المسمعي ،حدثنا عمران بن حدیر ،أظنه عن أبي مجلز ،قال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فصعد عمرو المنبر ،فذكر
علیا ووقع فیه ،ثم صعد المغیرة بن شعبة ،فحمد ہللا وأثنى علیه ،ثم وقع في علي رضي ہللا تعالى عنه ،
ثم قیل للحسن بن علي :اصعد ،فقال :ال أصعد وال أتكلم حتى تعطوني إن قلت حقا أن تصدقوني ،وإن
قلت باطال أن تكذبوني فأعطوہ ،فصعد المنبر ،فحمد ہللا وأثنى علیه ،فقال :باہلل یا عمرو وأنت یا
مغیرة تعلمان أن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم ،قال " :لعن ہللا السائق والراكب " ،أحدھما فالن ؟
قاال :اللھم نعم بلى ،قال :أنشدك ہللا یا معاویة ویا مغیرة ،أتعلمان أن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم "
لعن عمرا بكل قافیة قالھا لعنة " ؟ قاال :اللھم بلى ،قال :أنشدك ہللا یا عمرو وأنت یا معاویة بن أبي
سفیان ،أتعلمان أن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم لعن قوم ھذا ؟ قاال :بلى ،قال الحسن :فإني أحمد ہللا
الذي وقعتم فیمن تبرأ من ھذا ،وذكر الحدیث .
عمرو بن عاص منبر پر بیٹھا ہے اور امیر المؤمنین کا ذکر کیا اور پھر ان کی تنقیص کی اور پھر
مغیرہ بن شبعہ منبر پر آیا اور ہللا کی حمد اور تعریف کی ،اور علی رضی ہللا عنہ کی تنقیص کی۔
اور پھر امام حسن ع سے کہا گیا کہ آپ بھی منبر پر بیٹھیں تو امام حسن ع نے کہا میں منبر پر اس
وقت تک نہیں بیٹھوں گا اور کالم کروں جب تک تم یہ گنجائش نہ دو کہ میں اگر حق بات کروں تو
اس کی تصدیق کرنا اور اگر باطل کہوں تو تکذیب کرنا۔۔ تو انہوں نے یہ گنجائش امام حسن ع کو دی
اور امام منبر پر بیٹھ ے تو ہللا کی حمد اور تعریف کی اور پھر کہا اے عمرو بن عاص اور مغیرہ ہللا
کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم دونوں کو معلوم نہیں کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ خدا کی
لعنت ہو سواری چالنے والے اور سواری پر بیٹھنے والے پر اور ان دو میں سے ایک فالن تھا تو
ان دونوں نے یک زبان کہا بیشک ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام حسن ع نے کہ ہللا کے واسطہ اے معاویہ
اور اے مغیرہ کیا تم دونوں نہیں جانتے کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ ہللا کی لعنت ہو عمرو پر
اتنی جتنے قافیہ اس سے کہے تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام ع نے کہا اے عمرو
بن عاص اور اے معاویہ بن ابی سفیان ہللا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول ص نے اس قوم
پر لعنت کی تھی؟ تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔ امام حسن ع نے پھر کہا کہ مٰ ں ہللا کی
تعریف کرتا ہوں۔۔۔الخ
اس روایت کو عالمہ ابوبکر ہیثمی نے بھی نقل کیا ہے اور کرنے کے بعد فرمایا:
رواہ الطبراني عن شیخه زكریا بن یحیى الساجي ،قال الذھبي :أحد اْلثبات ما علمت فیه جرحا أصال ،
وقال ابن القطان :مختل ف فیه في الحدیث ،وثقه قوم وضعفه آخرون ،وبقیة رجاله رجال الصحیح .
اس کو طبرانی نے اپنے شیخ زکریا بن یحیی الساجی سے نقل کیا اور ذھبی نے کہا کہ وہ سب سے
ثقہ راویوں میں سے ہے اور مجے اس پر کوئی جرح نہیں معلوم ،اور ابن قطان نے کہا یہ مختلف
فیہ ہے بعض نے توثیق کی اور بعض نے تضعیف۔۔ اور باقی راویان صحیح کے راویان ہیں۔
تبصرہ :اس روایت کے راویان ثقہ ہیں اور باقی ہیثمی کا تکلف اپنی جگہ لیکن مختلف فیہ راوی خود
آپ کے ہاں حسن الحدیث راوی ہوتا ہے اور روایت حسن درجہ سے کم کی نہیں ،یوں روایت قابل
احتجاج ہے۔ اور اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ امام حسن ع معاویہ ،مغیرہ اور عمرو بن عاص کے
بارے میں مذموم رائے رکھتے تھے۔
آپ کا امام حسن ع کا سربراہی حکومت کا اختیار دینے پر میں بتاتا چلوں کہ یہ چیز ہرگز خالفت
معاویہ کی حقانیت پر داللت نہیں کرتی اور نہ ہی امام حسن علیہ السالم کے لئے موجب قدح ہے۔
میں ابھی تحلیلی بحث میں نہیں جاسکوں گا لیکن مختصرا اتنا عرض کروں گا کہ اس کی مثال فتح
مکہ کے موقع پر امام حسن ع کے جد امجد رسالت مآب صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی صلح کے
مترادف ہے جس کو کرنے سے نہ ہی کفار کی حقانیت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی رسالت مآب ص
کے لئے موجب قدح ہے۔۔ اور رسول ص ہی ہمارے مطاع ہے۔
اب دیکھئے کہ اگر آپ کی اس دلیل پرعلیل کو لیا جائے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ معاویہ ابن عمر
اور عمر بن الخطاب دونوں سے افضل ہے۔۔ وجہ کیا ہے وجہ یہ روایت ہے۔
بخاری اپنی کتاب المغازی باب غزوة الخندق وھي اْلحزاب میں یوں روایت نقل کرتے ہے:
حدثني إبراھیم بن موسى أخبرنا ھشام عن معمر عن الزھري عن سالم عن ابن عمر قال وأخبرني ابن
طاوس عن عكرمة بن خالد عن ابن عمر قال دخلت على حفصة ونسواتھا تنطف قلت قد كان من أمر
الناس ما ترین فلم یجعل لي من اْلمر شيء فقالت الحق فإنھم ینتظرونك وأخشى أن یكون في احتباسك
عنھم فرقة فلم تدعه حتى ذھب فلما تفرق الناس خطب معاویة قال من كان یرید أن یتكلم في ھذا اْلمر
فلیطلع لنا قرنه فلنحن أحق به منه ومن أبیه قال حبیب بن مسلمة فھال أجبته قال عبد ہللا فحللت حبوتي
وھممت أن أقول أحق بھذا اْلمر منك من قاتلك وأباك على اْلسالم فخشیت أن أقول كلمة تفرق بین
الجمع وتسفك الدم ویحمل عني غیر ذلك فذكرت ما أعد ہللا في الجنان قال حبیب حفظت وعصمت قال
محمود عن عبد الرزاق ونوساتھا
ابن عمر نے بیان کیا کہ میں حفصہ کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک
رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت
نہیں ملی ۔ حفصہ نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔ کہیں
ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے ۔ آخر حفصہ کے اصرار پر
عبدہللا بن عمر گئے ۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضیاللہعنہ نے خطبہ دیا اور کہا
کہ خالفت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔ یقینا ً ہم اس سے زیادہ
خالفت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ ۔ حبیب بن مسلمہ نے ابن عمر سے اس پر کہا
کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبدہللا بن عمر نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی
کھولی ( جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خالفت کا
حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسالم کے لیے جنگ کی تھی ۔ لیکن پھر میں
ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختالف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور
میری بات کا مطلب میری منشا کے خالف نہ لیا جانے لگے ۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ
تعالی نے ( صبر کرنے والوں کے لیے ) جنت میں تیار کر رکھی ہیں ۔ ٰ نعمتیں یاد آ گئیں جو ہللا
حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لئے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے
محمود نے عبدالرزاق سے ( نسواتھا کے بجائے لفظ ) ونوساتھا بیان کیا ( جس کے معنی چوٹی کے
ہیں جو عورتیں سر پر بال گوندھتے وقت نکالتی ہیں )
اب اگر ابن عمر خوف فتنہ کی وجہ سے خاموش رہ سکتے ہیں تو یہی تجویز امام حسن ع کے لئے
کیوں نہیں۔۔ جب کہ اگر امام حسن ع کو عام بے گناہ مسلمانوں کے خون کے ضائع ہونے کا خدشہ
نہ ہوتا تو وہ ضرور جنگ کرتے۔۔ چونکہ امام حسن ع کے فوجیوں میں سے بعض نے ناانصافی کی
اور بعض جنگ کو تیار نہ ت ھے تو اس صورت میں جنگ کرنا بداہتہ بتا رہا تھا کہ مسلمانوں کا
صرف خون ہی ضائع ہوگا اور معاویہ کو شام سے ہٹانے کا مقصد بھی پورا نہیں ہوگا۔
اگر آپ کو اصحاب امیر المؤمنین کا نظریہ چاہئے ہو تو دیکھئے حضرت عمار بن یاسر کیا ارشاد
فرماتے ہے:
حدثنا أبي ،قال :حدث نا جریر ،عن اْلعمش ،عن منذر الثوري ،عن سعد بن حذیفة ،قال :قال عمار :
وہللا ما أسلموا ولكنھم استسلموا وأسروا الكفر حتى وجدوا علیه أعوانا فأظھروہ.
سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے (فوج معاویہ کو دیکھ کر کہا) ہللا کی قسم یہ اسالم (حقیقی)
نہ الئے بلکہ ا سالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ جب
انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردیا۔
حوالہ :تاریخ ابن أبي خیثمة -السفر الثاني ،جلد ، ٢ص ٩٩١
سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے صفین کے دن کہا ،درحاآلنکہ وہ ان (فوج شام) کے بارے
میں ذکر کررہے تھے اور صلح کے باتے میں تبصرہ کررہے تھے( ،اثنائے گفتگوں میں) پھر
فرمایا۔۔ ہللا کی قسم یہ اسالم (حقیقی) نہ الئے بلکہ اسالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے
کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردیا۔
طبرانی نے اس کو معجم الکبیر میں نقل کیا اور سعد بن حذیفہ کا ترجمہ مجھے نہیں مال۔
تبصرہ :واضح ہوا کہ عمار بن یاسر علیہ السالم فوج معاویہ اور خود معاویہ کو یونہی سمجھتے
تھے اور اب میں فیصلہ خود فخر الزماں اور قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ یہ منافق کی نشانی ہے جو
اسالم سے بغض اور کفر سے محبت کو دل میں رکھے اور ظاہر اسالم کرے۔۔
ہم نے اعالء السنن کی روایت سے ہی استدالل کرکے پوری تنقیح کی تھی جس پر محترم نے تبصرہ
نہیں کیا ہاں اگرچہ جو ابن عباس کی روایت بطور تائید پیش کی تھی اس پر ضرور تبصرہ کیا ہے۔
تو دیکھتے ہے پہلے محترم فخر الزماں کا کالم اور پھر میرا تبصرہ۔
(الجواب.
، 1نسائی کی روایت پر بحث مسلم والی روایت کے بعد ھوگی تاکہ ایک ایک دلیل پر تفصیلی بات
ھو اور دیکھنے والے صحیح سے سمجھ سکیں.
اور نسائی کی روایت تو ابن عباس رضی ہللا عنہما کی تقیہ کرنے والی بات کا واضح رد کررھی
ھے .ان دونوں میں سے آپ کو ایک بات کو صحیح کھنا ھوگا)
جواب :محترم جب آپ مجھ سے دلیل مانگیں گے تو میں دیگر قرائن میں اس کو مضبوط کرنے کے
لئے دیگر کتب کا تو سہارا لوں گا یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں اعالء السنن کی عبارت خود واضح ہے
لیکن اپنے دعوی کے اثبات میں ایک مزید دلیل پیش کی۔
دونوں میں سے دونوں باتیں صحیح ہوسکتی ہے اگر دو مختلف مواضع اور مختلف اوقات میں ہوں۔۔
ایک جگہ ظرف تقیہ ہو اور دوسری جگہ نہیں۔۔ یہ فقہی احکامات پڑھنے والوں پر مخفی نہیں۔۔
تناقض کا اثبات کا ذمہ آپ کا کام ہے۔ ایک جگہ وتر کا معاملہ ہے اور ایک جگہ دوسرا مسئلہ۔
(رھا ابن عباس رضی ہللا عنہ کا تقیہ کرنے والی بات ،تو یہ تو بعد کے علماء کی تاویالت ھیں نہ کہ
خود ابن عباس رضی ہللا عنہ کا قول ،اس کے برعکس ابن عباس رضی ہللا عنہ کا معاویہ رضی ہللا
عنہ کے پاس جانا ،ان کے تعریف کرنا اور عطیات لینا کتب تاریخ سے ثابت ہے جو نسائی والی
بحث میں سامنے آئیں گی).
جواب :ہمارے لئے آپ کی کتب بالکل حجت نہیں۔ لہذا ان تمام باتوں کا اثبات شیعہ کتب سے ضرور
کیجئے گا۔۔ باقی ابن عباس کا معاویہ کو گدھا کہنا ،بعض علماء کا انتساب تقیہ کرنا ،بغض علی کا
حامل کہنا اس کے مقابلہ میں آپ شیعہ کتب سے دلیل الئے گا جو قابل احتجاج ہو۔ باقی عطیات لینا
تو ظالم و جائر خلفاء سے آپ کے ہاں جائز ہے تو یہ دلیل آپ کے لئے نہیں بلکہ خالف بھی
جاسکتی ہے۔۔ مزید تفصیل جب ضرورت پڑے گی تو دالئل دئے جائیں گے لیکن آپ کو ذرا فقہی
حکم بتانا مقصود تھا۔
آپ ذیل میں آپ کو بعض اصحاب امیر المؤمنین ع کا حوالہ دیتا ہوں جنہیں معاویہ نے قتل کروایا۔
، ١حجر بن عدی اور ان کے ساتھی۔۔ حجر بن عدی کا شیعان امیر ع میں سے ہونا محتاج بیان نہیں۔۔
اور ان کا صحابی ہونا خود آپ کے کثیر کتب سے ثابت ہے۔۔ علی کل حال۔۔ ان کو اور ان کے
ساتھیوں کو معاویہ ہی نے قتل کروایا ،ابن اثیر رقم طراز ہے:
فأنزل ھو وأصحابه عذراء ،وھي قریة عند دمشق ،فأمر معاویة بقتلھم
پس حجر اور ان کے ساتھی مقام عذرا جو دمشق کے قریب ہے وہاں آئے ،اور معاویہ نے ان کے
قتل کا حکم دیا۔
، ٢محمد بن ابی بکر۔۔ یہ بھی محتاج تعارف نہیں۔ ابن حبان فرماتے ہے:
واستشار معاویة أصحابه في محمد بن أبي بكر وكان والیا علي مصر ،فأجمعوا على المسیر إلیه فخرج
عمرو بن العاص في أربعة اآلف ،فیھم أبو اْلعور السلمي ،ومعاویة بن حدیج ،فالتقوا بالمسناة وقاتلوا
قتاال شدیدا ،وقتل كنانة بن بشر بن عتاب التجیبي ،وانھزم محمد بن أبي بكر ،وقاتل حتى قتل وقد قیل
إنه أدخل في جوف حمار میت ،ثم أحرق بالنار فلما بلغ علیا سرور معاویة بقتله ،قال :لقد حزنا علیه
بقدر سرورھم بقتله.
معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے محمد بن ابی بکر جو اس وقت مصر کے گورنر تھے ان کے انجام
کے لئے مشورہ کیا تو وہ تمام اس پر متفق ہوئے کہ ایک چھوٹی فوج کو بھیجا جائے یوں عمرو بن
عاص چار ہزار فوجیوں کے ساتھ چڑھائی کے لئے نکل پڑا اور اس فوج میں ابو االعور السلمی،
معاویہ بن خدیج اور دونوں فوجوں کا مقابلہ مسانہ کے مقام پر گھمسان کا ہوا۔ اور کنانہ بن بشر اس
جنگ میں قتل ہوا اور محمد بن ابی بکر شکست کھاگئے اور لڑتے لڑتے قتل ہوگئے۔ اور کہا گیا کہ
کہ محمد بن ابکر کی الش کو گدھے کی کھال میں ڈال کر جالیا گیا اور جب یہ الش کو جالنے کی
خبر معاویہ کو پہنچی تو وہ خوش ہوا ،جس کی خبر جب امیر ع کو پہنچی تو آپ نے کہا مجھے اتنا
ہی دکھ ہوا جتنا معاویہ کو اس کے قتل پر خوشی ہوئی
، ٨معاویہ ،اموی اور حکمرانوں کا امیر المؤمنین ع پر سب کرنا علماء اہلسنت کے اقوال سے
ابن حزم :بنو عباس نے کسی بھی صحابی (خدا کی رضوان ہوں ان پر) پر سب نہیں کیا بنو امیہ کے
برخالف جنہوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر لعنت کا طریقہ اپنایا ،اور ان
کی پاک اوالد بنی زھراء پر بھی لعنت کی ،اور تمام بنو امیہ ایسے تھے ماسوائے عمر بن عبدالعزیز
اور یزید بن ولید کے (خدا کی رحمت ہو ان دونوں پر) ،کہ ان دونوں نے اس لعن کی اجازت نہیں
دی۔
ابن حجر :اس کے بعد امیر المؤمنین کا معاملہ (کچھ یوں بیٹھا) کہ ایک گروہ نے امیر المؤمنین ع
سے جنگ کی اور پھر معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگیا کہ اس لڑنے والے گروہ (اشارہ قوم معاویہ
کی طرف) امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرنے لگے اور ان پر منبروں پر لعنت کو طریقہ بنالیا اور
خوارج نے اس بغض علی میں ان حضرات کی موافقت کی
(الجواب .ان حواالجات کا بھی وھی حال ھے جو عالمہ ابن تیمیہ کے پچھلے حواالجات کا تھا.
اس میں بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو سب کرنے کا ثبوت نھیں.
دعوی خاص ھے اور دلیل عام.ٰ
یا تو میری عام دلیل (بقول آپ کے) کو قبول کریں یا خود بھی پیش مت کریں)
ابن حزم کی عبارت دیکھیں تو اس نے بنو امیہ میں سوائے دو خلفاء کے سب سے انتساب سب کیا
ہے۔ دیکھئے ابن حزم کا فرمان
وكلھم كان على ھذا حاشا عمر بن عبد العزیز ویزید بن الولید رحمھما ہللا تعالى ،فإنھما لم یستجیزا ذلك.
اب بتائے کہ اس میں معاویہ آتا ہے یا نہیں۔۔ اگر معاویہ خلیفہ اموی نہ تھا تو اس تاریخی حقیقت کا
انکار آپ سے ممکن نہیں اور اگر معاویہ خلیفہ تھا تو اس سے سب علی ثابت ہے۔
اور اب ابن حجر کی بات کرتا ہوں۔۔ ابن حجر کا فرمان دیکھئے:
ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على
المنابر سنة
ووافقھم الخوارج على بغضه
ادھر واضح طور پر خوارج کے عالوہ جس گروہ نے امیر ع سے جنگ کی ان کا مبروں پر لعنت
کرنا لکھا ہے۔ اب بتائے کہ خوارج کے عالوہ جنگ صفین اور جنگ جمل ہوئی ہے یا تو ابن حجر
کا اشارہ جمل کے سربراہوں کا منبروں پر تبرا مراد ہے یا صفین کے سربراہوں کا۔۔ جمل کا ہونا
ممکن نہیں کیونکہ ان کی حکومت ابن زبیر سے پہلے نہ تھی اور ادھر واضح اشارہ صفین والوں
ہی کی طرف سے۔۔ منبروں پر سب کرنا بتاتا ہے کہ یہ معاویہ کی مشاورت اور پوری اجازت سے
ہے۔
ذیل میں ہم تین مزید علماء اہلسنت کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ یہ تعداد اور بڑھ جائے
حدیثوں کی تدوین بنو امیہ کے زمانہ میں ہوئی جنہوں نے پورے ٩٠برس تک سندھ سے ایشیائے
کوچک اور اندلس تک مساجد جامع میں آپ فاطمہ کی توہین کی اور جمعہ میں سر منبر حضرت
علی رض پر لعن کہلوایا ،سینکڑوں حدیثیں امیر معاویہ وغیرہ کے فضائل میں بنوائیں۔
ص http://s8.picofile.com/file/8294342376/seerat_ul_nabi_69.png :٦٩
اس م یں کوئی شک نہیں کہ بنو امیہ کے خلفاء حضرت علی کرم ہللا وجھہ پر منبروں پر لعنت کرتے
تھے ،خدا انہیں رسوا کرے یہاں تک حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ہللا عنہ نے اس کو ختم
کروایا۔
ص http://s9.picofile.com/file/8294342400/taneeb285.png :٢٨٥
، ٣مشہور مفتی۔۔ تاریخ ملت کے مصنف اپنی کتاب میں عمر بن عبدالعزیز کے تذکرہ میں فرماتے
ہے اور ایک ہیڈنگ ڈالتے ہے ‘سب علی کا انسداد‘ اور پھر ارشاد فرماتے ہے:
لیکن اصطالحات کے سلسلہ میں سب سے بڑی اصالح جو ان کے نامئہ اعمال میں سنہری حروف
سے ثبت ہے ،حضرت علی رض کی شان میں بدگوئی کا انسداد ہے ،عرصہ سے یہ دستور چال آرہا
تھا کہ خلفاء بنی امیہ اور ان کے عمال خطبوں میں حضرت علی رض پر لعن و طعن کیا کرتے
تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے والد بزرگوار عبدالعزیز بھی مصر کے والی کی حیثیت سے
اس تکلیف دہ فرضی منصب کو ادا کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن چونکہ دل زبان کا ہمنوا نہ تھا اس
لئے اس موقع پر آپ کی آواز سٹ پٹا جاتی تھی۔ بیٹے نے باپ کی اس کمزوری کو بھانپ لیا اور اس
سے اس کی وجہ پوچھی۔ امیر عبدالعزیز نے کہا
بیٹا جو لوگ ہمارے ساتھی ہیں اگر انہیں علی رض کے فضائل معلوم ہوجائیں تو کوئی ہمارے ساتھ
نہ رہے اور سب ان کی اوالد کے حامی بن جائیں۔
ص http://s8.picofile.com/.../8294342550/tareekh_millat_659.png :٦٥٩
تبصرہ :ہم نے ماضی میں دو اقوال پیش کئے تھے (ابن حجر اور ابن حزم) اور آج تین مزید
حضرات کا اضافہ کردیں اور مزید یہ ہے کہ ان میں ان علماء کو بھی شامل کرلیں جنہوں نے حدیث
مسلم کے ذیل میں سب ہی کا حکم لکھا (مثل ابن تیمیہ ،مال علی قاری ،موسی شاہین ،محب ہللا
طبری ،شاہ عبدالعزیز)۔۔ یوں کل مال کر دس علماء ایک طرف اور فخر الزماں کی تاویالت علیلہ
ایک طرف۔ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
،٩اصل و اصول الشیعہ کتاب سے پیش کردہ روایت جو ہم نے دی تھی اس پر محترم فخر الزماں کا
تبصرہ اور اس پر ہمارا جوابی نوٹ۔
ہم نے محترم فخر الزماں کی پیش کردہ روایت جو انہوں نے نقل کی تھی اس کا بے سند ہونا اصل
مصدر سے دیکھایا۔۔ خیر اس کا جواب تو نہیں بن سکا تو محترم نے فرمایا:
جواب :محترم ایسا کالم اہل علم کے شایان شان نہیں۔۔ ہمیں کہتے ہے موضوعات مختلفہ الرہے ہیں
اور خود شیعہ مجتہدین کا بے سند روایات سے استدالل کرنا وغیرہ کہنا شروع کردیا۔۔ کیا آپ توقع
رکھتے ہیں کہ آپ کی ان باتوں کا میں جواب دوں ،میرے پاس آپ کی ایک ایک شق کا جواب ہے
لیکن جو موضوع نہیں اس پر کالم نہیں کرتا۔۔
اول ،تو شیخ کی کتا ب فقط شیعہ مخاطبین کے لئے نہیں بلکہ عمومی عنوان سے شیعہ اور غیر شیعہ
کے لئے تھی تو انہوں نے اس روایت کو نقل کیا۔
دوم ،نقل روایت ہمیشہ نقل صحت پر داللت نہیں کرتی (اس امر پر اپنے نظریہ بتانے کی بات نہیں
ہورہی بلکہ فقط نقل کی ہے)۔ ۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو محترم ذرا بتائے گا کہ پھر ہم کیا
کنزالعمال کی تمام روایات سے آپ کو ملزم کرسکتے ہیں اس اصول کے تحت ،اگر آپ حامی
بھردیں تو یہ سودہ برا نہیں مجھے بہت خوشی ہوگی۔
ثالثا۔۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ یہ روایت مؤلف کے نزدیک ثابت ہے تو محترم پھر بھی وہ
ہم پر ملزم نہیں اگر ہم دلیل سے اس کا رد کریں دیکھئے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات کتنے
علماء نے نقل کی اور اس کی صحت کے مقر تھے تو کیا آپ کو میں ملزوم کروں؟ اگر دوسروں
کے استدالل کو پورے مذھب تشیع پر حجت سمجھتے ہیں تو ہم ان کو ان کے گھر سے تھوڑا مواد
دے دیت ے ہیں۔۔ میں ان کو احناف کے خالف جو دلیل دی جاتی ہے مع تصحیحات علماء و استدالل
علماء دے دیتا ہوں تاکہ اگر ان کے اندر انصاف کی رمق ہو اور جس قاعدہ کے تحت مجھے یہ ملزم
کررہے ہیں وہ خود پھر اپنے مذھب حنفیت کو خیر آباد کہیں اور اس حدیث پر عمل کریں۔ یاد رہے
کہ ا گر ہماری بحث ابھی تحقق صحت اور عدم پر نہیں۔۔ بلکہ ہم نے محترم فخر الزماں صاحب کو
ان کے قاعدے پر ملزم کررہا ہوں۔
صحابی نے رسول ص کے پیچھے نماز پڑھی اور وہ اپنے سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر سینے پر
رکھتے تھے
نووی نے اس روایت سے استدالل کیا ہے (بقول فخر الزماں استدالل صحت عند المؤلف کی دلیل
ہے)
عال مہ ابن حجر عسقالنی نے اپنی دو کتب میں اس کو نقل کیا اور سکوت اختیار کیا (درحاآلنکہ
ہمارے احناف متاخرین کے ہاں ابن حجر کا سکوت بعض کتب میں تحسین پر داللت کرتا ہے)
حوالہ :التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الكبیر ،جلد اول ص ٤٠٥اور الدرایة في تخریج
أحادیث الھدایة جلد اول ص ١٢٨
تو ہم نے آدھے درجن علماء کو نقل کیا جو اس روایت کی صحت کے قائل آپ کے مبنی کے تحت
تو کیا آپ بھی اس طرح نماز پڑھیں گے اور سینے پر ہاتھ باندھدیں گے۔۔ یاد رکھئے کہ ہم آپ کے
مبانی سے متفق نہیں لیکن آپ کو آپ کے مبنی پر ملزم کرنا ہمارا حق ہے۔ اور یاد رہے کہ داللت
کے اعتبار سے حدیث بہت واضح ہے۔۔ خود احناف علماء نے اس کو شوافع وغیرہ کی ہی دلیل قرار
دیا ہے۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ اپنا اصول آرام سے توڑیں گے۔ یہ الزامی جواب پیش خدمت
ہے۔
،١٠خالصہ بحث۔
یوں ہماری بحث تمام قارئین کے پیش خدمت ہے جس میں ہم نے معاویہ کا سب کا اثبات خود اہلسنت
کی کتب سے کیا ہے اور انشاء ہللا اس بار امید کرتے ہیں کہ ہمیں تمام دالئل کے جوابات دئیں جائیں
فقط حاشیہ اور سائیڈ نوٹ والے کمنٹ نہیں۔
ختم شد۔
محترم فخر الزماں صاحب آپ اپنے وقت کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیجئے گا لیکن
آپ کا جو بھی جواب آئے گا میں جون میں ہی جواب دے سکوں گا۔ کچھ امتحان کی مصروفیات مانع
ہوں گی جلد جواب دینے میں۔ انشاء ہللا آپ کے جواب کا انتظار رہے گا
Fakhar Ul Zaman
⏪ ھماری بحث اس بات پر چل رھی تھے کہ ان کا دعوی تھا کہ سیدنا معاویہ رض نے سیدنا علی
رض کو گالیاں دیتے بھی تھے اور دوسروں کو اس بات کا حکم بھی کرتے تھے.
لیکن آپ نے نوٹ کیا ھوگا کہ جناب نے اصل بات کےعالوہ دوسری باتیں بھی کھول دیں ھیں تاکہ
بات الجھ جائے.
ب علی کو قتل کروانے والی بحث ،جن کا مثال عمار رض کا اھل شام کے بارے میں نظریہ ،اصحا ِ
واسطہ گالیاں دینے والی بحث سے ھے ھی نھیں.
⏪ میرے اصل نقطے سے ھٹ کر یھاں وھاں کی غیر متعلق باتیں بھت کی ھیں.
مثال محمد بن اسحاق کی ثقاھت کی بحث ،شیعہ ھونا جرع نھیں،روایت نقل کرنا اس کے صحت کو
تسلیم کرنے والی بحث.
⏪ میں نے بات ختم کرنے اور سلجھانے کے لیے چند سواالت کیے تھے لیکن ان کا جواب دے کر
بات سلجھانے کے بجائے جواب نہ دے کر الٹا ایک قدم آگے بڑھ کر مجھ سے دلیل کا مطالبہ کرنا.
مثال سیدنا علی رض کی فضیلت تسلیم کرنے کے بارے میں میرے سواالت کا انھوں نے جواب نہ
دے کر کیا.
⏪ جناب نے لکھا ھے کہ میں نے لمبے کمنٹ نھیں کیے دالئل پر ھی انحصار کیا ھے ،آپ نے
دعوی
دیکھ لیا ھوگا کا ان کی یہ بات کتنی صحیح ہے ،بحث کسی ایک بات میں اور دالئل وہ جو ٰ
اور موضوع کے مطابق ھی نھیں.
1#
مسلم کی روایت پر میں نے جو لکھا اس پر جناب فرماتے ھیں کہ
محترم ادھر بتحقیق اس ہی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میری دونوں باتوں میں کوئی تناقض نہیں
کیونکہ روایت میں اگرچہ جس چیز کا حکم ہے وہ بلفظہ موجود نہیں لیکن جو سیاق و سباق اور جو
دیگر قرائن ہیں وہ تمام اس حکم سب پر ہی داللت کرتے ہیں۔۔۔ اور اس حوالے سے ہم نے آپ کو
روایت پیش کی تھی جس میں تقریب استدالل یوں تھا کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جائے گا اور
اگر تعمیل حکم نہ کی جائے تو تو ہمیشہ اس کے متعلق ہی سوال کیا جائے گا۔۔ یعنی یہ تقریب
استد الل تھا کہ ابوبکر کو حکم نماز دیا گیا اور ابوبکر آگے نہیں بڑھے تو روایت کے جملہ ہے کہ
رسول ہللا ص نے ابوبکر سے نماز نہ پڑھانے کے متعلق ہی سوال کیا۔۔ یعنی یہ اتنی آسان بات ہے
کہ ہر کوئی سمجھے گا اور یہی بات میں نے ادھر بھی رکھی کہ جب کسی چیز کا حکم دیا گیا (جو
روایت صحیح مسلم میں بظاھر موجود نہیں) تو معاویہ کا سوال کرنا اس پر ہی داللت کرتا ھے.
جواب.
، 1بالکل تناقض ھے آپ کی بات میں ،ایک جگہ لکھا کہ حکم واضح ھے اور دوسری جگہ کھہ دیا
کہ واضح نھیں.
یہ تضاد نھیں تو کیا ھے؟
،2جناب آپ نے سیاق و سباق سے ثابت کر ھی نھیں سکے کہ حکم گالی کا ھی تھا .کیونکہ سیاق و
سباق میں کوئی اسی دلیل نہیں جو سب کے حکم پر داللت کرے.
، 3آپ نے جو سیدنا صدیق اکبر رضی ہللا عنہ کی نماز کے حکم والی مثال دی اس پر کالم کر چکا
ہوں ،آپ کو اس کا رد کرنا تھا جو آپ نھیں کرسکے.
2#
جناب پہر مسلم کی تائید میں مثالیں دیتے ہوئے لکھتے ہیں
محترم اس تقریب استدالل کو تو میں بتا چکا اور اس پر میں ایک اور مثال آپ کے حضور عرض
کرتا ہوں کہ ایک آیت مبارکہ میں یوں آیا:
قَا َل َما َمنَ َعكَ أ َ هال ت َ ْس ُجدَ إِذْ أ َ َم ْرتُكَ
سورہ اعراف آیت ١٢
ادھر بھی واضح طور پر ثابت ہوا کہ جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کے متعلق ہی سوال ہوتا
چنانچہ اگر سوال کسی چیز پر موجود ہو اور اس کا حکم پہلے بیان نہ بھی ہو تو جب بھی محاورے
عرب کے تحت جس چیز کے متعلق سوال ہو اس کے متعلق ہی حکم سمجھا جائے گا۔
اور اب ایک روایت پیش خدمت ہے جس میں حجاج ایک شخص کو قتل کا حکم دیتا ہے( :أ َ هن ْال َح هجا َج
ع ْب ِد ہللاِ بِقَتْ ِل َر ُج ٍل ) اور نہ کرنے کی صورت میں پوچھتا ہے کہ قتل کیوں نہیں کیا (فَقَا َل أ َ َم َر َ
سا ِل َم بْنَ َ
لَهُ ْال َح هجا ُجَ :ما َمنَ َعكَ ِم ْن قَتْ ِل ِه؟) (مالحظہ ہو معجم الکبیر للطبرانی جلد ١٢ص )٣١٢۔۔ چنانچہ ادھر
بھی ثابت ہوا کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جائے گا تو اس ہی کے متعلق سوال ہوگا (اس
صورت میں اگر اس حکم کی بجا آوری نہ ہو)۔۔ اب اس پر مزید کالم کرنا بیکار ہے اور یوں ثابت
ہوا کہ ادھر سب ہی کا حکم تھا۔
جواب.
،1جناب آپ کی ان مثالوں کا حال بھی پچھلی مثالوں واال ھے ،ان میں بھی حکم واضح موجود ھے.
آپ جو مسلم سے دلیل پیش کررھے ھو اس میں کوئی حکم موجود نھیں.
آپ کو ایسی مثال پیش کرنی ہے کہ کسی بات کے حکم کا ذکر ھو اور وہ حکم واضح نہ ھو اور
آگے والے سوال سے وھی حکم مراد ھو جیسا مسلم والی روایت میں ہے.
، 2میں نے کھا تھا کہ یھاں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ کسی دوسری بات کا حکم دیا ہے؟ اور یہ
اصول آپ نے ھی پہلے لکھا تھا کہ إذا جاء االحتمال بطل االستدالل
تو یہ روایت آپ کے مدعی کی دلیل نھیں بن سکتی.
3#
عالمہ ابن تیمیہ سے جناب نے سب کے حکم پر استدالل کیا تھا جس کا میں نے جواب دیا تھا ،اس
پر جناب لکھتے ہیں
محترم ادھر عبارت میں اگر کھیچ تان کے مان بھی لیا جائے کہ یہ شیعی لفظ تھے (بقول آپ کے) تو
پھر ابن تیمیہ اس کو اس ہی حد تک نقل کرتے بھال ابن تیمیہ کا یہ کہنا:
یح ِه
ص ِح ِ
ص ِحی ٌح َر َواہُ ُم ْس ِل ٌم فِي َ فَ َھذَا َحد ٌ
ِیث َ
محترم۔۔ آپ پیچھے پورا عالمہ حلی کا کالم پڑھ لیجئے وہاں ہرگز ہرگز اس مصدر کا اشارہ ہی نہیں
بلکہ مجرد نقل روایت ہے اور ابن تیمیہ نے ادھر اس کو ،١صحیح کہا ،٢صحیح مسلم کی طرف
نسبت کی
اب بتائے کہ بھال کس طرح اس کو تفہیم ابن تیمیہ کہا نہ جائے جب کہ ابن تیمیہ نقل روایت اور
مخالف کی نقل روایت پر اتنے سخت تھے کہ ایک بار عالمہ حلی نے روایت نقل کی ( َم ْن َماتَ َ ،ولَ ْم
ام زَ َمانِ ِه َماتَ ِمیتَةً َجا ِھ ِلیهةً) اس کے جواب میں عالمہ ابن تیمیہ نے کہا:
ف ِإ َم َ
یَ ْع ِر ْ
حوالہ :منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة ،جلد اول ص ١١٠
تبصرہ :محترم ادھر تو ابن تیمیہ نے سخت ڈانٹ پالئی ہے کہ الفاظ روایت میں کوتاہی کی تو بھال یہ
طرز فکر صحیح مسلم والی بات میں کیوں نہیں۔۔۔ محترم مان لیں کہ ابن تیمیہ کی تفہیم بھی ہمارے
موافق ہے حکم سب کے عنوان سے۔۔
جواب.
، 1خیر طلب صاحب جواب دینے سے پہلے آپ کو سوچنا چاہیے تھا کہ مسلم کی روایت کی سند پر
ھماری بحث چل رھی ھے یہ متن و الفاظ پر؟
ھماری بحث سند پر نھیں جو آپ نے سند کی مثالیں عالم ابن تیمیہ سے دینا شروع کردی ھیں.
ایسی مثال دیں جس میں ابن مطھر نے متن میں غلطی کی ھو اور اس غلطی کا تعلق زیر بحث
مسئلے سے بھی نہ ھو پہر بھی عالمہ ابن تیمیہ نے ابن مطھر کو ٹوکا ھو.
، 2اور عالمہ ابن تیمیہ نے مسلم کی حدیث کو سند کے اعتبار سے صحیح کھا ھے ،یہ نھیں کھا کہ
واقعی معاویہ رضی ہللا عنہ نے گالی کا حکم دیا تھا.
آپ کا استدالل عالمہ ابن تیمیہ کے کالم سے اپنے حکم سب والے مطلب پر تھا نہ کہ مسلم کی
روایت کی توثیق پر.
4#
جناب نے عالمہ ابن تیمیہ سے ایک قول پیش کیا تھا جس پر میں نے کھا تھا کہ یہ الزامی بات کی
ھی عالمہ ابن تیمیہ نے ،اس پر جناب لکھتے ہیں
دوسری بات :شیعہ یہ بات مانتے ھیں کہ صحابہ کرام سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر لعنتیں کرتے ھیں،
تو اسی کے مطابق شیعہ کو جواب دیا نہ کہ اپنا موقف بیان کیا.
محترم کیا ابن مطہر شیعہ نہیں۔۔ اگر ابن مطہر یہ کہتے تھے کہ صحابہ امیر المؤمنین ع کو برا بھال
نہیں کہتے (ج یسا آپ کا زعم ہے) تو پھر یہ الزامی جواب بن ہی نہیں سکتا ہے کہ صحابہ برا بھال
کہتے تھے۔۔ بلکہ اس کو تحقیقی جواب کہیں گے کہ دیکھو صحابہ تو امیر المؤمنین ع کو برا بھال
کہتے تھے تو تمہاری دلیل ٹوٹ گئی۔۔ الزامی جواب وہ ہوتا ہے جس کو خصم مانتا ہو اور خود آپ
کے اقرار کے مطابق خصم ابن مطہر الحلی کی دلیل ہی یہی تھی کہ صحابہ کو مخالفین و موافقین
دونوں برا نہیں کہتے تھے۔
دوسرا نقد آپ کے جواب پر یہ ہے کہ بھال الزامی جواب کہنا اس وقت درست ہوتا جب خود عالمہ
حلی امیر المؤمنین ع کو برا بھال کہنے والوں کو بہتر جانتے ہوتے بمقابلہ ان افراد کہ جو عثمان کو
برا بھال کہتے تھے۔۔ ہر شیعہ امیر ع پر سب کرنے والوں کو عثمان پر سب کرنے والوں کے مقابلہ
میں ہی نہیں سمجھتا ی عنی ہم تو امیر ع پر سب کرنے والوں کو دیندار تو دور کی بات ہے اصال
مومن ہی نہیں سمجھتے۔۔
جواب.
، 1جناب یہ میرا گمان نھیں کہ ابن مطھر کا یہ نظریہ تھا کہ صحابہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا
نھیں کھتے تھے ،وہ تو آپ کے ابن مطھر نے خود اس بات کو سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے امام
ھونے پر دلیل بنایا تھا کہ
ان کو مخالفین و موافقین دونوں برا نھیں کھتے ھیں اس لیے یہ امام ھیں.
اس کے رد میں عالمہ ابن تیمیہ نے الزامی جواب دیا ان کے مسلمات سے کہ شیعہ تو خود شور
مچاتے ھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو منبروں پر گالیاں دی جاتی تھے.
تو اس طرح ابن مطھر کی دلیل توڑی ھے عالمہ صاحب نے
جاری ھے...
5#
، 2کیا آپ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ شیعوں کا یہ نظریہ ھے کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ اور
باقی شامی سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے اور دلواتے تھے؟
اگر انکار کرتے ہیں تو بتائیں میں شیعہ کتب سے حوالے بھیجوں؟
اگر یہ بات مانتے ھیں تو پہر عالمہ ابن تیمیہ کا جواب شیعہ مسلمات کے مطابق ھوا کہ نھیں؟
، 3جناب یھاں صرف ابن مطھر کی اس بات کو توڑنے کے لیے عالمہ ابن تیمیہ نے الزام دیا ھے
کہ موافقین و مخالفین سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا نہیں کھتے تھے.
اتنا تو الزامی آپ مانتے ہیں نہ؟
بس جب یھاں سے ابن مطھر کا استدالل باطل ھوا تو اب آگے الزام کی کیا ضرورت؟
6#
عالمہ ابن تیمیہ کی دوسری عبارت کہ
اھل صفین میں سے بعض ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے
اس پر میری جواب پر جناب لکھتے ہیں
محترم ادھر ابن تیمیہ نے اس بات کا انکار ہی کب کیا۔۔ ادھر دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں کہ ابن جوزی
اور دیگر اہل علم اف اہلسنت اس بات کے قائل تھے کہ اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کیا کرتے
تھے اور ابن تیمیہ اس کا رد کرتے ہیں یا وہ نقل کرکے سکوت کرتے ہیں۔۔ دونوں صورتوں میں کم
سے کم اتنا تو ثابت ہوگا کہ بقول آپ کے ابن جوزی اور دیگر اہل علم اف اہلسنت اس بات کے مقر
تھے کہ اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے اور یہی ہمارا مقصود ہے کہ خود علمائے
اہلسنت اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ لعنت روا تھی۔۔ اور چونکہ ابن تیمیہ نے اس کا رد نہیں کیا تو
خود امام اہلسنت سرفراز صفدر کے مطابق ان کی موافقت ہی سمجھی جائے گی اور ان کی عبارت
قرار دینا صحیح ہوگا۔۔
جواب.
، 1ابن جوزی اور چند اور لوگ اگر بالفرض قائل بھی ھوں تو اھل السنت کے مسلک پر کوئی فرق
نہیں پڑتا ،اگر چند لوگ اس جھوٹے پروپیگنڈے میں آگئے تو کوئی نئی بات نہیں.
، 2عالمہ ابن تیمیہ یھاں کسی کا رد نہیں کر رھے بلکہ یزید کے بارے میں مختلف نظریات نقل
کررھے ھیں .خود عالمہ صاحب لکھتے ہیں
قِ :ف ْرقَةٌ لَ َعنَتْهُ َو ِف ْرقَةٌ أ َ َحبهتْهُ َو ِف ْرقَةٌ َال ت َ ُ
سبُّهُ َو َال ت ُ ِحبُّهُ ث ُ هم ا ْفت ََرقُوا ث َ َال َ
ث ِف َر ٍ
مجموع الفتاوی ج 4ص 483
shamela.ws/browse.php/book-7289/page-1807#page-1805
یعنی یزید کے بارے میں تین فرقے ھیں .ایک اس کو لعنت کرنے واال ،ایک محبت کرنے واال اور
ایک نہ گالی دیتا ہے اور نہ محبت کرتا ہے.
تو یھاں عالمہ صاحب رد کرنے کے لیے نھیں صرف ان کا ذکر کر رھے ھیں،رد کسی کا نھیں کیا
انھوں نے.
، 3شیخ سرفراز رح کا حوالہ آپ کے لیے سودمند نھیں کیونکہ عالمہ صاحب رد کرنے کے لیے
نھیں بلکہ تعارف کے لیے نقل کررھے ھیں.
ھاں رد کے مقام پر التے پہر رد نہ کرتے تو شیخ سرفراز رح کا حوالہ فٹ ھوسکتا تھا.
اللھم علیك بمعاویة وأشیاعه ،وعمرو بن العاص ،وأشیاعه ،وأبا السلمي وأشیاعه ،وعبد ہللا بن قیس
وأشیاعه.
اے ہللا۔۔ معاویہ اور اس کے شیعوں۔ عمرو بن عاص اور اس کے شیعوں ،ابو سلمی اور اس کے
شیوں ،عبدہللا بن قیس اور اس کے شیعوں کے خالف تجھ سے طلب کرتا ہوں۔
:أن علیا لما بلغه ما فعل عمرو كان یلعن في قنوته معاویة ،وعمرو بن العاص ،وأبا اْلعور السلمي ،
وحبیب بن مسلمة ،والضحاك بن قیس ،وعبد الرحمن بن خالد بن الولید ،والولید بن عتبة.
جب علی کو پتا چال کہ عمرو بن عاص نے کیا کیا ،تو امیر المؤمنین ع معاویہ ،عمرو بن عاص ،ابو
االعور السلمی ،حبیب بن مسلمہ ،ضحاک بن قیس ،عبدالرحمان بن خالد بن ولید ،ولید بن عتبہ اور ان
کے شیعوں پر لعنت کیا کرتے تھے۔
لہذا ثابت ہوا کہ امیر المؤمنین ع معاویہ ،عمرو بن عاص وغیرہ پر بددعا کیا کرتے تھے۔۔ اب
سوچئے جس پر آپ کے خلیفہ چہارم کی بہترین سی بددعا اس کے بارے میں نیک دعا کرنا کیسے؟
جواب
، 1ناظرین آپ کو یاد ھوگا کہ بات یہ چل رھی تھی سیدنا معاویہ رض سیدنا علی رض کو گالیاں
دیتے تھے.
آپ دیکھیں کہ خیر طلب صاحب اب کیا پیش کر رھے ھیں.
پہر مجھے کھتے ھیں کہ نھیں میں موضوع کے مطابق دلیل دے رھا ھوں.
اب ناظرین ھی بتائیں کہ کیا یہ موضوع چل رہا ہے؟
دعوی کے مطابق نھیں.
تو یہ بات آپ کے ٰ
جاری ہے.......
8#
، 2جناب نے لعنت ثابت کرنے کے لیے نماز میں قنوت والی روایت پیش کی ھے.
خود انھوں نے ترجمہ بھی لعنت کا نھیں کیا بلکہ یہ کیا ھے کہ
"تجھ سے طلب کرتا ہوں"
دعوی کے مطابق دلیل ھی نھیں.تو آپ کے ٰ
, 2بیھقی کی روایت میں سلمہ بن کھیل راوی شیعہ ھے.
سیر إعالم النبالء تھذیب التھذیب وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں.
تھذیب التھذیب کا لنک دیکھیں
shamela.ws/browse.php/book-3310#page-1698
شیعوں کے شیخ طوسی نے رجال الطوسی میں اسے امام جعفر صادق رح کے اصحاب میں شمار
کیا ھے
/...shiaonlinelibrary.com/.../2935//:الصفحة_...205
اور یہ اصول تو آپ کو اچھے طریقے سے پتا ھے کہ شیعہ کی روایت اس کی تائید میں قبول نہیں.
برائے مہربانی اب سلمہ بن کھیل کی توثیقات مت بھیج دینا آپ ،جو حال اور فالتو بحث آپ نے محمد
بن اسحاق کے بارے میں چھیڑ دی ھے .اور اس روایت کی صحت پر بھی بحث کی کوشش مت
کرنا آپ کیونکہ اس کی صحت پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا میں نے .کیونکہ میں اس کی ثقاھت
پر جرح نھیں کررھا.
اصل نکتے پر بحث کر سکتے ہیں تو کریں ،یھاں وھاں کی بات کر کے اپنا اور میرا وقت ضائع مت
کریں.
، 3البدایہ کی روایت کا حال تو آپ سے بھی چھپا ھوا نھیں .اس میں ابو مخنف ھے جو کذاب،
رافضی ھے.
تو البدایہ کی روایت قابل استدالل نھیں.
، 4آپ نے البدایہ والی کو بطور شاھد کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے.
شاھد تو تب ھوتا جب متن ایک ھوتا دونوں کا ،البدایہ کی تو متن میں بھی فرق ھے تو یہ شاھد
کیسے ھوسکتا ھے؟
البدایہ کی روایت میں لعنت کا ذکر ھے اور اوپر والی میں نھیں.
محترم ادھر استدالل اس عنوان سے ہے کہ یہ معاملہ معاویہ کی نگرانی ہوتا تھا اور معاویہ نے اس
پر نکیر نہیں کی کیونکہ خود ایک حوالے سے میں ثابت کرچکا ہوں کہ شیعان عثمان معاویہ کی
رعیت ہی میں تھے اور اگر رعیت میں منکر کام ہوں اور کوئی مصلحت بھی سکوت کا نہ ہو اس
کے باوجود اس پر نکیر نہ کی جائے تو یہ محل اشکال ہوگا۔ دیکھئے اس عبارت کو خود ابن تیمیہ
کی دوسری عبارت کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ فہم پر زیادہ زور لگانا نہ پڑے اور بات آسانی
سے واضح ہوجائے۔
ابن تیمیہ اپنی منھاج السنتہ میں ایک اور جگہ رقم طراز ہے:
عمومی عنوان سے بتحقیق صحابہ اور تابعین ابوبکر اور عمر سے مودت رکھتے تھے درحاآلنکہ
وہ بہترین زمانے والے افراد تھے لیکن حضرت علی کے ساتھ ایسا معاملہ نہ تھا کیونکہ بالشک و
شبہ کافی سارے صحابہ اور تابعین حضرت علی سے بغض رکھتے تھے۔
حوالہ :منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ٧
جواب.
، 1جناب آپ نے یہ تو لکھ دیا کہ یہ کام معاویہ رضی ہللا عنہ کی نگرانی میں ھوتا تھا لیکن کوئی
ثبوت پیش نھیں کیا ،اگر رعیت میں کسی کام کا ھونا سربراہ کی نگرانی کھالتا ھے تو پہر وھی
سواالت یاد رکھیں کو پچھلی بار کرچکا ھوں میں.
گھما پہرا کر وھی بات کردی آپ نے تو میں نے بھی گھما پہرا کر وھی جواب دے دیا.
، 2رھی بات سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے سکوت کی ،تو یہ بھی غلط ،ان کے سامنے کسی نے
سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا بھال کہا تو انھوں نے اسے روکا.
بقیہ اگلے کمنٹ میں...
10#
بقیہ...
سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے پاس بسر بن ارطاة اور زید بن عمر بیٹھے تھے ،بسر بن ارطاة نے
سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے خالف کچھ کھا تو زید بن عمر نے ڈنڈا اٹھا کر بسر کا مارا.
ض َر ْبتَهُ! َوأ َ ْق َب َل َ
علَى بسر فقال :تشم َ
ع ِلیًّا سیه ِد أ َ ْھ ِل ال ه
ش ِام فَ َ ْخ ِم ْن قُ َری ٍْش َ فَقَا َل ُم َعا ِو َیةُ ِلزَ ْیدٍَ :
ع َمدْتَ ِإلَى َ
شی ٍ
َوھ َُو َجدُّہ
طبری ج 5ص 335
معاویہ رض نے زید سے کھا کہ تم نے قریش کے ایک بزرگ اور شامیوں کے سردار کو مارا
ھے؟ اور بسر کی طرف متوجہ ھو کر کھا کہ تم علی رضی ہللا عنہ کو برا کھہ رھے ھو جو زید کا
نانا ھے؟
shamela.ws/browse.php/book-9783/page-2797#page-2795
واضح طور پر روک رھے ھیں معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا کھنے پر.
،3رھا عالمہ ابن تیمیہ کا حوالہ تو اس کا بھی حال وھی ھے جو پچھلے حوالے آپ عالمہ ابن تیمیہ
کے نقل کر چکے ہیں سیاق و سباق سے کاٹ کر.
یھاں آپ کے عالمہ ابن مطھر حلی کی بات کا رد کرنے کے لیے لکھا بطور الزاما ً نہ کہ بطور
عقیدے کے.
کبھی چند صفحات آگے پیچھے بھی دیکھ لیا کریں تاکہ آپ کو پتا چلے عالمہ ابن تیمیہ کے لکھنے
کا انداز و طریقہ.
تاریخ الطبري = تاریخ الرسل والملوك ،وصلة تاریخ الطبري • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة
11#
جناب لکھتے ہیں
محترم اب شیعان عثمان جن میں یقینا کچھ صحابہ بھی شامل تھے اور جن کا سربراہ معاویہ تھا۔ اس
کو دیکھئے اس عبارت کی روشنی میں کہ کافی سارے صحابہ اور تابعین امیر ع سے بغض رکھتے
تھ ے تو سمجھ آجائے گا کہ ادھر معاویہ بھی مراد ہے۔ خیر تطبیق کی صورت اب آپ کے ذمہ میں
ہے
اور اب ایک اور قول کو میں پیش کرتا ہوں تاکہ پوری بحث ہی کا خاتمہ کردیا جائے۔ ابن تیمیہ
کہتے ہے:
اور ابن مطہر کا جہاں تک امیر المؤمنین پر لعن کا ذکر کرنا ہے تو یہ دونوں گروہوں کی طرف
سے جنگ میں ایک دوسرے کے حق میں واقع ہوئی تھی۔۔ چنانچہ یہ حضرات دوسرے کے
سرداروں پر لعنت کرتے اور دوسرا گروہ پہلے کے سردراوں پر بددعا کرتے اور یہ بھی کہا گیا کہ
ہر ایک گروہ دوسرے پر قنوت (نازلہ) پڑھتا تھا۔۔ (خیر) جنگ تو بہرحال منہ سے لعنت سے زیادہ
بڑی چیز ہے اور یہ تمام چیزیں اگرچہ گناہ کے عنوان سے ہوں یا اجتہاد کے عنوان سے۔۔ خطا کار
ہوں یا حق پر ہوں۔۔ ان تمام صورتوں میں ہللا کی مغفرت اور رحمت ان تمام کو توبہ ،اچھے اعمال
اور مصائب و پریشانی وغیرہم کے ذریعے ختم کردیتی ہے
حوالہ :منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ٤ص ٤٦٨
تبصرہ :کیا فرمائیں گے محترم۔۔ ادھر تو فیصلہ ہی کردیا۔۔
جواب
، 1بعض صحابہ تو واقعی سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کے شیعوں میں تھے لیکن ان سے لعنت ثابت
کرنا آپ کے بس کی بات نھیں .کیونکہ جھوٹ کبھی سچ ثابت نھیں ھوسکتا.
، 2رعایہ والی بات دوبارہ کرکے ان سواالت کی طرف مجھے اشارے کا موقعہ دیا آپ نے جو میں
نے اس بات پر آپ سے کیے تھے جو اب تک الجواب ھیں.
دوبارہ وہ سواالت دیکھ لیں.
، 3عالمہ ابن تیمیہ کی بات آپ کی سمجھ سے باالتر ھے آپ ان کی عبارتیں سیاق و سباق سے کاٹ
کر پیش کر کے اپنے علمی گھرائی ھمارے سامنے واضح کررھے ھو.
یھاں بھی عالمہ ابن تیمیہ ابن مطھر کی بات کا رد کررھے ھیں جو یہ رونا رو رہا ھے کہ معاویہ
رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو لعنتیں کرتے تھے.
تو عالمہ صاحب نے اسی کے نظریے کے مطابق لکھا کہ یہ کام تو علی رضی ہللا عنہ والے بھی
کرتے تھے.
اگر معاویہ رضی ہللا عنہ کا لعنت کرنے سے گناہگار ھوئے تو علی رضی ہللا عنہ بھی ،اگر علی
رضی ہللا عنہ کا دوسروں پر لعنتیں کرنا اجتہادی مسئلہ تھا تو پہر معاویہ رضی ہللا عنہ کا بھی یہ
عمل اجتہادی ھوا.
13#
،2صاحب الریاض نے کافی احادیث اپنے اصل الفاظ کے ساتھ نقل نھیں کیں.
جس روایت پر ھماری بحث ھے اسے کے مسلم والے اصل الفاظ اور صاحب ریاض النضرة کے
نقل کردہ الفاظ کا تقابل کرتے ہیں.
دیکھیں..
،1مسلم کے اصل الفاظ
امر معاویہ سعدا فقال ما منعک ان تسب ابا تراب
اور صاحب ریاض النضرة نے
امر معاویہ سعدا ان یسب ابا تراب کردیا
،2مسلم میں ھے
ان تکون لی واحدة منھن
صاحب ریاض نے
تکون کو یکون
اور
لی کو فی کردیا
،3مسلم میں ھے
فقال لہ علی یا رسول ہللا خلفتنی
اور
ریاض النضرة میں یا رسول ہللا بھی غائب اور خلفتنی ماضی کو تخلفنی مضارع سے بدل دیا.
بات سمجھنے کے لیے اتنی مثالیں کافی ھیں.
اب اس کتاب سے آپ مسلم والی روایت سے اپنا سمجھا ھوا مطلب کیسے اخذ کرسکتے ہیں جس نے
خود اختصارا ً روایت نقل کی ھیں اور اصل الفاظ بھی نھیں لکھے؟
، 3مال علی قاری نے بھی ریاض النضرة سے ھی نقل کیا جس کی حقیقت آپ نے دیکھ لی.
14#
مسلم اور ترمذی میں حدیث شریف کا یہ لفظ ہے کہ معاویہ بن ابوسفیان ن سعد بن ابی وقاص سے
کہا کہ:
مامنعک ان تسب اباتراب :یعنی کس امر نے تم کو باز رکھا برا کہنے سے ابوتراب کے۔
بعض طرف دار معاویہ بن ابی سفیان کے اس لفظ کی تاویل کرتے ہیں ور کہتے ہیں کہ:
حضرت معاویہ کی مراد یہ تھی کہ کس واسطے حضرت علی المرتضی رض کے ساتھ تم سخت
کالمی نہیں کرتے اور تم نہیں سمجھاتے کہ قاتالن حضرت عثمان رض کی طرف داری سے وہ
دست بردار ہوجائیں۔ اور ان پر قصاص جاری کرنے کے لئے ان کو ہمارے سپرد کردیں۔
لیکن اس توجیہ میں دو خدشے ہوتے ہیں۔ ایک خدشیہ یہ ہوتا ہے کہ اس مضمون میں الزم آتا ہے کہ
حضرت علی کرم ہللا وجھہ کے زمانہ حیات میں یہ گفتگو ہوئی اور تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ
حضرت معاویہ رض کے ساتھ سعد رض کی مالقات نہیں ہوئی۔ اس واسطے کہ سعد ابتداء فتنہ سے
موضع عقیق میں جو کہ مدینہ منورہ سے باہر ہے گوشہ نشین رہے۔ اور ان ایام میں مدینہ منورہ میں
حضرت معاویہ کے آنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔۔۔الخ
جواب
، 1فتاوی عزیزی میں الحاقیات ھیں جس کو ھمارے علماء واضح کرچکے ھیں
ا ،شیخ العرب و العجم سید حسین احمد مدنی رح کی مکتوبات ج 4مکتوب نمبر 171ص 367 ،366
پر حضرت نے اس کو واضح کیا ھے.
ب ،حضرت قاضی مظھر حسین رح نے خارجی فتنہ ج 2ص 102 ،101پر واضح کیا ھے.
تو فتاوی عزیزی کا جو حوالہ مسلک اھل السنت کے خالف ھوگا وہ قبول نھیں کیا جائے گا.
2شاھ عبد العزیز رح نے تحفہ اثنا عشری میں سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ پر اس الزام کا دفاع کیا
ھے.
تحفہ اثنا عشری ص 749پر اھل صفین کے بارے میں لکھتے ہیں
⏪ جو آیات و احادیث صحابہ و مومنین کے بارے میں ھیں ان میں ان کو شامل کرتے ھیں اور ان
کی نجات کا لکھتے ہیں.
⏪ سب و شتم اور لعن طعن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ معتبر روایات سے ثابت نھیں.
بات واضح ھوگئی اور آپ کا استدالل باطل ھوا.
میں مکتوبات شیخ االسالم اور تحفہ اثنا عشری کے اسکین لگا رھا ھوں.
15#
پہر آگے ایک اور حوالہ دیا کہ
معاصر عالم دین موسی شاہین نے اس سے حکم سب ہی مراد لیا ہے اور نووی کی تاویل کو باطل
قرار دیا ،چنانچہ نووی کی تاویل کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
اور یہ تاویل زیادہ مشکل اور بعید ہے اور جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ معاویہ نے (سعد کو)
علی ع پر سب کا حکم دیا ،اور معاویہ معصوم نہیں بلکہ اس سے خطا صادر ہوئی لیکن ہم پر واجب
ہے کہ اصحاب رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی تنقیص نہ کریں۔ اور ہماری روایات میں معاویہ کا
سب علی کرنا بہت بالکل صریح (واضح) ہے
تبصرہ :محترم ہم نے آپ کو دو مزید حوالے دئے ہیں صرف اس حدیث کی تشریح پر ،،ماضی میں
آپ کو ابن تیمیہ ،محب ہللا طبری اور مال علی قاری کے دئے تھے چناچنہ ہماری تفہیم اور آپ کی
تاویل علیل کا رد خود آپ کے علماء کے کالم سے ثابت ہے
جواب.
آپ کے پہلے حوالوں کا حال آپ نے دیکھ لیا ھوگا اب اس کا حال بھی دیکھ لیں.
،2موسی شاہین جس بنیاد پر امام نووی رح کی تاویل کو بعید کھیل رہے ہیں کہ معاویہ رض کا گالی
دینا ثابت ھے ،اس کی کوئی دلیل نھیں دی.
خود اھل السنت علماء کے بھی خالف ہے ان کی بات یہ بات.
