You are on page 1of 269

‫×احمد رضا کا اصول اور اس کی زد میں معاویہ والی روایت×‬

‫ناظرین آج ہم آپ کو ایک دو روایات جو پیش کی جاتی ہیں ان کا ایک اصولی جواب بریلویوں کے‬
‫اعلی حضرت فاضل بریلی احمد رضا خان صاحب کے اصول کی روشنی میں دیتے ہیں۔۔‬
‫احمد رضا خان ایک موضوع روایت سے دلیل پکڑتے ہوئے لکھتے ہے‪:‬‬
‫حضرت صدیق کا مقام (ہیڈنگ ڈال کر روایت نقل کرتے ہیں از ناقل) رسول صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫فرماتے ہیں‪ :‬اے علی! میں نے ہللا عزوجل سے تین بار سوال کیا ہے کہ تجھے تقدیم (یعنی دیگر‬
‫تعالی نے نہ مانا مگر ابوبکر کو مقدم رکھنا‬
‫ٰ‬ ‫سے افضلیت عطا کرے از ناقل) دے ہللا‬
‫حوالہ‪ :‬فتاوی رضویہ جلد ‪ 15‬ص ‪ 687‬طبع جدید۔‬
‫تبصرہ‪ :‬ناظرین ادھر واضح طور پر دو چیزیں پیش نظر رکھیں‬
‫االول‪ ،‬رسول ص کی ذاتی خواہش امیر المؤمنین ع کو تقدیم دینا ہی تھی لیکن خدا کو وہ پسند نہیں‬
‫آئی اور خدا نے ابوبکر کو افضل رکھا‬
‫الثانی‪ ،‬رسول ص کی بعض التجائ یں خدا کی بارگاہ میں بھی قبول نہیں ہوتی‪ ،‬کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو‬
‫امیر المؤمنین ع کو قطعا تقدیم ملتی لیکن خدا نے ابوبکر کو ہی دینا چاہی۔۔‬
‫اب میں زیادہ کالم اس روایت پر مزید نہیں کروں گا لیکن ہمارے مخالفین معاویہ کے حق میں دو‬
‫روایات پیش کرتے ہیں‬
‫پہلی‪ :‬اللّٰھ م اجعلہ ھادیا مھدیا واھد بہ (اے ہللا! تو معاویہ کو ہادی اور ہدایت یافتہ بنا‪،‬ان کو ہدایت‬
‫عطافرما اور اس کے ذریعے ہدایت دے)‬
‫دوسری‪ :‬اللّٰھم علّم معاویة الکتاب والحساب وقہ العذاب (اے ہللا! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم‬
‫عطا فرما‪،‬اور اس کو عذاب سے محفوظ فرما۔)‬
‫اب واضح طور پر ادھر بھی دعا ہی مانگی گئی ہے لیکن چونکہ قاعدہ یہ ہے کہ احمد رضا خان‬
‫بریلوی کے تحت رسول ص کی بعض التجائیں غیرمستجیب ہوتی ہیں تو اگر بالفرض محال ان‬
‫روایات مذکورہ کو سندا قبول بھی کرلیا جائے تو جب بھی اس سے مدلول یعنی معاویہ بالفعل ھادی‪،‬‬
‫عذاب س ے بری اور کتاب خدا کا عالم ثابت نہیں ہوتا۔ ان کا اصول ان کے ہی خالف۔ الحمد ہلل‬
‫خیر طلب‬
Fakhar Ul Zaman
‫یھاں یہ بات تو خود نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے بتایا کہ "میری یہ دعا قبول نھیں ھوئی"‬
‫سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے بارے میں تو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ نھیں فرمایا‪.‬‬
‫شاید شیعوں کو وحی آئی ھوگی کہ یہ دعا بھی قبول نھیں ھوئی جیسا کہ وہ اپنی مجلسوں میں کھتے‬
‫ھیں کہ‬
‫"آواز آئی"‬
‫پتا‪ .‬نھیں کس کی آوازیں آتی ہیں ان کو‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫احسنت۔۔ استدالل بھی یہی ہے کہ منطق میں موجبہ کلیہ کی نقیض سالبہ جزئیہ ہے یعنی کل دعائیں‬
‫قبول کی نقیض بعض کا عدم قبول ہے۔۔ احسنت۔ دوسری بات ہے کہ معاویہ کے اعمال رزیلہ و باطلہ‬
‫اس بات پر داللت ہے کہ بالفرض صحت اس دعا کا صدور مان بھی لیا جائے تو خارج میں کثرت‬
‫بداعمالی اف معاویہ اس کی عدم قبولیت پر دال ہے۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫موجبہ کلیہ کی نقض تو واقعی سالبہ جزئیہ ھی ھے لیکن کس بات کو موجبہ کلیہ کھہ رھے ھیں‬
‫آپ؟‬
‫اگر اس بات کو کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ھر دعا قبول ھوئی ھے‪،‬تو ھم نے یہ موجبہ‬
‫کھاں لکھا ھے جو سالبہ جزئیہ اس کی نقیض ھو؟‬

‫اور کونسی دعا قبول نھیں ھوئی اس کا کیسے پتا چلے ؟‬


‫معاویہ رضی ہللا عنہ کے اعمال اگر برے تھے تو اپنے دو اماموں کی عصمت کے خیر مناؤ شیعہ‪.‬‬
‫امامت کے شرائط ذھن میں رکھ کر بوال کریں‪ .‬کھیں بغض صحابہ کے مرض میں آپ کے اماموں‬
‫کی امامت پر زد نہ آئے‬

‫دیکھئے فخر الزماں صاحب۔۔۔ میں آپ کو استدالل کا طریقہ بتاتا ہوں‬

‫ہر دعائے نبی ص مقبول ہے (موجبہ کلیہ)‬


‫بعض دعائے نبی قبول نہیں (سالبہ جزئیہ)‪ ..‬نقیض موجبہ کلیہ۔۔‬

‫تو ہمارا ماننا یہ تھا کہ اگر اس روایت کی صحت کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ مجرد دعا ہے جو‬
‫مقبولیت پر داللت نہیں کرسکتی اور اس کے لئے ہم نے یہ اسکین لگایا تھا۔‬

‫اب معاویہ کا امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دینا اور امیر المؤمنین ع سے بغض کرنا ہی اس امر‬
‫کے اثبات میں کافی ہے معاویہ غیر ہادی تھا اور منافق تھا۔۔ یہ دونوں چیزیں صحاح اہلسنت سے‬
‫ثابت ہیں۔ اور یوں یہ دعا آپ کے احادیث تراث کے مبانی کے تحت غیر مقبول ہوئی‬

‫باقی امامت کس طرح زد میں آتی ہے اس پر بات ہوسکتی ہے۔ انشاء ہللا پہلے موضوع کے اول‬
‫حصہ کو پورا کرلیں دوسرے کو بھی دیکھتے ہیں۔‬
‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫آپ کے موجبے کلیے کو ھم تسلیم کس دلیل سے کریں؟‬


‫جب موجبہ کلیہ ھی نھیں مانتے تو سالبہ جزئیہ کا سوال ھی پیدا نھیں ھوتا‪.‬‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی کسی دعا کی قبولیت و عدم قبولیت کی کیا دلیل ھے کہ کونسی قبول‬
‫ھوئی اور کونسی نھیں؟‬
‫سب کا حکم دینا اور سیدنا علی رضی ہللا عنہ سے بغض رکھنا ھم کو تسلیم نھیں‪.‬‬
‫سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ھے ایسے کو اسالمی حکومت کا‬
‫سربراہ بنانے واال امام اور امت کا رہنما ھو سکتا ھے؟‬
‫صحاح اھل السنت سے کیا ثابت ھے کیا نھیں اس پر بھی آئیں گے‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫چلیں بات کو بڑھاتے ہیں۔۔ پہلے آپ بتائے کہ آپ کے مذہب کے مطابق کیا رسالت مآب صلی ہللا‬
‫علیہ و آلہ وسلم کی تمام حوائج مقبول ہیں یا نہیں؟ بعد میں دیگر چیزوں پر بحث کرتے ہیں۔۔ کون‬
‫سی چیز خارج میں قبول ہوئی یا نہیں اس کے بارے میں تو بحث انشاء ہللا تفصیل سے ہوگی۔ تفضل‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫اتنا تو مانیں کے اپکا استدالل باطل ھوا‪.‬‬


‫باقی ھماری بات تو واضح ھے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ھر دعا قبول نھیں ھوئی‪ ،‬اور‬
‫جو قبول نھیں ھوئی اس کا ذکر بھی احادیث میں موجود ھے‪ .‬اور جس کے قبول نہ ھونے کا ذکر‬
‫نھیں وہ مقبول ھیں‪.‬‬

‫اب آپ اپنا موقف بتائیں پہر آگے سوال کریں ورنہ جواب نہیں ملیگا‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫احسنت۔۔ فخر الزماں صاحب آپ کا کہنا کہ ہم نے مانا کہ ہمارا استدالل باطل ہوا یہ بالکل آپ کے‬
‫مذہب کی طرح غل ط ہے۔ استدالل اب بھی باقی ہے۔ اور رسول ص کی معاویہ کے حق میں دعا‬
‫(بشرط تسلیم صحت) آپ کے مذہب کے مبنی کے تحت قبول نہیں ہوئی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ‬
‫خود رسول ص کی بددعا معاویہ کے حق میں صحیح مسلم سے ثابت ہے (اے خدا معاویہ کا پیٹ‬
‫کبھی نہ بھر) اور دوسرا کہ خلیفہ رسول امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دینے اور ان سے بغض‬
‫کرنے کی وجہ سے معاویہ منافق ثابت ہوتا ہے اور منافق کبھی ہادی نہیں ہوتا اور یوں خارج میں‬
‫دعا متحقق نہیں ہوئی۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫خیر طلب صاحب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی بددعا وہ دراصل ھے کہ نھیں یہ الگ بحث ہے‪،‬‬
‫اور سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے بارے میں دعا قبول ھوئی کہ نھیں اس پر بھی آگے بات ھوگی‬

‫فی الحال آپ اپنا نظریہ بتائیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی دعا کی بارے میں‬

‫اور اس پر بھی آتے ھیں کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ھر بدعا بھی قبول ھوتی ھے کہ نھیں‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫میرے نزدیک رسول ص کی کوئی ایسی دعا نہیں جو غیر مقبول ہے‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫یعنی موجبہ کلیہ‪ .‬اس کی نقیض تو آپ کو پتا ھوگی‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫تفضل۔۔۔ اصل مدعا پر آئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاویہ کے بارے میں مزعوم دعا کیا خارج میں‬
‫متحقق ہوئی یا نہیں‪،‬‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫اس سے پہلے یہ سوال ھے کہ آپ کا اس پوسٹ میں استدالل اپنے نظریے کے مطابق ھے یہ‬
‫ھمارے؟‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫آپ کے نظریہ کے مطابق بات چل رہی ہے‪ ،‬ہم معاویہ کے رزائل میں احادیث کو مانتے ہیں لیکن‬
‫فضائل میں کچھ نہیں‪ ،‬جو بھی بات ہورہی ہے وہ آپ کا تراثی مبنہ کے تحت ہے‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫تو ھماری کتابوں سے ظاھر ھے آپ اپنا نظریہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے؟‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے بارے میں‪.‬‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫فخر الزماں۔۔ یہ اصول مناظرہ ہے آپ جانتے ہیں کہ خصم کے مبانی کے تحت اس کو ملزم کیا‬
‫جاسکتا ہے‪ ،‬اور اس کی کتب ہی سے دلیل پیش کی جاتی ہے۔ بیشک معاویہ آپ کی کتب سے منافق‬
‫اور باغیوں کا سردار ثابت ہے۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫وضاحت اس لیے کروا رھا ھوں تاکہ عام دیکھنے والے بھی سمجھ سکیں اور آگے ان کو بات‬
‫سمجھنے میں ان کو مشکل نہ ھو‪.‬‬
‫اب آپ جو نظریہ ثابت کرنے جا رھے ھیں اس سے جو آپ کے دوسرے عقائد پر زد پڑے گی وہ‬
‫آپ کی کتابوں کے مطابق ھی بات ھوگی‪.‬‬

‫یہ بات بھی عام دیکھنے والوں کو پتا چلے‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫جی بالکل معاویہ راس فئتہ الباغیتہ ہے اور غیر مھتدی ہے اور اس کے جتنے لوازمات بقول آپ‬
‫کے زعم کے مطابق میرے عقائد پر پڑ سکتے ہیں اس کا میں جواب دوں گا۔ شرط بحث یہ ہے کہ‬
‫آپ کے جن مصادر سے استدالل کریں گے اس کے لئے شرط ہے کہ وہ حجیت کے قائم میں‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫⁠اب دیکھئے آپ کی صحاح سے ثبوت نفاق معاویہ۔‬

‫پہلی بات معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو سب کا حکم دیا تھا‪ ،‬جیسے کہ صحیح مسلم میں موجود‬
‫ہے‪:‬‬

‫أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَانَ َ‬


‫س ْعدًا‬
‫معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ امیر المؤمنین پر سب کرو۔‬

‫حوالہ‪ :‬صحیح مسلم ص ‪ 1871‬رقم ‪2404‬‬

‫کتاب ادھر سے دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-1727#page-7299 :‬‬

‫ع ِلیًّا فَقَدْ َ‬
‫سبه ِني»‬ ‫سله َم َیقُولُ‪َ « :‬م ْن َ‬
‫سبه َ‬ ‫ص هلى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫سو َل ه ِ‬
‫َّللا َ‬ ‫س ِم ْعتُ َر ُ‬
‫اور یہ واضح صحیح حدیث ہے‪َ :‬‬
‫‪.‬‬

‫رسول ص نے فرمایا جس نے علی ع پر سب کیا گویا اس نے مجھ پر سب کیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬فضائل الصحابة‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص‪ ،594‬ح‪1011‬‬


‫کتاب ادھر سے دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-13136#page-990 :‬‬

‫لہذا ثابت ہوا کہ معاویہ کا امیر المؤمنین پر سب کا حکم دینا گویا ایسا تھا کہ جیسے رسول ص پر‬
‫سب کا حکم اور جو رسول ص پر سب کا حکم دے وہ جہنمی اور ضال‪ ،‬مضل ہے اور وہ ہرگز‬
‫ہادی نہیں ہوسکتا۔‬

‫دوسرا ثبوت بھی آپ کی صحاح سے دیتا ہوں۔۔‬

‫سنن نسائی میں یہ روایت موجود ہے‪:‬‬

‫ح‪،‬‬ ‫ي بْنُ َ‬
‫صا ِل ٍ‬ ‫ي‪ ،‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا خَا ِلد ُ بْنُ َم ْخلَدٍ‪ ،‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا َ‬
‫ع ِل ُّ‬ ‫‪ - 3006‬أ َ ْخبَ َرنَا أَحْ َمد ُ بْنُ عُثْ َمانَ ب ِْن َح ِك ٍیم ْاْل َ ْو ِد ُّ‬
‫هاس‪ِ ،‬ب َع َرفَاتٍ‪،‬‬ ‫عب ٍ‬‫س ِعی ِد ب ِْن ُج َبی ٍْر‪ ،‬قَالَ‪ :‬كُ ْنتُ َم َع اب ِْن َ‬‫ع ْن َ‬ ‫ع ْم ٍرو‪َ ،‬‬ ‫ع ْن ْال ِم ْن َھا ِل ب ِْن َ‬
‫ب‪َ ،‬‬ ‫س َرة َ ب ِْن َح ِبی ٍ‬ ‫ع ْن َم ْی َ‬‫َ‬
‫اط ِه‪ ،‬فَقَالَ‪:‬‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫اس‪ِ ،‬م ْن ف ْسط ِ‬ ‫عبه ٍ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬
‫اس یُلبُّونَ ؟» قلتُ ‪ :‬یَخَافونَ ِم ْن ُمعَا ِویَة‪ ،‬فَخ ََر َج ابْنُ َ‬‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫فَقَالَ‪َ « :‬ما ِلي َال أ ْس َم ُع النه َ‬
‫ي ٍ»‬‫علِ ّ‬
‫ض َ‬ ‫سنهةَ ِم ْن بُ ْغ ِ‬ ‫«لَ هبیْكَ الله ُھ هم لَبهیْكَ ‪ ،‬لَبهیْكَ فَإِنه ُھ ْم قَدْ ت ََركُوا ال ُّ‬

‫ابن عباس کے بقول معاویہ اور اس کی پارٹی نے امیر المومنین کے بغض میں سنت کو چھوڑ دیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬سنن نسائی‪ ،‬جلد ‪ ،5‬ص ‪ 253‬رقم ‪3006‬‬

‫کتاب ادھر سے دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-829/page-4557 :‬‬

‫ثابت ہوا کہ معاویہ امیر المؤمنین ع سے بغض رکھتا تھا اور ہر وہ شخص جو امیر المؤمنین سے‬
‫بغض رکھے وہ منافق ہے‪ ،‬صحیح مسلم کی روایت مالحظہ ہو‪:‬‬

‫«أ َ ْن َال ی ُِحبه ِني ِإ هال ُمؤْ ِم ٌن‪َ ،‬و َال یُ ْب ِغ َ‬


‫ض ِني ِإ هال ُمنَا ِف ٌق»‬
‫علی ع سے کوئی محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور کوئی بغض نہیں رکھے گا مگر منافق‬

‫صحیح مسلم‪ ،‬جلد ‪ ،1‬ص ‪ ،86‬رقم ‪78‬‬

‫کتاب ادھر دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-1727#page-290 :‬‬

‫لہذا ثابت ہوا کہ معاویہ منافق تھا۔۔ اور جو منافق ہو وہ ہادی نہیں ہوسکتا۔‬

‫صحیح مسلم • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪Khair Talab‬‬
‫آپ کی صحاح سے ثابت ہوا معاویہ منافق تھا اور منافق مضل ہوتا ہے جو ہادی ہونے کے خالف‬
‫ہے‪ ،‬بتائے دعا قبول ہوئی یا نہیں‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫میں جن شیعہ مصادر سے استدالل کرونگا اس کو شیعہ علماء نے معتبر تسلیم کیا ھوگا بے فکر‬
‫رہیں‪.‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫صحیح اچھی بات ہے۔۔ چلئے اب جواب شروع کریں۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫سب سے پہلے تو آپ کی پہلی دلیل پر بات کرتے ھیں پہر باقیوں پر بھی آتے ھیں ترتیب وار‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫پہلی بات تو یہ کہ آپ نے جو ترجمہ کیا کہ "معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ امیر المومنین کو سب‬
‫کرو" ‪ .‬سوال یہ ھے کہ گالیوں کا حکم دینے کا ترجمہ آپ نے کیسے کیا؟ یہ عربی عبارت ھے اس‬
‫کے مطابق اپنا ترجمہ صحیح ثابت کر کے دکھائیں؟‬
‫أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَان سعدا َ فَقَالَ‪َ :‬ما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ‬
‫ب؟‬

‫دوسرا یہ کہ اس روایت میں سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے جو فضائل حضرت سعد رضی ہللا عنہ‬
‫نے جو بیان کیے اس کا رد سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ نے کیا کہ نھیں؟ اگر نھیں کیا تو کیا اس سے‬
‫یہ ثابت نھیں ھوتا کہ وہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل کے قائل تھے؟‬

‫·‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم۔۔ ادھر الفاظ روایت یوں ہے‪:‬‬

‫أ َ َم َر ُم َعا ِو َیةُ بْنُ أ َ ِبي سُ ْف َیان سعدا َ‬


‫حکم دیا معاویہ ابوسفیان کے بیٹے نے سعد کو۔‬

‫ادھر جس چیز کا حکم دیا ہے وہ محذوف ہے اور اس کا تعین کوئی مسئلہ کی بات نہیں کیونکہ اس‬
‫کے بعد ہی جملہ ہے‪:‬‬

‫َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ‬


‫ب‬
‫کیا چیز روکتی ہے کہ تم (اے سعد) ابو تراب (یعنی امیر المؤمنین) پر سب کرو۔‬

‫چنانچہ واضح طور پر ثابت ہوا کہ ادھر سب امیر المؤمنین ہی کا حکم دیا گیا تھا‪ ،‬یہ کرامت ہے کہ‬
‫آپ کے علماء نے اس کو نقل نہین کیا لیکن روایت کا دوسرا جملہ اس امر پر داللت کرتا ہے کہ‬
‫ادھر سب ہی کا حکم تھا۔‬

‫ہماری اس بات کی تائید ابن تیمیہ کے قول سے ہوتی ہے جو کہتا ہے‪:‬‬

‫وأما حد یث سعد لما أمرہ معاویة بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن أبي طالب فقال ثالث قالھن‬
‫رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم فلن أسبه ْلن یكون لي واحدة منھن أحب إلي من حمر النعم الحدیث فھذا‬
‫حدیث صحیح رواہ مسلم في صحیحه‬

‫اور سعد بن ابی وقاص کی حدیث کہ جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا اور سعد نے انکار کیا‬
‫اور کہا۔۔ (پھر فضائل نقل کئے)۔۔ اور یہ حدیث صحیح ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة‪)20/5( ،‬‬

‫کتاب دیکھئے‪http://islamport.com/w/tym/Web/3420/1447.htm :‬‬

‫تو محترم کیا آپ پسند کریں گے کہ کوئی آپ کے خلفائے ثالثہ پر سب کا حکم دے؟ اور امیر‬
‫المومنین ع کے لئے نص موجود ہے کہ جو علی ع پر سب کرے گویا اس نے رسول ص پر کیا (کما‬
‫نقلتھا سابقا)‬

‫اب آپ کا کہنا‪:‬‬

‫(دوسرا یہ کہ اس روایت میں سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے جو فضائل حضرت سعد رضی ہللا عنہ‬
‫نے جو بیان کیے اس کا رد سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ نے کیا کہ نھیں؟ اگر نھیں کیا تو کیا اس سے‬
‫یہ ثابت نھیں ھوتا کہ وہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل کے قائل تھے؟)‬

‫جوا ب‪ :‬فضائل کا سن کر رد نہ کرنا کیا اس بات کو مستلزم کرتا ہے۔ تو یہ آپ ثابت کریں کہ ہمیشہ‬
‫جب بھی فضیلت بتائی جائے اور رد نہ ہو تو وہ گویا قبولیت پر داللت کرتا ہے‪ ،‬اور دوسرا ہم کہتے‬
‫ہیں کہ ہم آپ کی اس بات کو مان بھی لیں تو یہ کب الزم ہے کہ کسی کے فضیلت کو ماننا اس سے‬
‫عقیدت اور محبت پر داللت کرتا ہے‪ ،‬کیا یہودی رسول ص کو نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی وہ‬
‫ایمان نہ الئے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خداوند متعال ہے‪:‬‬

‫َاب یَ ْع ِرفُونَهُ َك َما یَ ْع ِرفُونَ أ َ ْبنَا َء ُھ ْم ۖ َوإِ هن فَ ِریقًا ِّم ْن ُھ ْم لَیَ ْكت ُ ُمونَ ْال َح هق َوھُ ْم یَ ْعلَ ُمونَ‬
‫الهذِینَ آت َ ْینَا ُھ ُم ْال ِكت َ‬
‫جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‪ ،‬وہ ان (پیغمبر آخرالزماں) کو اس طرح پہچانتے ہیں‪ ،‬جس طرح‬
‫اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں‪ ،‬مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا‬
‫ہے‬

‫اب بتائے کہ لوگ رسول ص کو جاننے کے باوجود ان پر ایمان نہیں الئے تو معاویہ اگر فضائل‬
‫امیر ع کا قائل ہو بھی تو اس سے یہ کون سا قاعدہ کلیہ جس سے الزم آئے کہ وہ ایمان لے آیا ہرگز‬
‫نہیں۔۔ بلکہ اس کا بغض امیر ع کی زندگی کے بعد بھی چلتا رہا (جیسے کہ ابن عباس کی روایت نقل‬
‫کی گئی ہے اس باب میں سنن نسائی سے)۔‬
‫مزید آپ بتائے کہ کیا آپ کے نزدیک علی ع پر سب رسول ص پر سب ہے یا نہیں؟‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫آپ اب یہ کھہ رھے ھیں کہ یھاں حکم محذوف ھے لیکن پہلے تو آپ نے صاف لکھا تھا کہ گالی کا‬
‫حکم دیا‪.‬‬
‫اور آپ نے ان الفاظ سے گالیوں کا حکم سمجھا‬
‫ما منعک ان تسب ابا تراب‪.‬‬
‫میں پوچھتا ھوں کہ‬
‫یہ الفاظ حکم کیسے ھوئے؟‬

‫آگے آپ نے عالمہ ابن تیمیہ قول نقل کیا ھے کہ "جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا‪"...‬‬
‫تو میرا سوال ہے کہ یہ عالمہ ابن تیمیہ کا قول ھے یا انھوں نے شیعہ کا قول نقل کیا ھے؟‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم پک اور چوز مت کیجئے‪ ،‬پورا جواب دیں‪ ،‬میں پھر آپ کے ہر اعتراض کا جواب دوں گا‪،‬‬
‫جب آپ پورے جواب سے فراغت پاجائیں۔‬

‫باقی میں صرف ابھی کے لئے آپ کے دو سواالت کے جوابات دیتا ہوں‪:‬‬

‫آپ کا سوال‬

‫میں پوچھتا ھوں کہ‬


‫یہ الفاظ حکم کیسے ھوئے؟‬

‫میرا جواب‪ :‬میاں میں نے تشریح کی ہے اس کے بعد واال جملہ اس پر داللت کرتا ہے کہ ادھر سب‬
‫ہی کا حکم تھا ورنہ سب نہ کرنے کی وجہ کیوں پوچھی گئی‪ ،‬آپ عقل لگائیں تو سمجھ جائیں گے کہ‬
‫دیکھئے کہ فالں بندے حکم دے اور وہ حکم معلوم نہ ہو لیکن وہ ایک چیز کی بابت سوال کرے کہ‬
‫تم نے یہ کیوں نہیں کیا تو اس صورت میں وہی حکم سمجھا جائے گا‪ ،‬باقی دالئل اس معنی پر میں‬
‫کافی سارے دوں گا لیکن ابھی ایک ہی دلیل دی ہے‬

‫آپ کا کہنا‪:‬‬

‫(آگے آپ نے عالمہ ابن تیمیہ قول نقل کیا ھے کہ "جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا‪"...‬‬
‫تو میرا سوال ہے کہ یہ عالمہ ابن تیمیہ کا قول ھے یا انھوں نے شیعہ کا قول نقل کیا ھے؟)‬

‫جواب‪ :‬ابن تیمیہ نے عالمہ ابن مطہر کا قول ص ‪ ١٩‬پر نقل کیا اور ص ‪ ٢٠‬پر ابن تیمیہ کی خود‬
‫عبارت ہے۔۔ اور یہ ابن تیمیہ ہی کا اعتراف ہے۔ شیعہ کا قول نہیں۔‬

‫اگال جواب جب ہی ملے گا جب ہمارے تمام دالئل کے جوابات دئے جائیں گے‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫دوسری بات آپ کا یہ کھنا "ھمیشہ جب بھی فضیلت بتائی جائے اور رد نہ ھو تو وی گویا قبولیت پر‬
‫داللت کرتا ھے"‪.‬‬

‫تو عرض ھے کہ اس وقت معاویہ رضی ہللا عنہ خلیفہ تھے‪ ،‬اگر ان کو سیدنا علی رضی ہللا عنہ‬
‫سے اتنا بغض ھوتا جتنا آپ لوگ دعوے کرتے ھیں تو وہ ضرور رد کرتے‪ .‬کیونکہ حکومت اور‬
‫طاقت ان کے ھاتھ میں تھی‪ .‬مجھے ذرا بتائیں کہ شیعہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے فضائل سن‬
‫کے برداشت کرتے ہیں؟ کبھی بھی نھیں‪ ،‬حاالنکہ شیعوں کی حکومت بھی نھیں اور جھاں شیعوں‬
‫کی حکومت ھے وھاں تو کھل کر تبرا لعنتیں کرتے ھیں‪.‬‬

‫رھی یھود والی بات جو آپ نے آیت بھی پیش کی‪ ،‬تو اس جگہ یہ فٹ نھیں ھوتی‪.‬‬
‫کیونکہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی فضیلت سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کی زبانی بھی ثابت ھے جو‬
‫میں ان شاءہللا پیش کرونگا‪.‬‬
‫یھودی تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تنقیص کرتے تھے جو اھل علم سے مخفی نھیں‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫فخر الزماں صاحب اس سے پہلے بات کو آگے بڑھائیں کچھ چیزیں طے کرلیں‬

‫‪ ، ١‬فریقین ایک دوسرے کے تمام دالئل کا جواب دیں گے جب ہی بحث آگے بڑھے گی‬
‫‪ ، ٢‬جب جواب ختم ہوجائے تو ختم شد لکھا جائے گا‬
‫‪ ، ٣‬فریقین کی معتبر مصادر سے دلیل نقل کی جائے گی۔‬

‫اب آپ پہلے تمام باتوں کا جواب دیں تاکہ میں آپ کو پھر جواب دے سکوں‪ ،‬شکریہ۔‬
‫ظفر قریشی صاحب کوشش کیجئے عزت دیں اور عزت لیں کے اصول پر کمنٹ کیجئے ورنہ میں‬
‫آپ کے گھر کا داماد نہیں کہ لحاظ کروں بلکہ مجبورا ایسی حرکتوں کی وجہ سے آپ کو بالک کرنا‬
‫پڑے گا‪ ،‬عزت سے رہیں تو عزت ملے گی ورنہ معاویہ منافق کی طرح صحیح درگت بھی بنائے‬
‫جاسکتی ہے‪ ،‬شکریہ۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫خیر طلب صاحب آپ کے باتوں کا جواب میں دے چکا ھوں اب آپ آگے ان کا رد کریں‪.‬‬
‫آپ کی نیچے بیان کردہ باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں‪.‬‬

‫فخر الزماں صاحب اس سے پہلے بات کو آگے بڑھائیں کچھ چیزیں طے کرلیں‬

‫‪ ، ١‬فریقین ایک دوسرے کے تمام دالئل کا جواب دیں گے جب ہی بحث آگے بڑھے گی‬
‫‪ ، ٢‬جب جواب ختم ہوجائے تو ختم شد لکھا جائے گا‬
‫‪ ، ٣‬فریقین کی معتبر مصادر سے دلیل نقل کی جائے گی۔‬

‫اب آپ پہلے تمام باتوں کا جواب دیں تاکہ میں آپ کو پھر جواب دے سکوں‪ ،‬شکریہ۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫فی الحال آپ کی پہلی بیان کردہ دلیل پر بات ھو رھے ھے‪ .‬اس کی حقیقت سامنے آنے کے بعد‬
‫دوسری بات پر آئیں گے ان شاءہللا‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫فخر الزماں اور دیگر قارئین کی سہولت کے لئے کچھ بتاتا چلوں کہ ہم نے شروع میں دو استدالل‬
‫پیش کئے تھے‬

‫پہال‪ ،‬صحیح مسلم کی روایت‪ :‬جس میں معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المؤمنین ع کو سب‬
‫کرنے کا حکم دیا تھا اور پھر حدیث نقل کی تھی جو علی ع پر سب کرے گویا رسول ص پر سب‬
‫کرے گا‬

‫دوسری روایت ابن عباس کی بحوالہ سنن نسائی نقل کی تھی جس میں ابن عباس کے بقول معاویہ‬
‫امیر المؤمنین ع سے بغض کرتا تھا۔‬

‫محترم فخر الزماں نے دوسری دلیل کو بعد کے لئے چھوڑ دیا ہے اور پہلی دلیل پر بات کررہے ہیں‬
‫تو ان کے نزدیک الفاظ روایت میں فقط امر معاویہ سعدا ہے اور اس میں چونکہ سب کا حکم کا‬
‫موجود نہیں ہے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ بالفعل حکم سب تھا یا نہیں تو ہم نے دو جوابات دئے تھے‬
‫کہ خود روایت کے بالکل مابعد کا جملہ جس میں معاویہ سب نہ کرنے کی وجہ پوچھتا ہے وہ واضح‬
‫کرتا ہے کہ ادھر سوال سب ہی کا تھا (اس پر محترم نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے ورنہ وہ بتائیں‬
‫کس چیز کا حکم تھا روایت کا ما بعد دیکھ کر)۔۔ اور پھر ہم نے ابن تیمیہ کا اعتراف نقل کیا جو اس‬
‫کو سب کا حکم ہی تعبیر کرتے ہوئے صحیح مسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں جس پر فخر الزماں‬
‫نے سوال کیا تھا کہ آیا یہ شیعہ کی رائے ہے یا ابن تیمیہ کی تو ہم نے کہا تھا کہ جس صفحہ سے ہم‬
‫نے نقل کی ہے وہ خود ابن تیمیہ ہی کی رائے ہے شیعہ کی نہیں (اس پر بھی فخر الزماں صاحب کا‬
‫کوئی تبصرہ نہیں آیا)‬

‫بہرحال فخر الزماں صاحب کا ماننا ہے کہ انہوں نے میری تمام باتوں کا جس کا تعلق دلیل اول سے‬
‫ہے جواب دے دیا ہے‪ ،‬تو کیا جواب دیا ہے یا نہیں وہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب محترم فخر الزماں کا جدید اعتراض آیا تھا جس میں انہوں نے عدم تعرض معاویہ کو دلیل قبول‬
‫فضائل بتائے تھے تو اس پر ہم نے اعتراض کیا تھا کہ یہودی بھی رسول ص کے فضائل کے‬
‫معترف تھے درحاآلنکہ پھر بھی رسول ص کو نہیں مانتے تھے تو اس کے جواب میں موصوف نے‬
‫کہا ہے‬

‫(رھی یھود والی بات جو آپ نے آیت بھی پیش کی‪ ،‬تو اس جگہ یہ فٹ نھیں ھوتی‪.‬‬
‫کیونکہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی فضیلت سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کی زبانی بھی ثابت ھے جو‬
‫میں ان شاءہللا پیش کرونگا‪.‬‬
‫یھودی تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تنقیص کرتے تھے جو اھل علم سے مخفی نھیں)‬

‫میرا جواب‪ :‬دیکھئے ہمارا اصل استدالل ہی اس بات پر تھا کہ فضائل کا اعتراف ہرگز اس بات کا‬
‫موجب نہیں کہ بالفعل انسان اس شخص کی فضیلت کا بھی قائل ہے‪ ،‬سیرت کی کتب اٹھا کر دیکھ لیں‬
‫کہ کس طرح کفار اور مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کر برمال‬
‫اظہار بھی کرتے تھے اس کے باوجود یہ اعتراف ان کی فضیلت کا باعث نہیں بن سکتا۔۔ یہی حال‬
‫معاویہ کا تھا۔ کہ اس کا روایت کا تتمہ میں عدم تعرض کرنا اس بات کو کب الزم کرتا ہے کہ وہ‬
‫واقعی محب علی ع تھا‪ ،‬کیونکہ بہت بار انسان دوسرے کی قوت استدالل کے آگے خاموش ضرور‬
‫ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی اس کے برعکس کا قائل رہتا ہے۔‬

‫می ں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ امام اوزاعی جو مشہور امام ہے وہ نماز میں رفع الیدین کو مشروع‬
‫سمجھتے تھے جیسا کہ یہ اہل علم کے ہاں معروف بات ہے اور علماء نے اس کو نقل کیا لیکن اس‬
‫کے باوجود ہمارے احناف دوستان ایک مناظرہ کو نقل کرتے ہیں جس میں بقول ان کے ابوحنیفہ نے‬
‫اوزاعی کو شکست دی اور اوزاعی خاموش ہوگئے‪ ،‬الفاظ روایت یوں ہے‪:‬‬

‫فقال له أبو حنیفة‪ :‬كان حماد أفقه من الزھري‪ ،‬وكان إبراھیم أفقه من سالم‪ ،‬وعلقمة لیس بدون ابن عمر‬
‫في الفقه‪ ،‬وإن كانت البن عمر صحبة‪ ،‬فله فضل صحبة‪ ،‬واْلسود له فضل كثیر‪ ،‬وعبد ہللا عبد ہللا‪،‬‬
‫فسكت اْلوزاعي‬
‫یعنی ابوحنیفہ کی دلیل سن کر اوزاعی خاموش ہوگئے۔‬

‫حوالہ‪ :‬جامع المسانید للخوارزمي جلد اول ص ‪ 353 - 352‬طبع حیدرآباد دکن‬

‫کتاب ادھر سے ڈانلوڈ کی جاسکتی‬


‫ہے‪http://ia600300.us.archive.org/.../masanid_hanifa_01.pdf :‬‬

‫تو محترم خاموش ہوجانا یا عدم تعرض کرنا ہر بار قبولیت کے اوپر داللت نہیں ممکن ہے قوت‬
‫استدالل ہو یا کوئی اور معاملہ ہو جس کی وجہ سے تعرض ممکن نہ ہو۔ لیکن ہمارے ذمہ میں کلیہ‬
‫کو توڑنا تھا جو ہم نے توڑ دیا۔‬

‫باقی آپ کا کہنا کہ امیر معاویہ امیر المؤمنین ع کی تعریف کرتا تھا تو بیشک آپ ایک ایسی روایت‬
‫نقل کریں جو صحت کے معیار پر پوری اترے‪ ،‬اور پھر داللت بھی بطور استدالل نقل کریں کیونکہ‬
‫کسی فضیلت کا اقرار اعم ہے بنسبت قلبی طور سے ماننا جو اخص ہے تو آپ ایک اخص دعوی کے‬
‫لئے اعم دلیل سے استدالل نہیں کرسکتے۔‬

‫محترم فخر الزماں ایک مزید بات کہتے ہے‪:‬‬

‫(تو عرض ھے کہ اس وقت معاویہ رضی ہللا عنہ خلیفہ تھے‪ ،‬اگر ان کو سیدنا علی رضی ہللا عنہ‬
‫سے اتنا بغض ھوتا جتنا آپ لوگ دعوے کرتے ھیں تو وہ ضرور رد کرتے‪ .‬کیونکہ حکومت اور‬
‫طاقت ان کے ھاتھ میں تھی‪ .‬مجھے ذرا بتائیں کہ شیعہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے فضائل سن‬
‫کے برداشت کرتے ہیں؟ کبھی بھی نھیں‪ ،‬حاالنکہ شیعوں کی حکومت بھی نھیں اور جھاں شیعوں‬
‫کی حکومت ھے وھاں تو کھل کر تبرا لعنتیں کرتے ھیں‪.‬‬
‫)‬

‫جواب‪ :‬یہ دلیل تو آپ کو دینی ہے کہ معاویہ نے اس کو برداشت کیا اور معاویہ امیر المؤمنین ع سے‬
‫محبت کرتا تھا‪ ،‬ہمارے ذمہ میں اثبات حکم سب تھا جس پر آپ بالکل کالم نہیں فرمارہے اور بعد‬
‫میں معاویہ اپنے اس جرم سے تائب ہوا یہ صرف دعوی سے نہیں چلے گا بلکہ دعوی پر دلیل دینے‬
‫ہوگی۔ ہاں البتہ اس کے برعکس میں آپ کو آپ کے عالم کی زبانی ہی ایک قول نقل کرتا ہوں جو‬
‫ابن عباس نے معاویہ سے بقول طحاوی تقیہ کیا تھا اس تاویل کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہے‪:‬‬

‫(طحاوی کا) تقیہ کی تاویل کرنا بعید نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی رکاکت اور تعصب ہے۔ تقیہ جس‬
‫معنی میں عالمہ طحاوی نے استعمال کیا ہے مطلق حرام نہیں بلکہ بعض صورتوں میں جائز بھی‬
‫ہے۔ (طحاوی کی ابن عباس کی تقیہ والی بات پر) اعتراض کرنے واال کیا جانتا نہیں کہ ابن عباس‬
‫حضرت علی رضی ہللا عنہ کے خواص (بہت قربت رکھنے والے) ساتھیوں میں سے تھے جنہوں‬
‫نے معاویہ (کی مشروعیت) کا انکار کیا اور معاویہ سے بغض رکھتے اور امام علی ع کی زندگی‬
‫میں معاویہ سے جنگ بھی کی۔ اور پھر معاویہ کی بیعت غالبا تقیہ کے طور پر کی اور اس (کے‬
‫بعض امور) پر راضی ہونا بہت کم تھا۔ اور یہی ان لوگوں (جو امیر المؤمنین کے خواص اصحاب‬
‫تھے) کا یزید کی بیعت کرنے کا معاملہ ہے (وہ بھی تقیہ کے طور پر تھی) البتہ جو تاویل ہم نے کی‬
‫وہ طحاوی کی تاویل سے بہتر ہے لیکن طحاوی کی تاویل بھی بالکل محتمل ہے اور اس کو فرض‬
‫کرنا بعید نہیں۔ چناچہ (معترض کو چاہئے اس بات کو) سمجھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬اعالء السنن‪ ،‬جلد ‪ ،6‬ص ‪ ،40‬زیر رقم ‪ ،1658‬طبع کراچی۔‬

‫آپ اسکین ادھر دیکھ سکتے‬


‫ہیں‪https://www.facebook.com/khair.talab/posts/1296475630411554 :‬‬

‫تو جناب یہ تو خود آپ کے علماء کا اعتراف ہے کہ معاویہ کا سلوک خواص امیر المؤمنین ع کے‬
‫ساتھ اچھا نہیں تھا تو اگر وہ اتنا محبت کرتے تھے تو ایسا سلوک کیوں؟ سوچ کر جواب دیجئے گا‪،‬‬
‫لیکن آپ کے اوپر پہلے اس مقدمہ کا اثبات باقی ہے اور اس کے بعد اب میری دلیل پر نقد کریں‬
‫گے‪ ،‬تفضل‬

‫‪----‬ختم شد‪-----‬‬
‫٭حضرت ابن عباس کا تقیہ اور معاویہ سے بغض کا اثبات حنفی عالم کے قلم سے٭‬
‫بسم ہللا الرحمان الرحیم۔‬

‫کچھ دن قبل ہم نے عالمہ زاہد کوثری جو موجودہ احناف اہلسنت کے ہاں ایک عظیم شخصیت مانے‬
‫جاتے ہیں ان کا قول نقل کیا تھا جس میں ابن عباس کی طرف سے معاویہ کی تعریف اور دوسری‬
‫طرف اس کو گدھے کہنے کے قول میں یوں تطبیق دی کہ پہال قول جناب ابن عباس کا تقیہ کے‬
‫عنوان سے ہے اور دوسرا قول حقیقی ہے (جس قول میں معاویہ کو گدھا کہا گیا)۔ اس بحث میں‬
‫جائے بغیر کہ کیا ابن عباس واقعی خود ایک وتر کے قائل تھے یا نہیں اور اگر قائل نہیں تھے تو‬
‫ایک رکعت وتر پڑھنے کی تصویب کے کیا معنی؟ یہ تمام وہ سواالت ہیں جن پر کالم کرنا بھی‬
‫چاہوں تو خوف طوالت کی وجہ نہیں کرپاؤں گا اور اس کا معاملہ فقہاء اہلسنت کی طرف چھوڑوں‬
‫گا البتہ ہماری جب تحقیق کا سفر 'ابن عباس کے تقیہ' کے عنوان پر شروع ہوا تو شروع میں سمجھا‬
‫کہ فقط طحاوی ہی کی یہ رائے ہے اور دیگر اہلسنت عین ممکن ہے کہ اس رائے کو جائز قرار‬
‫نہیں دیں لیکن پھر جو م حققین احناف کی تحقیقات پڑھنے کا اتفاق ہوا تو پتا چال کہ اس قول میں فقط‬
‫عالمہ طحاوی منفرد نہیں بلکہ دیگر نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔ اور اس بات کو دلیل سے ثابت‬
‫کیا ہے کہ ابن عباس سے تقیہ عین جائز ہے۔‬

‫عالمہ ظفر تھانوی جو اہلسنت احناف کے بڑے عظیم سپوت مانے جاتے ہیں‪ ،‬اور ان کی تحقیقات پر‬
‫کافی انحصار کیا جاتا ہے‪ ،‬ان کی کتاب میں ایک باب کا مطالعہ کررہا تھا‪ ،‬اثنائے مطالعہ میں جب‬
‫ابن عباس کے مذہب پر بات کی اور طحاوی کی جب اس تاویل پر پہنچے (اپنی شخصی رائے کو‬
‫بیان کرنے کے بعد) کہ ابن عباس نے تقیہ میں یہ بات کہی ہے تو اس کو نقل کرکے اس کے اوپر‬
‫اعتراض کرنے والوں کے جواب میں کہا‪:‬‬

‫(طحاوی کا) تقیہ کی تاویل کرنا بعید نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی رکاکت اور تعصب ہے۔ تقیہ جس‬
‫معنی میں عالمہ طحاوی نے استعمال کیا ہے مطلق حرام نہیں بلکہ بعض صورتوں میں جائز بھی‬
‫ہے۔ (طحاوی کی ابن عباس کی تقیہ والی بات پر) اعتراض کرنے واال کیا جانتا نہیں کہ ابن عباس‬
‫حضرت علی رضی ہللا عنہ کے خواص (بہت قربت رکھنے والے) ساتھیوں میں سے تھے جنہوں‬
‫نے معاویہ (کی مشروعیت) کا انکار کیا اور معاویہ سے بغض رکھتے اور امام علی ع کی زندگی‬
‫میں معاویہ سے جنگ بھی کی۔ اور پھر معاویہ کی بیعت غالبا تقیہ کے طور پر کی اور اس (کے‬
‫بعض امور) پر راضی ہونا بہت کم تھا۔ اور یہی ان لوگوں (جو امیر المؤمنین کے خواص اصحاب‬
‫تھے) کا یزید کی بیعت کرنے کا معاملہ ہے (وہ بھی تقیہ کے طور پر تھی) البتہ جو تاویل ہم نے کی‬
‫وہ طحاوی کی تاویل سے بہتر ہے لیکن طحاوی کی تاویل بھی بالکل محتمل ہے اور اس کو فرض‬
‫کرنا بعید نہیں۔ چناچہ (معترض کو چاہئے اس بات کو) سمجھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬اعالء السنن‪ ،‬جلد ‪ ،6‬ص ‪ ،40‬زیر رقم ‪ ،1658‬طبع کراچی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ہم اس اقتباس سے کچھ اسباق اخذ کرتے ہیں‬

‫‪ ،1‬تقیہ مطلق حرام نہیں اور جو اہلسنت اس کا مذاق اڑاتے ہیں انہیں فکر کرنی چاہئے کہ جب خود‬
‫اپ کے مذہب کے علماء کی ایک تعداد اس کو جائز قرار دے تو اس کا مذاق اڑانا گویا شیعوں کا‬
‫مذاق اڑانا ہی نہیں بلکہ ان علماء کا مذاق اڑانا بھی ہے جن کی تحقیقات اور روایات پر اعتماد کیا‬
‫جاتا ہے‬

‫‪ ،2‬اگر کسی روایت میں کسی مقدس شخصیت کی کسی طاغی و باغی کی بیعت نظر آجائے تو اس‬
‫سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ہر حالت میں اس کی رضا اور خوشنودی کے بعد ہی‬
‫منعقد ہوئی ہوگی۔ ہرگز نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ تقیہ میں کی گئی ہو (جیسے ادھر معاویہ اور‬
‫یزید کی بیعت کا ذکر ہے) اور تقیہ چونکہ حرام نہیں اس لئے ان کا بیعت کرنا حرام نہیں ہوگا۔‬
‫بالخصوص اگر ان مقدس شخصیات کے اقوال اس طاغی و باغی کے خالف بھی موجود ہوں۔‬

‫‪ ، 3‬یہ مقولہ 'ہر صحابی عادل ہے اور وہ ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے تھے' جھوٹا ثابت‬
‫ہوجاتا ہے کیونکہ ادھر واضح طور پر عالمہ ظھر تھانوی نے لکھا ہے کہ کہ ابن عباس جس گروہ‬
‫میں شامل تھے وہ معاویہ سے بغض رکھتے تھے۔ اور اگر شدید محبت ہوگی تو بغض نہیں ہوگا۔‬

‫‪ ، 4‬یہ مقولہ 'صحابی ستاروں کی مانند ہے اور جس صحابی کی پیروی کرو گے تو ہدایت پاؤ گے'۔‬
‫اس کی پیروی کرتے ہوئے اگر ہم ابن عباس کے اسوہ پر عمل کریں تو ہمارے لئے تقیہ بھی جائز‬
‫ہوجاتا ہے اور طاغیوں سے برات اور بغض بھی۔‬

‫‪ ، 5‬امام علی ع کے جو بہت قریب ساتھی اور ان کے پروانے تھے وہ ہرگز طاغی و باغی سے ہرگز‬
‫محبت نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے جنگ کرتے‪ ،‬اس سے بغض رکھتے اور اس کا شدید انکار‬
‫کرتے ۔ ہم چونکہ امیر المؤمنین ع کے ماننے والے ہیں اور ان کے خواص سے محبت کرتے ہیں تو‬
‫ہم اس نعرہ 'علی معاویہ بھائی بھائی' کو جوتے کی نوک پر رکھ کر کہتے ہیں کہا امیر المؤمنین و‬
‫امام الراشدین علی بن ابی طالب ع اور کہا یہ طاغی و باغی و امیر الفاسقین وامام البغاتہ معاویہ۔‬

‫اختتام‪ :‬ہم تمام انصاف پسند بھائیوں کو کہتے ہیں کہ وہ اس طاغی و باغی و پسر جگر خور سے‬
‫برات کا اختیار کریں اور خدا سے قربت کا ذریعہ اس باغی سے نفرت کو بھی دیگر اچھے اعمال‬
‫کے ساتھ بنائیں۔ اور تقیہ کے فقہی حکم پر کبھی اعتراض نہ کریں۔‬

‫خیر طلب۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫محترم قارئین آپ کے سامنے خیر طلب صاحب کی پہلی دلیل جو انہوں نے صحیح مسلم سے پیش‬
‫کی ھے‪ ،‬اس پر بات چل رھی ھے‪.‬‬
‫میرے جوابی میسج کے بعد جو ان کے کمنٹس آئے ھیں اب میں ان کا جواب دیتا ہوں‪.‬‬

‫خیر طلب صاحب لکھتے ہیں کہ‬


‫روایت میں فقط امر معاویہ سعدا ہے اور اس میں چونکہ سب کا حکم کا موجود نہیں ہے تو ہم نہیں‬
‫کہہ سکتے کہ بالفعل حکم سب تھا یا نہیں تو ہم نے دو جوابات دئے تھے کہ خود روایت کے بالکل‬
‫مابعد کا جملہ جس میں معاویہ سب نہ کرنے کی وجہ پوچھتا ہے وہ واضح کرتا ہے کہ ادھر سوال‬
‫سب ہی کا تھا (اس پر محترم نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے ورنہ وہ بتائیں کس چیز کا حکم تھا‬
‫روایت کا ما بعد دیکھ کر)۔۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫جناب میں اوپر ھی آپ کی اس بات پر میں ایک سوال کرچکا تھا کہ‬
‫ما منعک ان تسب ابا تراب‪.‬‬
‫یہ الفاظ حکم کیسے ھوئے؟‬
‫آپ اس سوال کا جواب ابھی تک نھیں دے سکے‪.‬‬
‫اب آگے دیکھیں کہ جناب خیر طلب نے کیا لکھ دیا‪ ،‬لکھا کہ‬

‫"ہم نے دو جوابات دئے تھے کہ خود روایت کے بالکل مابعد کا جملہ جس میں معاویہ سب نہ کرنے‬
‫کی وجہ پوچھتا ہے وہ واضح کرتا ہے کہ ادھر سوال سب ہی کا تھا"‪.‬‬

‫خیر طلب صاحب نے یہ لکھا کہ "ادھر سوال سب (گالی) ھی کا تھا"‪.‬‬


‫تو یھاں انھوں نے سوال کا لکھ دیا‪ ،‬اس سے پہلے یہ حکم کا کھہ رھے تھے‪.‬‬
‫خود ان کو بھی گالی کا حکم سمجھ میں نھیں آرھا‪.‬‬

‫اب آگے چلتے ہیں‪ ،‬جناب خیر طلب صاحب لکھتے ہیں کہ‬
‫"اور پھر ہم نے ابن تیمیہ کا اعتراف نقل کیا جو اس کو سب کا حکم ہی تعبیر کرتے ہوئے صحیح‬
‫مسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں جس پر فخر الزماں نے سوال کیا تھا کہ آیا یہ شیعہ کی رائے ہے‬
‫یا ابن تیمیہ کی تو ہم نے کہا تھا کہ جس صفحہ سے ہم نے نقل کی ہے وہ خود ابن تیمیہ ہی کی‬
‫رائے ہے شیعہ کی نہیں (اس پر بھی فخر الزماں صاحب کا کوئی تبصرہ نہیں آیا)"‬

‫جواب‪.‬‬
‫میں نے اپنے آخری کمنٹس کے بعد ابھی جواب دیا ھے تو پہلے تبصرہ کیسے کرتا‪.‬‬
‫عالمہ ابن تیمیہ شیعہ والے الفاظ نقل کررھے ھیں‪ ،‬کیونکہ شیعہ نے بھی یھی الفاظ لکھے ہیں‪.‬‬
‫شاید کوئی یہ کھے کہ پہر اس بات کا رد کیوں نہیں کیا عالمہ صاحب نے؟‬
‫تو عرض ھے کہ وھاں بحث امامت پر چل رھی ھے نہ کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں‬
‫دلوانے کی جو اس کی وضاحت عالمہ صاحب کر دیتے‪.‬‬
‫عالمہ صاحب خود لکھتے ہیں‬
‫وفیه ثالث فضائل لعلي لكن لیست من خصائص اْلئمة‪..‬‬
‫تو یھاں شیعہ جس مقصد سے یہ حدیث الیا ھے اس کا رد کررھے ھیں‪.‬‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫آگے جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫دیکھئے ہمارا اصل استدالل ہی اس بات پر تھا کہ فضائل کا اعتراف ہرگز اس بات کا موجب نہیں کہ‬
‫بالفعل انسان اس شخص کی فضیلت کا بھی قائل ہے‪ ،‬سیرت کی کتب اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طرح‬
‫کفار اور مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کر برمال اظہار بھی‬
‫کرتے تھے اس کے باوجود یہ اعتراف ان کی فضیلت کا باعث نہیں بن سکتا۔۔ یہی حال معاویہ کا‬
‫تھا۔‪....‬‬
‫آگے جناب نے امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی رحمھما ہللا کا واقعہ نقل کیا ھے کہ سامنے والے کی‬
‫قوت استدالل سے خاموش ھو جاتا ھے‪.....‬‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬فضائل کا اقرار تو فضیلت کا ھی اقرار ھے‪ ،‬یہ عجیب بات کردی جناب نے‪ ،‬پڑھنے والے‬
‫دوست بھی پریشان ھوگئے ھونگے کہ یہ کیا لکھ دیا خیر طلب صاحب نے‪.‬‬
‫آپ یہ بتائیں کہ فضائل کے اقرار کے ساتھ فضیلت کا انکار کیسے ھوتا ھے؟‬
‫‪ ، 2‬یہودیوں کو چھوڑ کر اب مشرکین پر آگئے جناب‪ ،‬مشرکین کہ بارے میں بھی جناب نے یہ لکھ‬
‫دیا کہ‬
‫"مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھےاس‬
‫کے باوجود یہ اعتراف ان کی فضیلت کا باعث نھیں بن سکتا"‪..‬‬
‫جناب کے اس جملے میں تضاد مالحظہ فرمائیں ‪ ،‬پہلے لکھا کہ مشرکین فضیلت کے قائل تھے‪ ،‬اور‬
‫آگے لکھ دیا کہ ان کا اعتراف فضیلت کا باعث نہیں بن سکتا‪....‬‬
‫فضیلت کا اقرار اور انکار دونوں ایک ساتھ لکھ دیا ہے آپ نے‪ ،‬جناب اصل میں آپ خود پریشان ہیں‬
‫کہ فضیلت و فضائل کو الگ سمجھ کر‪.‬‬
‫‪ ، 3‬رھا مشرکین کا معاملہ تو وہ رسالت سے پہلے واقعی فضائل کے قائل تھے لیکن اعالن نبوت‬
‫کے بعد وھی جادوگر‪ ،‬مجنون کھنا شروع ھوگئے اور تکالیف دینا شروع کردی‪.‬‬
‫تو یہ مثال بھی نھیں بنتی آپ کی اس مقام پر‪.‬‬
‫‪ ،4‬رھا قوت است دالل سے مغلوب ھونا تو یھاں یہ مثال بھی نھیں بنتی‪ ،‬کیونکہ بقول شیعوں کے سیدنا‬
‫معاویہ رضی ہللا عنہ تو سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے پکے دشمن تھے ان سے بغض رکھتے تھے‪،‬‬
‫تو حکمرانی اور طاقت رکھنے واال ‪،‬دشمن اور بغض رکھنے واال اگرچہ مغلوب بھی ھوجائے تو‬
‫بھی اپنے مخالف کے حامی کو ایسے نھیں چھوڑتا کہ کوئی اس کے دشمن کے فضائل بیان کر کے‬
‫چال جائے اور وہ خاموش بیٹھا رھے‪.‬‬
‫ایران میں یا جھاں شیعوں کی حکومت ھے وھاں صحابہ سے محبت رکھنے والوں سے کیا سلوک‬
‫کرتے ہیں شیعہ وہ سب جانتے ہیں‪.‬‬
‫فاطمی اور صفوی حکومت میں صحابہ سے محبت رکھنے والے سنیوں کے ساتھ شیعہ حکمرانوں‬
‫نے کیا کیا وہ کسی سے مخفی نھیں‪.‬‬
‫‪ ، 5‬اور دوسرا یہ کی قوت استدالل سے مغلوب ھونے واال خود اس بات کا قائل ھوجائے جس کا‬
‫پہلے منکر تھا تو پہر کیا اعتراض؟‬
‫جب وہ زبان سے ھی اعتراف کرلے تو بات ختم ھوجاتی ھے نہ؟‬

‫آگے جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫باقی آپ کا کہنا کہ امیر معاویہ امیر المؤمنین ع کی تعریف کرتا تھا تو بیشک آپ ایک ایسی روایت‬
‫نقل کریں جو صحت کے معیار پر پوری اترے‪ ،‬اور پھر داللت بھی بطور استدالل نقل کریں کیونکہ‬
‫کسی فضیلت کا اقرار اعم ہے بنسبت قلبی طور سے ماننا جو اخص ہے تو آپ ایک اخص دعوی کے‬
‫لئے اعم دلیل سے استدالل نہیں کرسکتے۔‬

‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬شیعہ کتاب اصل و اصول الشیعہ محمد حسین آل کاشف الغطاء کی‪ ،‬مترجم صفحہ ‪ 86‬پر احنف بن‬
‫قیس کا سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے سامنے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کا فضائل بیان کرنا اور‬
‫سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا جواب میں یہ کھنا منقول ھے کہ‪...‬‬
‫"معاویہ نے کھا‪ ،‬احنف تم نے اس وقت ایسے شخص کی یاد تازہ کردی جس کے فضائل کا انکار‬
‫مشکل ہے"‪.‬‬
‫تو شیعہ کتابوں سے بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی فضائل کا اقرار‬
‫خود معاویہ رضی ہللا عنہ کی زبانی ثابت ھے‪.‬‬
‫‪ ، 2‬جناب کو اتنا تو پتا ھوگا کہ کسی کے قلب میں کیا ھے اس کو تو ہللا ھے جانتا ہے‪ ،‬ھم کو تو‬
‫ظاھر پر چلنا ھوتا ھے‪.‬‬
‫ورنہ جناب پہر ان شیعوں کے ایمان کی فکر کریں جو شیعہ اھل بیت کی محبت کے زبانی دعوے‬
‫کرتے ہیں‪.‬‬

‫میں نے لکھا تھا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کی حکومت اور طاقت تھی انھوں نے کیسے اپنے دشمن‬
‫(بقول شیعہ) کے فضائل سننے کو کیسے برداشت کیا؟‬
‫اس کے جواب میں جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫یہ دلیل تو آپ کو دینی ہے کہ معاویہ نے اس کو برداشت کیا اور معاویہ امیر المؤمنین ع سے محبت‬
‫کرتا تھا‪ ،‬ہمارے ذمہ میں اثبات حکم سب تھا جس پر آپ بالکل کالم نہیں فرمارہے اور بعد میں‬
‫معاویہ اپنے اس جرم سے تائب ہوا یہ صرف دعوی سے نہیں چلے گا بلکہ دعوی پر دلیل دینے‬
‫ہوگی۔‬
‫پہر آگے إعالء السنن کی عبارت پیش کی‪....‬‬

‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬تائب ھونے کی بات تو تب ھو نہ جب گناھ ثابت ھو؟ ابھی تک تو آپ اسی کوشش میں لگے‬
‫ھوئے ھیں اور تائب ھونے کی بات کردی‪.‬‬
‫واہ سبحان ہللا‬
‫‪ ، 2‬سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا حضرت سعد رضی ہللا عنہ سے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے‬
‫فضائل سن کر چپ ھوجانا برداشت کی ھی دلیل ھے‪.‬‬
‫ورنہ بتائیں کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل بیان کرنے پر‬
‫کیا سزا دی حضرت سعد رضی ہللا عنہ کو؟‬
‫‪ ، 3‬إعالء السنن کا حوالہ جناب نے یھاں کیا ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ھے؟ یہ ثابت کرنے کے‬
‫لیے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ سے بغض رکھتے تھے؟‬
‫تو دکھائیں إعالء السنن کی اس عبارت میں کھاں ھے یہ بات؟‬
‫‪ ، 4‬خیر طلب صاحب کا یہ اعالء السنن کے غیر متعلق حوالہ نقل کرنے کے بعد یہ لکھنا کہ‬
‫"آپ کے علماء کا اعتراف ھے کہ معاویہ کا سلوک خواص امیر المومنین کے ساتھ اچھا نھیں‬
‫تھا"‪...‬‬
‫جناب میری آپ سے گزارش ہے کہ زرا یہ بات آپ اعالء السنن میں اس جگہ پر دکھادیں؟‬

‫===ختم شد===‬
‫‪Khair Talab‬‬

‫بسم ہللا الرحمان الرحیم‬

‫ہم اب محترم فخر الزماں کے جملہ اعتراضات کے جوابات دینے جارہے ہیں اور ہمارے جواب کی‬
‫ترتیب کچھ یوں ہوگی‬

‫‪ ،١‬صحیح مسلم کی روایت اور اس کے متعلق ابحاث۔‬

‫الف‪ ،‬حکم کس چیز کا دیا گیا تھا اور کیا فقط معاویہ نے عدم وجہ سب پوچھی تھی اور حکم سب‬
‫موجود نہیں تھا؟‬

‫ب‪ ،‬کیا معاویہ کا عدم تعرض فضیلت کرنا دلیل اعتراف فضیلت ہوسکتی ہے مع جواب عدم توبیخ‬
‫سعد؟‬

‫ج‪ ،‬کیا معاویہ کا اعتراف فضیلت کرنا دلیل ایمان لی جاسکتی ہے؟‬

‫‪ ،٢‬صحیح مسلم کی روایت کی تائید میں دیگر آثار اور روایات‬

‫الف‪ ،‬سنن ابن ماجہ کی روایت (معاویہ اور سعد بن ابی وقاص کا واقعہ)‬

‫ب‪ ،‬تاریخ دمشق از ابن عساکر کی روایت (معاویہ اور سعد بن ابی وقاص کا واقعہ)‬

‫ج‪ ،‬صلح امام حسن ع میں عدم سب کی شرط روایات کی روشنی میں۔‬

‫‪ ،٣‬صحیح مسلم کی روایت کی تائید میں اہلسنت علماء کا اقرار‬

‫الف‪ ،‬ابن حزم‬


‫ب‪ ،‬ابن حجر عسقالنی‬

‫‪ ، ٤‬کتاب اصل و اصول الشیعہ سے نقل کردہ روایت کا باالستعیاب جواب‬

‫‪ ،٥‬اعالء السنن سے اعتراف کا جواب۔‬

‫‪ ،٦‬اختتامی کالم۔‬

‫‪ ،١‬صحیح مسلم کی روایت اور اس کے متعلق ابحاث۔‬


‫ناظر ین و قارئین کو اعادہ کراتے ہوئے بتاتا چلوں کہ ہم نے صحیح مسلم کی روایت سے بایں‬
‫استدالل کیا تھا‬

‫أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَان سعدا َ َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ‬
‫ب‬

‫ترجمہ‪ :‬حکم دیا معاویہ ابوسفیان کے بیٹے نے سعد کو۔ کیا چیز روکتی ہے کہ تم (اے سعد) ابو‬
‫تراب (یعنی امیر المؤمنین) پر سب کرو۔‬

‫اس میں واضح طور پر معاویہ کی طرف سے سعد کو ایک حکم دیا گیا تھا اور ما بعد کا جملہ بتاتا‬
‫ہے کہ چونکہ سوال سب نہ کرنے پر کیا گیا تھا تو حکم بھی اس ہی کے متعلق تھا‪ ،‬روایت بہت‬
‫واضح ہے اور یہی معنی کافی اہلسنت علماء نے لئے ہیں۔‬

‫اس کے بعد میں نے حکم سب امیر المؤمنین بتایا تھا‪ ،‬جو یوں تھا‪:‬‬

‫ع ِلیًّا فَقَدْ َ‬
‫سبهنِي» ‪.‬‬ ‫سله َم یَقُولُ‪َ « :‬م ْن َ‬
‫سبه َ‬ ‫صلهى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫س ِم ْعتُ َرسُو َل ه ِ‬
‫َّللا َ‬ ‫یہ واضح صحیح حدیث ہے‪َ :‬‬

‫رسول ص نے فرمایا جس نے علی ع پر سب کیا گویا اس نے مجھ پر سب کیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬فضائل الصحابة‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص‪ ،594‬ح‪1011‬‬

‫اب اصوال اس قاعدے کے مطابق معاویہ سب علی ع کرنے کی وجہ سے سب رسول ص کے درجہ‬
‫تک پہنچا اور یوں وہ منافق ثابت ہوا کیونکہ رسول ص کی حدیث ہے‪:‬‬

‫«أ َ ْن َال ی ُِحبهنِي ِإ هال ُمؤْ ِم ٌن‪َ ،‬و َال یُ ْب ِغ َ‬


‫ضنِي ِإ هال ُمنَافِ ٌق»‬
‫علی ع سے کوئی محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور کوئی بغض نہیں رکھے گا مگر منافق‬

‫صحیح مسلم‪ ،‬جلد ‪ ،1‬ص ‪ ،86‬رقم ‪78‬‬

‫اب بحث کے مندرجہ باال امور پر آتے ہیں‪:‬‬

‫الف‪ ،‬حکم کس چیز کا دیا گیا تھا اور کیا فقط معاویہ نے عدم وجہ سب پوچھی تھی اور حکم سب‬
‫موجود نہیں تھا؟‬

‫ناظرین اس حوالے سے ہمارے بار بار پوچھنے پر اب تک فخر الزماں صاحب ہمیں یہ نہیں بتارہے‬
‫ہیں کہ حکم کس چیز کا دیا گیا تھا اور میں پھر بصد ادب و احترام گذارش کرتا ہوں کہ محترم اب‬
‫بتائے کہ کس چیز کا حکم تھا‪ ،‬اب کی توجہ کا مرکز صرف دوسرا جملہ َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ‬
‫ب‬
‫بنا ہوا ہے جب کہ ہماری مستدل عبارت فقط یہ جملہ نہیں بلکہ یہ پورا جملہ ایک ساتھ ہے أ َ َم َر‬
‫ب یعنی پہلے کسی چیز کا حکم دیا گیا اور پھر‬ ‫ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَان سعدا َ َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ‬
‫اس حکم کی عدم تعمیل پر اس کی وجہ پوچھی گئی کہ سب کیوں نہیں کیا۔‬

‫اس پر محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(جناب میں اوپر ھی آپ کی اس بات پر میں ایک سوال کرچکا تھا کہ‬
‫ما منعک ان تسب ابا تراب‪.‬‬
‫یہ الفاظ حکم کیسے ھوئے؟ )‬

‫جواب‪ :‬محترم آپ براہ کرم میری پہلی شق کا جواب دیں کہ واضح طور پر أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْف َیان‬
‫ب ہے تو آپ کا پوچھا کہ الفاظ حکم‬ ‫سعدا َ جملہ موجود ہے اور اس کے بعد َما َمنَ َعكَ أ َ ْن تَسُبه أ َ َبا الت ُّ َرا ِ‬
‫کیسے ہوئے عجیب بنتا ہے کیونکہ جب کسی چیز کا حکم دیا جائے اور پھر اس کو نہ کرنے کی‬
‫صورت میں صرف اس ہی کے بارے میں ہی سوال کیا جاتا ہے۔‬

‫میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک روایت مسند احمد میں جناب ابوبکر کی امامت نماز (مزعوم)‬
‫کے متعلق یوں وارد ہوئے ہیں‪:‬‬

‫ث ُ هم أ َ َم َر أَبَا بَ ْك ٍر فَتَقَد َهم بِ ِھ ْم‬

‫ترجمہ‪ :‬رسول ص نے ابوبکر کو حکم دیا کہ وہ نماز میں لوگوں کی امامت کروائیں۔‬

‫روایت کے مطابق جب ابوبکر تھوڑا تامل کا شکار ہوئے تو ما بعد رسول ص نے جناب ابوبکر سے‬
‫فرمایا‪:‬‬

‫قَالَ‪ " :‬یَا أ َ َبا بَ ْك ٍر َما َمنَ َعكَ ِإذْ أ َ ْو َمأْتُ ِإلَیْكَ أ َ ْن َال تَكُونَ َم َ‬
‫ضیْتَ ؟ "‬

‫ترجمہ‪ :‬رسول ص نے فرمایا‪ :‬کہ اے ابوبکر کیا چیز مانع ہوئی کہ جب میں نے آپ کو نماز پڑھانے‬
‫کا کہا تو آپ تشریف نہیں الئے۔‬

‫نوٹ‪ :‬شعیب ارنووط نے اس روایت کی سند کو بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬مسند احمد بن حنبل‪ ،‬جلد ‪ ،٣٧‬ص ‪٤٧٣‬‬

‫کتاب کو آنالئن ادھر سے دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-25794#page- :‬‬


‫‪18979‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ادھر میں فخر الزماں صاحب اور قارئین کی توجہ بتانا چاہوں گا کہ ادھر بھی لفظ امر ہے‬
‫اور ما بعد مامنعک کے بعد سوال ہے یعنی جس چیز کا حکم دیا تھا اور اس کی عدم بجا آوری پر‬
‫سوال اس حکم کے متعلق ہی ہے‪ ،‬چنانچہ جب واضح بات ہے کہ ادھر ایک چیز کا حکم تھا اور پھر‬
‫معاویہ نے سعد سے سوال کیا تو واضح ہوگیا کہ حکم اور ما بعد سوال میں مطابقت ہونا ضروری‬
‫ہے اور وہ فقط اس ہی وقت ہوگی کہ جب حکم سب دیا گیا ہو۔‬

‫ناظرین اس روایت میں حکم سب کے حوالے سے میں نے ابن تیمیہ کے قول سے استدالل کیا تھا‬
‫جو بایں ہے‪:‬‬

‫وأما حدیث سعد لما أمرہ معاویة بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن أبي طالب فقال ثالث قالھن‬
‫رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم فلن أسبه ْلن یكون لي واحدة منھن أحب إلي من حمر النعم الحدیث فھذا‬
‫حدیث صحیح رواہ مسلم في صحیحه‬

‫اور سعد ب ن ابی وقاص کی حدیث کہ جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا اور سعد نے انکار کیا‬
‫اور کہا۔۔ (پھر فضائل نقل کئے)۔۔ اور یہ حدیث صحیح ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة‪)20/5( ،‬‬

‫ناظرین یہ الفاظ صاف ہے کہ خود ابن تیمیہ معترف ہے کہ معاویہ نے سعد کو سب ہی کا حکم دیا‪،‬‬
‫تعجب یہ ہوا کہ محترم فخر الزماں نے ہم سے سوال کیا کہ یہ قول شیعہ کا نقل کیا ہے یا ابن تیمیہ کا‬
‫خود جس کے جواب میں نے کہا‪:‬‬

‫ابن تیمیہ نے عالمہ ابن مطہر کا قول ص ‪ ١٩‬پر نقل کیا اور ص ‪ ٢٠‬پر ابن تیمیہ کی خود عبارت‬
‫ہے۔۔ اور یہ ابن تیمیہ ہی کا اعتراف ہے۔ شیعہ کا قول نہیں‬

‫اس پر محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(میں نے اپنے آخری کمنٹس کے بعد ابھی جواب دیا ھے تو پہلے تبصرہ کیسے کرتا‪.‬‬
‫عالمہ ابن تیمیہ شیعہ والے الفاظ نقل کررھے ھیں‪ ،‬کیونکہ شیعہ نے بھی یھی الفاظ لکھے ہیں‪.‬‬
‫شاید کوئی یہ کھے کہ پہر اس بات کا رد کیوں نہیں کیا عالمہ صاحب نے؟‬
‫تو عرض ھے کہ وھاں بحث امامت پر چل رھی ھے نہ کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں‬
‫دلوانے کی جو اس کی وضاحت عالمہ صاحب کر دیتے‪.‬‬
‫عالمہ صاحب خود لکھتے ہیں‬
‫وفیه ثالث فضائل لعلي لكن لیست من خصائص اْلئمة‪..‬‬
‫تو یھاں شیعہ جس مقصد سے یہ حدیث الیا ھے اس کا رد کررھے ھیں)‬

‫جواب‪ :‬محترم فخر الزماں صاحب آپ پر واجب تھا کہ آپ ثابت کرتے کہ یہ قول عالمہ ابن مطہر‬
‫الحلی الشیعی کا ہے جب کہ ہم نے خود منھاج السنتہ کی عبارت کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا تھا کہ‬
‫ماقبل صفحہ میں عالمہ حلی کا قول ہے اور ما بعد ابن تیمیہ کا اور اگر بالفرض یہ مجرد نقل تھی تو‬
‫براہ کرم یہ بتائے کہ اس پر نقد کیوں نہ کیا بلکہ ما بعد ہی ابن تیمیہ صاحب فرماتے ہے‪:‬‬

‫فھذا حدیث صحیح رواہ مسلم في صحیحه‬


‫یہ حدیث صحیح ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا‬

‫محترم اب آپ ضد چھوڑئے اور خود ابن تیمیہ کا واضح اعتراف دیکھئے‪ ،‬مجھے نہیں معلوم کہ‬
‫کس منطق کے تحت یہ شیعہ کا قول ہوگیا۔ بغیر دلیل کے بات بیکار ہے‬

‫مسند أحمد ط الرسالة • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪Khair Talab‬‬

‫دیکھئے محترم میں آپ کو ابن تیمیہ کی کچھ مزید عبارات پیش خدمت کرتا ہوں کہ شاید آپ کے دل‬
‫میں میری بات اتر جائے‬

‫االول‪ ،‬ابن تیمیہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫فمعلوم أن الذین قاتلوہ ولعنوہ وذموہ من الصحابة والتابعین وغیرھم ھم أعلم وأدین من الذین یتولونه‬
‫ویلعنون عثمان‬

‫یہ بات معلوم شدہ ہے کہ صحابہ اور تابعین میں وہ افراد جنہوں نے امیر المؤمنین ع کے ساتھ جنگ‬
‫کی‪ ،‬امیرالمؤمنین ع پر لعنت کی اور امیر المؤمنین ع کی مذمت کی وہ ان حضرات جو امیر‬
‫المؤمنین ع سے محبت کرتے تھے اور عثمان پر لعنت کرتے تھے کے مقابلہ میں زیادہ علم والے‬
‫اور دین کے حامل تھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنتہ‪ ،‬جلد ‪ ،٥‬ص ‪١٠‬‬

‫کتاب کو دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-2318 :‬‬

‫الثانی‪ ،‬ابن تیمیہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫ص َالةِ ِر َج ًاال ُم َعیهنِینَ َم ْن أ َ ْھ ِل‬ ‫ي َوأ َ ْ‬


‫ص َحابُهُ فِي قُنُو ِ‬
‫ت ال ه‬ ‫ضا فِي ْالقُنُو ِ‬
‫ت فَلَ َعنَ َ‬
‫ع ِل ٌّ‬ ‫ض ُھ ْم َب ْع ً‬‫لَ َعنَ أ َ ْھ ُل صفین َب ْع ُ‬
‫ش ِام لَعَنُوا‬‫ش ِام؛ َو َكذَلِكَ أ َ ْھ ُل ال ه‬
‫ال ه‬

‫اہل صفین نے ایک دوسرے پر لعنت کی تھی جیسے کہ امیر المؤمنین ع اور ان کے ساتھیوں نے‬
‫اپنے قنوت نماز میں بعض معین اشخاص پر لعنت کی تھی اہل شام میں سے‪ ،‬اور یوں ہی اہل شام‬
‫لعنت کرتے تھے‬

‫حوالہ‪ :‬مجموع الفتاوى‪ ،‬جلد ‪ ،٤‬ص ‪٤٨٥‬‬


‫کتاب کو دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-7289#page-1807 :‬‬

‫الثالث‪ :‬ابن تیمیہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫غی ِْرھَا؛ ِْلَجْ ِل ْال ِقت َا ِل الهذِي َكانَ بَ ْینَ ُھ ْم‬


‫علَى ْال َمنَابِ ِر َو َ‬ ‫َوقَدْ َكانَ ِم ْن ِشیعَ ِة عُثْ َمانَ َم ْن یَسُبُّ َ‬
‫ع ِلیًّا‪َ ،‬ویَجْ َھ ُر بِذَلِكَ َ‬
‫َو َب ْینَهُ‪.‬‬

‫اور عثمان کے چاہنے والوں میں سے حضرات امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے اور اس بات کا‬
‫بھی کھلے عام اظہار کرتے تھے منبر اور دیگر جگاہوں پر‪( ،‬اس کی وجہ یہ تھی) کہ ان (عثمان‬
‫کے چاہنے والوں) اور علی ع پر درمیان جنگ ہوئی تھی۔‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنتہ‪ ،‬جلد ‪ ،٦‬ص ‪٢٠١‬‬

‫کتاب کو دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-927/page-2318#page- :‬‬


‫‪3031‬‬

‫یاد رہے کہ شیعان عثمان معاویہ کی رعایہ والے ہی تھے جیسے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہے‪َ :‬و َر ِعیهةُ‬
‫ُم َعا ِویَ َة ِشی َعةُ عُثْ َمانَ (دیکھئے منھاج السنتہ جلد ‪ ٥‬ص ‪)٤٦٦‬‬

‫کتاب کو دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-927/page-2318#page- :‬‬


‫‪2774‬‬

‫اب اس مصدر کو سامنے رکھئے اور پھر باقی تین مصادر کو مزید رکھئے تو یہ بات کھل کر‬
‫سامنے آجاتی ہے کہ عثمان کے چاہنے والے جو معاویہ کی رعایتہ میں سے تھے‪ ،‬اہل صفین جس‬
‫کا سرغنہ معاویہ تھا اور امیر المؤمنین ع سے جنگ کرنے والے صحابہ جس کا سرغنہ معاویہ تھا‬
‫امیر ع پر سب اور لعنت کرتے تھے۔ اب میں نہیں سمجھتا کہ ابن تیمیہ کی اتنی ساری عبارات کے‬
‫بعد بھی کسی چیز کی کوئی گنجائش رہتی ہے۔‬

‫منھاج السنة النبویة • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫ا ب میں دوسری بات کی طرف آتا ہوں کہ یہ بات کرنے والے کہ صحیح مسلم میں سب کا حکم‬
‫معاویہ کی طرف سے تھا صرف ابن تیمیہ ہی نہیں بلکہ بعض دیگر اہلسنت علماء بھی ہیں۔‬

‫پہلے‪ ،‬چنانچہ عالمہ محب ہللا طبری فرماتے ہے‪:‬‬

‫عن سعید قال‪ :‬أمر معاویة سعدًا أن یسب أبا تراب۔۔۔۔ خرجه مسلم والترمذي‪.‬‬
‫ترجمہ‪ :‬راوی سے مروی ہے کہ معاویہ نے سعد کو امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دیا۔۔۔۔ (پوری‬
‫روایت نقل کرتے ہیں)‪ ،‬اس کو مسلم اور ترمذی نے نقل کیا ہے۔‬

‫حوالہ‪:‬الریاض النضرة في مناقب العشرة‪ ،‬جلد ‪ ٣‬ص ‪١٥٢‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-8657#page-593 :‬‬

‫دوسرے‪ ،‬مال علی قاری الحنفی فرماتے ہے‪:‬‬

‫س ْعدًا أ َ ْن َیسُبه أ َ َبا ت ُ َرا ٍ‬


‫ب‬ ‫َقالَ‪ :‬أ َ َم َر ُم َعا ِو َیةُ َ‬
‫معاویہ نے سعد کو امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح‪ ،‬ص ‪ ،٣٩٦٢‬حدیث ‪٦١٣٦‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-8176#page-8557 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اس کے عالوہ بھی ہمارے پاس کافی اقوال ہیں لیکن فی الحال دو اقوال پر ہی اکتفاء کررہے‬
‫ہیں۔‬

‫خالصہ‪ :‬چنانچہ ان تمام دالئل سے ثابت ہوا کہ ادھر حکم سب ہی تھا اور آپ کوئی بھی جواب دینے‬
‫سے پہلے مجھے یہ واضح کریں گے کہ معاویہ نے سعد کو کس چیز کا حکم دیا تھا بعد میں کچھ‬
‫فرمائے گا۔‬

‫الریاض النضرة في مناقب العشرة • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫ب‪ ،‬کیا معاویہ کا عدم تعرض فضیلت کرنا دلیل اعتراف فضیلت ہوسکتی ہے مع جواب عدم توبیخ‬
‫سعد؟‬

‫فخر الزماں صاحب نے معاویہ کو بچانے کی خاطر یہ فرمایا کہ چونکہ معاویہ نے سعد سے روایت‬
‫سن کر خاموشی اختیار کی تو یہ ان کا فضیلت تسلیم کرنے کا موجب ہے۔ تو ہم پہلے بتاتے چلیں کہ‬
‫ادھر کوئی ہمارے کالم میں تناقض نہ کہے‪ ،‬ہم ان تمام کے اشکاالت کے جوابات برسبیل تنزل دے‬
‫رہے ہیں کہ پہلی بات عدم تعر ض سے ہمیشہ قبولیت لینا غلط ہے اور برسبیل تنزل قبولیت فضیلت‬
‫مان بھی لیں جب بھی وہ اس شخص (قائل فضیلت) کے اچھے ہونے پر داللت نہیں کرے گا‪ ،‬فی‬
‫الحال ہماری بحث مقدمہ اولی سے ہے کہ عدم تعرض کبھی قبولیت فضیلت کا باعث بن سکتی ہے‬
‫اور کبھی نہیں۔۔ تو جہاں دو احتمال موجود ہوں وہاں ایک ہی معنی مراد لینا غلط ہے جب تک کہ‬
‫کوئی قرینہ ایسا نہ ہو جو ایک معنی کو متعین کردے۔‬

‫اس حوالے سے میں نے امام اف اہلسنت اوزاعی کا ابوحنیفہ کے ہاتھوں بقول ہمارے حنفی بھائیوں‬
‫کے شکست مناظرہ کو دیکھایا یہاں تک کہ اوزاعی سکوت کرگئے اس کے باوجود وہ رفع الیدین‬
‫کے قائل رہے تو ہمارا استدالل فقط اتنا تھا کہ اگر خاموشی ہر بار قبولیت کو مستلزم کرتی ہے تو‬
‫یہاں بھال اوزاعی عدم رفع الیدین کے قائل کیوں نہ ہوئے‪ ،‬محترم نے فرمایا‬

‫(واہ سبحان ہللا‬


‫‪ ، 2‬سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا حضرت سعد رضی ہللا عنہ سے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے‬
‫فضائل سن کر چپ ھوجانا برداشت کی ھی دلیل ھے‪.‬‬
‫ورنہ بتائیں کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل بیان کرنے پر‬
‫کیا سزا دی حضرت سعد رضی ہللا عنہ کو؟)‬

‫ایک اور جگہ فخر الزماں نے فرمایا‪:‬‬

‫(رھا قوت استدالل سے مغلوب ھونا تو یھاں یہ مثال بھی نھیں بنتی‪ ،‬کیونکہ بقول شیعوں کے سیدنا‬
‫معاویہ رضی ہللا عنہ تو سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے پکے دشمن تھے ان سے بغض رکھتے تھے‪،‬‬
‫تو حکمرانی اور طاقت رکھنے واال ‪،‬دشمن اور بغض رکھنے واال اگرچہ مغلوب بھی ھوجائے تو‬
‫بھ ی اپنے مخالف کے حامی کو ایسے نھیں چھوڑتا کہ کوئی اس کے دشمن کے فضائل بیان کر کے‬
‫چال جائے اور وہ خاموش بیٹھا رھے‪.‬‬
‫ایران میں یا جھاں شیعوں کی حکومت ھے وھاں صحابہ سے محبت رکھنے والوں سے کیا سلوک‬
‫کرتے ہیں شیعہ وہ سب جانتے ہیں‪.‬‬
‫فاطمی اور صفوی حکومت میں صحابہ سے محبت رکھنے والے سنیوں کے ساتھ شیعہ حکمرانوں‬
‫نے کیا کیا وہ کسی سے مخفی نھیں)‬

‫تو اب ہم ان کے ان اشکالت کے جوابات میں کہتے ہیں کہ محترم آپ ایک اخص چیز کے قائل ہیں‬
‫اور ہم کہتے ہیں کہ آپ کی دلیل اعم ہے۔ اور اخص دعوی پر اعم دلیل سے استدالل کرنا ہی غلط‬
‫ہے۔ دی کھئے آپ کہتے ہیں کہ خاموش رہنا اور عدم تعرض کرنا ہمیشہ قبولیت پر داللت کرے گی‬
‫ورنہ آپ کا استدالل تام نہیں بنتا اور میں کہتا ہوں کہ خاموش رہنا اور عدم تعرض کرنا کبھی دالئل‬
‫سے مغلوب ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں‪ ،‬کبھی تعارض ادلتہ کی وجہ سے‪ ،‬کبھی قبولیت کی وجہ‬
‫سے و غیرہ وغیرہ تو اس صورت میں آپ کس طرح فقط ایک قبولیت ہی کو لے سکتے ہیں۔ اس کو‬
‫بغیر دلیل لینا ہی غلط ہے۔‬

‫میں مثال دیتا ہوں کہ شافعی کا قول حنفی عالم یوں نقل کرتے ہیں جو ابھی ہمارا مستدل ہے‪:‬‬

‫للشافعى رحمه ہللا جواز‪ :‬أن یكون سكوته للتأمل أو للتوقف بعدہ لتعارض اْلدلة أو للتوقیر أو الھیبة أو‬
‫خوف الفتنة أو غیرہ كاعتقاد حقیة كل مجتھد فیه وكون القائل أكبر سنًا أو أعظم قدرا أو أوفر‬

‫شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت کبھی مختلف‬
‫دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے‪ ،‬کبھی کسی انسان کے‬
‫وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے‪ ،‬کبھی اس انسان کے رعب کی وجہ سے‪ ،‬کبھی فتہ کے‬
‫خوف کی وجہ سے ہے یا ان کے عالوہ یا جیسے کہ ہر مجتہد اس میں صحیح ہے اس وجہ سے‪،‬‬
‫کبھی دوسرا آدمی عمر میں بڑا ہوتا ہے‪ ،‬یا عزت میں زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬فصول البدائع في أصول الشرائع جلد ‪ ٢‬ص ‪٢٩٢‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-98083#page-648 :‬‬

‫محترم فخر الزماں صاحب خود دیکھئے کہ شافعی کے ہاں کافی ساری وجوہات سکوت ممکن ہے‪،‬‬
‫اور اس کا ایک عملی مصداق اوزاعی کی صورت می ں دے چکا ہوں تو عدم تعرض کرنا ایک اعم‬
‫چیز ہے اور آپ کا دعوی اخص ہے اور اعم دلیل اخص دعوی پر نہیں چلتی۔۔ یعنی آپ کس دلیل‬
‫سے کہہ رہے ہیں کہ عدم تعارض قبولیت کی نشانی ہے؟‬

‫ج‪ ،‬کیا معاویہ کا اعتراف فضیلت کرنا دلیل ایمان لی جاسکتی ہے؟‬

‫اس ذیل میں ہم مقدمہ ثانی یعنی برسبیل تنزل مان بھی لیں کہ معاویہ نے فضائل امیر المؤمنین ع کو‬
‫تسلیم بھی کیا تو وہ تسلیم کرنا کافی نہیں اگر معاویہ کا سب کرنا‪ ،‬لعنت کرنا‪ ،‬جنگ کرنا‪ ،‬اور بغض‬
‫رکھنا دیگر دالئل سے ثابت ہوں۔۔ اس پر میں نے آپ کو یہودیوں اور مشرکین کی مثالیں دیں تھیں‬
‫جو اگرچہ فضیلت رسول ص کے قائل تھے لیکن پھر بھی وہ ان کو باایمان ثابت نہیں کرتی۔‬

‫اس سے پہلے کہ میں کچھ مزید کہوں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب خود ایک معاصر اہلسنت کی‬
‫ایک قوی رائے کو پیش کردوں وہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫ْلن شھادة العدو بالخیر أقوى من شھادة الصدیق فالفضل ما شھدت به اْلعداء‬

‫ترجمہ‪ :‬کسی کے دشمن کی اس کے بارے میں اچھی رائے اس کے دوست کی اچھی رائے سے‬
‫زیادہ قوی ہے کیونکہ فضیلت وہ ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کرے۔‬

‫حوالہ‪ :‬المنھل الحدیث في شرح الحدیث جلد ‪ ٢‬ص ‪١٠٦‬‬

‫کتاب کو دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-14106#page-312 :‬‬

‫اب یہ اصول تو خود آپ کے حضرات مانتے ہیں اور مال علی قاری کا اقرار بھی میں ابھی عنقریب‬
‫نقل کروں گا‪ ،‬تو بتائے کہ اگر معاویہ امیر المؤمنین ع کی فضیلت کو مانتا بھی تھا تو کیا بڑی بات‬
‫ہے اس کی دشمنی اور بغض رکھنا اس حالت میں بھی ممکن ہے۔ کتنے ہی مستشرقین رسول ص‬
‫کی تعریف کرتے ہیں تو کیا وہ رسول ص کی رسالت پر ایمان لے آئے‪ ،‬خود آپ کے دیوبندی‬
‫اکابرین اپنے علماء کی تعریفات بریلوی کتب سے نقل کرتے ہیں تو کیا اس کے باوجود بریلیوں کی‬
‫ایک تعداد نے آپ کو کافر کہنا چھوڑ دیا؟ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے لیکن یہ میں آپ کی منطق عوج‬
‫پر نقد پیش کررہا ہوں۔‬

‫المنھل الحدیث في شرح الحدیث • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬

‫علی کل الحال‪ ،‬محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(‪ ، 1‬فضائل کا اقرار تو فضیلت کا ھی اقرار ھے‪ ،‬یہ عجیب بات کردی جناب نے‪ ،‬پڑھنے والے‬
‫دوست بھی پریشان ھوگئے ھونگے کہ یہ کیا لکھ دیا خیر طلب صاحب نے‪.‬‬
‫آپ یہ بتائیں کہ فضائل کے اقرار کے ساتھ فضیلت کا انکار کیسے ھوتا ھے؟‬
‫‪ ، 2‬یہودیوں کو چھوڑ کر اب مشرکین پر آگئے جناب‪ ،‬مشرکین کہ بارے میں بھی جناب نے یہ لکھ‬
‫دیا کہ‬
‫"مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھےاس‬
‫کے باوجود یہ اعتراف ان کی فضیلت کا باعث نھیں بن سکتا"‪..‬‬
‫جناب کے اس جملے میں تضاد مالحظہ فرمائیں ‪ ،‬پہلے لکھا کہ مشرکین فضیلت کے قائل تھے‪ ،‬اور‬
‫آگے لکھ دیا کہ ان کا اعتراف فضیلت کا باعث نہیں بن سکتا‪....‬‬
‫فضیلت کا اقرار اور انکار دونوں ایک ساتھ لکھ دیا ہے آپ نے‪ ،‬جناب اصل میں آپ خود پریشان ہیں‬
‫کہ فضیلت و فضائل کو الگ سمجھ کر‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬محترم آپ کے فہم کا قصور ہے‪ ،‬میری بات میں کوئی تناقض نہیں دیکھئے۔ مشرکین بھی‬
‫رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھےاس کے باوجود یہ‬
‫اعتراف ان (ادھر ضمیر مشرکین کی طرف پلٹ رہی ہے) کی فضیلت کا باعث نھیں بن سکتا۔۔ یہ‬
‫پورا جملہ تھا کہ ایک طرف مشرکین کا فضائل تسلیم کرنا موجود ہے لیکن وہ ان کی اپنی ذاتی‬
‫فضیلت نہیں بن سکتی کیونکہ وہ اعترافات کے باوجود بھی ایمان نہیں الئے بعینیہ یہی حالت معاویہ‬
‫کے ساتھ ہے۔ اب اصل جواب نہیں دے رہے بلکہ تاویالت باطلہ سے کام لے رہے ہیں‪،‬‬

‫محترم فخر الزماں مشرکین کی تعریفات والی بات کے جواب میں فرماتے ہیں‪:‬‬

‫(رھا مشرکین کا معاملہ تو وہ رسالت سے پہلے واقعی فضائل کے قائل تھے لیکن اعالن نبوت کے‬
‫بعد وھی جادوگر‪ ،‬مجنون کھنا شروع ھوگئے اور تکالیف دینا شروع کردی‪.‬‬
‫تو یہ مثال بھی نھیں بنتی آپ کی اس مقام پر‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬محترم یہ آپ کا فقط ایک دعوی ہی ہے جو غلط ہے‪ ،‬میں آپ کو ما بعد بعثت‪ ،‬مشرکین کی‬
‫تعریفات دیکھتا ہوں رسول ص کے لئے۔ اس سے پہلے کہ میں وہ روایت نقل کروں‪ ،‬عالمہ بیھقی‬
‫کی تبویب سے ایک باب کا عنوان جو ان کی فقہ پر داللت کرتا ہے نقل کئے دیتا ہوں‪:‬‬
‫از َوأَنههُ َال یُ ْش ِبهُ َ‬
‫ش ْیئًا ِم ْن لُغَاتِ ِھ ْم َم َع َك ْونِ ِھ ْم‬ ‫ہللا [ت َ َعالَى] ِمنَ ْ ِ‬
‫اْل ْع َج ِ‬ ‫ب ِ‬ ‫اف ُم ْش ِر ِكي قُ َری ٍْش ِب َما فِي ِكت َا ِ‬ ‫اب ا ْعتِ َر ِ‬ ‫َب ُ‬
‫ِم ْن أ َ ْھ ِل اللُّغَ ِة َوأ َ ْربَا ِ‬
‫ب ال ِلّ َس ِ‬
‫ان‬

‫باب‪ :‬اس بیان میں کہ مشرکین قریش اس کے معترف تھے کہ جو بھی ہللا تعالی کی کتاب میں ہے وہ‬
‫معجزہ ہے اور اس امر کے باوجود کہ وہ اہل لغت تھے اور اہل زبان تھے ان پر (قرآن کا اعجاز)‬
‫بالکل مشتبہ نہیں تھا۔ (ملخص فقط)‬

‫حوالہ‪ :‬دالئل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشریعة‪ ،‬جلد ‪ ،٢‬ص ‪١٩٨‬‬

‫کتاب کو دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-7478#page-719 :‬‬

‫اب دیکھئے واضح طور پر خود بیھقی کہہ رہے ہیں کہ کتاب خدا جو ما بعد بعثت رسول ص ہی‬
‫نازل ہوئی‪ ،‬اس کی حقانیت پر خود مشرکین عرب کو شبہ نہیں تھا۔ تو آپ کا کہنا کہ اعتراف فضائل‬
‫فقط ما قبل بعثت تھا غلط جزئی طور پر غلط ہے اور کلی ابطال کے لئے ایک روایت کا سہارا لیتا‬
‫ہوں جس کو ابن اسحاق نقل کرتے ہے اس میں ایک مکی زندگی میں ما بعد بعثت ایک واقعہ نقل کیا‬
‫گیا جس کو مال علی قاری نقل کرتے ہے اور فرماتے ہے‪:‬‬

‫(وأصدقكم حدیثا) أي قوال ووعدا (وأعظمكم أمانة) أي صدقا ودیانة وھذہ الشھادة لكونھا من أھل العداوة‬
‫حجة لما قیل الفضل ما شھدت به اْلعداء‬

‫رسول ص قول اور وعدے میں سب سے زیادہ سچے ہیں‪ ،‬اور صداقت اور دیانت کے معاملہ میں‬
‫سب سے عظیم۔۔ (مال علی قاری پھر قاعدہ بتاتے ہیں) یہ گواہی ایک ایسے شخص کی طرف سے‬
‫جو رسول ص کا دشمن تھا لیکن اس کے باوجود یہ گواہی قابل قبول ہے کیونکہ یہ کہا گیا ہے کہ‬
‫فضیلت وہ جس کا اقرار دشمن بھی کرے۔‬

‫حوالہ‪:‬شرح الشفا‪ ،‬جلد ‪ ،١‬ص ‪٣٠٤‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-9918#page-302 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اب محترم فخر الزماں کو مان لینا چاہئے کہ خود ان کے علماء کا پسندہ فرمودہ قاعدہ ہے‬
‫جس میں ماضی سے مال علی قاری اور بیھقی کی مثال دی اور معاصر سے ایک کہ اگرچہ دشمن‬
‫تعریف کرے وہ تعریف کرنے والے کو پھر بھی دائرہ ایمان میں نہیں التا۔ اور یہ واقعہ جو بیھقی‬
‫اور مال علی قاری نے اشارہ کیا ہے وہ ما بعد بعثت ہے۔‬

‫دالئل النبوة للبیھقي محققا • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪ ، ٢‬صحیح مسلم کی روایت کی تائید میں دیگر آثار اور روایات‬

‫ناظرین اب ہم صحیح مسلم کی تائید میں کچھ روایات سے استدالل کرتے ہیں تاکہ یہ حقیقت واضح‬
‫ہوجائے کہ یہ روایت کے معنوی شواہد کافی ہیں۔۔‬

‫الف‪ ،‬سنن ابن ماجہ کی روایت (معاویہ اور سعد بن ابی وقاص کا واقعہ)‬

‫ابن ماجہ اپنی سنن میں نقل فرماتے ہے‪:‬‬

‫الرحْ َم ِن‪-‬‬‫ع ْبد ُ ه‬‫سا ِبطٍ ‪َ -‬وھ َُو َ‬ ‫ع ْن اب ِْن َ‬ ‫سى بْنُ ُم ْس ِل ٍم‪َ ،‬‬ ‫ي بْنُ ُم َح همدٍ‪َ ،‬حدهثَنَا أَبُو ُم َعا ِو َی َة‪َ ،‬حدهثَنَا ُمو َ‬ ‫‪َ - 121‬حدهثَنَا َ‬
‫ع ِل ُّ‬
‫سعْد ٌ‪ ،‬فَذَ َك ُروا َ‬
‫ع ِلیًّا‪ ،‬فَنَا َل ِم ْنهُ‪،‬‬ ‫علَ ْی ِه َ‬‫ض َح هجاتِ ِه‪ ،‬فَدَ َخ َل َ‬ ‫اص‪ ،‬قَالَ‪ :‬قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ‬ ‫س ْع ِد ب ِْن أَبِي َوقه ٍ‬ ‫ع ْن َ‬ ‫َ‬
‫سله َم ‪ -‬یَقُولُ‪َ " :‬م ْن كُ ْنتُ َم ْو َالہُ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلهى ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫َّللا ‪َ -‬‬ ‫س ِم ْعتُ َرسُو َل ه ِ‬ ‫س ْعد ٌ‪َ ،‬وقَالَ‪ :‬تَقُو ُل َھذَا ِل َر ُج ٍل َ‬ ‫ب َ‬ ‫َض َ‬ ‫فَغ ِ‬
‫س ِم ْعتُهُ َیقُولُ‪:‬‬‫ي َب ْعدِي"‪َ ،‬و َ‬ ‫سى ِإ هال أَنههُ َال نَ ِب ه‬ ‫َارونَ ِم ْن ُمو َ‬ ‫س ِم ْعتُهُ َیقُولُ‪" :‬أ َ ْنتَ ِمنِّي ِب َم ْن ِزلَ ِة ھ ُ‬‫ي َم ْو َالہُ" َو َ‬‫فَ َع ِل ٌّ‬
‫َّللا َو َرسُولَهُ "؟‬ ‫"ْلُع ِْطیَ هن ه‬
‫الرایَةَ ْالیَ ْو َم َر ُج ًال ی ُِحبُّ ه َ‬ ‫َ‬

‫بحذف سند سعد بن ابی وقاص فرماتے ہے کہ معاویہ اپنی بعض حوائج کو لے کر ان کے پاس آیا‪،‬‬
‫پس وہ سعد کے ہاں مالقات کے لئے آیا‪ ،‬اور امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر المؤمنین ع کی‬
‫تنقیص کی جس کے بعد سعد بن ابی وقاص غضباک ہوگئے (غصہ میں آگئے) اور پھر رسول ص‬
‫کی زبانی تین فضائل امیر ع کا ذکر کیا یعنی ‪ ،١‬حدیث من کنت موالہ ‪ ،٢‬حدیث منزلت ‪ ،٣‬حدیث‬
‫خیبر (ملخص)‬

‫اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شعیب ارنووط رقم طراز ہے‪:‬‬

‫حدیث صحیح‪ ،‬وھذا سند رجاله ثقات‬

‫یہ روایت صحیح ہے اور اس روایت کے راویان ثقہ ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬سنن ابن ماجہ‪ ،‬جلد اول ص ‪ ،٨٨‬رقم ‪١٢١‬۔‬

‫کتاب کو دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-98138#page-146 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ادھر واضح طور پر معاویہ کا امیر المؤمنین ع کا تنقیص کرنا اور اس پر سعد کا غضبناک‬
‫ہوکر تین فضائل سنانا یہی بتاتا ہے کہ معاویہ نے ادھر سعد کو بالفعل سب ہی کا حکم دیا تھا۔‬

‫سنن ابن ماجه ت اْلرنؤوط • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪Khair Talab‬‬

‫ب‪ ،‬تاریخ دمشق از ابن عساکر کی روایت (معاویہ اور سعد بن ابی وقاص کا واقعہ)‬

‫ایک مزید روایت پیش خدمت ہے جو اس عنوان پر ہی ہے‪ ،‬ابن عساکر تاریخ دمشق میں نقل فرماتے‬
‫ہے‪:‬‬

‫فلما فرغ أدخله في دار الندوة فأجلسه معه على سریرہ ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فیه قال أدخلتني‬
‫دارك وأقعدتني على سریرك ثم وقعت فیه تشتمه وہللا ْلن أكون في إحدى خالله الثالث أحب إلي من أن‬
‫یكون لي ما طلعت علیه الشمي وْلن یكون قال لي ما قاله له حین راہ غزا تبوكا أال ترضى أن تكون مني‬
‫منزلة ھارون من موسى إال أنه النبي بعدي أحب إلي من أن یكون لي ما طلعت علیه الشمس وْلن یكون‬
‫قال لي ما قال له یوم خیبر ْلعطین الرایة رجال یحب ہللا ورسوله یفتح ہللا على یدیه لیس بفرار أحب إلي‬
‫من أن یكون لي ما طلعت علیه الشمس وْلن أكون صھرہ على ابنته ولي منھا من الولد ما له أحب إلي‬
‫من أن یكون لي ما طلعت علیه الشمس ال أدخل علیك دارا بعد الیوم ثم نفض رداءہ ثم خرج‬

‫جب معاویہ گارغ ہوگیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کے لے کر دار الندوہ میں داخل ہوا اور سعد بن ابی‬
‫وقاص کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور پھر معاویہ نے امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر‬
‫المؤمنین ع کی تنقیص کی تو سعد نے طور احتجاج کہا کہ تم مجھے ہاں الئے اور اپنے پلنگ پر‬
‫صرف اس وجہ سے بٹھایا کہ تم امیر المومنین ع پر شتم کرو۔۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس وہ تین‬
‫فضائل ہوتے جو علی ع کے پاس ہیں وہ مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہوتے جس پر‬
‫سورج چمکتا ہے اور پھر ‪ ،١‬حدیث مزنلت ‪ ،٢‬حدیث خیبر ‪ ،٣‬سیدہ فاطمہ ع کا شوہر ہونا کہا ہے۔۔‬
‫(آخر میں سعد فرماتے ہے) اے معاویہ میں آج کے بعد تیرے پاس کبھی نہیں آؤں گا اور پھر چلے‬
‫گئے (ملخص فقط)‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ دمشق جلد ‪ ،٤٢‬ص ‪١١٩‬‬

‫آن الئن دیکھئے‪http://yasoob.com/books/htm1/m021/25/no2556.html :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اس روایت کی سند میں راویان بظاھر ثقہ ہیں‪ ،‬مجھے بعض علل معلوم ہیں جو محترم‬
‫السکتے ہیں لیکن جب وہ الئیں گے تو اس کا جواب اس ہی فقط احنافی منھج کے مطابق ہوگا۔ اور‬
‫یوں ثابت ہوا کہ معاویہ نے امیر المؤمنین ع پر شتم کیا تھا‬

‫مكتبة یعسوب الدین علیه السالم‬


‫‪Khair Talab‬‬

‫ج‪ ،‬صلح امام حسن ع میں عدم سب کی شرط روایات کی روشنی میں۔‬

‫اب میں اس امر کے اثبات میں تاریخ دمشق ہی سے روایت نقل کروں گا۔ ابن عساکر روایت کو نقل‬
‫کرتے ہیں کہ جب معاویہ اور امام حسن ع میں صلح ہوئی تو اس کی ایک شرط کچھ یوں تھی‪ ،‬اس‬
‫سے پہلے کہ شرط نقل کروں پہلے سند نقل کئے دیتا ہوں‪:‬‬

‫اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا‬
‫الحسین بن محمد بن سعد أنا أبو عبید عن مجالد عن الشعبي وعن یونس بن أبي إسحاق عن أبیه وعن‬
‫أبي السفر وغیرھم‬

‫اور روایت الفاظ یوں ہے‪:‬‬

‫وال یسب علي وھو یسمع‬


‫معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہیں کرے گا درحالنکہ امام حسن ع اس کو سن رہے ہوں‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ دمشق جلد ‪ ١٣‬ص ‪٢٦٤-٢٦٣‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://yasoob.com/books/htm1/m021/25/no2527.html :‬‬

‫یہی بات تقریبا طبری‪ ،‬ابن اثیر‪ ،‬ذھبی‪ ،‬ابن الوردی‪ ،‬ابن خلدون‪ ،‬ابن کثیر‪ ،‬ابوالفدا اور صفدی وغیرھم‬
‫نے اس شرط کو نقل کیا ہے یعنی یہ تاریخی حوالے سے ایک مشہور مستفیض بات ہے کہ اس کو‬
‫تقریبا مورخین کے جم غفیر نے نقل کیا ہے۔ یوں ایک اور معنوی دلیل سے معاویہ کا سب ثابت ہوا۔‬

‫مكتبة یعسوب الدین علیه السالم‬


‫‪ ، ٣‬صحیح مسلم کی روایت کی تائید میں اہلسنت علماء کا اقرار‬

‫ہم ذیل میں دو علماء اہلسنت کی آراء کو پیش کررہے ہیں۔۔ اگرچہ اس حوالے سے ہمارے پاس کافی‬
‫اقوال و نقول ہیں۔۔‬

‫الف‪ ،‬ابن حزم‬

‫ابن حزم فرماتے ہے‪:‬‬

‫إال أنھم لم یعلنوا بسب أحد من الصحابة‪ ،‬رضوان ہللا علیھم‪ ،‬بخالف ما كان بنو أمیة یستعملون من لعن‬
‫علي بن أبي طالب رضوان ہللا علیه‪ ،‬ولعن بنیه الطاھرین بني الزھراء؛ وكلھم كان على ھذا حاشا عمر‬
‫بن عبد العزیز ویزید بن الولید رحمھما ہللا تعالى‪ ،‬فإنھما لم یستجیزا ذلك‪.‬‬

‫بنو عباس نے کسی بھی صحابی (خدا کی رضوان ہوں ان پر) پر سب نہیں کیا بنو امیہ کے برخالف‬
‫جنہوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر لعنت کا طریقہ اپنایا‪ ،‬اور ان کی پاک‬
‫اوالد بنی زھراء پر بھی لعنت کی‪ ،‬اور تمام بنو امیہ ایسے تھے ماسوائے عمر بن عبدالعزیز اور‬
‫یزید بن ولید کے (خدا کی رحمت ہو ا ن دونوں پر)‪ ،‬کہ ان دونوں نے اس لعن کی اجازت نہیں دی۔‬

‫حوالہ‪ :‬جوامع السیرة وخمس رسائل أخرى البن حزم ص ‪٣٦٦‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://islamport.com/w/ser/Web/1036/387.htm :‬‬

‫ب‪ ،‬ابن حجر عسقالنی‬

‫ابن حجر اپنی شہرت آفاق کتاب میں رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على‬
‫المنابر سنة‬
‫ووافقھم الخوارج على بغضه‬

‫اس کے بعد امیر المؤمنین کا معاملہ (کچھ یوں بیٹھا) کہ ایک گروہ نے امیر المؤمنین ع سے جنگ‬
‫کی اور پھر معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگ یا کہ اس لڑنے والے گروہ (اشارہ قوم معاویہ کی طرف)‬
‫امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرنے لگے اور ان پر منبروں پر لعنت کو طریقہ بنالیا اور خوارج نے‬
‫اس بغض علی میں ان حضرات کی موافقت کی۔‬

‫حوالہ‪ :‬فتح الباری جلد ‪ ٧‬ص ‪٧١‬‬

‫آن الئن دیکھئے‪http://islamport.com/w/srh/Web/2747/3812.htm :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ادھر واضح طور پر وہ گروہ جس نے جنگ کی تھی جس کا سرغنہ معاویہ تھا‪ ،‬اس گروہ‬
‫کی طرف سے تنقیص علی کا صدور کو نقل کیا ہے‬

‫الموسوعة الشاملة ‪ -‬جوامع السیرة‬


‫والعزل في أقاصي البالد‪ ،‬فكانوا یعزلون العمال‪ ،‬یولون اآلخر‪ ،‬في اْلندلس‪ ،‬وفي السند‪ ،‬وفي خراسان‪،‬‬
‫وفي إرمینیة‪ ،‬وفي الیمن‪ ،‬فما بین ھذہ البالد‪.‬‬
‫‪ ،٤‬کتاب اصل و اصول الشیعہ سے نقل کردہ روایت کا باالستعیاب جواب‬

‫محترم فخر الزماں صاحب نے اپنے زعم کے مطابق ایک روایت سے استدالل کیا ہے درحاآلنکہ یہ‬
‫بات ہمارے اور ان کے ہاں طے شدہ تھی کہ ایسے مصادر سے استدالل کیا جائے گا جو فریق‬
‫مخالف کے ہاں قابل قبول ہوں گے‪ ،‬اب دیکھتے ہیں کہ فخر الزماں صاحب نے اس شرط کی کتنی‬
‫الج رکھی۔‬

‫محترم فرماتے ہے‪:‬‬


‫(شیعہ کتاب اصل و اصول الشیعہ محمد حسین آل کاشف الغطاء کی‪ ،‬مترجم صفحہ ‪ 86‬پر احنف بن‬
‫قیس کا سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے سامنے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کا فضائل بیان کرنا اور‬
‫سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا جواب میں یہ کھنا منقول ھے کہ‪...‬‬
‫"معاویہ نے کھا‪ ،‬احنف تم نے اس وقت ایسے شخص کی یاد تازہ کردی جس کے فضائل کا انکار‬
‫مشکل ہے"‪.‬‬
‫تو شیعہ کتابوں سے بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی فضائل کا اقرار‬
‫خود معاویہ رضی ہللا عنہ کی زبانی ثابت ھے)‬

‫جواب‪ :‬ہمارے پاس جو نسخہ عربیہ ہے اس میں یہ واقعہ بایں موجود ہے‪:‬‬

‫ویحدثنا الوزیر أبو سعید منصور بن الحسین الآلبي المتوفى سنة ( ‪ ) 422‬في كتابه ( نثر الدرر ) ما‬
‫صه ‪. :‬‬‫ن ه‬
‫قال أحنف بن قیس ‪ :‬دخلتُ على معاویة فقدهم لي من الحار والبارد ‪ ،‬والحلو والحامض ‪ ،‬ما كثر تعجبي‬
‫منه ‪ ،‬ثم قد هم لونا ً لم أعرف ما ھو‪ :‬فقلتُ ‪ :‬ما ھذا ؟‬
‫وذر علیه بالطبرزد ‪.‬‬
‫محشوة بالمخ ‪ ،‬قد قلي بدھن الفستق ‪ ،‬ه‬‫ه‬ ‫فقال ‪ :‬ھذا مصارین البط‬
‫فبكیتُ ‪ ،‬فقال ‪ :‬ما یُبكیك ؟‬
‫قلت ‪ :‬ذكرتُ علیا ً ‪ ،‬بینا أنا عندہ وحضر وقت الطعام وإفطارہ ـ وسألني المقام ـ فجيء له بجراب مختوم ‪،‬‬
‫قلتُ ‪ :‬ما في الجراب ؟‬
‫قال ‪ :‬سویق شعیر‪.‬‬
‫أن یُؤخذ أو بخلتَ به ؟‬ ‫قلتُ ‪ :‬خفتَ علیه ْ‬
‫أن یلته الحسن والحسین بسمن أو زیت ‪.‬‬ ‫قال ‪ :‬ال وال أحدھما ‪ ،‬ولكن خفتُ ْ‬
‫محرم ھو یا أمیر المؤمنین ؟‬
‫ه‬ ‫فقلتُ ‪:‬‬
‫فقرہُ ‪.‬‬
‫الفقیر ُ‬
‫َ‬ ‫یطغي‬
‫َ‬ ‫الحق ْ‬
‫أن یعتد ُوا أنفسھم من ضعفة الناس لئال‬ ‫ِّ‬ ‫فتھال ‪ :‬ال ‪ ،‬ولكن یجب على أئمة‬
‫فقال معاویة ‪ :‬ذكرتَ َم ْن ال ینكر فضله‬

‫کتاب کو یہاں سے دیکھ سکتے ہیں‪http://www.alimamali.com/html/ara/book/asl- :‬‬


‫‪shia/17.html‬‬

‫درحاآلنکہ یہ روایت کے شروع ہی میں لکھا ہے اس کو نقل کرنے واال أبو سعد اآلبى ہے جس نے‬
‫اپنی کتاب میں نقل کیا ہے‬

‫مالحظہ ہو نثر الدر في المحاضرات جلد اول ص ‪٢٠٧‬‬

‫کتاب کو دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-7853#page-187 :‬‬


‫چنانچہ واضح ہوگیا کہ اصال یہ روایت ہی بے سند ہے۔۔ آپ اس کی مکمل سند شیعی تراث سے پیش‬
‫کی جئے گا ورنہ آپ خود اپنی شرط کی مخالفت کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔‬

‫كتاب اصل الشیعة واصولھا ص ‪ 183‬ـ ص ‪202‬‬


‫تكون ؟ َو َم ْن ھو غارس بذرته اْلولى ‪ ،‬وواضع حجرہ ّ‬
‫اْلول ‪ ،‬وكیف‬ ‫في ه‬
‫أن التشیُّع من أین نشأ ؟ ومتى ه‬
‫أفرعت دوحته حتى سما واستطال ‪ ،‬وأزھر وأثمر ‪…،‬‬
‫‪ ،٥‬اعالء السنن سے اعتراف کا جواب۔‬

‫ہم نے اعالء السنن سے ایک عبارت پیش کی تھی جس میں ابن عباس کے تقیہ کو مشروع بتاتے‬
‫ہوئے معاویہ سے اختالف کا ذکر موجود ہے۔۔ دراصل اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ معاویہ نے‬
‫ایک رکعت وتر پڑھی تھی تو بعض روایات میں ابن عباس کی طرف سے اس فعل کی تصویب‬
‫منقول ہے اور دیگر روایات میں معاویہ کو گدھا تک کہا گیا ہے یعنی دو متضاد افعال کا صدور ہے‬
‫تو اس کی اب کیا تطبیق کی جائے تو طحاوی نے کہا کہ ابن عباس کا معاویہ کی مدح کرنا تقیہ پر‬
‫مبنی تھا اور نقد کرنا حقیقی تھا۔ طحاوی کی اس تاویل کا دفاع کرتے ہوئے۔ حنفی امام ظفر تھانوی‬
‫فرماتے ہے‪:‬‬

‫(طحاوی کا) تقیہ کی تاویل کرنا بعید نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی رکاکت اور تعصب ہے۔ تقیہ جس‬
‫معنی میں عالمہ طحاوی نے استعمال کیا ہے مطلق حرام نہیں بلکہ بعض صورتوں میں جائز بھی‬
‫ہے۔ (طحاوی کی ابن عباس کی تقیہ والی بات پر) اعتراض کرنے واال کیا جانتا نہیں کہ ابن عباس‬
‫حضرت علی رضی ہللا عنہ کے خواص (بہت قربت رکھنے والے) ساتھیوں میں سے تھے جنہوں‬
‫نے معاویہ (کی مشروعیت) کا انکار کیا اور معاویہ سے بغض رکھتے اور امام علی ع کی زندگی‬
‫میں معاویہ سے جنگ بھی کی۔ اور پھر معاویہ کی بیعت غالبا تقیہ کے طور پر کی اور اس (کے‬
‫بعض امور) پر راضی ہونا بہت کم تھا۔ اور یہی ان لوگوں (جو امیر المؤمنین کے خواص اصحاب‬
‫تھے) کا یزید کی بیعت کرنے کا معاملہ ہے (وہ بھی تقیہ کے طور پر تھی) البتہ جو تاویل ہم نے کی‬
‫و ہ طحاوی کی تاویل سے بہتر ہے لیکن طحاوی کی تاویل بھی بالکل محتمل ہے اور اس کو فرض‬
‫کرنا بعید نہیں۔ چناچہ (معترض کو چاہئے اس بات کو) سمجھے۔‬

‫ادھر کچھ امور قابل غور ہیں‪:‬‬

‫‪ ، ١‬ابن عباس خواص اصحاب امیر ع میں سے تھے‬


‫‪ ، ٢‬خواص اصحاب امیر ع نے معاویہ کی خالفت کی مشروعیت انکار کیا‬
‫‪ ، ٣‬خواص اصحاب امیر ع معاویہ سے بغض رکھتے تھے‬
‫‪ ، ٤‬خؤاص اصحاب امیر ع نے معاویہ کی بیعت بطور تقیہ معاویہ اور یزید کی بیعت کی تھی‬

‫اب ان واضح حقائق کو دیکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جو بھی خؤاص امیر ع میں‬
‫سے تھا وہ معاویہ کی حکومت میں کافی مشکالت پریشانی کا شکار تھا جب ہی کبھی تقیہ کیا جاتا‬
‫تھا۔۔‬
‫اس پر محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(خیر طلب صاحب کا یہ اعالء السنن کے غیر متعلق حوالہ نقل کرنے کے بعد یہ لکھنا کہ‬
‫"آپ کے علماء کا اعتراف ھے کہ معاویہ کا سلوک خواص امیر المومنین کے ساتھ اچھا نھیں‬
‫تھا"‪...‬‬
‫جناب میری آپ سے گزارش ہے کہ زرا یہ بات آپ اعالء السنن میں اس جگہ پر دکھادیں؟)‬

‫جواب‪ :‬محترم یہ داللت التزامی ہے کہ انسان اگر کسی سے بغض رکھے‪ ،‬اس کی مشروعیت کا‬
‫انکار کرے اور اس سے خوف کے ظروف میں تقیہ کرے اور وجہ یہ ہو کہ وہ ایک آدمی سے‬
‫منسوب ہوں تو اس سے واضح طور پر بات سامنے آجاتی ہے کہ جس سے بغض‪ ،‬تقیہ کیا جارہا ہے‬
‫وہ اس منسوب شخصیت سے کافی بغض رکھتا ہے۔ اگر ہماری بات نہیں سمجھ آرہی ہے تو امیر‬
‫المؤمنین ع کے خواص ابن عباس (بقول آپ کے علماء) کا ہی قول پیش کئے دیتا ہوں‪:‬‬

‫سنن نسائی میں یہ روایت موجود ہے‪:‬‬

‫ح‪،‬‬ ‫ي بْنُ َ‬
‫صا ِل ٍ‬ ‫ي‪ ،‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا خَا ِلد ُ بْنُ َم ْخلَدٍ‪ ،‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا َ‬
‫ع ِل ُّ‬ ‫‪ - 3006‬أ َ ْخبَ َرنَا أَحْ َمد ُ بْنُ عُثْ َمانَ ب ِْن َح ِك ٍیم ْاْل َ ْو ِد ُّ‬
‫هاس‪ِ ،‬ب َع َرفَاتٍ‪،‬‬ ‫عب ٍ‬‫س ِعی ِد ب ِْن ُج َبی ٍْر‪ ،‬قَالَ‪ :‬كُ ْنتُ َم َع اب ِْن َ‬‫ع ْن َ‬ ‫ع ْم ٍرو‪َ ،‬‬ ‫ع ْن ْال ِم ْن َھا ِل ب ِْن َ‬
‫ب‪َ ،‬‬ ‫س َرة َ ب ِْن َح ِبی ٍ‬ ‫ع ْن َم ْی َ‬‫َ‬
‫اط ِه‪ ،‬فَقَالَ‪:‬‬
‫ط ِ‬ ‫هاس‪ِ ،‬م ْن فُ ْس َ‬‫عب ٍ‬ ‫ْ‬
‫اس یُلَبُّونَ ؟» قُلتُ ‪ :‬یَخَافُونَ ِم ْن ُم َعا ِویَةَ‪ ،‬فَخ ََر َج ابْنُ َ‬ ‫َ‬
‫فَقَالَ‪َ « :‬ما ِلي َال أ ْس َم ُع النه َ‬
‫ي ٍ»‬‫علِ ّ‬
‫ض َ‬ ‫سنهةَ ِم ْن بُ ْغ ِ‬ ‫«لَ هبیْكَ الله ُھ هم لَبهیْكَ ‪ ،‬لَبهیْكَ فَإِنه ُھ ْم قَدْ ت ََركُوا ال ُّ‬

‫ابن عباس کے بقول معاویہ اور اس کی پارٹی نے امیر المومنین کے بغض میں سنت کو چھوڑ دیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬سنن نسائی‪ ،‬جلد ‪ ،5‬ص ‪ 253‬رقم ‪3006‬‬

‫کتاب ادھر سے دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-829/page-4557 :‬‬

‫چنانچہ ثا بت ہوا کہ معاویہ اور اس کی پارٹی امیر المؤمنین ع سے بغض رکھتی تھی اور اصحاب‬
‫امیر المؤمنین ع بھی معاویہ سے بغض رکھتے تھے۔‬

‫سنن النسائي • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪ ،٦‬اختتامی کالم۔‬

‫محترم فخر الزماں اور دیگر تمام قارئین آپ تمام نے دیکھا کہ ہم نے اپنے موقف پر دالئل نقل کئے‬
‫ہیں اور ہم اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ محترم فخز الزماں صاحب تمام دالئل کا باالستعیاب‬
‫جواب دیں گے اور صرف آکر ایسے کمنٹ نہیں کریں گے جس سے اصل مدعا پر بحث نہ ہو۔۔‬
‫محترم جتنا وقت چاہیں لیں کیونکہ یہ بحث پہلے طے نہیں ہوئی تھی اس وجہ سے اس میں وقت کی‬
‫قید لگانا بیکار ہے ورنہ اگر مناظرہ رسمی ہوتا تو پھر وقت کی پابندی بھی کروائی جاتی۔۔ محترم‬
‫سے گذارش ہے کہ آپ اپنی اخرت کی فکر کیجئے ایسے شخص سے اپنا رشتہ توڑ دیں جو اہلبیت‬
‫ع کا گستاخ تھا اور جس کے گورنروں سے بھی سب امیر المؤمنین ثابت ہے۔۔ افسوس یہ ہوتا ہے کہ‬
‫اب اس ناصبی کا دفاع کرتے ہیں جو ‪ ،١‬باغی گروہ کا سرغنہ تھا ‪ ،٢‬امیر المؤمنین ع سے جنگ‬
‫کرنے میں پیش پیش تھا ‪ ،٣‬امیر المؤمنین ع کا پر سب کرتا تھا ‪ ،٤‬امیر المؤمنین ع کے خاص‬
‫اصحاب کو قتل کرتا اور بعض کو اپنی روایتی خوف کے پنجے میں رکھتا تھا۔۔ اور بہت ساری‬
‫چیزیں ہیں جو کہی جاسکتی ہیں‪ ،،‬تمام قارئین غور کریں اور پھر خود فیصلہ کیجئے‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫نحمدہ و نصلي علی رسولہ الکریم اما بعد‬

‫قارئین کرام آپ نے خیر طلب صاحب کے کمنٹس ضرور پڑھے ھونگے ‪.‬‬
‫اس بار کے کمنٹس میں آپ نے نوٹ کیا ھوگا کہ‬

‫‪ ،1‬خ یر طلب صاحب نے خواہمخواہ لمبے لمبے کمنٹس بھیجے ھیں‪ ،‬جو باتیں کم الفاظ میں ھو‬
‫سکتی تھی ان کو کھینچ تان کر زیادہ کیا ھے‪.‬‬
‫کم الفاظ میں زیادہ بات کھہ دینا زیادہ بھتر ھوتا ھے‪ .‬عربی کا ایک مقولہ ھے کہ‬
‫*خیر الکالم ما قل و دل*‬
‫یعنی اچھا کالم وہ ھے جو کم ھو اور با مقصد ھو‪.‬‬

‫دعوی پر داللت بھی نھیں کرتے‬


‫‪ ،2‬انھوں نے موضوع سے ھٹ کر حوالے دیے ھیں جو ان کے ٰ‬
‫(تفصیل آگے مالحظہ فرمائیں)‬

‫‪ ، 3‬پہلی دلیل پر ابھی بات ھی مکمل نھیں ھوئی اور انھوں نے سنن نسائی کی ابن عباس رضی ہللا‬
‫عنہما والی دوسری روایت بھی آخر میں بھیج دی جس پر میں الگ بحث کا پہلے ھی کھہ چکا ہوں‪.‬‬
‫‪ ، 4‬جن باتوں کا پابند مجھے کرنے کی کوشش کرتے رہے‪ ،‬خود ان کی پابندی نھیں کی‪.‬‬

‫اب تفصیلی جواب مالحظہ فرمائیں‪.‬‬

‫‪1#‬‬
‫جناب اپنے استدالل کو دہراتے ھوئے لکھتے ہیں‬
‫ہم نے صحیح مسلم کی روایت سے بایں استدالل کیا تھا‬

‫أ َ َم َر ُمعَا ِویَةُ بْنُ أَبِي سُ ْفیَان سعدا َ َما َمنَعَكَ أ َ ْن تَسُبه أَبَا الت ُّ َرا ِ‬
‫ب‬

‫اس میں واضح طور پر معاویہ کی طرف سے سعد کو ایک حکم دیا گیا تھا اور ما بعد کا جملہ بتاتا‬
‫ہے کہ چونکہ سوال سب نہ کرنے پر کیا گیا تھا تو حکم بھی اس ہی کے متعلق تھا‪ ،‬روایت بہت‬
‫واضح ہے اور یہی معنی کافی اہلسنت علماء نے لئے ہیں۔‬
‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬جناب اصل میں آپ خود پریشان ہیں‪ .‬کبھی کچھ کھتے ھیں تو کبھی کچھ‪.‬‬
‫‪ 17‬اپریل ‪ 9.22pm‬کو جناب نے اپنے کمنٹس میں کھا کہ‬
‫"جس چیز کا حکم دیا ہے وہ محذوف ھے"‬

‫اور اس کمنٹ میں کھہ دیا کہ حکم واضح ھے‪ .‬پہلے آپ خود ایک رائے قائم کرلیں پہر اعتراض‬
‫کرنا‪.‬‬
‫‪ ،2‬جناب کا یہ کھنا کہ‬
‫"سوال سب نہ کرنے کے بارے میں کیا گیا تھا تو حکم بھی اسی کا تھا"‪..‬‬
‫جناب یہ بات محتاج دلیل ھے کہ واقعی حکم سب کا ھی تھا‪ ،‬ھوسکتا ھے کسی اور بات کا ھو؟ جب‬
‫حکم کے الفاظ ھی واضح نھیں تو کیسے یقین کے ساتھ آپ یہ کھہ سکتے ہیں؟‬
‫جب بقول آپ کے حکم محذوف ھی تو آپ اس محذوف کو متعین کرنے کی دلیل الئیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬جب یہ احتمال بھی موجود ھے کہ حکم کسی اور چیز کا تھا یا سب(گالی) کا‪ ،‬تو آپ کا اس‬
‫روایت سے دلیل پکڑنا باطل‪.‬‬
‫کیونکہ آپ ھی اوپر اسی اصول کو اپناتے ھوئے میری ایک دلیل کا رد کرنے کی کوشش کرچکے‬
‫ھیں‬
‫اذا جاء االحتمال بطل االستدالل‪..‬‬

‫رھا آپ کا یہ روایت پیش کرنا کہ‬

‫ع ِلیًّا فَقَدْ َ‬
‫سبهنِي» ‪.‬‬ ‫« َم ْن َ‬
‫سبه َ‬

‫حوالہ‪ :‬فضائل الصحابة‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص‪ ،594‬ح‪1011‬‬

‫پہلے تو اس روایت پر خود اصول کی روشنی میں کالم ھے‪،‬‬


‫اور یہ روایت آپ تب پیش کرنا جب آپ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سے گالی دینا ثابت کریں‪ .‬فی‬
‫الحال اس کا ذکر ھی مت کریں‪..‬‬

‫‪2#‬‬
‫پہر جناب صحیح مسلم والی حدیث سے اپنے مزعومہ مطلب کو ثابت کرنے کے لیے لکھتے ہیں کہ‬

‫"مسند احمد میں جناب ابوبکر کی امامت نماز (مزعوم) کے متعلق یوں وارد ہوئے ہیں‪:‬‬

‫ث ُ هم أ َ َم َر أَبَا بَ ْك ٍر فَتَقَد َهم بِ ِھ ْم‬

‫روایت کے مطابق جب ابوبکر تھوڑا تامل کا شکار ہوئے تو ما بعد رسول ص نے جناب ابوبکر سے‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫قَالَ‪َ " :‬یا أ َ َبا َب ْك ٍر َما َمنَ َعكَ ِإذْ أ َ ْو َمأْتُ ِإ َلیْكَ أ َ ْن َال تَكُونَ َم َ‬
‫ضیْتَ ؟ "‬

‫تبصرہ‪ :‬ادھ ر میں فخر الزماں صاحب اور قارئین کی توجہ بتانا چاہوں گا کہ ادھر بھی لفظ امر ہے‬
‫اور ما بعد مامنعک کے بعد سوال ہے یعنی جس چیز کا حکم دیا تھا اور اس کی عدم بجا آوری پر‬
‫سوال اس حکم کے متعلق ہی ہے‪ ،‬چنانچہ جب واضح بات ہے کہ ادھر ایک چیز کا حکم تھا اور پھر‬
‫معاویہ نے سعد سے سوال کیا تو واضح ہوگیا کہ حکم اور ما بعد سوال میں مطابقت ہونا ضروری‬
‫ہے اور وہ فقط اس ہی وقت ہوگی کہ جب حکم سب دیا گیا ہو۔‬

‫الجواب‪.‬‬
‫جناب نے اب تک جو مثالیں بھی دی ھیں وہ ان کے دلیل سے مطابقت رکھتی ھی نھیں‪ .‬اب اس مثال‬
‫کو بھی دیکھیں‪.‬‬
‫اس روایت میں حکم واضح ھے نماز پڑھانے کا‪ ،‬اس کے برعکس مسلم والی روایت میں سب‬
‫(گالی) کا حکم واضح ھی نھیں‪.‬‬

‫تو آپ کی یہ مثال بھی نھیں بنتی ھمیشہ کی طرح‪.‬‬

‫‪3#‬‬
‫اپنے مطلب کی تائید میں جناب نے عالمہ ابن تیمیہ کا قول نقل کیا تھا جس پر میں نے ان سے پوچھا‬
‫تھا کہ‬
‫آپ کی پیش کردہ عبارت عالمہ صاحب کی ھے یہ شیعہ کی؟‬
‫اس کی جواب میں جناب نے لکھا کہ‬

‫محترم فخر الزماں صاحب آپ پر واجب تھا کہ آپ ثابت کرتے کہ یہ قول عالمہ ابن مطہر الحلی‬
‫الشیعی کا ہے جب کہ ہم نے خود منھاج السنتہ کی عبارت کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا تھا کہ ماقبل‬
‫صفحہ میں عالمہ حلی کا قول ہے اور ما بعد ابن تیمیہ کا اور اگر بالفرض یہ مجرد نقل تھی تو براہ‬
‫کرم یہ بتائے کہ اس پر نقد کیوں نہ کیا بلکہ ما بعد ہی ابن تیمیہ صاحب فرماتے ہے‪:‬‬

‫فھذا حدیث صحیح رواہ مسلم في صحیحه‬


‫یہ حدیث صحیح ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا‬

‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ،1‬جناب آپ ابن مطھر حلی صاحب کے الفاظ دیکھتے تو یہ سوال نہ کرتے‪.‬‬
‫ان کے یہ الفاظ ھیں‬
‫وعن سعد بن أبي وقاص قال أمر معاویة بن أبي سفیان سعدا بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن‬
‫أبي طالب‪.‬‬
‫منھاج ص ‪19‬‬
‫یہ الفاظ عالمہ ابن تیمیہ کے جواب سے پہلے ابن مطھر حلی کے ھیں جن کو عالمہ ابن تیمیہ نے‬
‫جواب میں صرف نقل کیا ھے‪.‬‬

‫‪ ، 2‬رھا آپ کا نقد نہ کرنے کا سوال‪ ،‬تو میں آپ کے سوال کرنے سے پہلے ھی جواب دے چکا تھا‬
‫جو میں دوبارہ کاپی پیسٹ کرتا ھوں‪ ،‬شاید آپ کی نظر نھیں پڑی ھوگی اس پر‪.‬‬
‫یہ دیکھیں‬

‫شاید کوئی یہ کھے کہ پہر اس بات کا رد کیوں نہیں کیا عالمہ صاحب نے؟‬
‫تو عرض ھے کہ وھاں بحث امامت پر چل رھی ھے نہ کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں‬
‫دلوانے کی جو اس کی وضاحت عالمہ صاحب کر دیتے‪.‬‬
‫عالمہ صاحب خود لکھتے ہیں‬
‫وفیه ثالث فضائل لعلي لكن لیست من خصائص اْلئمة‪..‬‬
‫تو یھاں شیعہ جس مقصد سے یہ حدیث الیا ھے اس کا رد کیا جا رہا ہے‪.‬‬

‫‪4#‬‬
‫جناب نے آگے عالمہ ابن تیمیہ کی چند عبارتیں اپنی تائید میں پیش کی کہ‬

‫فمعلوم أن الذین قاتلوہ ولعنوہ وذموہ من الصحابة والتابعین وغیرھم ھم أعلم وأدین من الذین یتولونه‬
‫ویلعنون عثمان‬
‫حوالہ‪ :‬منھاج السنتہ‪ ،‬جلد ‪ ،٥‬ص ‪١٠‬‬

‫الثانی‪ ،‬ابن تیمیہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫ص َالةِ ِر َج ًاال ُم َعیهنِینَ َم ْن أ َ ْھ ِل‬ ‫ي َوأ َ ْ‬


‫ص َحابُهُ فِي قُنُو ِ‬
‫ت ال ه‬ ‫ضا فِي ْالقُنُو ِ‬
‫ت فَلَ َعنَ َ‬
‫ع ِل ٌّ‬ ‫ض ُھ ْم بَ ْع ً‬‫لَ َعنَ أ َ ْھ ُل صفین بَ ْع ُ‬
‫ش ِام لَعَنُوا‬‫ش ِام؛ َو َكذَلِكَ أ َ ْھ ُل ال ه‬
‫ال ه‬
‫حوالہ‪ :‬مجموع الفتاوى‪ ،‬جلد ‪ ،٤‬ص ‪٤٨٥‬‬

‫الثالث‪ :‬ابن تیمیہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫غی ِْرھَا؛ ِْلَجْ ِل ْال ِقت َا ِل الهذِي َكانَ بَ ْینَ ُھ ْم‬


‫علَى ْال َمنَابِ ِر َو َ‬ ‫َوقَدْ َكانَ ِم ْن ِشیعَ ِة عُثْ َمانَ َم ْن یَسُبُّ َ‬
‫ع ِلیًّا‪َ ،‬ویَجْ َھ ُر بِذَلِكَ َ‬
‫َو َب ْینَهُ‪.‬‬
‫حوالہ‪ :‬منھاج السنتہ‪ ،‬جلد ‪ ،٦‬ص ‪٢٠١‬‬

‫پہر خیر طلب صاحب لکھتے ہیں کہ‬

‫یاد رہے کہ شیعان عثمان معاویہ کی رعایہ والے ہی تھے جیسے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہے‪َ :‬و َر ِعیهةُ‬
‫ُم َعا ِو َی َة ِشی َعةُ عُثْ َمانَ (دیکھئے منھاج السنتہ جلد ‪ ٥‬ص ‪)٤٦٦‬‬
‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬خیر طلب صاحب کی بڑی خامی یہ ھے کہ سیاق و سباق دیکھے بغیر بیچ میں سے عبارت کاٹ‬
‫کر بھیج دیتے ہیں جو ان کی مقصد کے مطابق بھی نہیں ھوتی‪.‬‬

‫پہلے حوالے میں عالمہ ابن تیمیہ ابن مطھر حلی شیعہ کو الزامی جواب دے رھے ھیں‪.‬‬
‫کیونکہ ابن مطھر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی امامت ثابت کرنے کے لیے یہ لکھا تھا کہ سیدنا‬
‫علی رضی ہللا عنہ کو موافقین و مخالفین دونوں برا بھال نھیں کھتے‪.‬‬
‫اس بات کا رد کرتے ہوئے عالمہ ابن تیمیہ نے یہ بات کھی ھے کہ سیدنا علی رضی ہللا کو برا‬
‫کہنے والے زیادہ اھل علم اور دیندار تھے اور سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کو برا کہنے والے شیعہ‬
‫ایسے نھیں‪.‬‬
‫اور شیعہ یہ بات مانتے ھیں کہ صحابہ کرا م سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر لعنتیں کرتے ھیں‪ ،‬تو اسی‬
‫کے مطابق شیعہ کو جواب دیا نہ کہ اپنا موقف بیان کیا‪.‬‬

‫‪ ، 2‬دوسرے حوالے کا بھی یھی حال ھے کہ آگے پیچھے کی بحث دیکھے بغیر ھی عبارت بھیج‬
‫دی‪.‬‬
‫یھاں ان چند لوگوں کی بات چل رھی ھے جیسے ابن جوزی اور کیالھراسی وغیرہ جو یزید کو لعنت‬
‫کرنے کے قائل ہیں‪ .‬دیکھیں عبارت عالمہ ابن تیمیہ کی‬
‫ص َی ِة َو ِإ ْن لَ ْم َیحْ كُ ْم ِب ِف ْس ِق ِه َك َما لَ َعنَ أ َ ْھ ُل صفین َب ْع ُ‬
‫ض ُھ ْم‪ .....‬الخ‬ ‫ب ْال َم ْع ِ‬
‫اح ِ‬
‫ص ِ‬‫َوقَدْ َیقُولُونَ ِبلَ ْع ِن َ‬
‫یعنی یزید پر لعنت کرنے والے لوگ صاحب معصیت(گناہگار) کو لعنت کا کھتے ھیں اگرچہ ان پر‬
‫فاسق کا حکم نھیں لگاتے جیسا کہ اھل صفین میں سے بعض ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے‪...‬‬
‫دعوی‬
‫‪ ،3‬تیسرا حوالہ بھی واضح نھیں کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ لعنت کرتے تھے‪ ،‬آپ کا ٰ‬
‫دعوی پر عام دلیل‬
‫خاص ھے اور دلیل عام دے رھے ھیں اور الٹا مجھے کھہ رھے ھیں کہ خاص ٰ‬
‫دے رھے ھو‪ ،‬حاالنکہ میں آگے ثابت کرنے واال ھوں کہ میری دلیل عام نھیں خاص ھے‪.‬‬
‫اور شیعان عثمان میں صرف معاویہ رضی ہللا عنہ نھیں تھے بلکہ بنو امیہ کے عالوہ بھی بہت لوگ‬
‫تھے جیسا کہ اسی جگہ آپ کے حوالے کے تین صفحات پہلے یہ عبارت ھے‬

‫َان‪ِ :‬شی َعتُهُ ِم ْن بَنِي أ ُ َمیهةَ َو َ‬


‫غی ِْر ِھ ْم‪،‬‬ ‫ت فِی ِه َ‬
‫طائِفَت ِ‬ ‫ع ْنهُ ‪ -‬تَقَابَلَ ْ‬ ‫ي ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫ْب أ َ هن عُثْ َمانَ ‪َ -‬ر ِ‬
‫ض َ‬ ‫َو َال َری َ‬
‫جز ‪ 6‬ص ‪ 198‬منھاج السنہ‬

‫یعنی عثمان رضی ہللا عنہ کے شیعوں میں سے بنو امیہ اور اس کے عالوہ اور بھی تھے‪..‬‬

‫تو خیر طلب صاحب کے لیے یہ حوالے کچھ فائدہ مند نھیں جیسا کہ اوپر بیان ھو چکا‪.‬‬

‫جناب نے یہ بھی آگے کھا ھے کہ شیعان عثمان معاویہ رضی ہللا عنہ کی رعایہ تھی اور معاویہ‬
‫رضی ہللا عنہ شامیوں کا سرغنہ تھا‪......‬‬

‫الجواب‪.‬‬
‫جناب رعایہ کے برے اعمال کا ذمہ دار اگر حکمران یا سرغنہ ھوتا ھے تو یھاں کیا فرمائیں گے آپ‬
‫ا‪ ،‬آپ صحابہ پر یہ طعن کرتے ھو کہ وہ جنگوں سے بھاگ جاتے تھے اور نبی کریم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم ان کے سردار تھے تو یہ اعتراض آپ کا اس اصول کے مطابق نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫پر ھوتا ھے‪.‬‬
‫ب‪ ،‬سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے لشکر میں جو غلط عقائد و اعمال والے لوگ تھے ان کا ذمہ دار‬
‫آپ کے اصول کے مطابق سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر ھوتا ھے‪.‬‬
‫اب آگے قارئین خود نتیجہ نکال لیں‪..‬‬

‫‪5#‬‬
‫جناب نے کمنٹس کی تعداد بڑھانے کے لیے یہ اقوال بھی نقل کئے ہیں‬

‫ابن حزم فرماتے ہے‪:‬‬

‫إال أنھم لم یعلنوا بسب أحد من الصحابة‪ ،‬رضوان ہللا علیھم‪ ،‬بخالف ما كان بنو أمیة یستعملون من لعن‬
‫علي بن أبي طالب رضوان ہللا علیه‪ ،‬ولعن بنیه الطاھرین بني الزھراء؛ وكلھم كان على ھذا حاشا عمر‬
‫بن عبد العزیز ویزید بن الولید رحمھما ہللا تعالى‪ ،‬فإنھما لم یستجیزا ذلك‪.‬‬

‫حوالہ‪ :‬جوامع السیرة وخمس رسائل أخرى البن حزم ص ‪٣٦٦‬‬

‫ب‪ ،‬ابن حجر عسقالنی‬

‫ابن حجر اپنی شہرت آفاق کتاب میں رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على‬
‫المنابر سنة‬
‫ووافقھم الخوارج على بغضه‬
‫حوالہ‪ :‬فتح الباری جلد ‪ ٧‬ص ‪٧١‬‬

‫الجواب‪.‬‬
‫ان حواالجات کا بھی وھی حال ھے جو عالمہ ابن تیمیہ کے پچھلے حواالجات کا تھا‪.‬‬
‫اس میں بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو سب کرنے کا ثبوت نھیں‪.‬‬
‫دعوی خاص ھے اور دلیل عام‪.‬‬‫ٰ‬
‫یا تو میری عام دلیل (بقول آپ کے) کو قبول کریں یا خود بھی پیش مت کریں‪.‬‬

‫‪6#‬‬
‫آگے جناب نے چند اھل السنت علماء کے حوالہ پیش کیے ھیں‪ .‬لکھتے ہیں‬
‫پہلے‪ ،‬چنانچہ عالمہ محب ہللا طبری فرماتے ہے‪:‬‬
‫عن سعید قال‪ :‬أمر معاویة سعدًا أن یسب أبا تراب۔۔۔۔ خرجه مسلم والترمذي‪.‬‬
‫حوالہ‪:‬الریاض النضرة في مناقب العشرة‪ ،‬جلد ‪ ٣‬ص ‪١٥٢‬‬

‫دوسرے‪ ،‬مال علی قاری الحنفی فرماتے ہے‪:‬‬

‫س ْعدًا أ َ ْن َیسُبه أ َ َبا ت ُ َرا ٍ‬


‫ب‬ ‫َقالَ‪ :‬أ َ َم َر ُم َعا ِو َیةُ َ‬
‫معاویہ نے سعد کو امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬مرقاة المفاتیح‬

‫الجواب‪.‬‬

‫‪ ، 1‬انھوں نے روایت کے الفاظ نقل کیے ھیں اور جناب نے یہ سمجھا کہ یہ ان کے ھمنوا ھیں‪.‬‬
‫حدیث کے الفاظ پر نھیں آپ جو مطلب ان سے اخذ کر رھے ھیں اس سے ھم کو اختالف ھے‪.‬‬
‫مال علی قاری نے بھی ریاض النضرہ کے حوالے سے عبارت نقل کی ھے اور جناب نے الگ نمبر‬
‫دے کر ان کا نام بڑھایا ھے تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ اتنے سارے سنی علماء ھمارے ساتھ ھیں‪.‬‬

‫‪7#‬‬
‫جناب نے سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سے صلح کی ایک شرط نقل کی‬
‫کہ‬

‫وال یسب علي وھو یسمع‬


‫معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہیں کرے گا درحالنکہ امام حسن ع اس کو سن رہے ہوں‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ دمشق جلد ‪ ١٣‬ص ‪٢٦٤-٢٦٣‬‬

‫یہی بات تقریبا طبری‪ ،‬ابن اثیر‪ ،‬ذھبی‪ ،‬ابن الوردی‪ ،‬ابن خلدون‪ ،‬ابن کثیر‪ ،‬ابوالفدا اور صفدی وغیرھم‬
‫نے اس شرط کو نقل کیا ہے یعنی یہ تاریخی حوالے سے ایک مشہور مستفیض بات ہے کہ اس کو‬
‫تقریبا مورخین کے جم غفیر نے نقل کیا ہے۔ یوں ایک اور معنوی دلیل سے معاویہ کا سب ثابت ہوا۔‬

‫الجواب‪.‬‬
‫سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کی اس شرط سے قطعا ً ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی‬
‫رضی ہللا عنہ پر سب کرتے تھے‪.‬‬
‫کسی چیز کے روکنے سے یہ الزم نھیں آتا کہ پہلے ایسا ھوتا تھا‪ ،‬قرآن میں مسلمانوں کو کتنی‬
‫چیزیں سے روکا گیا ھے؟ تو کیا سارے مسلمان ان کو کرتے ھیں جو ہللا نے روکا؟‬
‫دعوی کے مطابق نھیں ھے‪.‬‬ ‫بطور تنبیہ کہ بھی روکا جاتا ھے‪ .‬تو آپ کی دلیل ٰ‬
‫‪ ، 2‬اگر سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے تھے اور بقول آپ کے‬
‫وہ منافق تھے‪ ،‬تو ایسے شخص کو اسالمی حکومت کا سربراہ بنانے واال امام رھ سکتا ھے؟‬
‫اب زرا اپنے اماموں کی امامت کی بھی فکر کریں اور آپ کے مذھب میں بیان کردہ ائمہ کے شرائط‬
‫کو سامنے رکھ کر بتائیں‪.‬‬
‫اچھا ھوا آپ نے سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کا ذکر کر کے یہ بات کھول کر اس سوال کا موقعہ دیا‪.‬‬

‫‪8#‬‬

‫جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫اس ذیل میں ہم مقدمہ ثانی یعنی برسبیل تنزل مان بھی لیں کہ معاویہ نے فضائل امیر المؤمنین ع کو‬
‫تسلیم بھی کیا تو وہ تسلیم کرنا کافی نہیں اگر معاویہ کا سب کرنا‪ ،‬لعنت کرنا‪ ،‬جنگ کرنا‪ ،‬اور بغض‬
‫رکھنا دیگر دالئل سے ثابت ہوں۔۔ اس پر میں نے آپ کو یہودیوں اور مشرکین کی مثالیں دیں تھیں‬
‫جو اگرچہ فضیلت رسول ص کے قائل تھے لیکن پھر بھی وہ ان کو باایمان ثابت نہیں کرتی۔‬

‫الجواب‪.‬‬
‫سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو سب کرنا‪ ،‬لعنتیں کرنا آپ اب تک ایڑی‬
‫چوٹی کا زور لگا کر بھی ثابت نہیں کرسکے اور نہ کر سکیں گے ان شاءہللا‪.‬‬

‫باقی آپ کا یہ کھنا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ نے جنگ کی‪ ،‬تو سوال یہ ھے کہ جنگ صفین کھاں‬
‫لگی تھی؟ کوفہ کے پاس یا شام کے پاس؟ اس سوال کے جواب سے یہ بات واضح ھوجائے گی کہ‬
‫کس نے جنگ کی تھی‪.‬‬
‫‪ ، 2‬باقی یہ بات تو ھم بھی مانتے ھیں کہ ان کا آپس میں اختالف ھوا تھا قصاص عثمان کے مسئلے‬
‫میں جو جنگ صفین کی وجہ بنا اور باآلخر صلح ھوئی‪.‬‬
‫اب اس صلح کے بعد ان باتوں کو دوبارہ اٹھا کر کسی ایک فریق پر کفر و نفاق کے فتوے لگانے‬
‫والی شرارتی فتنے باز ھیں‪.‬‬

‫آگے جناب فرماتے ہیں کہ‬

‫کتنے ہی مستشرقین رسول ص کی تعریف کرتے ہیں تو کیا وہ رسول ص کی رسالت پر ایمان لے‬
‫آئے‪ ،‬خود آپ کے دیوبندی اکابرین اپنے علماء کی تعریفات بریلوی کتب سے نقل کرتے ہیں تو کیا‬
‫اس کے باوجود بریلیوں کی ایک تعداد نے آپ کو کافر کہنا چھوڑ دیا؟‬

‫الجواب‪.‬‬
‫آپ کا ایک صحابی کو نبی پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ھے‪ .‬کیونکہ نبی خود پر ایمان النے کی‬
‫دعوت خود دیتا ھے‪ ،‬تو نبی کے فضائل کے اقرار کے ساتھ ان کو نبی بھی ماننا پڑتا ھے‪.‬‬
‫اور کسی صحابی کو اسی طرح ماننا ھوتا ھے جیسا قرآن اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫فرمان سے ثابت ھو‪.‬‬
‫بہرحال میں نے اپنے اگلے کمنٹ میں جناب سے ایک سوال کر رھا ھوں اسی بات پر ‪،‬اس کا جواب‬
‫دینگے تو بات صاف ھوجائے گی‪.‬‬
‫یہاں سے آپ کے مستشرقین‪ ،‬مشرکین و یھود والی بات کا جواب بھی ھوگیا‪.‬‬

‫رھا دیوبندی کی تکفیر کا مسئلہ تو کافر تو خارجیوں نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو‪ .‬بھی کھا ھے‬
‫نعوذ باہلل‪.‬‬
‫اور جو سنجیدہ قسم کے علماء دیوبندی علماء کی تعریف کرتے ہیں وہ ان کو کافر نھیں کھتے‪.‬‬

‫‪9#‬‬
‫جناب نے مشرکین و یھود کی بات کو دہراتے ھوئے میری بات کا جواب دیا کہ‬

‫مشرکین بھی رسالت مآب ص کی فضیلت کے معترف تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھےاس‬
‫کے باوجود یہ اعتراف ان (ادھر ضمیر مشرکین کی طرف پلٹ رہی ہے) کی فضیلت کا باعث نھیں‬
‫بن سکتا۔۔ یہ پورا ج ملہ تھا کہ ایک طرف مشرکین کا فضائل تسلیم کرنا موجود ہے لیکن وہ ان کی‬
‫اپنی ذاتی فضیلت نہیں بن سکتی کیونکہ وہ اعترافات کے باوجود بھی ایمان نہیں الئے بعینیہ یہی‬
‫حالت معاویہ کے ساتھ ھے‪.‬‬

‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬ھم بھی یھی تو کھتے ھیں کہ شیعہ جو حب اھل بیت کے دعوے کرتے ھیں وہ سچے نھیں اور نہ‬
‫یہ دعوے ان کے محب اھل بیت ھونے کی دلیل ہے‪.‬‬
‫جناب نے یہ بات کر کے شیعہ کے بارے میں ھمارے خیال کے تائید کردی‪.‬‬
‫‪ ، 2‬میں ان سے پوچھتا ھوں کہ ایک شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ان کے دور میں خالفت کا‬
‫زیادہ حقدار مانتا ھے‪ ،‬نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جو ان کے فضائل بتائےھیں ان کو تسلیم‬
‫کرتا ھے‪ ،‬ان کی موت پر افسوس کرتا ھے‪ .‬تو کیا یہ شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ماننے واال‬
‫ھوا کہ نھیں؟‬
‫اس کا جواب دیں تاکہ آپ کی اوپر والی بات کا جواب دیا جا سکے‪.‬‬
‫‪ ،3‬مشرکین جو توھیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی کرتے ھیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ھے‪،‬‬
‫ان کو جناب کس کھاتے میں ڈالیں گے؟‬

‫‪10#‬‬
‫خیر طلب صاحب لکھتے ھیں‬

‫میں آپ کو ما بعد بعثت‪ ،‬مشرکین کی تعریفات دیکھتا ہوں رسول ص کے لئے۔ اس سے پہلے کہ میں‬
‫وہ روایت نقل کروں‪ ،‬عالمہ بیھقی کی تبویب سے ایک باب کا عنوان جو ان کی فقہ پر داللت کرتا‬
‫ہے نقل کئے دیتا ہوں‪:‬‬

‫از َوأَنههُ َال یُ ْش ِبهُ َ‬


‫ش ْیئًا ِم ْن لُغَا ِت ِھ ْم َم َع َك ْو ِن ِھ ْم‬ ‫ہللا [ت َ َعالَى] ِمنَ ْ ِ‬
‫اْل ْع َج ِ‬ ‫ب ِ‬ ‫اف ُم ْش ِر ِكي قُ َری ٍْش ِب َما ِفي ِكت َا ِ‬ ‫اب ا ْع ِت َر ِ‬ ‫َب ُ‬
‫ِم ْن أ َ ْھ ِل اللُّغَ ِة َوأ َ ْربَا ِ‬
‫ب ال ِلّ َس ِ‬
‫ان‬
‫حوالہ‪ :‬دالئل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشریعة‪ ،‬جلد ‪ ،٢‬ص ‪١٩٨‬‬

‫ابن اسحاق نقل کرتے ہے اس میں ایک مکی زندگی میں ما بعد بعثت ایک واقعہ نقل کیا گیا جس کو‬
‫مال علی قاری نقل کرتے ہے اور فرماتے ہے‪:‬‬

‫(وأصدقكم حدیثا) أي قوال ووعدا (وأعظمكم أمانة) أي صدقا ودیانة وھذہ الشھادة لكونھا من أھل العداوة‬
‫حجة لما قیل الفضل ما شھدت به اْلعداء‬

‫حوالہ‪:‬شرح الشفا‪ ،‬جلد ‪ ،١‬ص ‪٣٠٤‬‬

‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬اصل میں خیر طلب کے نزدیک کسی شخص کی تعریف کا معیار یہ ھے کہ اس کو صادق و‬
‫امین بھی مانے اور جادوگر‪ ،‬مجنون بھی ساتھ میں مانے‪.‬‬
‫ان کے نبی ھونے کو جانتا بھی ھو اور ساتھ میں اس کی توھیں کرے بھی اور دوسروں سے‬
‫کروائے بھی‪.‬‬
‫کیونکہ جناب مشرکین و یھود کی مثالیں دے کر یہ کھتے ھیں کہ وہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی‬
‫فضائل کے قائل ہیں اور مشرکین و یھود کا حال وھی ھے جو میں بتا چکا ہوں‪.‬‬
‫‪ ،2‬قرآن کو واقعی وہ معجز کتاب سمجھتے تھے لیکن یہ بھی کھتے تھے کہ محمد صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے اپنی طرف سے گھڑا ھے اس کو‪.‬‬
‫‪ ، 3‬دشمن جو فضیلت مانے وہ واقعی زیادہ قابل تعریف بات ھے تبھی تو میں نے شیعہ کتاب سے‬
‫حوالہ دیا اور آگے بھی دینے واال ھوں‪..‬‬

‫‪11#‬‬
‫جناب نے إعالء السنن کا حوالہ دیا تھا جس پر میں نے پوچھا تھا کہ‬
‫"اس سے زرا آپ ثابت کریں کہ معاویہ رضی ہللا عنہ علی رضی ہللا عنہ لو گالیاں دیتے تھے؟‬
‫اس پر جناب لکھتے ہیں‬

‫محترم یہ داللت التزامی ہے کہ انسان اگر کسی سے بغض رکھے‪ ،‬اس کی مشروعیت کا انکار کرے‬
‫اور اس سے خوف کے ظروف میں تقیہ کرے اور وجہ یہ ہو کہ وہ ایک آدمی سے منسوب ہوں تو‬
‫اس سے واضح طور پر بات سامنے آجاتی ہے کہ جس سے بغض‪ ،‬تقیہ کیا جارہا ہے وہ اس منسوب‬
‫شخصیت سے کافی بغض رکھتا ہے۔ اگر ہماری بات نہیں سمجھ آرہی ہے تو امیر المؤمنین ع کے‬
‫خواص ابن عباس (بقول آپ کے علماء) کا ہی قول پیش کئے دیتا ہوں‪:‬‬

‫سنن نسائی میں یہ روایت موجود ہے‪:‬‬

‫ي بْنُ َ‬
‫صا ِلحٍ‪،‬‬ ‫ي‪ ،‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا خَا ِلد ُ بْنُ َم ْخلَدٍ‪ ،‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا َ‬
‫ع ِل ُّ‬ ‫‪ - 3006‬أ َ ْخبَ َرنَا أَحْ َمد ُ بْنُ عُثْ َمانَ ب ِْن َح ِك ٍیم ْاْل َ ْو ِد ُّ‬
‫هاس‪ِ ،‬ب َع َرفَاتٍ‪،‬‬ ‫عب ٍ‬‫س ِعی ِد ب ِْن ُج َبی ٍْر‪ ،‬قَالَ‪ :‬كُ ْنتُ َم َع اب ِْن َ‬
‫ع ْن َ‬ ‫ع ْم ٍرو‪َ ،‬‬ ‫ع ْن ْال ِم ْن َھا ِل ب ِْن َ‬
‫ب‪َ ،‬‬ ‫ع ْن َم ْی َ‬
‫س َرة َ ب ِْن َح ِبی ٍ‬ ‫َ‬
‫اط ِه‪ ،‬فَقَالَ‪:‬‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫هاس‪ِ ،‬م ْن ف ْسط ِ‬ ‫عب ٍ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬
‫اس یُلبُّونَ ؟» قلتُ ‪ :‬یَخَافونَ ِم ْن ُمعَا ِویَة‪ ،‬فَخ ََر َج ابْنُ َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫فَقَالَ‪َ « :‬ما ِلي َال أ ْس َم ُع النه َ‬
‫يٍ‬
‫علِ ّ‬
‫ض َ‬ ‫«لَ هبیْكَ الله ُھ هم لَبهیْكَ ‪ ،‬لَبهیْكَ فَإ ِنه ُھ ْم قَدْ ت ََركُوا ال ُّ‬
‫سنهةَ ِم ْن بُ ْغ ِ‬

‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬نسائی کی روایت پر بحث مسلم والی روایت کے بعد ھوگی تاکہ ایک ایک دلیل پر تفصیلی بات‬
‫ھو اور دیکھنے والے صحیح سے سمجھ سکیں‪.‬‬
‫اور نسائی کی روایت تو ابن عباس رضی ہللا عنہما کی تقیہ کرنے والی بات کا واضح رد کررھی‬
‫ھے‪ .‬ان دونوں میں سے آپ کو ایک بات کو صحیح کھنا ھوگا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬إعالء السنن کے حوالے سے ان کا مدعا ثابت نھیں ھو رھا تھا اس لیے جناب نے نسائی کی‬
‫روایت ال سھارا لیا جو کہ خود إعالء السنن کی تقیہ والی بات کا رد کررھی ھے اور جناب نے‬
‫نسائی کی روایت کو اعالء السنن کی تائید میں پیش کیا ہے‪.‬‬
‫رھا ابن عباس رضی ہللا عنہ کا تقیہ کرنے والی بات‪ ،‬تو یہ تو بعد کے علماء کی تاویالت ھیں نہ کہ‬
‫خود ابن عباس رضی ہللا عنہ کا قول‪ ،‬اس کے برعکس ابن عباس رضی ہللا عنہ کا معاویہ رضی ہللا‬
‫عنہ کے پاس جانا‪ ،‬ان کے تعریف کرنا اور عطیات لینا کتب تاریخ سے ثابت ہے جو نسائی والی‬
‫بحث میں سامنے آئیں گی‪.‬‬

‫‪12#‬‬
‫میں نے شیعوں کی معتبر کتاب اصل و اصول الشیعہ سے سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی‬
‫رضی ہللا عنہ کے فضائل کا اقرار کرنا نقل کیا تھا‪.‬‬
‫جس کے جواب میں جناب لکھتے ہیں‬

‫یہ روایت کے شرو ع ہی میں لکھا ہے اس کو نقل کرنے واال أبو سعد اآلبى ہے جس نے اپنی کتاب‬
‫میں نقل کیا ہے‬

‫مالحظہ ہو نثر الدر في المحاضرات جلد اول ص ا‬


‫چنانچہ واضح ہوگیا کہ اصال یہ روایت ہی بے سند ہے۔۔ آپ اس کی مکمل سند شیعی تراث سے پیش‬
‫کی جئے گا ورنہ آپ خود اپنی شرط کی مخالفت کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔‬

‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬یہ روایت ان کے مجتھد محمد حسین آل کاشف صاحب نے اپنی کتاب میں اپنی اس بات کو ثابت‬
‫کرنے کے لیے پیش کی ھے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کی حکومت مسلمانوں کے خون پسینے کی‬
‫کمائی سے عیش و عشرت والی تھی جو اسالمی تعلیمات کے خالف ہے‪.‬‬
‫تو آل کاشف صاحب نے جس بات کو معاویہ رضی ہللا عنہ کے خالف دلیل کے طور پر پیش کیا‬
‫ھسے اس خیر طلب صاحب نے "بے سند" کھہ کر اپنے مجتھد آل کاشف صاحب کو سیدنا معاویہ‬
‫رضی ہللا عنہ پر جھوٹا الزام لگانے واال ثابت کردیا‪.‬‬
‫واہ ایسے دو چار شیعہ مناظر اور مل جائیں تو مزا آجائے‪.‬‬
‫‪ ، 2‬اصل میں خیر طلب صاحب کا مسئلہ یہ ھے کہ جو بات ان کے نظریے کے خالف ھوتی ھے یہ‬
‫اس حوالے یا کتاب کو ھی غیر معتبر یا بے سند وغیرہ کھہ کر جان چھڑانے میں عافیت سمجھتے‬
‫کررھے ہیں‪.‬‬
‫ان کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان کے مجتھد اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اس روایت کو بطور دلیل‬
‫پیش ھیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬اس سے یہ بات بھی ثابت ھوئی کہ شیعہ مجتہدین صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے بے سند و‬
‫جھوٹی روایات کا سھارا لیتے ھیں‪ ،‬یھی بات اھل السنت علماء صدیوں سے کھتے آرھے ھیں جو‬
‫خبر طلب صاحب نے کر دی‪.‬‬

‫‪13#‬‬
‫میں نے سیدنا سعد رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے فضائل بیان کرنے پر سیدنا معاویہ‬
‫رضی ہللا عنہ کے خاموش رھنا ان کے فضائل کو ماننے کی دلیل ھے‪.‬‬
‫اس پر جناب لکھتے ہیں‬

‫تو ہم پہلے بتاتے چلیں کہ ادھر کوئی ہمارے کالم میں تناقض نہ کہے‪ ،‬ہم ان تمام کے اشکاالت کے‬
‫جوابات برسبیل تنزل دے رہے ہیں کہ پہلی بات عدم تعرض سے ہمیشہ قبولیت لینا غلط ہے اور‬
‫برسبیل تنزل قبولیت فضیلت مان بھی لیں جب بھی وہ اس شخص (قائل فضیلت) کے اچھے ہونے پر‬
‫داللت نہیں کرے گا‪ ،‬فی الحال ہماری بحث مقدمہ اولی سے ہے کہ عدم تعرض کبھی قبولیت فضیلت‬
‫کا باعث بن سکتی ہے اور کبھی نہیں۔۔ تو جہاں دو احتمال موجود ہوں وہاں ایک ہی معنی مراد لینا‬
‫غلط ہے جب تک کہ کوئی قرینہ ایسا نہ ہو جو ایک معنی کو متعین کردے۔‬

‫اور پھر لکھا کہ‬

‫محترم آپ ایک اخص چیز کے قائل ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ آپ کی دلیل اعم ہے۔ اور اخص دعوی‬
‫پر اعم دلیل سے استدالل کرنا ہی غلط ہے‪.‬‬

‫الجواب‪.‬‬
‫عرض ہے کہ میں اعم نھیں اخص صورت کی ھی بات کررھا ھوں‪ ،‬وہ اس طرح کہ ایک شخص‬
‫جو حکمران ھو طاقت اس کے پاس ھو‪ ،‬وہ کسی دوسرے سے (بقول شیعہ) سخت دشمنی بھی رکھتا‬
‫ہو‪ ،‬اس سے جنگ بھی کی ھو‪ ،‬اس کو ممبروں پر خطبوں میں خود بھی گالیاں دیتا ھو اور دوسروں‬
‫سے بھی دلواتا ھو‪.‬‬
‫وہ اپنے ایسے دشمن کی تعریفیں سن کر پہر بھی خاموش رھتا ھے تو یہ بالکل اس بات کی دلیل‬
‫ھے کہ وہ اس کے فضائل مانتا ھے‪.‬‬

‫آگے جناب نے ایک قول نقل کیا کہ‬

‫شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت کبھی مختلف‬
‫دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے‪ ،‬کبھی کسی انسان کے‬
‫وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے‪ ،‬کبھی اس انسان کے رعب کی وجہ سے‪ ،‬کبھی فتہ کے‬
‫خوف کی وجہ سے ہے یا ان کے عالوہ یا جیسے کہ ہر مجتہد اس میں صحیح ہے اس وجہ سے‪،‬‬
‫کبھی دوسرا آدمی عمر میں بڑا ہوتا ہے‪ ،‬یا عزت میں زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫حوالہ‪ :‬فصول البدائع‬

‫الجواب‪ .‬اس قول کو ماننے سے ھماری بات پر کوئی فرق نہیں پڑتا‪ .‬اوپر وضاحت کرچکا ھوں‪.‬‬

‫====ختم شد====‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم فخر الزماں صاحب۔۔۔ چیدہ چیدہ نکات جوابات پڑھ لئے ہیں۔۔ مجھے سنن ابن ماجہ اور تاریخ‬
‫ابن عساکر کی روایت جس میں سعد اور معاویہ والے قضیہ کا ذکر ہے اور جو صحیح مسلم والی‬
‫روایت کی مزید تشریح کرتی ہے اس کا جواب نظر نہیں آیا۔۔ پورا جواب مکمل کیجئے تاکہ میں‬
‫جواب تیار کرنا شر وع کروں اور دوسری بات منھجی اعتبار سے اپ سے پوچھنا تھا کہ آپ کے‬
‫مطابق اگر کوئی مجتہد کسی روایت سے استدالل کرے تو کیا وہ قابل احتجاج ہوگا یا نہیں؟ اس کی‬
‫وجہ یہ ہے کہ آپ کے بقول صاحب کتاب اصل و اصول شیعہ آل کاشف الغطاء نے ایک روایت سے‬
‫استدالل کیا اور مجھے ملزم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔ یہ بتادیجئے۔ تیسری بات آپ نے ایک‬
‫جگہ ایک مزید دلیل دینے کا فرمایا تھا چنانچہ آپ یوں گویا ہوئے‪:‬‬

‫(دشمن جو فضیلت مانے وہ واقعی زیادہ قابل تعریف بات ھے تبھی تو میں نے شیعہ کتاب سے حوالہ‬
‫دیا اور آگے بھی دینے واال ھوں‪).‬‬

‫میں نے آپ کے جواب میں ابھی تک وہ شیعہ کتاب سے دینے واال ہوں کا حوالہ نہیں دیکھا وہ بھی‬
‫دے دیجئے تاکہ میں اس کا بھی جواب ساتھ ساتھ دے دوں۔‬

‫معذرت سے یہ میں جواب نہیں دے رہا بلکہ جو ناقص جوابات ہیں جن کو آپ نے چھوا تک نہیں‬
‫اور جو منھجی باتیں ہیں ان کو کلئیر کرنا چارہا ہوں۔۔ آپ نے جتنے دنوں میں جواب دیا ہے میری‬
‫کوشش ہوگی کہ اگر مصروفیت دامن گیر نہ رہے تو اتنے ہی دن میں آپ کو مدلل جواب دے دیا‬
‫جائے۔ شکریہ۔ ایک بار توضیح کردیں اگرچہ وہ میرے نزدیک کمزور ہی کیوں نہ ہو لیکن مجھے‬
‫جواب دینے میں آسانی ہوگی۔‬

‫شکریہ‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫جناب نے مسلم کی تائید میں ابن عساكر کے حوالے سے لکھتے ہیں فلما فرغ أدخله في دار الندوة‬
‫فأجلسه معه على سریرہ ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فیه قال أدخلتني دارك وأقعدتني على سریرك ثم‬
‫وقعت فیه تشتمه وہللا ْلن أكون في‪ ...‬الخ حوالہ‪ :‬تاریخ دمشق جلد ‪ ،٤٢‬ص ‪ ١١٩‬الجواب‪ .‬ان کو بھی‬
‫پتہ ہے کہ اس روایت میں کچھ علت ھے جو یہ روایت قابل استدالل نھیں‪ .‬اس میں محمد بن اسحاق‬
‫ھے جو شیعہ ھے‪ .‬عالمہ ابن حجر تقریب التھذیب میں لکھتے ہیں محمد بن اسحاق بن یسار‪ ....‬رمی‬
‫بالتشیع ‪ .‬کہ یہ شیعہ تھا‪ .‬یھی بات تاریخ بغداد ج ‪،١‬سیر اعالم النبالء میں بھی ھے‪ .‬اور یہ اصول ھے‬
‫کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں قابل قبول نہیں‪ .‬پہر جناب لکھتے ہیں تبصرہ‪ :‬اس‬
‫روایت کی سند میں راویان بظاھر ثقہ ہیں‪ ،‬مجھے بعض علل معلوم ہیں جو محترم السکتے ہیں لیکن‬
‫جب وہ الئیں گے تو اس کا جواب اس ہی فقط احنافی منھج کے مطابق ہوگا۔ الجواب‪ .‬ان کے ذھن‬
‫میں یہ تھا کہ یہ محمد بن اسحاق کو ضعیف کھیگا تو میں فتح القدیر‪ ،‬نصب الرایہ وغیرہ سے اس کا‬
‫ثقہ ھونا ثابت کرونگا‪ .‬لیکن ان کو پتا ھونا چاھیے کہ صرف آپ نے ھی نھیں دوسروں نے بھی کچھ‬
‫اصول پڑھے ھیں‪.‬‬

‫خیر طلب صاحب آپ اپنی سمجھ کے بجائے میرے الفاظ کو دیکھ کر جواب لکھیں‪ .‬میں نے بھی‬
‫جواب لکھتے وقت ھی ساری باتیں لکھی ہیں نہ کے بیچ میں‬
‫ي بْنُ‬ ‫مسلم کی روایت کی تائید میں جناب نے ابن ماجہ سے روایت پیش کی کہ ‪َ - 121‬حدهثَنَا َ‬
‫ع ِل ُّ‬
‫س ْع ِد ب ِْن أ َ ِبي‬
‫ع ْن َ‬‫الرحْ َم ِن‪َ -‬‬‫ع ْبد ُ ه‬ ‫سا ِبطٍ ‪َ -‬وھ َُو َ‬ ‫ع ْن اب ِْن َ‬ ‫سى بْنُ ُم ْس ِل ٍم‪َ ،‬‬ ‫ُم َح همدٍ‪َ ،‬حدهثَنَا أَبُو ُم َعا ِو َیةَ‪َ ،‬حدهثَنَا ُمو َ‬
‫س ْعد ٌ‪َ ،‬وقَالَ‪:‬‬ ‫ب َ‬ ‫َض َ‬‫ع ِلیًّا‪ ،‬فَنَا َل ِم ْنهُ‪ ،‬فَغ ِ‬ ‫علَ ْی ِه َ‬
‫س ْعد ٌ‪ ،‬فَذَ َك ُروا َ‬ ‫ض َح هجا ِت ِه‪ ،‬فَدَ َخ َل َ‬ ‫اص‪ ،‬قَالَ‪ :‬قَد َِم ُم َعا ِو َیةُ ِفي َب ْع ِ‬ ‫َوقه ٍ‬
‫سله َم‪ ....‬الخ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شعیب‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫ص هلى ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫سو َل ه ِ‬
‫َّللا ‪َ -‬‬ ‫س ِم ْعتُ َر ُ‬ ‫تَقُو ُل َھذَا ِل َر ُج ٍل َ‬
‫دعوی ھے کہ سیدنا‬ ‫ارنووط رقم طراز ہے‪ :‬حدیث صحیح‪ ،‬وھذا سند رجاله ثقات الجواب‪ .‬جناب کا ٰ‬
‫علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے تھے سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ‪ ،1 .‬اس روایت میں کھیں بھی‬
‫نھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا کو گالیاں دی گئی‪ ، 2 .‬مسلم میں میں بقول جناب کے حکم ھے سب کا‪،‬‬
‫اور اس روایت میں ایسا کچھ نہیں‪.‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫فخر الزماں صاحب میری باقی دو باتوں کا بھی جواب دیجئے تاکہ میں اپنا جواب بنانا شروع کروں۔۔‬
‫براہ کرم کوشش کیجئے مجھے ایک ہی بات کو مختلف مرتبہ نہ دھرانا پڑے۔ شکریہ‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫آپ اپنے کمنٹس میں بتانا کہ میں نے آپ کی کس کس بات کا جواب نہیں دیا‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫مالحظہ ہو میری پوسٹ‬

‫دوسری بات منھجی اعتبار سے اپ سے پوچھنا تھا کہ آپ کے مطابق اگر کوئی مجتہد کسی روایت‬
‫سے استدالل کرے تو کیا وہ قابل احتجاج ہوگا یا نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے بقول صاحب‬
‫کتاب اصل و اصول شیعہ آل کاشف الغطاء نے ایک روایت سے استدالل کیا اور مجھے ملزم کرنے‬
‫کی کوشش کررہے ہیں۔۔ یہ بتادیجئے۔ تیسری بات آپ نے ایک جگہ ایک مزید دلیل دینے کا فرمایا‬
‫تھا چنانچہ آپ یوں گویا ہوئے‪:‬‬

‫(دشمن جو فضیلت مانے وہ واقعی زیادہ قابل تعریف بات ھے تبھی تو میں نے شیعہ کتاب سے حوالہ‬
‫دیا اور آگے بھی دینے واال ھوں‪).‬‬
‫میں نے آپ کے جواب میں ابھی تک وہ شیعہ کتاب سے دینے واال ہوں کا حوالہ نہیں دیکھا وہ بھی‬
‫دے دیجئے تاکہ میں اس کا بھی جواب ساتھ ساتھ دے دوں۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫اصل و اصول الشیعہ آپ کی کتاب نھیں ھے کیا جناب؟ اور میں کیا اور کب پیش کرونگا وہ میں‬
‫کسی سے پوچھ کر نھیں کرونگا اپنی مرضی کے مطابق کرونگا‬

‫اصل و اصول الشیعہ میں جو میں نے دلیل دی ھے یھاں یھی مراد ہے‬
‫احناف کے نزدیک اگر کوئی مجتھد کسی روایت سے استدالل کرتا ہے تو وہ صحیح ھوتی ھے اس‬
‫مجتھد کے لیے‬
‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم آپ بات بات پر بڑے غصہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور کسی سے پوچھ کر نہیں اور فالں‬
‫فالں باتیں‪ ،‬یہ اپنی خطیبانہ زندگی میں رکھیں تو مناسب ہے‪ ،‬آپ سے پوچھا تھا نہیں دینا تو مسئلہ‬
‫نہیں۔۔ مجھے ایک کم بات ہی کا جواب دینا ہوگا۔ ‪.‬باقی میں انشاء ہللا جواب دوں گا۔۔ اب جتنے دن میں‬
‫آپ نے مکمل کیا جو آج کا دن ہے تو انشاء ہللا اتنے دن کے اندر آپ کو جواب مل جائے گا‪ ،‬باقی‬
‫باتیں میرے جواب میں۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آپ نے کس لفظ سے سمجھ لیا کہ میں غصہ ھوگیا ھوں‪ .‬اگر خطیبانہ‬
‫زندگی میری ھے ھی نھیں اور اگر ھو بھی تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ھونا چاھیے‪ .‬اگر کسی‬
‫کو ہللا نے یہ خوبی نھیں دی تو وہ ہللا سے سوال کرے‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫چلیں خوش ہوجائیں فخر الزماں صاحب خطیب صاحب۔۔ اب جواب کا انتظار کیجئے گا۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫انتظار رہے گا‪ .‬آپ بھی غصہ تھوک دیں میری خطیبانہ زندگی پر‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫بسم ہللا الرحمان الرحیم‬

‫ہم اب محترم فخر الزماں صاحب کے اشکاالت اور جوابات شروع کرتے ہیں اور ہمارے جوابات‬
‫درج ذیل فصول میں ہوں گے‬
‫‪ ، ١‬صحیح مسلم کی روایت (اس ذیل میں ہم محترم فخر الزماں کے جملہ اعتراضات کے جوابات دیں‬
‫گے اور جن علماء کے کالم سے استدالل کیا گیا تھا مثل ابن تیمیہ‪ ،‬محب ہللا طبری‪ ،‬مال علی قاری۔۔‬
‫ان کی گلوخالصی پر جو محترم فخر الزماں نے کالم کیا ہے ان تمام کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور‬
‫ساتھ ساتھ دو مزید علماء اہلسنت کے نام اس ذیل میں بتائیں گے)‬

‫‪ ، ٢‬سنن ابن ماجہ کی روایت (واقعہ معاویہ اور سعد بن ابی وقاص) پر اعتراض کا جواب‬

‫‪ ،٣‬تاریخ دمشق از ابن عساکر کی روایت (واقعہ معاویہ اور سعد بن ابی وقاص) پر اعتراض کا‬
‫جواب‬

‫‪ ، ٤‬سب امیر ع پر معاویہ کی رضامندی پر ایک اور معنوی شاہد سنن اور مسند اہلسنت سے پیش کیا‬
‫جائے گا۔‬

‫‪ ، ٥‬صلح امام حسن ع میں سب امیر ع نہ کرنے پر جملہ اشکاالت کے جوابات۔‬

‫‪ ،٦‬صلح امام حسن ع پر محترم فخر الزماں کے اشکال کا جواب‬

‫‪ ، ٧‬اعالء السنن کی عبارت اور ابن عباس والی بات کا جواب (اس ذیل میں ہم نے مزید شواہد نقل‬
‫کئے ہیں کہ معاویہ اور اس کی حکومت کا کتنا بیھمانہ سلوک امیر المؤمنین ع کے چاہنے والوں کے‬
‫ساتھ ہوتا تھا)‬

‫‪ ، ٨‬معاویہ‪ ،‬اموی اور حکمرانوں کا امیر المؤمنین ع پر سب کرنا علماء اہلسنت کے اقوال سے (اس‬
‫ذیل میں ہم نے جو ماضی میں ابن حجر اور ابن حزم کی عبارات کے جوابات پر اپنا تبصرہ دیا ہے‬
‫اور تین مزید اقواالت اس ذیل میں پیش کئے ہیں یعنی عالمہ شبلی نعمانی‪ ،‬عالمہ زاھد کوثری اور‬
‫صاحب تاریخ ملت)‬

‫‪ ، ٩‬اصل و اصول الشیعہ کتاب سے پیش کردہ روایت جو ہم نے دی تھی اس پر محترم فخر الزماں کا‬
‫تبصرہ اور اس پر ہمارا جوابی نوٹ۔‬

‫‪ ،١٠‬خالصہ بحث۔‬

‫اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ بحث کو شروع کریں تو فخر الزماں صاحب کے تبصرہ کو قارئین پر ہی‬
‫چھوڑیں گے مثل ان کا یہ کہنا کہ ہم نے لمبے لمبے کمنٹ کئے۔۔ خدا شاہد ہے کہ ہم نے حتی‬
‫االمکان اپنی بات سے زیادہ دالئل پر ہی انحصار کیا ہے اور اس پر اپنا تبصرہ۔۔ اگر اس کو یہ لمبا‬
‫لمبا کہیں تو یہی کہا جائے گا کہ جب بحث کے مختلف جوانب کھلتے ہیں تو ان پر دالئل دینا‬
‫ضروری ہوجاتا ہے اور اگر اس کو آپ طوالت کا نام دیں تو دیتے رہیں۔۔ آپ کے کہنے سے میرے‬
‫جوابات کی کیفیت اور کمیت میں فرق نہیں آئے گا جب تک کہ وہ اصل موضوع پر رہیں۔‬
‫محترم نے مزید کہا کہ میں نے موضوع سے غیر متعلق ابحاث کیں تو یہ آپ کا تجزیہ ہے جو بالکل‬
‫غلط ہے۔۔ آپ کے کہنے کا میں پابند نہیں۔۔ قارئین خود فیصلہ کریں گے کہ کس کی دلیل موضوع‬
‫کے مطابق اور کس کی نہیں۔‬

‫محترم نے مزید کہا میں دوسری دلیل کو لے آیا تو اس کا جواب تو میں اس ہی مقام پر دوں گا جب‬
‫میں اپنا استدالل پیش کروں گا۔۔ البتہ میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ خود ان کے سواالت کے جوابات میں‬
‫دلیل دی گئی تھی۔۔ اگر یہ اپنے سوال ختم کردیں تو میں دالئل اضافی دینا ختم کردوں گا۔۔ یہ تو ہو‬
‫نہیں سکتا کہ آپ سواالت اور اعتراضات کی بھرمار رکھیں اور مجھے مجبور کریں کہ میں آپ کی‬
‫کتاب سے آئینہ نہ دیکھاؤں۔۔ انصاف ہونا ضروری ہے۔‬

‫محترم ن ے کہا کہ میں نے اصولوں کی پابندی نہیں کی تو ان تمام مزعوم باتوں کا جواب بھی انشاء‬
‫ہللا دے دیا جائے گا‬

‫‪ ،١‬صحیح مسلم کی روایت‬

‫ناظرین ہم نے مشہور و معروف روایت صحیح مسلم سے پیش کی تھی جس میں معاویہ نے سعد بن‬
‫ابی وقاص کو حکم سب دیا تھا‬

‫ناظرین ہم اس روایت پر کافی کالم کرچکے ہیں اور کافی سارے دالئل سے اس بات کا اثبات‬
‫کرچکے ہیں کہ ادھر معاویہ نے سب امیر المؤمنین ع کا حکم دیا تھا۔۔‬

‫اس ذیل میں جو ماضی میں حوالے جات سے مدد لئے گئے تھے وہ پیش خدمت ہے ‪ ،١‬ابن تیمیہ ‪،٢‬‬
‫مال علی قاری ‪ ،٣‬محب ہللا طبری۔ ان علماء سے ثابت کیا گیا تھا کہ ادھر حکم سب تھا اور پھر ہم‬
‫نے سنن ابن ماجہ اور تاریخ دمشق کی دو روایات کو بطور تائید پیش کیا تھا جو اس بات پر داللت‬
‫کرتی تھیں۔‬

‫اب جو اعترضات کئے گئے ہیں ان کا بالترتیب جواب دیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس بار دو مزید‬
‫علماء اہلسنت کے اقوال پیش کئے جائیں گے جو اس سب کے حکم کے اثبات میں ہیں (‪ ،١‬شاہ‬
‫عبدالعزیز دہلوی ‪ ، ٢‬معاصر شارح موسی شاہین) اور ایک مزید معنوی شاہد پیش کیا گیا ہے جو ان‬
‫سعید بن زید اور مغیرہ کے واقعہ میں ملتا ہے۔ طریقہ اور تقریب استدالل انشاء ہللا اپنے مقام پر نقل‬
‫کئے جائیں گے۔‬

‫آ ئے اب ہم ان جملہ اشکاالت کے جوابات دیتے ہیں جن کو محترم فخر الزماں نے نقل کئے ہیں۔‬

‫محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬


‫(‬
‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬جناب اصل میں آپ خود پریشان ہیں‪ .‬کبھی کچھ کھتے ھیں تو کبھی کچھ‪.‬‬
‫‪ 17‬اپریل ‪ 9.22pm‬کو جناب نے اپنے کمنٹس میں کھا کہ‬
‫"جس چیز کا حکم دیا ہے وہ محذوف ھے"‬

‫اور اس کمنٹ میں کھہ دیا کہ حکم واضح ھے‪ .‬پہلے آپ خود ایک رائے قائم کرلیں پہر اعتراض‬
‫کرنا‪.‬‬
‫‪ ،2‬جناب کا یہ کھنا کہ‬
‫"سوال سب نہ کرنے کے بارے میں کیا گیا تھا تو حکم بھی اسی کا تھا"‪..‬‬
‫جناب یہ بات محتاج دلیل ھے کہ واقعی حکم سب کا ھی تھا‪ ،‬ھوسکتا ھے کسی اور بات کا ھو؟ جب‬
‫حکم کے الفاظ ھی واضح نھیں تو کیسے یقین کے ساتھ آپ یہ کھہ سکتے ہیں؟‬
‫جب بقول آپ کے حکم محذوف ھی تو آپ اس محذوف کو متعین کرنے کی دلیل الئیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬جب یہ احتمال بھی موجود ھے کہ حکم کسی اور چیز کا تھا یا سب(گالی) کا‪ ،‬تو آپ کا اس‬
‫روایت سے دلیل پکڑنا باطل‪.‬‬
‫کیونکہ آپ ھی اوپر اسی اصول کو اپناتے ھوئے میری ایک دلیل کا رد کرنے کی کوشش کرچکے‬
‫ھیں‬
‫اذا جاء االحتمال بطل االستدالل‪) ..‬‬

‫جواب‪ :‬محترم ادھر بتحقیق اس ہی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میری دونوں باتوں میں کوئی تناقض‬
‫نہیں کیونکہ روایت میں اگرچہ جس چیز کا حکم ہے وہ بلفظہ موجود نہیں لیکن جو سیاق و سباق‬
‫اور جو دیگر قرائن ہیں وہ تمام اس حکم سب پر ہی داللت کرتے ہیں۔۔۔ اور اس حوالے سے ہم نے‬
‫آپ کو روایت پیش کی تھی جس میں تقریب استدالل یوں تھا کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جائے‬
‫گا اور اگر تعمیل حکم نہ کی جائے تو تو ہمیشہ اس کے متعلق ہی سوال کیا جائے گا۔۔ یعنی یہ تقریب‬
‫استدالل تھا کہ ابوبکر کو حکم نماز دیا گیا اور ابوبکر آگے نہیں بڑھے تو روایت کے جملہ ہے کہ‬
‫رسول ہللا ص نے ابوبکر سے نماز نہ پڑھانے کے متعلق ہی سوال کیا۔۔ یعنی یہ اتنی آسان بات ہے‬
‫کہ ہر کوئی سم جھے گا اور یہی بات میں نے ادھر بھی رکھی کہ جب کسی چیز کا حکم دیا گیا (جو‬
‫روایت صحیح مسلم میں بظاھر موجود نہیں) تو معاویہ کا سوال کرنا اس پر ہی داللت کرتا ہے۔ آپ‬
‫میرے اصول پر نقد پیش کی جئے۔ اس پر جناب فرماتے ہے‬

‫(الجواب‪.‬‬
‫جناب نے اب تک جو مثالیں بھی دی ھیں وہ ان کے دلیل سے مطابقت رکھتی ھی نھیں‪ .‬اب اس مثال‬
‫کو بھی دیکھیں‪.‬‬
‫اس روایت میں حکم واضح ھے نماز پڑھانے کا‪ ،‬اس کے برعکس مسلم والی روایت میں سب‬
‫(گالی) کا حکم واضح ھی نھیں‪.‬‬

‫تو آپ کی یہ مثال بھی نھیں بنتی ھمیشہ کی طرح)‬


‫جواب‪ :‬محترم اس تقریب استدالل کو تو میں بتا چکا اور اس پر میں ایک اور مثال آپ کے حضور‬
‫عرض کرتا ہوں کہ ایک آیت مبارکہ میں یوں آیا‪:‬‬

‫قَا َل َما َمنَعَكَ أ َ هال ت َ ْس ُجدَ إِذْ أ َ َم ْرتُكَ‬


‫(ہللا نے) کہا کہ کیا چیز مانع تھی سجدہ کرنے میں جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا۔‬

‫سورہ اعراف آیت ‪١٢‬‬

‫ادھر بھی واضح طور پر ثابت ہوا کہ جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کے متعلق ہی سوال ہوتا‬
‫چنانچہ اگر سوال کسی چیز پر موجود ہو اور اس کا حکم پہلے بیان نہ بھی ہو تو جب بھی محاورے‬
‫عرب کے تحت جس چیز کے متعلق سوال ہو اس کے متعلق ہی حکم سمجھا جائے گا۔‬

‫اور اب ایک روایت پیش خدمت ہے جس میں حجاج ایک شخص کو قتل کا حکم دیتا ہے‪( :‬أ َ هن ْال َح هجا َج‬
‫ع ْب ِد ہللاِ بِقَتْ ِل َر ُج ٍل ) اور نہ کرنے کی صورت میں پوچھتا ہے کہ قتل کیوں نہیں کیا (فَقَا َل‬ ‫أ َ َم َر َ‬
‫سا ِل َم بْنَ َ‬
‫لَهُ ْال َح هجا ُج‪َ :‬ما َمنَعَكَ ِم ْن قَتْ ِل ِه؟) (مالحظہ ہو معجم الکبیر للطبرانی جلد ‪ ١٢‬ص ‪)٣١٢‬۔۔ چنانچہ ادھر‬
‫بھی ثابت ہوا کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جائے گا تو اس ہی کے متعلق سوال ہوگا (اس‬
‫صورت میں اگر اس حکم کی بجا آوری نہ ہو)۔۔ اب اس پر مزید کالم کرنا بیکار ہے اور یوں ثابت‬
‫ہوا کہ ادھر سب ہی کا حکم تھا۔۔ مزید تفصیالت شاہ عبدالعزیز اور موسی شاہین کے اقوال میں‬
‫دیکھئے گا۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫ع ِلیًّا فَقَدْ َ‬
‫سبه ِني» ‪.‬‬ ‫( َم ْن َ‬
‫سبه َ‬

‫حوالہ‪ :‬فضائل الصحابة‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص‪ ،594‬ح‪1011‬‬

‫پہلے تو اس روایت پر خود اصول کی روشنی میں کالم ھے‪،‬‬


‫اور یہ روایت آپ تب پیش کرنا جب آپ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سے گالی دینا ثابت کریں‪ .‬فی‬
‫الحال اس کا ذکر ھی مت کریں‪).‬‬

‫جواب‪ :‬خیر ابھی سب اور گالی والی بحث میں نہیں جاؤں گا۔۔ میرا کام فقط سب کا اثبات ہے لیکن‬
‫اس کے بعد جو بھی معنی لیں اس کا اطالق یقینا رسول ص پر بھی ہوگا اور جس معنی میں آپ امیر‬
‫ع کے لئے سب کو جائز سمجھتے ہیں تو سوال ہے کہ کیا اس معنی میں رسول ص پر سب کیا‬
‫جاسکتا ہے یا نہیں؟‬

‫ناظرین ہم نے ابن تیمیہ کے اقوال نقل کئے تھے اس بابت میں اور ہم آپ ترتیب وار محترم کے پیش‬
‫کردہ اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں۔۔‬
‫محترم فخر الزماں عرض کرتے ہے‪:‬‬

‫الجواب‪.‬‬
‫‪ ،1‬جناب آپ ابن مطھر حلی صاحب کے الفاظ دیکھتے تو یہ سوال نہ کرتے‪.‬‬
‫ان کے یہ الفاظ ھیں‬
‫وعن سعد بن أبي وقاص قال أمر معاویة بن أبي سفیان سعدا بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن‬
‫أبي طالب‪.‬‬
‫منھاج ص ‪19‬‬

‫یہ الفاظ عالمہ ابن تیمیہ کے جواب سے پہلے ابن مطھر حلی کے ھیں جن کو عالمہ ابن تیمیہ نے‬
‫جواب میں صرف نقل کیا ھے‪.‬‬

‫‪ ، 2‬رھا آپ کا نقد نہ کرنے کا سوال‪ ،‬تو میں آپ کے سوال کرنے سے پہلے ھی جواب دے چکا تھا‬
‫جو میں دوبارہ کاپی پیسٹ کرتا ھوں‪ ،‬شاید آپ کی نظر نھیں پڑی ھوگی اس پر‪.‬‬
‫یہ دیکھیں‬

‫شاید کوئی یہ کھے کہ پہر اس بات کا رد کیوں نہیں کیا عالمہ صاحب نے؟‬
‫تو عرض ھے کہ وھاں بحث امامت پر چل رھی ھے نہ کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں‬
‫دلوانے کی جو اس کی وضاحت عالمہ صاحب کر دیتے‪.‬‬
‫عالمہ صاحب خود لکھتے ہیں‬
‫وفیه ثالث فضائل لعلي لكن لیست من خصائص اْلئمة‪..‬‬
‫تو یھاں شیعہ جس مقصد سے یہ حدیث الیا ھے اس کا رد کیا جا رہا ہے)‬

‫جواب‪ :‬محترم ادھر عبارت میں اگر کھیچ تان کے مان بھی لیا جائے کہ یہ شیعی لفظ تھے (بقول آپ‬
‫کے) تو پھر ابن تیمیہ اس کو اس ہی حد تک نقل کرتے بھال ابن تیمیہ کا یہ کہنا‪:‬‬

‫یح ِه‬
‫ص ِح ِ‬
‫ص ِحی ٌح َر َواہُ ُم ْس ِل ٌم فِي َ‬ ‫فَ َھذَا َحد ٌ‬
‫ِیث َ‬
‫یہ روایت بتحقق صحیح ہے اور اس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا‬

‫محترم۔۔ آپ پیچھے پورا عالمہ حلی کا کالم پڑھ لیجئے وہاں ہرگز ہرگز اس مصدر کا اشارہ ہی نہیں‬
‫بلکہ مجرد نقل روایت ہے اور ابن تیمیہ نے ادھر اس کو ‪ ،١‬صحیح کہا ‪ ،٢‬صحیح مسلم کی طرف‬
‫نسبت کی‬

‫اب بتائے کہ ب ھال کس طرح اس کو تفہیم ابن تیمیہ کہا نہ جائے جب کہ ابن تیمیہ نقل روایت اور‬
‫مخالف کی نقل روایت پر اتنے سخت تھے کہ ایک بار عالمہ حلی نے روایت نقل کی ( َم ْن َماتَ ‪َ ،‬ولَ ْم‬
‫ام زَ َمانِ ِه َماتَ ِمیتَةً َجا ِھ ِلیهةً) اس کے جواب میں عالمہ ابن تیمیہ نے کہا‪:‬‬
‫ف إِ َم َ‬
‫یَ ْع ِر ْ‬
‫وز أ َ ْن یُحْ ت َ هج بِنَ ْق ٍل َ‬
‫ع ِن النهبِ ّ‬
‫يِ ‪-‬‬ ‫ِیث بِ َھذَا الله ْف ِظ‪َ ،‬وأَیْنَ إِ ْسنَادُہُ؟ ‪َ .‬و َكی َ‬
‫ْف یَ ُج ُ‬ ‫یُقَا ُل لَهُ أ َ هو ًال‪َ :‬م ْن َر َوى َھذَا ْال َحد َ‬
‫سله َم ‪ -‬قَالَهُ؟ َو َھذَا لَ ْو‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلهى ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫ي‪َ -‬‬ ‫ق الهذِي ِب ِه َیثْبُتُ أ َ هن النه ِب ه‬ ‫ان ه‬
‫الط ِری ِ‬ ‫سله َم ‪ِ -‬م ْن َ‬
‫غی ِْر َب َی ِ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلهى ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫َ‬
‫ف؟ ‪.‬‬ ‫ْ‬ ‫ه‬
‫ِیث بِ َھذَا اللف ِظ َال یُ ْع َر ُ‬ ‫ْ‬
‫ْف َو َھذَا ال َحد ُ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫َكانَ َمجْ ُھو َل ال َحا ِل ِع ْندَ أ ْھ ِل ال ِعل ِم بِال َحدِیثِ‪ ،‬فَ َكی َ‬

‫معترض سے کہا جائے کہ پہلے تو یہ بتاؤ کہ کس نے ان الفاظ میں اس روایت کو نقل کیا اور اس‬
‫کی اسناد کہا ہے؟ اور کس طرح جائز ہے کہ کوئی رسول ص سے روایت نقل کرے بغیر طریق سند‬
‫بیان کئے جو ثابت کرے کہ یہ رسول ص کا قول ہے؟ جب کہ یہ اہل علم حضرات جو حدیث پر نظر‬
‫رکھتے ہیں ان کے ہاں مجہول ہے۔ بھال کس طرح جب کہ یہ الفاظ غیر معروف ہے‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة‪ ،‬جلد اول ص ‪١١٠‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-108 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم ادھر تو ابن تیمیہ نے سخت ڈانٹ پالئی ہے کہ الفاظ روایت میں کوتاہی کی تو بھال یہ‬
‫طر ز فکر صحیح مسلم والی بات میں کیوں نہیں۔۔۔ محترم مان لیں کہ ابن تیمیہ کی تفہیم بھی ہمارے‬
‫موافق ہے حکم سب کے عنوان سے۔۔‬

‫محترم فخر الزماں پھر ان عبارات کی طرف آتے ہیں جن کو ہم نے ابن تیمیہ کے ہاں سے نقل کیا‬
‫ہے۔۔ ہم باری باری اصل عبارت پیش خدمت کرتے ہیں اور پھر فخر الزماں کا کالم اور پھر اپنا‬
‫جوابی تبصرہ۔‬

‫االول‪ :‬استدالل عبارت‪:‬‬


‫فمعلوم أن الذین قاتلوہ ولعنوہ وذموہ من الصحابة والتابعین وغیرھم ھم أعلم وأدین من الذین یتولونه‬
‫ویلعنون عثمان‬

‫یہ بات معلوم شدہ ہے کہ صحابہ اور تابعین میں وہ افراد جنہوں نے امیر المؤمنین ع کے ساتھ جنگ‬
‫کی‪ ،‬امیرالمؤمنین ع پر لعنت کی اور امیر المؤمنین ع کی مذمت کی وہ ان حضرات جو امیر‬
‫المؤمنین ع سے محبت کرتے تھے اور عثمان پر لعنت کرتے تھے کے مقابلہ میں زیادہ علم والے‬
‫اور دین کے حامل تھے۔‬

‫اس کے جواب میں محترم ارشاد فرماتے ہے‪:‬‬

‫(الجواب‪.‬‬
‫‪ ،1‬خ یر طلب صاحب کی بڑی خامی یہ ھے کہ سیاق و سباق دیکھے بغیر بیچ میں سے عبارت کاٹ‬
‫کر بھیج دیتے ہیں جو ان کی مقصد کے مطابق بھی نہیں ھوتی‪.‬‬

‫پہلے حوالے میں عالمہ ابن تیمیہ ابن مطھر حلی شیعہ کو الزامی جواب دے رھے ھیں‪.‬‬
‫کیونکہ ابن مطھر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی امامت ثابت کرنے کے لیے یہ لکھا تھا کہ سیدنا‬
‫علی رضی ہللا عنہ کو موافقین و مخالفین دونوں برا بھال نھیں کھتے‪.‬‬
‫اس بات کا رد کرتے ہوئے عالمہ ابن تیمیہ نے یہ بات کھی ھے کہ سیدنا علی رضی ہللا کو برا‬
‫کہنے والے زیادہ اھل علم اور دیندار تھے اور سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کو برا کہنے والے شیعہ‬
‫ایسے نھیں‪.‬‬
‫اور شیعہ یہ بات مانتے ھیں کہ صحابہ کرام سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر لعنتیں کرتے ھیں‪ ،‬تو اسی‬
‫کے مطابق شیعہ کو جواب دیا نہ کہ اپنا موقف بیان کیا‪) .‬‬

‫جوابی تبصرہ‪ :‬محترم ادھر آپ خود تضاد کا شکار ہورہے ہیں کہ آپ لکھتے ہیں‪:‬‬

‫پہلی بات‪ :‬ابن مطھر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی امامت ثابت کرنے کے لیے یہ لکھا تھا کہ‬
‫سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو موافقین و مخالفین دونوں برا بھال نھیں کھتے‪.‬‬

‫دوسری بات‪ :‬شیعہ یہ بات مانتے ھیں کہ صحابہ کرام سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر لعنتیں کرتے ھیں‪،‬‬
‫تو اسی کے مطابق شیعہ کو جواب دیا نہ کہ اپنا موقف بیان کیا‪.‬‬

‫محترم کیا ابن مطہر شیعہ نہیں۔۔ اگر ابن مطہر یہ کہتے تھے کہ صحابہ امیر المؤمنین ع کو برا بھال‬
‫نہیں کہتے (جیسا آپ کا زعم ہے) تو پھر یہ الزامی جواب بن ہی نہیں سکتا ہے کہ صحابہ برا بھال‬
‫کہتے تھے۔۔ بلکہ اس کو تحقیقی جواب کہیں گے کہ دیکھو صحابہ تو امیر المؤمنین ع کو برا بھال‬
‫کہتے تھے تو تمہاری دلیل ٹوٹ گئی۔۔ الزامی جواب وہ ہوتا ہے جس کو خصم مانتا ہو اور خود آپ‬
‫کے اقرار کے مطابق خصم ابن مطہر الحلی کی دلیل ہی یہی تھی کہ صحابہ کو مخالفین و موافقین‬
‫دونوں برا نہیں کہتے تھے۔‬

‫دوسرا نقد آپ کے جواب پر یہ ہے کہ بھال الزامی جواب کہنا اس وقت درست ہوتا جب خود عالمہ‬
‫حلی امیر المؤمنین ع کو برا بھال کہنے والوں کو بہتر جانتے ہوتے بمقابلہ ان افراد کہ جو عثمان کو‬
‫برا بھال کہتے تھے۔۔ ہر شیعہ امیر ع پر سب کرنے والوں کو عثمان پر سب کرنے والوں کے مقابلہ‬
‫میں ہی نہیں سمجھتا یعنی ہم تو امیر ع پر سب کرنے والوں کو دیندار تو دور کی بات ہے اصال‬
‫مومن ہی نہیں سمجھتے۔۔ تو محترم یہ کس طرح الزامی جواب تصور کیا جاسکتا ہے جب کہ خصم‬
‫خود اس بات کو نہیں مانتا۔‬

‫اب دوسری عبارت کی طرف آتے ہیں‪:‬‬

‫ص َالةِ ِر َج ًاال ُم َعیهنِینَ َم ْن‬ ‫ي َوأ َ ْ‬


‫ص َحابُهُ فِي قُنُو ِ‬
‫ت ال ه‬ ‫ضا فِي ْالقُنُو ِ‬
‫ت فَلَ َعنَ َ‬
‫ع ِل ٌّ‬ ‫الثانی‪ :‬لَ َعنَ أ َ ْھ ُل صفین بَ ْع ُ‬
‫ض ُھ ْم بَ ْع ً‬
‫ش ِام لَعَنُوا‬‫ش ِام؛ َو َكذَلِكَ أ َ ْھ ُل ال ه‬
‫أ َ ْھ ِل ال ه‬

‫اہل صفین نے ایک دوسرے پر لعنت کی تھی جیسے کہ امیر المؤمنین ع اور ان کے ساتھیوں نے‬
‫اپنے قنوت نماز میں بعض معین اشخاص پر لعنت کی تھی اہل شام میں سے‪ ،‬اور یوں ہی اہل شام‬
‫لعنت کرتے تھے‬
‫اس کے جواب میں محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(‪ ، 2‬دوسرے حوالے کا بھی یھی حال ھے کہ آگے پیچھے کی بحث دیکھے بغیر ھی عبارت بھیج‬
‫دی‪.‬‬
‫یھاں ان چند لوگوں کی بات چل رھی ھے جیسے ابن جوزی اور کیالھراسی وغیرہ جو یزید کو لعنت‬
‫کرنے کے قائل ہیں‪ .‬دیکھیں عبارت عالمہ ابن تیمیہ کی‬
‫ص َی ِة َو ِإ ْن لَ ْم َیحْ كُ ْم ِب ِف ْس ِق ِه َك َما لَ َعنَ أ َ ْھ ُل صفین َب ْع ُ‬
‫ض ُھ ْم‪ .....‬الخ‬ ‫ب ْال َم ْع ِ‬
‫اح ِ‬
‫ص ِ‬‫َوقَدْ َیقُولُونَ ِبلَ ْع ِن َ‬
‫یعنی یزید پر لعنت کرنے والے لوگ صاحب معصیت(گناہگار) کو لعنت کا کھتے ھیں اگرچہ ان پر‬
‫فاسق کا حکم نھیں لگاتے جیسا کہ اھل صفین میں سے بعض ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے)‬

‫جواب‪ :‬محترم ادھر ابن تیمیہ نے اس بات کا انکار ہی کب کیا۔۔ ادھر دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں کہ ابن‬
‫جوزی اور دی گر اہل علم اف اہلسنت اس بات کے قائل تھے کہ اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کیا‬
‫کرتے تھے اور ابن تیمیہ اس کا رد کرتے ہیں یا وہ نقل کرکے سکوت کرتے ہیں۔۔ دونوں صورتوں‬
‫میں کم سے کم اتنا تو ثابت ہوگا کہ بقول آپ کے ابن جوزی اور دیگر اہل علم اف اہلسنت اس بات‬
‫کے مقر تھ ے کہ اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے اور یہی ہمارا مقصود ہے کہ خود‬
‫علمائے اہلسنت اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ لعنت روا تھی۔۔ اور چونکہ ابن تیمیہ نے اس کا رد نہیں‬
‫کیا تو خود امام اہلسنت سرفراز صفدر کے مطابق ان کی موافقت ہی سمجھی جائے گی اور ان کی‬
‫عبارت قر ار دینا صحیح ہوگا۔۔ (دیکھئے یہ حوالہ آنے والی پوسٹ میں)۔‬

‫ابن تیمیہ کا اس پر سکوت کرنا بالکل صحیح بنتا ہے کیونکہ یہ بات روایت صحیح سے ثابت ہے۔‬
‫دیکھئے‬
‫اب ہم امیر المؤمنین ع کا جو طریقہ کار تھا اس کو نقل کرتے ہیں۔۔ یعنی امیر المؤمنین ع معاویہ‪،‬‬
‫عمرو بن عاص اور دیگر افراد پر ہللا تعالی کے حضور بددعا کرتے تھے۔ چنانچہ المصنف میں‬
‫روایت یوں درج ہے‪:‬‬

‫‪ - 7050‬حدثنا ‪ :‬ھشیم ‪ ،‬قال ‪ :‬أخبرنا ‪ :‬حصین ‪ ،‬قال ‪ :‬حدثنا ‪ :‬عبد الرحمن بن معقل ‪ ،‬قال ‪ :‬صلیت مع‬
‫علي صالة الغداة ‪ ،‬قال ‪ :‬فقنت ‪ ،‬فقال في قنوته ‪ :‬اللھم علیك بمعاویة وأشیاعه ‪ ،‬وعمرو بن العاص ‪،‬‬
‫وأشیاعه ‪ ،‬وأبا السلمي وأشیاعه ‪ ،‬وعبد ہللا بن قیس وأشیاعه‪.‬‬

‫عبدالرحمان بن معقل فرماتے ہے کہ میں نے امیر المؤمنین ع کے ساتھ نماز پڑھی۔۔ تو امیر ع نے‬
‫اپنے قنوت میں یہ بددعا کی‪:‬‬

‫اللھم علیك بمعاویة وأشیاعه ‪ ،‬وعمرو بن العاص ‪ ،‬وأشیاعه ‪ ،‬وأبا السلمي وأشیاعه ‪ ،‬وعبد ہللا بن قیس‬
‫وأشیاعه‪.‬‬

‫اے ہللا۔۔ معاویہ اور اس کے شیعوں۔ عمرو بن عاص اور اس کے شیعوں‪ ،‬ابو سلمی اور اس کے‬
‫شیوں‪ ،‬عبدہللا بن قیس اور اس کے شیعوں کے خالف تجھ سے طلب کرتا ہوں۔‬
‫حوالہ‪ :‬المصنف في اْلحادیث واآلثار‪ ،‬جلد دوم ص ‪١٠٨‬۔‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-9944#page-7852 :‬‬

‫محقق زكریا بن غالم قادر نے اس روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬ما صح من اثار الصحابة في الفقه‪ ،‬جلد اول ص ‪٢٨٨-٢٨٧‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-17898#page-285 :‬‬

‫اور اسی طرح بیھقی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫‪ - 3142‬أخبرنا أبو بكر محمد بن إبراھیم الحافظ أنبأ أبو نصر أحمد بن عمرو العراقي ثنا سفیان بن‬
‫محمد الجوھري ثنا علي بن الحسن الداربجردي ثنا عبد ہللا بن الولید عن سفیان عن سلمة بن كھیل عن‬
‫عبد الرحمن بن معقل ‪ :‬أن علي بن أبي طالب رضي ہللا عنه قنت في المغرب فدعا على ناس وعلى‬
‫أشیاعھم وقنت بعد الركعة‬

‫عبدالرحمان بن معقل فرماتے ہے کہ امیر المؤمنین ع اپنی نماز مغرب کے قنوت میں بعض افراد اور‬
‫ان کے شیعوں پر بددعا کرتے تھے اور ان کا قنوت پہلی رکعت کے بعد ہوتا تھا۔‬

‫حوالہ‪ :‬سنن البیھقی‪ ،‬جلد دوم ص ‪٢٤٥‬۔‬

‫دیکھئے کتاب آن الئن‪http://islamport.com/d/1/mtn/1/52/1842.html :‬‬

‫محقق زكریا بن غالم قادر نے اس روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬ما صح من اثار الصحابة في الفقه‪ ،‬جلد اول ص ‪٤٠٩‬‬

‫دیکھئے کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-17898#page-406 :‬‬

‫بطور شاہد ایک مزید روایت نقل کئے دوں جس میں لکھا ہے‪:‬‬

‫‪ :‬أن علیا لما بلغه ما فعل عمرو كان یلعن في قنوته معاویة ‪ ،‬وعمرو بن العاص ‪ ،‬وأبا اْلعور السلمي ‪،‬‬
‫وحبیب بن مسلمة ‪ ،‬والضحاك بن قیس ‪ ،‬و عبد الرحمن بن خالد بن الولید ‪ ،‬والولید بن عتبة‪.‬‬

‫جب علی کو پتا چال کہ عمرو بن عاص نے کیا کیا‪ ،‬تو امیر المؤمنین ع معاویہ‪ ،‬عمرو بن عاص‪ ،‬ابو‬
‫االعور السلمی‪ ،‬حبیب بن مسلمہ‪ ،‬ضحاک بن قیس‪ ،‬عبدالرحمان بن خالد بن ولید‪ ،‬ولید بن عتبہ اور ان‬
‫کے شیعوں پر لعنت کیا کرتے تھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬البدایة والنھایة‪ ،‬جلد ‪ ١٠‬ص ‪٥٧٥‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪...http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php :‬‬

‫لہذا ثابت ہوا کہ امیر المؤمنین ع معاویہ‪ ،‬عمرو بن عاص وغیرہ پر بددعا کیا کرتے تھے۔۔ اب‬
‫سوچئے جس پر آپ کے خلیفہ چہارم کی بہترین سی بددعا اس کے بارے میں نیک دعا کرنا کیسے؟‬

‫اب تیسری عبارت کی طرف آتے ہیں‪:‬‬

‫غی ِْرھَا؛ ِْلَجْ ِل ْال ِقت َا ِل الهذِي َكانَ‬


‫علَى ْال َمنَابِ ِر َو َ‬ ‫الثالث‪َ :‬وقَدْ َكانَ ِم ْن ِشیعَ ِة عُثْ َمانَ َم ْن یَسُبُّ َ‬
‫ع ِلیًّا‪َ ،‬ویَجْ َھ ُر بِذَلِكَ َ‬
‫َب ْینَ ُھ ْم َو َب ْینَهُ‪.‬‬

‫اور عثمان کے چاہنے والوں میں سے حضرات امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے اور اس بات کا‬
‫بھی کھلے عام اظہار کرتے تھے منبر اور دیگر جگاہوں پر‪( ،‬اس کی وجہ یہ تھی) کہ ان (عثمان‬
‫کے چاہنے والوں) اور علی ع پر درمیان جنگ ہوئی تھی۔‬
‫یاد رہے کہ شیعان عثمان معاویہ کی رعایہ والے ہی تھے جیسے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہے‪َ :‬و َر ِعیهةُ‬
‫ُم َعا ِویَةَ ِشی َعةُ عُثْ َمانَ (دیکھئے منھاج السنتہ جلد ‪ ٥‬ص ‪)٤٦٦‬‬

‫اس پر محترم فخر الزماں ارشاد فرماتے ہے‪:‬‬

‫دعوی خاص‬
‫(‪ ،‬تیسرا حوالہ بھی واضح نھیں کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ لعنت کرتے تھے‪ ،‬آپ کا ٰ‬
‫دعوی پر عام دلیل دے‬
‫ھے اور دلیل عام دے رھے ھیں اور الٹا مجھے کھہ رھے ھیں کہ خاص ٰ‬
‫رھے ھو‪ ،‬حاالنکہ میں آگے ثابت کرنے واال ھوں کہ میری دلیل عام نھیں خاص ھے‪.‬‬
‫اور شیعان عثمان میں صرف معاویہ رضی ہللا عنہ نھیں تھے بلکہ بنو امیہ کے عالوہ بھی بہت لوگ‬
‫تھے جیسا کہ اسی جگہ آپ کے حوالے کے تین صفحات پہلے یہ عبارت ھے‬

‫َان‪ِ :‬شی َعتُهُ ِم ْن َبنِي أ ُ َمیهةَ َو َ‬


‫غی ِْر ِھ ْم‪،‬‬ ‫ت فِی ِه َ‬
‫طائِفَت ِ‬ ‫ع ْنهُ ‪ -‬تَقَا َبلَ ْ‬ ‫ي ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫ْب أ َ هن عُثْ َمانَ ‪َ -‬ر ِ‬
‫ض َ‬ ‫َو َال َری َ‬
‫جز ‪ 6‬ص ‪ 198‬منھاج السنہ‬

‫یعنی عثمان رضی ہللا عنہ کے شیعوں میں سے بنو امیہ اور اس کے عالوہ اور بھی تھے‪..‬‬

‫تو خیر طلب صاحب کے لیے یہ حوالے کچھ فائدہ مند نھیں جیسا کہ اوپر بیان ھو چکا‪.‬‬

‫جناب نے یہ بھی آگے کھا ھے کہ شیعان عثمان معاویہ رضی ہللا عنہ کی رعایہ تھی اور معاویہ‬
‫رضی ہللا عنہ شامیوں کا سرغنہ تھا‪......‬‬

‫الجواب‪.‬‬
‫جناب رعایہ کے برے اعمال کا ذمہ دار اگر حکمران یا سرغنہ ھوتا ھے تو یھاں کیا فرمائیں گے آپ‬
‫ا‪ ،‬آپ صحابہ پر یہ طعن کرتے ھو کہ وہ جنگوں سے بھاگ جاتے تھے اور نبی کریم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم ان کے سردار تھے تو یہ اعتراض آپ کا اس اصول کے مطابق نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫پر ھوتا ھے‪.‬‬
‫ب‪ ،‬سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے لشکر میں جو غلط عقائد و اعمال والے لوگ تھے ان کا ذمہ دار‬
‫آپ کے اصول کے مطابق سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر ھوتا ھے‪.‬‬
‫اب آگے قارئین خود نتیجہ نکال لیں)‬

‫جواب‪ :‬مح ترم ادھر استدالل اس عنوان سے ہے کہ یہ معاملہ معاویہ کی نگرانی ہوتا تھا اور معاویہ‬
‫نے اس پر نکیر نہیں کی کیونکہ خود ایک حوالے سے میں ثابت کرچکا ہوں کہ شیعان عثمان معاویہ‬
‫کی رعیت ہی میں تھے اور اگر رعیت میں منکر کام ہوں اور کوئی مصلحت بھی سکوت کا نہ ہو‬
‫اس کے باوجود اس پر نکیر نہ کی جائے تو یہ محل اشکال ہوگا۔ دیکھئے اس عبارت کو خود ابن‬
‫تیمیہ کی دوسری عبارت کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ فہم پر زیادہ زور لگانا نہ پڑے اور بات‬
‫آسانی سے واضح ہوجائے۔‬

‫ابن تیمیہ اپنی منھاج السنتہ میں ایک اور جگہ رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ي‪ ،‬فَإ ِ هن َكثِ ً‬


‫یرا ِمنَ‬ ‫ع ِل ٌّ‬ ‫ص َحا َب ِة َوالتها ِبعِینَ َكانُوا َی َودُّونَ ُھ َما ‪َ ،‬و َكانُوا َخی َْر ْالقُ ُر ِ‬
‫ون‪َ .‬ولَ ْم َیكُ ْن َكذَلِكَ َ‬ ‫عا همةَ ال ه‬ ‫فَإ ِ هن َ‬
‫ضونَهُ‬ ‫ص َحابَ ِة َوالتهابِعِینَ َكانُوا یُ ْب ِغ ُ‬
‫ال ه‬

‫عمومی عنوان سے بتحقیق صحابہ اور تابعین ابوبکر اور عمر سے مودت رکھتے تھے درحاآلنکہ‬
‫وہ بہترین زمانے والے افراد تھے لیکن حضرت علی کے ساتھ ایسا معاملہ نہ تھا کیونکہ بالشک و‬
‫شبہ کافی سارے صحابہ اور تابعین حضرت علی سے بغض رکھتے تھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ‪ ٧‬ص ‪١٣٧‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-3438 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم اب شیعان عثمان جن میں یقینا کچھ صحابہ بھی شامل تھے اور جن کا سربراہ معاویہ‬
‫تھا۔ اس کو دیکھئے اس عبارت کی روشنی میں کہ کافی سارے صحابہ اور تابعین امیر ع سے بغض‬
‫رکھتے تھے تو س مجھ آجائے گا کہ ادھر معاویہ بھی مراد ہے۔ خیر تطبیق کی صورت اب آپ کے‬
‫ذمہ میں ہے‬

‫اور اب ایک اور قول کو میں پیش کرتا ہوں تاکہ پوری بحث ہی کا خاتمہ کردیا جائے۔ ابن تیمیہ‬
‫کہتے ہے‪:‬‬
‫ار َبةُ‪َ ،‬و َكانَ َھؤ َُال ِء َی ْل َعنُونَ‬ ‫ت ْال ُم َح َ‬ ‫يٍ‪ ،‬فَإ ِ هن الت ه َالعُنَ َو َق َع ِمنَ ه‬
‫الطائِ َفتَی ِْن َك َما َو َق َع ِ‬ ‫ع ِل ّ‬ ‫َوأ َ هما َما ذَ َك َرہُ ِم ْن َل ْع ِن َ‬
‫َت ت َ ْقنُتُ َ‬
‫علَى‬ ‫طائِفَ ٍة َكان ْ‬‫عائِ ِھ ْم‪َ .‬وقِیلَ‪ِ :‬إ هن كُ هل َ‬ ‫وس َھؤ َُال ِء فِي د ُ َ‬ ‫عائِ ِھ ْم‪َ ،‬و َھؤ َُال ِء یَ ْلعَنُونَ ُر ُء َ‬ ‫وس َھؤ َُال ِء فِي د ُ َ‬ ‫ُر ُء َ‬
‫صیبًا‪،‬‬ ‫س َوا ٌء َكانَ ذَ ْنبًا أ َ ِو اجْ تِ َھادًا‪ُ :‬م ْخ ِطئًا أ َ ْو ُم ِ‬ ‫ان‪َ ،‬و َھذَا كُلُّهُ َ‬ ‫س ِ‬‫ظ ُم مِنَ الت ه َالعُ ِن بِال ِلّ َ‬‫ْاْل ُ ْخ َرى‪َ .‬و ْال ِقت َا ُل ِب ْالیَ ِد أ َ ْع َ‬
‫ب ْال ُم َك ِفّ َرةِ َو َ‬
‫غی ِْر ذَلِكَ ‪.‬‬ ‫اح َی ِة َو ْال َم َ‬
‫صا ِئ ِ‬ ‫ت ْال َم ِ‬ ‫َّللا َو َرحْ َمتَهُ تَتَن ََاو ُل ذَلِكَ ِبالت ه ْو َب ِة َو ْال َح َ‬
‫سنَا ِ‬ ‫فَإ ِ هن َم ْغ ِف َرة َ ه ِ‬

‫اور ابن مطہر کا جہاں تک امیر المؤمنین پر لعن کا ذکر کرنا ہے تو یہ دونوں گروہوں کی طرف‬
‫سے جنگ میں ایک دوسرے کے حق میں واقع ہوئی تھی۔۔ چنانچہ یہ حضرات دوسرے کے‬
‫سرداروں پر لعنت کرتے اور دوسرا گروہ پہلے کے سردراوں پر بددعا کرتے اور یہ بھی کہا گیا کہ‬
‫ہر ایک گروہ دوسرے پر قنوت (نازلہ) پڑھتا تھا۔۔ (خیر) جنگ تو بہرحال منہ سے لعنت سے زیادہ‬
‫بڑی چیز ہے اور یہ تمام چیزیں اگرچہ گناہ کے عنوان سے ہوں یا اجتہاد کے عنوان سے۔۔ خطا کار‬
‫ہوں یا حق پر ہوں۔۔ ان تمام صورتوں میں ہللا کی مغفرت اور رحمت ان تمام کو توبہ‪ ،‬اچھے اعمال‬
‫اور مصائب و پریشانی وغیرہم کے ذریعے ختم کردیتی ہے‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ‪ ٤‬ص ‪٤٦٨‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-2172 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬کیا فرمائیں گے محترم۔۔ ادھر تو فیصلہ ہی کردیا۔۔ اب یہ مت کہئے گا کہ معاویہ امیر‬
‫المؤمنین ع پر لعنت نہیں کرتا تھا۔۔ ابن تیمیہ سے جاکر مزید پوچھئے گا۔‬

‫اب ہم نے جو دو حوالے جات عالمہ محب ہللا طبری اور عالمہ مال علی قاری کے دئے تھے ان کے‬
‫جواب پر آتے ہیں‬

‫محترم فخر الزماں رقم طراز ہے‬

‫(‬
‫الجواب‪.‬‬

‫‪ ، 1‬انھوں نے روایت کے الفاظ نقل کیے ھیں اور جناب نے یہ سمجھا کہ یہ ان کے ھمنوا ھیں‪.‬‬
‫حدیث کے الفاظ پر نھیں آپ جو مطلب ان سے اخذ کر رھے ھیں اس سے ھم کو اختالف ھے‪.‬‬
‫مال علی قاری نے بھی ریاض النضرہ کے حوالے سے عبارت نقل کی ھے اور جناب نے الگ نمبر‬
‫دے کر ان کا نام بڑھایا ھے تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ اتنے سارے سنی علماء ھمارے ساتھ ھیں)‬

‫جواب‪ :‬ادھر مجرد الفاظ روایت نقل میرا استدالل نہیں بلکہ جن الفاظ کو نقل کیا ہے اس میں واضح‬
‫طور پر یہ الفاظ ہیں جن پر اپنا ہلکا سا بھی تبصرہ نہیں کیا؛‬

‫أمر معاویة سعدًا أن یسب أبا تراب۔۔۔۔ خرجه مسلم والترمذي‪.‬‬


‫حکم دیا معاویہ نے سعد کو کہ ابوتراب پر سب کریں۔۔ اس کو مسلم اور ترمذی نے نقل کیا‬

‫یہ الفاظ محب ہللا طبری کے ہے جس کو مال علی قاری نے نقل کئے اور سکوت اختیار کیا (مزید‬
‫اس امر کی تفصیل آگے)۔‬

‫بقول آپ کے کہ جس چیز کا حکم تھا وہ حدیث میں نہیں‪ ،‬میں نے کہا ادھر سب ہی کا حکم ہوسکتا‬
‫ہے۔ چنانچہ میں نے اس ذیل میں تفہیم محب ہللا طبری اور مال علی قاری نقل کیا ہے۔ آپ نے اس پر‬
‫کیوں تبصرہ نہیں کیا۔‬

‫اب آپ کا کہنا کہ میں نے نمبر بڑھانے کے لئے مال علی قاری کا حوالہ دیا ہے جب کہ وہ محب ہللا‬
‫طبری ہی کی عبارت ہے تو پیش خدمت ہے کہ بقول آپ کے امام اہلسنت جب کوئی مصنف اپنی تائید‬
‫میں حوالہ دے اور خاموش رہے تو وہ اس مؤلف کا بھی نظریہ ہوجاتا ہے۔‬

‫دیکھئے آپ کے امام اہلسنت سرفراز خان صفدر کہتے ہے‪:‬‬

‫سوم جب کوئی مصنف کسی کا حوالہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے اور اس کے کسی حصہ سے‬
‫اختالف نہیں کرتا تو وہی مصنف کا نظریہ ہوتا ہے۔ حضرت مال علی قاری نے عالمہ بن مبارک رح‬
‫کا جو حوالہ اپنی تائید میں نقل کیا ہے وہی ان کا اپنا نظریہ ہے لہذا عالمہ ابن مبارک رح کے حوالہ‬
‫کو حضرت مال علی ن القاری رح کا حوالہ کہہ اور بتادینا بالکل صحیح ہے۔ اور اصول تالیف کے‬
‫ہرگز خالف نہیں ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬تفریح الخواطر فی رد تنویر الخواطر ص ‪٢٩‬‬

‫کتاب ادھر سے ڈان لوڈ‬


‫کیجئے‪https://ia902504.us.archive.org/.../Tafreeh_Ul_Khawatir.pdf :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم فخر الزماں صاحب۔۔ میں آپ کو ہللا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ کا یہ‬
‫اعتراض مجھ پر ہے یا امام اہلسنت پر ہے؟ خیر فیصلہ کو کرنا ہے۔۔ مال علی قاری نے اگرچہ محب‬
‫ہللا طبری سے نقل کیا لیکن بہرحال اس پر نقد و جرح نہ کی اور نقل کیا تو خود اس سرفرازی قاعدہ‬
‫کے مطابق یہ ان ہی کا قول قرار پائے گا۔ باقی میں قارئین پر فیصلہ چھوڑتا ہوں۔‬

‫محترم فخر الزماں صاحب کو اب میں دو مزید حوالے اس روایت کے حوالہ سے ہی نقل کئے دیتا‬
‫ہوں۔‬

‫شاہ عبدالعزیز دہلوی صاحب صحیح مسلم کی اس روایت کے بارے میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫مسلم اور ترمذی میں حدیث شریف کا یہ لفظ ہے کہ معاویہ بن ابوسفیان ن سعد بن ابی وقاص سے‬
‫کہا کہ‪:‬‬
‫مامنعک ان تسب اباتراب‪ :‬یعنی کس امر نے تم کو باز رکھا برا کہنے سے ابوتراب کے۔‬

‫بعض طرف دار معاویہ بن ابی سفیان کے اس لفظ کی تاویل کرتے ہیں ور کہتے ہیں کہ‪:‬‬

‫حضرت معاویہ کی مراد یہ تھی کہ کس واسطے حضرت علی المرتضی رض کے ساتھ تم سخت‬
‫کالمی نہیں کرتے اور تم نہیں سمجھاتے کہ قاتالن حضرت عثمان رض کی طرف داری سے وہ‬
‫دست بر دار ہوجائیں۔ اور ان پر قصاص جاری کرنے کے لئے ان کو ہمارے سپرد کردیں۔‬

‫لیکن اس توجیہ میں دو خدشے ہوتے ہیں۔ ایک خدشیہ یہ ہوتا ہے کہ اس مضمون میں الزم آتا ہے کہ‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجھہ کے زمانہ حیات میں یہ گفتگو ہوئی اور تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫حضرت معاویہ رض کے ساتھ سعد رض کی مالقات نہیں ہوئی۔ اس واسطے کہ سعد ابتداء فتنہ سے‬
‫موضع عقیق میں جو کہ مدینہ منورہ سے باہر ہے گوشہ نشین رہے۔ اور ان ایام میں مدینہ منورہ میں‬
‫حضرت معاویہ کے آنے کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ حضرت امام حسن رض اور حضرت معاویہ رض‬
‫سے صلح ہونے کے بعد حضرت معاویہ حج کے واسطے آئے اور اس وقت انہوں نے صرف مدینہ‬
‫کے لوگوں سے مالقت کی۔‬

‫اور دوسرا خدشیہ یہ ہوتا ہے کہ جواب سعد رض کا اما بما ذکرت فالنا الخ اس توجیح کے صراحتہ‬
‫منافی ہے‪ ،‬اس واسطے کہ کسی شخص کے کثرت فضائل مانع نصیحت اور پندگوئی کے لئے مانع‬
‫نہیں ہوت ے۔ بلکہ بہتر یہی ہے کہ اس لفظ سے اس کا ظاہر معنی سمجھا جائے۔ غایتہ االمر اس کا‬
‫یہی ہوگا کہ ارتکاب اس فعل قبیح یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ رض سے صادر ہونا الزم‬
‫آئے گا۔ تو کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسالم میں ہوا ہے اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و‬
‫قتال سے ب ہت کم ہیں۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے‪:‬‬

‫سباب المؤمن فسوق و قتالہ کفر۔۔ یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر‬
‫ہے۔‬

‫اور جب قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقنی ہے اس سے چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ ان کو‬
‫مرتکب کبیرہ کا جاننا چاہئے۔۔۔الخ‬

‫حوالہ‪ :‬فتاوی عزیزی ص ‪ ،٢٣٩-٢٣٨‬ناشر ایچ ایم سعید کمپنی‪ ،‬کراچی۔‬

‫کتاب کا ٹائٹل‪http://s9.picofile.com/file/8294341026/fat_1.png :‬‬

‫صفحہ ‪http://s9.picofile.com/file/8294341034/fat_238.png :٢٣٨‬‬

‫صفحہ ‪http://s9.picofile.com/file/8294341068/fat_239.png :٢٣٩‬‬


‫معاصر عالم دین موسی شاہین نے اس سے حکم سب ہی مراد لیا ہے اور نووی کی تاویل کو باطل‬
‫قرار دیا‪ ،‬چنانچہ نووی کی تاویل کو نقل کرکے فرماتے ہیں‪:‬‬

‫وھذا تأویل واضح التعسف والبعد‪ ،‬والثابت أن معاویة كان یأمر بسب علي‪ ،‬وھو غیر معصوم‪ ،‬فھو‬
‫یخطئ‪ ،‬ولكننا یجب أن نمسك عن انتقاص أي من أصحاب رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم‪ ،‬وسب علي‬
‫في عھد معاویة صریح في روایتنا التاسعة‬