بعید تو ان کی بات ھوئی نہ کہ امام نووی رح کی.
،3آج تک کے معتبر علماء امام نووی کی تاویل کو تسلیم کرتے آرھے ھیں اور 700سال کے بعد
یہ تاویل غلط ھوگئی.
ماشاءہللا
اتنے علماء کے مقابلے میں آج کل کے کسی عالم کی بات نھیں مانی جائے گی.
16#
پہر جناب لکھتے ہیں
محترم یہ قیاس مع الفارق نہیں بلکہ اظہار حقیقت ہے کہ دشمن کا فضیلت کا انکار کرنا بلکہ خود
تعریف کرنا بھی اس کا اس شخص کے حوالے سے اچھے سلوک کی گارنٹی نہیں۔۔۔ آپ نے میری
کسی دلیل کا جواب نہیں دیا اور جو اقوال میں نے پیش کئے کہ تعریف وہ جو دشمن کرے اس پر
بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔۔ کیا آپ لوگ ثناء ہللا امرتسری کی جو تعریف کرتے ہیں تو کیا وہ ان کو
مسلک اہلسنت دیوبند کا ساتھی بنادیتا ہے؟
دیکھئے تحریک ختم نبوت کے گرانقدر شخصیت موالنا ہللا وسایا تقدیم میں فرماتے ہے:
قدرت نے آپ (یعنی امرتسری از ناقل) کو فتنہ قادیانیت کے استیصال کے لئے ہی پیدا کیا تھا۔ (ص
)٤
تبصرہ :محترم کیا آپ کو ایک غیر مقلد جو بقول آپ لوگوں کے مرزائیوں کے پیچھے نماز کو
صحیح سمجھتا تھا اس کو مناظر اسالم اور فاتح قادیان تسلیم کریں گے تو تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ
آپ لوگ بالکل معاویہ کی طرح ہے جو آپ کے مبانی کے تحت کسی کی تعریف کا بھی معتقد ہو
اور اسی طرح وہ پھر برائیاں بھی کرتا ہو۔ جو جواب ادھر وہی ہمارا ،آپ مزید اس پر لکھنا بیکار
ہے۔
جواب
، 1آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی صحابی کو اس طرح ماننا ھوتا ھے جس طرح
قرآن و احادیث میں بتایا گیا ہے ؟
ضرور بتانا آپ.
.، 2رھا موالنا ہللا وسایا کا حوالہ تو یہ بات واضح ھے کہ اگر کسی میں کوئی بات قابل تعریف
ھوگی تو اس کا اقرار کیا جائے گا.
لیکن کسی صحابی کے بارے میں اس کے قرآن و احادیث سے ثابت شدہ فضائل ماننے واال اس سے
محبت کی دلیل ھوتی ھے کہ نھیں ؟
یہ سوال آپ کے جواب کا منتظر ہے.
، 3آپ اپنے جن دالئل کو الجواب کھا ھے دشمن کی تعریف والی کو ،یہ آپ تب بات کرنا جب آپ
کی گالیاں،دشمنی وغیرہ والی بات ثابت ھو.
دشمن تعریف کرسکتا ھے اس سے انکار نھیں لیکن وہ یھاں فٹ نھیں ھوتے کیونکہ آپ اب تک اپنا
مدعی ثابت نھیں کرسکے.
17#
آگے جناب کے جوابات دیکھیں میرے چند باتوں کے
میں نے لکھا کیا تھا کہ
، 1ھم بھی یھی تو کھتے ھیں کہ شیعہ جو حب اھل بیت کے دعوے کرتے ھیں وہ سچے نھیں اور نہ
یہ دعوے ان کے محب اھل بیت ھونے کی دلیل ہے.
جناب نے یہ بات کر کے شیعہ کے بارے میں ھمارے خیال کے تائید کردی)
یہ کالم فارغ ہے جس کی کوئی علمی دنیا میں حقیقت نہیں ،آپ کا فہم کسی شخص پر حجت نہیں۔
اس پر بحث کریں تو ہم بات کرتے ہیں کہ کون اہلبیت ع کی سچی اتباع کرتا ہے اور کون اپنی
اصول کی کتب میں اہلبیت ع کے قول کو غیر حجت سمجھتا ہے۔۔ فی الحال یہ بحث نہیں۔
الجواب.
دوستو جو بات یہ معاویہ رض پر فٹ کر رھے ھیں وہ میں شیعوں پر فٹ کررہا ھوں تو جناب
میرے کالم کو فارغ ھوا.
تو جناب پہر آپ کا معاویہ رض کے بارے میں کالم بھی فارغ کھہ رھے ھیں.
اگر میری بات غلط تو آپ کی بات بھی غلط.
میرا کالم فارغ تو آپ کا بدرجہ اولی فارغ.
میں ان سے پوچھتا ھوں کہ ایک شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ان کے دور میں خالفت کا
زیادہ حقدار مانتا ھے ،نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جو ان کے فضائل بتائےھیں ان کو تسلیم
کرتا ھے ،ان کی موت پر افسوس کرتا ھے .تو کیا یہ شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ماننے واال
ھوا کہ نھیں؟
اس کا جواب دیں تاکہ آپ کی اوپر والی بات کا جواب دیا جا سکے) .
ان تمام کے دالئل نقل کریں پھر میں سند اور داللت دونوں پر بحث کرتا ہوں۔ صرف دعوی کافی
نہیں ،اگلی ٹرن میں تمام دالئل نقل کیجئے گا ان دعوؤں پر۔۔
جواب.
دیکھیں ناظرین ان سے جو سوال ھوا اس کا جواب نھیں دیا انہوں نے ،دالئل کی باری بھی آئیگی آپ
جواب تو دیں ؟
جواب نہ دینے کا کیا مطلب ؟
آپ دالئل کا رد بےشک کرنا لیکن سوال کا جواب دیں پہلے.
اور میں نے سوال کیا ہے یہاں کوئی دعوی نھیں ،فرق سمجھیں.
18#
اور بھی چند جوابات جناب کے مالحظہ فرمائیں
مشرکین جو توھیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی کرتے ھیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ھے ،ان
کو جناب کس کھاتے میں ڈالیں گے؟)
جواب.
، 1شکر ہے آپ نے یہ تو مانا کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی تعریف
کرتے تھے .کیونکہ آپ نے ان کو مشرکین کے مثل کھا اور یہ بات آپ بھی مانتے ہیں کہ مشرکین
آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تعریف کرتے تھے.
باقی آپ کا گالیاں وغیرہ کے الزامات لگانا ،یہ اپنے پاس رکھیں ،سوائے جھوٹ کے ان کی کوئی
حقیقت نہیں.
محترم کے استدالل کی داد دینی پڑے گی کیونکہ جزئیہ سے کلیہ پر بغیر کسی قرینہ کے استدالل
کرنا ان ہی کو مبارک ہو۔۔ میں کب کہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان کی تعریف میں محو رہتے تھے۔۔ میرا
کام آپ کے کلیہ کے اصول کو توڑنہ تھا جو میں نے توڑ دیا۔۔ یعنی ان کی دشمنی کے باوجود انہوں
نے رسالت مآب ص کی تعریف کی۔۔
وھذہ الشھادة لكونھا من أھل العداوة حجة لما قیل الفضل ما شھدت به اْلعداء
اور یہ کافر کی شہادت جو اگرچہ رسول ص سے دشمنی رکھتا تھا حجت ہے کیونکہ کہا گیا کہ
فضیلت وہ جس کی گواہی دشمن دے۔
مح ترم محترم۔۔ یہی میرا استدالل ہے معاویہ کی تعریف ذرہ برابر بھی اس کے ایمان پر داللت نہیں
کرے گی کیونکہ اس سے سب ،اذیت دینا اور بغض امیر ع سب ثابت ہے تو اس صورت میں اس کو
دشمن اور عدو ہی تسلیم کیا جائے گا۔
جواب.
،1پتا نہیں کونسے میرے کلیے کی بات کر رہے ہیں جناب ؟
اپنی طرف سے کلیے بنا کر دوسروں پر تھوپنا اور ان کو توڑنا جناب کی پرانی عادت ہے.
، 2میں نے سیدنا معاویہ رض کی ایک مخصوص حالت بتائی تھی کہ وہ حکمران تھے ان کے پاس
طاقت تھی وغیرہ،تو یہ ایک مخصوص صورت تھی کوئی کلیہ نھیں تھا اور اس مخصوص صورت
کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں فرمایا.
جاری ہے....
19#
بقیہ...
، 3مال علی قاری رح کے قول سے آپ کو کیا فائدہ ؟ یہ بات تو میں بھی مانتا ھوں تو جواب دینے
کی مجھے کیا ضرورت ؟
آپ دشمنی و بغض ثابت کریں پہر اس طرح کی بات کریں.
باقی آپ کا یہ کھنا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ نے جنگ کی ،تو سوال یہ ھے کہ جنگ صفین کھاں
لگی تھی؟ کوفہ کے پاس یا شام کے پاس؟ اس سوال کے جواب سے یہ بات واضح ھوجائے گی کہ
کس نے جنگ کی تھی.
جنگ معاویہ کی حرکتوں کی وجہ سے ہوئی تھی جو خلیفہ برحق کے خالف بغاوت کی اور باغی
خود احادیث نبوی سے معاویہ کے لئے ثابت ہے اور ایسے باغی سے جہاں جنگ ہو وہاں قتال کرنا
باعث اجر و ثواب ہے بشرط ایمان۔
جواب
، 1الحمد ہلل آپ نے یہ تو مانا کہ جنگ معاویہ رض نے نھیں بلکہ سیدنا علی رض نے کی تھی.
یہ بات اپنی جاھل عوام کو بھی سمجھادی ں جو صبح شام یہ کھتے ھیں کہ "معاویہ نے جنگ کی".
، 2یہ بھی آپ دالئل سے بتا دیتے کہ معاویہ رض کی کس بات پر سیدنا علی رض کو کوفہ سے شام
کی طرف اتنا لشکر لے جاکر اتنے لوگ شھید کروانے کی ضرورت پیش آئی؟
(یہ شیعوں کے انداز میں سوال ھے نہ کہ اھل السنت کے انداز میں ،کیونکہ شیعہ یہ کھتے ھیں کہ
معاویہ نے اتنے مسلمان مروا دیے).
، 3باغی پر جب بحث ھوگی تو ھم بتائیں گے کہ باغی کس کے لشکر میں تھے.
فی الحال اپنے دل کا بغض ظاھر کرنے کے بجائے اصل نقطے پر بولیں.
، 4یہاں معاویہ رض کے خالف جنگ کو ثواب لکھ دیا اور آگے سیدنا حسن رض کو اس ثواب سے
محروم کردیا اور اس ثواب یعنی معاویہ رض سے جنگ کو فتنہ لکھ دیا.
آگے مالحظہ فرمائیے گا.
20#
میں نے لکھا تھا کہ
رھا دیوبندی کی تکفیر کا مسئلہ تو کافر تو خارجیوں نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو بھی کھا ھے
نعوذ باہلل.
اور جو سنجیدہ قسم کے علماء دیوبندی علماء کی تعریف کرتے ہیں وہ ان کو کافر نھیں کھتے
جواب.
، 1جناب جواب لکھنے سے پہلے بات کو سمجھنا ھوتا ھے ،میں کیا لکھ رھا ھوں اور آپ کیا جواب
دے رھے ھیں،
میں نے لکھا کہ سنجیدہ علماء کافر نھیں کھتے اور آپ نے لکھ دیا کہ "دشمن ھو کر تعریف" ...
جناب دشمنی کس بال کا نام ہے زرا واضح تو کریں؟
، 2اور میں کھاں لکھا ہے کہ دشمن تعریف نہیں کرسکتا؟ یہاں تو میں دشمنی جو آپ ثابت کرنا چاہ
رہے ہیں وہ میں مان ھی نھیں رھا.
اور معاویہ کا جنگ کرنا تعریف کے باوجود واضح طور پر اس پر داللت کرتا ہے۔ دیکھئے اس
روایت کو
رسول ص نے امیر المؤمنین ،سیدہ زھرا ،امام حسن ع اور امام حسین ع کو مخاطب کرکے کہا
میری جنگ ان سے جن سے تم جنگ کرو اور میری صلح ان سے جن سے تمہاری صلح
حوالہ :المستدرک ،جلد ٤ص ،٢٥١رقم ٤٧١٤
موجودہ دور کے محقق حسین سلم اسد اس روایت کو نقل کرتے ہیں اور تعلیق میں فرماتے ہے:
إسنادہ حسن ،أسباط بن نصر بسطنا القول فیه عند الحدیث المتقدم برقم ( ،)1524والسدي ھو إسماعیل
بن عبد الرحمن ،وصبیح مولى أم سلمة ترجمه البخاري في = = الكبیر 317 /4ولم یورد فیه جرحا ً وال
تعدیالً ،وتبعه على ذلك ابن أبي حاتم في "الجرح والتعدیل" ،450 - 449 /4وذكرہ ابن حبان في ثقاته
، 382 /4وقال الذھبي في كاشفه" :وثق" .وصحح الحاكم حدیثه ،ووافقه الذھبي.
حوالہ :موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان جلد ٧ص ٢٠٢-٢٠١
جواب.
دعوی
رف نظر کرتا ھوں پہر کبھی ،اس کا متن ھی آپ کے ٰ
ص ِ،1اس کی سند پر بحث سے فی الحال َ
کے مطابق نھیں ،الٹا یہ حدیث کوفی شیعوں پر %110فٹ آتی ھے نہ کہ معاویہ رض پر.
، 2متن میں بھی ان حضرات سے لڑنے کا ذکر ھے اور آپ خود مان چکے ھیں کہ جنگ سیدنا
معاویہ رض نے نھیں سیدنا علی رض نے صفین میں لشکر ال کر کی تھی ،معاویہ رض تو صرف
دفاع کررھے تھے ،تو یہ روایت یھاں فٹ نھیں ھو سکتی.
21#
میں نے معاویہ رض کا سیدنا علی رض کے فضائل سن کر خاموش رہنے پر لکھا تھا کہ
میں اعم نھیں اخص صورت کی ھی بات کررھا ھوں ،وہ اس طرح کہ ایک شخص جو حکمران ھو
طاقت اس کے پاس ھو ،وہ کسی دوسرے سے (بقول شیعہ) سخت دشمنی بھی رکھتا ہو ،اس سے
جنگ بھی کی ھو ،اس کو ممبروں پر خطبوں میں خود بھی گالیاں دیتا ھو اور دوسروں سے بھی
دلواتا ھو .وہ اپنے ایسے دشمن کی تعریفیں سن کر پہر بھی خاموش رھتا ھے تو یہ بالکل اس بات
کی دلیل ھے کہ وہ اس کے فضائل مانتا ھے
معاویہ کا سب و شتم کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ جب مغیرہ بن شعبہ کو گورنر بنایا تو اس
وقت بھی یہ چیز چلتی رہی۔۔ دیکھئے خاموشی کا بیان کی کافی صورتیں ہوسکتیں ہیں کبھی دالئل
سے مغلوب ہوکر بھی انسان خاموش ہوجاتا ہے اور اس پر میں نے شافعی کا قول دیا تھا۔
شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت کبھی مختلف
دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے ،کبھی کسی انسان کے
وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے ،کبھی اس انس ان کے رعب کی وجہ سے ،کبھی فتہ کے
خوف کی وجہ سے ہے ..الخ
حوالہ:فصول البدائع
اس پر محترم نے تمام جو احتماالت پیش کئے ان تمام پر بیان نہیں فرمایا۔۔ ہم کہتے ہیں کہ اس میں
کتے احتماالت سکوت ہے اور ان میں تعارض ادلتہ (یعنی مختلف دالئل کا تعارض ہونا ہے) تو کیا
پتا معاویہ اس وجہ سے خاموش ہوا ہو۔۔ دلیل دینا آپ کے ذمہ میں ہے کہ وہ خاموش تسلیم فضائل و
شیر و شکر رشتہ کے تحت ہوا۔۔ تفضل دلیل دیجئے مجھے۔ اور بعض روایات میں سعد بن ابی
وقاص کا فورا چلے جانا لکھا ہے جیسا کہ تاریخ بن عساکر سے میں نے نقل کیا تھا
میں تمہارے پاس اب کبھی داخل نہیں ہوں گا اور اپنی عبا صحیح کرکے چل پڑے
جواب.
، 1ناظرین آپ نے غور کیا ھوگا کہ جو اخص صورت معاویہ رض کی میں نے بتائی ہے اس پر
جناب نے کچھ بھی نہیں فرمایا ،کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ یہ صورت بالکل علی رض کے فضائل
ماننے کی ھی دلیل ہے ،ایسے الفاظ لکھ کر یہ اپنے دل کی بھڑاس تو نکال رھے ھیں لیکن میری
اس بات کو توڑ نھیں پارھے اور نہ توڑ سکتے ہیں.
جاری ہے...
22#
، 2خاموشی کے بیان کی جو صورتیں یہ بار بار گنوا رھے ھیں ان کا کوئی فائدہ نہیں ھے جناب
کو ،کیونکہ جو اخص صورت معاویہ رض کی ھے اس پر آپ کی بیان کردہ صورتیں فٹ ھو ھی
نھیں سکتیں.
خواہ مخواہ وقت ضائع نہ کریں.
، 3یہ اخص صورت ھی میری بات کی واضح دلیل ہے جس کا توڑ آپ کے پاس نھیں.
، 4حضرت سعد رض کا جس حوالے کا آپ اشارہ کررہے ہیں اس کا حشر تو پچھلے کمنٹس میں
دیکھ چکے ہیں ،اور آگے بھی دیکھ لیجیے گا ،یھاں آپ کی اس بات کا رد خود سعد رض سے ھی
دیکھ لیں.
shamela.ws/browse.php/book-8376/page-2933#page-2930
یعنی سعد رض معاویہ رض کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور رمضان کا مہینہ ان کے پاس قیام کیا،
نماز قصر کرتے اور روزہ چھوڑتے تھے ،ان کی بیعت بھی کی اور سعد رض نے جو ان سے
مانگا معاویہ رض نے ان کو دیا.
، 1اس روایت میں کھیں بھی نھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا کو گالیاں دی گئی.
، 2مسلم میں بقول جناب کے حکم ھے سب کا ،اور اس روایت میں ایسا کچھ نہیں
سعد بن ابی وقاص فرماتے ہے کہ ((معاویہ اپنی بعض حوائج کو لے کر ان کے پاس آیا ،پس وہ سعد
کے ہا ں مالقات کے لئے آیا)) ،اور امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی
جس کے بعد سعد بن ابی وقاص غضبناک ھوگئے (غصہ میں آگئے) اور پھر رسول ص کی زبانی
تین فضائل امیر ع کا ذکر کیا...
ادھر لفظ نَا َل ِم ْنهُ ہے اور یہ واضح طور پر تنقیص کے لئے آتا ہے۔۔ اور یہی اثبات امر ہے کہ
معاویہ خود تنقیص کرتا تھا اور دوسروں کو تنقیص کا حکم دیتا تھا اور دوسروں کو کہنے پر یہ
الفاظ مستدل ہے۔۔ قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ
ض َح هجاتِ ِه۔۔ یعنی بعض حوائج کو لے کر سعد کے پاس آیا۔۔ اور
نالہ منہ کا یہی معنی ارباب لغت کرتے ہیں اور اگر اس کا ہلکا سے ہلکا معنی بھی لیں تو یہ حد
تنقیص تک ضرور جاتا ہے اور اس صورت میں معاویہ کا نفاق پھر بھی ثابت ہوتا ہے۔۔
قوله" :نال منه" أي أصاب منه ،أراد :تكلم في حقه بما یسوؤہ
اور اس شخص کا کہنا "نال منه" یعنی اس سے وہ چیز پہنچی۔۔ مراد یہ ہے کہ اس شخص نے
دوسرے کے حق میں ایسی بات کہی جو اس کی برائی پر مشتمل تھی۔
جواب
،1حدیث کا ترجمہ ھی غلط،
علَ ْی ِه َ
س ْعد قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ
ض َح هجاتِ ِه ،فَدَ َخ َل َ
حجاتہ کا معنی آپ نے حوائج کیسے کیا؟
اور داخل سعد رض معاویہ رض پر ھوئے یا معاویہ رض سعد رض پر داخل ھوئے؟
کسی عربی جاننے والے سے ہوچھ کر تصحیح کرلیں.
جاری ھے...
24#
جواب
، 2پہر آگے آپ کا یہ لکھنا کہ "معاویہ تنقیص کا حکم دیتا تھا اور دوسروں کو کھنے پر یہ الفاظ
مستدل ھیں قدم معاویہ"...
آپ کے اس بات کی بنیاد ھی غلط ترجمے پر ھے ،تصحیح کرلیں اور اپنے غلط استدالل سے ھاتھ
اٹھائیں.
، 3نال منہ کے آپ نے جو معنی بھی لکھی ھیں ان سے مراد گالی تو پہر بھی ثابت نھیں ھوتی ،آپ
نے بھی ترجمہ "تنقیص" ھی کیا ھے ،اور تنقیص سے خاص گالی مراد لینا غلط ھے.
اگر اس پر آپ سعد رض کی ناراضگی کو دلیل بنانے کی کوشش کررھے ھیں تو سوال یہ ھے کہ
کیا صرف گالی دینے پر ھی غصہ آتا ھے؟ نھیں تو پہر آپ کا مزعومہ استدالل باطل ھوا.
شاید معاویہ رض نے یہ کھا ھو کہ علی رض نے قاتلین عثمان جیسے باغیوں کا ساتھ دیا اور غلط
کیا ،اس بات پر سعد رض کو غصہ آیا ھو؟
کیونکہ معاویہ رض کا موقف یھی تھا کہ قاتلین عثمان سے قصاص لیا جائے جو سیدنا علی رض نہ
لے سکے.
تو گالی دینا تو ثابت نھیں ھوتا.
، 4کیا کسی سے اختالف رائے رکھنا بغض کھالتا ھے جو بار بار آپ بغض علی کھہ کر اپنا بغض
معاویہ ظاھر کررھے ھو؟
25#
تاریخ دمشق اور ابن عساکر کے حوالے پر میں نے لکھا تھا کہ
ان کو بھی پتہ ہے کہ اس روایت میں کچھ علت ھے جو یہ روایت قابل استدالل نھیں .اس میں محمد
بن اسحاق ھے جو شیعہ ھے .عالمہ ابن حجر تقریب التھذیب میں لکھتے ہیں محمد بن اسحاق بن
یسار ....رمی بالتشیع .کہ یہ شیعہ تھا .یھی بات تاریخ بغداد ج ،١سیر اعالم النبالء میں بھی ھے .اور
یہ اصول ھے کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں قابل قبول نہیں.
اب محترم نے محمد بن اسحاق پر تشیع کا الزام اور تشیع کا ہونا قدح روایت والی بات کہی۔۔ اس پر
میرے کچھ جوابات ہیں جو صغروی اور کبروی دونوں عنوان سے ہے۔...
ان فالتو ابحاث کا میرے اعتراض سے کوئی واسطہ نھیں اس لیے میں ان باتوں میں اپنا وقت ضائع
نھیں کرونگا.
اور ان غلطیوں میں سے ایک جن میں عموما ابتدائی طالب علم حضرات جو مصطلحات وغیرہ کو
صحیح نہیں جانتے وہ پڑ جاتے ہے کہ وہ روافض اور شیعوں کی اصطالح کو خلط ملط کردیتے
ہیں کیونکہ وہ عادی ہوتے ہیں روافض پر شیعہ اصطالح استمعال کرنے پر تو وہ سمجھتے ہیں کہ
جو متقدمین علما نے شیعہ اصطالح استعمال کی ہے اس کا اطالق روافض پر بھی ہے جب کہ اہل
علم حضرات ان دو شیعہ اور روافض میں جملہ احکامات میں فرق کے قائل ہیں۔
حوالہ :أسمى المطالب في سیرة أمیر المؤمنین علي بن أبي طالب رضي ہللا عنه جلد ٢ص ٧٩٩
جواب
اگلے کمنٹ میں.....
26#
جواب
، 1متقدمین کے نزدیک تشیع اور رفض میں فرق ھے اس کا انکار کس نے کیا جو آپ نے یہ بحث
چھیڑ دی؟
لیکن خیر طلب صاحب نے تشیع کی جو تعریف نقل کی ہے وہ ادھوری ہے.
یہ پڑھیں
التشیع في عرف المتقدمین ھو اعتقاد تفضیل علي ٍ على عثمان وأن علیا كان مصبیا في حروبه وأن
مخالفه مخطىء مع تقدیم الشیخین وتفضیلھما وربما اعتقد بعضھم أن علیا أفضل الخلق بعد رسول ہللا
صلى ہللا علیه و سلم
فتح المغیث ج ١ص 330
islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html
تو تشیع صرف سیدنا عثمان رض سے سیدنا علی ر ض کو افضل سمجھنے کا نھیں بلکہ سیدنا علی
رض کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد ساری مخلوق سے افضل ماننے کا نام بھی ھے.
، 2یہ حقیقت کس سے ڈھکی چھپی ھے کہ شیعہ مذھب میں تقیہ و کتمان ،اپنا مذہب چھپانا دین کا
حصہ اور عبادت ھے؟
یہ بالکل ممکن ھے کہ کسی راوی نے اپنے باقی برے عقائد چھپائے ھوں صرف حب علی و
تفضیلیت ھی کو ظاھر کیا ھو.
تو شیعہ راوی سے یہ بات بعید نھیں،
اس لیے جس روایت میں شیعہ راوی ھوگا اور وہ روایت شیعہ مذھب کی تائید میں ھوگی تو وہ قابل
قبول نہیں ھوگی.
اب میں کبروی بحث پر آتا ہوں کہ کیا بدعتی کی روایت چاہے داعی ہو یا نہیں بقول ہے یا نہیں تو
جواب میں کہا جائے گا کہ مذھب حنفی یعنی ابوحنیفہ کے ہاں قابل قبول ہے۔ مالحظہ ہو سخاوی کا
قول:
خطیب اور یہ اسی طرح ابن ابی لیلی ،سفیان ثوری اور اسی طرح ابوحنیفہ سے بھی منقول ہے بلکہ
حاکم نے کافی سارے آئمہ احادیث سے نقل کیا۔۔ اور فخر الدین رازی نے محصول میں اور حق یہی
ہے اور ابن دقیق العید نے اس بات کو راجح قرار دیا کہ بدعتی کی روایت مطلق قبول ہے چاہے وہ
داعی ہو یا غیر داعی۔
جواب
اگلے کمنٹ میں...
بدعتی روایت بیان کرنے میں اگر سچا ھو تو اس کی روایت لی جائے گی
islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html
اگر اس کی روایت منکر نہ ھو ،اس سے اپنی بدعت کو تقویت نہ دی گئی ھو تو قبول ھے.
تو ثابت ہوا کہ بدعتی کی وہ روایت مقبول ہے جو اس کے مذھب کی تائید میں نہ ھو.
اتنے صاف اور واضح اصول کی موجودگی میں آپ کی باتوں کا کوئی وزن نہیں.
عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ میں سعید بن زید کو سنا کہ جب فالں شکص کوفہ آیا تو ایک فالں خطبہ
کے لئے کھڑا ہوا ،پ س سعید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا تم اس ظالم کو دیکھو میں نو لوگوں
کی گواہی دیتا ہوں۔
حوالہ :سنن ابی داود ،جلد ٤ص ٢١١
عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ جب معاویہ کوفہ سے گیا تو اس سے مغیرہ بن شعبہ کو گورنر تعین
کیا۔۔ بہرحال مغیرہ نے بعض خطبہ دینے والوں کو اجازت دی جو امیر المؤمنین ع کی تنقیص و شتم
کرتے تھے۔۔ میں سعید بن زید کے ساتھ تھا جو شدید غصہ میں آئے اور کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ
پکڑا ،پس میں ان کے پیچھے ہوا اور کہنے لگے کیا تم اس شخص کو دیکھتے نہیں جو اپنے نفس
پر ظلم کرتا ہے اور جو ایسے شخص پر لعن کا حکم دیتا ہے جو جنت والوں میں سے ہے۔۔۔الخ
چنانچہ ثابت ہوا کہ ایک روایت کے تحت معاویہ کی موجودگی میں اور دوسری روایت میں معاویہ
کی گورنر شپ کے بعد مغیرہ نے یہ جرم انجام دیا۔۔ اور یہ بتاتا ہے کہ بنو امیہ کا عمومی رجحان
سب علی ع کے معاملہ میں بہت ہلکہ تھا۔ اور اس کی پوری قلعی صاحب شرح مسند احمد نے
کھولی ہے۔.....
پہر آگے مسند احمد کی شرح سے حوالہ بھیجا....
2/28#
جواب جناب نے جو یہ دو روایات پیش کی ھیں ذرا ان کا حال دیکھ لیں.
،1ابو داؤد میں ھے
قدم فالن الی الکوفۃ...
یعنی معاویہ رض کوفہ آئے
اور ان کی پیش کردہ مسند احمد کی روایت میں ھے
خرج معاویہ من الکوفۃ..
معاویہ کوفہ سے نکلے.
یہ پہال تضاد
، 2ابو داؤد میں مغیرہ بن شعبہ رض کے خطیب ھونے کا ذکر ھے اور مسند احمد میں کسی
دوسرے خطیب کا ذکر.
یہ دوسرا تضاد
، 3ابو داؤد کی روایت میں معاویہ رض مجلس میں موجود ہیں لیکن مسند احمد کی روایت میں
مجلس میں موجود نہیں
یہ تیسرا تضاد
، 4جھاں معاویہ رض کی موجودگی کا ذکر ھے ابو داؤد میں وھاں سیدنا علی رض پر کسی گالی کا
ذکر نھیں ،اور جھاں خطباء کا سیدنا علی رض کو برا بھال کہنے کا ذکر ھے وھاں سیدنا معاویہ
رض کی موجودگی کا ذکر نھیں.
اور جناب نے عنوان دیا ہے کہ معاویہ رض کی رضامندی سے گالیاں دی جاتی تھیں.
اور اس بات کا کوئی ثبوت ھی نہیں.
کیا یہ بغض معاویہ میں علمی خیانت نھیں؟؟؟
دعوی میں.
جناب پوری طرح سے ناکام ھوگئے ھیں اپنے ٰ
اب ذرا ان کی فتح الربانی سے پیش کردہ حوالے کا حال بھی دیکھ لیں
فتح ربانی والے نے دونوں روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے جو اصل روایات سے ٹکر
کھا رھی ھے
⏪ مسند احمد کی روایت میں کسی خطیب کی بات سے سعید بن زید رض کا غصہ ھوکر نکل جانے
کا ذکر ھے اور جناب تطبیق دینے والے لکھتے ہیں
خطب المغیرة ابن شعبة فنال من على فخرج سعید بن زید
یھاں بھی تطبیق نہ ھوسکی
یعنی ابو داؤد اور مسند احمد کی روایات میں تطبیق ممکن ھی نھیں.
یہ روایت اضطراب سے پُر ہے اور قابل استدالل نھیں
1/29#
جناب نے سیدنا حسن رض کی سیدنا معاویہ رض سے صلح کے وقت علی رض کو گالی دینے سے
روکنے کی ایک شرط کا ذکر کیا تھا ،جس پر میں نے لکھا تھا کہ
سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کی اس شرط سے قطعا ً ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی
رضی ہللا عنہ پر سب کرتے تھے.
کسی چیز کے روکنے سے یہ الزم نھیں آتا کہ پہلے ایسا ھوتا تھا ،قرآن میں مسلمانوں کو کتنی
چ یزیں سے روکا گیا ھے؟ تو کیا سارے مسلمان ان کو کرتے ھیں جو ہللا نے روکا؟
دعوی کے مطابق نھیں ھے. بطور تنبیہ کہ بھی روکا جاتا ھے .تو آپ کی دلیل ٰ
محترم۔۔ ادھر شرائط طے کرنے کی بات ہورہی ہے۔۔ ہدایت نامہ اور پورا دستور نہیں دیا جارہا۔۔ آپ
کا قیاس مع الفارق باطل ہے کیونکہ جس چیز کی نہی کی جارہی ہے وہ چنیدہ ہے نہ کہ غیبت،
تمہت ،کذب بیانی ،حسد اور باقی گناہوں کی لسٹ دی جارہی تھی۔۔ مجھے یہ بتائے کہ فقط اس کا ہی
تذکرہ کیوں کیا گیا اور باقی دیگر جرائم و گناہوں کی لسٹ کیوں بیان نہیں کی۔۔ جو چیز ہورہی ہوگی
اس کے منع کا ہی ہو کہا جاتا ہے شرائط نامہ میں۔۔ ورنہ قرآن میں کتنی جگہ اور احادیث میں اسے
کئی گنا زیادہ نہی وارد ہوئیں ہیں تو ان تمام کا ذکر امام حسن ع نے کیوں نہ کیا اور خؤد روایات
میں عدم توفق معاویہ کا بھی ذکر ہے تو یہ تو بذات خود اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ معاویہ سے
یہ گناہ کا صدور ہو بھی رہا تھا اور وہ اس کو روکنے میں سنجیدہ بھی نہ تھا۔ چنانچہ مورخ ابن اثیر
رقم طراز ہے:
ي
الكف عن شتم عل ّ
ّ وأال یشتم علیا ،فلم یجبه إلى
امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر المؤمنین ع پر شتم نہ کیا جائے تو معاویہ نے اس شتم علی
ع کو روکنے پر حامی نہ بھری۔
جواب
، 1جناب تو میں نے کب کھا کہ پورا دستور العمل لکھا جا رھا تھا؟ میں نے بھی خاص بات کی ہے
گالی کے متعلق ،آپ یہ غلطی کافی دفعہ دھرا چکے ہیں کہ جواب سمجھے بغیر ھی لکھ دیا.
، 2آپ کو یہ ثابت کرنا ھے کہ معاویہ رض علی رض کو گالیاں دیتے تھے ،سیدنا حسن رض کی
اس شرط سے بالکل ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رض گالیاں دیتے تھے.
اگر دوسرے لوگ گالیاں دیتے تھے تو اس کو آپ معاویہ رض پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں.
جاری ہے...
2/29#
، 3مجھے تو روک رھے تھے کہ دستور العمل نھیں بلکہ صلح کا شرائط نامہ طے ھورھا تھا ،لیکن
جناب خود دستور العمل پر آگئے اور لکھ دیا کہ
مجھے یہ بتائیں کہ فقط اس کا ھی تذکرہ کیوں کیا گیا اور باقی دیگر جرائم و گناہوں کی لسٹ کیوں
بیان نھیں کی؟.
، 4تاریخ کامل و ابن الوردی کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ھیں
"اال یشتم علیا ،فلم یجبہ.....
وہ سند کے ساتھ نھیں کہ کون ھے یہ بیان کرنے واال؟ اس کے برعکس جو سند کے ساتھ شرائط
منقول ھیں ان میں یہ شرط نھیں.
تاریخ طبری اور البدایہ و النھایہ میں یہ خاص الفاظ نھیں
دیکھ سکتے ہیں آپ
، 5اسی جگہ طبری و البدایہ میں یہ شرط معاویہ رض قبول کررھے ھیں کہ
ال یشتم علیا وھو یسمع
کہ علی رض کو گالی نھیں دے گے
اس شرط کو معاویہ رض نے قبول کیا.
، 6اس کے برعکس شیعہ مؤرخ ابو حنیفہ دینوری لکھتا ہے
قالوا :ولم یر الحسن وال الحسین طول حیاہ معاویه منه سوءا في أنفسھما وال مكروھا ،وال قطع عنھما
شیئا مما كان شرط لھما ،وال تغیر لھما عن بر.
أخبار الطوال ص 225
shamela.ws/browse.php/book-9760#page-225
یعنی حسنین کریمین نے کوئی تکلیف یا ناپسندیدہ چیز نھیں دیکھی معاویہ رض کی پوری زندگی
میں ،اور جو شرائط دونوں نے طے کیے تھے معاویہ رض نے کسی شرط کو نھیں توڑا ،اور ان
سے بھالئی کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی.
اگر معاویہ رض سیدنا علی رض کو گالیاں دیتے یا دلواتے تھے تو شیعہ مؤرخ ایسا نہ کھتا.
تاریخ الطبري = تاریخ الرسل والملوك ،وصلة تاریخ الطبري • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة
1/30#
جناب اصل موضوع سے ھٹ کر لوگوں کو الجھانے کی کوشش کرتے ھوئے لکھتے ہیں کہ
امام حسن ع پر بھی اعتراض کیا تو اس کا جواب بھی دیتا چلتا ہوں۔۔ اس میں ایک تمہید کے بعد امام
حسن ع کا اصلی نظریہ معاویہ کے بارے میں نقل کیا جائے گا اور .اس کے ساتھ ساتھ عمار یاسر ع
کا نظریہ بھی جو کافی ملتا جلتا ہے اور پھر سکوت پر الزامی جواب۔
جواب.
ناظرین یھاں حضرت عمار رض کی بات ھی نھیں چل رھی لیکن ان کی نیت بات سلجھانے کی نھیں
الجھانے کی ھے ،اس لیے جناب غیر متعلق ابحاث الکر قارئین کا ذھن منتشر کرنے کی کوشش
کررہے ہیں.
ان کی اس بات کا بھی حشر آگے دیکھ لیں آپ.
اگر سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے تھے اور بقول آپ کے وہ
منافق تھے ،تو ایسے شخص کو اسالمی حکومت کا سربراہ بنانے واال امام رھ سکتا ھے؟
اب زرا اپنے اماموں کی امامت کی بھی فکر کریں اور آپ کے مذھب میں بیان کردہ ائمہ کے شرائط
کو سامنے رکھ کر بتائیں.
اچھا ھوا آپ نے سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کا ذکر کر کے یہ بات کھول کر اس سوال کا موقعہ دیا
جواب میں جناب لکھتے ہیں
صلح جائز ہے ویسے ہی معاویہ کے ساتھ جائز ہے۔۔ اور امام حسن ع کے صلح کرنے سے ان کی
امامت پر کوئی نقض نہیں آتا۔۔ یہ بات تو آپ کے ذمہ میں ہے کہ آپ ثابت کریں کہ اس سے امام
حسن ع کی عصمت اور امامت میں فرق آتا ہے۔۔ اور مزید سنئے کہ امام حسن ع معاویہ کو ایک
فاسق ہی تصور کرتے تھے۔۔ اور صلح کو ایک وقتی ضرورت کے تحت ہی کیا گیا۔
2/30#
جواب
1میرا سوال تھا کہ معاویہ رض اگر ایسے تھے جیسا آپ کا باطل نظریہ ھے تو سیدنا حسن رض
نے ان کو اسالمی حکومت کی سربراہی کیوں دی؟
جواب میں جناب نے کفار سے صلح کی بات کی ،اور آگے چل کر انھوں نے نبی کریم صلی ہللا
علیہ وسلم کی صلح کے واقعے سے اس کی مثال دی جس پر آگے تفصیلی بات ھوگی.
، 2امام کا مقصد امت کی رہنمائی ھوتا ھے نہ کہ ان پر اپنے ھاتھ سے جان بوجھ کر ایسے حکمران
مسلط کرنا کہ دین و دنیا ان کی برباد ھو ،حسن رض نے ایسے شخص کو حکمران بنایا جو (بقول
شیعہ) امت اور اسالم کے لیے گمراہی و بربادی کا سبب بنا.
أما حین انتھى اْلمر إلى معاویة ،وعلم أن موافقته ومسالمته وإبقائه والیا فضال عن اْلمرة ضرر كبیر،
وفتق واسع على االسالم ال یمكن بعد ذلك رتقه لم یجد بدا من حربه ومنابذته
اصل الشیعۃ و اصولھا ص 222،223
/...shiaonlinelibrary.com/.../4065//:الصفحة_...204
جب معاویہ نے اسالمی حکومت و اقتدار کو اپنے زیر نگین کرنا چاھا اور اس ضمن میں اس نے
مختلف تخریبی کارروائیاں شروع کردیں تو علی بن ابی طالب ع معارض ھوئے ،کیونکہ معاویہ
جیسے شخص کی موافقت اور اس کے غلط طرز حکمرانی کو طرح دینا اسالمی مفاد کے لئے زھر
ھالھل تھا اور دین ٰالہی کی حفاظت علی ع کا سب سے بڑا فرض.
مترجم ص 106
عمرو بن عاص منبر پر بیٹھا ہے اور امیر المؤمنین کا ذکر کیا اور پھر ان کی تنقیص کی اور پھر
مغیرہ بن شبعہ منبر پر آیا اور ہللا کی حمد اور تعریف کی ،اور علی رضی ہللا عنہ کی تنقیص کی۔
اور پھر امام حسن ع سے کہا گیا کہ آپ بھی منبر پر بیٹھیں تو امام حسن ع نے کہا میں منبر پر اس
وقت تک نہیں بیٹھوں گا اور کالم کروں جب تک تم یہ گنجائش نہ دو کہ میں اگر حق بات کروں تو
اس کی تصدیق کرنا اور اگر باطل کہوں تو تکذیب کرنا۔۔ تو انہوں نے یہ گنجائش امام حسن ع کو دی
اور امام منبر پر بیٹھے تو ہللا کی حمد اور تعریف کی اور پھر کہا اے عمرو بن عاص اور مغیرہ ہللا
کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم دونوں کو معلوم نہیں کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ خدا کی
لعنت ہو سواری چالنے والے اور سواری پر بیٹھنے والے پر اور ان دو میں سے ایک فالن تھا تو
ان دونوں نے یک زبان کہا بیشک ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام حسن ع نے کہ ہللا کے واسطہ اے معاویہ
اور اے مغیرہ کیا تم دونوں نہیں جانتے کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ ہللا کی لعنت ہو عمرو پر
اتنی جتنے قافیہ اس سے کہے تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام ع نے کہا اے عمرو
بن عاص اور اے معاویہ بن ابی سفیان ہللا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول ص نے اس قوم
پر لعنت کی تھی؟ تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔۔الخ
جواب
،1جناب اس میں کھیں بھی یہ بات نھیں کہ سیدنا حسن رض سیدنا معاویہ رض پر لعنت کررھے
ھیں ،یا یھاں جس پر لعنت ھوئی اس سے معاویہ رض مراد ھیں.
آپ کی سوچ ھمارے لیے حجت نھیں کہ اس سے معاویہ رض مراد ھیں وغیرہ.
بقیہ اگلے کمنٹ میں....
2/31#
جواب
، 2اس روایت میں ابو مجلز راوی ھے جس کے بارے میں ھے کہ
َوقَال أَبُو داود الطیالسيَ ،
ع ْن شُ ْع َبة :تجیئنا عنه أحادیث كأنه شیعي ،وتجیئنا عنه أحادیث كأنه عثماني.
تھذیب الکمال ج 31ص 178
shamela.ws/browse.php/book-3722#page-16727
ابو داود طیالسی امام شعبہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ابو مجلز کی ایسی احادیث ھمارے پاس آتی ہیں
گویا کہ وہ شیعہ ھو ،اور کبھی ایسی احادیث آتی ہیں گویا کہ وہ عثمانی ھو.
یہ روایت اس کا شیعہ ھونا ظاھر کررھی ھے جو قبول نہیں کی جائے گی.
،3اب زرا شیعہ کتاب سے سیدنا حسن رض کا سیدنا معاویہ رض کا متعلق نظریہ دیکھیں
عن زید بن وھب الجھني قال :لما طعن الحسن بن علي علیه السالم بالمدائن أتیته وھو متوجع ،فقلت:
ما ترى یا بن رسول ہللا فإن الناس متحیرون؟ فقال:
أرى وہللا أن معاویة خیر لي من ھؤالء ،یزعمون أنھم لي شیعة ،ابتغوا قتلي وانتھبوا ثقلي ،وأخذوا مالي،
وہللا لئن آخذ من معاویة عھدا أحقن به دمي ،وأومن به في أھلي.
االحتجاج للطبرسی ج 2ص 10
/...shiaonlinelibrary.com/.../1338//:الصفحة_...10
زید بن وھب جھنی کھتے ھیں کہ جب حسن رض کو زخمی کیا گیا تو ان کے پاس آیا اور وہ بھت
تکلیف میں تھے ،میں نے کھا اے رسول ہللا کے بیٹے آپ کیا دیکھتے ہیں ؟
حسن رض نے فرمایا کہ ہللا کی قسم معاویہ میرے لیے ان سے بھتر ھے جو خود کو میرا شیعہ
سمجھتے ہیں ،انھوں نے ھی میرے قتل کی کوشش کی ،میرے سامان لوٹا اور میرا مال چھینا.
ہللا کی قسم اگر میں معاویہ سے عھد کروں تو یہ میرا جان اور اھل و عیال کے لیے زیادہ امن واال
ھوگا.
سیدنا حسن رض تو معاویہ رض پر اعتماد کریں اور ان سے عھد لے کر اپنے جان ،مال و اھل عیال
کو محفوظ سمجھیں اور شیعہ کھتے ھیں کہ دشمن تھے.
دشمن تو حسن رض پر حملہ کر کے ان کو زخمی کرنے والے،
ان کو مذل المومنین (مومنوں کو ذلیل کرنے واال) کا لقب دینے والے شیعہ اصل دشمن تھے.
(فخر الزمان )
32#
خیر طلب صاحب لکھتے ہیں
آپ کا امام حسن ع کا سربراہی حکومت کا اختیار دینے پر میں بتاتا چلوں کہ یہ چیز ہرگز خالفت
معاویہ کی حقانیت پر داللت نہیں کرتی اور نہ ہی امام حسن علیہ السالم کے لئے موجب قدح ہے۔
میں ابھی تحلیلی بحث میں نہیں جاسکوں گا لیکن مختصرا اتنا عرض کروں گا کہ اس کی مثال فتح
مکہ کے موقع پر امام حسن ع کے جد امجد رسالت مآب صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی صلح کے
مترادف ہے جس کو کرنے سے نہ ہی کفار کی حقانیت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی رسالت مآب ص
کے لئے موجب قدح ہے۔۔ اور رسول ص ہی ہمارے مطاع ہے۔
جواب
،1جس کو آپ کے دوسرے منصوص امام حکمران و بادشاہ مقرر کریں ،اگر وہ بھی حق پر نہ ھو
تو پہر کیا آج کل کے شیعوں کے بنائے ہوئے حکمران حق پر ھونگے؟
دیکھ لیں قارئین یہ کتنا اپنے اماموں کو مانتے ہیں کہ ان کا بنایا ھوا حکمران بھی ان کے نزدیک
حق پر نھیں.
،2سیدنا حسن رض کے لیے سیدنا معاویہ رض کا حکمران بنانا کس طرح قدح ھے وہ میں کمنٹ
2/30#میں بتا چکا ھوں.
،3فتح مکہ کے موقعے پر کن کفار سے صلح ھوئی؟ یہ نئی تحقیق سامنے آئی ھے میرے علم میں.
اور اگر آپ کی مراد صلح حدیبیہ ھے تو پہر یہ مثال بھی غلط ھے آپ کی پچھلی دی گئی مثالوں
کی طرح.
اب آپ ھی فیصلہ کریں خیر طلب صاحب کی ایسے عجیب و غریب قیاسات کا.
میں پہلے بھی کھہ چکا ھوں کہ جو بھی مثال دیں سوچ کردیں.
1/33#
قارئین خیر طلب صاحب کا یہ کمنٹ بھی پڑھیں زرا
اب دیکھئے کہ اگر آپ کی اس دلیل پرعلیل کو لیا جائے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ معاویہ ابن عمر
اور عمر بن الخطاب دونوں سے افضل ہے۔۔ وجہ کیا ہے وجہ یہ روایت ہے۔
بخاری اپنی کتاب المغازی باب غزوة الخندق میں یوں روایت نقل کرتے ہے:
ابن عمر نے بیان کیا کہ میں حفصہ کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک
رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت
نہیں ملی ۔ حفصہ نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔ کہیں
ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے ۔ آخر حفصہ کے اصرار پر
عبدہللا بن عمر گئے ۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ خالفت
کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔ یقینا ً ہم اس سے زیادہ خالفت کے
حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ ۔ حبیب بن مسلمہ نے ابن عمر سے اس پر کہا کہ آپ نے
وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبدہللا بن عمر نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی (
جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خالفت کا حقدار وہ
ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسالم کے لیے جنگ کی تھی ۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں
میری اس بات سے مسلمانوں میں اختالف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا
مطلب میری منشا کے خالف نہ لیا جانے لگے ۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آ گئیں
تعالی نے ( صبر کرنے والوں کے لیے ) جنت میں تیار کر رکھی ہیں ۔ حبیب ابن ابی مسلم ٰ جو ہللا
نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لئے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے..الخ
اب اگر ابن عمر خوف فتنہ کی وجہ سے خاموش رہ سکتے ہیں تو یہی تجویز امام حسن ع کے لئے
کیوں نہیں۔۔ جب کہ اگر امام حسن ع کو عام بے گناہ مسلمانوں کے خون کے ضائع ہونے کا خدشہ
نہ ہوتا تو وہ ضرور جنگ کرتے۔۔ چونکہ امام حسن ع کے فوجیوں میں سے بعض نے ناانصافی کی
اور بعض جنگ کو تیار نہ تھے تو اس صورت میں جنگ کرنا بداہتہ بتا رہا تھا کہ مسلمانوں کا
صرف خون ہی ضائع ہوگا اور معاویہ کو شام سے ہٹانے کا مقصد بھی پورا نہیں ہوگا۔
2/33#
جواب
، 1جناب آپ نے خیر طلب صاحب کا کمنٹ پڑھا ھوگا ،اب میں خیر طلب صاحب سے پوچھنا
چاہوں گا کہ میں نے کب اور کہاں لکھا تھا کہ معاویہ رض خلیفہ بننے سے سب سے افضل ھوگئے
جو جناب نے یہ لکھ دیا کہ
"اگر آپ کی دلیل پرعلیل کو لیا جائے تو ھمیں ماننا پڑے گا کہ معاویہ ابن عمر اور عمر بن الخطاب
سے افضل ہے".
اور آگے بخاری کی ابن عمر رض والی روایت بھیج دی.
مجھے تو سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیوں کیا انھوں نے ،خود ھی بتائیں جناب.
، 2حسن رض کو جس فتنے کے ڈر سے خاموش رھن ا جناب نے لکھا ہے وہ کوئی معقول وجہ نھیں
کسی دشمن دین ،منافق ،علی رض کو گالیاں دینے اور دلوانے والے سے جنگ نہ کرنے اور اس کو
اسالمی حکومت کی سربراہی دینے کی.
⏪ پہلی بات تو یہ کہ عام بے گناہ مسلمان کیسے شھید ھوتے جب وہ جنگ میں شریک ھی نہ ھوتے
تو؟ آپ بتانا پسند کریں گے کہ بے گناہ لوگ کیسے شھید ھوتے؟
⏪ بقول آپ کے حسن رض کی فوج جنگ کے لیے تیار نہیں تھی ،تو یہ ثابت ھوا کہ سیدنا حسن
رض کے شیعوں نے ان کو دھوکا دیا اور مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیا.
⏪ اگر آپ یہ کھیں کہ جو جنگ میں شریک ھوتا وہ شھید ھوتا،
تو میں کھ ونگا کہ ایسا تو سیدنا علی رض نے بھی کیا جمل و صفین میں .تو کیا سیدنا علی رض نے
فتنہ کھڑا کیا تھا جنگ لڑ کر ،اور بے گناہ لوگوں کو مروایا تھا؟
⏪ کیا منافق کے ساتھ جنگ ھو اور مسلمان شھید ھوں تو اس کو فتنہ کھا جائے گا ؟
کیا نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے کفار سے جنگ کر کے بے گناہوں کو میدان جنگ میں شہید
کروایا نعوذ باہلل ؟
1/34#
دوستو خیر طلب صاحب کا اصل موضوع سے مسلسل ھٹنے اور بات الجھانے کی ایک اور کوشش
بھی دیکھ لیں
جناب لکھتے ہیں
اگر آپ کو اصحاب امیر المؤمنین کا نظریہ چاہئے ہو تو دیکھئے حضرت عمار بن یاسر کیا ارشاد
فرماتے ہے
سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے (فوج معاویہ کو دیکھ کر کہا) ہللا کی قسم یہ اسالم (حقیقی)
نہ الئے بلکہ اسالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ جب
انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردیا۔
حوالہ :تاریخ ابن أبي خیثمة -السفر الثاني ،جلد ، ٢ص ٩٩١
اور اس روایت کو مجمع الزوائد میں یوں نقل کیا گیا
سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے صفین کے دن کہا ،درحاآلنکہ وہ ان (فوج شام) کے بارے
میں ذکر کررہے تھے اور صلح کے باتے میں تبصرہ کررہے تھے( ،اثنائے گفتگوں میں) پھر
فرمایا۔۔ ہللا کی قسم یہ اسالم (حقیقی) نہ الئے بلکہ اسالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے
کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردیا۔
طبرانی نے اس کو معجم الکبیر میں نقل کیا اور سعد بن حذیفہ کا ترجمہ مجھے نہیں مال۔
حوالہ :مجمع الزوائد جلد اول ص ١١٣
جب کہ سعد ثقہ راوی ہے اس کو ابن حبان نے ثقات میں سے شمار کیا ہے اور حاکم نیشاپوری اور
ذھبی نے اس کی روایت کو صحیح کہا۔
تبصرہ :واضح ہوا کہ عمار بن یاسر علیہ السالم فوج معاویہ اور خود معاویہ کو یونہی سمجھتے
تھے اور اب میں فیصلہ خود فخر الزماں اور قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ یہ منافق کی نشانی ہے جو
اسالم سے بغض اور کفر سے محبت کو دل میں رکھے اور ظاہر اسالم کرے.
جواب
، 1قارئین مجھے بتائیں جو موضوع زیر بحث ھے کہ سیدنا معاویہ رض سیدنا علی رض کو گالیاں
دیتے اور دلواتے تھے ،اس کے مطابق یہ بات کرنے کی کوئی ضرورت تھی؟
یہ اصل موضوع سے ھٹنا نھیں تو اور کیا ھے ؟
بقیہ اگلے کمنٹ میں....
2/34#
جواب
، 2کیونکہ یہ موضوع کے مطابق نھیں ھے اس لیے میرے ذمے اس کا جواب نھیں ،لیکن میں پہر
بھی جواب دیتا ہوں ،شاید کچھ لوگ اس خوش فہمی میں مبتال نہ ھوں کہ اس کے پاس جواب نھیں
اس لیے بھانے بنا رھا ھے.
خیر طلب صاحب آپ کی پیش کردہ روایت دوسری صحیح روایات کے خالف ھے.
⏪ بخاری کی روایت جس میں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے حسن رض کے بارے میں فرمایا
کہ
ان ابنی ٰھذا سیّد ولع ّل ہللا ان یصلح ٖبہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین
ّ
تعالی مسلمانوں کےدوبڑے گروہوں کے مابین صلح کرادےٰ میرا یہ بیٹا سید ہےجس کے ذریعے ہللا
گا.
اور سیدنا حسن رض نے اھل شام سے صلح کی ،تو خود صاحب وحی نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم
نے اھل شام کو مسلمان کھا ھے.
، 1زیاد بن حارث جنگ صفین کا واقعہ بتاتے ہوئے کھتے ھیں کہ میں عمار رض کے اتنا قریب تھا
کہ ھم دونوں کے کندھے مل رھے تھے ،تو ایک شخص نے کھا کہ
اھل شام کافر ھوگئے ،اس پر عمار رض نے کھا یہ مت کھو ،ھمارا اور ان کا نبی ایک ھے ،ھمارا
اور ان کا قبلہ ایک ھے.
shamela.ws/browse.php/book-9944#page-42652
رباح کھتے ھیں کہ یہ مت کھ و کہ اھل شام نے کفر کیا ،بلکہ یہ کھو کہ انھوں نے گناہ کیا ظلم کیا.
shamela.ws/browse.php/book-9944/page-42652#page-42653
35#
اعالء السنن کی عبارت اور ابن عباس والی بات پر .جناب لکھتے ہیں
ہم نے اعالء السنن کی روایت سے ہی استدالل کرکے پوری تنقیح کی تھی جس پر محترم نے تبصرہ
نہیں کیا ہاں اگرچہ جو ابن عباس کی روایت بطور تائید پیش کی تھی اس پر ضرور تبصرہ کیا ہے۔
تو دیکھتے ہے پہلے محترم فخر الزماں کا کالم اور پھر میرا تبصرہ۔
جواب
جناب میں نے آپ کے دونوں روایات پر بات کی ھے ،نسائی والی روایت کے لیے تھوڑا سا اشارہ
کیا کہ وہ آپ کی اعالء السنن والی روایت کے خالف ھے اور تقیہ والی اعالء السنن والی پر بات کی
جو خود آگے آپ نے بھی کاپی پیسٹ کیے ھیں.
، 1نسائی کی روایت پر بحث مسلم والی روایت کے بعد ھوگی تاکہ ایک ایک دلیل پر تفصیلی بات
ھو اور دیکھنے والے صحیح سے سمجھ سکیں.
اور نسائی کی روایت تو ابن عباس رضی ہللا عنہما کی تقیہ کرنے والی بات کا واضح رد کررھی
ھے .ان دونوں میں سے آپ کو ایک بات کو صحیح کھنا ھوگا
محترم جب آپ مجھ سے دلیل مانگیں گے تو میں دیگر قرائن میں اس کو مضبوط کرنے کے لئے
دیگر کتب کا تو سہارا لوں گا یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں اعالء السنن کی عبارت خود واضح ہے لیکن
اپنے دعوی کے اثبات میں ایک مزید دلیل پیش کی۔
دونوں میں سے دونوں باتیں صحیح ہوسکتی ہے اگر دو مختلف مواضع اور مختلف اوقات میں ہوں۔۔
ایک جگہ ظرف تقیہ ہو اور دوسری جگہ نہیں۔۔ یہ فقہی احکامات پڑھنے والوں پر مخفی نہیں۔۔
تناقض کا اثبات کا ذمہ آپ کا کام ہے۔ ایک جگہ وتر کا معاملہ ہے اور ایک جگہ دوسرا مسئلہ۔
جواب
، 1خیر طلب صاحب آپ نے اعالء السنن کی تائید میں نسائی کی روایت پیش کی وہ تو اس کے
دعوی کے مطابق کوئی بات نہیں جس کا رد میں پہلے خالف نکلی ،باقی اعالء السنن میں آپ کے ٰ
بھی کرچکا ہوں.
،2واقعات مختلف ھ یں لیکن سوال یہ ہے کہ ابن عباس رض کا ایک جگہ تقیہ اور دوسری جگہ
کھلی مخالفت؟
تقیہ کرنے کی وجہ کیا حج کے موقعے پر ختم ھوگئی تھی؟
وتر کے معاملے میں تقیہ اور حج پر تلبیہ کے معاملے میں کھلی مخالفت؟
حج پر تو اور بھی بھت زیادہ لوگ ھوتے ھیں وھاں تو تقیے کی زیادہ ضرورت تھی ،لیکن وھاں
تقیہ نھیں کرتے اور ایک دو لوگوں کے سامنے تقیہ کردیا.
عجیب بات نہیں یہ؟
نوٹ .نسائی کی روایت پر فی الحال میں نے آپ کے استدالل کے مطابق اوپر تبصرہ کیا ھے نہ کہ
اپنے نظریے کے مطابق.
36#
آگے میرے کمنٹ کاپی کرتے ہیں کہ
رھا ابن عباس رضی ہللا عنہ کا تقیہ کرنے والی بات ،تو یہ تو بعد کے علماء کی تاویالت ھیں نہ کہ
خود ابن عباس رضی ہللا عنہ کا قول ،اس کے برعکس ابن عباس رضی ہللا عنہ کا معاویہ رضی ہللا
عنہ کے پاس جانا ،ان کے تعریف کرنا اور عطیات لینا کتب تاریخ سے ثابت ہے جو نسائی والی
بحث میں سامنے آئیں گی.
ہمارے لئے آپ کی کتب بالکل حجت نہیں۔ لہذا ان تمام باتوں کا اثبات شیعہ کتب سے ضرور کیجئے
گا۔۔ باقی ابن عباس کا معاویہ کو گدھا کہنا ،بعض علماء کا انتساب تقیہ کرنا ،بغض علی کا حامل کہنا
اس کے مقابلہ میں آپ شیعہ کتب سے دلیل الئے گا جو قابل احتجاج ہو۔ باقی عطیات لینا تو ظالم و
جائر خلفاء سے آپ کے ہاں جائز ہے تو یہ دلیل آپ کے لئے نہیں بلکہ خالف بھی جاسکتی ہے۔۔
مزید تفصیل جب ضرورت پڑے گی تو دالئل دئے جائیں گے لیکن آپ کو ذرا فقہی حکم بتانا مقصود
تھا۔
جواب
،1پہلے آپ یہ تو مان لیں کہ سنی کتب میں واقعی ایسی روایات ھیں جو آپ کے نظریے کے خالف
ھیں ،سنی کتب سے آپ کا مذھب ثابت نھیں ھوتا پہر شیعہ کتب پر تو میں آ ھی گیا ھوں آگے اور
بھی نظارہ کرواتا ھوں جناب کو شیعہ کتب کا.
، 2جائر خلفاء سے عطیات لینے کا انکار میں نے نھیں کیا ،لیکن یھاں جائر نھیں بلکہ آپ کے
دعوی کے مطابق منافق ،دین کا دشمن ،علی و اھل بیت رضوان ہللا علیہم کا دشمن ،علی رض کو ٰ
گالیاں دینے اور دلوانے واال ،ان سے جنگیں لڑنے واال اور ھزاروں مسلمانوں کو شھید کروانے
واال ،نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا لعنت کیا ھوا وغیرہ.
اس سے عطیات لینا ،اس کی تعریف کرنا ،کیا یہ ایمانی غیرت کے خالف نھیں.