‫اور یہ تاویل بہت زیادہ مشکل اور بعید ہے اور جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ معاویہ نے (سعد‬
‫کو) علی ع پر سب کا حکم دیا‪ ،‬اور معاویہ معصوم نہیں بلکہ اس سے خطا صادر ہوئی لیکن ہم پر‬
‫واجب ہے کہ اصحاب رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی تنقیص نہ کریں۔ اور ہماری روایات میں معاویہ‬
‫کا سب علی کرنا بہت بالکل صریح (واضح) ہے‬

‫حوالہ‪ :‬فتح المنعم‪ ،‬جلد ‪ ٩‬ص ‪٣٣٢‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-13960#page-5269 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم ہم نے آپ کو دو مزید حوالے دئے ہیں صرف اس حدیث کی تشریح پر‪ ،،‬ماضی میں‬
‫آپ کو ابن تیمیہ‪ ،‬محب ہللا طبری اور مال علی قاری کے دئے تھے چناچنہ ہماری تفہیم اور آپ کی‬
‫تاویل علیل کا رد خود آپ کے علماء کے کالم سے ثابت ہے‬

‫اس کے بعد اب ہم اصل داللت پر آتے ہیں کہ اس میں محترم فخر الزماں نے اعتراض کیا تھا کہ‬
‫معاویہ کا اعتراض موجود نہیں جو اس بات پر داللت کرتا ہے کہ معاویہ بھی فضیلت علی ع کا قائل‬
‫تھا۔۔ اس کے جوابات ہم نے دئے تھے جن پر جو تبصرہ آیا ہے وہ پیش خدمت ہے ہمارے جوابی‬
‫تبصرے کے ساتھ۔۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(الجواب‪.‬‬
‫آپ کا ایک صحابی کو نبی پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ھے‪ .‬کیونکہ نبی خود پر ایمان النے کی‬
‫دعوت خود دیتا ھے‪ ،‬تو نبی کے فضائل کے اقرار کے ساتھ ان کو نبی بھی ماننا پڑتا ھے‪.‬‬
‫اور کسی صحابی کو اسی طرح ماننا ھوتا ھے جیسا قرآن اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫فرمان سے ثابت ھو)‬

‫جواب‪ :‬محترم یہ قیاس مع الفارق نہیں بلکہ اظہار حقیقت ہے کہ دشمن کا فضیلت کا انکار کرنا بلکہ‬
‫خود تعریف کرنا بھی اس کا اس شخص کے حوالے سے اچھے سلوک کی گارنٹی نہیں۔۔۔ آپ نے‬
‫میری کسی دلیل کا جواب نہیں دیا اور جو اقوال میں نے پیش کئے کہ تعریف وہ جو دشمن کرے اس‬
‫پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔۔ کیا آپ لوگ ثناء ہللا امرتسری کی جو تعریف کرتے ہیں تو کیا وہ ان‬
‫کو مسلک اہلسنت دیوبند کا ساتھی بنادیتا ہے؟‬
‫دیک ھئے تحریک ختم نبوت کے گرانقدر شخصیت موالنا ہللا وسایا تقدیم میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫قدرت نے آپ (یعنی امرتسری از ناقل) کو فتنہ قادیانیت کے استیصال کے لئے ہی پیدا کیا تھا۔ (ص‬
‫‪)٤‬‬

‫ایک مناظر اسالم اور فاتح قادیان ( ص ‪)٧‬‬

‫حوالہ‪ :‬احتساب قادیانیت‪ ،‬جلد ‪ ٨‬ص ‪٧-٤‬‬

‫کتاب ادھر سے ڈانلوڈ کیجئے‪https://ia600801.us.archive.org/.../Ehtesab.../ehtisab- :‬‬


‫‪pdf.8‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم کیا آپ کو ایک غیر مقلد جو بقول آپ لوگوں کے مرزائیوں کے پیچھے نماز کو‬
‫صحیح سمجھتا تھا اس کو مناظر اسالم اور فاتح قادیان تسلیم کریں گے تو تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ‬
‫آپ لوگ بالکل معاویہ کی طرح ہے جو آپ کے مبانی کے تحت کسی کی تعریف کا بھی معتقد ہو‬
‫اور اسی طرح وہ پھر برائیاں بھی کرتا ہو۔ جو جواب ادھر وہی ہمارا‪ ،‬آپ مزید اس پر لکھنا بیکار‬
‫ہے۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(‪ ، 2‬باقی یہ بات تو ھم بھی مانتے ھیں کہ ان کا آپس میں اختالف ھوا تھا قصاص عثمان کے مسئلے‬
‫میں جو جنگ صفین کی وجہ بنا اور باآلخر صلح ھوئی‪.‬‬
‫اب اس صلح کے بعد ان باتوں کو دوبارہ اٹھا کر کسی ایک فریق پر کفر و نفاق کے فتوے لگانے‬
‫والی شرارتی فتنے باز ھیں‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬ہمیں نہ مقدمہ اولی منظور ہے اور نہ مقدمہ ثانی۔۔ مجرد آپ کا دعوی کوئی حیثیت نہیں‬
‫رکھتا۔۔ بلکہ معاویہ نے بعد از جنگ بھی فتنہ انگیزی کی اور ماقبل بھی عثمان کا قصاص (ہی)‬
‫حقیقتہ مورد جنگ نہیں تھا۔۔ چونکہ آپ نے اپنے مقدمہ پر دلیل دی تو میں بھی نہیں دیتا۔ جب آپ دیں‬
‫گے تو میں بعد بھی اس کی پوری تفصیل دون گا۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬ھم بھی یھی تو کھتے ھیں کہ شیعہ جو حب اھل بیت کے دعوے کرتے ھیں وہ سچے نھیں اور نہ‬
‫یہ دعوے ان کے محب اھل بیت ھونے کی دلیل ہے‪.‬‬
‫جناب نے یہ بات کر کے شیعہ کے بارے میں ھمارے خیال کے تائید کردی)‬
‫جواب‪ :‬یہ کالم فارغ ہے جس کی کوئی علمی دنیا میں حقیقت نہیں‪ ،‬آپ کا فہم کسی شخص پر حجت‬
‫نہیں۔ اس پر بحث کریں تو ہم بات کرتے ہیں کہ کون اہلبیت ع کی سچی اتباع کرتا ہے اور کون اپنی‬
‫اصول کی کتب میں اہلبیت ع کے قول کو غیر حجت سمجھتا ہے۔۔ فی الحال یہ بحث نہیں۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(‪ ، 2‬میں ان سے پوچھتا ھوں کہ ایک شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ان کے دور میں خالفت کا‬
‫زیادہ حقدار مانتا ھے‪ ،‬نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جو ان کے فضائل بتائےھیں ان کو تسلیم‬
‫کرتا ھے‪ ،‬ان کی موت پر افسوس کرتا ھے‪ .‬تو کیا یہ شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ماننے واال‬
‫ھوا کہ نھیں؟‬
‫اس کا جواب دیں تاکہ آپ کی اوپر والی بات کا جواب دیا جا سکے‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬ان تمام کے دالئل نقل کریں پھر میں سند اور داللت دونوں پر بحث کرتا ہوں۔ صرف دعوی‬
‫کافی نہیں‪ ،‬اگلی ٹرن میں تمام دالئل نقل کیجئے گا ان دعوؤں پر۔۔‬

‫محترم فرماتے ہے‪:‬‬

‫(‪ ، 3‬مشرکین جو توھیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی کرتے ھیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ھے‪،‬‬
‫ان کو جناب کس کھاتے میں ڈالیں گے؟)‬

‫جواب‪ :‬وہ مشرکین مثل معاویہ تھے جو رسول ص اور اس کے وصی کو اذیت دیتے تھے۔ اور ان کا‬
‫کسی چیز کو معجزہ یا ان کی حقانیت کو تسلیم کرکے کفر و شرک کرنا آپ کے مبانی کے تحت مثل‬
‫معاویہ تھے جو امیر ع پر سب کرتے اور اذیت دیتے اور جن پر امیر ع بددعا کرتے لیکن پھر بھی‬
‫بعض اوقات آپ کے مبانی کے تحت وہ تسلیم فضیلت کرتے۔۔ یہ اعلی درجہ کے احتساب کا ضامن‬
‫بناتا ہے کہ فضیلت جان کر کفر کرنا۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(‪ ، 1‬اصل میں خیر طلب کے نزدیک کسی شخص کی تعریف کا معیار یہ ھے کہ اس کو صادق و‬
‫امین بھی مانے اور جادوگر‪ ،‬مجنون بھی ساتھ میں مانے‪.‬‬
‫ان کے نبی ھونے کو جانتا بھی ھو اور ساتھ میں اس کی توھیں کرے بھی اور دوسروں سے‬
‫کروائے بھی‪.‬‬
‫کیونکہ جناب مشرکین و یھود کی مثالیں دے کر یہ کھتے ھیں کہ وہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی‬
‫فضائل کے قائل ہیں اور مشرکین و یھود کا حال وھی ھے جو میں بتا چکا ہوں‪.‬‬
‫‪ ، 2‬قرآن کو واقعی وہ معجز کتاب سمجھتے تھے لیکن یہ بھی کھتے تھے کہ محمد صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے اپنی طرف سے گھڑا ھے اس کو‪.‬‬
‫‪ ، 3‬دشمن جو فضیلت مانے وہ واقعی زیادہ قابل تعریف بات ھے تبھی تو میں نے شیعہ کتاب سے‬
‫حوالہ دیا اور آگے بھی دینے واال ھوں‪).‬‬
‫جواب‪ :‬محترم کے استدالل کی داد دینی پڑے گی کیونکہ جزئیہ سے کلیہ پر بغیر کسی قرینہ کے‬
‫استدالل کرنا ان ہی کو مبارک ہو۔۔ میں کب کہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان کی تعریف میں محو رہتے‬
‫تھے۔۔ میرا کام آپ کے کلیہ کے اصول کو توڑنہ تھا جو میں نے توڑ دیا۔۔ یعنی ان کی دشمنی کے‬
‫باوجود انہوں نے رسالت مآب ص کی تعریف کی۔۔‬

‫محترم نے اس چیز کا اب تک جواب نہ دیا جو مال علی قاری نے کہا تھا‪:‬‬

‫وھذہ الشھادة لكونھا من أھل العداوة حجة لما قیل الفضل ما شھدت به اْلعداء‬
‫اور یہ کافر کی شہادت جو اگرچہ رسول ص سے دشمنی رکھتا تھا حجت ہے کیونکہ کہا گیا کہ‬
‫فضیلت وہ جس کی گواہی دشمن دے۔‬

‫محترم محترم۔۔ یہی میرا استدالل ہے معاویہ کی تعریف ذرہ برابر بھی اس کے ایمان پر داللت نہیں‬
‫کرے گی کیونکہ اس سے سب‪ ،‬اذیت دینا اور بغض امیر ع سب ثابت ہے تو اس صورت میں اس کو‬
‫دشمن اور عدو ہی تسلیم کیا جائے گا۔‬

‫محترم اگلی بار اتنا لکھنے کی ضرورت نہیں دو ٹوک بتائے کہ کیا مجرد تعریف کرنا ہر بار ان‬
‫دونوں کے اچھے تعلقات پر داللت کرتا ہے یا نہیں؟ مال علی قاری‪ ،‬بیھقی وغیرھما کے اقوال ذھن‬
‫میں رکھ کر جواب دیجئے گا۔‬

‫محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(‬
‫باقی آپ کا یہ کھنا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ نے جنگ کی‪ ،‬تو سوال یہ ھے کہ جنگ صفین کھاں‬
‫لگی تھی؟ کوفہ کے پاس یا شام کے پاس؟ اس سوال کے جواب سے یہ بات واضح ھوجائے گی کہ‬
‫کس نے جنگ کی تھی‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬جنگ معاویہ کی حرکتوں کی وجہ سے ہوئی تھی جو خلیفہ برحق کے خالف بغاوت کی اور‬
‫باغی خود احادیث نبوی سے معاویہ کے لئے ثابت ہے اور ایسے باغی سے جہاں جنگ ہو وہاں قتال‬
‫کرنا باعث اجر و ثواب ہے بشرط ایمان۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(‬
‫رھا دیوبندی کی تکفیر کا مسئلہ تو کافر تو خارجیوں نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو‪ .‬بھی کھا ھے‬
‫نعوذ باہلل‪.‬‬
‫اور جو سنجیدہ قسم کے علماء دیوبندی علماء کی تعریف کرتے ہیں وہ ان کو کافر نھیں کھتے)‬
‫جواب‪ :‬ادھ ر محترم یہی سمجھانا چارہا ہوں کہ ان کی تکفیر کرنا اور ان کی تعریف۔۔ دونوں میں‬
‫تطبیق کس طرح دیں گے تو یہی کہیں گے کہ دشمن ہو کر تعریف کی جارہی ہے وہ تعریف کسی‬
‫چیز پر داللت نہیں کرتی اگر خارج میں مخالفت موجود ہو۔۔ اور معاویہ کا جنگ کرنا تعریف کے‬
‫باوجود واضح طور پر اس پر داللت کرتا ہے۔ دیکھئے اس روایت کو‪:‬‬

‫حدثناہ أبو العباس محمد بن یعقوب ثنا العباس بن محمد الدوري ثنا مالك بن إسماعیل ثنا أسباط بن نصر‬
‫الھمداني عن إسماعیل بن عبد الرحمن السدي عن صبیح مولى أم سلمة عن زید بن أرقم ‪ :‬عن النبي‬
‫صلى ہللا علیه و سلم أنه ق ال لعلي و فاطمة و الحسن و الحسین ‪ :‬أنا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم‬

‫رسول ص نے امیر المؤمنی‪ ،‬سیدہ زھرا‪ ،‬امام حسن ع اور امام حسین ع کو مخاطب کرکے کہا میری‬
‫جنگ ان سے جن سے تم جنگ کرو اور میری صلح ان سے جن سے تمہاری صلح‬

‫حوالہ‪ :‬المستدرک‪ ،‬جلد ‪ ٤‬ص ‪ ،٢٥١‬رقم ‪٤٧١٤‬‬

‫آن الئن کتاب‪http://islamport.com/d/1/mtn/1/22/480.html :‬‬

‫موجودہ دور کے محقق حسین سلم اسد اس روایت کو نقل کرتے ہیں اور تعلیق میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫إسنادہ حسن‪ ،‬أسباط بن نصر بسطنا القول فیه عند الحدیث المتقدم برقم (‪ ،)1524‬والسدي ھو إسماعیل‬
‫بن عبد الرحمن‪ ،‬وصبیح مولى أم سلمة ترجمه البخاري في = = الكبیر ‪ 317 /4‬ولم یورد فیه جرحا ً وال‬
‫تعدیالً‪ ،‬وتبعه على ذلك ابن أبي حاتم في "الجرح والتعدیل" ‪ ،450 - 449 /4‬وذكرہ ابن حبان في ثقاته‬
‫‪ ، 382 /4‬وقال الذھبي في كاشفه‪" :‬وثق"‪ .‬وصحح الحاكم حدیثه‪ ،‬ووافقه الذھبي‪.‬‬

‫سند حسن ہے اور پھر اس پر دالئل نقل کرتے ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان جلد ‪ ٧‬ص ‪٢٠٢-٢٠١‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-98126#page-2975 :‬‬

‫لہذا یہ حدیث مزید بتاتی ہے کہ معاویہ کا جنگ کرنا گویا رسول ص سے جنگ کرنا تھا۔۔ اب یہ نقد‬
‫ہے اور معاویہ کا بشرط تسلیم تعریف ہے تو بتائے کیا تطبیق ہوگی۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫(ال جواب‪ .‬عرض ہے کہ میں اعم نھیں اخص صورت کی ھی بات کررھا ھوں‪ ،‬وہ اس طرح کہ ایک‬
‫شخص جو حکمران ھو طاقت اس کے پاس ھو‪ ،‬وہ کسی دوسرے سے (بقول شیعہ) سخت دشمنی‬
‫بھی رکھتا ہو‪ ،‬اس سے جنگ بھی کی ھو‪ ،‬اس کو ممبروں پر خطبوں میں خود بھی گالیاں دیتا ھو‬
‫اور دوسروں سے بھی دلواتا ھو‪ .‬وہ اپنے ایسے دشمن کی تعریفیں سن کر پہر بھی خاموش رھتا ھے‬
‫تو یہ بالکل اس بات کی دلیل ھے کہ وہ اس کے فضائل مانتا ھے‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬معاویہ کا سب و شتم کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ جب مغیرہ بن شعبہ کو گورنر‬
‫بنایا تو اس وقت بھی یہ چیز چلتی رہی۔۔ دیکھئے خاموشی کا بیان کی کافی صورتیں ہوسکتیں ہیں‬
‫کبھی دالئل سے مغلوب ہوکر بھی انسان خاموش ہوجاتا ہے اور اس پر میں نے شافعی کا قول دیا تھا۔‬

‫شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت کبھی مختلف‬
‫دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے‪ ،‬کبھی کسی انسان کے‬
‫وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے‪ ،‬کبھی اس انسان کے رعب کی وجہ سے‪ ،‬کبھی فتہ کے‬
‫خوف کی وجہ سے ہے یا ان کے عالوہ یا جیسے کہ ہر مجتہد اس میں صحیح ہے اس وجہ سے‪،‬‬
‫کبھی دوسرا آدمی عمر میں بڑا ہوتا ہے‪ ،‬یا عزت میں زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬فصول البدائع‬

‫اس پر محترم نے تمام جو احتماالت پیش کئے ان تمام پر بیان نہیں فرمایا۔۔ ہم کہتے ہیں کہ اس میں‬
‫کتے احتماالت سکوت ہے اور ان میں تعارض ادلتہ (یعنی مختلف دالئل کا تعارض ہونا ہے) تو کیا‬
‫پتا معاویہ اس وجہ سے خاموش ہوا ہو۔۔ دلیل دینا آپ کے ذمہ میں ہے کہ وہ خاموش تسلیم فضائل و‬
‫شیر و شکر رشتہ کے تحت ہوا۔۔ تفضل دلیل دیجئے مجھے۔ اور بعض روایات میں سعد بن ابی‬
‫وقاص کا فورا چلے جانا لکھا ہے جیسا کہ تاریخ بن عساکر سے میں نے نقل کیا تھا (اس پر جواب‬
‫آگے آرہا ہے)‪:‬‬

‫ال أدخل علیك دارا بعد الیوم ثم نفض رداءہ ثم خرج‬


‫میں تمہارے پاس اب کبھی داخل نہیں ہوں گا اور اپنی عبا صحیح کرکے چل پڑے‬

‫اور مجھے کوئی دلیل واضح چاہئے آپ کے تعین کے اثبات میں۔۔ ورنہ کالم فارغ نہیں چلے گی۔۔‬
‫بالخصوص اس امر پر کہ خود معاویہ نے مغیرہ کو جب گورنر بنایا تو اس وقت بھی یہ صورتحال‬
‫تھی۔۔ ہمارے پاس دالئل ہیں اور آپ کے صرف اراء۔‬

‫‪ ، ٢‬سنن ابن ماجہ کی روایت (واقعہ معاویہ اور سعد بن ابی وقاص) پر اعتراض کا جواب‬

‫ہم نے سنن ابن ماجہ کی ایک روایت پیش کی تھی جس میں اس بات کا اثبات تھا کہ معاویہ نے امیر‬
‫المؤمنین ع کی تنقیص کی اس کے جواب میں محترم نے فرمایا‪:‬‬

‫(‪ ، 1 .‬اس روایت میں کھیں بھی نھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا کو گالیاں دی گئی‪ ،2 .‬مسلم میں میں‬
‫بقول جناب کے حکم ھے سب کا‪ ،‬اور اس روایت میں ایسا کچھ نہیں)‬

‫جواب‪ :‬محترم پھر سے روایت پڑھیں‪ ،‬قارئین کی سہولت کے لئے پھر سے لگادیتا ہوں۔ یہ روایت‬
‫ہے‪:‬‬
‫ب‬ ‫ع ِلیًّا‪ ،‬فَنَا َل ِم ْنهُ‪ ،‬فَغ ِ‬
‫َض َ‬ ‫علَ ْی ِه َ‬
‫س ْعد ٌ‪ ،‬فَذَ َك ُروا َ‬ ‫ض َح هجاتِ ِه‪ ،‬فَدَ َخ َل َ‬ ‫اص‪ ،‬قَالَ‪ :‬قَد َِم ُم َعا ِو َیةُ فِي َب ْع ِ‬ ‫س ْع ِد ب ِْن أ َ ِبي َوقه ٍ‬ ‫َ‬
‫ي‬ ‫ه‬
‫سل َم ‪ -‬یَقُولُ‪َ " :‬م ْن كُ ْنتُ َم ْو َالہُ فَعَ ِل ٌّ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلى ه ُ‬
‫َّللا َ‬ ‫ه‬ ‫س ِم ْعتُ َرسُو َل ه ِ‬
‫َّللا ‪َ -‬‬ ‫س ْعد ٌ‪َ ،‬وقَالَ‪ :‬تَقُو ُل َھذَا ِل َر ُج ٍل َ‬ ‫َ‬
‫س ِم ْعتُهُ یَقُولُ‪:‬‬
‫ي بَ ْعدِي"‪َ ،‬و َ‬ ‫سى إِ هال أَنههُ َال نَبِ ه‬ ‫َارونَ ِم ْن ُمو َ‬ ‫س ِم ْعتُهُ یَقُولُ‪" :‬أ َ ْنتَ ِم ِّني بِ َم ْن ِزلَ ِة ھ ُ‬
‫َم ْو َالہُ" َو َ‬
‫َّللا َو َرسُولَهُ "؟‬ ‫"ْلُع ِْط َی هن ه‬
‫الرا َیةَ ْال َی ْو َم َر ُج ًال ی ُِحبُّ ه َ‬ ‫َ‬

‫سعد بن ابی وقاص فرماتے ہے کہ معاویہ اپنی بعض حوائج کو لے کر ان کے پاس آیا‪ ،‬پس وہ سعد‬
‫کے ہاں مالقات کے لئے آیا‪ ،‬اور امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی‬
‫جس کے بعد سعد بن ابی وقاص غضباک ہوگئے (غصہ میں آگئے) اور پھر رسول ص کی زبانی‬
‫تین فضائل امیر ع کا ذکر کیا یعنی ‪ ،١‬حدیث من کنت موالہ ‪ ،٢‬حدیث منزلت ‪ ،٣‬حدیث خیبر‬
‫(ملخص)‬

‫ادھر لفظ نَا َل ِم ْنهُ ہے اور یہ واضح طور پر تنقیص کے لئے آتا ہے۔۔ اور یہی اثبات امر ہے کہ‬
‫معاویہ خود تنقیص کرتا تھا اور دوسروں کو تنقیص کا حکم دیتا تھا اور دوسروں کو کہنے پر یہ‬
‫الفاظ مستدل ہے۔۔ قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ‬
‫ض َح هجاتِ ِه۔۔ یعنی بعض حوائج کو لے کر سعد کے پاس آیا۔۔ اور‬
‫نالہ منہ کا یہی معنی ارباب لغت کرتے ہیں اور اگر اس کا ہلکا سے ہلکا معنی بھی لیں تو یہ حد‬
‫تنقیص تک ضرور جاتا ہے اور اس صورت میں معاویہ کا نفاق پھر بھی ثابت ہوتا ہے۔۔‬

‫دیکھئے میں کچھ حوالے اس حوالہ سے دیتا ہوں۔‬

‫عالمہ بدر الدین عینی الحنفی رقم طراز ہے‪:‬‬

‫قوله‪" :‬نال منه" أي أصاب منه‪ ،‬أراد‪ :‬تكلم في حقه بما یسوؤہ‬
‫اور اس شخص کا کہنا "نال منه" یعنی اس سے وہ چیز پہنچی۔۔ مراد یہ ہے کہ اس شخص نے‬
‫دوسرے کے حق میں ایسی بات کہی جو اس کی برائی پر مشتمل تھی۔‬

‫حوالہ‪ :‬نخب اْلفكار في تنقیح مباني اْلخبار في شرح معاني اآلثار جلد ‪ ٤‬ص ‪٧٢‬‬

‫کتاب دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-13667#page-1761 :‬‬

‫زکریا االنصاری الشافعی رقم طراز ہے‪:‬‬

‫(نال منه) أي‪ :‬ذكرہ بسوء‪.‬‬


‫نالہ منہ‪ :‬یعنی اس کا ذکر برائی سے کیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬منحة الباري بشرح صحیح البخاري جلد دوم ص ‪٤٢٠‬‬


‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-18106#page-1070 :‬‬

‫ابھی میں فی الحال دو ہی حوالے جات سے کام چالؤں گا واال اس پر اتنے سارے حوالے ہیں کہ اس‬
‫کا انکار ممکن نہیں۔۔ پھر صحیح مسلم کی روایت کو ذہن میں رکھیں جس میں علی ع سے صرف‬
‫مومن محبت کرے گ ا اور صرف منافق بغض رکھے گا۔۔ سعد کا غضبناک ہونا مزید بتاتا ہے کہ یہ‬
‫معاملہ کتنا سخت تھا۔ ان الفاظ اور سعد کا غضب دونوں بتاتے ہیں کہ معاویہ نے نفاق پر مشتمل بات‬
‫کہی۔‬

‫‪ ، ٣‬تاریخ دمشق از ابن عساکر کی روایت (واقعہ معاویہ اور سعد بن ابی وقاص) پر اعتراض کا‬
‫جواب‬

‫ناظرین ہم نے تاریخ ابن عساکر سے ایک روایت نقل کی تھی جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے‪:‬‬

‫جب معاویہ گارغ ہوگیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کے لے کر دار الندوہ میں داخل ہوا اور سعد بن ابی‬
‫وقاص کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور پھر معاویہ نے امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر‬
‫المؤمنین ع کی تنقیص کی تو سعد نے طور احتجاج کہا کہ تم مجھے ہاں الئے اور اپنے پلنگ پر‬
‫صرف اس وجہ سے بٹھایا کہ تم امیر المومنین ع پر شتم کرو۔۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس وہ تین‬
‫فضائل ہوتے جو علی ع کے پاس ہیں وہ مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہوتے جس پر‬
‫سورج چمکتا ہے اور پھر ‪ ،١‬حدیث مزنلت ‪ ،٢‬حدیث خیبر ‪ ،٣‬سیدہ فاطمہ ع کا شوہر ہونا کہا ہے۔۔‬
‫(آخر میں سعد فرماتے ہے) اے معاویہ میں آج کے بعد تیرے پاس کبھی نہیں آؤں گا اور پھر چلے‬
‫گئے (ملخص فقط)‬

‫اس کے جواب میں محترم فخر الزماں نے فرمایا‪:‬‬

‫(‪ ٩‬الجواب‪ .‬ان کو بھی پتہ ہے کہ اس روایت میں کچھ علت ھے جو یہ روایت قابل استدالل نھیں‪ .‬اس‬
‫میں محمد بن اسحاق ھے جو شیعہ ھے‪ .‬عالمہ ابن حجر تقریب التھذیب میں لکھتے ہیں محمد بن‬
‫اسحاق بن یسار‪ ....‬رمی بالتشیع‪ .‬کہ یہ شیعہ تھا‪ .‬یھی بات تاریخ بغداد ج ‪،١‬سیر اعالم النبالء میں بھی‬
‫ھے‪ .‬اور یہ ا صول ھے کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں قابل قبول نہیں‪ .‬پہر جناب‬
‫لکھتے ہیں تبصرہ‪ :‬اس روایت کی سند میں راویان بظاھر ثقہ ہیں‪ ،‬مجھے بعض علل معلوم ہیں جو‬
‫محترم السکتے ہیں لیکن جب وہ الئیں گے تو اس کا جواب اس ہی فقط احنافی منھج کے مطابق ہوگا۔‬
‫الجواب‪ .‬ا ن کے ذھن میں یہ تھا کہ یہ محمد بن اسحاق کو ضعیف کھیگا تو میں فتح القدیر‪ ،‬نصب‬
‫الرایہ وغیرہ سے اس کا ثقہ ھونا ثابت کرونگا‪ .‬لیکن ان کو پتا ھونا چاھیے کہ صرف آپ نے ھی‬
‫نھیں دوسروں نے بھی کچھ اصول پڑھے ھیں)‬

‫جواب‪ :‬اب محترم نے محمد بن اسحاق پر تشیع کا الزام اور تشیع کا ہونا قدح روایت والی بات کہی۔۔‬
‫اس پر میرے کچھ جوابات ہیں جو صغروی اور کبروی دونوں عنوان سے ہے۔‬

‫صغروی عنوان سے اس حوالے سے کہ تشیع خود ہونا جراح نہیں بلکہ تشیع خود ان کے ہاں مقبول‬
‫ہے اور بالخصوص محمد بن اسحاق خود اہلسنت کے ہاں امام المغازی اور امیر المحدثین ہے۔ میں‬
‫اس پر کچھ حوالے دیتا ہوں۔ اور تمام اقوال توثیق و جرح کو نقل کرنا یقینا طوالت کا باعث ہوگا اس‬
‫لئے میں فقط چیدہ چیدہ توثیقی کلمات دیتا ہوں اور پھر خود ان کے علماء کا مخلص فیصلہ عرض‬
‫خدمت کرتا ہوں۔۔ کیونکہ تقریبا ہر اہم راوی پر کوئی نہ کوئی توثیقی یا تجریح کا کلمہ یا کلمات‬
‫ہوتے ہیں۔ اور پھر میں سوال کروں گا کہ کیا امیر المؤمنین فی الحدیث ہونا‪ ،‬امیر المحدثین اور امام‬
‫المغازی کہا جائے تو کیا وہ شیعہ ہے یا نہیں۔۔ اس پر میں کہوں گا دونوں صورتوں میں کہ یہ آپ‬
‫کے ہاں قابل احتجاج ہے۔‬

‫سمعت شعبة یقول‪ :‬محمد بن إسحاق أمیر المؤمنین في الحدیث‬


‫شعبہ کے نزدیک محمد بن اسحاق امیر المؤمنین حدیث (نقل) کے معاملہ میں تھے‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ بغداد‪ ،‬جلد دوم ص ‪٢٦‬۔‬

‫قال شعبة ‪ :‬ابن إسحاق سید المحدثین لحال حفظه‬


‫شعبہ کہتے ہے کہ ابن اسحاق محدثین کے سردار ہیں اپنے کمال حفظ کی وجہ سے۔‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ بغداد‪ ،‬جلد دوم ص ‪٢٧‬۔‬

‫قال یونس بن بكیر ‪ :‬سمعت شعبة یقول ‪ :‬محمد بن إسحاق أمیر المحدثین لحفظه ‪.‬‬
‫شعبہ کہتے ہے محمد بن اسحاق اپنے حفظ کی وجہ سے تمام محدثین کے امیر ہے۔‬

‫تاریخ بغداد کے حوالے دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-736#page- :‬‬


‫‪298‬‬

‫حوالہ‪ :‬سیر اعالم النبالء‪ ،‬جلد چہارم ص ‪٤١‬‬

‫آن الئن کتاب‪...http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php :‬‬

‫اب دیکھئے یہ فقط شعبہ جو متقدمین میں سے ہیں ان کی شہادت امیر المحدثین‪ ،‬امیر المؤمنین‪ ،‬سید‬
‫المحدثین کی ہے جو معمولی شہادت نہیں۔۔ آپ کسی شیعہ کو یہ بالکل نہیں کہیں گے۔ خیر اگر کہیں‬
‫بھی تو ہمارے لئے اعزاز ہے۔‬

‫اور خود تشیع کی جو تعریف متقدمین کے ہاں وہ متاخرین سے مختلف ہے۔۔ متقدمین کے ہاں یہ طے‬
‫شدہ بات ہے متقدمین کے ہاں تشیع سے مراد امیر المؤمنین ع سے محبت تھی۔۔ اور ساتھ ساتھ شیخین‬
‫سے محبت تھی۔ دیکھئے دکتور صالبی اس بحث میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫فكان من آثار ذلك ما وقع فیه بعض الطلبة المبتدئین ممن ال یعرفوا حقیقة المصطلحات من الخلط الكبیر‬
‫بین أحكام الرافضة وأحكام الشیعة‪ ,‬لما تقرر عندھم إطالق مصطلح التشیع على الرافضة‪ ,‬فظنوا أن ما‬
‫ورد في كالم أھل العلم المتقدمین في حق الشیعة أنه یتنزل على الرافضة في حین أن أھل العلم یفرقون‬
‫بینھما في كافة أحكامھم‬

‫اور ان غلطیوں میں سے ایک جن میں عموما ابتدائی طالب علم حضرات جو مصطلحات وغیرہ کو‬
‫صحیح نہیں جانتے وہ پڑ جاتے ہے کہ وہ روافض اور شیعوں کی اصطالح کو خلط ملط کردیتے‬
‫ہیں کیونکہ وہ عادی ہوتے ہیں روافض پر شیعہ اصطالح استمعال کرنے پر تو وہ سمجھتے ہیں کہ‬
‫جو متقدمین علما نے شیعہ اصطالح استعمال کی ہے اس کا اطالق روافض پر بھی ہے جب کہ اہل‬
‫علم حضرات ان دو شیعہ اور روافض میں جملہ احکامات میں فرق کے قائل ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬أسمى المطالب في سیرة أمیر المؤمنین علي بن أبي طالب رضي ہللا عنه جلد ‪ ٢‬ص ‪:٧٩٩‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-36424#page-797 :‬‬

‫اگر شیعہ اس معنی میں ثابت بھی ہوجائیں جیسا آپ بتانے چارہے ہیں تو پھر بھی مسئلہ نہیں کیونکہ‬
‫آپ کے امام اہلسنت سرفراز صفدر رقم طراز ہے‪:‬‬

‫اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کا خارجی یا جہمی معتزلی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت‬
‫پر قطعا اثر اندار نہیں ہوتا اور صحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں۔ تدریب الراوی اور‬
‫ہدایت السائل میں ان کی کچھ نشاندہی کی گئی ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬احسن الکالم جلد اول ص ‪٤٩‬۔‬

‫کتاب ادھر سے ڈان لوڈ کیجئے‪https://ia600803.us.archive.org/.../Ahsan-ul- :‬‬


‫‪...KalaamFiTark‬‬

‫اب ہمیں پتا چل گیا کہ اصل جس کو بطور جرح نقل کیا جارہا ہے وہ جراح بنتی ہی نہیں۔۔ اور خود‬
‫ابن اسحاق ان کے ہاں امام المغازی‪ ،‬امیر المؤمنین‪ ،‬سید المحدثین وغیرہ ہے۔‬

‫اور اب میں آپ کو آخر میں اس تشیع والی بات پر خطیب البغدادی کا قول نقل کرتا ہوں‪:‬‬

‫وقد أمسك عن االحتجاج بروایات بن إسحاق غیر واحد من العلماء ْلسباب منھا أنه كان یتشیع وینسب‬
‫إلى القدر ویدلس في حدیثه فأما الصدق فلیس بمدفوع عنه‬

‫اور علماء ابن اسحاق کی روایت سے احتجاج میں تامل کرتے ہیں بعض اسباب کی وجہ سے جیسے‬
‫اس کی تشیع‪ ،‬اور اس کا قدری ہونے کا انتساب اور اس کی تدلیس حدیث لیکن (جو اصولی بات ہے)‬
‫صدق بیانی ان تمام چیزوں سے زائل نہیں ہوتی‬
‫حوالہ‪ :‬تاریخ بغداد جلد دوم ص ‪٢١‬۔‬

‫اب میں جمہور سے اس کی توثیق کے لئے عالمہ بدر الدین عینی کا ایک قول نقل کئے دیتا ہوں تاکہ‬
‫توثیقی عنوان سے بات ختم ہوجائے۔۔ عینی حنفی کہتے ہے‪:‬‬

‫الن ابن إسحاق من الثقات الكبار عند الجمھور ‪.‬‬

‫اب ن اسحاق جمہور کے ہاں بہت زبردست ثقہ ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬عمدتہ القاری‬


‫۔ جلد ‪ ١١‬ص ‪٤٩٣‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://islamport.com/d/1/srh/1/45/1308.html :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬یوں توثیقی عنوان سے ہماری بات ختم ہوئی جس کو میں صغروی بحث سے تعبیر کروں‬
‫گا۔۔ اب م یں کبروی بحث پر آتا ہوں کہ کیا بدعتی کی روایت چاہے داعی ہو یا نہیں بقول ہے یا نہیں‬
‫تو جواب میں کہا جائے گا کہ مذھب حنفی یعنی ابوحنیفہ کے ہاں قابل قبول ہے۔ مالحظہ ہو سخاوی‬
‫کا قول‪:‬‬

‫قال الخطیب وحكى أیضا أن ھذا مذھب ابن أبي لیلى وسفیان الثوري ونحوہ عن أبي حنیفة بل حكاہ‬
‫الحاكم في المدخل عن أكثر أئمة الحدیث وقال الفخر الرازي في المحصول أنه الحق ورجحه ابن دقیق‬
‫العید وقیل قبل مطلقا سواء الداعیة وغیرہ‬

‫خطیب اور یہ اسی طرح ابن ابی لیلی‪ ،‬سفیان ثوری اور اسی طرح ابوحنیفہ سے بھی منقول ہے بلکہ‬
‫حاکم نے کافی سارے آئمہ احا دیث سے نقل کیا۔۔ اور فخر الدین رازی نے محصول میں اور حق یہی‬
‫ہے اور ابن دقیق العید نے اس بات کو راجح قرار دیا کہ بدعتی کی روایت مطلق قبول ہے چاہے وہ‬
‫داعی ہو یا غیر داعی۔‬

‫حوالہ‪ :‬فتح المغیث ‪ -‬السخاوي‪ ،‬جلد ‪ ،١‬ص ‪٣٢٩‬‬

‫کتاب دیکھئے‪http://islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html :‬‬

‫یوں یہ روایت جس پر آپ نے تعلیل کی تھی‪ ،‬اس جراح کو باطل ثابت کردیا گیا ہے‬

‫‪ ، ٤‬سب امیر ع پر معاویہ کی رضامندی پر ایک اور معنوی شاہد سنن اور مسند اہلسنت سے پیش کیا‬
‫جائے گا۔‬
‫اب میں ایک اور روایت اسی باب میں پیش کرتا ہوں جو اس بات پر داللت کرتی ہے کہ معاویہ کے‬
‫اشارہ‪ ،‬رضا مندی کے تحت سب امیر المؤمنین ہوا کرتا تھا۔‬

‫سب سے پہلے سنن ابی داؤد کی روایت پیش خدمت ہے‪:‬‬

‫حدثنا محمد بن العالء عن ابن إدریس أخبرنا حصین عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم وسفیان‬
‫عن منصور عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم المازني ذكر سفیان رجال فیما بینه وبین عبد ہللا بن‬
‫ظالم المازني قال سمعت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قال لما قدم فالن إلى الكوفة أقام فالن خطیبا‬
‫فأخذ بیدي سعید بن زید فقال أال ترى إلى ھذا الظالم فأشھد على التسعة۔۔الخ‬

‫عبدہللا بن ظالم کہتے ہ ے کہ میں سعید بن زید کو سنا کہ جب فالں شکص کوفہ آیا تو ایک فالں خطبہ‬
‫کے لئے کھڑا ہوا‪ ،‬پس سعید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا تم اس ظالم کو دیکھو میں نو لوگوں‬
‫کی گواہی دیتا ہوں۔۔الخ‬

‫اس روایت کو البانی نے صحیح کہا ہے‬

‫حوالہ‪ :‬سنن ابی داود‪ ،‬جلد ‪ ٤‬ص ‪٢١١‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-1726#page-6374 :‬‬

‫اب یہ دو فالن شخص کون ہے تو اس کی تصریح شمس الحق عظیم آبادی کرتے ہے‪:‬‬

‫( لما قدم فالن إلى الكوفة أقام فالن خطیبا ) ‪ :‬قال في فتح الودود ‪ :‬ولقد أحسن أبو داود في الكنایة عن‬
‫اسم معاویة ومغیرة بفالن سترا علیھما في مثل ھذا المحل لكونھما صحابیین‬

‫جب فالں شخص کوفہ اور فالں نے خطابت کی۔۔ تو فتح الودود میں ہے‪ ،‬ابوداود نے اچھا کیا کہ‬
‫معاویہ اور مغیرہ کی جگہ کنایہ (فالن) استعمال کیا۔ تاکہ ان دونوں (کے جرم) کو چھپایا جائے‬
‫کیونکہ یہ دونوں صحابیوں میں سے ہے‬

‫حوالہ‪ :‬عون المعبود جلد ‪ ١٠‬ص ‪١٦٦‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://islamport.com/d/1/srh/1/47/1647.html :‬‬

‫اب میں مسند احمد کی روایت نقل کئے دیتا ہوں۔‬

‫‪ - 1644‬حدثنا عبد ہللا حدثني أبي ثنا علي بن عاصم قال حصین أخبرنا عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا‬
‫بن ظالم المازني قال ‪ :‬لما خرج معاویة من الكوفة استعمل المغیرة بن شعبة قال فأقام خطباء یقعون في‬
‫علي قال وأنا إلى جنب سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قال فغضب فقام فأخذ بیدي فتبعته فقال أال ترى‬
‫إلى ھذا الرجل الظالم لنفسه الذي یأمر بلعن رجل من أھل الجنة فاشھد على التسعة۔۔۔الخ‬

‫عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ جب معاویہ کوفہ سے گیا تو اس سے مغیرہ بن شعبہ کو گورنر تعین‬
‫کیا۔۔ بہرحال مغیرہ نے بعض خطبہ دینے والوں کو اجازت دی جو امیر المؤمنین ع کی تنقیص و شتم‬
‫کرتے تھے۔۔ میں سعید بن زید کے ساتھ تھا جو شدید غصہ میں آئے اور کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ‬
‫پکڑا‪ ،‬پس میں ان کے پیچھے ہوا اور کہنے لگے کیا تم اس شخص کو دیکھتے نہیں جو اپنے نفس‬
‫پر ظلم کرتا ہے اور جو ایسے شخص پر لعن کا حکم دیتا ہے جو جنت والوں میں سے ہے۔۔۔الخ‬

‫ارنووط اس کی سند کو حسن کہتے ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬مسند احمد بن حنبل‪ ،‬جلد ‪ ،٣‬ص ‪١٨٥‬‬

‫آن الئن کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-25794#page-1190 :‬‬

‫چنانچہ ثابت ہوا کہ ایک روایت کے تحت معاویہ کی موجودگی میں اور دوسری روایت میں معاویہ‬
‫کی گورنر شپ کے بعد مغیرہ نے یہ جرم انجام دیا۔۔ اور یہ بتاتا ہے کہ بنو امیہ کا عمومی رجحان‬
‫سب علی ع کے معاملہ میں بہت ہلکہ تھا۔ اور اس کی پوری قلعی صاحب شرح مسند احمد نے‬
‫کھولی ہے۔‬
‫(قلت) قوله فى الحدیث لما قدم فالن أقام فالنا الخ قال فى فتح الودود لقد أحسن أبو داود فى الكتایة عن‬
‫اسم معاویة والمغیرة بفالن سترا علیھما ْلنھما صحابیان أہـ عون المعبود (قلت) فظھر من ھذا أن القادم‬
‫ھو معاویة ابن أبى سفیان والخطیب ھو المغیرة بن شعبة وقد عرض فى خطبته بذم على ومدح معاویة‬
‫(‪( )4‬سندہ) حدّثنا على بن عاصم قال حصین أخبرنا عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم المازنى الخ‬
‫(غریبه) (‪ )5‬اى یسبونه وینالون منه كما في روایة أخرى والظاھر ان المغیرة ھو الذى أمر الخطباء لكن‬
‫جاء عند أبى داود فى ھذا الحدیث نفسه من طریق عبد ہللا بن ظالم أیضا قال سمعت سعید بن زید بن‬
‫عمرو بن نفیل قال لما قدم فالن (یعنى معاویة بن أبى سفیان) أقام فالنا خطیبا (یعنى المغیرة بن شعبة)‬
‫ویستفاد منه أن المغیرة ھو الذى خطب وفى الحدیث السابق أن الذى سب علیا رجل من الكوفة ممن‬
‫حضروا مجلس المغیرة‪ ،‬ویمكن الجمع بین ھذہ الروایات بان المغیرة أقام احتفاال لمناسبة تنصیبه أمیرا ً‬
‫على الكوفة حضرہ معاویة وكثیر من وجھاء أھل الكوفة فأمر معاویة المغیرة بن شعبة أن یقوم خطیبا فى‬
‫ھذا الحفل فخطب ونال من على رضى ہللا عنه كما جاء فى طریق أخرى لألمام أحمد من حدیث عبد ہللا‬
‫بن ظالم أیضا قال خطب المغیرة ابن شعبة فنال من على فخرج سعید بن زید فقال (یعنى لعبد ہللا بن‬
‫ظالم) أال تعجب من ھذا یسب علیا ً فذكر فضل على وباقى العشرة المبشرین بالجنة رضى ہللا عنھم؛ ثم‬
‫أمر المغیرة بعض الحاضرین أن یقوموا خطباء فخطبوا ونالوا من على أیضا تأسیا بما فعله المغیرة‪ ،‬ثم‬
‫جاء رجل من أھل الكوفة فأستقبل المغیرة وسب علیا أیضا ً كما فى الحدیث السابق ھذا ما ظھر وہللا أعلم‬

‫میں کہتا ہوں کہ روایت میں یہ آنا کہ فالں بندہ کوفہ آیا اور فالں نے خطابت کی۔۔ تو فتح الودود میں‬
‫ہے کہ ابوداود نے بہترین کام کیا کہ ادھر کنایتہ کام لیا یعنی فالن سے کام لیا اور معاویہ اور مغیرہ‬
‫کے ناموں کو چھپا کر رکھا کیونکہ وہ دونوں صحابی ہیں۔۔ (عون المعبود سے عبارت)۔۔ میں کہتا‬
‫ہوں کہ کوفہ آنے واال معاویہ تھا اور خطیب مغیرہ بن شعبہ تھا اور اس نے اپنے خطبہ میں حضرت‬
‫علی کی مذمت کی اور معاویہ کی تعریف کی۔۔۔۔ سند روایت۔۔ یعنی جو خطیب تھے وہ سب اور‬
‫تنقیص کیا کرتے تھے جیسے کہ دوسری روایت میں موجود ہے اور جو بات ظاھر ہے وہ یہ کہ‬
‫مغیرہ بن شعبہ وہ ش خص تھا جس نے خطیبوں کو حکم دیا (کہ وہ حضرت علی پر سب کریں)۔۔ لیکن‬
‫یہ روایت (سنن) ابوداود نے بھی نقل کی ہے اسی راوی عبدہللا بن ظالم سے جو سعید بن زید بن‬
‫عمرو بن نفیل سے سنتا ہے کہ جب فالں بندہ یعنی معاویہ آیا تو فالں بندہ خطابت کے لئے کھڑا ہوا‬
‫یعنی مغیرہ بن شعبہ۔۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مغیرہ خطیب تھا درحاآلنکہ اس سے پہلی‬
‫والی روایت میں جس نے سب کیا وہ ایک کوفی تھا اس مجلس میں جس میں مغیرہ بھی موجود تھا‪،‬‬
‫اب ان دونوں روایات کو جمع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مغیرہ نے ایک مجلس جشن منعقد کی‬
‫کیونکہ وہ کوفہ کا گ ورنر مقرر ہوا تھا پس اس نے خطاب کیا اور امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی‬
‫جیسے کہ مسند احمد کے ایک دوسرے طریق میں عبدہللا بن ظالم کی روایت میں آیا ہے کہ مغیرہ‬
‫کھڑا ہوا اور حضرت علی کی تنقیص کی پس سعید بن زید پس اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ پس وہ کہنے لگے‬
‫کہ تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ وہ حضرت علی پر سب کرتے ہیں پس انہوں نے علی کی فضیلت بیان‬
‫کی اور باقی عشرہ مبشرہ کی جنکو جنت کی بشارت تھی‪ ،‬ہللا ان سے راضی ہو۔۔ اس کے بعد مغیرہ‬
‫نے بعض افراد جو وہاں موجود تھے ان کو حکم دیا کہ وہ خطابت کے لئے کھڑے ہوں پس انہوں‬
‫نے خطابت کی اور دوران خطابت امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی اس چیز کی پیروی کرتے ہوئے‬
‫جو مغیرہ نے (لعن علی کی) کی تھی۔ اس کے بعد ایک کوفی مغیرہ کے سامنے آیا اور حضرت‬
‫علی پر سب کیا جیسے کہ ماقبل کی حدیث سے ظاھر ہے‪ ،‬وہللا اعلم‬

‫حوالہ‪ :‬الفتح الرباني لترتیب مسند اْلمام أحمد بن حنبل الشیباني‪ ،‬جلد ‪ ،٢٢‬ص ‪١٩١-١٩٠‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-124910#page-6213 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم فخر الزماں ان روایات اور تشریحات سے واضح ہے کہ معاویہ سب علی کی مجالس‬
‫پر کوئی ایکشن نہیں لیتا تھا۔۔ یہ کیسی محبت ہے جس میں دوسرے کی برائی بیان کی جائے اور وہ‬
‫کوئی نکیر نہ کرے۔ فیصلہ آپ پر اور قارئین پر۔‬

‫‪ ، ٥‬صلح امام حسن ع میں سب امیر ع نہ کرنے پر جملہ اشکاالت کے جوابات۔‬

‫ناظرین ہم نے ایک روایت پیش کی تھی جس میں یہ الفاظ تھے‬

‫وال یسب علي وھو یسمع‬


‫معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہیں کرے گا درحالنکہ امام حسن ع اس کو سن رہے ہوں‬

‫اس کے جواب میں محترم فخر الزماں رقم طراز ہے‪:‬‬

‫(الجواب‪.‬‬
‫سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کی اس شرط سے قطعا ً ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی‬
‫رضی ہللا عنہ پر سب کرتے تھے‪.‬‬
‫کسی چیز کے روکنے سے یہ الزم نھیں آتا کہ پہلے ایسا ھوتا تھا‪ ،‬قرآن میں مسلمانوں کو کتنی‬
‫چیزیں سے روکا گیا ھے؟ تو کیا سارے مسلمان ان کو کرتے ھیں جو ہللا نے روکا؟‬
‫دعوی کے مطابق نھیں ھے‪) .‬‬ ‫بطور تنبیہ کہ بھی روکا جاتا ھے‪ .‬تو آپ کی دلیل ٰ‬

‫جواب‪ :‬محترم۔۔ ادھر شرائط طے کرنے کی بات ہورہی ہے۔۔ ہدایت نامہ اور پورا دستور نہیں دیا‬
‫جارہا۔۔ آپ کا قیاس مع الفارق باطل ہے کیونکہ جس چیز کی نہی کی جارہی ہے وہ چنیدہ ہے نہ کہ‬
‫غیبت‪ ،‬تمہت‪ ،‬کذب بیانی‪ ،‬حسد اور باقی گناہوں کی لسٹ دی جارہی تھی۔۔ مجھے یہ بتائے کہ فقط‬
‫اس کا ہی تذکرہ کیوں کیا گیا اور باقی دیگر جرائم و گناہوں کی لسٹ کیوں بیان نہیں کی۔۔ جو چیز‬
‫ہورہی ہوگی اس کے منع کا ہی ہو کہا جاتا ہے شرائط نامہ میں۔۔ ورنہ قرآن میں کتنی جگہ اور‬
‫احادیث میں اسے کئی گنا زیادہ نہی وارد ہوئیں ہیں تو ان تمام کا ذکر امام حسن ع نے کیوں نہ کیا‬
‫اور خؤد روایات میں عدم توفق معاویہ کا بھی ذکر ہے تو یہ تو بذات خود اس بات کو تقویت دیتی‬
‫ہے کہ معاویہ سے یہ گناہ کا صدور ہو بھی رہا تھا اور وہ اس کو روکنے میں سنجیدہ بھی نہ تھا۔‬
‫چنانچہ مورخ ابن اثیر رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ي‬
‫الكف عن شتم عل ّ‬
‫ّ‬ ‫وأال یشتم علیا‪ ،‬فلم یجبه إلى‬
‫امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر ال مؤمنین ع پر شتم نہ کیا جائے تو معاویہ نے اس شتم علی‬
‫ع کو روکنے پر حامی نہ بھری۔‬

‫حوالہ‪ :‬الكامل في التاریخ جلد ‪ ٣‬ص ‪٦‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-21712#page-1446 :‬‬

‫اور یہی بات مورخ ابن وردی نے بھی لکھی‪:‬‬

‫عن السب‬ ‫ف َ‬‫َوأَن َال یسب علیا؛ فَلم یجب إِلَى ْال َك ّ‬
‫امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر المؤمنین ع پر سب نہ کیا جائے تو معاویہ نے اس کو‬
‫روکنے پر حامی نہ بھری۔‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ ابن الوردي جلد ‪ ١‬ص ‪١٥٧‬‬

‫آن الئن کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-6624#page-155 :‬‬

‫اس کے عالوہ بھی دیگر مصادر اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔۔ اب مجھے بتائے کہ کیا اب بھی‬
‫شک باقی رہتا ہے کہ معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہیں کرتا تھا۔‬

‫‪ ، ٦‬صلح امام حسن ع پر محترم فخر الزماں کے اشکال کا جواب‬

‫ناظرین بحث کے دوران محترم فخر الزماں نے صلح امام حسن ع پر بھی اعتراض کیا تو اس کا‬
‫جواب بھی دیتا چلتا ہوں۔۔ اس میں ایک تمہید کے بعد امام حسن ع کا اصلی نظریہ معاویہ کے بارے‬
‫میں نقل کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ عمار یاسر ع کا نظریہ بھی جو کافی ملتا جلتا ہے اور پھر‬
‫سکوت پر الزامی جواب۔‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬

‫( اگر سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے تھے اور بقول آپ کے وہ‬
‫منافق تھے‪ ،‬تو ایسے شخص کو اسالمی حکومت کا سربراہ بنانے واال امام رھ سکتا ھے؟‬
‫اب زرا اپنے امامو ں کی امامت کی بھی فکر کریں اور آپ کے مذھب میں بیان کردہ ائمہ کے شرائط‬
‫کو سامنے رکھ کر بتائیں‪.‬‬
‫اچھا ھوا آپ نے سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کا ذکر کر کے یہ بات کھول کر اس سوال کا موقعہ دیا)‬

‫جواب‪ :‬محترم جس طرح کفار کے ساتھ صلح جائز ہے ویسے ہی معاویہ کے ساتھ جائز ہے۔۔ اور‬
‫امام حسن ع کے صلح کرنے سے ان کی امامت پر کوئی نقض نہیں آتا۔۔ یہ بات تو آپ کے ذمہ میں‬
‫ہے کہ آپ ثابت کریں کہ اس سے امام حسن ع کی عصمت اور امامت میں فرق آتا ہے۔۔ اور مزید‬
‫سنئے کہ امام حسن ع معاویہ کو ایک فاسق ہی تصور کرتے تھے۔۔ اور اس صلح کو ایک وقتی‬
‫ضرورت کے تحت ہی کیا گیا۔‬

‫اب میں عرض کروں کہ امام حسن ع معاویہ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے تھے۔۔ طبرانی نے ثقہ‬
‫راویوں کی سند سے روایت یوں نقل کی‪:‬‬

‫‪ -2632‬حدثنا زكریا بن یحیى الساجي ‪ ،‬حدثنا محمد بن بشار بندار ‪ ،‬حدثنا عبد الملك بن الصباح‬
‫المسمعي ‪ ،‬حدثنا عمران بن حدیر ‪ ،‬أظنه عن أبي مجلز ‪ ،‬قال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فصعد عمرو المنبر ‪ ،‬فذكر‬
‫علیا ووقع فیه ‪ ،‬ثم صعد المغیرة بن شعبة ‪ ،‬فحمد ہللا وأثنى علیه ‪ ،‬ثم وقع في علي رضي ہللا تعالى عنه ‪،‬‬
‫ثم قیل للحسن بن علي ‪ :‬اصعد ‪ ،‬فقال ‪ :‬ال أصعد وال أتكلم حتى تعطوني إن قلت حقا أن تصدقوني ‪ ،‬وإن‬
‫قلت باطال أن تكذبوني فأعطوہ ‪ ،‬فصعد المنبر ‪ ،‬فحمد ہللا وأثنى علیه ‪ ،‬فقال ‪ :‬باہلل یا عمرو وأنت یا‬
‫مغیرة تعلمان أن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم ‪ ،‬قال ‪ " :‬لعن ہللا السائق والراكب " ‪ ،‬أحدھما فالن ؟‬
‫قاال ‪ :‬اللھم نعم بلى ‪ ،‬قال ‪ :‬أنشدك ہللا یا معاویة ویا مغیرة ‪ ،‬أتعلمان أن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم "‬
‫لعن عمرا بكل قافیة قالھا لعنة " ؟ قاال ‪ :‬اللھم بلى ‪ ،‬قال ‪ :‬أنشدك ہللا یا عمرو وأنت یا معاویة بن أبي‬
‫سفیان ‪ ،‬أتعلمان أن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم لعن قوم ھذا ؟ قاال ‪:‬بلى ‪ ،‬قال الحسن ‪ :‬فإني أحمد ہللا‬
‫الذي وقعتم فیمن تبرأ من ھذا ‪ ،‬وذكر الحدیث ‪.‬‬

‫عمرو بن عاص منبر پر بیٹھا ہے اور امیر المؤمنین کا ذکر کیا اور پھر ان کی تنقیص کی اور پھر‬
‫مغیرہ بن شبعہ منبر پر آیا اور ہللا کی حمد اور تعریف کی‪ ،‬اور علی رضی ہللا عنہ کی تنقیص کی۔‬
‫اور پھر امام حسن ع سے کہا گیا کہ آپ بھی منبر پر بیٹھیں تو امام حسن ع نے کہا میں منبر پر اس‬
‫وقت تک نہیں بیٹھوں گا اور کالم کروں جب تک تم یہ گنجائش نہ دو کہ میں اگر حق بات کروں تو‬
‫اس کی تصدیق کرنا اور اگر باطل کہوں تو تکذیب کرنا۔۔ تو انہوں نے یہ گنجائش امام حسن ع کو دی‬
‫اور امام منبر پر بیٹھ ے تو ہللا کی حمد اور تعریف کی اور پھر کہا اے عمرو بن عاص اور مغیرہ ہللا‬
‫کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم دونوں کو معلوم نہیں کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ خدا کی‬
‫لعنت ہو سواری چالنے والے اور سواری پر بیٹھنے والے پر اور ان دو میں سے ایک فالن تھا تو‬
‫ان دونوں نے یک زبان کہا بیشک ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام حسن ع نے کہ ہللا کے واسطہ اے معاویہ‬
‫اور اے مغیرہ کیا تم دونوں نہیں جانتے کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ ہللا کی لعنت ہو عمرو پر‬
‫اتنی جتنے قافیہ اس سے کہے تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام ع نے کہا اے عمرو‬
‫بن عاص اور اے معاویہ بن ابی سفیان ہللا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول ص نے اس قوم‬
‫پر لعنت کی تھی؟ تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔ امام حسن ع نے پھر کہا کہ مٰ ں ہللا کی‬
‫تعریف کرتا ہوں۔۔۔الخ‬

‫حوالہ‪ :‬المعجم الكبیرجلد ‪ ٣‬ص ‪١٢٢-١٢١‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://islamport.com/d/1/mtn/1/28/726.html :‬‬

‫اس روایت کو عالمہ ابوبکر ہیثمی نے بھی نقل کیا ہے اور کرنے کے بعد فرمایا‪:‬‬

‫رواہ الطبراني عن شیخه زكریا بن یحیى الساجي ‪ ،‬قال الذھبي ‪ :‬أحد اْلثبات ما علمت فیه جرحا أصال ‪،‬‬
‫وقال ابن القطان ‪ :‬مختل ف فیه في الحدیث ‪ ،‬وثقه قوم وضعفه آخرون ‪ ،‬وبقیة رجاله رجال الصحیح ‪.‬‬

‫اس کو طبرانی نے اپنے شیخ زکریا بن یحیی الساجی سے نقل کیا اور ذھبی نے کہا کہ وہ سب سے‬
‫ثقہ راویوں میں سے ہے اور مجے اس پر کوئی جرح نہیں معلوم‪ ،‬اور ابن قطان نے کہا یہ مختلف‬
‫فیہ ہے بعض نے توثیق کی اور بعض نے تضعیف۔۔ اور باقی راویان صحیح کے راویان ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬مجمع الزوائد جلد ‪ ٧‬ص ‪٢٤٧‬‬

‫کتاب دیکھئے آن الئن‪http://shamela.ws/browse.php/book-61#page-2226 :‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اس روایت کے راویان ثقہ ہیں اور باقی ہیثمی کا تکلف اپنی جگہ لیکن مختلف فیہ راوی خود‬
‫آپ کے ہاں حسن الحدیث راوی ہوتا ہے اور روایت حسن درجہ سے کم کی نہیں‪ ،‬یوں روایت قابل‬
‫احتجاج ہے۔ اور اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ امام حسن ع معاویہ‪ ،‬مغیرہ اور عمرو بن عاص کے‬
‫بارے میں مذموم رائے رکھتے تھے۔‬

‫آپ کا امام حسن ع کا سربراہی حکومت کا اختیار دینے پر میں بتاتا چلوں کہ یہ چیز ہرگز خالفت‬
‫معاویہ کی حقانیت پر داللت نہیں کرتی اور نہ ہی امام حسن علیہ السالم کے لئے موجب قدح ہے۔‬
‫میں ابھی تحلیلی بحث میں نہیں جاسکوں گا لیکن مختصرا اتنا عرض کروں گا کہ اس کی مثال فتح‬
‫مکہ کے موقع پر امام حسن ع کے جد امجد رسالت مآب صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی صلح کے‬
‫مترادف ہے جس کو کرنے سے نہ ہی کفار کی حقانیت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی رسالت مآب ص‬
‫کے لئے موجب قدح ہے۔۔ اور رسول ص ہی ہمارے مطاع ہے۔‬
‫اب دیکھئے کہ اگر آپ کی اس دلیل پرعلیل کو لیا جائے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ معاویہ ابن عمر‬
‫اور عمر بن الخطاب دونوں سے افضل ہے۔۔ وجہ کیا ہے وجہ یہ روایت ہے۔‬

‫بخاری اپنی کتاب المغازی باب غزوة الخندق وھي اْلحزاب میں یوں روایت نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫حدثني إبراھیم بن موسى أخبرنا ھشام عن معمر عن الزھري عن سالم عن ابن عمر قال وأخبرني ابن‬
‫طاوس عن عكرمة بن خالد عن ابن عمر قال دخلت على حفصة ونسواتھا تنطف قلت قد كان من أمر‬
‫الناس ما ترین فلم یجعل لي من اْلمر شيء فقالت الحق فإنھم ینتظرونك وأخشى أن یكون في احتباسك‬
‫عنھم فرقة فلم تدعه حتى ذھب فلما تفرق الناس خطب معاویة قال من كان یرید أن یتكلم في ھذا اْلمر‬
‫فلیطلع لنا قرنه فلنحن أحق به منه ومن أبیه قال حبیب بن مسلمة فھال أجبته قال عبد ہللا فحللت حبوتي‬
‫وھممت أن أقول أحق بھذا اْلمر منك من قاتلك وأباك على اْلسالم فخشیت أن أقول كلمة تفرق بین‬
‫الجمع وتسفك الدم ویحمل عني غیر ذلك فذكرت ما أعد ہللا في الجنان قال حبیب حفظت وعصمت قال‬
‫محمود عن عبد الرزاق ونوساتھا‬

‫ابن عمر نے بیان کیا کہ میں حفصہ کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک‬
‫رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت‬
‫نہیں ملی ۔ حفصہ نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔ کہیں‬
‫ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے ۔ آخر حفصہ کے اصرار پر‬
‫عبدہللا بن عمر گئے ۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضیاللہعنہ نے خطبہ دیا اور کہا‬
‫کہ خالفت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔ یقینا ً ہم اس سے زیادہ‬
‫خالفت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ ۔ حبیب بن مسلمہ نے ابن عمر سے اس پر کہا‬
‫کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبدہللا بن عمر نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی‬
‫کھولی ( جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خالفت کا‬
‫حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسالم کے لیے جنگ کی تھی ۔ لیکن پھر میں‬
‫ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختالف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور‬
‫میری بات کا مطلب میری منشا کے خالف نہ لیا جانے لگے ۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ‬
‫تعالی نے ( صبر کرنے والوں کے لیے ) جنت میں تیار کر رکھی ہیں ۔‬ ‫ٰ‬ ‫نعمتیں یاد آ گئیں جو ہللا‬
‫حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لئے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے‬
‫محمود نے عبدالرزاق سے ( نسواتھا کے بجائے لفظ ) ونوساتھا بیان کیا ( جس کے معنی چوٹی کے‬
‫ہیں جو عورتیں سر پر بال گوندھتے وقت نکالتی ہیں )‬

‫حوالہ‪ :‬صحیح البخاری‪ ،‬جلد ‪ ٥‬ص ‪١١٠‬‬

‫روایت دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-6800 :‬‬

‫اب اگر ابن عمر خوف فتنہ کی وجہ سے خاموش رہ سکتے ہیں تو یہی تجویز امام حسن ع کے لئے‬
‫کیوں نہیں۔۔ جب کہ اگر امام حسن ع کو عام بے گناہ مسلمانوں کے خون کے ضائع ہونے کا خدشہ‬
‫نہ ہوتا تو وہ ضرور جنگ کرتے۔۔ چونکہ امام حسن ع کے فوجیوں میں سے بعض نے ناانصافی کی‬
‫اور بعض جنگ کو تیار نہ ت ھے تو اس صورت میں جنگ کرنا بداہتہ بتا رہا تھا کہ مسلمانوں کا‬
‫صرف خون ہی ضائع ہوگا اور معاویہ کو شام سے ہٹانے کا مقصد بھی پورا نہیں ہوگا۔‬

‫اگر آپ کو اصحاب امیر المؤمنین کا نظریہ چاہئے ہو تو دیکھئے حضرت عمار بن یاسر کیا ارشاد‬
‫فرماتے ہے‪:‬‬

‫حدثنا أبي ‪ ،‬قال ‪ :‬حدث نا جریر ‪ ،‬عن اْلعمش ‪ ،‬عن منذر الثوري ‪ ،‬عن سعد بن حذیفة ‪ ،‬قال ‪ :‬قال عمار ‪:‬‬
‫وہللا ما أسلموا ولكنھم استسلموا وأسروا الكفر حتى وجدوا علیه أعوانا فأظھروہ‪.‬‬

‫سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے (فوج معاویہ کو دیکھ کر کہا) ہللا کی قسم یہ اسالم (حقیقی)‬
‫نہ الئے بلکہ ا سالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ جب‬
‫انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ ابن أبي خیثمة ‪ -‬السفر الثاني‪ ،‬جلد ‪ ، ٢‬ص ‪٩٩١‬‬

‫آن الئن کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-1440#page-955 :‬‬

‫اور اس روایت کو مجمع الزوائد میں یوں نقل کیا گیا‪:‬‬

‫َّللا َما أ َ ْسلَ ُموا‪،‬‬ ‫ص ْل ِ‬


‫ح‪ ،‬فَقَالَ‪َ :‬و ه ِ‬ ‫صفِّینَ ‪َ ،‬وذَ َك َر أ َ ْم َرھُ ْم َوأ َ ْم َر ال ُّ‬‫اس ٍر یَ ْو َم ِ‬ ‫ار بْنُ یَ ِ‬
‫ع هم ُ‬ ‫س ْع ِد ب ِْن ُحذَ ْیفَةَ قَالَ‪ :‬قَا َل َ‬ ‫ع ْن َ‬‫َو َ‬
‫ظ َھ ُروہُ "‬‫علَ ْی ِه أَع َْوانًا أ َ ْ‬
‫س ُّروا ْالكُ ْف َر‪ ،‬فَلَ هما َرأ َ ْوا َ‬
‫َولَ ِك ِن ا ْست َ ْسلَ ُموا َوأ َ َ‬

‫سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے صفین کے دن کہا‪ ،‬درحاآلنکہ وہ ان (فوج شام) کے بارے‬
‫میں ذکر کررہے تھے اور صلح کے باتے میں تبصرہ کررہے تھے‪( ،‬اثنائے گفتگوں میں) پھر‬
‫فرمایا۔۔ ہللا کی قسم یہ اسالم (حقیقی) نہ الئے بلکہ اسالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے‬
‫کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردیا۔‬

‫اس کو نقل کرنے کے بعد فرمایا‪:‬‬

‫س ْعد ُ بْنُ ُحذَ ْیفَةَ لَ ْم أ َ َر َم ْن ت َْر َج َمهُ‬ ‫ي ِفي ْال َك ِب ِ‬


‫یر‪َ ،‬و َ‬ ‫َر َواہُ ه‬
‫الط َب َرا ِن ُّ‬

‫طبرانی نے اس کو معجم الکبیر میں نقل کیا اور سعد بن حذیفہ کا ترجمہ مجھے نہیں مال۔‬

‫حوالہ‪ :‬مجمع الزوائد جلد اول ص ‪١١٣‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-61#page-108 :‬‬


‫جب کہ سعد ثقہ راوی ہے اس کو ابن حبان نے ثقات میں سے شمار کیا ہے اور حاکم نیشاپوری اور‬
‫ذھبی نے اس کی روایت کو صحیح کہا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬واضح ہوا کہ عمار بن یاسر علیہ السالم فوج معاویہ اور خود معاویہ کو یونہی سمجھتے‬
‫تھے اور اب میں فیصلہ خود فخر الزماں اور قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ یہ منافق کی نشانی ہے جو‬
‫اسالم سے بغض اور کفر سے محبت کو دل میں رکھے اور ظاہر اسالم کرے۔۔‬

‫‪ ، ٧‬اعالء السنن کی عبارت اور ابن عباس والی بات کا جواب‬

‫ہم نے اعالء السنن کی روایت سے ہی استدالل کرکے پوری تنقیح کی تھی جس پر محترم نے تبصرہ‬
‫نہیں کیا ہاں اگرچہ جو ابن عباس کی روایت بطور تائید پیش کی تھی اس پر ضرور تبصرہ کیا ہے۔‬
‫تو دیکھتے ہے پہلے محترم فخر الزماں کا کالم اور پھر میرا تبصرہ۔‬

‫(الجواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬نسائی کی روایت پر بحث مسلم والی روایت کے بعد ھوگی تاکہ ایک ایک دلیل پر تفصیلی بات‬
‫ھو اور دیکھنے والے صحیح سے سمجھ سکیں‪.‬‬
‫اور نسائی کی روایت تو ابن عباس رضی ہللا عنہما کی تقیہ کرنے والی بات کا واضح رد کررھی‬
‫ھے‪ .‬ان دونوں میں سے آپ کو ایک بات کو صحیح کھنا ھوگا)‬

‫جواب‪ :‬محترم جب آپ مجھ سے دلیل مانگیں گے تو میں دیگر قرائن میں اس کو مضبوط کرنے کے‬
‫لئے دیگر کتب کا تو سہارا لوں گا یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں اعالء السنن کی عبارت خود واضح ہے‬
‫لیکن اپنے دعوی کے اثبات میں ایک مزید دلیل پیش کی۔‬

‫دونوں میں سے دونوں باتیں صحیح ہوسکتی ہے اگر دو مختلف مواضع اور مختلف اوقات میں ہوں۔۔‬
‫ایک جگہ ظرف تقیہ ہو اور دوسری جگہ نہیں۔۔ یہ فقہی احکامات پڑھنے والوں پر مخفی نہیں۔۔‬
‫تناقض کا اثبات کا ذمہ آپ کا کام ہے۔ ایک جگہ وتر کا معاملہ ہے اور ایک جگہ دوسرا مسئلہ۔‬

‫محترم فرماتے ہے‪:‬‬

‫(رھا ابن عباس رضی ہللا عنہ کا تقیہ کرنے والی بات‪ ،‬تو یہ تو بعد کے علماء کی تاویالت ھیں نہ کہ‬
‫خود ابن عباس رضی ہللا عنہ کا قول‪ ،‬اس کے برعکس ابن عباس رضی ہللا عنہ کا معاویہ رضی ہللا‬
‫عنہ کے پاس جانا‪ ،‬ان کے تعریف کرنا اور عطیات لینا کتب تاریخ سے ثابت ہے جو نسائی والی‬
‫بحث میں سامنے آئیں گی‪).‬‬

‫جواب‪ :‬ہمارے لئے آپ کی کتب بالکل حجت نہیں۔ لہذا ان تمام باتوں کا اثبات شیعہ کتب سے ضرور‬
‫کیجئے گا۔۔ باقی ابن عباس کا معاویہ کو گدھا کہنا‪ ،‬بعض علماء کا انتساب تقیہ کرنا‪ ،‬بغض علی کا‬
‫حامل کہنا اس کے مقابلہ میں آپ شیعہ کتب سے دلیل الئے گا جو قابل احتجاج ہو۔ باقی عطیات لینا‬
‫تو ظالم و جائر خلفاء سے آپ کے ہاں جائز ہے تو یہ دلیل آپ کے لئے نہیں بلکہ خالف بھی‬
‫جاسکتی ہے۔۔ مزید تفصیل جب ضرورت پڑے گی تو دالئل دئے جائیں گے لیکن آپ کو ذرا فقہی‬
‫حکم بتانا مقصود تھا۔‬

‫آپ ذیل میں آپ کو بعض اصحاب امیر المؤمنین ع کا حوالہ دیتا ہوں جنہیں معاویہ نے قتل کروایا۔‬

‫‪ ، ١‬حجر بن عدی اور ان کے ساتھی۔۔ حجر بن عدی کا شیعان امیر ع میں سے ہونا محتاج بیان نہیں۔۔‬
‫اور ان کا صحابی ہونا خود آپ کے کثیر کتب سے ثابت ہے۔۔ علی کل حال۔۔ ان کو اور ان کے‬
‫ساتھیوں کو معاویہ ہی نے قتل کروایا‪ ،‬ابن اثیر رقم طراز ہے‪:‬‬

‫فأنزل ھو وأصحابه عذراء ‪ ،‬وھي قریة عند دمشق ‪ ،‬فأمر معاویة بقتلھم‬

‫پس حجر اور ان کے ساتھی مقام عذرا جو دمشق کے قریب ہے وہاں آئے‪ ،‬اور معاویہ نے ان کے‬
‫قتل کا حکم دیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬أسد الغابة ط الفكر جلد ‪ ١‬ص ‪٤٦٢‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-23700/page-452 :‬‬

‫‪ ، ٢‬محمد بن ابی بکر۔۔ یہ بھی محتاج تعارف نہیں۔ ابن حبان فرماتے ہے‪:‬‬

‫واستشار معاویة أصحابه في محمد بن أبي بكر وكان والیا علي مصر ‪ ،‬فأجمعوا على المسیر إلیه فخرج‬
‫عمرو بن العاص في أربعة اآلف ‪ ،‬فیھم أبو اْلعور السلمي ‪ ،‬ومعاویة بن حدیج ‪ ،‬فالتقوا بالمسناة وقاتلوا‬
‫قتاال شدیدا ‪ ،‬وقتل كنانة بن بشر بن عتاب التجیبي ‪ ،‬وانھزم محمد بن أبي بكر ‪ ،‬وقاتل حتى قتل وقد قیل‬
‫إنه أدخل في جوف حمار میت ‪ ،‬ثم أحرق بالنار فلما بلغ علیا سرور معاویة بقتله ‪ ،‬قال ‪ :‬لقد حزنا علیه‬
‫بقدر سرورھم بقتله‪.‬‬

‫معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے محمد بن ابی بکر جو اس وقت مصر کے گورنر تھے ان کے انجام‬
‫کے لئے مشورہ کیا تو وہ تمام اس پر متفق ہوئے کہ ایک چھوٹی فوج کو بھیجا جائے یوں عمرو بن‬
‫عاص چار ہزار فوجیوں کے ساتھ چڑھائی کے لئے نکل پڑا اور اس فوج میں ابو االعور السلمی‪،‬‬
‫معاویہ بن خدیج اور دونوں فوجوں کا مقابلہ مسانہ کے مقام پر گھمسان کا ہوا۔ اور کنانہ بن بشر اس‬
‫جنگ میں قتل ہوا اور محمد بن ابی بکر شکست کھاگئے اور لڑتے لڑتے قتل ہوگئے۔ اور کہا گیا کہ‬
‫کہ محمد بن ابکر کی الش کو گدھے کی کھال میں ڈال کر جالیا گیا اور جب یہ الش کو جالنے کی‬
‫خبر معاویہ کو پہنچی تو وہ خوش ہوا‪ ،‬جس کی خبر جب امیر ع کو پہنچی تو آپ نے کہا مجھے اتنا‬
‫ہی دکھ ہوا جتنا معاویہ کو اس کے قتل پر خوشی ہوئی‬

‫حوالہ‪ :‬الثقات‪ ،‬جلد ‪ ٢‬ص ‪٢٩٨-٢٩٧‬‬

‫کتاب دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-5816#page-607 :‬‬


‫تبصرہ‪ :‬یہ لسٹ قتل کافی بڑی ہے انشاء ہللا اس پر میں کافی کالم کرسکتا ہوں۔۔ اور بہت سارے نام‬
‫لئے جاسکتے ہیں لیکن یہ دو فقط اعالء السنن کی عبارت کی تائید ہی میں تھے کہ معاویہ کس طرح‬
‫خواص امیر المؤمنین ع کے ساتھ سلوک کرتا تھا۔‬

‫‪ ، ٨‬معاویہ‪ ،‬اموی اور حکمرانوں کا امیر المؤمنین ع پر سب کرنا علماء اہلسنت کے اقوال سے‬

‫ابن حزم‪ :‬بنو عباس نے کسی بھی صحابی (خدا کی رضوان ہوں ان پر) پر سب نہیں کیا بنو امیہ کے‬
‫برخالف جنہوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر لعنت کا طریقہ اپنایا‪ ،‬اور ان‬
‫کی پاک اوالد بنی زھراء پر بھی لعنت کی‪ ،‬اور تمام بنو امیہ ایسے تھے ماسوائے عمر بن عبدالعزیز‬
‫اور یزید بن ولید کے (خدا کی رحمت ہو ان دونوں پر)‪ ،‬کہ ان دونوں نے اس لعن کی اجازت نہیں‬
‫دی۔‬

‫ابن حجر‪ :‬اس کے بعد امیر المؤمنین کا معاملہ (کچھ یوں بیٹھا) کہ ایک گروہ نے امیر المؤمنین ع‬
‫سے جنگ کی اور پھر معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگیا کہ اس لڑنے والے گروہ (اشارہ قوم معاویہ‬
‫کی طرف) امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرنے لگے اور ان پر منبروں پر لعنت کو طریقہ بنالیا اور‬
‫خوارج نے اس بغض علی میں ان حضرات کی موافقت کی‬

‫اس پر محترم فرماتے ہیں‪:‬‬

‫(الجواب‪ .‬ان حواالجات کا بھی وھی حال ھے جو عالمہ ابن تیمیہ کے پچھلے حواالجات کا تھا‪.‬‬
‫اس میں بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو سب کرنے کا ثبوت نھیں‪.‬‬
‫دعوی خاص ھے اور دلیل عام‪.‬‬‫ٰ‬
‫یا تو میری عام دلیل (بقول آپ کے) کو قبول کریں یا خود بھی پیش مت کریں)‬

‫جواب‪ :‬محترم اس بھولے پن پر کون نہ مسکرائے۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس ان حوالے‬


‫جات کے کوئی جواب نہیں۔۔ ہر جگہ صرف معاویہ کا نام لے کر سب علی کے الفاظ کا پوچھنا‬
‫عجیب سوال ہے۔ میں ایک مثال سے آپ کو اور قارئین کو سمجھاتا ہوں اگر میں یہ کہوں کہ ہر‬
‫انسان ناطق ہے تو مجھے اس بات کی دلیل خارجی دینے کی ضرورت نہیں کہ زید‪ ،‬بکر‪ ،‬عمرو یہ‬
‫سب ناطق ہیں کیوں۔۔ اس وجہ سے کہ ان سب کا انسان ہونا مسلم ہے اور انسان کے لئے ناطق ہونا‬
‫ثابت ہے تو بدیہی طور پر زید‪ ،‬عمرو اور بکر کا ناطق ہونا بھی مقدمات ہی میں ہے۔‬

‫محترم فخر الزماں ادھر معاویہ کا ذکر اس طرح موجود ہے۔‬

‫ابن حزم کی عبارت دیکھیں تو اس نے بنو امیہ میں سوائے دو خلفاء کے سب سے انتساب سب کیا‬
‫ہے۔ دیکھئے ابن حزم کا فرمان‬

‫وكلھم كان على ھذا حاشا عمر بن عبد العزیز ویزید بن الولید رحمھما ہللا تعالى‪ ،‬فإنھما لم یستجیزا ذلك‪.‬‬
‫اب بتائے کہ اس میں معاویہ آتا ہے یا نہیں۔۔ اگر معاویہ خلیفہ اموی نہ تھا تو اس تاریخی حقیقت کا‬
‫انکار آپ سے ممکن نہیں اور اگر معاویہ خلیفہ تھا تو اس سے سب علی ثابت ہے۔‬

‫اور اب ابن حجر کی بات کرتا ہوں۔۔ ابن حجر کا فرمان دیکھئے‪:‬‬

‫ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على‬
‫المنابر سنة‬
‫ووافقھم الخوارج على بغضه‬

‫ادھر واضح طور پر خوارج کے عالوہ جس گروہ نے امیر ع سے جنگ کی ان کا مبروں پر لعنت‬
‫کرنا لکھا ہے۔ اب بتائے کہ خوارج کے عالوہ جنگ صفین اور جنگ جمل ہوئی ہے یا تو ابن حجر‬
‫کا اشارہ جمل کے سربراہوں کا منبروں پر تبرا مراد ہے یا صفین کے سربراہوں کا۔۔ جمل کا ہونا‬
‫ممکن نہیں کیونکہ ان کی حکومت ابن زبیر سے پہلے نہ تھی اور ادھر واضح اشارہ صفین والوں‬
‫ہی کی طرف سے۔۔ منبروں پر سب کرنا بتاتا ہے کہ یہ معاویہ کی مشاورت اور پوری اجازت سے‬
‫ہے۔‬

‫ذیل میں ہم تین مزید علماء اہلسنت کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ یہ تعداد اور بڑھ جائے‬

‫‪ ،١‬عالمہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں‪:‬‬

‫حدیثوں کی تدوین بنو امیہ کے زمانہ میں ہوئی جنہوں نے پورے ‪ ٩٠‬برس تک سندھ سے ایشیائے‬
‫کوچک اور اندلس تک مساجد جامع میں آپ فاطمہ کی توہین کی اور جمعہ میں سر منبر حضرت‬
‫علی رض پر لعن کہلوایا‪ ،‬سینکڑوں حدیثیں امیر معاویہ وغیرہ کے فضائل میں بنوائیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬سیرت النبی ص حصہ اول ص ‪٦٩‬‬

‫ٹائٹل کتاب‪http://s9.picofile.com/file/8294342350/seerat_ul_nabi_1.png :‬‬

‫ص ‪http://s8.picofile.com/file/8294342376/seerat_ul_nabi_69.png :٦٩‬‬

‫‪ ،٢‬عالمہ زاہد کوثری رقم طراز ہے‪:‬‬

‫اس م یں کوئی شک نہیں کہ بنو امیہ کے خلفاء حضرت علی کرم ہللا وجھہ پر منبروں پر لعنت کرتے‬
‫تھے‪ ،‬خدا انہیں رسوا کرے یہاں تک حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ہللا عنہ نے اس کو ختم‬
‫کروایا۔‬

‫حوالہ‪ :‬تانیب الخطیب ص ‪٢٨٥‬‬


‫ٹائٹل کتاب‪http://s8.picofile.com/file/8294342384/taneeb1.png :‬‬

‫ص ‪http://s9.picofile.com/file/8294342400/taneeb285.png :٢٨٥‬‬

‫‪ ، ٣‬مشہور مفتی۔۔ تاریخ ملت کے مصنف اپنی کتاب میں عمر بن عبدالعزیز کے تذکرہ میں فرماتے‬
‫ہے اور ایک ہیڈنگ ڈالتے ہے ‘سب علی کا انسداد‘ اور پھر ارشاد فرماتے ہے‪:‬‬

‫لیکن اصطالحات کے سلسلہ میں سب سے بڑی اصالح جو ان کے نامئہ اعمال میں سنہری حروف‬
‫سے ثبت ہے‪ ،‬حضرت علی رض کی شان میں بدگوئی کا انسداد ہے‪ ،‬عرصہ سے یہ دستور چال آرہا‬
‫تھا کہ خلفاء بنی امیہ اور ان کے عمال خطبوں میں حضرت علی رض پر لعن و طعن کیا کرتے‬
‫تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے والد بزرگوار عبدالعزیز بھی مصر کے والی کی حیثیت سے‬
‫اس تکلیف دہ فرضی منصب کو ادا کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن چونکہ دل زبان کا ہمنوا نہ تھا اس‬
‫لئے اس موقع پر آپ کی آواز سٹ پٹا جاتی تھی۔ بیٹے نے باپ کی اس کمزوری کو بھانپ لیا اور اس‬
‫سے اس کی وجہ پوچھی۔ امیر عبدالعزیز نے کہا‬

‫بیٹا جو لوگ ہمارے ساتھی ہیں اگر انہیں علی رض کے فضائل معلوم ہوجائیں تو کوئی ہمارے ساتھ‬
‫نہ رہے اور سب ان کی اوالد کے حامی بن جائیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ ملت جلد اول‪ ،‬ص ‪٦٥٩‬‬

‫ٹائٹل کتاب‪http://s9.picofile.com/file/8294342434/tareekh_millat_1.png :‬‬

‫ص ‪http://s8.picofile.com/.../8294342550/tareekh_millat_659.png :٦٥٩‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ہم نے ماضی میں دو اقوال پیش کئے تھے (ابن حجر اور ابن حزم) اور آج تین مزید‬
‫حضرات کا اضافہ کردیں اور مزید یہ ہے کہ ان میں ان علماء کو بھی شامل کرلیں جنہوں نے حدیث‬
‫مسلم کے ذیل میں سب ہی کا حکم لکھا (مثل ابن تیمیہ‪ ،‬مال علی قاری‪ ،‬موسی شاہین‪ ،‬محب ہللا‬
‫طبری‪ ،‬شاہ عبدالعزیز)۔۔ یوں کل مال کر دس علماء ایک طرف اور فخر الزماں کی تاویالت علیلہ‬
‫ایک طرف۔ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔‬

‫‪ ،٩‬اصل و اصول الشیعہ کتاب سے پیش کردہ روایت جو ہم نے دی تھی اس پر محترم فخر الزماں کا‬
‫تبصرہ اور اس پر ہمارا جوابی نوٹ۔‬

‫ہم نے محترم فخر الزماں کی پیش کردہ روایت جو انہوں نے نقل کی تھی اس کا بے سند ہونا اصل‬
‫مصدر سے دیکھایا۔۔ خیر اس کا جواب تو نہیں بن سکا تو محترم نے فرمایا‪:‬‬

‫محترم فخر الزماں فرماتے ہے‪:‬‬


‫(‪ ، 1‬یہ روایت ان کے مجتھد محمد حسین آل کاشف صاحب نے اپنی کتاب میں اپنی اس بات کو ثابت‬
‫کرنے کے لیے پیش کی ھے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کی حکومت مسلمانوں کے خون پسینے کی‬
‫کمائی سے عیش و عشرت والی تھی جو اسالمی تعلیمات کے خالف ہے‪.‬‬
‫تو آل کاشف صاحب نے جس بات کو معاویہ رضی ہللا عنہ کے خالف دلیل کے طور پر پیش کیا‬
‫ھسے اس خیر طلب صاحب نے "بے سند" کھہ کر اپنے مجتھد آل کاشف صاحب کو سیدنا معاویہ‬
‫رضی ہللا عنہ پر جھوٹا الزام لگانے واال ثابت کردیا‪.‬‬
‫واہ ایسے دو چار شیعہ مناظر اور مل جائیں تو مزا آجائے‪.‬‬
‫‪ ،2‬اصل میں خیر طلب صاحب کا مسئلہ یہ ھے کہ جو بات ان کے نظریے کے خالف ھوتی ھے یہ‬
‫اس حوالے یا کتاب کو ھی غیر معتبر یا بے سند وغیرہ کھہ کر جان چھڑانے میں عافیت سمجھتے‬
‫کررھے ہیں‪.‬‬
‫ان کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان کے مجتھد اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اس روایت کو بطور دلیل‬
‫پیش ھیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬اس سے یہ بات بھی ثابت ھوئی کہ شیعہ مجتہدین صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے بے سند و‬
‫جھوٹی روایات کا سھارا لیتے ھیں‪ ،‬یھی بات اھل السنت علماء صدیوں سے کھتے آرھے ھیں جو‬
‫خبر طلب صاحب نے کر دی)‬

‫جواب‪ :‬محترم ایسا کالم اہل علم کے شایان شان نہیں۔۔ ہمیں کہتے ہے موضوعات مختلفہ الرہے ہیں‬
‫اور خود شیعہ مجتہدین کا بے سند روایات سے استدالل کرنا وغیرہ کہنا شروع کردیا۔۔ کیا آپ توقع‬
‫رکھتے ہیں کہ آپ کی ان باتوں کا میں جواب دوں‪ ،‬میرے پاس آپ کی ایک ایک شق کا جواب ہے‬
‫لیکن جو موضوع نہیں اس پر کالم نہیں کرتا۔۔‬

‫اول‪ ،‬تو شیخ کی کتا ب فقط شیعہ مخاطبین کے لئے نہیں بلکہ عمومی عنوان سے شیعہ اور غیر شیعہ‬
‫کے لئے تھی تو انہوں نے اس روایت کو نقل کیا۔‬

‫دوم‪ ،‬نقل روایت ہمیشہ نقل صحت پر داللت نہیں کرتی (اس امر پر اپنے نظریہ بتانے کی بات نہیں‬
‫ہورہی بلکہ فقط نقل کی ہے)۔ ۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو محترم ذرا بتائے گا کہ پھر ہم کیا‬
‫کنزالعمال کی تمام روایات سے آپ کو ملزم کرسکتے ہیں اس اصول کے تحت‪ ،‬اگر آپ حامی‬
‫بھردیں تو یہ سودہ برا نہیں مجھے بہت خوشی ہوگی۔‬

‫ثالثا۔۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ یہ روایت مؤلف کے نزدیک ثابت ہے تو محترم پھر بھی وہ‬
‫ہم پر ملزم نہیں اگر ہم دلیل سے اس کا رد کریں دیکھئے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات کتنے‬
‫علماء نے نقل کی اور اس کی صحت کے مقر تھے تو کیا آپ کو میں ملزوم کروں؟ اگر دوسروں‬
‫کے استدالل کو پورے مذھب تشیع پر حجت سمجھتے ہیں تو ہم ان کو ان کے گھر سے تھوڑا مواد‬
‫دے دیت ے ہیں۔۔ میں ان کو احناف کے خالف جو دلیل دی جاتی ہے مع تصحیحات علماء و استدالل‬
‫علماء دے دیتا ہوں تاکہ اگر ان کے اندر انصاف کی رمق ہو اور جس قاعدہ کے تحت مجھے یہ ملزم‬
‫کررہے ہیں وہ خود پھر اپنے مذھب حنفیت کو خیر آباد کہیں اور اس حدیث پر عمل کریں۔ یاد رہے‬
‫کہ ا گر ہماری بحث ابھی تحقق صحت اور عدم پر نہیں۔۔ بلکہ ہم نے محترم فخر الزماں صاحب کو‬
‫ان کے قاعدے پر ملزم کررہا ہوں۔‬

‫چنانچہ یہ مشہور روایت ہے‪:‬‬

‫علَى َی ِد ِہ ْالیُس َْرى َ‬


‫علَى َ‬
‫صد ِْر ِہ‬ ‫ض َع َیدَہُ ْالی ُْمنَى َ‬
‫سله َم‪َ ،‬و َو َ‬ ‫صلهى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫ص هلیْتُ َم َع َر ُ‬
‫سو ِل ه ِ‬
‫َّللا َ‬ ‫« َ‬

‫صحابی نے رسول ص کے پیچھے نماز پڑھی اور وہ اپنے سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر سینے پر‬
‫رکھتے تھے‬

‫اس حدیث کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬صحیح ابن خزیمہ جلد اول ص ‪٢٤٣‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-1446#page-802 :‬‬

‫نووی نے اس روایت سے استدالل کیا ہے (بقول فخر الزماں استدالل صحت عند المؤلف کی دلیل‬
‫ہے)‬

‫حوالہ‪ :‬شرح مسلم از نووی‪ ،‬جلد ‪ ٤‬ص ‪١١٥‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-826 :‬‬

‫عالمہ ابو الحسن سندھی نے اس روایت کو قابل احتجاج کہا‬

‫حوالہ‪:‬حاشیة السندي على سنن ابن ماجه جلد ‪ ١‬ص ‪٢٧٠‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-9810#page-1007 :‬‬

‫عالمہ امیر یمانی نے اس حدیث سے استدالل کیا ہے‬

‫حوالہ‪ :‬سبل االسالم جلد اول ص ‪٢٥٢‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-21590#page-242 :‬‬

‫عالمہ شوکانی نے اس حدیث سے استدالل کیا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬نیل االوطار جلد دوم ص ‪٢٢٠‬‬


‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-9242#page-597:‬‬

‫عال مہ ابن حجر عسقالنی نے اپنی دو کتب میں اس کو نقل کیا اور سکوت اختیار کیا (درحاآلنکہ‬
‫ہمارے احناف متاخرین کے ہاں ابن حجر کا سکوت بعض کتب میں تحسین پر داللت کرتا ہے)‬

‫حوالہ‪ :‬التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الكبیر‪ ،‬جلد اول ص ‪ ٤٠٥‬اور الدرایة في تخریج‬
‫أحادیث الھدایة جلد اول ص ‪١٢٨‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-21601#page-390 :‬‬

‫تو ہم نے آدھے درجن علماء کو نقل کیا جو اس روایت کی صحت کے قائل آپ کے مبنی کے تحت‬
‫تو کیا آپ بھی اس طرح نماز پڑھیں گے اور سینے پر ہاتھ باندھدیں گے۔۔ یاد رکھئے کہ ہم آپ کے‬
‫مبانی سے متفق نہیں لیکن آپ کو آپ کے مبنی پر ملزم کرنا ہمارا حق ہے۔ اور یاد رہے کہ داللت‬
‫کے اعتبار سے حدیث بہت واضح ہے۔۔ خود احناف علماء نے اس کو شوافع وغیرہ کی ہی دلیل قرار‬
‫دیا ہے۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ اپنا اصول آرام سے توڑیں گے۔ یہ الزامی جواب پیش خدمت‬
‫ہے۔‬

‫‪ ،١٠‬خالصہ بحث۔‬

‫یوں ہماری بحث تمام قارئین کے پیش خدمت ہے جس میں ہم نے معاویہ کا سب کا اثبات خود اہلسنت‬
‫کی کتب سے کیا ہے اور انشاء ہللا اس بار امید کرتے ہیں کہ ہمیں تمام دالئل کے جوابات دئیں جائیں‬
‫فقط حاشیہ اور سائیڈ نوٹ والے کمنٹ نہیں۔‬

‫ختم شد۔‬

‫محترم فخر الزماں صاحب آپ اپنے وقت کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیجئے گا لیکن‬
‫آپ کا جو بھی جواب آئے گا میں جون میں ہی جواب دے سکوں گا۔ کچھ امتحان کی مصروفیات مانع‬
‫ہوں گی جلد جواب دینے میں۔ انشاء ہللا آپ کے جواب کا انتظار رہے گا‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم‪.‬‬


‫اما بعد‬

‫محترم ناظرین آپ نے خیر طلب صاحب کے کمنٹس پڑھے ھونگے‪.‬‬


‫اس بار تو انھوں نے موضوع سے غیر متعلق اور بے مقصد کمنٹس کی حدیں پار کردیں‪.‬‬

‫⏪ ھماری بحث اس بات پر چل رھی تھے کہ ان کا دعوی تھا کہ سیدنا معاویہ رض نے سیدنا علی‬
‫رض کو گالیاں دیتے بھی تھے اور دوسروں کو اس بات کا حکم بھی کرتے تھے‪.‬‬

‫لیکن آپ نے نوٹ کیا ھوگا کہ جناب نے اصل بات کےعالوہ دوسری باتیں بھی کھول دیں ھیں تاکہ‬
‫بات الجھ جائے‪.‬‬
‫ب علی کو قتل کروانے والی بحث‪ ،‬جن کا‬ ‫مثال عمار رض کا اھل شام کے بارے میں نظریہ‪ ،‬اصحا ِ‬
‫واسطہ گالیاں دینے والی بحث سے ھے ھی نھیں‪.‬‬
‫⏪ میرے اصل نقطے سے ھٹ کر یھاں وھاں کی غیر متعلق باتیں بھت کی ھیں‪.‬‬
‫مثال محمد بن اسحاق کی ثقاھت کی بحث‪ ،‬شیعہ ھونا جرع نھیں‪،‬روایت نقل کرنا اس کے صحت کو‬
‫تسلیم کرنے والی بحث‪.‬‬
‫⏪ میں نے بات ختم کرنے اور سلجھانے کے لیے چند سواالت کیے تھے لیکن ان کا جواب دے کر‬
‫بات سلجھانے کے بجائے جواب نہ دے کر الٹا ایک قدم آگے بڑھ کر مجھ سے دلیل کا مطالبہ کرنا‪.‬‬
‫مثال سیدنا علی رض کی فضیلت تسلیم کرنے کے بارے میں میرے سواالت کا انھوں نے جواب نہ‬
‫دے کر کیا‪.‬‬
‫⏪ جناب نے لکھا ھے کہ میں نے لمبے کمنٹ نھیں کیے دالئل پر ھی انحصار کیا ھے‪ ،‬آپ نے‬
‫دعوی‬
‫دیکھ لیا ھوگا کا ان کی یہ بات کتنی صحیح ہے‪ ،‬بحث کسی ایک بات میں اور دالئل وہ جو ٰ‬
‫اور موضوع کے مطابق ھی نھیں‪.‬‬

‫اب آتے ھیں تفصیلی جواب کی طرف‪.‬‬

‫‪1#‬‬
‫مسلم کی روایت پر میں نے جو لکھا اس پر جناب فرماتے ھیں کہ‬

‫محترم ادھر بتحقیق اس ہی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میری دونوں باتوں میں کوئی تناقض نہیں‬
‫کیونکہ روایت میں اگرچہ جس چیز کا حکم ہے وہ بلفظہ موجود نہیں لیکن جو سیاق و سباق اور جو‬
‫دیگر قرائن ہیں وہ تمام اس حکم سب پر ہی داللت کرتے ہیں۔۔۔ اور اس حوالے سے ہم نے آپ کو‬
‫روایت پیش کی تھی جس میں تقریب استدالل یوں تھا کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جائے گا اور‬
‫اگر تعمیل حکم نہ کی جائے تو تو ہمیشہ اس کے متعلق ہی سوال کیا جائے گا۔۔ یعنی یہ تقریب‬
‫استد الل تھا کہ ابوبکر کو حکم نماز دیا گیا اور ابوبکر آگے نہیں بڑھے تو روایت کے جملہ ہے کہ‬
‫رسول ہللا ص نے ابوبکر سے نماز نہ پڑھانے کے متعلق ہی سوال کیا۔۔ یعنی یہ اتنی آسان بات ہے‬
‫کہ ہر کوئی سمجھے گا اور یہی بات میں نے ادھر بھی رکھی کہ جب کسی چیز کا حکم دیا گیا (جو‬
‫روایت صحیح مسلم میں بظاھر موجود نہیں) تو معاویہ کا سوال کرنا اس پر ہی داللت کرتا ھے‪.‬‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬بالکل تناقض ھے آپ کی بات میں‪ ،‬ایک جگہ لکھا کہ حکم واضح ھے اور دوسری جگہ کھہ دیا‬
‫کہ واضح نھیں‪.‬‬
‫یہ تضاد نھیں تو کیا ھے؟‬
‫‪ ،2‬جناب آپ نے سیاق و سباق سے ثابت کر ھی نھیں سکے کہ حکم گالی کا ھی تھا‪ .‬کیونکہ سیاق و‬
‫سباق میں کوئی اسی دلیل نہیں جو سب کے حکم پر داللت کرے‪.‬‬
‫‪ ، 3‬آپ نے جو سیدنا صدیق اکبر رضی ہللا عنہ کی نماز کے حکم والی مثال دی اس پر کالم کر چکا‬
‫ہوں‪ ،‬آپ کو اس کا رد کرنا تھا جو آپ نھیں کرسکے‪.‬‬

‫‪2#‬‬
‫جناب پہر مسلم کی تائید میں مثالیں دیتے ہوئے لکھتے ہیں‬

‫محترم اس تقریب استدالل کو تو میں بتا چکا اور اس پر میں ایک اور مثال آپ کے حضور عرض‬
‫کرتا ہوں کہ ایک آیت مبارکہ میں یوں آیا‪:‬‬
‫قَا َل َما َمنَ َعكَ أ َ هال ت َ ْس ُجدَ إِذْ أ َ َم ْرتُكَ‬
‫سورہ اعراف آیت ‪١٢‬‬
‫ادھر بھی واضح طور پر ثابت ہوا کہ جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کے متعلق ہی سوال ہوتا‬
‫چنانچہ اگر سوال کسی چیز پر موجود ہو اور اس کا حکم پہلے بیان نہ بھی ہو تو جب بھی محاورے‬
‫عرب کے تحت جس چیز کے متعلق سوال ہو اس کے متعلق ہی حکم سمجھا جائے گا۔‬

‫اور اب ایک روایت پیش خدمت ہے جس میں حجاج ایک شخص کو قتل کا حکم دیتا ہے‪( :‬أ َ هن ْال َح هجا َج‬
‫ع ْب ِد ہللاِ بِقَتْ ِل َر ُج ٍل ) اور نہ کرنے کی صورت میں پوچھتا ہے کہ قتل کیوں نہیں کیا (فَقَا َل‬ ‫أ َ َم َر َ‬
‫سا ِل َم بْنَ َ‬
‫لَهُ ْال َح هجا ُج‪َ :‬ما َمنَ َعكَ ِم ْن قَتْ ِل ِه؟) (مالحظہ ہو معجم الکبیر للطبرانی جلد ‪ ١٢‬ص ‪)٣١٢‬۔۔ چنانچہ ادھر‬
‫بھی ثابت ہوا کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جائے گا تو اس ہی کے متعلق سوال ہوگا (اس‬
‫صورت میں اگر اس حکم کی بجا آوری نہ ہو)۔۔ اب اس پر مزید کالم کرنا بیکار ہے اور یوں ثابت‬
‫ہوا کہ ادھر سب ہی کا حکم تھا۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ،1‬جناب آپ کی ان مثالوں کا حال بھی پچھلی مثالوں واال ھے‪ ،‬ان میں بھی حکم واضح موجود ھے‪.‬‬
‫آپ جو مسلم سے دلیل پیش کررھے ھو اس میں کوئی حکم موجود نھیں‪.‬‬
‫آپ کو ایسی مثال پیش کرنی ہے کہ کسی بات کے حکم کا ذکر ھو اور وہ حکم واضح نہ ھو اور‬
‫آگے والے سوال سے وھی حکم مراد ھو جیسا مسلم والی روایت میں ہے‪.‬‬
‫‪ ، 2‬میں نے کھا تھا کہ یھاں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ کسی دوسری بات کا حکم دیا ہے؟ اور یہ‬
‫اصول آپ نے ھی پہلے لکھا تھا کہ إذا جاء االحتمال بطل االستدالل‬
‫تو یہ روایت آپ کے مدعی کی دلیل نھیں بن سکتی‪.‬‬

‫‪3#‬‬
‫عالمہ ابن تیمیہ سے جناب نے سب کے حکم پر استدالل کیا تھا جس کا میں نے جواب دیا تھا‪ ،‬اس‬
‫پر جناب لکھتے ہیں‬
‫محترم ادھر عبارت میں اگر کھیچ تان کے مان بھی لیا جائے کہ یہ شیعی لفظ تھے (بقول آپ کے) تو‬
‫پھر ابن تیمیہ اس کو اس ہی حد تک نقل کرتے بھال ابن تیمیہ کا یہ کہنا‪:‬‬

‫یح ِه‬
‫ص ِح ِ‬
‫ص ِحی ٌح َر َواہُ ُم ْس ِل ٌم فِي َ‬ ‫فَ َھذَا َحد ٌ‬
‫ِیث َ‬

‫محترم۔۔ آپ پیچھے پورا عالمہ حلی کا کالم پڑھ لیجئے وہاں ہرگز ہرگز اس مصدر کا اشارہ ہی نہیں‬
‫بلکہ مجرد نقل روایت ہے اور ابن تیمیہ نے ادھر اس کو ‪ ،١‬صحیح کہا ‪ ،٢‬صحیح مسلم کی طرف‬
‫نسبت کی‬
‫اب بتائے کہ بھال کس طرح اس کو تفہیم ابن تیمیہ کہا نہ جائے جب کہ ابن تیمیہ نقل روایت اور‬
‫مخالف کی نقل روایت پر اتنے سخت تھے کہ ایک بار عالمہ حلی نے روایت نقل کی ( َم ْن َماتَ ‪َ ،‬ولَ ْم‬
‫ام زَ َمانِ ِه َماتَ ِمیتَةً َجا ِھ ِلیهةً) اس کے جواب میں عالمہ ابن تیمیہ نے کہا‪:‬‬
‫ف ِإ َم َ‬
‫یَ ْع ِر ْ‬

‫وز أ َ ْن یُحْ ت َ هج ِبنَ ْق ٍل َ‬


‫ع ِن النه ِب ّ‬
‫يِ ‪-‬‬ ‫ْف َی ُج ُ‬‫ِیث ِب َھذَا ال هل ْف ِظ‪َ ،‬وأَیْنَ ِإ ْسنَادُہُ؟ ‪َ .‬و َكی َ‬
‫یُ َقا ُل َلهُ أ َ هو ًال‪َ :‬م ْن َر َوى َھذَا ْال َحد َ‬
‫سله َم ‪ -‬قَالَهُ؟ َو َھذَا لَ ْو‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلهى ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫ي‪َ -‬‬ ‫ق الهذِي بِ ِه یَثْبُتُ أ َ هن النهبِ ه‬ ‫ان ه‬
‫الط ِری ِ‬ ‫غی ِْر بَیَ ِ‬ ‫سله َم ‪ِ -‬م ْن َ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلهى ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫َ‬
‫ف؟‬ ‫ْف َو َھذَا الْ َحد ُ‬
‫ِیث بِ َھذَا الله ْف ِظ َال یُ ْع َر ُ‬ ‫َكانَ َمجْ ُھو َل ْال َحا ِل ِع ْندَ أ َ ْھ ِل ْال ِع ْل ِم بِ ْال َحدِیثِ‪ ،‬فَ َكی َ‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة‪ ،‬جلد اول ص ‪١١٠‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم ادھر تو ابن تیمیہ نے سخت ڈانٹ پالئی ہے کہ الفاظ روایت میں کوتاہی کی تو بھال یہ‬
‫طرز فکر صحیح مسلم والی بات میں کیوں نہیں۔۔۔ محترم مان لیں کہ ابن تیمیہ کی تفہیم بھی ہمارے‬
‫موافق ہے حکم سب کے عنوان سے۔۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬خیر طلب صاحب جواب دینے سے پہلے آپ کو سوچنا چاہیے تھا کہ مسلم کی روایت کی سند پر‬
‫ھماری بحث چل رھی ھے یہ متن و الفاظ پر؟‬
‫ھماری بحث سند پر نھیں جو آپ نے سند کی مثالیں عالم ابن تیمیہ سے دینا شروع کردی ھیں‪.‬‬
‫ایسی مثال دیں جس میں ابن مطھر نے متن میں غلطی کی ھو اور اس غلطی کا تعلق زیر بحث‬
‫مسئلے سے بھی نہ ھو پہر بھی عالمہ ابن تیمیہ نے ابن مطھر کو ٹوکا ھو‪.‬‬
‫‪ ، 2‬اور عالمہ ابن تیمیہ نے مسلم کی حدیث کو سند کے اعتبار سے صحیح کھا ھے‪ ،‬یہ نھیں کھا کہ‬
‫واقعی معاویہ رضی ہللا عنہ نے گالی کا حکم دیا تھا‪.‬‬
‫آپ کا استدالل عالمہ ابن تیمیہ کے کالم سے اپنے حکم سب والے مطلب پر تھا نہ کہ مسلم کی‬
‫روایت کی توثیق پر‪.‬‬

‫‪4#‬‬
‫جناب نے عالمہ ابن تیمیہ سے ایک قول پیش کیا تھا جس پر میں نے کھا تھا کہ یہ الزامی بات کی‬
‫ھی عالمہ ابن تیمیہ نے‪ ،‬اس پر جناب لکھتے ہیں‬

‫محترم ادھر آپ خود تضاد کا شکار ہورہے ہیں کہ آپ لکھتے ہیں‪:‬‬


‫پہلی بات‪ :‬ابن مطھر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی امامت ثابت کرنے کے لیے یہ لکھا تھا کہ‬
‫سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو موافقین و مخالفین دونوں برا بھال نھیں کھتے‪.‬‬

‫دوسری بات‪ :‬شیعہ یہ بات مانتے ھیں کہ صحابہ کرام سیدنا علی رضی ہللا عنہ پر لعنتیں کرتے ھیں‪،‬‬
‫تو اسی کے مطابق شیعہ کو جواب دیا نہ کہ اپنا موقف بیان کیا‪.‬‬

‫محترم کیا ابن مطہر شیعہ نہیں۔۔ اگر ابن مطہر یہ کہتے تھے کہ صحابہ امیر المؤمنین ع کو برا بھال‬
‫نہیں کہتے (ج یسا آپ کا زعم ہے) تو پھر یہ الزامی جواب بن ہی نہیں سکتا ہے کہ صحابہ برا بھال‬
‫کہتے تھے۔۔ بلکہ اس کو تحقیقی جواب کہیں گے کہ دیکھو صحابہ تو امیر المؤمنین ع کو برا بھال‬
‫کہتے تھے تو تمہاری دلیل ٹوٹ گئی۔۔ الزامی جواب وہ ہوتا ہے جس کو خصم مانتا ہو اور خود آپ‬
‫کے اقرار کے مطابق خصم ابن مطہر الحلی کی دلیل ہی یہی تھی کہ صحابہ کو مخالفین و موافقین‬
‫دونوں برا نہیں کہتے تھے۔‬

‫دوسرا نقد آپ کے جواب پر یہ ہے کہ بھال الزامی جواب کہنا اس وقت درست ہوتا جب خود عالمہ‬
‫حلی امیر المؤمنین ع کو برا بھال کہنے والوں کو بہتر جانتے ہوتے بمقابلہ ان افراد کہ جو عثمان کو‬
‫برا بھال کہتے تھے۔۔ ہر شیعہ امیر ع پر سب کرنے والوں کو عثمان پر سب کرنے والوں کے مقابلہ‬
‫میں ہی نہیں سمجھتا ی عنی ہم تو امیر ع پر سب کرنے والوں کو دیندار تو دور کی بات ہے اصال‬
‫مومن ہی نہیں سمجھتے۔۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬جناب یہ میرا گمان نھیں کہ ابن مطھر کا یہ نظریہ تھا کہ صحابہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا‬
‫نھیں کھتے تھے‪ ،‬وہ تو آپ کے ابن مطھر نے خود اس بات کو سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے امام‬
‫ھونے پر دلیل بنایا تھا کہ‬
‫ان کو مخالفین و موافقین دونوں برا نھیں کھتے ھیں اس لیے یہ امام ھیں‪.‬‬
‫اس کے رد میں عالمہ ابن تیمیہ نے الزامی جواب دیا ان کے مسلمات سے کہ شیعہ تو خود شور‬
‫مچاتے ھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو منبروں پر گالیاں دی جاتی تھے‪.‬‬
‫تو اس طرح ابن مطھر کی دلیل توڑی ھے عالمہ صاحب نے‬
‫جاری ھے‪...‬‬

‫‪5#‬‬
‫‪ ، 2‬کیا آپ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ شیعوں کا یہ نظریہ ھے کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ اور‬
‫باقی شامی سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے اور دلواتے تھے؟‬

‫اگر انکار کرتے ہیں تو بتائیں میں شیعہ کتب سے حوالے بھیجوں؟‬
‫اگر یہ بات مانتے ھیں تو پہر عالمہ ابن تیمیہ کا جواب شیعہ مسلمات کے مطابق ھوا کہ نھیں؟‬
‫‪ ، 3‬جناب یھاں صرف ابن مطھر کی اس بات کو توڑنے کے لیے عالمہ ابن تیمیہ نے الزام دیا ھے‬
‫کہ موافقین و مخالفین سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا نہیں کھتے تھے‪.‬‬
‫اتنا تو الزامی آپ مانتے ہیں نہ؟‬
‫بس جب یھاں سے ابن مطھر کا استدالل باطل ھوا تو اب آگے الزام کی کیا ضرورت؟‬

‫‪6#‬‬
‫عالمہ ابن تیمیہ کی دوسری عبارت کہ‬
‫اھل صفین میں سے بعض ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے‬
‫اس پر میری جواب پر جناب لکھتے ہیں‬

‫محترم ادھر ابن تیمیہ نے اس بات کا انکار ہی کب کیا۔۔ ادھر دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں کہ ابن جوزی‬
‫اور دیگر اہل علم اف اہلسنت اس بات کے قائل تھے کہ اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کیا کرتے‬
‫تھے اور ابن تیمیہ اس کا رد کرتے ہیں یا وہ نقل کرکے سکوت کرتے ہیں۔۔ دونوں صورتوں میں کم‬
‫سے کم اتنا تو ثابت ہوگا کہ بقول آپ کے ابن جوزی اور دیگر اہل علم اف اہلسنت اس بات کے مقر‬
‫تھے کہ اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے اور یہی ہمارا مقصود ہے کہ خود علمائے‬
‫اہلسنت اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ لعنت روا تھی۔۔ اور چونکہ ابن تیمیہ نے اس کا رد نہیں کیا تو‬
‫خود امام اہلسنت سرفراز صفدر کے مطابق ان کی موافقت ہی سمجھی جائے گی اور ان کی عبارت‬
‫قرار دینا صحیح ہوگا۔۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬ابن جوزی اور چند اور لوگ اگر بالفرض قائل بھی ھوں تو اھل السنت کے مسلک پر کوئی فرق‬
‫نہیں پڑتا‪ ،‬اگر چند لوگ اس جھوٹے پروپیگنڈے میں آگئے تو کوئی نئی بات نہیں‪.‬‬
‫‪ ، 2‬عالمہ ابن تیمیہ یھاں کسی کا رد نہیں کر رھے بلکہ یزید کے بارے میں مختلف نظریات نقل‬
‫کررھے ھیں‪ .‬خود عالمہ صاحب لکھتے ہیں‬
‫ق‪ِ :‬ف ْرقَةٌ لَ َعنَتْهُ َو ِف ْرقَةٌ أ َ َحبهتْهُ َو ِف ْرقَةٌ َال ت َ ُ‬
‫سبُّهُ َو َال ت ُ ِحبُّهُ‬ ‫ث ُ هم ا ْفت ََرقُوا ث َ َال َ‬
‫ث ِف َر ٍ‬
‫مجموع الفتاوی ج‪ 4‬ص ‪483‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-7289/page-1807#page-1805‬‬

‫یعنی یزید کے بارے میں تین فرقے ھیں‪ .‬ایک اس کو لعنت کرنے واال‪ ،‬ایک محبت کرنے واال اور‬
‫ایک نہ گالی دیتا ہے اور نہ محبت کرتا ہے‪.‬‬

‫تو یھاں عالمہ صاحب رد کرنے کے لیے نھیں صرف ان کا ذکر کر رھے ھیں‪،‬رد کسی کا نھیں کیا‬
‫انھوں نے‪.‬‬
‫‪ ، 3‬شیخ سرفراز رح کا حوالہ آپ کے لیے سودمند نھیں کیونکہ عالمہ صاحب رد کرنے کے لیے‬
‫نھیں بلکہ تعارف کے لیے نقل کررھے ھیں‪.‬‬
‫ھاں رد کے مقام پر التے پہر رد نہ کرتے تو شیخ سرفراز رح کا حوالہ فٹ ھوسکتا تھا‪.‬‬

‫مجموع الفتاوى • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪7#‬‬
‫آگے جناب لکھتے ہیں‬
‫ابن تیمیہ کا اس پر سکوت کرنا بالکل صحیح بنتا ہے کیونکہ یہ بات روایت صحیح سے ثابت ہے۔‬
‫اب ہم امیر المؤمنین ع کا جو طریقہ کار تھا اس کو نقل کرتے ہیں۔۔ یعنی امیر المؤمنین ع معاویہ‪،‬‬
‫عمرو بن عاص اور دیگر افراد پر ہللا تعالی کے حضور بددعا کرتے تھے۔ چنانچہ المصنف میں‬
‫روایت یوں درج ہے‪:‬‬
‫عبدالرحمان بن معقل فرماتے ہے کہ میں نے امیر المؤمنین ع کے ساتھ نماز پڑھی۔۔ تو امیر ع نے‬
‫اپنے قنوت میں یہ بددعا کی‪:‬‬

‫اللھم علیك بمعاویة وأشیاعه ‪ ،‬وعمرو بن العاص ‪ ،‬وأشیاعه ‪ ،‬وأبا السلمي وأشیاعه ‪ ،‬وعبد ہللا بن قیس‬
‫وأشیاعه‪.‬‬

‫اے ہللا۔۔ معاویہ اور اس کے شیعوں۔ عمرو بن عاص اور اس کے شیعوں‪ ،‬ابو سلمی اور اس کے‬
‫شیوں‪ ،‬عبدہللا بن قیس اور اس کے شیعوں کے خالف تجھ سے طلب کرتا ہوں۔‬

‫المصنف في اْلحادیث واآلثار‪ ،‬جلد دوم ص ‪١٠٨‬۔‬


‫اور اسی طرح بیھقی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہے‪:‬‬
‫عبدالرحمان بن معقل فرماتے ہے کہ امیر المؤمنین ع اپنی نماز مغرب کے قنوت میں بعض افراد اور‬
‫ان کے شیعوں پر بددعا کرتے تھے اور ان کا قنوت پہلی رکعت کے بعد ہوتا تھا۔‬
‫حوالہ‪ :‬سنن البیھقی‪ ،‬جلد دوم ص ‪٢٤٥‬۔‬
‫محقق زكریا بن غالم قادر نے اس روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬ما صح من اثار الصحابة في الفقه‪ ،‬جلد اول ص ‪٤٠٩‬‬


‫بطور شاہد ایک مزید روایت نقل کئے دوں جس میں لکھا ہے‪:‬‬

‫‪ :‬أن علیا لما بلغه ما فعل عمرو كان یلعن في قنوته معاویة ‪ ،‬وعمرو بن العاص ‪ ،‬وأبا اْلعور السلمي ‪،‬‬
‫وحبیب بن مسلمة ‪ ،‬والضحاك بن قیس ‪ ،‬وعبد الرحمن بن خالد بن الولید ‪ ،‬والولید بن عتبة‪.‬‬

‫جب علی کو پتا چال کہ عمرو بن عاص نے کیا کیا‪ ،‬تو امیر المؤمنین ع معاویہ‪ ،‬عمرو بن عاص‪ ،‬ابو‬
‫االعور السلمی‪ ،‬حبیب بن مسلمہ‪ ،‬ضحاک بن قیس‪ ،‬عبدالرحمان بن خالد بن ولید‪ ،‬ولید بن عتبہ اور ان‬
‫کے شیعوں پر لعنت کیا کرتے تھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬البدایة والنھایة‪ ،‬جلد ‪ ١٠‬ص ‪٥٧٥‬‬

‫لہذا ثابت ہوا کہ امیر المؤمنین ع معاویہ‪ ،‬عمرو بن عاص وغیرہ پر بددعا کیا کرتے تھے۔۔ اب‬
‫سوچئے جس پر آپ کے خلیفہ چہارم کی بہترین سی بددعا اس کے بارے میں نیک دعا کرنا کیسے؟‬
‫جواب‬
‫‪ ، 1‬ناظرین آپ کو یاد ھوگا کہ بات یہ چل رھی تھی سیدنا معاویہ رض سیدنا علی رض کو گالیاں‬
‫دیتے تھے‪.‬‬
‫آپ دیکھیں کہ خیر طلب صاحب اب کیا پیش کر رھے ھیں‪.‬‬
‫پہر مجھے کھتے ھیں کہ نھیں میں موضوع کے مطابق دلیل دے رھا ھوں‪.‬‬
‫اب ناظرین ھی بتائیں کہ کیا یہ موضوع چل رہا ہے؟‬
‫دعوی کے مطابق نھیں‪.‬‬
‫تو یہ بات آپ کے ٰ‬

‫جاری ہے‪.......‬‬

‫‪8#‬‬
‫‪ ، 2‬جناب نے لعنت ثابت کرنے کے لیے نماز میں قنوت والی روایت پیش کی ھے‪.‬‬
‫خود انھوں نے ترجمہ بھی لعنت کا نھیں کیا بلکہ یہ کیا ھے کہ‬
‫"تجھ سے طلب کرتا ہوں"‬
‫دعوی کے مطابق دلیل ھی نھیں‪.‬‬‫تو آپ کے ٰ‬
‫‪ , 2‬بیھقی کی روایت میں سلمہ بن کھیل راوی شیعہ ھے‪.‬‬
‫سیر إعالم النبالء تھذیب التھذیب وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں‪.‬‬
‫تھذیب التھذیب کا لنک دیکھیں‬
‫‪shamela.ws/browse.php/book-3310#page-1698‬‬

‫شیعوں کے شیخ طوسی نے رجال الطوسی میں اسے امام جعفر صادق رح کے اصحاب میں شمار‬
‫کیا ھے‬

‫‪/...shiaonlinelibrary.com/.../2935//:‬الصفحة_‪...205‬‬

‫اور یہ اصول تو آپ کو اچھے طریقے سے پتا ھے کہ شیعہ کی روایت اس کی تائید میں قبول نہیں‪.‬‬
‫برائے مہربانی اب سلمہ بن کھیل کی توثیقات مت بھیج دینا آپ‪ ،‬جو حال اور فالتو بحث آپ نے محمد‬
‫بن اسحاق کے بارے میں چھیڑ دی ھے‪ .‬اور اس روایت کی صحت پر بھی بحث کی کوشش مت‬
‫کرنا آپ کیونکہ اس کی صحت پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا میں نے‪ .‬کیونکہ میں اس کی ثقاھت‬
‫پر جرح نھیں کررھا‪.‬‬
‫اصل نکتے پر بحث کر سکتے ہیں تو کریں‪ ،‬یھاں وھاں کی بات کر کے اپنا اور میرا وقت ضائع مت‬
‫کریں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬البدایہ کی روایت کا حال تو آپ سے بھی چھپا ھوا نھیں‪ .‬اس میں ابو مخنف ھے جو کذاب‪،‬‬
‫رافضی ھے‪.‬‬
‫تو البدایہ کی روایت قابل استدالل نھیں‪.‬‬
‫‪ ، 4‬آپ نے البدایہ والی کو بطور شاھد کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے‪.‬‬
‫شاھد تو تب ھوتا جب متن ایک ھوتا دونوں کا‪ ،‬البدایہ کی تو متن میں بھی فرق ھے تو یہ شاھد‬
‫کیسے ھوسکتا ھے؟‬
‫البدایہ کی روایت میں لعنت کا ذکر ھے اور اوپر والی میں نھیں‪.‬‬

‫تھذیب التھذیب • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪9#‬‬
‫عالمہ ابن تیمیہ کی تیسری عبارت پر میرے جواب کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں‬

‫محترم ادھر استدالل اس عنوان سے ہے کہ یہ معاملہ معاویہ کی نگرانی ہوتا تھا اور معاویہ نے اس‬
‫پر نکیر نہیں کی کیونکہ خود ایک حوالے سے میں ثابت کرچکا ہوں کہ شیعان عثمان معاویہ کی‬
‫رعیت ہی میں تھے اور اگر رعیت میں منکر کام ہوں اور کوئی مصلحت بھی سکوت کا نہ ہو اس‬
‫کے باوجود اس پر نکیر نہ کی جائے تو یہ محل اشکال ہوگا۔ دیکھئے اس عبارت کو خود ابن تیمیہ‬
‫کی دوسری عبارت کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ فہم پر زیادہ زور لگانا نہ پڑے اور بات آسانی‬
‫سے واضح ہوجائے۔‬

‫ابن تیمیہ اپنی منھاج السنتہ میں ایک اور جگہ رقم طراز ہے‪:‬‬

‫عمومی عنوان سے بتحقیق صحابہ اور تابعین ابوبکر اور عمر سے مودت رکھتے تھے درحاآلنکہ‬
‫وہ بہترین زمانے والے افراد تھے لیکن حضرت علی کے ساتھ ایسا معاملہ نہ تھا کیونکہ بالشک و‬
‫شبہ کافی سارے صحابہ اور تابعین حضرت علی سے بغض رکھتے تھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ‪٧‬‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬جناب آپ نے یہ تو لکھ دیا کہ یہ کام معاویہ رضی ہللا عنہ کی نگرانی میں ھوتا تھا لیکن کوئی‬
‫ثبوت پیش نھیں کیا‪ ،‬اگر رعیت میں کسی کام کا ھونا سربراہ کی نگرانی کھالتا ھے تو پہر وھی‬
‫سواالت یاد رکھیں کو پچھلی بار کرچکا ھوں میں‪.‬‬
‫گھما پہرا کر وھی بات کردی آپ نے تو میں نے بھی گھما پہرا کر وھی جواب دے دیا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬رھی بات سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے سکوت کی‪ ،‬تو یہ بھی غلط‪ ،‬ان کے سامنے کسی نے‬
‫سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا بھال کہا تو انھوں نے اسے روکا‪.‬‬
‫بقیہ اگلے کمنٹ میں‪...‬‬

‫‪10#‬‬
‫بقیہ‪...‬‬
‫سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے پاس بسر بن ارطاة اور زید بن عمر بیٹھے تھے‪ ،‬بسر بن ارطاة نے‬
‫سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے خالف کچھ کھا تو زید بن عمر نے ڈنڈا اٹھا کر بسر کا مارا‪.‬‬
‫ض َر ْبتَهُ! َوأ َ ْق َب َل َ‬
‫علَى بسر فقال‪ :‬تشم َ‬
‫ع ِلیًّا‬ ‫سیه ِد أ َ ْھ ِل ال ه‬
‫ش ِام فَ َ‬ ‫ْخ ِم ْن قُ َری ٍْش َ‬ ‫فَقَا َل ُم َعا ِو َیةُ ِلزَ ْیدٍ‪َ :‬‬
‫ع َمدْتَ ِإلَى َ‬
‫شی ٍ‬
‫َوھ َُو َجدُّہ‬
‫طبری ج‪ 5‬ص ‪335‬‬
‫معاویہ رض نے زید سے کھا کہ تم نے قریش کے ایک بزرگ اور شامیوں کے سردار کو مارا‬
‫ھے؟ اور بسر کی طرف متوجہ ھو کر کھا کہ تم علی رضی ہللا عنہ کو برا کھہ رھے ھو جو زید کا‬
‫نانا ھے؟‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-9783/page-2797#page-2795‬‬

‫واضح طور پر روک رھے ھیں معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا کھنے پر‪.‬‬
‫‪ ،3‬رھا عالمہ ابن تیمیہ کا حوالہ تو اس کا بھی حال وھی ھے جو پچھلے حوالے آپ عالمہ ابن تیمیہ‬
‫کے نقل کر چکے ہیں سیاق و سباق سے کاٹ کر‪.‬‬
‫یھاں آپ کے عالمہ ابن مطھر حلی کی بات کا رد کرنے کے لیے لکھا بطور الزاما ً نہ کہ بطور‬
‫عقیدے کے‪.‬‬
‫کبھی چند صفحات آگے پیچھے بھی دیکھ لیا کریں تاکہ آپ کو پتا چلے عالمہ ابن تیمیہ کے لکھنے‬
‫کا انداز و طریقہ‪.‬‬

‫تاریخ الطبري = تاریخ الرسل والملوك‪ ،‬وصلة تاریخ الطبري • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬
‫‪11#‬‬
‫جناب لکھتے ہیں‬

‫محترم اب شیعان عثمان جن میں یقینا کچھ صحابہ بھی شامل تھے اور جن کا سربراہ معاویہ تھا۔ اس‬
‫کو دیکھئے اس عبارت کی روشنی میں کہ کافی سارے صحابہ اور تابعین امیر ع سے بغض رکھتے‬
‫تھ ے تو سمجھ آجائے گا کہ ادھر معاویہ بھی مراد ہے۔ خیر تطبیق کی صورت اب آپ کے ذمہ میں‬
‫ہے‬

‫اور اب ایک اور قول کو میں پیش کرتا ہوں تاکہ پوری بحث ہی کا خاتمہ کردیا جائے۔ ابن تیمیہ‬
‫کہتے ہے‪:‬‬

‫اور ابن مطہر کا جہاں تک امیر المؤمنین پر لعن کا ذکر کرنا ہے تو یہ دونوں گروہوں کی طرف‬
‫سے جنگ میں ایک دوسرے کے حق میں واقع ہوئی تھی۔۔ چنانچہ یہ حضرات دوسرے کے‬
‫سرداروں پر لعنت کرتے اور دوسرا گروہ پہلے کے سردراوں پر بددعا کرتے اور یہ بھی کہا گیا کہ‬
‫ہر ایک گروہ دوسرے پر قنوت (نازلہ) پڑھتا تھا۔۔ (خیر) جنگ تو بہرحال منہ سے لعنت سے زیادہ‬
‫بڑی چیز ہے اور یہ تمام چیزیں اگرچہ گناہ کے عنوان سے ہوں یا اجتہاد کے عنوان سے۔۔ خطا کار‬
‫ہوں یا حق پر ہوں۔۔ ان تمام صورتوں میں ہللا کی مغفرت اور رحمت ان تمام کو توبہ‪ ،‬اچھے اعمال‬
‫اور مصائب و پریشانی وغیرہم کے ذریعے ختم کردیتی ہے‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ‪ ٤‬ص ‪٤٦٨‬‬
‫تبصرہ‪ :‬کیا فرمائیں گے محترم۔۔ ادھر تو فیصلہ ہی کردیا۔۔‬
‫جواب‬
‫‪ ، 1‬بعض صحابہ تو واقعی سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کے شیعوں میں تھے لیکن ان سے لعنت ثابت‬
‫کرنا آپ کے بس کی بات نھیں‪ .‬کیونکہ جھوٹ کبھی سچ ثابت نھیں ھوسکتا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬رعایہ والی بات دوبارہ کرکے ان سواالت کی طرف مجھے اشارے کا موقعہ دیا آپ نے جو میں‬
‫نے اس بات پر آپ سے کیے تھے جو اب تک الجواب ھیں‪.‬‬
‫دوبارہ وہ سواالت دیکھ لیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬عالمہ ابن تیمیہ کی بات آپ کی سمجھ سے باالتر ھے آپ ان کی عبارتیں سیاق و سباق سے کاٹ‬
‫کر پیش کر کے اپنے علمی گھرائی ھمارے سامنے واضح کررھے ھو‪.‬‬
‫یھاں بھی عالمہ ابن تیمیہ ابن مطھر کی بات کا رد کررھے ھیں جو یہ رونا رو رہا ھے کہ معاویہ‬
‫رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو لعنتیں کرتے تھے‪.‬‬
‫تو عالمہ صاحب نے اسی کے نظریے کے مطابق لکھا کہ یہ کام تو علی رضی ہللا عنہ والے بھی‬
‫کرتے تھے‪.‬‬
‫اگر معاویہ رضی ہللا عنہ کا لعنت کرنے سے گناہگار ھوئے تو علی رضی ہللا عنہ بھی‪ ،‬اگر علی‬
‫رضی ہللا عنہ کا دوسروں پر لعنتیں کرنا اجتہادی مسئلہ تھا تو پہر معاویہ رضی ہللا عنہ کا بھی یہ‬
‫عمل اجتہادی ھوا‪.‬‬

‫‪13#‬‬
‫‪ ،2‬صاحب الریاض نے کافی احادیث اپنے اصل الفاظ کے ساتھ نقل نھیں کیں‪.‬‬
‫جس روایت پر ھماری بحث ھے اسے کے مسلم والے اصل الفاظ اور صاحب ریاض النضرة کے‬
‫نقل کردہ الفاظ کا تقابل کرتے ہیں‪.‬‬
‫دیکھیں‪..‬‬
‫‪ ،1‬مسلم کے اصل الفاظ‬
‫امر معاویہ سعدا فقال ما منعک ان تسب ابا تراب‬
‫اور صاحب ریاض النضرة نے‬
‫امر معاویہ سعدا ان یسب ابا تراب کردیا‬
‫‪ ،2‬مسلم میں ھے‬
‫ان تکون لی واحدة منھن‬
‫صاحب ریاض نے‬
‫تکون کو یکون‬
‫اور‬
‫لی کو فی کردیا‬
‫‪ ،3‬مسلم میں ھے‬
‫فقال لہ علی یا رسول ہللا خلفتنی‬
‫اور‬
‫ریاض النضرة میں یا رسول ہللا بھی غائب اور خلفتنی ماضی کو تخلفنی مضارع سے بدل دیا‪.‬‬
‫بات سمجھنے کے لیے اتنی مثالیں کافی ھیں‪.‬‬
‫اب اس کتاب سے آپ مسلم والی روایت سے اپنا سمجھا ھوا مطلب کیسے اخذ کرسکتے ہیں جس نے‬
‫خود اختصارا ً روایت نقل کی ھیں اور اصل الفاظ بھی نھیں لکھے؟‬
‫‪ ، 3‬مال علی قاری نے بھی ریاض النضرة سے ھی نقل کیا جس کی حقیقت آپ نے دیکھ لی‪.‬‬

‫‪14#‬‬

‫جناب نے شاہ عبدالعزیز دہلوی رح کا حوالہ پیش کیا کہ‬

‫مسلم اور ترمذی میں حدیث شریف کا یہ لفظ ہے کہ معاویہ بن ابوسفیان ن سعد بن ابی وقاص سے‬
‫کہا کہ‪:‬‬

‫مامنعک ان تسب اباتراب‪ :‬یعنی کس امر نے تم کو باز رکھا برا کہنے سے ابوتراب کے۔‬

‫بعض طرف دار معاویہ بن ابی سفیان کے اس لفظ کی تاویل کرتے ہیں ور کہتے ہیں کہ‪:‬‬

‫حضرت معاویہ کی مراد یہ تھی کہ کس واسطے حضرت علی المرتضی رض کے ساتھ تم سخت‬
‫کالمی نہیں کرتے اور تم نہیں سمجھاتے کہ قاتالن حضرت عثمان رض کی طرف داری سے وہ‬
‫دست بردار ہوجائیں۔ اور ان پر قصاص جاری کرنے کے لئے ان کو ہمارے سپرد کردیں۔‬

‫لیکن اس توجیہ میں دو خدشے ہوتے ہیں۔ ایک خدشیہ یہ ہوتا ہے کہ اس مضمون میں الزم آتا ہے کہ‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجھہ کے زمانہ حیات میں یہ گفتگو ہوئی اور تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫حضرت معاویہ رض کے ساتھ سعد رض کی مالقات نہیں ہوئی۔ اس واسطے کہ سعد ابتداء فتنہ سے‬
‫موضع عقیق میں جو کہ مدینہ منورہ سے باہر ہے گوشہ نشین رہے۔ اور ان ایام میں مدینہ منورہ میں‬
‫حضرت معاویہ کے آنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔۔۔الخ‬

‫حوالہ‪ :‬فتاوی عزیزی ص ‪٢٣٩-٢٣٨‬‬

‫جواب‬
‫‪ ، 1‬فتاوی عزیزی میں الحاقیات ھیں جس کو ھمارے علماء واضح کرچکے ھیں‬
‫ا‪ ،‬شیخ العرب و العجم سید حسین احمد مدنی رح کی مکتوبات ج‪ 4‬مکتوب نمبر ‪ 171‬ص ‪367 ،366‬‬
‫پر حضرت نے اس کو واضح کیا ھے‪.‬‬
‫ب‪ ،‬حضرت قاضی مظھر حسین رح نے خارجی فتنہ ج ‪ 2‬ص ‪ 102 ،101‬پر واضح کیا ھے‪.‬‬
‫تو فتاوی عزیزی کا جو حوالہ مسلک اھل السنت کے خالف ھوگا وہ قبول نھیں کیا جائے گا‪.‬‬
‫‪ 2‬شاھ عبد العزیز رح نے تحفہ اثنا عشری میں سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ پر اس الزام کا دفاع کیا‬
‫ھے‪.‬‬

‫تحفہ اثنا عشری ص ‪ 749‬پر اھل صفین کے بارے میں لکھتے ہیں‬
‫⏪ جو آیات و احادیث صحابہ و مومنین کے بارے میں ھیں ان میں ان کو شامل کرتے ھیں اور ان‬
‫کی نجات کا لکھتے ہیں‪.‬‬
‫⏪ سب و شتم اور لعن طعن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ معتبر روایات سے ثابت نھیں‪.‬‬
‫بات واضح ھوگئی اور آپ کا استدالل باطل ھوا‪.‬‬

‫میں مکتوبات شیخ االسالم اور تحفہ اثنا عشری کے اسکین لگا رھا ھوں‪.‬‬
‫‪15#‬‬
‫پہر آگے ایک اور حوالہ دیا کہ‬

‫معاصر عالم دین موسی شاہین نے اس سے حکم سب ہی مراد لیا ہے اور نووی کی تاویل کو باطل‬
‫قرار دیا‪ ،‬چنانچہ نووی کی تاویل کو نقل کرکے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫اور یہ تاویل زیادہ مشکل اور بعید ہے اور جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ معاویہ نے (سعد کو)‬
‫علی ع پر سب کا حکم دیا‪ ،‬اور معاویہ معصوم نہیں بلکہ اس سے خطا صادر ہوئی لیکن ہم پر واجب‬
‫ہے کہ اصحاب رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی تنقیص نہ کریں۔ اور ہماری روایات میں معاویہ کا‬
‫سب علی کرنا بہت بالکل صریح (واضح) ہے‬

‫حوالہ‪ :‬فتح المنعم‪ ،‬جلد ‪ ٩‬ص ‪٣٣٢‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم ہم نے آپ کو دو مزید حوالے دئے ہیں صرف اس حدیث کی تشریح پر‪ ،،‬ماضی میں‬
‫آپ کو ابن تیمیہ‪ ،‬محب ہللا طبری اور مال علی قاری کے دئے تھے چناچنہ ہماری تفہیم اور آپ کی‬
‫تاویل علیل کا رد خود آپ کے علماء کے کالم سے ثابت ہے‬
‫جواب‪.‬‬
‫آپ کے پہلے حوالوں کا حال آپ نے دیکھ لیا ھوگا اب اس کا حال بھی دیکھ لیں‪.‬‬

‫‪ ،1‬موسی شاہین پہلے تو خود لکھ رھے ھیں کہ‬


‫المأمور به محذوف‪ ،‬لصیانة اللسان عنه‬

‫پہر آگے لکھتا ھے‬

‫ویحاول النووي تبرئة معاویة من ھذا السوء‪،‬‬


‫یعنی پہلے لکھا کہ زبان کو بچانا ھے صحابہ کے بارے میں‪ ،‬پہر آگے خود برے کام کی نسبت‬
‫صحابی کی طرف کردی‪.‬‬

‫‪ ،2‬موسی شاہین جس بنیاد پر امام نووی رح کی تاویل کو بعید کھیل رہے ہیں کہ معاویہ رض کا گالی‬
‫دینا ثابت ھے‪ ،‬اس کی کوئی دلیل نھیں دی‪.‬‬
‫خود اھل السنت علماء کے بھی خالف ہے ان کی بات یہ بات‪.‬‬
‫بعید تو ان کی بات ھوئی نہ کہ امام نووی رح کی‪.‬‬

‫‪ ،3‬آج تک کے معتبر علماء امام نووی کی تاویل کو تسلیم کرتے آرھے ھیں اور ‪ 700‬سال کے بعد‬
‫یہ تاویل غلط ھوگئی‪.‬‬
‫ماشاءہللا‬
‫اتنے علماء کے مقابلے میں آج کل کے کسی عالم کی بات نھیں مانی جائے گی‪.‬‬

‫‪16#‬‬
‫پہر جناب لکھتے ہیں‬

‫محترم یہ قیاس مع الفارق نہیں بلکہ اظہار حقیقت ہے کہ دشمن کا فضیلت کا انکار کرنا بلکہ خود‬
‫تعریف کرنا بھی اس کا اس شخص کے حوالے سے اچھے سلوک کی گارنٹی نہیں۔۔۔ آپ نے میری‬
‫کسی دلیل کا جواب نہیں دیا اور جو اقوال میں نے پیش کئے کہ تعریف وہ جو دشمن کرے اس پر‬
‫بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔۔ کیا آپ لوگ ثناء ہللا امرتسری کی جو تعریف کرتے ہیں تو کیا وہ ان کو‬
‫مسلک اہلسنت دیوبند کا ساتھی بنادیتا ہے؟‬

‫دیکھئے تحریک ختم نبوت کے گرانقدر شخصیت موالنا ہللا وسایا تقدیم میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫قدرت نے آپ (یعنی امرتسری از ناقل) کو فتنہ قادیانیت کے استیصال کے لئے ہی پیدا کیا تھا۔ (ص‬
‫‪)٤‬‬

‫ایک مناظر اسالم اور فاتح قادیان ( ص ‪)٧‬‬


‫حوالہ‪ :‬احتساب قادیانیت‪ ،‬جلد ‪ ٨‬ص ‪٧-٤‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم کیا آپ کو ایک غیر مقلد جو بقول آپ لوگوں کے مرزائیوں کے پیچھے نماز کو‬
‫صحیح سمجھتا تھا اس کو مناظر اسالم اور فاتح قادیان تسلیم کریں گے تو تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ‬
‫آپ لوگ بالکل معاویہ کی طرح ہے جو آپ کے مبانی کے تحت کسی کی تعریف کا بھی معتقد ہو‬
‫اور اسی طرح وہ پھر برائیاں بھی کرتا ہو۔ جو جواب ادھر وہی ہمارا‪ ،‬آپ مزید اس پر لکھنا بیکار‬
‫ہے۔‬

‫جواب‬
‫‪ ، 1‬آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی صحابی کو اس طرح ماننا ھوتا ھے جس طرح‬
‫قرآن و احادیث میں بتایا گیا ہے ؟‬
‫ضرور بتانا آپ‪.‬‬
‫‪ .، 2‬رھا موالنا ہللا وسایا کا حوالہ تو یہ بات واضح ھے کہ اگر کسی میں کوئی بات قابل تعریف‬
‫ھوگی تو اس کا اقرار کیا جائے گا‪.‬‬
‫لیکن کسی صحابی کے بارے میں اس کے قرآن و احادیث سے ثابت شدہ فضائل ماننے واال اس سے‬
‫محبت کی دلیل ھوتی ھے کہ نھیں ؟‬
‫یہ سوال آپ کے جواب کا منتظر ہے‪.‬‬
‫‪ ، 3‬آپ اپنے جن دالئل کو الجواب کھا ھے دشمن کی تعریف والی کو‪ ،‬یہ آپ تب بات کرنا جب آپ‬
‫کی گالیاں‪،‬دشمنی وغیرہ والی بات ثابت ھو‪.‬‬
‫دشمن تعریف کرسکتا ھے اس سے انکار نھیں لیکن وہ یھاں فٹ نھیں ھوتے کیونکہ آپ اب تک اپنا‬
‫مدعی ثابت نھیں کرسکے‪.‬‬

‫‪17#‬‬
‫آگے جناب کے جوابات دیکھیں میرے چند باتوں کے‬
‫میں نے لکھا کیا تھا کہ‬

‫‪ ، 1‬ھم بھی یھی تو کھتے ھیں کہ شیعہ جو حب اھل بیت کے دعوے کرتے ھیں وہ سچے نھیں اور نہ‬
‫یہ دعوے ان کے محب اھل بیت ھونے کی دلیل ہے‪.‬‬
‫جناب نے یہ بات کر کے شیعہ کے بارے میں ھمارے خیال کے تائید کردی)‬

‫اب خیر طلب صاحب کا جواب دیکھیں‬

‫یہ کالم فارغ ہے جس کی کوئی علمی دنیا میں حقیقت نہیں‪ ،‬آپ کا فہم کسی شخص پر حجت نہیں۔‬
‫اس پر بحث کریں تو ہم بات کرتے ہیں کہ کون اہلبیت ع کی سچی اتباع کرتا ہے اور کون اپنی‬
‫اصول کی کتب میں اہلبیت ع کے قول کو غیر حجت سمجھتا ہے۔۔ فی الحال یہ بحث نہیں۔‬

‫الجواب‪.‬‬
‫دوستو جو بات یہ معاویہ رض پر فٹ کر رھے ھیں وہ میں شیعوں پر فٹ کررہا ھوں تو جناب‬
‫میرے کالم کو فارغ ھوا‪.‬‬
‫تو جناب پہر آپ کا معاویہ رض کے بارے میں کالم بھی فارغ کھہ رھے ھیں‪.‬‬
‫اگر میری بات غلط تو آپ کی بات بھی غلط‪.‬‬
‫میرا کالم فارغ تو آپ کا بدرجہ اولی فارغ‪.‬‬

‫آگے دوسری بات کا جواب دیکھیں‬

‫میں نے لکھا تھا کہ‬

‫میں ان سے پوچھتا ھوں کہ ایک شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ان کے دور میں خالفت کا‬
‫زیادہ حقدار مانتا ھے‪ ،‬نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جو ان کے فضائل بتائےھیں ان کو تسلیم‬
‫کرتا ھے‪ ،‬ان کی موت پر افسوس کرتا ھے‪ .‬تو کیا یہ شخص سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو ماننے واال‬
‫ھوا کہ نھیں؟‬
‫اس کا جواب دیں تاکہ آپ کی اوپر والی بات کا جواب دیا جا سکے‪) .‬‬

‫اس پر جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫ان تمام کے دالئل نقل کریں پھر میں سند اور داللت دونوں پر بحث کرتا ہوں۔ صرف دعوی کافی‬
‫نہیں‪ ،‬اگلی ٹرن میں تمام دالئل نقل کیجئے گا ان دعوؤں پر۔۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫دیکھیں ناظرین ان سے جو سوال ھوا اس کا جواب نھیں دیا انہوں نے‪ ،‬دالئل کی باری بھی آئیگی آپ‬
‫جواب تو دیں ؟‬
‫جواب نہ دینے کا کیا مطلب ؟‬
‫آپ دالئل کا رد بےشک کرنا لیکن سوال کا جواب دیں پہلے‪.‬‬
‫اور میں نے سوال کیا ہے یہاں کوئی دعوی نھیں‪ ،‬فرق سمجھیں‪.‬‬

‫‪18#‬‬
‫اور بھی چند جوابات جناب کے مالحظہ فرمائیں‬

‫میں نے لکھا تھا کہ‬

‫مشرکین جو توھیں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی کرتے ھیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ھے‪ ،‬ان‬
‫کو جناب کس کھاتے میں ڈالیں گے؟)‬

‫اس پر جناب لکھتے ہیں‬


‫وہ مشرکین مثل معاویہ تھے جو رسول ص اور اس کے وصی کو اذیت دیتے تھے۔ اور ان کا کسی‬
‫چیز کو معجزہ یا ان کی حقانیت کو تسلیم کرکے کفر و شرک کرنا آپ کے مبانی کے تحت مثل‬
‫معاویہ تھے جو امیر ع پر سب کرتے اور اذیت دیتے اور جن پر امیر ع بددعا کرتے لیکن پھر بھی‬
‫بعض اوقات آپ کے مبانی کے تحت وہ تسلیم فضیلت کرتے۔۔ یہ اعلی درجہ کے احتساب کا ضامن‬
‫بناتا ہے کہ فضیلت جان کر کفر کرنا۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬شکر ہے آپ نے یہ تو مانا کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کی تعریف‬
‫کرتے تھے‪ .‬کیونکہ آپ نے ان کو مشرکین کے مثل کھا اور یہ بات آپ بھی مانتے ہیں کہ مشرکین‬
‫آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تعریف کرتے تھے‪.‬‬
‫باقی آپ کا گالیاں وغیرہ کے الزامات لگانا‪ ،‬یہ اپنے پاس رکھیں‪ ،‬سوائے جھوٹ کے ان کی کوئی‬
‫حقیقت نہیں‪.‬‬

‫آگے جناب لکھتے ہیں‬

‫محترم کے استدالل کی داد دینی پڑے گی کیونکہ جزئیہ سے کلیہ پر بغیر کسی قرینہ کے استدالل‬
‫کرنا ان ہی کو مبارک ہو۔۔ میں کب کہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان کی تعریف میں محو رہتے تھے۔۔ میرا‬
‫کام آپ کے کلیہ کے اصول کو توڑنہ تھا جو میں نے توڑ دیا۔۔ یعنی ان کی دشمنی کے باوجود انہوں‬
‫نے رسالت مآب ص کی تعریف کی۔۔‬

‫محترم نے اس چیز کا اب تک جواب نہ دیا جو مال علی قاری نے کہا تھا‪:‬‬

‫وھذہ الشھادة لكونھا من أھل العداوة حجة لما قیل الفضل ما شھدت به اْلعداء‬
‫اور یہ کافر کی شہادت جو اگرچہ رسول ص سے دشمنی رکھتا تھا حجت ہے کیونکہ کہا گیا کہ‬
‫فضیلت وہ جس کی گواہی دشمن دے۔‬

‫مح ترم محترم۔۔ یہی میرا استدالل ہے معاویہ کی تعریف ذرہ برابر بھی اس کے ایمان پر داللت نہیں‬
‫کرے گی کیونکہ اس سے سب‪ ،‬اذیت دینا اور بغض امیر ع سب ثابت ہے تو اس صورت میں اس کو‬
‫دشمن اور عدو ہی تسلیم کیا جائے گا۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ،1‬پتا نہیں کونسے میرے کلیے کی بات کر رہے ہیں جناب ؟‬
‫اپنی طرف سے کلیے بنا کر دوسروں پر تھوپنا اور ان کو توڑنا جناب کی پرانی عادت ہے‪.‬‬
‫‪ ، 2‬میں نے سیدنا معاویہ رض کی ایک مخصوص حالت بتائی تھی کہ وہ حکمران تھے ان کے پاس‬
‫طاقت تھی وغیرہ‪،‬تو یہ ایک مخصوص صورت تھی کوئی کلیہ نھیں تھا اور اس مخصوص صورت‬
‫کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں فرمایا‪.‬‬

‫جاری ہے‪....‬‬
‫‪19#‬‬
‫بقیہ‪...‬‬
‫‪ ، 3‬مال علی قاری رح کے قول سے آپ کو کیا فائدہ ؟ یہ بات تو میں بھی مانتا ھوں تو جواب دینے‬
‫کی مجھے کیا ضرورت ؟‬
‫آپ دشمنی و بغض ثابت کریں پہر اس طرح کی بات کریں‪.‬‬

‫آگے میں نے لکھا تھا کہ‬

‫باقی آپ کا یہ کھنا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ نے جنگ کی‪ ،‬تو سوال یہ ھے کہ جنگ صفین کھاں‬
‫لگی تھی؟ کوفہ کے پاس یا شام کے پاس؟ اس سوال کے جواب سے یہ بات واضح ھوجائے گی کہ‬
‫کس نے جنگ کی تھی‪.‬‬

‫اس پر جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫جنگ معاویہ کی حرکتوں کی وجہ سے ہوئی تھی جو خلیفہ برحق کے خالف بغاوت کی اور باغی‬
‫خود احادیث نبوی سے معاویہ کے لئے ثابت ہے اور ایسے باغی سے جہاں جنگ ہو وہاں قتال کرنا‬
‫باعث اجر و ثواب ہے بشرط ایمان۔‬

‫جواب‬
‫‪ ، 1‬الحمد ہلل آپ نے یہ تو مانا کہ جنگ معاویہ رض نے نھیں بلکہ سیدنا علی رض نے کی تھی‪.‬‬
‫یہ بات اپنی جاھل عوام کو بھی سمجھادی ں جو صبح شام یہ کھتے ھیں کہ "معاویہ نے جنگ کی"‪.‬‬
‫‪ ، 2‬یہ بھی آپ دالئل سے بتا دیتے کہ معاویہ رض کی کس بات پر سیدنا علی رض کو کوفہ سے شام‬
‫کی طرف اتنا لشکر لے جاکر اتنے لوگ شھید کروانے کی ضرورت پیش آئی؟‬
‫(یہ شیعوں کے انداز میں سوال ھے نہ کہ اھل السنت کے انداز میں ‪ ،‬کیونکہ شیعہ یہ کھتے ھیں کہ‬
‫معاویہ نے اتنے مسلمان مروا دیے)‪.‬‬
‫‪ ، 3‬باغی پر جب بحث ھوگی تو ھم بتائیں گے کہ باغی کس کے لشکر میں تھے‪.‬‬
‫فی الحال اپنے دل کا بغض ظاھر کرنے کے بجائے اصل نقطے پر بولیں‪.‬‬
‫‪ ، 4‬یہاں معاویہ رض کے خالف جنگ کو ثواب لکھ دیا اور آگے سیدنا حسن رض کو اس ثواب سے‬
‫محروم کردیا اور اس ثواب یعنی معاویہ رض سے جنگ کو فتنہ لکھ دیا‪.‬‬
‫آگے مالحظہ فرمائیے گا‪.‬‬

‫‪20#‬‬
‫میں نے لکھا تھا کہ‬
‫رھا دیوبندی کی تکفیر کا مسئلہ تو کافر تو خارجیوں نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو بھی کھا ھے‬
‫نعوذ باہلل‪.‬‬
‫اور جو سنجیدہ قسم کے علماء دیوبندی علماء کی تعریف کرتے ہیں وہ ان کو کافر نھیں کھتے‬

‫اس پر خیر طلب صاحب لکھتے ہیں‬


‫ادھر محترم یہی سمجھانا چارہا ہوں کہ ان کی تکفیر کرنا اور ان کی تعریف۔۔ دونوں میں تطبیق کس‬
‫طرح دیں گے تو یہی کہیں گے کہ دشمن ہو کر تعریف کی جارہی ہے وہ تعریف کسی چیز پر داللت‬
‫نہیں کرتی اگر خارج میں مخالفت موجود ہو۔۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬جناب جواب لکھنے سے پہلے بات کو سمجھنا ھوتا ھے‪ ،‬میں کیا لکھ رھا ھوں اور آپ کیا جواب‬
‫دے رھے ھیں‪،‬‬
‫میں نے لکھا کہ سنجیدہ علماء کافر نھیں کھتے اور آپ نے لکھ دیا کہ "دشمن ھو کر تعریف" ‪...‬‬
‫جناب دشمنی کس بال کا نام ہے زرا واضح تو کریں؟‬
‫‪ ، 2‬اور میں کھاں لکھا ہے کہ دشمن تعریف نہیں کرسکتا؟ یہاں تو میں دشمنی جو آپ ثابت کرنا چاہ‬
‫رہے ہیں وہ میں مان ھی نھیں رھا‪.‬‬

‫پہر لکھتے ہیں کہ‬

‫اور معاویہ کا جنگ کرنا تعریف کے باوجود واضح طور پر اس پر داللت کرتا ہے۔ دیکھئے اس‬
‫روایت کو‬
‫رسول ص نے امیر المؤمنین‪ ،‬سیدہ زھرا‪ ،‬امام حسن ع اور امام حسین ع کو مخاطب کرکے کہا‬
‫میری جنگ ان سے جن سے تم جنگ کرو اور میری صلح ان سے جن سے تمہاری صلح‬
‫حوالہ‪ :‬المستدرک‪ ،‬جلد ‪ ٤‬ص ‪ ،٢٥١‬رقم ‪٤٧١٤‬‬

‫موجودہ دور کے محقق حسین سلم اسد اس روایت کو نقل کرتے ہیں اور تعلیق میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫إسنادہ حسن‪ ،‬أسباط بن نصر بسطنا القول فیه عند الحدیث المتقدم برقم (‪ ،)1524‬والسدي ھو إسماعیل‬
‫بن عبد الرحمن‪ ،‬وصبیح مولى أم سلمة ترجمه البخاري في = = الكبیر ‪ 317 /4‬ولم یورد فیه جرحا ً وال‬
‫تعدیالً‪ ،‬وتبعه على ذلك ابن أبي حاتم في "الجرح والتعدیل" ‪ ،450 - 449 /4‬وذكرہ ابن حبان في ثقاته‬
‫‪ ، 382 /4‬وقال الذھبي في كاشفه‪" :‬وثق"‪ .‬وصحح الحاكم حدیثه‪ ،‬ووافقه الذھبي‪.‬‬

‫سند حسن ہے اور پھر اس پر دالئل نقل کرتے ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان جلد ‪ ٧‬ص ‪٢٠٢-٢٠١‬‬

‫جواب‪.‬‬
‫دعوی‬
‫رف نظر کرتا ھوں پہر کبھی‪ ،‬اس کا متن ھی آپ کے ٰ‬
‫ص ِ‬‫‪،1‬اس کی سند پر بحث سے فی الحال َ‬
‫کے مطابق نھیں‪ ،‬الٹا یہ حدیث کوفی شیعوں پر ‪ %110‬فٹ آتی ھے نہ کہ معاویہ رض پر‪.‬‬
‫‪ ، 2‬متن میں بھی ان حضرات سے لڑنے کا ذکر ھے اور آپ خود مان چکے ھیں کہ جنگ سیدنا‬
‫معاویہ رض نے نھیں سیدنا علی رض نے صفین میں لشکر ال کر کی تھی‪ ،‬معاویہ رض تو صرف‬
‫دفاع کررھے تھے‪ ،‬تو یہ روایت یھاں فٹ نھیں ھو سکتی‪.‬‬

‫‪21#‬‬
‫میں نے معاویہ رض کا سیدنا علی رض کے فضائل سن کر خاموش رہنے پر لکھا تھا کہ‬

‫میں اعم نھیں اخص صورت کی ھی بات کررھا ھوں‪ ،‬وہ اس طرح کہ ایک شخص جو حکمران ھو‬
‫طاقت اس کے پاس ھو‪ ،‬وہ کسی دوسرے سے (بقول شیعہ) سخت دشمنی بھی رکھتا ہو‪ ،‬اس سے‬
‫جنگ بھی کی ھو‪ ،‬اس کو ممبروں پر خطبوں میں خود بھی گالیاں دیتا ھو اور دوسروں سے بھی‬
‫دلواتا ھو‪ .‬وہ اپنے ایسے دشمن کی تعریفیں سن کر پہر بھی خاموش رھتا ھے تو یہ بالکل اس بات‬
‫کی دلیل ھے کہ وہ اس کے فضائل مانتا ھے‬

‫اس پر جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫معاویہ کا سب و شتم کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ جب مغیرہ بن شعبہ کو گورنر بنایا تو اس‬
‫وقت بھی یہ چیز چلتی رہی۔۔ دیکھئے خاموشی کا بیان کی کافی صورتیں ہوسکتیں ہیں کبھی دالئل‬
‫سے مغلوب ہوکر بھی انسان خاموش ہوجاتا ہے اور اس پر میں نے شافعی کا قول دیا تھا۔‬

‫شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت کبھی مختلف‬
‫دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے‪ ،‬کبھی کسی انسان کے‬
‫وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے‪ ،‬کبھی اس انس ان کے رعب کی وجہ سے‪ ،‬کبھی فتہ کے‬
‫خوف کی وجہ سے ہے ‪..‬الخ‬

‫حوالہ‪:‬فصول البدائع‬

‫اس پر محترم نے تمام جو احتماالت پیش کئے ان تمام پر بیان نہیں فرمایا۔۔ ہم کہتے ہیں کہ اس میں‬
‫کتے احتماالت سکوت ہے اور ان میں تعارض ادلتہ (یعنی مختلف دالئل کا تعارض ہونا ہے) تو کیا‬
‫پتا معاویہ اس وجہ سے خاموش ہوا ہو۔۔ دلیل دینا آپ کے ذمہ میں ہے کہ وہ خاموش تسلیم فضائل و‬
‫شیر و شکر رشتہ کے تحت ہوا۔۔ تفضل دلیل دیجئے مجھے۔ اور بعض روایات میں سعد بن ابی‬
‫وقاص کا فورا چلے جانا لکھا ہے جیسا کہ تاریخ بن عساکر سے میں نے نقل کیا تھا‬
‫میں تمہارے پاس اب کبھی داخل نہیں ہوں گا اور اپنی عبا صحیح کرکے چل پڑے‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ، 1‬ناظرین آپ نے غور کیا ھوگا کہ جو اخص صورت معاویہ رض کی میں نے بتائی ہے اس پر‬
‫جناب نے کچھ بھی نہیں فرمایا‪ ،‬کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ یہ صورت بالکل علی رض کے فضائل‬
‫ماننے کی ھی دلیل ہے‪ ،‬ایسے الفاظ لکھ کر یہ اپنے دل کی بھڑاس تو نکال رھے ھیں لیکن میری‬
‫اس بات کو توڑ نھیں پارھے اور نہ توڑ سکتے ہیں‪.‬‬
‫جاری ہے‪...‬‬

‫‪22#‬‬
‫‪ ، 2‬خاموشی کے بیان کی جو صورتیں یہ بار بار گنوا رھے ھیں ان کا کوئی فائدہ نہیں ھے جناب‬
‫کو‪ ،‬کیونکہ جو اخص صورت معاویہ رض کی ھے اس پر آپ کی بیان کردہ صورتیں فٹ ھو ھی‬
‫نھیں سکتیں‪.‬‬
‫خواہ مخواہ وقت ضائع نہ کریں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬یہ اخص صورت ھی میری بات کی واضح دلیل ہے جس کا توڑ آپ کے پاس نھیں‪.‬‬
‫‪ ، 4‬حضرت سعد رض کا جس حوالے کا آپ اشارہ کررہے ہیں اس کا حشر تو پچھلے کمنٹس میں‬
‫دیکھ چکے ہیں‪ ،‬اور آگے بھی دیکھ لیجیے گا‪ ،‬یھاں آپ کی اس بات کا رد خود سعد رض سے ھی‬
‫دیکھ لیں‪.‬‬

‫علَى ُمعَا ِویَةَ فَأَقَ َ‬


‫ام‬ ‫اص َوفَد َ َ‬ ‫س ْعدَ بْنَ أَبِي َوقه ٍ‬ ‫ْج‪َ :‬حدهثَنِي زَ َك ِریها بن عمر وأن َ‬ ‫ع ِن اب ِْن ُج َری ٍ‬‫ق َ‬‫الر هزا ِ‬
‫ع ْبد ُ ه‬‫َوقَا َل َ‬
‫ش ْیئًا ِإ هال أ َ ْع َ‬
‫طاہُ ِإیهاہُ‪.‬‬ ‫سأَلَهُ َ‬
‫س ْعد ٌ َ‬ ‫ص َالة َ َویُ ْف ِط ُر‪َ ،‬وقَا َل َ‬
‫غی ُْر ُہ‪ :‬فَ َبا َی َعهُ َو َما َ‬ ‫ص ُر ال ه‬ ‫ضانَ َی ْق ُ‬
‫ش ْھ َر َر َم َ‬‫ِع ْندَہُ َ‬
‫البدایہ و النھایہ ج‪ 8‬ص ‪79‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-8376/page-2933#page-2930‬‬

‫یعنی سعد رض معاویہ رض کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور رمضان کا مہینہ ان کے پاس قیام کیا‪،‬‬
‫نماز قصر کرتے اور روزہ چھوڑتے تھے‪ ،‬ان کی بیعت بھی کی اور سعد رض نے جو ان سے‬
‫مانگا معاویہ رض نے ان کو دیا‪.‬‬

‫تو جناب آپ کی روایت کا رد خود سعد رض کے عمل سے ھوگیا‪.‬‬

‫البدایة والنھایة ط إحیاء التراث • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪23#‬‬
‫ابن ماجہ کی روایت کے بارے میں میں نے لکھا تھا کہ‬

‫‪ ، 1‬اس روایت میں کھیں بھی نھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا کو گالیاں دی گئی‪.‬‬
‫‪ ، 2‬مسلم میں بقول جناب کے حکم ھے سب کا‪ ،‬اور اس روایت میں ایسا کچھ نہیں‬

‫جواب میں جناب لکھتے ھیں‬


‫محترم پھر سے روایت پڑھیں‪ ،‬قارئین کی سہولت کے لئے پھر سے لگادیتا ہوں۔ یہ روایت ہے‪:‬‬

‫ب‬ ‫ع ِلیًّا‪ ،‬فَنَا َل ِم ْنهُ‪ ،‬فَغ ِ‬


‫َض َ‬ ‫علَ ْی ِه َ‬
‫س ْعد ٌ‪ ،‬فَذَ َك ُروا َ‬ ‫ض َح هجاتِ ِه‪ ،‬فَدَ َخ َل َ‬ ‫س ْع ِد ب ِْن أَبِي َوقه ٍ‬
‫اص‪ ،‬قَالَ‪ :‬قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ‬ ‫َ‬
‫س ْعد ٌ‬ ‫َ‬

‫سعد بن ابی وقاص فرماتے ہے کہ ((معاویہ اپنی بعض حوائج کو لے کر ان کے پاس آیا‪ ،‬پس وہ سعد‬
‫کے ہا ں مالقات کے لئے آیا))‪ ،‬اور امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی‬
‫جس کے بعد سعد بن ابی وقاص غضبناک ھوگئے (غصہ میں آگئے) اور پھر رسول ص کی زبانی‬
‫تین فضائل امیر ع کا ذکر کیا‪...‬‬

‫ادھر لفظ نَا َل ِم ْنهُ ہے اور یہ واضح طور پر تنقیص کے لئے آتا ہے۔۔ اور یہی اثبات امر ہے کہ‬
‫معاویہ خود تنقیص کرتا تھا اور دوسروں کو تنقیص کا حکم دیتا تھا اور دوسروں کو کہنے پر یہ‬
‫الفاظ مستدل ہے۔۔ قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ‬
‫ض َح هجاتِ ِه۔۔ یعنی بعض حوائج کو لے کر سعد کے پاس آیا۔۔ اور‬
‫نالہ منہ کا یہی معنی ارباب لغت کرتے ہیں اور اگر اس کا ہلکا سے ہلکا معنی بھی لیں تو یہ حد‬
‫تنقیص تک ضرور جاتا ہے اور اس صورت میں معاویہ کا نفاق پھر بھی ثابت ہوتا ہے۔۔‬

‫دیکھئے میں کچھ حوالے اس حوالہ سے دیتا ہوں۔‬

‫عالمہ بدر الدین عینی الحنفی رقم طراز ہے‪:‬‬

‫قوله‪" :‬نال منه" أي أصاب منه‪ ،‬أراد‪ :‬تكلم في حقه بما یسوؤہ‬
‫اور اس شخص کا کہنا "نال منه" یعنی اس سے وہ چیز پہنچی۔۔ مراد یہ ہے کہ اس شخص نے‬
‫دوسرے کے حق میں ایسی بات کہی جو اس کی برائی پر مشتمل تھی۔‬

‫حوالہ‪ :‬نخب اْلفكار جلد ‪ ٤‬ص ‪٧٢‬‬

‫زکریا االنصاری الشافعی رقم طراز ہے‪:‬‬

‫نالہ منہ‪ :‬یعنی اس کا ذکر برائی سے کیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬منحة الباري‬

‫جواب‬
‫‪ ،1‬حدیث کا ترجمہ ھی غلط‪،‬‬
‫علَ ْی ِه َ‬
‫س ْعد‬ ‫قَد َِم ُمعَا ِویَةُ فِي بَ ْع ِ‬
‫ض َح هجاتِ ِه‪ ،‬فَدَ َخ َل َ‬
‫حجاتہ کا معنی آپ نے حوائج کیسے کیا؟‬
‫اور داخل سعد رض معاویہ رض پر ھوئے یا معاویہ رض سعد رض پر داخل ھوئے؟‬
‫کسی عربی جاننے والے سے ہوچھ کر تصحیح کرلیں‪.‬‬

‫جاری ھے‪...‬‬

‫‪24#‬‬
‫جواب‬
‫‪ ، 2‬پہر آگے آپ کا یہ لکھنا کہ "معاویہ تنقیص کا حکم دیتا تھا اور دوسروں کو کھنے پر یہ الفاظ‬
‫مستدل ھیں قدم معاویہ‪"...‬‬
‫آپ کے اس بات کی بنیاد ھی غلط ترجمے پر ھے‪ ،‬تصحیح کرلیں اور اپنے غلط استدالل سے ھاتھ‬
‫اٹھائیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬نال منہ کے آپ نے جو معنی بھی لکھی ھیں ان سے مراد گالی تو پہر بھی ثابت نھیں ھوتی‪ ،‬آپ‬
‫نے بھی ترجمہ "تنقیص" ھی کیا ھے‪ ،‬اور تنقیص سے خاص گالی مراد لینا غلط ھے‪.‬‬
‫اگر اس پر آپ سعد رض کی ناراضگی کو دلیل بنانے کی کوشش کررھے ھیں تو سوال یہ ھے کہ‬
‫کیا صرف گالی دینے پر ھی غصہ آتا ھے؟ نھیں تو پہر آپ کا مزعومہ استدالل باطل ھوا‪.‬‬
‫شاید معاویہ رض نے یہ کھا ھو کہ علی رض نے قاتلین عثمان جیسے باغیوں کا ساتھ دیا اور غلط‬
‫کیا‪ ،‬اس بات پر سعد رض کو غصہ آیا ھو؟‬
‫کیونکہ معاویہ رض کا موقف یھی تھا کہ قاتلین عثمان سے قصاص لیا جائے جو سیدنا علی رض نہ‬
‫لے سکے‪.‬‬
‫تو گالی دینا تو ثابت نھیں ھوتا‪.‬‬
‫‪ ، 4‬کیا کسی سے اختالف رائے رکھنا بغض کھالتا ھے جو بار بار آپ بغض علی کھہ کر اپنا بغض‬
‫معاویہ ظاھر کررھے ھو؟‬

‫‪25#‬‬
‫تاریخ دمشق اور ابن عساکر کے حوالے پر میں نے لکھا تھا کہ‬

‫ان کو بھی پتہ ہے کہ اس روایت میں کچھ علت ھے جو یہ روایت قابل استدالل نھیں‪ .‬اس میں محمد‬
‫بن اسحاق ھے جو شیعہ ھے‪ .‬عالمہ ابن حجر تقریب التھذیب میں لکھتے ہیں محمد بن اسحاق بن‬
‫یسار‪ ....‬رمی بالتشیع‪ .‬کہ یہ شیعہ تھا‪ .‬یھی بات تاریخ بغداد ج ‪،١‬سیر اعالم النبالء میں بھی ھے‪ .‬اور‬
‫یہ اصول ھے کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں قابل قبول نہیں‪.‬‬

‫جواب میں خیر طلب صاحب لکھتے ھیں‬

‫اب محترم نے محمد بن اسحاق پر تشیع کا الزام اور تشیع کا ہونا قدح روایت والی بات کہی۔۔ اس پر‬
‫میرے کچھ جوابات ہیں جو صغروی اور کبروی دونوں عنوان سے ہے۔‪...‬‬

‫پہر آگے جناب نے فالتو کی بحث چھیڑ دی کہ‬


‫⏪شیعت جرح نھیں‪،‬‬
‫⏪محمد بن اسحاق امام المغازی ھیں‪،‬‬
‫⏪امیر المحدثین ھیں‪،‬‬
‫⏪جمھور نے ان کی توثیق کی ھے وغیرہ‬

‫ان فالتو ابحاث کا میرے اعتراض سے کوئی واسطہ نھیں اس لیے میں ان باتوں میں اپنا وقت ضائع‬
‫نھیں کرونگا‪.‬‬

‫باقی ان کی جو بات موضوع کے مطابق ھے اس کا جواب دیتا ھوں‪.‬‬

‫تشیع کی تعریف میں جناب نے لکھا کہ‬


‫خود تشیع کی جو تعریف متقدمین کے ہاں وہ متاخرین سے مختلف ہے۔۔ متقدمین کے ہاں یہ طے شدہ‬
‫بات ہے متقدمین کے ہاں تشیع سے مراد امیر المؤمنین ع سے محبت تھی۔۔ اور ساتھ ساتھ شیخین‬
‫سے محبت تھی۔ دیکھئے دکتور صالبی اس بحث میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫اور ان غلطیوں میں سے ایک جن میں عموما ابتدائی طالب علم حضرات جو مصطلحات وغیرہ کو‬
‫صحیح نہیں جانتے وہ پڑ جاتے ہے کہ وہ روافض اور شیعوں کی اصطالح کو خلط ملط کردیتے‬
‫ہیں کیونکہ وہ عادی ہوتے ہیں روافض پر شیعہ اصطالح استمعال کرنے پر تو وہ سمجھتے ہیں کہ‬
‫جو متقدمین علما نے شیعہ اصطالح استعمال کی ہے اس کا اطالق روافض پر بھی ہے جب کہ اہل‬
‫علم حضرات ان دو شیعہ اور روافض میں جملہ احکامات میں فرق کے قائل ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬أسمى المطالب في سیرة أمیر المؤمنین علي بن أبي طالب رضي ہللا عنه جلد ‪ ٢‬ص ‪٧٩٩‬‬

‫جواب‬
‫اگلے کمنٹ میں‪.....‬‬

‫‪26#‬‬
‫جواب‬
‫‪ ، 1‬متقدمین کے نزدیک تشیع اور رفض میں فرق ھے اس کا انکار کس نے کیا جو آپ نے یہ بحث‬
‫چھیڑ دی؟‬
‫لیکن خیر طلب صاحب نے تشیع کی جو تعریف نقل کی ہے وہ ادھوری ہے‪.‬‬
‫یہ پڑھیں‬

‫التشیع في عرف المتقدمین ھو اعتقاد تفضیل علي ٍ على عثمان وأن علیا كان مصبیا في حروبه وأن‬
‫مخالفه مخطىء مع تقدیم الشیخین وتفضیلھما وربما اعتقد بعضھم أن علیا أفضل الخلق بعد رسول ہللا‬
‫صلى ہللا علیه و سلم‬
‫فتح المغیث ج ‪ ١‬ص ‪330‬‬

‫‪islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html‬‬
‫تو تشیع صرف سیدنا عثمان رض سے سیدنا علی ر ض کو افضل سمجھنے کا نھیں بلکہ سیدنا علی‬
‫رض کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد ساری مخلوق سے افضل ماننے کا نام بھی ھے‪.‬‬
‫‪ ، 2‬یہ حقیقت کس سے ڈھکی چھپی ھے کہ شیعہ مذھب میں تقیہ و کتمان‪ ،‬اپنا مذہب چھپانا دین کا‬
‫حصہ اور عبادت ھے؟‬
‫یہ بالکل ممکن ھے کہ کسی راوی نے اپنے باقی برے عقائد چھپائے ھوں صرف حب علی و‬
‫تفضیلیت ھی کو ظاھر کیا ھو‪.‬‬
‫تو شیعہ راوی سے یہ بات بعید نھیں‪،‬‬
‫اس لیے جس روایت میں شیعہ راوی ھوگا اور وہ روایت شیعہ مذھب کی تائید میں ھوگی تو وہ قابل‬
‫قبول نہیں ھوگی‪.‬‬

‫آگے جناب لکھتے ہیں‬

‫اب میں کبروی بحث پر آتا ہوں کہ کیا بدعتی کی روایت چاہے داعی ہو یا نہیں بقول ہے یا نہیں تو‬
‫جواب میں کہا جائے گا کہ مذھب حنفی یعنی ابوحنیفہ کے ہاں قابل قبول ہے۔ مالحظہ ہو سخاوی کا‬
‫قول‪:‬‬

‫خطیب اور یہ اسی طرح ابن ابی لیلی‪ ،‬سفیان ثوری اور اسی طرح ابوحنیفہ سے بھی منقول ہے بلکہ‬
‫حاکم نے کافی سارے آئمہ احادیث سے نقل کیا۔۔ اور فخر الدین رازی نے محصول میں اور حق یہی‬
‫ہے اور ابن دقیق العید نے اس بات کو راجح قرار دیا کہ بدعتی کی روایت مطلق قبول ہے چاہے وہ‬
‫داعی ہو یا غیر داعی۔‬

‫حوالہ‪ :‬فتح المغیث ‪ -‬السخاوي‪ ،‬جلد ‪ ،١‬ص ‪٣٢٩‬‬


‫یوں یہ روایت جس پر آپ نے تعلیل کی تھی‪ ،‬اس جراح کو باطل ثابت کردیا گیا‪.‬‬

‫جواب‬
‫اگلے کمنٹ میں‪...‬‬

‫الموسوعة الشاملة ‪ -‬فتح المغیث‬


‫صدر ھذا الكتاب آلیا بواسطة الموسوعة الشاملة (اضغط ھنا لالنتقال إلى صفحة الموسوعة الشاملة على‬
‫اْلنترنت)‬
‫‪27#‬‬
‫جواب‬
‫‪ ، 1‬جناب آپ نے میری بات کو سمجھے بغیر ھی جواب لکھ دیا کہ بدعتی داعی و غیر داعی کی‬
‫روایت مقبول ھے‪.‬‬
‫میں نے یہ بات کی ھی نھیں‪ ،‬میں نے تو یہ لکھا ہے کہ شیعہ راوی کی وہ روایت جو اس کے مذھب‬
‫کی تائید میں ھو وہ مقبول نھیں‪.‬‬
‫میری بات خاص اس روایت کے بارے میں ھے جو اس کے مذھب کی تائید میں ھو اور آپ نے جو‬
‫بات نقل کی ہے وہاں اس کے مذھب کی تائید والی روایت پر بات نھیں ھو رھی‪.‬‬
‫کہاں اس کی عام روایت اور کہاں اس کی مذہب کی تائید والی روایت‪.‬‬
‫فرق واضح ھے خلط ملط کرنے کی کوشش آپ کی یھاں نھیں چل سکتی‪.‬‬
‫‪ ، 2‬میں نے نخبۃ الفکر کے حوالے سے اصول بتایا تھا کہ بدعتی کی وہ روایت مقبول نھیں جو اس‬
‫کے مذھب کی تائید میں ھو‪،‬‬
‫دوسرا حوالہ بھی دیکھ لیں اسی فتح المغیث سے آپ کے پیش کردہ حوالے کے ‪ 2‬صفحے آگے یہ‬
‫بحث ھے کہ‬

‫بدعتی روایت بیان کرنے میں اگر سچا ھو تو اس کی روایت لی جائے گی‬

‫إال أن یؤخذ من حدیثھم ما یعرف ولیس بمنكر إذا لم تقو به بدعتھم‬


‫فتح المغیث ج ‪ ١‬ص ‪331‬‬

‫‪islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html‬‬

‫اگر اس کی روایت منکر نہ ھو‪ ،‬اس سے اپنی بدعت کو تقویت نہ دی گئی ھو تو قبول ھے‪.‬‬
‫تو ثابت ہوا کہ بدعتی کی وہ روایت مقبول ہے جو اس کے مذھب کی تائید میں نہ ھو‪.‬‬
‫اتنے صاف اور واضح اصول کی موجودگی میں آپ کی باتوں کا کوئی وزن نہیں‪.‬‬

‫الموسوعة الشاملة ‪ -‬فتح المغیث‬


‫صدر ھذا الكتاب آلیا بواسطة الموسوعة الشاملة (اضغط ھنا لالنتقال إلى صفحة الموسوعة الشاملة على‬
‫اْلنترنت)‬
‫‪1/28#‬‬
‫جناب سیدنا معاویہ رض کی سیدنا علی رض کو گالیاں دینے پر رضامندی ثابت کرنے کے لیے‬
‫لکھتے ہیں‬

‫عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ میں سعید بن زید کو سنا کہ جب فالں شکص کوفہ آیا تو ایک فالں خطبہ‬
‫کے لئے کھڑا ہوا‪ ،‬پ س سعید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا تم اس ظالم کو دیکھو میں نو لوگوں‬
‫کی گواہی دیتا ہوں۔‬
‫حوالہ‪ :‬سنن ابی داود‪ ،‬جلد ‪ ٤‬ص ‪٢١١‬‬

‫اب میں مسند احمد کی روایت نقل کئے دیتا ہوں۔‬

‫عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ جب معاویہ کوفہ سے گیا تو اس سے مغیرہ بن شعبہ کو گورنر تعین‬
‫کیا۔۔ بہرحال مغیرہ نے بعض خطبہ دینے والوں کو اجازت دی جو امیر المؤمنین ع کی تنقیص و شتم‬
‫کرتے تھے۔۔ میں سعید بن زید کے ساتھ تھا جو شدید غصہ میں آئے اور کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ‬
‫پکڑا‪ ،‬پس میں ان کے پیچھے ہوا اور کہنے لگے کیا تم اس شخص کو دیکھتے نہیں جو اپنے نفس‬
‫پر ظلم کرتا ہے اور جو ایسے شخص پر لعن کا حکم دیتا ہے جو جنت والوں میں سے ہے۔۔۔الخ‬

‫حوالہ‪ :‬مسند احمد بن حنبل‪ ،‬جلد ‪ ،٣‬ص ‪١٨٥‬‬

‫چنانچہ ثابت ہوا کہ ایک روایت کے تحت معاویہ کی موجودگی میں اور دوسری روایت میں معاویہ‬
‫کی گورنر شپ کے بعد مغیرہ نے یہ جرم انجام دیا۔۔ اور یہ بتاتا ہے کہ بنو امیہ کا عمومی رجحان‬
‫سب علی ع کے معاملہ میں بہت ہلکہ تھا۔ اور اس کی پوری قلعی صاحب شرح مسند احمد نے‬
‫کھولی ہے۔‪.....‬‬
‫پہر آگے مسند احمد کی شرح سے حوالہ بھیجا‪....‬‬

‫جواب اگلے کمنٹ میں‪...‬‬

‫‪2/28#‬‬
‫جواب جناب نے جو یہ دو روایات پیش کی ھیں ذرا ان کا حال دیکھ لیں‪.‬‬
‫‪،1‬ابو داؤد میں ھے‬
‫قدم فالن الی الکوفۃ‪...‬‬
‫یعنی معاویہ رض کوفہ آئے‬
‫اور ان کی پیش کردہ مسند احمد کی روایت میں ھے‬
‫خرج معاویہ من الکوفۃ‪..‬‬
‫معاویہ کوفہ سے نکلے‪.‬‬
‫یہ پہال تضاد‬
‫‪ ، 2‬ابو داؤد میں مغیرہ بن شعبہ رض کے خطیب ھونے کا ذکر ھے اور مسند احمد میں کسی‬
‫دوسرے خطیب کا ذکر‪.‬‬
‫یہ دوسرا تضاد‬
‫‪ ، 3‬ابو داؤد کی روایت میں معاویہ رض مجلس میں موجود ہیں لیکن مسند احمد کی روایت میں‬
‫مجلس میں موجود نہیں‬
‫یہ تیسرا تضاد‬
‫‪ ، 4‬جھاں معاویہ رض کی موجودگی کا ذکر ھے ابو داؤد میں وھاں سیدنا علی رض پر کسی گالی کا‬
‫ذکر نھیں‪ ،‬اور جھاں خطباء کا سیدنا علی رض کو برا بھال کہنے کا ذکر ھے وھاں سیدنا معاویہ‬
‫رض کی موجودگی کا ذکر نھیں‪.‬‬
‫اور جناب نے عنوان دیا ہے کہ معاویہ رض کی رضامندی سے گالیاں دی جاتی تھیں‪.‬‬
‫اور اس بات کا کوئی ثبوت ھی نہیں‪.‬‬
‫کیا یہ بغض معاویہ میں علمی خیانت نھیں؟؟؟‬
‫دعوی میں‪.‬‬
‫جناب پوری طرح سے ناکام ھوگئے ھیں اپنے ٰ‬

‫اب ذرا ان کی فتح الربانی سے پیش کردہ حوالے کا حال بھی دیکھ لیں‬
‫فتح ربانی والے نے دونوں روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے جو اصل روایات سے ٹکر‬
‫کھا رھی ھے‬

‫⏪ مسند احمد کی روایت میں ھے‬


‫ب فتح الربانی لکھ رھے ھیں حضرہ‬
‫خرج معاویہ‪ ..‬یعنی معاویہ رض کوفہ سے نکلے‪ ،‬اور صاح ِ‬
‫معاویة‪ ..‬یعنی معاویہ حاضر ہوئے‪.‬‬

‫⏪ مسند احمد کی روایت میں کسی خطیب کی بات سے سعید بن زید رض کا غصہ ھوکر نکل جانے‬
‫کا ذکر ھے اور جناب تطبیق دینے والے لکھتے ہیں‬
‫خطب المغیرة ابن شعبة فنال من على فخرج سعید بن زید‬
‫یھاں بھی تطبیق نہ ھوسکی‬

‫یعنی ابو داؤد اور مسند احمد کی روایات میں تطبیق ممکن ھی نھیں‪.‬‬
‫یہ روایت اضطراب سے پُر ہے اور قابل استدالل نھیں‬

‫‪1/29#‬‬
‫جناب نے سیدنا حسن رض کی سیدنا معاویہ رض سے صلح کے وقت علی رض کو گالی دینے سے‬
‫روکنے کی ایک شرط کا ذکر کیا تھا‪ ،‬جس پر میں نے لکھا تھا کہ‬

‫سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کی اس شرط سے قطعا ً ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی‬
‫رضی ہللا عنہ پر سب کرتے تھے‪.‬‬
‫کسی چیز کے روکنے سے یہ الزم نھیں آتا کہ پہلے ایسا ھوتا تھا‪ ،‬قرآن میں مسلمانوں کو کتنی‬
‫چ یزیں سے روکا گیا ھے؟ تو کیا سارے مسلمان ان کو کرتے ھیں جو ہللا نے روکا؟‬
‫دعوی کے مطابق نھیں ھے‪.‬‬ ‫بطور تنبیہ کہ بھی روکا جاتا ھے‪ .‬تو آپ کی دلیل ٰ‬

‫اس پر جناب لکھتے ہیں‬

‫محترم۔۔ ادھر شرائط طے کرنے کی بات ہورہی ہے۔۔ ہدایت نامہ اور پورا دستور نہیں دیا جارہا۔۔ آپ‬
‫کا قیاس مع الفارق باطل ہے کیونکہ جس چیز کی نہی کی جارہی ہے وہ چنیدہ ہے نہ کہ غیبت‪،‬‬
‫تمہت‪ ،‬کذب بیانی‪ ،‬حسد اور باقی گناہوں کی لسٹ دی جارہی تھی۔۔ مجھے یہ بتائے کہ فقط اس کا ہی‬
‫تذکرہ کیوں کیا گیا اور باقی دیگر جرائم و گناہوں کی لسٹ کیوں بیان نہیں کی۔۔ جو چیز ہورہی ہوگی‬
‫اس کے منع کا ہی ہو کہا جاتا ہے شرائط نامہ میں۔۔ ورنہ قرآن میں کتنی جگہ اور احادیث میں اسے‬
‫کئی گنا زیادہ نہی وارد ہوئیں ہیں تو ان تمام کا ذکر امام حسن ع نے کیوں نہ کیا اور خؤد روایات‬
‫میں عدم توفق معاویہ کا بھی ذکر ہے تو یہ تو بذات خود اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ معاویہ سے‬
‫یہ گناہ کا صدور ہو بھی رہا تھا اور وہ اس کو روکنے میں سنجیدہ بھی نہ تھا۔ چنانچہ مورخ ابن اثیر‬
‫رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ي‬
‫الكف عن شتم عل ّ‬
‫ّ‬ ‫وأال یشتم علیا‪ ،‬فلم یجبه إلى‬
‫امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر المؤمنین ع پر شتم نہ کیا جائے تو معاویہ نے اس شتم علی‬
‫ع کو روکنے پر حامی نہ بھری۔‬

‫حوالہ‪ :‬الكامل في التاریخ جلد ‪ ٣‬ص ‪٦‬‬

‫اور یہی بات مورخ ابن وردی نے بھی لکھی‬

‫جواب‬
‫‪ ، 1‬جناب تو میں نے کب کھا کہ پورا دستور العمل لکھا جا رھا تھا؟ میں نے بھی خاص بات کی ہے‬
‫گالی کے متعلق‪ ،‬آپ یہ غلطی کافی دفعہ دھرا چکے ہیں کہ جواب سمجھے بغیر ھی لکھ دیا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬آپ کو یہ ثابت کرنا ھے کہ معاویہ رض علی رض کو گالیاں دیتے تھے‪ ،‬سیدنا حسن رض کی‬
‫اس شرط سے بالکل ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رض گالیاں دیتے تھے‪.‬‬
‫اگر دوسرے لوگ گالیاں دیتے تھے تو اس کو آپ معاویہ رض پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں‪.‬‬

‫جاری ہے‪...‬‬

‫‪2/29#‬‬
‫‪ ، 3‬مجھے تو روک رھے تھے کہ دستور العمل نھیں بلکہ صلح کا شرائط نامہ طے ھورھا تھا‪ ،‬لیکن‬
‫جناب خود دستور العمل پر آگئے اور لکھ دیا کہ‬
‫مجھے یہ بتائیں کہ فقط اس کا ھی تذکرہ کیوں کیا گیا اور باقی دیگر جرائم و گناہوں کی لسٹ کیوں‬
‫بیان نھیں کی؟‪.‬‬
‫‪ ، 4‬تاریخ کامل و ابن الوردی کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ھیں‬
‫"اال یشتم علیا‪ ،‬فلم یجبہ‪.....‬‬
‫وہ سند کے ساتھ نھیں کہ کون ھے یہ بیان کرنے واال؟ اس کے برعکس جو سند کے ساتھ شرائط‬
‫منقول ھیں ان میں یہ شرط نھیں‪.‬‬
‫تاریخ طبری اور البدایہ و النھایہ میں یہ خاص الفاظ نھیں‬
‫دیکھ سکتے ہیں آپ‬

‫طبری ج‪ 5‬ص ‪160‬‬


‫‪shamela.ws/browse.php/book-9783/page-2621‬‬

‫البدایہ ج‪ 8‬ص ‪17‬‬


‫‪shamela.ws/browse.php/book-8376/page-2868#page-2868‬‬

‫‪ ، 5‬اسی جگہ طبری و البدایہ میں یہ شرط معاویہ رض قبول کررھے ھیں کہ‬
‫ال یشتم علیا وھو یسمع‬
‫کہ علی رض کو گالی نھیں دے گے‬
‫اس شرط کو معاویہ رض نے قبول کیا‪.‬‬
‫‪ ، 6‬اس کے برعکس شیعہ مؤرخ ابو حنیفہ دینوری لکھتا ہے‬
‫قالوا‪ :‬ولم یر الحسن وال الحسین طول حیاہ معاویه منه سوءا في أنفسھما وال مكروھا‪ ،‬وال قطع عنھما‬
‫شیئا مما كان شرط لھما‪ ،‬وال تغیر لھما عن بر‪.‬‬
‫أخبار الطوال ص ‪225‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-9760#page-225‬‬
‫یعنی حسنین کریمین نے کوئی تکلیف یا ناپسندیدہ چیز نھیں دیکھی معاویہ رض کی پوری زندگی‬
‫میں‪ ،‬اور جو شرائط دونوں نے طے کیے تھے معاویہ رض نے کسی شرط کو نھیں توڑا‪ ،‬اور ان‬
‫سے بھالئی کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‪.‬‬

‫اگر معاویہ رض سیدنا علی رض کو گالیاں دیتے یا دلواتے تھے تو شیعہ مؤرخ ایسا نہ کھتا‪.‬‬

‫تاریخ الطبري = تاریخ الرسل والملوك‪ ،‬وصلة تاریخ الطبري • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬
‫‪1/30#‬‬

‫جناب اصل موضوع سے ھٹ کر لوگوں کو الجھانے کی کوشش کرتے ھوئے لکھتے ہیں کہ‬
‫امام حسن ع پر بھی اعتراض کیا تو اس کا جواب بھی دیتا چلتا ہوں۔۔ اس میں ایک تمہید کے بعد امام‬
‫حسن ع کا اصلی نظریہ معاویہ کے بارے میں نقل کیا جائے گا اور‪ .‬اس کے ساتھ ساتھ عمار یاسر ع‬
‫کا نظریہ بھی جو کافی ملتا جلتا ہے اور پھر سکوت پر الزامی جواب۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫ناظرین یھاں حضرت عمار رض کی بات ھی نھیں چل رھی لیکن ان کی نیت بات سلجھانے کی نھیں‬
‫الجھانے کی ھے‪ ،‬اس لیے جناب غیر متعلق ابحاث الکر قارئین کا ذھن منتشر کرنے کی کوشش‬
‫کررہے ہیں‪.‬‬
‫ان کی اس بات کا بھی حشر آگے دیکھ لیں آپ‪.‬‬

‫میں نے ان سے پوچھا تھا کہ‬

‫اگر سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے تھے اور بقول آپ کے وہ‬
‫منافق تھے‪ ،‬تو ایسے شخص کو اسالمی حکومت کا سربراہ بنانے واال امام رھ سکتا ھے؟‬
‫اب زرا اپنے اماموں کی امامت کی بھی فکر کریں اور آپ کے مذھب میں بیان کردہ ائمہ کے شرائط‬
‫کو سامنے رکھ کر بتائیں‪.‬‬
‫اچھا ھوا آپ نے سیدنا حسن رضی ہللا عنہ کا ذکر کر کے یہ بات کھول کر اس سوال کا موقعہ دیا‬
‫جواب میں جناب لکھتے ہیں‬
‫صلح جائز ہے ویسے ہی معاویہ کے ساتھ جائز ہے۔۔ اور امام حسن ع کے صلح کرنے سے ان کی‬
‫امامت پر کوئی نقض نہیں آتا۔۔ یہ بات تو آپ کے ذمہ میں ہے کہ آپ ثابت کریں کہ اس سے امام‬
‫حسن ع کی عصمت اور امامت میں فرق آتا ہے۔۔ اور مزید سنئے کہ امام حسن ع معاویہ کو ایک‬
‫فاسق ہی تصور کرتے تھے۔۔ اور صلح کو ایک وقتی ضرورت کے تحت ہی کیا گیا۔‬

‫جواب اگلے کمنٹ میں‪...‬‬

‫‪2/30#‬‬
‫جواب‬
‫‪ 1‬میرا سوال تھا کہ معاویہ رض اگر ایسے تھے جیسا آپ کا باطل نظریہ ھے تو سیدنا حسن رض‬
‫نے ان کو اسالمی حکومت کی سربراہی کیوں دی؟‬
‫جواب میں جناب نے کفار سے صلح کی بات کی ‪ ،‬اور آگے چل کر انھوں نے نبی کریم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کی صلح کے واقعے سے اس کی مثال دی جس پر آگے تفصیلی بات ھوگی‪.‬‬
‫‪ ، 2‬امام کا مقصد امت کی رہنمائی ھوتا ھے نہ کہ ان پر اپنے ھاتھ سے جان بوجھ کر ایسے حکمران‬
‫مسلط کرنا کہ دین و دنیا ان کی برباد ھو‪ ،‬حسن رض نے ایسے شخص کو حکمران بنایا جو (بقول‬
‫شیعہ) امت اور اسالم کے لیے گمراہی و بربادی کا سبب بنا‪.‬‬

‫شیعہ مجتھد آل کاشف الغطاء لکھتے ہیں‬

‫أما حین انتھى اْلمر إلى معاویة‪ ،‬وعلم أن موافقته ومسالمته وإبقائه والیا فضال عن اْلمرة ضرر كبیر‪،‬‬
‫وفتق واسع على االسالم ال یمكن بعد ذلك رتقه لم یجد بدا من حربه ومنابذته‬
‫اصل الشیعۃ و اصولھا ص ‪222،223‬‬
‫‪/...shiaonlinelibrary.com/.../4065//:‬الصفحة_‪...204‬‬

‫اس کا ترجمہ شیعہ مترجم سے بھیجتا ھوں‬

‫جب معاویہ نے اسالمی حکومت و اقتدار کو اپنے زیر نگین کرنا چاھا اور اس ضمن میں اس نے‬
‫مختلف تخریبی کارروائیاں شروع کردیں تو علی بن ابی طالب ع معارض ھوئے‪ ،‬کیونکہ معاویہ‬
‫جیسے شخص کی موافقت اور اس کے غلط طرز حکمرانی کو طرح دینا اسالمی مفاد کے لئے زھر‬
‫ھالھل تھا اور دین ٰالہی کی حفاظت علی ع کا سب سے بڑا فرض‪.‬‬
‫مترجم ص ‪106‬‬

‫اب آپ ھی بتائیں کہ‬


‫⏪ حسن رض نے امت مسلمہ کو یہ زھر ھالھل کیوں اپنے ھاتھوں سے پلوایا؟‬
‫⏪کیوں معاویہ رض سے جنگ نہ کرکے ان کے دین کی حفاظت نہ کی اور اپنا فرض نھیں نبھایا؟‬
‫⏪ کیوں معاویہ رض جیسے غلط طرز حکمرانی کرنے والے کو اپنے ھاتھوں سے حکمران بنایا؟‬
‫کیا اس صورت میں سیدنا حسن رض اپنے منصب امامت پر پورے اترے؟‬
‫جواب ضرور دیں‪.‬‬

‫أصل الشیعة وأصولھا ‪ -‬الشیخ كاشف الغطاء ‪ -‬الصفحة ‪٢٢٢‬‬


‫‪1/31#‬‬
‫جناب لکھتے ہیں‬
‫اب میں عرض کروں کہ امام حسن ع معاویہ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے تھے۔۔ طبرانی نے ثقہ‬
‫راویوں کی سند سے روایت یوں نقل کی‪:‬‬

‫عمرو بن عاص منبر پر بیٹھا ہے اور امیر المؤمنین کا ذکر کیا اور پھر ان کی تنقیص کی اور پھر‬
‫مغیرہ بن شبعہ منبر پر آیا اور ہللا کی حمد اور تعریف کی‪ ،‬اور علی رضی ہللا عنہ کی تنقیص کی۔‬
‫اور پھر امام حسن ع سے کہا گیا کہ آپ بھی منبر پر بیٹھیں تو امام حسن ع نے کہا میں منبر پر اس‬
‫وقت تک نہیں بیٹھوں گا اور کالم کروں جب تک تم یہ گنجائش نہ دو کہ میں اگر حق بات کروں تو‬
‫اس کی تصدیق کرنا اور اگر باطل کہوں تو تکذیب کرنا۔۔ تو انہوں نے یہ گنجائش امام حسن ع کو دی‬
‫اور امام منبر پر بیٹھے تو ہللا کی حمد اور تعریف کی اور پھر کہا اے عمرو بن عاص اور مغیرہ ہللا‬
‫کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم دونوں کو معلوم نہیں کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ خدا کی‬
‫لعنت ہو سواری چالنے والے اور سواری پر بیٹھنے والے پر اور ان دو میں سے ایک فالن تھا تو‬
‫ان دونوں نے یک زبان کہا بیشک ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام حسن ع نے کہ ہللا کے واسطہ اے معاویہ‬
‫اور اے مغیرہ کیا تم دونوں نہیں جانتے کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ ہللا کی لعنت ہو عمرو پر‬
‫اتنی جتنے قافیہ اس سے کہے تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام ع نے کہا اے عمرو‬
‫بن عاص اور اے معاویہ بن ابی سفیان ہللا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول ص نے اس قوم‬
‫پر لعنت کی تھی؟ تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔۔الخ‬

‫حوالہ‪ :‬المعجم الكبیرجلد ‪ ٣‬ص ‪١٢٢-١٢١‬‬

‫جواب‬
‫‪ ،1‬جناب اس میں کھیں بھی یہ بات نھیں کہ سیدنا حسن رض سیدنا معاویہ رض پر لعنت کررھے‬
‫ھیں‪ ،‬یا یھاں جس پر لعنت ھوئی اس سے معاویہ رض مراد ھیں‪.‬‬
‫آپ کی سوچ ھمارے لیے حجت نھیں کہ اس سے معاویہ رض مراد ھیں وغیرہ‪.‬‬
‫بقیہ اگلے کمنٹ میں‪....‬‬

‫‪2/31#‬‬
‫جواب‬
‫‪ ، 2‬اس روایت میں ابو مجلز راوی ھے جس کے بارے میں ھے کہ‬
‫َوقَال أَبُو داود الطیالسي‪َ ،‬‬
‫ع ْن شُ ْع َبة‪ :‬تجیئنا عنه أحادیث كأنه شیعي‪ ،‬وتجیئنا عنه أحادیث كأنه عثماني‪.‬‬
‫تھذیب الکمال ج‪ 31‬ص ‪178‬‬
‫‪shamela.ws/browse.php/book-3722#page-16727‬‬

‫ابو داود طیالسی امام شعبہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ابو مجلز کی ایسی احادیث ھمارے پاس آتی ہیں‬
‫گویا کہ وہ شیعہ ھو‪ ،‬اور کبھی ایسی احادیث آتی ہیں گویا کہ وہ عثمانی ھو‪.‬‬
‫یہ روایت اس کا شیعہ ھونا ظاھر کررھی ھے جو قبول نہیں کی جائے گی‪.‬‬

‫‪ ،3‬اب زرا شیعہ کتاب سے سیدنا حسن رض کا سیدنا معاویہ رض کا متعلق نظریہ دیکھیں‬
‫عن زید بن وھب الجھني قال‪ :‬لما طعن الحسن بن علي علیه السالم بالمدائن أتیته وھو متوجع‪ ،‬فقلت‪:‬‬
‫ما ترى یا بن رسول ہللا فإن الناس متحیرون؟ فقال‪:‬‬
‫أرى وہللا أن معاویة خیر لي من ھؤالء‪ ،‬یزعمون أنھم لي شیعة‪ ،‬ابتغوا قتلي وانتھبوا ثقلي‪ ،‬وأخذوا مالي‪،‬‬
‫وہللا لئن آخذ من معاویة عھدا أحقن به دمي‪ ،‬وأومن به في أھلي‪.‬‬
‫االحتجاج للطبرسی ج‪ 2‬ص ‪10‬‬

‫‪/...shiaonlinelibrary.com/.../1338//:‬الصفحة_‪...10‬‬

‫زید بن وھب جھنی کھتے ھیں کہ جب حسن رض کو زخمی کیا گیا تو ان کے پاس آیا اور وہ بھت‬
‫تکلیف میں تھے‪ ،‬میں نے کھا اے رسول ہللا کے بیٹے آپ کیا دیکھتے ہیں ؟‬
‫حسن رض نے فرمایا کہ ہللا کی قسم معاویہ میرے لیے ان سے بھتر ھے جو خود کو میرا شیعہ‬
‫سمجھتے ہیں ‪ ،‬انھوں نے ھی میرے قتل کی کوشش کی‪ ،‬میرے سامان لوٹا اور میرا مال چھینا‪.‬‬
‫ہللا کی قسم اگر میں معاویہ سے عھد کروں تو یہ میرا جان اور اھل و عیال کے لیے زیادہ امن واال‬
‫ھوگا‪.‬‬

‫سیدنا حسن رض تو معاویہ رض پر اعتماد کریں اور ان سے عھد لے کر اپنے جان‪ ،‬مال و اھل عیال‬
‫کو محفوظ سمجھیں اور شیعہ کھتے ھیں کہ دشمن تھے‪.‬‬
‫دشمن تو حسن رض پر حملہ کر کے ان کو زخمی کرنے والے‪،‬‬
‫ان کو مذل المومنین (مومنوں کو ذلیل کرنے واال) کا لقب دینے والے شیعہ اصل دشمن تھے‪.‬‬

‫(فخر الزمان )‬

‫تھذیب الكمال في أسماء الرجال • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬

‫‪32#‬‬
‫خیر طلب صاحب لکھتے ہیں‬
‫آپ کا امام حسن ع کا سربراہی حکومت کا اختیار دینے پر میں بتاتا چلوں کہ یہ چیز ہرگز خالفت‬
‫معاویہ کی حقانیت پر داللت نہیں کرتی اور نہ ہی امام حسن علیہ السالم کے لئے موجب قدح ہے۔‬
‫میں ابھی تحلیلی بحث میں نہیں جاسکوں گا لیکن مختصرا اتنا عرض کروں گا کہ اس کی مثال فتح‬
‫مکہ کے موقع پر امام حسن ع کے جد امجد رسالت مآب صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی صلح کے‬
‫مترادف ہے جس کو کرنے سے نہ ہی کفار کی حقانیت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی رسالت مآب ص‬
‫کے لئے موجب قدح ہے۔۔ اور رسول ص ہی ہمارے مطاع ہے۔‬

‫جواب‬
‫‪ ،1‬جس کو آپ کے دوسرے منصوص امام حکمران و بادشاہ مقرر کریں‪ ،‬اگر وہ بھی حق پر نہ ھو‬
‫تو پہر کیا آج کل کے شیعوں کے بنائے ہوئے حکمران حق پر ھونگے؟‬
‫دیکھ لیں قارئین یہ کتنا اپنے اماموں کو مانتے ہیں کہ ان کا بنایا ھوا حکمران بھی ان کے نزدیک‬
‫حق پر نھیں‪.‬‬
‫‪ ،2‬سیدنا حسن رض کے لیے سیدنا معاویہ رض کا حکمران بنانا کس طرح قدح ھے وہ میں کمنٹ‬
‫‪ 2/30#‬میں بتا چکا ھوں‪.‬‬
‫‪ ،3‬فتح مکہ کے موقعے پر کن کفار سے صلح ھوئی؟ یہ نئی تحقیق سامنے آئی ھے میرے علم میں‪.‬‬
‫اور اگر آپ کی مراد صلح حدیبیہ ھے تو پہر یہ مثال بھی غلط ھے آپ کی پچھلی دی گئی مثالوں‬
‫کی طرح‪.‬‬

‫اب آئیں زرا دونوں صلح میں فرق دیکھیں‪.‬‬


‫⏪ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے کفار کو اپنے مقبوضہ عالقے یعنی مدینہ کی حکومت و نظام‬
‫حوالے نھیں کیا‪ ،‬ھر کوئی اپنی اپنی جگہ پر رھا‪،‬‬
‫اس کے برعکس حسن رض نے اپنے پورے مقبوضہ عالقے کا نظام و حکمرانی معاویہ رض کے‬
‫حوالے کردی‪.‬‬
‫⏪ نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے کفار کے ھاتھ پر بیعت نھیں کی‪،‬‬
‫اس کے برعکس حسن رض نے معاویہ رض کے ھاتھ پر بیعت کی‪.‬‬
‫(اس پر شیعہ کتب کے حوالے ھیں جو خیر طلب صاحب کے بیعت کے انکار پر دیے جائیں گے)‬
‫⏪ نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے چند سال بعد ھی ان کفار پر حملہ کر کے ان کا مقبوضہ عالقہ (مکہ‬
‫مکرمہ وغیرہ) کو فتح کرلیا‪ ،‬اس کے برعکس حسن رض نے ایسا کچھ نہیں کیا‪.‬‬
‫⏪نبی صلی ہللا علیہ وسلم کفار سے وظیفہ نھیں لیتے رھے‪.‬‬
‫اس کے برعکس حسن رض معاویہ رض سے وظیفہ لیتے رھے‪.‬‬

‫اب آپ ھی فیصلہ کریں خیر طلب صاحب کی ایسے عجیب و غریب قیاسات کا‪.‬‬
‫میں پہلے بھی کھہ چکا ھوں کہ جو بھی مثال دیں سوچ کردیں‪.‬‬

‫‪1/33#‬‬
‫قارئین خیر طلب صاحب کا یہ کمنٹ بھی پڑھیں زرا‬
‫اب دیکھئے کہ اگر آپ کی اس دلیل پرعلیل کو لیا جائے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ معاویہ ابن عمر‬
‫اور عمر بن الخطاب دونوں سے افضل ہے۔۔ وجہ کیا ہے وجہ یہ روایت ہے۔‬

‫بخاری اپنی کتاب المغازی باب غزوة الخندق میں یوں روایت نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫ابن عمر نے بیان کیا کہ میں حفصہ کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک‬
‫رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت‬
‫نہیں ملی ۔ حفصہ نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔ کہیں‬
‫ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے ۔ آخر حفصہ کے اصرار پر‬
‫عبدہللا بن عمر گئے ۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ خالفت‬
‫کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔ یقینا ً ہم اس سے زیادہ خالفت کے‬
‫حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ ۔ حبیب بن مسلمہ نے ابن عمر سے اس پر کہا کہ آپ نے‬
‫وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبدہللا بن عمر نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی (‬
‫جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خالفت کا حقدار وہ‬
‫ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسالم کے لیے جنگ کی تھی ۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں‬
‫میری اس بات سے مسلمانوں میں اختالف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا‬
‫مطلب میری منشا کے خالف نہ لیا جانے لگے ۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آ گئیں‬
‫تعالی نے ( صبر کرنے والوں کے لیے ) جنت میں تیار کر رکھی ہیں ۔ حبیب ابن ابی مسلم‬ ‫ٰ‬ ‫جو ہللا‬
‫نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لئے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے‪..‬الخ‬

‫اب اگر ابن عمر خوف فتنہ کی وجہ سے خاموش رہ سکتے ہیں تو یہی تجویز امام حسن ع کے لئے‬
‫کیوں نہیں۔۔ جب کہ اگر امام حسن ع کو عام بے گناہ مسلمانوں کے خون کے ضائع ہونے کا خدشہ‬
‫نہ ہوتا تو وہ ضرور جنگ کرتے۔۔ چونکہ امام حسن ع کے فوجیوں میں سے بعض نے ناانصافی کی‬
‫اور بعض جنگ کو تیار نہ تھے تو اس صورت میں جنگ کرنا بداہتہ بتا رہا تھا کہ مسلمانوں کا‬
‫صرف خون ہی ضائع ہوگا اور معاویہ کو شام سے ہٹانے کا مقصد بھی پورا نہیں ہوگا۔‬

‫جواب اگلے کمنٹ میں‪....‬‬

‫‪2/33#‬‬
‫جواب‬
‫‪ ، 1‬جناب آپ نے خیر طلب صاحب کا کمنٹ پڑھا ھوگا‪ ،‬اب میں خیر طلب صاحب سے پوچھنا‬
‫چاہوں گا کہ میں نے کب اور کہاں لکھا تھا کہ معاویہ رض خلیفہ بننے سے سب سے افضل ھوگئے‬
‫جو جناب نے یہ لکھ دیا کہ‬

‫"اگر آپ کی دلیل پرعلیل کو لیا جائے تو ھمیں ماننا پڑے گا کہ معاویہ ابن عمر اور عمر بن الخطاب‬
‫سے افضل ہے"‪.‬‬
‫اور آگے بخاری کی ابن عمر رض والی روایت بھیج دی‪.‬‬
‫مجھے تو سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیوں کیا انھوں نے‪ ،‬خود ھی بتائیں جناب‪.‬‬
‫‪ ، 2‬حسن رض کو جس فتنے کے ڈر سے خاموش رھن ا جناب نے لکھا ہے وہ کوئی معقول وجہ نھیں‬
‫کسی دشمن دین‪ ،‬منافق‪ ،‬علی رض کو گالیاں دینے اور دلوانے والے سے جنگ نہ کرنے اور اس کو‬
‫اسالمی حکومت کی سربراہی دینے کی‪.‬‬
‫⏪ پہلی بات تو یہ کہ عام بے گناہ مسلمان کیسے شھید ھوتے جب وہ جنگ میں شریک ھی نہ ھوتے‬
‫تو؟ آپ بتانا پسند کریں گے کہ بے گناہ لوگ کیسے شھید ھوتے؟‬
‫⏪ بقول آپ کے حسن رض کی فوج جنگ کے لیے تیار نہیں تھی‪ ،‬تو یہ ثابت ھوا کہ سیدنا حسن‬
‫رض کے شیعوں نے ان کو دھوکا دیا اور مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیا‪.‬‬
‫⏪ اگر آپ یہ کھیں کہ جو جنگ میں شریک ھوتا وہ شھید ھوتا‪،‬‬
‫تو میں کھ ونگا کہ ایسا تو سیدنا علی رض نے بھی کیا جمل و صفین میں‪ .‬تو کیا سیدنا علی رض نے‬
‫فتنہ کھڑا کیا تھا جنگ لڑ کر‪ ،‬اور بے گناہ لوگوں کو مروایا تھا؟‬
‫⏪ کیا منافق کے ساتھ جنگ ھو اور مسلمان شھید ھوں تو اس کو فتنہ کھا جائے گا ؟‬
‫کیا نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے کفار سے جنگ کر کے بے گناہوں کو میدان جنگ میں شہید‬
‫کروایا نعوذ باہلل ؟‬

‫‪1/34#‬‬
‫دوستو خیر طلب صاحب کا اصل موضوع سے مسلسل ھٹنے اور بات الجھانے کی ایک اور کوشش‬
‫بھی دیکھ لیں‬
‫جناب لکھتے ہیں‬

‫اگر آپ کو اصحاب امیر المؤمنین کا نظریہ چاہئے ہو تو دیکھئے حضرت عمار بن یاسر کیا ارشاد‬
‫فرماتے ہے‬

‫سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے (فوج معاویہ کو دیکھ کر کہا) ہللا کی قسم یہ اسالم (حقیقی)‬
‫نہ الئے بلکہ اسالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ جب‬
‫انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ ابن أبي خیثمة ‪ -‬السفر الثاني‪ ،‬جلد ‪ ، ٢‬ص ‪٩٩١‬‬
‫اور اس روایت کو مجمع الزوائد میں یوں نقل کیا گیا‬

‫سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے صفین کے دن کہا‪ ،‬درحاآلنکہ وہ ان (فوج شام) کے بارے‬
‫میں ذکر کررہے تھے اور صلح کے باتے میں تبصرہ کررہے تھے‪( ،‬اثنائے گفتگوں میں) پھر‬
‫فرمایا۔۔ ہللا کی قسم یہ اسالم (حقیقی) نہ الئے بلکہ اسالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے‬
‫کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردیا۔‬

‫اس کو نقل کرنے کے بعد فرمایا‪:‬‬

‫طبرانی نے اس کو معجم الکبیر میں نقل کیا اور سعد بن حذیفہ کا ترجمہ مجھے نہیں مال۔‬
‫حوالہ‪ :‬مجمع الزوائد جلد اول ص ‪١١٣‬‬
‫جب کہ سعد ثقہ راوی ہے اس کو ابن حبان نے ثقات میں سے شمار کیا ہے اور حاکم نیشاپوری اور‬
‫ذھبی نے اس کی روایت کو صحیح کہا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬واضح ہوا کہ عمار بن یاسر علیہ السالم فوج معاویہ اور خود معاویہ کو یونہی سمجھتے‬
‫تھے اور اب میں فیصلہ خود فخر الزماں اور قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ یہ منافق کی نشانی ہے جو‬
‫اسالم سے بغض اور کفر سے محبت کو دل میں رکھے اور ظاہر اسالم کرے‪.‬‬

‫جواب‬
‫‪ ، 1‬قارئین مجھے بتائیں جو موضوع زیر بحث ھے کہ سیدنا معاویہ رض سیدنا علی رض کو گالیاں‬
‫دیتے اور دلواتے تھے‪ ،‬اس کے مطابق یہ بات کرنے کی کوئی ضرورت تھی؟‬
‫یہ اصل موضوع سے ھٹنا نھیں تو اور کیا ھے ؟‬
‫بقیہ اگلے کمنٹ میں‪....‬‬

‫‪2/34#‬‬
‫جواب‬
‫‪ ، 2‬کیونکہ یہ موضوع کے مطابق نھیں ھے اس لیے میرے ذمے اس کا جواب نھیں‪ ،‬لیکن میں پہر‬
‫بھی جواب دیتا ہوں‪ ،‬شاید کچھ لوگ اس خوش فہمی میں مبتال نہ ھوں کہ اس کے پاس جواب نھیں‬
‫اس لیے بھانے بنا رھا ھے‪.‬‬
‫خیر طلب صاحب آپ کی پیش کردہ روایت دوسری صحیح روایات کے خالف ھے‪.‬‬
‫⏪ بخاری کی روایت جس میں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے حسن رض کے بارے میں فرمایا‬
‫کہ‬
‫ان ابنی ٰھذا سیّد ولع ّل ہللا ان یصلح ٖبہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین‬
‫ّ‬

‫تعالی مسلمانوں کےدوبڑے گروہوں کے مابین صلح کرادے‬‫ٰ‬ ‫میرا یہ بیٹا سید ہےجس کے ذریعے ہللا‬
‫گا‪.‬‬
‫اور سیدنا حسن رض نے اھل شام سے صلح کی‪ ،‬تو خود صاحب وحی نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫نے اھل شام کو مسلمان کھا ھے‪.‬‬

‫⏪ اب خود عمار رض کا نظریہ بھی دیکھیں‬

‫‪ ، 1‬زیاد بن حارث جنگ صفین کا واقعہ بتاتے ہوئے کھتے ھیں کہ میں عمار رض کے اتنا قریب تھا‬
‫کہ ھم دونوں کے کندھے مل رھے تھے‪ ،‬تو ایک شخص نے کھا کہ‬

‫احدَة ٌ‬ ‫ار‪َ :‬ال تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِیُّنَا َو َنبِیُّ ُھ ْم َو ِ‬


‫احد ٌ ‪َ ,‬وقِ ْبلَتُنَا َوقِ ْبلَت ُ ُھ ْم َو ِ‬ ‫َكفَ َر أ َ ْھ ُل ال ه‬
‫ش ِام ‪ ,‬فَقَا َل َ‬
‫ع هم ٌ‬
‫مصنف ج‪ 7‬ص ‪547‬‬

‫اھل شام کافر ھوگئے‪ ،‬اس پر عمار رض نے کھا یہ مت کھو‪ ،‬ھمارا اور ان کا نبی ایک ھے‪ ،‬ھمارا‬
‫اور ان کا قبلہ ایک ھے‪.‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-9944#page-42652‬‬

‫‪ ،2‬دوسری روایت بھی عمار رض کی‬


‫ار‪َ :‬ال تَقُولُوا‪َ :‬كفَ َر أ َ ْھ ُل ال ه‬
‫ش ِام ‪,‬‬ ‫شیْخٍ‪ ،‬لَهُ یُقَا ُل لَهُ َربَا ٌح ‪ ,‬قَالَ‪ :‬قَا َل َ‬
‫ع هم ٌ‬ ‫ع ْن َ‬ ‫ع ْن َحسَ ِن ب ِْن ْال َح ِ‬
‫ارثِ‪َ ،‬‬ ‫َو ِكی ٌع‪َ ،‬‬
‫سقُوا َ‬
‫ظلَ ُموا‬ ‫َولَ ِك ْن قُولُوا‪ :‬فَ َ‬
‫مصنف ج‪ 7‬ص ‪547‬‬

‫رباح کھتے ھیں کہ یہ مت کھ و کہ اھل شام نے کفر کیا‪ ،‬بلکہ یہ کھو کہ انھوں نے گناہ کیا ظلم کیا‪.‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-9944/page-42652#page-42653‬‬

‫ان صحیح روایات کے مقابلے میں آپ کی روایت شاذ کھالئے گی‪.‬‬


‫شاذ روایات پر اپنے مذھب کی بنیاد رکھنا چھوڑ دیں‪.‬‬

‫مصنف ابن أبي شیبة • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬

‫‪35#‬‬
‫اعالء السنن کی عبارت اور ابن عباس والی بات پر‪ .‬جناب لکھتے ہیں‬

‫ہم نے اعالء السنن کی روایت سے ہی استدالل کرکے پوری تنقیح کی تھی جس پر محترم نے تبصرہ‬
‫نہیں کیا ہاں اگرچہ جو ابن عباس کی روایت بطور تائید پیش کی تھی اس پر ضرور تبصرہ کیا ہے۔‬
‫تو دیکھتے ہے پہلے محترم فخر الزماں کا کالم اور پھر میرا تبصرہ۔‬

‫جواب‬
‫جناب میں نے آپ کے دونوں روایات پر بات کی ھے‪ ،‬نسائی والی روایت کے لیے تھوڑا سا اشارہ‬
‫کیا کہ وہ آپ کی اعالء السنن والی روایت کے خالف ھے اور تقیہ والی اعالء السنن والی پر بات کی‬
‫جو خود آگے آپ نے بھی کاپی پیسٹ کیے ھیں‪.‬‬

‫آگے جناب میرے کمنٹ کاپی کرتے ہیں کہ‬

‫‪ ، 1‬نسائی کی روایت پر بحث مسلم والی روایت کے بعد ھوگی تاکہ ایک ایک دلیل پر تفصیلی بات‬
‫ھو اور دیکھنے والے صحیح سے سمجھ سکیں‪.‬‬
‫اور نسائی کی روایت تو ابن عباس رضی ہللا عنہما کی تقیہ کرنے والی بات کا واضح رد کررھی‬
‫ھے‪ .‬ان دونوں میں سے آپ کو ایک بات کو صحیح کھنا ھوگا‬

‫پہر خیر طلب صاحب لکھتے ہیں کہ‬

‫محترم جب آپ مجھ سے دلیل مانگیں گے تو میں دیگر قرائن میں اس کو مضبوط کرنے کے لئے‬
‫دیگر کتب کا تو سہارا لوں گا یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں اعالء السنن کی عبارت خود واضح ہے لیکن‬
‫اپنے دعوی کے اثبات میں ایک مزید دلیل پیش کی۔‬
‫دونوں میں سے دونوں باتیں صحیح ہوسکتی ہے اگر دو مختلف مواضع اور مختلف اوقات میں ہوں۔۔‬
‫ایک جگہ ظرف تقیہ ہو اور دوسری جگہ نہیں۔۔ یہ فقہی احکامات پڑھنے والوں پر مخفی نہیں۔۔‬
‫تناقض کا اثبات کا ذمہ آپ کا کام ہے۔ ایک جگہ وتر کا معاملہ ہے اور ایک جگہ دوسرا مسئلہ۔‬

‫جواب‬
‫‪ ، 1‬خیر طلب صاحب آپ نے اعالء السنن کی تائید میں نسائی کی روایت پیش کی وہ تو اس کے‬
‫دعوی کے مطابق کوئی بات نہیں جس کا رد میں پہلے‬ ‫خالف نکلی‪ ،‬باقی اعالء السنن میں آپ کے ٰ‬
‫بھی کرچکا ہوں‪.‬‬
‫‪ ،2‬واقعات مختلف ھ یں لیکن سوال یہ ہے کہ ابن عباس رض کا ایک جگہ تقیہ اور دوسری جگہ‬
‫کھلی مخالفت؟‬
‫تقیہ کرنے کی وجہ کیا حج کے موقعے پر ختم ھوگئی تھی؟‬
‫وتر کے معاملے میں تقیہ اور حج پر تلبیہ کے معاملے میں کھلی مخالفت؟‬
‫حج پر تو اور بھی بھت زیادہ لوگ ھوتے ھیں وھاں تو تقیے کی زیادہ ضرورت تھی‪ ،‬لیکن وھاں‬
‫تقیہ نھیں کرتے اور ایک دو لوگوں کے سامنے تقیہ کردیا‪.‬‬
‫عجیب بات نہیں یہ؟‬

‫نوٹ‪ .‬نسائی کی روایت پر فی الحال میں نے آپ کے استدالل کے مطابق اوپر تبصرہ کیا ھے نہ کہ‬
‫اپنے نظریے کے مطابق‪.‬‬

‫‪36#‬‬
‫آگے میرے کمنٹ کاپی کرتے ہیں کہ‬

‫رھا ابن عباس رضی ہللا عنہ کا تقیہ کرنے والی بات‪ ،‬تو یہ تو بعد کے علماء کی تاویالت ھیں نہ کہ‬
‫خود ابن عباس رضی ہللا عنہ کا قول‪ ،‬اس کے برعکس ابن عباس رضی ہللا عنہ کا معاویہ رضی ہللا‬
‫عنہ کے پاس جانا‪ ،‬ان کے تعریف کرنا اور عطیات لینا کتب تاریخ سے ثابت ہے جو نسائی والی‬
‫بحث میں سامنے آئیں گی‪.‬‬

‫پہر جناب آگے جواب دیتے ہیں کہ‬

‫ہمارے لئے آپ کی کتب بالکل حجت نہیں۔ لہذا ان تمام باتوں کا اثبات شیعہ کتب سے ضرور کیجئے‬
‫گا۔۔ باقی ابن عباس کا معاویہ کو گدھا کہنا‪ ،‬بعض علماء کا انتساب تقیہ کرنا‪ ،‬بغض علی کا حامل کہنا‬
‫اس کے مقابلہ میں آپ شیعہ کتب سے دلیل الئے گا جو قابل احتجاج ہو۔ باقی عطیات لینا تو ظالم و‬
‫جائر خلفاء سے آپ کے ہاں جائز ہے تو یہ دلیل آپ کے لئے نہیں بلکہ خالف بھی جاسکتی ہے۔۔‬
‫مزید تفصیل جب ضرورت پڑے گی تو دالئل دئے جائیں گے لیکن آپ کو ذرا فقہی حکم بتانا مقصود‬
‫تھا۔‬

‫جواب‬
‫‪ ،1‬پہلے آپ یہ تو مان لیں کہ سنی کتب میں واقعی ایسی روایات ھیں جو آپ کے نظریے کے خالف‬
‫ھیں‪ ،‬سنی کتب سے آپ کا مذھب ثابت نھیں ھوتا پہر شیعہ کتب پر تو میں آ ھی گیا ھوں آگے اور‬
‫بھی نظارہ کرواتا ھوں جناب کو شیعہ کتب کا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬جائر خلفاء سے عطیات لینے کا انکار میں نے نھیں کیا ‪ ،‬لیکن یھاں جائر نھیں بلکہ آپ کے‬
‫دعوی کے مطابق منافق‪ ،‬دین کا دشمن‪ ،‬علی و اھل بیت رضوان ہللا علیہم کا دشمن‪ ،‬علی رض کو‬ ‫ٰ‬
‫گالیاں دینے اور دلوانے واال‪ ،‬ان سے جنگیں لڑنے واال اور ھزاروں مسلمانوں کو شھید کروانے‬
‫واال‪ ،‬نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا لعنت کیا ھوا وغیرہ‪.‬‬
‫اس سے عطیات لینا‪ ،‬اس کی تعریف کرنا‪ ،‬کیا یہ ایمانی غیرت کے خالف نھیں‪.‬‬

‫‪37#‬‬
‫آگے جناب لکھتے ہیں‬

‫آپ ذیل میں آپ کو بعض اصحاب امیر المؤمنین ع کا حوالہ دیتا ہوں جنہیں معاویہ نے قتل کروایا۔‬

‫‪ ، ١‬حجر بن عدی اور ان کے ساتھی۔۔ حجر بن عدی کا شیعان امیر ع میں سے ہونا محتاج بیان نہیں۔۔‬
‫اور ان کا صحابی ہونا خود آپ کے کثیر کتب سے ثابت ہے۔۔ علی کل حال۔۔ ان کو اور ان کے‬
‫ساتھیوں کو معاویہ ہی نے قتل کروایا‪ ،‬ابن اثیر رقم طراز ہے‬

‫پس حجر اور ان کے ساتھی مقام عذرا جو دمشق کے قریب ہے وہاں آئے‪ ،‬اور معاویہ نے ان کے‬
‫قتل کا حکم دیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬أسد الغابة جلد ‪ ١‬ص ‪٤٦٢‬‬

‫‪ ، ٢‬محمد بن ابی بکر۔۔ یہ بھی محتاج تعارف نہیں۔ ابن حبان فرماتے ہے‬
‫معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے محمد بن ابی بکر جو اس وقت مصر کے گورنر تھے ان کے انجام‬
‫کے لئے مشورہ کیا تو وہ تمام اس پر متفق ہوئے کہ ایک چھوٹی فوج کو بھیجا جائے یوں عمرو بن‬
‫عاص چار ہزار فوجیوں کے ساتھ چڑھائی کے لئے نکل پڑا اور اس فوج میں ابو االعور السلمی‪،‬‬
‫معاویہ بن خدیج اور دونوں فوجوں کا مقابلہ مسانہ کے مقام پر گھمسان کا ہوا۔ اور کنانہ بن بشر اس‬
‫جنگ میں قتل ہوا اور محمد بن ابی بکر شکست کھاگئے اور لڑتے لڑتے قتل ہوگئے۔ اور کہا گیا کہ‬
‫کہ محمد بن ابکر کی الش کو گدھے کی کھال میں ڈال کر جالیا گیا اور جب یہ الش کو جالنے کی‬
‫خبر معاویہ کو پہنچی تو وہ خوش ہوا‪ ،‬جس کی خبر جب امیر ع کو پہنچی تو آپ نے کہا مجھے اتنا‬
‫ہی دکھ ہوا جتنا معاویہ کو اس کے قتل پر خوشی ہوئی‬

‫حوالہ‪ :‬الثقات‪ ،‬جلد ‪ ٢‬ص ‪٢٩٧‬‬


‫تبصرہ‪ :‬یہ لسٹ قتل کافی بڑی ہے انشاء ہللا اس پر میں کافی کالم کرسکتا ہوں۔۔ اور بہت سارے نام‬
‫لئے جاسکتے ہیں لیکن یہ دو فقط اعالء السنن کی عبارت کی تائید ہی میں تھے کہ معاویہ کس طرح‬
‫خواص امیر المؤمنین ع کے ساتھ سلوک کرتا تھا۔‬

‫جواب‪.‬‬
‫‪ ،1‬خیر طلب صاحب میں ان کے قتل ھونے کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ کیوں ھوا کیسے ھوا‪،‬‬
‫بس آپ سے یہ پوچھتا ھوں کہ‬
‫ان کو کیوں اور کس وجہ سے قتل کیا گیا؟‬
‫کیا اس لیے کہ یہ سیدنا علی رض کے لشکر میں تھے‪ ،‬ان کے ساتھی تھے؟‬
‫یا کوئی اور وجہ تھی؟‬
‫جو بھی بات کریں دالئل سے کریں تاکہ اصل بات واضح ھو سکے‪.‬‬
‫ب علی کے دشمن تھے تو سب سے حسنین کریمین‪ ،‬ابن عباس وغیرہ کو‬ ‫‪ ،2‬اگر معاویہ رض اصحا ِ‬
‫قتل کرواتے‪ ،‬حکومت و طاقت ان کے ھاتھ میں تھی کون تھا روکنے واال ؟‬
‫ب علی کو چن چن کر قتل‬ ‫‪ ،3‬آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ معاویہ رض ایسے ظالم تھے کہ اصحا ِ‬
‫کروایا‪ ،‬تو پہر سعد رض کو کیسے چھوڑ دیا جو ان کے سامنے علی رض کے فضائل بیان کرتے‬
‫رھے اور زندہ بچ گئے؟‬
‫آپ کے ایک بات دوسری بات کا رد کررھی ھوتی ھے‪.‬‬
‫اور بھی بھیجیں ایسی باتیں‪.‬‬

‫‪1/38#‬‬
‫آگے جناب لکھتے ہیں‬

‫معاویہ‪،‬اموی اور حکمرانوں کا امیر المؤمنین ع پر سب کرنا علماء اہلسنت کے اقوال سے‬

‫ابن حزم‪ :‬بنو عباس نے کسی بھی صحابی (خدا کی رضوان ہوں ان پر) پر سب نہیں کیا بنو امیہ کے‬
‫برخالف جنہوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر لعنت کا طریقہ اپنایا‪ ،‬اور ان‬
‫کی پاک اوالد بنی زھراء پر بھی لعنت کی‪ ..‬الخ‬

‫ا بن حجر‪ :‬اس کے بعد امیر المؤمنین کا معاملہ (کچھ یوں بیٹھا) کہ ایک گروہ نے امیر المؤمنین ع‬
‫سے جنگ کی اور پھر معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگیا کہ اس لڑنے والے گروہ (اشارہ قوم معاویہ‬
‫کی طرف) امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرنے لگے اور ان پر منبروں پر لعنت‪ ..‬الخ‬

‫پہر میرا جواب نقل کرتے ہیں کہ‬

‫ان حواالجات کا بھی وھی حال ھے جو عالمہ ابن تیمیہ کے پچھلے حواالجات کا تھا‪.‬‬
‫اس میں بھی سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کا سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو سب کرنے کا ثبوت نھیں‪.‬‬
‫دعوی خاص ھے اور دلیل عام‪.‬‬‫ٰ‬
‫یا تو میری عام دلیل (بقول آپ کے) کو قبول کریں یا خود بھی پیش مت کریں)‬