37#
آگے جناب لکھتے ہیں
آپ ذیل میں آپ کو بعض اصحاب امیر المؤمنین ع کا حوالہ دیتا ہوں جنہیں معاویہ نے قتل کروایا۔
، ١حجر بن عدی اور ان کے ساتھی۔۔ حجر بن عدی کا شیعان امیر ع میں سے ہونا محتاج بیان نہیں۔۔
اور ان کا صحابی ہونا خود آپ کے کثیر کتب سے ثابت ہے۔۔ علی کل حال۔۔ ان کو اور ان کے
ساتھیوں کو معاویہ ہی نے قتل کروایا ،ابن اثیر رقم طراز ہے
پس حجر اور ان کے ساتھی مقام عذرا جو دمشق کے قریب ہے وہاں آئے ،اور معاویہ نے ان کے
قتل کا حکم دیا۔
، ٢محمد بن ابی بکر۔۔ یہ بھی محتاج تعارف نہیں۔ ابن حبان فرماتے ہے
معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے محمد بن ابی بکر جو اس وقت مصر کے گورنر تھے ان کے انجام
کے لئے مشورہ کیا تو وہ تمام اس پر متفق ہوئے کہ ایک چھوٹی فوج کو بھیجا جائے یوں عمرو بن
عاص چار ہزار فوجیوں کے ساتھ چڑھائی کے لئے نکل پڑا اور اس فوج میں ابو االعور السلمی،
معاویہ بن خدیج اور دونوں فوجوں کا مقابلہ مسانہ کے مقام پر گھمسان کا ہوا۔ اور کنانہ بن بشر اس
جنگ میں قتل ہوا اور محمد بن ابی بکر شکست کھاگئے اور لڑتے لڑتے قتل ہوگئے۔ اور کہا گیا کہ
کہ محمد بن ابکر کی الش کو گدھے کی کھال میں ڈال کر جالیا گیا اور جب یہ الش کو جالنے کی
خبر معاویہ کو پہنچی تو وہ خوش ہوا ،جس کی خبر جب امیر ع کو پہنچی تو آپ نے کہا مجھے اتنا
ہی دکھ ہوا جتنا معاویہ کو اس کے قتل پر خوشی ہوئی
جواب.
،1خیر طلب صاحب میں ان کے قتل ھونے کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ کیوں ھوا کیسے ھوا،
بس آپ سے یہ پوچھتا ھوں کہ
ان کو کیوں اور کس وجہ سے قتل کیا گیا؟
کیا اس لیے کہ یہ سیدنا علی رض کے لشکر میں تھے ،ان کے ساتھی تھے؟
یا کوئی اور وجہ تھی؟
جو بھی بات کریں دالئل سے کریں تاکہ اصل بات واضح ھو سکے.
ب علی کے دشمن تھے تو سب سے حسنین کریمین ،ابن عباس وغیرہ کو ،2اگر معاویہ رض اصحا ِ
قتل کرواتے ،حکومت و طاقت ان کے ھاتھ میں تھی کون تھا روکنے واال ؟
ب علی کو چن چن کر قتل ،3آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ معاویہ رض ایسے ظالم تھے کہ اصحا ِ
کروایا ،تو پہر سعد رض کو کیسے چھوڑ دیا جو ان کے سامنے علی رض کے فضائل بیان کرتے
رھے اور زندہ بچ گئے؟
آپ کے ایک بات دوسری بات کا رد کررھی ھوتی ھے.
اور بھی بھیجیں ایسی باتیں.
1/38#
آگے جناب لکھتے ہیں
معاویہ،اموی اور حکمرانوں کا امیر المؤمنین ع پر سب کرنا علماء اہلسنت کے اقوال سے
ابن حزم :بنو عباس نے کسی بھی صحابی (خدا کی رضوان ہوں ان پر) پر سب نہیں کیا بنو امیہ کے
برخالف جنہوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر لعنت کا طریقہ اپنایا ،اور ان
کی پاک اوالد بنی زھراء پر بھی لعنت کی ..الخ
ا بن حجر :اس کے بعد امیر المؤمنین کا معاملہ (کچھ یوں بیٹھا) کہ ایک گروہ نے امیر المؤمنین ع
سے جنگ کی اور پھر معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگیا کہ اس لڑنے والے گروہ (اشارہ قوم معاویہ
کی طرف) امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرنے لگے اور ان پر منبروں پر لعنت ..الخ
ان حواالجات کا بھی وھی حال ھے جو عالمہ ابن تیمیہ کے پچھلے حواالجات کا تھا.
اس میں بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو سب کرنے کا ثبوت نھیں.
دعوی خاص ھے اور دلیل عام.ٰ
یا تو میری عام دلیل (بقول آپ کے) کو قبول کریں یا خود بھی پیش مت کریں)
محترم اس بھولے پن پر کون نہ مسکرائے۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس ان حوالے جات کے
کوئی جواب نہیں۔۔ ہر جگہ صرف معاویہ کا نام لے کر سب علی کے الفاظ کا پوچھنا عجیب سوال
ہے۔ میں ایک مثال سے آپ کو اور قارئین کو سمجھاتا ہوں اگر میں یہ کہوں کہ ہر انسان ناطق ہے
تو مجھے اس بات کی دلیل خارجی دینے کی ضرورت نہیں کہ زید ،بکر ،عمرو یہ سب ناطق ہیں
کیوں۔۔ اس وجہ سے کہ ان سب کا انسان ہونا مسلم ہے اور انسان کے لئے ناطق ہونا ثابت ہے تو
بدیہی طور پر زید ،عمرو اور بکر کا ناطق ہونا بھی مقدمات ہی میں ہے۔
ابن حزم کی عبارت دیکھیں تو اس نے بنو امیہ میں سوائے دو خلفاء کے سب سے انتساب سب کیا
ہے۔ دیکھئے ابن حزم کا فرمان
وكلھم كان على ھذا حاشا عمر بن عبد العزیز ویزید بن الولید رحمھما ہللا تعالى،
اب بتائے کہ اس میں معاویہ آتا ہے یا نہیں۔۔ اگر معاویہ خلیفہ اموی نہ تھا تو اس تاریخی حقیقت کا
انکار آپ سے ممکن نہیں اور اگر معاویہ خلیفہ تھا تو اس سے سب علی ثابت ہے۔
اور اب ابن حجر کی بات کرتا ہوں۔۔ ابن حجر کا فرمان دیکھئے:
ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على
المنابر سنة
ووافقھم الخوارج على بغضه
ادھر واضح طور پر خوارج کے عالوہ جس گروہ نے امیر ع سے جنگ کی ان کا مبروں پر لعنت
کرنا لکھا ہے۔ اب بتائے کہ خوارج کے عالوہ جنگ صفین اور جنگ جمل ہوئی ہے یا تو ابن حجر
کا اشارہ جمل کے سربراہوں کا منبروں پر تبرا مراد ہے یا صفین کے سربراہوں کا۔۔ جمل کا ہونا
ممکن نہیں کیونکہ ان کی حکومت ابن زبیر سے پہلے نہ تھی اور ادھر واضح اشارہ صفین والوں
ہی کی طرف سے۔۔ منبروں پر سب کرنا بتاتا ہے کہ یہ معاویہ کی مشاورت اور پوری اجازت سے
ہے۔
39#
پہر جناب لکھتے ہیں کہ
ذیل میں ہم تین مزید علماء اہلسنت کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ یہ تعداد اور بڑھ جائے
حدیثوں کی تدوین بنو امیہ کے زمانہ میں ہوئی جنہوں نے پورے ٩٠برس تک سندھ سے ایشیائے
کوچک اور اندلس تک مساجد جامع میں آپ فاطمہ کی توہین کی اور جمعہ میں سر منبر حضرت
علی رض پر لعن کہلوایا ،سینکڑوں حدیثیں امیر معاویہ وغیرہ کے فضائل میں بنوائیں۔
حوالہ :سیرت النبی ص حصہ اول ص ٦٩
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنو امیہ کے خلفاء حضرت علی کرم ہللا وجھہ پر منبروں پر لعنت کرتے
تھے ،خدا انہیں رسوا کرے یہاں تک حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ہللا عنہ نے اس کو ختم
کروایا۔
، ٣مشہور مفتی۔۔ تاریخ ملت کے مصنف اپنی کتاب میں عمر بن عبدالعزیز کے تذکرہ میں فرماتے
ہے اور ایک ہیڈنگ ڈالتے ہے ‘سب علی کا انسداد‘ اور پھر ارشاد فرماتے ہے:
لیکن اصطالحات کے سلسلہ میں سب سے بڑی اصالح جو ان کے نامئہ اعمال میں سنہری حروف
سے ثبت ہے ،حضرت علی رض کی شان میں بدگوئی کا انسداد ہے ،عرصہ سے یہ دستور چال آرہا
تھا کہ خلفاء بنی امیہ اور ان کے عمال خطبوں میں حضرت علی رض پر لعن و طعن کیا کرتے
تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے والد بزرگوار عبدالعزیز بھی مصر کے والی کی حیثیت سے
اس تکلیف دہ فرضی منصب کو ادا کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن چونکہ دل زبان کا ہمنوا نہ تھا اس
لئے اس موقع پر آپ کی آواز سٹ پٹا جاتی تھی۔ بیٹے نے باپ کی اس کمزوری کو بھانپ لیا اور اس
سے اس کی وجہ پوچھی۔ امیر عبدالعزیز نے کہا
بیٹا جو لوگ ہمارے ساتھی ہیں اگر انہیں علی رض کے فضائل معلوم ہوجائیں تو کوئی ہمارے ساتھ
نہ رہے اور سب ان کی اوالد کے حامی بن جائیں۔
جواب
1قارئین آپ دیکھیں ان کا حال بھی ان حواالجات سے مختلف نہیں جو انھوں نے پہلے نقل کیے ھیں
جن کا جواب میں پہلے ھی دے چکا ھوں دبارہ دھرانے کی ضرورت نہیں.
، 2رھا معاویہ رض کی شان میں احادیث بنوانے کا مسئلہ ،تو موضوع روایات کی علماء نے
نشاندہی کردی ھے اور اصول بھی بتا دیے ہیں ،اب اس رونے دھونے کے ضرورت نھیں.
لیکن یہ بات بھی حقیقت ھے کہ معاویہ رض کی تنقیص میں بھی روایات گھڑی گئی ہیں.
معاویہ رض کی شان بیان کرنا بھی عباسی دور میں جرم تھا.
سنہ 212ھجر ی میں خلیفہ مامون کے منادی نے اس سے براءة ذمہ کی ندا لگائی جو معاویہ رض
کا ذکر خیر کے ساتھ کرے یا ان کو کسی صحابی سے شان کے اعتبار سے مقدم کرے.
archive.org/stream/Meroujzahab/MRJ04#page/n33/mode/1up
تو میں بھی کھہ سکتا ہوں کہ آپ یا باقی شیعہ جو سیدنا معاویہ رض کی تنقیص کرتے ہیں وہ اس
دور کی گھڑی گئی جھوٹی روایات میں سے ھیں.
،1یہ روایت ان کے مجتھد مح مد حسین آل کاشف صاحب نے اپنی کتاب میں اپنی اس بات کو ثابت
کرنے کے لیے پیش کی ھے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کی حکومت مسلمانوں کے خون پسینے کی
کمائی سے عیش و عشرت والی تھی جو اسالمی تعلیمات کے خالف ہے.
تو آل کاشف صاحب نے جس بات کو معاویہ رضی ہللا عنہ کے خالف دلیل کے طور پر پیش کیا
ھسے اس خیر طلب صاحب نے "بے سند" کھہ کر اپنے مجتھد آل کاشف صاحب کو سیدنا معاویہ
رضی ہللا عنہ پر جھوٹا الزام لگانے واال ثابت کردیا.
واہ ایسے دو چار شیعہ مناظر اور مل جائیں تو مزا آجائے.
، 2اصل میں خیر طلب صاحب کا مسئلہ یہ ھے کہ جو بات ان کے نظریے کے خالف ھوتی ھے یہ
اس حوالے یا کتاب کو ھی غیر معتبر یا بے سند وغیرہ کھہ کر جان چھڑانے میں عافیت سمجھتے
کررھے ہیں.
ان کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان کے مجتھد اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اس روایت کو بطور دلیل
پیش ھیں.
،3اس سے یہ بات بھی ثابت ھوئی کہ شیعہ مجتہدین صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے بے سند و
جھوٹی روایات کا سھارا لیتے ھیں ،یھی بات اھل السنت علماء صدیوں سے کھتے آرھے ھیں جو
خبر طلب صاحب نے کر دی)
محترم ایسا کالم اہل علم کے شایان شان نہیں۔۔ ہمیں کہتے ہے موضوعات مختلفہ الرہے ہیں اور خود
شیعہ مجتہدین کا بے سند روایات سے استدالل کرنا وغیرہ کہنا شروع کردیا۔۔ کیا آپ توقع رکھتے
ہیں کہ آپ کی ان باتوں کا میں جواب دوں ،میرے پاس آپ کی ایک ایک شق کا جواب ہے لیکن جو
موضوع نہیں اس پر کالم نہیں کرتا۔۔
اول ،تو شیخ کی کتاب فقط شیعہ م خاطبین کے لئے نہیں بلکہ عمومی عنوان سے شیعہ اور غیر شیعہ
کے لئے تھی تو انہوں نے اس روایت کو نقل کیا۔
دوم ،نقل روایت ہمیشہ نقل صحت پر داللت نہیں کرتی (اس امر پر اپنے نظریہ بتانے کی بات نہیں
ہورہی بلکہ فقط نقل کی ہے)۔ ۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو محترم ذرا بتائے گا کہ پھر ہم کیا
کنزالعمال کی تمام روایات سے آپ کو ملزم کرسکتے ہیں اس اصول کے تحت ،اگر آپ حامی
بھردیں تو یہ سودہ برا نہیں مجھے بہت خوشی ہوگی۔
جواب
، 1جناب اھل علم کے شایان شان یہ بات بھی نھیں کہ وہ عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے
مطلب کی بات ھی نقل کردے .اور یہ آپ کئی بار کر چکے ہیں.
بہرحال ،یہ تو آپ نے اپنے مجتھد کے مستدل کو بے سند کھہ کر ھم کو کھنے کا موقعہ دیا.
، 2آپ کے شیخ بھلے سنی و شیعہ سے مخاطب ھوں ،لیکن یہ ثابت تو وہ اپنا مذھب اور نظریات ھی
کررھے ھیں نہ؟
اور اس کے لیے بے سند روایات کا سھارا لے کر عوام کو دھوکا کیوں دے رھے ھیں ؟
، 3میں نے یہ بات واضح طور پر لکھی ھے کہ آپ کے مجتھد صاحب نے اپنے نظریے کو ثابت
کرنے کے لیے یہ روایت پیش کی ھے ،اور آپ مطلقا ً روایت نقل کرنے کی بحث بیچ میں ال کر کنز
العمال کی مثال دے کر خلط مبحث کرنے کی کوشش کررہے ہیں.
آپ دوسروں کے ساتھ اس طرح کی کوششیں کرچکے ھونگے یہ اصل بات سے بات ھٹا کر دوسری
بات چھیڑ دی لیکن مجھ سے اس طرح کا طریقہ آئند اختیار مت کریں.
2/40#
آگے جناب لکھتے ہیں
ثالثا۔۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ یہ روایت مؤلف کے نزدیک ثابت ہے تو محترم پھر بھی وہ
ہم پر ملزم نہیں اگر ہم دلیل سے اس کا رد کریں دیکھئے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات کتنے
علماء نے نقل کی اور اس کی صحت کے مقر تھے تو کیا آپ کو میں ملزوم کروں؟ اگر دوسروں
کے استدالل کو پورے مذھب تشیع پر حجت سمجھتے ہیں تو ہم ان کو ان کے گھر سے تھوڑا مواد
دے دیتے ہیں۔۔ میں ان کو احناف کے خالف جو دلیل دی جاتی ہے مع تصحیحات علماء و استدالل
علماء دے دیتا ہوں تاکہ اگر ان کے اندر انصاف کی رمق ہو اور جس قاعدہ کے تحت مجھے یہ ملزم
کررہے ہیں وہ خود پھر اپنے مذھب حنفیت کو خیر آباد کہیں اور اس حدیث پر عمل کریں۔ یاد رہے
کہ اگر ہماری بحث ابھی تحقق صحت اور عدم پر نہیں۔۔ بلکہ ہم نے محترم فخر الزماں صاحب کو
ان کے قاعدے پر ملزم کررہا ہوں۔
نووی نے اس روایت سے استدالل کیا ہے (بقول فخر الزماں استدالل صحت عند المؤلف کی دلیل
ہے)
عالمہ ابن حجر عسقالنی نے اپنی دو کتب میں اس کو نقل کیا اور سکوت اختیار کیا (درحاآلنکہ
ہمارے احناف متاخرین کے ہاں ابن حجر کا سکوت بعض کتب میں تحسین پر داللت کرتا ہے)
حوالہ :التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الكبیر ،جلد اول ص ٤٠٥اور الدرایة في تخریج
أحادیث الھدایة جلد اول
تو ہم نے آدھے درجن علماء کو نقل کیا جو اس روایت کی صحت کے قائل آپ کے مبنی کے تحت
تو کیا آپ بھی اس طرح نماز پڑھیں گے اور سینے پر ہاتھ باندھدیں گے۔۔ یاد رکھئے کہ ہم آپ کے
مبانی سے متفق نہیں لیکن آپ کو آپ کے مبنی پر ملزم کرنا ہمارا حق ہے۔ اور یاد رہے کہ داللت
کے اعتبار سے حدیث بہت واضح ہے۔۔ خود احناف علماء نے اس کو شوافع وغیرہ کی ہی دلیل قرار
دیا ہے۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ اپنا اصول آرام سے توڑیں گے۔ یہ الزامی جواب پیش خدمت
ہے۔
جواب
، 1جناب اس بات کو میں بھی تسلیم کرتا ھوں کہ اگر کسی عالم کی بات کا رد آپ اس سے زیادہ
قوی اور وزنی دالئل سے کرتے ہیں تو ٹھیک ہے کوئی حرج نہیں ،لیکن ایسا ھو بھی تو صحیح.
یھاں آپ کے آل کاشف صاحب اپنا ایک نظریہ ثابت کرنے کے لیے روایت ال رھے ھیں کہ معاویہ
رض ایسا ویسا تھا ،اور آپ اس کی اس بات کو بے سند کھہ کر اس کے اس نظریہ کو باطل ٹھرا
رھے ھیں.
کیونکہ جب ان کی دلیل ھی بے سند تو ان کا نظریہ بھی باطل.
، 2کسی مذھب کے نمائندے کی اپنے مذھب کی نمائندگی میں لکھی گئی کتاب بالکل اس مذھب کے
لوگوں کے لیے دلیل بن سکتی ہے جیسا کہ اصل و اصول الشیعہ کتاب ھے ،ھاں اگر اس میں کوئی
ایسی بات ھو جو مذھب کی کتب معتبرہ کے خالف ھو تو اس کو دالئل سے رد کیا جاسکتا ہے.
لیکن آپ سے پہلے بھی کسی شیعہ معتبر عالم نے آل کاشف صاحب کی اس بات کا رد کھیں کیا
ھے؟ یا خیر طلب صاحب ان سے بھی بڑے مجتھد ھوگئے ھیں کہ ان کے دالئل کا رد کررھے ھیں
؟
، 3آپ کی سینے پر ھاتھ باندھنے والی روایت پر یہ ساری بحث بے سود اور وقت کا ضیاع ھے،
کیونکہ میں فقہی مسائل میں حنفی ھوں اور میرے لیے فقھی مسائل میں فقھاء احناف کے اقوال دلیل
بن سکتے ھے نہ کہ شوافع و حنابلہ وغیرہ کی.
اور ایک بات آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ بعد والے علماء جو بھی دالئل پیش کررھے
ھوتے ھیں وہ اپنے مجتھد کے اقوال کی تائید و تقویت کے لیے پیش کررھے ھوتے ھیں ،حقیقت
میں ان کا عمل اپنے امام کے اقوال پر ھوتا ھے.
،4آپ خوش فہمی کا شکار ھیں جو آپ نے لکھ دیا کہ
مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ اپنا اصول آرام سے توڑیں گے..
چلیں کچھ دن آپ اس خوش فہمی سے آرام سے سو سکے ھونگے ،امتحانات تو دے سکے ھونگے.
41#
اب زرا شیعہ کتب کی زیارت خیر طلب صاحب کو کرواتے ھیں کہ ان کا سیدنا معاویہ رض اور
اھل شام کے بارے میں جو نظریہ ھے وہ ان کے اماموں سے ملتا ھے کہ نھیں
شیعہ مذھب کی معتبر کتاب قرب االسناد میں ھے کہ
جعفر ،عن أبیه علیه السالم :أ ن علیا علیه السالم لم یكن ینسب أحدا من أھل حربه إلى الشرك وال إلى
النفاق ،ولكنه كان یقول " :ھم إخواننا بغوا علینا "
قرب االسناد ص 94
امام جعفر رح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رض نے جن سے بھی جنگ کی ان میں
سے کسی کی طرف بھی شرک اور نفاق کی نسبت نھیں کی ،یہ کھتے تھے کہ وہ ھمارے بھائی ھیں
ھم سے بغاوت کی ھے.
/...shiaonlinelibrary.com/.../1119//:الصفحة_...130
جعفر ،عن أبیه :أن علیا علیه السالم كان یقول ْلھل حربه:
" إنا لم نقاتلھم على التكفیر لھم ،ولم نقاتلھم على التكفیر لنا ،ولكنا رأینا أنا على حق ،ورأوا أنھم على
حق.
قرب االسناد ص 93
امام جعفر رح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رض خود سے جنگ کرنے والوں کے بارے
میں کھتے تھے ھم ان سے ان کی تکفیر پر جنگ نھیں کرتے اور نہ وہ ھم سے ھماری تکفیر پر
کرتے ہیں .ھم نے دیکھا کہ ھم حق پر ہیں اور انھوں نے دیکھا کہ وہ حق پر ہیں.
/...shiaonlinelibrary.com/.../1119//:الصفحة_...129
پہلی روایت سے ثابت ھوا کہ سیدنا علی رض معاویہ رض اور ان کا گروہ کو منافق یا مشرک نھیں
کھتے بلکہ اپنا بھائی کھتے ھیں.
دوسری روایت سے ثابت ھوا کہ علی و معاویہ رضی ہللا عنھما کی جنگ کفر و اسالم کی نھیں
تھے.
اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ ان کا نظریہ ان کے ائمہ سے ملتا ھے یا ان کے خالف ھے؟
صفِّینَ
ع ْن قَتْلَىَ ،ی ْو ِم ِ
ي َ سأ َ َل َ
ع ِل ٌّ ع ْن َی ِزیدَ ب ِْن ْاْل َ َ
ص ِّم ،قَالََ : ع ْن َج ْعفَ ِر ب ِْن ب ُْرقَانَ َ ، يَ ، ُّوب ْال َم ْو ِ
ص ِل ُّ عُ َم ُر بْنُ أَی َ
,فَقَالَ :قَتْ َالنَا َوقَتْ َالھُ ْم فِي ْال َجنه ِة
سیدنا علی رضی ہللا عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ
ھمارے اور ان کے مقتولین جنت میں جائیں گے.
shamela.ws/browse.php/book-9944/page-42652#page-42691
اور مقتولین صفین کے بارے میں ایک خوابی بشارت بھی پڑھیں
ع ْم َرو بْنَ ع ْن أَبِي َوائِ ٍل ،قَالََ :رأَى فِي ْال َمن َِام أَبُو َم ْی َ
س َرة َ َ ع ْم ِرو ب ِْن ُم هرة ََ ،ع ْن َ ع ِن ْالعَ هو ِامَ ، َارونَ َ ، یَ ِزید ُ بْنُ ھ ُ
َّللا ,قَالََ :رأَیْتُ َكأ َ ِنّي أُد ِْخ ْلتُ ْال َجنهةَ ,فَ َرأَیْتُ ِق َبابًا َمض ُْرو َبةً ,ع ْب ِد ه ِ
ب َ
ص َحا ِ ض ِل أ َ ْ
شُ َرحْ ِبی َل َ ,و َكانَ ِم ْن أ َ ْف َ
ص ِفّینَ ,قَالَ :قُ ْلتُ :فَأَیْنَب َ ,و َكانَا ِم هم ْن قُتِ َل َم َع ُم َعا ِویَةَ یَ ْو َم ِ
ش ٍ فَقُ ْلتُ ِ :ل َم ْن َھ ِذہِ؟ فَ ِقیلََ :ھ ِذ ِہ ِلذِي ْال َك َالعِ َو َح ْو َ
ضا؟ قَالَ :قِیلَِ :إ ِِنه ُھ ْم لَقُوا ه َ
َّللا فَ َو َجد ُوہُ ض ُھ ْم بَ ْع ً ص َحابُهُ؟ قَالُوا :أ َ َما َمكَ ،قُ ْلتُ َ :و َكی َ
ْف َوقَدْ قَت َ َل بَ ْع ُ ار َوأ َ ْ ع هم ٌ
َ
َوا ِس َع ْال َم ْغ ِف َر ِة
مصنف ج 7ص 547
ابو وائل کھتے ھیں کہ ابو میسرہ رح نے خواب میں عمرو بن شرحبیل کو دیکھا جو ابن مسعود رض
کے ا فضل ساتھیوں میں سے تھے ،انھوں نے دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہو رھا ھوں وھاں میں
نے گڑے ھوئے خیمہ دیکھے تو میں نے کھا یہ کس کے ھیں ،کھا گیا یہ بنی کالع اور بنی حوشب
قبیلے والوں کے ھیں جو صفین میں معاویہ رض کی طرف سے لڑتے ہوئے قتل کئے گئے ،تو
انھوں نے پوچھا کہ عمار اور اس کے ساتھی کھاں ھیں ،ان کو بتایا گیا کہ اور آگے ،تو انھوں نے
پوچھا کہ یہ کیسے ھوسکتا ھے ،انھوں نے تو ایک دوسرے کو قتل کیا تھا؟ تو ان کو کھا گیا کہ ان
کی ہللا سے مالقات ھوئی اور انھوں نے ہللا سے بڑی مغفرت پائی.
shamela.ws/browse.php/book-9944/page-42652#page-42655
یہ روایت طبقات ابن سعد ،سنن الکبری بیھقی اور االصابہ میں بھی ھے.
تو ان واضح روایات سے ثابت ھوا کہ اھل شام مومن و جنتی ھیں.
عقیل بن ابی طالب معاویہ سے مل گئے تھے اور جنگ صفین کے وقت معاویہ رض کے ساتھ تھے،
معاویہ رض نے ان سے مزاح کرتے ہوئے کہا کہ اے ابو یزید (کنیت ھے عقیل رض کی) آج تم
ھمارے ساتھ؟ عقیل رض نے کھا کہ بدر والے دن بھی تمھارے ساتھ ھی تھا.
shamela.ws/browse.php/book-6624/page-155
و فارق اخاہ علیا امیرالمومنین فی ایام خالفتہ و ھرب الی معاویہ و شھد صفین معہ
اور عقیل اپنے بھائی امیر المؤمنین علی رض سے الگ ھوگئے تھے ان کی خالفت کے دنوں میں
اور معاویہ رض کی طرف چلے گئے تھے اور صفین میں ان کی ساتھ تھے.
اب دیکھتے ہیں کیا فتوی لگتا ہے سیدنا علی رض کے بھائی پر.
حب علی کا ثبوت دے کر عقیل رض پر بھی وھی فتوے لگائیں یا بغض معاویہ کا ثبوت دے کر
تاویالت کریں تاکہ ھم کو بھی بولنے کا موقعہ ملے.
==ختم شد==
فخر الزماں صاحب میں نے آپ کا پورا جواب پڑھ لیا ہے۔ سردست کچھ منھجی باتیں پوچھنی تھیں
امید ہے آپ اس کا مختصر جواب دے دیجئے گا تاکہ میں جواب دیتے ہوئے ان کو ذہن میں رکھوں
، ١آپ نے جابجا اہلسنت کتب سے استدالل کیا ہے تو کیا وہ استدالل مجھ پر حجت ہے یا نہیں ،اگر
مجھ پر حجت نہیں تو کیا آپ نے شیعہ حوالے نقل کئے ہیں تو اس کے جواب میں ،میں شیعہ کتب
سے ہی جواب دے سکتا ہوں؟ اس کی وضاحت کیجئے گا۔
،٢جن سنی اور شیعی روایات سے آپ نے استدالل کیا ہے تو کیا آپ کا مبنی سندی تھا اثبات روایت
میں یا کوئی دیگر مبنی تھا تاکہ میں جواب ویسے ہی دوں۔ اور جس مبنی پر آپ مجھ پر جراح
کررہے تھے تو کیا وہ اصول آپ پر بھی چلے گا یا نہیں۔
، ٣عطیات لینا ،امام حسن ع کا معاویہ کی بیعت کرنا ،یا وفات علی ع پر غم منانا۔ ان تمام کے اگر
حوالے نقل کردیں تو میں مباشر ان کا جواب دے دوں (یاد رہے کہ مجھے وہی حوالے دیجئے گا جو
مبنی علمی کے تحت قابل احتجاج ہوں جس طرح آپ مجھے ملزم کرنا چاہتے ہیں)۔ کیونکہ
مفروضات (جن میں بعض ممکن ہو صحیح ہوں) پر بحث در بحث کرنا فائدہ مند نہیں۔
نوٹ :یہ فقط منھجی باتیں کررہا ہوں ورنہ جو دیگر تامالت ہیں اس کا ادھر ذکر کرنا فائدہ مند نہیں۔
انشاء ہللا اس کا جواب میں آپ کو بعد میں دوں گا۔
Fakhar Ul Zaman
Fakhar Ul Zaman
Khair Talab
چلیں میں پھر شیعہ کتاب سے ضرورت کے تحت بھی باتیں الؤں گا۔۔ اس ہی منطق کے تحت۔
Fakhar Ul Zaman
،2جو اصول ھیں ان کے مطابق آپ مجھے جواب دے سکتے ہیں ،میں نے اگر کوئی بات اصول
کے خالف کی ھو تو آپ دالئل سے رد کر سکتے ہیں.
اصول سب کے لیے ایک ھوتا ھے.
، 3وفات علی رض پر افسوس کرنے کا حوالہ میں تب دونگا جب آپ میرے سوال کا جواب دیں گے
جو آپ سے پوچھے گئے ھیں.
عطیات لینا اور سی دنا حسن کا سیدنا معاویہ رض کے ھاتھ پر بیعت کے بارے میں جو آپ کی تحقیق
کے مطابق ھے کہ یہ ثابت ھے کہ نھیں؟ وہ آپ لکھ دیں میں اس کا جواب دونگا.
Khair Talab
محترم حوالے دینے میں کیا قباحت ہے ،سمجھ نہیں آرہا۔ میں صغروی اور کبروی دونوں بحث کرنا
چارہا ہوں۔ تفضل حوالہ دیجئے براہ مہربانی ورنہ میں ان میں سے کسی بھی بات کا جواب نہیں
دونگا۔
Fakhar Ul Zaman
خیر طلب صاحب آپ شیعہ کتب سے بالکل ایسی باتیں الئیں اگر آپ سمجھتے ہیں تو ،ھمارے لیے
فائدہ ھوگا.
Khair Talab
فخر الزماں صاحب ادھ ر میدان مناظرہ ہے میدان مفاخرہ نہیں۔۔ براہ کرم اپنی 'تحقیق' سے مستفید
فرمائیں۔ آپ کو ان نکات کا جواب جب ہی ملے گا جب آپ زحمت 'تحقیق' کریں گے ورنہ ان نکات
کو آپ اپنے اگلے جواب کے لئے محفوظ رکھئے گا
Fakhar Ul Zaman
Khair Talab
باقی چیزوں کا تو جواب میں دے دوں گا کیونکہ کوئی ایسی بات نہیں جو قابل جواب نہ ہو۔ انشاء ہللا
وہ تو آپ دیکھ ہی لیں گے۔ انتظار کیجئے۔
میں تمام پڑھنے والوں کے سامنے پھر سے النا چارہا ہوں کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ ان سے
حوالے طلب کئے جائیں ان کے دعوی پر لیکن بار بار طلب پر (جو ہر مناظر کا حق ہے) انہوں نے
نہیں دئے۔ چنانچہ میں فی الحال مفروضات (جن کے حوالے نہ دئے ہوں) کے جوابات اس وقت تک
نہیں دوں گا جب تک یہ مجھے حوالہ نہیں دیتے۔ ورنہ یہ انٹر کا پریکٹیکل نہیں جس میں پروفیسر
سواالت کرے مفروضات پر۔
Fakhar Ul Zaman
مجھے کب کیا کرنا ہے کونسی دلیل دینی ھے وہ میں آپ سے پوچھ کر یا آپ کہ حکم کرنے پر نھیں
دونگا.
میں موقعہ دیکھ کر دلیل دونگا.
آپ کم سے کم سواالت کا جواب دیں جو آپ سے میں نے پوچھے ھیں.
Khair Talab
فخر الزماں صاحب اور ان کی ٹیم۔۔ آپ لوگ اطمینان رکھئے انشاء ہللا فخر الزماں اگر حوالے نہ
بھی دیں گے تو فی الحال اس بار میں پورا جواب دوں گا ما سوائے ان چیزوں کے جن کے حوالے
نہ دئے گئے ہوں۔ چونکہ فخر الزماں شاید مزاج مناظرہ سے واقف نہیں جس میں اثبات دعوی پر
حوالے دئے جاتے ہیں یا جانتے ہیں تو تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اس لئے ان کی اس
کمزوری سے میں درگذر کروں گا اور یہی سمجھوں گا کہ یہ ان کی مجبوری ہے اور خوف کا اثر
ہے۔ ورنہ وہ ضرور دیتے۔ ہم انشاء ہللا باقی باتوں کا جواب دیں گے کیونکہ اس بار جواب دینا مزید
آسان کردیا ہے محترم ہے۔ شکریہ۔
Fakhar Ul Zaman
خیر طلب صاحب اور ان کی ٹیم آپ بھی صبر کریں ضرور میں اپنے جواب میں دالئل دونگا ،بات
یھیں پر ختم نہیں ھئی ابھی جاری ھے.
خیر طلب صاحب اچھی بات ہے کہ آپ نے جواب دینے کا کھا اور ھم کو شدت سے انتظار رہے
گا.
رھا مناظرے کے طریقے سے واقفیت کی بات تو الحمد ہلل مناظرے کے طریقے پر چلتے ہوئے میں
اپنی باری میں ھی جواب دونگا.
دعوی
ب علی واال ،میں تو مدعی علیہ ھوں میرا ٰ دعوی تو آپ کا ھی س ِ
اور جناب کو اتنا نھیں پتا کہ ٰ
کھاں سے آیا؟
دعوی کھہ رھے ھیں تو آپ کو پتا ھونا چاہیے کہاگر آپ میری کسی کی گئی بات کو ٰ
دعوی ابتداء مناظرہ میں ھوتا ھے نہ کہ بیچ میں،
⏪ ٰ
دعوی کھہ
دعوی ھوتا ھے نہ کہ دلیل ،تو اگر آپ میری کسی بات کو ٰ ⏪ دعوی کے بعد جواب ٰ
دعوی لکھیں پہر مجھ سے دلیل کا مطالبہ کریں.
رھے ھیں تو اس کے لیے جواب ٰ
Khair Talab
چلئے پھر انشاء ہللا جب آپ حوالے دیں گے تو ان چیزوں پر بات ہوگی۔ باقی آپ کا جواب کا انتظار
کیجئے
Fakhar Ul Zaman
Khair Talab
میں جواب ایک ساتھ نہیں بلکہ کچھ کچھ کرکے پوسٹ کروں گا تو محترم فخر الزماں کو جو
سواالت جو تنقیح جواب پر مشتمل ہوں گے ان کے جوابات ما بعد دوں گا جب پورا پوسٹ کرلوں
Khair Talab
ناظرین ہم نے جس صحیح مسلم کی روایت سے استدالل کیا تھا اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے
حکم دیا معاویہ ابوسفیان کے بیٹے نے سعد کو۔ کیا چیز روکتی ہے کہ تم (اے سعد) ابو تراب (یعنی
امیر المؤمنین) پر سب کرو۔
اس روایت کے جملہ پر بحث جاری تھی اور انشاء ہللا اب ہم ان کے اشکاالت کے جوابات دیتے ہیں
ادھر ہمارا استدالل یہ تھا کہ چونکہ سوال سب کی بابت کیا گیا ہے تو حکم بھی اس کا ہی ہوگا۔۔ اور
ثبوت میں ہم نے کافی ساری مثالیں دیں کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کے متعلق
ہی سوال ہوتا ہے جیسے
ع ْب ِد ہللاِ بِقَتْ ِل ب ،ایک روایت میں حجاج ایک شخص کو قتل کا حکم دیتا ہے( :أ َ هن ْال َح هجا َج أ َ َم َر َ
سا ِل َم بْنَ َ
َر ُج ٍل ) اور نہ کرنے کی صورت میں پوچھتا ہے کہ قتل کیوں نہیں کیا (فَقَا َل لَهُ ْال َح هجا ُجَ :ما َمنَ َعكَ ِم ْن
قَتْ ِل ِه؟) (مالحظہ ہو معجم الکبیر للطبرانی جلد ١٢ص )٣١٢۔۔ چنانچہ ادھر بھی ثابت ہوا کہ جب بھی
جس چیز کا حکم دیا جائے گا تو اس ہی کے متعلق سوال ہوگا
پ ،ابوبکر کو نماز کا حکم دیا گیا تھا چنانچہ وہ ذرا پست و پیش ہوئے تو بجا آوری نہ کرسکے تو
ضیْتَ ؟ " (ترجمہ :رسول صرسول ص نے کہا قَالََ " :یا أ َ َبا َب ْك ٍر َما َمنَ َعكَ ِإذْ أ َ ْو َمأْتُ ِإ َلیْكَ أ َ ْن َال تَكُونَ َم َ
نے فرمایا :کہ اے ابوبکر کیا چیز مانع ہوئی کہ جب میں نے آپ کو نماز پڑھانے کا کہا تو آپ
تشریف نہیں الئے) ادھر بھی واضح ہوا جس کا حکم دیا گیا اس کے متعلق سوال ہوا
Khair Talab
ان مثالوں سے واضح ہوگیا کہ جس کا حکم دیا جاتا ہے اس کے متعلق ہی سوال ہوتا ہے اور اس
کلیہ پر اب تک کوئی نقض وارد نہ کرسکے۔
(فخر:
، 1جناب آپ کی ان مثالوں کا حال بھی پچھلی مثالوں واال ھے ،ان میں بھی حکم واضح موجود ھے.
آپ جو مسلم سے دلیل پیش کررھے ھو اس میں کوئی حکم موجود نھیں.
آپ کو ایسی مثال پیش کرنی ہے کہ کسی بات کے حکم کا ذکر ھو اور وہ حکم واضح نہ ھو اور
آگے والے سوال سے وھی حکم مراد ھو جیسا مسلم والی روایت میں ہے
، 2میں نے کھا تھا کہ یھاں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ کسی دوسری بات کا حکم دیا ہے؟ اور یہ
اصول آپ نے ھی پہلے لکھا تھا کہ إذا جاء االحتمال بطل االستدالل
تو یہ روایت آپ کے مدعی کی دلیل نھیں بن سکتی)
جواب :محترم جواب یہ ہے کہ یہی تو میرا استدالل ہے کہ جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے اس ہی کے
متعلق پھر پوچھا جاتا ہے اور دوسری شق میں آپ کہہ رہے ہیں کوئی حکم موجود نہیں تو محترم
اتنا تو طے ہے کہ حکم تو دیا گیا تھا یعنی اس پر آپ کا اور میرا اختالف نہیں ،یہ کہنا کہ حکم
موجود نہیں اگر اس معنی میں ہو کہ اصال کوئی حکم ہی نہیں دیا گیا تھا تو یہ ظاھری نص کے
خالف ہے جو کہتی ہے امر معاویہ سعدا۔۔ یعنی ادھر حکم دیا ہے لیکن کس چیز کا ہے وہ مبھم ہے۔
اس کا تعین میرے اور آپ کے ذمہ میں ہے۔ میں نے کچھ امور سے استدالل کیا اور بار بار آپ کو
ملزم کررہا ہوں جس کا کوئی معقول جواب آپ کی جناب سے نہیں آرہا۔۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیشہ
سوال اس کے متعلق ہی ہوتا ہے جس کا حکم دیا گیا ہو مزاج روایت کو سامنے رکھ کر اور پھر جب
آپ دیگر روایات اس مضمون کی اٹھائیں گے تو اس میں بھی یہی بات موجود ہے کہ سعد غضبناک
ہوئے اور پھر علماء اہلسنت کے اقوال کو سامنے رکھئے گا تو یہ تمام باتیں کافی ہیں اس بابت۔
Khair Talab
(فخر ،1 :بالکل تناقض ھے آپ کی بات میں ،ایک جگہ لکھا کہ حکم واضح ھے اور دوسری جگہ
کھہ دیا کہ واضح نھیں.
یہ تضاد نھیں تو کیا ھے؟
، 2جناب آپ نے سیاق و سباق سے ثابت کر ھی نھیں سکے کہ حکم گالی کا ھی تھا .کیونکہ سیاق و
سباق میں کوئی اسی دلیل نہیں جو سب کے حکم پر داللت کرے.
،3آپ نے جو سیدنا صدیق اکبر رضی ہللا عنہ کی نماز کے حکم والی مثال دی اس پر کالم کر چکا
ہوں ،آپ کو اس کا رد کرنا تھا جو آپ نھیں کرسکے)
جواب :محترم فخر الزماں صاحب ،میں نے کافی مثالوں سے سمجھایا ہے لیکن آپ کی عقل میں بات
نہ آئے تو اس کو دوسرے کا تناقض نہیں اپنے فہم کا قصور سمجھئے۔ مسلم کی روایت میں جس
چیز کا حکم ہے وہ محذوف ہے لیکن ما بعد اس سب کے متعلق ہی سوال کیا گیا ہے۔ جب آپ تاریخ
دمشق ابن عساکر اور سنن ابن ماجہ کی روایت سے مالئے تو اس میں واضح ہے کہ معاویہ نے
سب ہی کا حکم دیا تھا۔
باقی میں دو مثالیں دیں ہیں کہ سوال مزاج روایات کے مطابق اس ہی چیز کا ہوتا ہے جس کا حکم
دیا گیا ہو۔ اس بارے میں اہلسنت علماء کی تصریحات بھی موجود ہیں۔ جو نقل کی جاچکی ہے اور
مزید نقل کیں جائیں گی۔
Khair Talab
ب ،ابن تیمیہ کا صحیح مسلم کی روایت سے اخذ مفہوم اور جملہ اشکاالت کے جوابات
ابن تیمیہ کی میں نے مختلف عبارات پیش کیں تھیں۔ آئے ایک ایک کرکے جو ایراد ذکر کئے گئے
ہیں ان کے جوابات دیتے ہیں:
اور سعد بن ابی وقاص کی حدیث کہ جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا اور سعد نے انکار کیا
اور کہا۔۔ (پھر فضائل نقل کئے)۔۔ اور یہ حدیث صحیح ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا۔
(فخر :جواب.
،1خیر طلب صاحب جواب دینے سے پہلے آپ کو سوچنا چاہیے تھا کہ مسلم کی روایت کی سند پر
ھماری بحث چل رھی ھے یہ متن و الفاظ پر؟
ھماری بحث سند پر نھیں جو آپ نے سند کی مثالیں عالم ابن تیمیہ سے دینا شروع کردی ھیں.
ایسی مثال دیں جس میں ابن مطھر نے متن میں غلطی کی ھو اور اس غلطی کا تعلق زیر بحث
م سئلے سے بھی نہ ھو پہر بھی عالمہ ابن تیمیہ نے ابن مطھر کو ٹوکا ھو.
، 2اور عالمہ ابن تیمیہ نے مسلم کی حدیث کو سند کے اعتبار سے صحیح کھا ھے ،یہ نھیں کھا کہ
واقعی معاویہ رضی ہللا عنہ نے گالی کا حکم دیا تھا.
آپ کا استدالل عالمہ ابن تیمیہ کے کالم سے اپنے حکم سب والے مطلب پر تھا نہ کہ مسلم کی
روایت کی توثیق پر)
جواب:
محترم اس پر بار بار کالم کرچکا ہوں اور مجھے حیرانی ہے کہ آپ دوبارہ وہی بات لے آتے ہیں
جس کا جواب دیا جاچکا ہے۔ ابن تیمیہ نے نہ فقط کہ الفاظ حکم سب والے نقل کئے بلکہ اس کی
تصحیح کی اور پھر اس کا ان تساب کیا صحیح مسلم کی طرف۔۔ باقی جتنے آپ احتماالت الرہے ہیں
ان کی علمی دنیا میں کوئی قدر نہیں کہ مسئلہ زیر بحث بھی ہو اور اس میں متن کی غلطی بھی ہو
اور پھر ٹوکا ہو۔۔ یہ شرائط آپ کہا سے لے آئے ،غلطی غلطی ہے ،یہ بنو اسرائیل والے سواالت کہ
گائے کا رنگ فالنا ا ور گائے اس طرح کی اور پھر اس طرح کی۔۔ جب غلطی تھی تو تصحیح کی
جاتی اور نہ کرنا اور اس کو قبول کرنا کافی ہے قبولیت کے لئے۔ میرے سامنے کتنی مثالیں ہیں
جہاں ابن تیمیہ نے الفاظ روایت پر اپنے سامنے والوں کو ٹوکا یا خود الفاظ روایت کے نقل پر پابندی
کرنے کی کوشش کی (قطع نظر اس سے کہ یہ کتنا کامیاب ہوئے جو زیر بحث نہیں)۔ باقی آپ کا
کہنا کہ سند پر حکم ہے تو محترم جب مطلق حکم صحیح لگایا ہے اور متن و سند دونوں پر اشکال
نہ کیا ہو تو پھر اس کو فقط سند تک محدود کرنا غلط ہے
لیجئے میں عالمہ نووی اور عالمہ سیوطی کا قول معا تدریب الراوی سے نقل کئے دیتا ہوں:
(اگر کوئی صح یح السند یا حسن السند کے قول پر ہی اکتفاء کرے) اور اس میں کوئی علت اور قدح
کا ذکر نہ کرے (تو ظاہر یہ ہے کہ متن پر بھی حکم صحت یا حکم حسن ہے) کیونکہ علت اور قدح
کا نہ ہونا اصل اور ظاہر ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9329#page-153
اب بتائے کہ آپ کا کہنا کہ فقط سند پر حکم لگایا بغیر کسی قرینہ و دلیل کے فارغ ہے۔ یہ حکم سند
اور متن دونوں پر محیط ہے۔
Khair Talab
شیخ ابن تیمیہ نے کافی جگاہوں پر الفاظ روایت کی تحلیل اور تصحیح پر اصرار کیا ہے اور میرے
پیش نظر جو ان کی کتب سے وہ مقامات ہیں اگر تمام کو نقل کیا جائے تو شاید ایک چھوٹا کتابچہ بن
جائے لیکن میں سردست کچھ حوالوں پر اکتفاء کروں گا جو اس بات کے غماض ہیں کہ ابن تیمیہ
جب کسی پر نقد و جراح کرتے تھے تو الفاظ و فہم روایت پر کتنا دقت سے حملہ کرتے تھے اور
چونکہ انہوں نے صحیح مسلم کی مستدل روایت کے الفاظ ویسے ہی نقل کئے اور اس کی تصحیح
کی چنانچہ یہ ان کے فہم کا آئینہ دار ہے۔ خیر تین مثالیں پیش خدمت ہیں:
، ١ابن تیمیہ شہرستانی کے نقل کردہ الفاظ پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(ابن تیمیہ ایک جواب میں نقل کردہ الفاظ سے استدالل کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہے) حدیث
(روایت) کے الفاظ وہ نہیں جیسا کہ شہرستانی نے نقل کیا ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-3152
قلت :وھذا لفظ الحدیث ،وأما قوله « :ما بین عرشه إلى السماء ألف عام» فإن حقه أن یقول :ما بین كرسیه
والعرش كما في الحدیث المشھور عن ابن مسعود
میں (ابن تیمیہ) کہا ہوں کہ الفاظ حدیث جو معترض نے نقل کیا کہ عرش اور آسمان کے درمیان
ہزار سالہ کا فاصلہ ہے تو صحیح بات یہ ہے کہ وہ کہتا کہ کرسی اور عرش کے درمیان ہزار سالہ
فاصلہ ہے جیسے ابن مسعود سے منقول مشہور حدیث میں وارد ہوا۔
حوالہ :بیان تلبیس الجھمیة في تأسیس بدعھم الكالمیة جلد ١ص ١٣١
http://shamela.ws/browse.php/book-2864#page-131
قلت حرف لفظ حدیث علي ومعناہ فإن علیًّا قال كما ذكرہ البخاري في صحیحه من روایة معروف بن
خربوذ عن أبي الطفیل عن علي قال حدثوا الناس بما یعرفون ودعوا ما ینكرون أتحبون أن یكذب ہللا
ورسوله وھذا یدل على نقیض مطلوبه
میں (ابن تیمیہ) کہتا ہوں کہ معترض نے امیر المؤمنین ع کے الفاظ روایت اور معنی (کے بیان میں)
میں تحریف کی ہے کیونکہ بخاری نے اپنی صحیح میں معروف بن خربوذ اور وہ ابوطفیل سے اور
وہ حضرت علی سے نقل کرتے ہے کہ لوگوں سے وہ بات کرو جو وہ جانتے ہیں اور وہ بات نہ
کرو جس کا وہ انکار کریں کیا تم لوگ یہ پسند کروگے کہ ہللا اور اس کے رسول ص کو جھٹالیا
جائے اور روایت معترض کے مطلب کے برعکس ہے۔
حوالہ :بیان تلبیس الجھمیة في تأسیس بدعھم الكالمیة جلد ٢ص ١١٦
http://shamela.ws/browse.php/book-2864#page-654
تبصرہ :ان تین مثالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ ابن تیمیہ معمولی نقل
روایت کی غلطی میں بہت سخت تھے بالخصوص اگر وہ الفاظ ان کے مطلب کے خالف ہوتے۔۔
بہرحال آپ کو مان لینا چاہئے کہ ابن تیمیہ نے عالمہ حلی کے الفاظ ہی نہیں نقل کئے بلکہ اس کو
نقل کئے اس کا انتساب مسلم کی طرف کیا اور اس کو صحیح قرار دیا۔۔ باقی کا فیصلہ قارئین پر
چھوڑتا ہوں۔
Khair Talab
دوسری عبارت :یہ بات م علوم شدہ ہے کہ صحابہ اور تابعین میں وہ افراد جنہوں نے امیر المؤمنین
ع کے ساتھ جنگ کی ،امیرالمؤمنین ع پر لعنت کی اور امیر المؤمنین ع کی مذمت کی وہ ان
حضرات جو امیر المؤمنین ع سے محبت کرتے تھے اور عثمان پر لعنت کرتے تھے کے مقابلہ
میں زیادہ علم والے اور دین کے حامل تھے۔
فخر ، 1:جناب یہ میرا گمان نھیں کہ ابن مطھر کا یہ نظریہ تھا کہ صحابہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ
کو برا نھیں کھتے تھے ،وہ تو آپ کے ابن مطھر نے خود اس بات کو سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے
امام ھونے پر دلیل بنایا تھا کہ
ان کو مخا لفین و موافقین دونوں برا نھیں کھتے ھیں اس لیے یہ امام ھیں.
اس کے رد میں عالمہ ابن تیمیہ نے الزامی جواب دیا ان کے مسلمات سے کہ شیعہ تو خود شور
مچاتے ھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو منبروں پر گالیاں دی جاتی تھے.
تو اس طرح ابن مطھر کی دلیل توڑی ھے عالمہ صاحب نے
، 2کیا آپ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ شیعوں کا یہ نظریہ ھے کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ اور
باقی شامی سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے اور دلواتے تھے؟
اگر انکار کرتے ہیں تو بتائیں میں شیعہ کتب سے حوالے بھیجوں؟
اگر یہ بات مانتے ھیں تو پہر عالمہ ابن تیمیہ کا جواب شیعہ مسلمات کے مطابق ھوا کہ نھیں؟
، 3جناب یھاں صرف ابن مطھر کی اس بات کو توڑنے کے لیے عالمہ ابن تیمیہ نے الزام دیا ھے
کہ موافقین و مخالفین سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا نہیں کھتے تھے.
اتنا تو الزامی آپ مانتے ہیں نہ؟
بس جب یھاں سے ابن مطھر کا استدالل باطل ھوا تو اب آگے الزام کی کیا ضرورت)
جواب:
یاد رہے ادھر ہماری اور آپ کی بات نہیں ہورہی ہے کہ کیا چیز ہمارے نزدیک مسلم ہے یا نہیں
بات ابن تیمیہ کے حوالے سے چل رہی ہے اور میں اس عنوان سے ایک مزید نکتہ کا اضافہ کروں
کہ ہماری مستدل عبارت ان الفاظ میں ہے:
فمعلوم أن الذین قاتلوہ ولعنوہ وذموہ من الصحابة والتابعین وغیرھم ھم أعلم وأدین من الذین یتولونه
ویلعنون عثمان
یعنی یہ بات معلوم شدہ ہے (فاء تعقیب آیا ہے) اس سے ما قبل کی جو عبارت ہے وہ بھی پیش خدمت
ہے:
بل إذا اعتبر الذین كانوا یبغضونه ویو الون عثمان والذین كانوا یبغضون عثمان ویحبون علیا ،وجد
ھؤالء خیرا من أولئك من وجوہ متعددةفالمنزھون لعثمان القادحون في علي أعظم وأدین وأفضل من
المنزھین لعلي القادحین في عثمان
بلکہ اگر ان لوگوں کو دیکھا جائے جو امیر المؤمنین ع سے بغض رکھتے ہیں اور عثمان سے محبت
رکھتے ہیں اور (پھر ان کا مقابلہ کیا جائے) ان لوگوں کو جو عثمان سے بغض رکھتے ہیں اور علی
سے محبت رکھتے ہیں ،تو پتا چل جائے گا کہ علی ع سے بغض کرنے والے عثمان سے بغض
کرنے والوں سے بہت ساری وجوہات کی بنا پر بہتر ہیں چنانچہ جو عثمان کو مطاعن سے بری
قرار د یتے ہیں اور علی ع کی برائی کتے ہیں وہ فضیلت اور دین کے حوالے سے بہتر ہے ان
لوگوں کے مقابلہ میں جو علی کو مطاعن سے بری قرار دیتے اور عثمان کی برائی کرتے ہیں
Khair Talab
چنانچہ معلوم کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ مجرد الزامی جواب نہیں اور پھر عثمان کے چاہنے والے اور
علی ع سے بغض رکھنے والوں کو فضیلت دینا بتاتا ہے کہ یہ الزامی جواب نہیں۔
محترم نے اس کو الزامی جواب کے قبیل سے کہا۔۔ اب میرے جو نقد تھے جس کا جواب محترم کے
پاس بالکل نہیں ہے وہ یہ کہ اگر الزامی مانا جائے تو یہ عالمہ حلی پر اس وقت ہی حجت ہوسکتا
ہے کہ جب وہ اس بات کے معتقد ہوں کہ وہ صحابہ اور تابعین جنہوں نے امیر ع کے ساتھ جنگ
کی وہ عثمان پر لعنت کرنے والوں سے زیادہ بہتر تھے۔۔ یعنی دلیل ایسی تو دیں جو ہمارے مکتب
اور علماء کے نزدیک قابل قبول ہو۔۔ کیا آپ کسی بھی معتبر شیعی روایت یا معتبر عالم شیعہ کا قول
دے سکتے ہیں جو ان حضرات کو جو امیر المؤمنین ع پر لعنت کرتے ہوں ،ان سے جنگ کرتے
ہوں ان کو بہتر سمجھتے ہو ان حضرات سے جو عثمان کو برا بھال کہتے تھے۔۔ یہ اصال الزامی
جواب بن ہی نہیں سکتا۔۔ ہاں بیشک یہ الزامی جواب ضرور بنتا کہ اگر میں آپ پر شوری کے نظام
سے استدالل پیش کروں کیونکہ اس نظام شوری اور خالفت کے لئے خلفاء کو چننا آپ کے مسلمات
میں سے ہے۔ لیکن آپ کا یہ کہنا عجیب ہے کہ ابن تیمیہ ادھر عالمہ حلی کو الزامی جواب دے رہا
تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ خود ابن تیمیہ کی معلومات شیعہ مبانع کے متعلق صفر کے قریب تھی۔
ہمارے پیش نظر قفاری کی کتاب ہے جس کو شیعہ مخالفین بڑی عزت کی نگاہ سے عموما دیکھتے
ہیں وہ اپنی کتاب کی جلد اول میں فرماتے ہے:
كما أن أھم كتاب عند الشیعة وھو "أصول الكافي" ال تجد له ذكرا ً عند اْلشعري ،أو ابن حزام ،أو ابن
تیمیة ،وھو الیوم اْلصل اْلول المعتمد عند الطائفة في حدیثھا عن اْلئمة الذي ھو أساس مذھبھا.
جس طرح شیعوں کے نزدیک سب سے اہم ترین کتاب اصول الکافی کا ذکر بھی اشعری ،ابن حزم،
ابن تیمیہ کے ہاں موجود نہیں ،درحاآلنکہ آج کل شیعہ گروہ کے نزدیک ان کے آئمہ کی احادیث کے
عنوان سے سب سے بنیادی کتاب اور ان کے مذھب کی اساس ہے۔
حوالہ :أصول مذھب الشیعة اْلمامیة االثنى عشریة جلد ١ص ١٢
http://shamela.ws/browse.php/book-12760#page-10
وأقول :كیف لو رأى شی خ اْلسالم ما أودع في الكافي والبحار ،وتفسیر العیاشي ،والقمي ،والبرھان،
وتفسیر الصافي وغیرھا من تحریف لمعاني القرآن سموہ تفسیراً؟!.
وبین یدي مجموعة كبیرة من ھذا اللون ..یستغرق عرضھا المجلدات
میں کہتا ہوں کہ اگر شیخ االسالم ابن تیمیہ دیکھ لیتے جو الکافی ،بحار االنوار ،تفسیر العیاشی ،تفسیر
قمی ،تفسیر البرھان ،تفسیر الصافی اور دیگر کتب میں قرآن کے معانی کی جو تحریف کی گئی جس
کو تفسیر کا نام دیا جاتا ہے میں وارد ہے؟ اور ان جیسے جو دیگر چیزیں کافی بڑی مقدار میں
موجود ہیں ،تو وہ اس عنوان پر کافی ساری جلدیں لکھ دیتے۔
حوالہ :أصول مذھب الشیعة اْلمامیة االثنى عشریة جلد ١ص ١٧٠
http://shamela.ws/browse.php/book-12760#page-163
تبصرہ :اسی طرح قفاری صاحب نے ان دو مقامات کے عالوہ بھی ابن تیمیہ کی شیعہ کتابوں کی
طرف عدم رسائی کی بات کی ہے اور یہ ایک اچھا اعتراف ہے جس پر بحث اور اس کے تنائج
کسی اور دن لیکن کم سے کم پتا چال کہ جب آپ کسی شیعہ کے خالف بات کریں تو الزامی جواب
اس وقت تسلیم ہوتا ہے جب شیعہ بھی اس کو مانے اور یہ عموما کسی بھی فریق کی معتبر کتب میں
ہوتا ہے ،جب ایک مصنف کتاب اساسی کو ہی نہیں جانتا تو باقی باتوں کا کیا اعتبار کہ وہ الزامی
جواب دینے کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ آپ پوری عبارت مع سیاق و سباق کسی شیعہ کتاب سے ثابت
کیجئے۔ ورنہ یہ مجرد دعوی رہے گا اور اب تک یہ فقط ایک احتمال الزام آپ دے رہے ہیں اب تک
کوئی دلیل الزام بھی دینے سے قاصر ہے۔
Khair Talab
تیسری عبارت :اہل صفین نے ایک دوسرے پر لعنت کی تھی جیسے کہ امیر المؤمنین ع اور ان کے
ساتھیوں نے اپنے قنوت نماز میں بعض معین اشخاص پر لعنت کی تھی اہل شام میں سے ،اور یوں
ہی اہل شام لعنت کرتے تھے
(فخر ، 1 :ابن جوزی اور چند اور لوگ اگر بالفرض قائل بھی ھوں تو اھل السنت کے مسلک پر
کوئی فرق نہیں پڑتا ،اگر چند لوگ اس جھوٹے پروپیگنڈے میں آگئے تو کوئی نئی بات نہیں.
،2عالمہ ابن تیمیہ یھاں کسی کا رد نہیں کر رھے بلکہ یزید کے بارے میں مختلف نظریات نقل
کررھے ھیں .خود عالمہ صاحب لکھتے ہیں
ق :فِ ْرقَةٌ لَعَنَتْهُ َوفِ ْرقَةٌ أ َ َحبهتْهُ َوفِ ْرقَةٌ َال تَسُبُّهُ َو َال ت ُ ِحبُّهُ ث ُ هم ا ْفت ََرقُوا ث َ َال َ
ث فِ َر ٍ
مجموع الفتاوی ج 4ص 483
shamela.ws/browse.php/book-7289/page-1807#page-1805
یعنی یزید کے بارے میں تین فرقے ھیں .ایک اس کو لعنت کرنے واال ،ایک محبت کرنے واال اور
ایک نہ گالی دیتا ہے اور نہ محبت کرتا ہے.
تو یھاں عالمہ صاحب رد کرنے کے لیے نھیں صرف ان کا ذکر کر رھے ھیں،رد کسی کا نھیں کیا
انھوں نے.
، 3شیخ سرفراز رح کا حوالہ آپ کے لیے سودمند نھیں کیونکہ عالمہ صاحب رد کرنے کے لیے
نھیں بلکہ تعارف کے لیے نقل کررھے ھیں.