‫اور آگے جواب لکھتے ہیں کہ‬

‫محترم اس بھولے پن پر کون نہ مسکرائے۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس ان حوالے جات کے‬
‫کوئی جواب نہیں۔۔ ہر جگہ صرف معاویہ کا نام لے کر سب علی کے الفاظ کا پوچھنا عجیب سوال‬
‫ہے۔ میں ایک مثال سے آپ کو اور قارئین کو سمجھاتا ہوں اگر میں یہ کہوں کہ ہر انسان ناطق ہے‬
‫تو مجھے اس بات کی دلیل خارجی دینے کی ضرورت نہیں کہ زید‪ ،‬بکر‪ ،‬عمرو یہ سب ناطق ہیں‬
‫کیوں۔۔ اس وجہ سے کہ ان سب کا انسان ہونا مسلم ہے اور انسان کے لئے ناطق ہونا ثابت ہے تو‬
‫بدیہی طور پر زید‪ ،‬عمرو اور بکر کا ناطق ہونا بھی مقدمات ہی میں ہے۔‬

‫محترم فخر الزماں ادھر معاویہ کا ذکر اس طرح موجود ہے۔‬

‫ابن حزم کی عبارت دیکھیں تو اس نے بنو امیہ میں سوائے دو خلفاء کے سب سے انتساب سب کیا‬
‫ہے۔ دیکھئے ابن حزم کا فرمان‬

‫وكلھم كان على ھذا حاشا عمر بن عبد العزیز ویزید بن الولید رحمھما ہللا تعالى‪،‬‬

‫اب بتائے کہ اس میں معاویہ آتا ہے یا نہیں۔۔ اگر معاویہ خلیفہ اموی نہ تھا تو اس تاریخی حقیقت کا‬
‫انکار آپ سے ممکن نہیں اور اگر معاویہ خلیفہ تھا تو اس سے سب علی ثابت ہے۔‬

‫اور اب ابن حجر کی بات کرتا ہوں۔۔ ابن حجر کا فرمان دیکھئے‪:‬‬

‫ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على‬
‫المنابر سنة‬
‫ووافقھم الخوارج على بغضه‬

‫ادھر واضح طور پر خوارج کے عالوہ جس گروہ نے امیر ع سے جنگ کی ان کا مبروں پر لعنت‬
‫کرنا لکھا ہے۔ اب بتائے کہ خوارج کے عالوہ جنگ صفین اور جنگ جمل ہوئی ہے یا تو ابن حجر‬
‫کا اشارہ جمل کے سربراہوں کا منبروں پر تبرا مراد ہے یا صفین کے سربراہوں کا۔۔ جمل کا ہونا‬
‫ممکن نہیں کیونکہ ان کی حکومت ابن زبیر سے پہلے نہ تھی اور ادھر واضح اشارہ صفین والوں‬
‫ہی کی طرف سے۔۔ منبروں پر سب کرنا بتاتا ہے کہ یہ معاویہ کی مشاورت اور پوری اجازت سے‬
‫ہے۔‬

‫جواب اگلے کمنٹ میں‪...‬‬


‫‪2/38#‬‬
‫جواب‬
‫‪ ، 1‬میرے بھولے پن پر نھیں آپ کے بھولے پن پر مسکرانا چاہیے‪ .‬وہ اس طرح کے آپ نے ایک‬
‫کلیہ بنایا کہ عمر بن عبدالعزیز رح اور یزید بن ولید کے عالوہ سارے اموی خلفاء سیدنا علی رض‬
‫پر لعنتیں دیتے تھے‪.‬‬
‫اس طرح آپ نے سیدنا معاویہ رض کو بھی شامل کیا‪.‬‬

‫اب زرا اپنے کلیہ کو پرخچے اڑتے ھوئے بھی دیکھیں‪.‬‬


‫سیدنا عثمان رض بھی اموی تھی خلیفہ راشد تھے‪ ،‬ان کے بارے میں تو آپ بھی نھیں کھتے کہ وہ‬
‫سیدنا علی رض کو ممبروں پر گالیاں دیتے تھے‪.‬‬
‫تو آپ نے صرف دو کو نکال کر باقی اموی خلفاء کا کلیہ بنایا وہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ھوگیا‪.‬‬
‫آپ تو فرضی کلیے دوسروں کی طرف منسوب کر کے توڑتے رھتے لیکن یھاں تو آپ کا حقیقی‬
‫کلیہ ٹوٹ کر چکنا چور ھوگیا‪.‬‬
‫‪ ،2‬آپ یھاں بھی غلط ترجمے پر بنیاد رکھ رھے ھیں‪.‬‬
‫یہ ترجمہ کرتے ہیں‬
‫"لڑنے والے گروہ نے تنقیص کی"‬
‫اور اس سے آپ ھر لڑنے والے کا تنقیص کرنا کیسے سمجھ رھے ھیں کہ جس جس نے جنگ کی‬
‫اس نے تنقیص بھی کی ؟؟‬
‫حاربوہ اور تنقصوہ کا ضمیر طائفۃ اخری کی طرف لوٹ رھا ھے‪ ،‬یعنی وہ ایک خاص ٹوال جس‬
‫نے جنگ بھی کی اور تنقیص بھی کی‪.‬‬
‫آور جناب یہ سمجھ بیٹھے کہ ھر جنگ کرنے والے نے علی رض کی تنقیص کی‪ ،‬ایسا نھیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬اگر آپ واال مطلب مراد لیں بھی تب بھی معاویہ رض کا گالی دینا ثابت نھیں ھوتا‪ ،‬کیونکہ اگر‬
‫جنگ کرنے والوں میں سے چند نے یہ حرکت کی تب بھی یھی کھا جائے گا کہ جنگ کرنے والوں‬
‫نے گالیاں دیں‪.‬‬
‫تو یھاں بھی آپ کی بات نھیں بنتی‪.‬‬
‫‪ ، 4‬جنگ کرنے والوں میں تو عقیل بن ابی طالب رض بھی تھے جو صفین میں معاویہ رض کے‬
‫ساتھ تھے‪ ،‬تو کیا انھوں نے بھی علی رضی کو گالیاں دیں؟‬

‫‪39#‬‬
‫پہر جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫ذیل میں ہم تین مزید علماء اہلسنت کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ یہ تعداد اور بڑھ جائے‬

‫‪ ،١‬عالمہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں‪:‬‬

‫حدیثوں کی تدوین بنو امیہ کے زمانہ میں ہوئی جنہوں نے پورے ‪ ٩٠‬برس تک سندھ سے ایشیائے‬
‫کوچک اور اندلس تک مساجد جامع میں آپ فاطمہ کی توہین کی اور جمعہ میں سر منبر حضرت‬
‫علی رض پر لعن کہلوایا‪ ،‬سینکڑوں حدیثیں امیر معاویہ وغیرہ کے فضائل میں بنوائیں۔‬
‫حوالہ‪ :‬سیرت النبی ص حصہ اول ص ‪٦٩‬‬

‫‪ ،٢‬عالمہ زاہد کوثری رقم طراز ہے‪:‬‬

‫اس میں کوئی شک نہیں کہ بنو امیہ کے خلفاء حضرت علی کرم ہللا وجھہ پر منبروں پر لعنت کرتے‬
‫تھے‪ ،‬خدا انہیں رسوا کرے یہاں تک حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ہللا عنہ نے اس کو ختم‬
‫کروایا۔‬

‫حوالہ‪ :‬تانیب الخطیب ص ‪٢٨٥‬‬

‫‪ ، ٣‬مشہور مفتی۔۔ تاریخ ملت کے مصنف اپنی کتاب میں عمر بن عبدالعزیز کے تذکرہ میں فرماتے‬
‫ہے اور ایک ہیڈنگ ڈالتے ہے ‘سب علی کا انسداد‘ اور پھر ارشاد فرماتے ہے‪:‬‬

‫لیکن اصطالحات کے سلسلہ میں سب سے بڑی اصالح جو ان کے نامئہ اعمال میں سنہری حروف‬
‫سے ثبت ہے‪ ،‬حضرت علی رض کی شان میں بدگوئی کا انسداد ہے‪ ،‬عرصہ سے یہ دستور چال آرہا‬
‫تھا کہ خلفاء بنی امیہ اور ان کے عمال خطبوں میں حضرت علی رض پر لعن و طعن کیا کرتے‬
‫تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے والد بزرگوار عبدالعزیز بھی مصر کے والی کی حیثیت سے‬
‫اس تکلیف دہ فرضی منصب کو ادا کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن چونکہ دل زبان کا ہمنوا نہ تھا اس‬
‫لئے اس موقع پر آپ کی آواز سٹ پٹا جاتی تھی۔ بیٹے نے باپ کی اس کمزوری کو بھانپ لیا اور اس‬
‫سے اس کی وجہ پوچھی۔ امیر عبدالعزیز نے کہا‬

‫بیٹا جو لوگ ہمارے ساتھی ہیں اگر انہیں علی رض کے فضائل معلوم ہوجائیں تو کوئی ہمارے ساتھ‬
‫نہ رہے اور سب ان کی اوالد کے حامی بن جائیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ ملت جلد اول‪ ،‬ص ‪٦٥٩‬‬

‫جواب‬
‫‪ 1‬قارئین آپ دیکھیں ان کا حال بھی ان حواالجات سے مختلف نہیں جو انھوں نے پہلے نقل کیے ھیں‬
‫جن کا جواب میں پہلے ھی دے چکا ھوں دبارہ دھرانے کی ضرورت نہیں‪.‬‬
‫‪ ، 2‬رھا معاویہ رض کی شان میں احادیث بنوانے کا مسئلہ‪ ،‬تو موضوع روایات کی علماء نے‬
‫نشاندہی کردی ھے اور اصول بھی بتا دیے ہیں‪ ،‬اب اس رونے دھونے کے ضرورت نھیں‪.‬‬
‫لیکن یہ بات بھی حقیقت ھے کہ معاویہ رض کی تنقیص میں بھی روایات گھڑی گئی ہیں‪.‬‬
‫معاویہ رض کی شان بیان کرنا بھی عباسی دور میں جرم تھا‪.‬‬

‫شیعہ مؤرخ مسعودی کی ھی بات پڑھ لیں‬


‫و فی سنۃ اثنتی عشرة و مائتین نادی منادی المأمون برئت الذمۃ من احد من الناس ذکر معاویۃ بخیر او‬
‫قدمہ علی احد من أصحاب رسول ہللا‪...‬‬
‫مروج الذھب للمسعودی ج‪ 4‬ص ‪34‬‬

‫سنہ ‪ 212‬ھجر ی میں خلیفہ مامون کے منادی نے اس سے براءة ذمہ کی ندا لگائی جو معاویہ رض‬
‫کا ذکر خیر کے ساتھ کرے یا ان کو کسی صحابی سے شان کے اعتبار سے مقدم کرے‪.‬‬

‫‪archive.org/stream/Meroujzahab/MRJ04#page/n33/mode/1up‬‬

‫تو میں بھی کھہ سکتا ہوں کہ آپ یا باقی شیعہ جو سیدنا معاویہ رض کی تنقیص کرتے ہیں وہ اس‬
‫دور کی گھڑی گئی جھوٹی روایات میں سے ھیں‪.‬‬

‫مروج الذھب ومعادن الجوھر‬


‫‪1/40#‬‬
‫میں نے اصل و اصول الشیعہ سے روایت پیش کی تھی جس کو جناب نے بے سند کھہ کر رد کیا‬
‫تھا‪ ،‬جس پر میں نے کھا تھا کہ‬

‫‪ ،1‬یہ روایت ان کے مجتھد مح مد حسین آل کاشف صاحب نے اپنی کتاب میں اپنی اس بات کو ثابت‬
‫کرنے کے لیے پیش کی ھے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کی حکومت مسلمانوں کے خون پسینے کی‬
‫کمائی سے عیش و عشرت والی تھی جو اسالمی تعلیمات کے خالف ہے‪.‬‬
‫تو آل کاشف صاحب نے جس بات کو معاویہ رضی ہللا عنہ کے خالف دلیل کے طور پر پیش کیا‬
‫ھسے اس خیر طلب صاحب نے "بے سند" کھہ کر اپنے مجتھد آل کاشف صاحب کو سیدنا معاویہ‬
‫رضی ہللا عنہ پر جھوٹا الزام لگانے واال ثابت کردیا‪.‬‬
‫واہ ایسے دو چار شیعہ مناظر اور مل جائیں تو مزا آجائے‪.‬‬
‫‪ ، 2‬اصل میں خیر طلب صاحب کا مسئلہ یہ ھے کہ جو بات ان کے نظریے کے خالف ھوتی ھے یہ‬
‫اس حوالے یا کتاب کو ھی غیر معتبر یا بے سند وغیرہ کھہ کر جان چھڑانے میں عافیت سمجھتے‬
‫کررھے ہیں‪.‬‬
‫ان کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان کے مجتھد اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اس روایت کو بطور دلیل‬
‫پیش ھیں‪.‬‬
‫‪ ،3‬اس سے یہ بات بھی ثابت ھوئی کہ شیعہ مجتہدین صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے بے سند و‬
‫جھوٹی روایات کا سھارا لیتے ھیں‪ ،‬یھی بات اھل السنت علماء صدیوں سے کھتے آرھے ھیں جو‬
‫خبر طلب صاحب نے کر دی)‬

‫جواب میں جناب لکھتے ہیں کہ‬

‫محترم ایسا کالم اہل علم کے شایان شان نہیں۔۔ ہمیں کہتے ہے موضوعات مختلفہ الرہے ہیں اور خود‬
‫شیعہ مجتہدین کا بے سند روایات سے استدالل کرنا وغیرہ کہنا شروع کردیا۔۔ کیا آپ توقع رکھتے‬
‫ہیں کہ آپ کی ان باتوں کا میں جواب دوں‪ ،‬میرے پاس آپ کی ایک ایک شق کا جواب ہے لیکن جو‬
‫موضوع نہیں اس پر کالم نہیں کرتا۔۔‬

‫اول‪ ،‬تو شیخ کی کتاب فقط شیعہ م خاطبین کے لئے نہیں بلکہ عمومی عنوان سے شیعہ اور غیر شیعہ‬
‫کے لئے تھی تو انہوں نے اس روایت کو نقل کیا۔‬

‫دوم‪ ،‬نقل روایت ہمیشہ نقل صحت پر داللت نہیں کرتی (اس امر پر اپنے نظریہ بتانے کی بات نہیں‬
‫ہورہی بلکہ فقط نقل کی ہے)۔ ۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو محترم ذرا بتائے گا کہ پھر ہم کیا‬
‫کنزالعمال کی تمام روایات سے آپ کو ملزم کرسکتے ہیں اس اصول کے تحت‪ ،‬اگر آپ حامی‬
‫بھردیں تو یہ سودہ برا نہیں مجھے بہت خوشی ہوگی۔‬

‫جواب‬
‫‪ ، 1‬جناب اھل علم کے شایان شان یہ بات بھی نھیں کہ وہ عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے‬
‫مطلب کی بات ھی نقل کردے‪ .‬اور یہ آپ کئی بار کر چکے ہیں‪.‬‬
‫بہرحال‪ ،‬یہ تو آپ نے اپنے مجتھد کے مستدل کو بے سند کھہ کر ھم کو کھنے کا موقعہ دیا‪.‬‬
‫‪، 2‬آپ کے شیخ بھلے سنی و شیعہ سے مخاطب ھوں‪ ،‬لیکن یہ ثابت تو وہ اپنا مذھب اور نظریات ھی‬
‫کررھے ھیں نہ؟‬
‫اور اس کے لیے بے سند روایات کا سھارا لے کر عوام کو دھوکا کیوں دے رھے ھیں ؟‬
‫‪ ، 3‬میں نے یہ بات واضح طور پر لکھی ھے کہ آپ کے مجتھد صاحب نے اپنے نظریے کو ثابت‬
‫کرنے کے لیے یہ روایت پیش کی ھے‪ ،‬اور آپ مطلقا ً روایت نقل کرنے کی بحث بیچ میں ال کر کنز‬
‫العمال کی مثال دے کر خلط مبحث کرنے کی کوشش کررہے ہیں‪.‬‬
‫آپ دوسروں کے ساتھ اس طرح کی کوششیں کرچکے ھونگے یہ اصل بات سے بات ھٹا کر دوسری‬
‫بات چھیڑ دی لیکن مجھ سے اس طرح کا طریقہ آئند اختیار مت کریں‪.‬‬

‫‪2/40#‬‬
‫آگے جناب لکھتے ہیں‬

‫ثالثا۔۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ یہ روایت مؤلف کے نزدیک ثابت ہے تو محترم پھر بھی وہ‬
‫ہم پر ملزم نہیں اگر ہم دلیل سے اس کا رد کریں دیکھئے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات کتنے‬
‫علماء نے نقل کی اور اس کی صحت کے مقر تھے تو کیا آپ کو میں ملزوم کروں؟ اگر دوسروں‬
‫کے استدالل کو پورے مذھب تشیع پر حجت سمجھتے ہیں تو ہم ان کو ان کے گھر سے تھوڑا مواد‬
‫دے دیتے ہیں۔۔ میں ان کو احناف کے خالف جو دلیل دی جاتی ہے مع تصحیحات علماء و استدالل‬
‫علماء دے دیتا ہوں تاکہ اگر ان کے اندر انصاف کی رمق ہو اور جس قاعدہ کے تحت مجھے یہ ملزم‬
‫کررہے ہیں وہ خود پھر اپنے مذھب حنفیت کو خیر آباد کہیں اور اس حدیث پر عمل کریں۔ یاد رہے‬
‫کہ اگر ہماری بحث ابھی تحقق صحت اور عدم پر نہیں۔۔ بلکہ ہم نے محترم فخر الزماں صاحب کو‬
‫ان کے قاعدے پر ملزم کررہا ہوں۔‬

‫چنانچہ یہ مشہور روایت ہے‬


‫صحابی نے رسول ص کے پیچھے نماز پڑھی اور وہ اپنے سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر سینے پر‬
‫رکھتے تھے‬

‫اس حدیث کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬صحیح ابن خزیمہ جلد اول ص ‪٢٤٣‬‬

‫نووی نے اس روایت سے استدالل کیا ہے (بقول فخر الزماں استدالل صحت عند المؤلف کی دلیل‬
‫ہے)‬

‫حوالہ‪ :‬شرح مسلم از نووی‪ ،‬جلد ‪ ٤‬ص ‪١١٥‬‬

‫عالمہ ابو الحسن سندھی نے اس روایت کو قابل احتجاج کہا‬

‫حوالہ‪:‬حاشیة السندي على سنن ابن ماجه جلد ‪ ١‬ص ‪٢٧٠‬‬

‫عالمہ امیر یمانی نے اس حدیث سے استدالل کیا ہے‬

‫حوالہ‪ :‬سبل االسالم جلد اول ص ‪٢٥٢‬‬

‫عالمہ شوکانی نے اس حدیث سے استدالل کیا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬نیل االوطار جلد دوم ص ‪٢٢٠‬‬

‫عالمہ ابن حجر عسقالنی نے اپنی دو کتب میں اس کو نقل کیا اور سکوت اختیار کیا (درحاآلنکہ‬
‫ہمارے احناف متاخرین کے ہاں ابن حجر کا سکوت بعض کتب میں تحسین پر داللت کرتا ہے)‬

‫حوالہ‪ :‬التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الكبیر‪ ،‬جلد اول ص ‪ ٤٠٥‬اور الدرایة في تخریج‬
‫أحادیث الھدایة جلد اول‬

‫تو ہم نے آدھے درجن علماء کو نقل کیا جو اس روایت کی صحت کے قائل آپ کے مبنی کے تحت‬
‫تو کیا آپ بھی اس طرح نماز پڑھیں گے اور سینے پر ہاتھ باندھدیں گے۔۔ یاد رکھئے کہ ہم آپ کے‬
‫مبانی سے متفق نہیں لیکن آپ کو آپ کے مبنی پر ملزم کرنا ہمارا حق ہے۔ اور یاد رہے کہ داللت‬
‫کے اعتبار سے حدیث بہت واضح ہے۔۔ خود احناف علماء نے اس کو شوافع وغیرہ کی ہی دلیل قرار‬
‫دیا ہے۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ اپنا اصول آرام سے توڑیں گے۔ یہ الزامی جواب پیش خدمت‬
‫ہے۔‬
‫جواب‬
‫‪ ، 1‬جناب اس بات کو میں بھی تسلیم کرتا ھوں کہ اگر کسی عالم کی بات کا رد آپ اس سے زیادہ‬
‫قوی اور وزنی دالئل سے کرتے ہیں تو ٹھیک ہے کوئی حرج نہیں‪ ،‬لیکن ایسا ھو بھی تو صحیح‪.‬‬
‫یھاں آپ کے آل کاشف صاحب اپنا ایک نظریہ ثابت کرنے کے لیے روایت ال رھے ھیں کہ معاویہ‬
‫رض ایسا ویسا تھا‪ ،‬اور آپ اس کی اس بات کو بے سند کھہ کر اس کے اس نظریہ کو باطل ٹھرا‬
‫رھے ھیں‪.‬‬
‫کیونکہ جب ان کی دلیل ھی بے سند تو ان کا نظریہ بھی باطل‪.‬‬
‫‪ ، 2‬کسی مذھب کے نمائندے کی اپنے مذھب کی نمائندگی میں لکھی گئی کتاب بالکل اس مذھب کے‬
‫لوگوں کے لیے دلیل بن سکتی ہے جیسا کہ اصل و اصول الشیعہ کتاب ھے‪ ،‬ھاں اگر اس میں کوئی‬
‫ایسی بات ھو جو مذھب کی کتب معتبرہ کے خالف ھو تو اس کو دالئل سے رد کیا جاسکتا ہے‪.‬‬
‫لیکن آپ سے پہلے بھی کسی شیعہ معتبر عالم نے آل کاشف صاحب کی اس بات کا رد کھیں کیا‬
‫ھے؟ یا خیر طلب صاحب ان سے بھی بڑے مجتھد ھوگئے ھیں کہ ان کے دالئل کا رد کررھے ھیں‬
‫؟‬
‫‪ ، 3‬آپ کی سینے پر ھاتھ باندھنے والی روایت پر یہ ساری بحث بے سود اور وقت کا ضیاع ھے‪،‬‬
‫کیونکہ میں فقہی مسائل میں حنفی ھوں اور میرے لیے فقھی مسائل میں فقھاء احناف کے اقوال دلیل‬
‫بن سکتے ھے نہ کہ شوافع و حنابلہ وغیرہ کی‪.‬‬
‫اور ایک بات آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ بعد والے علماء جو بھی دالئل پیش کررھے‬
‫ھوتے ھیں وہ اپنے مجتھد کے اقوال کی تائید و تقویت کے لیے پیش کررھے ھوتے ھیں‪ ،‬حقیقت‬
‫میں ان کا عمل اپنے امام کے اقوال پر ھوتا ھے‪.‬‬
‫‪ ،4‬آپ خوش فہمی کا شکار ھیں جو آپ نے لکھ دیا کہ‬
‫مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ اپنا اصول آرام سے توڑیں گے‪..‬‬
‫چلیں کچھ دن آپ اس خوش فہمی سے آرام سے سو سکے ھونگے‪ ،‬امتحانات تو دے سکے ھونگے‪.‬‬

‫‪41#‬‬
‫اب زرا شیعہ کتب کی زیارت خیر طلب صاحب کو کرواتے ھیں کہ ان کا سیدنا معاویہ رض اور‬
‫اھل شام کے بارے میں جو نظریہ ھے وہ ان کے اماموں سے ملتا ھے کہ نھیں‬
‫شیعہ مذھب کی معتبر کتاب قرب االسناد میں ھے کہ‬

‫جعفر‪ ،‬عن أبیه علیه السالم‪ :‬أ ن علیا علیه السالم لم یكن ینسب أحدا من أھل حربه إلى الشرك وال إلى‬
‫النفاق‪ ،‬ولكنه كان یقول‪ " :‬ھم إخواننا بغوا علینا "‬
‫قرب االسناد ص ‪94‬‬
‫امام جعفر رح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رض نے جن سے بھی جنگ کی ان میں‬
‫سے کسی کی طرف بھی شرک اور نفاق کی نسبت نھیں کی‪ ،‬یہ کھتے تھے کہ وہ ھمارے بھائی ھیں‬
‫ھم سے بغاوت کی ھے‪.‬‬

‫‪/...shiaonlinelibrary.com/.../1119//:‬الصفحة_‪...130‬‬
‫جعفر‪ ،‬عن أبیه‪ :‬أن علیا علیه السالم كان یقول ْلھل حربه‪:‬‬
‫" إنا لم نقاتلھم على التكفیر لھم‪ ،‬ولم نقاتلھم على التكفیر لنا‪ ،‬ولكنا رأینا أنا على حق‪ ،‬ورأوا أنھم على‬
‫حق‪.‬‬
‫قرب االسناد ص ‪93‬‬

‫امام جعفر رح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رض خود سے جنگ کرنے والوں کے بارے‬
‫میں کھتے تھے ھم ان سے ان کی تکفیر پر جنگ نھیں کرتے اور نہ وہ ھم سے ھماری تکفیر پر‬
‫کرتے ہیں‪ .‬ھم نے دیکھا کہ ھم حق پر ہیں اور انھوں نے دیکھا کہ وہ حق پر ہیں‪.‬‬

‫‪/...shiaonlinelibrary.com/.../1119//:‬الصفحة_‪...129‬‬

‫پہلی روایت سے ثابت ھوا کہ سیدنا علی رض معاویہ رض اور ان کا گروہ کو منافق یا مشرک نھیں‬
‫کھتے بلکہ اپنا بھائی کھتے ھیں‪.‬‬
‫دوسری روایت سے ثابت ھوا کہ علی و معاویہ رضی ہللا عنھما کی جنگ کفر و اسالم کی نھیں‬
‫تھے‪.‬‬

‫اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ ان کا نظریہ ان کے ائمہ سے ملتا ھے یا ان کے خالف ھے؟‬

‫قرب االسناد ‪ -‬الحمیري القمي ‪ -‬الصفحة ‪٩٤‬‬


‫‪42 #‬‬
‫سیدنا علی رضی ہللا عنہ کا جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں نظریہ بھی دیکھ لیں‪.‬‬

‫صفِّینَ‬
‫ع ْن قَتْلَى‪َ ،‬ی ْو ِم ِ‬
‫ي َ‬ ‫سأ َ َل َ‬
‫ع ِل ٌّ‬ ‫ع ْن َی ِزیدَ ب ِْن ْاْل َ َ‬
‫ص ِّم‪ ،‬قَالَ‪َ :‬‬ ‫ع ْن َج ْعفَ ِر ب ِْن ب ُْرقَانَ ‪َ ،‬‬ ‫ي‪َ ،‬‬ ‫ُّوب ْال َم ْو ِ‬
‫ص ِل ُّ‬ ‫عُ َم ُر بْنُ أَی َ‬
‫‪ ,‬فَقَالَ‪ :‬قَتْ َالنَا َوقَتْ َالھُ ْم فِي ْال َجنه ِة‬

‫مصنف ابن ابی شیبہ ج‪ 7‬ص ‪552‬‬

‫سیدنا علی رضی ہللا عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ‬
‫ھمارے اور ان کے مقتولین جنت میں جائیں گے‪.‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-9944/page-42652#page-42691‬‬

‫اور مقتولین صفین کے بارے میں ایک خوابی بشارت بھی پڑھیں‬

‫ع ْم َرو بْنَ‬ ‫ع ْن أَبِي َوائِ ٍل‪ ،‬قَالَ‪َ :‬رأَى فِي ْال َمن َِام أَبُو َم ْی َ‬
‫س َرة َ َ‬ ‫ع ْم ِرو ب ِْن ُم هرة َ‪َ ،‬‬‫ع ْن َ‬ ‫ع ِن ْالعَ هو ِام‪َ ،‬‬ ‫َارونَ ‪َ ،‬‬ ‫یَ ِزید ُ بْنُ ھ ُ‬
‫َّللا ‪ ,‬قَالَ‪َ :‬رأَیْتُ َكأ َ ِنّي أُد ِْخ ْلتُ ْال َجنهةَ ‪ ,‬فَ َرأَیْتُ ِق َبابًا َمض ُْرو َبةً ‪,‬‬‫ع ْب ِد ه ِ‬
‫ب َ‬
‫ص َحا ِ‬ ‫ض ِل أ َ ْ‬
‫شُ َرحْ ِبی َل ‪َ ,‬و َكانَ ِم ْن أ َ ْف َ‬
‫ص ِفّینَ ‪ ,‬قَالَ‪ :‬قُ ْلتُ ‪ :‬فَأَیْنَ‬‫ب ‪َ ,‬و َكانَا ِم هم ْن قُتِ َل َم َع ُم َعا ِویَةَ یَ ْو َم ِ‬
‫ش ٍ‬ ‫فَقُ ْلتُ ‪ِ :‬ل َم ْن َھ ِذہِ؟ فَ ِقیلَ‪َ :‬ھ ِذ ِہ ِلذِي ْال َك َالعِ َو َح ْو َ‬
‫ضا؟ قَالَ‪ :‬قِیلَ‪ِ :‬إ ِِنه ُھ ْم لَقُوا ه َ‬
‫َّللا فَ َو َجد ُوہُ‬ ‫ض ُھ ْم بَ ْع ً‬ ‫ص َحابُهُ؟ قَالُوا‪ :‬أ َ َما َمكَ ‪ ،‬قُ ْلتُ ‪َ :‬و َكی َ‬
‫ْف َوقَدْ قَت َ َل بَ ْع ُ‬ ‫ار َوأ َ ْ‬ ‫ع هم ٌ‬
‫َ‬
‫َوا ِس َع ْال َم ْغ ِف َر ِة‬
‫مصنف ج‪ 7‬ص ‪547‬‬

‫ابو وائل کھتے ھیں کہ ابو میسرہ رح نے خواب میں عمرو بن شرحبیل کو دیکھا جو ابن مسعود رض‬
‫کے ا فضل ساتھیوں میں سے تھے‪ ،‬انھوں نے دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہو رھا ھوں وھاں میں‬
‫نے گڑے ھوئے خیمہ دیکھے تو میں نے کھا یہ کس کے ھیں‪ ،‬کھا گیا یہ بنی کالع اور بنی حوشب‬
‫قبیلے والوں کے ھیں جو صفین میں معاویہ رض کی طرف سے لڑتے ہوئے قتل کئے گئے‪ ،‬تو‬
‫انھوں نے پوچھا کہ عمار اور اس کے ساتھی کھاں ھیں‪ ،‬ان کو بتایا گیا کہ اور آگے‪ ،‬تو انھوں نے‬
‫پوچھا کہ یہ کیسے ھوسکتا ھے‪ ،‬انھوں نے تو ایک دوسرے کو قتل کیا تھا؟ تو ان کو کھا گیا کہ ان‬
‫کی ہللا سے مالقات ھوئی اور انھوں نے ہللا سے بڑی مغفرت پائی‪.‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-9944/page-42652#page-42655‬‬

‫یہ روایت طبقات ابن سعد ‪ ،‬سنن الکبری بیھقی اور االصابہ میں بھی ھے‪.‬‬

‫تو ان واضح روایات سے ثابت ھوا کہ اھل شام مومن و جنتی ھیں‪.‬‬

‫مصنف ابن أبي شیبة • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪43#‬‬
‫خیر طلب صاحب اور دوسرے شیعہ سیدنا معاویہ رض پر سیدنا علی رض سے لڑنے کی وجہ سے‬
‫منافقت اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے دشمنی کے فتوے لگاتے ہیں‪ ،‬حاالنکہ معاویہ رض تو‬
‫صرف اپنا دفاع کررھے تھے‪.‬‬
‫اب زرا شیعہ یھی فتوے سیدنا علی رض کے سگے بھائی عقیل بن ابی طالب پر بھی لگائیں‪.‬‬

‫یزید أ َ ْنت ْال َی ْوم َمعنا‪ ،‬قَالَ‪َ :‬و َی ْوم‬


‫فلحق ِب ُم َعا ِو َیة َو َكانَ َم َع ُم َعا ِو َیة َی ْوم صفّین فَقَا َل لَهُ ُم َعا ِو َیة یمازحه‪َ :‬یا أ َ َبا ِ‬
‫بدر كنت أَیْضا َمعكُم‬

‫تاریخ ابن الوردی ج‪ 1‬ص ‪157‬‬

‫عقیل بن ابی طالب معاویہ سے مل گئے تھے اور جنگ صفین کے وقت معاویہ رض کے ساتھ تھے‪،‬‬
‫معاویہ رض نے ان سے مزاح کرتے ہوئے کہا کہ اے ابو یزید (کنیت ھے عقیل رض کی) آج تم‬
‫ھمارے ساتھ؟ عقیل رض نے کھا کہ بدر والے دن بھی تمھارے ساتھ ھی تھا‪.‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-6624/page-155‬‬

‫اس بات کا ثبوت شیعہ کتاب سے بھی دیکھ لیں‪،‬‬


‫فی ذکر عقب عقیل بن ابی طالب‬

‫و فارق اخاہ علیا امیرالمومنین فی ایام خالفتہ و ھرب الی معاویہ و شھد صفین معہ‬

‫عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب‬


‫ص ‪31‬‬

‫اور عقیل اپنے بھائی امیر المؤمنین علی رض سے الگ ھوگئے تھے ان کی خالفت کے دنوں میں‬
‫اور معاویہ رض کی طرف چلے گئے تھے اور صفین میں ان کی ساتھ تھے‪.‬‬

‫‪/archive.org/stream/olomnasb_ymail_20160902_1205‬عمدة الطالب في أنساب آل أبي‬


‫طالب‪page/n26/mode/1up#‬‬

‫اب دیکھتے ہیں کیا فتوی لگتا ہے سیدنا علی رض کے بھائی پر‪.‬‬
‫حب علی کا ثبوت دے کر عقیل رض پر بھی وھی فتوے لگائیں یا بغض معاویہ کا ثبوت دے کر‬
‫تاویالت کریں تاکہ ھم کو بھی بولنے کا موقعہ ملے‪.‬‬

‫==ختم شد==‬

‫تاریخ ابن الوردي • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم فخر الزماں صاحب۔۔۔‬

‫فخر الزماں صاحب میں نے آپ کا پورا جواب پڑھ لیا ہے۔ سردست کچھ منھجی باتیں پوچھنی تھیں‬
‫امید ہے آپ اس کا مختصر جواب دے دیجئے گا تاکہ میں جواب دیتے ہوئے ان کو ذہن میں رکھوں‬

‫‪ ، ١‬آپ نے جابجا اہلسنت کتب سے استدالل کیا ہے تو کیا وہ استدالل مجھ پر حجت ہے یا نہیں‪ ،‬اگر‬
‫مجھ پر حجت نہیں تو کیا آپ نے شیعہ حوالے نقل کئے ہیں تو اس کے جواب میں‪ ،‬میں شیعہ کتب‬
‫سے ہی جواب دے سکتا ہوں؟ اس کی وضاحت کیجئے گا۔‬

‫‪ ،٢‬جن سنی اور شیعی روایات سے آپ نے استدالل کیا ہے تو کیا آپ کا مبنی سندی تھا اثبات روایت‬
‫میں یا کوئی دیگر مبنی تھا تاکہ میں جواب ویسے ہی دوں۔ اور جس مبنی پر آپ مجھ پر جراح‬
‫کررہے تھے تو کیا وہ اصول آپ پر بھی چلے گا یا نہیں۔‬

‫‪ ، ٣‬عطیات لینا‪ ،‬امام حسن ع کا معاویہ کی بیعت کرنا‪ ،‬یا وفات علی ع پر غم منانا۔ ان تمام کے اگر‬
‫حوالے نقل کردیں تو میں مباشر ان کا جواب دے دوں (یاد رہے کہ مجھے وہی حوالے دیجئے گا جو‬
‫مبنی علمی کے تحت قابل احتجاج ہوں جس طرح آپ مجھے ملزم کرنا چاہتے ہیں)۔ کیونکہ‬
‫مفروضات (جن میں بعض ممکن ہو صحیح ہوں) پر بحث در بحث کرنا فائدہ مند نہیں۔‬

‫نوٹ‪ :‬یہ فقط منھجی باتیں کررہا ہوں ورنہ جو دیگر تامالت ہیں اس کا ادھر ذکر کرنا فائدہ مند نہیں۔‬
‫انشاء ہللا اس کا جواب میں آپ کو بعد میں دوں گا۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫خیر طلب صاحب آپ کے پوچھے گئے سوالوں کا جواب‬


‫‪ ، 1‬میں نے کتب اھل السنت سے اس لیے استدالل کیا کہ آپ‪ .‬کتب اھل السنت سے اپنے نظریات ثابت‬
‫کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کتب اھل السنت سے‪ .‬شیعہ نظریات ثابت ھے‪.‬‬
‫تو میں آپ کی اس بات کو توڑنے کے لیے کتب اھل السنت سے استدالل کیا ھے کہ کتب اھل السنت‬
‫شیعہ نظریات کا رد کر رھا ھے نہ کے تائید‪.‬‬
‫مجھے پتا ہے کہ کتب اھل السنت آپ کے لیے حجت نہیں لیکن آپ کے استدالل کا رد کرنے کے‬
‫لیے پیش کیے ہیں‪.‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫چلیں میں پھر شیعہ کتاب سے ضرورت کے تحت بھی باتیں الؤں گا۔۔ اس ہی منطق کے تحت۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫‪ ،2‬جو اصول ھیں ان کے مطابق آپ مجھے جواب دے سکتے ہیں‪ ،‬میں نے اگر کوئی بات اصول‬
‫کے خالف کی ھو تو آپ دالئل سے رد کر سکتے ہیں‪.‬‬
‫اصول سب کے لیے ایک ھوتا ھے‪.‬‬
‫‪ ، 3‬وفات علی رض پر افسوس کرنے کا حوالہ میں تب دونگا جب آپ میرے سوال کا جواب دیں گے‬
‫جو آپ سے پوچھے گئے ھیں‪.‬‬
‫عطیات لینا اور سی دنا حسن کا سیدنا معاویہ رض کے ھاتھ پر بیعت کے بارے میں جو آپ کی تحقیق‬
‫کے مطابق ھے کہ یہ ثابت ھے کہ نھیں؟ وہ آپ لکھ دیں میں اس کا جواب دونگا‪.‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم حوالے دینے میں کیا قباحت ہے‪ ،‬سمجھ نہیں آرہا۔ میں صغروی اور کبروی دونوں بحث کرنا‬
‫چارہا ہوں۔ تفضل حوالہ دیجئے براہ مہربانی ورنہ میں ان میں سے کسی بھی بات کا جواب نہیں‬
‫دونگا۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬
‫خیر طلب صاحب آپ شیعہ کتب سے بالکل ایسی باتیں الئیں اگر آپ سمجھتے ہیں تو‪ ،‬ھمارے لیے‬
‫فائدہ ھوگا‪.‬‬

‫حوالہ میں ضرور دونگا اپنے جواب میں ان شاء ہللا‪.‬‬


‫تھوڑی آپ کی تحقیق بھی تو سامنے آنی چاہیے نہ‪.‬‬
‫کیا خیال ھے؟‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫فخر الزماں صاحب ادھ ر میدان مناظرہ ہے میدان مفاخرہ نہیں۔۔ براہ کرم اپنی 'تحقیق' سے مستفید‬
‫فرمائیں۔ آپ کو ان نکات کا جواب جب ہی ملے گا جب آپ زحمت 'تحقیق' کریں گے ورنہ ان نکات‬
‫کو آپ اپنے اگلے جواب کے لئے محفوظ رکھئے گا‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫مناظرہ کے مطابق ھی میں چل رھا ھوں‪.‬‬


‫آپ کو میرے جواب میں جو لکھنا ہے وہ لکھیں‪.‬‬
‫آپ نے بھی تو میرے سواالت کا جواب نہیں دیا تھا‪ ،‬لیکن میں نے آپ کی طرح نہیں کھا کہ پہلے‬
‫میرے سواالت کا جواب دو پہر جواب لکھونگا‪.‬‬
‫مجھے جواب میں جو لکھنا تھا وہ لکھ دیا‪ ،‬اب آپ کو جو لکھنا ہے وہ لکھیں‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫باقی چیزوں کا تو جواب میں دے دوں گا کیونکہ کوئی ایسی بات نہیں جو قابل جواب نہ ہو۔ انشاء ہللا‬
‫وہ تو آپ دیکھ ہی لیں گے۔ انتظار کیجئے۔‬

‫میں تمام پڑھنے والوں کے سامنے پھر سے النا چارہا ہوں کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ ان سے‬
‫حوالے طلب کئے جائیں ان کے دعوی پر لیکن بار بار طلب پر (جو ہر مناظر کا حق ہے) انہوں نے‬
‫نہیں دئے۔ چنانچہ میں فی الحال مفروضات (جن کے حوالے نہ دئے ہوں) کے جوابات اس وقت تک‬
‫نہیں دوں گا جب تک یہ مجھے حوالہ نہیں دیتے۔ ورنہ یہ انٹر کا پریکٹیکل نہیں جس میں پروفیسر‬
‫سواالت کرے مفروضات پر۔‬

‫اعالن ختم ہوا۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫خیر طلب صاحب آپ میرے کمنٹس کا رد کریں آپ کی بڑی مہربانی ھوگی‪.‬‬


‫آپ کی یہ عادت ھے کہ جوابی کمنٹس کے بعد بھی آپ اور پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں‪ .‬آپ کو‬
‫جو سمجھ آرھا ھے اس کے مطابق آپ جواب دے دیں‪ ،‬پہر میری باری بھی آئے گی پہر مجھ کو جو‬
‫لکھنا ھوگا میں لکھونگا‪.‬‬
‫جیسا کہ میں اوپر بھی کھہ چکا ھوں کہ آپ بھی میرے سواالت کا جواب نہیں دیتے لیکن میں آپ‬
‫کی طرح نہیں کرتا کہ فالں بات بتاؤ پہر جواب دونگا‪.‬‬
‫جو بات میں نے لکھی ہے اگر اس کی دلیل نہیں دی میں نے تو آپ اس کا رد کر کے اپنی تحقیق‬
‫کے مطابق صحیح بات لکھ دیں دالئل سے‪.‬‬
‫آسان سی بات ہے‪ ،‬خواہ مخواہ پریشان کیوں ھوتے ھیں آپ؟‬

‫مجھے کب کیا کرنا ہے کونسی دلیل دینی ھے وہ میں آپ سے پوچھ کر یا آپ کہ حکم کرنے پر نھیں‬
‫دونگا‪.‬‬
‫میں موقعہ دیکھ کر دلیل دونگا‪.‬‬
‫آپ کم سے کم سواالت کا جواب دیں جو آپ سے میں نے پوچھے ھیں‪.‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫فخر الزماں صاحب اور ان کی ٹیم۔۔ آپ لوگ اطمینان رکھئے انشاء ہللا فخر الزماں اگر حوالے نہ‬
‫بھی دیں گے تو فی الحال اس بار میں پورا جواب دوں گا ما سوائے ان چیزوں کے جن کے حوالے‬
‫نہ دئے گئے ہوں۔ چونکہ فخر الزماں شاید مزاج مناظرہ سے واقف نہیں جس میں اثبات دعوی پر‬
‫حوالے دئے جاتے ہیں یا جانتے ہیں تو تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اس لئے ان کی اس‬
‫کمزوری سے میں درگذر کروں گا اور یہی سمجھوں گا کہ یہ ان کی مجبوری ہے اور خوف کا اثر‬
‫ہے۔ ورنہ وہ ضرور دیتے۔ ہم انشاء ہللا باقی باتوں کا جواب دیں گے کیونکہ اس بار جواب دینا مزید‬
‫آسان کردیا ہے محترم ہے۔ شکریہ۔‬

‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫خیر طلب صاحب اور ان کی ٹیم آپ بھی صبر کریں ضرور میں اپنے جواب میں دالئل دونگا‪ ،‬بات‬
‫یھیں پر ختم نہیں ھئی ابھی جاری ھے‪.‬‬
‫خیر طلب صاحب اچھی بات ہے کہ آپ نے جواب دینے کا کھا اور ھم کو شدت سے انتظار رہے‬
‫گا‪.‬‬
‫رھا مناظرے کے طریقے سے واقفیت کی بات تو الحمد ہلل مناظرے کے طریقے پر چلتے ہوئے میں‬
‫اپنی باری میں ھی جواب دونگا‪.‬‬
‫دعوی‬
‫ب علی واال‪ ،‬میں تو مدعی علیہ ھوں میرا ٰ‬ ‫دعوی تو آپ کا ھی س ِ‬
‫اور جناب کو اتنا نھیں پتا کہ ٰ‬
‫کھاں سے آیا؟‬
‫دعوی کھہ رھے ھیں تو آپ کو پتا ھونا چاہیے کہ‬‫اگر آپ میری کسی کی گئی بات کو ٰ‬
‫دعوی ابتداء مناظرہ میں ھوتا ھے نہ کہ بیچ میں‪،‬‬
‫⏪ ٰ‬
‫دعوی کھہ‬
‫دعوی ھوتا ھے نہ کہ دلیل‪ ،‬تو اگر آپ میری کسی بات کو ٰ‬ ‫⏪ دعوی کے بعد جواب ٰ‬
‫دعوی لکھیں پہر مجھ سے دلیل کا مطالبہ کریں‪.‬‬
‫رھے ھیں تو اس کے لیے جواب ٰ‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫چلئے پھر انشاء ہللا جب آپ حوالے دیں گے تو ان چیزوں پر بات ہوگی۔ باقی آپ کا جواب کا انتظار‬
‫کیجئے‬
‫‪Fakhar Ul Zaman‬‬

‫دعوی کھہ رھے ھیں‪ ،‬دلیل کا مسئلہ نہیں‬


‫دعوی لکھیں ان باتوں کا جن کو آپ ٰ‬
‫جواب ٰ‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫میں جواب ایک ساتھ نہیں بلکہ کچھ کچھ کرکے پوسٹ کروں گا تو محترم فخر الزماں کو جو‬
‫سواالت جو تنقیح جواب پر مشتمل ہوں گے ان کے جوابات ما بعد دوں گا جب پورا پوسٹ کرلوں‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،١‬صحیح مسلم کی سب والی روایت‬

‫ناظرین ہم نے جس صحیح مسلم کی روایت سے استدالل کیا تھا اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے‬

‫حکم دیا معاویہ ابوسفیان کے بیٹے نے سعد کو۔ کیا چیز روکتی ہے کہ تم (اے سعد) ابو تراب (یعنی‬
‫امیر المؤمنین) پر سب کرو۔‬

‫الف‪ ،‬بحث داللت‬

‫اس روایت کے جملہ پر بحث جاری تھی اور انشاء ہللا اب ہم ان کے اشکاالت کے جوابات دیتے ہیں‬
‫ادھر ہمارا استدالل یہ تھا کہ چونکہ سوال سب کی بابت کیا گیا ہے تو حکم بھی اس کا ہی ہوگا۔۔ اور‬
‫ثبوت میں ہم نے کافی ساری مثالیں دیں کہ جب بھی جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کے متعلق‬
‫ہی سوال ہوتا ہے جیسے‬

‫الف‪ ،‬اعراف ‪ :١٢‬قَا َل َما َمنَعَكَ أ َ هال ت َ ْس ُجدَ إِذْ أ َ َم ْرتُكَ‬


‫(ہللا نے ) کہا کہ کیا چیز مانع تھی سجدہ کرنے میں جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا۔‬

‫ع ْب ِد ہللاِ بِقَتْ ِل‬ ‫ب‪ ،‬ایک روایت میں حجاج ایک شخص کو قتل کا حکم دیتا ہے‪( :‬أ َ هن ْال َح هجا َج أ َ َم َر َ‬
‫سا ِل َم بْنَ َ‬
‫َر ُج ٍل ) اور نہ کرنے کی صورت میں پوچھتا ہے کہ قتل کیوں نہیں کیا (فَقَا َل لَهُ ْال َح هجا ُج‪َ :‬ما َمنَ َعكَ ِم ْن‬
‫قَتْ ِل ِه؟) (مالحظہ ہو معجم الکبیر للطبرانی جلد ‪ ١٢‬ص ‪)٣١٢‬۔۔ چنانچہ ادھر بھی ثابت ہوا کہ جب بھی‬
‫جس چیز کا حکم دیا جائے گا تو اس ہی کے متعلق سوال ہوگا‬

‫پ‪ ،‬ابوبکر کو نماز کا حکم دیا گیا تھا چنانچہ وہ ذرا پست و پیش ہوئے تو بجا آوری نہ کرسکے تو‬
‫ضیْتَ ؟ " (ترجمہ‪ :‬رسول ص‬‫رسول ص نے کہا قَالَ‪َ " :‬یا أ َ َبا َب ْك ٍر َما َمنَ َعكَ ِإذْ أ َ ْو َمأْتُ ِإ َلیْكَ أ َ ْن َال تَكُونَ َم َ‬
‫نے فرمایا‪ :‬کہ اے ابوبکر کیا چیز مانع ہوئی کہ جب میں نے آپ کو نماز پڑھانے کا کہا تو آپ‬
‫تشریف نہیں الئے) ادھر بھی واضح ہوا جس کا حکم دیا گیا اس کے متعلق سوال ہوا‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫ان مثالوں سے واضح ہوگیا کہ جس کا حکم دیا جاتا ہے اس کے متعلق ہی سوال ہوتا ہے اور اس‬
‫کلیہ پر اب تک کوئی نقض وارد نہ کرسکے۔‬

‫جو جواب دیا ہے اس کا اب میں جواب دیتا ہوں‪:‬‬

‫(فخر‪:‬‬
‫‪ ، 1‬جناب آپ کی ان مثالوں کا حال بھی پچھلی مثالوں واال ھے‪ ،‬ان میں بھی حکم واضح موجود ھے‪.‬‬
‫آپ جو مسلم سے دلیل پیش کررھے ھو اس میں کوئی حکم موجود نھیں‪.‬‬
‫آپ کو ایسی مثال پیش کرنی ہے کہ کسی بات کے حکم کا ذکر ھو اور وہ حکم واضح نہ ھو اور‬
‫آگے والے سوال سے وھی حکم مراد ھو جیسا مسلم والی روایت میں ہے‬
‫‪ ، 2‬میں نے کھا تھا کہ یھاں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ کسی دوسری بات کا حکم دیا ہے؟ اور یہ‬
‫اصول آپ نے ھی پہلے لکھا تھا کہ إذا جاء االحتمال بطل االستدالل‬
‫تو یہ روایت آپ کے مدعی کی دلیل نھیں بن سکتی)‬

‫جواب‪ :‬محترم جواب یہ ہے کہ یہی تو میرا استدالل ہے کہ جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے اس ہی کے‬
‫متعلق پھر پوچھا جاتا ہے اور دوسری شق میں آپ کہہ رہے ہیں کوئی حکم موجود نہیں تو محترم‬
‫اتنا تو طے ہے کہ حکم تو دیا گیا تھا یعنی اس پر آپ کا اور میرا اختالف نہیں‪ ،‬یہ کہنا کہ حکم‬
‫موجود نہیں اگر اس معنی میں ہو کہ اصال کوئی حکم ہی نہیں دیا گیا تھا تو یہ ظاھری نص کے‬
‫خالف ہے جو کہتی ہے امر معاویہ سعدا۔۔ یعنی ادھر حکم دیا ہے لیکن کس چیز کا ہے وہ مبھم ہے۔‬
‫اس کا تعین میرے اور آپ کے ذمہ میں ہے۔ میں نے کچھ امور سے استدالل کیا اور بار بار آپ کو‬
‫ملزم کررہا ہوں جس کا کوئی معقول جواب آپ کی جناب سے نہیں آرہا۔۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیشہ‬
‫سوال اس کے متعلق ہی ہوتا ہے جس کا حکم دیا گیا ہو مزاج روایت کو سامنے رکھ کر اور پھر جب‬
‫آپ دیگر روایات اس مضمون کی اٹھائیں گے تو اس میں بھی یہی بات موجود ہے کہ سعد غضبناک‬
‫ہوئے اور پھر علماء اہلسنت کے اقوال کو سامنے رکھئے گا تو یہ تمام باتیں کافی ہیں اس بابت۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫فخر الزماں صاحب فرماتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ ،1 :‬بالکل تناقض ھے آپ کی بات میں‪ ،‬ایک جگہ لکھا کہ حکم واضح ھے اور دوسری جگہ‬
‫کھہ دیا کہ واضح نھیں‪.‬‬
‫یہ تضاد نھیں تو کیا ھے؟‬
‫‪ ، 2‬جناب آپ نے سیاق و سباق سے ثابت کر ھی نھیں سکے کہ حکم گالی کا ھی تھا‪ .‬کیونکہ سیاق و‬
‫سباق میں کوئی اسی دلیل نہیں جو سب کے حکم پر داللت کرے‪.‬‬
‫‪ ،3‬آپ نے جو سیدنا صدیق اکبر رضی ہللا عنہ کی نماز کے حکم والی مثال دی اس پر کالم کر چکا‬
‫ہوں‪ ،‬آپ کو اس کا رد کرنا تھا جو آپ نھیں کرسکے)‬

‫جواب‪ :‬محترم فخر الزماں صاحب‪ ،‬میں نے کافی مثالوں سے سمجھایا ہے لیکن آپ کی عقل میں بات‬
‫نہ آئے تو اس کو دوسرے کا تناقض نہیں اپنے فہم کا قصور سمجھئے۔ مسلم کی روایت میں جس‬
‫چیز کا حکم ہے وہ محذوف ہے لیکن ما بعد اس سب کے متعلق ہی سوال کیا گیا ہے۔ جب آپ تاریخ‬
‫دمشق ابن عساکر اور سنن ابن ماجہ کی روایت سے مالئے تو اس میں واضح ہے کہ معاویہ نے‬
‫سب ہی کا حکم دیا تھا۔‬

‫باقی میں دو مثالیں دیں ہیں کہ سوال مزاج روایات کے مطابق اس ہی چیز کا ہوتا ہے جس کا حکم‬
‫دیا گیا ہو۔ اس بارے میں اہلسنت علماء کی تصریحات بھی موجود ہیں۔ جو نقل کی جاچکی ہے اور‬
‫مزید نقل کیں جائیں گی۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫ب‪ ،‬ابن تیمیہ کا صحیح مسلم کی روایت سے اخذ مفہوم اور جملہ اشکاالت کے جوابات‬

‫ابن تیمیہ کی میں نے مختلف عبارات پیش کیں تھیں۔ آئے ایک ایک کرکے جو ایراد ذکر کئے گئے‬
‫ہیں ان کے جوابات دیتے ہیں‪:‬‬

‫پہلی‪ :‬یہ عبارت میں نے منھاج السنتہ سے یوں نقل کی تھی‪:‬‬

‫اور سعد بن ابی وقاص کی حدیث کہ جب معاویہ نے سعد کو سب کا حکم دیا اور سعد نے انکار کیا‬
‫اور کہا۔۔ (پھر فضائل نقل کئے)۔۔ اور یہ حدیث صحیح ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا۔‬

‫منھاج السنة النبویة‪)20/5( ،‬‬

‫اس پر محترم کے اشکاالت کے جوابات دئے جاتے ہیں‬

‫(فخر‪ :‬جواب‪.‬‬
‫‪ ،1‬خیر طلب صاحب جواب دینے سے پہلے آپ کو سوچنا چاہیے تھا کہ مسلم کی روایت کی سند پر‬
‫ھماری بحث چل رھی ھے یہ متن و الفاظ پر؟‬
‫ھماری بحث سند پر نھیں جو آپ نے سند کی مثالیں عالم ابن تیمیہ سے دینا شروع کردی ھیں‪.‬‬
‫ایسی مثال دیں جس میں ابن مطھر نے متن میں غلطی کی ھو اور اس غلطی کا تعلق زیر بحث‬
‫م سئلے سے بھی نہ ھو پہر بھی عالمہ ابن تیمیہ نے ابن مطھر کو ٹوکا ھو‪.‬‬
‫‪ ، 2‬اور عالمہ ابن تیمیہ نے مسلم کی حدیث کو سند کے اعتبار سے صحیح کھا ھے‪ ،‬یہ نھیں کھا کہ‬
‫واقعی معاویہ رضی ہللا عنہ نے گالی کا حکم دیا تھا‪.‬‬
‫آپ کا استدالل عالمہ ابن تیمیہ کے کالم سے اپنے حکم سب والے مطلب پر تھا نہ کہ مسلم کی‬
‫روایت کی توثیق پر)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم اس پر بار بار کالم کرچکا ہوں اور مجھے حیرانی ہے کہ آپ دوبارہ وہی بات لے آتے ہیں‬
‫جس کا جواب دیا جاچکا ہے۔ ابن تیمیہ نے نہ فقط کہ الفاظ حکم سب والے نقل کئے بلکہ اس کی‬
‫تصحیح کی اور پھر اس کا ان تساب کیا صحیح مسلم کی طرف۔۔ باقی جتنے آپ احتماالت الرہے ہیں‬
‫ان کی علمی دنیا میں کوئی قدر نہیں کہ مسئلہ زیر بحث بھی ہو اور اس میں متن کی غلطی بھی ہو‬
‫اور پھر ٹوکا ہو۔۔ یہ شرائط آپ کہا سے لے آئے‪ ،‬غلطی غلطی ہے‪ ،‬یہ بنو اسرائیل والے سواالت کہ‬
‫گائے کا رنگ فالنا ا ور گائے اس طرح کی اور پھر اس طرح کی۔۔ جب غلطی تھی تو تصحیح کی‬
‫جاتی اور نہ کرنا اور اس کو قبول کرنا کافی ہے قبولیت کے لئے۔ میرے سامنے کتنی مثالیں ہیں‬
‫جہاں ابن تیمیہ نے الفاظ روایت پر اپنے سامنے والوں کو ٹوکا یا خود الفاظ روایت کے نقل پر پابندی‬
‫کرنے کی کوشش کی (قطع نظر اس سے کہ یہ کتنا کامیاب ہوئے جو زیر بحث نہیں)۔ باقی آپ کا‬
‫کہنا کہ سند پر حکم ہے تو محترم جب مطلق حکم صحیح لگایا ہے اور متن و سند دونوں پر اشکال‬
‫نہ کیا ہو تو پھر اس کو فقط سند تک محدود کرنا غلط ہے‬

‫لیجئے میں عالمہ نووی اور عالمہ سیوطی کا قول معا تدریب الراوی سے نقل کئے دیتا ہوں‪:‬‬

‫ص هحةُ ْال َمتْ ِن َو ُح ْسنُهُ) ِْل َ هن َ‬


‫عد َ َم‬ ‫علَى ذَلِكَ َحافِظٌ ُم ْعت َ َمد ٌ) َولَ ْم یَذْكُ ْر لَه ُ ِعلهةً َو َال قَا ِد ًحا (فَ ه‬
‫الظا ِھ ُر ِ‬ ‫ص َر َ‬ ‫(فَإ ِ ِن ا ْقت َ َ‬
‫الظا ِھ ُر‪.‬‬ ‫ص ُل َو ه‬‫ْال ِعله ِة َو ْالقَا ِد َح ھ َُو ْاْل َ ْ‬

‫(اگر کوئی صح یح السند یا حسن السند کے قول پر ہی اکتفاء کرے) اور اس میں کوئی علت اور قدح‬
‫کا ذکر نہ کرے (تو ظاہر یہ ہے کہ متن پر بھی حکم صحت یا حکم حسن ہے) کیونکہ علت اور قدح‬
‫کا نہ ہونا اصل اور ظاہر ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬تدریب الراوی‪ ،‬جلد ‪ ،١‬ص ‪١٧٥‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9329#page-153‬‬

‫اور اب ابن تیمیہ کے الفاظ دیکھی‪:‬‬

‫فھذا حدیث صحیح‬


‫اور یہ حدیث صحیح ہے۔‬

‫اب بتائے کہ آپ کا کہنا کہ فقط سند پر حکم لگایا بغیر کسی قرینہ و دلیل کے فارغ ہے۔ یہ حکم سند‬
‫اور متن دونوں پر محیط ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫شیخ ابن تیمیہ نے کافی جگاہوں پر الفاظ روایت کی تحلیل اور تصحیح پر اصرار کیا ہے اور میرے‬
‫پیش نظر جو ان کی کتب سے وہ مقامات ہیں اگر تمام کو نقل کیا جائے تو شاید ایک چھوٹا کتابچہ بن‬
‫جائے لیکن میں سردست کچھ حوالوں پر اکتفاء کروں گا جو اس بات کے غماض ہیں کہ ابن تیمیہ‬
‫جب کسی پر نقد و جراح کرتے تھے تو الفاظ و فہم روایت پر کتنا دقت سے حملہ کرتے تھے اور‬
‫چونکہ انہوں نے صحیح مسلم کی مستدل روایت کے الفاظ ویسے ہی نقل کئے اور اس کی تصحیح‬
‫کی چنانچہ یہ ان کے فہم کا آئینہ دار ہے۔ خیر تین مثالیں پیش خدمت ہیں‪:‬‬

‫‪ ، ١‬ابن تیمیہ شہرستانی کے نقل کردہ الفاظ پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں‪:‬‬

‫ي‬ ‫ْس لَ ْفظُ ْال َحدِی ِ‬


‫ث َك َما ذَ َك َرہُ ال ه‬
‫ش ْھ َر ْست َانِ ُّ‬ ‫َولَی َ‬

‫(ابن تیمیہ ایک جواب میں نقل کردہ الفاظ سے استدالل کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہے) حدیث‬
‫(روایت) کے الفاظ وہ نہیں جیسا کہ شہرستانی نے نقل کیا ہے۔‬

‫منھاج السنتہ جلد ‪ ٦‬ص ‪٣٢٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-3152‬‬

‫‪ ،٢‬ابن تیمیہ رقم طراز ہے‪:‬‬

‫قلت‪ :‬وھذا لفظ الحدیث‪ ،‬وأما قوله‪ « :‬ما بین عرشه إلى السماء ألف عام» فإن حقه أن یقول‪ :‬ما بین كرسیه‬
‫والعرش كما في الحدیث المشھور عن ابن مسعود‬

‫میں (ابن تیمیہ) کہا ہوں کہ الفاظ حدیث جو معترض نے نقل کیا کہ عرش اور آسمان کے درمیان‬
‫ہزار سالہ کا فاصلہ ہے تو صحیح بات یہ ہے کہ وہ کہتا کہ کرسی اور عرش کے درمیان ہزار سالہ‬
‫فاصلہ ہے جیسے ابن مسعود سے منقول مشہور حدیث میں وارد ہوا۔‬

‫حوالہ‪ :‬بیان تلبیس الجھمیة في تأسیس بدعھم الكالمیة جلد ‪ ١‬ص ‪١٣١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-2864#page-131‬‬

‫‪ ،٣‬ابن تیمیہ ایک جگہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫قلت حرف لفظ حدیث علي ومعناہ فإن علیًّا قال كما ذكرہ البخاري في صحیحه من روایة معروف بن‬
‫خربوذ عن أبي الطفیل عن علي قال حدثوا الناس بما یعرفون ودعوا ما ینكرون أتحبون أن یكذب ہللا‬
‫ورسوله وھذا یدل على نقیض مطلوبه‬

‫میں (ابن تیمیہ) کہتا ہوں کہ معترض نے امیر المؤمنین ع کے الفاظ روایت اور معنی (کے بیان میں)‬
‫میں تحریف کی ہے کیونکہ بخاری نے اپنی صحیح میں معروف بن خربوذ اور وہ ابوطفیل سے اور‬
‫وہ حضرت علی سے نقل کرتے ہے کہ لوگوں سے وہ بات کرو جو وہ جانتے ہیں اور وہ بات نہ‬
‫کرو جس کا وہ انکار کریں کیا تم لوگ یہ پسند کروگے کہ ہللا اور اس کے رسول ص کو جھٹالیا‬
‫جائے اور روایت معترض کے مطلب کے برعکس ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬بیان تلبیس الجھمیة في تأسیس بدعھم الكالمیة جلد ‪ ٢‬ص ‪١١٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-2864#page-654‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ان تین مثالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ ابن تیمیہ معمولی نقل‬
‫روایت کی غلطی میں بہت سخت تھے بالخصوص اگر وہ الفاظ ان کے مطلب کے خالف ہوتے۔۔‬
‫بہرحال آپ کو مان لینا چاہئے کہ ابن تیمیہ نے عالمہ حلی کے الفاظ ہی نہیں نقل کئے بلکہ اس کو‬
‫نقل کئے اس کا انتساب مسلم کی طرف کیا اور اس کو صحیح قرار دیا۔۔ باقی کا فیصلہ قارئین پر‬
‫چھوڑتا ہوں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫دوسری عبارت‪ :‬یہ بات م علوم شدہ ہے کہ صحابہ اور تابعین میں وہ افراد جنہوں نے امیر المؤمنین‬
‫ع کے ساتھ جنگ کی‪ ،‬امیرالمؤمنین ع پر لعنت کی اور امیر المؤمنین ع کی مذمت کی وہ ان‬
‫حضرات جو امیر المؤمنین ع سے محبت کرتے تھے اور عثمان پر لعنت کرتے تھے کے مقابلہ‬
‫میں زیادہ علم والے اور دین کے حامل تھے۔‬

‫اس پر محترم جواب دیتے ہے‬

‫فخر‪ ، 1:‬جناب یہ میرا گمان نھیں کہ ابن مطھر کا یہ نظریہ تھا کہ صحابہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ‬
‫کو برا نھیں کھتے تھے‪ ،‬وہ تو آپ کے ابن مطھر نے خود اس بات کو سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے‬
‫امام ھونے پر دلیل بنایا تھا کہ‬
‫ان کو مخا لفین و موافقین دونوں برا نھیں کھتے ھیں اس لیے یہ امام ھیں‪.‬‬
‫اس کے رد میں عالمہ ابن تیمیہ نے الزامی جواب دیا ان کے مسلمات سے کہ شیعہ تو خود شور‬
‫مچاتے ھیں کہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو منبروں پر گالیاں دی جاتی تھے‪.‬‬
‫تو اس طرح ابن مطھر کی دلیل توڑی ھے عالمہ صاحب نے‬
‫‪ ، 2‬کیا آپ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ شیعوں کا یہ نظریہ ھے کہ سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ اور‬
‫باقی شامی سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو گالیاں دیتے اور دلواتے تھے؟‬
‫اگر انکار کرتے ہیں تو بتائیں میں شیعہ کتب سے حوالے بھیجوں؟‬
‫اگر یہ بات مانتے ھیں تو پہر عالمہ ابن تیمیہ کا جواب شیعہ مسلمات کے مطابق ھوا کہ نھیں؟‬
‫‪ ، 3‬جناب یھاں صرف ابن مطھر کی اس بات کو توڑنے کے لیے عالمہ ابن تیمیہ نے الزام دیا ھے‬
‫کہ موافقین و مخالفین سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا نہیں کھتے تھے‪.‬‬
‫اتنا تو الزامی آپ مانتے ہیں نہ؟‬
‫بس جب یھاں سے ابن مطھر کا استدالل باطل ھوا تو اب آگے الزام کی کیا ضرورت)‬

‫جواب‪:‬‬
‫یاد رہے ادھر ہماری اور آپ کی بات نہیں ہورہی ہے کہ کیا چیز ہمارے نزدیک مسلم ہے یا نہیں‬
‫بات ابن تیمیہ کے حوالے سے چل رہی ہے اور میں اس عنوان سے ایک مزید نکتہ کا اضافہ کروں‬
‫کہ ہماری مستدل عبارت ان الفاظ میں ہے‪:‬‬

‫فمعلوم أن الذین قاتلوہ ولعنوہ وذموہ من الصحابة والتابعین وغیرھم ھم أعلم وأدین من الذین یتولونه‬
‫ویلعنون عثمان‬

‫یعنی یہ بات معلوم شدہ ہے (فاء تعقیب آیا ہے) اس سے ما قبل کی جو عبارت ہے وہ بھی پیش خدمت‬
‫ہے‪:‬‬

‫بل إذا اعتبر الذین كانوا یبغضونه ویو الون عثمان والذین كانوا یبغضون عثمان ویحبون علیا ‪ ،‬وجد‬
‫ھؤالء خیرا من أولئك من وجوہ متعددةفالمنزھون لعثمان القادحون في علي أعظم وأدین وأفضل من‬
‫المنزھین لعلي القادحین في عثمان‬

‫بلکہ اگر ان لوگوں کو دیکھا جائے جو امیر المؤمنین ع سے بغض رکھتے ہیں اور عثمان سے محبت‬
‫رکھتے ہیں اور (پھر ان کا مقابلہ کیا جائے) ان لوگوں کو جو عثمان سے بغض رکھتے ہیں اور علی‬
‫سے محبت رکھتے ہیں‪ ،‬تو پتا چل جائے گا کہ علی ع سے بغض کرنے والے عثمان سے بغض‬
‫کرنے والوں سے بہت ساری وجوہات کی بنا پر بہتر ہیں چنانچہ جو عثمان کو مطاعن سے بری‬
‫قرار د یتے ہیں اور علی ع کی برائی کتے ہیں وہ فضیلت اور دین کے حوالے سے بہتر ہے ان‬
‫لوگوں کے مقابلہ میں جو علی کو مطاعن سے بری قرار دیتے اور عثمان کی برائی کرتے ہیں‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫چنانچہ معلوم کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ مجرد الزامی جواب نہیں اور پھر عثمان کے چاہنے والے اور‬
‫علی ع سے بغض رکھنے والوں کو فضیلت دینا بتاتا ہے کہ یہ الزامی جواب نہیں۔‬

‫محترم نے اس کو الزامی جواب کے قبیل سے کہا۔۔ اب میرے جو نقد تھے جس کا جواب محترم کے‬
‫پاس بالکل نہیں ہے وہ یہ کہ اگر الزامی مانا جائے تو یہ عالمہ حلی پر اس وقت ہی حجت ہوسکتا‬
‫ہے کہ جب وہ اس بات کے معتقد ہوں کہ وہ صحابہ اور تابعین جنہوں نے امیر ع کے ساتھ جنگ‬
‫کی وہ عثمان پر لعنت کرنے والوں سے زیادہ بہتر تھے۔۔ یعنی دلیل ایسی تو دیں جو ہمارے مکتب‬
‫اور علماء کے نزدیک قابل قبول ہو۔۔ کیا آپ کسی بھی معتبر شیعی روایت یا معتبر عالم شیعہ کا قول‬
‫دے سکتے ہیں جو ان حضرات کو جو امیر المؤمنین ع پر لعنت کرتے ہوں‪ ،‬ان سے جنگ کرتے‬
‫ہوں ان کو بہتر سمجھتے ہو ان حضرات سے جو عثمان کو برا بھال کہتے تھے۔۔ یہ اصال الزامی‬
‫جواب بن ہی نہیں سکتا۔۔ ہاں بیشک یہ الزامی جواب ضرور بنتا کہ اگر میں آپ پر شوری کے نظام‬
‫سے استدالل پیش کروں کیونکہ اس نظام شوری اور خالفت کے لئے خلفاء کو چننا آپ کے مسلمات‬
‫میں سے ہے۔ لیکن آپ کا یہ کہنا عجیب ہے کہ ابن تیمیہ ادھر عالمہ حلی کو الزامی جواب دے رہا‬
‫تھا۔‬
‫دوسری بات یہ ہے کہ خود ابن تیمیہ کی معلومات شیعہ مبانع کے متعلق صفر کے قریب تھی۔‬

‫ہمارے پیش نظر قفاری کی کتاب ہے جس کو شیعہ مخالفین بڑی عزت کی نگاہ سے عموما دیکھتے‬
‫ہیں وہ اپنی کتاب کی جلد اول میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫كما أن أھم كتاب عند الشیعة وھو "أصول الكافي" ال تجد له ذكرا ً عند اْلشعري‪ ،‬أو ابن حزام‪ ،‬أو ابن‬
‫تیمیة‪ ،‬وھو الیوم اْلصل اْلول المعتمد عند الطائفة في حدیثھا عن اْلئمة الذي ھو أساس مذھبھا‪.‬‬

‫جس طرح شیعوں کے نزدیک سب سے اہم ترین کتاب اصول الکافی کا ذکر بھی اشعری‪ ،‬ابن حزم‪،‬‬
‫ابن تیمیہ کے ہاں موجود نہیں‪ ،‬درحاآلنکہ آج کل شیعہ گروہ کے نزدیک ان کے آئمہ کی احادیث کے‬
‫عنوان سے سب سے بنیادی کتاب اور ان کے مذھب کی اساس ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬أصول مذھب الشیعة اْلمامیة االثنى عشریة جلد ‪ ١‬ص ‪١٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12760#page-10‬‬

‫دوسری جگہ قفاری فرماتے ہے‪:‬‬

‫وأقول‪ :‬كیف لو رأى شی خ اْلسالم ما أودع في الكافي والبحار‪ ،‬وتفسیر العیاشي‪ ،‬والقمي‪ ،‬والبرھان‪،‬‬
‫وتفسیر الصافي وغیرھا من تحریف لمعاني القرآن سموہ تفسیراً؟!‪.‬‬
‫وبین یدي مجموعة كبیرة من ھذا اللون‪ ..‬یستغرق عرضھا المجلدات‬

‫میں کہتا ہوں کہ اگر شیخ االسالم ابن تیمیہ دیکھ لیتے جو الکافی‪ ،‬بحار االنوار‪ ،‬تفسیر العیاشی‪ ،‬تفسیر‬
‫قمی‪ ،‬تفسیر البرھان‪ ،‬تفسیر الصافی اور دیگر کتب میں قرآن کے معانی کی جو تحریف کی گئی جس‬
‫کو تفسیر کا نام دیا جاتا ہے میں وارد ہے؟ اور ان جیسے جو دیگر چیزیں کافی بڑی مقدار میں‬
‫موجود ہیں‪ ،‬تو وہ اس عنوان پر کافی ساری جلدیں لکھ دیتے۔‬

‫حوالہ‪ :‬أصول مذھب الشیعة اْلمامیة االثنى عشریة جلد ‪ ١‬ص ‪١٧٠‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12760#page-163‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اسی طرح قفاری صاحب نے ان دو مقامات کے عالوہ بھی ابن تیمیہ کی شیعہ کتابوں کی‬
‫طرف عدم رسائی کی بات کی ہے اور یہ ایک اچھا اعتراف ہے جس پر بحث اور اس کے تنائج‬
‫کسی اور دن لیکن کم سے کم پتا چال کہ جب آپ کسی شیعہ کے خالف بات کریں تو الزامی جواب‬
‫اس وقت تسلیم ہوتا ہے جب شیعہ بھی اس کو مانے اور یہ عموما کسی بھی فریق کی معتبر کتب میں‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬جب ایک مصنف کتاب اساسی کو ہی نہیں جانتا تو باقی باتوں کا کیا اعتبار کہ وہ الزامی‬
‫جواب دینے کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ آپ پوری عبارت مع سیاق و سباق کسی شیعہ کتاب سے ثابت‬
‫کیجئے۔ ورنہ یہ مجرد دعوی رہے گا اور اب تک یہ فقط ایک احتمال الزام آپ دے رہے ہیں اب تک‬
‫کوئی دلیل الزام بھی دینے سے قاصر ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫تیسری عبارت‪ :‬اہل صفین نے ایک دوسرے پر لعنت کی تھی جیسے کہ امیر المؤمنین ع اور ان کے‬
‫ساتھیوں نے اپنے قنوت نماز میں بعض معین اشخاص پر لعنت کی تھی اہل شام میں سے‪ ،‬اور یوں‬
‫ہی اہل شام لعنت کرتے تھے‬

‫اس کے جواب میں محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ ، 1 :‬ابن جوزی اور چند اور لوگ اگر بالفرض قائل بھی ھوں تو اھل السنت کے مسلک پر‬
‫کوئی فرق نہیں پڑتا‪ ،‬اگر چند لوگ اس جھوٹے پروپیگنڈے میں آگئے تو کوئی نئی بات نہیں‪.‬‬
‫‪ ،2‬عالمہ ابن تیمیہ یھاں کسی کا رد نہیں کر رھے بلکہ یزید کے بارے میں مختلف نظریات نقل‬
‫کررھے ھیں‪ .‬خود عالمہ صاحب لکھتے ہیں‬
‫ق‪ :‬فِ ْرقَةٌ لَعَنَتْهُ َوفِ ْرقَةٌ أ َ َحبهتْهُ َوفِ ْرقَةٌ َال تَسُبُّهُ َو َال ت ُ ِحبُّهُ‬ ‫ث ُ هم ا ْفت ََرقُوا ث َ َال َ‬
‫ث فِ َر ٍ‬
‫مجموع الفتاوی ج‪ 4‬ص ‪483‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-7289/page-1807#page-1805‬‬

‫یعنی یزید کے بارے میں تین فرقے ھیں‪ .‬ایک اس کو لعنت کرنے واال‪ ،‬ایک محبت کرنے واال اور‬
‫ایک نہ گالی دیتا ہے اور نہ محبت کرتا ہے‪.‬‬

‫تو یھاں عالمہ صاحب رد کرنے کے لیے نھیں صرف ان کا ذکر کر رھے ھیں‪،‬رد کسی کا نھیں کیا‬
‫انھوں نے‪.‬‬
‫‪ ، 3‬شیخ سرفراز رح کا حوالہ آپ کے لیے سودمند نھیں کیونکہ عالمہ صاحب رد کرنے کے لیے‬
‫نھیں بلکہ تعارف کے لیے نقل کررھے ھیں‪.‬‬
‫ھاں رد کے مقام پر التے پہر رد نہ کرتے تو شیخ سرفراز رح کا حوالہ فٹ ھوسکتا تھا)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم کا یہ کہنا کہ ابن جوزی اگر قائل ہوتے تو فرق نہیں اور اس کے عالوہ کچھ لوگ پروپیگنڈے‬
‫میں آگئے تو فرق نہیں۔۔ چلئے ہمیں خوشی ہوئی کہ آپ نے تسلیم کیا کہ ایک عالم اہلسنت ابن جوزی‬
‫اس بات کو تسلیم کرتا ہے تو یہ ہمارے لئے خوش نصیبی ہے کہ یوں اس کا خالص رفض کہنا باطل‬
‫ہوجاتا ہے اور کہا یہ جائے گا کہ یہ فقط روافض کا ہی پروپیگنڈا نہیں بلکہ اس کا عالم اہلسنت بھی‬
‫مانتے ہیں۔‬

‫باقی یاد رہے کہ ادھر یزید کے اوپر جو نظریات بیان کئے جارہے ہیں وہ ایک بات ہے اور جو ان‬
‫کی دلیل باعتبار ثبوت نقل کئے جارہی ہے وہ دوسری بات ہے دونوں میں خلط نہ ہو۔ جی ہاں اگر یہ‬
‫کہا جاتا ہے کہ یزید کے حوالے سے بات کی جارہی ہے تو آپ کی بات صحیح ہوتی لیکن ابن تیمیہ‬
‫کا دریں اثنا خود اس بات کو بطور دلیل کرنا کہ جس طرح ان کا نظریہ ہے وہ اس اہل صفین کا ایک‬
‫دوسرے سے لعن کرنے سے ملتا ہے۔‬

‫دیکھیں اصل عبارت‪:‬‬

‫وقد یقولون بلعن صاحب المعصیة وإن لم یحكم بفسقه‬


‫اور وہ (ابن جوزی وغیرہ) کہتے ہے معصیت کرنےو الے پر لعنت کرنی ہے اگرچہ ہم ان پر حکم‬
‫تفسیق نہیں لگاتے۔‬

‫اس کے بعد ابن تیمیہ دلیل نقل کرتے ہے (یہ مجرد نقل نظریہ نہیں بلکہ جس دلیل کو استعمال کیا‬
‫ہے اس کو نقل خود ابن تیمیہ کررہے ہے)‬

‫كما لعن أھل صفین بعضھم بعضا في القنوت‬


‫جس طرح اہل صفین ایک دوسرے پر لعنت کیا کرتے تھے قنوت میں‬

‫اور پھر امیر المؤمنین ع کا خاص افراد اور اہل شام یعنی معاویہ کی فوج کا لعنت کرنا لکھا ہے بایں‪:‬‬

‫فلعن علي وأصحابه في قنوت الصالة رجاال معینین من أھل الشام ; وكذلك أھل الشام لعنوا‬

‫چنانچہ ثابت ہوا کہ یہ مجرد نقل نظریہ نہیں تھا اور اگر تھا تو اس کا تعلق فقط یزید سے تھا اور جو‬
‫یزید کے عالوہ باتیں کہیں ہیں تو اس کو مجرد نقل نہیں کہیں گے بلکہ اس کو دلیل کالم کہیں گے‬
‫اور میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے دیکھائے کہا ابن تیمیہ نے اس کالم کو رد کیا اور اگر نہیں‬
‫کیا تو سکوت کیا اور سکوت کیا تو اس کو قبول کیا (جیسا کہ آپ کے امام اہلسنت کا نظریہ ہے)‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫چوتھی عبارت‪ :‬اور عثمان کے چاہنے والوں میں سے حضرات امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے‬
‫اور اس بات کا بھی کھلے عام اظہار کرتے تھے منبر اور دیگر جگاہوں پر‪( ،‬اس کی وجہ یہ تھی)‬
‫کہ ان (عثمان کے چاہنے والوں) اور علی ع پر درمیان جنگ ہوئی تھی۔‬

‫اس پر محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ ،1 .:‬جناب آپ نے یہ تو لکھ دیا کہ یہ کام معاویہ رضی ہللا عنہ کی نگرانی میں ھوتا تھا لیکن‬
‫کوئی ثبوت پیش نھیں کیا‪ ،‬اگر رعیت میں کسی کام کا ھونا سربراہ کی نگرانی کھالتا ھے تو پہر‬
‫وھی سواالت یاد رکھیں کو پچھلی بار کرچکا ھوں میں‪.‬‬
‫گھما پہرا کر وھی بات کردی آپ نے تو میں نے بھی گھما پہرا کر وھی جواب دے دیا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬رھی بات سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے سکوت کی‪ ،‬تو یہ بھی غلط‪ ،‬ان کے سامنے کسی نے‬
‫سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا بھال کہا تو انھوں نے اسے روکا‪).‬‬

‫جواب‪:‬‬
‫ناظرین آپ تمام دیکھ رہے ہوں گے کہ محترم فخر الزماں صاحب کس طرح میرے پیش کردہ‬
‫حوالے جات سے صرف نظر کررہے ہیں۔۔ میں نے ایک عبارت پیش کی تھی‪:‬‬

‫ابن تیمیہ اپنی منھاج السنتہ میں ایک اور جگہ رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ي‪ ،‬فَإ ِ هن َكثِ ً‬


‫یرا ِمنَ‬ ‫ع ِل ٌّ‬ ‫ص َحابَ ِة َوالتهابِعِینَ َكانُوا یَ َودُّونَ ُھ َما ‪َ ،‬و َكانُوا َخی َْر ْالقُ ُر ِ‬
‫ون‪َ .‬ولَ ْم یَكُ ْن َكذَلِكَ َ‬ ‫عا همةَ ال ه‬ ‫فَإ ِ هن َ‬
‫ضونَهُ‬ ‫ص َحا َب ِة َوالتها ِبعِینَ َكانُوا یُ ْب ِغ ُ‬
‫ال ه‬

‫عمومی عنوان سے بتحقیق صحابہ اور تابعین ابوبکر اور عمر سے مودت رکھتے تھے درحاآلنکہ‬
‫وہ بہترین زمانے والے افراد تھے لیکن حضرت علی کے ساتھ ایسا معاملہ نہ تھا کیونکہ بالشک و‬
‫شبہ کافی سارے صحابہ اور تابعین حضرت علی سے بغض رکھتے تھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ‪ ٧‬ص ‪١٣٧‬‬

‫اس کو میں نے خود معاویہ کی نگرانی میں ہوا تو اس کے لئے یہ والی عبارت تھی مع توضیح‪:‬‬

‫غی ِْرھَا؛ ِْلَجْ ِل ْال ِقت َا ِل الهذِي َكانَ‬


‫علَى ْال َمنَابِ ِر َو َ‬ ‫الثالث‪َ :‬وقَدْ َكانَ ِم ْن ِشیعَ ِة عُثْ َمانَ َم ْن یَسُبُّ َ‬
‫ع ِلیًّا‪َ ،‬ویَجْ َھ ُر بِذَلِكَ َ‬
‫َب ْینَ ُھ ْم َو َب ْینَهُ‪.‬‬

‫اور عثمان کے چاہنے والوں میں سے حضرات امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے اور اس بات کا‬
‫بھی کھلے عام اظہار کرتے تھے منبر اور دیگر جگاہوں پر‪( ،‬اس کی وجہ یہ تھی) کہ ان (عثمان‬
‫کے چاہنے والوں) اور علی ع پر درمیان جنگ ہوئی تھی۔‬

‫یاد رہے کہ شیعان عثمان معاویہ کی رعایہ والے ہی تھے جیسے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہے‪َ :‬و َر ِعیهةُ‬
‫ُمعَا ِویَةَ ِشیعَةُ عُثْ َمانَ (دیکھئے منھاج السنتہ جلد ‪ ٥‬ص ‪)٤٦٦‬‬

‫چنانچہ میرا یہ کہنا تھا کہ خود ابن تیمیہ کا اقرار ہے کہ صحابہ اور تابعین امیر المؤمنین ع پر لعنت‬
‫کرتے تھے چنانچہ فقط مصداق دیکھنے کی ضرورت تھی تو ہم نے ثابت کیا تھا کہ ابن تیمیہ کے‬
‫نزدیک جو صحابی ہے اس میں سے پہلے جو اس کا مصداق ٹہرتا ہے وہ شیعان عثمان ہے اور ان‬
‫کا سرغن ہ یقینا معاویہ تھا۔۔ چنانچہ صحابہ امیر المؤمنین ع پر تبرا کرے‪ ،‬تعین کیسے ہو تو اس کا‬
‫تعین شیعان عثمان میں سے جو صحابی ہے ان کو دیکھا جائے اور ان کا سرغنہ کون وہ معاویہ تھا۔‬
‫چنانچہ ان دو کو مال کر پڑھئے تو ہماری دلیل سمجھ آجائے گی۔ باقی جو دالئل محترم فخر الزماں‬
‫نے دئے ہیں اس کا جواب آگے دیا جائے گا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫پانچویں عبارت‪ :‬اور ابن مطہر کا جہاں تک امیر المؤمنین پر لعن کا ذکر کرنا ہے تو یہ دونوں‬
‫گروہوں کی طرف سے جنگ میں ایک دوسرے کے حق میں واقع ہوئی تھی۔۔ چنانچہ یہ حضرات‬
‫دوسرے کے سرداروں پر لعنت کرتے اور دوسرا گروہ پہلے کے سردراوں پر بددعا کرتے اور یہ‬
‫بھی کہا گیا کہ ہر ایک گروہ دوسرے پر قنوت (نازلہ) پڑھتا تھا۔۔ (خیر) جنگ تو بہرحال منہ سے‬
‫لعنت سے زیادہ بڑی چیز ہے اور یہ تمام چیزیں اگرچہ گناہ کے عنوان سے ہوں یا اجتہاد کے‬
‫عنوان سے۔۔ خطا کار ہوں یا حق پر ہوں۔۔ ان تمام صورتوں میں ہللا کی مغفرت اور رحمت ان تمام‬
‫کو توبہ‪ ،‬اچھے اعمال اور مصائب و پریشانی وغیرہم کے ذریعے ختم کردیتی ہے‬

‫اس کے جواب میں محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ ،1 :‬بعض صحابہ تو واقعی سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کے شیعوں میں تھے لیکن ان سے لعنت‬
‫ثابت کرنا آپ کے بس کی بات نھیں‪ .‬کیونکہ جھوٹ کبھی سچ ثابت نھیں ھوسکتا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬رعایہ والی بات دوبارہ کرکے ان سواالت کی طرف مجھے اشارے کا موقعہ دیا آپ نے جو میں‬
‫نے اس بات پر آپ سے کیے تھے جو اب تک الجواب ھیں‪.‬‬
‫دوبارہ وہ سواالت دیکھ لیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬عالمہ ابن تیمیہ کی بات آپ کی سمجھ سے باالتر ھے آپ ان کی عبارتیں سیاق و سباق سے کاٹ‬
‫کر پیش کر کے اپنے علمی گھرائی ھمارے سامنے واضح کررھے ھو‪.‬‬
‫یھاں بھی عالمہ ابن تیمیہ ابن مطھر کی بات کا رد کررھے ھیں جو یہ رونا رو رہا ھے کہ معاویہ‬
‫رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو لعنتیں کرتے تھے‪.‬‬
‫تو عالمہ صاحب نے اسی کے نظریے کے مطابق لکھا کہ یہ کام تو علی رضی ہللا عنہ والے بھی‬
‫کرتے تھے‪.‬‬
‫اگر معاویہ رضی ہللا عنہ کا لعنت کرنے سے گناہگار ھوئے تو علی رضی ہللا عنہ بھی‪ ،‬اگر علی‬
‫رضی ہللا عنہ کا دوسروں پر لعنتیں کرنا اجتہادی مسئلہ تھا تو پہر معاویہ رضی ہللا عنہ کا بھی یہ‬
‫عمل اجتہادی ھوا‪).‬‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم لگتا ہے زبردستی کچھ لکھنا چارہے ہیں بغیر سوچھے کہ آیا یہ بات موافق جواب بھی ہے یا‬
‫نہیں۔ صحابہ اور تابعین کا بغض علی ع رکھنا تو خود ابن تیمیہ سے ثابت ہے۔ اس کو فقط جھوٹ‬
‫کہنا عبث ہے۔‬

‫باقی آپ کا کہنا کہ ابن تیمیہ کی عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کررہا ہوں‪ ،‬اس کا فیصلہ میں‬
‫قارئین پر چھوڑتا ہوں‪ ،‬میں سمجھتا ہوں کہ میری پیش کردہ تمام حوالے جات پورے سیاق و سباق‬
‫کے تحت ہے اور جو اس پر اعتراض وارد کیا ہے اس کا بھی جواب دیا جاچکا ہے۔‬

‫آپ کا کہنا کہ ابن تیمیہ نے یہ عبارت بھی عالمہ حلی کے مطابق لکھی تو یہ عجیب ہے واقعی‬
‫عجیب صرف سینہ زوری ہی کہوں گا‪ ،‬یعنی مجھے یوں لگتا ہے جو عبارت بھی ابن تیمیہ کی شیعہ‬
‫موافق ہوگی اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ یہ عالمہ حلی کے نظریہ کے مطابق لکھی ہے اور سیاق‬
‫و سباق سے کاٹ کر علمیت کو ظاہر کیا ہے وغیرہ وغیرہ اعتراضات بتائیں گے جس کی علمی دنیا‬
‫میں بغیر دلیل کے کوئی وقعت نہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اگر یہ الزامی جواب ہوتا تو یہ دو وجہ سے منقوض و باطل ہے‪:‬‬

‫پہلی بات‪ :‬معاویہ اور اس کی فوج کو ہم مستحق لعنت سمجھتے ہیں تو ایک غلط فعل کا تقارن ایک‬
‫برے فعل سے کرنا ہی غلط ہے۔۔ یہ ایسا ہے کہ آپ شکایت کریں کہ بے دین حضرات صالح‬
‫دینداروں پر تنقید کرتے ہیں تو وہ جواب میں کہیں کہ دیندار بھی تو بے دین پر تنقید کرتے ہیں تو‬
‫دونوں کی تنقید مساوی نہیں بلکہ ایک کی تنقید شرعا غلط ہے اور دوسری کی تقنید شرعا واجب ہے‬
‫(عنوان امر و نہی کے تحت)۔۔ دونوں مساوی نہیں۔۔ اسی طرح امیر المؤمنین ع کا معاویہ کو لعنت‬
‫کرنا ایسا ہی جیسے رسول ص نے مروان اور اس کے باپ پر لعنت کی اور معاویہ کا امیر المؤمنین‬
‫ع اور فوج پر لعنت کرنا ایسا ہے جیسے کافروں کا رسول ص کو برا بھال کہنا۔ چنانچہ عالمہ حلی‬
‫کے سامنے اگر آپ دلیل کو پیش کریں تو وہ قانع نہیں ہے اس بات کے بیان میں کہ امیر المؤمنین ع‬
‫پر لعنت کیوں ہوتی تھی‪ ،‬ہم تو کہتے ہیں کہ لعنت کا مستحق تو ایک گروہ تھا ہی۔ اصل اختالف‬
‫وصی رسول اور اہلسنت کے چوتھے خلیفہ راشد اور ان کی فوج پر موجود بڑے بڑے صحابہ پر‬
‫لعنت کا ہے۔‬

‫دوسری بات‪ :‬یہ الزامی جواب اگر ہوتا تو عبارت اس عنوان کے تحت ہوتی جس میں الزام کا اشارہ‬
‫ہوتا جب کہ ادھر ایسا نہیں۔ بلکہ جیسے بتا یا ان آیا ہے تو بالشبہ پر داللت کرتا ہے۔ کیونکہ ابن تیمیہ‬
‫کی عبارت کا پہال حصہ یہ ہے‪:‬‬

‫ت ْال ُم َح َ‬
‫اربَةُ‬ ‫يٍ‪ ،‬فَإ ِ هن الت ه َالعُنَ َوقَ َع ِمنَ ه‬
‫الطائِفَتَی ِْن َك َما َوقَعَ ِ‬ ‫َوأ َ هما َما ذَ َك َرہُ ِم ْن لَ ْع ِن َ‬
‫ع ِل ّ‬

‫اور جو اس نے امیر المؤمنین ع پر لعنت ہونے کا ذکر کیا‪ ،‬تو بالشک و شبہ دونوں گروہوں کی‬
‫طرف سے جنگ کے دوران ایک دوسرے پر لعنت کی گئی۔‬

‫منھاج السنتہ ج ‪ ٤‬ص ‪٤٦٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-2172‬‬

‫چنانچہ اب تک ہمارا جواب تشنہ ہے۔ پھر میں ماقبل بتا بھی چکا ہوں کہ ابن تیمیہ کے پاس بنیادی‬
‫کتب شیعہ ہی نہ تھی تو الزامی جواب کا محل بننا محل اشکال ہے۔‬

‫آخر میں محترم فخرالزماں کا یہ کہنا‪:‬‬

‫(اگر معاویہ رضی ہللا عنہ کا لعنت کرنے سے گناہگار ھوئے تو علی رضی ہللا عنہ بھی‪ ،‬اگر علی‬
‫رضی ہللا عنہ کا دوسروں پر لعنتیں کرنا اجتہادی مسئلہ تھا تو پہر معاویہ رضی ہللا عنہ کا بھی یہ‬
‫عمل اجتہادی ھوا)‬

‫جواب‪ :‬یہ مزید دلیل ہے کہ یہ الزامی نہیں ہوسکتا کیونکہ شیعہ معاویہ کو مجتہد تو دور کی بات اس‬
‫کو اجتہاد کے لئے جو بنیادی شرائط ہے اس کی گنتی اول میں بھی شمار نہیں کرتے اور معاویہ کا‬
‫جب مجتہد ہونا ہمارے ہاں باطل ہے تو پھر اس بات کو الزامی جواب کہہ ہی نہیں سکتے۔ اگر ہم‬
‫معاویہ کو مجتہد سمجھتے تو شاید یہ جائز ہوتا لیکن ایسا نہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫پ‪ ،‬محب ہللا طبری اور مال علی قاری کا فہم روایت صحیح مسلم اور جملہ اشکاالت کے جوابات‬

‫ناظرین ہم نے محب ہللا طبری کا نقل کردہ مفہوم روایت سے استدالل کیا تھا اور پھر مال علی قاری‬
‫کا اس مفہوم کو بغیر جرح کرکے سکوت کرنا نقل کیا تھا جو خود ان کے امام اہلسنت کے مطابق‬
‫قبولیت پر داللت کرتا ہے۔‬

‫محب ہللا طبری کی عبارت‪ :‬راوی سے مروی ہے کہ معاویہ نے سعد کو امیر المؤمنین ع پر سب کا‬
‫حکم دیا۔۔۔۔ (پوری روایت نقل کرتے ہیں)‪ ،‬اس کو مسلم اور ترمذی نے نقل کیا ہے‬

‫مال علی قاری‪ :‬معاویہ نے سعد کو امیر المؤمنین ع پر سب کا حکم دیا۔‬

‫اب اس پر محترم نے جو جواب دیا ہے وہ پیش خدمت ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ ، 2 :‬صاحب الریاض نے کافی احادیث اپنے اصل الفاظ کے ساتھ نقل نھیں کیں‪.‬‬
‫جس روایت پر ھماری بحث ھے اسے کے مسلم والے اصل الفاظ اور صاحب ریاض النضرة کے‬
‫نقل کردہ الفاظ کا تقابل کرتے ہیں‪.‬‬
‫دیکھیں‪..‬‬
‫‪ ،1‬مسلم کے اصل الفاظ‬
‫امر معاویہ سعدا فقال ما منعک ان تسب ابا تراب‬
‫اور صاحب ریاض النضرة نے‬
‫امر معاویہ سعدا ان یسب ابا تراب کردیا‬
‫‪ ،2‬مسلم میں ھے‬
‫ان تکون لی واحدة منھن‬
‫صاحب ریاض نے‬
‫تکون کو یکون‬
‫اور‬
‫لی کو فی کردیا‬
‫‪ ،3‬مسلم میں ھے‬
‫فقال لہ علی یا رسول ہللا خلفتنی‬
‫اور‬
‫ریاض النضرة میں یا رسول ہللا بھی غائب اور خلفتنی ماضی کو تخلفنی مضارع سے بدل دیا‪.‬‬
‫بات سمجھنے کے لیے اتنی مثالیں کافی ھیں‪.‬‬
‫اب اس کتاب سے آپ مسلم والی روایت سے اپنا سمجھا ھوا مطلب کیسے اخذ کرسکتے ہیں جس نے‬
‫خود اختصارا ً روایت نقل کی ھیں اور اصل الفاظ بھی نھیں لکھے؟‬
‫‪ ، 3‬مال علی قاری نے بھی ریاض النضرة سے ھی نقل کیا جس کی حقیقت آپ نے دیکھ لی)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم یہی تو میں عرض کررہا ہوں کہ ہم ادھر صاحب الریاض کے فہم سے استدالل کررہے ہیں‬
‫اور یہ میں بتاتا چلوں کہ روایت کو بالمعنی نقل کرنا علماء کا طریقہ ہے۔۔ اس پر مثالیں آگے آئیں‬
‫گی۔ البتہ کم سے کم ان کے نقل کردہ الفاظ ان کے فہم پر مدلول ہے اور وہی ہمارا استدالل تھے کہ‬
‫دیکھئے طبری نے اس سے کیا سمجھا ہے۔ الفاظ روایت چاہے جو بھی نقل کرے اس سے ہمیں فرق‬
‫نہیں پڑتا کیونکہ ہمارا استدالل صحیح مسلم کی روایت سے ہے اور تائید میں ان کے فہم جو نقل کی‬
‫صورت میں ہیں اس کو بتایا جارہا ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم روایت کو بالمعنی نقل کرنا اور اس پر محدث یا مؤلف کا اس کو مختلف الفاظ سے نقل کرنا‬
‫کوئی معیوب بات نہیں بلکہ وہ محدث کے فہم پر داللت کرتا ہے۔ اب میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں۔‬
‫پہل ی مشہور و معروف مثال ہے جو محتاج بیان بھی نہیں لیکن قارئین کی سہولت کے لئے میں‬
‫عرض کروں گا کہ جب اہل اسالم قادیانیوں کے سامنے حضرت عیسی ع کے نزول من السماء کی‬
‫دلیل دیتے ہیں تو ایک روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے بطور دلیل التے ہیں۔۔‬

‫ْف أ َ ْنت ُ ْم إِذَا نَزَ َل ابْنُ َم ْریَ َم فِیكُ ْم َوإِ َما ُمكُ ْم‬
‫سله َم‪َ « :‬كی َ‬ ‫صلهى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫الفاظ صحیح مسلم‪ :‬قَا َل َرسُو ُل ہللاِ َ‬
‫ِم ْنكُ ْم؟» (صحیح مسلم ج ‪ ١‬ص ‪)١٣٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1727#page-467‬‬

‫ْف أ َ ْنت ُ ْم إِذَا نَزَ َل ابْنُ َم ْریَ َم فِیكُ ْم‪َ ،‬وإِ َما ُمكُ ْم‬
‫سله َم‪َ « :‬كی َ‬ ‫ص هلى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫الفاظ صحیح بخاری‪ :‬قَا َل َرسُو ُل ه ِ‬
‫َّللا َ‬
‫ِم ْنكُ ْم» (صحیح بخاری ج ‪ ٤‬ص ‪)١٦٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-5991‬‬

‫ترجمہ‪ :‬رسول ص نے فرمایا کہ تم لوگوں کی اس وقت کیا حالت ہوگی جب ابن مریم تم میں نازل‬
‫ہوں گے اور تم میں سے ہی تمہارا امام ہوگا۔‬

‫اب ادھر دلیل نزول تو الئی گئی لیکن اس میں آسمان کا ذکر نہیں کہ آسمان سے نازل ہوں گے اور‬
‫قادیانی حضرات اس پر ضرور اعتراض کرتے ہیں تو اس کے دفع و جواب کے لئے اہل اسالم‬
‫بیھقی کی کتاب سے روایت التے ہیں‪:‬‬

‫یم‪ ،‬ثنا ابْنُ بُ َكی ٍْر‪َ ،‬حدهث َ ِني‬ ‫َّللا ْال َحافِظُ‪ ،‬أنا أَبُو بَ ْك ِر بْنُ إِ ْس َحاقَ ‪ ،‬أنا أَحْ َمد ُ بْنُ إِب َْرا ِھ َ‬ ‫ع ْب ِد ه ِ‬‫‪ - 895‬أ َ ْخبَ َرنَا أَبُو َ‬
‫ع ْنهُ‬ ‫ي ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫ض َ‬ ‫ي ِ قَالَ‪ِ :‬إ هن أ َ َبا ھ َُری َْرة َ َر ِ‬ ‫ار ّ‬ ‫ع ْن نَافِ ٍع‪َ ،‬م ْولَى أ َ ِبي قَت َادَة َ ْاْل َ ْن َ‬
‫ص ِ‬ ‫ب‪َ ،‬‬ ‫ع ِن اب ِْن ِش َھا ٍ‬ ‫س‪َ ،‬‬ ‫ع ْن یُونُ َ‬ ‫ْث‪َ ،‬‬ ‫اللهی ُ‬
‫اء فِیكُ ْم َوإِ َما ُمكُ ْم ِم ْنكُ ْم»‬‫س َم ِ‬‫ْف أ َ ْنت ُ ْم إِذَا نَزَ َل ابْنُ َم ْریَ َم ِمنَ ال ه‬‫سله َم‪َ « :‬كی َ‬ ‫صلهى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫َّللا َ‬ ‫قَالَ‪ :‬قَا َل َرسُو ُل ه ِ‬

‫رسول ص نے فرمایا کہ تمہاری اس وقت کیا حالت ہوگی جب ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے‬
‫تمہارے ہاں۔ اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔‬

‫اس کے آگے بیھقی کہتے ہیں‪:‬‬

‫س‬ ‫ع ْن َیحْ َیى ب ِْن بُ َكی ٍْر‪َ ،‬وأ َ ْخ َر َجهُ ُم ْس ِل ٌم ِم ْن َوجْ ٍه آخ ََر َ‬
‫ع ْن یُونُ َ‬ ‫یح َ‬
‫ص ِح ِ‬ ‫‪َ .‬ر َواہُ ْالبُخَا ِر ُّ‬
‫ي فِي ال ه‬

‫بخاری نے اس کو اپنی صحیح میں یحیی بن بکیر کے طریق سے نقل کیا‪ ،‬اور مسلم نے ایک‬
‫دوسرے طریق سے یونس سے۔‬

‫حوالہ‪ :‬اْلسماء والصفات للبیھقي جلد ‪ ٢‬ص ‪٣٣١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9270#page-942‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ادھر بیھقی نے اپنے فہم کا انتساب بخاری اور مسلم کی طرف کیا جو بالشبہ دیگر قرائن‬
‫کے پیش نظر صحیح ہے لیکن اگر آپ الفاظ کو دیکھیں تو من السماء کے الفاظ بخاری اور مسلم میں‬
‫نہیں اور اس کے با وجود اس کو صحیحین سے منسوب کیا۔۔ یہی صورت حال طبری اور مال علی‬
‫قاری سے نقل کردہ حوالوں کا ہے کہ اگرچہ الفاظ روایت مختلف ہوسکتے ہیں لیکن وہ الفاظ کا‬
‫مختلف ہونا فہم کے اوپر مدلول ہوتا ہے اور یہ دراصل ہماری دلیل نہ کہ ہمارے اوپر اور خالف۔‬
‫کیونکہ ہمارا اثبات ہ ی یہی ہے کہ ان اعالم و محدثین کا فہم مسلم کی روایت سے وہی سے ہے جو‬
‫ہمارا ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫دوسری مثال ابن مسعود کے حوالے سے ہے۔۔ اس قضیہ میں جائے بغیر کہ کیا ابن مسعود معوذتین‬
‫(سورہ فلق اور سورہ ن اس) کو قرآن کا حصہ مانتے یا نہیں۔۔ بحث اس باب میں ہے کہ کیا روایت کا‬
‫انتساب اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ الفاظ کا اختالف ہو لیکن معنی واحد ہو بایں ہمہ کہ وہ بالمعنی‬
‫روایت محدث یا ناقل کے فہم پر داللت کرے۔‬

‫بخاری اپنی صحیح میں روایت نقل کرتے ہے‪:‬‬


‫ع ْبدَة ُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ‪َ ،‬‬
‫ع ْن ِز ِ ّر ب ِْن ُحبَی ٍْش‪ ،‬ح َو َحدهثَنَا‬ ‫َّللاِ‪َ ،‬حدهثَنَا سُ ْفیَانُ ‪َ ،‬حدهثَنَا َ‬ ‫ع ْب ِد ه‬‫ي بْنُ َ‬ ‫‪َ - 4977‬حدهثَنَا َ‬
‫ع ِل ُّ‬
‫ب‪ ،‬قُ ْلتُ ‪َ :‬یا أ َ َبا ال ُم ْنذ ِِر ِإ هن أَخَاكَ ابْنَ َم ْسعُو ٍد َیقُو ُل َكذَا َو َكذَا‪ ،‬فَقَا َل‬
‫ي بْنَ َك ْع ٍ‬ ‫سأ َ ْلتُ أ ُ َب ه‬
‫ع ْن ِز ٍ ّر‪ ،‬قَالَ‪َ :‬‬ ‫اص ٌم‪َ ،‬‬‫ع ِ‬ ‫َ‬
‫ْ‬
‫سل َم فَقَا َل ِلي‪« :‬قِیلَ ِلي فَقُلتُ » قَالَ‪ :‬فَنَحْ نُ نَقُو ُل َك َما قَا َل َرسُو ُل ه‬
‫َّللاِ‬ ‫ه‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬
‫صلى ہللاُ َ‬ ‫ه‬ ‫سألتُ َرسُو َل ه ِ‬
‫َّللا َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫أُبَ ٌّ‬
‫ي‪َ :‬‬
‫سله َم‬ ‫صلهى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫َ‬

‫زد کہتے ہے کہ میں نے ابی بن کعب سے پوچھا کہ اے ابو منذر۔ آپ کا بھائی ابن مسعود فالں فالں‬
‫بات کہا ہے۔ ابی نے جواب میں کہا کہ ہم نے رسول ص ے پوچھا تو رسول ص نے ہمارے لئے‬
‫کچھ پس ہم وہی بات کہتے ہیں جو رسول ص نے کہی۔‬

‫حوالہ‪ :‬صحیح بخاری‪ ،‬جلد ‪ ٦‬ص ‪١٨١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-8379‬‬

‫اس روایت کی بابت ہماری اچھی خاصی تحقیق ہے۔۔ انشاء ہللا وقت مال تو کبھی تبادلہ کریں گے۔‬
‫خیر اس روایت کا ابھام کسی ذی علم پر پوشیدہ نہیں لیکن جب سیوطی مقام نقل پر ائے اور اپنے فہم‬
‫کا پیوند اس پر لگایا تو گویا ہوئے‪:‬‬

‫عن زر بن‬ ‫مردَ َویْه َ‬


‫اري َوابْن ح َبان َوابْن ْ‬ ‫ي َوابْن الضریس َوابْن ْاْل َ ْن َب ِ‬ ‫ي َوالنه َ‬
‫سا ِئ ّ‬ ‫َوأخرج أَحْ مد َو ْالبُخ ِ‬
‫َار ّ‬
‫ي بن َك ْعب فَقلت‪ :‬یَا أَبَا ْال ُم ْنذر ِإنِّي َرأَیْت ابْن َم ْسعُود َال ی ْكتب المعوذتین‬ ‫ُحبَیْش قَالَ‪ :‬أتیت ْال َمدِینَة فَلَ ِقیت أب ّ‬
‫سأَلَني‬ ‫سأَلت َرسُول ہللا صلى ہللا َ‬
‫علَ ْی ِه َوسلم َ‬
‫ع ْن ُھ َما َو َما َ‬ ‫ق قد َ‬‫فِي مصحفه فَقَالَ‪ :‬أما َوالهذِي بعث ُم َح همدًا بِ ْال َح ّ ِ‬
‫غیْرك‬ ‫سأَلته َ‬ ‫ع ْن ُھ َما أحد ُم ْنذ ُ َ‬
‫َ‬
‫َ‬
‫عل ْی ِه َوسلم‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫قَالَ‪ :‬قیل لي قل فَقلت فَقولوا فَنحْ ن نقول َك َما قَا َل َرسُول ہللا صلى ہللا َ‬

‫احمد‪ ،‬بخاری‪ ،‬نسائی‪ ،‬ابن ضریس‪ ،‬ابن انباری‪ ،‬ابن حبان‪ ،‬ابن مردویہ نے زر سے نقل کیا کہ وہ‬
‫مدینہ آئے اور ابی بن کعب سے مالقات کی اور کہا کہ اے منذر (کنیت ابی) میں نے دیکھا ہے کہ‬
‫ابن مسعود اپنے مصحف میں معوذتین (فلق و ناس) کو نہیں لکھتے تو ابی نے جواب میں کہا خدا کی‬
‫قسم جس نے محمد ص کو حق کے ساتھ بھیجا کہ میں نے رسول ص سے پوچھا تھا اور یہ سوال‬
‫کسی نے مجھ سے نہیں کیا سوائے تمہارے (زر)۔ اس نے کہا جو کہا گیا میرے لئے وہ بتائے تو ابی‬
‫نے کہا تم لوگ کہو اور ہم وہی کہتے ہیں جو رسول ص نے کہا۔‬

‫حوالہ‪ :‬الدر المنثور جلد ‪ ٨‬ص ‪٦٨٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12884#page-7318‬‬

‫ناظرین‪ ،‬قارئین اور محترم فخر الزماں صاحب۔۔ سمجھ تو گئے ہوں گے اس تفاوت روایت و الفاظ کو‬
‫لیکن انتساب بہرحال بخاری سے بھی ہے اور بخاری سے نقل کردہ روایت آپ تمام کے پیش نظر‬
‫کردی گئی ہے۔ چنانچہ محدث اگر اپنے فہم کے مطابق روایت کو بالمعنی نقل کرے تو اس محدث کا‬
‫فہم اگر ہمارے فہم کے مطابق ہو تو اس سے احتجاج میں کوئی مانع نہیں۔ یاد رکھئے اصل استدالل‬
‫اب بھی صحیح مسلم کی روایت سے ہی ہے اور ان کا فہم بطور تائید پیش کیا جاتا ہے جب کہ آپ کا‬
‫انکار اصال ان کے فہم پر ہے فتدبروا یا اولی االبصار۔‬

‫مال علی قاری پر یاد کیجئے جو اعتراض کیا تھا امید ہے وہ اب واپس لے لیں گے۔۔ امام اہلسنت‬
‫سرفراز احمد صفدر کے کالم پر آپ نے تبصرہ نہیں دیا‪ ،‬ذرا وہ بھی دیجئے گا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫ت‪ ،‬شاہ عبدالعزیز دہلوی کا صحیح مسلم کی روایت سے اخذ مفہوم سب اور الحاق کا جواب‬

‫ہم نے شاہ عبدالعزیز کی اس صحیح مسلم کی روایت پر طویل تبصرہ پیش کیا تھا اور چونکہ اب‬
‫موقع نہیں کہ اس کو من و عن نقل کریں کیونکہ وہ خاصی طوالت کا باعث ہوگا تو بعض اہم الفاظ‬
‫کو پیش کرتے ہے‪:‬‬

‫غایتہ االمر اس کا یہی ہوگا کہ ارتکاب اس فعل قبیح یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ رض سے‬
‫صادر ہونا الزم آئے گا۔ تو کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسالم میں ہوا ہے اس واسطے کہ درجہ‬
‫سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہیں‬

‫اس کے جواب میں محترم کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ ، 1 :‬فتاوی عزیزی میں الحاقیات ھیں جس کو ھمارے علماء واضح کرچکے ھیں‬
‫ا‪ ،‬شیخ العرب و العجم سید حسین احمد مدنی رح کی مکتوبات ج‪ 4‬مکتوب نمبر ‪ 171‬ص ‪367 ،366‬‬
‫پر حضرت نے اس کو واضح کیا ھے‪.‬‬
‫ب‪ ،‬حضرت قاضی مظھر حسین رح نے خارجی فتنہ ج ‪ 2‬ص ‪ 102 ،101‬پر واضح کیا ھے‪.‬‬
‫تو فتاوی عزیزی کا جو حوالہ مسلک اھل السنت کے خالف ھوگا وہ قبول نھیں کیا جائے گا‪) .‬‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم فخر الزماں کہتے ہے کہ چونکہ شاہ عبدالعزیز کے فتاوی میں الحاق تھے اس وجہ سے اس‬
‫فتوی کو ان کا شمار نہیں کیا جائے گا۔۔۔ محترم اس پر دو اعتراضات ہیں۔۔ پہلی بات یہ ہے کہ آپ‬
‫کس دلیل کے تحت فقط اس ہی فتوی کو ملحق کہہ رہے ہیں یعنی کیا آپ کے پاس دلیل خود شاہ‬
‫صاحب کے ڈائریکٹ شاگرد یا جنہوں نے ان کے ان فتاوی کو جمع کیا موجود ہے کہ انہوں نے‬
‫خاص اس فتوی کو الحاق کہا ہو۔۔ یہ تو پھر احتمال دے کر پوری کتاب ہی قابل احتجاج نہیں رہے‬
‫گی کہ اگر احتمال الحاق موجود ہو تو کس دلیل کے تحت آپ کہیں گے کہ فالں فتوی شاہ صاحب ہی‬
‫کا ہے اور فالں شاہ صاحب کا نہیں۔۔ اگر آپ کے میزان کو مانا جائے تو ممکن ہے کہ اس میں کچھ‬
‫الحاق شدہ ثابت ہوں‪ ،‬دوسرا آئے تو اس کے مطابق دیگر الحاق شدہ ہوں۔ علی کل حال جب تک‬
‫معیار الحاق آپ ثابت نہیں کرتے اس وقت تک آپ کا کالم فارغ ہی ہے۔ میدان مباحثہ میں بار بار‬
‫کہتا ہوں کہ پک اور چوز یعنی میٹھا میٹھا ہپ اور پھیکا پھیکا تھو نہیں چلتا۔ دوسری بات یہ کہ اگر‬
‫احتمال الحاق کو مان جائے تو یہ تو صحیح بخاری میں بھی زیادتی اور الحاق موجود ہے اور قطع‬
‫نظر اس سے کہ وہ اب بھی چھپتا ہے لیکن علماء کی ایک جماعت اس کو الحاق مانتی ہے تو اگر‬
‫آپ کی بات کو مانا جائے تو پھر ممکن ہے صحیح بخاری سے ہاتھ دھونا پڑے۔۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫صحیح ب خاری کی مشہور حدیث کہ اے عمار تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔۔۔ اس روایت کے اس‬
‫جملہ‪ :‬یدعوھم إلى الجنة ویدعونه إلى النار کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہے‪:‬‬

‫ي فِي ْال َج ْم ِع‬ ‫ِیث َوا ْعلَ ْم أ َ هن َھ ِذ ِہ ال ِ ّزیَادَة َ لَ ْم یَذْكُ ْرھَا ْال ُح َم ْی ِد ُّ‬
‫ار ت َ ْقتُلُهُ ْال ِفئَةُ ْالبَا ِغیَةُ یَدْعُوھُ ْم ْال َحد َ‬ ‫ع هم ٍ‬‫َولَ ْفظُهُ َو ْی َح َ‬
‫ت‬ ‫ي ِ أ َ ْو َوقَعَ ْ‬
‫َار ّ‬ ‫ي َولَعَله َھا لَ ْم تَقَ ْع ِل ْلبُخ ِ‬ ‫ص ًال َو َكذَا قَا َل أَبُو َم ْسعُو ٍد قَا َل ْال ُح َم ْی ِد ُّ‬ ‫ي لَ ْم یَذْكُ ْرھَا أ َ ْ‬‫َار ه‬‫َوقَا َل إِ هن ْالبُخ ِ‬
‫ي َحذَفَ َھا‬ ‫ظ َھ ُر ِلي أ َ هن ْالبُخ ِ‬
‫َار ه‬ ‫ث قُ ْلتُ َو َی ْ‬ ‫ي ِفي َھذَا ْال َحدِی ِ‬ ‫ي َو ْال َب ْرقَا ِن ُّ‬ ‫ع ْمدًا قَا َل َوقَدْ أ َ ْخ َر َج َھا ْ ِ‬
‫اْل ْس َما ِعی ِل ُّ‬ ‫فَ َحذَفَ َھا َ‬
‫ع ْمدًا‬
‫َ‬

‫ترجمہ‪ :‬اور یہ مذکورہ باال جملہ حدیث۔۔ تو جان لو کہ اس اضافہ کو حمیدی نے اپنی کتاب الجمع میں‬
‫ذکر نہیں کیا‪ ،‬اور کہا کہ بخاری نے اس کو اصال لکھا ہی نہیں تھا۔ اور یہی بات ابو مسعود نے‬
‫لکھی ہے۔ حمیدی کے بقول ممکن ہے کہ بخاری تک یہ پہنچی ہی نہو یا پہنچی ہو تو بخاری نے اس‬
‫جو عمدا حذف کردیا ہو۔ اور مزید کہا کہ اس اضافہ روایت کو اسماعیلی اور برقانی نے بہرحال نقل‬
‫کیا ہے۔ میں (یعنی ابن حجر) کہتا ہوں کہ میرے لئے جو چیز ظاہر ہوئی ہے کہ بخاری نے اس جو‬
‫جان بوجھ کر حذف کیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬فتح الباري شرح صحیح البخاري جلد اول ص ‪٥٤٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1673#page-1025‬‬

‫قسطالنی بھی یہی بات کہتے ہے‪:‬‬

‫وھذہ الزیادة حذفھا المؤلّف‬

‫ترجمہ‪ :‬ان الفاظ کو مؤلف (یعنی بخاری) نے حذف کئے۔‬

‫حوالہ‪ :‬إرشاد الساري لشرح صحیح البخاري جلد ‪ ١‬ص ‪٤٤٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-442‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اگر مجرد زیادتی روایت جو اب تک بخاری میں دو جگہ چھپ رہی ہے اس الحاق سے اگر‬
‫کتب قابل استدالل نہیں رہتی تو پھر بتائے کیا صحیح بخاری پر بھی یہی حکم لگے گا۔‬
‫نوٹ‪ :‬یاد رہے کہ ہمارا جواب ادھر الزامی ہے۔۔ ورنہ یہ روایت بالکل ثابت ہے اور بعض الناس نے‬
‫اس روایت کو ضعیف کہا ہے اور بعض نے صرف ان الفاظ کو مدرج جن کا تفصیلی جواب میں نے‬
‫ماضی میں بھی دیا ہے اور انشاء ہللا مزید دیں گے اگر ضرورت ہوئی۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫پھر محترم فخر الزماں اس کے برعکس قول التے ہے‪:‬‬

‫(تحفہ اثنا عشری ص ‪ 749‬پر اھل صفین کے بارے میں لکھتے ہیں‬
‫⏪ جو آیات و احادیث صحابہ و مومنین کے بارے میں ھیں ان میں ان کو شامل کرتے ھیں اور ان‬
‫کی نجات کا لکھتے ہیں‪.‬‬
‫⏪ سب و شتم اور لعن طعن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ معتبر روایات سے ثابت نھیں‪.‬‬
‫بات واضح ھوگئی اور آپ کا استدالل باطل ھوا‪) .‬‬

‫جواب‪:‬‬
‫دوسری بات یہ ہے کہ اگر شاہ عبدالعزیز دہلوی نے ایک بات اپنی تحفہ میں کہی اور اس کے مد‬
‫مقابل دوسری بات کہی تو اس کو تناقض شمار کیا جائے گا‪ ،‬یہ بات ایسی ہے جب مرزا غالم قادیانی‬
‫کے کفریات در حق حضرت عیسی ع کو دیکھاتے ہیں تو وہ بالکل آپ کے استدالل کی طرح‬
‫حضرت عیسی ع کے حق میں اس کی کتب سے وہ عبارات دیکھاتے ہیں جو حضرت عیسی ع کی‬
‫توثیق میں ہو تو جو علماء اسالم ادھر جواب دیتے ہیں وہی میرا سمجھیں۔ ضرورت پڑی تو میں ان‬
‫حوال ے جات کو بھی نقل کردوں گا‪ ،‬لیکن اگر آپ اس بات کو ہی دلیل الحاق مانتے ہیں تو کیوں نہ‬
‫یہی استدالل ہم شیعہ علماء کے لئے بھی پیش کردیں اور جو بھی آپ حوالہ دیں اس کے مقابلہ میں‬
‫ہم یہی کہیں کہ ادھر ممکن ہے الحاق ہو اور شاید یہی عبارت الحاق ہو۔ اگر یہ مانتے تو سودہ برا‬
‫نہیں۔‬
‫مرتضی چاند پوری کہتے ہے‪:‬‬
‫ٰ‬

‫ایک بات اور قابل ذکر ہے مرزائی دھوکہ دینے کی غرض سے وہ عبارات مرزا قادیانی کی پیش‬
‫عیسی علیہ السالم کی تعظیم اور عظمت شان کا اقرار‬
‫ٰ‬ ‫کردیتے ہیں جن میں ختم نبوت کا اقرار ہے‬
‫ہے‪ ،‬اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مرزا قادیانی ماں کے پیٹ سے کافر نہ تھے ایک مدت تک‬
‫مسلمان تھے اور چونکہ دجال تھے اسی وجہ سے ان کے کالم میں باطل کے ساتھ حق بھی ہے تو‬
‫پہلی عبارات مفید نہیں جب تک کوئی ایسی عبارت نہ دکھا دیں کہ میں نے فالں معنی ختم نبوت کے‬
‫غلط بیان کیے تھے وہ غلط ہیں صحیح معنی یہ ہیں کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی‬
‫حقیقی نہ ہوگا‪ ،‬یا عیسی علیہ السالم کو جو فالں جگہ گالیاں دے کر کافر ہوا تھا اس سے توبہ کرکے‬
‫مسلمان ہوتا ہوں۔ ورنہ ویسے تو مرزا قادیانی اور تمام مرزائی الفاظ اسالم ہی کے بولتے ہیں اسی‬
‫وجہ سے مسلمان دھوکہ میں آجاتے ہیں کہ یہ تو ختم نبوت کے بھی قائل‪ ،‬عیسی علیہ السالم کی‬
‫تعظیم بھی کرتے ہیں‪ ،‬قرآن کو بھی مانتے ہیں‪ ،‬حشر اجسد پر بھی ایمان التے ہیں‪ ،‬عرض تمام آمنت‬
‫باہلل اور ایمان مجمل اور مفصل ازبر ہے یہ مسلمان کیوں نہ ہوں گے؟ مگر مسلمانو! یہ ان کے الفاظ‬
‫ہیں لیکن معنے وہ نہیں جو قرآن و حدیث نے بتائے ہیں معنی ان کے وہ ہیں جو مرزا قادیانی نے‬
‫تصنیف کرکے کفر کی بنیاد ڈالی ہے لہذا جو عبارات مرزا قادیانی اور مرزائیوں کی لکھی جاتی ہے‬
‫جب تک ان مضامین سے صاف توبہ نہ دکھائیں یا توبہ نہ کریں تو ان کا کچھ اعتبار نہیں‬

‫حوالہ‪ :‬اشد العذاب علی مسیلمتہ الفنجاب ص ‪ ١٩-١٨‬اور احتساب قادیانیت جلد ‪ ١٠‬ص ‪٢٦١-٢٦٠‬‬

‫‪https://ia601601.us.archive.org/.../Ehtesa.../ehtisab-10.pdf‬‬

‫محترم میں آپ کے عالم کے منھج کے مطابق یہی مطالبہ آپ کے سامنے کرتا ہوں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫د‪ ،‬دو مزید علماء کی گواہی‬

‫محترم فخر الزماں صاحب کو ہم نے معاصر موسی شاہین کا حوالہ دیا تھا جو کل مال کے ماضی کی‬
‫تعداد پانچ بنا دیتا ہے (اس بار دو مزید دوں گا یوں ‪ ٧‬ہوجائیں گے)‪ ،‬علی کل حال محترم فخر الزماں‬
‫کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬آپ کے پہلے حوالوں کا حال آپ نے دیکھ لیا ھوگا اب اس کا حال بھی دیکھ لیں‪.‬‬

‫‪ ،1‬موسی شاہین پہلے تو خود لکھ رھے ھیں کہ‬


‫المأمور به محذوف‪ ،‬لصیانة اللسان عنه‬

‫پہر آگے لکھتا ھے‬

‫ویحاول النووي تبرئة معاویة من ھذا السوء‪،‬‬


‫یعنی پہلے لکھا کہ زبان کو بچانا ھے صحابہ کے بارے میں‪ ،‬پہر آگے خود برے کام کی نسبت‬
‫صحابی کی طرف کردی‪.‬‬

‫‪ ، 2‬موسی شاہین جس بنیاد پر امام نووی رح کی تاویل کو بعید کھیل رہے ہیں کہ معاویہ رض کا گالی‬
‫دینا ثابت ھے‪ ،‬اس کی کوئی دلیل نھیں دی‪.‬‬
‫خود اھل السنت علماء کے بھی خالف ہے ان کی بات یہ بات‪.‬‬
‫بعید تو ان کی بات ھوئی نہ کہ امام نووی رح کی‪.‬‬

‫‪ ، 3‬آج تک کے معتبر علماء امام نووی کی تاویل کو تسلیم کرتے آرھے ھیں اور ‪ 700‬سال کے بعد‬
‫یہ تاویل غلط ھوگئی‪.‬‬
‫ماشاءہللا‬
‫اتنے علماء کے مقابلے میں آج کل کے کسی عالم کی بات نھیں مانی جائے گی)‬
‫جواب‪:‬‬
‫محترم چلیں مان لیا کہ ایک اہلسنت عالم دین یہ بات کہتا ہے۔۔ کوئی مسئلہ کی بات نہیں آپ نہ مانیں‪،‬‬
‫قارئین تو اس بات کو پڑھ رہے ہیں۔۔ ماشاء ہللا سے آپ کا استقرا کامل لگتا ہے تو محترم کیا واقعی‬
‫آپ نے دیگر علماء اہلسنت کا کالم اس پر پڑھا بھی ہے یا صرف اپنی طرف سے لکھ دیا کہ کسی‬
‫نے نووی کی مخالفت نہیں کی‪ ،‬ہم اس ضمن میں آپ کو دو مزید حوالے دے دیتے ہیں (اور بھی ہیں‬
‫جو ضرورت پڑی تو نقل کریں گے) جس میں ان علماء نے سب کا حکم ہی مراد لیا ہے۔‬

‫محترم فخر الزماں اور قارئین کی جاذبیت نظر کے لئے دو مزید حوالے اس صحیح مسلم کی روایت‬
‫کی تشریح پر عرض کرتا ہوں جو صریحا داللت کرتے ہیں کہ معاویہ نے سب ہی کا حکم دیا تھا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫قرطبی اپنی شہرت آفاق شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫وقول معاویة لسعد بن أبي وقاص ‪ (( :‬ما منعك أن تسب أبا تراب )) ؛ یدل ‪ :‬على أن مقدم بني أمیة كانوا‬
‫یسبون علیا وینتقصونه ‪ ،‬وذلك كان منھم لما وقر في أنفسھم من أنه أعان على قتل عثمان ‪ ،‬وأنه أسلمه‬
‫لمن قتله ‪ ،‬بناء منھم على أنه كان بالمدینة ‪ ،‬وأنه كان متمكنا من نصرته ‪ .‬وكل ذلك ظن كذب ‪ ،‬وتأویل‬
‫باطل غطى التعصب منه وجه الصواب‬

‫معاویہ کا سعد کو کہنا کہ کیا چیز مانع ہے کہ تم ابوتراب کو سب کرو۔۔ اس بات پر داللت کرتا ہے‬
‫کہ بنو امیہ کے سرداران امیر المؤمنین ع پر سب کرتے تھے اور امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرتے‬
‫تھے‪ ،‬اور یہ اس وجہ سے تھا کہ ان کے دلوں میں امیر المؤمنین ع کے لئے میل تھا کہ امیر ع نے‬
‫عثمان کے قتل میں مدد کی۔۔الخ‬

‫حوالہ‪ :‬المفھم لما أشكل من تلخیص كتاب مسلم جلد ‪ ٦‬ص ‪٢٧٢‬‬

‫‪https://ia801200.us.archive.org/.../FP84101/06_84106.pdf‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ہم نے بقدر حاجت ترجمہ پیش کیا ہے جس کا تعلق ہمارے استدالل سے ہے۔ اور اس حوالہ‬
‫پر مزید حاشیہ یا تشریح لگانا بیکار ہے کیونکہ یہ حوالہ داللت کے اعتبار سے بالکل صاف ہے۔‬

‫دوسرا عالم محمد امین شافعی ہے جنہوں نے بہت بڑی شرح صحیح مسلم پر لکھی ہے‪ ،‬وہ فرماتے‬
‫ہے‪:‬‬

‫(قال) عا مر بن سعد‪( :‬أمر معاویة بن أبي سفیان) اْلموي الشامي‪ ،‬الخلیفة المشھور (سعدا) بن أبي‬
‫وقاص رضي ہللا عنھما أي أمرہ بسب علي بن أبي طالب رضي ہللا عنه فأبى سعد أن یسب علیًّا (فقال)‬
‫معاویة بن أبي سفیان لسعد‪( :‬ما منعك) یا سعد (أن تسب أبا التراب) علي بن أبي طالب حین أمرتك أن‬
‫تسبه‪،‬‬
‫عامر بن سعد راوی کہتا ہے کہ (حکم دیا معاویہ بن ابی سفیان نے) جو بنو امیہ میں تھے‪ ،‬شامی اور‬
‫خلیفہ مشہور (سعد کو) یعنی سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنھما۔۔ یعنی معاویہ نے سعد کو حکم دیا‬
‫کہ وہ علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر سب کریں چناچنہ سعد نے علی پر سب کرنے سے منع‬
‫کردیا‪( ،‬پس کہا) معاویہ نے سعد سے (کیا چیز مانع ہے) اے سعد (تم ابو تراب پر سب کرو) یعنی‬
‫علی بن ابی طالب پر۔۔ جب کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ان پر سب کرو۔‬

‫حوالہ‪ :‬الكوكب الو هھاج ه‬


‫والروض البَ هھاج في شرح صحیح مسلم بن الحجاج جلد ‪ ٢٣‬ص ‪٤٤٤‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-18268#page-10051‬‬
‫تبصرہ‪ :‬یہ ایک مزید حوالہ اس روایت کی تشریح پر دیا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب انکار‬
‫کا کوئی محل نہیں۔‬

‫یوں یہ پروپیگنڈا کہ سب نووی کی تاویل کو قبول کرتے چلے آرہے ہیں غلط ہوجاتا ہے اور پوری‬
‫تعداد جو اس صحیح مسلم کی روایت سے معاویہ کا سب کرنے کا حکم مراد لیتے ہیں سات ہوجاتے‬
‫ہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ٢‬امیر المؤمنین کا اپنے قنوت میں معاویہ پر لعنت کرنا‬

‫ناظرین ہم نے جب اب ن تیمیہ کی عبارت پیش کی تھی اس میں امیر المؤمنین ع کے قنوت کے جملہ‬
‫دو طرق سے نقل کئے تھے‬

‫المصنف‪ :‬اے ہللا۔۔ معاویہ اور اس کے شیعوں۔ عمرو بن عاص اور اس کے شیعوں‪ ،‬ابو سلمی اور‬
‫اس کے شیوں‪ ،‬عبدہللا بن قیس اور اس کے شیعوں کے خالف تجھ سے طلب کرتا ہوں۔ (از امیر‬
‫المؤمنین)‬

‫تاریخ ابن کثیر‪ :‬جب علی کو پتا چال کہ عمرو بن عاص نے کیا کیا‪ ،‬تو امیر المؤمنین ع معاویہ‪،‬‬
‫عمرو بن عاص‪ ،‬ابو االعور السلمی‪ ،‬حبیب بن مسلمہ‪ ،‬ضحاک بن قیس‪ ،‬عبدالرحمان بن خالد بن ولید‪،‬‬
‫ولید بن عتبہ اور ان کے شیعوں پر لعنت کیا کرتے تھے‬

‫آئے محترم فخر الزما ں کے جواب کو دیکھتے ہے اور اس پر اپنا تبصرہ دیتے ہے‬

‫(فخر‪ ، 2 :‬جناب نے لعنت ثابت کرنے کے لیے نماز میں قنوت والی روایت پیش کی ھے‪.‬‬
‫خود انھوں نے ترجمہ بھی لعنت کا نھیں کیا بلکہ یہ کیا ھے کہ‬
‫"تجھ سے طلب کرتا ہوں"‬
‫دعوی کے مطابق دلیل ھی نھیں)‬ ‫تو آپ کے ٰ‬
‫جواب‪:‬‬
‫بیشک اس کا ترجمہ بھی میں نے صحیح کیا ہے اور اس سے اخذ شدہ مفہوم دونوں صحیح ہے۔۔‬
‫کیونکہ اگر آپ مطلق حج کو لیں تو اس کا ایک لغوی معنی ہے اور ایک شرع میں مستعمل معنی‬
‫ہے۔ عید (العود) کا لفظ لے لی جئے اس کا ایک لغوی معنی ہے اور پھر اصطالح میں اس کا ایک‬
‫معنی ہے۔ اسی طرح اللھم علیک کا ایک لغوی معنی ہے اور ایک اصطالحی معنی ہے۔ چنانچہ اللھم‬
‫علیک کے بعد جن حضرات کا نام لیا جاتا ہے اور محل قنوت ہو تو اس صورت میں اس کا اطالق‬
‫شدید ہوتا ہے اور یہ برات اور ہالکت کے معنی میں ہوتا ہے۔‬

‫محترم فخر الزماں نے جو اس بابت اعتراض کیا ہے تو ادھر لفظ اللھم علیک آیا ہے اور وہ بھی‬
‫دشمنوں کے لئے آیا ہے تو اس صورت میں اس کو ہالکت اور لعن کے معنی میں لینا دو وجوہات‬
‫کی بنا پر صحیح ہے۔۔ اول کہ خود علمائے اہلسنت نے اس کی تصریح کی ہے اور دوسری بات یہ‬
‫ہے کہ دیگر شواہد میں لعن کے عنوان سے اس کو نقل کیا ہے۔‬

‫‪ ،١‬عالمہ بدر الدین عینی حنفی رقم طراز ہے‪:‬‬

‫علَیْك بِأبي جھل) ‪ ،‬أَي‪ :‬بھالك‬


‫(وقَالَ‪ :‬الله ُھ هم َ‬
‫َ‬

‫رسول ہللا ص کا یہ کہنا کہ اے ہللا تیرے لئے ابوجہل۔۔ تو اس کا مطلب ابوجہل کی ہالکت کی بددعا‬
‫تھی۔‬

‫حوالہ‪:‬عمدة القاري شرح صحیح البخاري جلد ‪ ٢٣‬ص ‪١٧‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-5756#page-6839‬‬

‫‪ ،٢‬عالمہ قسطالنی فرماتے ہے‪:‬‬

‫(اللھم علیك بقریش) أي بإھالك كفّارھم‬

‫اللھم علیک بقریش یعنی اے ہللا تیرے لئے قریش اس کا مطلب ہے کہ قریش میں سے کافروں کو‬
‫ہالک کردے‬

‫حوالہ‪ :‬إرشاد الساري لشرح صحیح البخاري‪ ،‬جلد ‪ ١‬ص ‪٣٠٧‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-307‬‬

‫‪ ،٣‬مال علی قاری رقم طراز ہے‪:‬‬


‫یز ُم ْقتَد ٍِر‬ ‫شدِیدًا أ َ ْخذ َ َ‬
‫ع ِز ٍ‬ ‫علَیْكَ ا ْس ُم فِ ْع ٍل فَ ْال َم ْعنَى ُخذْھُ ْم أ َ ْخذًا َ‬
‫علَیْكَ بِقُ َری ٍْش) ‪ْ .‬البَا ُء زَ ائِدَة ٌ َو َ‬
‫(قَالَ‪( :‬الله ُھ هم َ‬

‫رسول ص کا یہ کہا اللھم علیک بقریش یعنی اے ہللا تیرے لئے قریش اس میں حرف باء زائدہ ہے‬
‫اور علیک اسم فعل ہے چنانچہ معنی یہ ہوا کہ قریش کی غالب آنے والی شدید پکڑ کر۔ (ملخص)‬

‫حوالہ‪ :‬مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح‪ ،‬جلد ‪ ٩‬ص ‪٣٧٣٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-8176#page-8118‬‬

‫‪ ، ٤‬آخر میں موالنا عبدالحئی لکھنوی کا فیصلہ کن قول بھی سنادیا جائے تاکہ ان تمام مباحث کا ایک‬
‫منطقی انجام ہوجائے وہ اس لفظ اللھم علیک کے بارے میں رقم طراز ہے‪:‬‬

‫إظھارا ً لبراءته داعیاً‪ :‬اللھم علیك أي خذ بالعقوبة‬

‫اظہار برات کے لئے یہ بددعا کی گئی۔۔ اللھم علیک یعنی اے ہللا ان کو بری عاقبت (کے لئے) پکڑ۔‬

‫حوالہ‪ :‬التعلیق الممجد على موطأ محمد جلد ‪ ٣‬ص ‪٦٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9804#page-1363‬‬

‫تبصرہ‪ :‬لہذا فیصلہ ہوا کہ اللھم علیک مخالف کے اوپر اظہار برات کے لئے آتا ہے جس کو عرف‬
‫عام میں تبرا کہا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس سے مخالف کی ہالکت مقصود ہوتی ہے۔ فیصلہ میں‬
‫قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ ان روایت میں موجود الفاظ اللھم علیک سے خود فیصلہ کریں۔‬

‫عمدة القاري شرح صحیح البخاري • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة‬


‫‪Khair Talab‬‬

‫مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بعض روایات کو نقل کئے دیتے ہیں جس سے اس امر کے اثبات میں‬
‫کوئی دو رائے نہ رہیں کہ امیر المؤمنین معاویہ اور اس کی فوج (اہل شام) کے خالف قنوت پڑھا‬
‫کرتے تھے۔‬

‫‪ ،١‬ابو نعیم اپنی مسند میں نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫ع ْلقَ َمةَ‪،‬‬
‫یم‪ ،‬عَ ْن َ‬ ‫ع ْن َح همادٍ‪ ،‬عَ ْن ِإب َْرا ِھ َ‬ ‫سى‪ ،‬ثَنَا ْال ُم ْق ِرئُ‪ ،‬ثَنَا أَبُو َحنِیفَةَ‪َ ،‬‬
‫َحدهثَنَا ُم َح همد ُ بْنُ أَحْ َمدَ‪ ،‬ثَنَا ِب ْش ُر بْنُ ُمو َ‬
‫علَى‬ ‫ش ِام‪َ ،‬و َكانَ یَ ْقنُتُ َ‬ ‫ب أ َ ْھ َل ال ه‬ ‫ي َحتهى َح َ‬
‫ار َ‬ ‫قَالَ‪َ « :‬ما قَنَتَ أَبُو بَ ْك ٍر‪َ ،‬و َال عُ َم ُر‪َ ،‬و َال عُثْ َمانُ ‪َ ،‬و َما قَنَتَ عَ ِل ٌّ‬
‫ُم َعا ِو َی َة»‬

‫بحذف سند۔۔ علقمہ کہتے ہے کہ ابوبکر‪ ،‬عمر اور عثمان نے قنوت نہیں پڑھا یہاں تک کہ امیر‬
‫المؤمنین ع نے بھی قنوت نہیں پڑھا مگر جب اہل شام کے ساتھ جنگ ہوئی تو امیر المؤمنین ع نے‬
‫معاویہ کے خالف قنوت پڑھا۔‬

‫حوالہ‪ :‬مسند اْلمام أبي حنیفة روایة أبي نعیم جلد ‪ ١‬ص ‪٨٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-6721#page-156‬‬

‫‪ ،٢‬عبد الرزاق الصنعاني نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫صلهى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه‬ ‫ع ْلقَ َمةَ‪َ ،‬و ْاْلَس َْودِ‪َ ،‬ق َاال‪َ « :‬ما َقنَتَ َر ُ‬
‫سو ُل ه ِ‬
‫َّللا َ‬ ‫ع ْن َ‬ ‫یم‪َ ،‬‬ ‫ع ْن أ َ ِبی ِه‪َ ،‬‬
‫ع ْن ِإب َْرا ِھ َ‬ ‫َوقَا َل ابْنُ ْال ُم َجا ِلدِ‪َ ،‬‬
‫ت كُ ِلّ ِھ هن َو َال قَنَتَ أَبُو بَ ْك ٍر َو َال عُ َم ُر‬ ‫ب‪ ،‬فَإِنههُ َكانَ یَ ْقنُتُ فِي ال ه‬
‫صلَ َوا ِ‬ ‫ار َ‬‫ت ِإ هال ِإذَا َح َ‬ ‫صلَ َوا ِ‬
‫يءٍ مِنَ ال ه‬ ‫ش ْ‬‫سله َم فِي َ‬ ‫َو َ‬
‫ت كُ ِلّ ِھ هن‪َ ،‬و َكانَ‬ ‫ش ِام‪ ،‬فَ َكانَ یَ ْقنُتُ فِي ال ه‬
‫صلَ َوا ِ‬ ‫ب أ َ ْھلَ ال ه‬ ‫ي َحتهى َح َ‬
‫ار َ‬ ‫َو َال عُثْ َمانُ َحتهى َماتُوا‪َ ،‬حتهى َال قَنَتَ َ‬
‫ع ِل ٌّ‬
‫اح ِب ِه»‬
‫ص ِ‬‫علَى َ‬ ‫اح ٍد ِم ْن ُھ َما َ‬ ‫ُم َعا ِو َیةُ َی ْقنُتُ أ َ ْی ً‬
‫ضا فَ َیدْعُو كُ ُّل َو ِ‬

‫علقمہ اور اسود دونوں کہتے ہیں کہ رسول ہللا اپنی نمازوں میں بالکل قنوت نہیں پڑھتے تھے مگر‬
‫یہ کہ جب جنگ کرتے تو اس وقت ہر نماز میں قنوت پڑھا کرتے تھے‪( ،‬اس کے بعد) ابوبکر نے‬
‫قنوت نہیں پڑھا‪( ،‬اس کے بعد) عمر نے قنوت نہیں پڑھا‪( ،‬اس کے بعد) عثمان نے قنوت نہیں پڑھا‬
‫یہاں تک کہ ان سب نے داعی اجل کو لبیک کہا‪ ،‬پھر جب نوبت امیر المؤمنین تک آئی تو آپ نے‬
‫بھی قنوت نہیں پڑھا یہاں تک کہ اہل شام کے خالف جنگ ہوئی‪ ،‬تو امیر المؤمنین ع اپنی ہر نماز‬
‫میں قنوت پڑھتے اور معاویہ بھی قنوت پڑھا کرتا تھا چنانچہ یہ دونوں ایک دوسرے کے خالف‬
‫بددعا کیا کرتے تھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬مصنف عبد الرزاق الصنعاني‪ ،‬جلد ‪ ٣‬ص ‪١٠٧‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-13174#page-5316‬‬

‫‪ ،٣‬ابو یوسف اپنی کتاب اآلثار میں نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫یم‪« ،‬أ َ هن َ‬
‫ع ِلیًّا‬ ‫ع ْن ِإب َْرا ِھ َ‬
‫ع ْن َح همادٍ‪َ ،‬‬ ‫ع ْن أَبِي َح ِنیفَةَ‪َ ،‬‬
‫ع ْن أ َ ِبی ِه‪َ ،‬‬‫ف‪َ ،‬‬ ‫ف بْنُ أ َ ِبي یُو ُ‬
‫س َ‬ ‫س ُ‬ ‫‪ - 352‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا یُو ُ‬
‫اربَهُ‪ ،‬فَأ َ َخذ َ أ َ ْھ ُل ْالكُوفَ ِة َ‬
‫ع ْنهُ‪َ ،‬وقَنَتَ ُمعَا ِویَةُ‬ ‫ع ْنهُ ِحینَ َح َ‬ ‫ي ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫ض َ‬ ‫علَى ُمعَا ِویَةَ َر ِ‬‫ع ْنهُ قَنَتَ یَدْعُو َ‬ ‫ي ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫ض َ‬
‫َر ِ‬
‫ع ْنهُ»‬ ‫يٍ‪ ،‬فَأ َ َخذ َ أ َ ْھ ُل ال ه‬
‫ش ِام َ‬ ‫علَى َ‬
‫ع ِل ّ‬ ‫یَدْعُو َ‬

‫ابراہیم (النخعی) فرم اتے ہے کہ امیر المؤمنین ع معاویہ کے خالف قنوت میں بددعا کرتے تھے جب‬
‫معاویہ سے جنگ کررہے تھے‪ ،‬چنانچہ اہل کوفہ نے یہ عمل امیر المؤمنین ع سے اخذ کیا‪ ،‬اور‬
‫معاویہ بھی امیر المؤمنین ع کے خالف قنوت میں بددعا کرتا چناچنہ اہل شام نے یہ عمل معاویہ سے‬
‫اخذ کیا۔‬
‫حوالہ‪:‬اآلثار أبو یوسف ص ‪٧١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12987#page-357‬‬

‫اس ہی روایت کو محمد بن حسن الشیبانی نے اپنی اآلثار جلد ‪ ١‬ص ‪ ٥٩٥‬میں نقل کیا ہے اور اپنی‬
‫کتاب الحجة على أھل المدینة جلد ‪ ١‬ص ‪ ١٠٢-١٠١‬میں بھی۔‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1332#page-277‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-6161#page-87‬‬

‫چنانچہ اس روایت سے مزید تقویت ملی کہ امیر المؤمنین ع اور ان کی فوج بقول علماء اہلسنت‬
‫معاویہ کے خالف بددعا کیا کرتے تھے۔۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫پھر محترم فخر الزماں نے راوی پر کالم کیا اور کہا‪:‬‬

‫(فخر‪ , :‬بیھقی کی روایت میں سلمہ بن کھیل راوی شیعہ ھے‪.‬‬


‫سیر إعالم النبالء تھذیب التھذیب وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں‪.‬‬
‫تھذیب التھذیب کا لنک دیکھیں‬
‫‪shamela.ws/browse.php/book-3310#page-1698‬‬

‫شیعوں کے شیخ طوسی نے رجال الطوسی میں اسے امام جعفر صادق رح کے اصحاب میں شمار‬
‫کیا ھے‬

‫‪/...shiaonlinelibrary.com/.../2935//:‬الصفحة_‪...205‬‬

‫اور یہ اصول تو آپ کو اچھے طریقے سے پتا ھے کہ شیعہ کی روایت اس کی تائید میں قبول نہیں‪.‬‬
‫)‬

‫جواب‪ :‬محترم کو المصنف کی روایت ہے اس میں سلمہ بن کھیل نہیں‪ ،‬دیگر جو میں نے طرق دئے‬
‫ہیں ان میں بھی سلمہ بن کھیل نہیں‪ ،‬ناظرین کی تشفی کے لئے میں المصنف کی روایت سند اور متن‬
‫کے ساتھ نقل کئے دیتا ہوں‪:‬‬

‫حدثنا ‪ :‬ھشیم ‪ ،‬قال ‪ :‬أخبرنا ‪ :‬حصین ‪ ،‬قال ‪ :‬حدثنا ‪ :‬عبد الرحمن بن معقل ‪ ،‬قال ‪ :‬صلیت مع علي صالة‬
‫الغداة ‪ ،‬قال ‪ :‬فقنت ‪ ،‬فقال في قنوته ‪ :‬اللھم علیك بمعاویة وأشیاعه ‪ ،‬وعمرو بن العاص ‪ ،‬وأشیاعه ‪ ،‬وأبا‬
‫السلمي وأشیاعه ‪ ،‬وعبد ہللا بن قیس وأشیاعه‬
‫اس میں سلمہ نہیں تو اس جراح کی وجہ سمجھ سے باالتر ہے لیکن خیر میں اس پر کالم کرتا ہوں‬
‫البتہ جس کلیہ کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس پر تفصیلی کالم میں بعد میں نقل کروں گا۔‬

‫محترم فخر الزماں نے سلمہ بن کھیل کے متعلق لکھا کہ اس میں تشیع تھی اور چونکہ روایت سلمہ‬
‫کی تشیع کو تقویت دے رہی ہے اس وجہ سے اس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ تو اس کے جواب میں‬
‫مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس امر کا اثبات کردیا جائے کہ تشیع (جو عرف متقدمین کے مطابق‬
‫ہے) ہوتے ہوئے علماء نے ساتھ ساتھ راوی کو ثبت (یعنی ثقہ ہونے کی اعلی قسم لکھا ہے)۔ چنانچہ‬
‫ذھبی نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫َوقَا َل أَبُو َحاتِ ٍم‪ :‬ثِقَةٌ‪ُ ،‬متْ ِق ٌن‪.‬‬


‫شیُّ ِع ِه‬ ‫ش ْیبَةَ‪ :‬ثِقَةٌ‪ ،‬ثَبْتٌ َ‬
‫علَى ت َ َ‬ ‫ب بنُ َ‬ ‫َوقَا َل یَ ْعقُ ْو ُ‬

‫ابوحاتم رازی کہتے ہے کہ سلمہ بن کھیل ثقہ اور ضبط روایت میں اعلی تھا۔‬
‫یعقوب بن شیبہ کہتے ہے سلمہ ثقہ اور ضبط روایت میں اعلی تھا حامل تشیع ہونے کے ساتھ ساتھ۔‬

‫ذھبی پھر ایک بہت اہم قول شعبہ (جن کو امیر المؤمنین فی الحدیث کا لقب اہلسنت دیتے ہیں) کا قول‬
‫نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫سلَ َمة ُ بنُ كُ َھ ْی ٍل‪،‬‬ ‫ص َحابِي‪ ،‬فَإِنه َما أ ُ َح ِدّثُكُم َ‬


‫ع ْن نَفَ ٍر یَ ِسی ٍْر ِم ْن َھ ِذ ِہ ال ِ ّ‬
‫ش ْیعَ ِة‪ :‬ال َح َك ُم‪َ ،‬و َ‬ ‫ت أَ ْ‬ ‫إِ ْن َحدهثْتُكُم َ‬
‫ع ْن ثِقَا ِ‬
‫ْب بنُ أ َ ِبي ثَا ِبتٍ‪َ ،‬و َم ْن ُ‬
‫ص ْو ٌر‪.‬‬ ‫َو َح ِبی ُ‬

‫اگر میں تم لوگوں کے لئے اپنے ثقہ ساتھیوں کے بارے میں بتاؤں تو وہ گنے چنے کم افراد شیعہ‬
‫ہیں۔۔ ‪ ،١‬حکم ‪ ،٢‬سلمہ بن کھیل ‪ ،٣‬حبیب ‪ ،٤‬منصور‬

‫یہ تمام اقوال اپ کو سیر اعالم النبالء‪ ،‬جلد ‪ ٥‬ص ‪ ٢٩٩‬میں دیکھ سکتے ہیں۔‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-4071‬‬

‫تبصرہ‪ :‬چنانچہ ثابت ہوا کہ سلمہ بہت بڑے ثقہ راوی تھے اور ثقاہت راوی ہرگز مانع نہیں ہوسکتی‬
‫نقل روایت میں ورنہ اگر یہ احتمال دے دیا جائے کتنی روایات ضائع ہوجائیں گی۔۔ اور اس کی‬
‫تفصیل اپنے مقام پر آئے گی جب ہم اس امر پر بحث کریں گے کہ کیا بدعتی کی روایت اپنے حق‬
‫میں قبول کی جائے گی یا نہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اور اگر بالفرض سلمہ بن کھیل کو تشیع سے متصف مان بھی لیا جائے تو وہ ایسی ہی تشیع ہے جو‬
‫دیگر صحابہ اور تابعین میں تھی۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ ایک مسئلہ پر‬
‫بحث کرتے ہیں تو فرماتے ہے‪:‬‬

‫سنه ِة‬ ‫ع َم ٌل ِع ْند َ أ َ ْھ ِل ال ُّ‬


‫سنه ِة ِم ْن َ‬
‫شعَائِ ِر ال ُّ‬ ‫اْلی َمانَ قَ ْو ٌل َو َ‬ ‫َو ِل َھذَا َكانَ ْال َق ْولُ‪ :‬ه‬
‫إن ْ ِ‬
‫اور جب ہی یہ مقولہ کہا گیا کہ ایمان قول اور عمل کا ہونا اہلسنت کے شعار میں سے ہے۔ (ص‬
‫‪)٣٠٨‬‬

‫پھر ابن تیمیہ مختلف جگاہوں پر موجود علماء اہلسنت کے اقوال کو نقل کرتے ہیں تو دریں اثنا جب‬
‫کوفہ پر بات آتی ہے تو ان علماء اہلسنت علماء میں سلمہ بن کھیل کو بھی شامل کرتے ہیں‪ ،‬مالحظہ‬
‫ہو عربی عبارت‪:‬‬

‫ي‪،‬‬ ‫ام ٌر ال ه‬
‫ش ْعبِ ُّ‬ ‫ع ِ‬‫الربِی ُع بْنُ ُخثَیْم َ‬ ‫ع ْلقَ َمةُ‪ْ ،‬اْلَس َْود ُ ْب ُن یَ ِزیدَ‪ ،‬أَبُو َوائِ ٍل‪َ ،‬و َ‬
‫س ِعید ُ بْنُ ُجبَی ٍْر‪ ،‬ه‬ ‫َو ِم ْن أ َ ْھ ِل ْالكُوفَ ِة‪َ :‬‬
‫سلَ َمةُ بْنُ كھیل (ص ‪)٣١٠‬‬ ‫ور بْنُ ْال ُم ْعت َِم ِر‪َ ،‬‬
‫ص ُ‬ ‫ط ْل َحةُ بْنُ ُم َ‬
‫ص ِ ّرفٍ ‪َ ،‬منْ ُ‬ ‫إب َْرا ِھی ُم النه َخ ِعي‪ْ ،‬ال َح َك ُم بْنُ عُت َ ْیبَةَ‪َ ،‬‬

‫حوالہ‪ :‬مجموع الفتاوی‪ ،‬جلد ‪ ٧‬ص ‪٣١٠-٣٠٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-7289#page-3345‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم اب تو مان جائیں کہ شیخ االسالم بھی اس تشیع کے باوجود ان کے قول کو بطور‬
‫شعار اہلسنت شمار کررہے ہیں۔ خیر آپ مانیں یا نہ مانیں قارئین مباحثہ ضرور مانیں گے۔‬

‫محترم نے رجال طوسی سے سلمہ بن کھیل کا صحابی امام صادق ہونا نقل کیا تو عرض کرتا چلوں‬
‫کہ محققین کا نظریہ یہ ہے کہ اس سے راوی کی توثیق پر استدالل کافی نہیں جب صحابی رسول‬
‫ہونا دلیل توثیق نہیں تو ما بعد آئمہ ع کا صحابی (مجرد و محض) ہونا دلیل توثیق بھی نہیں ہوتا۔ اور‬
‫اگر چلئے ماں لیں کہ راوی ثقہ تھا تو کیا ہوا۔۔ کتنے ہی راویان جیسے عبدالملک بن اعین‪ ،‬ابان بن‬
‫تغلب یا دیگر ہمارے اور آپ کے ہاں مشترکہ ثقہ ہیں۔ بہرحال یہ ایراد مضبوط نہیں۔‬

‫پھر محترم فخر الزماں تاریخ ابن کثیر کی روایت کے جواب میں کہتے ہے‪:‬‬

‫( البدایہ کی روایت کا حال تو آپ سے بھی چھپا ھوا نھیں‪ .‬اس میں ابو مخنف ھے جو کذاب‪ ،‬رافضی‬
‫ھے‪.‬‬
‫تو البدایہ کی روایت قابل استدالل نھیں‪.‬‬
‫‪ ، 4‬آپ نے البدایہ والی کو بطور شاھد کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے‪.‬‬
‫شاھد تو تب ھوتا جب متن ایک ھوتا دونوں کا‪ ،‬البدایہ کی تو متن میں بھی فرق ھے تو یہ شاھد‬
‫کیسے ھوسکتا ھے؟‬
‫البدایہ کی روایت میں لعنت کا ذکر ھے اور اوپر والی میں نھیں)‬

‫جواب‪:‬‬
‫اب ہم نے صحیح السند روایت جو المصنف سے نقل کی اس پر تو موصوف کا کوئی درخوار اعتناء‬
‫جواب ہی نہ آیا‪ ،‬ہاں مگر فورا تاریخ ابن کثیر سے نقل کردہ ابو مخنف کی روایت جو اس روایت کی‬
‫مزید توضیح پر تھی برس پڑے کہ ابو مخنف کذاب ہے اور مجروح ہے۔ البدایہ و النھایہ پر محترم‬
‫نے دو ایراد کئے ‪ ،١‬ابو مخنف کذاب ‪ ،٢‬روایت کے الفاظ مختلف تو شاہد کیسا؟‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫تو محترم اگر ہمارا استدالل فقط اس ہی کی روایت سے ہوتا اور یہ منفرد ہوتا تو آپ کا کہنا جائز تھا۔‬
‫(اس پر بھی مناقشہ ہوسکتا ہے لیکن برسبیل تنزل بات چل رہی ہے)۔ البتہ ہم نے یہی کہا تھا کہ اصل‬
‫روایت سے استدالل (جس کی مزید توضیح اس جواب میں کردی گئی ہے) المصنف سے تھا اور پھر‬
‫تائید میں یہ پیش کی اور خود علماء اہلسنت نے ابو مخنف کی مرویات پر مستقل عنوان سے بھروسہ‬
‫کیا ہے (جب کہ ہم نے فقط تائید میں نقل کی)۔ ابن کثیر اپنی تاریخ میں ایک جگہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫شأ ْ ِن‬
‫وط ب ِْن یَحْ یَى ‪َ -‬وھ َُو أ َ َحد ُ أَئِ هم ِة َھذَا ال ه‬
‫ع ْن أَبِي ِم ْخنَفٍ لُ ِ‬ ‫فصل ذَ َك َر ابْنُ َج ِر ٍ‬
‫یر َ‬

‫فصل اس بیان میں جس کو ابن جریر طبری نے ابو مخنف سے نقل کیا جو اماموں میں سے ایک‬
‫امام ہے اس باب میں۔‬

‫حوالہ‪ :‬البدایة والنھایة جلد ‪ ٧‬ص ‪٣٤٣‬‬

‫‪http://islamport.com/d/3/tkh/1/16/228.html‬‬

‫خیر ابو مخنف کی شخصیت کو میں زیادہ کھیردنا نہیں چاہتا ورنہ اس کے اوپر جراح کے باوجود‬
‫علماء اہلسنت مثل طبری‪ ،‬ابن اثیر‪ ،‬ابن خلدون‪ ،‬ابن کثیر (جو اساطین و جبل مورخین ہیں) سے لے‬
‫کر مفتی شفیع عثمانی اور دیگر دیوبندی اکابر نے بھی اعتماد کیا ہے۔۔ علی کل حال اگر یہ راوی‬
‫مجروح بھی ہو تو ہمارے استدالل پر کوئی اثر نہیں آتا۔۔ کوشش کیجئے اگلی بار المصنف کی روایت‬
‫پر تفصیلی کالم کیجئے۔‬

‫شاہد روایت کے لئے آپ بتائے کہ الفاظ کا مشترک ہونا کب سے معیار ہے؟ محترم کچھ تو علم‬
‫مصطلح پڑھئے۔ شاہد ہونا اعم ہے جس میں اشتراک لفظی و اشتراک معنی دونوں پر منطبق ہوتا ہے۔‬
‫میں نہیں سمجھتا کہ اس پر مزید کالم کرنا ضروری بھی ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫جاری ہے۔۔۔۔۔۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،٣‬تاریخ طبری کی روایت (معاویہ کا برائی سے روکنے والی) کا جواب‬


‫محترم نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫(ٍفخر‪ :‬سیدنا معاویہ رضی ہللا عنہ کے پاس بسر بن ارطاة اور زید بن عمر بیٹھے تھے‪ ،‬بسر بن‬
‫ارطاة نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے خالف کچھ کھا تو زید بن عمر نے ڈنڈا اٹھا کر بسر کا مارا‪.‬‬
‫ض َر ْبتَهُ! َوأ َ ْق َب َل َ‬
‫علَى بسر فقال‪ :‬تشم َ‬
‫ع ِلیًّا‬ ‫سیه ِد أ َ ْھ ِل ال ه‬
‫ش ِام فَ َ‬ ‫ْخ ِم ْن قُ َری ٍْش َ‬ ‫فَقَا َل ُم َعا ِو َیةُ ِلزَ ْیدٍ‪َ :‬‬
‫ع َمدْتَ ِإلَى َ‬
‫شی ٍ‬
‫َوھ َُو َجدُّہ‬
‫طبری ج‪ 5‬ص ‪335‬‬

‫معاویہ رض نے زید سے کھا کہ تم نے قریش کے ایک بزرگ اور شامیوں کے سردار کو مارا‬
‫ھے؟ ا ور بسر کی طرف متوجہ ھو کر کھا کہ تم علی رضی ہللا عنہ کو برا کھہ رھے ھو جو زید کا‬
‫نانا ھے؟‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-9783/page-2797#page-2795‬‬

‫واضح طور پر روک رھے ھیں معاویہ رضی ہللا عنہ سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو برا کھنے پر‪) .‬‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم نے تاریخ طبری سے استدالل کیا۔۔ ۔ جب کہ محترم سے میں نے جب پوچھا کہ اہلسنت‬
‫روایات سے استدالل کی کیا وجہ ہے تو فورا کہا میں اہلسنت کی کتب سے دیگر چیزیں بھی دیکھانا‬
‫چاہتا ہوں اور بہرحال یہ روایات مجھ پر حجت نہیں۔۔ لیکن ذھن میں رہے کہ یہ شوکیز مناظرہ نہیں‬
‫ہے کہ کچھ باتیں شوکیز کے لئے جو نہ دوسرے پر حجت ہوں اور فقط ایک دوسری سائیڈ دیکھانا‬
‫مقصود ہے۔۔ محترم خود جانتے ہیں کہ ان کی بات کتنی بے وزن ہے اور نہیں جانتے تو جان لیں۔۔‬
‫یہ شوکیز چیزیں اگر میں طبری سے دیکھانے لگ گیا تو ان کا جو حال ہوگا وہ ہللا جانے۔۔ فورا‬
‫دفاتر رجال اور کتب اسماء الرجال کی ورق گردانی ہونے لگی ہے لیکن شاید جب یہ استدالل پیش‬
‫کریں تو یہ اپنے لئے ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ خیر ان کی مستدل روایت کا حال ان کے‬
‫اصول کے مطابق ہی بہت برا ہے۔‬

‫ادھر اس روایت کو عالمہ بزرنجی جنہوں نے تاریخ طبری کی صحیح اور ضعیف روایت کو الگ‬
‫کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اس روایت کو معضل کہا ہے (یعنی وہ روایت جس میں کم سے کم دو‬
‫راویان کا انقطاع ہو ایک ساتھ)۔ (مالحظہ ہو تاریخ طبری جلد ‪ ٩‬ص ‪ ١٥٣‬طبع دار ابن کثیر)۔ اور‬
‫اس کی وجہ بھی واضح لگتی ہے کہ جویریہ بن اسماء کی وفات ‪ ١٧٣‬ہجری میں ہوئی جیسے ذھبی‬
‫س ْب ِعیْنَ َومائَةٍ‪( )،‬مالحظہ ہو سیر اعالم النبالء جلد ‪ ٧‬ص ‪ )٣١٨‬اور اس‬ ‫سنَ ِة ثَالَ ٍ‬
‫ث َو َ‬ ‫نے کہا‪( :‬ت ُ ُوفِّ َ‬
‫ي فِي َ‬
‫کا واقعہ کا پانا محتاج دلیل ہے۔ باقی آپ سلسلہ سند کے دیگر راویان کی توثیق بھی ثابت کیجئے اور‬
‫قابل استدالل بن جائے۔‬

‫تاریخ طبری تحقیق‬


‫بزرنجی‪http://ia600208.us.archive.org/2/items/waq98971/09_98979.pdf :‬‬
‫سیر اعالم النبالء‪http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-4982 :‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب متن کی طرف آتے ہیں اس میں بسر کے متعلق لکھا ہے‬

‫يٍ‬
‫ع ِل ّ‬ ‫أ َ هن بُس َْر بْنَ أَبِي أ َ ْر َ‬
‫طاة َ نَا َل ِم ْن َ‬

‫بسر بن بی ارطاتہ نے امیر المؤمنین ع کی تنقیص کی ۔‬

‫اب ایک مالحظہ میری طرف سے کہ بسر آپ کے ہاں صحابی ہے جیسا کہ ذھبی لکھتے ہے‪:‬‬

‫اْلمیر أبو عبد الرحمن القرشي العامري الصحابي نزیل دمشق ‪.‬‬

‫حوالہ‪ :‬سیر أعالم النبالء جلد ‪ ٣‬ص ‪٤٠٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-3017‬‬

‫اور آپ کے ہاں تصور صحابیت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت رحمدل تھے اور جانیں‬
‫لٹانے والے تھے تو کیا ایک صحابی دوسرے صحابی کی تنقیص کرسکتا ہے؟ اگر آپ جواب اثبات‬
‫میں دیں تو آپس میں رح مدل نہ رہے اور اگر جواب نفی میں دیں تو استدالل روایت کا کیا ہوا؟ خیر‬
‫امیر المؤمنین ع کے خالف جو بھی بد دل یا بد زبان ہو اور وہ دائرہ صحابیت میں داخل ہو تو مع‬
‫االسف وہ اہلسنت کے سر کا تاج ہی ہوتا ہے چنانچہ حب علی ع کا دعوی کتنا کمزور ہے وہ کسی‬
‫سے ڈھکا چھپا نہیں۔ خیر بتائے گا اس بارے میں بھی۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ٤‬معاویہ کا امیر المؤمنین ع کی تعریف سن کر خاموش ہونے والی بات کا جواب۔‬

‫ناظرین ہم ماضی میں کافی حوالے پیش کرچکے ہیں کہ دشمن بھی تعریف کو قبول کرتا ہے تو وہ‬
‫اس کے ایمان پر داللت نہیں۔‬

‫الف‪ ،‬فخر الزماں کے مسلک کے ہللا وسایا دیوبندی کا غیر مقلد ال مذھب کی تعریف کرنا‪ :‬قدرت نے‬
‫آپ (یعنی امرتسری از ناقل) کو فتنہ قادیانیت کے استیصال کے لئے ہی پیدا کیا تھا‬

‫ب‪ ،‬مال علی قاری‪ :‬تعریف وہ جو دشمن کرے اور اس ذیل میں مشرکین کی رسول ہللا ص کی‬
‫تعریف نقل کی گئی تھی۔‬
‫اس کے بعد سکوت یعنی خاموش رہنے کے بارے میں مزید حوالہ دیا‪:‬‬

‫فصول البدائع‪ :‬شافعی ہللا کی رحمت ہو ان پر کے ہاں اس کا جواز ہے کیونکہ ایک آدمی کا سکوت‬
‫کبھی مختلف دالئل کے تعارض کی وجہ سے تامل اور توقف کی صورت میں ہوتا ہے‪ ،‬کبھی کسی‬
‫انسان کے وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے‪ ،‬کبھی اس انسان کے رعب کی وجہ سے‪ ،‬کبھی‬
‫فتہ کے خوف کی وجہ سے ہے یا ان کے عالوہ یا جیسے کہ ہر مجتہد اس میں صحیح ہے اس وجہ‬
‫سے‪ ،‬کبھی دوسرا آدمی عمر میں بڑا ہوتا ہے‪ ،‬یا عزت میں زیادہ ہوتا ہے‬

‫البتہ ان تمام کے جوابات میں محترم فخر الزماں نے نئی بات چھیڑ دی اور کہا‬

‫(فخر‪ ، 1 :‬آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی صحابی کو اس طرح ماننا ھوتا ھے جس‬
‫طرح قرآن و احادیث میں بتایا گیا ہے ؟‬
‫ضرور بتانا آپ‪.‬‬
‫‪ .، 2‬رھا موالنا ہللا وسایا کا حوالہ تو یہ بات واضح ھے کہ اگر کسی میں کوئی بات قابل تعریف‬
‫ھوگی تو اس کا اقرار کیا جائے گا‪.‬‬
‫لیکن کسی صحابی کے بارے میں اس کے قرآن و احادیث سے ثابت شدہ فضائل ماننے واال اس سے‬
‫محبت کی دلیل ھوتی ھے کہ نھیں ؟‬
‫یہ سوال آپ کے جواب کا منتظر ہے‪.‬‬
‫‪ ،3‬آپ اپنے جن دالئل کو الجواب کھا ھے دشم ن کی تعریف والی کو‪ ،‬یہ آپ تب بات کرنا جب آپ‬
‫کی گالیاں‪،‬دشمنی وغیرہ والی بات ثابت ھو‪.‬‬
‫دشمن تعریف کرسکتا ھے اس سے انکار نھیں لیکن وہ یھاں فٹ نھیں ھوتے کیونکہ آپ اب تک اپنا‬
‫مدعی ثابت نھیں کرسکے)‬

‫جواب‪ :‬ادھر دو مفردات قابل غور ہیں۔۔ صحابی اور احادیث سے مراد کیا۔۔ کیونکہ آپ کے ہاں‬
‫صحابی کی تعریف میں کثیر اختالف ہے۔۔ اور اگر ابن حجر کی مشہور تعریف کو لیا جائے تو پھر‬
‫مصادیق میں فرق آتا ہے کہ کون کون اس پر فٹ بیٹھتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول ہللا ص کی‬
‫احادیث۔۔ احادیث میں شیعہ اور سنی کی متفقہ روایات کو ہٹایا جائے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ جو‬
‫دوسرے کے طریق سے منقول نہ ہوں ان کا کیا جائے۔ اس بارے میں احادیث کا لفظ ایک اعم ہوجاتا‬
‫ہے۔ آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ پوری تفصیل سے واضح کریں کہ احادیث سے مراد کیا۔۔ اگر‬
‫احادیث سے مراد مروی احادیث ہیں جو آپ کے تراث میں ہیں تو وہ کلی طور پر ہم پر حجت نہیں‬
‫اور اگر ہماری کتب میں منقول احادیث مراد ہیں (جس میں ہم آئمہ علیھم السالم کے اقوال کو بھی‬
‫مانتے ہیں) تو اس سے آپ احتجاج کرسکتے ہیں ان اصولوں پر جن کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ باقی‬
‫جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو اس میں شک نہیں کہ قرآن کی ہر بات حجت ہے۔ بحث ثبوت میں نہیں‬
‫بلکہ اثبات مطلوب پر ہے۔ آپ سے گذارش کروں گا کہ آپ صحابہ کے موضوع اگر چاہیں تو پھر‬
‫ہمیں دعوت مناظرہ دے دیجئے گا اور آجائے الئیو بات کرتے ہیں اس موضوع پر۔ ہم انشاء ہللا آپ‬
‫کے چیلنج کو ضرور قبول کریں گے لیکن ادھر میں اس کو النے کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔۔ ہاں‬
‫یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ آپ ایک گروہ صحابہ کی تعریف قرآن و قابل احتجاج احادیث سے ثابت‬
‫کریں اور پھر معاویہ کو اس گروہ کا فرد ہونے کا اثبات کیجئے تو اگر آپ نے ناقابل رد دالئل دئے‬
‫تو اس شرط پر ہمیں فضیلت معاویہ کے اقرار میں کالم نہیں رہے گا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ آپ‬
‫ایسا ہرگز نہیں کرسکیں گے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم چلیں شکر آپ نے مانا کہ جس میں جو فضیلت ہوتی ہے اس کا اقرار کیا جانا ایک طبیعی امر‬
‫ہے۔ یہی بات میں کہتا ہوں کہ ہللا وسایا کی جگہ بطور مثال معاویہ کو رکھیں اور امرتسری کی جگہ‬
‫بطور مثال امیر المؤمنین ع کو۔ جو جواب آپ نے دیا وہی میرا ہے۔ باقی معاویہ کا امیر المؤمنین ع‬
‫کے فضائل جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اس کو تسلیم کرنا اگر مان بھی لیا جائے تو کیا مانع ہے۔‬
‫اس سے ہمارے مولی کی فضیلت ظاہر ہوگی معاویہ کا جو دشمنی واال کردار رہا ہے وہ تو پھر بھی‬
‫جوں کا توں رہے گا۔ اگر ابھی کوئی صحابی جس کی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہو آپ اس کا‬
‫قصیدہ پڑھتے رہیں اور پھر اس کے خالف ہی خروج کردیں۔ تو اس کو منافقت کہا جائے گا۔ اس پر‬
‫سب کا حکم دیں اور ا س کے موالیان کو قتل کروائیں (ان تمام کی تفصیل اپنے مقام پر دیکھیں)۔ یہ‬
‫میں بار بار کہہ رہا ہوں تسلیم فضیلت اس تسلیم کرنے والے کی فضیلت مطقا نہیں بن سکتی جب‬
‫تک دیگر اعمال اس کی موافقت میں نہ ہوں۔‬

‫میں نے مزید ایک جگہ کہا کہ بریلوی علماء دیوبندی علماء سے سخت اختالف رکھتے ہیں لیکن اس‬
‫کے باوجود دیوبندی اکابرین ان کے قلم سے ان کی تعریف دیکھاتے ہیں تو کیا ان کو بھی پھر‬
‫دیوبندی مسلک کا کہا جائے گا کیونکہ وہ دوسرے مسلک رکھنے کے باوجود تعریف کرتے ہیں تو‬
‫محترم نے کہا‪:‬‬

‫(فخر‪ ، 1 :‬جناب جواب لکھنے سے پہلے بات کو سمجھنا ھوتا ھے‪ ،‬میں کیا لکھ رھا ھوں اور آپ کیا‬
‫جواب دے رھے ھیں‪،‬‬
‫میں نے لکھا کہ سنجیدہ علماء کافر نھیں کھتے اور آپ نے لکھ دیا کہ "دشمن ھو کر تعریف" ‪...‬‬
‫جناب دشمنی کس بال کا نام ہے زرا واضح تو کریں؟‬
‫‪ ، 2‬اور میں کھاں لکھا ہے کہ دشمن تعریف نہیں کرسکتا؟ یہاں تو میں دشمنی جو آپ ثابت کرنا چاہ‬
‫رہے ہیں وہ میں مان ھی نھیں رھا‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬دشمن سے میری مراد عقائد اور اعمال میں مخالفت ہے یعنی آپ لوگوں کا بریلوی حضرات‬
‫کے بعض عقائد کو شرک سے تعبیر کرنا اور ان کا آپ کے بعض نظریات کو کفر سے تعبیر کرنا‬
‫ڈھکا چھپا نہیں۔ اس کے باوجود آپ لوگ اپنی کتب میں بریلوی اکابر جنہوں نے آپ کے عقائد پر‬
‫جرح بھی کی اور بعض نے تکفیر بھی کی تو اس کے باوجود آپ لوگ ان سے تعریفات نقل کرتے‬
‫ہیں تو محترم جب دشمن ہوکر اور تکفیر کے باوجود تعریف کرنے سے باہم شیر و شکر ثابت نہیں‬
‫ہوتے تو یہی قاعدہ معاویہ کے ساتھ بھی منطبق کیجئے۔ باقی امیر المؤمنین ع سے جنگ کرنا اگر‬
‫محبت کی عالمت ہے تو اس کی وضاحت کردیں‪ ،‬جنگ کرنا خود دشمنی کی عالمت ہے۔ اس اصل‬
‫سے استثنی آپ کے ذمہ داری ہے میری نہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫محترم فخر الزماں نے اپنی تائیں ایک اخص صورت کو پیش کیا‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬میں نے سیدنا معاویہ رض کی ایک مخصوص حالت بتائی تھی کہ وہ حکمران تھے ان کے‬
‫پاس طاقت تھی وغیرہ‪،‬تو یہ ایک مخصوص صورت تھی کوئی کلیہ نھیں تھا اور اس مخصوص‬
‫صورت کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں فرمایا‪) .‬‬

‫ایک جگہ مزید فرماتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬یہ اخص صورت ھی میری بات کی واضح دلیل ہے جس کا توڑ آپ کے پاس نھیں‪).‬‬

‫ایک جگہ مزید فرماتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬یں اعم نھیں اخص صورت کی ھی بات کررھا ھوں‪ ،‬وہ اس طرح کہ ایک شخص جو‬
‫حکمران ھو طاقت اس کے پاس ھو‪ ،‬وہ کسی دوسرے سے (بقول شیعہ) سخت دشمنی بھی رکھتا ہو‪،‬‬
‫اس سے جنگ بھی کی ھو‪ ،‬اس کو ممبروں پر خطبوں میں خود بھی گالیاں دیتا ھو اور دوسروں‬
‫سے بھی دلواتا ھو‪ .‬وہ اپنے ایسے دشمن کی تعریفیں سن کر پہر بھی خاموش رھتا ھے تو یہ بالکل‬
‫اس بات کی دلیل ھے کہ وہ اس کے فضائل مانتا ھے)‬

‫جواب‪ :‬معاویہ کا حمکران ہوکر امیر ع کی تعریف کرنا معاویہ کے لئے دلیل فضیلت ہرگز نہیں بن‬
‫سکتا۔ اگر یہی معیار ہے تو جن علماء نے ابن تیمیہ کی تعریف کی ابن تیمیہ کا دشمن ہوکر ان کے‬
‫بارے میں بھی بتائیں جب کہ وہ علماء آسودگی میں تھے اور ابن تیمیہ جیل کی صعوبات میں۔ اس‬
‫چیز کا اثبات تو کیجئے کہ حکمران ہوکر تعریف کرنا دلیل فضیلت حکمران ہے۔‬

‫چلئے آپ نے اخص صورت جو بیان کی وہ خود دلیل کی محتاج ہے یعنی مجھے یہ بات منظور ہی‬
‫نہیں کہ کسی حکمران کے سامنے تعریف کی جائے اور وہ خاموش رہے وہ دلیل قبولیت فضیلت ہے‬
‫اور وہ اس کے بعد ان کے درمیان اچھے تعلقات کی دلیل ہوگی۔ یہ چیز خود محتاج دلیل ہے محض‬
‫ادعی تو قابل قبول ہی نہیں۔‬

‫چلیں اگر مان بھی لیا جائے اس صورت کو تو سوال یہ ہوتا ہے کہ خود مروان سے منقول ہے کہ وہ‬
‫امیر المؤمنین ع کو عثمان کے دفاع میں سب سے زیادہ پیش پیش سمجھتا تھا لیکن پھر بھی سیاست‬
‫باطلہ کی خاطر منبروں پر سب کرتا تھا۔‬

‫دیکھئے ذھبی ابن ابی خیثمہ کی روایت نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫ع ْن صاحبنا من‬‫ع ْن أ َ ِبی ِه قَالَ‪ :‬قَا َل مروان‪َ :‬ما كان في القوم أدفع َ‬ ‫ي ِ بْن ْال ُح َ‬
‫سی ِْن‪َ ،‬‬ ‫ع ِل ّ‬
‫وروي عُ َمر بْن َ‬
‫ع ْن عثمان‪ ،‬قَالَ‪ :‬فَقُ ْلتُ ‪َ :‬ما بالُكُم تسُبُّونه على المنابر! قَالَ‪َ :‬ال یستقیم اْلمر ّإال بذلك‬ ‫صاحبكم ‪ -‬یعني علیًّا ‪َ -‬‬
‫مروان نے کہا کہ پورے گروہ میں ہمارے ساتھی کا سب سے زیادہ دفاع تمہارے ساتھ نے کیا یعنی‬
‫امیر المومنین ع نے عثمان کا دفاع کیا۔ جس پر علی بن حسین ع نے پوچھا کہ پھر تم لوگ امیر‬
‫المؤمنین ع پر منبروں پر لعنت کیوں کرتے ہو تو مروان نے جواب دیا کہ ہمارا معاملہ (سیاست) اس‬
‫سب امیر ع کے عالوہ نہیں چلتی۔‬

‫اس روایت کو نقل کرکے ذھبی کہتے ہے کہ اس کی سند قوی ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ اْلسالم َو َوفیات المشاھیر َواْلعالم جلد ‪ ٢‬ص ‪٢٥٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-35100#page-1121‬‬

‫اور سیر اعالم النبالء جلد ‪ ٢‬ص ‪ ٤٨٧‬میں بھی ذھبی نے سند کو قوی کہا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬سیر اعالم النبالء جلد ‪ ٢‬ص ‪٤٨٧‬۔‬

‫لہذا ثابت ہوا کہ آپ کی اخص صورت دو وجہ سے منقوض ہے پہلی اس پر بذات خؤد کوئی دلیل‬
‫نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر حکمران طبقہ سے ہونا اور کسی کی تعریف کرنا یا تعریف پر‬
‫خاموش ہونا ہمیشہ اچھے تعلقات کی دلیل ہو تو پھر مروان کا اعتراف ایک جگہ اور دوسری طرف‬
‫منبروں پر سب کرنا کیا بتاتا ہے؟ محترم ناظرین ہم نے تمام دروازے بند کردئے ہیں اور خود محترم‬
‫کہتے ہے‪:‬‬

‫اور میں کھاں لکھا ہے کہ دشمن تعریف نہیں کرسکتا؟‬


‫(دیکھئے فخر الزماں کا جواب فقرہ نمبر ‪)٢٠‬‬

‫چنانچہ انہوں نے مانا کہ دشمن تعریف کرسکتا ہے۔ لیکن پھر ایک اخص صورت پر اٹک گئے جس‬
‫کا مزید آپریشن کردیا گیا ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،٥‬تاریخ ابن کثیر سے معاویہ اور سعد کی اچھی معاشرت کی دلیل کا جواب‬

‫محترم فخر الزماں کہتے ہے‬

‫(حضرت سعد رض کا جس حوالے کا آپ اشارہ کررہے ہیں اس کا حشر تو پچھلے کمنٹس میں دیکھ‬
‫چکے ہیں‪ ،‬اور آگے بھی دیکھ لیجیے گا‪ ،‬یھاں آپ کی اس بات کا رد خود سعد رض سے ھی دیکھ‬
‫لیں‪.‬‬

‫علَى ُمعَا ِویَةَ فَأَقَ َ‬


‫ام‬ ‫س ْعدَ بْنَ أَبِي َوقه ٍ‬
‫اص َوفَد َ َ‬ ‫ْج‪َ :‬حدهثَنِي زَ َك ِریها بن عمر وأن َ‬
‫ع ِن اب ِْن ُج َری ٍ‬ ‫الر هزا ِ‬
‫ق َ‬ ‫َوقَا َل َ‬
‫ع ْبد ُ ه‬
‫ش ْیئًا إِ هال أ َ ْع َ‬
‫طاہُ إِیهاہُ‪.‬‬ ‫سأَلَهُ َ‬
‫س ْعد ٌ َ‬ ‫ص َالة َ َویُ ْف ِط ُر‪َ ،‬وقَا َل َ‬
‫غی ُْرہُ‪ :‬فَ َبایَعَهُ َو َما َ‬ ‫ضانَ یَ ْق ُ‬
‫ص ُر ال ه‬ ‫ِع ْندَہُ َ‬
‫ش ْھ َر َر َم َ‬
‫البدایہ و النھایہ ج‪ 8‬ص ‪79‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-8376/page-2933#page-2930‬‬

‫یعنی سعد رض معاویہ رض کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور رمضان کا مہینہ ان کے پاس قیام کیا‪،‬‬
‫نماز قصر کرتے اور روزہ چھوڑتے تھے‪ ،‬ان کی بیعت بھی کی اور سعد رض نے جو ان سے‬
‫مانگا معاویہ رض نے ان کو دیا‪.‬‬

‫تو جناب آپ کی روایت کا رد خود سعد رض کے عمل سے ھوگیا)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم نے تاریخ ابن کثیر سے جو روایت نقل کی تو اگرچہ ہم جواب دینے کے ذمہ دار نہیں لیکن‬
‫میں تبصرہ ضرور پیش کروں گا۔۔‬

‫روایت کے دو حصہ ہے پہال جس میں قیام کی بات ہے اور دوسری جس میں ہر خواہش کی پورے‬
‫کرنے کی بات ہے‪:‬‬

‫علَى ُم َعا ِویَةَ‬ ‫س ْعد َ بْنَ أ َ ِبي َوقه ٍ‬


‫اص َوفَدَ َ‬ ‫ْج‪َ :‬حدهثَنِي زَ َك ِریها بن عمر وأن َ‬ ‫ع ِن اب ِْن ُج َری ٍ‬‫ق َ‬‫الر هزا ِ‬
‫ع ْبد ُ ه‬‫پہال‪َ :‬وقَا َل َ‬
‫ص َالة َ َویُ ْف ِط ُر‬
‫ص ُر ال ه‬‫ضانَ یَ ْق ُ‬‫ش ْھ َر َر َم َ‬ ‫فَأَقَ َ‬
‫ام ِع ْندَہُ َ‬

‫ش ْیئًا ِإ هال أ َ ْع َ‬
‫طاہُ إِیهاہُ‬ ‫سأَلَهُ َ‬
‫س ْعد ٌ َ‬ ‫دوسرا‪َ :‬وقَا َل َ‬
‫غی ُْرہُ‪ :‬فَبَایَعَهُ َو َما َ‬

‫چنانچہ فخر الزماں صاحب کا بہت زیادہ اصرار دوسرے جملہ پر تھا‪ ،‬آئے ہم ان دونوں حصوں کی‬
‫قلعی کھولتے ہیں۔۔‬

‫خ وشی اس بات کی ہے کہ محترم فخر الزماں نے ابن کثیر نے جو ڈائریکٹ عبدالرزاق سے نقل کیا‬
‫بغیر سند کے (عین ممکن ہے اصل کتاب سے کیا ہو) کو قابل احتجاج سمجھا۔۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے‪،‬‬
‫اس پر تبصرہ پھر کبھی کروں گا۔‬

‫اب آتے ہیں پہلی روایت کی طرف جس کی سند یوں ہے‪:‬‬

‫علَى ُمعَا ِویَةَ فَأ َ َق َ‬


‫ام‬ ‫س ْعدَ بْنَ أَبِي َوقه ٍ‬
‫اص َوفَد َ َ‬ ‫ْج‪َ :‬حدهثَنِي زَ َك ِریها بن عمر وأن َ‬ ‫ع ِن اب ِْن ُج َری ٍ‬‫ق َ‬‫الر هزا ِ‬
‫ع ْبد ُ ه‬‫َوقَا َل َ‬
‫ص َالة َ َویُ ْف ِط ُر‬
‫ص ُر ال ه‬ ‫ضانَ َی ْق ُ‬
‫ش ْھ َر َر َم َ‬‫ِع ْندَہُ َ‬

‫اس میں دو اشکاالت ہیں اہلسنت کے بعض علماء کے مبانی کے تحت (ہمارا اس سے اتفاق کرنا یا نہ‬
‫کرنا فی الحال ضروری نہیں)۔‬
‫پہال‪ ،‬زکریا بن عمرو خود محتاج توثیق ہے۔ اور اس کی تشخیص میں اختالف ہے۔ کہتے ہے کہ اس‬
‫کو ابن حبان نے اپنی ثقات میں شمار کیا ہے۔۔ اور بعض مبانی کے تحت یہ بات کافی نہیں دلیل توثیق‬
‫کے لئے۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ اس ہی راوی کو ابو حاتم نے مجہول لکھا ہے۔ مالحظہ ہو عبارت‪:‬‬

‫‪ - 2697‬زكریاء (‪ )3‬روى عن عطاء روى عنه منصور سمعت أبى یقول‪ :‬ھو مجھول‬

‫حوالہ‪ :‬الجرح والتعدیل البن أبي حاتم جلد ‪ ٣‬ص ‪٥٩٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-2170#page-1554‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اس ہی ضمن میں جو ایک اور اعتراض پیش خدمت ہے وہ یہ ہے کہ ادھر ایک واسطہ بھی ساقط‬
‫ہے کیونکہ زکریا جو بتایا جارہا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ عطاء سے روایت کرتا ہے‬
‫چنانچہ ایک ف اصلہ زمانی بھی اس روایت میں حائل ہے۔۔ خیر میں جانتا ہوں کہ عین ممکن ہے کہ‬
‫آپ کا منھج مختلف ہو اور بعض علماء کے مبانی کے تحت ان سب کے جوابات بھی دئے جاسکتے‬
‫ہیں چنانچہ اگر آپ کو ان کا مبنی اختیار کریں گے تو انشاء ہللا اس کا جواب اس ہی وقت دیا جائے‬
‫گا۔ لیکن ا بھی جلدی میں تمام جوابات کو سواالت سے پہلے دینا فی الحال مناسب نہیں۔‬

‫دوسرا اشکال اس پر یہ ہے کہ عموما حنفی فقہ کے بعض مدافعین ابن جریج پر شیعہ اور کافی‬
‫سارے متعہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور ایک طرح سے گلوخالصی کی کوشش کرتے ہے۔۔ ہمیں‬
‫حیرانی ہوتی ہے کہ ایک روایت کو مطروح اس وجہ سے قرار دیتے ہے کہ اس میں ابن جریج ہے‬
‫اور دوسرے کو قابل احتجاج سمجھتے ہیں۔۔ عین ممکن ہو یہ ایسی رجال گتھی ہو جو مجھ سے‬
‫سلجھ نہ رہی ہو اور ہوتا ہے کہ ایک راوی فالں چیز میں قابل احتجاج ہو اور فالں میں نہیں تو‬
‫مبنی کا تعین کیجئے تاکہ اس پر مزید بات کی جاسکے (یاد رہے‬‫ٰ‬ ‫محترم سے گذارش ہے کہ وہ اپنے‬
‫مبنی یہ نہیں لیکن خصم کو الزام کے طور پر اس کو نقل کئے جارہا ہے)۔‬‫ٰ‬ ‫کہ ہمارا‬

‫ش ْیئًا ِإ هال أ َ ْع َ‬
‫طاہُ ِإیهاہُ‬ ‫سأَلَهُ َ‬
‫س ْعد ٌ َ‬ ‫اب دوسری روایت کی طرف آتے ہے‪َ :‬وقَا َل َ‬
‫غی ُْرہُ‪ :‬فَبَا َی َعهُ َو َما َ‬

‫جو اب‪ :‬یہ روایت تو بالکل مبھم ہے غیرہ میں قائل ہون ہے اس کا تعارف کیا‪ ،‬عدالت کیا ثابت ہے کیا‬
‫ضبط اس قابل ہے۔۔ ان تمام باتوں کا تعین ضروری ہے۔ براہ کرم اس کو کسی معتبر ذرائع سے نقل‬
‫کیجئے۔‬

‫ًِ محترم چونکہ ضعیف اور ناقابل اعتماد روایات سے استدالل کررہے ہیں تو ہم اس ہی منطق کے‬
‫تحت اور اس ہی منھج کے تحت ان کی خدمت میں بھی کچھ ان قسم کی روایات سے عرض کرتے‬
‫ہے۔۔‬
‫ابو الفرج اصفہانی جن کو ذھبی اور ابن حجر نے صدوق کہا ہے وہ کہتے ہے‪:‬‬

‫ودس معاویة إلیه حین أراد أن یعھد إلى یزید بعدہ‪ ،‬وإلى سعد بن أبي وقّاص س ّما فماتا منه في أیام‬
‫متقاربة‬

‫معاویہ نے امام حسن ع کو زھر دلوایا جب کہ اس نے ارادہ کیا کہ اپنے بیٹے یزید کو اپنے بعد‬
‫حکومت دے اور سعد بن ابی وقاص کو بھی زھر دلوایا چنانچہ دونوں اس زھر کی وجہ سے قریب‬
‫قریب کچھ دنوں کے فرق سے انتقال کرگئے‬

‫حوالہ‪ :‬مقاتل الطالبین ص ‪٦٠‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12404#page-56‬‬

‫عالمہ مقدسی نے بھی نقل کیا‪:‬‬

‫وروى شعبة أن سعدا ً والحسن بن على ماتا في یوم واحد قال ویرون ّ‬
‫أن معاویة س ّمھما‬

‫شعبہ سے روایت کہ سعد اور امام حسن بن علی ایک ہی دن انتقال کئے‪ ،‬اور شعبہ نے مزید کہا کہ‬
‫یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاویہ نے ان دونوں کو زھر دیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬البدء والتاریخ جلد ‪ ٥‬ص ‪٨٥‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12318#page-987‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم چونکہ جن اخبار و روایات سے استدالل کررہے تھے تو دو میں سے ایک صورت‬
‫ہے کہ یہ بے سند روایات سے استدالل کو مناظرہ اور اثبات حقیت مذھب میں جائز سمجھتے ہیں تو‬
‫ان کے لئے یہ الزام ی جواب حاضر ہے کہ پھر ان کو بھی مانئے اور اگر مناسب نہیں سمجھتے تو‬
‫پھر ذرا ہمت کیجئے اور اپنی روایات کی اسنادی حیثیت کی وضاحت کیجئے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ٦‬امیر المؤمنین ع سے جنگ کرنے والے کے بارے میں حکم اور جملہ شبہات کے جوابات‬

‫ہم نے یہ روایت جو بسند حسن منقول ہے اس کو نقل کیا تھا‪:‬‬

‫رسول ص نے امیر المؤمنین‪ ،‬سیدہ زھرا‪ ،‬امام حسن ع اور امام حسین ع کو مخاطب کرکے کہا‬
‫میری جنگ ان سے جن سے تم جنگ کرو اور میری صلح ان سے جن سے تمہاری صلح‬
‫اس کے بارے میں محترم نے جواب دیا‪:‬‬

‫رف نظر کرتا ھوں پہر کبھی‪ ،‬اس کا متن ھی آپ کے‬


‫ص ِ‬‫(فخر‪،1‬اس کی سند پر بحث سے فی الحال َ‬
‫دعوی کے مطابق نھیں‪ ،‬الٹا یہ حدیث کوفی شیعوں پر ‪ %110‬فٹ آتی ھے نہ کہ معاویہ رض پر‪.‬‬
‫ٰ‬
‫‪ ، 2‬متن میں بھی ان حضرات سے لڑنے کا ذکر ھے اور آپ خود مان چکے ھیں کہ جنگ سیدنا‬
‫معاویہ رض نے نھیں سیدنا علی رض نے صفین میں لشکر ال کر کی تھی‪ ،‬معاویہ رض تو صرف‬
‫دفاع کررھے تھے‪ ،‬تو یہ روایت یھاں فٹ نھیں ھو سکتی)‬

‫جواب‪ :‬میاں آپ کے دعوی کو کون سنتا ہے۔۔ کوفی شیعوں پر منطبق ہوتی ہے یا نہیں۔۔ اس پر اول‬
‫ہماری بحث نہیں اور مجرد دعوی تو قابل مسموع بھی نہیں۔ جن حضرات نے اہلبیت ع سے جنگ‬
‫کی چاہے وہ مزعوم کوفی شیعی (بقول آپ کے) ہی کیوں نہ ہو ہم ان پر بیشمار لعنت کرتے ہیں تو‬
‫کیا آپ میں اتنی جرات ہے کہ آپ بھی لعنت کریں تمام محاربین پر؟‬

‫معاویہ دفاع نہیں بلکہ اس سے ماقبل نقل کرچکا ہوں کہ معاویہ نے امیر المؤمنین ع سے اپنی‬
‫حرکتوں کی وجہ سے جنگ کی ہے اور آپ کا حدیث کی تحریف کرنا بھی مثالی ہے۔ کیونکہ ادھر‬
‫مطلق جنگ کرنا مراد ہے یہ نہیں کہ جنگ کو شروع کرنے واال مراد ہے اور دفاع کرنے والے پر‬
‫نکیر نہیں۔۔ ادھر مطلق جنگ کی بات ہے۔ اگر آپ کی اس تحریف شدہ معنی کو مانیں تو رسول ص‬
‫نے کتنی جگہ ابتدائی جنگ کفار کے مقابلہ پر کی ہے تو ادھر بھی کیا یہ کہا جائے گا کہ کفار تو‬
‫دفاع کررہے تھے اور جو نصوص رسول ص سے جنگ کی مذمت میں آئیں ہیں وہ ان پر منطبق‬
‫نہیں ہوں گی تو سوچیں کہ کتنی بڑی جرات ہوگی۔ اس روایت پر کالم ابھی تک آپ کی طرف سے‬
‫نہ سندا ہوا ہے اور متنا تو جان چھڑانے کے لئے جو کیا اس کا جواب دے دیا گیا‪ ،‬اگلی بار کافی‬
‫شافی کالم ضروری ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ٧‬معاویہ کا امیر المؤمنین ع سے جنگ کرنا‪ ،‬رسول ص کی بشارت تصویب‪ ،‬بغاوت معاویہ پر‬
‫کالم۔‬

‫اس پر محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬الحمد ہلل آپ نے یہ تو مانا کہ جنگ معاویہ رض نے نھیں بلکہ سیدنا علی رض نے کی تھی‪.‬‬
‫یہ بات اپنی جاھل عوام کو بھی سمجھادیں جو صبح شام یہ کھتے ھیں کہ "معاویہ نے جنگ کی"‪.‬‬
‫‪ ،2‬یہ بھی آپ دالئل سے بتا دیتے کہ معاویہ رض کی کس بات پر سیدنا علی رض کو کوفہ سے شام‬
‫کی طرف اتنا لشکر لے جاکر اتنے لوگ شھید کروانے کی ضرورت پیش آئی؟‬
‫(یہ شیعوں کے انداز میں سوال ھے نہ کہ اھل السنت کے انداز میں ‪ ،‬کیونکہ شیعہ یہ کھتے ھیں کہ‬
‫معاویہ نے اتنے مسلمان مروا دیے)‪.‬‬
‫‪ ،3‬با غی پر جب بحث ھوگی تو ھم بتائیں گے کہ باغی کس کے لشکر میں تھے‪.‬‬
‫فی الحال اپنے دل کا بغض ظاھر کرنے کے بجائے اصل نقطے پر بولیں‪.‬‬
‫‪ ، 4‬یہاں معاویہ رض کے خالف جنگ کو ثواب لکھ دیا اور آگے سیدنا حسن رض کو اس ثواب سے‬
‫محروم کردیا اور اس ثواب یعنی معاویہ رض سے جنگ کو فتنہ لکھ دیا)‬

‫جواب‪ :‬محترم فخر الزماں یہاں آپ نے زبردستی اپنے الفاظ میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے‬
‫اور اس کا فائدہ یقینا آپ کو نہیں۔۔۔ جنگ معاویہ کی حرکتوں کی وجہ سے شروع ہوئی تو اس جنگ‬
‫کو کرنے واال معاویہ ہی تھا ورنہ امیر المؤمنین ع نے معاویہ کو خطوط لکھے اس کو سمجھانے‬
‫کی کوشش کی لیکن معاویہ کی عقل میں کوئی بات نہیں آئی تو اس کے بعد مجبورا امیر المؤمنین ع‬
‫نے جنگ کی۔۔ ہم کہتے ہیں کہ اس جنگ کا محرک معاویہ بنا اور اس وجہ سے وہ جنگ واقع ہوئی۔‬

‫اب دالئل خود پوچھ رہے ہیں تو چلے میں بتادیتا ہوں۔۔ جنگ جمل‪ ،‬جنگ صفین اور جنگ نہروان یہ‬
‫تینوں رسول ہللا ص کی پیشنگوئیوں میں سے ایک ہے اور اس میں رسول ہللا ص نے امیر المؤمنین‬
‫ع کی مستقبل میں ہونے والی جنگوں کی تصویب بھی کی (یعنی اس میں امیر المؤمنین ع کو حق کا‬
‫علمبردار کا سرٹیفیکٹ دیا) بلکہ اس جنگ کو رسول ص کا اپنا کفار سے جنگوں کے مشابہ قرار‬
‫دیا۔ چنانچہ یہ دلیل کافی ہے۔‬

‫روایت مالحظہ ہو‬

‫س ِعی ٍد‬‫ع ْن أ َ ِبي َ‬‫ع ْن أ َ ِبی ِه‪َ ،‬‬


‫ع ْن إِ ْس َما ِعی َل ب ِْن َر َجاءٍ ‪َ ،‬‬ ‫ع ِن ْاْل َ ْع َم ِش‪َ ،‬‬ ‫یر‪َ ،‬‬ ‫عثْ َمانُ ‪َ ،‬حدهثَنَا َج ِر ٌ‬
‫‪َ - 1086‬حدهثَنَا ُ‬
‫آن َك َما‬ ‫علَى ت َأ ْ ِوی ِل ْالقُ ْر ِ‬
‫سله َم یَقُولُ‪ِ « :‬إ هن ِم ْنكُ ْم َم ْن یُقَاتِ ُل َ‬‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلهى ہللاُ َ‬ ‫س ِم ْعتُ َرسُو َل ه ِ‬
‫َّللا َ‬ ‫ي ِ قَالَ‪َ :‬‬‫ْال ُخد ِْر ّ‬
‫َّللا؟ قَالَ‪َ « :‬ال»‪ ،‬قَا َل عُ َم ُر‪ :‬أَنَا ھ َُو یَا َرسُو َل ه ِ‬
‫َّللا؟ قَالَ‪:‬‬ ‫علَى ت َ ْن ِزی ِل ِه»‪ ،‬فَقَا َل أَبُو بَ ْك ٍر‪ :‬أَنَا ھ َُو َیا َرسُو َل ه ِ‬‫قَات َْلتُ َ‬
‫ع ِلیًّا نَ ْعلَهُ َی ْخ ِ‬
‫صفُ َھا‬ ‫طى َ‬ ‫ف النه ْع ِل»‪َ ،‬و َكانَ أ َ ْع َ‬ ‫« َال‪َ ،‬ولَ ِكنههُ خ ِ‬
‫َاص ُ‬

‫ابو سعید خدری نے رسول ص سے سنا کہ وہ کہتے کہ تم میں سے ایک تاویل قرآن پر جنگ کرے‬
‫گا جس طرح میں نے تنزیل قرآن پر جنگ کی تو ابوبکر نے کہا کیا میں وہ ہوں اے ہللا کے رسول؟‬
‫رسول ص نے ک ہا نہیں‪ ،‬عمر نے کہا کیا میں وہ ہوں ہللا کے رسول؟ تو رسول ص نے کہا نہیں لیکن‬
‫وہ جو چپل کو پیوند لگانے واال ہے وہ کرے گا۔ جب کہ رسول ص نے اپنی نعل مبارک امیر‬
‫المؤمنین ع کو پیوند کاری کے لئے دی تھی‬

‫حوالہ‪ :‬مسند ابی یعلی‪ ،‬جلد ‪ ٢‬ص ‪ ٣٤١‬رقم ‪١٠٨٦‬‬

‫محقق حسین سلیم اسد نے روایت کی سند کو صحیح کہا ہے۔‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12520/page-1091‬‬

‫اسی طرح البانی نے بھی سلسلة اْلحادیث الصحیحة وشيء من فقھھا وفوائدھا جلد ‪ ٥‬ص ‪ ٦٣٩‬رقم‬
‫‪ ٢٤٨٧‬میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے‬
‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9442#page-3499‬‬

‫تبصرہ‪ :‬یہ روایت کافی ہے اس بات کے ثبوت میں کہ امیر المؤمین حق پر تھے اور ان کے پاس‬
‫رسول ص کی نص اور معاویہ کے قبیح عمل دونوں دلیل تھے جنگ کے لئے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫مشکوتہ میں فرماتے‬


‫ٰ‬ ‫اب باغی کون تھا اس کی بھی وضاحت کردی جائے‪ ،‬مال علی قاری اپنی شرح‬
‫ہے‪:‬‬

‫سیُ ْقتَلُ‪َ ،‬وثَانِی َھا‪ :‬أَنههُ َم ْ‬


‫ظلُو ٌم‪َ ،‬وثَا ِلث ُ َھا‪ :‬أ َ هن قَاتِلَهُ‬ ‫ث‪ :‬إِحْ دَاھَا‪ :‬أَنههُ َ‬ ‫اص ُل أ َ هن َھذَا ْال َحد َ‬
‫ِیث فِی ِه ُم ْع ِجزَ اتٌ ث َ َال ٌ‬ ‫َو ْال َح ِ‬
‫صد ٌْق َو َح ٌّق‬ ‫َباغٍ ِمنَ ْالبُغَا ِة‪َ ،‬و ْالكُ ُّل ِ‬

‫رسول ص کی اس حدیث میں تین معجزات ہیں پہال‪ ،‬کہ عمار بتحقیق قتل کیا جائے گا‪ ،‬دوسرا‪ ،‬عمار‬
‫مظلوم ہوگا اور تیسرا کہ عمار کا قاتل باغیوں میں سے ایک باغی ہوگا اور یہ تینوں باتیں سچی اور‬
‫حق ہیں‬

‫پھر اگے ایک عالم کی باطل تاویل کا رد کرتے ہوئے کہتے ہے‪:‬‬

‫ب ْال ِخ َالفَ ِة ْال ُم ِنیفَ ِة‪،‬‬ ‫ع ِت ِه الْ َخ ِلیفَةَ‪َ ،‬و َیتْ ُركَ ْال ُمخَالَفَةَ َو َ‬
‫طلَ َ‬ ‫طا َ‬ ‫علَ ْی ِه أ َ ْن َی ْر ِج َع َ‬
‫ع ْن َب ْغ ِی ِه ِبإ ِ َ‬ ‫ب َ‬ ‫قُ ْلتُ ‪َ :‬فإِذَا َكانَ ْال َو ِ‬
‫اج ُ‬
‫س ِت ّ ًرا ِبدَ ِم عُثْ َمانَ ُم َرا ِعیًا ُم َرائِیًا‬‫الظا ِھ ِر ُمت َ َ‬ ‫اط ِن بَا ِغیًا‪َ ،‬وفِي ه‬ ‫فَتَبَیهنَ ِب َھذَا أَنههُ َكانَ فِي ْالبَ ِ‬

‫میں کہتا ہوں (یعنی مال علی قاری الحنفی) کہ معاویہ کے لئے واجب تھا کہ وہ اپنی بغاوت سے‬
‫رجوع کرکے خلیفہ (یعنی امیر ع از ناقل) کی اطاعت کرتا‪ ،‬اور اپنی مخالفت اور خالفت کے‬
‫حصول کو ختم کرتا‪ ،‬چنانچہ اس سے ظاہر ہوا کہ معاویہ باط میں باغی تھا اور ظاہر میں (اپنے‬
‫باطن کو) چھپاتے ہوئے عثمان کے خون کا بدلہ دیکھا رہا تھا‪ ،‬چنانچہ یہ حدیث (جو عمار کو باغی‬
‫گروہ قتل کرے گا)‬

‫مشکوتہ‪ ،‬جلد ‪ ٩‬تحت رقم حدیث ‪٥٨٧٨‬‬


‫ٰ‬ ‫حوالہ‪ :‬مرقات شرح‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-8176#page-8188‬‬

‫بدر الدین عینی حنفی اپنی شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫عنهُ‪َ ،‬و ُمعَا ِویَة ِك َالھُ َما َكانَا مجتھدین‪ ،‬غَایَة َما فِي ْالبَاب أَن ُمعَا ِویَة‬ ‫ضي ہللا تَعَالَى َ‬ ‫ي‪َ ،‬ر ِ‬
‫عل ّ‬‫كر َمانِي‪َ :‬‬‫َوقَا َل ْال ْ‬
‫یف یُقَال‪َ :‬كانَ ُم َعا ِو َیة مخطئا ً ِفي اجْ ِت َھادہ‪ ،‬فَ َما َكانَ الده ِلیل ِفي‬
‫َكانَ مخطئا ً ِفي اجْ ِت َھادہ َونَحْ وہ‪ .‬ا ْنتھى‪ .‬قلت‪َ :‬ك َ‬
‫اجْ تِ َھادہ؟ َوقد بلغه ال َحدِیث الهذِي قَا َل َویْح ابْن سمیهة تقتله الفئة الباغیة‪َ ،‬وابْن سمیهة ھ َُو عمار بن یَاسر‪َ ،‬وقد‬
‫عن َح ْمزَ ة بن‬ ‫ي َ‬ ‫الز ْھ ِر ّ‬
‫احد؟ وروى ُّ‬ ‫س َواء َحتهى یكون لَهُ أجر َو ِ‬ ‫قَتله فِئ َة ُمعَا ِویَة‪ ،‬أَفال یرضى ُمعَا ِویَة َ‬
‫س َواء بِ َ‬
‫يء َما وجدت أ َ ِنّي لم أقَاتل َھذِہ الفئة الباغیة َك َما‬ ‫عن أَبِیه قَالَ‪َ :‬ما وجدت فِي نَفسِي من َ‬
‫ش ْ‬ ‫ع ْمرو َ‬
‫عبد ہللا بن َ‬
‫أَمرنِي ہللا‬

‫کرمانی کہتے ہے کہ ع لی رض اور معاویہ دونوں مجتہد تھے اور زیادہ سے زیادہ اس موضوع پر‬
‫یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ اپنے اجتہاد میں غلطی پر تھے اور ان جیسے۔ (قول ختم ہوا) میں‬
‫(عینی الحنفی) کہتا ہوں کہ معاویہ کس طرح اپنے اجتہاد میں خظا کار ہوسکتا ہے جب کہ (سوال یہ‬
‫ہونا چاہیے کہ) اس کے اجتہاد کی دلیل کیا ہے؟ اور بال شبہ معاویہ کے پاس یہ حدیث پہنچی تھی کہ‬
‫جس می تھا کہ ابن سمیہ پر رحمت ہو کہ اس کو باغی گروہ قتل کرے گا‪ ،‬اور ابن سمیہ سے مراد‬
‫عمار بن یاسر ہے‪ ،‬اور اس کو معاویہ کے گروپ نے قتل کیا تو کیا معاویہ اس پر کفایت نہیں کرے‬
‫کہ وہ بچ جائے چہ جائیکہ ایک اجر کا وہ مستحق ہو؟ اور زھر ی نے حمزہ بن عبدہللا بن عمرو سے‬
‫اور اس نے اپنے والد سے روایت کی کہ میرے دل میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کھڑکی کہ‬
‫میں اس باغی گروہ سے جنگ کرتا جیسے کہ ہللا کا حکم ہے‬

‫حوالہ‪ :‬عمدتہ القاری‪ ،‬جلد ‪ ٢٤‬ص ‪١٩٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-5756#page-7310‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫عالمہ نیشاپوری اپنی تفسیر میں رقم طراز ہے‪:‬‬

‫واتفقوا على أن معاویة ومن تابعه كانوا باغین للحدیث المشھور «إن عمارا تقتله الفئة الباغیة»‬

‫اور اس بات پر اتفاق ہے کہ معاویہ اور اس کے پیروی کرنے والے باغی تھے اس حدیث کے تحت‬
‫کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔‬

‫حوالہ‪ :‬غرائب القرآن ورغائب الفرقان جلد ‪ ٦‬ص ‪١٦٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-23613#page-3291‬‬

‫امیر صنعانی اپنی شرح جامع صغیر میں کہتے ہے‪:‬‬

‫(تقتله الفئة الباغیة) ھو معاویة وأصحابه‬

‫باغی گروہ سے مراد معاویہ اور اس کے ساتھی ہیں۔‬

‫یر جلد ‪ ١١‬ص ‪٤٣‬‬


‫ص ِغ ِ‬
‫امع ال ه‬ ‫حوالہ‪ :‬الت ه ُ‬
‫نویر ش َْر ُح ال َج ِ‬
‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-122096#page-6120‬‬

‫نواب صدیق حسن خان بھوپالی فرماتے ہے‪:‬‬

‫وأما أھل صفین فبغیھم ظاھر لو لم یكن في ذلك إال قوله صلى ہللا علیه وسلم لعمار‪" :‬تقتلك الفئة الباغیة"‬
‫لكان ذلك مفیدا للمطلوب ثم لیس معاویة ممن یصلح لمعارضة علي ولكنه أراد طلب الریاسة والدنیا بین‬
‫قوم أغتام‪ 1‬ال یعرفون معروفا وال ینكرون منكرا فخادعھم بأنه طلب بدم عثمان فنفق ذلك علیھم وبذلوا‬
‫بین یدیه دمائھم وأموالھم ونصحوا له حتى كان یقول علي ْلھل العراق أنه یود أن یصرف العشرة منھم‬
‫بواحد من أھل الشام صرف الدراھم بالدینار ولیس العجب من مثل عوام الشام إنما العجب ممن له بصیرة‬
‫ودین كبعض الصحابة المائلین إلیه وبعض فضالء التابعین فلیت شعري أي أمر اشتبه علیھم في ذلك‬
‫علَى ْاْل ُ ْخ َرى‬ ‫اْلمر حتى نصروا المبطلین وخذلوا المحقین وقد سمعوا قول ہللا تعالى‪{ :‬فَإ ِ ْن بَغ ْ‬
‫َت ِإحْ دَاھُ َما َ‬
‫َّللا} وسمعوا اْلحادیث المتواترة في تحریم عصیان اْلئمة ما لم‬ ‫فَقَاتِلُوا الهتِي تَب ِْغي َحتهى ت َ ِفي َء إِلَى أ َ ْم ِر ه ِ‬
‫یروا كفرا بواحا وسمعوا قول النبي صلى ہللا علیه وسلم لعمار‪" :‬أنه تقتله الفئة الباغیة" ولوال عظیم قدر‬
‫الصحابة ورفیع فضل خیر القرون لقلت‪ :‬حب الشرف والمال قد فتن سلف ھذہ اْلئمة كما فتن خلفھا‬
‫اللھم‪ 1‬غفرا ثم اعلم أنه قد جاء القرآن والسنة بتسمیة من قاتل المحقین باغیا كما في اآلیة المتقدمة وحدیث‬
‫عمار بن یاسر المتقدم فالباغي مؤمن یخرج عن طاعة اْلمام التي أوجبھا ہللا تعالى على عبادہ‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اور اہل صفین کی بغاوت تو واضح ہے اور اگر اس پر رسول ص کا ایک قول کے عالوہ کوئی اور‬
‫نہ بھی ہوتا تو وہ ان کی بغاوت کے اثبات میں کافی ہے اور وہ قول نبی عمار کے لئے‪ :‬اے عمار‬
‫تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔ اور معاویہ کے لئے تو امیر المؤمنین علی ع کی مخالفت کرنا بھی‬
‫صحیح نہیں تھا لیکن معاویہ حکومت اور دنیا کو چاہتا تھا اور اس کے پاس ایسے افراد تھے جو نہ‬
‫اچھائی کو جانتے تھے اور نہ برائی سے منع کرتے تھے۔ تو معاویہ نے ان حضرات کو دھوکہ دیا‬
‫خون عثمان کے بدلہ کے عنوان سے تو معاویہ نے یوں ان کے سامنے منافقت کی اور انہوں نے‬
‫اپنے مال اور جانوں اور زبانوں سے معاویہ کی مدد کی یہاں تک کہ امیر المؤمنین علی کہتے تھے‬
‫کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان کا ایک سپاہی کے بدلہ اپنے دس دے دوں اور یہ چیز شام کی عوام‬
‫سے بعید ہیں بلکہ تعجب تو ان اشخاص پر ہے جن میں بعض صحابہ اور بڑے تابعین ہیں جو معاویہ‬
‫کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے اور صاحب دین اور بصیرت تھے۔۔ پاس اہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ‬
‫کیا چیز ان حضرات پر مشتبہ تھی کہ انہوں نے باطل کا ساتھ دیا اور اہل حق کو ترک کیا درحاآلنکہ‬
‫علَى ْاْل ُ ْخ َرى فَقَاتِلُوا الهتِي تَب ِْغي َحتهى ت َ ِفي َء ِإلَى أ َ ْم ِر ه ِ‬
‫َّللا}‬ ‫یہ قول خدا سن چکے تھے {فَإ ِ ْن َبغ ْ‬
‫َت ِإحْ دَاھُ َما َ‬
‫اور احادیث متواترہ کو بھی سن چکے تھے جو آئمہ (ادھر بمعنی حکمران) جن سے واضح کفر‬
‫صادر نہ ہو کی نافرمانی کی حرمت پر داللت کرتیں ہیں۔ اور وہ رسول ص کا یہ قول بھی سن چکے‬
‫تھے جو عمار کو کہا کہ بتحقیق عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا اور اگر صحابہ کی عظیم منزلت‬
‫اور خیر القرون کی بلند فضیلت نہ ہوتی تو میں یہ کہتا کہ عزت اور مال کی محبت نے اس امت کے‬
‫پچھلوں (یعنی سلف امت) کو امتحان میں ڈاال جس طرح ما بعد والو کو بھی اے ہللا بخش دے اور‬
‫مزید جان لو کہ قرآن اور سنت میں جن لوگوں نے اہل حق کے ساتھ جنگ کی انہیں باغی قرار دیا‬
‫گیا ہے جیسے کہ آیت کریمہ اور حدیث عمار میں دیکھایا جاچکا ہے پاس باغی مومن ہے جو امام‬
‫حق کی اطاعت جس کو خدا نے اپنے بندوں پر اطاعت کو واجب قرار دیا خارج ہوجائے۔‬

‫حوالہ‪ :‬الروضة الندیة شرح الدرر البھیة جلد ‪ ٢‬ص ‪٣٦١-٣٦٠‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-7444#page-706‬‬

‫سعودیہ کے سابق مفتی اعظم ابن باز کہتے ہے‪:‬‬

‫والباغون في عھد الصحابة معاویة وأصحابه والمعتدلة علي وأصحابه فبھذا نصرھم أعیان الصحابة‬
‫نصروا علیا وصاروا معه كما ھو معلوم‬

‫صحابہ کے دور میں باغی معاویہ اور اس کے ساتھی تھے اور معتدل راہ پر چلے والنے علی اور‬
‫ان کے ساتھی تھی‪ ،‬چنانچہ اس وجہ سے بڑے بڑے صحابہ نے علی کی مدد کی اور علی کے ساتھ‬
‫تھے جیسے کہ ثابت ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬مجموع فتاوى العالمة عبد العزیز بن باز رحمه ہللا جلد ‪ ٦‬ص ‪٨٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-21537#page-2611‬‬

‫تبصرہ‪ :‬یہ پانچ حوالے امید ہے کافی شافی ہوں گے اس بیان میں کہ حق پر کون تھا‪ ،‬باطل پر کون‬
‫تھا۔ اور ساتھ ساتھ باغی کون تھا۔ چلیں ہمیں چھوڑئے آپ ہی بتادیں باغیوں سے قتل کا حکم کیا ہے؟‬

‫باقی امام حسن ع کے متعلق کہنا کہ انہوں نے جنگ نہ کی تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کے‬
‫لئے نکلے تھے اور یہ مسلمات تاریخ میں سے ہے لیکن ان کے اپنے ساتھیوں کی دغا اور جہاد کو‬
‫نہ کرنے کی وجہ سے امام حسن ع نے صلح کی۔ جب شرط جہاد ہوکر باغیوں سے جہاد نہ کیا‬
‫جائے تو بیشک پھر سوال ہوسکتا ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،٨‬سنن ابن ماجہ کی روایت‬

‫ناظرین ہم نے ایک روایت پیش کی تھی جس میں معاویہ کا آنا موجود ہے حج کے موقع پر (ادھر‬
‫تسامحا شروع میں غلط ترجمہ ہوا) اس میں یہ الفاظ روایت ہے‪:‬‬

‫معاویہ سعد کے ہاں مالقات کے لئے آیا‪ ،‬اور امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر المؤمنین ع کی‬
‫تنقیص کی جس کے بعد سعد بن ابی وقاص غضباک ہوگئے (غصہ میں آگئے) اور پھر رسول ص‬
‫کی زبانی تین فضائل امیر ع کا ذکر کیا یعنی ‪ ،١‬حدیث من کنت موالہ ‪ ،٢‬حدیث منزلت ‪ ،٣‬حدیث‬
‫خیبر (ملخص)‬
‫پھر ہم نے بتایا کہ نال منہ کے جو الفاظ روایت میں استعمال ہوئے ہیں اس کا معنی کسی کا ذکر بد یا‬
‫برائی کرنا ہے یا تنقیص کرنا ہے۔‬

‫محترم نے اس پر فرمایا‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬پہر آگے آپ کا یہ لکھنا کہ "معاویہ تنقیص کا حکم دیتا تھا اور دوسروں کو کھنے پر یہ الفاظ‬
‫مستدل ھیں قدم معاویہ‪"...‬‬
‫آپ کے اس بات کی بنیاد ھی غلط ترجمے پر ھے‪ ،‬تصحیح کرلیں اور اپنے غلط استدالل سے ھاتھ‬
‫اٹھائیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬نال منہ کے آپ نے جو معنی بھی لکھی ھیں ان سے مراد گالی تو پہر بھی ثابت نھیں ھوتی‪ ،‬آپ‬
‫نے بھی ترجمہ "تنقیص" ھی کیا ھے‪ ،‬اور تنقیص سے خاص گالی مراد لینا غلط ھے‪.‬‬
‫اگر اس پر آپ سعد رض کی ناراضگی کو دلیل بنانے کی کوشش کررھے ھیں تو سوال یہ ھے کہ‬
‫کیا صرف گالی دینے پر ھی غصہ آتا ھے؟ نھیں تو پہر آپ کا مزعومہ استدالل باطل ھوا‪.‬‬
‫شاید معاویہ رض نے یہ کھا ھو کہ علی رض نے قاتلین عثمان جیسے باغیوں کا ساتھ دیا اور غلط‬
‫کیا‪ ،‬اس بات پر سعد رض کو غصہ آیا ھو؟‬
‫کیونکہ معاویہ رض کا موقف یھی تھا کہ قاتلین عثمان سے قصاص لیا جائے جو سیدنا علی رض نہ‬
‫لے سکے‪.‬‬
‫تو گالی دینا تو ثابت نھیں ھوتا‪.‬‬
‫‪ ، 4‬کیا کسی سے اختالف رائے رکھنا بغض کھالتا ھے جو بار بار آپ بغض علی کھہ کر اپنا بغض‬
‫معاویہ ظاھر کررھے ھو)‬

‫جواب‪:‬‬
‫آئے سنن ابن ماجہ کی اس روایت کے بارے میں ان کے عالم کا ہی اعتراف دیکھا دیتے ہیں‬

‫سندی اس کی شرح میں لکھتے ہے‪:‬‬

‫سبههُ بَ ْل أ َ َم َر َ‬
‫س ْعدًا بِالسهبّ ِ َك َما‪ :‬قِی َل فِي ُم ْس ِل ٍم‬ ‫ي ٍ َو َوقَ َع فِی ِه َو َ‬
‫ع ِل ّ‬ ‫قَ ْولُهُ‪( :‬فَنَا َل ِم ْنهُ) أ َ ْ‬
‫ي نَا َل ُمعَا ِویَةُ ِم ْن َ‬
‫َوال ِت ّ ْر ِمذ ّ‬
‫ِي ِ‬

‫روایت کا جملہ فنال منہ یعنی معاویہ نے علی کی تنقیص کی اور امیر المؤمنین کو برا کہا اور ان پر‬
‫سب کیا بلکہ سعد کو بھی اس سب کا حکم دیا جیسے کہ مسلم اور ترمذی میں ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬كفایة الحاجة في شرح سنن ابن ماجه جلد ‪ ١‬ص ‪٥٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9810#page-164‬‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫مزید یہ کہ محترم تنقیص کے معاملہ کو بہت سہل لینا چاہتے ہیں کہ تنقیص گالی نہیں اور سعد کا‬
‫غضبناک ہونا گالی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے بھی ہوسکتا ہے تو ہم جواب میں‬
‫کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو اپنے بڑے عالم کا فتوی دیکھ لیں جس کو نقل کرکے شیعوں کے‬
‫خالف ورغالیا بھی جاتا ہے‪:‬‬

‫َّللا صلّى ه‬
‫َّللا علیه وسلم فاعلم‬ ‫الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول ه‬
‫ازي‪ :‬إذا رأیت ّ‬
‫الر ّ‬
‫قال أبو زرعة ّ‬
‫أنه زندیق‬

‫ترجمہ‪ :‬ابوزرعہ رازی کہتے ہے کہ جب تم دیکھو کہ کوئی کسی بھی رسول ہللا ص کے صحابی‬
‫کی تنقیص کررہا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے‬

‫حوالہ‪ :‬اْلصابة في تمییز الصحابة جلد ‪ ١‬ص ‪٢٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9767#page-16‬‬

‫تو محترم اگر تنقیص کوئی معمولی بات ہوتی تو پھر فتوی زندیقیت کیوں؟ کیا اس فتوی کا اطالق نال‬
‫منہ کے الفاظ کے تحت معاویہ پر نہیں ہوگا؟ اور اگر صرف معمولی پالیسی سے اختالف باعث ذم‬
‫نہیں ہوسکتی بقول آپ کے تو پھر یہ معمولی بات سعد بن ابی وقاص کو کیوں سمجھ نہ آئی اور وہ‬
‫غضباک کیوں ہوگئے؟ یقینا معاویہ نے تنقیص امیر ع اس طرح سے کی ہوگی کہ جو گستاخی کے‬
‫ضمرے میں آئی اور جب ہی سعد غضبناک ہوئے ورنہ اختالف آراء تو اصحاب رسول میں کتنی‬
‫ساری جگہ ہیں۔۔ خود سعد بن ابی وقاص امیر ع کے ساتھ اختالف رائے کی وجہ سے امیر ع کے‬
‫دوش بدوش مخالفین کے خالف لڑے نہیں تو کیا معمولی رائے کے اختالف سے غضباک اس طرح‬
‫ہوا جاتا ہے؟‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،٩‬تاریخ ابن عساکر کی روایت‬

‫ناظرین ہم نے معاویہ کا امیر المؤمنین ع کو برا کہنے پر ایک مزید روایت نقل کی جو یوں تھی‪:‬‬

‫جب معاویہ گارغ ہوگیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کے لے کر دار الندوہ میں داخل ہوا اور سعد بن ابی‬
‫وقاص کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور پھر معاویہ نے امیر المؤمنین ع کا ذکر کیا اور امیر‬
‫المؤمنین ع کی تنقیص کی تو سعد نے طور احتجاج کہا کہ تم مجھے ہاں الئے اور اپنے پلنگ پر‬
‫صرف اس وجہ سے بٹھایا کہ تم امیر المومنین ع پر شتم کرو۔۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس وہ تین‬
‫فضائل ہوتے جو علی ع کے پاس ہیں وہ مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہوتے جس پر‬
‫سورج چمکتا ہے اور پھر ‪ ،١‬حدیث مزنلت ‪ ،٢‬حدیث خیبر ‪ ،٣‬سیدہ فاطمہ ع کا شوہر ہونا کہا ہے۔۔‬
‫(آخر میں سعد فرماتے ہے) اے معاویہ میں آج کے بعد تیرے پاس کبھی نہیں آؤں گا اور پھر چلے‬
‫گئے (ملخص فقط)‬
‫اس کے جواب میں محترم نے ابن اسحاق پر تشیع کی جراح کہہ کر بدعتی والے قاعدے سے نقض‬
‫پیش کی ا تھا جس کے جواب میں‪ ،‬میں نے ثابت کیا تھا کہ ابن اسحاق ان کے ہاں ‪ ،١‬امام المغازی ‪،٢‬‬
‫امیر المحدثین ‪ ، ٣‬جمہور کے ہاں ثقہ ہے‪ ،‬اور تشیع جس معنی میں ہے اس سے روایت اگر بدعتی‬
‫قاعدہ کو مان بھی لیا جائے تو فرق نہیں آئے گا‪ ،‬اس پر محترم کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬پہر آگے جناب نے فالتو کی بحث چھیڑ دی کہ‬


‫⏪شیعت جرح نھیں‪،‬‬
‫⏪محمد بن اسحاق امام المغازی ھیں‪،‬‬
‫⏪امیر المحدثین ھیں‪،‬‬
‫⏪جمھور نے ان کی توثیق کی ھے وغیرہ‬

‫ان فالتو ابحاث کا میرے اعتراض سے کوئی واسطہ نھیں اس لیے میں ان باتوں میں اپنا وقت ضائع‬
‫نھیں کرونگا‪).‬‬

‫جواب‪ :‬محترم بالکل مح مد بن اسحاق کی اعلی پائے کی توثیق اور اس کو امام المغازی کہنا یا امیر‬
‫المحدثین کہنا اس کے بلند پایہ ہونے کی دلیل ہے۔ اور میرا سوال اس ضمن میں یہ ہے تھا کہ کیا‬
‫سنی رجال کے ایک امیر المحدثین اور امام المغازی ایک شیعی رافضی کافر ہوسکتا ہے؟ اس بندے‬
‫کے بارے میں کیا حکم ہے جو اس شیعہ ابن اسحاق کو کافر نہ سمجھے کیونکہ کافر کافر شیعہ کافر‬
‫اور جو نہ مانے وہ بھی کافر کا نعرہ تو آپ کی جماعت ہی کا ہے۔‬

‫پھر محترم نے تقریب التہذیب سے رمی بالتشیع کا ترجمہ کیا وہ شیعہ تھا۔۔ محترم ایک الزام ہوتا ہے‬
‫اور ایک قطع و جزم ہوتا ہے چنانچہ ادھر شیعہ نہیں کہا ہے بلکہ الزام تشیع کی بات کی ہے دونوں‬
‫میں فرق ہے۔ یہ اعتراض تو خیر رمی بالتشیع اور مجرد شیعی والے ترجمہ پر کیا گیا ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب اگر تشیع ہونا بذات خود دلیل قدح ہونا اور روایت مطعون ہوتی تو پھر نسائی کو بھی تشیع سے‬
‫نسبت دی گئی ہے تو کیا اس کی پوری خصائص امیر المؤمنین ع نامی رسالہ ماخوذہ کو بھی دریا‬
‫برد کردیا جائے کیونکہ ادھر بھی بدعتی واال قاعدہ استعمال ہوگا جب کہ علماء اہلسنت نے اس رسالہ‬
‫کو اجماال قبول کیا ہے اور اس کی احادیث کو استعمال کیا ہے۔‬

‫دیکھئے میں دو علماء اہلسنت کے اقوال دیتا ہوں‬

‫‪ ،١‬ابن تیمیہ کہتے ہے‪:‬‬

‫ع ْب ِد ْالبَ ِ ّر‬ ‫شیُّ َع أ َ ْمثَا ِل ِه ِم ْن أ َ ْھ ِل ْال ِع ْل ِم ِب ْال َحدِی ِ‬


‫ث َكالنه َسائِ ّ‬
‫يِ‪َ ،‬واب ِْن َ‬ ‫َوت َ َ‬
‫اور اہل علم میں سے جیسے نسائی اور ابن عبدالبر کی تشیع کی مثال۔۔۔الخ‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنة النبویة في نقض كالم الشیعة القدریة جلد ‪ ٧‬ص ‪٣٧٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-3674‬‬

‫‪ ،٢‬ابن خلکان کہتے ہے‪:‬‬

‫وكان یتشیع‬

‫نسائی میں تشیع تھی۔‬

‫حوالہ‪ :‬وفیات اْلعیان جلد ‪ ١‬ص ‪٧٧‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1000#page-71‬‬

‫خیر آپ کسی معنی میں بھی تشیع کہیں ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ مجرد تشیع‬
‫ہونا آپ کے ہاں اگر روایت کے مطروح کا سبب بن جائے تو پورا خصائص علی ع جیسا رسالہ بھی‬
‫ہاتھ سے جائے گا اور مجھے معلوم ہے آپ یہ نہیں ہونے دیں گے اگر واقعی احادیث سے محبت‬
‫کے دعویدار ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫پھر محترم فخر الزماں مزید کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ ، 1 :‬متقدمین کے نزدیک تشیع اور رفض میں فرق ھے اس کا انکار کس نے کیا جو آپ نے یہ‬
‫بحث چھیڑ دی؟‬
‫لیکن خیر طلب صاحب نے تشیع کی جو تعریف نقل کی ہے وہ ادھوری ہے‪.‬‬
‫یہ پڑھیں‬

‫التشیع في عرف المتقدمین ھو اعتقاد تفضیل علي ٍ على عثمان وأن علیا كان مصبیا في حروبه وأن‬
‫مخالفه مخطىء مع تقدیم الشیخین وتفضیلھما وربما اعتقد بعضھم أن علیا أفضل الخلق بعد رسول ہللا‬
‫صلى ہللا علیه و سلم‬
‫فتح المغیث ج ‪ ١‬ص ‪330‬‬