ھاں رد کے مقام پر التے پہر رد نہ کرتے تو شیخ سرفراز رح کا حوالہ فٹ ھوسکتا تھا)
جواب:
محترم کا یہ کہنا کہ ابن جوزی اگر قائل ہوتے تو فرق نہیں اور اس کے عالوہ کچھ لوگ پروپیگنڈے
میں آگئے تو فرق نہیں۔۔ چلئے ہمیں خوشی ہوئی کہ آپ نے تسلیم کیا کہ ایک عالم اہلسنت ابن جوزی
اس بات کو تسلیم کرتا ہے تو یہ ہمارے لئے خوش نصیبی ہے کہ یوں اس کا خالص رفض کہنا باطل
ہوجاتا ہے اور کہا یہ جائے گا کہ یہ فقط روافض کا ہی پروپیگنڈا نہیں بلکہ اس کا عالم اہلسنت بھی
مانتے ہیں۔
باقی یاد رہے کہ ادھر یزید کے اوپر جو نظریات بیان کئے جارہے ہیں وہ ایک بات ہے اور جو ان
کی دلیل باعتبار ثبوت نقل کئے جارہی ہے وہ دوسری بات ہے دونوں میں خلط نہ ہو۔ جی ہاں اگر یہ
کہا جاتا ہے کہ یزید کے حوالے سے بات کی جارہی ہے تو آپ کی بات صحیح ہوتی لیکن ابن تیمیہ
کا دریں اثنا خود اس بات کو بطور دلیل کرنا کہ جس طرح ان کا نظریہ ہے وہ اس اہل صفین کا ایک
دوسرے سے لعن کرنے سے ملتا ہے۔
اس کے بعد ابن تیمیہ دلیل نقل کرتے ہے (یہ مجرد نقل نظریہ نہیں بلکہ جس دلیل کو استعمال کیا
ہے اس کو نقل خود ابن تیمیہ کررہے ہے)
اور پھر امیر المؤمنین ع کا خاص افراد اور اہل شام یعنی معاویہ کی فوج کا لعنت کرنا لکھا ہے بایں:
فلعن علي وأصحابه في قنوت الصالة رجاال معینین من أھل الشام ; وكذلك أھل الشام لعنوا
چنانچہ ثابت ہوا کہ یہ مجرد نقل نظریہ نہیں تھا اور اگر تھا تو اس کا تعلق فقط یزید سے تھا اور جو
یزید کے عالوہ باتیں کہیں ہیں تو اس کو مجرد نقل نہیں کہیں گے بلکہ اس کو دلیل کالم کہیں گے
اور میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے دیکھائے کہا ابن تیمیہ نے اس کالم کو رد کیا اور اگر نہیں
کیا تو سکوت کیا اور سکوت کیا تو اس کو قبول کیا (جیسا کہ آپ کے امام اہلسنت کا نظریہ ہے)
Khair Talab
چوتھی عبارت :اور عثمان کے چاہنے والوں میں سے حضرات امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے
اور اس بات کا بھی کھلے عام اظہار کرتے تھے منبر اور دیگر جگاہوں پر( ،اس کی وجہ یہ تھی)
کہ ان (عثمان کے چاہنے والوں) اور علی ع پر درمیان جنگ ہوئی تھی۔
(فخر ،1 .:جناب آپ نے یہ تو لکھ دیا کہ یہ کام معاویہ رضی ہللا عنہ کی نگرانی میں ھوتا تھا لیکن
کوئی ثبوت پیش نھیں کیا ،اگر رعیت میں کسی کام کا ھونا سربراہ کی نگرانی کھالتا ھے تو پہر
وھی سواالت یاد رکھیں کو پچھلی بار کرچکا ھوں میں.
گھما پہرا کر وھی بات کردی آپ نے تو میں نے بھی گھما پہرا کر وھی جواب دے دیا.
، 2رھی بات سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے سکوت کی ،تو یہ بھی غلط ،ان کے سامنے کسی نے
سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا بھال کہا تو انھوں نے اسے روکا).
جواب:
ناظرین آپ تمام دیکھ رہے ہوں گے کہ محترم فخر الزماں صاحب کس طرح میرے پیش کردہ
حوالے جات سے صرف نظر کررہے ہیں۔۔ میں نے ایک عبارت پیش کی تھی:
ابن تیمیہ اپنی منھاج السنتہ میں ایک اور جگہ رقم طراز ہے:
عمومی عنوان سے بتحقیق صحابہ اور تابعین ابوبکر اور عمر سے مودت رکھتے تھے درحاآلنکہ
وہ بہترین زمانے والے افراد تھے لیکن حضرت علی کے ساتھ ایسا معاملہ نہ تھا کیونکہ بالشک و
شبہ کافی سارے صحابہ اور تابعین حضرت علی سے بغض رکھتے تھے۔
حوالہ :منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ٧ص ١٣٧
اس کو میں نے خود معاویہ کی نگرانی میں ہوا تو اس کے لئے یہ والی عبارت تھی مع توضیح:
اور عثمان کے چاہنے والوں میں سے حضرات امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے اور اس بات کا
بھی کھلے عام اظہار کرتے تھے منبر اور دیگر جگاہوں پر( ،اس کی وجہ یہ تھی) کہ ان (عثمان
کے چاہنے والوں) اور علی ع پر درمیان جنگ ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ شیعان عثمان معاویہ کی رعایہ والے ہی تھے جیسے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہےَ :و َر ِعیهةُ
ُمعَا ِویَةَ ِشیعَةُ عُثْ َمانَ (دیکھئے منھاج السنتہ جلد ٥ص )٤٦٦
چنانچہ میرا یہ کہنا تھا کہ خود ابن تیمیہ کا اقرار ہے کہ صحابہ اور تابعین امیر المؤمنین ع پر لعنت
کرتے تھے چنانچہ فقط مصداق دیکھنے کی ضرورت تھی تو ہم نے ثابت کیا تھا کہ ابن تیمیہ کے
نزدیک جو صحابی ہے اس میں سے پہلے جو اس کا مصداق ٹہرتا ہے وہ شیعان عثمان ہے اور ان
کا سرغن ہ یقینا معاویہ تھا۔۔ چنانچہ صحابہ امیر المؤمنین ع پر تبرا کرے ،تعین کیسے ہو تو اس کا
تعین شیعان عثمان میں سے جو صحابی ہے ان کو دیکھا جائے اور ان کا سرغنہ کون وہ معاویہ تھا۔
چنانچہ ان دو کو مال کر پڑھئے تو ہماری دلیل سمجھ آجائے گی۔ باقی جو دالئل محترم فخر الزماں
نے دئے ہیں اس کا جواب آگے دیا جائے گا۔
Khair Talab
پانچویں عبارت :اور ابن مطہر کا جہاں تک امیر المؤمنین پر لعن کا ذکر کرنا ہے تو یہ دونوں
گروہوں کی طرف سے جنگ میں ایک دوسرے کے حق میں واقع ہوئی تھی۔۔ چنانچہ یہ حضرات
دوسرے کے سرداروں پر لعنت کرتے اور دوسرا گروہ پہلے کے سردراوں پر بددعا کرتے اور یہ
بھی کہا گیا کہ ہر ایک گروہ دوسرے پر قنوت (نازلہ) پڑھتا تھا۔۔ (خیر) جنگ تو بہرحال منہ سے
لعنت سے زیادہ بڑی چیز ہے اور یہ تمام چیزیں اگرچہ گناہ کے عنوان سے ہوں یا اجتہاد کے
عنوان سے۔۔ خطا کار ہوں یا حق پر ہوں۔۔ ان تمام صورتوں میں ہللا کی مغفرت اور رحمت ان تمام
کو توبہ ،اچھے اعمال اور مصائب و پریشانی وغیرہم کے ذریعے ختم کردیتی ہے
(فخر ،1 :بعض صحابہ تو واقعی سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کے شیعوں میں تھے لیکن ان سے لعنت
ثابت کرنا آپ کے بس کی بات نھیں .کیونکہ جھوٹ کبھی سچ ثابت نھیں ھوسکتا.
، 2رعایہ والی بات دوبارہ کرکے ان سواالت کی طرف مجھے اشارے کا موقعہ دیا آپ نے جو میں
نے اس بات پر آپ سے کیے تھے جو اب تک الجواب ھیں.
دوبارہ وہ سواالت دیکھ لیں.
، 3عالمہ ابن تیمیہ کی بات آپ کی سمجھ سے باالتر ھے آپ ان کی عبارتیں سیاق و سباق سے کاٹ
کر پیش کر کے اپنے علمی گھرائی ھمارے سامنے واضح کررھے ھو.
یھاں بھی عالمہ ابن تیمیہ ابن مطھر کی بات کا رد کررھے ھیں جو یہ رونا رو رہا ھے کہ معاویہ
رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو لعنتیں کرتے تھے.
تو عالمہ صاحب نے اسی کے نظریے کے مطابق لکھا کہ یہ کام تو علی رضی ہللا عنہ والے بھی
کرتے تھے.
اگر معاویہ رضی ہللا عنہ کا لعنت کرنے سے گناہگار ھوئے تو علی رضی ہللا عنہ بھی ،اگر علی
رضی ہللا عنہ کا دوسروں پر لعنتیں کرنا اجتہادی مسئلہ تھا تو پہر معاویہ رضی ہللا عنہ کا بھی یہ
عمل اجتہادی ھوا).
جواب:
محترم لگتا ہے زبردستی کچھ لکھنا چارہے ہیں بغیر سوچھے کہ آیا یہ بات موافق جواب بھی ہے یا
نہیں۔ صحابہ اور تابعین کا بغض علی ع رکھنا تو خود ابن تیمیہ سے ثابت ہے۔ اس کو فقط جھوٹ
کہنا عبث ہے۔
باقی آپ کا کہنا کہ ابن تیمیہ کی عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کررہا ہوں ،اس کا فیصلہ میں
قارئین پر چھوڑتا ہوں ،میں سمجھتا ہوں کہ میری پیش کردہ تمام حوالے جات پورے سیاق و سباق
کے تحت ہے اور جو اس پر اعتراض وارد کیا ہے اس کا بھی جواب دیا جاچکا ہے۔
آپ کا کہنا کہ ابن تیمیہ نے یہ عبارت بھی عالمہ حلی کے مطابق لکھی تو یہ عجیب ہے واقعی
عجیب صرف سینہ زوری ہی کہوں گا ،یعنی مجھے یوں لگتا ہے جو عبارت بھی ابن تیمیہ کی شیعہ
موافق ہوگی اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ یہ عالمہ حلی کے نظریہ کے مطابق لکھی ہے اور سیاق
و سباق سے کاٹ کر علمیت کو ظاہر کیا ہے وغیرہ وغیرہ اعتراضات بتائیں گے جس کی علمی دنیا
میں بغیر دلیل کے کوئی وقعت نہیں۔
Khair Talab
پہلی بات :معاویہ اور اس کی فوج کو ہم مستحق لعنت سمجھتے ہیں تو ایک غلط فعل کا تقارن ایک
برے فعل سے کرنا ہی غلط ہے۔۔ یہ ایسا ہے کہ آپ شکایت کریں کہ بے دین حضرات صالح
دینداروں پر تنقید کرتے ہیں تو وہ جواب میں کہیں کہ دیندار بھی تو بے دین پر تنقید کرتے ہیں تو
دونوں کی تنقید مساوی نہیں بلکہ ایک کی تنقید شرعا غلط ہے اور دوسری کی تقنید شرعا واجب ہے
(عنوان امر و نہی کے تحت)۔۔ دونوں مساوی نہیں۔۔ اسی طرح امیر المؤمنین ع کا معاویہ کو لعنت
کرنا ایسا ہی جیسے رسول ص نے مروان اور اس کے باپ پر لعنت کی اور معاویہ کا امیر المؤمنین
ع اور فوج پر لعنت کرنا ایسا ہے جیسے کافروں کا رسول ص کو برا بھال کہنا۔ چنانچہ عالمہ حلی
کے سامنے اگر آپ دلیل کو پیش کریں تو وہ قانع نہیں ہے اس بات کے بیان میں کہ امیر المؤمنین ع
پر لعنت کیوں ہوتی تھی ،ہم تو کہتے ہیں کہ لعنت کا مستحق تو ایک گروہ تھا ہی۔ اصل اختالف
وصی رسول اور اہلسنت کے چوتھے خلیفہ راشد اور ان کی فوج پر موجود بڑے بڑے صحابہ پر
لعنت کا ہے۔
دوسری بات :یہ الزامی جواب اگر ہوتا تو عبارت اس عنوان کے تحت ہوتی جس میں الزام کا اشارہ
ہوتا جب کہ ادھر ایسا نہیں۔ بلکہ جیسے بتا یا ان آیا ہے تو بالشبہ پر داللت کرتا ہے۔ کیونکہ ابن تیمیہ
کی عبارت کا پہال حصہ یہ ہے:
ت ْال ُم َح َ
اربَةُ يٍ ،فَإ ِ هن الت ه َالعُنَ َوقَ َع ِمنَ ه
الطائِفَتَی ِْن َك َما َوقَعَ ِ َوأ َ هما َما ذَ َك َرہُ ِم ْن لَ ْع ِن َ
ع ِل ّ
اور جو اس نے امیر المؤمنین ع پر لعنت ہونے کا ذکر کیا ،تو بالشک و شبہ دونوں گروہوں کی
طرف سے جنگ کے دوران ایک دوسرے پر لعنت کی گئی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-2172
چنانچہ اب تک ہمارا جواب تشنہ ہے۔ پھر میں ماقبل بتا بھی چکا ہوں کہ ابن تیمیہ کے پاس بنیادی
کتب شیعہ ہی نہ تھی تو الزامی جواب کا محل بننا محل اشکال ہے۔
(اگر معاویہ رضی ہللا عنہ کا لعنت کرنے سے گناہگار ھوئے تو علی رضی ہللا عنہ بھی ،اگر علی
رضی ہللا عنہ کا دوسروں پر لعنتیں کرنا اجتہادی مسئلہ تھا تو پہر معاویہ رضی ہللا عنہ کا بھی یہ
عمل اجتہادی ھوا)
جواب :یہ مزید دلیل ہے کہ یہ الزامی نہیں ہوسکتا کیونکہ شیعہ معاویہ کو مجتہد تو دور کی بات اس
کو اجتہاد کے لئے جو بنیادی شرائط ہے اس کی گنتی اول میں بھی شمار نہیں کرتے اور معاویہ کا
جب مجتہد ہونا ہمارے ہاں باطل ہے تو پھر اس بات کو الزامی جواب کہہ ہی نہیں سکتے۔ اگر ہم
معاویہ کو مجتہد سمجھتے تو شاید یہ جائز ہوتا لیکن ایسا نہیں۔
Khair Talab
پ ،محب ہللا طبری اور مال علی قاری کا فہم روایت صحیح مسلم اور جملہ اشکاالت کے جوابات
ناظرین ہم نے محب ہللا طبری کا نقل کردہ مفہوم روایت سے استدالل کیا تھا اور پھر مال علی قاری
کا اس مفہوم کو بغیر جرح کرکے سکوت کرنا نقل کیا تھا جو خود ان کے امام اہلسنت کے مطابق
قبولیت پر داللت کرتا ہے۔
محب ہللا طبری کی عبارت :راوی سے مروی ہے کہ معاویہ نے سعد کو امیر المؤمنین ع پر سب کا
حکم دیا۔۔۔۔ (پوری روایت نقل کرتے ہیں) ،اس کو مسلم اور ترمذی نے نقل کیا ہے
(فخر ، 2 :صاحب الریاض نے کافی احادیث اپنے اصل الفاظ کے ساتھ نقل نھیں کیں.
جس روایت پر ھماری بحث ھے اسے کے مسلم والے اصل الفاظ اور صاحب ریاض النضرة کے
نقل کردہ الفاظ کا تقابل کرتے ہیں.
دیکھیں..
،1مسلم کے اصل الفاظ
امر معاویہ سعدا فقال ما منعک ان تسب ابا تراب
اور صاحب ریاض النضرة نے
امر معاویہ سعدا ان یسب ابا تراب کردیا
،2مسلم میں ھے
ان تکون لی واحدة منھن
صاحب ریاض نے
تکون کو یکون
اور
لی کو فی کردیا
،3مسلم میں ھے
فقال لہ علی یا رسول ہللا خلفتنی
اور
ریاض النضرة میں یا رسول ہللا بھی غائب اور خلفتنی ماضی کو تخلفنی مضارع سے بدل دیا.
بات سمجھنے کے لیے اتنی مثالیں کافی ھیں.
اب اس کتاب سے آپ مسلم والی روایت سے اپنا سمجھا ھوا مطلب کیسے اخذ کرسکتے ہیں جس نے
خود اختصارا ً روایت نقل کی ھیں اور اصل الفاظ بھی نھیں لکھے؟
، 3مال علی قاری نے بھی ریاض النضرة سے ھی نقل کیا جس کی حقیقت آپ نے دیکھ لی)
جواب:
محترم یہی تو میں عرض کررہا ہوں کہ ہم ادھر صاحب الریاض کے فہم سے استدالل کررہے ہیں
اور یہ میں بتاتا چلوں کہ روایت کو بالمعنی نقل کرنا علماء کا طریقہ ہے۔۔ اس پر مثالیں آگے آئیں
گی۔ البتہ کم سے کم ان کے نقل کردہ الفاظ ان کے فہم پر مدلول ہے اور وہی ہمارا استدالل تھے کہ
دیکھئے طبری نے اس سے کیا سمجھا ہے۔ الفاظ روایت چاہے جو بھی نقل کرے اس سے ہمیں فرق
نہیں پڑتا کیونکہ ہمارا استدالل صحیح مسلم کی روایت سے ہے اور تائید میں ان کے فہم جو نقل کی
صورت میں ہیں اس کو بتایا جارہا ہے۔
Khair Talab
محترم روایت کو بالمعنی نقل کرنا اور اس پر محدث یا مؤلف کا اس کو مختلف الفاظ سے نقل کرنا
کوئی معیوب بات نہیں بلکہ وہ محدث کے فہم پر داللت کرتا ہے۔ اب میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں۔
پہل ی مشہور و معروف مثال ہے جو محتاج بیان بھی نہیں لیکن قارئین کی سہولت کے لئے میں
عرض کروں گا کہ جب اہل اسالم قادیانیوں کے سامنے حضرت عیسی ع کے نزول من السماء کی
دلیل دیتے ہیں تو ایک روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے بطور دلیل التے ہیں۔۔
ْف أ َ ْنت ُ ْم إِذَا نَزَ َل ابْنُ َم ْریَ َم فِیكُ ْم َوإِ َما ُمكُ ْم
سله َمَ « :كی َ صلهى ہللاُ َ
علَ ْی ِه َو َ الفاظ صحیح مسلم :قَا َل َرسُو ُل ہللاِ َ
ِم ْنكُ ْم؟» (صحیح مسلم ج ١ص )١٣٦
http://shamela.ws/browse.php/book-1727#page-467
ْف أ َ ْنت ُ ْم إِذَا نَزَ َل ابْنُ َم ْریَ َم فِیكُ ْمَ ،وإِ َما ُمكُ ْم
سله َمَ « :كی َ ص هلى ہللاُ َ
علَ ْی ِه َو َ الفاظ صحیح بخاری :قَا َل َرسُو ُل ه ِ
َّللا َ
ِم ْنكُ ْم» (صحیح بخاری ج ٤ص )١٦٨
http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-5991
ترجمہ :رسول ص نے فرمایا کہ تم لوگوں کی اس وقت کیا حالت ہوگی جب ابن مریم تم میں نازل
ہوں گے اور تم میں سے ہی تمہارا امام ہوگا۔
اب ادھر دلیل نزول تو الئی گئی لیکن اس میں آسمان کا ذکر نہیں کہ آسمان سے نازل ہوں گے اور
قادیانی حضرات اس پر ضرور اعتراض کرتے ہیں تو اس کے دفع و جواب کے لئے اہل اسالم
بیھقی کی کتاب سے روایت التے ہیں:
یم ،ثنا ابْنُ بُ َكی ٍْرَ ،حدهث َ ِني َّللا ْال َحافِظُ ،أنا أَبُو بَ ْك ِر بْنُ إِ ْس َحاقَ ،أنا أَحْ َمد ُ بْنُ إِب َْرا ِھ َ ع ْب ِد ه ِ - 895أ َ ْخبَ َرنَا أَبُو َ
ع ْنهُ ي ه
َّللاُ َ ض َ ي ِ قَالَِ :إ هن أ َ َبا ھ َُری َْرة َ َر ِ ار ّ ع ْن نَافِ ٍعَ ،م ْولَى أ َ ِبي قَت َادَة َ ْاْل َ ْن َ
ص ِ بَ ، ع ِن اب ِْن ِش َھا ٍ سَ ، ع ْن یُونُ َ ْثَ ، اللهی ُ
اء فِیكُ ْم َوإِ َما ُمكُ ْم ِم ْنكُ ْم»س َم ِْف أ َ ْنت ُ ْم إِذَا نَزَ َل ابْنُ َم ْریَ َم ِمنَ ال هسله َمَ « :كی َ صلهى ہللاُ َ
علَ ْی ِه َو َ َّللا َ قَالَ :قَا َل َرسُو ُل ه ِ
رسول ص نے فرمایا کہ تمہاری اس وقت کیا حالت ہوگی جب ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے
تمہارے ہاں۔ اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔
س ع ْن َیحْ َیى ب ِْن بُ َكی ٍْرَ ،وأ َ ْخ َر َجهُ ُم ْس ِل ٌم ِم ْن َوجْ ٍه آخ ََر َ
ع ْن یُونُ َ یح َ
ص ِح ِ َ .ر َواہُ ْالبُخَا ِر ُّ
ي فِي ال ه
بخاری نے اس کو اپنی صحیح میں یحیی بن بکیر کے طریق سے نقل کیا ،اور مسلم نے ایک
دوسرے طریق سے یونس سے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9270#page-942
تبصرہ :ادھر بیھقی نے اپنے فہم کا انتساب بخاری اور مسلم کی طرف کیا جو بالشبہ دیگر قرائن
کے پیش نظر صحیح ہے لیکن اگر آپ الفاظ کو دیکھیں تو من السماء کے الفاظ بخاری اور مسلم میں
نہیں اور اس کے با وجود اس کو صحیحین سے منسوب کیا۔۔ یہی صورت حال طبری اور مال علی
قاری سے نقل کردہ حوالوں کا ہے کہ اگرچہ الفاظ روایت مختلف ہوسکتے ہیں لیکن وہ الفاظ کا
مختلف ہونا فہم کے اوپر مدلول ہوتا ہے اور یہ دراصل ہماری دلیل نہ کہ ہمارے اوپر اور خالف۔
کیونکہ ہمارا اثبات ہ ی یہی ہے کہ ان اعالم و محدثین کا فہم مسلم کی روایت سے وہی سے ہے جو
ہمارا ہے۔
Khair Talab
دوسری مثال ابن مسعود کے حوالے سے ہے۔۔ اس قضیہ میں جائے بغیر کہ کیا ابن مسعود معوذتین
(سورہ فلق اور سورہ ن اس) کو قرآن کا حصہ مانتے یا نہیں۔۔ بحث اس باب میں ہے کہ کیا روایت کا
انتساب اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ الفاظ کا اختالف ہو لیکن معنی واحد ہو بایں ہمہ کہ وہ بالمعنی
روایت محدث یا ناقل کے فہم پر داللت کرے۔
زد کہتے ہے کہ میں نے ابی بن کعب سے پوچھا کہ اے ابو منذر۔ آپ کا بھائی ابن مسعود فالں فالں
بات کہا ہے۔ ابی نے جواب میں کہا کہ ہم نے رسول ص ے پوچھا تو رسول ص نے ہمارے لئے
کچھ پس ہم وہی بات کہتے ہیں جو رسول ص نے کہی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-8379
اس روایت کی بابت ہماری اچھی خاصی تحقیق ہے۔۔ انشاء ہللا وقت مال تو کبھی تبادلہ کریں گے۔
خیر اس روایت کا ابھام کسی ذی علم پر پوشیدہ نہیں لیکن جب سیوطی مقام نقل پر ائے اور اپنے فہم
کا پیوند اس پر لگایا تو گویا ہوئے:
احمد ،بخاری ،نسائی ،ابن ضریس ،ابن انباری ،ابن حبان ،ابن مردویہ نے زر سے نقل کیا کہ وہ
مدینہ آئے اور ابی بن کعب سے مالقات کی اور کہا کہ اے منذر (کنیت ابی) میں نے دیکھا ہے کہ
ابن مسعود اپنے مصحف میں معوذتین (فلق و ناس) کو نہیں لکھتے تو ابی نے جواب میں کہا خدا کی
قسم جس نے محمد ص کو حق کے ساتھ بھیجا کہ میں نے رسول ص سے پوچھا تھا اور یہ سوال
کسی نے مجھ سے نہیں کیا سوائے تمہارے (زر)۔ اس نے کہا جو کہا گیا میرے لئے وہ بتائے تو ابی
نے کہا تم لوگ کہو اور ہم وہی کہتے ہیں جو رسول ص نے کہا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-12884#page-7318
ناظرین ،قارئین اور محترم فخر الزماں صاحب۔۔ سمجھ تو گئے ہوں گے اس تفاوت روایت و الفاظ کو
لیکن انتساب بہرحال بخاری سے بھی ہے اور بخاری سے نقل کردہ روایت آپ تمام کے پیش نظر
کردی گئی ہے۔ چنانچہ محدث اگر اپنے فہم کے مطابق روایت کو بالمعنی نقل کرے تو اس محدث کا
فہم اگر ہمارے فہم کے مطابق ہو تو اس سے احتجاج میں کوئی مانع نہیں۔ یاد رکھئے اصل استدالل
اب بھی صحیح مسلم کی روایت سے ہی ہے اور ان کا فہم بطور تائید پیش کیا جاتا ہے جب کہ آپ کا
انکار اصال ان کے فہم پر ہے فتدبروا یا اولی االبصار۔
مال علی قاری پر یاد کیجئے جو اعتراض کیا تھا امید ہے وہ اب واپس لے لیں گے۔۔ امام اہلسنت
سرفراز احمد صفدر کے کالم پر آپ نے تبصرہ نہیں دیا ،ذرا وہ بھی دیجئے گا۔
Khair Talab
ت ،شاہ عبدالعزیز دہلوی کا صحیح مسلم کی روایت سے اخذ مفہوم سب اور الحاق کا جواب
ہم نے شاہ عبدالعزیز کی اس صحیح مسلم کی روایت پر طویل تبصرہ پیش کیا تھا اور چونکہ اب
موقع نہیں کہ اس کو من و عن نقل کریں کیونکہ وہ خاصی طوالت کا باعث ہوگا تو بعض اہم الفاظ
کو پیش کرتے ہے:
غایتہ االمر اس کا یہی ہوگا کہ ارتکاب اس فعل قبیح یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ رض سے
صادر ہونا الزم آئے گا۔ تو کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسالم میں ہوا ہے اس واسطے کہ درجہ
سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہیں
(فخر ، 1 :فتاوی عزیزی میں الحاقیات ھیں جس کو ھمارے علماء واضح کرچکے ھیں
ا ،شیخ العرب و العجم سید حسین احمد مدنی رح کی مکتوبات ج 4مکتوب نمبر 171ص 367 ،366
پر حضرت نے اس کو واضح کیا ھے.
ب ،حضرت قاضی مظھر حسین رح نے خارجی فتنہ ج 2ص 102 ،101پر واضح کیا ھے.
تو فتاوی عزیزی کا جو حوالہ مسلک اھل السنت کے خالف ھوگا وہ قبول نھیں کیا جائے گا) .
جواب:
محترم فخر الزماں کہتے ہے کہ چونکہ شاہ عبدالعزیز کے فتاوی میں الحاق تھے اس وجہ سے اس
فتوی کو ان کا شمار نہیں کیا جائے گا۔۔۔ محترم اس پر دو اعتراضات ہیں۔۔ پہلی بات یہ ہے کہ آپ
کس دلیل کے تحت فقط اس ہی فتوی کو ملحق کہہ رہے ہیں یعنی کیا آپ کے پاس دلیل خود شاہ
صاحب کے ڈائریکٹ شاگرد یا جنہوں نے ان کے ان فتاوی کو جمع کیا موجود ہے کہ انہوں نے
خاص اس فتوی کو الحاق کہا ہو۔۔ یہ تو پھر احتمال دے کر پوری کتاب ہی قابل احتجاج نہیں رہے
گی کہ اگر احتمال الحاق موجود ہو تو کس دلیل کے تحت آپ کہیں گے کہ فالں فتوی شاہ صاحب ہی
کا ہے اور فالں شاہ صاحب کا نہیں۔۔ اگر آپ کے میزان کو مانا جائے تو ممکن ہے کہ اس میں کچھ
الحاق شدہ ثابت ہوں ،دوسرا آئے تو اس کے مطابق دیگر الحاق شدہ ہوں۔ علی کل حال جب تک
معیار الحاق آپ ثابت نہیں کرتے اس وقت تک آپ کا کالم فارغ ہی ہے۔ میدان مباحثہ میں بار بار
کہتا ہوں کہ پک اور چوز یعنی میٹھا میٹھا ہپ اور پھیکا پھیکا تھو نہیں چلتا۔ دوسری بات یہ کہ اگر
احتمال الحاق کو مان جائے تو یہ تو صحیح بخاری میں بھی زیادتی اور الحاق موجود ہے اور قطع
نظر اس سے کہ وہ اب بھی چھپتا ہے لیکن علماء کی ایک جماعت اس کو الحاق مانتی ہے تو اگر
آپ کی بات کو مانا جائے تو پھر ممکن ہے صحیح بخاری سے ہاتھ دھونا پڑے۔۔
Khair Talab
صحیح ب خاری کی مشہور حدیث کہ اے عمار تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔۔۔ اس روایت کے اس
جملہ :یدعوھم إلى الجنة ویدعونه إلى النار کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہے:
ي فِي ْال َج ْم ِع ِیث َوا ْعلَ ْم أ َ هن َھ ِذ ِہ ال ِ ّزیَادَة َ لَ ْم یَذْكُ ْرھَا ْال ُح َم ْی ِد ُّ
ار ت َ ْقتُلُهُ ْال ِفئَةُ ْالبَا ِغیَةُ یَدْعُوھُ ْم ْال َحد َ ع هم ٍَولَ ْفظُهُ َو ْی َح َ
ت ي ِ أ َ ْو َوقَعَ ْ
َار ّ ي َولَعَله َھا لَ ْم تَقَ ْع ِل ْلبُخ ِ ص ًال َو َكذَا قَا َل أَبُو َم ْسعُو ٍد قَا َل ْال ُح َم ْی ِد ُّ ي لَ ْم یَذْكُ ْرھَا أ َ َْار هَوقَا َل إِ هن ْالبُخ ِ
ي َحذَفَ َھا ظ َھ ُر ِلي أ َ هن ْالبُخ ِ
َار ه ث قُ ْلتُ َو َی ْ ي ِفي َھذَا ْال َحدِی ِ ي َو ْال َب ْرقَا ِن ُّ ع ْمدًا قَا َل َوقَدْ أ َ ْخ َر َج َھا ْ ِ
اْل ْس َما ِعی ِل ُّ فَ َحذَفَ َھا َ
ع ْمدًا
َ
ترجمہ :اور یہ مذکورہ باال جملہ حدیث۔۔ تو جان لو کہ اس اضافہ کو حمیدی نے اپنی کتاب الجمع میں
ذکر نہیں کیا ،اور کہا کہ بخاری نے اس کو اصال لکھا ہی نہیں تھا۔ اور یہی بات ابو مسعود نے
لکھی ہے۔ حمیدی کے بقول ممکن ہے کہ بخاری تک یہ پہنچی ہی نہو یا پہنچی ہو تو بخاری نے اس
جو عمدا حذف کردیا ہو۔ اور مزید کہا کہ اس اضافہ روایت کو اسماعیلی اور برقانی نے بہرحال نقل
کیا ہے۔ میں (یعنی ابن حجر) کہتا ہوں کہ میرے لئے جو چیز ظاہر ہوئی ہے کہ بخاری نے اس جو
جان بوجھ کر حذف کیا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-1673#page-1025
http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-442
تبصرہ :اگر مجرد زیادتی روایت جو اب تک بخاری میں دو جگہ چھپ رہی ہے اس الحاق سے اگر
کتب قابل استدالل نہیں رہتی تو پھر بتائے کیا صحیح بخاری پر بھی یہی حکم لگے گا۔
نوٹ :یاد رہے کہ ہمارا جواب ادھر الزامی ہے۔۔ ورنہ یہ روایت بالکل ثابت ہے اور بعض الناس نے
اس روایت کو ضعیف کہا ہے اور بعض نے صرف ان الفاظ کو مدرج جن کا تفصیلی جواب میں نے
ماضی میں بھی دیا ہے اور انشاء ہللا مزید دیں گے اگر ضرورت ہوئی۔
Khair Talab
(تحفہ اثنا عشری ص 749پر اھل صفین کے بارے میں لکھتے ہیں
⏪ جو آیات و احادیث صحابہ و مومنین کے بارے میں ھیں ان میں ان کو شامل کرتے ھیں اور ان
کی نجات کا لکھتے ہیں.
⏪ سب و شتم اور لعن طعن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ معتبر روایات سے ثابت نھیں.
بات واضح ھوگئی اور آپ کا استدالل باطل ھوا) .
جواب:
دوسری بات یہ ہے کہ اگر شاہ عبدالعزیز دہلوی نے ایک بات اپنی تحفہ میں کہی اور اس کے مد
مقابل دوسری بات کہی تو اس کو تناقض شمار کیا جائے گا ،یہ بات ایسی ہے جب مرزا غالم قادیانی
کے کفریات در حق حضرت عیسی ع کو دیکھاتے ہیں تو وہ بالکل آپ کے استدالل کی طرح
حضرت عیسی ع کے حق میں اس کی کتب سے وہ عبارات دیکھاتے ہیں جو حضرت عیسی ع کی
توثیق میں ہو تو جو علماء اسالم ادھر جواب دیتے ہیں وہی میرا سمجھیں۔ ضرورت پڑی تو میں ان
حوال ے جات کو بھی نقل کردوں گا ،لیکن اگر آپ اس بات کو ہی دلیل الحاق مانتے ہیں تو کیوں نہ
یہی استدالل ہم شیعہ علماء کے لئے بھی پیش کردیں اور جو بھی آپ حوالہ دیں اس کے مقابلہ میں
ہم یہی کہیں کہ ادھر ممکن ہے الحاق ہو اور شاید یہی عبارت الحاق ہو۔ اگر یہ مانتے تو سودہ برا
نہیں۔
مرتضی چاند پوری کہتے ہے:
ٰ
ایک بات اور قابل ذکر ہے مرزائی دھوکہ دینے کی غرض سے وہ عبارات مرزا قادیانی کی پیش
عیسی علیہ السالم کی تعظیم اور عظمت شان کا اقرار
ٰ کردیتے ہیں جن میں ختم نبوت کا اقرار ہے
ہے ،اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مرزا قادیانی ماں کے پیٹ سے کافر نہ تھے ایک مدت تک
مسلمان تھے اور چونکہ دجال تھے اسی وجہ سے ان کے کالم میں باطل کے ساتھ حق بھی ہے تو
پہلی عبارات مفید نہیں جب تک کوئی ایسی عبارت نہ دکھا دیں کہ میں نے فالں معنی ختم نبوت کے
غلط بیان کیے تھے وہ غلط ہیں صحیح معنی یہ ہیں کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی
حقیقی نہ ہوگا ،یا عیسی علیہ السالم کو جو فالں جگہ گالیاں دے کر کافر ہوا تھا اس سے توبہ کرکے
مسلمان ہوتا ہوں۔ ورنہ ویسے تو مرزا قادیانی اور تمام مرزائی الفاظ اسالم ہی کے بولتے ہیں اسی
وجہ سے مسلمان دھوکہ میں آجاتے ہیں کہ یہ تو ختم نبوت کے بھی قائل ،عیسی علیہ السالم کی
تعظیم بھی کرتے ہیں ،قرآن کو بھی مانتے ہیں ،حشر اجسد پر بھی ایمان التے ہیں ،عرض تمام آمنت
باہلل اور ایمان مجمل اور مفصل ازبر ہے یہ مسلمان کیوں نہ ہوں گے؟ مگر مسلمانو! یہ ان کے الفاظ
ہیں لیکن معنے وہ نہیں جو قرآن و حدیث نے بتائے ہیں معنی ان کے وہ ہیں جو مرزا قادیانی نے
تصنیف کرکے کفر کی بنیاد ڈالی ہے لہذا جو عبارات مرزا قادیانی اور مرزائیوں کی لکھی جاتی ہے
جب تک ان مضامین سے صاف توبہ نہ دکھائیں یا توبہ نہ کریں تو ان کا کچھ اعتبار نہیں
حوالہ :اشد العذاب علی مسیلمتہ الفنجاب ص ١٩-١٨اور احتساب قادیانیت جلد ١٠ص ٢٦١-٢٦٠
https://ia601601.us.archive.org/.../Ehtesa.../ehtisab-10.pdf
محترم میں آپ کے عالم کے منھج کے مطابق یہی مطالبہ آپ کے سامنے کرتا ہوں۔
Khair Talab
محترم فخر الزماں صاحب کو ہم نے معاصر موسی شاہین کا حوالہ دیا تھا جو کل مال کے ماضی کی
تعداد پانچ بنا دیتا ہے (اس بار دو مزید دوں گا یوں ٧ہوجائیں گے) ،علی کل حال محترم فخر الزماں
کہتے ہے:
(فخر :آپ کے پہلے حوالوں کا حال آپ نے دیکھ لیا ھوگا اب اس کا حال بھی دیکھ لیں.
، 2موسی شاہین جس بنیاد پر امام نووی رح کی تاویل کو بعید کھیل رہے ہیں کہ معاویہ رض کا گالی
دینا ثابت ھے ،اس کی کوئی دلیل نھیں دی.
خود اھل السنت علماء کے بھی خالف ہے ان کی بات یہ بات.
بعید تو ان کی بات ھوئی نہ کہ امام نووی رح کی.
، 3آج تک کے معتبر علماء امام نووی کی تاویل کو تسلیم کرتے آرھے ھیں اور 700سال کے بعد
یہ تاویل غلط ھوگئی.
ماشاءہللا
اتنے علماء کے مقابلے میں آج کل کے کسی عالم کی بات نھیں مانی جائے گی)
جواب:
محترم چلیں مان لیا کہ ایک اہلسنت عالم دین یہ بات کہتا ہے۔۔ کوئی مسئلہ کی بات نہیں آپ نہ مانیں،
قارئین تو اس بات کو پڑھ رہے ہیں۔۔ ماشاء ہللا سے آپ کا استقرا کامل لگتا ہے تو محترم کیا واقعی
آپ نے دیگر علماء اہلسنت کا کالم اس پر پڑھا بھی ہے یا صرف اپنی طرف سے لکھ دیا کہ کسی
نے نووی کی مخالفت نہیں کی ،ہم اس ضمن میں آپ کو دو مزید حوالے دے دیتے ہیں (اور بھی ہیں
جو ضرورت پڑی تو نقل کریں گے) جس میں ان علماء نے سب کا حکم ہی مراد لیا ہے۔
محترم فخر الزماں اور قارئین کی جاذبیت نظر کے لئے دو مزید حوالے اس صحیح مسلم کی روایت
کی تشریح پر عرض کرتا ہوں جو صریحا داللت کرتے ہیں کہ معاویہ نے سب ہی کا حکم دیا تھا۔
Khair Talab
قرطبی اپنی شہرت آفاق شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہے:
وقول معاویة لسعد بن أبي وقاص (( :ما منعك أن تسب أبا تراب )) ؛ یدل :على أن مقدم بني أمیة كانوا
یسبون علیا وینتقصونه ،وذلك كان منھم لما وقر في أنفسھم من أنه أعان على قتل عثمان ،وأنه أسلمه
لمن قتله ،بناء منھم على أنه كان بالمدینة ،وأنه كان متمكنا من نصرته .وكل ذلك ظن كذب ،وتأویل
باطل غطى التعصب منه وجه الصواب
معاویہ کا سعد کو کہنا کہ کیا چیز مانع ہے کہ تم ابوتراب کو سب کرو۔۔ اس بات پر داللت کرتا ہے
کہ بنو امیہ کے سرداران امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے اور امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرتے
تھے ،اور یہ اس وجہ سے تھا کہ ان کے دلوں میں امیر المؤمنین ع کے لئے میل تھا کہ امیر ع نے
عثمان کے قتل میں مدد کی۔۔الخ
حوالہ :المفھم لما أشكل من تلخیص كتاب مسلم جلد ٦ص ٢٧٢
https://ia801200.us.archive.org/.../FP84101/06_84106.pdf
تبصرہ :ہم نے بقدر حاجت ترجمہ پیش کیا ہے جس کا تعلق ہمارے استدالل سے ہے۔ اور اس حوالہ
پر مزید حاشیہ یا تشریح لگانا بیکار ہے کیونکہ یہ حوالہ داللت کے اعتبار سے بالکل صاف ہے۔
دوسرا عالم محمد امین شافعی ہے جنہوں نے بہت بڑی شرح صحیح مسلم پر لکھی ہے ،وہ فرماتے
ہے:
(قال) عا مر بن سعد( :أمر معاویة بن أبي سفیان) اْلموي الشامي ،الخلیفة المشھور (سعدا) بن أبي
وقاص رضي ہللا عنھما أي أمرہ بسب علي بن أبي طالب رضي ہللا عنه فأبى سعد أن یسب علیًّا (فقال)
معاویة بن أبي سفیان لسعد( :ما منعك) یا سعد (أن تسب أبا التراب) علي بن أبي طالب حین أمرتك أن
تسبه،
عامر بن سعد راوی کہتا ہے کہ (حکم دیا معاویہ بن ابی سفیان نے) جو بنو امیہ میں تھے ،شامی اور
خلیفہ مشہور (سعد کو) یعنی سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنھما۔۔ یعنی معاویہ نے سعد کو حکم دیا
کہ وہ علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر سب کریں چناچنہ سعد نے علی پر سب کرنے سے منع
کردیا( ،پس کہا) معاویہ نے سعد سے (کیا چیز مانع ہے) اے سعد (تم ابو تراب پر سب کرو) یعنی
علی بن ابی طالب پر۔۔ جب کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ان پر سب کرو۔
http://shamela.ws/browse.php/book-18268#page-10051
تبصرہ :یہ ایک مزید حوالہ اس روایت کی تشریح پر دیا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب انکار
کا کوئی محل نہیں۔
یوں یہ پروپیگنڈا کہ سب نووی کی تاویل کو قبول کرتے چلے آرہے ہیں غلط ہوجاتا ہے اور پوری
تعداد جو اس صحیح مسلم کی روایت سے معاویہ کا سب کرنے کا حکم مراد لیتے ہیں سات ہوجاتے
ہیں۔
Khair Talab
ناظرین ہم نے جب اب ن تیمیہ کی عبارت پیش کی تھی اس میں امیر المؤمنین ع کے قنوت کے جملہ
دو طرق سے نقل کئے تھے
المصنف :اے ہللا۔۔ معاویہ اور اس کے شیعوں۔ عمرو بن عاص اور اس کے شیعوں ،ابو سلمی اور
اس کے شیوں ،عبدہللا بن قیس اور اس کے شیعوں کے خالف تجھ سے طلب کرتا ہوں۔ (از امیر
المؤمنین)
تاریخ ابن کثیر :جب علی کو پتا چال کہ عمرو بن عاص نے کیا کیا ،تو امیر المؤمنین ع معاویہ،
عمرو بن عاص ،ابو االعور السلمی ،حبیب بن مسلمہ ،ضحاک بن قیس ،عبدالرحمان بن خالد بن ولید،
ولید بن عتبہ اور ان کے شیعوں پر لعنت کیا کرتے تھے
آئے محترم فخر الزما ں کے جواب کو دیکھتے ہے اور اس پر اپنا تبصرہ دیتے ہے
(فخر ، 2 :جناب نے لعنت ثابت کرنے کے لیے نماز میں قنوت والی روایت پیش کی ھے.
خود انھوں نے ترجمہ بھی لعنت کا نھیں کیا بلکہ یہ کیا ھے کہ
"تجھ سے طلب کرتا ہوں"
دعوی کے مطابق دلیل ھی نھیں) تو آپ کے ٰ
جواب:
بیشک اس کا ترجمہ بھی میں نے صحیح کیا ہے اور اس سے اخذ شدہ مفہوم دونوں صحیح ہے۔۔
کیونکہ اگر آپ مطلق حج کو لیں تو اس کا ایک لغوی معنی ہے اور ایک شرع میں مستعمل معنی
ہے۔ عید (العود) کا لفظ لے لی جئے اس کا ایک لغوی معنی ہے اور پھر اصطالح میں اس کا ایک
معنی ہے۔ اسی طرح اللھم علیک کا ایک لغوی معنی ہے اور ایک اصطالحی معنی ہے۔ چنانچہ اللھم
علیک کے بعد جن حضرات کا نام لیا جاتا ہے اور محل قنوت ہو تو اس صورت میں اس کا اطالق
شدید ہوتا ہے اور یہ برات اور ہالکت کے معنی میں ہوتا ہے۔
محترم فخر الزماں نے جو اس بابت اعتراض کیا ہے تو ادھر لفظ اللھم علیک آیا ہے اور وہ بھی
دشمنوں کے لئے آیا ہے تو اس صورت میں اس کو ہالکت اور لعن کے معنی میں لینا دو وجوہات
کی بنا پر صحیح ہے۔۔ اول کہ خود علمائے اہلسنت نے اس کی تصریح کی ہے اور دوسری بات یہ
ہے کہ دیگر شواہد میں لعن کے عنوان سے اس کو نقل کیا ہے۔
رسول ہللا ص کا یہ کہنا کہ اے ہللا تیرے لئے ابوجہل۔۔ تو اس کا مطلب ابوجہل کی ہالکت کی بددعا
تھی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-5756#page-6839
اللھم علیک بقریش یعنی اے ہللا تیرے لئے قریش اس کا مطلب ہے کہ قریش میں سے کافروں کو
ہالک کردے
http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-307
رسول ص کا یہ کہا اللھم علیک بقریش یعنی اے ہللا تیرے لئے قریش اس میں حرف باء زائدہ ہے
اور علیک اسم فعل ہے چنانچہ معنی یہ ہوا کہ قریش کی غالب آنے والی شدید پکڑ کر۔ (ملخص)
http://shamela.ws/browse.php/book-8176#page-8118
، ٤آخر میں موالنا عبدالحئی لکھنوی کا فیصلہ کن قول بھی سنادیا جائے تاکہ ان تمام مباحث کا ایک
منطقی انجام ہوجائے وہ اس لفظ اللھم علیک کے بارے میں رقم طراز ہے:
اظہار برات کے لئے یہ بددعا کی گئی۔۔ اللھم علیک یعنی اے ہللا ان کو بری عاقبت (کے لئے) پکڑ۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9804#page-1363
تبصرہ :لہذا فیصلہ ہوا کہ اللھم علیک مخالف کے اوپر اظہار برات کے لئے آتا ہے جس کو عرف
عام میں تبرا کہا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس سے مخالف کی ہالکت مقصود ہوتی ہے۔ فیصلہ میں
قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ ان روایت میں موجود الفاظ اللھم علیک سے خود فیصلہ کریں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بعض روایات کو نقل کئے دیتے ہیں جس سے اس امر کے اثبات میں
کوئی دو رائے نہ رہیں کہ امیر المؤمنین معاویہ اور اس کی فوج (اہل شام) کے خالف قنوت پڑھا
کرتے تھے۔
ع ْلقَ َمةَ،
یم ،عَ ْن َ ع ْن َح همادٍ ،عَ ْن ِإب َْرا ِھ َ سى ،ثَنَا ْال ُم ْق ِرئُ ،ثَنَا أَبُو َحنِیفَةََ ،
َحدهثَنَا ُم َح همد ُ بْنُ أَحْ َمدَ ،ثَنَا ِب ْش ُر بْنُ ُمو َ
علَى ش ِامَ ،و َكانَ یَ ْقنُتُ َ ب أ َ ْھ َل ال ه ي َحتهى َح َ
ار َ قَالََ « :ما قَنَتَ أَبُو بَ ْك ٍرَ ،و َال عُ َم ُرَ ،و َال عُثْ َمانُ َ ،و َما قَنَتَ عَ ِل ٌّ
ُم َعا ِو َی َة»
بحذف سند۔۔ علقمہ کہتے ہے کہ ابوبکر ،عمر اور عثمان نے قنوت نہیں پڑھا یہاں تک کہ امیر
المؤمنین ع نے بھی قنوت نہیں پڑھا مگر جب اہل شام کے ساتھ جنگ ہوئی تو امیر المؤمنین ع نے
معاویہ کے خالف قنوت پڑھا۔
حوالہ :مسند اْلمام أبي حنیفة روایة أبي نعیم جلد ١ص ٨٣
http://shamela.ws/browse.php/book-6721#page-156
صلهى ہللاُ َ
علَ ْی ِه ع ْلقَ َمةََ ،و ْاْلَس َْودَِ ،ق َاالَ « :ما َقنَتَ َر ُ
سو ُل ه ِ
َّللا َ ع ْن َ یمَ ، ع ْن أ َ ِبی ِهَ ،
ع ْن ِإب َْرا ِھ َ َوقَا َل ابْنُ ْال ُم َجا ِلدَِ ،
ت كُ ِلّ ِھ هن َو َال قَنَتَ أَبُو بَ ْك ٍر َو َال عُ َم ُر ب ،فَإِنههُ َكانَ یَ ْقنُتُ فِي ال ه
صلَ َوا ِ ار َت ِإ هال ِإذَا َح َ صلَ َوا ِ
يءٍ مِنَ ال ه ش ْسله َم فِي َ َو َ
ت كُ ِلّ ِھ هنَ ،و َكانَ ش ِام ،فَ َكانَ یَ ْقنُتُ فِي ال ه
صلَ َوا ِ ب أ َ ْھلَ ال ه ي َحتهى َح َ
ار َ َو َال عُثْ َمانُ َحتهى َماتُواَ ،حتهى َال قَنَتَ َ
ع ِل ٌّ
اح ِب ِه»
ص ِعلَى َ اح ٍد ِم ْن ُھ َما َ ُم َعا ِو َیةُ َی ْقنُتُ أ َ ْی ً
ضا فَ َیدْعُو كُ ُّل َو ِ
علقمہ اور اسود دونوں کہتے ہیں کہ رسول ہللا اپنی نمازوں میں بالکل قنوت نہیں پڑھتے تھے مگر
یہ کہ جب جنگ کرتے تو اس وقت ہر نماز میں قنوت پڑھا کرتے تھے( ،اس کے بعد) ابوبکر نے
قنوت نہیں پڑھا( ،اس کے بعد) عمر نے قنوت نہیں پڑھا( ،اس کے بعد) عثمان نے قنوت نہیں پڑھا
یہاں تک کہ ان سب نے داعی اجل کو لبیک کہا ،پھر جب نوبت امیر المؤمنین تک آئی تو آپ نے
بھی قنوت نہیں پڑھا یہاں تک کہ اہل شام کے خالف جنگ ہوئی ،تو امیر المؤمنین ع اپنی ہر نماز
میں قنوت پڑھتے اور معاویہ بھی قنوت پڑھا کرتا تھا چنانچہ یہ دونوں ایک دوسرے کے خالف
بددعا کیا کرتے تھے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-13174#page-5316
یم« ،أ َ هن َ
ع ِلیًّا ع ْن ِإب َْرا ِھ َ
ع ْن َح همادٍَ ، ع ْن أَبِي َح ِنیفَةََ ،
ع ْن أ َ ِبی ِهَ ،فَ ، ف بْنُ أ َ ِبي یُو ُ
س َ س ُ - 352قَالََ :حدهثَنَا یُو ُ
اربَهُ ،فَأ َ َخذ َ أ َ ْھ ُل ْالكُوفَ ِة َ
ع ْنهَُ ،وقَنَتَ ُمعَا ِویَةُ ع ْنهُ ِحینَ َح َ ي ه
َّللاُ َ ض َ علَى ُمعَا ِویَةَ َر ِع ْنهُ قَنَتَ یَدْعُو َ ي ه
َّللاُ َ ض َ
َر ِ
ع ْنهُ» يٍ ،فَأ َ َخذ َ أ َ ْھ ُل ال ه
ش ِام َ علَى َ
ع ِل ّ یَدْعُو َ
ابراہیم (النخعی) فرم اتے ہے کہ امیر المؤمنین ع معاویہ کے خالف قنوت میں بددعا کرتے تھے جب
معاویہ سے جنگ کررہے تھے ،چنانچہ اہل کوفہ نے یہ عمل امیر المؤمنین ع سے اخذ کیا ،اور
معاویہ بھی امیر المؤمنین ع کے خالف قنوت میں بددعا کرتا چناچنہ اہل شام نے یہ عمل معاویہ سے
اخذ کیا۔
حوالہ:اآلثار أبو یوسف ص ٧١
http://shamela.ws/browse.php/book-12987#page-357
اس ہی روایت کو محمد بن حسن الشیبانی نے اپنی اآلثار جلد ١ص ٥٩٥میں نقل کیا ہے اور اپنی
کتاب الحجة على أھل المدینة جلد ١ص ١٠٢-١٠١میں بھی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-1332#page-277
http://shamela.ws/browse.php/book-6161#page-87
چنانچہ اس روایت سے مزید تقویت ملی کہ امیر المؤمنین ع اور ان کی فوج بقول علماء اہلسنت
معاویہ کے خالف بددعا کیا کرتے تھے۔۔
Khair Talab
شیعوں کے شیخ طوسی نے رجال الطوسی میں اسے امام جعفر صادق رح کے اصحاب میں شمار
کیا ھے
/...shiaonlinelibrary.com/.../2935//:الصفحة_...205
اور یہ اصول تو آپ کو اچھے طریقے سے پتا ھے کہ شیعہ کی روایت اس کی تائید میں قبول نہیں.
)
جواب :محترم کو المصنف کی روایت ہے اس میں سلمہ بن کھیل نہیں ،دیگر جو میں نے طرق دئے
ہیں ان میں بھی سلمہ بن کھیل نہیں ،ناظرین کی تشفی کے لئے میں المصنف کی روایت سند اور متن
کے ساتھ نقل کئے دیتا ہوں:
حدثنا :ھشیم ،قال :أخبرنا :حصین ،قال :حدثنا :عبد الرحمن بن معقل ،قال :صلیت مع علي صالة
الغداة ،قال :فقنت ،فقال في قنوته :اللھم علیك بمعاویة وأشیاعه ،وعمرو بن العاص ،وأشیاعه ،وأبا
السلمي وأشیاعه ،وعبد ہللا بن قیس وأشیاعه
اس میں سلمہ نہیں تو اس جراح کی وجہ سمجھ سے باالتر ہے لیکن خیر میں اس پر کالم کرتا ہوں
البتہ جس کلیہ کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس پر تفصیلی کالم میں بعد میں نقل کروں گا۔
محترم فخر الزماں نے سلمہ بن کھیل کے متعلق لکھا کہ اس میں تشیع تھی اور چونکہ روایت سلمہ
کی تشیع کو تقویت دے رہی ہے اس وجہ سے اس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ تو اس کے جواب میں
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس امر کا اثبات کردیا جائے کہ تشیع (جو عرف متقدمین کے مطابق
ہے) ہوتے ہوئے علماء نے ساتھ ساتھ راوی کو ثبت (یعنی ثقہ ہونے کی اعلی قسم لکھا ہے)۔ چنانچہ
ذھبی نقل کرتے ہے:
ابوحاتم رازی کہتے ہے کہ سلمہ بن کھیل ثقہ اور ضبط روایت میں اعلی تھا۔
یعقوب بن شیبہ کہتے ہے سلمہ ثقہ اور ضبط روایت میں اعلی تھا حامل تشیع ہونے کے ساتھ ساتھ۔
ذھبی پھر ایک بہت اہم قول شعبہ (جن کو امیر المؤمنین فی الحدیث کا لقب اہلسنت دیتے ہیں) کا قول
نقل کرتے ہے:
اگر میں تم لوگوں کے لئے اپنے ثقہ ساتھیوں کے بارے میں بتاؤں تو وہ گنے چنے کم افراد شیعہ
ہیں۔۔ ،١حکم ،٢سلمہ بن کھیل ،٣حبیب ،٤منصور
یہ تمام اقوال اپ کو سیر اعالم النبالء ،جلد ٥ص ٢٩٩میں دیکھ سکتے ہیں۔
http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-4071
تبصرہ :چنانچہ ثابت ہوا کہ سلمہ بہت بڑے ثقہ راوی تھے اور ثقاہت راوی ہرگز مانع نہیں ہوسکتی
نقل روایت میں ورنہ اگر یہ احتمال دے دیا جائے کتنی روایات ضائع ہوجائیں گی۔۔ اور اس کی
تفصیل اپنے مقام پر آئے گی جب ہم اس امر پر بحث کریں گے کہ کیا بدعتی کی روایت اپنے حق
میں قبول کی جائے گی یا نہیں۔
Khair Talab
اور اگر بالفرض سلمہ بن کھیل کو تشیع سے متصف مان بھی لیا جائے تو وہ ایسی ہی تشیع ہے جو
دیگر صحابہ اور تابعین میں تھی۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ ایک مسئلہ پر
بحث کرتے ہیں تو فرماتے ہے:
پھر ابن تیمیہ مختلف جگاہوں پر موجود علماء اہلسنت کے اقوال کو نقل کرتے ہیں تو دریں اثنا جب
کوفہ پر بات آتی ہے تو ان علماء اہلسنت علماء میں سلمہ بن کھیل کو بھی شامل کرتے ہیں ،مالحظہ
ہو عربی عبارت:
ي، ام ٌر ال ه
ش ْعبِ ُّ ع ِالربِی ُع بْنُ ُخثَیْم َ ع ْلقَ َمةُْ ،اْلَس َْود ُ ْب ُن یَ ِزیدَ ،أَبُو َوائِ ٍلَ ،و َ
س ِعید ُ بْنُ ُجبَی ٍْر ،ه َو ِم ْن أ َ ْھ ِل ْالكُوفَ ِةَ :
سلَ َمةُ بْنُ كھیل (ص )٣١٠ ور بْنُ ْال ُم ْعت َِم ِرَ ،
ص ُ ط ْل َحةُ بْنُ ُم َ
ص ِ ّرفٍ َ ،منْ ُ إب َْرا ِھی ُم النه َخ ِعيْ ،ال َح َك ُم بْنُ عُت َ ْیبَةََ ،
http://shamela.ws/browse.php/book-7289#page-3345
تبصرہ :محترم اب تو مان جائیں کہ شیخ االسالم بھی اس تشیع کے باوجود ان کے قول کو بطور
شعار اہلسنت شمار کررہے ہیں۔ خیر آپ مانیں یا نہ مانیں قارئین مباحثہ ضرور مانیں گے۔
محترم نے رجال طوسی سے سلمہ بن کھیل کا صحابی امام صادق ہونا نقل کیا تو عرض کرتا چلوں
کہ محققین کا نظریہ یہ ہے کہ اس سے راوی کی توثیق پر استدالل کافی نہیں جب صحابی رسول
ہونا دلیل توثیق نہیں تو ما بعد آئمہ ع کا صحابی (مجرد و محض) ہونا دلیل توثیق بھی نہیں ہوتا۔ اور
اگر چلئے ماں لیں کہ راوی ثقہ تھا تو کیا ہوا۔۔ کتنے ہی راویان جیسے عبدالملک بن اعین ،ابان بن
تغلب یا دیگر ہمارے اور آپ کے ہاں مشترکہ ثقہ ہیں۔ بہرحال یہ ایراد مضبوط نہیں۔
پھر محترم فخر الزماں تاریخ ابن کثیر کی روایت کے جواب میں کہتے ہے:
( البدایہ کی روایت کا حال تو آپ سے بھی چھپا ھوا نھیں .اس میں ابو مخنف ھے جو کذاب ،رافضی
ھے.
تو البدایہ کی روایت قابل استدالل نھیں.
، 4آپ نے البدایہ والی کو بطور شاھد کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے.
شاھد تو تب ھوتا جب متن ایک ھوتا دونوں کا ،البدایہ کی تو متن میں بھی فرق ھے تو یہ شاھد
کیسے ھوسکتا ھے؟
البدایہ کی روایت میں لعنت کا ذکر ھے اور اوپر والی میں نھیں)
جواب:
اب ہم نے صحیح السند روایت جو المصنف سے نقل کی اس پر تو موصوف کا کوئی درخوار اعتناء
جواب ہی نہ آیا ،ہاں مگر فورا تاریخ ابن کثیر سے نقل کردہ ابو مخنف کی روایت جو اس روایت کی
مزید توضیح پر تھی برس پڑے کہ ابو مخنف کذاب ہے اور مجروح ہے۔ البدایہ و النھایہ پر محترم
نے دو ایراد کئے ،١ابو مخنف کذاب ،٢روایت کے الفاظ مختلف تو شاہد کیسا؟
Khair Talab
تو محترم اگر ہمارا استدالل فقط اس ہی کی روایت سے ہوتا اور یہ منفرد ہوتا تو آپ کا کہنا جائز تھا۔
(اس پر بھی مناقشہ ہوسکتا ہے لیکن برسبیل تنزل بات چل رہی ہے)۔ البتہ ہم نے یہی کہا تھا کہ اصل
روایت سے استدالل (جس کی مزید توضیح اس جواب میں کردی گئی ہے) المصنف سے تھا اور پھر
تائید میں یہ پیش کی اور خود علماء اہلسنت نے ابو مخنف کی مرویات پر مستقل عنوان سے بھروسہ
کیا ہے (جب کہ ہم نے فقط تائید میں نقل کی)۔ ابن کثیر اپنی تاریخ میں ایک جگہ فرماتے ہے:
شأ ْ ِن
وط ب ِْن یَحْ یَى َ -وھ َُو أ َ َحد ُ أَئِ هم ِة َھذَا ال ه
ع ْن أَبِي ِم ْخنَفٍ لُ ِ فصل ذَ َك َر ابْنُ َج ِر ٍ
یر َ
فصل اس بیان میں جس کو ابن جریر طبری نے ابو مخنف سے نقل کیا جو اماموں میں سے ایک
امام ہے اس باب میں۔
http://islamport.com/d/3/tkh/1/16/228.html
خیر ابو مخنف کی شخصیت کو میں زیادہ کھیردنا نہیں چاہتا ورنہ اس کے اوپر جراح کے باوجود
علماء اہلسنت مثل طبری ،ابن اثیر ،ابن خلدون ،ابن کثیر (جو اساطین و جبل مورخین ہیں) سے لے
کر مفتی شفیع عثمانی اور دیگر دیوبندی اکابر نے بھی اعتماد کیا ہے۔۔ علی کل حال اگر یہ راوی
مجروح بھی ہو تو ہمارے استدالل پر کوئی اثر نہیں آتا۔۔ کوشش کیجئے اگلی بار المصنف کی روایت
پر تفصیلی کالم کیجئے۔
شاہد روایت کے لئے آپ بتائے کہ الفاظ کا مشترک ہونا کب سے معیار ہے؟ محترم کچھ تو علم
مصطلح پڑھئے۔ شاہد ہونا اعم ہے جس میں اشتراک لفظی و اشتراک معنی دونوں پر منطبق ہوتا ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ اس پر مزید کالم کرنا ضروری بھی ہے۔
Khair Talab
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
Khair Talab
(ٍفخر :سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے پاس بسر بن ارطاة اور زید بن عمر بیٹھے تھے ،بسر بن
ارطاة نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے خالف کچھ کھا تو زید بن عمر نے ڈنڈا اٹھا کر بسر کا مارا.
ض َر ْبتَهُ! َوأ َ ْق َب َل َ
علَى بسر فقال :تشم َ
ع ِلیًّا سیه ِد أ َ ْھ ِل ال ه
ش ِام فَ َ ْخ ِم ْن قُ َری ٍْش َ فَقَا َل ُم َعا ِو َیةُ ِلزَ ْیدٍَ :
ع َمدْتَ ِإلَى َ
شی ٍ
َوھ َُو َجدُّہ
طبری ج 5ص 335
معاویہ رض نے زید سے کھا کہ تم نے قریش کے ایک بزرگ اور شامیوں کے سردار کو مارا
ھے؟ ا ور بسر کی طرف متوجہ ھو کر کھا کہ تم علی رضی ہللا عنہ کو برا کھہ رھے ھو جو زید کا
نانا ھے؟
shamela.ws/browse.php/book-9783/page-2797#page-2795
واضح طور پر روک رھے ھیں معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا کھنے پر) .
جواب:
محترم نے تاریخ طبری سے استدالل کیا۔۔ ۔ جب کہ محترم سے میں نے جب پوچھا کہ اہلسنت
روایات سے استدالل کی کیا وجہ ہے تو فورا کہا میں اہلسنت کی کتب سے دیگر چیزیں بھی دیکھانا
چاہتا ہوں اور بہرحال یہ روایات مجھ پر حجت نہیں۔۔ لیکن ذھن میں رہے کہ یہ شوکیز مناظرہ نہیں
ہے کہ کچھ باتیں شوکیز کے لئے جو نہ دوسرے پر حجت ہوں اور فقط ایک دوسری سائیڈ دیکھانا
مقصود ہے۔۔ محترم خود جانتے ہیں کہ ان کی بات کتنی بے وزن ہے اور نہیں جانتے تو جان لیں۔۔
یہ شوکیز چیزیں اگر میں طبری سے دیکھانے لگ گیا تو ان کا جو حال ہوگا وہ ہللا جانے۔۔ فورا
دفاتر رجال اور کتب اسماء الرجال کی ورق گردانی ہونے لگی ہے لیکن شاید جب یہ استدالل پیش
کریں تو یہ اپنے لئے ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ خیر ان کی مستدل روایت کا حال ان کے
اصول کے مطابق ہی بہت برا ہے۔
ادھر اس روایت کو عالمہ بزرنجی جنہوں نے تاریخ طبری کی صحیح اور ضعیف روایت کو الگ
کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اس روایت کو معضل کہا ہے (یعنی وہ روایت جس میں کم سے کم دو
راویان کا انقطاع ہو ایک ساتھ)۔ (مالحظہ ہو تاریخ طبری جلد ٩ص ١٥٣طبع دار ابن کثیر)۔ اور
اس کی وجہ بھی واضح لگتی ہے کہ جویریہ بن اسماء کی وفات ١٧٣ہجری میں ہوئی جیسے ذھبی
س ْب ِعیْنَ َومائَةٍ( )،مالحظہ ہو سیر اعالم النبالء جلد ٧ص )٣١٨اور اس سنَ ِة ثَالَ ٍ
ث َو َ نے کہا( :ت ُ ُوفِّ َ
ي فِي َ
کا واقعہ کا پانا محتاج دلیل ہے۔ باقی آپ سلسلہ سند کے دیگر راویان کی توثیق بھی ثابت کیجئے اور
قابل استدالل بن جائے۔
Khair Talab
اب متن کی طرف آتے ہیں اس میں بسر کے متعلق لکھا ہے
يٍ
ع ِل ّ أ َ هن بُس َْر بْنَ أَبِي أ َ ْر َ
طاة َ نَا َل ِم ْن َ
اب ایک مالحظہ میری طرف سے کہ بسر آپ کے ہاں صحابی ہے جیسا کہ ذھبی لکھتے ہے:
اْلمیر أبو عبد الرحمن القرشي العامري الصحابي نزیل دمشق .
http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-3017
اور آپ کے ہاں تصور صحابیت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت رحمدل تھے اور جانیں
لٹانے والے تھے تو کیا ایک صحابی دوسرے صحابی کی تنقیص کرسکتا ہے؟ اگر آپ جواب اثبات
میں دیں تو آپس میں رح مدل نہ رہے اور اگر جواب نفی میں دیں تو استدالل روایت کا کیا ہوا؟ خیر
امیر المؤمنین ع کے خالف جو بھی بد دل یا بد زبان ہو اور وہ دائرہ صحابیت میں داخل ہو تو مع
االسف وہ اہلسنت کے سر کا تاج ہی ہوتا ہے چنانچہ حب علی ع کا دعوی کتنا کمزور ہے وہ کسی
سے ڈھکا چھپا نہیں۔ خیر بتائے گا اس بارے میں بھی۔
Khair Talab
ناظرین ہم ماضی میں کافی حوالے پیش کرچکے ہیں کہ دشمن بھی تعریف کو قبول کرتا ہے تو وہ
اس کے ایمان پر داللت نہیں۔
الف ،فخر الزماں کے مسلک کے ہللا وسایا دیوبندی کا غیر مقلد ال مذھب کی تعریف کرنا :قدرت نے
آپ (یعنی امرتسری از ناقل) کو فتنہ قادیانیت کے استیصال کے لئے ہی پیدا کیا تھا
ب ،مال علی قاری :تعریف وہ جو دشمن کرے اور اس ذیل میں مشرکین کی رسول ہللا ص کی
تعریف نقل کی گئی تھی۔
اس کے بعد سکوت یعنی خاموش رہنے کے بارے میں مزید حوالہ دیا:
فصول البدائع :شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت
کبھی مختلف دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے ،کبھی کسی
انسان کے وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے ،کبھی اس انسان کے رعب کی وجہ سے ،کبھی
فتہ کے خوف کی وجہ سے ہے یا ان کے عالوہ یا جیسے کہ ہر مجتہد اس میں صحیح ہے اس وجہ
سے ،کبھی دوسرا آدمی عمر میں بڑا ہوتا ہے ،یا عزت میں زیادہ ہوتا ہے
البتہ ان تمام کے جوابات میں محترم فخر الزماں نے نئی بات چھیڑ دی اور کہا
(فخر ، 1 :آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی صحابی کو اس طرح ماننا ھوتا ھے جس
طرح قرآن و احادیث میں بتایا گیا ہے ؟
ضرور بتانا آپ.
.، 2رھا موالنا ہللا وسایا کا حوالہ تو یہ بات واضح ھے کہ اگر کسی میں کوئی بات قابل تعریف
ھوگی تو اس کا اقرار کیا جائے گا.
لیکن کسی صحابی کے بارے میں اس کے قرآن و احادیث سے ثابت شدہ فضائل ماننے واال اس سے
محبت کی دلیل ھوتی ھے کہ نھیں ؟
یہ سوال آپ کے جواب کا منتظر ہے.
،3آپ اپنے جن دالئل کو الجواب کھا ھے دشم ن کی تعریف والی کو ،یہ آپ تب بات کرنا جب آپ
کی گالیاں،دشمنی وغیرہ والی بات ثابت ھو.
دشمن تعریف کرسکتا ھے اس سے انکار نھیں لیکن وہ یھاں فٹ نھیں ھوتے کیونکہ آپ اب تک اپنا
مدعی ثابت نھیں کرسکے)
جواب :ادھر دو مفردات قابل غور ہیں۔۔ صحابی اور احادیث سے مراد کیا۔۔ کیونکہ آپ کے ہاں
صحابی کی تعریف میں کثیر اختالف ہے۔۔ اور اگر ابن حجر کی مشہور تعریف کو لیا جائے تو پھر
مصادیق میں فرق آتا ہے کہ کون کون اس پر فٹ بیٹھتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول ہللا ص کی
احادیث۔۔ احادیث میں شیعہ اور سنی کی متفقہ روایات کو ہٹایا جائے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ جو
دوسرے کے طریق سے منقول نہ ہوں ان کا کیا جائے۔ اس بارے میں احادیث کا لفظ ایک اعم ہوجاتا
ہے۔ آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ پوری تفصیل سے واضح کریں کہ احادیث سے مراد کیا۔۔ اگر
احادیث سے مراد مروی احادیث ہیں جو آپ کے تراث میں ہیں تو وہ کلی طور پر ہم پر حجت نہیں
اور اگر ہماری کتب میں منقول احادیث مراد ہیں (جس میں ہم آئمہ علیھم السالم کے اقوال کو بھی
مانتے ہیں) تو اس سے آپ احتجاج کرسکتے ہیں ان اصولوں پر جن کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ باقی
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو اس میں شک نہیں کہ قرآن کی ہر بات حجت ہے۔ بحث ثبوت میں نہیں
بلکہ اثبات مطلوب پر ہے۔ آپ سے گذارش کروں گا کہ آپ صحابہ کے موضوع اگر چاہیں تو پھر
ہمیں دعوت مناظرہ دے دیجئے گا اور آجائے الئیو بات کرتے ہیں اس موضوع پر۔ ہم انشاء ہللا آپ
کے چیلنج کو ضرور قبول کریں گے لیکن ادھر میں اس کو النے کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔۔ ہاں
یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ آپ ایک گروہ صحابہ کی تعریف قرآن و قابل احتجاج احادیث سے ثابت
کریں اور پھر معاویہ کو اس گروہ کا فرد ہونے کا اثبات کیجئے تو اگر آپ نے ناقابل رد دالئل دئے
تو اس شرط پر ہمیں فضیلت معاویہ کے اقرار میں کالم نہیں رہے گا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ آپ
ایسا ہرگز نہیں کرسکیں گے۔
Khair Talab
محترم چلیں شکر آپ نے مانا کہ جس میں جو فضیلت ہوتی ہے اس کا اقرار کیا جانا ایک طبیعی امر
ہے۔ یہی بات میں کہتا ہوں کہ ہللا وسایا کی جگہ بطور مثال معاویہ کو رکھیں اور امرتسری کی جگہ
بطور مثال امیر المؤمنین ع کو۔ جو جواب آپ نے دیا وہی میرا ہے۔ باقی معاویہ کا امیر المؤمنین ع
کے فضائل جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اس کو تسلیم کرنا اگر مان بھی لیا جائے تو کیا مانع ہے۔
اس سے ہمارے مولی کی فضیلت ظاہر ہوگی معاویہ کا جو دشمنی واال کردار رہا ہے وہ تو پھر بھی
جوں کا توں رہے گا۔ اگر ابھی کوئی صحابی جس کی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہو آپ اس کا
قصیدہ پڑھتے رہیں اور پھر اس کے خالف ہی خروج کردیں۔ تو اس کو منافقت کہا جائے گا۔ اس پر
سب کا حکم دیں اور ا س کے موالیان کو قتل کروائیں (ان تمام کی تفصیل اپنے مقام پر دیکھیں)۔ یہ
میں بار بار کہہ رہا ہوں تسلیم فضیلت اس تسلیم کرنے والے کی فضیلت مطقا نہیں بن سکتی جب
تک دیگر اعمال اس کی موافقت میں نہ ہوں۔
میں نے مزید ایک جگہ کہا کہ بریلوی علماء دیوبندی علماء سے سخت اختالف رکھتے ہیں لیکن اس
کے باوجود دیوبندی اکابرین ان کے قلم سے ان کی تعریف دیکھاتے ہیں تو کیا ان کو بھی پھر
دیوبندی مسلک کا کہا جائے گا کیونکہ وہ دوسرے مسلک رکھنے کے باوجود تعریف کرتے ہیں تو
محترم نے کہا:
(فخر ، 1 :جناب جواب لکھنے سے پہلے بات کو سمجھنا ھوتا ھے ،میں کیا لکھ رھا ھوں اور آپ کیا
جواب دے رھے ھیں،
میں نے لکھا کہ سنجیدہ علماء کافر نھیں کھتے اور آپ نے لکھ دیا کہ "دشمن ھو کر تعریف" ...
جناب دشمنی کس بال کا نام ہے زرا واضح تو کریں؟
، 2اور میں کھاں لکھا ہے کہ دشمن تعریف نہیں کرسکتا؟ یہاں تو میں دشمنی جو آپ ثابت کرنا چاہ
رہے ہیں وہ میں مان ھی نھیں رھا) .
جواب :دشمن سے میری مراد عقائد اور اعمال میں مخالفت ہے یعنی آپ لوگوں کا بریلوی حضرات
کے بعض عقائد کو شرک سے تعبیر کرنا اور ان کا آپ کے بعض نظریات کو کفر سے تعبیر کرنا
ڈھکا چھپا نہیں۔ اس کے باوجود آپ لوگ اپنی کتب میں بریلوی اکابر جنہوں نے آپ کے عقائد پر
جرح بھی کی اور بعض نے تکفیر بھی کی تو اس کے باوجود آپ لوگ ان سے تعریفات نقل کرتے
ہیں تو محترم جب دشمن ہوکر اور تکفیر کے باوجود تعریف کرنے سے باہم شیر و شکر ثابت نہیں
ہوتے تو یہی قاعدہ معاویہ کے ساتھ بھی منطبق کیجئے۔ باقی امیر المؤمنین ع سے جنگ کرنا اگر
محبت کی عالمت ہے تو اس کی وضاحت کردیں ،جنگ کرنا خود دشمنی کی عالمت ہے۔ اس اصل
سے استثنی آپ کے ذمہ داری ہے میری نہیں۔
Khair Talab
محترم فخر الزماں نے اپنی تائیں ایک اخص صورت کو پیش کیا:
(فخر :میں نے سیدنا معاویہ رض کی ایک مخصوص حالت بتائی تھی کہ وہ حکمران تھے ان کے
پاس طاقت تھی وغیرہ،تو یہ ایک مخصوص صورت تھی کوئی کلیہ نھیں تھا اور اس مخصوص
صورت کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں فرمایا) .
(فخر :یہ اخص صورت ھی میری بات کی واضح دلیل ہے جس کا توڑ آپ کے پاس نھیں).
(فخر :یں اعم نھیں اخص صورت کی ھی بات کررھا ھوں ،وہ اس طرح کہ ایک شخص جو
حکمران ھو طاقت اس کے پاس ھو ،وہ کسی دوسرے سے (بقول شیعہ) سخت دشمنی بھی رکھتا ہو،
اس سے جنگ بھی کی ھو ،اس کو ممبروں پر خطبوں میں خود بھی گالیاں دیتا ھو اور دوسروں
سے بھی دلواتا ھو .وہ اپنے ایسے دشمن کی تعریفیں سن کر پہر بھی خاموش رھتا ھے تو یہ بالکل
اس بات کی دلیل ھے کہ وہ اس کے فضائل مانتا ھے)
جواب :معاویہ کا حمکران ہوکر امیر ع کی تعریف کرنا معاویہ کے لئے دلیل فضیلت ہرگز نہیں بن
سکتا۔ اگر یہی معیار ہے تو جن علماء نے ابن تیمیہ کی تعریف کی ابن تیمیہ کا دشمن ہوکر ان کے
بارے میں بھی بتائیں جب کہ وہ علماء آسودگی میں تھے اور ابن تیمیہ جیل کی صعوبات میں۔ اس
چیز کا اثبات تو کیجئے کہ حکمران ہوکر تعریف کرنا دلیل فضیلت حکمران ہے۔
چلئے آپ نے اخص صورت جو بیان کی وہ خود دلیل کی محتاج ہے یعنی مجھے یہ بات منظور ہی
نہیں کہ کسی حکمران کے سامنے تعریف کی جائے اور وہ خاموش رہے وہ دلیل قبولیت فضیلت ہے
اور وہ اس کے بعد ان کے درمیان اچھے تعلقات کی دلیل ہوگی۔ یہ چیز خود محتاج دلیل ہے محض
ادعی تو قابل قبول ہی نہیں۔
چلیں اگر مان بھی لیا جائے اس صورت کو تو سوال یہ ہوتا ہے کہ خود مروان سے منقول ہے کہ وہ
امیر المؤمنین ع کو عثمان کے دفاع میں سب سے زیادہ پیش پیش سمجھتا تھا لیکن پھر بھی سیاست
باطلہ کی خاطر منبروں پر سب کرتا تھا۔
ع ْن صاحبنا منع ْن أ َ ِبی ِه قَالَ :قَا َل مروانَ :ما كان في القوم أدفع َ ي ِ بْن ْال ُح َ
سی ِْنَ ، ع ِل ّ
وروي عُ َمر بْن َ
ع ْن عثمان ،قَالَ :فَقُ ْلتُ َ :ما بالُكُم تسُبُّونه على المنابر! قَالََ :ال یستقیم اْلمر ّإال بذلك صاحبكم -یعني علیًّا َ -
مروان نے کہا کہ پورے گروہ میں ہمارے ساتھی کا سب سے زیادہ دفاع تمہارے ساتھ نے کیا یعنی
امیر المومنین ع نے عثمان کا دفاع کیا۔ جس پر علی بن حسین ع نے پوچھا کہ پھر تم لوگ امیر
المؤمنین ع پر منبروں پر لعنت کیوں کرتے ہو تو مروان نے جواب دیا کہ ہمارا معاملہ (سیاست) اس
سب امیر ع کے عالوہ نہیں چلتی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-35100#page-1121
اور سیر اعالم النبالء جلد ٢ص ٤٨٧میں بھی ذھبی نے سند کو قوی کہا ہے۔
لہذا ثابت ہوا کہ آپ کی اخص صورت دو وجہ سے منقوض ہے پہلی اس پر بذات خؤد کوئی دلیل
نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر حکمران طبقہ سے ہونا اور کسی کی تعریف کرنا یا تعریف پر
خاموش ہونا ہمیشہ اچھے تعلقات کی دلیل ہو تو پھر مروان کا اعتراف ایک جگہ اور دوسری طرف
منبروں پر سب کرنا کیا بتاتا ہے؟ محترم ناظرین ہم نے تمام دروازے بند کردئے ہیں اور خود محترم
کہتے ہے:
چنانچہ انہوں نے مانا کہ دشمن تعریف کرسکتا ہے۔ لیکن پھر ایک اخص صورت پر اٹک گئے جس
کا مزید آپریشن کردیا گیا ہے۔
Khair Talab
،٥تاریخ ابن کثیر سے معاویہ اور سعد کی اچھی معاشرت کی دلیل کا جواب
(حضرت سعد رض کا جس حوالے کا آپ اشارہ کررہے ہیں اس کا حشر تو پچھلے کمنٹس میں دیکھ
چکے ہیں ،اور آگے بھی دیکھ لیجیے گا ،یھاں آپ کی اس بات کا رد خود سعد رض سے ھی دیکھ
لیں.
shamela.ws/browse.php/book-8376/page-2933#page-2930
یعنی سعد رض معاویہ رض کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور رمضان کا مہینہ ان کے پاس قیام کیا،
نماز قصر کرتے اور روزہ چھوڑتے تھے ،ان کی بیعت بھی کی اور سعد رض نے جو ان سے
مانگا معاویہ رض نے ان کو دیا.
جواب:
محترم نے تاریخ ابن کثیر سے جو روایت نقل کی تو اگرچہ ہم جواب دینے کے ذمہ دار نہیں لیکن
میں تبصرہ ضرور پیش کروں گا۔۔
روایت کے دو حصہ ہے پہال جس میں قیام کی بات ہے اور دوسری جس میں ہر خواہش کی پورے
کرنے کی بات ہے:
ش ْیئًا ِإ هال أ َ ْع َ
طاہُ إِیهاہُ سأَلَهُ َ
س ْعد ٌ َ دوسراَ :وقَا َل َ
غی ُْرہُ :فَبَایَعَهُ َو َما َ
چنانچہ فخر الزماں صاحب کا بہت زیادہ اصرار دوسرے جملہ پر تھا ،آئے ہم ان دونوں حصوں کی
قلعی کھولتے ہیں۔۔
خ وشی اس بات کی ہے کہ محترم فخر الزماں نے ابن کثیر نے جو ڈائریکٹ عبدالرزاق سے نقل کیا
بغیر سند کے (عین ممکن ہے اصل کتاب سے کیا ہو) کو قابل احتجاج سمجھا۔۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے،
اس پر تبصرہ پھر کبھی کروں گا۔
اس میں دو اشکاالت ہیں اہلسنت کے بعض علماء کے مبانی کے تحت (ہمارا اس سے اتفاق کرنا یا نہ
کرنا فی الحال ضروری نہیں)۔
پہال ،زکریا بن عمرو خود محتاج توثیق ہے۔ اور اس کی تشخیص میں اختالف ہے۔ کہتے ہے کہ اس
کو ابن حبان نے اپنی ثقات میں شمار کیا ہے۔۔ اور بعض مبانی کے تحت یہ بات کافی نہیں دلیل توثیق
کے لئے۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ اس ہی راوی کو ابو حاتم نے مجہول لکھا ہے۔ مالحظہ ہو عبارت:
- 2697زكریاء ( )3روى عن عطاء روى عنه منصور سمعت أبى یقول :ھو مجھول
http://shamela.ws/browse.php/book-2170#page-1554
Khair Talab
اس ہی ضمن میں جو ایک اور اعتراض پیش خدمت ہے وہ یہ ہے کہ ادھر ایک واسطہ بھی ساقط
ہے کیونکہ زکریا جو بتایا جارہا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ عطاء سے روایت کرتا ہے
چنانچہ ایک ف اصلہ زمانی بھی اس روایت میں حائل ہے۔۔ خیر میں جانتا ہوں کہ عین ممکن ہے کہ
آپ کا منھج مختلف ہو اور بعض علماء کے مبانی کے تحت ان سب کے جوابات بھی دئے جاسکتے
ہیں چنانچہ اگر آپ کو ان کا مبنی اختیار کریں گے تو انشاء ہللا اس کا جواب اس ہی وقت دیا جائے
گا۔ لیکن ا بھی جلدی میں تمام جوابات کو سواالت سے پہلے دینا فی الحال مناسب نہیں۔
دوسرا اشکال اس پر یہ ہے کہ عموما حنفی فقہ کے بعض مدافعین ابن جریج پر شیعہ اور کافی
سارے متعہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور ایک طرح سے گلوخالصی کی کوشش کرتے ہے۔۔ ہمیں
حیرانی ہوتی ہے کہ ایک روایت کو مطروح اس وجہ سے قرار دیتے ہے کہ اس میں ابن جریج ہے
اور دوسرے کو قابل احتجاج سمجھتے ہیں۔۔ عین ممکن ہو یہ ایسی رجال گتھی ہو جو مجھ سے
سلجھ نہ رہی ہو اور ہوتا ہے کہ ایک راوی فالں چیز میں قابل احتجاج ہو اور فالں میں نہیں تو
مبنی کا تعین کیجئے تاکہ اس پر مزید بات کی جاسکے (یاد رہےٰ محترم سے گذارش ہے کہ وہ اپنے
مبنی یہ نہیں لیکن خصم کو الزام کے طور پر اس کو نقل کئے جارہا ہے)۔ٰ کہ ہمارا
ش ْیئًا ِإ هال أ َ ْع َ
طاہُ ِإیهاہُ سأَلَهُ َ
س ْعد ٌ َ اب دوسری روایت کی طرف آتے ہےَ :وقَا َل َ
غی ُْرہُ :فَبَا َی َعهُ َو َما َ
جو اب :یہ روایت تو بالکل مبھم ہے غیرہ میں قائل ہون ہے اس کا تعارف کیا ،عدالت کیا ثابت ہے کیا
ضبط اس قابل ہے۔۔ ان تمام باتوں کا تعین ضروری ہے۔ براہ کرم اس کو کسی معتبر ذرائع سے نقل
کیجئے۔
ًِ محترم چونکہ ضعیف اور ناقابل اعتماد روایات سے استدالل کررہے ہیں تو ہم اس ہی منطق کے
تحت اور اس ہی منھج کے تحت ان کی خدمت میں بھی کچھ ان قسم کی روایات سے عرض کرتے
ہے۔۔
ابو الفرج اصفہانی جن کو ذھبی اور ابن حجر نے صدوق کہا ہے وہ کہتے ہے:
ودس معاویة إلیه حین أراد أن یعھد إلى یزید بعدہ ،وإلى سعد بن أبي وقّاص س ّما فماتا منه في أیام
متقاربة
معاویہ نے امام حسن ع کو زھر دلوایا جب کہ اس نے ارادہ کیا کہ اپنے بیٹے یزید کو اپنے بعد
حکومت دے اور سعد بن ابی وقاص کو بھی زھر دلوایا چنانچہ دونوں اس زھر کی وجہ سے قریب
قریب کچھ دنوں کے فرق سے انتقال کرگئے
http://shamela.ws/browse.php/book-12404#page-56
وروى شعبة أن سعدا ً والحسن بن على ماتا في یوم واحد قال ویرون ّ
أن معاویة س ّمھما
شعبہ سے روایت کہ سعد اور امام حسن بن علی ایک ہی دن انتقال کئے ،اور شعبہ نے مزید کہا کہ
یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاویہ نے ان دونوں کو زھر دیا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-12318#page-987
تبصرہ :محترم چونکہ جن اخبار و روایات سے استدالل کررہے تھے تو دو میں سے ایک صورت
ہے کہ یہ بے سند روایات سے استدالل کو مناظرہ اور اثبات حقیت مذھب میں جائز سمجھتے ہیں تو
ان کے لئے یہ الزام ی جواب حاضر ہے کہ پھر ان کو بھی مانئے اور اگر مناسب نہیں سمجھتے تو
پھر ذرا ہمت کیجئے اور اپنی روایات کی اسنادی حیثیت کی وضاحت کیجئے۔
Khair Talab
، ٦امیر المؤمنین ع سے جنگ کرنے والے کے بارے میں حکم اور جملہ شبہات کے جوابات
رسول ص نے امیر المؤمنین ،سیدہ زھرا ،امام حسن ع اور امام حسین ع کو مخاطب کرکے کہا
میری جنگ ان سے جن سے تم جنگ کرو اور میری صلح ان سے جن سے تمہاری صلح
اس کے بارے میں محترم نے جواب دیا:
جواب :میاں آپ کے دعوی کو کون سنتا ہے۔۔ کوفی شیعوں پر منطبق ہوتی ہے یا نہیں۔۔ اس پر اول
ہماری بحث نہیں اور مجرد دعوی تو قابل مسموع بھی نہیں۔ جن حضرات نے اہلبیت ع سے جنگ
کی چاہے وہ مزعوم کوفی شیعی (بقول آپ کے) ہی کیوں نہ ہو ہم ان پر بیشمار لعنت کرتے ہیں تو
کیا آپ میں اتنی جرات ہے کہ آپ بھی لعنت کریں تمام محاربین پر؟
معاویہ دفاع نہیں بلکہ اس سے ماقبل نقل کرچکا ہوں کہ معاویہ نے امیر المؤمنین ع سے اپنی
حرکتوں کی وجہ سے جنگ کی ہے اور آپ کا حدیث کی تحریف کرنا بھی مثالی ہے۔ کیونکہ ادھر
مطلق جنگ کرنا مراد ہے یہ نہیں کہ جنگ کو شروع کرنے واال مراد ہے اور دفاع کرنے والے پر
نکیر نہیں۔۔ ادھر مطلق جنگ کی بات ہے۔ اگر آپ کی اس تحریف شدہ معنی کو مانیں تو رسول ص
نے کتنی جگہ ابتدائی جنگ کفار کے مقابلہ پر کی ہے تو ادھر بھی کیا یہ کہا جائے گا کہ کفار تو
دفاع کررہے تھے اور جو نصوص رسول ص سے جنگ کی مذمت میں آئیں ہیں وہ ان پر منطبق
نہیں ہوں گی تو سوچیں کہ کتنی بڑی جرات ہوگی۔ اس روایت پر کالم ابھی تک آپ کی طرف سے
نہ سندا ہوا ہے اور متنا تو جان چھڑانے کے لئے جو کیا اس کا جواب دے دیا گیا ،اگلی بار کافی
شافی کالم ضروری ہے۔
Khair Talab
، ٧معاویہ کا امیر المؤمنین ع سے جنگ کرنا ،رسول ص کی بشارت تصویب ،بغاوت معاویہ پر
کالم۔
(فخر :الحمد ہلل آپ نے یہ تو مانا کہ جنگ معاویہ رض نے نھیں بلکہ سیدنا علی رض نے کی تھی.
یہ بات اپنی جاھل عوام کو بھی سمجھادیں جو صبح شام یہ کھتے ھیں کہ "معاویہ نے جنگ کی".
،2یہ بھی آپ دالئل سے بتا دیتے کہ معاویہ رض کی کس بات پر سیدنا علی رض کو کوفہ سے شام
کی طرف اتنا لشکر لے جاکر اتنے لوگ شھید کروانے کی ضرورت پیش آئی؟
(یہ شیعوں کے انداز میں سوال ھے نہ کہ اھل السنت کے انداز میں ،کیونکہ شیعہ یہ کھتے ھیں کہ
معاویہ نے اتنے مسلمان مروا دیے).
،3با غی پر جب بحث ھوگی تو ھم بتائیں گے کہ باغی کس کے لشکر میں تھے.
فی الحال اپنے دل کا بغض ظاھر کرنے کے بجائے اصل نقطے پر بولیں.
، 4یہاں معاویہ رض کے خالف جنگ کو ثواب لکھ دیا اور آگے سیدنا حسن رض کو اس ثواب سے
محروم کردیا اور اس ثواب یعنی معاویہ رض سے جنگ کو فتنہ لکھ دیا)
جواب :محترم فخر الزماں یہاں آپ نے زبردستی اپنے الفاظ میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے
اور اس کا فائدہ یقینا آپ کو نہیں۔۔۔ جنگ معاویہ کی حرکتوں کی وجہ سے شروع ہوئی تو اس جنگ
کو کرنے واال معاویہ ہی تھا ورنہ امیر المؤمنین ع نے معاویہ کو خطوط لکھے اس کو سمجھانے
کی کوشش کی لیکن معاویہ کی عقل میں کوئی بات نہیں آئی تو اس کے بعد مجبورا امیر المؤمنین ع
نے جنگ کی۔۔ ہم کہتے ہیں کہ اس جنگ کا محرک معاویہ بنا اور اس وجہ سے وہ جنگ واقع ہوئی۔
اب دالئل خود پوچھ رہے ہیں تو چلے میں بتادیتا ہوں۔۔ جنگ جمل ،جنگ صفین اور جنگ نہروان یہ
تینوں رسول ہللا ص کی پیشنگوئیوں میں سے ایک ہے اور اس میں رسول ہللا ص نے امیر المؤمنین
ع کی مستقبل میں ہونے والی جنگوں کی تصویب بھی کی (یعنی اس میں امیر المؤمنین ع کو حق کا
علمبردار کا سرٹیفیکٹ دیا) بلکہ اس جنگ کو رسول ص کا اپنا کفار سے جنگوں کے مشابہ قرار
دیا۔ چنانچہ یہ دلیل کافی ہے۔
ابو سعید خدری نے رسول ص سے سنا کہ وہ کہتے کہ تم میں سے ایک تاویل قرآن پر جنگ کرے
گا جس طرح میں نے تنزیل قرآن پر جنگ کی تو ابوبکر نے کہا کیا میں وہ ہوں اے ہللا کے رسول؟
رسول ص نے ک ہا نہیں ،عمر نے کہا کیا میں وہ ہوں ہللا کے رسول؟ تو رسول ص نے کہا نہیں لیکن
وہ جو چپل کو پیوند لگانے واال ہے وہ کرے گا۔ جب کہ رسول ص نے اپنی نعل مبارک امیر
المؤمنین ع کو پیوند کاری کے لئے دی تھی
http://shamela.ws/browse.php/book-12520/page-1091
اسی طرح البانی نے بھی سلسلة اْلحادیث الصحیحة وشيء من فقھھا وفوائدھا جلد ٥ص ٦٣٩رقم
٢٤٨٧میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے
http://shamela.ws/browse.php/book-9442#page-3499
تبصرہ :یہ روایت کافی ہے اس بات کے ثبوت میں کہ امیر المؤمین حق پر تھے اور ان کے پاس
رسول ص کی نص اور معاویہ کے قبیح عمل دونوں دلیل تھے جنگ کے لئے۔
Khair Talab
رسول ص کی اس حدیث میں تین معجزات ہیں پہال ،کہ عمار بتحقیق قتل کیا جائے گا ،دوسرا ،عمار
مظلوم ہوگا اور تیسرا کہ عمار کا قاتل باغیوں میں سے ایک باغی ہوگا اور یہ تینوں باتیں سچی اور
حق ہیں
پھر اگے ایک عالم کی باطل تاویل کا رد کرتے ہوئے کہتے ہے:
ب ْال ِخ َالفَ ِة ْال ُم ِنیفَ ِة، ع ِت ِه الْ َخ ِلیفَةََ ،و َیتْ ُركَ ْال ُمخَالَفَةَ َو َ
طلَ َ طا َ علَ ْی ِه أ َ ْن َی ْر ِج َع َ
ع ْن َب ْغ ِی ِه ِبإ ِ َ ب َ قُ ْلتُ َ :فإِذَا َكانَ ْال َو ِ
اج ُ
س ِت ّ ًرا ِبدَ ِم عُثْ َمانَ ُم َرا ِعیًا ُم َرائِیًاالظا ِھ ِر ُمت َ َ اط ِن بَا ِغیًاَ ،وفِي ه فَتَبَیهنَ ِب َھذَا أَنههُ َكانَ فِي ْالبَ ِ
میں کہتا ہوں (یعنی مال علی قاری الحنفی) کہ معاویہ کے لئے واجب تھا کہ وہ اپنی بغاوت سے
رجوع کرکے خلیفہ (یعنی امیر ع از ناقل) کی اطاعت کرتا ،اور اپنی مخالفت اور خالفت کے
حصول کو ختم کرتا ،چنانچہ اس سے ظاہر ہوا کہ معاویہ باط میں باغی تھا اور ظاہر میں (اپنے
باطن کو) چھپاتے ہوئے عثمان کے خون کا بدلہ دیکھا رہا تھا ،چنانچہ یہ حدیث (جو عمار کو باغی
گروہ قتل کرے گا)
http://shamela.ws/browse.php/book-8176#page-8188
بدر الدین عینی حنفی اپنی شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہے:
عنهَُ ،و ُمعَا ِویَة ِك َالھُ َما َكانَا مجتھدین ،غَایَة َما فِي ْالبَاب أَن ُمعَا ِویَة ضي ہللا تَعَالَى َ يَ ،ر ِ
عل ّكر َمانِيَ :َوقَا َل ْال ْ
یف یُقَالَ :كانَ ُم َعا ِو َیة مخطئا ً ِفي اجْ ِت َھادہ ،فَ َما َكانَ الده ِلیل ِفي
َكانَ مخطئا ً ِفي اجْ ِت َھادہ َونَحْ وہ .ا ْنتھى .قلتَ :ك َ
اجْ تِ َھادہ؟ َوقد بلغه ال َحدِیث الهذِي قَا َل َویْح ابْن سمیهة تقتله الفئة الباغیةَ ،وابْن سمیهة ھ َُو عمار بن یَاسرَ ،وقد
عن َح ْمزَ ة بن ي َ الز ْھ ِر ّ
احد؟ وروى ُّ س َواء َحتهى یكون لَهُ أجر َو ِ قَتله فِئ َة ُمعَا ِویَة ،أَفال یرضى ُمعَا ِویَة َ
س َواء بِ َ
يء َما وجدت أ َ ِنّي لم أقَاتل َھذِہ الفئة الباغیة َك َما عن أَبِیه قَالََ :ما وجدت فِي نَفسِي من َ
ش ْ ع ْمرو َ
عبد ہللا بن َ
أَمرنِي ہللا
کرمانی کہتے ہے کہ ع لی رض اور معاویہ دونوں مجتہد تھے اور زیادہ سے زیادہ اس موضوع پر
یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ اپنے اجتہاد میں غلطی پر تھے اور ان جیسے۔ (قول ختم ہوا) میں
(عینی الحنفی) کہتا ہوں کہ معاویہ کس طرح اپنے اجتہاد میں خظا کار ہوسکتا ہے جب کہ (سوال یہ
ہونا چاہیے کہ) اس کے اجتہاد کی دلیل کیا ہے؟ اور بال شبہ معاویہ کے پاس یہ حدیث پہنچی تھی کہ
جس می تھا کہ ابن سمیہ پر رحمت ہو کہ اس کو باغی گروہ قتل کرے گا ،اور ابن سمیہ سے مراد
عمار بن یاسر ہے ،اور اس کو معاویہ کے گروپ نے قتل کیا تو کیا معاویہ اس پر کفایت نہیں کرے
کہ وہ بچ جائے چہ جائیکہ ایک اجر کا وہ مستحق ہو؟ اور زھر ی نے حمزہ بن عبدہللا بن عمرو سے
اور اس نے اپنے والد سے روایت کی کہ میرے دل میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کھڑکی کہ
میں اس باغی گروہ سے جنگ کرتا جیسے کہ ہللا کا حکم ہے
http://shamela.ws/browse.php/book-5756#page-7310
Khair Talab
واتفقوا على أن معاویة ومن تابعه كانوا باغین للحدیث المشھور «إن عمارا تقتله الفئة الباغیة»
اور اس بات پر اتفاق ہے کہ معاویہ اور اس کے پیروی کرنے والے باغی تھے اس حدیث کے تحت
کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-23613#page-3291
وأما أھل صفین فبغیھم ظاھر لو لم یكن في ذلك إال قوله صلى ہللا علیه وسلم لعمار" :تقتلك الفئة الباغیة"
لكان ذلك مفیدا للمطلوب ثم لیس معاویة ممن یصلح لمعارضة علي ولكنه أراد طلب الریاسة والدنیا بین
قوم أغتام 1ال یعرفون معروفا وال ینكرون منكرا فخادعھم بأنه طلب بدم عثمان فنفق ذلك علیھم وبذلوا
بین یدیه دمائھم وأموالھم ونصحوا له حتى كان یقول علي ْلھل العراق أنه یود أن یصرف العشرة منھم
بواحد من أھل الشام صرف الدراھم بالدینار ولیس العجب من مثل عوام الشام إنما العجب ممن له بصیرة
ودین كبعض الصحابة المائلین إلیه وبعض فضالء التابعین فلیت شعري أي أمر اشتبه علیھم في ذلك
علَى ْاْل ُ ْخ َرى اْلمر حتى نصروا المبطلین وخذلوا المحقین وقد سمعوا قول ہللا تعالى{ :فَإ ِ ْن بَغ ْ
َت ِإحْ دَاھُ َما َ
َّللا} وسمعوا اْلحادیث المتواترة في تحریم عصیان اْلئمة ما لم فَقَاتِلُوا الهتِي تَب ِْغي َحتهى ت َ ِفي َء إِلَى أ َ ْم ِر ه ِ
یروا كفرا بواحا وسمعوا قول النبي صلى ہللا علیه وسلم لعمار" :أنه تقتله الفئة الباغیة" ولوال عظیم قدر
الصحابة ورفیع فضل خیر القرون لقلت :حب الشرف والمال قد فتن سلف ھذہ اْلئمة كما فتن خلفھا
اللھم 1غفرا ثم اعلم أنه قد جاء القرآن والسنة بتسمیة من قاتل المحقین باغیا كما في اآلیة المتقدمة وحدیث
عمار بن یاسر المتقدم فالباغي مؤمن یخرج عن طاعة اْلمام التي أوجبھا ہللا تعالى على عبادہ
Khair Talab
اور اہل صفین کی بغاوت تو واضح ہے اور اگر اس پر رسول ص کا ایک قول کے عالوہ کوئی اور
نہ بھی ہوتا تو وہ ان کی بغاوت کے اثبات میں کافی ہے اور وہ قول نبی عمار کے لئے :اے عمار
تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔ اور معاویہ کے لئے تو امیر المؤمنین علی ع کی مخالفت کرنا بھی
صحیح نہیں تھا لیکن معاویہ حکومت اور دنیا کو چاہتا تھا اور اس کے پاس ایسے افراد تھے جو نہ
اچھائی کو جانتے تھے اور نہ برائی سے منع کرتے تھے۔ تو معاویہ نے ان حضرات کو دھوکہ دیا
خون عثمان کے بدلہ کے عنوان سے تو معاویہ نے یوں ان کے سامنے منافقت کی اور انہوں نے
اپنے مال اور جانوں اور زبانوں سے معاویہ کی مدد کی یہاں تک کہ امیر المؤمنین علی کہتے تھے
کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان کا ایک سپاہی کے بدلہ اپنے دس دے دوں اور یہ چیز شام کی عوام
سے بعید ہیں بلکہ تعجب تو ان اشخاص پر ہے جن میں بعض صحابہ اور بڑے تابعین ہیں جو معاویہ
کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے اور صاحب دین اور بصیرت تھے۔۔ پاس اہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ
کیا چیز ان حضرات پر مشتبہ تھی کہ انہوں نے باطل کا ساتھ دیا اور اہل حق کو ترک کیا درحاآلنکہ
علَى ْاْل ُ ْخ َرى فَقَاتِلُوا الهتِي تَب ِْغي َحتهى ت َ ِفي َء ِإلَى أ َ ْم ِر ه ِ
َّللا} یہ قول خدا سن چکے تھے {فَإ ِ ْن َبغ ْ
َت ِإحْ دَاھُ َما َ
اور احادیث متواترہ کو بھی سن چکے تھے جو آئمہ (ادھر بمعنی حکمران) جن سے واضح کفر
صادر نہ ہو کی نافرمانی کی حرمت پر داللت کرتیں ہیں۔ اور وہ رسول ص کا یہ قول بھی سن چکے
تھے جو عمار کو کہا کہ بتحقیق عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا اور اگر صحابہ کی عظیم منزلت
اور خیر القرون کی بلند فضیلت نہ ہوتی تو میں یہ کہتا کہ عزت اور مال کی محبت نے اس امت کے
پچھلوں (یعنی سلف امت) کو امتحان میں ڈاال جس طرح ما بعد والو کو بھی اے ہللا بخش دے اور
مزید جان لو کہ قرآن اور سنت میں جن لوگوں نے اہل حق کے ساتھ جنگ کی انہیں باغی قرار دیا
گیا ہے جیسے کہ آیت کریمہ اور حدیث عمار میں دیکھایا جاچکا ہے پاس باغی مومن ہے جو امام
حق کی اطاعت جس کو خدا نے اپنے بندوں پر اطاعت کو واجب قرار دیا خارج ہوجائے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-7444#page-706
والباغون في عھد الصحابة معاویة وأصحابه والمعتدلة علي وأصحابه فبھذا نصرھم أعیان الصحابة
نصروا علیا وصاروا معه كما ھو معلوم
صحابہ کے دور میں باغی معاویہ اور اس کے ساتھی تھے اور معتدل راہ پر چلے والنے علی اور
ان کے ساتھی تھی ،چنانچہ اس وجہ سے بڑے بڑے صحابہ نے علی کی مدد کی اور علی کے ساتھ
تھے جیسے کہ ثابت ہے۔
حوالہ :مجموع فتاوى العالمة عبد العزیز بن باز رحمه ہللا جلد ٦ص ٨٨
http://shamela.ws/browse.php/book-21537#page-2611
تبصرہ :یہ پانچ حوالے امید ہے کافی شافی ہوں گے اس بیان میں کہ حق پر کون تھا ،باطل پر کون
تھا۔ اور ساتھ ساتھ باغی کون تھا۔ چلیں ہمیں چھوڑئے آپ ہی بتادیں باغیوں سے قتل کا حکم کیا ہے؟
باقی امام حسن ع کے متعلق کہنا کہ انہوں نے جنگ نہ کی تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کے
لئے نکلے تھے اور یہ مسلمات تاریخ میں سے ہے لیکن ان کے اپنے ساتھیوں کی دغا اور جہاد کو
نہ کرنے کی وجہ سے امام حسن ع نے صلح کی۔ جب شرط جہاد ہوکر باغیوں سے جہاد نہ کیا
جائے تو بیشک پھر سوال ہوسکتا ہے۔
Khair Talab
ناظرین ہم نے ایک روایت پیش کی تھی جس میں معاویہ کا آنا موجود ہے حج کے موقع پر (ادھر
تسامحا شروع میں غلط ترجمہ ہوا) اس میں یہ الفاظ روایت ہے:
معاویہ سعد کے ہاں مالقات کے لئے آیا ،اور امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر المؤمنین ع کی
تنقیص کی جس کے بعد سعد بن ابی وقاص غضباک ہوگئے (غصہ میں آگئے) اور پھر رسول ص
کی زبانی تین فضائل امیر ع کا ذکر کیا یعنی ،١حدیث من کنت موالہ ،٢حدیث منزلت ،٣حدیث
خیبر (ملخص)
پھر ہم نے بتایا کہ نال منہ کے جو الفاظ روایت میں استعمال ہوئے ہیں اس کا معنی کسی کا ذکر بد یا
برائی کرنا ہے یا تنقیص کرنا ہے۔
محترم نے اس پر فرمایا:
(فخر :پہر آگے آپ کا یہ لکھنا کہ "معاویہ تنقیص کا حکم دیتا تھا اور دوسروں کو کھنے پر یہ الفاظ
مستدل ھیں قدم معاویہ"...
آپ کے اس بات کی بنیاد ھی غلط ترجمے پر ھے ،تصحیح کرلیں اور اپنے غلط استدالل سے ھاتھ
اٹھائیں.
، 3نال منہ کے آپ نے جو معنی بھی لکھی ھیں ان سے مراد گالی تو پہر بھی ثابت نھیں ھوتی ،آپ
نے بھی ترجمہ "تنقیص" ھی کیا ھے ،اور تنقیص سے خاص گالی مراد لینا غلط ھے.
اگر اس پر آپ سعد رض کی ناراضگی کو دلیل بنانے کی کوشش کررھے ھیں تو سوال یہ ھے کہ
کیا صرف گالی دینے پر ھی غصہ آتا ھے؟ نھیں تو پہر آپ کا مزعومہ استدالل باطل ھوا.
شاید معاویہ رض نے یہ کھا ھو کہ علی رض نے قاتلین عثمان جیسے باغیوں کا ساتھ دیا اور غلط
کیا ،اس بات پر سعد رض کو غصہ آیا ھو؟
کیونکہ معاویہ رض کا موقف یھی تھا کہ قاتلین عثمان سے قصاص لیا جائے جو سیدنا علی رض نہ
لے سکے.
تو گالی دینا تو ثابت نھیں ھوتا.
، 4کیا کسی سے اختالف رائے رکھنا بغض کھالتا ھے جو بار بار آپ بغض علی کھہ کر اپنا بغض
معاویہ ظاھر کررھے ھو)
جواب:
آئے سنن ابن ماجہ کی اس روایت کے بارے میں ان کے عالم کا ہی اعتراف دیکھا دیتے ہیں
سبههُ بَ ْل أ َ َم َر َ
س ْعدًا بِالسهبّ ِ َك َما :قِی َل فِي ُم ْس ِل ٍم ي ٍ َو َوقَ َع فِی ِه َو َ
ع ِل ّ قَ ْولُهُ( :فَنَا َل ِم ْنهُ) أ َ ْ
ي نَا َل ُمعَا ِویَةُ ِم ْن َ
َوال ِت ّ ْر ِمذ ّ
ِي ِ
روایت کا جملہ فنال منہ یعنی معاویہ نے علی کی تنقیص کی اور امیر المؤمنین کو برا کہا اور ان پر
سب کیا بلکہ سعد کو بھی اس سب کا حکم دیا جیسے کہ مسلم اور ترمذی میں ہے۔
حوالہ :كفایة الحاجة في شرح سنن ابن ماجه جلد ١ص ٥٨
http://shamela.ws/browse.php/book-9810#page-164
Khair Talab
مزید یہ کہ محترم تنقیص کے معاملہ کو بہت سہل لینا چاہتے ہیں کہ تنقیص گالی نہیں اور سعد کا
غضبناک ہونا گالی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے بھی ہوسکتا ہے تو ہم جواب میں
کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو اپنے بڑے عالم کا فتوی دیکھ لیں جس کو نقل کرکے شیعوں کے
خالف ورغالیا بھی جاتا ہے:
َّللا صلّى ه
َّللا علیه وسلم فاعلم الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول ه
ازي :إذا رأیت ّ
الر ّ
قال أبو زرعة ّ
أنه زندیق
ترجمہ :ابوزرعہ رازی کہتے ہے کہ جب تم دیکھو کہ کوئی کسی بھی رسول ہللا ص کے صحابی
کی تنقیص کررہا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے
http://shamela.ws/browse.php/book-9767#page-16
تو محترم اگر تنقیص کوئی معمولی بات ہوتی تو پھر فتوی زندیقیت کیوں؟ کیا اس فتوی کا اطالق نال
منہ کے الفاظ کے تحت معاویہ پر نہیں ہوگا؟ اور اگر صرف معمولی پالیسی سے اختالف باعث ذم
نہیں ہوسکتی بقول آپ کے تو پھر یہ معمولی بات سعد بن ابی وقاص کو کیوں سمجھ نہ آئی اور وہ
غضباک کیوں ہوگئے؟ یقینا معاویہ نے تنقیص امیر ع اس طرح سے کی ہوگی کہ جو گستاخی کے
ضمرے میں آئی اور جب ہی سعد غضبناک ہوئے ورنہ اختالف آراء تو اصحاب رسول میں کتنی
ساری جگہ ہیں۔۔ خود سعد بن ابی وقاص امیر ع کے ساتھ اختالف رائے کی وجہ سے امیر ع کے
دوش بدوش مخالفین کے خالف لڑے نہیں تو کیا معمولی رائے کے اختالف سے غضباک اس طرح
ہوا جاتا ہے؟
Khair Talab
ناظرین ہم نے معاویہ کا امیر المؤمنین ع کو برا کہنے پر ایک مزید روایت نقل کی جو یوں تھی:
جب معاویہ گارغ ہوگیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کے لے کر دار الندوہ میں داخل ہوا اور سعد بن ابی
وقاص کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور پھر معاویہ نے امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر
المؤمنین ع کی تنقیص کی تو سعد نے طور احتجاج کہا کہ تم مجھے ہاں الئے اور اپنے پلنگ پر
صرف اس وجہ سے بٹھایا کہ تم امیر المومنین ع پر شتم کرو۔۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس وہ تین
فضائل ہوتے جو علی ع کے پاس ہیں وہ مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہوتے جس پر
سورج چمکتا ہے اور پھر ،١حدیث مزنلت ،٢حدیث خیبر ،٣سیدہ فاطمہ ع کا شوہر ہونا کہا ہے۔۔
(آخر میں سعد فرماتے ہے) اے معاویہ میں آج کے بعد تیرے پاس کبھی نہیں آؤں گا اور پھر چلے
گئے (ملخص فقط)
اس کے جواب میں محترم نے ابن اسحاق پر تشیع کی جراح کہہ کر بدعتی والے قاعدے سے نقض
پیش کی ا تھا جس کے جواب میں ،میں نے ثابت کیا تھا کہ ابن اسحاق ان کے ہاں ،١امام المغازی ،٢
امیر المحدثین ، ٣جمہور کے ہاں ثقہ ہے ،اور تشیع جس معنی میں ہے اس سے روایت اگر بدعتی
قاعدہ کو مان بھی لیا جائے تو فرق نہیں آئے گا ،اس پر محترم کہتے ہے:
ان فالتو ابحاث کا میرے اعتراض سے کوئی واسطہ نھیں اس لیے میں ان باتوں میں اپنا وقت ضائع
نھیں کرونگا).
جواب :محترم بالکل مح مد بن اسحاق کی اعلی پائے کی توثیق اور اس کو امام المغازی کہنا یا امیر
المحدثین کہنا اس کے بلند پایہ ہونے کی دلیل ہے۔ اور میرا سوال اس ضمن میں یہ ہے تھا کہ کیا
سنی رجال کے ایک امیر المحدثین اور امام المغازی ایک شیعی رافضی کافر ہوسکتا ہے؟ اس بندے
کے بارے میں کیا حکم ہے جو اس شیعہ ابن اسحاق کو کافر نہ سمجھے کیونکہ کافر کافر شیعہ کافر
اور جو نہ مانے وہ بھی کافر کا نعرہ تو آپ کی جماعت ہی کا ہے۔
پھر محترم نے تقریب التہذیب سے رمی بالتشیع کا ترجمہ کیا وہ شیعہ تھا۔۔ محترم ایک الزام ہوتا ہے
اور ایک قطع و جزم ہوتا ہے چنانچہ ادھر شیعہ نہیں کہا ہے بلکہ الزام تشیع کی بات کی ہے دونوں
میں فرق ہے۔ یہ اعتراض تو خیر رمی بالتشیع اور مجرد شیعی والے ترجمہ پر کیا گیا ہے۔
Khair Talab
اب اگر تشیع ہونا بذات خود دلیل قدح ہونا اور روایت مطعون ہوتی تو پھر نسائی کو بھی تشیع سے
نسبت دی گئی ہے تو کیا اس کی پوری خصائص امیر المؤمنین ع نامی رسالہ ماخوذہ کو بھی دریا
برد کردیا جائے کیونکہ ادھر بھی بدعتی واال قاعدہ استعمال ہوگا جب کہ علماء اہلسنت نے اس رسالہ
کو اجماال قبول کیا ہے اور اس کی احادیث کو استعمال کیا ہے۔
حوالہ :منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ٧ص ٣٧٣
http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-3674
وكان یتشیع
http://shamela.ws/browse.php/book-1000#page-71
خیر آپ کسی معنی میں بھی تشیع کہیں ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ مجرد تشیع
ہونا آپ کے ہاں اگر روایت کے مطروح کا سبب بن جائے تو پورا خصائص علی ع جیسا رسالہ بھی
ہاتھ سے جائے گا اور مجھے معلوم ہے آپ یہ نہیں ہونے دیں گے اگر واقعی احادیث سے محبت
کے دعویدار ہے۔
Khair Talab
(فخر ، 1 :متقدمین کے نزدیک تشیع اور رفض میں فرق ھے اس کا انکار کس نے کیا جو آپ نے یہ
بحث چھیڑ دی؟
لیکن خیر طلب صاحب نے تشیع کی جو تعریف نقل کی ہے وہ ادھوری ہے.
یہ پڑھیں
التشیع في عرف المتقدمین ھو اعتقاد تفضیل علي ٍ على عثمان وأن علیا كان مصبیا في حروبه وأن
مخالفه مخطىء مع تقدیم الشیخین وتفضیلھما وربما اعتقد بعضھم أن علیا أفضل الخلق بعد رسول ہللا
صلى ہللا علیه و سلم
فتح المغیث ج ١ص 330
islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html
تو تشیع صرف سیدنا عثمان رض سے سیدنا علی رض کو افضل سمجھنے کا نھیں بلکہ سیدنا علی
رض کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد ساری مخلوق سے افضل ماننے کا نام بھی ھے.
، 2یہ حقیقت کس سے ڈھکی چھپی ھے کہ شیعہ مذھب میں تقیہ و کتمان ،اپنا مذہب چھپانا دین کا
حصہ اور عبادت ھے؟
یہ بالکل ممکن ھے کہ کسی راوی نے اپنے باقی برے عقائد چھپائے ھوں صرف حب علی و
تفضیلیت ھی کو ظاھر کیا ھو.
تو شیعہ راوی سے یہ بات بعید نھیں،
اس لیے جس روایت میں شیعہ راوی ھوگا اور وہ روایت شیعہ مذھب کی تائید میں ھوگی تو وہ قابل
قبول نہیں ھوگی) .
جواب:محترم ادھر لفظ ربما آیا ہے جو عموما تقلیل پر داللت کرتا ہے اور نہ بھی کرے تو یہ ہمیشہ
کے معنی میں نہیں آتا کہ ہر وہ شخص جس کو نسبت تشیع ہو وہ امیر المؤمنین ع کو افضل الخلق
مانے کیونکہ ادھر ربما کے تحت اس کے دوام کی نفی کی گئی ہے تو اپ کا ظاہر فہم دوام باطل
ہے۔
مزید یہ کہ اس سے اس کی بدعت کی تقویت کہا ہوتی ہے یعنی تنقیص معاویہ تو مختلف ہے اور
امیر المؤمنین ع کو افضل الخلق رسول ص کے بعد سمجھنا الگ ہے۔ یعنی اس میں تالزم ثابت کرنا
آپ کا کام ہے۔
خود علی ع کو رسول ص کے بعد افضل الخلق کہنا خود حضرت جابر االنصاری کا عقیدہ ہے تو کیا
اس تعریف کے تحت ان کو بھی شیعہ کہا جائے گا؟
حدثنا إبراھیم بن نصر العنبري ثنا یوسف بن عیسى ثنا الفضل بن موسى عن شریك عن عثمان بن أبى
زرعة عن سالم بن أبى الجعد قال سئل جابر بن عبد ہللا عن على فقال ذاك خیر البشر من شك فیه فقد
كفر.
جابر سے امیر المؤمنین ع کے متعلق پوچھا گیا تو جابر نے کہا وہ خیر البشر ہے اور جو اس میں
شک کرکےاس نے کفر کیا
http://shamela.ws/browse.php/book-5816#page-4087
اس روایت کی سند حد اقل حسن ہے اور اس کو دیگر طرق سے جابر سے نقل کیا گیا ہے چنانچہ
اپنی تعریف پر دوبارہ نظر ثانی کیجئے گا۔
Khair Talab
، ١٠بدعتی والے قاعدے کا بانی کون اور اس کا آپریشن
محترم فخر الزماں نے جابجا اس قاعدے کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ،آئے اس کا جواب
دیتے ہے ،پہلے ان کا کالم نقل کردیں
(فخر :جناب آپ نے میر ی بات کو سمجھے بغیر ھی جواب لکھ دیا کہ بدعتی داعی و غیر داعی کی
روایت مقبول ھے.
میں نے یہ بات کی ھی نھیں ،میں نے تو یہ لکھا ہے کہ شیعہ راوی کی وہ روایت جو اس کے مذھب
کی تائید میں ھو وہ مقبول نھیں.
میری بات خاص اس روایت کے بارے میں ھے جو اس کے مذھب کی تائید میں ھو اور آپ نے جو
بات نقل کی ہے وہاں اس کے مذھب کی تائید والی روایت پر بات نھیں ھو رھی.
کہاں اس کی عام روایت اور کہاں اس کی مذہب کی تائید والی روایت.
فرق واضح ھے خلط ملط کرنے کی کوشش آپ کی یھاں نھیں چل سکتی.
،2میں نے نخبۃ الفکر کے حوالے سے اصول بتایا تھا کہ بدعتی کی وہ روایت مقبول نھیں جو اس
کے مذھب کی تائید میں ھو،
دوسرا حوالہ بھی دیکھ لیں اسی فتح المغیث سے آپ کے پیش کردہ حوالے کے 2صفحے آگے یہ
بحث ھے کہ
بدعتی روایت بیان کرنے میں اگر سچا ھو تو اس کی روایت لی جائے گی
islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html
اگر اس کی روایت منکر نہ ھو ،اس سے اپنی بدعت کو تقویت نہ دی گئی ھو تو قبول ھے.
تو ثابت ہوا کہ بدعتی کی وہ روایت مقبول ہے جو اس کے مذھب کی تائید میں نہ ھو.