‫‪islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html‬‬

‫تو تشیع صرف سیدنا عثمان رض سے سیدنا علی رض کو افضل سمجھنے کا نھیں بلکہ سیدنا علی‬
‫رض کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد ساری مخلوق سے افضل ماننے کا نام بھی ھے‪.‬‬
‫‪ ، 2‬یہ حقیقت کس سے ڈھکی چھپی ھے کہ شیعہ مذھب میں تقیہ و کتمان‪ ،‬اپنا مذہب چھپانا دین کا‬
‫حصہ اور عبادت ھے؟‬
‫یہ بالکل ممکن ھے کہ کسی راوی نے اپنے باقی برے عقائد چھپائے ھوں صرف حب علی و‬
‫تفضیلیت ھی کو ظاھر کیا ھو‪.‬‬
‫تو شیعہ راوی سے یہ بات بعید نھیں‪،‬‬
‫اس لیے جس روایت میں شیعہ راوی ھوگا اور وہ روایت شیعہ مذھب کی تائید میں ھوگی تو وہ قابل‬
‫قبول نہیں ھوگی‪) .‬‬

‫جواب‪:‬محترم ادھر لفظ ربما آیا ہے جو عموما تقلیل پر داللت کرتا ہے اور نہ بھی کرے تو یہ ہمیشہ‬
‫کے معنی میں نہیں آتا کہ ہر وہ شخص جس کو نسبت تشیع ہو وہ امیر المؤمنین ع کو افضل الخلق‬
‫مانے کیونکہ ادھر ربما کے تحت اس کے دوام کی نفی کی گئی ہے تو اپ کا ظاہر فہم دوام باطل‬
‫ہے۔‬

‫مزید یہ کہ اس سے اس کی بدعت کی تقویت کہا ہوتی ہے یعنی تنقیص معاویہ تو مختلف ہے اور‬
‫امیر المؤمنین ع کو افضل الخلق رسول ص کے بعد سمجھنا الگ ہے۔ یعنی اس میں تالزم ثابت کرنا‬
‫آپ کا کام ہے۔‬

‫خود علی ع کو رسول ص کے بعد افضل الخلق کہنا خود حضرت جابر االنصاری کا عقیدہ ہے تو کیا‬
‫اس تعریف کے تحت ان کو بھی شیعہ کہا جائے گا؟‬

‫ابن حبان اپنی کتاب الثقات میں نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫حدثنا إبراھیم بن نصر العنبري ثنا یوسف بن عیسى ثنا الفضل بن موسى عن شریك عن عثمان بن أبى‬
‫زرعة عن سالم بن أبى الجعد قال سئل جابر بن عبد ہللا عن على فقال ذاك خیر البشر من شك فیه فقد‬
‫كفر‪.‬‬

‫جابر سے امیر المؤمنین ع کے متعلق پوچھا گیا تو جابر نے کہا وہ خیر البشر ہے اور جو اس میں‬
‫شک کرکےاس نے کفر کیا‬

‫حوالہ‪ :‬الثقات البن حبان جلد ‪ ٩‬ص ‪٢٨١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-5816#page-4087‬‬

‫اس روایت کی سند حد اقل حسن ہے اور اس کو دیگر طرق سے جابر سے نقل کیا گیا ہے چنانچہ‬
‫اپنی تعریف پر دوبارہ نظر ثانی کیجئے گا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫‪ ، ١٠‬بدعتی والے قاعدے کا بانی کون اور اس کا آپریشن‬

‫محترم فخر الزماں نے جابجا اس قاعدے کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے‪ ،‬آئے اس کا جواب‬
‫دیتے ہے‪ ،‬پہلے ان کا کالم نقل کردیں‬

‫(فخر‪ :‬جناب آپ نے میر ی بات کو سمجھے بغیر ھی جواب لکھ دیا کہ بدعتی داعی و غیر داعی کی‬
‫روایت مقبول ھے‪.‬‬
‫میں نے یہ بات کی ھی نھیں‪ ،‬میں نے تو یہ لکھا ہے کہ شیعہ راوی کی وہ روایت جو اس کے مذھب‬
‫کی تائید میں ھو وہ مقبول نھیں‪.‬‬
‫میری بات خاص اس روایت کے بارے میں ھے جو اس کے مذھب کی تائید میں ھو اور آپ نے جو‬
‫بات نقل کی ہے وہاں اس کے مذھب کی تائید والی روایت پر بات نھیں ھو رھی‪.‬‬
‫کہاں اس کی عام روایت اور کہاں اس کی مذہب کی تائید والی روایت‪.‬‬
‫فرق واضح ھے خلط ملط کرنے کی کوشش آپ کی یھاں نھیں چل سکتی‪.‬‬
‫‪ ،2‬میں نے نخبۃ الفکر کے حوالے سے اصول بتایا تھا کہ بدعتی کی وہ روایت مقبول نھیں جو اس‬
‫کے مذھب کی تائید میں ھو‪،‬‬
‫دوسرا حوالہ بھی دیکھ لیں اسی فتح المغیث سے آپ کے پیش کردہ حوالے کے ‪ 2‬صفحے آگے یہ‬
‫بحث ھے کہ‬

‫بدعتی روایت بیان کرنے میں اگر سچا ھو تو اس کی روایت لی جائے گی‬

‫إال أن یؤخذ من حدیثھم ما یعرف ولیس بمنكر إذا لم تقو به بدعتھم‬


‫فتح المغیث ج ‪ ١‬ص ‪331‬‬

‫‪islamport.com/d/1/mst/1/62/221.html‬‬

‫اگر اس کی روایت منکر نہ ھو‪ ،‬اس سے اپنی بدعت کو تقویت نہ دی گئی ھو تو قبول ھے‪.‬‬
‫تو ثابت ہوا کہ بدعتی کی وہ روایت مقبول ہے جو اس کے مذھب کی تائید میں نہ ھو‪.‬‬
‫اتنے صاف اور واضح اصول کی موجودگی میں آپ کی باتوں کا کوئی وزن نہیں)‬

‫جواب‪:‬‬
‫اس اشکال پر بہت زیادہ کالم کیا جاسکتا ہے لیکن میں خالصتہ ایک قول پیش کررہا ہوں۔۔ یاد رہے‬
‫کہ ہمارے پاس اس باب میں کافی اقوال ہیں جو اس قاعدہ کے ابطال کے لئے کافی ہے لیکن مناسب‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ ذھبی وقت عالمہ معلمی کا قول پیش کیا جائے‪ ،‬وہ رقم طراز ہے‪:‬‬

‫فالحكم به على المبتدع إن قامت الحجة على خالفة بثبوت عدالته وصدقه وأمانته فباطل‪،‬وإال وجب أن ال‬
‫یحتج بخبرہ البتة‪ ،‬سواء أوافق بدعته أم خالفھا‬
‫مبتدع (بدعتی) کی روایت کا ح کم یہ ہے کہ اگر اس کی عدالت‪ ،‬صدق اور امانت کے خالف دلیل‬
‫قائم ہوجائے تو اس کی روایت باطل ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو واجب ہے کہ اس کی روایت سے دلیل‬
‫پکڑی جائے مطلقا‪ ،‬چاہے وہ روایت اس کے بدعت کے موافق ہو یا مخالف۔‬

‫حوالہ‪ :‬التنكیل بما في تأنیب الكوثري من اْلباطیل جلد ‪ ١‬ص ‪٢٣٥‬۔‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12767#page-218‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اس سے پہلے وہ فرماچکے تھے‪:‬‬

‫ھذا وأول من نسب إلیه ھذا القول إبراھیم بن یعقوب الجوزجاني وكان ھو نفسه مبتدعا ً منحرفا ً عن أمیر‬
‫المؤمنین علي متشددا ً في الطعن على المتشیعین كما یأتي في القاعدة اآلتیة‪ ،‬ففي (فتح المغیث) ص‪،142‬‬
‫« بل قال شیخنا إنه قد نص ھذا القید في المسألة الحافظ أبو إسحاق إبراھیم بن یعقوب الجوزجاني شیخ‬
‫النسائي فقال في مقدمة كتابه في الجرح والتعدیل‪ :‬ومنھم زائغ عن الحق‪ ،‬وصدوق اللھجة‪ ،‬قد جرى في‬
‫الناس حدیثه‪ ،‬لكنه مخذول في بدعته‪ ،‬مأمون في روایته‪ ،‬فھؤالء لیس فیھم حیلة إال أن یؤخذ من حدیثھم‬
‫ما یعرف ولیس بمنكر إذا لم تقو به بدعتھم فیتھمونه بذلك» ‪.‬والجوزجاني فیه نصب‬

‫بدعتی کی روایت اس کے حق میں قبول ن ہیں ہوتی‪ ،‬سب سے پہال شخص جس سے یہ قول منقول ہے‬
‫وہ ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی ہے اور یہ شخص خود بدعتی اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب‬
‫سے منحرف تھا بالخصوص جن افراد میں تشیع تھا (شیعہ نہیں بلکہ تشیع تھا) ان پر یہ شدید طعن و‬
‫جرح کرتا تھا جیسا کہ قاعدہ آنے واال ہے‪ ،‬چناچنہ فتح المغیث ص ‪ ١٤٢‬میں درج ہے کہ ہمارے شیخ‬
‫نے یہ بات لکھی جوزجانی جو استاد نسائی تھے ان کے متعلق‪ ،‬چنانچہ جوزجانی نے اپنی کتاب‬
‫الجرح و التعدیل کے مقدمہ میں لکھا۔۔ اور ان میں سے کچھ حق سے دور ہیں‪ ،‬البتہ وہ فی نفسہ‬
‫راست گو ہیں‪ ،‬لوگ ان کی حدیثیں لیتے ہیں‪ ،‬لیکن وہ اپنی بدعت کی وجہ سے نقصان اٹھانے والے‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن روایت میں ثقہ ہیں‪ ،‬چنانچہ حل یہ ہے کہ ان کی وہ روایات لیں جائیں جو معروف ہوں‬
‫اور منکر نہ ہوں یعنی وہ جو ان کی بدعت کو تقویت نہ دیتی ہو جس کی وجہ سے ان پر جھوٹ کا‬
‫الزام لگے۔۔ اور جوزجانی میں امیر المؤمنین ع سے بغض تھا۔۔ الخ‬

‫حوالہ‪ :‬التنكیل بما في تأنیب الكوثري من اْلباطیل جلد ‪ ١‬ص ‪٢٣٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12767#page-215‬‬

‫اہم نکتہ‪ :‬محترم نے دو روایات سے استدالل کیا ہے جو حمیری کی قرب االسناد سے ماخوذ ہے‪ ،‬یاد‬
‫رہے کہ دونوں روایت کی سند میں ہارون بن مسلم بن سعدان ہے جو ثقہ راوی ہے لیکن غیر شیعی‬
‫ہے اور اس کا مذھب جبر اور تشبیہ پر مشتمل ہے جیسا کہ نجاشی نے کہا ہے۔ (رجال نجاشی ص‬
‫‪)٣٤٨‬‬
‫‪http://www.yasoob.com/books/htm1/m020/23/no2320.html‬‬

‫چناچنہ محترم فخر الزماں کے مطابق اصول یہ ہے کہ چونکہ بدعتی اگر اپنی بدعت کی موافق‬
‫روایت کرے تو وہ رد کی جائے گی تو کیا یہ اصول میں استعمال کروں‪ ،‬ذرا بتائے گا۔۔ محترم‬
‫فخرالزماں صاحب اگر آپ کے اس قاعدے کو مانیں تو پھر آپ کو بھی حق نہیں کہ وہ آپ وہ روایات‬
‫التے‪ ،‬لیکن انشاء ہللا اس کا جواب اپنے مقام پر دیا جائے گا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ١١‬معاویہ کی موجودگی میں امیر المومنین ع پر تبرا ہونا۔‬

‫ناظرین اس ضمن میں ہم نے ایک روایت نقل کی تھی جو یوں تھی‪:‬‬

‫روایت‪ :‬عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ میں سعید بن زید کو سنا کہ جب فالں شکص کوفہ آیا تو ایک‬
‫فالں خطبہ کے لئے کھڑا ہوا‪ ،‬پس سعید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا تم اس ظالم کو دیکھو میں‬
‫نو لوگوں کی گواہی دیتا ہوں۔۔ (ادھر فالں جو کوفہ میں آیا اس سے مراد معاویہ ہے اور جو خطبہ‬
‫کے لئے کھڑا ہوا وہ مغیرہ ہے)‬

‫اس میں واضح طور پر معاویہ کی موجودگی میں امیر المؤمنین ع کی تنقیص تھی اور اس کی مزید‬
‫توضیح مسند احمد کی روایت اور ایک عالم اہلسنت کا کالم نقل ہوا۔‬

‫محترم اس سے پہلے کہ میں اس اعتراض کا جواب دوں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا مقدمہ‬
‫عرض کردیا جائے کہ روایات میں کافی مرتبہ مختلف مواقع اور مواضع کا ذکر ہوتا ہے اور راوی‬
‫ایک ہوتا ہے۔‬

‫مثال کے طور پر حدیث منزلت لیجئے جو امیر المؤمنین ع کے حق میں ہے تو اس روایت کو‬
‫مختلف مواقع پر نقل کیا گیا ہے۔ محدثین اور مؤلفین نے اس کو مختلف مواقع کی مناسبت سے نقل‬
‫کیا ہے‬

‫اسی طرح سعید بن زید اور امیر المؤمنین ع کے سب سے روکنے والی بات مختلف مواقعوں پر کہی‬
‫گئی ہے۔ میرے مختصر تتبع کے تحت حصرا نہیں لیکن چار مشہور مواقع پر جب سعید بن زید نے‬
‫امیر المؤمنین ع پر سب کرنے کے موقع پر اس جنت والی روایت سے استدالل کیا ہے وہ درج ذیل‬
‫ہے‬

‫‪ ، ١‬جب خود ایک شخص سعید بن زید کے پاس آیا اور کہا کہ میں امیر المؤمنین ع سے بغض رکھتا‬
‫ہوں تو اس وقت یہ روایت سنائی گئی (فضائل صحابہ‪ ،‬از احمد بن حنبل‪ ،‬جلد ‪ ٢‬ص ‪ ٥٧٠‬رقم‬
‫‪٩٦٣‬ودیگر)‬
‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-13136#page-944‬‬

‫‪ ، ٢‬جب مغیرہ کے سامنے ایک شخص آیا اور اس نے امیر المومنین ع پر سب کیا تو سعید بن زید‬
‫نے مغیرہ کی خاموشی اور اس شخص کی جرات پر روایت سنائی (فضائل صحابہ‪ ،‬از احمد بن حنبل‬
‫جلد ‪ ١‬ص ‪ ٢٠٤‬رقم ‪ ٢٢٥‬و دیگر)‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-13136#page-218‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ٣‬جب مغیرہ بن شعبہ والی کوفہ نے خود امیر المؤمنین ع پر سب کیا (اس میں معاویہ کے ہونے یا‬
‫نہ ہونے کا ذکر نہیں) مجرد سب کی بات ہے تو اس وقت اس روایت کو سنایا گیا (مسند ابی یعلی‬
‫الموصولی جلد ‪ ٢‬ص ‪ ٢٥٩‬اور محقق نے سند کو حسن کہا ہے) یا کبھی دیگر خطیبوں کو کھڑا‬
‫کرکے برا کہتا۔‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12520#page-977‬‬

‫‪ ،٤‬جب معاویہ کوفہ آیا ت و اس وقت مغیرہ بن شعبہ نے بعض خطباء کو کھڑا کیا جنہوں نے امیر‬
‫المؤمنین ع پر لعنت اور برا بھال کہا اور خود بھی اس قبیح فعل کو انجام دیا (اس کی تفصیل آگے‬
‫ارہی ہے)‬

‫چنانچہ ان چار مواقع پر مختلف روایت کو اضطراب کا نام دینا عجیب ہے کیونکہ مضطرب روایت‬
‫فقط اس ہی وقت کہی جاسکتی ہے جب اس میں تطبیق دینا بالکل ممکن نہ ہو اور اگر تطبیق اور جمع‬
‫ممکن ہو تو وہ اضطراب نہیں رہتی (الموقظتہ للذھبی ص ‪ )٥٣‬آپ دیکھتے ہیں کہ کیا ادھر جمع‬
‫کرنا ممکن ہے یا نہیں اور محترم فخر الزماں کے اعتراضات کے جواب دیتے ہیں۔ اس سے پہلے‬
‫اس مضمون کی روایات کو نقل کیا جاتا ہے مع تصحیحات‬

‫ابو داود کی جس مشہور روایت سے استدالل کیا گیا ہے۔ جو یوں ہے‪:‬‬

‫حدثنا محمد بن العالء عن ابن إدریس أخبرنا حصین عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم وسفیان‬
‫عن منصور عن ھالل بن یساف عن عبد ہللا بن ظالم المازني ذكر سفیان رجال فیما بینه وبین عبد ہللا بن‬
‫ظالم المازني قال سمعت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قال لما قدم فالن إلى الكوفة أقام فالن خطیبا‬
‫فأخذ بیدي سعید بن زید فقال أال ترى إلى ھذا الظالم فأشھد على التسعة۔۔الخ‬

‫عبدہللا بن ظالم کہتے ہے کہ میں سعید بن زید کو سنا کہ جب فالں شکص کوفہ آیا تو ایک فالں خطبہ‬
‫کے لئے کھڑا ہوا‪ ،‬پس سعید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا تم اس ظالم کو دیکھو میں نو لوگوں‬
‫کی گواہی دیتا ہوں۔۔الخ‬
‫تو اس روایت کو درج ذیل علماء معتبر کہتے ہیں‬

‫‪ ، ١‬البانی اس کو صحیح کہا (اپنی تحقیق سنن ابی داود میں سنن ابی داود‪ ،‬جلد ‪ ٤‬ص ‪)٢١١‬‬

‫آن الئن لنک کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-1726#page-6374 :‬‬

‫‪ ، ٢‬زبیر علی زئی نے سند کو حسن کہا (اپنی تحقیق سنن ابی داود میں انگریزی ترجمہ والی جلد ‪٥‬‬
‫ص ‪)١٨٣‬‬

‫آن الئن دیکھئے‪...http://zubairalizai.info/.../Sunan%20Abu%20Dawud%20Vol :‬‬

‫‪ ، ٣‬شعیب ارنووط نے روایت کو صحیح قرار دیا (اپنی تحقیق سنن ابی داؤد میں سنن ابی داود جلد ‪٧‬‬
‫ص ‪)٤٥‬‬

‫آن الئن دیکھئے‪http://shamela.ws/browse.php/book-117359#page-3934 :‬‬

‫‪ ، ٤‬خود ابو داود نے اس روایت کو نقل کرکے سکوت کیا جو احناف کے ہاں اجماال حسن ہونے کی‬
‫دلیل ہے۔‬

‫یہ روایت معاویہ اور مغیرہ کے نام کے ساتھ ان مصادر میں دیکھی جاسکتی ہے‪:‬‬

‫سنن الکبری للنسائی‪ ،‬جلد ‪ ٧‬ص ‪ ٢٣٣‬رقم ‪٨١٥١‬‬


‫السنتہ البن ابی عاصم ص ‪ ٦١٨‬رقم ‪١٤٢٧‬‬
‫اخبار المکتہ للفاکھی جلد ‪ ٤‬ص ‪ ٥٧‬رقم ‪٢٤٢٣‬‬

‫چنانچہ ان تصحیات اور ان مصادر کے بعد مزید کسی تحقیق کی گنجائش نہیں رہ جاتی اور خود‬
‫مخترم فخر الزماں کی بات بغیر دلیل کی قابل مسموع نہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب آتے ہیں قسط وار اعتراضات اور جوابات کی طرف‬

‫پہال‪،1 ،‬ابو داؤد میں ھے‬


‫قدم فالن الی الکوفۃ‪...‬‬
‫یعنی معاویہ رض کوفہ آئے‬
‫اور ان کی پیش کردہ مسند احمد کی روایت میں ھے‬
‫خرج معاویہ من الکوفۃ‪..‬‬
‫معاویہ کوفہ سے نکلے‪.‬‬

‫جواب‪ :‬مح ترم ہماری اصل مستدل سنن ابی داؤد کی روایت تھی چونکہ اس میں ناموں کی تصریح‬
‫نہیں تھی تو ہمیں مسند احمد کو استعمال کرنا پڑا اور وہاں پھر بھی ہم نے کہا تھا‪:‬‬

‫(چنانچہ ثابت ہوا کہ ایک روایت کے تحت معاویہ کی موجودگی میں اور دوسری روایت میں معاویہ‬
‫کی گورنر شپ کے بعد مغیرہ نے یہ جرم انجام دیا۔۔)‬

‫چنانچہ جب وہاں خود تصریح موجود ہے کہ دو الگ مضمون کے تحت روایت ہے تو اس میں‬
‫اختالف کیسا؟ معاویہ جب آیا تھا تو روایات جن کے مصادر نقل کئے گئے اور جن کی تھوڑی‬
‫تفصیل بعد میں آئے گی اس میں لعن اور برا کہنے کا ذکر ہے جو استدالل کے لئے کافی ہے۔ اب‬
‫اگر معاویہ نے نکیر نہ کی تو ما بعد مغیرہ کا کرنا طبیعی امر ہے۔‬

‫دوسرا‪،‬‬
‫‪ ، 2‬ابو داؤد میں مغیرہ بن شعبہ رض کے خطیب ھونے کا ذکر ھے اور مسند احمد میں کسی‬
‫دوسرے خطیب کا ذکر‪.‬‬
‫یہ دوسرا تضاد‬

‫جواب‪ :‬ایک وقت میں ایک سے زیادہ خطیب ہونا بعید نہیں۔۔ کہا یہ جائے گا کہ خود مغیرہ بھی کھڑا‬
‫ہوا اور دوسرے کو بھی کھڑا کر خطابت کروائی۔‬

‫ام ْال ُم ِغ َ‬
‫یرة ُ بْنُ شُ ْعبَةَ ُخ َ‬
‫طبَا َء‬ ‫ع ْنهُ ْال ُكو َفةَ أ َ َق َ‬
‫ي ہللاُ َ‬ ‫اخبار المکتہ للفاکھی میں الفاظ ہے‪ : :‬لَ هما َقد َِم ُمعَا ِویَةُ َر ِ‬
‫ض َ‬
‫ي ہللاُ (یعنی معاویہ جب کوفہ آیا تو مغیرہ نے کچھ خطیبوں کو کھڑا کیا جنہوں نے‬ ‫ض َ‬ ‫یَتَن ََاولُونَ َ‬
‫ع ِلیًّا َر ِ‬
‫امیر المؤمنین ع کو برا کہا)‬

‫ط َبا َء َی ْل َعنُونَ َ‬
‫ع ِلیًّا‬ ‫ام ْال ُم ِغ َ‬
‫یرة ُ بْنُ شُ ْع َبةَ ُخ َ‬ ‫الضعفاء للعقیلی میں الفاظ یوں ہے‪َ :‬قالَ‪َ :‬ل هما َقد َِم ُم َعا ِو َیةُ ْال ُكو َف َة أ َ َق َ‬
‫(جب معاویہ کوفہ آیا تو مغیرہ نے خطیبوں کو کھڑا کیا جنہوں نے امیر المؤمنین ع پر لعنت کی)‬
‫(الضعفاء للعقیلی‪ ،‬جلد ‪ ٢‬ص ‪)٣٦٨‬‬

‫اس سے اصل مطلب میں کیا فرق پڑتا ہے‪ ،‬ایک جگہ ایک خطیب کا بیان اور دوسری جگہ دیگر کا‬
‫تو اس میں تعارض کیسا؟ کیا یہ تمام ہی خطیب نہیں ہوسکتے‪ ،‬ہاں اگر حصر ہو تو بتائے پھر‬
‫تعارض ہوتا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫تیسرا‪ ، 3 ،‬ابو داؤد کی روایت میں معاویہ رض مجلس میں موجود ہیں لیکن مسند احمد کی روایت‬
‫میں مجلس میں موجود نہیں‬
‫یہ تیسرا تضاد‬
‫جواب‪ :‬اس کا جواب پہلے اعتراض کے جواب میں دیکھ لیجئے۔‬

‫‪ ، 4‬جھاں معاویہ رض کی موجودگی کا ذکر ھے ابو داؤد میں وھاں سیدنا علی رض پر کسی گالی کا‬
‫ذکر نھیں‪ ،‬اور جھاں خطباء کا سیدنا علی رض کو برا بھال کہنے کا ذکر ھے وھاں سیدنا معاویہ‬
‫رض کی موجودگی کا ذکر نھیں‪.‬‬

‫جواب‪ :‬یہ ابو داود صاحب ک ی فالن والی کرامت کہہ سکتے ہیں‪ ،‬دیگر روایات بہت واضح ہیں۔۔ جن‬
‫میں سے اخبار المکتہ اور الضعفاء للعقیلی کا حوالہ دے چکا ہوں۔ اور اب فضائل الصحابہ للنسائی کا‬
‫حوالہ دیتا ہوں‪:‬‬

‫عن عبد ہللا بن َ‬


‫ظا ِلم‬ ‫ساف َ‬ ‫عن ِھ َالل بن ی َ‬ ‫صیْن َ‬ ‫‪ - 104‬أخبرنَا ُم َح همد بن ْالعَ َالء قَا َل أَنا ابْن إِد ِْریس قَا َل أَنا ُح َ‬
‫س ْف َیان رجال فِی َما َبینه َو َبین عبد ہللا بن َ‬
‫ظا ِلم‬ ‫ظا ِلم َوذكر ُ‬ ‫عن عبد ہللا بن َ‬ ‫عن ِھ َالل َ‬ ‫صور َ‬ ‫س ْف َیان بن َم ْن ُ‬
‫عن ُ‬ ‫َو َ‬
‫غیرة بن شُ ْعبَة خطباء یتناولون علیا‬ ‫ام ُم َ‬‫س ِمعت سعید بن زید قَا َل لما قدم ُمعَا ِویَة ْالكُوفَة أَقَ َ‬ ‫قَا َل َ‬

‫جب معاویہ کوفہ ایا تو مغیرہ نے خطیوں کو کھڑا کیا جنہوں نے امیر المؤمنین ع کو برا کہا۔۔‬

‫حوالہ‪ :‬فضائل الصحابتہ‪ ،‬ص ‪ ،٣٢‬رقم ‪١٠٤‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-6601#page-30‬‬

‫چنانچہ واضح ہے کہ معاویہ کی موجودگی ہی میں لعنت اور برائی کی گئی تھی۔‬

‫اور اگر اب بھی سمجھ نہیں آیا تو اپنے محدث خلیل احمد سہارنپوری کی ہی سن لیں جو سنن ابی‬
‫داود کی مشہور شرح میں کہتے ہے‪:‬‬

‫(جب فالں آیا) یعنی معاویہ (کوفہ کی طرف تو کھڑا کیا) یعنی کھڑا (کسی فالں بندے کو خطیب)‬
‫اور ایک نسخہ میں اقام فالنا یعنی ادھر اقام میں ضمیر معاویہ کی طرف پلٹتی ہے اور اس فالں‬
‫خطیب سے مراد مغیرہ بن شعبہ ہے جیسا کہ االحمدیہ (سے چپھنے والے) کے حاشیہ میں مکتوب‬
‫ہے۔۔ میں نے بعض اصول کے حاشیہ پر دیکھا کہ فالن سے مراد معاویہ بن ابی سفیان ہے‪ ،‬کھڑا کیا‬
‫فالن کو یعنی مغیرہ بن شعبہ‪ ،‬اور اس خطبہ میں امیر المؤمنین ع پر سب کی تعریض تھی یا معاویہ‬
‫کو امیر المؤمنین ع سے افضل کہا گیا تھا یا ان جیسی باتیں۔۔ الخ‬

‫حوالہ‪ :‬بذل المجھود فی حل ابی داود‪ ،‬جلد ‪ ١٨‬ص ‪ ،١٧٢‬کتاب السنتہ طبع دار الکتب العلمیہ بیروت‬

‫‪https://ia601405.us.archive.org/.../FPbzlm.../bzlmghod18.pdf‬‬
‫اب آپ اس کو میری علمی خیانت کہئے یا سہارنپوری سازش کہئے مجھے فرق نہیں پڑتا۔‬

‫ناظرین خالصتہ عرض کرتا چلوں کہ اس روایت میں کوئی تعارض نہیں‪ ،‬اس روایت کو کافی علماء‬
‫نے معتبر کہا ہے‪ ،‬اس پر میری معلو مات کے مطابق کسی قابل ذکر محدث نے اضطراب کا حکم‬
‫نہیں لگایا۔ اور اس پر جو جملہ اشکاالت تھے ان کا جواب بھی دے دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ خلیل‬
‫سہارنپوری کی شرح بھی بتادی ہے۔ اب اگر اب بھی کوئی نہ مانے تو نہ مانو کا عالج نہیں۔‬

‫ایک کمنٹ‪ :‬ادھر ذھن میں رہے کہ مغیرہ بن شعبہ جو اہلسنت کے ہاں قابل عزت صحابی ہے اس کا‬
‫بار بار ذکر آیا ہے کہ وہ امیر المؤمنین ع کو برا کہتا سوچنے والی بات ہے کہ جو صحابہ ایک‬
‫دوسرے کے لئے رحمدل کہے جاتے ہیں تو کیا وہ واقعی ایک دوسرے پر لعنت بھی کیا کرتے تھے‬
‫اس کو سوچنا چاہئے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ١٢‬صلح کی ایک شرط کہ معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہ کرے اور اس پر ایرادات کے‬
‫جوابات۔‬

‫ناظرین ہم نے اس روایت سے بھی استدالل کیا تھا جو تاریخ دمشق البن عساکر میں آئی‪:‬‬

‫روایت ابن عساکر‪ : :‬معاویہ امیر المؤمنین ع پر سب نہیں کرے گا درحالنکہ امام حسن ع اس کو سن‬
‫رہے ہوں‬

‫پھر دیگر کتب سے بطور شاہد نقل کیا‪:‬‬

‫تاریخ ابن اثیر (الکامل)‪ :‬امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر المؤمنین ع پر شتم نہ کیا جائے تو‬
‫معاویہ نے اس شتم علی ع کو روکنے پر حامی نہ بھری‬

‫تاریخ ابن وردی‪ :‬امام حسن ع نے شرط رکھی تھی کہ امیر المؤمنین ع پر سب نہ کیا جائے تو‬
‫معاویہ نے اس کو روکنے پر حامی نہ بھری‬

‫اس پر محترم نے کہا‪:‬‬

‫(ٍفخر‪ :‬جناب تو میں نے کب کھا کہ پورا دستور العمل لکھا جا رھا تھا؟ میں نے بھی خاص بات کی‬
‫ہے گالی کے متعلق‪ ،‬آپ یہ غلطی کافی دفعہ دھرا چکے ہیں کہ جواب سمجھے بغیر ھی لکھ دیا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬آپ کو یہ ثابت کرنا ھے کہ معاویہ رض علی رض کو گالیاں دیتے تھے‪ ،‬سیدنا حسن رض کی‬
‫اس شرط سے بالکل ثابت نھیں ھوتا کہ معاویہ رض گالیاں دیتے تھے‪.‬‬
‫اگر دوسرے لوگ گالیاں دیتے تھے تو اس کو آپ معاویہ رض پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں‬
‫مجھے تو روک رھے تھے کہ دستور العمل نھیں بلکہ صلح کا شرائط نامہ طے ھورھا تھا‪ ،‬لیکن‬
‫جناب خود دستور العمل پر آگئے اور لکھ دیا کہ‬
‫مجھے یہ بتائیں کہ فقط اس کا ھی تذکرہ کیوں کیا گیا اور باقی دیگر جرائم و گناہوں کی لسٹ کیوں‬
‫بیان نھیں کی؟‪.‬‬
‫‪ ،4‬تاری خ کامل و ابن الوردی کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ھیں‬
‫"اال یشتم علیا‪ ،‬فلم یجبہ‪.....‬‬
‫وہ سند کے ساتھ نھیں کہ کون ھے یہ بیان کرنے واال؟ اس کے برعکس جو سند کے ساتھ شرائط‬
‫منقول ھیں ان میں یہ شرط نھیں‪.‬‬
‫تاریخ طبری اور البدایہ و النھایہ میں یہ خاص الفاظ نھیں‬
‫دیکھ سکتے ہیں آپ‬

‫طبری ج‪ 5‬ص ‪160‬‬


‫‪shamela.ws/browse.php/book-9783/page-2621‬‬

‫البدایہ ج‪ 8‬ص ‪17‬‬


‫‪shamela.ws/browse.php/book-8376/page-2868#page-2868‬‬

‫‪ ، 5‬اسی جگہ طبری و البدایہ میں یہ شرط معاویہ رض قبول کررھے ھیں کہ‬
‫ال یشتم علیا وھو یسمع‬
‫کہ علی رض کو گالی نھیں دے گے‬
‫اس شرط کو معاویہ رض نے قبول کیا)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم جن چیزوں کی گذارش کی جاتی ہے اس میں واضح ہے کہ ان ہی باتوں کی درخواست ہوتی‬
‫ہے جو سامنے واال گروہ یا آدمی کررہا ہو جس سے باز رکھنا مراد ہوتا ہے یا وہ کام نہیں کررہا ہو‬
‫تو اس صورت میں اس چیز کے کرنے کی بات کی جاتی ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫پاکستان اگر بھارت سے مذاکرات کرے اور کہے کہ کشمیریوں پر ظلم مت کرو اور کشمیر سے‬
‫اپنی فوج کو نکالو تو یہ اس ہی وقت ممکن ہے کہ جب بھارت کام کررہا ہو۔ لیکن اگر بھارت وہ کام‬
‫ہی نہ کررہا ہو اور ایک ایسی بات کو لے آئیں جو اصال وقوع پذیر ہی نہ ہو اور نہ مستقبل میں‬
‫مقابل کی حکومت سے امکان ہو تو اس صورت میں مطالبہ عبث ہوجاتا ہے۔ اب دیکھئے امام حسن‬
‫ع نے یہ کیوں نہ کہا کہ ابوبکر اور عمر پر سب مت کرنا۔ اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ منع‬
‫کرنے سے وہ فعل الزم نہیں آتا تو محترم پھر تو کتنی شرائط ایسی تھی جن کا ذکر کیا جاسکتا تھا۔۔‬
‫البتہ امام حسن ع کا خاص اس شرط کا ذکر کرنا بتاتا ہے کہ معاویہ اس فعل کو انجام دیتا تھا۔ مزید‬
‫سنئے کہ قرآن کی تمث یل النا باطل ہے کیونکہ قرآن نوع انسانیت کے لئے ہادی ہے اور اس میں بھی‬
‫تقریبا جن چیزوں سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے ان میں سے اسباب النزول اٹھا کر دیکھئے تو وہ‬
‫کام مسلمان کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہوں گے‪ ،‬مثال کے طور پر کسی شخص کا رسول ص‬
‫کی زوجہ سے ما بعد ر سول ص شادی کی خواہش کرنا۔۔ اب یہ بات رسول ص کے لئے اذیت کا‬
‫سبب بنی تو قرآن میں آیت نازل ہوگئی۔۔ ادھر بھی سبب نزول موجود۔۔ سورہ حجرات اٹھائے اور اس‬
‫میں سے آیات کو پڑھئے تو رفع صوت (یعنی اونچی آواز میں بات کرنے) کا سبب نزول بھی ہے۔۔‬
‫غرض یہ ہے کہ سبب نزول موجود ہیں تو وہاں پر بھی ایک فعل کے بعد اس کی نہی اگر وارد ہوئی‬
‫ہے تو وہ سیاق کے تحت ہے‪ ،‬ادھر اگر قرآن کی مثال بھی لی جئے تو کہا جائے گا کہ معاویہ سے‬
‫وہ چونکہ فعل صادر ہوتا تھا اس وجہ سے اس سے منع اور نہی کا مطالبہ ہے۔‬

‫پھر محترم نے کہا‪:‬‬

‫وہ سند کے ساتھ نھیں کہ کون ھے یہ بیان کرنے واال؟ اس کے برعکس جو سند کے ساتھ شرائط‬
‫منقول ھیں ان میں یہ شرط نھیں‪.‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم فخر الزماں نے جس مبنی کے تحت مجھ پر جواب دیا ہے تو ناظرین حیران ہوں گے‬
‫کہ خود اس ہی تاریخ ابن الوردی سے خود بھی استدالل کررہے ہیں‪ ،‬وہاں یہ اصول کہا گیا۔ بلکہ‬
‫محترم فخر الزماں نے جا بجا بے سند روایات سے استدالل کیا ہے تو ادھر یہ قانون ان کو کیوں یاد‬
‫نہیں آیا؟ ناظرین دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود اس نکتہ ‪ ٢٩‬میں جو انہوں نے اخبار‬
‫الطوال للدینوری کی روایت نقل کی ہے تو میرا مطالبہ ہے کہ اس روایت کی سند دیکھائے؟ جب‬
‫خود جو بات جس نکتہ پر کررہے ہیں اور اس کی مخالفت بعینہ اس ہی نکتہ پر کی جارہی ہے تو‬
‫کہا اصول اور کہا انصاف۔۔ (خیر دینوری کی کتاب کا جواب ہم ابھی دیں گے)۔‬

‫اب میں اصل نکتہ اور جواب کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ کہ اصل روایت بسند معتبر میں دیکھا‬
‫جاچ کا ہوں تاریخ دمشق اور دیگر مصادر سے اور یہ کتب سے روایت بطور استشہاد نقل کیا گیا‬
‫ہے۔۔ آپ نے اصل روایت کا تو قانع جواب دیا نہیں تو دیگر کی کیا شکایت کریں۔ محققین کا طریقہ‬
‫یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک معتبر مبنی کے تحت روایت کو بطور حجت نقل کرتے ہیں اور بطور استشہاد‬
‫اس کے دیگر نکات دیگر کتب استشہادیہ سے پیش کرتے ہیں اور اگر وہ نکات اصل کے خالف نہ‬
‫ہوں تو انہیں قبول میں کوئی چیز مانع نہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہئے تھی کہ اب اصل روایت پر جرح‬
‫کرتے‪ ،‬اس پر کی نہیں اور اعتراض کیا دیگر کتب پر۔‬

‫باقی جہاں تک اعتراض طبری کی روایت سے کیا ہے تو یاد رہے کہ میرا اصل استدالل تاریخ‬
‫دمشق کی روایت سے تھا‪ ،‬اس پر کالم کیجئے اور کیا آپ اس روایت تاریخ طبری کو واقعی مانتے‬
‫ہیں کیونکہ اس روایت میں دیگر مطالب بھی ہیں جن کو غور سے پڑھئے گا پھر بتائے گا‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ١٣‬اخبار الطوال کی روایت کا حال اور مصنف ابو حنیفہ الدینوری کا حال‬

‫محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬


‫(فخر‪ :‬اس کے برعکس شیعہ مؤرخ ابو حنیفہ دینوری لکھتا ہے‬
‫قالوا‪ :‬ولم یر الحسن وال الحسین طول حیاہ معاویه منه سوءا في أنفسھما وال مكروھا‪ ،‬وال قطع عنھما‬
‫شیئا مما كان شرط لھما‪ ،‬وال تغیر لھما عن بر‪.‬‬
‫أخبار الطوال ص ‪225‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-9760#page-225‬‬
‫یعنی حسنین کریمین نے کوئی تکلیف یا ناپسندیدہ چیز نھیں دیکھی معاویہ رض کی پوری زندگی‬
‫میں‪ ،‬اور جو شرائط دونوں نے طے کیے تھے معاویہ رض نے کسی شرط کو نھیں توڑا‪ ،‬اور ان‬
‫سے بھالئی کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‪.‬‬

‫اگر معاویہ رض سیدنا علی رض کو گالیاں دیتے یا دلواتے تھے تو شیعہ مؤرخ ایسا نہ کھتا)‬

‫جواب‪ :‬اس پر ہم پہلے ابوحنیفہ الدینوری کا تعارف دیں گے اور پھر اس روایت کا جواب‬

‫الف‪ ،‬ابو حنیفہ دینوری کا غیر شیعہ ہونا اور اس کا سنی امام ہونا‬

‫فخر الزماں صاحب اب ہم ابو حنیفہ الدینوری کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں۔ اس کا شیعہ ہونا‬
‫محتاج بیان ہے اور ہماری تحقیق کے مطابق اس کا تشیع ثابت نہیں۔ انشاء ہللا جب آپ اس کے تشیع‬
‫پر دالئل دیں گے تو اس وقت ہم کالم کریں گے۔ سردست یہ بتاتا چلوں کہ ابو حنیفہ الدینوری آپ کے‬
‫ہاں ثقہ‪ ،‬صدوق عالم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض نے اس کو حنفی بھی شمار کیا ہے چنانچہ یہ عالم‬
‫اہلسنت میں سے ہے نہ کہ تشیع میں سے۔ جب میں کہتا ہوں کہ اس کو ثقہ اور صدوق علماء اہلسنت‬
‫نے قرا ر دیا تو ادھر اس مورد میں میری مراد یہ ہے کہ جن علماء کو میں نقل کروں گا انہوں نے‬
‫اس پر شیعہ ہونے کا حکم نہیں لگایا۔‬

‫الف‪ ،‬عالمہ شمس الدین ذھبی اپنی شہرت آفاق کتاب سیر اعالم النبالء میں رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ي*‬ ‫‪ - 208‬أَبُو َحنِی َف َة أَحْ َمد ُ بنُ دَ ُاود ال ِدّ ْین ََو ِر ُّ‬
‫ي‪ ،‬تِ ْل ِمیْذ ابْن ال ه‬
‫س ِ ّكیت‪.‬‬ ‫العَاله َمة‪ ،‬ذُو الفنُ ْونَ ‪ ،‬أَبُو حنیفَة‪ ،‬أَحْ َمد بن دَ ُاود َ ال ِدّ ْین ََو ِر ّ‬
‫ي‪ ،‬النهحْ ِو ّ‬
‫الو ْقت‪َ ،‬وأَش َیاء‪.‬‬ ‫سة َوالھیئ َة َو َ‬ ‫ط ِویْل ال َباع‪ ،‬أَلهف ِفي النهحْ ِو َواللُّغَة َوالھند َ‬ ‫صد ُوق‪َ ،‬ك ِبیْر الدها ِئ َرة‪َ ،‬‬ ‫َ‬

‫(ملخص) ابوحن فیہ الدینوری بہت بڑا عالمہ‪ ،‬مختلف علوم و فنون کا ماہر‪ ،‬بہت زیادہ معلومات کا‬
‫حامل‪ ،‬علم نحو کا شہسوار اور راست گو آدمی تھا۔ اس عالم نے علم نحو‪ ،‬لغت اور دیگر علوم میں‬
‫تالیفات چھوڑی۔‬

‫حوالہ‪ :‬سیر اعالم النبالء‪ ،‬جلد ‪ ،١٣‬ص ‪٤٢٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-8541‬‬
‫‪Khair Talab‬‬

‫ب‪ ،‬عالمہ قرشی حنفی اپنی مشہور کتاب الجواھر المضیة في طبقات الحنفیة میں رقم طراز ہے‪:‬‬

‫صاحب كتاب ْالبَنَات أحد ْالعل َماء ْال َم ْش ُھورین فى اللُّغَة ذكرہ أَبُو‬ ‫‪ - 107‬أَحْ مد بن دَ ُاود أَبُو حنیفَة الدین ََو ِري َ‬
‫ْالقَا ِسم مسلمة بن قَاسم اْلندلسي فى الذیل الذى ذیل بِ ِه على ت َِاریخه ْال َكبِیر فى أَس َماء ْال ُمحدثین َوقَا َل فَ ِقیه‬
‫ي ْال ِف ْقه َوله المصنفات كتاب الفصاحة َوكتاب ْاْل َ ْن َوار َوكتاب ْالق ْبلَة َوكتاب الدّور َوكتاب ْال َو َ‬
‫صا َیا‬ ‫َحنَ ِف ّ‬
‫ص َالح ْالمنطق َماتَ سنة إثنتین َوث َ َمانِینَ َو ِمائَتَی ِْن َرح َمه ہللا ت َ َعالَى‬‫َوكتاب ْال َجبْر والمقابلة َوكتاب إ ْ‬

‫(ملخص) ابو حنیفہ الدینوری علم لغت کے مشہور علماء میں سے ہیں۔ ابو القاسم اندلسی کے مطابق‬
‫یہ فقہ حنفی کے فقیہ تھے۔ ہللا کی رحمت ان پر ہو۔ ان کی مشہور تصنیفات کا بھی ذکر کیا گیا۔‬

‫حوالہ‪:‬الجواھر المضیة في طبقات الحنفیة‪ ،‬جلد اول ص ‪٦٧‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-6725#page-67‬‬

‫نوٹ‪ :‬چونکہ عربی کی عبارات کا وہ خالصہ پیش کیا گیا ہے جو ہمارے موضوع سے متعلق ہے‬
‫اس لئے دیگر غیر ضروری چیزوں کا ذکر نہیں کیا گیا‪ ،‬اہل علم حضرات عربی پڑھ کر خود سمجھ‬
‫سکتے ہیں اور دیگر حضرات کو توثیق دیکھانا مقصود ہے جو الحمد ہلل ثابت ہوئی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم فخر الزماں صاحب۔۔ ہمارے پاس دیگر حوالے جات اس امر کی توثیق پر ہے کہ ابو‬
‫حنیفہ الدینوری ایک اہلسنت عالم تھا۔ جب آپ اس پر بحث کریں گے تو پھر ہم ان کو آپ کی نظر‬
‫کریں گے۔‬

‫اگر بالفرض ابوحنیفہ الدینوری کو بعض نے شیعہ کہا بھی ہو (بالخصوص اگر ان کا تعلق متاخرین‬
‫میں سے ہو جن کی استناد خود محتاج دلیل ہوتی ہے) تو اس صورت میں ان کے اس فیصلہ کو‬
‫خطاء پر محمول کیا جائے گا کیونکہ دینوری کی کتب اس کے اہلسنت ہونے کے لئے کافی ہے (یہ‬
‫دلیل اس وقت کام آتی ہے جب متقدمین سے توثیق اور جرح پر کوئی کلمہ منقول نہ ہو تو قرائن‬
‫اخری سے دلیل پکڑی جاتی ہے)۔ اب اگر محترم فخر الزماں کو یا دیگر قارئین کو یہ بات قابل تامل‬
‫لگے تو میں مثال دیتا ہوں‪:‬‬

‫سلیمان بن مہران االعمش اہلسنت علماء میں ایک مقام خاص رکھتے ہیں۔ ذھبی نے ان کا ترجمہ‬
‫مختلف کتب رجال و تراجم میں نقل کیا ہے۔ چنانچہ اپنی تاریخ کی کتاب میں عجلی کا قول نقل کرتے‬
‫ہے‪:‬‬

‫قَا َل َو َكانَ فِی ِه ت َ َ‬


‫شیُّ ٌع‪.‬‬
‫عجلی (عالم رجال اہلسنت) کہتا ہے کہ اعمش میں تشیع تھی۔‬
‫اس پر ذہبی تعاقب کرتے ہے اور فرماتے ہے‪:‬‬

‫ب سُنهةٍ‪.‬‬
‫اح َ‬
‫ص ِ‬‫ولیس ھذا بصحیح عنه بلى‪َ ،‬كانَ َ‬
‫ترجمہ‪ :‬یہ بات (کہ اعمش میں تشیع تھی) اس سے صحیح نہیں‪ ،‬بلکہ اعمش تو سنت کا حامل بندہ تھا‬
‫(یعنی پکا اہلسنت تھا)‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ اْلسالم ووفیات المشاھیر واْلعالم‪ ،‬جلد ‪ ٩‬ص ‪١٦٣‬۔‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12397#page-4616‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم جب آپ کوئی بھی حوالہ ابوحنیفہ الدینوری کے تشیع پر دی جئے گا تو یاد رکھئے گا‬
‫کہ اس کا استناد ایسے قول سے ہو جو قابل احتجاج ہو اور اس کے معارض ایسا قول نہ ہو جیسے‬
‫ذھبی کا تھا اعمش کے متعلق۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫ب‪ ،‬اخبار الطوال کی روایت کی حیثیت‬

‫اب یہ تو بات فقط ابوحنیفہ الدینوری کے متعلق تھی۔ اب میں آتا ہوں اس بات پر کہ ادھر روایت قالوا‬
‫کے بعد شروع ہوئی ہے۔۔ ہمارے پیش نظر بریلوی عالم دین و مناظر جناب محمد علی نقشبندی‬
‫صاحب کی کتب ہیں جنہوں نے مذھب حقہ کے خالف کافی ساری کتب لکھیں۔ انہوں نے بھی اس‬
‫روایت کو شیعوں کے خالف پیش کیا تو قالوا کا ترجمہ لکھا کہ مورخین کہتے ہیں۔۔ (مالحظہ ہو‬
‫تحفہ جعفریہ جلد ‪ ٥‬ص ‪ ٢٠١‬طبع الہور)‬

‫‪...https://www.scribd.com/.../Tohfa-e-Jafaria-5-Muhammad-Ali‬‬

‫۔ اب پتا چال کہ اس کو کہنے والے مورخین ہے اور ابوحنیفہ الدینوری نے اپنی کوئی سند پیش نہیں‬
‫کی استدالل کے لئے۔ چنانچہ ایسی روایت جو دیگر روایت معتبرہ سے ٹکرائے اور سندی حوالے‬
‫سے کمزور ہو (یا ہماری مثال میں مفقود السند ہو) تو وہ قابل احتجاج نہیں ہوسکتی۔ ہر وہ روایت‬
‫جس میں ابھام ہو یعنی مورخین نے فرمایا‪ ،‬فالں نے فرمایا‪ ،‬اہل علم نے فرمایا۔۔ ہر ایسی روایت کو‬
‫الرا ِوي وہ روایت جس کا‬ ‫مبھم کہا جاتا ہے علم حدیث کی روشنی میں۔ (ابن حجر کے بقول‪ :‬الَ یُ َ‬
‫س همى ه‬
‫راوی ہی مذکور نہ ہو) تو ایسی روایت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ غیر مقبول ہوگی۔ میں دو‬
‫حوالے جات پر اکتفاء کرتا ہوں‪:‬‬

‫الف‪ ،‬ابن حجر رقم طراز ہے‪:‬‬

‫عیْنهُ؛‬ ‫س هم‪ْ ،‬لن شرط قبول الخبر عدالة رواته‪ ،‬و َم ْن أ ُ ْب ِھ َم ا ْس ُمه ال ی ُ‬
‫ُعرف َ‬ ‫ُ‬
‫حدیث ال ُم ْب َھم‪ ،‬ما لم یُ َ‬ ‫وال یُ ْقبَ ُل‬
‫فكیف عدالته‬
‫ترجمہ‪ :‬حدیث مبھم کو قبول نہیں کیا جائے گا‪ ،‬اور یہ وہ روایت ہے جس میں راوی کا نام مذکور نہ‬
‫ہو‪ ،‬کیونکہ قبول روایت ک ی بنیادی شرط راویان کی عدالت کا معلوم ہونا‪ ،‬اور جس اسم راوی کو‬
‫مبھم کردیا جائے تو اس کی شخصیت ہی غیر معلوم ہوجاتی ہے تو عدالت کا پتا کرنا تو بطریق اولی‬
‫غیر ممکن ہوجاتا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬نزھة النظر في توضیح نخبة الفكر في مصطلح أھل اْلثر جلد ‪ ١‬ص ‪١٢٥‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12115#page-189‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫ب‪ ،‬مال علی قاری بھی یہی بات فرماتے ہے کہ چونکہ راوی کی عدالت اور ضبط دونوں مفقود‬
‫ہوتے ہیں اس وجہ سے اس کی روایت غیر مقبول ہوتی ہے (عربی عبارت پر اکتفاء کروں گا)‪:‬‬

‫(ْلن شَرط قبُول ْال َخ َبر َ‬


‫عدَالَة ُر َواته) َو َكذَا‬ ‫ّ‬ ‫(و َال یقبل َحدِیث ْال ُمبْھم َما لم یسم) أَي من َ‬
‫ط ِریق آخر؛‬ ‫َ‬
‫ضبطھم‪.‬‬

‫حوالہ‪ :‬شرح نخبة الفكر في مصطلحات أھل اْلثر ص ‪٥١١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-5989#page-395‬‬

‫بلکہ اس روایت کے برعکس بھی اس ہی اخبار الطوال میں روایت ہے‪:‬‬

‫وانتھى خبر وفاہ الحسن الى معاویه كتب به الیه عامله على المدینة مروان فأرسل الى ابن عباس‪ ،‬وكان‬
‫عندہ بالشام قدم علیه وافدا فدخل علیه‪ ،‬فعزاہ‪ ،‬واظھر الشماتة بموته‪ ،‬فقال له ابن عباس‪ :‬ال تشمتن بموته‪،‬‬
‫فو ہللا ال تلبث بعدہ اال قلیال‪.‬‬

‫جب امام حسن ع کی وفات کی خبر معاویہ کو بھی مل گئی‪ ،‬انہیں عامل مدینہ مروان نے اس امر‬
‫سے مطلع کیا تھا‪ ،‬چنانچہ معاویہ نے ابن عباس کو بلوایا‪ ،‬ان دنوں ابن عباس شام میں معاویہ کے‬
‫پاس ہوتے تھے‪ ،‬جب وہ ملے ت و معاویہ نے حسن ع کی وفات پر تعزیت کی اور اظہار مسرت بھی‬
‫کیا لہذا ابن عباس نے کہا آپ حسن ع کی موت پر خوش نہ ہوں۔ خدا کی قسم ان کے بعد آپ کا بھی‬
‫چل چالؤ ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬االخبار الطوال‪ ،‬ص ‪٢٢٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9760#page-222‬‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫‪ ١٤‬صلح امام حسن ع‪ ،‬اس کی وجوہات اور معاویہ کی بے ایمانی۔‬

‫اس سے پہلے کہ اس پر کالم کیا جائے‪ ،‬مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محترم کے اعتراضات نقل کرکے‬
‫جوابات دئیں جائیں۔‬

‫(فخر‪ 1 :‬میرا سوال تھا کہ معاویہ رض اگر ایسے تھے جیسا آپ کا باطل نظریہ ھے تو سیدنا حسن‬
‫رض نے ان کو اسالمی حکومت کی سربراہی کیوں دی؟‬
‫جواب میں جناب نے کفار سے صلح کی بات کی ‪ ،‬اور آگے چل کر انھوں نے نبی کریم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کی صلح کے واقعے سے اس کی مثال دی جس پر آگے تفصیلی بات ھوگی‪.‬‬
‫‪ ، 2‬امام کا مقصد امت کی رہنمائی ھوتا ھے نہ کہ ان پر اپنے ھاتھ سے جان بوجھ کر ایسے حکمران‬
‫مسلط کرنا کہ دین و دنیا ان کی برباد ھو‪ ،‬حسن رض نے ایسے شخص کو حکمران بنایا جو (بقول‬
‫شیعہ) امت اور اسالم کے لیے گمراہی و بربادی کا سبب بنا‪.‬‬

‫شیعہ مجتھد آل کاشف الغطاء لکھتے ہیں‬

‫أما حین انتھى اْلمر إلى معاویة‪ ،‬وعلم أن موافقته ومسالمته وإبقائه والیا فضال عن اْلمرة ضرر كبیر‪،‬‬
‫وفتق واسع على االسالم ال یمكن بعد ذلك رتقه لم یجد بدا من حربه ومنابذته‬
‫اصل الشیعۃ و اصولھا ص ‪222،223‬‬
‫‪/...shiaonlinelibrary.com/.../4065//:‬الصفحة_‪...204‬‬

‫اس کا ترجمہ شیعہ مترجم سے بھیجتا ھوں‬

‫جب معاویہ نے اسالمی حکومت و اقتدار کو اپنے زیر نگین کرنا چاھا اور اس ضمن میں اس نے‬
‫مختلف تخریبی کارروائیاں شروع کردیں تو علی بن ابی طالب ع معارض ھوئے‪ ،‬کیونکہ معاویہ‬
‫جیسے شخص کی موافقت اور اس کے غلط طرز حکمرانی کو طرح دینا اسالمی مفاد کے لئے زھر‬
‫ھالھل تھا اور دین ٰالہی کی حفاظت علی ع کا سب سے بڑا فرض‪.‬‬
‫مترجم ص ‪106‬‬

‫اب آپ ھی بتائیں کہ‬


‫⏪ حسن رض نے امت مسلمہ کو یہ زھر ھالھل کیوں اپنے ھاتھوں سے پلوایا؟‬
‫⏪ کیوں معاویہ رض سے جنگ نہ کرکے ان کے دین کی حفاظت نہ کی اور اپنا فرض نھیں نبھایا؟‬
‫⏪ کیوں معاویہ رض جیسے غلط طرز حکمرانی کرنے والے کو اپنے ھاتھوں سے حکمران بنایا؟‬

‫کیا اس صورت میں سیدنا حسن رض اپنے منصب امامت پر پورے اترے)‬

‫جواب‪ :‬محترم چلیں میں آپ کو آپ کی نقل کردہ روایت جس کے آپ میرے خالف الئے تھے اس‬
‫سے ہی جوا ب دیتا ہوں۔۔ کہ صلح حکم اولی کے تحت نہیں کی گئی تھی بلکہ حکم ثانوی کے تحت‬
‫کی گئی تھی یعنی اصل جنگ کرنا ہی تھا لیکن جب خود امام حسن ع کی فوج نے ساتھ نہ دیا اور‬
‫معاویہ سے جنگ کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو اس وقت صلح کی نوبت آئی۔‬

‫دیکھئے آپ نے جو ‪ ٢٩‬نکتہ پر تاریخ طبری کی روایت پیش کی تھی اس میں یہ الفاظ موجود ہیں‪:‬‬

‫س ْعد فِي الناس فَقَالَ‪ :‬یا أیھا الناس‪ ،‬اختاروا الدخول فِي طاعة إمام ضاللة‪ ،‬أو القتال مع غیر‬
‫فقام قیس بن َ‬
‫إمام‪ ،‬قَالُوا‪ :‬ال‪ ،‬بل نختار أن ندخل ِفي طاعة إمام ضاللة‪.‬‬

‫یعنی قیس بن سعد لوگوں میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے لوگوں یا تو ضاللت کے امام کی اطعت‬
‫میں داخل ہوجاؤ یا بغیر امام کے جنگ کرو‪ ،‬تو لوگوں نے کہا کہ ہم گمراہی کے امام کی اطاعت‬
‫میں جانا پسند کرتے ہیں‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ طبری جلد ‪ ٥‬ص ‪١٦٠‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9783/page-2621‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب قیس بن سعد کا ترجمہ دیکھا دوں کہ ذھبی ان کو امیر‪ ،‬مجاہد‪ ،‬صحابی اور صحابی زادہ قرار‬
‫دیتے ہیں‪ ،‬دیکھئے ذھبی کا بیان‪:‬‬

‫ابن عبادة بن دلیم بن حارثة بن أبي حزیمة بن ثعلبة بن طریف بن الخزرج بن ساعدة بن كعب بن‬
‫الخزرج ‪ ،‬اْلمیر المجاھد ‪ ،‬أبو عبد ہللا ‪ ،‬سید الخزرج وابن سیدھم أبي ثابت ‪ ،‬اْلنصاري الخزرجي‬
‫الساعدي ‪ ،‬صاحب رسول ہللا ‪ -‬صلى ہللا علیه وسلم ‪ -‬وابن صاحبه ‪.‬‬

‫حوالہ‪ :‬سیر اعالم النبالء‪ ،‬جلد ‪ ٣‬ص ‪١٠٢‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-2711‬‬

‫تبصرہ‪ :‬چلیں یہاں ضمنا محترم فخرالزماں کی نقل کردہ و مستدل روایت سے (یاد رہے محترم کے‬
‫ہاں استدالل روایت صحت روایت پر دال ہے) پتا چال کہ ایک صحابی اور معاویہ کو امام ضاللتہ‬
‫کہتے تھے اور جو ہماری کام کی بات ہے وہ یہ کہ اصل جنگ کرنا ہی تھی اور اس سے جو‬
‫استثنائی عنوان سے فوج کی عدم رضا مندی کی وجہ سے صلح کی گئی‪ ،‬اس میں امام حسن ع‬
‫قصور وار نہیں۔ بلکہ یہ عین حاالت کے مطابق ہی کام کیا گیا تھا۔ جس طرح مسلمان کی جان بچانا‬
‫اور کفار کے خالف برسرے پیکار ہونا یہ حکم اولی ہے لیکن جب صلح میں ایک چیز کا ذکر‬
‫ہوجائے تو پھر اگرچہ مسلمان ذبوحالی کا بھی شکار ہو ان شرائط کی خالف ورزی نہیں کی‬
‫جاسکتی (یہ حکم ثانوی کے تحت ہے)۔ دیکھئے ابو جندل جو زنجریوں میں جکڑے ہوئے تھے جب‬
‫آئے تو ان سے مشرکین مکہ نے بہت ہی برا سلوک کیا لیکن بایں ہمہ رسول ص نے ان کو صرف‬
‫صبر کی تقلین دی اور اس مسلمان کی جان نہیں بچائی۔ پورا واقعہ مع ترجمہ نہیں کرپاؤں گا لیکن‬
‫واقعہ بہت ہی مشہور ہے اور پرائمری کی کتب میں بھی پڑھایا جاتا ہے (جواگرچہ دلیل نہیں لیکن‬
‫اشتہار کے لئے کافی ہے)‪ ،‬اس واقعہ کی تفصیل سیرت ابن ہشام میں یوں آئی‪:‬‬

‫ف بینا رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم یكتب الكتاب ھو وسھیل بن عمرو ‪ ،‬إذ جاء أبو جندل بن سھیل بن‬
‫عمرو یرسف في الحدید قد انفلت إلى رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم وقد كان أصحاب رسول ہللا صلى‬
‫ہللا علیه وسلم خرجوا وھم ال یشكون في الفتح لرؤیا رآھا رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم فلما رأوا ما‬
‫رأوا من الصلح والرجوع وما تحمل علیه رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم في نفسه دخل على الناس من‬
‫ذلك أمر عظیم حتى كادوا یھلكون فلما رأى سھیل أبا جندل قام إلیه فضرب وجھه وأخذ بتلبیبه ثم قال یا‬
‫محمد قد لجت القضیة بیني وبینك قبل أن یأتیك ھذا ؛ قال صدقت فجعل ینترہ بتلبیبه ویجرہ لیردہ إلى‬
‫قریش ‪ ،‬وجعل أبو جندل یصرخ بأعلى صوته یا معشر المسلمین أأرد إلى المشركین یفتنوني في دیني ؟‬
‫فزاد ذلك الناس إلى ما بھم ‪ .‬فقال رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم یا أبا جندل اصبر واحتسب ‪ ،‬فإن ہللا‬
‫جاعل لك ولمن معك من المست ضعفین فرجا ومخرجا ‪ ،‬إنا قد عقدنا بیننا وبین القوم صلحا ‪ ،‬وأعطیناھم‬
‫على ذلك وأعطونا عھد ہللا وإنا ال نغدر بھم‬

‫حوالہ‪ :‬سیرة ابن ھشام جلد ‪ ٢‬ص ‪٣١٨‬‬

‫آن الئن دیکھیں‪http://islamport.com/d/1/ser/1/21/333.html :‬‬

‫چنانچہ صلح کے حوالے سے بھی حکم اولی اور حکم ثانوی کا ہی معاملہ آجاتا ہے‪ ،‬یہ تاریخی‬
‫حقیقت ہے کہ امام حسن ع کا ارادہ جنگ کرنا ہی تھا لیکن جب فوج کے ایک حصہ نے دغا دی‪ ،‬اور‬
‫اغلبیت نے جنگ کے لئے آمادگی نہ دیکھائی تو پھر جنگ کرنا فائدہ سے بالکل خالی تھا اور یوں‬
‫صلح ہی راستہ تھا۔‬

‫اب دیکھئے کہ خود آپ کی فقہ کی معتبر کتاب میں امام حسن ع کے فعل کو تقیہ سے تعبیر کیا گیا‬
‫ہے۔ اہلسنت کی مشور فقہ کی کتاب میں یہ عبارت موجود ہے‪:‬‬

‫فان قیل فكیف خلع الحسن بن على نفسه ؟‬


‫قلنا لعله علم من نفسه ضعفا عن تحملھا أو علم أنه ال ناصر له وال معین فخلع نفسه تقیة‪،‬‬

‫اگر کہا جائے کہ امام حسن بن علی ع نے اپنے آپ کو حکومت سے دستبردار کیوں کیا تو ہم جواب‬
‫میں کہیں گے کہ شاید ممکن ہے کہ جنگ کو برداشت کرنے میں امام اپنے آپ کو کمزور پاتے ہوں‪،‬‬
‫یا جانتے ہوں کہ ان کا کوئی مددگار نہیں تو ان اسباب کے تحت امام حسن ع دست برادر ہوئے تقیہ‬
‫کرتے ہوئے۔‬

‫حوالہ‪ :‬المجموع شرح المھذب جلد ‪ ٢١‬ص ‪٢٩‬‬


‫‪http://ia802700.us.archive.org/27/items/FP3865/magm21.pdf‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫تو محترم اب اس عبارت کو دیکھئے اور پھر ہماری گذارشات کو تو ہم یہی کہیں گے جس طرح آپ‬
‫نے شیخ آل کاشف الغطاء کی عبارت نقل کی کہ بیشک اصل پیش رفت جنگ کرنے کی ہی تھی لیکن‬
‫چونکہ امام ع کے پاس ناصرین و مددگاروں کی تعداد کی قلت تھی اس وجہ سے امام ع دستبردار‬
‫ہوئے اور یہ دست برداری معاویہ کی تصویب و توثیق پر نہیں ورنہ میں نے جو ابن عمر کی مثال‬
‫دی تھی جس میں معاویہ نے ابن عمر پر تعریض کی تھی اور عمر کی گستاخی تو اس صورت میں‬
‫کیا ادھر خاموشی کو اور اپنے حق کے لئے تعارض نہ کرنے کو معاویہ کی حمایت کہیں گے؟‬
‫ہرگز نہیں۔‬

‫محترم فخر الزماں مزید اس صلح کے بارے میں کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬جس کو آپ کے دوسرے منصوص امام حکمران و بادشاہ مقرر کریں‪ ،‬اگر وہ بھی حق پر نہ‬
‫ھو تو پہر کیا آج کل کے شیعوں کے بنائے ہوئے حکمران حق پر ھونگے؟‬
‫دیکھ لیں قارئین یہ کتنا اپنے اماموں کو مانتے ہیں کہ ان کا بنایا ھوا حکمران بھی ان کے نزدیک‬
‫حق پر نھیں‪.‬‬
‫‪ ، 2‬سیدنا حسن رض کے لیے سیدنا معاویہ رض کا حکمران بنانا کس طرح قدح ھے وہ میں کمنٹ‬
‫‪ 2/30#‬میں بتا چکا ھوں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬فتح مکہ کے موقعے پر کن کفار سے صلح ھوئی؟ یہ نئی تحقیق سامنے آئی ھے میرے علم میں‪.‬‬
‫اور اگر آپ کی مراد صلح حدیبیہ ھے تو پہر یہ مثال بھی غلط ھے آپ کی پچھلی دی گئی مثالوں‬
‫کی طرح‪.‬‬

‫اب آئیں زرا دونوں صلح میں فرق دیکھیں‪.‬‬


‫⏪ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے کفار کو اپنے مقبوضہ عالقے یعنی مدینہ کی حکومت و نظام‬
‫حوالے نھیں کیا‪ ،‬ھر کوئی اپنی اپنی جگہ پر رھا‪،‬‬
‫اس کے برعکس حسن رض نے اپنے پورے مقبوضہ عالقے کا نظام و حکمرانی معاویہ رض کے‬
‫حوالے کردی‪.‬‬
‫⏪ نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے کفار کے ھاتھ پر بیعت نھیں کی‪،‬‬
‫اس کے برعکس حسن رض نے معاویہ رض کے ھاتھ پر بیعت کی‪.‬‬
‫(اس پر شیعہ کتب کے حوالے ھیں جو خیر طلب صاحب کے بیعت کے انکار پر دیے جائیں گے)‬
‫⏪ نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے چند سال بعد ھی ان کفار پر حملہ کر کے ان کا مقبوضہ عالقہ (مکہ‬
‫مکرمہ وغیرہ) کو فتح کرلیا‪ ،‬اس کے برعکس حسن رض نے ایسا کچھ نہیں کیا‪.‬‬
‫⏪نبی صلی ہللا علیہ وسلم کفار سے وظیفہ نھیں لیتے رھے‪.‬‬
‫اس کے برعکس حسن رض معاویہ رض سے وظیفہ لیتے رھے‪.‬‬
‫اب آپ ھی فیصلہ کریں خیر طلب صاحب کی ایسے عجیب و غریب قیاسات کا‪.‬‬
‫میں پہلے بھی کھہ چکا ھوں کہ جو بھی مثال دیں سوچ کردیں‪).‬‬

‫جواب‪ :‬جن شقوں کا آپ نے ذکر کیا ہے ان میں سے بعض عند النظر ہے جن کی دلیل آپ آئندہ‬
‫پوسٹ میں دیجئے گا تاکہ کالم کیا جائے۔۔ مشبہ اور مشبہ بہ کا قانون تو عام طالب علم بھی جانتا ہے‬
‫کہ اس میں پورے واقعات اور پوری جزئیات کی تفصیل موجود نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص جہت‬
‫سے تشبیہ مراد ہوتی ہے۔۔ اب دیکھئے کہ علماء اہلسنت روایت کو نقل کرتے ہیں اور بعض اس کو‬
‫مقر بھی ہے کہ اہلبیت ع کی مثال سفینہ نوح کی طرح ہے۔۔ اب اگر اس کو آپ کی ظاہری منطق کے‬
‫تحت دیکھیں تو کہیں گے کہ سفینہ نوح تو پانی پر چال‪ ،‬اس میں جانور تھے وغیرہ وغیرہ جب کہ‬
‫اہلبیت ع الزمی بات ہے کہ ایک کشتی (سفینہ) سے بالکل مختلف ہے حقیقت کے اعتبار سے تو کہا‬
‫جائے گا کہ ادھر مثال فقط نجات کے ضمرے میں دی گئی ہے باقی جزئیات میں ایک جیسا ہونا‬
‫ضروری نہیں تو محترم ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ صلح امام حسن ع جو ایک منافق کے ساتھ کی اور‬
‫مکہ جس میں بیت ہللا موجود تھا اس کی حکمرانی کو کافروں کے ہاتھوں ہی رکھا تو اس ہی طرح‬
‫امام حسن ع نے منافق کے ساتھ حاالت خالف ہونے کی وجہ سے بیعت کی اور چونکہ جنگ کرنے‬
‫سے فقط عام مسلمان کا خون ہی گرتا اور معاویہ کی شام والی حکومت کا ذرا بھر بھی نقصان ہوتا‬
‫تو جب مقصد ہی متحقق نہ ہوتا (اس مقصد پر توجہ رکھئے گا) تو صلح کی اور اس کی مثل سابق‬
‫سے دی کہ جب کفار سے صلح ہوسکتی ہے تو بظاہر مسلمان منافق سے کیوں نہیں؟ یہ صلح حدیبیہ‬
‫ہی ایسی تھی کہ اس کی شرائط کو دیکھ کر ایک حضرت تو نبوت پر شک کی خطرناک منزل پر‬
‫بھی پہنچے تو جب اس زمانہ میں لوگ ختمی مرتبت کی صلح نہ سمجھ سکے تو آج فرزند رسول‬
‫ص کی صلح کو کیسے سمجھیں گے‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے جس طرح امام حسن ع کا ایک نظریہ پیش کیا تھا معاویہ‪ ،‬عمرو‬
‫بن عاص وغیرھما کے بارے میں۔ اب اس صلح کے بارے بھی تھوڑی تفصیل سے بات کی جائے‬
‫اور اس کے بارے میں خود امام حسن ع کیا نظریہ رکھتے تھے اور علماء اہلسنت نے اس کو کس‬
‫نظر سے دیکھا آئے‪ ،‬ہم قارئین کے پیش نظر کرتے ہیں اور محترم فخر الزماں صاحب سے جواب‬
‫طلب کرتے ہیں‬

‫حاکم نیشاپوری روایت کرتے ہے‪:‬‬

‫سى‬ ‫ب‪ ،‬ثنا ُمو َ‬ ‫ار ِببَ ْغدَادَ‪ ،‬ثنا أ َحْ َمد ُ بْنُ ُز َھی ِْر ب ِْن َح ْر ٍ‬ ‫ص هف ُ‬
‫ع ْم َر َو ْی ِه ال ه‬ ‫ع ْب ِد ه ِ‬
‫َّللا ب ِْن َ‬ ‫َّللا ُم َح همد ُ بْنُ َ‬
‫ع ْب ِد ه ِ‬‫أ َ ْخبَ َرنَا أَبُو َ‬
‫اْل َما ُم‪ ،‬ثنا‬ ‫ي‪ ،‬ثنا ُم َح همد ُ بْنُ إِ ْس َحاقَ ْ ِ‬ ‫س ِن ْالیَ ْع َم ِر ُّ‬
‫ي‪َ ،‬وأ َ ْخبَ َر ِني أَبُو ْال َح َ‬ ‫ض ِل ْال ُحدهانِ ُّ‬‫بْنُ إِ ْس َما ِعیلَ‪ ،‬ثنا ْالقَا ِس ُم بْنُ ْالفَ ْ‬
‫ي قَالَ‪ :‬قَ َ‬
‫ام‬ ‫الرا ِس ِب ُّ‬
‫از ٍن ه‬ ‫ف بْنُ َم ِ‬ ‫ض ِل‪ ،‬ثنا یُوسُ ُ‬ ‫ي‪ ،‬ثنا أ َبُو دَ ُاودَ‪ ،‬ثنا ْالقَا ِس ُم بْنُ ْالفَ ْ‬ ‫ب زَ ْید ُ بْنُ أ َ ْخزَ َم ه‬
‫الطائِ ُّ‬ ‫أَبُو َ‬
‫طا ِل ٍ‬
‫َّللاُ‪ ،‬فَإ ِ هن َرسُو َل‬ ‫سنُ ‪َ « :‬ال ت ُ َؤ ِّن ْبنِي َر ِح َمكَ ه‬ ‫س ّ ِودَ َوجْ ِه ْال ُمؤْ ِمنِینَ ‪ ،‬فَقَا َل ْال َح َ‬ ‫ي ٍ فَقَالَ‪ :‬یَا ُم َ‬ ‫ع ِل ّ‬
‫س ِن ب ِْن َ‬ ‫َر ُج ٌل إِلَى ْال َح َ‬
‫ط ْینَاكَ‬ ‫ت ِإنها أ َ ْع َ‬ ‫سا َءہُ ذَلِكَ فَنَزَ لَ ْ‬ ‫علَى ِم ْن َب ِر ِہ َر ُج ًال َر ُج ًال‪ ،‬فَ َ‬ ‫سله َم قَدْ َرأَى َب ِني أ ُ َم هیةَ َی ْخطُبُونَ َ‬ ‫صلهى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫َّللا َ‬ ‫هِ‬
‫ش ْھ ٍر‬ ‫ف َ‬ ‫ت ِإنها أ َ ْنزَ ْلنَاہُ فِي لَ ْیلَ ِة ْالقَد ِْر َو َما أَد َْراكَ َما لَ ْیلَةُ ْالقَد ِْر لَ ْیلَةُ ْالقَد ِْر َخی ٌْر ِم ْن أ َ ْل ِ‬‫ْال َك ْوث َ َر نَ َھ ٌر فِي ْال َجنه ِة َونَزَ َل ْ‬
‫يٍ‬
‫ع ِل ّ‬
‫س ِن ب ِْن َ‬ ‫ص ِحی ٌح‪َ ،‬و َھذَا ْالقَائِ ُل ِل ْل َح َ‬ ‫ص» َھذَا إِ ْسنَاد ٌ َ‬ ‫ت َْم ِلكُ َھا بَنُو أ ُ َمیهةَ فَ َح ْسبُنَا ذَلِكَ ‪ ،‬فَإِذَا ھ َُو َال یَ ِزید ُ َو َال یَ ْنقُ ُ‬
‫ب أَبِی ِه "‬
‫اح ُ‬
‫ص ِ‬‫َھذَا ْالقَ ْو َل ھ َُو سُ ْف َیانُ بْنُ الله ْی ِل َ‬

‫یوسف الراسبی راوی کہتا ہے کہ ایک شخص امام حسن ع کے پاس کھڑا ہوا اور کہا کہ اے مومنین‬
‫کے چہرے کو کاال کرنے والے۔ تو امام حسن ع نے جواب دیا کہ مجھ سے ناراض مت ہو‪ ،‬بالشک‬
‫و شبہ رسول ص نے خواب دیکھا کہ بنو امیہ رسول ص کے منبر پر ایک ایک کرکے خطبہ دے‬
‫رہے ہیں تو رسول ہللا ص اس سے غمگین ہوگئے چنانچہ اس موقع پر انا اعطیناک نازل ہوئی اور‬
‫کوثر جنت میں ایک نہر ہے‪ ،‬اور انا انزلناہ فی لیلتہ القدر وما ادراک ما لیلتہ القدر لیلتہ القدر خیر من‬
‫الف شھر بھی نازل ہوئی‪ ،‬جو بنو امیہ حکومت کرے گی تو ہم نے حساب لگایا کہ (اموی حکومت‬
‫کتنی رہی) تو نہ وہ اس ہزار مہینہ سے زیادہ تھی اور نہ ہی کم۔‬

‫حاکم پھر فرماتے ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور یہ شخص کہنے واال سفیان بن لیل ہے‬
‫جو امام حسن ع کے والد کا صحابی تھا۔‬

‫حوالہ‪ :‬المستدرک علی الصحیحین‪ ،‬جلد ‪ ٣‬ص ‪١٨٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-2266#page-5094‬‬

‫تفسیر طبری کے الفاظ بایں ہے‪:‬‬

‫فشق ذلك علیه‪،‬‬ ‫ّ‬ ‫إن رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم أري في منامه بني أمیهة یعلون منبرہ حلیفة خلیفة‪،‬‬
‫نزلنَاہُ فِي لَ ْیلَ ِة ْالقَد ِْر َو َما أَد َْراكَ َما لَ ْیلَةُ ْالقَد ِْر لَ ْیلَةُ ْالقَد ِْر َخی ٌْر ِم ْن‬
‫ط ْینَاكَ ْال َك ْوثَ َر) و ( ِإ هنا أ َ ْ‬
‫فأنزل ہللا‪ِ ( :‬إنها أ َ ْع َ‬
‫ش ْھ ٍر) یعني ملك بني أمیة؛ قال القاسم‪ :‬فحسبنا ُم ْلكَ بني أمیة‪ ،‬فإذا ھو ألف شھر‪.‬‬ ‫أ َ ْل ِ‬
‫ف َ‬

‫(معاویہ سے صلح کے بعد) امام حسن ع نے فرمایا کہ رسول ص نے خواب میں دیکھا کہ بنو امیہ‬
‫رسول ص کے منبر پر ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ ہوکر (یعنی ایک ایک) منبر پر اچھل رہے‬
‫ہیں جو رسول ص پر بہت زیادہ شاق (غم انگیز) گذرا تو خدا نے سورہ کوثر اور سورہ قدر کی آیات‬
‫کو نازل کیا اور ہزار مہینہ سے مراد بنو امیہ (کے دور حکومت) کو قرار دیا‪ ،‬قاسم راوی کہتا ہے‬
‫کہ جب ہم نے حکومت بنو امیہ کو دیکھا تو وہ اتنی ہی وقت پر محیط تھی۔‬

‫حوالہ‪ :‬جامع البیان في تأویل القرآن جلد ‪ ٢٤‬ص ‪٥٣٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-43#page-14425‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫عالمہ جالل الدین سیوطی نے اپنی تفسیر میں اس منبر پر چڑھنے والی روایت کو امام حسن ع کے‬
‫عالوہ صحابی ابن عباس اور تابعی (غالبا) ابن مسیب سے نقل کیا ہے مالحظہ ہو ان کے الفاظ‪:‬‬
‫علَ ْی ِه َوسلم بني أُمیهة على منبرہ‬ ‫سول ہللا صلى ہللا َ‬ ‫عبهاس قَالَ‪ :‬رأى َر ُ‬ ‫عن ابْن َ‬ ‫َطیب فِي ت َِاریخه َ‬ ‫َوأخرج ْالخ ِ‬
‫فساءہ ذَ ِلك فَأوحى ہللا ِإلَ ْی ِه ِإنه َما ھ َُو ملك یصیبونه َونزلت { ِإنها أَنزَ ْلنَاہُ فِي لَ ْیلَة ْالقدر َو َما أَد َْراك َما لَ ْیلَة ْالقدر‬
‫َل ْی َلة ْالقدر خیر من ألف شھر}‬
‫علَ ْی ِه َوسلم‪ :‬أ َ َرأَیْت بني أُمیهة یصعدون‬ ‫سول ہللا صلى ہللا َ‬ ‫عن ابْن ْالمسیب قَالَ‪ :‬قَا َل َر ُ‬ ‫َطیب َ‬ ‫َوأخرج ْالخ ِ‬
‫ي فَأ ْنزل ہللا { ِإنها أَنزَ ْلنَاہُ فِي لَ ْیلَة ْالقدر}‬
‫منبري فشق ذَ ِلك عل ّ‬

‫حوالہ‪ :‬الدر المنثور جلد ‪ ٨‬ص ‪٥٦٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12884#page-7188‬‬

‫آخر میں ہم سنن ترمذی میں جو یہ روایت آئی ہے جس میں امام حسن ع کا کالم موجود ہے اس‬
‫روایت کے تمام راویان ثقہ ہیں اور سند بایں ہے‪:‬‬

‫ي‪،‬‬ ‫ي‪ ،‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا القَا ِس ُم بْنُ الفَ ْ‬


‫ض ِل ال ُحدهانِ ُّ‬ ‫غ ْیالَنَ ‪ ،‬قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا أَبُو دَ ُاودَ ه‬
‫الطیَا ِل ِس ُّ‬ ‫‪َ - 3350‬حدهثَنَا َمحْ ُمود ُ بْنُ َ‬
‫س ْعدٍ‪ ،‬قَالَ‪:‬‬
‫ف ب ِْن َ‬ ‫ع ْن یُوسُ َ‬
‫َ‬

‫حوالہ‪ :‬سنن الترمذی‪ ،‬رقم ‪ ،٣٣٥٠‬جلد ‪ ٥‬ص ‪٣٠١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-7895#page-6031‬‬

‫اور اس روایت کے تمام راویان ثقہ ہیں۔۔ عموما یوسف بن سعد پر ترمذی کا مجہول ہونے کا‬
‫اعتراض کیا گیا ہے لیکن یہ باطل ہے کیونکہ دیگر اہلسنت علماء کے نزدیک یہ ثقہ راوی ہے۔ اور‬
‫جب راوی معروف ہو تو پھر مجہول ہونے کا حکم باطل ہوجاتا ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ناظرین آپ نے دیکھا کہ کس طرح بنو امیہ کو حکومت کا تسلط مال‪ ،‬اور اس پر رسول ص‬
‫کتنا غمگین ہوئے۔ اگر امام حسن ع واقعی معاویہ کو خلیفہ شرعی سمجھتے تھے تو پھر یہ قدح و‬
‫تنقیص کیوں؟ اور ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ معاویہ کے بارے میں امام حسن ع کا کیا نظریہ تھا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫×معاویہ کی صلح غلط نیت پر مشتمل تھی×‬

‫ناظرین معاویہ کی امام حسن ع جو صلح ہوئی تھی اس میں اس کی نیت میں واضح خلل تھا اور یہ‬
‫میرا کالم نہیں بلکہ اس پر ہم اہلسنت علماء کے اقوال پیش کریں گے۔‬

‫جناب حذیفہ رضی ہللا عنہ کی ایک مشہور حدیث اہلسنت نے نقل کی ہے جن میں فتنوں کا ذکر‬
‫موجود ہے اور اس میں یہ الفاظ روایت موجود ہے‪:‬‬
‫ع ْن خَا ِل ِد‬
‫اص ٍم‪َ ،‬‬
‫ع ِ‬ ‫ع ْن قَت َادَة َ‪ ،‬عَ ْن نَ ْ‬
‫ص ِر ب ِْن َ‬ ‫ع ْن َم ْع َم ٍر‪َ ،‬‬
‫ق‪َ ،‬‬‫الر هزا ِ‬
‫ع ْبد ُ ه‬ ‫ار ٍس‪َ ،‬حدهثَنَا َ‬‫َحدهثَنَا ُم َح همد ُ بْنُ یَحْ یَى ب ِْن فَ ِ‬
‫علَى أ َ ْقذَاءٍ ‪َ ،‬وھُدْنَةٌ َ‬
‫علَى دَخ ٍَن»‬ ‫ْف‪ ،‬قَالَ‪َ « :‬ب ِقیهةٌ َ‬ ‫ث قَالَ‪ :‬قُ ْلتُ ‪َ :‬ب ْعدَ ال ه‬
‫سی ِ‬ ‫يِ‪ِ ،‬ب َھذَا ْال َحدِی ِ‬
‫ب ِْن خَا ِل ٍد ْال َی ْشكُ ِر ّ‬

‫خالد بن خالد یشکری سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ حذیفہ رضی ہللا عنہ نے کہا‪ :‬میں‬
‫نے عرض کیا‪ :‬پھر تلوار کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪” :‬باقی لوگ رہیں گے‬
‫مگر دلوں میں ان کے فساد ہو گا‪ ،‬اور ظاہر میں صلح ہو گی“‬

‫حوالہ‪ :‬سنن ابی داؤد جلد ‪ ٤‬س ‪٩٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1726#page-5857‬‬

‫اس روایت کو البانی نے حسن کہا ہے۔‬

‫اس روایت میں جو الفاظ ہیں‪َ :‬وھُدْنَةٌ َ‬


‫علَى دَ َخ ٍن (جس کا ترجمہ یوں کیا گیا‪ :‬دلوں میں ان کے فساد ہو‬
‫گا‪ ،‬اور ظاہر میں صلح ہو گی)‬

‫مشکوتہ میں جو ترجمہ کیا گیا وہ یوں تھا‪ :‬آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کدورت پر صلح‬
‫ہوگی یعنی اس وقت لوگ ظاہر میں تو صلح صفائی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن ان کے باطن‬
‫میں کدورت ہوگی‬

‫دیکھئے‪/http://www.hadithurdu.com/09/9-4-1328 :‬‬

‫علی کل حال ترجمہ واضح ہے کہ دل میں کچھ اور ظاہر میں کچھ ہے اور یہی بات ابن اثیر نے‬
‫النھایہ میں کہی‪:‬‬

‫ومنه الحدیث ھدنة على دخن أي على فساد واختالف ‪ ،‬تشبیھا بدخان الحطب الرطب لما بینھم من الفاسد‬
‫الباطن تحت الصالح الظاھر‬

‫(ملخص) حدیث کے اس جملہ ھدنة على دخن میں تشبیہ بلیغ ہے کہ اس کے باطن میں فساد ہوگا‬
‫(یعنی غلط نیت ہے) اور ظاہر میں صلح اگرچہ کررہے ہوں گے۔‬

‫حوالہ‪ :‬النھایتہ تحت دخن جلد ‪ ٢‬ص ‪١٠٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-23691#page-577‬‬

‫چنانچہ فتنہ کی جو نشانی بتائی گئی تھی اور اس میں کچھ شریر لوگوں کے کردار کی طرف اشارہ‬
‫تھا اس کے مصداق کی طرف آتے ہیں۔‬
‫‪Khair Talab‬‬

‫الف‪ ،‬شاہ ولی ہللا فرماتے ہے‪:‬‬

‫وھدنة على دخن ‪ :‬الصلح الذي وقع بین معاویة والحسن بن علي رضي ہللا عنھما‬

‫ترجمہ‪ :‬الفاظ حدیث‪ :‬اور دلوں میں ان کے فساد ہو گا‪ ،‬اور ظاہر میں صلح ہو گی سے مراد معاویہ‬
‫اور حسین بن علی رضی ہللا عنھما کے درمیان جو صلح ہوئی ہے ادھر اشارہ ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬حجة ہللا البالغة جلد ‪ ٢‬ص ‪ ٣٣٠‬ناشر دار الجیل۔‬

‫پی ڈی ایف ڈانلوڈ کریں‪https://ia601307.us.archive.org/.../FP75368/02_75369.pdf :‬‬

‫سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہم نے مکتبہ شاملہ واال ایڈیشن استعمال کیوں نہیں کیا تو ہم افسوس کے‬
‫ساتھ کہتے ہیں کہ یہ پوری عبارت ہی شاملہ والے ایڈیشن سے عمدا اڑادی یا سہوا اڑ گئی ہے۔‬

‫دیکھئے آن الئن کتاب‪http://shamela.ws/browse.php/book-773#page-616 :‬‬

‫ب‪ ،‬پیر مہر علی شاہ صاحب بھی اس روایت کے اس جملہ کا مصداق معاویہ کے زمانہ کو ہی قرار‬
‫دیتے ہیں‪:‬‬

‫چنانچہ در زمانہ امیر معاویہ رض در حدیث ھدنة على دخن ہمیں معنی دارد‬

‫حوالہ‪ :‬فتاوی مہریہ ص ‪ ،٢١٢‬زیر‪ :‬شیعہ حضرات کے چند سواالت کے جوابات۔‬

‫دیکھئے پی ڈی ایف‪...https://ia902700.us.archive.org/.../Fatawa%20Maharia%20by :‬‬

‫د‪ ،‬ابن تیمیہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫والخیر الثاني اجتماع الناس لما اصطلح الحسن ومعاویة لكن كان صلحا على دخن‬

‫اور دوسری خبر اس عنوان سے ہے کہ جب تمام لوگ جمع ہوئے جب امام حسن نے معاویہ سے‬
‫صلح کی البتہ وہ صلح دخن (یعنی ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور) پر مشتمل تھی۔‬

‫حوالہ‪ :‬منھاج السنتہ جلد ‪ ١‬ص ‪٥٦٠‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-927#page-558‬‬
‫‪Khair Talab‬‬

‫× معاویہ کا امام حسن ع کی موت کو مصیبت نہ سمجھنا×‬

‫ناظرین آئے ہم سنن ابی داؤد کی روایت نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫ع ْن خَا ِل ٍد قَا َل َوفَدَ ْال ِم ْقدَا ُم بْنُ‬ ‫یر َ‬ ‫ع ْن َب ِح ٍ‬ ‫ى َحدهثَنَا َب ِقیهةُ َ‬ ‫ص ُّ‬‫س ِعی ٍد ْال ِح ْم ِ‬ ‫ع ْم ُرو بْنُ عُثْ َمانَ ب ِْن َ‬ ‫‪َ - 4133‬حدهثَنَا َ‬
‫س ٍد ِم ْن أ َ ْھ ِل قِنهس ِْرینَ ِإلَى ُم َعا ِویَةَ ب ِْن أ َ ِبى سُ ْفیَانَ فَقَا َل ُم َعا ِویَةُ‬ ‫ع ْم ُرو بْنُ اْلَس َْو ِد َو َر ُج ٌل ِم ْن بَنِى أ َ َ‬ ‫ب َو َ‬ ‫َم ْعدِی َك ِر َ‬
‫صیبَةً قَا َل لَهُ َو ِل َم الَ أ َ َراھَا‬ ‫ى فَ َر هج َع ْال ِم ْقدَا ُم فَقَا َل لَهُ َر ُج ٌل أَت ََراھَا ُم ِ‬ ‫ى ت ُ ُو ِفّ َ‬ ‫علِمْتَ أ َ هن ْال َحسَنَ بْنَ َ‬
‫ع ِل ٍ ّ‬ ‫ِل ْل ِم ْقدَ ِام أ َ َ‬
‫ى »‪ .‬فَقَا َل‬ ‫سی ٌْن ِم ْن َ‬
‫ع ِل ٍ ّ‬ ‫جْر ِہ فَقَا َل « َھذَا ِمنِّى َو ُح َ‬ ‫َّللا ‪-‬صلى ہللا علیه وسلم‪ -‬فِى ِح ِ‬ ‫ض َعهُ َرسُو ُل ه ِ‬ ‫صی َبةً َوقَدْ َو َ‬ ‫ُم ِ‬
‫ظكَ َوأُس ِْمعَكَ َما ت َ ْك َرہُ‪.‬‬ ‫ع هز َو َجله‪ .‬قَا َل فَقَا َل ْال ِم ْقدَا ُم أ َ هما أَنَا فَالَ أَب َْر ُح ْالیَ ْو َم َحتهى أ ُ ِغی َ‬ ‫طفَأَھَا ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫ى َج ْم َرة ٌ أ َ ْ‬ ‫اْل َ َ‬
‫س ِد ُّ‬
‫اَّلل ھ َْل ت َ ْعلَ ُم أ َ هن‬
‫ص ِدّ ْق ِنى َو ِإ ْن أَنَا َكذَبْتُ فَ َك ِذ ّ ْب ِنى قَا َل أ َ ْف َعلُ‪ .‬قَا َل فَأ َ ْنشُد ُكَ ِب ه ِ‬ ‫صدَ ْقتُ فَ َ‬ ‫ث ُ هم قَا َل َیا ُم َعا ِو َیةُ ِإ ْن أَنَا َ‬
‫س ِمعْتَ َرسُو َل ه ِ‬
‫َّللا ‪-‬‬ ‫اَّلل ھ َْل َ‬ ‫ب قَا َل نَ َع ْم‪ .‬قَا َل فَأ َ ْنشُد ُكَ ِب ه ِ‬ ‫ع ْن لُب ِْس الذه َھ ِ‬ ‫َّللا ‪-‬صلى ہللا علیه وسلم‪ -‬نَ َھى َ‬ ‫َرسُو َل ه ِ‬
‫َّللا ‪-‬صلى ہللا‬ ‫اَّلل ھ َْل ت َ ْعلَ ُم أ َ هن َرسُو َل ه ِ‬ ‫یر قَا َل نَعَ ْم‪ .‬قَا َل فَأ َ ْنشُد ُكَ بِ ه ِ‬ ‫ع ْن لُب ِْس ْال َح ِر ِ‬ ‫صلى ہللا علیه وسلم‪ -‬یَ ْن َھى َ‬
‫َّللا لَقَدْ َرأَیْتُ َھذَا كُلههُ ِفى َب ْیتِكَ َیا‬ ‫علَ ْی َھا قَا َل نَ َع ْم‪ .‬قَا َل فَ َو ه ِ‬ ‫ب َ‬ ‫الركُو ِ‬ ‫س َباعِ َو ُّ‬ ‫ع ْن لُب ِْس ُجلُو ِد ال ِ ّ‬ ‫علیه وسلم‪ -‬نَ َھى َ‬
‫احبَ ْی ِه‬ ‫ص ِ‬ ‫ع ِل ْمتُ أَنِّى لَ ْن أ َ ْن ُج َو ِم ْنكَ یَا ِم ْقدَا ُم قَا َل خَا ِلد ٌ فَأ َ َم َر لَهُ ُم َعا ِویَةُ ِب َما لَ ْم یَأ ْ ُم ْر ِل َ‬ ‫ُم َعا ِویَةُ‪ .‬فَقَا َل ُم َعا ِویَةُ قَدْ َ‬
‫ش ْیئ ًا ِم هما أ َ َخذ َ فَبَلَ َغ ذَلِكَ‬ ‫ى أ َ َحدًا َ‬ ‫ص َحابِ ِه قَا َل َولَ ْم یُ ْع ِط اْل َ َ‬
‫س ِد ُّ‬ ‫ض ِال ْبنِ ِه فِى ْال ِمائَتَی ِْن فَفَ هرقَ َھا ْال ِم ْقدَا ُم فِى أ َ ْ‬ ‫َوفَ َر َ‬
‫ش ْیئِ ِه‪.‬‬
‫اك ِل َ‬ ‫س ِ‬‫اْل ْم َ‬‫سنُ ِ‬ ‫ى فَ َر ُج ٌل َح َ‬ ‫س ِد ُّ‬‫ط َیدَہُ َوأ َ هما اْل َ َ‬ ‫س َ‬‫ُم َعا ِو َیةَ فَقَا َل أ َ هما ْال ِم ْقدَا ُم فَ َر ُج ٌل َك ِری ٌم َب َ‬

‫(ترجمہ ایک سنی ویب سائٹ سے)خالد کہتے ہیں مقدام بن معدی کرب‪ ،‬عمرو بن اسود اور بنی اسد‬
‫کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان رضی ہللا عنہما کے پاس آئے‪ ،‬تو‬
‫معاویہ رضی ہللا عنہ نے مقدام سے کہا‪ :‬کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی ہللا عنہما کا‬
‫انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر «انا ہلل وانا الیه راجعون» پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا‪ :‬کیا‬
‫آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا‪ :‬میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا‪ ،‬اور فرمایا‪” :‬یہ میرے مشابہ ہے‪ ،‬اور‬
‫حسین علی کے“ ۔ یہ سن کر اسدی نے کہا‪ :‬ایک انگارہ تھا جسے ہللا نے بجھا دیا تو مقدام نے کہا‪ :‬آج‬
‫میں آپ کو ناپسندیدہ بات سنائے‪ ،‬اور ناراض کئے بغیر نہیں رہ سکتا‪ ،‬پھر انہوں نے کہا‪ :‬معاویہ!‬
‫اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کریں‪ ،‬اور اگر میں جھوٹ کہوں تو جھٹال دیں‪ ،‬معاویہ بولے‪:‬‬
‫میں ایسا ہی کروں گا۔ مقدام نے کہا‪ :‬میں ہللا کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں‪ :‬کیا آپ کو معلوم‬
‫ہے کہ رسو ل ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ معاویہ نے کہا‪ :‬ہاں۔ پھر‬
‫کہا‪ :‬میں ہللا کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں‪ :‬کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ کہا‪ :‬ہاں معلوم ہے‪ ،‬پھر کہا‪ :‬میں ہللا کا واسطہ دے‬
‫کر آپ سے پوچھتا ہوں‪ :‬کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے درندوں کی کھال‬
‫پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ کہا‪ :‬ہاں معلوم ہے۔ تو انہوں نے کہا‪ :‬معاویہ! قسم‬
‫ہللا کی میں یہ ساری چیزیں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں؟ تو معاویہ نے کہا‪ :‬مقدام! مجھے معلوم‬
‫تھا کہ میں تمہاری نکتہ چینیوں سے بچ نہ سکوں گا۔ خالد کہتے ہیں‪ :‬پھر معاویہ نے مقدام کو اتنا‬
‫مال دینے کا حکم دیا جتنا ان کے اور دونوں ساتھیوں کو نہیں دیا تھا اور ان کے بیٹے کا حصہ دو‬
‫سو والوں میں مقرر کیا‪ ،‬مقدام نے وہ سارا مال اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا‪ ،‬اسدی نے اپنے مال میں‬
‫سے کسی کو کچھ نہ دیا‪ ،‬یہ خبر معاویہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا‪ :‬مقدام سخی آدمی ہیں جو اپنا ہاتھ‬
‫کھال رکھتے ہیں‪ ،‬اور اسدی اپنی چیزیں اچھی طرح روکنے والے آدمی ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬سنن ابی داؤد جلد ‪ ٤‬ص ‪ ٦٨‬رقم ‪٤١٣١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1726#page-5706‬‬

‫اس روایت کو البانی نے صحیح کہا ہے۔‬

‫ناظرین اس روایت کا اہم جملہ جس میں یہ آیا ہے‪:‬‬

‫فَقَا َل لَهُ َر ُج ٌل أَت ََراھَا ُم ِ‬


‫صیبَ ًة‬
‫ان سے ایک شخص نے کہا‪ :‬کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫سوچئے کتنا بدبخت انسان ہے کہ جس نے امام حسن ع کی مصیبت پر یہ سوال داغا کہ کیا یہ بھی‬
‫مصیبت ہے‪ ،‬کیا اہلبیت ع کے گھر کا چراغ شہید ہوجائے اور وہ جنت کے جوانوں کا سردار ہو اور‬
‫اس پر پوچھا جارہا ہے کہ کیا یہ بھی مصیبت ہے؟‬

‫اب دیکھئے کہ وہ شخص کون تھا آئے مسند احمد کی روایت کو دیکھتے ہیں‪:‬‬

‫ع ْن خَا ِل ِد ب ِْن َم ْعدَانَ ‪ ،‬قَالَ‪َ :‬وفَدَ ْال ِم ْقدَا ُم‬ ‫س ْعدٍ‪َ ،‬‬ ‫یر بْنُ َ‬ ‫ْح‪َ ،‬حدهثَنَا َب ِقیهةُ‪َ ،‬حدهثَنَا َب ِح ُ‬
‫ش َری ٍ‬‫‪َ - 17189‬حدهثَنَا َحی َْوة ُ بْنُ ُ‬
‫ي؟‬ ‫ي ٍ ت ُ ُو ِفّ َ‬
‫ع ِل ّ‬ ‫علِمْتَ أ َ هن ْال َح َ‬
‫سنَ بْنَ َ‬ ‫ع ْم ُرو بْنُ ْاْلَس َْو ِد إِلَى ُمعَا ِویَةَ‪ ،‬فَقَا َل ُمعَا ِویَةُ ِل ْل ِم ْقدَ ِام‪ :‬أ َ َ‬ ‫ب َو َ‬ ‫بْنُ َم ْعدِي َك ِر َ‬
‫صلهى ہللاُ‬ ‫ضعَهُ َرسُو ُل ہللاِ َ‬ ‫صیبَةً َوقَدْ َو َ‬ ‫صیبَةً؟ فَقَالَ‪َ :‬و ِل َم َال أ َ َراھَا ُم ِ‬ ‫فَ َر هج َع ْال ِم ْقدَا ُم‪ ،‬فَقَا َل لَهُ ُمعَا ِویَةُ‪ :‬أَت ُ َراھَا ُم ِ‬
‫يٍ‬ ‫سی ٌْن ِم ْن َ‬
‫ع ِل ّ‬ ‫جْرہِ‪َ ،‬وقَالَ‪َ " :‬ھذَا ِمنِّي َو ُح َ‬ ‫سله َم فِي ِح ِ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬
‫َ‬

‫حوالہ‪ :‬مسند احمد بن حنبل‪ ،‬جلد ‪ ٢٨‬ص ‪٤٢٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-25794#page-13726‬‬

‫آئے ہم صاحب عون المعبود کا تبصرہ دیکھتے ہے وہ ان الفاظ کے بارے میں فرماتے ہے‪:‬‬

‫( أتعدھا ) وفي بعض النسخ أتراھا أي أنعد یا أیھا المقدام حادثة موت الحسن رضي ہللا تعالى عنه‬
‫مصیبة والعج ب كل العجب من معاویة فإنه ما عرف قدر أھل البیت حتى قال ما قال فإن موت الحسن بن‬
‫علي رضي ہللا عنه من أعظم المصائب وجزى ہللا المقدام ورضي عنه فإنه ما سكت عن تكلم الحق حتى‬
‫أظھرہ وھكذا شأن المؤمن الكامل المخلص‬
‫اتعدھا اور بعض نسخوں میں اتراھا ایا ہے یعنی اے مقدام کیا ہم اس امام حسن رضی ہللا عنہ کی‬
‫موت کے واقعہ کو مصیبت بھی تصور کریں اور یہ بہت ہی عجیب بات معاویہ نے کی‪ ،‬اور بالشبہ‬
‫وہ اہلبیت کی قدر نہیں جانتا ورنہ ایسا نہیں کہتا جو اس نے کہا کیونکہ بتحیق امام حسن بن علی‬
‫رضی ہللا عنہ کی وفات سب سے عظیم مصیبتوں میں سے ایک ہے‪ ،‬اور ہللا تعالی جزا دے مقدام کو‬
‫اور ان سے راضی ہو کہ بال شبہ وہ حق گوئی میں خاموش نہ رہے بلکہ اس کو بیان کیا اور یہی‬
‫ایک مخلص اور کامل مومن کی شان کے الئق ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬عون المعبود جلد ‪ ١١‬ص ‪١٢٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-5760#page-3704‬‬

‫ثابت ہوا کہ معاویہ نے ادھر جس حرکت سے کام لیا اس پر جتنی بھی برات اس جیسے سے کی‬
‫جائے وہ کم ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬قارئین اور محترم فخر الزماں صاحب اگر مودت اہلبیت ع کے دعویدار ہے تو کم سے کم‬
‫معاویہ سے تو برات کیجئے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫ناظرین آپ کو یاد ہوگا کہ امام حسن ع کا عدم جنگ کرنے کے بارے میں ہم نے ابن عمر کے‬
‫حوالے سے ایک الزامی جواب دیا تھا جس میں معاویہ نے ابن عمر اور ان کے والد پر چوٹ ماری‬
‫تھی اور روایت کچھ یوں تھی‪:‬‬

‫روایت بخاری‪ :‬ابن ع مر نے بیان کیا کہ میں حفصہ کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی‬
‫کے قطرات ٹپک رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو‬
‫کچھ بھی حکومت نہیں ملی ۔ حفصہ نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار‬
‫کر رہے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے ۔ آخر حفصہ‬
‫کے اصرار پر عبدہللا بن عمر گئے ۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ نے خطبہ دیا اور‬
‫کہا کہ خالفت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔ یقینا ً ہم اس سے زیادہ‬
‫خال فت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ ۔ حبیب بن مسلمہ نے ابن عمر سے اس پر کہا‬
‫کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبدہللا بن عمر نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی‬
‫کھولی ( جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خالفت کا‬
‫حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسالم کے لیے جنگ کی تھی ۔ لیکن پھر میں‬
‫ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختالف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور‬
‫میری بات کا مطلب میری منشا کے خالف نہ لیا جانے لگے ۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ‬
‫تعالی نے ( صبر کرنے والوں کے لیے ) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔‬ ‫ٰ‬ ‫نعمتیں یاد آ گئیں جو ہللا‬

‫اس میں واضح تھا کہ ابن عمر کا عدم تعارض کرنا جب کہ ابن عمر سناٹا ہوا جواب دینا چارہے‬
‫تھے اس پر محترم نے کچھ اشکاالت وارد کئے‪ ،‬آئے ان اعتراضات کو نقل کرتے ہیں اور ان کے‬
‫جوابات دیتے ہیں۔‬

‫(فخر‪:‬ناب آپ نے خیر طلب صاحب کا کمنٹ پڑھا ھوگا‪ ،‬اب میں خیر طلب صاحب سے پوچھنا‬
‫چاہوں گا کہ میں نے کب اور کہاں لکھا تھا کہ معاویہ رض خلیفہ بننے سے سب سے افضل ھوگئے‬
‫جو جناب نے یہ لکھ دیا کہ‬

‫"اگر آپ کی دلیل پرعلیل کو لیا جائے تو ھمیں ماننا پ ڑے گا کہ معاویہ ابن عمر اور عمر بن الخطاب‬
‫سے افضل ہے"‪.‬‬
‫اور آگے بخاری کی ابن عمر رض والی روایت بھیج دی‪.‬‬
‫مجھے تو سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیوں کیا انھوں نے‪ ،‬خود ھی بتائیں جناب‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬محترم ادھر بات معاویہ کے مفضول ہونے کی نہیں بلکہ معاویہ کے اس جملہ کو دیکھئے‪:‬‬

‫ب ُمعَا ِویَةُ قَالَ‪َ :‬م ْن َكانَ ی ُِرید ُ أ َ ْن یَت َ َكله َم في ھذا اْل َ ْم ِر فَلْی ْ‬
‫ُط ِل ْع لَنَا قَ ْرنَهُ‪ ،‬فَلَنَحْ نُ أ َ َح ُّق بِ ِه ِم ْنهُ َو ِم ْن أ َ ِبي‬ ‫َخ َ‬
‫ط َ‬

‫معاویہ نے خطبہ دیا اور کہا خالفت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔‬
‫یقینا ً ہ م اس سے زیادہ خالفت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ‬

‫ادھر بات آپ کے ماننے یا نہ ماننے پر نہیں بلکہ معاویہ کا بلند بال دعوی دیکھیں کہ وہ اپنے آپ کو‬
‫خالفت کا حقدار سمجھتا تھا اور عمر اور ابن عمر سے زیادہ الئق اور حقدار سمجھتا تھا‪ ،‬اس کے‬
‫بارے میں اتنی آرام سے جانے نہیں دوں گا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،١‬کرمانی اس روایت کے بارے میں کہتے ہے‪:‬‬

‫وھذا تندید منه بابن عمر وعمر رضي ہللا عنھما‬

‫اور یہ معاویہ کی طرف سے ابن عمر اور عمر رضی ہللا عنھما کی مخالفت کی۔‬

‫حوالہ‪ :‬الكواكب الدراري في شرح صحیح البخاري جلد ‪ ١٦‬ص ‪ ٣٣‬اور ‪٣٤‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-13605#page-3367‬‬

‫‪ ،٢‬عینی حنفی اس روایت کے بارے میں کہتے ہے‪:‬‬

‫ضي ہللا تَعَالَى َ‬


‫ع ْن ُھ َما‬ ‫َو َھذَا ت َ ْع ِریض ِم ْنهُ بِابْن عمر َوعمر‪َ ،‬ر ِ‬
‫یہ معاویہ کی طرف سے ابن عمر اور عمر کے اوپر تعریض (یعنی چھپا ہوا طعنہ) تھا۔‬

‫حوالہ‪ :‬عمدة القاري شرح صحیح البخاري جلد ‪ ١٧‬ص ‪١٨٥‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-5756#page-5133‬‬

‫‪ ،٣‬عالمہ قسطالنی کہتے ہے‪:‬‬

‫ضا بابن عمر وأبیه‬


‫معر ً‬
‫(خطب معاویة قال)‪ّ :‬‬

‫(روایت کا جملہ معاویہ نے خطبہ میں کہا)‪ :‬یعنی ادھر ابن عمر اور عمر پر طعنہ مارنا تھا۔‬

‫حوالہ‪ :‬إرشاد الساري لشرح صحیح البخاري جلد ‪ ٦‬ص ‪٣٢٤‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-2666‬‬

‫‪ ،٤‬عالمہ کورانی حنفی کہتے ہے‪:‬‬

‫(فلنحن أحق به منه ومن أبیه) ھذہ زلة من معاویة فإن من الحاضرین ابن عمرو وابن أبي بكر‬

‫(روایت کا جملہ کہ معاویہ کا کہنا میں اس سے اور اس کے باپ سے زیادہ خالفت کا حقدار ہوں)‬
‫ادھر معاویہ پھسل کیا کیونکہ سننے والے حاضرین میں عمر اور ابوبکر کے بیٹے بھی تھے۔‬

‫حوالہ‪ :‬الكوثر الجاري إلى ریاض أحادیث البخاري جلد ‪ ٧‬ص ‪٢١٠‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-16584#page-3199‬‬

‫‪ ،٥‬عالمہ شمس الدین برماوی کہتے ہے‪:‬‬

‫تعریض منه بابن عُمر‪ ،‬وعُمر ‪ -‬رضي ہللا عنھما‬


‫ٌ‬ ‫وھذا‬

‫یہ معاویہ نے ابن عمر اور عمر رضی ہللا عنھما پر چھپا طعنہ مارا ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬الالمع الصبیح بشرح الجامع الصحیح جلد ‪ ١١‬ص ‪١٧٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-18103#page-5354‬‬
‫ان پانچ عدد علماء کے بعد یہ کہنا کہ معاویہ مفضول تھے کافی نہیں بلکہ معاویہ اپنے آپ کو افضل‬
‫سمجھتا تھا اور عمر اور ابن عمر کے اوپر طعن مارتا‪ ،‬ان کی مخالفت کرتا اور سر عام یہ بات‬
‫کرتا‪ ،‬اس کے باوجود ابن عمر خاموش رہے‪ ،‬جو وجہ ادھر تھی وہی ادھر سمجھئے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫پھر محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬حسن رض کو جس فتنے کے ڈر سے خاموش رھنا جناب نے لکھا ہے وہ کوئی معقول وجہ‬
‫نھیں کسی دشمن دین‪ ،‬منافق‪ ،‬علی رض کو گالیاں دینے اور دلوانے والے سے جنگ نہ کرنے اور‬
‫اس کو اسالمی حکومت کی سربراہی دینے کی‪.‬‬
‫⏪ پہلی بات تو یہ کہ عام بے گناہ مسلمان کیسے شھید ھوتے جب وہ جنگ میں شریک ھی نہ ھوتے‬
‫تو؟ آپ بتانا پسند کریں گے کہ بے گناہ لوگ کیسے شھید ھوتے؟‬
‫⏪ بقول آپ کے حسن رض کی فوج جنگ کے لیے تیار نہیں تھی‪ ،‬تو یہ ثابت ھوا کہ سیدنا حسن‬
‫رض کے شیعوں نے ان کو دھوکا دیا اور مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیا‪.‬‬
‫⏪ اگر آپ یہ کھیں کہ جو جنگ میں شریک ھوتا وہ شھید ھوتا‪،‬‬
‫تو میں کھونگا کہ ایسا تو سیدنا علی رض نے بھی کیا جمل و صفین میں‪ .‬تو کیا سیدنا علی رض نے‬
‫فتنہ کھڑا کیا تھا جنگ لڑ کر‪ ،‬اور بے گناہ لوگوں کو مروایا تھا؟‬
‫⏪ کیا منافق کے ساتھ جنگ ھو اور مسلمان شھید ھوں تو اس کو فتنہ کھا جائے گا ؟‬
‫کیا نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے کفار سے جنگ کر کے بے گناہوں کو میدان جنگ میں شہید‬
‫کروایا نعوذ باہلل )‬

‫جواب‪ :‬محترم اس کا جواب دینے سے پہلے میں بتاتا چلوں کہ اگر حاکم مصلحت کے موافق‬
‫سمجھے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کفار تک سے صلح کرے‪ ،‬دیکھئے حکم اولی کے طور پر‬
‫کفار سے جنگ ہے لیکن اگر امام اور حاکم مصلحت دیکھے تو وہ صلح بھی کرسکتا ہے۔‬

‫عالمہ خازن کہتے ہے‪:‬‬

‫إذا كان فیه مصلحة ظاھرة فإن رأى اْلمام أن یصالح أعداءہ من الكفار وفیه قوة فال یجوز أن یھادنھم‬
‫سنة كاملة وإن كانت القوة للمشركین جاز أن یھادنھم عشر سنین وال تجوز الزیادة علیھا اقتداء برسول‬
‫ہللا صلى ہللا علیه وسلم فإنه صالح أھل مكة مدة عشر سنین ثم إنھم نقضوا العھد قبل انقضاء المدة‪.‬‬

‫اگر کوئی ظاہری مصلحت ہو اور امام دشمنوں سے مصالحت کرنا چاہے اور امام کے پاس قوت بھی‬
‫ہو تو پورے ایک سال سے زیادہ نہ کرے‪ ،‬لیکن اگر مشرکین کے پاس قوت و شوکت ہو تو امام کے‬
‫لئے جائز ہے کہ ان کے ساتھ دس سال تک کرسکتا ہے البتہ اس سے زیادہ جائز نہیں کیونکہ رسول‬
‫ہللا ص نے اہل مکہ سے دس سال کی مصالحت کی تی‪ ،‬جو اہل مکہ نے اس مدت کے پورے ہونے‬
‫سے پہلے ہی توڑ دی۔‬
‫حوالہ‪ :‬لباب التأویل في معاني التنزیل جلد ‪ ٢‬ص ‪٣٢٤‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-23628#page-774‬‬

‫تو اب یہ تمام قیل قاال جو آپ نے کی اس کا یہی اصولی جواب ہے کہ امام حسن ع نے اس میں‬
‫مصلحت سمجھی اور شرط عائد کی تھی کہ معاویہ کے بعد وہ خود حکومت سنبھالیں گے تو یوں‬
‫ایسے کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔۔ امام حسن ع کی جو فوج تھی جس میں اس زمانہ کے مذھب‬
‫کے حامل (جس میں اکثر اہلسنت عقائد شوری رکھتے تھے) موجود تھے تو انہوں نے دغا دی تو‬
‫اس صورت میں جب فوج ہی لڑنے پر تیار نہ تھی تو لڑکر فقط خون ہی گرنا تھا اور کامیابی نہ‬
‫ہوتی تو صلح سے کام لیا گیا۔ باقی پرانی مثالیں دینا اس وقت صحیح ہوتا جب دونوں ظروف ایک‬
‫ہوتے۔ اس پر تو دلیل دینا بھی بیکار ہے کہ جہاد کے خود الگ احکامات ہیں۔ اور جب استطاعت‬
‫ہوگی تو جہاد واجب ہوجائے گا۔ جب شرط ہی فاقد تو مشروط بھی فارغ۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،١٥‬امام حسن ع کا معاویہ‪ ،‬عمرو بن عاص اور مغیرہ کی حقیقت کو طشت از بام کرنا اور اس پر‬
‫ایرادات کے جوابات۔‬