اتنے صاف اور واضح اصول کی موجودگی میں آپ کی باتوں کا کوئی وزن نہیں)
جواب:
اس اشکال پر بہت زیادہ کالم کیا جاسکتا ہے لیکن میں خالصتہ ایک قول پیش کررہا ہوں۔۔ یاد رہے
کہ ہمارے پاس اس باب میں کافی اقوال ہیں جو اس قاعدہ کے ابطال کے لئے کافی ہے لیکن مناسب
معلوم ہوتا ہے کہ ذھبی وقت عالمہ معلمی کا قول پیش کیا جائے ،وہ رقم طراز ہے:
فالحكم به على المبتدع إن قامت الحجة على خالفة بثبوت عدالته وصدقه وأمانته فباطل،وإال وجب أن ال
یحتج بخبرہ البتة ،سواء أوافق بدعته أم خالفھا
مبتدع (بدعتی) کی روایت کا ح کم یہ ہے کہ اگر اس کی عدالت ،صدق اور امانت کے خالف دلیل
قائم ہوجائے تو اس کی روایت باطل ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو واجب ہے کہ اس کی روایت سے دلیل
پکڑی جائے مطلقا ،چاہے وہ روایت اس کے بدعت کے موافق ہو یا مخالف۔
http://shamela.ws/browse.php/book-12767#page-218
Khair Talab
ھذا وأول من نسب إلیه ھذا القول إبراھیم بن یعقوب الجوزجاني وكان ھو نفسه مبتدعا ً منحرفا ً عن أمیر
المؤمنین علي متشددا ً في الطعن على المتشیعین كما یأتي في القاعدة اآلتیة ،ففي (فتح المغیث) ص،142
« بل قال شیخنا إنه قد نص ھذا القید في المسألة الحافظ أبو إسحاق إبراھیم بن یعقوب الجوزجاني شیخ
النسائي فقال في مقدمة كتابه في الجرح والتعدیل :ومنھم زائغ عن الحق ،وصدوق اللھجة ،قد جرى في
الناس حدیثه ،لكنه مخذول في بدعته ،مأمون في روایته ،فھؤالء لیس فیھم حیلة إال أن یؤخذ من حدیثھم
ما یعرف ولیس بمنكر إذا لم تقو به بدعتھم فیتھمونه بذلك» .والجوزجاني فیه نصب
بدعتی کی روایت اس کے حق میں قبول ن ہیں ہوتی ،سب سے پہال شخص جس سے یہ قول منقول ہے
وہ ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی ہے اور یہ شخص خود بدعتی اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب
سے منحرف تھا بالخصوص جن افراد میں تشیع تھا (شیعہ نہیں بلکہ تشیع تھا) ان پر یہ شدید طعن و
جرح کرتا تھا جیسا کہ قاعدہ آنے واال ہے ،چناچنہ فتح المغیث ص ١٤٢میں درج ہے کہ ہمارے شیخ
نے یہ بات لکھی جوزجانی جو استاد نسائی تھے ان کے متعلق ،چنانچہ جوزجانی نے اپنی کتاب
الجرح و التعدیل کے مقدمہ میں لکھا۔۔ اور ان میں سے کچھ حق سے دور ہیں ،البتہ وہ فی نفسہ
راست گو ہیں ،لوگ ان کی حدیثیں لیتے ہیں ،لیکن وہ اپنی بدعت کی وجہ سے نقصان اٹھانے والے
ہیں ،لیکن روایت میں ثقہ ہیں ،چنانچہ حل یہ ہے کہ ان کی وہ روایات لیں جائیں جو معروف ہوں
اور منکر نہ ہوں یعنی وہ جو ان کی بدعت کو تقویت نہ دیتی ہو جس کی وجہ سے ان پر جھوٹ کا
الزام لگے۔۔ اور جوزجانی میں امیر المؤمنین ع سے بغض تھا۔۔ الخ
http://shamela.ws/browse.php/book-12767#page-215
اہم نکتہ :محترم نے دو روایات سے استدالل کیا ہے جو حمیری کی قرب االسناد سے ماخوذ ہے ،یاد
رہے کہ دونوں روایت کی سند میں ہارون بن مسلم بن سعدان ہے جو ثقہ راوی ہے لیکن غیر شیعی
ہے اور اس کا مذھب جبر اور تشبیہ پر مشتمل ہے جیسا کہ نجاشی نے کہا ہے۔ (رجال نجاشی ص
)٣٤٨
http://www.yasoob.com/books/htm1/m020/23/no2320.html
چناچنہ محترم فخر الزماں کے مطابق اصول یہ ہے کہ چونکہ بدعتی اگر اپنی بدعت کی موافق
روایت کرے تو وہ رد کی جائے گی تو کیا یہ اصول میں استعمال کروں ،ذرا بتائے گا۔۔ محترم
فخرالزماں صاحب اگر آپ کے اس قاعدے کو مانیں تو پھر آپ کو بھی حق نہیں کہ وہ آپ وہ روایات
التے ،لیکن انشاء ہللا اس کا جواب اپنے مقام پر دیا جائے گا۔
Khair Talab
روایت :عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ میں سعید بن زید کو سنا کہ جب فالں شکص کوفہ آیا تو ایک
فالں خطبہ کے لئے کھڑا ہوا ،پس سعید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا تم اس ظالم کو دیکھو میں
نو لوگوں کی گواہی دیتا ہوں۔۔ (ادھر فالں جو کوفہ میں آیا اس سے مراد معاویہ ہے اور جو خطبہ
کے لئے کھڑا ہوا وہ مغیرہ ہے)
اس میں واضح طور پر معاویہ کی موجودگی میں امیر المؤمنین ع کی تنقیص تھی اور اس کی مزید
توضیح مسند احمد کی روایت اور ایک عالم اہلسنت کا کالم نقل ہوا۔
محترم اس سے پہلے کہ میں اس اعتراض کا جواب دوں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا مقدمہ
عرض کردیا جائے کہ روایات میں کافی مرتبہ مختلف مواقع اور مواضع کا ذکر ہوتا ہے اور راوی
ایک ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر حدیث منزلت لیجئے جو امیر المؤمنین ع کے حق میں ہے تو اس روایت کو
مختلف مواقع پر نقل کیا گیا ہے۔ محدثین اور مؤلفین نے اس کو مختلف مواقع کی مناسبت سے نقل
کیا ہے
اسی طرح سعید بن زید اور امیر المؤمنین ع کے سب سے روکنے والی بات مختلف مواقعوں پر کہی
گئی ہے۔ میرے مختصر تتبع کے تحت حصرا نہیں لیکن چار مشہور مواقع پر جب سعید بن زید نے
امیر المؤمنین ع پر سب کرنے کے موقع پر اس جنت والی روایت سے استدالل کیا ہے وہ درج ذیل
ہے
، ١جب خود ایک شخص سعید بن زید کے پاس آیا اور کہا کہ میں امیر المؤمنین ع سے بغض رکھتا
ہوں تو اس وقت یہ روایت سنائی گئی (فضائل صحابہ ،از احمد بن حنبل ،جلد ٢ص ٥٧٠رقم
٩٦٣ودیگر)
http://shamela.ws/browse.php/book-13136#page-944
، ٢جب مغیرہ کے سامنے ایک شخص آیا اور اس نے امیر المومنین ع پر سب کیا تو سعید بن زید
نے مغیرہ کی خاموشی اور اس شخص کی جرات پر روایت سنائی (فضائل صحابہ ،از احمد بن حنبل
جلد ١ص ٢٠٤رقم ٢٢٥و دیگر)
http://shamela.ws/browse.php/book-13136#page-218
Khair Talab
، ٣جب مغیرہ بن شعبہ والی کوفہ نے خود امیر المؤمنین ع پر سب کیا (اس میں معاویہ کے ہونے یا
نہ ہونے کا ذکر نہیں) مجرد سب کی بات ہے تو اس وقت اس روایت کو سنایا گیا (مسند ابی یعلی
الموصولی جلد ٢ص ٢٥٩اور محقق نے سند کو حسن کہا ہے) یا کبھی دیگر خطیبوں کو کھڑا
کرکے برا کہتا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-12520#page-977
،٤جب معاویہ کوفہ آیا ت و اس وقت مغیرہ بن شعبہ نے بعض خطباء کو کھڑا کیا جنہوں نے امیر
المؤمنین ع پر لعنت اور برا بھال کہا اور خود بھی اس قبیح فعل کو انجام دیا (اس کی تفصیل آگے
ارہی ہے)
چنانچہ ان چار مواقع پر مختلف روایت کو اضطراب کا نام دینا عجیب ہے کیونکہ مضطرب روایت
فقط اس ہی وقت کہی جاسکتی ہے جب اس میں تطبیق دینا بالکل ممکن نہ ہو اور اگر تطبیق اور جمع
ممکن ہو تو وہ اضطراب نہیں رہتی (الموقظتہ للذھبی ص )٥٣آپ دیکھتے ہیں کہ کیا ادھر جمع
کرنا ممکن ہے یا نہیں اور محترم فخر الزماں کے اعتراضات کے جواب دیتے ہیں۔ اس سے پہلے
اس مضمون کی روایات کو نقل کیا جاتا ہے مع تصحیحات
ابو داود کی جس مشہور روایت سے استدالل کیا گیا ہے۔ جو یوں ہے:
حدثنا محمد بن العالء عن ابن إدریس أخبرنا حصین عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم وسفیان
عن منصور عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم المازني ذكر سفیان رجال فیما بینه وبین عبد ہللا بن
ظالم المازني قال سمعت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قال لما قدم فالن إلى الكوفة أقام فالن خطیبا
فأخذ بیدي سعید بن زید فقال أال ترى إلى ھذا الظالم فأشھد على التسعة۔۔الخ
عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ میں سعید بن زید کو سنا کہ جب فالں شکص کوفہ آیا تو ایک فالں خطبہ
کے لئے کھڑا ہوا ،پس سعید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا تم اس ظالم کو دیکھو میں نو لوگوں
کی گواہی دیتا ہوں۔۔الخ
تو اس روایت کو درج ذیل علماء معتبر کہتے ہیں
، ١البانی اس کو صحیح کہا (اپنی تحقیق سنن ابی داود میں سنن ابی داود ،جلد ٤ص )٢١١
، ٢زبیر علی زئی نے سند کو حسن کہا (اپنی تحقیق سنن ابی داود میں انگریزی ترجمہ والی جلد ٥
ص )١٨٣
، ٣شعیب ارنووط نے روایت کو صحیح قرار دیا (اپنی تحقیق سنن ابی داؤد میں سنن ابی داود جلد ٧
ص )٤٥
، ٤خود ابو داود نے اس روایت کو نقل کرکے سکوت کیا جو احناف کے ہاں اجماال حسن ہونے کی
دلیل ہے۔
یہ روایت معاویہ اور مغیرہ کے نام کے ساتھ ان مصادر میں دیکھی جاسکتی ہے:
چنانچہ ان تصحیات اور ان مصادر کے بعد مزید کسی تحقیق کی گنجائش نہیں رہ جاتی اور خود
مخترم فخر الزماں کی بات بغیر دلیل کی قابل مسموع نہیں۔
Khair Talab
جواب :مح ترم ہماری اصل مستدل سنن ابی داؤد کی روایت تھی چونکہ اس میں ناموں کی تصریح
نہیں تھی تو ہمیں مسند احمد کو استعمال کرنا پڑا اور وہاں پھر بھی ہم نے کہا تھا:
(چنانچہ ثابت ہوا کہ ایک روایت کے تحت معاویہ کی موجودگی میں اور دوسری روایت میں معاویہ
کی گورنر شپ کے بعد مغیرہ نے یہ جرم انجام دیا۔۔)
چنانچہ جب وہاں خود تصریح موجود ہے کہ دو الگ مضمون کے تحت روایت ہے تو اس میں
اختالف کیسا؟ معاویہ جب آیا تھا تو روایات جن کے مصادر نقل کئے گئے اور جن کی تھوڑی
تفصیل بعد میں آئے گی اس میں لعن اور برا کہنے کا ذکر ہے جو استدالل کے لئے کافی ہے۔ اب
اگر معاویہ نے نکیر نہ کی تو ما بعد مغیرہ کا کرنا طبیعی امر ہے۔
دوسرا،
، 2ابو داؤد میں مغیرہ بن شعبہ رض کے خطیب ھونے کا ذکر ھے اور مسند احمد میں کسی
دوسرے خطیب کا ذکر.
یہ دوسرا تضاد
جواب :ایک وقت میں ایک سے زیادہ خطیب ہونا بعید نہیں۔۔ کہا یہ جائے گا کہ خود مغیرہ بھی کھڑا
ہوا اور دوسرے کو بھی کھڑا کر خطابت کروائی۔
ام ْال ُم ِغ َ
یرة ُ بْنُ شُ ْعبَةَ ُخ َ
طبَا َء ع ْنهُ ْال ُكو َفةَ أ َ َق َ
ي ہللاُ َ اخبار المکتہ للفاکھی میں الفاظ ہے : :لَ هما َقد َِم ُمعَا ِویَةُ َر ِ
ض َ
ي ہللاُ (یعنی معاویہ جب کوفہ آیا تو مغیرہ نے کچھ خطیبوں کو کھڑا کیا جنہوں نے ض َ یَتَن ََاولُونَ َ
ع ِلیًّا َر ِ
امیر المؤمنین ع کو برا کہا)
ط َبا َء َی ْل َعنُونَ َ
ع ِلیًّا ام ْال ُم ِغ َ
یرة ُ بْنُ شُ ْع َبةَ ُخ َ الضعفاء للعقیلی میں الفاظ یوں ہےَ :قالََ :ل هما َقد َِم ُم َعا ِو َیةُ ْال ُكو َف َة أ َ َق َ
(جب معاویہ کوفہ آیا تو مغیرہ نے خطیبوں کو کھڑا کیا جنہوں نے امیر المؤمنین ع پر لعنت کی)
(الضعفاء للعقیلی ،جلد ٢ص )٣٦٨
اس سے اصل مطلب میں کیا فرق پڑتا ہے ،ایک جگہ ایک خطیب کا بیان اور دوسری جگہ دیگر کا
تو اس میں تعارض کیسا؟ کیا یہ تمام ہی خطیب نہیں ہوسکتے ،ہاں اگر حصر ہو تو بتائے پھر
تعارض ہوتا۔
Khair Talab
تیسرا ، 3 ،ابو داؤد کی روایت میں معاویہ رض مجلس میں موجود ہیں لیکن مسند احمد کی روایت
میں مجلس میں موجود نہیں
یہ تیسرا تضاد
جواب :اس کا جواب پہلے اعتراض کے جواب میں دیکھ لیجئے۔
، 4جھاں معاویہ رض کی موجودگی کا ذکر ھے ابو داؤد میں وھاں سیدنا علی رض پر کسی گالی کا
ذکر نھیں ،اور جھاں خطباء کا سیدنا علی رض کو برا بھال کہنے کا ذکر ھے وھاں سیدنا معاویہ
رض کی موجودگی کا ذکر نھیں.
جواب :یہ ابو داود صاحب ک ی فالن والی کرامت کہہ سکتے ہیں ،دیگر روایات بہت واضح ہیں۔۔ جن
میں سے اخبار المکتہ اور الضعفاء للعقیلی کا حوالہ دے چکا ہوں۔ اور اب فضائل الصحابہ للنسائی کا
حوالہ دیتا ہوں:
جب معاویہ کوفہ ایا تو مغیرہ نے خطیوں کو کھڑا کیا جنہوں نے امیر المؤمنین ع کو برا کہا۔۔
http://shamela.ws/browse.php/book-6601#page-30
چنانچہ واضح ہے کہ معاویہ کی موجودگی ہی میں لعنت اور برائی کی گئی تھی۔
اور اگر اب بھی سمجھ نہیں آیا تو اپنے محدث خلیل احمد سہارنپوری کی ہی سن لیں جو سنن ابی
داود کی مشہور شرح میں کہتے ہے:
(جب فالں آیا) یعنی معاویہ (کوفہ کی طرف تو کھڑا کیا) یعنی کھڑا (کسی فالں بندے کو خطیب)
اور ایک نسخہ میں اقام فالنا یعنی ادھر اقام میں ضمیر معاویہ کی طرف پلٹتی ہے اور اس فالں
خطیب سے مراد مغیرہ بن شعبہ ہے جیسا کہ االحمدیہ (سے چپھنے والے) کے حاشیہ میں مکتوب
ہے۔۔ میں نے بعض اصول کے حاشیہ پر دیکھا کہ فالن سے مراد معاویہ بن ابی سفیان ہے ،کھڑا کیا
فالن کو یعنی مغیرہ بن شعبہ ،اور اس خطبہ میں امیر المؤمنین ع پر سب کی تعریض تھی یا معاویہ
کو امیر المؤمنین ع سے افضل کہا گیا تھا یا ان جیسی باتیں۔۔ الخ
حوالہ :بذل المجھود فی حل ابی داود ،جلد ١٨ص ،١٧٢کتاب السنتہ طبع دار الکتب العلمیہ بیروت
https://ia601405.us.archive.org/.../FPbzlm.../bzlmghod18.pdf
اب آپ اس کو میری علمی خیانت کہئے یا سہارنپوری سازش کہئے مجھے فرق نہیں پڑتا۔
ناظرین خالصتہ عرض کرتا چلوں کہ اس روایت میں کوئی تعارض نہیں ،اس روایت کو کافی علماء
نے معتبر کہا ہے ،اس پر میری معلو مات کے مطابق کسی قابل ذکر محدث نے اضطراب کا حکم
نہیں لگایا۔ اور اس پر جو جملہ اشکاالت تھے ان کا جواب بھی دے دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ خلیل
سہارنپوری کی شرح بھی بتادی ہے۔ اب اگر اب بھی کوئی نہ مانے تو نہ مانو کا عالج نہیں۔
ایک کمنٹ :ادھر ذھن میں رہے کہ مغیرہ بن شعبہ جو اہلسنت کے ہاں قابل عزت صحابی ہے اس کا
بار بار ذکر آیا ہے کہ وہ امیر المؤمنین ع کو برا کہتا سوچنے والی بات ہے کہ جو صحابہ ایک
دوسرے کے لئے رحمدل کہے جاتے ہیں تو کیا وہ واقعی ایک دوسرے پر لعنت بھی کیا کرتے تھے
اس کو سوچنا چاہئے۔
Khair Talab
، ١٢صلح کی ایک شرط کہ معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہ کرے اور اس پر ایرادات کے
جوابات۔
ناظرین ہم نے اس روایت سے بھی استدالل کیا تھا جو تاریخ دمشق البن عساکر میں آئی:
روایت ابن عساکر : :معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہیں کرے گا درحالنکہ امام حسن ع اس کو سن
رہے ہوں
تاریخ ابن اثیر (الکامل) :امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر المؤمنین ع پر شتم نہ کیا جائے تو
معاویہ نے اس شتم علی ع کو روکنے پر حامی نہ بھری
تاریخ ابن وردی :امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر المؤمنین ع پر سب نہ کیا جائے تو
معاویہ نے اس کو روکنے پر حامی نہ بھری
(ٍفخر :جناب تو میں نے کب کھا کہ پورا دستور العمل لکھا جا رھا تھا؟ میں نے بھی خاص بات کی
ہے گالی کے متعلق ،آپ یہ غلطی کافی دفعہ دھرا چکے ہیں کہ جواب سمجھے بغیر ھی لکھ دیا.
، 2آپ کو یہ ثابت کرنا ھے کہ معاویہ رض علی رض کو گالیاں دیتے تھے ،سیدنا حسن رض کی
اس شرط سے بالکل ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رض گالیاں دیتے تھے.
اگر دوسرے لوگ گالیاں دیتے تھے تو اس کو آپ معاویہ رض پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں
مجھے تو روک رھے تھے کہ دستور العمل نھیں بلکہ صلح کا شرائط نامہ طے ھورھا تھا ،لیکن
جناب خود دستور العمل پر آگئے اور لکھ دیا کہ
مجھے یہ بتائیں کہ فقط اس کا ھی تذکرہ کیوں کیا گیا اور باقی دیگر جرائم و گناہوں کی لسٹ کیوں
بیان نھیں کی؟.
،4تاری خ کامل و ابن الوردی کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ھیں
"اال یشتم علیا ،فلم یجبہ.....
وہ سند کے ساتھ نھیں کہ کون ھے یہ بیان کرنے واال؟ اس کے برعکس جو سند کے ساتھ شرائط
منقول ھیں ان میں یہ شرط نھیں.
تاریخ طبری اور البدایہ و النھایہ میں یہ خاص الفاظ نھیں
دیکھ سکتے ہیں آپ
، 5اسی جگہ طبری و البدایہ میں یہ شرط معاویہ رض قبول کررھے ھیں کہ
ال یشتم علیا وھو یسمع
کہ علی رض کو گالی نھیں دے گے
اس شرط کو معاویہ رض نے قبول کیا)
جواب:
محترم جن چیزوں کی گذارش کی جاتی ہے اس میں واضح ہے کہ ان ہی باتوں کی درخواست ہوتی
ہے جو سامنے واال گروہ یا آدمی کررہا ہو جس سے باز رکھنا مراد ہوتا ہے یا وہ کام نہیں کررہا ہو
تو اس صورت میں اس چیز کے کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
Khair Talab
پاکستان اگر بھارت سے مذاکرات کرے اور کہے کہ کشمیریوں پر ظلم مت کرو اور کشمیر سے
اپنی فوج کو نکالو تو یہ اس ہی وقت ممکن ہے کہ جب بھارت کام کررہا ہو۔ لیکن اگر بھارت وہ کام
ہی نہ کررہا ہو اور ایک ایسی بات کو لے آئیں جو اصال وقوع پذیر ہی نہ ہو اور نہ مستقبل میں
مقابل کی حکومت سے امکان ہو تو اس صورت میں مطالبہ عبث ہوجاتا ہے۔ اب دیکھئے امام حسن
ع نے یہ کیوں نہ کہا کہ ابوبکر اور عمر پر سب مت کرنا۔ اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ منع
کرنے سے وہ فعل الزم نہیں آتا تو محترم پھر تو کتنی شرائط ایسی تھی جن کا ذکر کیا جاسکتا تھا۔۔
البتہ امام حسن ع کا خاص اس شرط کا ذکر کرنا بتاتا ہے کہ معاویہ اس فعل کو انجام دیتا تھا۔ مزید
سنئے کہ قرآن کی تمث یل النا باطل ہے کیونکہ قرآن نوع انسانیت کے لئے ہادی ہے اور اس میں بھی
تقریبا جن چیزوں سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے ان میں سے اسباب النزول اٹھا کر دیکھئے تو وہ
کام مسلمان کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہوں گے ،مثال کے طور پر کسی شخص کا رسول ص
کی زوجہ سے ما بعد ر سول ص شادی کی خواہش کرنا۔۔ اب یہ بات رسول ص کے لئے اذیت کا
سبب بنی تو قرآن میں آیت نازل ہوگئی۔۔ ادھر بھی سبب نزول موجود۔۔ سورہ حجرات اٹھائے اور اس
میں سے آیات کو پڑھئے تو رفع صوت (یعنی اونچی آواز میں بات کرنے) کا سبب نزول بھی ہے۔۔
غرض یہ ہے کہ سبب نزول موجود ہیں تو وہاں پر بھی ایک فعل کے بعد اس کی نہی اگر وارد ہوئی
ہے تو وہ سیاق کے تحت ہے ،ادھر اگر قرآن کی مثال بھی لی جئے تو کہا جائے گا کہ معاویہ سے
وہ چونکہ فعل صادر ہوتا تھا اس وجہ سے اس سے منع اور نہی کا مطالبہ ہے۔
وہ سند کے ساتھ نھیں کہ کون ھے یہ بیان کرنے واال؟ اس کے برعکس جو سند کے ساتھ شرائط
منقول ھیں ان میں یہ شرط نھیں.
تبصرہ :محترم فخر الزماں نے جس مبنی کے تحت مجھ پر جواب دیا ہے تو ناظرین حیران ہوں گے
کہ خود اس ہی تاریخ ابن الوردی سے خود بھی استدالل کررہے ہیں ،وہاں یہ اصول کہا گیا۔ بلکہ
محترم فخر الزماں نے جا بجا بے سند روایات سے استدالل کیا ہے تو ادھر یہ قانون ان کو کیوں یاد
نہیں آیا؟ ناظرین دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود اس نکتہ ٢٩میں جو انہوں نے اخبار
الطوال للدینوری کی روایت نقل کی ہے تو میرا مطالبہ ہے کہ اس روایت کی سند دیکھائے؟ جب
خود جو بات جس نکتہ پر کررہے ہیں اور اس کی مخالفت بعینہ اس ہی نکتہ پر کی جارہی ہے تو
کہا اصول اور کہا انصاف۔۔ (خیر دینوری کی کتاب کا جواب ہم ابھی دیں گے)۔
اب میں اصل نکتہ اور جواب کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ کہ اصل روایت بسند معتبر میں دیکھا
جاچ کا ہوں تاریخ دمشق اور دیگر مصادر سے اور یہ کتب سے روایت بطور استشہاد نقل کیا گیا
ہے۔۔ آپ نے اصل روایت کا تو قانع جواب دیا نہیں تو دیگر کی کیا شکایت کریں۔ محققین کا طریقہ
یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک معتبر مبنی کے تحت روایت کو بطور حجت نقل کرتے ہیں اور بطور استشہاد
اس کے دیگر نکات دیگر کتب استشہادیہ سے پیش کرتے ہیں اور اگر وہ نکات اصل کے خالف نہ
ہوں تو انہیں قبول میں کوئی چیز مانع نہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہئے تھی کہ اب اصل روایت پر جرح
کرتے ،اس پر کی نہیں اور اعتراض کیا دیگر کتب پر۔
باقی جہاں تک اعتراض طبری کی روایت سے کیا ہے تو یاد رہے کہ میرا اصل استدالل تاریخ
دمشق کی روایت سے تھا ،اس پر کالم کیجئے اور کیا آپ اس روایت تاریخ طبری کو واقعی مانتے
ہیں کیونکہ اس روایت میں دیگر مطالب بھی ہیں جن کو غور سے پڑھئے گا پھر بتائے گا
Khair Talab
، ١٣اخبار الطوال کی روایت کا حال اور مصنف ابو حنیفہ الدینوری کا حال
shamela.ws/browse.php/book-9760#page-225
یعنی حسنین کریمین نے کوئی تکلیف یا ناپسندیدہ چیز نھیں دیکھی معاویہ رض کی پوری زندگی
میں ،اور جو شرائط دونوں نے طے کیے تھے معاویہ رض نے کسی شرط کو نھیں توڑا ،اور ان
سے بھالئی کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی.
اگر معاویہ رض سیدنا علی رض کو گالیاں دیتے یا دلواتے تھے تو شیعہ مؤرخ ایسا نہ کھتا)
جواب :اس پر ہم پہلے ابوحنیفہ الدینوری کا تعارف دیں گے اور پھر اس روایت کا جواب
الف ،ابو حنیفہ دینوری کا غیر شیعہ ہونا اور اس کا سنی امام ہونا
فخر الزماں صاحب اب ہم ابو حنیفہ الدینوری کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں۔ اس کا شیعہ ہونا
محتاج بیان ہے اور ہماری تحقیق کے مطابق اس کا تشیع ثابت نہیں۔ انشاء ہللا جب آپ اس کے تشیع
پر دالئل دیں گے تو اس وقت ہم کالم کریں گے۔ سردست یہ بتاتا چلوں کہ ابو حنیفہ الدینوری آپ کے
ہاں ثقہ ،صدوق عالم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض نے اس کو حنفی بھی شمار کیا ہے چنانچہ یہ عالم
اہلسنت میں سے ہے نہ کہ تشیع میں سے۔ جب میں کہتا ہوں کہ اس کو ثقہ اور صدوق علماء اہلسنت
نے قرا ر دیا تو ادھر اس مورد میں میری مراد یہ ہے کہ جن علماء کو میں نقل کروں گا انہوں نے
اس پر شیعہ ہونے کا حکم نہیں لگایا۔
الف ،عالمہ شمس الدین ذھبی اپنی شہرت آفاق کتاب سیر اعالم النبالء میں رقم طراز ہے:
ي* - 208أَبُو َحنِی َف َة أَحْ َمد ُ بنُ دَ ُاود ال ِدّ ْین ََو ِر ُّ
ي ،تِ ْل ِمیْذ ابْن ال ه
س ِ ّكیت. العَاله َمة ،ذُو الفنُ ْونَ ،أَبُو حنیفَة ،أَحْ َمد بن دَ ُاود َ ال ِدّ ْین ََو ِر ّ
ي ،النهحْ ِو ّ
الو ْقتَ ،وأَش َیاء. سة َوالھیئ َة َو َ ط ِویْل ال َباع ،أَلهف ِفي النهحْ ِو َواللُّغَة َوالھند َ صد ُوقَ ،ك ِبیْر الدها ِئ َرةَ ، َ
(ملخص) ابوحن فیہ الدینوری بہت بڑا عالمہ ،مختلف علوم و فنون کا ماہر ،بہت زیادہ معلومات کا
حامل ،علم نحو کا شہسوار اور راست گو آدمی تھا۔ اس عالم نے علم نحو ،لغت اور دیگر علوم میں
تالیفات چھوڑی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-8541
Khair Talab
ب ،عالمہ قرشی حنفی اپنی مشہور کتاب الجواھر المضیة في طبقات الحنفیة میں رقم طراز ہے:
صاحب كتاب ْالبَنَات أحد ْالعل َماء ْال َم ْش ُھورین فى اللُّغَة ذكرہ أَبُو - 107أَحْ مد بن دَ ُاود أَبُو حنیفَة الدین ََو ِري َ
ْالقَا ِسم مسلمة بن قَاسم اْلندلسي فى الذیل الذى ذیل بِ ِه على ت َِاریخه ْال َكبِیر فى أَس َماء ْال ُمحدثین َوقَا َل فَ ِقیه
ي ْال ِف ْقه َوله المصنفات كتاب الفصاحة َوكتاب ْاْل َ ْن َوار َوكتاب ْالق ْبلَة َوكتاب الدّور َوكتاب ْال َو َ
صا َیا َحنَ ِف ّ
ص َالح ْالمنطق َماتَ سنة إثنتین َوث َ َمانِینَ َو ِمائَتَی ِْن َرح َمه ہللا ت َ َعالَىَوكتاب ْال َجبْر والمقابلة َوكتاب إ ْ
(ملخص) ابو حنیفہ الدینوری علم لغت کے مشہور علماء میں سے ہیں۔ ابو القاسم اندلسی کے مطابق
یہ فقہ حنفی کے فقیہ تھے۔ ہللا کی رحمت ان پر ہو۔ ان کی مشہور تصنیفات کا بھی ذکر کیا گیا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-6725#page-67
نوٹ :چونکہ عربی کی عبارات کا وہ خالصہ پیش کیا گیا ہے جو ہمارے موضوع سے متعلق ہے
اس لئے دیگر غیر ضروری چیزوں کا ذکر نہیں کیا گیا ،اہل علم حضرات عربی پڑھ کر خود سمجھ
سکتے ہیں اور دیگر حضرات کو توثیق دیکھانا مقصود ہے جو الحمد ہلل ثابت ہوئی۔
تبصرہ :محترم فخر الزماں صاحب۔۔ ہمارے پاس دیگر حوالے جات اس امر کی توثیق پر ہے کہ ابو
حنیفہ الدینوری ایک اہلسنت عالم تھا۔ جب آپ اس پر بحث کریں گے تو پھر ہم ان کو آپ کی نظر
کریں گے۔
اگر بالفرض ابوحنیفہ الدینوری کو بعض نے شیعہ کہا بھی ہو (بالخصوص اگر ان کا تعلق متاخرین
میں سے ہو جن کی استناد خود محتاج دلیل ہوتی ہے) تو اس صورت میں ان کے اس فیصلہ کو
خطاء پر محمول کیا جائے گا کیونکہ دینوری کی کتب اس کے اہلسنت ہونے کے لئے کافی ہے (یہ
دلیل اس وقت کام آتی ہے جب متقدمین سے توثیق اور جرح پر کوئی کلمہ منقول نہ ہو تو قرائن
اخری سے دلیل پکڑی جاتی ہے)۔ اب اگر محترم فخر الزماں کو یا دیگر قارئین کو یہ بات قابل تامل
لگے تو میں مثال دیتا ہوں:
سلیمان بن مہران االعمش اہلسنت علماء میں ایک مقام خاص رکھتے ہیں۔ ذھبی نے ان کا ترجمہ
مختلف کتب رجال و تراجم میں نقل کیا ہے۔ چنانچہ اپنی تاریخ کی کتاب میں عجلی کا قول نقل کرتے
ہے:
ب سُنهةٍ.
اح َ
ص ِولیس ھذا بصحیح عنه بلىَ ،كانَ َ
ترجمہ :یہ بات (کہ اعمش میں تشیع تھی) اس سے صحیح نہیں ،بلکہ اعمش تو سنت کا حامل بندہ تھا
(یعنی پکا اہلسنت تھا)
http://shamela.ws/browse.php/book-12397#page-4616
تبصرہ :محترم جب آپ کوئی بھی حوالہ ابوحنیفہ الدینوری کے تشیع پر دی جئے گا تو یاد رکھئے گا
کہ اس کا استناد ایسے قول سے ہو جو قابل احتجاج ہو اور اس کے معارض ایسا قول نہ ہو جیسے
ذھبی کا تھا اعمش کے متعلق۔
Khair Talab
اب یہ تو بات فقط ابوحنیفہ الدینوری کے متعلق تھی۔ اب میں آتا ہوں اس بات پر کہ ادھر روایت قالوا
کے بعد شروع ہوئی ہے۔۔ ہمارے پیش نظر بریلوی عالم دین و مناظر جناب محمد علی نقشبندی
صاحب کی کتب ہیں جنہوں نے مذھب حقہ کے خالف کافی ساری کتب لکھیں۔ انہوں نے بھی اس
روایت کو شیعوں کے خالف پیش کیا تو قالوا کا ترجمہ لکھا کہ مورخین کہتے ہیں۔۔ (مالحظہ ہو
تحفہ جعفریہ جلد ٥ص ٢٠١طبع الہور)
...https://www.scribd.com/.../Tohfa-e-Jafaria-5-Muhammad-Ali
۔ اب پتا چال کہ اس کو کہنے والے مورخین ہے اور ابوحنیفہ الدینوری نے اپنی کوئی سند پیش نہیں
کی استدالل کے لئے۔ چنانچہ ایسی روایت جو دیگر روایت معتبرہ سے ٹکرائے اور سندی حوالے
سے کمزور ہو (یا ہماری مثال میں مفقود السند ہو) تو وہ قابل احتجاج نہیں ہوسکتی۔ ہر وہ روایت
جس میں ابھام ہو یعنی مورخین نے فرمایا ،فالں نے فرمایا ،اہل علم نے فرمایا۔۔ ہر ایسی روایت کو
الرا ِوي وہ روایت جس کا مبھم کہا جاتا ہے علم حدیث کی روشنی میں۔ (ابن حجر کے بقول :الَ یُ َ
س همى ه
راوی ہی مذکور نہ ہو) تو ایسی روایت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ غیر مقبول ہوگی۔ میں دو
حوالے جات پر اکتفاء کرتا ہوں:
عیْنهُ؛ س همْ ،لن شرط قبول الخبر عدالة رواته ،و َم ْن أ ُ ْب ِھ َم ا ْس ُمه ال ی ُ
ُعرف َ ُ
حدیث ال ُم ْب َھم ،ما لم یُ َ وال یُ ْقبَ ُل
فكیف عدالته
ترجمہ :حدیث مبھم کو قبول نہیں کیا جائے گا ،اور یہ وہ روایت ہے جس میں راوی کا نام مذکور نہ
ہو ،کیونکہ قبول روایت ک ی بنیادی شرط راویان کی عدالت کا معلوم ہونا ،اور جس اسم راوی کو
مبھم کردیا جائے تو اس کی شخصیت ہی غیر معلوم ہوجاتی ہے تو عدالت کا پتا کرنا تو بطریق اولی
غیر ممکن ہوجاتا ہے۔
حوالہ :نزھة النظر في توضیح نخبة الفكر في مصطلح أھل اْلثر جلد ١ص ١٢٥
http://shamela.ws/browse.php/book-12115#page-189
Khair Talab
ب ،مال علی قاری بھی یہی بات فرماتے ہے کہ چونکہ راوی کی عدالت اور ضبط دونوں مفقود
ہوتے ہیں اس وجہ سے اس کی روایت غیر مقبول ہوتی ہے (عربی عبارت پر اکتفاء کروں گا):
http://shamela.ws/browse.php/book-5989#page-395
وانتھى خبر وفاہ الحسن الى معاویه كتب به الیه عامله على المدینة مروان فأرسل الى ابن عباس ،وكان
عندہ بالشام قدم علیه وافدا فدخل علیه ،فعزاہ ،واظھر الشماتة بموته ،فقال له ابن عباس :ال تشمتن بموته،
فو ہللا ال تلبث بعدہ اال قلیال.
جب امام حسن ع کی وفات کی خبر معاویہ کو بھی مل گئی ،انہیں عامل مدینہ مروان نے اس امر
سے مطلع کیا تھا ،چنانچہ معاویہ نے ابن عباس کو بلوایا ،ان دنوں ابن عباس شام میں معاویہ کے
پاس ہوتے تھے ،جب وہ ملے ت و معاویہ نے حسن ع کی وفات پر تعزیت کی اور اظہار مسرت بھی
کیا لہذا ابن عباس نے کہا آپ حسن ع کی موت پر خوش نہ ہوں۔ خدا کی قسم ان کے بعد آپ کا بھی
چل چالؤ ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9760#page-222
Khair Talab
١٤صلح امام حسن ع ،اس کی وجوہات اور معاویہ کی بے ایمانی۔
اس سے پہلے کہ اس پر کالم کیا جائے ،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محترم کے اعتراضات نقل کرکے
جوابات دئیں جائیں۔
(فخر 1 :میرا سوال تھا کہ معاویہ رض اگر ایسے تھے جیسا آپ کا باطل نظریہ ھے تو سیدنا حسن
رض نے ان کو اسالمی حکومت کی سربراہی کیوں دی؟
جواب میں جناب نے کفار سے صلح کی بات کی ،اور آگے چل کر انھوں نے نبی کریم صلی ہللا
علیہ وسلم کی صلح کے واقعے سے اس کی مثال دی جس پر آگے تفصیلی بات ھوگی.
، 2امام کا مقصد امت کی رہنمائی ھوتا ھے نہ کہ ان پر اپنے ھاتھ سے جان بوجھ کر ایسے حکمران
مسلط کرنا کہ دین و دنیا ان کی برباد ھو ،حسن رض نے ایسے شخص کو حکمران بنایا جو (بقول
شیعہ) امت اور اسالم کے لیے گمراہی و بربادی کا سبب بنا.
أما حین انتھى اْلمر إلى معاویة ،وعلم أن موافقته ومسالمته وإبقائه والیا فضال عن اْلمرة ضرر كبیر،
وفتق واسع على االسالم ال یمكن بعد ذلك رتقه لم یجد بدا من حربه ومنابذته
اصل الشیعۃ و اصولھا ص 222،223
/...shiaonlinelibrary.com/.../4065//:الصفحة_...204
جب معاویہ نے اسالمی حکومت و اقتدار کو اپنے زیر نگین کرنا چاھا اور اس ضمن میں اس نے
مختلف تخریبی کارروائیاں شروع کردیں تو علی بن ابی طالب ع معارض ھوئے ،کیونکہ معاویہ
جیسے شخص کی موافقت اور اس کے غلط طرز حکمرانی کو طرح دینا اسالمی مفاد کے لئے زھر
ھالھل تھا اور دین ٰالہی کی حفاظت علی ع کا سب سے بڑا فرض.
مترجم ص 106
کیا اس صورت میں سیدنا حسن رض اپنے منصب امامت پر پورے اترے)
جواب :محترم چلیں میں آپ کو آپ کی نقل کردہ روایت جس کے آپ میرے خالف الئے تھے اس
سے ہی جوا ب دیتا ہوں۔۔ کہ صلح حکم اولی کے تحت نہیں کی گئی تھی بلکہ حکم ثانوی کے تحت
کی گئی تھی یعنی اصل جنگ کرنا ہی تھا لیکن جب خود امام حسن ع کی فوج نے ساتھ نہ دیا اور
معاویہ سے جنگ کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو اس وقت صلح کی نوبت آئی۔
دیکھئے آپ نے جو ٢٩نکتہ پر تاریخ طبری کی روایت پیش کی تھی اس میں یہ الفاظ موجود ہیں:
س ْعد فِي الناس فَقَالَ :یا أیھا الناس ،اختاروا الدخول فِي طاعة إمام ضاللة ،أو القتال مع غیر
فقام قیس بن َ
إمام ،قَالُوا :ال ،بل نختار أن ندخل ِفي طاعة إمام ضاللة.
یعنی قیس بن سعد لوگوں میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے لوگوں یا تو ضاللت کے امام کی اطعت
میں داخل ہوجاؤ یا بغیر امام کے جنگ کرو ،تو لوگوں نے کہا کہ ہم گمراہی کے امام کی اطاعت
میں جانا پسند کرتے ہیں
http://shamela.ws/browse.php/book-9783/page-2621
Khair Talab
اب قیس بن سعد کا ترجمہ دیکھا دوں کہ ذھبی ان کو امیر ،مجاہد ،صحابی اور صحابی زادہ قرار
دیتے ہیں ،دیکھئے ذھبی کا بیان:
ابن عبادة بن دلیم بن حارثة بن أبي حزیمة بن ثعلبة بن طریف بن الخزرج بن ساعدة بن كعب بن
الخزرج ،اْلمیر المجاھد ،أبو عبد ہللا ،سید الخزرج وابن سیدھم أبي ثابت ،اْلنصاري الخزرجي
الساعدي ،صاحب رسول ہللا -صلى ہللا علیه وسلم -وابن صاحبه .
http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-2711
تبصرہ :چلیں یہاں ضمنا محترم فخرالزماں کی نقل کردہ و مستدل روایت سے (یاد رہے محترم کے
ہاں استدالل روایت صحت روایت پر دال ہے) پتا چال کہ ایک صحابی اور معاویہ کو امام ضاللتہ
کہتے تھے اور جو ہماری کام کی بات ہے وہ یہ کہ اصل جنگ کرنا ہی تھی اور اس سے جو
استثنائی عنوان سے فوج کی عدم رضا مندی کی وجہ سے صلح کی گئی ،اس میں امام حسن ع
قصور وار نہیں۔ بلکہ یہ عین حاالت کے مطابق ہی کام کیا گیا تھا۔ جس طرح مسلمان کی جان بچانا
اور کفار کے خالف برسرے پیکار ہونا یہ حکم اولی ہے لیکن جب صلح میں ایک چیز کا ذکر
ہوجائے تو پھر اگرچہ مسلمان ذبوحالی کا بھی شکار ہو ان شرائط کی خالف ورزی نہیں کی
جاسکتی (یہ حکم ثانوی کے تحت ہے)۔ دیکھئے ابو جندل جو زنجریوں میں جکڑے ہوئے تھے جب
آئے تو ان سے مشرکین مکہ نے بہت ہی برا سلوک کیا لیکن بایں ہمہ رسول ص نے ان کو صرف
صبر کی تقلین دی اور اس مسلمان کی جان نہیں بچائی۔ پورا واقعہ مع ترجمہ نہیں کرپاؤں گا لیکن
واقعہ بہت ہی مشہور ہے اور پرائمری کی کتب میں بھی پڑھایا جاتا ہے (جواگرچہ دلیل نہیں لیکن
اشتہار کے لئے کافی ہے) ،اس واقعہ کی تفصیل سیرت ابن ہشام میں یوں آئی:
ف بینا رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم یكتب الكتاب ھو وسھیل بن عمرو ،إذ جاء أبو جندل بن سھیل بن
عمرو یرسف في الحدید قد انفلت إلى رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم وقد كان أصحاب رسول ہللا صلى
ہللا علیه وسلم خرجوا وھم ال یشكون في الفتح لرؤیا رآھا رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم فلما رأوا ما
رأوا من الصلح والرجوع وما تحمل علیه رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم في نفسه دخل على الناس من
ذلك أمر عظیم حتى كادوا یھلكون فلما رأى سھیل أبا جندل قام إلیه فضرب وجھه وأخذ بتلبیبه ثم قال یا
محمد قد لجت القضیة بیني وبینك قبل أن یأتیك ھذا ؛ قال صدقت فجعل ینترہ بتلبیبه ویجرہ لیردہ إلى
قریش ،وجعل أبو جندل یصرخ بأعلى صوته یا معشر المسلمین أأرد إلى المشركین یفتنوني في دیني ؟
فزاد ذلك الناس إلى ما بھم .فقال رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم یا أبا جندل اصبر واحتسب ،فإن ہللا
جاعل لك ولمن معك من المست ضعفین فرجا ومخرجا ،إنا قد عقدنا بیننا وبین القوم صلحا ،وأعطیناھم
على ذلك وأعطونا عھد ہللا وإنا ال نغدر بھم
چنانچہ صلح کے حوالے سے بھی حکم اولی اور حکم ثانوی کا ہی معاملہ آجاتا ہے ،یہ تاریخی
حقیقت ہے کہ امام حسن ع کا ارادہ جنگ کرنا ہی تھا لیکن جب فوج کے ایک حصہ نے دغا دی ،اور
اغلبیت نے جنگ کے لئے آمادگی نہ دیکھائی تو پھر جنگ کرنا فائدہ سے بالکل خالی تھا اور یوں
صلح ہی راستہ تھا۔
اب دیکھئے کہ خود آپ کی فقہ کی معتبر کتاب میں امام حسن ع کے فعل کو تقیہ سے تعبیر کیا گیا
ہے۔ اہلسنت کی مشور فقہ کی کتاب میں یہ عبارت موجود ہے:
اگر کہا جائے کہ امام حسن بن علی ع نے اپنے آپ کو حکومت سے دستبردار کیوں کیا تو ہم جواب
میں کہیں گے کہ شاید ممکن ہے کہ جنگ کو برداشت کرنے میں امام اپنے آپ کو کمزور پاتے ہوں،
یا جانتے ہوں کہ ان کا کوئی مددگار نہیں تو ان اسباب کے تحت امام حسن ع دست برادر ہوئے تقیہ
کرتے ہوئے۔
Khair Talab
تو محترم اب اس عبارت کو دیکھئے اور پھر ہماری گذارشات کو تو ہم یہی کہیں گے جس طرح آپ
نے شیخ آل کاشف الغطاء کی عبارت نقل کی کہ بیشک اصل پیش رفت جنگ کرنے کی ہی تھی لیکن
چونکہ امام ع کے پاس ناصرین و مددگاروں کی تعداد کی قلت تھی اس وجہ سے امام ع دستبردار
ہوئے اور یہ دست برداری معاویہ کی تصویب و توثیق پر نہیں ورنہ میں نے جو ابن عمر کی مثال
دی تھی جس میں معاویہ نے ابن عمر پر تعریض کی تھی اور عمر کی گستاخی تو اس صورت میں
کیا ادھر خاموشی کو اور اپنے حق کے لئے تعارض نہ کرنے کو معاویہ کی حمایت کہیں گے؟
ہرگز نہیں۔
(فخر :جس کو آپ کے دوسرے منصوص امام حکمران و بادشاہ مقرر کریں ،اگر وہ بھی حق پر نہ
ھو تو پہر کیا آج کل کے شیعوں کے بنائے ہوئے حکمران حق پر ھونگے؟
دیکھ لیں قارئین یہ کتنا اپنے اماموں کو مانتے ہیں کہ ان کا بنایا ھوا حکمران بھی ان کے نزدیک
حق پر نھیں.
، 2سیدنا حسن رض کے لیے سیدنا معاویہ رض کا حکمران بنانا کس طرح قدح ھے وہ میں کمنٹ
2/30#میں بتا چکا ھوں.
، 3فتح مکہ کے موقعے پر کن کفار سے صلح ھوئی؟ یہ نئی تحقیق سامنے آئی ھے میرے علم میں.
اور اگر آپ کی مراد صلح حدیبیہ ھے تو پہر یہ مثال بھی غلط ھے آپ کی پچھلی دی گئی مثالوں
کی طرح.
جواب :جن شقوں کا آپ نے ذکر کیا ہے ان میں سے بعض عند النظر ہے جن کی دلیل آپ آئندہ
پوسٹ میں دیجئے گا تاکہ کالم کیا جائے۔۔ مشبہ اور مشبہ بہ کا قانون تو عام طالب علم بھی جانتا ہے
کہ اس میں پورے واقعات اور پوری جزئیات کی تفصیل موجود نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص جہت
سے تشبیہ مراد ہوتی ہے۔۔ اب دیکھئے کہ علماء اہلسنت روایت کو نقل کرتے ہیں اور بعض اس کو
مقر بھی ہے کہ اہلبیت ع کی مثال سفینہ نوح کی طرح ہے۔۔ اب اگر اس کو آپ کی ظاہری منطق کے
تحت دیکھیں تو کہیں گے کہ سفینہ نوح تو پانی پر چال ،اس میں جانور تھے وغیرہ وغیرہ جب کہ
اہلبیت ع الزمی بات ہے کہ ایک کشتی (سفینہ) سے بالکل مختلف ہے حقیقت کے اعتبار سے تو کہا
جائے گا کہ ادھر مثال فقط نجات کے ضمرے میں دی گئی ہے باقی جزئیات میں ایک جیسا ہونا
ضروری نہیں تو محترم ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ صلح امام حسن ع جو ایک منافق کے ساتھ کی اور
مکہ جس میں بیت ہللا موجود تھا اس کی حکمرانی کو کافروں کے ہاتھوں ہی رکھا تو اس ہی طرح
امام حسن ع نے منافق کے ساتھ حاالت خالف ہونے کی وجہ سے بیعت کی اور چونکہ جنگ کرنے
سے فقط عام مسلمان کا خون ہی گرتا اور معاویہ کی شام والی حکومت کا ذرا بھر بھی نقصان ہوتا
تو جب مقصد ہی متحقق نہ ہوتا (اس مقصد پر توجہ رکھئے گا) تو صلح کی اور اس کی مثل سابق
سے دی کہ جب کفار سے صلح ہوسکتی ہے تو بظاہر مسلمان منافق سے کیوں نہیں؟ یہ صلح حدیبیہ
ہی ایسی تھی کہ اس کی شرائط کو دیکھ کر ایک حضرت تو نبوت پر شک کی خطرناک منزل پر
بھی پہنچے تو جب اس زمانہ میں لوگ ختمی مرتبت کی صلح نہ سمجھ سکے تو آج فرزند رسول
ص کی صلح کو کیسے سمجھیں گے
Khair Talab
اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے جس طرح امام حسن ع کا ایک نظریہ پیش کیا تھا معاویہ ،عمرو
بن عاص وغیرھما کے بارے میں۔ اب اس صلح کے بارے بھی تھوڑی تفصیل سے بات کی جائے
اور اس کے بارے میں خود امام حسن ع کیا نظریہ رکھتے تھے اور علماء اہلسنت نے اس کو کس
نظر سے دیکھا آئے ،ہم قارئین کے پیش نظر کرتے ہیں اور محترم فخر الزماں صاحب سے جواب
طلب کرتے ہیں
سى ب ،ثنا ُمو َ ار ِببَ ْغدَادَ ،ثنا أ َحْ َمد ُ بْنُ ُز َھی ِْر ب ِْن َح ْر ٍ ص هف ُ
ع ْم َر َو ْی ِه ال ه ع ْب ِد ه ِ
َّللا ب ِْن َ َّللا ُم َح همد ُ بْنُ َ
ع ْب ِد ه ِأ َ ْخبَ َرنَا أَبُو َ
اْل َما ُم ،ثنا ي ،ثنا ُم َح همد ُ بْنُ إِ ْس َحاقَ ْ ِ س ِن ْالیَ ْع َم ِر ُّ
يَ ،وأ َ ْخبَ َر ِني أَبُو ْال َح َ ض ِل ْال ُحدهانِ ُّبْنُ إِ ْس َما ِعیلَ ،ثنا ْالقَا ِس ُم بْنُ ْالفَ ْ
ي قَالَ :قَ َ
ام الرا ِس ِب ُّ
از ٍن ه ف بْنُ َم ِ ض ِل ،ثنا یُوسُ ُ ي ،ثنا أ َبُو دَ ُاودَ ،ثنا ْالقَا ِس ُم بْنُ ْالفَ ْ ب زَ ْید ُ بْنُ أ َ ْخزَ َم ه
الطائِ ُّ أَبُو َ
طا ِل ٍ
َّللاُ ،فَإ ِ هن َرسُو َل سنُ َ « :ال ت ُ َؤ ِّن ْبنِي َر ِح َمكَ ه س ّ ِودَ َوجْ ِه ْال ُمؤْ ِمنِینَ ،فَقَا َل ْال َح َ ي ٍ فَقَالَ :یَا ُم َ ع ِل ّ
س ِن ب ِْن َ َر ُج ٌل إِلَى ْال َح َ
ط ْینَاكَ ت ِإنها أ َ ْع َ سا َءہُ ذَلِكَ فَنَزَ لَ ْ علَى ِم ْن َب ِر ِہ َر ُج ًال َر ُج ًال ،فَ َ سله َم قَدْ َرأَى َب ِني أ ُ َم هیةَ َی ْخطُبُونَ َ صلهى ہللاُ َ
علَ ْی ِه َو َ َّللا َ هِ
ش ْھ ٍر ف َ ت ِإنها أ َ ْنزَ ْلنَاہُ فِي لَ ْیلَ ِة ْالقَد ِْر َو َما أَد َْراكَ َما لَ ْیلَةُ ْالقَد ِْر لَ ْیلَةُ ْالقَد ِْر َخی ٌْر ِم ْن أ َ ْل ِْال َك ْوث َ َر نَ َھ ٌر فِي ْال َجنه ِة َونَزَ َل ْ
يٍ
ع ِل ّ
س ِن ب ِْن َ ص ِحی ٌحَ ،و َھذَا ْالقَائِ ُل ِل ْل َح َ ص» َھذَا إِ ْسنَاد ٌ َ ت َْم ِلكُ َھا بَنُو أ ُ َمیهةَ فَ َح ْسبُنَا ذَلِكَ ،فَإِذَا ھ َُو َال یَ ِزید ُ َو َال یَ ْنقُ ُ
ب أَبِی ِه "
اح ُ
ص َِھذَا ْالقَ ْو َل ھ َُو سُ ْف َیانُ بْنُ الله ْی ِل َ
یوسف الراسبی راوی کہتا ہے کہ ایک شخص امام حسن ع کے پاس کھڑا ہوا اور کہا کہ اے مومنین
کے چہرے کو کاال کرنے والے۔ تو امام حسن ع نے جواب دیا کہ مجھ سے ناراض مت ہو ،بالشک
و شبہ رسول ص نے خواب دیکھا کہ بنو امیہ رسول ص کے منبر پر ایک ایک کرکے خطبہ دے
رہے ہیں تو رسول ہللا ص اس سے غمگین ہوگئے چنانچہ اس موقع پر انا اعطیناک نازل ہوئی اور
کوثر جنت میں ایک نہر ہے ،اور انا انزلناہ فی لیلتہ القدر وما ادراک ما لیلتہ القدر لیلتہ القدر خیر من
الف شھر بھی نازل ہوئی ،جو بنو امیہ حکومت کرے گی تو ہم نے حساب لگایا کہ (اموی حکومت
کتنی رہی) تو نہ وہ اس ہزار مہینہ سے زیادہ تھی اور نہ ہی کم۔
حاکم پھر فرماتے ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور یہ شخص کہنے واال سفیان بن لیل ہے
جو امام حسن ع کے والد کا صحابی تھا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-2266#page-5094
فشق ذلك علیه، ّ إن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم أري في منامه بني أمیهة یعلون منبرہ حلیفة خلیفة،
نزلنَاہُ فِي لَ ْیلَ ِة ْالقَد ِْر َو َما أَد َْراكَ َما لَ ْیلَةُ ْالقَد ِْر لَ ْیلَةُ ْالقَد ِْر َخی ٌْر ِم ْن
ط ْینَاكَ ْال َك ْوثَ َر) و ( ِإ هنا أ َ ْ
فأنزل ہللاِ ( :إنها أ َ ْع َ
ش ْھ ٍر) یعني ملك بني أمیة؛ قال القاسم :فحسبنا ُم ْلكَ بني أمیة ،فإذا ھو ألف شھر. أ َ ْل ِ
ف َ
(معاویہ سے صلح کے بعد) امام حسن ع نے فرمایا کہ رسول ص نے خواب میں دیکھا کہ بنو امیہ
رسول ص کے منبر پر ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ ہوکر (یعنی ایک ایک) منبر پر اچھل رہے
ہیں جو رسول ص پر بہت زیادہ شاق (غم انگیز) گذرا تو خدا نے سورہ کوثر اور سورہ قدر کی آیات
کو نازل کیا اور ہزار مہینہ سے مراد بنو امیہ (کے دور حکومت) کو قرار دیا ،قاسم راوی کہتا ہے
کہ جب ہم نے حکومت بنو امیہ کو دیکھا تو وہ اتنی ہی وقت پر محیط تھی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-43#page-14425
Khair Talab
عالمہ جالل الدین سیوطی نے اپنی تفسیر میں اس منبر پر چڑھنے والی روایت کو امام حسن ع کے
عالوہ صحابی ابن عباس اور تابعی (غالبا) ابن مسیب سے نقل کیا ہے مالحظہ ہو ان کے الفاظ:
علَ ْی ِه َوسلم بني أُمیهة على منبرہ سول ہللا صلى ہللا َ عبهاس قَالَ :رأى َر ُ عن ابْن َ َطیب فِي ت َِاریخه َ َوأخرج ْالخ ِ
فساءہ ذَ ِلك فَأوحى ہللا ِإلَ ْی ِه ِإنه َما ھ َُو ملك یصیبونه َونزلت { ِإنها أَنزَ ْلنَاہُ فِي لَ ْیلَة ْالقدر َو َما أَد َْراك َما لَ ْیلَة ْالقدر
َل ْی َلة ْالقدر خیر من ألف شھر}
علَ ْی ِه َوسلم :أ َ َرأَیْت بني أُمیهة یصعدون سول ہللا صلى ہللا َ عن ابْن ْالمسیب قَالَ :قَا َل َر ُ َطیب َ َوأخرج ْالخ ِ
ي فَأ ْنزل ہللا { ِإنها أَنزَ ْلنَاہُ فِي لَ ْیلَة ْالقدر}
منبري فشق ذَ ِلك عل ّ
http://shamela.ws/browse.php/book-12884#page-7188
آخر میں ہم سنن ترمذی میں جو یہ روایت آئی ہے جس میں امام حسن ع کا کالم موجود ہے اس
روایت کے تمام راویان ثقہ ہیں اور سند بایں ہے:
http://shamela.ws/browse.php/book-7895#page-6031
اور اس روایت کے تمام راویان ثقہ ہیں۔۔ عموما یوسف بن سعد پر ترمذی کا مجہول ہونے کا
اعتراض کیا گیا ہے لیکن یہ باطل ہے کیونکہ دیگر اہلسنت علماء کے نزدیک یہ ثقہ راوی ہے۔ اور
جب راوی معروف ہو تو پھر مجہول ہونے کا حکم باطل ہوجاتا ہے۔
تبصرہ :ناظرین آپ نے دیکھا کہ کس طرح بنو امیہ کو حکومت کا تسلط مال ،اور اس پر رسول ص
کتنا غمگین ہوئے۔ اگر امام حسن ع واقعی معاویہ کو خلیفہ شرعی سمجھتے تھے تو پھر یہ قدح و
تنقیص کیوں؟ اور ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ معاویہ کے بارے میں امام حسن ع کا کیا نظریہ تھا۔
Khair Talab
ناظرین معاویہ کی امام حسن ع جو صلح ہوئی تھی اس میں اس کی نیت میں واضح خلل تھا اور یہ
میرا کالم نہیں بلکہ اس پر ہم اہلسنت علماء کے اقوال پیش کریں گے۔
جناب حذیفہ رضی ہللا عنہ کی ایک مشہور حدیث اہلسنت نے نقل کی ہے جن میں فتنوں کا ذکر
موجود ہے اور اس میں یہ الفاظ روایت موجود ہے:
ع ْن خَا ِل ِد
اص ٍمَ ،
ع ِ ع ْن قَت َادَة َ ،عَ ْن نَ ْ
ص ِر ب ِْن َ ع ْن َم ْع َم ٍرَ ،
قَ ،الر هزا ِ
ع ْبد ُ ه ار ٍسَ ،حدهثَنَا ََحدهثَنَا ُم َح همد ُ بْنُ یَحْ یَى ب ِْن فَ ِ
علَى أ َ ْقذَاءٍ َ ،وھُدْنَةٌ َ
علَى دَخ ٍَن» ْف ،قَالََ « :ب ِقیهةٌ َ ث قَالَ :قُ ْلتُ َ :ب ْعدَ ال ه
سی ِ يِِ ،ب َھذَا ْال َحدِی ِ
ب ِْن خَا ِل ٍد ْال َی ْشكُ ِر ّ
خالد بن خالد یشکری سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ حذیفہ رضی ہللا عنہ نے کہا :میں
نے عرض کیا :پھر تلوار کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا” :باقی لوگ رہیں گے
مگر دلوں میں ان کے فساد ہو گا ،اور ظاہر میں صلح ہو گی“
http://shamela.ws/browse.php/book-1726#page-5857
مشکوتہ میں جو ترجمہ کیا گیا وہ یوں تھا :آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کدورت پر صلح
ہوگی یعنی اس وقت لوگ ظاہر میں تو صلح صفائی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن ان کے باطن
میں کدورت ہوگی
دیکھئے/http://www.hadithurdu.com/09/9-4-1328 :
علی کل حال ترجمہ واضح ہے کہ دل میں کچھ اور ظاہر میں کچھ ہے اور یہی بات ابن اثیر نے
النھایہ میں کہی:
ومنه الحدیث ھدنة على دخن أي على فساد واختالف ،تشبیھا بدخان الحطب الرطب لما بینھم من الفاسد
الباطن تحت الصالح الظاھر
(ملخص) حدیث کے اس جملہ ھدنة على دخن میں تشبیہ بلیغ ہے کہ اس کے باطن میں فساد ہوگا
(یعنی غلط نیت ہے) اور ظاہر میں صلح اگرچہ کررہے ہوں گے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-23691#page-577
چنانچہ فتنہ کی جو نشانی بتائی گئی تھی اور اس میں کچھ شریر لوگوں کے کردار کی طرف اشارہ
تھا اس کے مصداق کی طرف آتے ہیں۔
Khair Talab
وھدنة على دخن :الصلح الذي وقع بین معاویة والحسن بن علي رضي ہللا عنھما
ترجمہ :الفاظ حدیث :اور دلوں میں ان کے فساد ہو گا ،اور ظاہر میں صلح ہو گی سے مراد معاویہ
اور حسین بن علی رضی ہللا عنھما کے درمیان جو صلح ہوئی ہے ادھر اشارہ ہے۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہم نے مکتبہ شاملہ واال ایڈیشن استعمال کیوں نہیں کیا تو ہم افسوس کے
ساتھ کہتے ہیں کہ یہ پوری عبارت ہی شاملہ والے ایڈیشن سے عمدا اڑادی یا سہوا اڑ گئی ہے۔
ب ،پیر مہر علی شاہ صاحب بھی اس روایت کے اس جملہ کا مصداق معاویہ کے زمانہ کو ہی قرار
دیتے ہیں:
چنانچہ در زمانہ امیر معاویہ رض در حدیث ھدنة على دخن ہمیں معنی دارد
والخیر الثاني اجتماع الناس لما اصطلح الحسن ومعاویة لكن كان صلحا على دخن
اور دوسری خبر اس عنوان سے ہے کہ جب تمام لوگ جمع ہوئے جب امام حسن نے معاویہ سے
صلح کی البتہ وہ صلح دخن (یعنی ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور) پر مشتمل تھی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-558
Khair Talab
ع ْن خَا ِل ٍد قَا َل َوفَدَ ْال ِم ْقدَا ُم بْنُ یر َ ع ْن َب ِح ٍ ى َحدهثَنَا َب ِقیهةُ َ ص ُّس ِعی ٍد ْال ِح ْم ِ ع ْم ُرو بْنُ عُثْ َمانَ ب ِْن َ َ - 4133حدهثَنَا َ
س ٍد ِم ْن أ َ ْھ ِل قِنهس ِْرینَ ِإلَى ُم َعا ِویَةَ ب ِْن أ َ ِبى سُ ْفیَانَ فَقَا َل ُم َعا ِویَةُ ع ْم ُرو بْنُ اْلَس َْو ِد َو َر ُج ٌل ِم ْن بَنِى أ َ َ ب َو َ َم ْعدِی َك ِر َ
صیبَةً قَا َل لَهُ َو ِل َم الَ أ َ َراھَا ى فَ َر هج َع ْال ِم ْقدَا ُم فَقَا َل لَهُ َر ُج ٌل أَت ََراھَا ُم ِ ى ت ُ ُو ِفّ َ علِمْتَ أ َ هن ْال َحسَنَ بْنَ َ
ع ِل ٍ ّ ِل ْل ِم ْقدَ ِام أ َ َ
ى » .فَقَا َل سی ٌْن ِم ْن َ
ع ِل ٍ ّ جْر ِہ فَقَا َل « َھذَا ِمنِّى َو ُح َ َّللا -صلى ہللا علیه وسلم -فِى ِح ِ ض َعهُ َرسُو ُل ه ِ صی َبةً َوقَدْ َو َ ُم ِ
ظكَ َوأُس ِْمعَكَ َما ت َ ْك َرہُ. ع هز َو َجله .قَا َل فَقَا َل ْال ِم ْقدَا ُم أ َ هما أَنَا فَالَ أَب َْر ُح ْالیَ ْو َم َحتهى أ ُ ِغی َ طفَأَھَا ه
َّللاُ َ ى َج ْم َرة ٌ أ َ ْ اْل َ َ
س ِد ُّ
اَّلل ھ َْل ت َ ْعلَ ُم أ َ هن
ص ِدّ ْق ِنى َو ِإ ْن أَنَا َكذَبْتُ فَ َك ِذ ّ ْب ِنى قَا َل أ َ ْف َعلُ .قَا َل فَأ َ ْنشُد ُكَ ِب ه ِ صدَ ْقتُ فَ َ ث ُ هم قَا َل َیا ُم َعا ِو َیةُ ِإ ْن أَنَا َ
س ِمعْتَ َرسُو َل ه ِ
َّللا - اَّلل ھ َْل َ ب قَا َل نَ َع ْم .قَا َل فَأ َ ْنشُد ُكَ ِب ه ِ ع ْن لُب ِْس الذه َھ ِ َّللا -صلى ہللا علیه وسلم -نَ َھى َ َرسُو َل ه ِ
َّللا -صلى ہللا اَّلل ھ َْل ت َ ْعلَ ُم أ َ هن َرسُو َل ه ِ یر قَا َل نَعَ ْم .قَا َل فَأ َ ْنشُد ُكَ بِ ه ِ ع ْن لُب ِْس ْال َح ِر ِ صلى ہللا علیه وسلم -یَ ْن َھى َ
َّللا لَقَدْ َرأَیْتُ َھذَا كُلههُ ِفى َب ْیتِكَ َیا علَ ْی َھا قَا َل نَ َع ْم .قَا َل فَ َو ه ِ ب َ الركُو ِ س َباعِ َو ُّ ع ْن لُب ِْس ُجلُو ِد ال ِ ّ علیه وسلم -نَ َھى َ
احبَ ْی ِه ص ِ ع ِل ْمتُ أَنِّى لَ ْن أ َ ْن ُج َو ِم ْنكَ یَا ِم ْقدَا ُم قَا َل خَا ِلد ٌ فَأ َ َم َر لَهُ ُم َعا ِویَةُ ِب َما لَ ْم یَأ ْ ُم ْر ِل َ ُم َعا ِویَةُ .فَقَا َل ُم َعا ِویَةُ قَدْ َ
ش ْیئ ًا ِم هما أ َ َخذ َ فَبَلَ َغ ذَلِكَ ى أ َ َحدًا َ ص َحابِ ِه قَا َل َولَ ْم یُ ْع ِط اْل َ َ
س ِد ُّ ض ِال ْبنِ ِه فِى ْال ِمائَتَی ِْن فَفَ هرقَ َھا ْال ِم ْقدَا ُم فِى أ َ ْ َوفَ َر َ
ش ْیئِ ِه.
اك ِل َ س ِاْل ْم َسنُ ِ ى فَ َر ُج ٌل َح َ س ِد ُّط َیدَہُ َوأ َ هما اْل َ َ س َُم َعا ِو َیةَ فَقَا َل أ َ هما ْال ِم ْقدَا ُم فَ َر ُج ٌل َك ِری ٌم َب َ
(ترجمہ ایک سنی ویب سائٹ سے)خالد کہتے ہیں مقدام بن معدی کرب ،عمرو بن اسود اور بنی اسد
کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان رضی ہللا عنہما کے پاس آئے ،تو
معاویہ رضی ہللا عنہ نے مقدام سے کہا :کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی ہللا عنہما کا
انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر «انا ہلل وانا الیه راجعون» پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا :کیا
آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا :میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا ،اور فرمایا” :یہ میرے مشابہ ہے ،اور
حسین علی کے“ ۔ یہ سن کر اسدی نے کہا :ایک انگارہ تھا جسے ہللا نے بجھا دیا تو مقدام نے کہا :آج
میں آپ کو ناپسندیدہ بات سنائے ،اور ناراض کئے بغیر نہیں رہ سکتا ،پھر انہوں نے کہا :معاویہ!
اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کریں ،اور اگر میں جھوٹ کہوں تو جھٹال دیں ،معاویہ بولے:
میں ایسا ہی کروں گا۔ مقدام نے کہا :میں ہللا کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں :کیا آپ کو معلوم
ہے کہ رسو ل ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ معاویہ نے کہا :ہاں۔ پھر
کہا :میں ہللا کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں :کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ
وسلم نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ کہا :ہاں معلوم ہے ،پھر کہا :میں ہللا کا واسطہ دے
کر آپ سے پوچھتا ہوں :کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے درندوں کی کھال
پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ کہا :ہاں معلوم ہے۔ تو انہوں نے کہا :معاویہ! قسم
ہللا کی میں یہ ساری چیزیں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں؟ تو معاویہ نے کہا :مقدام! مجھے معلوم
تھا کہ میں تمہاری نکتہ چینیوں سے بچ نہ سکوں گا۔ خالد کہتے ہیں :پھر معاویہ نے مقدام کو اتنا
مال دینے کا حکم دیا جتنا ان کے اور دونوں ساتھیوں کو نہیں دیا تھا اور ان کے بیٹے کا حصہ دو
سو والوں میں مقرر کیا ،مقدام نے وہ سارا مال اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا ،اسدی نے اپنے مال میں
سے کسی کو کچھ نہ دیا ،یہ خبر معاویہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا :مقدام سخی آدمی ہیں جو اپنا ہاتھ
کھال رکھتے ہیں ،اور اسدی اپنی چیزیں اچھی طرح روکنے والے آدمی ہیں۔
http://shamela.ws/browse.php/book-1726#page-5706
Khair Talab
سوچئے کتنا بدبخت انسان ہے کہ جس نے امام حسن ع کی مصیبت پر یہ سوال داغا کہ کیا یہ بھی
مصیبت ہے ،کیا اہلبیت ع کے گھر کا چراغ شہید ہوجائے اور وہ جنت کے جوانوں کا سردار ہو اور
اس پر پوچھا جارہا ہے کہ کیا یہ بھی مصیبت ہے؟
اب دیکھئے کہ وہ شخص کون تھا آئے مسند احمد کی روایت کو دیکھتے ہیں:
ع ْن خَا ِل ِد ب ِْن َم ْعدَانَ ،قَالََ :وفَدَ ْال ِم ْقدَا ُم س ْعدٍَ ، یر بْنُ َ ْحَ ،حدهثَنَا َب ِقیهةَُ ،حدهثَنَا َب ِح ُ
ش َری ٍَ - 17189حدهثَنَا َحی َْوة ُ بْنُ ُ
ي؟ ي ٍ ت ُ ُو ِفّ َ
ع ِل ّ علِمْتَ أ َ هن ْال َح َ
سنَ بْنَ َ ع ْم ُرو بْنُ ْاْلَس َْو ِد إِلَى ُمعَا ِویَةَ ،فَقَا َل ُمعَا ِویَةُ ِل ْل ِم ْقدَ ِام :أ َ َ ب َو َ بْنُ َم ْعدِي َك ِر َ
صلهى ہللاُ ضعَهُ َرسُو ُل ہللاِ َ صیبَةً َوقَدْ َو َ صیبَةً؟ فَقَالََ :و ِل َم َال أ َ َراھَا ُم ِ فَ َر هج َع ْال ِم ْقدَا ُم ،فَقَا َل لَهُ ُمعَا ِویَةُ :أَت ُ َراھَا ُم ِ
يٍ سی ٌْن ِم ْن َ
ع ِل ّ جْرہَِ ،وقَالََ " :ھذَا ِمنِّي َو ُح َ سله َم فِي ِح ِ علَ ْی ِه َو َ
َ
http://shamela.ws/browse.php/book-25794#page-13726
آئے ہم صاحب عون المعبود کا تبصرہ دیکھتے ہے وہ ان الفاظ کے بارے میں فرماتے ہے:
( أتعدھا ) وفي بعض النسخ أتراھا أي أنعد یا أیھا المقدام حادثة موت الحسن رضي ہللا تعالى عنه
مصیبة والعج ب كل العجب من معاویة فإنه ما عرف قدر أھل البیت حتى قال ما قال فإن موت الحسن بن
علي رضي ہللا عنه من أعظم المصائب وجزى ہللا المقدام ورضي عنه فإنه ما سكت عن تكلم الحق حتى
أظھرہ وھكذا شأن المؤمن الكامل المخلص
اتعدھا اور بعض نسخوں میں اتراھا ایا ہے یعنی اے مقدام کیا ہم اس امام حسن رضی ہللا عنہ کی
موت کے واقعہ کو مصیبت بھی تصور کریں اور یہ بہت ہی عجیب بات معاویہ نے کی ،اور بالشبہ
وہ اہلبیت کی قدر نہیں جانتا ورنہ ایسا نہیں کہتا جو اس نے کہا کیونکہ بتحیق امام حسن بن علی
رضی ہللا عنہ کی وفات سب سے عظیم مصیبتوں میں سے ایک ہے ،اور ہللا تعالی جزا دے مقدام کو
اور ان سے راضی ہو کہ بال شبہ وہ حق گوئی میں خاموش نہ رہے بلکہ اس کو بیان کیا اور یہی
ایک مخلص اور کامل مومن کی شان کے الئق ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-5760#page-3704
ثابت ہوا کہ معاویہ نے ادھر جس حرکت سے کام لیا اس پر جتنی بھی برات اس جیسے سے کی
جائے وہ کم ہے۔
تبصرہ :قارئین اور محترم فخر الزماں صاحب اگر مودت اہلبیت ع کے دعویدار ہے تو کم سے کم
معاویہ سے تو برات کیجئے۔
Khair Talab
ناظرین آپ کو یاد ہوگا کہ امام حسن ع کا عدم جنگ کرنے کے بارے میں ہم نے ابن عمر کے
حوالے سے ایک الزامی جواب دیا تھا جس میں معاویہ نے ابن عمر اور ان کے والد پر چوٹ ماری
تھی اور روایت کچھ یوں تھی:
روایت بخاری :ابن ع مر نے بیان کیا کہ میں حفصہ کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی
کے قطرات ٹپک رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو
کچھ بھی حکومت نہیں ملی ۔ حفصہ نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار
کر رہے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے ۔ آخر حفصہ
کے اصرار پر عبدہللا بن عمر گئے ۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ نے خطبہ دیا اور
کہا کہ خالفت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔ یقینا ً ہم اس سے زیادہ
خال فت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ ۔ حبیب بن مسلمہ نے ابن عمر سے اس پر کہا
کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبدہللا بن عمر نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی
کھولی ( جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خالفت کا
حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسالم کے لیے جنگ کی تھی ۔ لیکن پھر میں
ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختالف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور
میری بات کا مطلب میری منشا کے خالف نہ لیا جانے لگے ۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ
تعالی نے ( صبر کرنے والوں کے لیے ) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔ ٰ نعمتیں یاد آ گئیں جو ہللا
اس میں واضح تھا کہ ابن عمر کا عدم تعارض کرنا جب کہ ابن عمر سناٹا ہوا جواب دینا چارہے
تھے اس پر محترم نے کچھ اشکاالت وارد کئے ،آئے ان اعتراضات کو نقل کرتے ہیں اور ان کے
جوابات دیتے ہیں۔
(فخر:ناب آپ نے خیر طلب صاحب کا کمنٹ پڑھا ھوگا ،اب میں خیر طلب صاحب سے پوچھنا
چاہوں گا کہ میں نے کب اور کہاں لکھا تھا کہ معاویہ رض خلیفہ بننے سے سب سے افضل ھوگئے
جو جناب نے یہ لکھ دیا کہ
"اگر آپ کی دلیل پرعلیل کو لیا جائے تو ھمیں ماننا پ ڑے گا کہ معاویہ ابن عمر اور عمر بن الخطاب
سے افضل ہے".
اور آگے بخاری کی ابن عمر رض والی روایت بھیج دی.
مجھے تو سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیوں کیا انھوں نے ،خود ھی بتائیں جناب) .
جواب :محترم ادھر بات معاویہ کے مفضول ہونے کی نہیں بلکہ معاویہ کے اس جملہ کو دیکھئے:
ب ُمعَا ِویَةُ قَالََ :م ْن َكانَ ی ُِرید ُ أ َ ْن یَت َ َكله َم في ھذا اْل َ ْم ِر فَلْی ْ
ُط ِل ْع لَنَا قَ ْرنَهُ ،فَلَنَحْ نُ أ َ َح ُّق بِ ِه ِم ْنهُ َو ِم ْن أ َ ِبي َخ َ
ط َ
معاویہ نے خطبہ دیا اور کہا خالفت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔
یقینا ً ہ م اس سے زیادہ خالفت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ
ادھر بات آپ کے ماننے یا نہ ماننے پر نہیں بلکہ معاویہ کا بلند بال دعوی دیکھیں کہ وہ اپنے آپ کو
خالفت کا حقدار سمجھتا تھا اور عمر اور ابن عمر سے زیادہ الئق اور حقدار سمجھتا تھا ،اس کے
بارے میں اتنی آرام سے جانے نہیں دوں گا۔
Khair Talab
اور یہ معاویہ کی طرف سے ابن عمر اور عمر رضی ہللا عنھما کی مخالفت کی۔
حوالہ :الكواكب الدراري في شرح صحیح البخاري جلد ١٦ص ٣٣اور ٣٤
http://shamela.ws/browse.php/book-13605#page-3367
http://shamela.ws/browse.php/book-5756#page-5133
(روایت کا جملہ معاویہ نے خطبہ میں کہا) :یعنی ادھر ابن عمر اور عمر پر طعنہ مارنا تھا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-2666
(فلنحن أحق به منه ومن أبیه) ھذہ زلة من معاویة فإن من الحاضرین ابن عمرو وابن أبي بكر
(روایت کا جملہ کہ معاویہ کا کہنا میں اس سے اور اس کے باپ سے زیادہ خالفت کا حقدار ہوں)
ادھر معاویہ پھسل کیا کیونکہ سننے والے حاضرین میں عمر اور ابوبکر کے بیٹے بھی تھے۔
حوالہ :الكوثر الجاري إلى ریاض أحادیث البخاري جلد ٧ص ٢١٠
http://shamela.ws/browse.php/book-16584#page-3199
یہ معاویہ نے ابن عمر اور عمر رضی ہللا عنھما پر چھپا طعنہ مارا ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-18103#page-5354
ان پانچ عدد علماء کے بعد یہ کہنا کہ معاویہ مفضول تھے کافی نہیں بلکہ معاویہ اپنے آپ کو افضل
سمجھتا تھا اور عمر اور ابن عمر کے اوپر طعن مارتا ،ان کی مخالفت کرتا اور سر عام یہ بات
کرتا ،اس کے باوجود ابن عمر خاموش رہے ،جو وجہ ادھر تھی وہی ادھر سمجھئے۔
Khair Talab
(فخر :حسن رض کو جس فتنے کے ڈر سے خاموش رھنا جناب نے لکھا ہے وہ کوئی معقول وجہ
نھیں کسی دشمن دین ،منافق ،علی رض کو گالیاں دینے اور دلوانے والے سے جنگ نہ کرنے اور
اس کو اسالمی حکومت کی سربراہی دینے کی.
⏪ پہلی بات تو یہ کہ عام بے گناہ مسلمان کیسے شھید ھوتے جب وہ جنگ میں شریک ھی نہ ھوتے
تو؟ آپ بتانا پسند کریں گے کہ بے گناہ لوگ کیسے شھید ھوتے؟
⏪ بقول آپ کے حسن رض کی فوج جنگ کے لیے تیار نہیں تھی ،تو یہ ثابت ھوا کہ سیدنا حسن
رض کے شیعوں نے ان کو دھوکا دیا اور مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیا.
⏪ اگر آپ یہ کھیں کہ جو جنگ میں شریک ھوتا وہ شھید ھوتا،
تو میں کھونگا کہ ایسا تو سیدنا علی رض نے بھی کیا جمل و صفین میں .تو کیا سیدنا علی رض نے
فتنہ کھڑا کیا تھا جنگ لڑ کر ،اور بے گناہ لوگوں کو مروایا تھا؟
⏪ کیا منافق کے ساتھ جنگ ھو اور مسلمان شھید ھوں تو اس کو فتنہ کھا جائے گا ؟
کیا نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے کفار سے جنگ کر کے بے گناہوں کو میدان جنگ میں شہید
کروایا نعوذ باہلل )
جواب :محترم اس کا جواب دینے سے پہلے میں بتاتا چلوں کہ اگر حاکم مصلحت کے موافق
سمجھے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کفار تک سے صلح کرے ،دیکھئے حکم اولی کے طور پر
کفار سے جنگ ہے لیکن اگر امام اور حاکم مصلحت دیکھے تو وہ صلح بھی کرسکتا ہے۔
إذا كان فیه مصلحة ظاھرة فإن رأى اْلمام أن یصالح أعداءہ من الكفار وفیه قوة فال یجوز أن یھادنھم
سنة كاملة وإن كانت القوة للمشركین جاز أن یھادنھم عشر سنین وال تجوز الزیادة علیھا اقتداء برسول
ہللا صلى ہللا علیه وسلم فإنه صالح أھل مكة مدة عشر سنین ثم إنھم نقضوا العھد قبل انقضاء المدة.
اگر کوئی ظاہری مصلحت ہو اور امام دشمنوں سے مصالحت کرنا چاہے اور امام کے پاس قوت بھی
ہو تو پورے ایک سال سے زیادہ نہ کرے ،لیکن اگر مشرکین کے پاس قوت و شوکت ہو تو امام کے
لئے جائز ہے کہ ان کے ساتھ دس سال تک کرسکتا ہے البتہ اس سے زیادہ جائز نہیں کیونکہ رسول
ہللا ص نے اہل مکہ سے دس سال کی مصالحت کی تی ،جو اہل مکہ نے اس مدت کے پورے ہونے
سے پہلے ہی توڑ دی۔
حوالہ :لباب التأویل في معاني التنزیل جلد ٢ص ٣٢٤
http://shamela.ws/browse.php/book-23628#page-774
تو اب یہ تمام قیل قاال جو آپ نے کی اس کا یہی اصولی جواب ہے کہ امام حسن ع نے اس میں
مصلحت سمجھی اور شرط عائد کی تھی کہ معاویہ کے بعد وہ خود حکومت سنبھالیں گے تو یوں
ایسے کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔۔ امام حسن ع کی جو فوج تھی جس میں اس زمانہ کے مذھب
کے حامل (جس میں اکثر اہلسنت عقائد شوری رکھتے تھے) موجود تھے تو انہوں نے دغا دی تو
اس صورت میں جب فوج ہی لڑنے پر تیار نہ تھی تو لڑکر فقط خون ہی گرنا تھا اور کامیابی نہ
ہوتی تو صلح سے کام لیا گیا۔ باقی پرانی مثالیں دینا اس وقت صحیح ہوتا جب دونوں ظروف ایک
ہوتے۔ اس پر تو دلیل دینا بھی بیکار ہے کہ جہاد کے خود الگ احکامات ہیں۔ اور جب استطاعت
ہوگی تو جہاد واجب ہوجائے گا۔ جب شرط ہی فاقد تو مشروط بھی فارغ۔
Khair Talab
،١٥امام حسن ع کا معاویہ ،عمرو بن عاص اور مغیرہ کی حقیقت کو طشت از بام کرنا اور اس پر
ایرادات کے جوابات۔
عمرو بن عاص منبر پر بیٹھا ہے اور امیر المؤمنین کا ذکر کیا اور پھر ان کی تنقیص کی اور پھر
مغیرہ بن شبعہ منبر پر آیا اور ہللا کی حمد اور تعریف کی ،اور علی رضی ہللا عنہ کی تنقیص کی۔
اور پھر امام حسن ع سے کہا گیا کہ آپ بھی منبر پر بیٹھیں تو امام حسن ع نے کہا میں منبر پر اس
وقت تک نہیں بیٹھوں گا اور کالم کروں جب تک تم یہ گنجائش نہ دو کہ میں اگر حق بات کروں تو
اس کی تصدیق کرنا اور اگر باطل کہوں تو تکذیب کرنا۔۔ تو انہوں نے یہ گنجائش امام حسن ع کو دی
اور امام منبر پر بیٹھے تو ہللا کی حمد اور تعریف کی اور پھر کہا اے عمرو بن عاص اور مغیرہ ہللا
کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم دونوں کو معلوم نہیں کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ خدا کی
لعنت ہو سواری چالنے والے اور سواری پر بیٹھنے والے پر اور ان دو میں سے ایک فالن تھا تو
ان دونوں نے یک زبان کہا بیشک ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام حسن ع نے کہ ہللا کے واسطہ اے معاویہ
اور اے مغیرہ کیا تم دونوں نہیں جانتے کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ ہللا کی لعنت ہو عمرو پر
اتنی جتنے قافیہ اس سے کہے تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام ع نے کہا اے عمرو
بن عاص اور اے معاویہ بن ابی سفیان ہللا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول ص نے اس قوم
پر لعنت کی تھی؟ تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔۔ا
اس کے جواب جو محترم فخر الزماں نے دیا ہے وہ پیش خدمت ہے اور اس پر ہمارا جواب الجواب۔
(فخر :جناب اس میں کھیں بھی یہ بات نھیں کہ سیدنا حسن رض سیدنا معاویہ رض پر لعنت کررھے
ھیں ،یا یھاں جس پر لعنت ھوئی اس سے معاویہ رض مراد ھیں.
آپ کی سوچ ھمارے لیے حجت نھیں کہ اس سے معاویہ رض مراد ھیں وغیرہ) .
رسول ص نے فرمایا تھا کہ خدا کی لعنت ہو سواری چالنے والے اور سواری پر بیٹھنے والے پر
اور ان دو میں سے ایک فالن تھا تو ان دونوں نے یک زبان کہا بیشک ایسا ہی ہے۔
ادھر واضح طور پر ہللا کی لعنت کا ذکر ہے دو اشخاص پر اور اس میں امام حسن ع اس لعنت کو
رسول ص سے نقل کررہے ہیں تو آپ کا کہنا امام ع نہیں کررہے عبث ہے۔ دوسرا یہ کہ اس روایت
کا مصداق معاویہ ہی ہے چنانچہ دیگر روایت میں اس مبھم فالن کا پول بھی کھل گیا ہے:
حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث عن سعید بن جمھان عن سفینة مولى أم سلمة أن النبي صلى ہللا علیه وسلم
كان جالسا ً فمر أبو سفیان على بعیر ومعه معاویة وأخ له أحدھما یقود البعیر واآلخر یسوقه ،فقال رسول
ہللا صلى ہللا
علیه وسلم :لعن ہللا الحامل والمحمول والقائد والسائق
http://shamela.ws/browse.php/book-9773#page-1803
Khair Talab
ادھر واضح طور پر ابو سفیان ،معاویہ اور اس کے بھائی پر لعنت ہے اور یہی روایت امام حسن ع
نے نقل کی ہے۔ تو اب آپ کے فالں کا تو جواب ہوگیا۔
(فخر ، :اس روایت میں ابو مجلز راوی ھے جس کے بارے میں ھے کہ
ابو داود طیالسی امام شعبہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ابو مجلز کی ایسی احادیث ھمارے پاس آتی ہیں
گویا کہ وہ شیعہ ھو ،اور کبھی ایسی احادیث آتی ہیں گویا کہ وہ عثمانی ھو.
یہ روایت اس کا شیعہ ھونا ظاھر کررھی ھے جو قبول نہیں کی جائے گی) .
جواب:
ناظرین محترم فخر الزماں نے ابو مجلز کے بارے میں جو لکھا ہے تو ہم بتاتے چلیں کہ یہ قول
ہمیں علم رجال میں متداول کتب تہذیب التہذیب جلد ١١س ١٧٢اور تھذیب الکمال جلد ٣١ص ١٧٨
میں مال ہے لیکن اس قول کی سند محتاج بیان ہے چنانچہ اصل قول کی سند تاریخ دمشق جلد ٦٤ص
٢٩پر ملی اور وہ بایں ہے:
أخبرنا أبو اْلعز قراتكین بن اْلسعد أنا أبو محمد الجوھري أنا أبو الحسین بن لؤلؤ نا محمد بن الحسین نا
الفالس قال سمعت أبا داود یقول ( )6سمعت شعبة یقول أبو مجلز ھذا تجیئنا عنه أحادیث كأنه شیعي
وتجیئنا عنه أحادیث كأنه عثماني
http://shamela.ws/browse.php/book-71#page-29409
اس روایت کی سند کی توثیق درکار ہے تاکہ پتا چل سکے کہ آیا یہ قول ثابت بھی ہے یا نہیں۔ یہ تو
بہرحال بحث کا ایک حصہ ہے۔
بحث کا دوسرا حصہ اس حوالہ سے کہ خود ابن حجر عسقالنی کی لسان المیزان تحقیق ابو غدہ
(جنہوں نے اعالء السنن وغیرہ کے مقدمہ پر بھی تحقیق کی ہے اور دیگر کتب پر) میں جب ابو
مجلز کا ذکر کیا تو عالمت (صح) لکھی ترجمہ میں اور خود قاعدہ یہ ہے کہ یہ رمز اس راوی کے
لئے استعمال ہوتا ہے جس پر بغیر کسی دلیل کے جراح کی گئی ہو (ومن كتبت قبالته( :صح) فھو
ممن تكلم فیه بال حجة) اب دیکھئے الحق بن حمید ابو مجلز کا ترجمہ اور اس پر عالمت (صح)
موجود ہے (مالحظہ ہو لسان المیزان تحقیق ابو غدہ جلد ٩ص )٤٤٥
http://shamela.ws/browse.php/book-36357#page-15873
لہذ ا اس قول کو قابل استدالل سمجھنا ثبوت اور نتیجہ دونوں اعتبار سے غلط ہے۔
Khair Talab
(فخر :اب زرا شیعہ کتاب سے سیدنا حسن رض کا سیدنا معاویہ رض کا متعلق نظریہ دیکھیں
عن زید بن وھب الجھني قال :لما طعن الحسن بن علي علیه السالم بالمدائن أتیته وھو متوجع ،فقلت:
ما ترى یا بن رسول ہللا فإن الناس متحیرون؟ فقال:
أرى وہللا أن معاویة خیر لي من ھؤالء ،یزعمون أنھم لي شیعة ،ابتغوا قتلي وانتھبوا ثقلي ،وأخذوا مالي،
وہللا لئن آخذ من معاویة عھدا أحقن به دمي ،وأومن به في أھلي.
االحتجاج للطبرسی ج 2ص 10
/...shiaonlinelibrary.com/.../1338//:الصفحة_...10
زید بن وھب جھنی کھتے ھیں کہ جب حسن رض کو زخمی کیا گیا تو ان کے پاس آیا اور وہ بھت
تکلیف میں تھے ،میں نے کھا اے رسول ہللا کے بیٹے آپ کیا دیکھتے ہیں ؟
حسن رض نے فرمایا کہ ہللا کی قسم معاویہ میرے لیے ان سے بھتر ھے جو خود کو میرا شیعہ
سمجھتے ہیں ،انھوں نے ھی میرے قتل کی کوشش کی ،میرے سامان لوٹا اور میرا مال چھینا.
ہللا کی قسم اگر میں معاویہ سے عھد کروں تو یہ میرا جان اور اھل و عیال کے لیے زیادہ امن واال
ھوگا.
سیدنا حسن رض تو معاویہ رض پر اعتماد کریں اور ان سے عھد لے کر اپنے جان ،مال و اھل عیال
کو محفوظ سمجھیں اور شیعہ کھتے ھیں کہ دشمن تھے.
دشمن تو حسن رض پر حملہ کر کے ان کو زخمی کرنے والے،
ان کو مذل المومنین (مومنوں کو ذلیل کرنے واال) کا لقب دینے والے شیعہ اصل دشمن تھے)
جواب:
آئے اب جواب پر آتا ہوں۔ جس روایت کو محترم فخر الزماں نے نقل کیا ہے اس میں دو اشکالت ہیں
پہال ،عالمہ طبرسی سے لے کر زید بن وھب تک کی سند مفقود ہے (اور اگر دیگر شواہد نہ ہوں
روایت پر تو اس سے احتجاج قابل اشکال ہوجاتا ہے)
دوسرا ،زید بن وھب بذات خود مجہول التوثیق ہے یعنی ان کی توثیق ثابت نہیں اور علم رجال کی
زبان میں جس پر جرح اور توثیق ثابت نہ وہ مجہول الحال ہوتا ہے۔ خالصتہ ایک قول اس ضمن میں
نقل کئے دیتا ہوں کہ معجم رجال الحدیث کی تلخیص کرنے والے محمد جواہری فرماتے ہے:
goo.gl/hVr9qB
باقی محترم کا کہ نا کہ ان کو شیعوں نے مذل المؤمنین کہا تو یاد رکھئے کہ انشاء ہللا صلح والے باب
میں جب ہم تفصیلی جواب دیں گے تو اس وقت ہم اس روایت کو تفصیلی طور پر پیش کریں گے
لیکن سردست عرض خدمت ہے کہ خود کتب اہلسنت میں ایک آدمی نے امام ع کے متعلق کہا اس
نے امام ع کو ایسے القاب سے نوازا۔
حاکم نیشاپوری نقل کرتے ہے کہ ایک شخص امام حسن ع کے پاس کھڑا ہوا اور کہا کہ اے مومنین
کے چہرے کو کاال کرنے والے۔ (پھر روایت کے اختتام پر حاکم نیشاپوری جواب میں کہتے ہے کہ
وہ شخص کون تھا) یہ شخص کہنے واال سفیان بن لیل ہے جو امام حسن ع کے والد کا صحابی تھا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-2266#page-5094
Khair Talab
اب یہ سفیان بن لیل یا بعض جگہ ابن لیلی یا بعض جگہ ابن ابی لیلی ہے۔ علی کل حال یہ راوی
اہلسنت کے ہاں بعض علماء کے نزدیک و مبانی کے تحت ثقہ ہے تو یہ اعتراض تو خود ان پر پلٹتا
ہے کہ اگر فخر الزماں صاحب کی منطق کو صحیح مان لیں تو اصل قصووار علماء اہلسنت ہوں گے
جو ایسے راوی کو ثقہ کہتے ہیں جس نے فرزند رسول ص کے بارے میں یہ کہا (یہ پورا جواب
محترم فخر الزماں کے اوپر الزامی ہے)۔
سفیان بن لیل کو ابن حبان نے اپنے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔ (الثقات جلد ٤ص ٣١٩رقم
)٣١٠٥
http://shamela.ws/browse.php/book-5816#page-1436
اس ہی سفیان بن لیل سے شعبہ نے روایت کی ہے (الجرح و التعدیل جلد ٤ص )٢١٩
http://shamela.ws/browse.php/book-2170#page-1803
جب کہ مشہور یہ ہے کہ شعبہ فقط ثقہ راویوں سے ہی روایت نقل کرتے تھے تو اس مبنی کے تحت
شعبہ کے نزدیک بھی سفیان ثقہ ہوگیا ہے (یہ قاعدہ کہ شعبہ صرف ثقہ سے لیتے ہے یہ عالئی نے
جامع التحصیل جلد ١ص ٨٧میں یوں کہا :أنه ال یأخذ إال عن ثقة كمالك وشعبة)
http://shamela.ws/browse.php/book-25864#page-73
چنانچہ یہ اعتراض کرکے خود محترم فخر الزماں پھنس چکے ہیں انشاء ہللا اب یہ جواب دیں گے
Khair Talab
اور ہم نے ظفر تھانوی کی ابن عباس کی معاویہ سے تقیہ والی تاویل کا جواب بھی نقل کیا تھا:
اعالء السنن( :طحاوی کا) تقیہ کی تاویل کرنا بعید نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی رکاکت اور تعصب
ہے۔ تقیہ جس معنی میں عالمہ طحاوی نے استعمال کیا ہے مطلق حرام نہیں بلکہ بعض صورتوں
میں جائز بھی ہے۔ (طحاوی کی ابن عباس کی تقیہ والی بات پر) اعتراض کرنے واال کیا جانتا نہیں
کہ ابن عباس حضرت علی رضی ہللا عنہ کے خواص (بہت قربت رکھنے والے) ساتھیوں میں سے
تھے جنہوں نے معاویہ (کی مشروعیت) کا انکار کیا اور معاویہ سے بغض رکھتے اور امام علی ع
کی زندگی میں معاویہ سے جنگ بھی کی۔ اور پھر معاویہ کی بیعت غالبا تقیہ کے طور پر کی اور
اس (کے بعض امور) پر راضی ہونا بہت کم تھا۔ اور یہی ان لوگوں (جو امیر المؤمنین کے خواص
اصحاب تھے) کا یزید کی بیعت کرنے کا معاملہ ہے (وہ بھی تقیہ کے طور پر تھی) البتہ جو تاویل
ہم نے کی وہ طحاوی کی تاویل سے بہتر ہے لیکن طحاوی کی تاویل بھی بالکل محتمل ہے اور اس
کو فرض کرنا بعید نہیں۔ چناچہ (معترض کو چاہئے اس بات کو) سمجھے۔
( خیر طلب صاحب آپ نے اعالء السنن کی تائید میں نسائی کی روایت پیش کی وہ تو اس کے خالف
دعوی کے مطابق کوئی بات نہیں جس کا رد میں پہلے بھی نکلی ،باقی اعالء السنن میں آپ کے ٰ
کرچکا ہوں.
، 2واقعات مختلف ھیں لیکن سوال یہ ہے کہ ابن عباس رض کا ایک جگہ تقیہ اور دوسری جگہ
کھلی مخالفت؟
تقیہ کرنے کی وجہ کیا حج کے موقعے پر ختم ھوگئی تھی؟
وتر کے معاملے میں تقیہ اور حج پر تلبیہ کے معاملے میں کھلی مخالفت؟
حج پر تو اور بھی بھت زیادہ لوگ ھوتے ھیں وھاں تو تقیے کی زیادہ ضرورت تھی ،لیکن وھاں
تقیہ نھیں کرتے اور ایک دو لوگوں کے سامنے تقیہ کردیا.
عجیب بات نہیں یہ)
جواب:
محترم ابھی تک آپ نے اس روایت نسائی پر تبصرہ نہیں کیا ہے اور اس روایت سے گلوخالصی
ابھی تک نہیں کرسکے ہیں۔۔ یاد رہے ناظرین اس روایت میں واضح طور پر ابن عباس رض نے
بغض علی ع کا مرتکب کہا ہے۔ اب ایک جگہ بظاہر معاویہ کی تعریف ابن عباس رض سے منقول
ہے یہ ایسا مسئلہ تھا جس میں تطبیق دینا ضروری تھا تو علماء احناف میں سے بعض نے ابن عباس
رض کی اس تعریف کو تقیہ پر محمول کیا ،اور پھر ظفر تھانوی محدث احناف کا قول بھی نقل کیا
جس میں ابن عباس رض کا خواص امیر المؤمنین ع میں سے ہونا لکھا تھا اور تقیہ کی تعلیل بتائی
تھی۔ چونکہ یہ ب ات محترم فخر الزماں کے مزاج کے بالکل برخالف ہے تو انہوں نے طرح طرح
کی باتیں کرنا شروع کردی اور ایسے سواالت کئے جو ہمارے نقل کردہ دالئل کا جواب تو نہیں بن
سکتے ہیں لیکن ایک کوشش سے تعبیر کئے جاسکتے ہیں۔ آئے ہم جواب دیتے ہیں۔
Khair Talab
ہمارا کام اصل کا اثبات ہے اور وہ ہے کہ ابن عباس نے بغض علی ع کا انتساب کیا معاویہ سے۔ اور
پھر ایک تاویل تقیہ دیکھائی اور اس تقیہ کی تعلیل بھی دیکھائی ،ان تین چیزوں کے بعد ہمارے ذمہ
میں تفصیالت کا بتانا نہیں کہ فالں جگہ تقیہ کیوں کیا اور فالں جگہ نہیں کیونکہ خود مکلف خود
اپنی تکلیف کو بہتر جانتا ہے کہ کب تقیہ کیا جانا چاہئے اور کب نہیں۔۔ یہ ایسا ہی ہے کہ میں
پوچھوں کہ ابن عمر جو ایک فقہی معاملہ میں اتنے سخت تھے کہ وہ جو رفع الیدین نہیں کرتا تھا
اس کو کنکریاں مارتے تھے ،مالحظہ ہو روایت:
-37حدثنا الحمیدي أنبأنا الولید بن مسلم قال :سمعت زید بن واقد ،یحدث عن نافع أن ابن عمر كان إذا
رأى رجالً ال یرفع یدیه إذا ركع وإذا رفع رماہ بالحصى.
ابن عمر جس شخص کو دیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین نہیں کرتا تو اسے
کنکریاں مارتے تھے
http://islamport.com/w/fqh/Web/5130/6.htm
اب بتائے کہ وہی ابن عمر جب معاویہ کی تقریر سنتے ہیں جس میں ان کے اوپر اور ان کے والد پر
تعریض ہوتی ہے تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ سپاہ صحابہ بن کر اور دفاع صحابہ کرتے ہوئے اپنا نہیں
تو اپنے والد گرامی کی صحابیت کا خیال رکھ کر معاویہ کا گریبان پکڑتے کہ تمہاری ہمت کہ تم
نے خلیفہ راشد (اف اہلسنت از خیر طلب) کو برا کہا۔ لیکن ایک صحابی پر طنز ہوتا رہا اور ابن
عمر خاموش رہے اور دوسری جگہ ایک معمولی سنت عمل نہ کرنے پر کنکریاں پھینکتے۔ تو اب
میں بھی پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ کیا وہ کنکریاں معاوہ پر نہیں برسا سکتے تھے اور ایک
جگہ برسائی اور دوسری جگہ نہیں یہ تضاد کیوں۔۔ وغیرہ وغیرہ سواالت آئیں گے۔
اس الزامی جواب کے بعد آمدم بر سر مطلب۔ تقیہ نہ کرنے کی وجہ شاید لوگوں کا زیادہ ہونا تھا کہ
اگر ادھر کرتے تو لوگ ایک اہم فعل شرع سے دستبردار ہوجاتے اور ادھر مقصد زیادہ بڑا تھا،
بنسبت جب اپنے شاگرد کے ساتھ تھے تو چونکہ وہاں مصلحت بڑی نہ تھی تو ادھر تقیہ سے کام لیا
گیا۔۔ مھم بات ادھر یہ ہے کہ تقیہ کیا ،اب کیا ظرف و حاالت تھے اس سے بحث کرنا ہمارے لئے
ضروری نہیں۔۔ عمار بن یاسر ع نے جب تقیہ کیا اور الفاظ کفریہ اپنے منہ سے نکالے تو اب یہ
سوال کرنا کہ جب اوائل اسالم میں انہوں نے تقیہ کیا بعد میں جب بالکل بوڑھے ہوگئے تو خانہ
بدوش کیوں نہ ہوئے اور امیر المؤمنین ع کے ساتھ جنگ کرنے کیوں نکلے۔۔ یہ تمام احتماالت باطل
ہوں گے کیونکہ مکلف خود اپنی تکلیف کو بہتر جانتا ہے۔
(فخر :پہلے آپ یہ تو مان لیں کہ سنی کتب میں واقعی ایسی روایات ھیں جو آپ کے نظریے کے
خالف ھیں ،سنی کتب سے آپ کا مذھب ثابت نھیں ھوتا پہر شیعہ کتب پر تو میں آ ھی گیا ھوں آگے
اور بھی نظارہ کرواتا ھوں جناب کو شیعہ کتب کا.
، 2جائر خلفاء سے عطیات لینے کا انکار میں نے نھیں کیا ،لیکن یھاں جائر نھیں بلکہ آپ کے
دعوی کے مطابق منافق ،دین کا دشمن ،علی و اھل بیت رضوان ہللا علیہم کا دشمن ،علی رض کو ٰ
گالیاں دینے اور دلوانے واال ،ان سے جنگیں لڑنے واال اور ھزاروں مسلمانوں کو شھید کروانے
واال ،نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا لعنت کیا ھوا وغیرہ.
اس سے عطیات لینا ،اس کی تعریف کرنا ،کیا یہ ایمانی غیرت کے خالف نھیں)
جواب :یہ تمام باتیں محتاج دلیل ہیں۔۔ آپ ایک ایک کی دلیل پیش کرتے جائیں ہم ایک ایک کا جواب
دیتے جائیں گے۔ میں مفروضات پر بات نہیں کرتا جب دلیل دیں گے تو اس وقت میں جواب دوں گا۔
البتہ ایک بات بتائ ے گا کہ ظالم و جابر حکومت سے اپنا وظیفہ اور عطیات لینا کس طرح غلط ہے
اس تالزم کو بھی دلیل سے بتائے گا ،آپ کی جذباتی بے دلیل تقریر کا علمی دنیا میں مسموع نہیں۔
Khair Talab
محترم فخر الزماں جو اصحاب امیر المؤمنین ع معاویہ اور اس کی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے (جن
میں حجر بن عدی اور محمد بن ابی بکر کا ذکر میں کرچکا ہوں) ،اس کے جواب میں کہتے ہے:
(فخر :خیر طلب صاحب میں ان کے قتل ھونے کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ کیوں ھوا کیسے
ھوا ،بس آپ سے یہ پوچھتا ھوں کہ
ان کو کیوں اور کس وجہ سے قتل کیا گیا؟
کیا اس لیے کہ یہ سیدنا علی رض کے لشکر میں تھے ،ان کے ساتھی تھے؟
یا کوئی اور وجہ تھی؟
جو بھی بات کریں دالئل سے کریں تاکہ اصل بات واضح ھو سکے) .
جواب :ان کے قتل کی وجہ ان کا امیر المؤمنین ع سے شدید محبت کرنا اور ان کے شیعوں میں ہونا
تھا اور یہ چیز معاویہ کو بہت زیادہ کھٹکتی تھی۔
آئے حجر بن عدی کے بارے میں مورخ اہلسنت ابو الفداء کا اعتراف پڑھتے ہیں ،کہتے ہے:
وكان معاویة وعماله یدعون لعثمان في الخطبة یوم الجمعة ،ویسبون علیاً ،ویقعون فیه ،ولما كان المغیرة
متولي الكوفة ،كان یفعل ذلك طاعة لمعاویة ،فكان یقوم حجر وجماعة معه ،فیردون علیه سبّه لعلي ٍ
رضي ہللا عنه ،وكان المغیرة یتجاوز عنھم ،فلما ولي زیاد ،دعا لعثمان وسب علیاً ،وما كانوا یذكرون
علیا ً باسمه ،وإنما كانوا یسمونه بأبي تراب ،وكانت ھذہ الكنیة أحب الكنى ِإلى عليْ ،لن رسول ہللا صلى
ہللا علیه وسلم ،كناہ بھا ،فقام حجر وقال :كما كان یقول من الثناء على علي ،فغضب زیاد وأمسكه،
وأوثقه بالحدید ،وثالثة عشر نفرا ً معه ،وأرسلھم ِإلى معاویة ،فشفع في ستة منھم عشا ِئرھم ،وبقي ثمانیة،
منھم :حجر ،فأرسل معاویة من قتلھم بعذرا ،وھي قریة بظاھر دمشق ،رضي ہللا عنھم ،وكان حجر من
عظم الناس دینا ً وصالة ،وأرسلت عائشة تتشفع في حجر ،فلم یصل رسولھا إِال بعد قتله
معاویہ اور اس کے گورنر جمعہ کے خطبوں میں معاویہ کے لئے دعائے خیر کیا کرتے تھے اور
امیر المؤمنین ع پر سب اور برا بھال کرتے تھے ،چنانچہ جب مغیرہ گورنر کوفہ بنا ،تو وہ بھی
معاویہ کی اطاعت کے چکر میں عثمان کے لئے دعائے خیر کرتا اور امیر المؤمنین ع پر سب،
چنانچہ حجر اور ان کے ساتھ ایک جماعت کھڑے ہوجاتی اور جو مغیرہ سب علی رض کرتا تھا اس
کے خالف احتجاج کرتے جب مغیرہ وہاں سے گورنرشپ سے ہٹا تو اس کی جگہ زیاد بن ابیہ
گورنر بنا اور وہ عثمان کا ذکر خیر کرتا اور امیر المؤمنین ع پر سب کرتا ،اور امیر المومنین ع کا
نام علی نہ لیتے بلکہ ابو تراب کہا کرتے تھے ،جو اگرچہ امیر المومنین ع کو سب سے زیادہ
پسندیدہ کنیت لگتی تھی چونکہ رسول ہللا ص نے وہ کنیت عطا کی تھی تو حجر کھڑے ہوئے اور
وہی کہا جو وہ امیر المؤمنین ع کی مدح میں کہا کرتے تھے ،جس پر زیاد غضبناک ہوگیا اور حجر
کو روکنا چاہا اور حجر اور ان کے تیرہ ساتھیوں کو گرفتاوی کا کہا چنانچہ ان تمام کو معاویہ کے
پاس بھیج دیا گیا ،جن میں سے چھ کے بارے میں ان کے قبائل نے سفارش کرکے چھڑوادیا اور
باقی آٹھ جن میں حجر تھے ان کو معاویہ نے مقام عذرا جو دمشق کا ایک قریہ تھا وہاں قتل کروایا،
ہللا ان تمام سے راضی ہو ،اور حجر تمام لوگوں میں دین اور نماز کے معاملہ میں بلند ترین تھے،
اور عائشہ نے حجر کی شفارش کے لئےایک قاصد کو بھیجا تھا جو حجر کے قتل کے بعد وہاں
پہنچا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-12715#page-174
تبصرہ :ہللا کی رحمت واسعہ ہو حجر بن عدی اور ان کے اصحاب پر جو معاویہ جابر کے حکم
سے امیر المؤمنین ع کی محبت میں شہید ہوئے ،خدایا ہم تمام کا خاتمہ مثل حجر بن عدی امیر
المؤمنین ع کے چاہنے والوں اور معاویہ اور دیگر دشمنان اہلبیت کی برات سے کر۔
Khair Talab
اور باقی جہاں تک محمد بن ابی بکر تو ان کے قتل ہونے کی وجہ بھی ان کا طاغوت سے برات
اختیار کرنا اور امیر المؤمنین ع کی طرف سے مصر کا گورنر ہونا تھا۔ ابو نعیم اصفہانی فرماتے
ہے:
محمد بن ابی بکر خالفت علی بن ابی طالب کے زمانے میں مصر میں جالئے گئے ،جب وہ جالئے
گئے تو امیر المؤمنین ع نے محمد بن ابی بکر کے اوپر شدید افسوس و جزع کی ،اور کہا کہ میں
اس کو اپنا ایک بیٹا سمجھتا تھا ،اور یہ میرا بھائی اور میرا بھائی کا بیٹا تھا ،اور ہللا کے ہاں اس کا
حساب پائیں گے ،اور محمد کی والدہ امیر المؤمنین ع کی بیوی تھی ،اور محمد کو امیر المومنین ع
نے پال تھا اور اپنے گھر میں محمد کی تربیت کی تھی ،اور پھر مصر کا گورنر بنایا اور وہی وہ
امیر المؤمنین ع کی خالفت میں قتل ہوا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-10490#page-684
وكان على ـ رضى ہللا عنه ـ یثنى علیه ویفضله؛ ْلنه كان ذا عبادة واجتھاد .ووالہ مصر ،فسار إلیه
عمرو بن العاص رضى ہللا عنه ،واقتتلوا ،فانھزم محمد بن أبى بكر ،ودخل خربة فیھا حمار میت،
ودخل جوف الحمار ،فأحرق فى جوفه وقتل قبل تأمر عمر بن العاص .وقیل :قتله معاویة بن خدیج فى
المعركة صبرا .ثم أحرق فى جوف حمار.
اور امیر المؤمنین محمد بن ابی بکر کی بہت تعریف کیا کرتے تھے اور دوسروں پر فضیلت دیتے
تھے ،کیونکہ وہ بہت زیادہ عبادت گذار اور کوشش کرنے والے تھے ،امیر المؤمنین ع نے ان کو
مصر کو گورنر بایا ،پھر عمرو بن عاص رضی ہللا عنہ نے ان پر چڑھائی کی اور دونوں میں
معرکہ ہوا ،جس میں محمد شکست کھاگئے اور ایک جگہ داخل ہوئے جہاں مرا ہوا گدھا پڑا تھا اور
اس میں گدھے کی کھال کے اندر داخل ہوگئے ،چنانچہ ان کو اس ہی کھال کے اندر جالدیا گیا اور
ان کا قتل عمرو بن عاص کے کہنے کے اوپر ہوا اور کہا جاتا ے کہ معاویہ بن خدیج نے معرکہ میں
بے رحمی سے قتل کیا ،اور پھر ان کی نعش کو گدھے کی کھال میں جالدیا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-20989#page-625
تبصرہ :چنانچہ ان کا قتل چونکہ ان کی مالزمت اور گورنر ہونے کے ناطے ہوا تو اس کا محرک
اساسی ان کا امیر المؤمنین ع کا خاص چاہنے ہونے واال ہے اور اس سے معاویہ کی رضامندی
ہونے بھی واضح ہے۔
Khair Talab
ب علی کے دشمن تھے تو سب سے حسنین کریمین ،ابن عباس وغیرہ (فخر :اگر معاویہ رض اصحا ِ
کو قتل کرواتے ،حکومت و طاقت ان کے ھاتھ میں تھی کون تھا روکنے واال ؟
ب علی کو چن چن کر قتل ،3آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ معاویہ رض ایسے ظالم تھے کہ اصحا ِ
کروایا ،تو پہر سعد رض کو کیسے چھوڑ دیا جو ان کے سامنے علی رض کے فضائل بیان کرتے
رھے اور زندہ بچ گئے؟
آپ کے ایک بات دوسری بات کا رد کررھی ھوتی ھے.
اور بھی بھیجیں ایسی باتیں)
جواب :محترم فخر الزماں صاحب میرے ذمہ میں اثبات جزئیہ ہے کہ معاویہ نے امیر المؤمنین ع
کے ساتھیوں کو قتل کروا یا۔۔ اب اس پر یہ کہنا کہ باقیوں کو کیوں چھوڑا تو کہا جائے گا اس طرح
تو کسی ظالم کے ظلم کا اثبات ہی ممکن نہ ہو۔۔ یہ عجیب منطق الئیں ہیں۔۔ ہم کہتے ہیں صیہونی
ریاست مسلمانوں اور عربوں کی دشمن ہے اور ہم اس امر کے اثبات میں وہ تمام مظالم کی کہانیاں
الئیں جو اسر ائیل (صیہونی ریاست) نے مسلمانوں کے خالف کئے ہیں تو اس کے جواب میں کوئی
محترم فخر الزماں والی دلیل الئے اور کہے کہ اگر ہمیں مسلمانوں اور عربوں سے اتنی نفرت ہوتی
تو پھر بھال ہمارے (مغصوبہ) ملک میں اتنے سارے عرب اور مسلمان کیوں رہتے ہیں تو ادھر آپ
ہوتے تو آپ فورا خاموش ہوجاتے کہ ہاں اگر اسرائیل مسلمانوں اور عرب سے دشمنی کرتا تو
سارے مسلمان ہی کو ختم کردیتا۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل کا مجرد بعض واقعات میں اسالم اور
عرب دشمنی دیکھانا کافی ہے اس بات کے ثبوت میں کہ صیہونی ریاست اسالم ،مسلمانوں اور
عربوں کی دشمن ہے۔ یہی بات معاویہ کے لئے کی جائے گی کہ معاویہ کا امیرالمؤمنین ع کے
بعض ساتھیوں کو مارنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معاویہ امیر المؤمنین ع ،ان سے وابستہ افراد
اور ان کے چاہنے والوں سے بغض رکھتا تھا۔
Khair Talab
ناظرین اس ضمن میں ہم نے ان علماء کے عالوہ جنہوں نے صحیح مسلم کی روایت کی ذیل میں کہا
تھا کہ معاویہ نے سعد کو حکم سب دیا ،ان علماء کا بھی ذکر کیا جو کہتے ہیں معاویہ کے دور اور
اموی دور میں سب ہوا کرتا تھا۔
آئے ان علماء کے نام پیش کرتے ہیں اور پھر جملہ اشکاالت کے ردود۔
الف ،شبلی نعمانی :حدیثوں کی تدوین بنو امیہ کے زمانہ میں ہوئی جنہوں نے پورے ٩٠برس تک
سندھ سے ایشیائے کوچک اور اندلس تک مساجد جامع میں آپ فاطمہ کی توہین کی اور جمعہ میں
سر منبر حضرت علی رض پر لعن کہلوایا ،سینکڑوں حدیثیں امیر معاویہ وغیرہ کے فضائل میں
بنوائیں (اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا اور ٩٠برس کی حکومت میں معاویہ کی بھی اتی ہے)
ب ،زاھد کوثری :اس میں کوئی شک نہیں کہ بنو امیہ کے خلفاء حضرت علی کرم ہللا وجھہ پر
منبروں پر لعنت کرتے تھے ،خدا انہیں رسوا کرے یہاں تک حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ہللا
عنہ نے اس کو ختم کروایا۔ (اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا)
پ ،صاحب تاریخ ملت :عرصہ سے یہ دستور چال آرہا تھا کہ خلفاء بنی امیہ اور ان کے عمال
خطبوں میں حضرت علی رض پر لعن و طعن کیا کرتے تھے (اس پر بھی اعتراض نہیں ہوا)
Khair Talab
اب جن دو پر اعتراض ہوا ہے آئے ان کو نقل کرتے ہیں اور اشکاالت کے جوابات دیتے ہیں۔
ابن حزم :بنو عباس نے کسی بھی صحابی (خدا کی رضوان ہوں ان پر) پر سب نہیں کیا بنو امیہ کے
برخالف جنہوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر لعنت کا طریقہ اپنایا ،اور ان
کی پاک اوالد بنی زھراء پر بھی لعنت کی ،اور تمام بنو امیہ ایسے تھے ماسوائے عمر بن عبدالعزیز
اور یزید بن ولید کے (خدا کی رحمت ہو ان دونوں پر) ،کہ ان دونوں نے اس لعن کی اجازت نہیں
دی۔
(فخر :میرے بھولے پن پر نھیں آپ کے بھولے پن پر مسکرانا چاہیے .وہ اس طرح کے آپ نے ایک
کلیہ بنایا کہ عمر بن عبدالعزیز رح اور یزید بن ولید کے عالوہ سارے اموی خلفاء سیدنا علی رض
پر لعنتیں دیتے تھے.
اس طرح آپ نے سیدنا معاویہ رض کو بھی شامل کیا.
جواب:
محترم فخر الزماں صاحب۔۔ دیکھئے جب اموی خلفاء کی بات کی جاتی ہے تو وہ اس سیاق میں ہوتی
ہے کہ ان کی پوری سلطنت اور پے درپے آنے کا سلسلہ معاویہ بن ابی سفیان سے شروع ہوا اور
اس سے پہلے چار خلفاء مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے بنو تیم ،بنو عدی ،بنو امیہ اور بنو
ہاشم۔ ان میں جب اموی خلفاء کی بات کی جاتی ہے تو غالبا اور اجماال معاویہ سے شروع کیا جاتا
ہے۔ دیکھئے خود جو ابن حزم کی ترتیب ہے وہ بھی اس ہی کے پیش نظر ہے۔
Khair Talab
باقی دوسرا جواب ہمارا یہ ہے کہ خود ابن حزم جب امویوں کی ایک بدعت کا ذکر کرتے ہیں تو
کہتے ہیں:
ومنھا -ما أحدث بنو أمیة من تأخیر الصالة ،وإحداث اْلذان واْلقامة ،وتقدیم الخطبة قبل الصالة
اور امویوں (یعنی بنو امیہ) نے ایک بدعت کو شروع کیا کہ نماز کو تاخیر کرتے ،اور اذان و اقامت
کی بدعت کو انجام دیا ،اور خطبہ کو نماز سے پہلے قرار دینے کی بدعت انجام دی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-767#page-1102
اب میں سوال کرتا ہوں کہ کیا ابن حزم عثمان کو بھی بنو امیہ میں شمار کررہے تھے یا نہیں تو آپ
جواب میں کہیں گے کہ نہیں عثمان نہیں بلکہ بنو امیہ کی سلطنت اور پے درپے آنے والے خلفاء کی
بات تھی۔
حدثنا وكیع حدثنا ھشام الدستوائي عن قتادة عن اب ن المسیب قال :أول من أحدث اْلذان في العیدین
معاویة .
ابن مسیب کہتے ہے کہ سب سے پہلے جس نے عیدین میں آذان کو انجام دیا وہ معاویہ تھا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9944#page-40394
ب ،معاویہ نے خطبہ نماز کو نماز عیدین سے پہلے قرار دینے کی بدعات انجام دی
وروى عبد الرزاق عن بن جریج عن الزھري قال أول من أحدث الخطبة قبل الصالة في العید معاویة
زھری کہتے کہ سب سے پہلے جس نے نماز سے قبل خطبہ کی بدعت کو انجام دیا عید میں وہ
معاویہ تھا
http://islamport.com/d/1/srh/1/48/1697.html
Khair Talab
چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکال کہ نماز بھی تاخیر سے ہوئی اور خطبہ پہلے۔ جب پتا لگ گیا کہ بنو امیہ
نے یہ بدعت کو شروع کیا تو اب واپس ابن حزم کے کالم کی طرف رجوع کرتے ہے تو وہ اس کی
وجہ بتاتے ہیں اگلے صفحہ پر بایں:
بأن الناس كانوا إذا صلوا تركوھم ولم یشھدوا الخطبة ،وذلك ْلنھم كانوا یلعنون علي بن أبي طالب
رضي ہللا عنه
لوگ جب نماز پڑھتے تھے تو وہ ما بعد چلے جات تھے اور خطبہ میں نہیں بیٹھتے تھے ،اس کی
وجہ یہ تھی کہ وہ حضرات (یعنی بنو امیہ) حضرت علی بن ابی طالب رض پر لعنت کیا کرتے تھے
http://shamela.ws/browse.php/book-767#page-1103
تو چلئے اس میں تو شائبہ احتمال آپ لے آئے جب کہ اس کا جواب بھی دیا جاچکا ہے لیکن اس بات
کا کیا جواب دیں گے ،عبارت وہی ابن حزم کی ہی ہے اور داللت واضح ہے۔
چلئے اب آپ کا یہ کہنا کہ عثمان بھی اموی تھے تو کیا وہ بھی سب و شتم سے کام لیتے تھے تو ہم
جواب میں کہیں بیشک عثمان نے بھی موالئے کائنات امیر المؤمنین ع کو برا بھال کہا ہے ،تفصیل
مالحظہ ہو
محترم فخر الزماں کی خدمت میں عرض کروں کہ خود آپ کے تیسرے خلیفہ نے بھی امیر المؤمنین
ع پر سب کیا ہے ،چنانچہ ابن حجر عسقالنی اور بوصیری اپنی کتب میں اسحاق بن راھویہ کے
حوالہ سے نقل کرتے ہے:
قال إسحاق :أخبرنا المعتمر بن سلیمان ،قال :سمعت أبي یقول أنبأنا أبو نضرة ،عن أبي سعید مولى
أبي أسید وھو مالك بن ربیعة قال :إن عثمان بن عفان رضي ہللا عنه « :نھى عن العمرة في أشھر الحج
أو عن التمتع بالعمرة إلى الحج » ،فأھل بھا علي مكانه فنزل عثمان رضي ہللا عنه عن المنبر فأخذ شیئا
فمشى به إلى علي رضي ہللا عنه ،فقام طلحة والزبیر رضي ہللا عنھما فانتزعاہ منه فمشى إلى علي
رضي ہللا عنه فكاد أن ینخس عینه بإصبعه ویقول له :إنك لضال مضل وال یرد علي رضي ہللا عنه
علیه شیئا
(امیر المؤمنین اور عثمان میں ایک مسئلہ پر اختالف واقع ہوا جس کی تفصیل کتب مطول اور
احادیث کی کتب میں ہے اور اس کا بیان فی الحال موضوع سے خارج ہے)۔۔ عثمان نے امیر
المؤمنین ع کے حق میں کہا تم گمراہ ہو اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہو جس پر امیر المؤمنین ع
نے کوئی جواب نہیں دیا (ملخص)
حوالہ :المطالب العالیة جلد ٦ص ٣٣٤اور إتحاف الخیرة المھرة بزوائد المسانید العشرة جلد ٥ص
٦٦
http://islamport.com/w/ajz/Web/1430/2834.htm
http://shamela.ws/browse.php/book-21765/page-2331#page-2031
تبصرہ :یہ روایت محتاج تشریح نہیں اور محترم فخر الزماں کا کہنا کہ اس کا عثمان اس سے مستثنی
ہیں غلط ہے کیونکہ عثمان بھی اس لسٹ والے آدمی ہے جو امیر المؤمنین ع پر سخت الفاظ کرتے
تھے۔۔ یاد رہے کہ ہماری تحقیق کے مطابق روایت کے راویان ثقہ ہیں۔
Khair Talab
ابن حجر کی عبارت :اس کے بعد امیر المؤمنین کا معاملہ (کچھ یوں بیٹھا) کہ ایک گروہ نے امیر
المؤمنین ع سے جنگ کی اور پ ھر معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگیا کہ اس لڑنے والے گروہ (اشارہ
قوم معاویہ کی طرف) امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرنے لگے اور ان پر منبروں پر لعنت کو طریقہ
بنالیا اور خوارج نے اس بغض علی میں ان حضرات کی موافقت کی
(فخر :آپ یھاں بھی غلط ترجمے پر بنیاد رکھ رھے ھیں.
یہ ترجمہ کرتے ہیں
"لڑنے والے گروہ نے تنقیص کی"
اور اس سے آپ ھر لڑنے والے کا تنقیص کرنا کیسے سمجھ رھے ھیں کہ جس جس نے جنگ کی
اس نے تنقیص بھی کی ؟؟
حاربوہ اور تنقصوہ کا ضمیر طائفۃ اخری کی طرف لوٹ رھا ھے ،یعنی وہ ایک خاص ٹوال جس
نے جنگ بھی کی اور تنقیص بھی کی.
آور جناب یہ سمجھ بیٹھے کہ ھر جنگ کرنے والے نے علی رض کی تنقیص کی ،ایسا نھیں.
، 3اگر آپ واال مطلب مراد لیں بھی تب بھی معاویہ رض کا گالی دینا ثابت نھیں ھوتا ،کیونکہ اگر
جنگ کرنے والوں میں سے چند نے یہ حرکت کی تب بھی یھی کھا جائے گا کہ جنگ کرنے والوں
نے گالیاں دیں.
تو یھاں بھی آپ کی بات نھیں بنتی.
، 4جنگ کرنے والوں میں تو عقیل بن ابی طالب رض بھی تھے جو صفین میں معاویہ رض کے
ساتھ تھے ،تو کیا انھوں نے بھی علی رضی کو گالیاں دیں)
جواب:
محترم میرا ترجمہ لڑنے والے صحیح ہے کیونکہ عبارت ابن حجر یوں ہے:
.ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ،ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على
المنابر سنة
ادھر میں نے لڑنے والے جو ترجمہ کیا وہ بشکل مھملہ کیا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ مھملہ کا
اطالق کلی اور جزئی دونوں پر ممکن ہے اور عموما مناطقہ اس کا اطالق جزئی پر ہی کرتے ہیں
مگر یہ کہ قرینہ صارفہ کلی پر کرنے کے لئے موجود ہو۔ اب بتائے کہ اتنی بڑی تقریر کا کیا فائدہ
ہوا جب لڑنے والوں کی طرف سے ثابت ہے جن کی موافقت ما بعد خوارج نے کی تو دو ہی
صورتیں نکلتی ہیں پہال گروہ اہل جمل کا اور دوسرا اہل شام یعنی معاویہ کی فوج کا تو چونکہ بحث
دوسرے گروہ کے عنوان سے ہے اور اس گروہ نے ہی منبروں پر سے لعنتیں کیں تو بات ثابت
ہوگئی۔۔ آپ کا یہ کہنا کہ باقی لوگوں کا گالیاں دینے سے معاویہ کا جرم ثابت نہیں ہوتا تو اس پر دو
نقض ہیں ،،اصالت معاویہ کے سب پر ہی رکھی جائے گی کیونکہ وہ حکمران تھا اور منبروں پر
لعنت کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ جب منبر پر لعنت کا ذکر موجود ہے تو اس کا اطالق عام بندوں
سے کرنا حماقت ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جب بات منبروں کی ہے تو اس زمانہ میں خلیفہ کی
طرف سے ہی گورنر ہوتے تھے اور وہ گورنر جب لعن وغیرہ کرتے تھے تو یہ ممکن نہیں کہ اس
کی خبر خلیفہ کو نہ ہو اور وہ اس کا نوٹس نہ لے۔ منبر کا ذکر بتاتا ہے کہ اس کو کرنے والے عام
افراد نہیں بلکہ اہل شام کے سرخیل حضرات تھے جس میں معاویہ سب سے سرفہرست تھا۔
باقی عقیل نے جنگ کی یا نہیں اس پر بحث آگے آئے گی ،اگر بالفرض (فرض محال محال نباشد کی
طرح) عقیل نے جنگ کی اور اس فعل قبیح کو انجام دیا تو ہمارا اصول یہاں بھی نہیں ٹوٹے گا بلکہ
عقیل مجروح و مذموم ثابت ہوں گے نہ کہ ہمارے اصول پر زد آئے گی۔
Khair Talab
اور آخر میں ،میں ایک مزید عالم کے نام ہدیہ کرتا ہوں اور یوں کل مال کر تعداد اس لسٹ میں چھ
ہوجائے گی۔
مورخ ابو الفدا۔ یہ اپنی مشہور آفاق تاریخ میں کہتے ہے:
وكان معاویة وعماله یدعون لعثمان في الخطبة یوم الجمعة ،ویسبون علیاً ،ویقعون فیه،
معاویہ اور اس کے گورنر جمعہ کے خطبوں میں عثمان کے لئے دعائے خیر کرتے اور علی ع پر
سب کرتے اور علی ع کی برائی کرتے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-12715#page-174
Khair Talab
(فخر:
شیعہ مؤرخ مسعودی کی ھی بات پڑھ لیں
و فی سنۃ اثنتی عشرة و مائتین نادی منادی المأمون برئت الذمۃ من احد من الناس ذکر معاویۃ بخیر او
قدمہ علی احد من أصحاب رسول ہللا...
مروج الذھب للمسعودی ج 4ص 34
سنہ 212ھجری میں خلیفہ مامون کے منادی نے اس سے براءة ذمہ کی ندا لگائی جو معاویہ رض
کا ذکر خیر کے ساتھ کرے یا ان کو کسی صحابی سے شان کے اعتبار سے مقدم کرے.
archive.org/stream/Meroujzahab/MRJ04#page/n33/mode/1up
تو میں بھی کھہ سکتا ہوں کہ آپ یا باقی شیعہ جو سیدنا معاویہ رض کی تنقیص کرتے ہیں وہ اس
دور کی گھڑی گئی جھوٹی روایات میں سے ھیں)
جواب:
محترم فخر الزماں نے جو مروج الذھب سے عبارت نقل کی ہے۔ تو اس پر دو جوابات ہیں
پہلی بات کہ مامون کا تعلق مذھب شیعہ سے نہیں بلکہ ہم تو اس کو امام رضا ع کا قاتل تصور
کرتے ہیں۔۔ علی کل حال یہ ایسا شخص نہیں جس کا حکم ہم پر حجت ہو۔ بلکہ اہلسنت کے ہاں تو یہ
اچھا شخص ہے۔۔ دیکھئے سیر اعالم النبالء اور تاریخ الخلفاء للسیوطی دیکھئے۔
دیکھئے عالمہ ذھبی نے خلق قرآن کے مسئلہ پر ان کی خبر تو لی لیکن بایں ہمہ ان کی بہت تعریف
کی اور مامون کو کافی سارے اچھائیوں کا حامل کہا ،دیکھئے یہ قول:
وكان من رجال بني العباس حزما وعزما ورأیا وعقال وھیبة وحلما ،ومحاسنه كثیرة في الجملة .
http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-6522
اور سیوطی بھی یہی کہتے کہ ماسوائے خلق قرآن کے مسئلہ مامون کافی خوبیوں کا حامل تھا:
وكان أفضل رجال بني العباس حز ًما ،وعز ًما ،وحل ًما ،وعل ًما ،ورأیًّا ،ودھاء ،وھیبة ،وشجاعة ،وسؤددًا،
وسماحة ،وله محاسن وسیرة طویلة لوال ما أتاہ من محنة الناس في القول بخلق القرآن ،ولم ی ِل الخالفة
مفوھًا
من بني العباس أعلم منه ،وكان فصی ًحا ّ
http://shamela.ws/browse.php/book-11997#page-250
تبصرہ :ہم مامون پر بھی لعنت کرتے ہیں اور اس اموی پر بھی۔
دوسری بات جو ہماری مستدل روایت ہے وہ آپ ثابت تو کریں کہ بنو عباس کے اس دور کی تخلیق
ہے۔ یہ میں اطمینان سے کہہ رہا ہوں کہ میری مستدل دالئل کو ہرگز اس دور کی پیدوار قرار نہیں
دے سکتے۔۔
Khair Talab
ناظرین اس روایت کا بے سند ہونا تو ہم بتا چکے ہیں ،اب ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ ثابت کرتے کہ یہ
روایت قابل استدالل ہے لیکن ایسا کچھ نہ کیا۔۔ ہم نے مزید ثابت کیا کہ خود ان کے علماء با سند
روایات سے استدالل اور تصحیح کرتے ہیں تو کیا میں خود ان کو ملزم بناسکتا ہوں اور اس سلسلے
میں ہم نے کچھ علماء کے اقوال نقل کئے مثل
ابن خزیمہ ،نووی ،ابو الحسن سندھی ،امیر یمانی ،شوکانی ،ابن حجر جس میں انہوں نے سینے پر
ہاتھ باندھنی والی روایت کو صحیح کہا تھا اور مستدل سمجھا تھا لیکن محترم کہنے لگے:
(فخر:آپ کی سینے پر ھاتھ باندھنے والی روایت پر یہ ساری بحث بے سود اور وقت کا ضیاع ھے،
کیونکہ میں فقہی مسائل میں حنفی ھوں اور میرے لیے فقھی مسائل میں فقھاء احناف کے اقوال دلیل
بن سکتے ھے نہ کہ شوافع و حنابلہ وغیرہ کی.
اور ایک بات آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ بعد والے علماء جو بھی دالئل پیش کررھے
ھوتے ھیں وہ اپنے مجتھد کے اقوال کی تائید و تقویت کے لیے پیش کررھے ھوتے ھیں ،حقیقت
میں ان کا عمل اپنے امام کے اقوال پر ھوتا ھے) .
جواب :محترم تو ہم کب سے صاحب اصل و اصول الشیعہ کے مقلد ہوگئے۔ اگر یہی معبر اور میزان
ہے تو دونوں کے لئے برابر ہونا چاہئے ،جب آپ کے پانچ سے زائد علماء ،ان کی تصحیح آپ پر
حجت نہیں تو مجھے آپ ایک شیعہ عالم کے اجتہاد پر کیوں ملزم کررہے ہیں۔۔ زیادہ سے زیادہ کہا
جائے گا کہ وہ روایت کو صحیح سمجھتے ہوں (اگر مان بھی لیا جائے اس مفروضہ کو جو میں
نہیں مانتا) تو ان کا اجتہاد مجھ پر حجت کیسے؟ اگر وہ میرے مذھب کے عالم ہے تو کیا پانچ سے
زائد علماء آپ کے مذھب کے علماء نہیں؟ جو جواب ادھر وہی میرا ،میری کوئی دلیل نہیں ٹوٹی
ہے ،میں تو بار بار کہہ رہا ہوں کہ مجرد نقل روایت یا بقو فخر الزماں صاحب استدالل روایت
تصحیح پر داللت نہیں کرتا ،آپ اس کا جواب دیں۔ ورنہ کتنے ہی علماء نے کتنی روایات نقل کیں
اگر وہ دفتر کھل جائے تو پھر آپ کیا جواب دیں گے؟
( فخر :جناب اس بات کو میں بھی تسلیم کرتا ھوں کہ اگر کسی عالم کی بات کا رد آپ اس سے زیادہ
قوی اور وزنی دالئل سے کرتے ہیں تو ٹھیک ہے کوئی حرج نہیں ،لیکن ایسا ھو بھی تو صحیح.
یھاں آپ کے آل کاشف صاحب اپنا ایک نظریہ ثابت کرنے کے لیے روایت ال رھے ھیں کہ معاویہ
رض ایسا ویسا تھا ،اور آپ اس کی اس بات کو بے سند کھہ کر اس کے اس نظریہ کو باطل ٹھرا
رھے ھیں.
کیونکہ جب ان کی دلیل ھی بے سند تو ان کا نظریہ بھی باطل)
جواب :محترم تو بس بات ہی ختم ہوگئی ،میرا دعوی یہ ہے کہ یہ روایت جس کتاب سے نقل کی گئی
ہے ادھر اس کی سند نہیں اور بے سند روایات اگر دیگر طرق معتبرہ سے نہ ہوں تو وہ قابل قبول
نہیں ،ہمت کیجئے سند دیکھائے۔ اس میں یہ کہنے کی بات کہاں کہ میں فالں سے بڑا ہوگیا ہوں یا وہ
مجھ سے چھوٹا ہے ،آپ کے مذھب میں تو ابوحنیفہ کے اقوال کے خالف بھی فتاوی موجود ہیں جو
معمول بہ ہیں۔ تو کیا اب میں یہی بات آپ کے سامنے رکھوں کہ کیا آپ لوگ ابوحنیفہ سے بڑے
عالم ہوگئے ہیں ،ایسی باتیں تو جواب کے الئق بھی نہیں۔ لیکن خود اپنی حالت دیکھئے کہ سنن ابی
داود کی روایت جس کو علماء نے صحیح کہا ہے اس کو مضطرب کہہ دیا ،سنن ابن ماجہ کی
روایت جس کو علماء نے صحیح کہا ہے اس پر جرح کردی ،ابن جوزی کو پروپینگنڈے کا شکار
کہہ دیا ،وہاں یہ تمام باتیں صحیح ہیں لیکن خیر طلب کرے تو وہ حرام ،واہ کیا معیار ہے؟
Khair Talab
( کسی مذھب کے نمائندے کی اپنے مذھب کی نمائندگی میں لکھی گئی کتاب بالکل اس مذھب کے
لوگوں کے لیے دلیل بن سکتی ہے جیسا کہ اصل و اصول الشیعہ کتاب ھے ،ھاں اگر اس میں کوئی
ایسی بات ھو جو مذھب کی کتب معتبرہ کے خالف ھو تو اس کو دالئل سے رد کیا جاسکتا ہے.
لیکن آپ سے پہلے بھی کسی شیعہ م عتبر عالم نے آل کاشف صاحب کی اس بات کا رد کھیں کیا
ھے؟ یا خیر طلب صاحب ان سے بھی بڑے مجتھد ھوگئے ھیں کہ ان کے دالئل کا رد کررھے ھیں)
جواب :محترم آل کاشف الغطاء متاخر عالم ہے۔۔ اور ان کی نقل کردہ روایات ان سے اس وقت ہٹ
جاتی ہے جب انہوں نے اس کا مصدر دے دیا ،اب محققین کا کام ہے مصدر کی تحقیق کریں اور
خود فیصلہ کریں۔ یہ جو خود جعلی معیار بنایا ہے ذرا اس کی دلیل بھی دیجئے۔ خیر طلب کے
اجتہاد کو چھوڑ دیجئے اپنی فکر کیجئے۔ یہ معاملہ ہم خود گھر میں طے کرلیں ،آپ ہمارے سواالت
کے جوابات دیجئے۔ ابھی تک مجھے سند نہیں دی ہے ،جلدی سے سند دیجئے ورنہ کل سے سینے
پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھئے۔
(جناب اھل علم کے شایان شان یہ بات بھی نھیں کہ وہ عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے
مطلب کی بات ھی نقل کردے .اور یہ آپ کئی بار کر چکے ہیں.
بہرحال ،یہ تو آپ نے اپنے مجتھد کے مستدل کو بے سند کھہ کر ھم کو کھنے کا موقعہ دیا.
، 2آپ کے شیخ بھلے سنی و شیعہ سے مخاطب ھوں ،لیکن یہ ثابت تو وہ اپنا مذھب اور نظریات ھی
کررھے ھیں نہ؟
اور اس کے لیے بے سند روایات کا سھارا لے کر عوام کو دھوکا کیوں دے رھے ھیں ؟
،3میں نے یہ بات واضح طور پر لکھی ھے کہ آپ کے مجتھد صاحب نے اپنے نظریے کو ثابت
کرنے کے لیے یہ روایت پیش کی ھے ،اور آپ مطلقا ً روایت نقل کرنے کی بحث بیچ میں ال کر کنز
العمال کی مثال دے کر خلط مبحث کرنے کی کوشش کررہے ہیں.
آپ دوسروں کے ساتھ اس طرح کی کوششیں کرچکے ھونگے یہ اصل بات سے بات ھٹا کر دوسری
بات چھیڑ دی لیکن مجھ سے اس طرح کا طریقہ آئند اختیار مت کریں)
جواب :محترم اول تو مجھے آپ کی شق ہی منظور نہیں کہ وہ مستقل دلیل الئے تھے صرف ان بے
سند روایات کو نقل کرکے ،پہلے اس کا اثبات کیجئے ،اور جو آپ عوام کو دھوکہ کہہ رہے ہیں تو
میں اب الزامی جواب دے کر بتاتا ہوں کون بے سند اور موضوع روایات سے استدالل کرکے اور
اس کو بخاری کی روایات کہہ کر آپ کی بدزبانی کے مطابق عوام کو دھوکہ دے رہا ہے۔
محترم فخر الزماں صاحب کے پیش خدمت ہے کہ ان کے علماء نے موضوع کہا ہے لیکن آپ کے
علماء اس سے ا ستدالل کرتے ہیں۔۔ چنانچہ ایسی صورت میں دو ہی باتیں ہوسکتیں ہیں ،١ایک کا
اجتہاد دوسرے کو ملزم نہیں کرتا چنانچہ جن کے نزدیک موضوع ہے ان کا اجتہاد دوسرے کو ملزم
نہیں کرے گا جن کے نزدیک وہ قابل استدالل ہوں ،٢آپ کی منطق کے تحت جس شخص نے اس
سے استدالل کیا ہے ا س کو مورد الزام قرار دیا جائے گا۔ (یہ دونوں صورتیں اس بات کو ذھن میں
رکھتے ہوئے کہ آپ کی نقل کردہ عبارت اس پر فٹ بیٹھتی ہو)۔
Khair Talab
اب دیکھئے روایت یہ ہے کہ جو حدیث کتاب خدا کے موافق ہو اس کو قبول کرو اور جو مخالف ہو
اس سے اعراض کرو۔
جن علماء نے اس سے استدالل کیا ہے (اور آپ کے منھج کے تحت استدالل تصحیح پر دال ہے)
س َالم إِذا ُر ِو َ
ي لكم عني َحدِیث فاعرضوہ على كتاب فَعرفنَا أَن نسخ ْالكتاب َال یجوز ِبالسن ِة َوقَا َل َ
علَ ْی ِه ال ه
ہللا فَ َما َوافق كتاب ہللا فاقبلوہ َو َما خَالف كتاب ہللا فَردُّوہُ
پس ہم جان گئے کہ کتاب خدا کا نسخ سنت سے جائز نہیں کیونکہ رسول ص نے فرمایا کہ جب
تمہارے پاس میری نقل کردہ حدیث آئے تو کتاب خدا پر پیش کرو جو موافق کتاب خدا ہو اس کو
قبول کرو اور جو کتاب خدا کے خالف ہو اس کو رد کرو۔
http://shamela.ws/browse.php/book-6301#page-439
اور اس بات پر رسول ص کا قول داللت کرتا ہے کہ جب میری نقل کردہ حدیث آئے تو کتاب خدا پر
پیش کرو جو موافق کتاب خدا ہو اس کو قبول کرو اور جو کتاب خدا کے خالف ہو اس کو رد کرو۔
فأما إذا خالف واحدًا من ھذہ اْلصول القاطعة ،فإنه یجب ردہ أو تأویله على وجه یجمع بینھما ،لما روي
عن رسول ہللا -صلى ہللا علیه وسلم -أنه قال" :إذا روي لكم عني حدیث فاعرضوہ على كتاب ہللا تعالى
فما وافق كتاب ہللا تعالى فاقبلوہ ،وما خالف كتاب ہللا تعالى فردوہ"
http://shamela.ws/browse.php/book-19237#page-462
ب ه
َّللاِ علَى ِكت َا ِ
ضوہُ َ ع ِنّي َحد ٌ
ِیث فَاع ِْر ُ ي لَكُ ْم َ
ِیث ِم ْن بَ ْعدِي فَإِذَا ُر ِو َ س َال ُم « -یَ ْكث ُ ُر لَكُ ْم ْاْل َ َحاد ُ
علَ ْی ِه ال ه
فَ ِلقَ ْو ِل ِهَ - :
َاب ه ِ
َّللا ف ِكت َ علَى أ َ هن كُ هل َحدِی ٍ
ث یُخَا ِل ُ ف فَ ُردُّو ُہ» فَدَ هل َھذَا ْال َحد ُ
ِیث َ َّللا فَا ْق َبلُوہَُ ،و َما خَالَ َ ت َ َعالَى فَ َما َوافَقَ ِكت َ
َاب ه ِ
س َال ُم َ ،-و ِإنه َما ھ َُو ُم ْفت ًَرى
علَ ْی ِه ال ه
الرسُو ِل َ - ث ه ْس بِ َحدِی ِ فَإِنههُ لَی َ
اور رسول ص کا قول کہ میرے بعد کافی ساری احادیث تمہارے سامنے آئیں گی (منقول روایات)
لہذا جب تمہارے پاس میری نقل کردہ حدیث آئے تو کتاب خدا پر پیش کرو جو موافق کتاب خدا ہو
اس کو قبول کرو اور جو کتاب خدا کے خالف ہو اس کو رد کرو۔ چنانچہ یہ حدیث داللت کرتی ہے
کہ ہر وہ منقول حدیث جو کتاب خدا کے مخالف ہو وہ درحقیقت رسول ص کی حدیث نہیں بلکہ
جھوٹ گھڑی ہوئی ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9508#page-448
http://shamela.ws/browse.php/book-6302#page-115
مزیدار بات یہ ہے کہ اصول الشاشی کی ایک شرح احسن الحواشی اس کے ص ٧٦پر تو اس حدیث
پر وضع کے حکم کو یوں رفع کیا گیا کہ یہ روایت بخاری میں موجود ہے۔ (مالحظہ ہو احسن
الحواشی ص )٧٦۔۔
http://ia800209.us.archive.org/32/items/waqosah/osah.pdf
Khair Talab
بہرحال اس بحث میں جائے بغیر کیا بالفعل روایت بخاری میں ہے یا نہیں۔۔ اتنا پتا چال کہ بعض
اصولیی ن اس کو قابل استدالل سمجھتے ہیں اور آپ کے قاعدہ کے تحت استدالل صحت پر دال ہے۔
لیکن اب میں بتاتا ہوں کہ اس روایت کو موضوع اور زندیق کی پیداوار کس نے کہا
، ١عالمہ شھاب الدین مالکی اپنے اصول کی کتاب میں کہتے ہے:
حدیث(( :إذا ُروي لكم عني حدیث فاعرضوہ على كتاب ہللا ،فإن وافقه فاقبلوہ وإن خالفه فردوہ)) .ھذا
الحدیث وضعته الزنادقة
اور یہ منقول حدیث :جو روایت مجھ سے نقل کی جائے اس کو کتاب خدا پر پیش کرو اگر موافق ہو
تو قبول کرو اور جو مخالف ہو اس کو رد کرو۔ یہ حدیث زنادقہ نے گھڑی ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9879#page-158
وأما ما رواہ بعضھم أنه قال إذا جاءكم الحدیث فاعرضوہ على كتاب ہللا فإن وافقه فخذوہ وإن خالفه
فدعوہ فإنه حدیث باطل ال أصل له .وقد حكى زكریا بن یحیى الساجي عن یحیى بن معین أنه قال ھذا
حدیث وضعته الزنادقة.
اور یہ جو بعض روایت نقل کرتے ہیں کہ :جو روایت مجھ سے نقل کی جائے اس کو کتاب خدا پر
پیش کرو اگر موافق ہو تو قبول کرو اور جو مخالف ہو اس کو چھوڑ دو تو یہ حدیث باطل ہے جس
کی کوئی اصل نہیں۔ او ر ساجی نے ابن معین سے نقل کیا کہ ابن معین کے مطابق یہ حدیث زندیقوں
نے گھڑی ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-1442#page-1294
تبصرہ :ہمارے پاس اس ضمن میں موافق اور مخالف دیگر حوالے جات بھی ہیں لیکن بحث کی
تحلیل اور اثبات مطلب کے لئے یہ نقل کردہ حوالے جات اور نصوصات کافی رہیں گی۔ امید ہے کہ
اب دوبارہ وہی باتیں نہیں کریں گے جن کا جواب بار بار دیا جاچکا ہے۔
Khair Talab
محترم فخر الزماں دو روایات سے استدالل کرتے ہیں ،آئے اس کا جواب دیتے ہیں
(فخر41#:
اب زرا شیعہ کتب کی زیارت خیر طلب صاحب کو کرواتے ھیں کہ ان کا سیدنا معاویہ رض اور
اھل شام کے بارے میں جو نظریہ ھے وہ ان کے اماموں سے ملتا ھے کہ نھیں
شیعہ مذھب کی معتبر کتاب قرب االسناد میں ھے کہ
جعفر ،عن أبیه علیه السالم :أن علیا علیه السالم لم یكن ینسب أحدا من أھل حربه إلى الشرك وال إلى
النفاق ،ولكنه كان یقول " :ھم إخواننا بغوا علینا "
قرب االسناد ص 94
امام جعفر رح اپنے وا لد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رض نے جن سے بھی جنگ کی ان میں
سے کسی کی طرف بھی شرک اور نفاق کی نسبت نھیں کی ،یہ کھتے تھے کہ وہ ھمارے بھائی ھیں
ھم سے بغاوت کی ھے).
جواب:
اب اس روایت میں تین امور سے استدالل ممکن ہے
، ١شرک اور نفاق کی طرف انتساب کی طرف انتساب فعلی نہیں کیا
،٢اخوان کہا (یعنی بھائی کہا)
،٣بغاوت کا کہا۔
کسی کی طرف کفر اور نفاق کا اس وقت امساک کرنا اس بات پر داللت نہیں کہ حقیقت حال میں ان
کے کفر یا نفاق کی نفی کی جارہی ہے کیونکہ الفاظ روایت میں قول نہیں بلکہ عمل امیر المؤمنین
کی طرف اشارہ ہے:
لم یكن ینسب أحدا من اھل حربه إلى الشرك وال إلى النفاق
اور اس کے بعد قول کی طرف چنانچہ تطبیق کی صورت حال یہ ہے کہ ادھر عدم نسبت شرک و
نفاق کرنا اس بات پر داللت نہیں کہ حقیقت حال میں ایسا نہ ہو ،دیکھئے کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں
جن پر اپ مصلحت کے پیش نظر کوئی کمنٹ دینے سے پرہیز کرتے ہیں لیکن اس سے یہ بات الزم
نہین آتی کہ حقیقت حال میں وہ برائی ان میں نہ ہو بلکہ حفظ مراتب کے تحت انسان خاموش رہتا
ہے۔
یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ خوارج جہنم کے کتے ہیں اور ان کی عدم نجات پر کسی کو شک
نہی ں ،چنانچہ بعض اہلسنت خوارج کو کفار میں سے شمار کرتے اور بعض ان کو مسلمین لیکن
فاسقین میں سے چنانچہ ان کے بارے میں ہلکی سی ہلکی رائے یہ ہے کہ یہ فاسقین ہیں اور یہ
عذاب کے مستحق ہیں جو وعدہ کیا گیا
راوی کہتا ہے کہ میں علی ع کے پاس تھا اور میں نے اہل نہروان یعنی خوارج کے بارے میں
پوچھا کہ کیا وہ مشرک ہیں تو امیر ع نے کہو وہ شرک سے بھاگتے ہیں تو کہا کیا وہ منافق ہیں تو
امیر ع نے کہا کہ منافق خدا کا ذکر نہیں کرتے مگر کم (یعنی وہ نہ مشرک ہے اور نہ منافق) تو
پوچھا کہ وہ ہے کون کہا وہ ایک ایسا گروہ جس نے ہمارے خالف بغاوت کی
یہ روایت المصنف ابن ابی شیبہ می منقول ہے اور دیگر کتب میں بھی اور اس روایت کی کو محقق
کتاب شعیب ارنووط نے صحیح کہا ہے (مالحظہ ہو صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان حاشیہ جلد 15
ص )134
http://shamela.ws/browse.php/book-1729#page-9800
Khair Talab
چنانچہ ان کے فساق اور بعض کے نزدیک کافر ہونے کے باوجود ان کے بارے میں آپ لوگوں کے
ہاں امیر ع کے وہی الفاظ منقول ہیں جو قرب االسناد میں دیگر حضرات کے لئے ہیں ،جو جواب اس
روایت کا آپ دیں وہی ہمارا سمجھیں جب کہ یاد رہے کہ خوارج بہرحال مقدوح و باطل گروہ
ہے (دوسری روایت کے جواب میں خوارج کے بارے میں مزید تفصیالت آئیں گی)
اب آتے ہے دوسرے نکتہ کی طرف وہ ہے بھائی کہنا۔ تو بھائی کبھی معنی اخص میں آتا ہے کہ
ایمانی سلسلہ کی وجہ سے اور کبھی ایک قوم کی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔ قرآن مجید میں انبیاء
ع کو بھی کافر اقوام کا بھائی کہا گیا مالحظہ ہو کچھ آیات
غی ُْرہُ ۖ قَدْ َجا َءتْكُمعبُد ُوا ال هلـہَ َما لَكُم ِّم ْن ِإ َلـ ِٰ ٍہ َ ،٣اعراف َ :٧٥و ِإ َل ٰى َم ْدیَنَ أَخَاھُ ْم شُ َع ْیبًا ۖ قَا َل یَا قَ ْو ِم ا ْ
ص َال ِح َھا س أ َ ْشیَا َءھُ ْم َو َال ت ُ ْف ِسد ُوا فِي ْاْل َ ْر ِ
ض بَ ْعد َ إِ ْ بَیِّنَةٌ ِّمن هربِّكُ ْم ۖ فَأ َ ْوفُوا ْال َك ْی َل َو ْال ِمیزَ انَ َو َال ت َ ْب َخسُوا النها َ
ۖ ٰذَ ِلكُ ْم َخی ٌْر لهكُ ْم ِإن كُنتُم ُّمؤْ ِمنِینَ (اور َمدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ (تو) انہوں نے
کہا کہ قوم! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے
پروردگار کی طرف سے نشانی آچکی ہے تو تم ناپ تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ
دیا کرو۔ اور زمین میں اصالح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات
تمہارے حق میں بہتر ہے )
اسی طرح سورہ ہود ٥٠میں قوم عاد۔۔ہود ،سورہ ہود ٦١میں ثمود۔صالح ،سورہ ہود ٧٣میں
مدین۔۔شعیب ،سورہ نمل آیت ٤٥میں ثمود۔۔صالح ،سورہ عنکبوت آیت ٣٦میں مدین۔۔شعیب میں بھی
بھائی استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ بھائی ہونا ادھر ان آیات کی روشنی میں دیکھا جائے کیونکہ اگر بھائی
ہوکر بغاوت کی جائے تو پھر وسائل کے ہوتے ہوئے قتال ضروری ہوجاتا ہے اور باغی کے بارے
میں انشاء ہللا تفصیل آرہی ہے۔
Khair Talab
اب تیسرے مطلب کی طرف آتے ہیں کہ باغی ہونا اور یہ چیز خود حدیث صحیح سے ثابت ہے اور
اب بغاوت کے بارے میں کیا حکم ہے آئے۔۔ جو نصوص وارد ہوئیں ہیں اور جو سخت کالم باغیوں
کے بارے میں ہیں اگر سب کو نقل کیا جائے تو باعث طوالت ہوگا ،آئے ہم اختصار سے بعض چیز
نقل کئے دیتے ہیں
الف ،باغی کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھاؤ :ابو حنیفہ کا قول نووی نقل کرتے ہے:
ابوحنیفہ نے کہا کہ محارب (یعنی جو جنگ کرے) (مقتول) پر نماز نہیں پڑھنی ،اسی طرح باغی
گروہ کے مقتولوں پر نماز نہیں پڑھنی۔
http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-1459
ب ،باغیوں کے ہاتھ قتل ہونے والوں کو اس ہی لباس اور بغیر غسل کے دفن کیا جائے۔۔ یہ فقہی
مسئلہ بھی کتب اہلسنت میں موجود ہے کہ ان کے ساتھ شہداء حقیقی واال سلوک کیا جائے۔ یعنی وہ
شہید نہیں جو حکما شہید ہو لیکن حقیقتہ نہیں بلکہ ان کے ساتھ شہدا واال طریقہ اپنایا جائے۔ اور اس
میں ایک قول عمار بھی بطور دلیل نقل کیا جاتا ہے کہ میرے کپڑے مت اتارنا اور غسل کے ذریعہ
میرا خون صاف نہ کرنا۔ میں قیامت کے دن معاویہ سے ایسے مالقات کورں گا (بدائع الصنائع جلد ٣
ص )٣٦٢
د ،باغی امام حق کے خالف بغیر کسی وجہ حق کے خروج کرتا ہے :حنفی فقہ کی مشہور کتاب میں
یہ عبارت باغیوں کو بتانے کے لئے آئی ہے:
http://shamela.ws/browse.php/book-21613#page-2392
چنانچہ ان تمام تصریحات کے بعد باغی جو ایک مذمتی ٹرمنالوجی ہے اس بارے میں کوئی گنجائش
نہیں رہ جاتی ،اس سے بڑھ کر معاویہ کا باغی ہونا بھی حدیث عمار کے تحت گذر چکا ہے جس
میں عمار کو باغی گروہ قتل کرنے والی تصریح بھی موجود ہے۔ اب بتائے مجھے محترم کہ روایت
کا آخری حصہ تو مذمتی ہے یہ آپ کے حق میں کیسے ہوگیا۔
Khair Talab
(فخر :جعفر ،عن أبیه :أن علیا علیه السالم كان یقول ْلھل حربه:
" إنا لم نقاتلھم على التكفیر لھم ،ولم نقاتلھم على التكفیر لنا ،ولكنا رأینا أنا على حق ،ورأوا أنھم على
حق.
قرب االسناد ص 93
امام جعفر رح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رض خود سے جنگ کرنے والوں کے بارے
میں کھتے تھے ھم ان سے ان کی تکفیر پر جنگ نھیں کرتے اور نہ وہ ھم سے ھماری تکفیر پر
کرتے ہیں .ھم نے دیکھا کہ ھم حق پر ہیں اور انھوں نے دیکھا کہ وہ حق پر ہیں) .
جواب:
دوسری روایت جو آپ نے دی ہے اس میں دو نکات ہیں اور میں انشاء ہللا دونوں نکات پر بات کرتا
ہوں
یاد رہے کہ اس جملہ سے ان کے افعال کی تصویب یا ان کی جنگ کو بہانہ دینا نہیں ہے بلکہ یہ
وہی منطق ہے جو امیر المؤمنین ع نے اہل کتاب کے لئے بھی استعمال کی (جس کو اہلسنت نے نقل
کیا):
سبُونَ أَنه ُھ ْم َ
علَى َح ّ ٍ
ق َكفَ َرة ُ أ َ ْھ ُل ْال ِكت َا ِ
ب ۔۔۔۔ َو َیحْ َ
اہل کتاب کفار (کی صفات بتاتے ہوئے امیر ع ایک جملہ کہتے ہے) کافر اہل کتاب اپنے آپ کو حق
پر تصور کرتے ہیں
حوالہ االحادیث المختارہ جلد ٢ص ١٢٥اور التوحید البن مندہ ج ١ص ٣١٤
http://shamela.ws/browse.php/book-10480#page-571
http://shamela.ws/browse.php/book-8210#page-194
سلفی عالم عبد المحسن اپنے ایک درس میں کہتے ہے:
وھذا حاله مثل الخوارج الذین كانوا یقاتلون الصحابة ،فقد كانوا یرون أنھم على حق وال یعتقدون أنھم
مذنبون
اور یہ حال خوارج کا تھا کہ جو صحابہ سے جنگ کرتے تھے ،وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے
تھے اور یہ اعتقاد نہیں رکھتے تھے کہ وہ گناہ گار ہیں
http://shamela.ws/browse.php/book-37052#page-14573
تبصرہ :اگر اہل کتاب کا اپنے آپ کو حق پر سمجھنا دلیل حق نہیں ہوسکتا تھا ،اسی طرح اگر خوارج
کا اپنے آپ کو حق پر سمجھنا دلیل حق نہیں ہوسکتا تھا تو اہل جمل یا اہل صفین کا اپنے آپ کو حق
پر سمجھنا بھی دلیل حق نہیں ہوسکتا۔
Khair Talab
خوارج فتنہ کے وقت میں ظاہر ہوئے اور عثمان اور علی رضی ہللا عنھما کو کافر کہا۔
ال یكفر الخوارج ولم یحكم علي [رضي ہللا عنه] وأئمة الصحابة فیھم بحكمھم في المرتدین ،بل جعلوھم
مسلمین.
خوارج کو کافر نہیں کہا جائے گا اور امیر المؤمنین اور دیگر صحابہ نے ان پر مرتدین کا حکم نہیں
الگو کیا بلکہ ان کو مسلمان ہی سمجھا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-11817#page-554
خوارج بھی اہل قبلہ میں سے ہیں اگرچہ وہ ہمارا خون اور مال حالل سمجھتے اور رسول ص کو
گالیاں دیتے
حوالہ :الدر المختار شرح تنویر اْلبصار وجامع البحار جلد ١ص ٧٧
http://shamela.ws/browse.php/book-14250#page-71
اب میں کچھ فتاوی نماز پڑھنے کے حوالے سے نقل کئے دیتا ہوں:
وقال القفال :تجوز الصالة خلف الخوارج والروافض ولكن یكرہ ْلن مذھب الفقھاء أن ال یكفر أھل
اْلھواء
قفال (فقیہ مذھب شافعی) فرماتے ہے کہ خوارج اور روافض کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے مگر
کراہیت کے ساتھ کیونکہ فقہاء کا مذھب ہے کہ وہ اہل الھواء (یعنی غیر اہلسنت) کی تکفیر نہیں
کرتے
http://shamela.ws/browse.php/book-16934#page-719
اس ہی طرح فقیہ اہلسنت میمون بن مھران سے بھی اس کی مشروعیت یوں نقل کی گئی:
- 1131حدثنا أبو أمیة محمد بن إبراھیم ،قال :ثنا كثیر بن ِھشام ،عن َجعفَر بن برقان ،قال :سألت میمون
ص ِلّي له ،إنما
َلف َرج ٍل یُذ َكر أنه من الخوارج؟ فقال« :إنك ال ت ُ َ
صالة خ َ بن مھران ،فقلتَ :ك َ
یف ت َرى في ال ه
أزرقي».
ي َ ص ِلّي خ َ
َلف الحجاج ،وھو َحرور ٌّ ص ِلّي ہلل ،قَد كُنها نُ َ
تُ َ
جعفر بن برقان کہتے ہے کہ میں نے میمون بن مھران سے پوچھا کہ کیا ایسے شخص کے پیچھے
نماز جائز ہے جس کو خوارج میں سے کہا جاتا ہو۔۔ تو میمون نے جواب دیا تم اس کے لئے نماز
نہیں پڑھ رہے ہو بلکہ ہللا کے لئے پڑھ رہے ہو اور ہم تو حجاج کے پیچھے بھی نماز پڑھتے تھے
اور وہ حروری ازرقی تھا۔
http://shamela.ws/browse.php/book-17844#page-470
تبصرہ :حروری خوارج کا ایک گروہ تھا۔۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ خوارج کی تکفیر اہلسنت کے ہاں
رائج نہیں اس کے باوجود خوارج کو کالب اہل النار یعنی جہنمی کتے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
جیسے کہ مختلف کتب میں یہ رسول ص سے روایت موجود ہے اور ہم سنن ابن ماجہ سے نقل کئے
دیتے ہیں جس کو البانی نے صحیح تعبیر کیا ہے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-1198#page-211
تبصرہ :ثابت ہوا کہ خوارج کا امیر المؤمنین ع اور عثمان کی تکفیر کرنا۔۔ ان کا صحابہ کو قتل کرنا۔
ان کو مسلمانوں سے جنگ کرنا اور ان کا جہنمی کتا ہونا (یعنی آخرت میں جہنم مژدہ ہونا) ثابت شدہ
باتیں ہیں لیکن پھر بھی اہلسنت کی طرف سے ان کی تکفیر نہیں کی جاتی تو صرف عدم تکفیر ہرگز
ان کی ضاللت سے نجات کے لئے کافی نہیں۔
Khair Talab
، ٢٣حضرت عمار یاسر کا نظریہ معاویہ اور اہل شام کے حوالے سے ،اور خواب والی روایت کا
جواب
روایت :سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے (فوج معاویہ کو دیکھ کر کہا) ہللا کی قسم یہ اسالم
(حقیقی) نہ الئے بلکہ اسالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ
جب انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردی
ناظرین اس روایت پر محترم بالکل خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی دے سکتے ہیں
کیونکہ روایت بالکل واضح ہے ،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عمار رض کے بعض اور اقوال نقل
کردئے جائیں ایک شام کے حوالے سے۔
وكیع عن اْلعمش عن عمرو بن مرة عن عبد ہللا بن سلمة أو عن أبي البختري عن عمار قال :لو
ضربونا حتى یبلغونا سعفات ھجر لعلمنا أنا على الحق وأنھم على الباطل .
حضرت عمار فرماتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں تلواروں سے ماریں یہاں تک کہ ہمیں تہس نہس کردیں
پھر بھی مجھے یقین ہوگا کہ ہم حق پر اور وہ باطل پر ہیں۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9944#page-42651
حدثنا غندر عن شعبة عن أبي مسلمة قال :سمعت عمار بن یاسر یقول :من سرہ أن تكتنفه الحور العین
فلیتقدم بی ن الصفین محتسبا ،فإني ْلرى صفا لیضربنكم ضربا یرتاب منه المبطلون ،والذي نفسي بیدہ
لو ضربونا حتى یبلغوا بنا سعفات ھجر لعرفت أنا على الحق وأنھم على الضاللة
حضرت عمار جنگ صفین میں فرما رہے تھے کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اسے موٹی آنکھوں والی حور
ملے وہ ثواب کی نی ت سے دونوں صفوں کے درمیان چلے۔ میں ایک ایسی صف کو دیکھ رہا ہوں
جو تمہیں ایسی ضرب لگائے گی جس کے بارے میں جھوٹے شک کا شکار ہیں۔ اس ذات کی قسم
جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر وہ ہمیں تہس نہجس کرکے رکھ دیں پھر بھی مجھے یقین
ہوگا کہ میں حق پر اور وہ باطل پر ہیں۔
http://shamela.ws/browse.php/book-9944#page-42650
تبصرہ :خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں دیکھنا چاہئے ،مزید یہ کہ آپ پر ابھی
قرض باقی ہے کہ جس میں عمار بن یاسر رض نے ان پر سخت حکم لگایا ہے ،اس کا معقول جواب
ابھی تک نہیں آیا۔ میں منتظر ہوں۔
Khair Talab
اس کے جواب میں محترم نے ایک خواب سے استدالل کیا تھا ،آئے ان کی زبانی نقل کرتے ہے اور
پھر اپنا جواب
(فخر :مقتولین صفین کے بارے میں ایک خوابی بشارت بھی پڑھیں
ع ْم َرو بْنَ س َرة َ َ ع ْن أَبِي َوائِ ٍل ،قَالََ :رأَى فِي ْال َمن َِام أَبُو َم ْی َ ع ْم ِرو ب ِْن ُم هرة ََ ، ع ْن َ ع ِن ْالعَ هو ِامَ ، َارونَ َ ، یَ ِزید ُ بْنُ ھ ُ
َّللا ,قَالََ :رأَیْتُ َكأ َ ِنّي أُد ِْخ ْلتُ ْال َجنهةَ ,فَ َرأَیْتُ ِق َبابًا َمض ُْرو َبةً , ع ْب ِد ه ِ
ب َص َحا ِ ض ِل أ َ ْشُ َرحْ ِبی َل َ ,و َكانَ ِم ْن أ َ ْف َ
ص ِفّینَ ,قَالَ :قُ ْلتُ :فَأَیْنَ ب َ ,و َكانَا ِم هم ْن قُتِ َل َم َع ُم َعا ِویَةَ یَ ْو َم ِ ش ٍ فَقُ ْلتُ ِ :ل َم ْن َھ ِذہِ؟ فَ ِقیلََ :ھ ِذ ِہ ِلذِي ْال َك َالعِ َو َح ْو َ
ضا؟ قَالَ :قِیلَِ :إ ِِنه ُھ ْم لَقُوا ه َ
َّللا فَ َو َجد ُوہُ ض ُھ ْم بَ ْع ًْف َوقَدْ قَت َ َل بَ ْع ُ ص َحابُهُ؟ قَالُوا :أ َ َما َمكَ ،قُ ْلتُ َ :و َكی َ ار َوأ َ ْع هم ٌَ
َوا ِس َع ْال َم ْغ ِف َر ِة
مصنف ج 7ص 547
ابو وائل کھتے ھیں کہ ابو میسرہ رح نے خواب میں عمرو بن شرحبیل کو دیکھا جو ابن مسعود رض
کے افضل ساتھیوں میں سے تھے ،انھوں نے دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہو رھا ھوں وھاں میں
نے گڑے ھوئے خیمہ دیکھے تو میں نے کھا یہ کس کے ھیں ،کھا گیا یہ بنی کالع اور بنی حوشب
قبیلے والوں کے ھیں جو صفین میں معاویہ رض کی طرف سے لڑتے ہوئے قتل کئے گئے ،تو
انھوں نے پوچھا کہ ع مار اور اس کے ساتھی کھاں ھیں ،ان کو بتایا گیا کہ اور آگے ،تو انھوں نے
پوچھا کہ یہ کیسے ھوسکتا ھے ،انھوں نے تو ایک دوسرے کو قتل کیا تھا؟ تو ان کو کھا گیا کہ ان
کی ہللا سے مالقات ھوئی اور انھوں نے ہللا سے بڑی مغفرت پائی) .
جواب :محترم فخر الزماں نے خواب سے جو استدالل پیش کیا ہے اس پر دو اشکاالت ہیں
پہلی بات یہ ہے کہ کون کہتا ہے کہ خواب کہ ہمیشہ ظاہری ہی معنی لئے جائیں تو بتائے کہ جب آپ
کے حکیم االمت جناب اشرف علی تھانوی صاحب نے خواب میں دیکھا اس کا حال وہ خود یوں بیان
کرتے ہے:
اب محترم اس وقت آپ لوگ فورا تاویالت شروع کردیتے ہیں ،چاہے وہ صحیح ہوں یا غلط یہ
موضوع بحث نہیں۔ بحث اس بابت ہے کہ کم سے کم ظاہرا خواب کو نہیں لیا گیا جب ظاہرا اس
خواب کو نہیں لیا تو اصول پتا چال کہ ہر بار خواب کو ظاہر کے معنی میں لینا خطا ہے اور آپ
خواب کا ظاہر لے رہے ہیں اب خود فیصلہ کیجئے کہ یہ بھال دوسروں پر حجت کس طرح ہوسکتا
ہے جب یہ کلیہ ہی غلط ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خود علماء اہلسنت کے ہاں خواب حجت نہیں۔ دیکھئے تمام اقوال پیش کرنے
کے بجائے خالصہ کے عنوان سے عالمہ معلمی جن کو ذہبی وقت حجاز کے بعض علماء کہتے ہیں
اور آپ لوگ بھی انتساب مذھب حجاز کو سعادت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہے:
أن الرؤیا قد تكون حقا و ھي المعدودة من النبوة ،و قد تكون من الشیطان ،و قد تكون من حدیث النفس
)) ،و التكییز مشكل ،و مع ذلك فالغالب أن تكون على خالف الظاھر حتى في رؤیا اْلنبیاء علیھم
الصالة و السالم كما قص من ذلك في القرآن ،و ثبت في اْلحادیث الصحیحة ،و لھذہ اْلمور اتفق أھل
العلم أن الرؤیا ال تصلح للحجة
خواب کبھی سچے ہوتے ہیں اور وہ نبوات کا حصہ شمار ہوتے ہیں ،اور کبھی خواب شیطان کی
طرف سے ہوتا ہے اور کبھی خواب نفسی حالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ البتہ ان کا فرق کرنا مشکل
ہے ،بہرحال اس کے باوجود اکثر خواب وہ ہوتے ہیں جن کی تشریح ظاہر خواب کے خالف ہوتی
ہے یہاں تک کہ انبیاء علیھم السالم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے جیسا کہ قرآن ،صحیح احادیث میں
یہ باتیں مذکور ہیں۔ چنانچہ ان ہی وجوہات کی بنا پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ خواب حجت قائم کرنے
کے قابل نہیں۔
http://islamport.com/w/aqd/Web/1760/90.htm
تبصرہ :محترم خیر اس روایت کا جواب واجب تو نہیں تھا لیکن منصف مزاج اہلسنت کے سامنے
ہمارا مقدمہ حاضر ہے۔
Khair Talab
، ٢٤امیر المؤمنین ع کی زبانی کہ دونوں گروہ جنتی ہوں گے والی روایت کا جواب
(فخر :سید نا علی رضی ہللا عنہ کا جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں نظریہ بھی دیکھ لیں.
صفِّینَ
ع ْن قَتْلَى ،یَ ْو ِم ِ
ي َ سأ َ َل َ
ع ِل ٌّ ع ْن یَ ِزیدَ ب ِْن ْاْل َ َ
ص ِّم ،قَالََ : ع ْن َج ْعفَ ِر ب ِْن ب ُْرقَانَ َ ، يَ ، ُّوب ْال َم ْو ِ
ص ِل ُّ عُ َم ُر بْنُ أَی َ
,فَقَالَ :قَتْ َالنَا َوقَتْ َالھُ ْم فِي ْال َجنه ِة
سیدنا علی رضی ہللا عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ
ھمارے اور ان کے مقتولین جنت میں جائیں گے)
جواب :اب آتے ہیں محترم فخر الزماں نے جو روایات پیش کیں ہیں ان کا جائزہ لیا جائے۔ تو چونکہ
یہ ان کی کتب کی روایات ہیں اور اس کی معارض روایات بھی موجود ہیں اس لئے ہم اس پر اپنا
چھوٹا نوٹ پیش کرتے ہیں۔
ہمارے سامنے محقق أبو محمد أسامة بن إبراھیم کی تحقیق ہے اور انہوں نے اس روایت پر ارسال کا
حکم لگایا ہے مالحظہ ہو المصنف ،جلد ١٣ص ٤٤٣۔
البتہ ہم اس چیز بھی صرف نظر کردیں اور یہ کہیں کہ شاید محترم کے مبنی کے تحت یہ قابل
استدالل ہو تو روایت کے آخر میں یہ جملہ ہے:
ترجمہ( :دونوں گروہ کے مقتول جنتی ہیں لیکن امیر المؤمنین ع کہتے ہے) باقی معاملہ میرا اور
معاویہ کا رہ جائے گا۔
تبصرہ :ادھر واضح طور پر جس کے دفاع میں روایت استعمال کی جارہی ،آخری جملہ اس کی
قلعی کھول رہا ہے کہ جس شخص کا محترم فخر الزماں دفاع کررہے ہیں اس کا اور امیر المؤمنین
ع کا معاملہ باقی رہے گا۔ اب وہ جو بھی ہو ،لیکن کم سے کم حکم جنت تو روایت میں نہیں۔
متن کے اعتبار سے یہ روایت معارض ہے اس روایت کے جس میں امیر المؤمنین ع نے معاویہ اور
اہل شام پر قنوت میں بددعا کی جس کا ذکر تفصیال اوپر کیا جاچکا ہے۔
Khair Talab
دوسری بات یہ ہے روایت خالف ہے حضرت حذیفہ اور ابو موسی اشعری والی روایت کے۔دیکھئے
المصنف از عبدالرزاق میں روایت:
عن معمر عن أیوب عن ابن سیرین عن أبي عبیدة بن حذیفة قال :جاء رجل إلى أبي موسى االشعري ،
وحذیفة عندہ ،فقال :أرأیت رجال أخذ سیفه فقاتل به حتى قتل ،أله الجنة ؟ قال االشعري :نعم ،قال :
فقال حذیفة :استفھم الرجل وأفھمه ،قال :كیف قلت ؟ فأعاد علیه مثل قوله االول ،فقال له أبو موسى
مثل قوله االول ،قال :فقال حذیفة أیضا :استفھم الرجل وأفھمه ،قال :كیف قلت ؟ فأعاد علیه مثل قوله
،فقال :ما عندي إال ھذا ،فقال حذیفة :لیدخلن النار من یفعل ھذا كذا وكذا ،ولكن من ضرب بسیفه في
سبیل ہللا یصیب الحق ،فله الجنة ،فقال أبو موسى :صدق
ایک شخص ابو موسی اشعری کے پاس آیا اور ان کے پاس حضرت حذیفہ تھے ،تو اس شخص نے
پوچھا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہے جو اپنی تلوار کو لے تاکہ جنگ کرے یہاں
تک کہ قتل ہوجائے تو کیا اس کے لئے جنت ہے ،ابو موسی اشعری نے کہا بیشک۔ تو حذیفہ نے کہا
اس شخص سے پھر پوچھو اور اس کا سوال سمجھو۔ تو ابو موسی نے کہا کیا کہتے ہو؟ تو اس نے
وہی سوال دھرایا اور ابو موسی اشعری نے وہی جواب دیا۔ پھر حذیفہ نے کہا اس شخص سے پھر
پوچھو تو ابو موسی نے کہا کیا کہتے ہو؟ تو اس نے وہی سوال دھرایا اور ابو موسی اشعری نے کہا
میرا تو یہی جواب ہے ،اس کے عالوہ نہیں۔ حذیفہ نے اس وقت کہا نہیں وہ جہنم میں داخل ہوگا جس
نے فالں فالں کام کیا ،لیکن جو ہللا کی راہ میں اپنی تلوار سے مقتول ہے اور وہ حق کو پالے (یعنی
غلطی پر نہ ہو) تو اس کے لئے جنت ہے ،تو ابو موسی نے کہا بیشک صحیح فرمایا۔
حدثنا سعید قال :نا أبو معاویة ،قال :نا اْلعمش ،عن إبراھیم التیمي ،عن أبیه ،قال :قال حذیفة ْلبي
موسى « :أرأیت لو أن رجال خرج بسیفه یبتغي وجه ہللا ،فضرب فقتل كان یدخل الجنة ؟ » فقال له أبو
موسى :نعم ،فقال حذیفة :ال ،ولكن إذا خرج بسیفه یبتغي به وجه ہللا ثم أصاب أمر ہللا فقتل ،دخل
الجنة
حضرت حذیہ نے ابو موسی اشعری سے پوچھا کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہو گے جو
اپنی تلوار اٹھائے اور اس کا قصد خدا کی رضا کا حصول ہو ،چنانچہ اس اثنا میں وہ مارا جائے تو
کیا وہ جنت میں جائے گا؟ ابو موسی اشعری نے کہا بیشک۔ تو حضرت حذیفہ نے جواب دیا میاں
ایسا نہیں۔ بلکہ اگر وہ اپنی تلوار لے کر جنگ کے لئے نکلے اور اس کا قصد خدا کی رضا کا
حصول ہو اور پھر وہ خدا کے امر کو حاصل کرے اور قتل ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا۔
http://islamport.com/d/1/mtn/1/63/2261.html
اس روایت سے ملتا جلتا اثر یوں ملتا ہے ،ابن وضاح اپنی کتاب البدع میں نقل کرتے ہے:
ایک شخص ابو موسی اشعری کے پاس آیا اور ابو موسی اشعری کے ساتھ ابن مسعود بھی تھے ،تو
اس شخص نے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا حکم لگاتے ہے جس نے اپنی تلوار کو
ہللا کے غضب کی راہ میں اٹھایا اور قتل ہوا تو کہا ہے وہ؟ ابو موسی اشعری نے کہا وہ جنتی ہے تو
ابن مسعود نے کہا کہ بتحقیق فتوی دینے واال تیرے ساتھی کی طرح ہے ،آیا وہ سنت پر مارا گیا ہے
یا بدعت پر؟ حسن کہتے ہے کہ بالشبہ گروہ اپنی تلواروں کو بدعت کے راستہ میں استعمال کرتے
تھے۔
http://shamela.ws/browse.php/book-8208#page-85
Khair Talab
تبصرہ :یہ روایت داللت میں واضح ہے کہ جنتی وہی ہوگا جو حق اور صحیح راستہ کو پائے اور
خود ابو موسی اشعری جن کا فتوی موجودہ اہلسنت واال فتوی تھا ،انہوں نے بھی رجوع کرلیا تھا۔ اب
یہ کہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ امیر المؤمنین ع دونوں گروہ کو جنتی کہیں بلکہ صحیح نص کے
متعلق اس گروہ کا کام ہی جہنم کی طرف بالنا جیسے کہ حدیث عمار میں الفاظ ہیں:
ت َ ْقتُلُهُ ْال ِفئَةُ ْالبَا ِغیَةُ ،یَدْعُوھُ ْم ِإلَى ْال َجنه ِةَ ،ویَدْعُونَهُ ِإلَى ال هن ِ
ار
عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا ،عمار ان کو جنت کی طرف بالئے گا اور وہ گروہ باغی عمار کو
جہنم کی طرف
http://shamela.ws/browse.php/book-1729#page-10379
Khair Talab
(فخر43 :
خیر طلب صاحب اور دوسرے شیعہ سیدنا معاویہ رض پر سیدنا علی رض سے لڑنے کی وجہ سے
منافقت اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے دشمنی کے فتوے لگاتے ہیں ،حاالنکہ معاویہ رض تو
صرف اپنا دفاع کررھے تھے.
اب زرا شیعہ یھی فتوے سیدنا علی رض کے سگے بھائی عقیل بن ابی طالب پر بھی لگائیں.
عقیل بن ابی طالب معاویہ سے مل گئے تھے اور جنگ صفین کے وقت معاویہ رض کے ساتھ تھے،
معاویہ رض نے ان سے مزاح کرتے ہوئے کہا کہ اے ابو یزید (کنیت ھے عقیل رض کی) آج تم
ھمارے ساتھ؟ عقیل رض نے کھا کہ بدر والے دن بھی تمھارے ساتھ ھی تھا.
shamela.ws/browse.php/book-6624/page-155
و فارق اخاہ علیا امیرالمومنین فی ایام خالفتہ و ھرب الی معاویہ و شھد صفین معہ
اور عقیل اپنے بھائی امیر المؤمنین علی رض سے الگ ھوگئے تھے ان کی خالفت کے دنوں میں
اور معاویہ رض کی طرف چلے گئے تھے اور صفین میں ان کی ساتھ تھے.
اب دیکھتے ہیں کیا فتوی لگتا ہے سیدنا علی رض کے بھائی پر.
حب علی کا ثبوت دے کر عقیل رض پر بھی وھی فتوے لگائیں یا بغض معاویہ کا ثبوت دے کر
تاویالت کریں تاکہ ھم کو بھی بولنے کا موقعہ ملے).
جواب:
جہاں تک جناب عقیل کی بات ہے تو اس پر کچھ تاماالت ہیں۔۔ اگر خالص سندی حوالہ سے واقعہ کی
تحقیق کی جائے تو یہ کہنا بھی بہت مشکل ہے کہ جناب عقیل امیر المؤمنین ع کو چھوڑ کر گئے
بھی تھے یا نہیں۔ اور اگر تسامح سے کام لیں اور سند کی بحث کو سائیڈ پر رکھ دیں تو اس پر
ہمارے جوابات کو مالحظہ کیجئے
Khair Talab
، ١جناب عقیل کے جانے کی جس عبارت سے آپ نے استدالل کیا جائے عمدتہ الطالب میں (ادھر
سہولت کے لئے پوری عبارت جو اس قضیہ کے متعلق ہے نقل کئے دیتے ہوں)
وفارق أخاہ علیا أمیر المؤمنین في أیام خالفته وھرب إلى معاویة وشھد صفین معه غیر أنه لم یقاتل ولم
یترك نصح أخیه والتعصب له.
عقیل اپنے بھائی امیر المؤمنین علی ع کو ان کے ایام خالفت میں چھوڑ کر معاویہ کے پاس چلے
گئے اور صفین معاویہ کے ساتھ کی ،البتہ عقیل نے جنگ میں حصہ نہیں اور اپنے بھائی (یعنی
امیر ع) کو نصحیت دینا ختم نہ کی (اس پر طویل کالم ممکن ہے از خیر طلب) اور اپنے بھائی کے
لئے تعصب (یعنی دفاع امیر المؤمنین ع) میں کمی نہ کی۔
اس عبارت میں یہ ضرور ہے کہ عقیل صفین میں تھے لیکن وہاں یہ بھی موجود ہے کہ جنگ میں
حصہ نہ لیا ،عقیل کی مثال اگر اس عبارت کے سایہ میں لیں تو بدر میں حضرت عباس بن
عبدالمطلب والی بنتی ہے۔ جو جواب ادھر ہوگا وہی ادھر سمجھئے۔
، ٢بعض محققین کے نزدیک جناب عقیل کا امیر المؤمنین ع کی خالفت میں جانا ہی ثابت نہیں بلکہ
امیر المؤمنین ع کی خالفت کے بعد معاویہ کی طرف خروج کیا تھا ،اس پر ابن ابی حدید معتزلی اور
دیگر علماء کے اقوال موجود ہیں۔
، ٣اگر عقیل کے اس خروج کو مان بھی لیا جائے اور اس کو بھی تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی
مصلحت خروج نہ تھی (بعض نے اس طرف اشارہ کیا ہے جو موضوع سے خارج ہے) تو اس کو
قدح عقیل سمجھی جائے گی تاکہ تبریر معاویہ یعنی یہ معاویہ کے حق میں نہیں بلکہ عقیل کے
خالف بات سمجھی جائے گی ،ہمارا معیار کسی کے لئے نہیں ٹوٹتا۔
، ٤جب آپ حضرت عقیل اور معاویہ کے درمیان ہونے والے مباحث ،حوار اور بات چیت کو
دیکھیں تو خود اہلسنت کتب میں کافی حوالے ایسے ہیں جس سے قدح معاویہ ثابت ہوتی ہے ،آپ
دیکھئے کہ آپ نے ایک بے سند بات سے اثبات مطلب کیا تو اگر ہم بھی بے سند بات سے آپ کو
ملزم کریں تو یہ سودہ برا نہیں ،میں انشاء ہللا اگر موقع ہوا تو ان مباحث کو بھی نقل کرکے قدح
معاوی ہ پر استدالل کروں گا۔ خیر جو جواب آپ ان واقعات پر دیں گے وہی میرا سمجھئے۔ البتہ میں
ایک استدالل نقل کئے دیتا ہوں۔
َھذَا لوال علمه بأني خیر لَهُ من أخیه لما أقام عندنا وتركه .فقال ُ
عقَیْل :أخي خیر لي ِفي دیني ،وأنت خیر
لي فِي دنیاي ،وقد آثرت دنیاي ،وأسأل ہللا تعالى خاتمة الخیر.
معاویہ کہتا ہے کہ اگر عقیل مجھے اپنے بھائی سے بہتر نہیں جانتا تھا تو کبھی ہمارے پاس نہ آتا
اور علی کو ترک نہیں کرتا ،پس عقیل نے کہا میرا بھائی (یعنی علی) میرے لئے دین میں بہتر ہے،
اور تم میرے لئے میری دنیا بنانے میں اچھے ہو ،اور میرے اوپر دنیا بنانے کا اثر ہوگیا ہے ،اور
ہللا سے دعا کرتا ہوں کہ میرا خاتمہ خیر کے ساتھ ہو۔
انشاء ہللا ضرورت پڑی تو اور مکالمے جات بھی ہیں ،ان کو بھی نقل کیا جائے گا۔
Khair Talab
اختتام
الحمد ہلل ہمارا جواب ختم ہو اور اس کے لئے تھوڑا وقت لگا کیونکہ کافی سارے مصادر اور حوالے
جات سے کوشش کی گئی کہ جواب کو مزین کیا جائے اور اس اثناء میں تحقیق میں یقینا وقت لگتا
ہے۔ انشاء ہللا انصاف پسند قارئین لطف اٹھائیں گے اور اپنے لئے مزید سامان تحقیق پائیں گے۔
محترم فخر الزماں سے بھی گذارش ہے جس طرح میں نے آپ کے ہر حوالہ پر بات کی ہے ،آپ
بھی کوشش کیجئے گا کہ ضرور کریں تاکہ جو انصاف اور حق کے طلب گار ہے وہ اپنی منزل پر
آرام سے پہنچ سکیں