‫ناظرین ہم نے ایک روایت نقل کی تھی جو یوں تھی‪:‬‬

‫عمرو بن عاص منبر پر بیٹھا ہے اور امیر المؤمنین کا ذکر کیا اور پھر ان کی تنقیص کی اور پھر‬
‫مغیرہ بن شبعہ منبر پر آیا اور ہللا کی حمد اور تعریف کی‪ ،‬اور علی رضی ہللا عنہ کی تنقیص کی۔‬
‫اور پھر امام حسن ع سے کہا گیا کہ آپ بھی منبر پر بیٹھیں تو امام حسن ع نے کہا میں منبر پر اس‬
‫وقت تک نہیں بیٹھوں گا اور کالم کروں جب تک تم یہ گنجائش نہ دو کہ میں اگر حق بات کروں تو‬
‫اس کی تصدیق کرنا اور اگر باطل کہوں تو تکذیب کرنا۔۔ تو انہوں نے یہ گنجائش امام حسن ع کو دی‬
‫اور امام منبر پر بیٹھے تو ہللا کی حمد اور تعریف کی اور پھر کہا اے عمرو بن عاص اور مغیرہ ہللا‬
‫کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم دونوں کو معلوم نہیں کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ خدا کی‬
‫لعنت ہو سواری چالنے والے اور سواری پر بیٹھنے والے پر اور ان دو میں سے ایک فالن تھا تو‬
‫ان دونوں نے یک زبان کہا بیشک ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام حسن ع نے کہ ہللا کے واسطہ اے معاویہ‬
‫اور اے مغیرہ کیا تم دونوں نہیں جانتے کہ رسول ص نے فرمایا تھا کہ ہللا کی لعنت ہو عمرو پر‬
‫اتنی جتنے قافیہ اس سے کہے تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔ پھر امام ع نے کہا اے عمرو‬
‫بن عاص اور اے معاویہ بن ابی سفیان ہللا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول ص نے اس قوم‬
‫پر لعنت کی تھی؟ تو دونوں نے یک زبان کہا ایسا ہی ہے۔۔۔ا‬

‫اس کے جواب جو محترم فخر الزماں نے دیا ہے وہ پیش خدمت ہے اور اس پر ہمارا جواب الجواب۔‬

‫(فخر‪ :‬جناب اس میں کھیں بھی یہ بات نھیں کہ سیدنا حسن رض سیدنا معاویہ رض پر لعنت کررھے‬
‫ھیں‪ ،‬یا یھاں جس پر لعنت ھوئی اس سے معاویہ رض مراد ھیں‪.‬‬
‫آپ کی سوچ ھمارے لیے حجت نھیں کہ اس سے معاویہ رض مراد ھیں وغیرہ‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬ادھر الفاظ روایت ہے‪:‬‬

‫رسول ص نے فرمایا تھا کہ خدا کی لعنت ہو سواری چالنے والے اور سواری پر بیٹھنے والے پر‬
‫اور ان دو میں سے ایک فالن تھا تو ان دونوں نے یک زبان کہا بیشک ایسا ہی ہے۔‬

‫ادھر واضح طور پر ہللا کی لعنت کا ذکر ہے دو اشخاص پر اور اس میں امام حسن ع اس لعنت کو‬
‫رسول ص سے نقل کررہے ہیں تو آپ کا کہنا امام ع نہیں کررہے عبث ہے۔ دوسرا یہ کہ اس روایت‬
‫کا مصداق معاویہ ہی ہے چنانچہ دیگر روایت میں اس مبھم فالن کا پول بھی کھل گیا ہے‪:‬‬

‫حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث عن سعید بن جمھان عن سفینة مولى أم سلمة أن النبي صلى ہللا علیه وسلم‬
‫كان جالسا ً فمر أبو سفیان على بعیر ومعه معاویة وأخ له أحدھما یقود البعیر واآلخر یسوقه‪ ،‬فقال رسول‬
‫ہللا صلى ہللا‬
‫علیه وسلم ‪ :‬لعن ہللا الحامل والمحمول والقائد والسائق‬

‫حوالہ‪ :‬االنساب االشراف جلد ‪ ٥‬ص ‪١٢٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9773#page-1803‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫ادھر واضح طور پر ابو سفیان‪ ،‬معاویہ اور اس کے بھائی پر لعنت ہے اور یہی روایت امام حسن ع‬
‫نے نقل کی ہے۔ تو اب آپ کے فالں کا تو جواب ہوگیا۔‬

‫پھر محترم فرماتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ ، :‬اس روایت میں ابو مجلز راوی ھے جس کے بارے میں ھے کہ‬

‫َوقَال أَبُو داود الطیالسي‪َ ،‬‬


‫ع ْن شُ ْع َبة‪ :‬تجیئنا عنه أحادیث كأنه شیعي‪ ،‬وتجیئنا عنه أحادیث كأنه عثماني‪.‬‬
‫تھذیب الکمال ج‪ 31‬ص ‪178‬‬
‫‪shamela.ws/browse.php/book-3722#page-16727‬‬

‫ابو داود طیالسی امام شعبہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ابو مجلز کی ایسی احادیث ھمارے پاس آتی ہیں‬
‫گویا کہ وہ شیعہ ھو‪ ،‬اور کبھی ایسی احادیث آتی ہیں گویا کہ وہ عثمانی ھو‪.‬‬
‫یہ روایت اس کا شیعہ ھونا ظاھر کررھی ھے جو قبول نہیں کی جائے گی‪) .‬‬
‫جواب‪:‬‬
‫ناظرین محترم فخر الزماں نے ابو مجلز کے بارے میں جو لکھا ہے تو ہم بتاتے چلیں کہ یہ قول‬
‫ہمیں علم رجال میں متداول کتب تہذیب التہذیب جلد ‪ ١١‬س ‪ ١٧٢‬اور تھذیب الکمال جلد ‪ ٣١‬ص ‪١٧٨‬‬
‫میں مال ہے لیکن اس قول کی سند محتاج بیان ہے چنانچہ اصل قول کی سند تاریخ دمشق جلد ‪ ٦٤‬ص‬
‫‪ ٢٩‬پر ملی اور وہ بایں ہے‪:‬‬

‫أخبرنا أبو اْلعز قراتكین بن اْلسعد أنا أبو محمد الجوھري أنا أبو الحسین بن لؤلؤ نا محمد بن الحسین نا‬
‫الفالس قال سمعت أبا داود یقول (‪ )6‬سمعت شعبة یقول أبو مجلز ھذا تجیئنا عنه أحادیث كأنه شیعي‬
‫وتجیئنا عنه أحادیث كأنه عثماني‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-71#page-29409‬‬

‫اس روایت کی سند کی توثیق درکار ہے تاکہ پتا چل سکے کہ آیا یہ قول ثابت بھی ہے یا نہیں۔ یہ تو‬
‫بہرحال بحث کا ایک حصہ ہے۔‬

‫بحث کا دوسرا حصہ اس حوالہ سے کہ خود ابن حجر عسقالنی کی لسان المیزان تحقیق ابو غدہ‬
‫(جنہوں نے اعالء السنن وغیرہ کے مقدمہ پر بھی تحقیق کی ہے اور دیگر کتب پر) میں جب ابو‬
‫مجلز کا ذکر کیا تو عالمت (صح) لکھی ترجمہ میں اور خود قاعدہ یہ ہے کہ یہ رمز اس راوی کے‬
‫لئے استعمال ہوتا ہے جس پر بغیر کسی دلیل کے جراح کی گئی ہو (ومن كتبت قبالته‪( :‬صح) فھو‬
‫ممن تكلم فیه بال حجة) اب دیکھئے الحق بن حمید ابو مجلز کا ترجمہ اور اس پر عالمت (صح)‬
‫موجود ہے (مالحظہ ہو لسان المیزان تحقیق ابو غدہ جلد ‪ ٩‬ص ‪)٤٤٥‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-36357#page-15873‬‬

‫لہذ ا اس قول کو قابل استدالل سمجھنا ثبوت اور نتیجہ دونوں اعتبار سے غلط ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ١٦‬االحتجاج للطبرسی کی روایت سے استدالل کا جواب‬

‫محترم نے پھر ایک روایت نقل کی‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬اب زرا شیعہ کتاب سے سیدنا حسن رض کا سیدنا معاویہ رض کا متعلق نظریہ دیکھیں‬
‫عن زید بن وھب الجھني قال‪ :‬لما طعن الحسن بن علي علیه السالم بالمدائن أتیته وھو متوجع‪ ،‬فقلت‪:‬‬
‫ما ترى یا بن رسول ہللا فإن الناس متحیرون؟ فقال‪:‬‬
‫أرى وہللا أن معاویة خیر لي من ھؤالء‪ ،‬یزعمون أنھم لي شیعة‪ ،‬ابتغوا قتلي وانتھبوا ثقلي‪ ،‬وأخذوا مالي‪،‬‬
‫وہللا لئن آخذ من معاویة عھدا أحقن به دمي‪ ،‬وأومن به في أھلي‪.‬‬
‫االحتجاج للطبرسی ج‪ 2‬ص ‪10‬‬
‫‪/...shiaonlinelibrary.com/.../1338//:‬الصفحة_‪...10‬‬

‫زید بن وھب جھنی کھتے ھیں کہ جب حسن رض کو زخمی کیا گیا تو ان کے پاس آیا اور وہ بھت‬
‫تکلیف میں تھے‪ ،‬میں نے کھا اے رسول ہللا کے بیٹے آپ کیا دیکھتے ہیں ؟‬
‫حسن رض نے فرمایا کہ ہللا کی قسم معاویہ میرے لیے ان سے بھتر ھے جو خود کو میرا شیعہ‬
‫سمجھتے ہیں ‪ ،‬انھوں نے ھی میرے قتل کی کوشش کی‪ ،‬میرے سامان لوٹا اور میرا مال چھینا‪.‬‬
‫ہللا کی قسم اگر میں معاویہ سے عھد کروں تو یہ میرا جان اور اھل و عیال کے لیے زیادہ امن واال‬
‫ھوگا‪.‬‬

‫سیدنا حسن رض تو معاویہ رض پر اعتماد کریں اور ان سے عھد لے کر اپنے جان‪ ،‬مال و اھل عیال‬
‫کو محفوظ سمجھیں اور شیعہ کھتے ھیں کہ دشمن تھے‪.‬‬
‫دشمن تو حسن رض پر حملہ کر کے ان کو زخمی کرنے والے‪،‬‬
‫ان کو مذل المومنین (مومنوں کو ذلیل کرنے واال) کا لقب دینے والے شیعہ اصل دشمن تھے)‬

‫جواب‪:‬‬
‫آئے اب جواب پر آتا ہوں۔ جس روایت کو محترم فخر الزماں نے نقل کیا ہے اس میں دو اشکالت ہیں‬

‫پہال‪ ،‬عالمہ طبرسی سے لے کر زید بن وھب تک کی سند مفقود ہے (اور اگر دیگر شواہد نہ ہوں‬
‫روایت پر تو اس سے احتجاج قابل اشکال ہوجاتا ہے)‬

‫دوسرا‪ ،‬زید بن وھب بذات خود مجہول التوثیق ہے یعنی ان کی توثیق ثابت نہیں اور علم رجال کی‬
‫زبان میں جس پر جرح اور توثیق ثابت نہ وہ مجہول الحال ہوتا ہے۔ خالصتہ ایک قول اس ضمن میں‬
‫نقل کئے دیتا ہوں کہ معجم رجال الحدیث کی تلخیص کرنے والے محمد جواہری فرماتے ہے‪:‬‬

‫‪ - 4898 - 4888 - 4889‬زید بن وھب‪ :‬من أصحاب علي (ع) ‪ -‬مجھول‬

‫حوالہ‪:‬المفید من معجم رجال الحدیث ‪ -‬محمد الجواھري ‪ -‬الصفحة ‪٢٣٩‬‬

‫‪goo.gl/hVr9qB‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ثابت ہوا کہ روایت ضعیف ہے اور قابل استدالل نہیں۔‬

‫باقی محترم کا کہ نا کہ ان کو شیعوں نے مذل المؤمنین کہا تو یاد رکھئے کہ انشاء ہللا صلح والے باب‬
‫میں جب ہم تفصیلی جواب دیں گے تو اس وقت ہم اس روایت کو تفصیلی طور پر پیش کریں گے‬
‫لیکن سردست عرض خدمت ہے کہ خود کتب اہلسنت میں ایک آدمی نے امام ع کے متعلق کہا اس‬
‫نے امام ع کو ایسے القاب سے نوازا۔‬
‫حاکم نیشاپوری نقل کرتے ہے کہ ایک شخص امام حسن ع کے پاس کھڑا ہوا اور کہا کہ اے مومنین‬
‫کے چہرے کو کاال کرنے والے۔ (پھر روایت کے اختتام پر حاکم نیشاپوری جواب میں کہتے ہے کہ‬
‫وہ شخص کون تھا) یہ شخص کہنے واال سفیان بن لیل ہے جو امام حسن ع کے والد کا صحابی تھا۔‬

‫حوالہ‪ :‬المستدرک علی الصحیحین‪ ،‬جلد ‪ ٣‬ص ‪١٨٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-2266#page-5094‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب یہ سفیان بن لیل یا بعض جگہ ابن لیلی یا بعض جگہ ابن ابی لیلی ہے۔ علی کل حال یہ راوی‬
‫اہلسنت کے ہاں بعض علماء کے نزدیک و مبانی کے تحت ثقہ ہے تو یہ اعتراض تو خود ان پر پلٹتا‬
‫ہے کہ اگر فخر الزماں صاحب کی منطق کو صحیح مان لیں تو اصل قصووار علماء اہلسنت ہوں گے‬
‫جو ایسے راوی کو ثقہ کہتے ہیں جس نے فرزند رسول ص کے بارے میں یہ کہا (یہ پورا جواب‬
‫محترم فخر الزماں کے اوپر الزامی ہے)۔‬

‫سفیان بن لیل کو ابن حبان نے اپنے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔ (الثقات جلد ‪ ٤‬ص ‪ ٣١٩‬رقم‬
‫‪)٣١٠٥‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-5816#page-1436‬‬

‫اس ہی سفیان بن لیل سے شعبہ نے روایت کی ہے (الجرح و التعدیل جلد ‪ ٤‬ص ‪)٢١٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-2170#page-1803‬‬

‫جب کہ مشہور یہ ہے کہ شعبہ فقط ثقہ راویوں سے ہی روایت نقل کرتے تھے تو اس مبنی کے تحت‬
‫شعبہ کے نزدیک بھی سفیان ثقہ ہوگیا ہے (یہ قاعدہ کہ شعبہ صرف ثقہ سے لیتے ہے یہ عالئی نے‬
‫جامع التحصیل جلد ‪ ١‬ص ‪ ٨٧‬میں یوں کہا‪ :‬أنه ال یأخذ إال عن ثقة كمالك وشعبة)‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-25864#page-73‬‬

‫چنانچہ یہ اعتراض کرکے خود محترم فخر الزماں پھنس چکے ہیں انشاء ہللا اب یہ جواب دیں گے‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ١٧‬سنن نسائی اور اعالء السنن والی بات کا جواب‬

‫ناظرین ہم نے سنن نسائی کی ایک روایت نقل کی تھی‪:‬‬


‫روایت‪ :‬ابن عباس کے بقول معاویہ اور اس کی پارٹی نے امیر المومنین کے بغض میں سنت کو‬
‫چھوڑ دیا‬

‫اور ہم نے ظفر تھانوی کی ابن عباس کی معاویہ سے تقیہ والی تاویل کا جواب بھی نقل کیا تھا‪:‬‬

‫اعالء السنن‪( :‬طحاوی کا) تقیہ کی تاویل کرنا بعید نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی رکاکت اور تعصب‬
‫ہے۔ تقیہ جس معنی میں عالمہ طحاوی نے استعمال کیا ہے مطلق حرام نہیں بلکہ بعض صورتوں‬
‫میں جائز بھی ہے۔ (طحاوی کی ابن عباس کی تقیہ والی بات پر) اعتراض کرنے واال کیا جانتا نہیں‬
‫کہ ابن عباس حضرت علی رضی ہللا عنہ کے خواص (بہت قربت رکھنے والے) ساتھیوں میں سے‬
‫تھے جنہوں نے معاویہ (کی مشروعیت) کا انکار کیا اور معاویہ سے بغض رکھتے اور امام علی ع‬
‫کی زندگی میں معاویہ سے جنگ بھی کی۔ اور پھر معاویہ کی بیعت غالبا تقیہ کے طور پر کی اور‬
‫اس (کے بعض امور) پر راضی ہونا بہت کم تھا۔ اور یہی ان لوگوں (جو امیر المؤمنین کے خواص‬
‫اصحاب تھے) کا یزید کی بیعت کرنے کا معاملہ ہے (وہ بھی تقیہ کے طور پر تھی) البتہ جو تاویل‬
‫ہم نے کی وہ طحاوی کی تاویل سے بہتر ہے لیکن طحاوی کی تاویل بھی بالکل محتمل ہے اور اس‬
‫کو فرض کرنا بعید نہیں۔ چناچہ (معترض کو چاہئے اس بات کو) سمجھے۔‬

‫اس کے جواب میں محترم کہتے ہے‪:‬‬

‫( خیر طلب صاحب آپ نے اعالء السنن کی تائید میں نسائی کی روایت پیش کی وہ تو اس کے خالف‬
‫دعوی کے مطابق کوئی بات نہیں جس کا رد میں پہلے بھی‬ ‫نکلی‪ ،‬باقی اعالء السنن میں آپ کے ٰ‬
‫کرچکا ہوں‪.‬‬
‫‪ ، 2‬واقعات مختلف ھیں لیکن سوال یہ ہے کہ ابن عباس رض کا ایک جگہ تقیہ اور دوسری جگہ‬
‫کھلی مخالفت؟‬
‫تقیہ کرنے کی وجہ کیا حج کے موقعے پر ختم ھوگئی تھی؟‬
‫وتر کے معاملے میں تقیہ اور حج پر تلبیہ کے معاملے میں کھلی مخالفت؟‬
‫حج پر تو اور بھی بھت زیادہ لوگ ھوتے ھیں وھاں تو تقیے کی زیادہ ضرورت تھی‪ ،‬لیکن وھاں‬
‫تقیہ نھیں کرتے اور ایک دو لوگوں کے سامنے تقیہ کردیا‪.‬‬
‫عجیب بات نہیں یہ)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم ابھی تک آپ نے اس روایت نسائی پر تبصرہ نہیں کیا ہے اور اس روایت سے گلوخالصی‬
‫ابھی تک نہیں کرسکے ہیں۔۔ یاد رہے ناظرین اس روایت میں واضح طور پر ابن عباس رض نے‬
‫بغض علی ع کا مرتکب کہا ہے۔ اب ایک جگہ بظاہر معاویہ کی تعریف ابن عباس رض سے منقول‬
‫ہے یہ ایسا مسئلہ تھا جس میں تطبیق دینا ضروری تھا تو علماء احناف میں سے بعض نے ابن عباس‬
‫رض کی اس تعریف کو تقیہ پر محمول کیا‪ ،‬اور پھر ظفر تھانوی محدث احناف کا قول بھی نقل کیا‬
‫جس میں ابن عباس رض کا خواص امیر المؤمنین ع میں سے ہونا لکھا تھا اور تقیہ کی تعلیل بتائی‬
‫تھی۔ چونکہ یہ ب ات محترم فخر الزماں کے مزاج کے بالکل برخالف ہے تو انہوں نے طرح طرح‬
‫کی باتیں کرنا شروع کردی اور ایسے سواالت کئے جو ہمارے نقل کردہ دالئل کا جواب تو نہیں بن‬
‫سکتے ہیں لیکن ایک کوشش سے تعبیر کئے جاسکتے ہیں۔ آئے ہم جواب دیتے ہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫ہمارا کام اصل کا اثبات ہے اور وہ ہے کہ ابن عباس نے بغض علی ع کا انتساب کیا معاویہ سے۔ اور‬
‫پھر ایک تاویل تقیہ دیکھائی اور اس تقیہ کی تعلیل بھی دیکھائی‪ ،‬ان تین چیزوں کے بعد ہمارے ذمہ‬
‫میں تفصیالت کا بتانا نہیں کہ فالں جگہ تقیہ کیوں کیا اور فالں جگہ نہیں کیونکہ خود مکلف خود‬
‫اپنی تکلیف کو بہتر جانتا ہے کہ کب تقیہ کیا جانا چاہئے اور کب نہیں۔۔ یہ ایسا ہی ہے کہ میں‬
‫پوچھوں کہ ابن عمر جو ایک فقہی معاملہ میں اتنے سخت تھے کہ وہ جو رفع الیدین نہیں کرتا تھا‬
‫اس کو کنکریاں مارتے تھے‪ ،‬مالحظہ ہو روایت‪:‬‬

‫‪ -37‬حدثنا الحمیدي أنبأنا الولید بن مسلم قال‪ :‬سمعت زید بن واقد‪ ،‬یحدث عن نافع أن ابن عمر كان إذا‬
‫رأى رجالً ال یرفع یدیه إذا ركع وإذا رفع رماہ بالحصى‪.‬‬

‫ابن عمر جس شخص کو دیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین نہیں کرتا تو اسے‬
‫کنکریاں مارتے تھے‬

‫حوالہ‪ :‬جز رفع الیدین في الصالة للبخاري ص ‪ ٦‬رقم ‪٣٧‬‬

‫‪http://islamport.com/w/fqh/Web/5130/6.htm‬‬

‫نووی نے اس روایت کو المجموع جلد ‪ ٣‬ص ‪ ٣٧٥‬میں صحیح کہا ہے‬

‫اب بتائے کہ وہی ابن عمر جب معاویہ کی تقریر سنتے ہیں جس میں ان کے اوپر اور ان کے والد پر‬
‫تعریض ہوتی ہے تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ سپاہ صحابہ بن کر اور دفاع صحابہ کرتے ہوئے اپنا نہیں‬
‫تو اپنے والد گرامی کی صحابیت کا خیال رکھ کر معاویہ کا گریبان پکڑتے کہ تمہاری ہمت کہ تم‬
‫نے خلیفہ راشد (اف اہلسنت از خیر طلب) کو برا کہا۔ لیکن ایک صحابی پر طنز ہوتا رہا اور ابن‬
‫عمر خاموش رہے اور دوسری جگہ ایک معمولی سنت عمل نہ کرنے پر کنکریاں پھینکتے۔ تو اب‬
‫میں بھی پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ کیا وہ کنکریاں معاوہ پر نہیں برسا سکتے تھے اور ایک‬
‫جگہ برسائی اور دوسری جگہ نہیں یہ تضاد کیوں۔۔ وغیرہ وغیرہ سواالت آئیں گے۔‬

‫اس الزامی جواب کے بعد آمدم بر سر مطلب۔ تقیہ نہ کرنے کی وجہ شاید لوگوں کا زیادہ ہونا تھا کہ‬
‫اگر ادھر کرتے تو لوگ ایک اہم فعل شرع سے دستبردار ہوجاتے اور ادھر مقصد زیادہ بڑا تھا‪،‬‬
‫بنسبت جب اپنے شاگرد کے ساتھ تھے تو چونکہ وہاں مصلحت بڑی نہ تھی تو ادھر تقیہ سے کام لیا‬
‫گیا۔۔ مھم بات ادھر یہ ہے کہ تقیہ کیا‪ ،‬اب کیا ظرف و حاالت تھے اس سے بحث کرنا ہمارے لئے‬
‫ضروری نہیں۔۔ عمار بن یاسر ع نے جب تقیہ کیا اور الفاظ کفریہ اپنے منہ سے نکالے تو اب یہ‬
‫سوال کرنا کہ جب اوائل اسالم میں انہوں نے تقیہ کیا بعد میں جب بالکل بوڑھے ہوگئے تو خانہ‬
‫بدوش کیوں نہ ہوئے اور امیر المؤمنین ع کے ساتھ جنگ کرنے کیوں نکلے۔۔ یہ تمام احتماالت باطل‬
‫ہوں گے کیونکہ مکلف خود اپنی تکلیف کو بہتر جانتا ہے۔‬

‫پھر فخر الزماں صاحب کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬پہلے آپ یہ تو مان لیں کہ سنی کتب میں واقعی ایسی روایات ھیں جو آپ کے نظریے کے‬
‫خالف ھیں‪ ،‬سنی کتب سے آپ کا مذھب ثابت نھیں ھوتا پہر شیعہ کتب پر تو میں آ ھی گیا ھوں آگے‬
‫اور بھی نظارہ کرواتا ھوں جناب کو شیعہ کتب کا‪.‬‬
‫‪ ، 2‬جائر خلفاء سے عطیات لینے کا انکار میں نے نھیں کیا ‪ ،‬لیکن یھاں جائر نھیں بلکہ آپ کے‬
‫دعوی کے مطابق منافق‪ ،‬دین کا دشمن‪ ،‬علی و اھل بیت رضوان ہللا علیہم کا دشمن‪ ،‬علی رض کو‬ ‫ٰ‬
‫گالیاں دینے اور دلوانے واال‪ ،‬ان سے جنگیں لڑنے واال اور ھزاروں مسلمانوں کو شھید کروانے‬
‫واال‪ ،‬نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا لعنت کیا ھوا وغیرہ‪.‬‬
‫اس سے عطیات لینا‪ ،‬اس کی تعریف کرنا‪ ،‬کیا یہ ایمانی غیرت کے خالف نھیں)‬

‫جواب‪ :‬یہ تمام باتیں محتاج دلیل ہیں۔۔ آپ ایک ایک کی دلیل پیش کرتے جائیں ہم ایک ایک کا جواب‬
‫دیتے جائیں گے۔ میں مفروضات پر بات نہیں کرتا جب دلیل دیں گے تو اس وقت میں جواب دوں گا۔‬
‫البتہ ایک بات بتائ ے گا کہ ظالم و جابر حکومت سے اپنا وظیفہ اور عطیات لینا کس طرح غلط ہے‬
‫اس تالزم کو بھی دلیل سے بتائے گا‪ ،‬آپ کی جذباتی بے دلیل تقریر کا علمی دنیا میں مسموع نہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪،١٨‬معاویہ اور اس کی فوج کا اصحاب امیر المؤمنین کا بہیمانہ قتل‬

‫محترم فخر الزماں جو اصحاب امیر المؤمنین ع معاویہ اور اس کی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے (جن‬
‫میں حجر بن عدی اور محمد بن ابی بکر کا ذکر میں کرچکا ہوں)‪ ،‬اس کے جواب میں کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬خیر طلب صاحب میں ان کے قتل ھونے کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ کیوں ھوا کیسے‬
‫ھوا‪ ،‬بس آپ سے یہ پوچھتا ھوں کہ‬
‫ان کو کیوں اور کس وجہ سے قتل کیا گیا؟‬
‫کیا اس لیے کہ یہ سیدنا علی رض کے لشکر میں تھے‪ ،‬ان کے ساتھی تھے؟‬
‫یا کوئی اور وجہ تھی؟‬
‫جو بھی بات کریں دالئل سے کریں تاکہ اصل بات واضح ھو سکے‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬ان کے قتل کی وجہ ان کا امیر المؤمنین ع سے شدید محبت کرنا اور ان کے شیعوں میں ہونا‬
‫تھا اور یہ چیز معاویہ کو بہت زیادہ کھٹکتی تھی۔‬

‫آئے حجر بن عدی کے بارے میں مورخ اہلسنت ابو الفداء کا اعتراف پڑھتے ہیں‪ ،‬کہتے ہے‪:‬‬
‫وكان معاویة وعماله یدعون لعثمان في الخطبة یوم الجمعة‪ ،‬ویسبون علیاً‪ ،‬ویقعون فیه‪ ،‬ولما كان المغیرة‬
‫متولي الكوفة‪ ،‬كان یفعل ذلك طاعة لمعاویة‪ ،‬فكان یقوم حجر وجماعة معه‪ ،‬فیردون علیه سبّه لعلي ٍ‬
‫رضي ہللا عنه‪ ،‬وكان المغیرة یتجاوز عنھم‪ ،‬فلما ولي زیاد‪ ،‬دعا لعثمان وسب علیاً‪ ،‬وما كانوا یذكرون‬
‫علیا ً باسمه‪ ،‬وإنما كانوا یسمونه بأبي تراب‪ ،‬وكانت ھذہ الكنیة أحب الكنى ِإلى علي‪ْ ،‬لن رسول ہللا صلى‬
‫ہللا علیه وسلم‪ ،‬كناہ بھا‪ ،‬فقام حجر وقال‪ :‬كما كان یقول من الثناء على علي‪ ،‬فغضب زیاد وأمسكه‪،‬‬
‫وأوثقه بالحدید‪ ،‬وثالثة عشر نفرا ً معه‪ ،‬وأرسلھم ِإلى معاویة‪ ،‬فشفع في ستة منھم عشا ِئرھم‪ ،‬وبقي ثمانیة‪،‬‬
‫منھم‪ :‬حجر‪ ،‬فأرسل معاویة من قتلھم بعذرا‪ ،‬وھي قریة بظاھر دمشق‪ ،‬رضي ہللا عنھم‪ ،‬وكان حجر من‬
‫عظم الناس دینا ً وصالة‪ ،‬وأرسلت عائشة تتشفع في حجر‪ ،‬فلم یصل رسولھا إِال بعد قتله‬

‫معاویہ اور اس کے گورنر جمعہ کے خطبوں میں معاویہ کے لئے دعائے خیر کیا کرتے تھے اور‬
‫امیر المؤمنین ع پر سب اور برا بھال کرتے تھے‪ ،‬چنانچہ جب مغیرہ گورنر کوفہ بنا‪ ،‬تو وہ بھی‬
‫معاویہ کی اطاعت کے چکر میں عثمان کے لئے دعائے خیر کرتا اور امیر المؤمنین ع پر سب‪،‬‬
‫چنانچہ حجر اور ان کے ساتھ ایک جماعت کھڑے ہوجاتی اور جو مغیرہ سب علی رض کرتا تھا اس‬
‫کے خالف احتجاج کرتے جب مغیرہ وہاں سے گورنرشپ سے ہٹا تو اس کی جگہ زیاد بن ابیہ‬
‫گورنر بنا اور وہ عثمان کا ذکر خیر کرتا اور امیر المؤمنین ع پر سب کرتا‪ ،‬اور امیر المومنین ع کا‬
‫نام علی نہ لیتے بلکہ ابو تراب کہا کرتے تھے‪ ،‬جو اگرچہ امیر المومنین ع کو سب سے زیادہ‬
‫پسندیدہ کنیت لگتی تھی چونکہ رسول ہللا ص نے وہ کنیت عطا کی تھی تو حجر کھڑے ہوئے اور‬
‫وہی کہا جو وہ امیر المؤمنین ع کی مدح میں کہا کرتے تھے‪ ،‬جس پر زیاد غضبناک ہوگیا اور حجر‬
‫کو روکنا چاہا اور حجر اور ان کے تیرہ ساتھیوں کو گرفتاوی کا کہا چنانچہ ان تمام کو معاویہ کے‬
‫پاس بھیج دیا گیا‪ ،‬جن میں سے چھ کے بارے میں ان کے قبائل نے سفارش کرکے چھڑوادیا اور‬
‫باقی آٹھ جن میں حجر تھے ان کو معاویہ نے مقام عذرا جو دمشق کا ایک قریہ تھا وہاں قتل کروایا‪،‬‬
‫ہللا ان تمام سے راضی ہو‪ ،‬اور حجر تمام لوگوں میں دین اور نماز کے معاملہ میں بلند ترین تھے‪،‬‬
‫اور عائشہ نے حجر کی شفارش کے لئےایک قاصد کو بھیجا تھا جو حجر کے قتل کے بعد وہاں‬
‫پہنچا۔‬

‫حوالہ‪ :‬المختصر في أخبار البشر جلد ‪ ١‬ص ‪١٨٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12715#page-174‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ہللا کی رحمت واسعہ ہو حجر بن عدی اور ان کے اصحاب پر جو معاویہ جابر کے حکم‬
‫سے امیر المؤمنین ع کی محبت میں شہید ہوئے‪ ،‬خدایا ہم تمام کا خاتمہ مثل حجر بن عدی امیر‬
‫المؤمنین ع کے چاہنے والوں اور معاویہ اور دیگر دشمنان اہلبیت کی برات سے کر۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اور باقی جہاں تک محمد بن ابی بکر تو ان کے قتل ہونے کی وجہ بھی ان کا طاغوت سے برات‬
‫اختیار کرنا اور امیر المؤمنین ع کی طرف سے مصر کا گورنر ہونا تھا۔ ابو نعیم اصفہانی فرماتے‬
‫ہے‪:‬‬

‫شدِیدًا‪َ ،‬وقَالَ‪ِ :‬إنِّي كُ ْنتُ َْلَعُدُّہُ َولَدًا‪،‬‬ ‫علَ ْی ِه َجزَ ً‬


‫عا َ‬ ‫حْرقَ فَ َج ِزعَ َ‬ ‫ب‪ ،‬أ ُ ِ‬ ‫ي ِ ب ِْن أَبِي َ‬
‫طا ِل ٍ‬ ‫ص َر فِي ِخ َالفَ ِة َ‬
‫ع ِل ّ‬ ‫حْرقَ بِ ِم ْ‬‫أُ ِ‬
‫يٍ‪،‬‬‫ع ِل ّ‬
‫یب َ‬‫يٍ‪َ ،‬و َكانَ ُم َح همد ٌ َربِ َ‬ ‫َت أ ُ ُّمهُ أ َ ْس َما ُء بِ ْنتُ عُ َمی ٍْس تَحْتَ َ‬
‫ع ِل ّ‬ ‫َو َكانَ أ َ ًخا َوابْنَ أَخٍ‪ ،‬فَ ِع ْندَ ہللاِ نَحْ ت َ ِسبُهُ‪َ ،‬كان ْ‬
‫ص َر فَقُتِ َل ِب َھا فِي ِخ َالفَتِ ِه‬ ‫جْرہِ‪ ،‬فَ َو هالہُ ِم ْ‬‫َوت َْر ِب َیتُهُ فِي ِح ِ‬

‫محمد بن ابی بکر خالفت علی بن ابی طالب کے زمانے میں مصر میں جالئے گئے‪ ،‬جب وہ جالئے‬
‫گئے تو امیر المؤمنین ع نے محمد بن ابی بکر کے اوپر شدید افسوس و جزع کی‪ ،‬اور کہا کہ میں‬
‫اس کو اپنا ایک بیٹا سمجھتا تھا‪ ،‬اور یہ میرا بھائی اور میرا بھائی کا بیٹا تھا‪ ،‬اور ہللا کے ہاں اس کا‬
‫حساب پائیں گے‪ ،‬اور محمد کی والدہ امیر المؤمنین ع کی بیوی تھی‪ ،‬اور محمد کو امیر المومنین ع‬
‫نے پال تھا اور اپنے گھر میں محمد کی تربیت کی تھی‪ ،‬اور پھر مصر کا گورنر بنایا اور وہی وہ‬
‫امیر المؤمنین ع کی خالفت میں قتل ہوا۔‬

‫حوالہ‪ :‬معرفة الصحابة جلد ‪ ١‬ص ‪١٦٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-10490#page-684‬‬

‫عالمہ تقی الدین فاسی کہتے ہے‪:‬‬

‫وكان على ـ رضى ہللا عنه ـ یثنى علیه ویفضله؛ ْلنه كان ذا عبادة واجتھاد‪ .‬ووالہ مصر‪ ،‬فسار إلیه‬
‫عمرو بن العاص رضى ہللا عنه‪ ،‬واقتتلوا‪ ،‬فانھزم محمد بن أبى بكر‪ ،‬ودخل خربة فیھا حمار میت‪،‬‬
‫ودخل جوف الحمار‪ ،‬فأحرق فى جوفه وقتل قبل تأمر عمر بن العاص‪ .‬وقیل‪ :‬قتله معاویة بن خدیج فى‬
‫المعركة صبرا‪ .‬ثم أحرق فى جوف حمار‪.‬‬

‫اور امیر المؤمنین محمد بن ابی بکر کی بہت تعریف کیا کرتے تھے اور دوسروں پر فضیلت دیتے‬
‫تھے‪ ،‬کیونکہ وہ بہت زیادہ عبادت گذار اور کوشش کرنے والے تھے‪ ،‬امیر المؤمنین ع نے ان کو‬
‫مصر کو گورنر بایا‪ ،‬پھر عمرو بن عاص رضی ہللا عنہ نے ان پر چڑھائی کی اور دونوں میں‬
‫معرکہ ہوا‪ ،‬جس میں محمد شکست کھاگئے اور ایک جگہ داخل ہوئے جہاں مرا ہوا گدھا پڑا تھا اور‬
‫اس میں گدھے کی کھال کے اندر داخل ہوگئے‪ ،‬چنانچہ ان کو اس ہی کھال کے اندر جالدیا گیا اور‬
‫ان کا قتل عمرو بن عاص کے کہنے کے اوپر ہوا اور کہا جاتا ے کہ معاویہ بن خدیج نے معرکہ میں‬
‫بے رحمی سے قتل کیا‪ ،‬اور پھر ان کی نعش کو گدھے کی کھال میں جالدیا۔‬

‫حوالہ‪ :‬العقد الثمین فى تاریخ البلد اْلمین جلد ‪ ٢‬ص ‪٢١٤‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-20989#page-625‬‬

‫تبصرہ‪ :‬چنانچہ ان کا قتل چونکہ ان کی مالزمت اور گورنر ہونے کے ناطے ہوا تو اس کا محرک‬
‫اساسی ان کا امیر المؤمنین ع کا خاص چاہنے ہونے واال ہے اور اس سے معاویہ کی رضامندی‬
‫ہونے بھی واضح ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫پھر محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫ب علی کے دشمن تھے تو سب سے حسنین کریمین‪ ،‬ابن عباس وغیرہ‬ ‫(فخر‪ :‬اگر معاویہ رض اصحا ِ‬
‫کو قتل کرواتے‪ ،‬حکومت و طاقت ان کے ھاتھ میں تھی کون تھا روکنے واال ؟‬
‫ب علی کو چن چن کر قتل‬ ‫‪ ،3‬آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ معاویہ رض ایسے ظالم تھے کہ اصحا ِ‬
‫کروایا‪ ،‬تو پہر سعد رض کو کیسے چھوڑ دیا جو ان کے سامنے علی رض کے فضائل بیان کرتے‬
‫رھے اور زندہ بچ گئے؟‬
‫آپ کے ایک بات دوسری بات کا رد کررھی ھوتی ھے‪.‬‬
‫اور بھی بھیجیں ایسی باتیں)‬

‫جواب‪ :‬محترم فخر الزماں صاحب میرے ذمہ میں اثبات جزئیہ ہے کہ معاویہ نے امیر المؤمنین ع‬
‫کے ساتھیوں کو قتل کروا یا۔۔ اب اس پر یہ کہنا کہ باقیوں کو کیوں چھوڑا تو کہا جائے گا اس طرح‬
‫تو کسی ظالم کے ظلم کا اثبات ہی ممکن نہ ہو۔۔ یہ عجیب منطق الئیں ہیں۔۔ ہم کہتے ہیں صیہونی‬
‫ریاست مسلمانوں اور عربوں کی دشمن ہے اور ہم اس امر کے اثبات میں وہ تمام مظالم کی کہانیاں‬
‫الئیں جو اسر ائیل (صیہونی ریاست) نے مسلمانوں کے خالف کئے ہیں تو اس کے جواب میں کوئی‬
‫محترم فخر الزماں والی دلیل الئے اور کہے کہ اگر ہمیں مسلمانوں اور عربوں سے اتنی نفرت ہوتی‬
‫تو پھر بھال ہمارے (مغصوبہ) ملک میں اتنے سارے عرب اور مسلمان کیوں رہتے ہیں تو ادھر آپ‬
‫ہوتے تو آپ فورا خاموش ہوجاتے کہ ہاں اگر اسرائیل مسلمانوں اور عرب سے دشمنی کرتا تو‬
‫سارے مسلمان ہی کو ختم کردیتا۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل کا مجرد بعض واقعات میں اسالم اور‬
‫عرب دشمنی دیکھانا کافی ہے اس بات کے ثبوت میں کہ صیہونی ریاست اسالم‪ ،‬مسلمانوں اور‬
‫عربوں کی دشمن ہے۔ یہی بات معاویہ کے لئے کی جائے گی کہ معاویہ کا امیرالمؤمنین ع کے‬
‫بعض ساتھیوں کو مارنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معاویہ امیر المؤمنین ع‪ ،‬ان سے وابستہ افراد‬
‫اور ان کے چاہنے والوں سے بغض رکھتا تھا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،١٩‬علماء اہلسنت کا اقرار کہ معاویہ سب کیا کرتا تھا‬

‫ناظرین اس ضمن میں ہم نے ان علماء کے عالوہ جنہوں نے صحیح مسلم کی روایت کی ذیل میں کہا‬
‫تھا کہ معاویہ نے سعد کو حکم سب دیا‪ ،‬ان علماء کا بھی ذکر کیا جو کہتے ہیں معاویہ کے دور اور‬
‫اموی دور میں سب ہوا کرتا تھا۔‬

‫آئے ان علماء کے نام پیش کرتے ہیں اور پھر جملہ اشکاالت کے ردود۔‬
‫الف‪ ،‬شبلی نعمانی‪ :‬حدیثوں کی تدوین بنو امیہ کے زمانہ میں ہوئی جنہوں نے پورے ‪ ٩٠‬برس تک‬
‫سندھ سے ایشیائے کوچک اور اندلس تک مساجد جامع میں آپ فاطمہ کی توہین کی اور جمعہ میں‬
‫سر منبر حضرت علی رض پر لعن کہلوایا‪ ،‬سینکڑوں حدیثیں امیر معاویہ وغیرہ کے فضائل میں‬
‫بنوائیں (اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا اور ‪ ٩٠‬برس کی حکومت میں معاویہ کی بھی اتی ہے)‬

‫ب‪ ،‬زاھد کوثری‪ :‬اس میں کوئی شک نہیں کہ بنو امیہ کے خلفاء حضرت علی کرم ہللا وجھہ پر‬
‫منبروں پر لعنت کرتے تھے‪ ،‬خدا انہیں رسوا کرے یہاں تک حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ہللا‬
‫عنہ نے اس کو ختم کروایا۔ (اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا)‬

‫پ‪ ،‬صاحب تاریخ ملت‪ :‬عرصہ سے یہ دستور چال آرہا تھا کہ خلفاء بنی امیہ اور ان کے عمال‬
‫خطبوں میں حضرت علی رض پر لعن و طعن کیا کرتے تھے (اس پر بھی اعتراض نہیں ہوا)‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب جن دو پر اعتراض ہوا ہے آئے ان کو نقل کرتے ہیں اور اشکاالت کے جوابات دیتے ہیں۔‬

‫ابن حزم‪ :‬بنو عباس نے کسی بھی صحابی (خدا کی رضوان ہوں ان پر) پر سب نہیں کیا بنو امیہ کے‬
‫برخالف جنہوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ پر لعنت کا طریقہ اپنایا‪ ،‬اور ان‬
‫کی پاک اوالد بنی زھراء پر بھی لعنت کی‪ ،‬اور تمام بنو امیہ ایسے تھے ماسوائے عمر بن عبدالعزیز‬
‫اور یزید بن ولید کے (خدا کی رحمت ہو ان دونوں پر)‪ ،‬کہ ان دونوں نے اس لعن کی اجازت نہیں‬
‫دی۔‬

‫اس پر محترم کہتے ہیں‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬میرے بھولے پن پر نھیں آپ کے بھولے پن پر مسکرانا چاہیے‪ .‬وہ اس طرح کے آپ نے ایک‬
‫کلیہ بنایا کہ عمر بن عبدالعزیز رح اور یزید بن ولید کے عالوہ سارے اموی خلفاء سیدنا علی رض‬
‫پر لعنتیں دیتے تھے‪.‬‬
‫اس طرح آپ نے سیدنا معاویہ رض کو بھی شامل کیا‪.‬‬

‫اب زرا اپنے کلیہ کو پرخچے اڑتے ھوئے بھی دیکھیں‪.‬‬


‫سیدنا عثمان رض بھی اموی تھی خلیفہ راشد تھے‪ ،‬ان کے بارے میں تو آپ بھی نھیں کھتے کہ وہ‬
‫سیدنا علی رض کو ممبروں پر گالیاں دیتے تھے‪.‬‬
‫تو آپ نے صرف دو کو نکال کر باقی اموی خلفاء کا کلیہ بنایا وہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ھوگیا‪.‬‬
‫آپ تو فرضی کلیے دوسروں کی طرف منسوب کر کے توڑتے رھتے لیکن یھاں تو آپ کا حقیقی‬
‫کلیہ ٹوٹ کر چکنا چور ھوگیا)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم فخر الزماں صاحب۔۔ دیکھئے جب اموی خلفاء کی بات کی جاتی ہے تو وہ اس سیاق میں ہوتی‬
‫ہے کہ ان کی پوری سلطنت اور پے درپے آنے کا سلسلہ معاویہ بن ابی سفیان سے شروع ہوا اور‬
‫اس سے پہلے چار خلفاء مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے بنو تیم‪ ،‬بنو عدی‪ ،‬بنو امیہ اور بنو‬
‫ہاشم۔ ان میں جب اموی خلفاء کی بات کی جاتی ہے تو غالبا اور اجماال معاویہ سے شروع کیا جاتا‬
‫ہے۔ دیکھئے خود جو ابن حزم کی ترتیب ہے وہ بھی اس ہی کے پیش نظر ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫باقی دوسرا جواب ہمارا یہ ہے کہ خود ابن حزم جب امویوں کی ایک بدعت کا ذکر کرتے ہیں تو‬
‫کہتے ہیں‪:‬‬

‫ومنھا ‪ -‬ما أحدث بنو أمیة من تأخیر الصالة ‪ ،‬وإحداث اْلذان واْلقامة ‪ ،‬وتقدیم الخطبة قبل الصالة‬

‫اور امویوں (یعنی بنو امیہ) نے ایک بدعت کو شروع کیا کہ نماز کو تاخیر کرتے‪ ،‬اور اذان و اقامت‬
‫کی بدعت کو انجام دیا‪ ،‬اور خطبہ کو نماز سے پہلے قرار دینے کی بدعت انجام دی۔‬

‫حوالہ‪ :‬المحلی‪ ،‬جلد ‪ ٣‬ص ‪٢٩٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-767#page-1102‬‬

‫اب میں سوال کرتا ہوں کہ کیا ابن حزم عثمان کو بھی بنو امیہ میں شمار کررہے تھے یا نہیں تو آپ‬
‫جواب میں کہیں گے کہ نہیں عثمان نہیں بلکہ بنو امیہ کی سلطنت اور پے درپے آنے والے خلفاء کی‬
‫بات تھی۔‬

‫دیکھئے معاویہ ہی وہ تھا جس نے یہ کام کئے۔‬

‫الف‪ ،‬معاویہ کا عیدین کی نماز میں آذان کی بدعت ایجاد کرنا‬

‫المصنف کی روایت میں یوں وارد ہوا‪:‬‬

‫حدثنا وكیع حدثنا ھشام الدستوائي عن قتادة عن اب ن المسیب قال ‪ :‬أول من أحدث اْلذان في العیدین‬
‫معاویة ‪.‬‬

‫ابن مسیب کہتے ہے کہ سب سے پہلے جس نے عیدین میں آذان کو انجام دیا وہ معاویہ تھا۔‬

‫حوالہ‪ :‬المصنف از ابن ابی شیبہ‪ ،‬جلد ‪ ٧‬ص ‪٢٤٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9944#page-40394‬‬
‫ب‪ ،‬معاویہ نے خطبہ نماز کو نماز عیدین سے پہلے قرار دینے کی بدعات انجام دی‬

‫ابن حجر بحوالہ عبدالزاق نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫وروى عبد الرزاق عن بن جریج عن الزھري قال أول من أحدث الخطبة قبل الصالة في العید معاویة‬

‫زھری کہتے کہ سب سے پہلے جس نے نماز سے قبل خطبہ کی بدعت کو انجام دیا عید میں وہ‬
‫معاویہ تھا‬

‫حوالہ‪ :‬فتح الباری‪ ،‬جلد ‪ ٢‬ص ‪٤٥٢‬‬

‫‪http://islamport.com/d/1/srh/1/48/1697.html‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکال کہ نماز بھی تاخیر سے ہوئی اور خطبہ پہلے۔ جب پتا لگ گیا کہ بنو امیہ‬
‫نے یہ بدعت کو شروع کیا تو اب واپس ابن حزم کے کالم کی طرف رجوع کرتے ہے تو وہ اس کی‬
‫وجہ بتاتے ہیں اگلے صفحہ پر بایں‪:‬‬

‫بأن الناس كانوا إذا صلوا تركوھم ولم یشھدوا الخطبة ‪ ،‬وذلك ْلنھم كانوا یلعنون علي بن أبي طالب‬
‫رضي ہللا عنه‬

‫لوگ جب نماز پڑھتے تھے تو وہ ما بعد چلے جات تھے اور خطبہ میں نہیں بیٹھتے تھے‪ ،‬اس کی‬
‫وجہ یہ تھی کہ وہ حضرات (یعنی بنو امیہ) حضرت علی بن ابی طالب رض پر لعنت کیا کرتے تھے‬

‫حوالہ‪ :‬المحلی‪ ،‬جلد ‪ ٣‬ص ‪٢٩٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-767#page-1103‬‬

‫تو چلئے اس میں تو شائبہ احتمال آپ لے آئے جب کہ اس کا جواب بھی دیا جاچکا ہے لیکن اس بات‬
‫کا کیا جواب دیں گے‪ ،‬عبارت وہی ابن حزم کی ہی ہے اور داللت واضح ہے۔‬

‫چلئے اب آپ کا یہ کہنا کہ عثمان بھی اموی تھے تو کیا وہ بھی سب و شتم سے کام لیتے تھے تو ہم‬
‫جواب میں کہیں بیشک عثمان نے بھی موالئے کائنات امیر المؤمنین ع کو برا بھال کہا ہے‪ ،‬تفصیل‬
‫مالحظہ ہو‬

‫محترم فخر الزماں کی خدمت میں عرض کروں کہ خود آپ کے تیسرے خلیفہ نے بھی امیر المؤمنین‬
‫ع پر سب کیا ہے‪ ،‬چنانچہ ابن حجر عسقالنی اور بوصیری اپنی کتب میں اسحاق بن راھویہ کے‬
‫حوالہ سے نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫قال إسحاق ‪ :‬أخبرنا المعتمر بن سلیمان ‪ ،‬قال ‪ :‬سمعت أبي یقول أنبأنا أبو نضرة ‪ ،‬عن أبي سعید مولى‬
‫أبي أسید وھو مالك بن ربیعة قال ‪ :‬إن عثمان بن عفان رضي ہللا عنه ‪ « :‬نھى عن العمرة في أشھر الحج‬
‫أو عن التمتع بالعمرة إلى الحج » ‪ ،‬فأھل بھا علي مكانه فنزل عثمان رضي ہللا عنه عن المنبر فأخذ شیئا‬
‫فمشى به إلى علي رضي ہللا عنه ‪ ،‬فقام طلحة والزبیر رضي ہللا عنھما فانتزعاہ منه فمشى إلى علي‬
‫رضي ہللا عنه فكاد أن ینخس عینه بإصبعه ویقول له ‪ :‬إنك لضال مضل وال یرد علي رضي ہللا عنه‬
‫علیه شیئا‬

‫(امیر المؤمنین اور عثمان میں ایک مسئلہ پر اختالف واقع ہوا جس کی تفصیل کتب مطول اور‬
‫احادیث کی کتب میں ہے اور اس کا بیان فی الحال موضوع سے خارج ہے)۔۔ عثمان نے امیر‬
‫المؤمنین ع کے حق میں کہا تم گمراہ ہو اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہو جس پر امیر المؤمنین ع‬
‫نے کوئی جواب نہیں دیا (ملخص)‬

‫حوالہ‪ :‬المطالب العالیة جلد ‪ ٦‬ص ‪ ٣٣٤‬اور إتحاف الخیرة المھرة بزوائد المسانید العشرة جلد ‪ ٥‬ص‬
‫‪٦٦‬‬

‫‪http://islamport.com/w/ajz/Web/1430/2834.htm‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-21765/page-2331#page-2031‬‬

‫تبصرہ‪ :‬یہ روایت محتاج تشریح نہیں اور محترم فخر الزماں کا کہنا کہ اس کا عثمان اس سے مستثنی‬
‫ہیں غلط ہے کیونکہ عثمان بھی اس لسٹ والے آدمی ہے جو امیر المؤمنین ع پر سخت الفاظ کرتے‬
‫تھے۔۔ یاد رہے کہ ہماری تحقیق کے مطابق روایت کے راویان ثقہ ہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫دوسرے عالم جن کی تفسیر پر اعتراض ہوا وہ ابن حجر ہے‪:‬‬

‫ابن حجر کی عبارت‪ :‬اس کے بعد امیر المؤمنین کا معاملہ (کچھ یوں بیٹھا) کہ ایک گروہ نے امیر‬
‫المؤمنین ع سے جنگ کی اور پ ھر معاملہ اس سے زیادہ سخت ہوگیا کہ اس لڑنے والے گروہ (اشارہ‬
‫قوم معاویہ کی طرف) امیر المؤمنین ع کی تنقیص کرنے لگے اور ان پر منبروں پر لعنت کو طریقہ‬
‫بنالیا اور خوارج نے اس بغض علی میں ان حضرات کی موافقت کی‬

‫اس پر محترم کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬آپ یھاں بھی غلط ترجمے پر بنیاد رکھ رھے ھیں‪.‬‬
‫یہ ترجمہ کرتے ہیں‬
‫"لڑنے والے گروہ نے تنقیص کی"‬
‫اور اس سے آپ ھر لڑنے والے کا تنقیص کرنا کیسے سمجھ رھے ھیں کہ جس جس نے جنگ کی‬
‫اس نے تنقیص بھی کی ؟؟‬
‫حاربوہ اور تنقصوہ کا ضمیر طائفۃ اخری کی طرف لوٹ رھا ھے‪ ،‬یعنی وہ ایک خاص ٹوال جس‬
‫نے جنگ بھی کی اور تنقیص بھی کی‪.‬‬
‫آور جناب یہ سمجھ بیٹھے کہ ھر جنگ کرنے والے نے علی رض کی تنقیص کی‪ ،‬ایسا نھیں‪.‬‬
‫‪ ، 3‬اگر آپ واال مطلب مراد لیں بھی تب بھی معاویہ رض کا گالی دینا ثابت نھیں ھوتا‪ ،‬کیونکہ اگر‬
‫جنگ کرنے والوں میں سے چند نے یہ حرکت کی تب بھی یھی کھا جائے گا کہ جنگ کرنے والوں‬
‫نے گالیاں دیں‪.‬‬
‫تو یھاں بھی آپ کی بات نھیں بنتی‪.‬‬
‫‪ ، 4‬جنگ کرنے والوں میں تو عقیل بن ابی طالب رض بھی تھے جو صفین میں معاویہ رض کے‬
‫ساتھ تھے‪ ،‬تو کیا انھوں نے بھی علی رضی کو گالیاں دیں)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم میرا ترجمہ لڑنے والے صحیح ہے کیونکہ عبارت ابن حجر یوں ہے‪:‬‬

‫‪ .‬ثم كان من أمر علي ما كان فنجمت طائفة أخرى حاربوہ ‪ ،‬ثم اشتد الخطب فتنقصوہ واتخذوا لعنه على‬
‫المنابر سنة‬

‫ادھر میں نے لڑنے والے جو ترجمہ کیا وہ بشکل مھملہ کیا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ مھملہ کا‬
‫اطالق کلی اور جزئی دونوں پر ممکن ہے اور عموما مناطقہ اس کا اطالق جزئی پر ہی کرتے ہیں‬
‫مگر یہ کہ قرینہ صارفہ کلی پر کرنے کے لئے موجود ہو۔ اب بتائے کہ اتنی بڑی تقریر کا کیا فائدہ‬
‫ہوا جب لڑنے والوں کی طرف سے ثابت ہے جن کی موافقت ما بعد خوارج نے کی تو دو ہی‬
‫صورتیں نکلتی ہیں پہال گروہ اہل جمل کا اور دوسرا اہل شام یعنی معاویہ کی فوج کا تو چونکہ بحث‬
‫دوسرے گروہ کے عنوان سے ہے اور اس گروہ نے ہی منبروں پر سے لعنتیں کیں تو بات ثابت‬
‫ہوگئی۔۔ آپ کا یہ کہنا کہ باقی لوگوں کا گالیاں دینے سے معاویہ کا جرم ثابت نہیں ہوتا تو اس پر دو‬
‫نقض ہیں‪ ،،‬اصالت معاویہ کے سب پر ہی رکھی جائے گی کیونکہ وہ حکمران تھا اور منبروں پر‬
‫لعنت کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ جب منبر پر لعنت کا ذکر موجود ہے تو اس کا اطالق عام بندوں‬
‫سے کرنا حماقت ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جب بات منبروں کی ہے تو اس زمانہ میں خلیفہ کی‬
‫طرف سے ہی گورنر ہوتے تھے اور وہ گورنر جب لعن وغیرہ کرتے تھے تو یہ ممکن نہیں کہ اس‬
‫کی خبر خلیفہ کو نہ ہو اور وہ اس کا نوٹس نہ لے۔ منبر کا ذکر بتاتا ہے کہ اس کو کرنے والے عام‬
‫افراد نہیں بلکہ اہل شام کے سرخیل حضرات تھے جس میں معاویہ سب سے سرفہرست تھا۔‬

‫باقی عقیل نے جنگ کی یا نہیں اس پر بحث آگے آئے گی‪ ،‬اگر بالفرض (فرض محال محال نباشد کی‬
‫طرح) عقیل نے جنگ کی اور اس فعل قبیح کو انجام دیا تو ہمارا اصول یہاں بھی نہیں ٹوٹے گا بلکہ‬
‫عقیل مجروح و مذموم ثابت ہوں گے نہ کہ ہمارے اصول پر زد آئے گی۔‬
‫‪Khair Talab‬‬

‫اور آخر میں‪ ،‬میں ایک مزید عالم کے نام ہدیہ کرتا ہوں اور یوں کل مال کر تعداد اس لسٹ میں چھ‬
‫ہوجائے گی۔‬

‫مورخ ابو الفدا۔ یہ اپنی مشہور آفاق تاریخ میں کہتے ہے‪:‬‬

‫وكان معاویة وعماله یدعون لعثمان في الخطبة یوم الجمعة‪ ،‬ویسبون علیاً‪ ،‬ویقعون فیه‪،‬‬

‫معاویہ اور اس کے گورنر جمعہ کے خطبوں میں عثمان کے لئے دعائے خیر کرتے اور علی ع پر‬
‫سب کرتے اور علی ع کی برائی کرتے۔‬

‫حوالہ‪ :‬المختصر في أخبار البشر جلد ‪ ١‬ص ‪١٨٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12715#page-174‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،٢٠‬مروج الذھب کی عبارت سے استدالل کی حقیقت‬

‫محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪:‬‬
‫شیعہ مؤرخ مسعودی کی ھی بات پڑھ لیں‬

‫و فی سنۃ اثنتی عشرة و مائتین نادی منادی المأمون برئت الذمۃ من احد من الناس ذکر معاویۃ بخیر او‬
‫قدمہ علی احد من أصحاب رسول ہللا‪...‬‬
‫مروج الذھب للمسعودی ج‪ 4‬ص ‪34‬‬

‫سنہ ‪ 212‬ھجری میں خلیفہ مامون کے منادی نے اس سے براءة ذمہ کی ندا لگائی جو معاویہ رض‬
‫کا ذکر خیر کے ساتھ کرے یا ان کو کسی صحابی سے شان کے اعتبار سے مقدم کرے‪.‬‬

‫‪archive.org/stream/Meroujzahab/MRJ04#page/n33/mode/1up‬‬

‫تو میں بھی کھہ سکتا ہوں کہ آپ یا باقی شیعہ جو سیدنا معاویہ رض کی تنقیص کرتے ہیں وہ اس‬
‫دور کی گھڑی گئی جھوٹی روایات میں سے ھیں)‬

‫جواب‪:‬‬
‫محترم فخر الزماں نے جو مروج الذھب سے عبارت نقل کی ہے۔ تو اس پر دو جوابات ہیں‬
‫پہلی بات کہ مامون کا تعلق مذھب شیعہ سے نہیں بلکہ ہم تو اس کو امام رضا ع کا قاتل تصور‬
‫کرتے ہیں۔۔ علی کل حال یہ ایسا شخص نہیں جس کا حکم ہم پر حجت ہو۔ بلکہ اہلسنت کے ہاں تو یہ‬
‫اچھا شخص ہے۔۔ دیکھئے سیر اعالم النبالء اور تاریخ الخلفاء للسیوطی دیکھئے۔‬

‫دیکھئے عالمہ ذھبی نے خلق قرآن کے مسئلہ پر ان کی خبر تو لی لیکن بایں ہمہ ان کی بہت تعریف‬
‫کی اور مامون کو کافی سارے اچھائیوں کا حامل کہا‪ ،‬دیکھئے یہ قول‪:‬‬

‫وكان من رجال بني العباس حزما وعزما ورأیا وعقال وھیبة وحلما ‪ ،‬ومحاسنه كثیرة في الجملة ‪.‬‬

‫حوالہ‪ :‬سیر اعالم النبالء جلد ‪ ١٠‬ص ‪٢٧٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-10906#page-6522‬‬

‫اور سیوطی بھی یہی کہتے کہ ماسوائے خلق قرآن کے مسئلہ مامون کافی خوبیوں کا حامل تھا‪:‬‬

‫وكان أفضل رجال بني العباس حز ًما‪ ،‬وعز ًما‪ ،‬وحل ًما‪ ،‬وعل ًما‪ ،‬ورأیًّا‪ ،‬ودھاء‪ ،‬وھیبة‪ ،‬وشجاعة‪ ،‬وسؤددًا‪،‬‬
‫وسماحة‪ ،‬وله محاسن وسیرة طویلة لوال ما أتاہ من محنة الناس في القول بخلق القرآن‪ ،‬ولم ی ِل الخالفة‬
‫مفوھًا‬
‫من بني العباس أعلم منه‪ ،‬وكان فصی ًحا ّ‬

‫حوالہ‪ :‬تاریخ الخلفاء ص ‪٢٢٦‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-11997#page-250‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ہم مامون پر بھی لعنت کرتے ہیں اور اس اموی پر بھی۔‬

‫دوسری بات جو ہماری مستدل روایت ہے وہ آپ ثابت تو کریں کہ بنو عباس کے اس دور کی تخلیق‬
‫ہے۔ یہ میں اطمینان سے کہہ رہا ہوں کہ میری مستدل دالئل کو ہرگز اس دور کی پیدوار قرار نہیں‬
‫دے سکتے۔۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،٢١‬کتاب اصل و اصول الشیعہ کی روایت کا حال‬

‫ناظرین اس روایت کا بے سند ہونا تو ہم بتا چکے ہیں‪ ،‬اب ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ ثابت کرتے کہ یہ‬
‫روایت قابل استدالل ہے لیکن ایسا کچھ نہ کیا۔۔ ہم نے مزید ثابت کیا کہ خود ان کے علماء با سند‬
‫روایات سے استدالل اور تصحیح کرتے ہیں تو کیا میں خود ان کو ملزم بناسکتا ہوں اور اس سلسلے‬
‫میں ہم نے کچھ علماء کے اقوال نقل کئے مثل‬
‫ابن خزیمہ‪ ،‬نووی‪ ،‬ابو الحسن سندھی‪ ،‬امیر یمانی‪ ،‬شوکانی‪ ،‬ابن حجر جس میں انہوں نے سینے پر‬
‫ہاتھ باندھنی والی روایت کو صحیح کہا تھا اور مستدل سمجھا تھا لیکن محترم کہنے لگے‪:‬‬

‫(فخر‪:‬آپ کی سینے پر ھاتھ باندھنے والی روایت پر یہ ساری بحث بے سود اور وقت کا ضیاع ھے‪،‬‬
‫کیونکہ میں فقہی مسائل میں حنفی ھوں اور میرے لیے فقھی مسائل میں فقھاء احناف کے اقوال دلیل‬
‫بن سکتے ھے نہ کہ شوافع و حنابلہ وغیرہ کی‪.‬‬
‫اور ایک بات آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ بعد والے علماء جو بھی دالئل پیش کررھے‬
‫ھوتے ھیں وہ اپنے مجتھد کے اقوال کی تائید و تقویت کے لیے پیش کررھے ھوتے ھیں‪ ،‬حقیقت‬
‫میں ان کا عمل اپنے امام کے اقوال پر ھوتا ھے‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬محترم تو ہم کب سے صاحب اصل و اصول الشیعہ کے مقلد ہوگئے۔ اگر یہی معبر اور میزان‬
‫ہے تو دونوں کے لئے برابر ہونا چاہئے‪ ،‬جب آپ کے پانچ سے زائد علماء‪ ،‬ان کی تصحیح آپ پر‬
‫حجت نہیں تو مجھے آپ ایک شیعہ عالم کے اجتہاد پر کیوں ملزم کررہے ہیں۔۔ زیادہ سے زیادہ کہا‬
‫جائے گا کہ وہ روایت کو صحیح سمجھتے ہوں (اگر مان بھی لیا جائے اس مفروضہ کو جو میں‬
‫نہیں مانتا) تو ان کا اجتہاد مجھ پر حجت کیسے؟ اگر وہ میرے مذھب کے عالم ہے تو کیا پانچ سے‬
‫زائد علماء آپ کے مذھب کے علماء نہیں؟ جو جواب ادھر وہی میرا‪ ،‬میری کوئی دلیل نہیں ٹوٹی‬
‫ہے‪ ،‬میں تو بار بار کہہ رہا ہوں کہ مجرد نقل روایت یا بقو فخر الزماں صاحب استدالل روایت‬
‫تصحیح پر داللت نہیں کرتا‪ ،‬آپ اس کا جواب دیں۔ ورنہ کتنے ہی علماء نے کتنی روایات نقل کیں‬
‫اگر وہ دفتر کھل جائے تو پھر آپ کیا جواب دیں گے؟‬

‫محترم مزید کہتے ہے‪:‬‬

‫( فخر‪ :‬جناب اس بات کو میں بھی تسلیم کرتا ھوں کہ اگر کسی عالم کی بات کا رد آپ اس سے زیادہ‬
‫قوی اور وزنی دالئل سے کرتے ہیں تو ٹھیک ہے کوئی حرج نہیں‪ ،‬لیکن ایسا ھو بھی تو صحیح‪.‬‬
‫یھاں آپ کے آل کاشف صاحب اپنا ایک نظریہ ثابت کرنے کے لیے روایت ال رھے ھیں کہ معاویہ‬
‫رض ایسا ویسا تھا‪ ،‬اور آپ اس کی اس بات کو بے سند کھہ کر اس کے اس نظریہ کو باطل ٹھرا‬
‫رھے ھیں‪.‬‬
‫کیونکہ جب ان کی دلیل ھی بے سند تو ان کا نظریہ بھی باطل)‬

‫جواب‪ :‬محترم تو بس بات ہی ختم ہوگئی‪ ،‬میرا دعوی یہ ہے کہ یہ روایت جس کتاب سے نقل کی گئی‬
‫ہے ادھر اس کی سند نہیں اور بے سند روایات اگر دیگر طرق معتبرہ سے نہ ہوں تو وہ قابل قبول‬
‫نہیں‪ ،‬ہمت کیجئے سند دیکھائے۔ اس میں یہ کہنے کی بات کہاں کہ میں فالں سے بڑا ہوگیا ہوں یا وہ‬
‫مجھ سے چھوٹا ہے‪ ،‬آپ کے مذھب میں تو ابوحنیفہ کے اقوال کے خالف بھی فتاوی موجود ہیں جو‬
‫معمول بہ ہیں۔ تو کیا اب میں یہی بات آپ کے سامنے رکھوں کہ کیا آپ لوگ ابوحنیفہ سے بڑے‬
‫عالم ہوگئے ہیں‪ ،‬ایسی باتیں تو جواب کے الئق بھی نہیں۔ لیکن خود اپنی حالت دیکھئے کہ سنن ابی‬
‫داود کی روایت جس کو علماء نے صحیح کہا ہے اس کو مضطرب کہہ دیا‪ ،‬سنن ابن ماجہ کی‬
‫روایت جس کو علماء نے صحیح کہا ہے اس پر جرح کردی‪ ،‬ابن جوزی کو پروپینگنڈے کا شکار‬
‫کہہ دیا‪ ،‬وہاں یہ تمام باتیں صحیح ہیں لیکن خیر طلب کرے تو وہ حرام‪ ،‬واہ کیا معیار ہے؟‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫محترم کہتے ہے‪:‬‬

‫( کسی مذھب کے نمائندے کی اپنے مذھب کی نمائندگی میں لکھی گئی کتاب بالکل اس مذھب کے‬
‫لوگوں کے لیے دلیل بن سکتی ہے جیسا کہ اصل و اصول الشیعہ کتاب ھے‪ ،‬ھاں اگر اس میں کوئی‬
‫ایسی بات ھو جو مذھب کی کتب معتبرہ کے خالف ھو تو اس کو دالئل سے رد کیا جاسکتا ہے‪.‬‬
‫لیکن آپ سے پہلے بھی کسی شیعہ م عتبر عالم نے آل کاشف صاحب کی اس بات کا رد کھیں کیا‬
‫ھے؟ یا خیر طلب صاحب ان سے بھی بڑے مجتھد ھوگئے ھیں کہ ان کے دالئل کا رد کررھے ھیں)‬

‫جواب‪ :‬محترم آل کاشف الغطاء متاخر عالم ہے۔۔ اور ان کی نقل کردہ روایات ان سے اس وقت ہٹ‬
‫جاتی ہے جب انہوں نے اس کا مصدر دے دیا ‪ ،‬اب محققین کا کام ہے مصدر کی تحقیق کریں اور‬
‫خود فیصلہ کریں۔ یہ جو خود جعلی معیار بنایا ہے ذرا اس کی دلیل بھی دیجئے۔ خیر طلب کے‬
‫اجتہاد کو چھوڑ دیجئے اپنی فکر کیجئے۔ یہ معاملہ ہم خود گھر میں طے کرلیں‪ ،‬آپ ہمارے سواالت‬
‫کے جوابات دیجئے۔ ابھی تک مجھے سند نہیں دی ہے‪ ،‬جلدی سے سند دیجئے ورنہ کل سے سینے‬
‫پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھئے۔‬

‫محترم فخر الزماں کہتے ہے‪:‬‬

‫(جناب اھل علم کے شایان شان یہ بات بھی نھیں کہ وہ عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے‬
‫مطلب کی بات ھی نقل کردے‪ .‬اور یہ آپ کئی بار کر چکے ہیں‪.‬‬
‫بہرحال‪ ،‬یہ تو آپ نے اپنے مجتھد کے مستدل کو بے سند کھہ کر ھم کو کھنے کا موقعہ دیا‪.‬‬
‫‪، 2‬آپ کے شیخ بھلے سنی و شیعہ سے مخاطب ھوں‪ ،‬لیکن یہ ثابت تو وہ اپنا مذھب اور نظریات ھی‬
‫کررھے ھیں نہ؟‬
‫اور اس کے لیے بے سند روایات کا سھارا لے کر عوام کو دھوکا کیوں دے رھے ھیں ؟‬
‫‪ ،3‬میں نے یہ بات واضح طور پر لکھی ھے کہ آپ کے مجتھد صاحب نے اپنے نظریے کو ثابت‬
‫کرنے کے لیے یہ روایت پیش کی ھے‪ ،‬اور آپ مطلقا ً روایت نقل کرنے کی بحث بیچ میں ال کر کنز‬
‫العمال کی مثال دے کر خلط مبحث کرنے کی کوشش کررہے ہیں‪.‬‬
‫آپ دوسروں کے ساتھ اس طرح کی کوششیں کرچکے ھونگے یہ اصل بات سے بات ھٹا کر دوسری‬
‫بات چھیڑ دی لیکن مجھ سے اس طرح کا طریقہ آئند اختیار مت کریں)‬

‫جواب‪ :‬محترم اول تو مجھے آپ کی شق ہی منظور نہیں کہ وہ مستقل دلیل الئے تھے صرف ان بے‬
‫سند روایات کو نقل کرکے‪ ،‬پہلے اس کا اثبات کیجئے‪ ،‬اور جو آپ عوام کو دھوکہ کہہ رہے ہیں تو‬
‫میں اب الزامی جواب دے کر بتاتا ہوں کون بے سند اور موضوع روایات سے استدالل کرکے اور‬
‫اس کو بخاری کی روایات کہہ کر آپ کی بدزبانی کے مطابق عوام کو دھوکہ دے رہا ہے۔‬
‫محترم فخر الزماں صاحب کے پیش خدمت ہے کہ ان کے علماء نے موضوع کہا ہے لیکن آپ کے‬
‫علماء اس سے ا ستدالل کرتے ہیں۔۔ چنانچہ ایسی صورت میں دو ہی باتیں ہوسکتیں ہیں ‪ ،١‬ایک کا‬
‫اجتہاد دوسرے کو ملزم نہیں کرتا چنانچہ جن کے نزدیک موضوع ہے ان کا اجتہاد دوسرے کو ملزم‬
‫نہیں کرے گا جن کے نزدیک وہ قابل استدالل ہوں ‪ ،٢‬آپ کی منطق کے تحت جس شخص نے اس‬
‫سے استدالل کیا ہے ا س کو مورد الزام قرار دیا جائے گا۔ (یہ دونوں صورتیں اس بات کو ذھن میں‬
‫رکھتے ہوئے کہ آپ کی نقل کردہ عبارت اس پر فٹ بیٹھتی ہو)۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب دیکھئے روایت یہ ہے کہ جو حدیث کتاب خدا کے موافق ہو اس کو قبول کرو اور جو مخالف ہو‬
‫اس سے اعراض کرو۔‬

‫جن علماء نے اس سے استدالل کیا ہے (اور آپ کے منھج کے تحت استدالل تصحیح پر دال ہے)‬

‫‪ ،١‬سرخسی حنفی‪ :‬چناچنہ مؤلف فرماتے ہے‪:‬‬

‫س َالم إِذا ُر ِو َ‬
‫ي لكم عني َحدِیث فاعرضوہ على كتاب‬ ‫فَعرفنَا أَن نسخ ْالكتاب َال یجوز ِبالسن ِة َوقَا َل َ‬
‫علَ ْی ِه ال ه‬
‫ہللا فَ َما َوافق كتاب ہللا فاقبلوہ َو َما خَالف كتاب ہللا فَردُّوہُ‬

‫پس ہم جان گئے کہ کتاب خدا کا نسخ سنت سے جائز نہیں کیونکہ رسول ص نے فرمایا کہ جب‬
‫تمہارے پاس میری نقل کردہ حدیث آئے تو کتاب خدا پر پیش کرو جو موافق کتاب خدا ہو اس کو‬
‫قبول کرو اور جو کتاب خدا کے خالف ہو اس کو رد کرو۔‬

‫حوالہ‪ :‬اصول السرخسی جلد ‪ ٢‬ص ‪٦٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-6301#page-439‬‬

‫‪ ،٢‬آمدی رقم طراز ہے‪:‬‬

‫َّللا فَ َما َوافَقَهُ‬


‫ب هِ‬ ‫علَى ِكت َا ِ‬ ‫عنِّي َحد ٌ‬
‫ِیث فَاع ِْر ُ‬
‫ضوہُ َ‬ ‫سله َم‪ِ « " :‬إذَا ُر ِو َ‬
‫ي َ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلهى ه‬
‫َّللاُ َ‬ ‫علَ ْی ِه قَ ْولُهُ ‪َ -‬‬‫َو َید ُ ُّل َ‬
‫فَا ْقبَلُوہُ َو َما خَالَفَهُ فَ َردُّوہُ»‬

‫اور اس بات پر رسول ص کا قول داللت کرتا ہے کہ جب میری نقل کردہ حدیث آئے تو کتاب خدا پر‬
‫پیش کرو جو موافق کتاب خدا ہو اس کو قبول کرو اور جو کتاب خدا کے خالف ہو اس کو رد کرو۔‬

‫حوالہ‪ :‬اْلحكام في أصول اْلحكام جلد ‪ ٢‬ص ‪٣٢٣‬‬


‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-10801#page-603‬‬

‫‪ ،٣‬عالمہ ابوبکر سمرقندی کہتے ہے‪:‬‬

‫فأما إذا خالف واحدًا من ھذہ اْلصول القاطعة‪ ،‬فإنه یجب ردہ أو تأویله على وجه یجمع بینھما‪ ،‬لما روي‬
‫عن رسول ہللا ‪ -‬صلى ہللا علیه وسلم ‪ -‬أنه قال‪" :‬إذا روي لكم عني حدیث فاعرضوہ على كتاب ہللا تعالى‬
‫فما وافق كتاب ہللا تعالى فاقبلوہ‪ ،‬وما خالف كتاب ہللا تعالى فردوہ"‬

‫چنانچہ اگر وہ ان اصول قطعیہ کے خالف ہو تو واجب ہے کہ اس کو رد کیا جائے یا اس کی یوں‬


‫تاویل کی جائے کہ دونوں کو جمع کیا جائے۔ کیونکہ رسول ص سے یہ حدیث مروی ہے‪ :‬جب‬
‫تمہارے پاس میری نقل کردہ حدیث آئے تو کتاب خدا پر پیش کرو جو موافق کتاب خدا ہو اس کو‬
‫قبول کرو اور جو کتاب خدا کے خالف ہو اس کو رد کرو۔‬

‫حوالہ‪ :‬میزان اْلصول في نتائج العقول جلد ‪ ١‬ص ‪٤٣٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-19237#page-462‬‬

‫‪ ، ٤‬عالمہ سعد الدین تفتازانی رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ب ه‬
‫َّللاِ‬ ‫علَى ِكت َا ِ‬
‫ضوہُ َ‬ ‫ع ِنّي َحد ٌ‬
‫ِیث فَاع ِْر ُ‬ ‫ي لَكُ ْم َ‬
‫ِیث ِم ْن بَ ْعدِي فَإِذَا ُر ِو َ‬ ‫س َال ُم ‪« -‬یَ ْكث ُ ُر لَكُ ْم ْاْل َ َحاد ُ‬
‫علَ ْی ِه ال ه‬
‫فَ ِلقَ ْو ِل ِه‪َ - :‬‬
‫َاب ه ِ‬
‫َّللا‬ ‫ف ِكت َ‬ ‫علَى أ َ هن كُ هل َحدِی ٍ‬
‫ث یُخَا ِل ُ‬ ‫ف فَ ُردُّو ُہ» فَدَ هل َھذَا ْال َحد ُ‬
‫ِیث َ‬ ‫َّللا فَا ْق َبلُوہُ‪َ ،‬و َما خَالَ َ‬ ‫ت َ َعالَى فَ َما َوافَقَ ِكت َ‬
‫َاب ه ِ‬
‫س َال ُم ‪َ ،-‬و ِإنه َما ھ َُو ُم ْفت ًَرى‬
‫علَ ْی ِه ال ه‬
‫الرسُو ِل ‪َ -‬‬ ‫ث ه‬ ‫ْس بِ َحدِی ِ‬ ‫فَإِنههُ لَی َ‬

‫اور رسول ص کا قول کہ میرے بعد کافی ساری احادیث تمہارے سامنے آئیں گی (منقول روایات)‬
‫لہذا جب تمہارے پاس میری نقل کردہ حدیث آئے تو کتاب خدا پر پیش کرو جو موافق کتاب خدا ہو‬
‫اس کو قبول کرو اور جو کتاب خدا کے خالف ہو اس کو رد کرو۔ چنانچہ یہ حدیث داللت کرتی ہے‬
‫کہ ہر وہ منقول حدیث جو کتاب خدا کے مخالف ہو وہ درحقیقت رسول ص کی حدیث نہیں بلکہ‬
‫جھوٹ گھڑی ہوئی ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬شرح التلویح على التوضیح جلد ‪ ٢‬ص ‪١٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9508#page-448‬‬

‫‪ ،٥‬عالمہ نظام الدین شاشی رقم طراز ہے‪:‬‬

‫ورة َوأَن َال یكون ُمخَالفا ه‬


‫للظا ِھر قَا َل‬ ‫سنة ْال َم ْش ُھ َ‬
‫احد أَن َال یكون ُمخَالفا ْللكتاب َوال ّ‬‫قُ ْلنَا شَرط ْالعَ َمل بِ َخبَر ْال َو ِ‬
‫ي لكم عني َحدِیث فاعرضوہ على كتاب ہللا فَ َما َوافق فاقبلوہ‬ ‫س َالم(ت ْكثر لكم ْاْل َ َحادِیث بعدِي فَإِذا ُر ِو َ‬‫علَ ْی ِه ال ه‬
‫َ‬
‫َو َما خَالف فَردُّوہُ)‬
‫ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد پر عمل کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب خدا اور سنت مشہورہ کی‬
‫مخالفت نہ ہو اور ظاہر کی بھی مخالفت نہ کرے جیسے کہ رسول ص کا قول ہے‪ :‬میرے بعد تم‬
‫کافی احادیث مالحظہ کرو گے چناچنہ جو روایت مجھ سے نقل کی جائے اس کو کتاب خدا پر پیش‬
‫کرو اگر موافق ہو تو قبول کرو اور جو مخالف ہو اس کو رد کرو۔‬

‫حوالہ‪ :‬اصول الشاشی جلد ‪ ١‬ص ‪٢٨٠‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-6302#page-115‬‬

‫مزیدار بات یہ ہے کہ اصول الشاشی کی ایک شرح احسن الحواشی اس کے ص ‪ ٧٦‬پر تو اس حدیث‬
‫پر وضع کے حکم کو یوں رفع کیا گیا کہ یہ روایت بخاری میں موجود ہے۔ (مالحظہ ہو احسن‬
‫الحواشی ص ‪)٧٦‬۔۔‬

‫‪http://ia800209.us.archive.org/32/items/waqosah/osah.pdf‬‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫بہرحال اس بحث میں جائے بغیر کیا بالفعل روایت بخاری میں ہے یا نہیں۔۔ اتنا پتا چال کہ بعض‬
‫اصولیی ن اس کو قابل استدالل سمجھتے ہیں اور آپ کے قاعدہ کے تحت استدالل صحت پر دال ہے۔‬
‫لیکن اب میں بتاتا ہوں کہ اس روایت کو موضوع اور زندیق کی پیداوار کس نے کہا‬

‫‪ ، ١‬عالمہ شھاب الدین مالکی اپنے اصول کی کتاب میں کہتے ہے‪:‬‬

‫حدیث‪(( :‬إذا ُروي لكم عني حدیث فاعرضوہ على كتاب ہللا‪ ،‬فإن وافقه فاقبلوہ وإن خالفه فردوہ)) ‪ .‬ھذا‬
‫الحدیث وضعته الزنادقة‬

‫اور یہ منقول حدیث‪ :‬جو روایت مجھ سے نقل کی جائے اس کو کتاب خدا پر پیش کرو اگر موافق ہو‬
‫تو قبول کرو اور جو مخالف ہو اس کو رد کرو۔ یہ حدیث زنادقہ نے گھڑی ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬جزء من شرح تنقیح الفصول في علم اْلصول ص ‪١٥٩‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9879#page-158‬‬

‫‪ ،٢‬عالمہ خطابی کہتے ہے‪:‬‬

‫وأما ما رواہ بعضھم أنه قال إذا جاءكم الحدیث فاعرضوہ على كتاب ہللا فإن وافقه فخذوہ وإن خالفه‬
‫فدعوہ فإنه حدیث باطل ال أصل له‪ .‬وقد حكى زكریا بن یحیى الساجي عن یحیى بن معین أنه قال ھذا‬
‫حدیث وضعته الزنادقة‪.‬‬

‫اور یہ جو بعض روایت نقل کرتے ہیں کہ‪ :‬جو روایت مجھ سے نقل کی جائے اس کو کتاب خدا پر‬
‫پیش کرو اگر موافق ہو تو قبول کرو اور جو مخالف ہو اس کو چھوڑ دو تو یہ حدیث باطل ہے جس‬
‫کی کوئی اصل نہیں۔ او ر ساجی نے ابن معین سے نقل کیا کہ ابن معین کے مطابق یہ حدیث زندیقوں‬
‫نے گھڑی ہے۔‬

‫حوالہ‪ :‬معالم السنن‪ ،‬جلد ‪ ،٤‬ص ‪٢٩٩‬۔‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1442#page-1294‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ہمارے پاس اس ضمن میں موافق اور مخالف دیگر حوالے جات بھی ہیں لیکن بحث کی‬
‫تحلیل اور اثبات مطلب کے لئے یہ نقل کردہ حوالے جات اور نصوصات کافی رہیں گی۔ امید ہے کہ‬
‫اب دوبارہ وہی باتیں نہیں کریں گے جن کا جواب بار بار دیا جاچکا ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،٢٢‬قرب االسناد کی دو روایات سے استدالل کے جوابات‬

‫محترم فخر الزماں دو روایات سے استدالل کرتے ہیں‪ ،‬آئے اس کا جواب دیتے ہیں‬

‫محترم کہتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪41#:‬‬
‫اب زرا شیعہ کتب کی زیارت خیر طلب صاحب کو کرواتے ھیں کہ ان کا سیدنا معاویہ رض اور‬
‫اھل شام کے بارے میں جو نظریہ ھے وہ ان کے اماموں سے ملتا ھے کہ نھیں‬
‫شیعہ مذھب کی معتبر کتاب قرب االسناد میں ھے کہ‬

‫جعفر‪ ،‬عن أبیه علیه السالم‪ :‬أن علیا علیه السالم لم یكن ینسب أحدا من أھل حربه إلى الشرك وال إلى‬
‫النفاق‪ ،‬ولكنه كان یقول‪ " :‬ھم إخواننا بغوا علینا "‬
‫قرب االسناد ص ‪94‬‬
‫امام جعفر رح اپنے وا لد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رض نے جن سے بھی جنگ کی ان میں‬
‫سے کسی کی طرف بھی شرک اور نفاق کی نسبت نھیں کی‪ ،‬یہ کھتے تھے کہ وہ ھمارے بھائی ھیں‬
‫ھم سے بغاوت کی ھے‪).‬‬

‫جواب‪:‬‬
‫اب اس روایت میں تین امور سے استدالل ممکن ہے‬
‫‪ ، ١‬شرک اور نفاق کی طرف انتساب کی طرف انتساب فعلی نہیں کیا‬
‫‪ ،٢‬اخوان کہا (یعنی بھائی کہا)‬
‫‪ ،٣‬بغاوت کا کہا۔‬

‫اب آتے ہے پہلے نکتہ کی طرف۔‬

‫کسی کی طرف کفر اور نفاق کا اس وقت امساک کرنا اس بات پر داللت نہیں کہ حقیقت حال میں ان‬
‫کے کفر یا نفاق کی نفی کی جارہی ہے کیونکہ الفاظ روایت میں قول نہیں بلکہ عمل امیر المؤمنین‬
‫کی طرف اشارہ ہے‪:‬‬
‫لم یكن ینسب أحدا من اھل حربه إلى الشرك وال إلى النفاق‬
‫اور اس کے بعد قول کی طرف چنانچہ تطبیق کی صورت حال یہ ہے کہ ادھر عدم نسبت شرک و‬
‫نفاق کرنا اس بات پر داللت نہیں کہ حقیقت حال میں ایسا نہ ہو‪ ،‬دیکھئے کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں‬
‫جن پر اپ مصلحت کے پیش نظر کوئی کمنٹ دینے سے پرہیز کرتے ہیں لیکن اس سے یہ بات الزم‬
‫نہین آتی کہ حقیقت حال میں وہ برائی ان میں نہ ہو بلکہ حفظ مراتب کے تحت انسان خاموش رہتا‬
‫ہے۔‬

‫یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ خوارج جہنم کے کتے ہیں اور ان کی عدم نجات پر کسی کو شک‬
‫نہی ں‪ ،‬چنانچہ بعض اہلسنت خوارج کو کفار میں سے شمار کرتے اور بعض ان کو مسلمین لیکن‬
‫فاسقین میں سے چنانچہ ان کے بارے میں ہلکی سی ہلکی رائے یہ ہے کہ یہ فاسقین ہیں اور یہ‬
‫عذاب کے مستحق ہیں جو وعدہ کیا گیا‬

‫‪ ، 2‬امیر المؤمنین ع سے منسوب ایک روایت خود اپ کی کتب میں ہے‪:‬‬


‫كنت عند علي ‪ ،‬فسئل عن أھل النھر ‪ ،‬أھم مشركون ؟ قال ‪ :‬من الشرك فروا ‪ ،‬قیل فمنافقون ھم ؟ قال ‪:‬‬
‫إن المنافقین ال یذكرون ہللا إال قلیال ‪ ،‬قیل فما ھم ؟ قال قوم بغوا علینا‬

‫راوی کہتا ہے کہ میں علی ع کے پاس تھا اور میں نے اہل نہروان یعنی خوارج کے بارے میں‬
‫پوچھا کہ کیا وہ مشرک ہیں تو امیر ع نے کہو وہ شرک سے بھاگتے ہیں تو کہا کیا وہ منافق ہیں تو‬
‫امیر ع نے کہا کہ منافق خدا کا ذکر نہیں کرتے مگر کم (یعنی وہ نہ مشرک ہے اور نہ منافق) تو‬
‫پوچھا کہ وہ ہے کون کہا وہ ایک ایسا گروہ جس نے ہمارے خالف بغاوت کی‬

‫یہ روایت المصنف ابن ابی شیبہ می منقول ہے اور دیگر کتب میں بھی اور اس روایت کی کو محقق‬
‫کتاب شعیب ارنووط نے صحیح کہا ہے (مالحظہ ہو صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان حاشیہ جلد ‪15‬‬
‫ص ‪)134‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1729#page-9800‬‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫چنانچہ ان کے فساق اور بعض کے نزدیک کافر ہونے کے باوجود ان کے بارے میں آپ لوگوں کے‬
‫ہاں امیر ع کے وہی الفاظ منقول ہیں جو قرب االسناد میں دیگر حضرات کے لئے ہیں‪ ،‬جو جواب اس‬
‫روایت کا آپ دیں وہی ہمارا سمجھیں جب کہ یاد رہے کہ خوارج بہرحال مقدوح و باطل گروہ‬
‫ہے (دوسری روایت کے جواب میں خوارج کے بارے میں مزید تفصیالت آئیں گی)‬

‫اب آتے ہے دوسرے نکتہ کی طرف وہ ہے بھائی کہنا۔ تو بھائی کبھی معنی اخص میں آتا ہے کہ‬
‫ایمانی سلسلہ کی وجہ سے اور کبھی ایک قوم کی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔ قرآن مجید میں انبیاء‬
‫ع کو بھی کافر اقوام کا بھائی کہا گیا مالحظہ ہو کچھ آیات‬

‫غی ُْرہُ ۖ أَفَ َال تَتهقُونَ‬


‫عا ٍد أَخَاھُ ْم ھُودًا ۖ قَا َل َیا قَ ْو ِم ا ْعبُد ُوا ال هلـ َہ َما لَكُم ِّم ْن ِإ َلـ ِٰ ٍہ َ‬
‫‪ ،١‬اعراف ‪َ :٦٥‬و ِإلَ ٰى َ‬
‫(اور (اسی طرح) قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ بھائیو خدا ہی کی‬
‫عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ کیا تم ڈرتے نہیں)‬

‫غی ُْرہُ ۖ قَدْ َجا َءتْكُم‬ ‫‪ ،٢‬اعراف ‪َ :٧٣‬وإِلَ ٰى ث َ ُمودَ أَخَاھُ ْم َ‬


‫صا ِل ًحا ۖ قَا َل یَا قَ ْو ِم ا ْعبُد ُوا ال هلـہَ َما لَكُم ِّم ْن إِ َلـ ِٰ ٍہ َ‬
‫سوھَا بِسُوءٍ فَیَأ ْ ُخذَكُ ْم‬‫ض ال هلـ ِہ ۖ َو َال ت َ َم ُّ‬ ‫بَیِّنَةٌ ِّمن هربِّكُ ْم ۖ ہَـ ِٰ ِذ ِہ نَاقَةُ ال هلـ ِہ لَكُ ْم آیَةً ۖ فَذَ ُروھَا ت َأ ْ ُك ْل فِي أ َ ْر ِ‬
‫عذَابٌ أ َ ِلی ٌم ( اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ (تو) صالح نے کہا کہ اے قوم!‬ ‫َ‬
‫خد ا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی‬
‫طرف سے ایک معجزہ آ چکا ہے۔ (یعنی) یہی خدا کی اونٹنی تمہارے لیے معجزہ ہے۔ تو اسے‬
‫(آزاد) چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا۔‬
‫ب الیم میں تمہیں پکڑ لے گا)‬ ‫ورنہ عذا ِ‬

‫غی ُْرہُ ۖ قَدْ َجا َءتْكُم‬‫عبُد ُوا ال هلـہَ َما لَكُم ِّم ْن ِإ َلـ ِٰ ٍہ َ‬ ‫‪ ،٣‬اعراف ‪َ :٧٥‬و ِإ َل ٰى َم ْدیَنَ أَخَاھُ ْم شُ َع ْیبًا ۖ قَا َل یَا قَ ْو ِم ا ْ‬
‫ص َال ِح َھا‬ ‫س أ َ ْشیَا َءھُ ْم َو َال ت ُ ْف ِسد ُوا فِي ْاْل َ ْر ِ‬
‫ض بَ ْعد َ إِ ْ‬ ‫بَیِّنَةٌ ِّمن هربِّكُ ْم ۖ فَأ َ ْوفُوا ْال َك ْی َل َو ْال ِمیزَ انَ َو َال ت َ ْب َخسُوا النها َ‬
‫ۖ ٰذَ ِلكُ ْم َخی ٌْر لهكُ ْم ِإن كُنتُم ُّمؤْ ِمنِینَ (اور َمدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ (تو) انہوں نے‬
‫کہا کہ قوم! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے‬
‫پروردگار کی طرف سے نشانی آچکی ہے تو تم ناپ تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ‬
‫دیا کرو۔ اور زمین میں اصالح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات‬
‫تمہارے حق میں بہتر ہے )‬

‫اسی طرح سورہ ہود ‪ ٥٠‬میں قوم عاد۔۔ہود‪ ،‬سورہ ہود ‪ ٦١‬میں ثمود۔صالح‪ ،‬سورہ ہود ‪ ٧٣‬میں‬
‫مدین۔۔شعیب‪ ،‬سورہ نمل آیت ‪ ٤٥‬میں ثمود۔۔صالح‪ ،‬سورہ عنکبوت آیت ‪ ٣٦‬میں مدین۔۔شعیب میں بھی‬
‫بھائی استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ بھائی ہونا ادھر ان آیات کی روشنی میں دیکھا جائے کیونکہ اگر بھائی‬
‫ہوکر بغاوت کی جائے تو پھر وسائل کے ہوتے ہوئے قتال ضروری ہوجاتا ہے اور باغی کے بارے‬
‫میں انشاء ہللا تفصیل آرہی ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬
‫اب تیسرے مطلب کی طرف آتے ہیں کہ باغی ہونا اور یہ چیز خود حدیث صحیح سے ثابت ہے اور‬
‫اب بغاوت کے بارے میں کیا حکم ہے آئے۔۔ جو نصوص وارد ہوئیں ہیں اور جو سخت کالم باغیوں‬
‫کے بارے میں ہیں اگر سب کو نقل کیا جائے تو باعث طوالت ہوگا‪ ،‬آئے ہم اختصار سے بعض چیز‬
‫نقل کئے دیتے ہیں‬

‫الف‪ ،‬باغی کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھاؤ‪ :‬ابو حنیفہ کا قول نووی نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫علَى قَتِی ِل ْال ِفئ َ ِة ْالبَا ِغیَ ِة‬


‫ب ‪َ ،‬و َال َ‬ ‫علَى ُم َح ِ‬
‫ار ٍ‬ ‫َوقَا َل أَبُو َحنِیفَةَ ‪َ :‬ال یُ َ‬
‫صلهى َ‬

‫ابوحنیفہ نے کہا کہ محارب (یعنی جو جنگ کرے) (مقتول) پر نماز نہیں پڑھنی‪ ،‬اسی طرح باغی‬
‫گروہ کے مقتولوں پر نماز نہیں پڑھنی۔‬

‫حوالہ‪ :‬شرح نووی جلد ‪ ٧‬ص ‪٤٨‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-1459‬‬

‫ب‪ ،‬باغیوں کے ہاتھ قتل ہونے والوں کو اس ہی لباس اور بغیر غسل کے دفن کیا جائے۔۔ یہ فقہی‬
‫مسئلہ بھی کتب اہلسنت میں موجود ہے کہ ان کے ساتھ شہداء حقیقی واال سلوک کیا جائے۔ یعنی وہ‬
‫شہید نہیں جو حکما شہید ہو لیکن حقیقتہ نہیں بلکہ ان کے ساتھ شہدا واال طریقہ اپنایا جائے۔ اور اس‬
‫میں ایک قول عمار بھی بطور دلیل نقل کیا جاتا ہے کہ میرے کپڑے مت اتارنا اور غسل کے ذریعہ‬
‫میرا خون صاف نہ کرنا۔ میں قیامت کے دن معاویہ سے ایسے مالقات کورں گا (بدائع الصنائع جلد ‪٣‬‬
‫ص ‪)٣٦٢‬‬

‫د‪ ،‬باغی امام حق کے خالف بغیر کسی وجہ حق کے خروج کرتا ہے‪ :‬حنفی فقہ کی مشہور کتاب میں‬
‫یہ عبارت باغیوں کو بتانے کے لئے آئی ہے‪:‬‬

‫ھم الخارجون عن اْلمام الحق بغیر حق‬

‫باغی حضرات وہ ہیں جو امام حق کے خالف بغیر کسی حق کی وجہ سے نکلیں۔‬

‫حوالہ رد المحتار على الدر المختار جلد ‪ ٤‬ص ‪٢٦١‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-21613#page-2392‬‬

‫چنانچہ ان تمام تصریحات کے بعد باغی جو ایک مذمتی ٹرمنالوجی ہے اس بارے میں کوئی گنجائش‬
‫نہیں رہ جاتی‪ ،‬اس سے بڑھ کر معاویہ کا باغی ہونا بھی حدیث عمار کے تحت گذر چکا ہے جس‬
‫میں عمار کو باغی گروہ قتل کرنے والی تصریح بھی موجود ہے۔ اب بتائے مجھے محترم کہ روایت‬
‫کا آخری حصہ تو مذمتی ہے یہ آپ کے حق میں کیسے ہوگیا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫دوسری روایت جس سے محترم فخر الزماں استدالل کرتے ہے‪:‬‬

‫(فخر‪ :‬جعفر‪ ،‬عن أبیه‪ :‬أن علیا علیه السالم كان یقول ْلھل حربه‪:‬‬
‫" إنا لم نقاتلھم على التكفیر لھم‪ ،‬ولم نقاتلھم على التكفیر لنا‪ ،‬ولكنا رأینا أنا على حق‪ ،‬ورأوا أنھم على‬
‫حق‪.‬‬
‫قرب االسناد ص ‪93‬‬

‫امام جعفر رح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رض خود سے جنگ کرنے والوں کے بارے‬
‫میں کھتے تھے ھم ان سے ان کی تکفیر پر جنگ نھیں کرتے اور نہ وہ ھم سے ھماری تکفیر پر‬
‫کرتے ہیں‪ .‬ھم نے دیکھا کہ ھم حق پر ہیں اور انھوں نے دیکھا کہ وہ حق پر ہیں‪) .‬‬

‫جواب‪:‬‬
‫دوسری روایت جو آپ نے دی ہے اس میں دو نکات ہیں اور میں انشاء ہللا دونوں نکات پر بات کرتا‬
‫ہوں‬

‫ا‪ ،‬عدم تکفیر کرنا‬


‫‪ ،٢‬دونوں گروہ کا اپنے آپ کو حق پر دیکھنا۔‬

‫یاد رہے کہ اس جملہ سے ان کے افعال کی تصویب یا ان کی جنگ کو بہانہ دینا نہیں ہے بلکہ یہ‬
‫وہی منطق ہے جو امیر المؤمنین ع نے اہل کتاب کے لئے بھی استعمال کی (جس کو اہلسنت نے نقل‬
‫کیا)‪:‬‬

‫سبُونَ أَنه ُھ ْم َ‬
‫علَى َح ّ ٍ‬
‫ق‬ ‫َكفَ َرة ُ أ َ ْھ ُل ْال ِكت َا ِ‬
‫ب ۔۔۔۔ َو َیحْ َ‬

‫اہل کتاب کفار (کی صفات بتاتے ہوئے امیر ع ایک جملہ کہتے ہے) کافر اہل کتاب اپنے آپ کو حق‬
‫پر تصور کرتے ہیں‬

‫حوالہ االحادیث المختارہ جلد ‪ ٢‬ص ‪ ١٢٥‬اور التوحید البن مندہ ج ‪ ١‬ص ‪٣١٤‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-10480#page-571‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-8210#page-194‬‬
‫سلفی عالم عبد المحسن اپنے ایک درس میں کہتے ہے‪:‬‬

‫وھذا حاله مثل الخوارج الذین كانوا یقاتلون الصحابة‪ ،‬فقد كانوا یرون أنھم على حق وال یعتقدون أنھم‬
‫مذنبون‬

‫اور یہ حال خوارج کا تھا کہ جو صحابہ سے جنگ کرتے تھے‪ ،‬وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے‬
‫تھے اور یہ اعتقاد نہیں رکھتے تھے کہ وہ گناہ گار ہیں‬

‫حوالہ‪ :‬شرح سنن ابی داؤد درس ‪ ٤٨٠‬ص ‪٥‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-37052#page-14573‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اگر اہل کتاب کا اپنے آپ کو حق پر سمجھنا دلیل حق نہیں ہوسکتا تھا‪ ،‬اسی طرح اگر خوارج‬
‫کا اپنے آپ کو حق پر سمجھنا دلیل حق نہیں ہوسکتا تھا تو اہل جمل یا اہل صفین کا اپنے آپ کو حق‬
‫پر سمجھنا بھی دلیل حق نہیں ہوسکتا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اب خوارج کا تھوڑا تعارف ہوجائے تو ابن تیمیہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫أن الخوارج ظھروا في الفتنة‪ ،‬وكفّروا عثمان وعلیا ً‬


‫ّ‬

‫خوارج فتنہ کے وقت میں ظاہر ہوئے اور عثمان اور علی رضی ہللا عنھما کو کافر کہا۔‬

‫پھر ابن تیمیہ فرماتے ہے‪:‬‬

‫ال یكفر الخوارج ولم یحكم علي [رضي ہللا عنه] وأئمة الصحابة فیھم بحكمھم في المرتدین‪ ،‬بل جعلوھم‬
‫مسلمین‪.‬‬

‫خوارج کو کافر نہیں کہا جائے گا اور امیر المؤمنین اور دیگر صحابہ نے ان پر مرتدین کا حکم نہیں‬
‫الگو کیا بلکہ ان کو مسلمان ہی سمجھا۔‬

‫حوالہ‪ :‬النبوات ابن تیمیة ص ‪٥٧١-٥٧٠‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-11817#page-554‬‬

‫در المختار میں یہ لکھا ہے‪:‬‬


‫وكل من كان من قبلتنا (ال‬
‫یكفر بھا) حتى الخوارج الذین یستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول‬

‫خوارج بھی اہل قبلہ میں سے ہیں اگرچہ وہ ہمارا خون اور مال حالل سمجھتے اور رسول ص کو‬
‫گالیاں دیتے‬

‫حوالہ‪ :‬الدر المختار شرح تنویر اْلبصار وجامع البحار جلد ‪ ١‬ص ‪٧٧‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-14250#page-71‬‬

‫اب میں کچھ فتاوی نماز پڑھنے کے حوالے سے نقل کئے دیتا ہوں‪:‬‬

‫وقال القفال‪ :‬تجوز الصالة خلف الخوارج والروافض ولكن یكرہ ْلن مذھب الفقھاء أن ال یكفر أھل‬
‫اْلھواء‬

‫قفال (فقیہ مذھب شافعی) فرماتے ہے کہ خوارج اور روافض کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے مگر‬
‫کراہیت کے ساتھ کیونکہ فقہاء کا مذھب ہے کہ وہ اہل الھواء (یعنی غیر اہلسنت) کی تکفیر نہیں‬
‫کرتے‬

‫حوالہ‪:‬بحر المذھب (في فروع المذھب الشافعي) جلد ‪ ٢‬ص ‪٢٦٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-16934#page-719‬‬

‫اس ہی طرح فقیہ اہلسنت میمون بن مھران سے بھی اس کی مشروعیت یوں نقل کی گئی‪:‬‬

‫‪ - 1131‬حدثنا أبو أمیة محمد بن إبراھیم‪ ،‬قال‪ :‬ثنا كثیر بن ِھشام‪ ،‬عن َجعفَر بن برقان‪ ،‬قال‪ :‬سألت میمون‬
‫ص ِلّي له‪ ،‬إنما‬
‫َلف َرج ٍل یُذ َكر أنه من الخوارج؟ فقال‪« :‬إنك ال ت ُ َ‬
‫صالة خ َ‬ ‫بن مھران‪ ،‬فقلت‪َ :‬ك َ‬
‫یف ت َرى في ال ه‬
‫أزرقي»‪.‬‬
‫ي َ‬ ‫ص ِلّي خ َ‬
‫َلف الحجاج‪ ،‬وھو َحرور ٌّ‬ ‫ص ِلّي ہلل‪ ،‬قَد كُنها نُ َ‬
‫تُ َ‬

‫جعفر بن برقان کہتے ہے کہ میں نے میمون بن مھران سے پوچھا کہ کیا ایسے شخص کے پیچھے‬
‫نماز جائز ہے جس کو خوارج میں سے کہا جاتا ہو۔۔ تو میمون نے جواب دیا تم اس کے لئے نماز‬
‫نہیں پڑھ رہے ہو بلکہ ہللا کے لئے پڑھ رہے ہو اور ہم تو حجاج کے پیچھے بھی نماز پڑھتے تھے‬
‫اور وہ حروری ازرقی تھا۔‬

‫حوال ہ‪ :‬مسائل حرب بن إسماعیل الكرماني (الطھارة والصالة) ص ‪٥٢٥‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-17844#page-470‬‬
‫تبصرہ‪ :‬حروری خوارج کا ایک گروہ تھا۔۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ خوارج کی تکفیر اہلسنت کے ہاں‬
‫رائج نہیں اس کے باوجود خوارج کو کالب اہل النار یعنی جہنمی کتے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‬
‫جیسے کہ مختلف کتب میں یہ رسول ص سے روایت موجود ہے اور ہم سنن ابن ماجہ سے نقل کئے‬
‫دیتے ہیں جس کو البانی نے صحیح تعبیر کیا ہے۔‬

‫ع ِن اب ِْن أ َ ِبي أ َ ْوفَى‪ ،‬قَالَ‪ :‬قَا َل‬ ‫ع ِن ْاْل َ ْ‬


‫ع َم ِش‪َ ،‬‬ ‫اق ْاْل َ ْز َر ُق‪َ ،‬‬ ‫‪َ - 173‬حدهثَنَا أَبُو َب ْك ِر بْنُ أ َ ِبي َ‬
‫ش ْی َبةَ قَالَ‪َ :‬حدهثَنَا ِإ ْس َح ُ‬
‫ار»‬ ‫سله َم‪ْ « :‬الخ ََو ِار ُج ِك َال ُ‬
‫ب النه ِ‬ ‫صلهى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫َّللا َ‬‫َرسُو ُل ه ِ‬

‫رسول ص نے فرمایا‪ :‬خوارج جہنمی کتے ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬سنن ابن ماجہ جلد ‪ ١‬ص ‪ ٦١‬رقم ‪١٧٣‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1198#page-211‬‬

‫تبصرہ‪ :‬ثابت ہوا کہ خوارج کا امیر المؤمنین ع اور عثمان کی تکفیر کرنا۔۔ ان کا صحابہ کو قتل کرنا۔‬
‫ان کو مسلمانوں سے جنگ کرنا اور ان کا جہنمی کتا ہونا (یعنی آخرت میں جہنم مژدہ ہونا) ثابت شدہ‬
‫باتیں ہیں لیکن پھر بھی اہلسنت کی طرف سے ان کی تکفیر نہیں کی جاتی تو صرف عدم تکفیر ہرگز‬
‫ان کی ضاللت سے نجات کے لئے کافی نہیں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ٢٣‬حضرت عمار یاسر کا نظریہ معاویہ اور اہل شام کے حوالے سے‪ ،‬اور خواب والی روایت کا‬
‫جواب‬

‫ناظرین ہم نے ایک روایت سے استدالل کیا تھا جو یوں تھی‬

‫روایت‪ :‬سعد بن حذیفہ فرماتے ہے کہ عمار نے (فوج معاویہ کو دیکھ کر کہا) ہللا کی قسم یہ اسالم‬
‫(حقیقی) نہ الئے بلکہ اسالم کا اظہار کیا ہے درحاآلنکہ انہوں نے اپنے کفر کو چھپایا۔۔ یہاں تک کہ‬
‫جب انہوں نے مددگار پائے تو کفر کا اظہار کردی‬

‫ناظرین اس روایت پر محترم بالکل خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی دے سکتے ہیں‬
‫کیونکہ روایت بالکل واضح ہے‪ ،‬مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عمار رض کے بعض اور اقوال نقل‬
‫کردئے جائیں ایک شام کے حوالے سے۔‬

‫وكیع عن اْلعمش عن عمرو بن مرة عن عبد ہللا بن سلمة أو عن أبي البختري عن عمار قال ‪ :‬لو‬
‫ضربونا حتى یبلغونا سعفات ھجر لعلمنا أنا على الحق وأنھم على الباطل ‪.‬‬
‫حضرت عمار فرماتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں تلواروں سے ماریں یہاں تک کہ ہمیں تہس نہس کردیں‬
‫پھر بھی مجھے یقین ہوگا کہ ہم حق پر اور وہ باطل پر ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬المصنف از ابن ابی شیبہ‪ ،‬جلد ‪ ٧‬ص ‪٥٤٧‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9944#page-42651‬‬

‫ایک مزید روایت یوں ہے‪:‬‬

‫حدثنا غندر عن شعبة عن أبي مسلمة قال ‪ :‬سمعت عمار بن یاسر یقول ‪ :‬من سرہ أن تكتنفه الحور العین‬
‫فلیتقدم بی ن الصفین محتسبا ‪ ،‬فإني ْلرى صفا لیضربنكم ضربا یرتاب منه المبطلون ‪ ،‬والذي نفسي بیدہ‬
‫لو ضربونا حتى یبلغوا بنا سعفات ھجر لعرفت أنا على الحق وأنھم على الضاللة‬

‫حضرت عمار جنگ صفین میں فرما رہے تھے کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اسے موٹی آنکھوں والی حور‬
‫ملے وہ ثواب کی نی ت سے دونوں صفوں کے درمیان چلے۔ میں ایک ایسی صف کو دیکھ رہا ہوں‬
‫جو تمہیں ایسی ضرب لگائے گی جس کے بارے میں جھوٹے شک کا شکار ہیں۔ اس ذات کی قسم‬
‫جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر وہ ہمیں تہس نہجس کرکے رکھ دیں پھر بھی مجھے یقین‬
‫ہوگا کہ میں حق پر اور وہ باطل پر ہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬المصنف از ابن ابی شیبہ‪ ،‬جلد ‪ ٧‬ص ‪٥٤٧‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-9944#page-42650‬‬

‫تبصرہ‪ :‬خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں دیکھنا چاہئے‪ ،‬مزید یہ کہ آپ پر ابھی‬
‫قرض باقی ہے کہ جس میں عمار بن یاسر رض نے ان پر سخت حکم لگایا ہے‪ ،‬اس کا معقول جواب‬
‫ابھی تک نہیں آیا۔ میں منتظر ہوں۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اس کے جواب میں محترم نے ایک خواب سے استدالل کیا تھا‪ ،‬آئے ان کی زبانی نقل کرتے ہے اور‬
‫پھر اپنا جواب‬

‫(فخر‪ :‬مقتولین صفین کے بارے میں ایک خوابی بشارت بھی پڑھیں‬

‫ع ْم َرو بْنَ‬ ‫س َرة َ َ‬ ‫ع ْن أَبِي َوائِ ٍل‪ ،‬قَالَ‪َ :‬رأَى فِي ْال َمن َِام أَبُو َم ْی َ‬ ‫ع ْم ِرو ب ِْن ُم هرة َ‪َ ،‬‬ ‫ع ْن َ‬ ‫ع ِن ْالعَ هو ِام‪َ ،‬‬ ‫َارونَ ‪َ ،‬‬ ‫یَ ِزید ُ بْنُ ھ ُ‬
‫َّللا ‪ ,‬قَالَ‪َ :‬رأَیْتُ َكأ َ ِنّي أُد ِْخ ْلتُ ْال َجنهةَ ‪ ,‬فَ َرأَیْتُ ِق َبابًا َمض ُْرو َبةً ‪,‬‬ ‫ع ْب ِد ه ِ‬
‫ب َ‬‫ص َحا ِ‬ ‫ض ِل أ َ ْ‬‫شُ َرحْ ِبی َل ‪َ ,‬و َكانَ ِم ْن أ َ ْف َ‬
‫ص ِفّینَ ‪ ,‬قَالَ‪ :‬قُ ْلتُ ‪ :‬فَأَیْنَ‬ ‫ب ‪َ ,‬و َكانَا ِم هم ْن قُتِ َل َم َع ُم َعا ِویَةَ یَ ْو َم ِ‬ ‫ش ٍ‬ ‫فَقُ ْلتُ ‪ِ :‬ل َم ْن َھ ِذہِ؟ فَ ِقیلَ‪َ :‬ھ ِذ ِہ ِلذِي ْال َك َالعِ َو َح ْو َ‬
‫ضا؟ قَالَ‪ :‬قِیلَ‪ِ :‬إ ِِنه ُھ ْم لَقُوا ه َ‬
‫َّللا فَ َو َجد ُوہُ‬ ‫ض ُھ ْم بَ ْع ً‬‫ْف َوقَدْ قَت َ َل بَ ْع ُ‬ ‫ص َحابُهُ؟ قَالُوا‪ :‬أ َ َما َمكَ ‪ ،‬قُ ْلتُ ‪َ :‬و َكی َ‬ ‫ار َوأ َ ْ‬‫ع هم ٌ‬‫َ‬
‫َوا ِس َع ْال َم ْغ ِف َر ِة‬
‫مصنف ج‪ 7‬ص ‪547‬‬

‫ابو وائل کھتے ھیں کہ ابو میسرہ رح نے خواب میں عمرو بن شرحبیل کو دیکھا جو ابن مسعود رض‬
‫کے افضل ساتھیوں میں سے تھے‪ ،‬انھوں نے دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہو رھا ھوں وھاں میں‬
‫نے گڑے ھوئے خیمہ دیکھے تو میں نے کھا یہ کس کے ھیں‪ ،‬کھا گیا یہ بنی کالع اور بنی حوشب‬
‫قبیلے والوں کے ھیں جو صفین میں معاویہ رض کی طرف سے لڑتے ہوئے قتل کئے گئے‪ ،‬تو‬
‫انھوں نے پوچھا کہ ع مار اور اس کے ساتھی کھاں ھیں‪ ،‬ان کو بتایا گیا کہ اور آگے‪ ،‬تو انھوں نے‬
‫پوچھا کہ یہ کیسے ھوسکتا ھے‪ ،‬انھوں نے تو ایک دوسرے کو قتل کیا تھا؟ تو ان کو کھا گیا کہ ان‬
‫کی ہللا سے مالقات ھوئی اور انھوں نے ہللا سے بڑی مغفرت پائی‪) .‬‬

‫جواب‪ :‬محترم فخر الزماں نے خواب سے جو استدالل پیش کیا ہے اس پر دو اشکاالت ہیں‬

‫پہلی بات یہ ہے کہ کون کہتا ہے کہ خواب کہ ہمیشہ ظاہری ہی معنی لئے جائیں تو بتائے کہ جب آپ‬
‫کے حکیم االمت جناب اشرف علی تھانوی صاحب نے خواب میں دیکھا اس کا حال وہ خود یوں بیان‬
‫کرتے ہے‪:‬‬

‫میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا ٰ‬


‫تعالی عنہا میرے مکان میں تشریف‬
‫النے والی ہیں اس سے میں تعبیر سمجھا کہ جو نسبت عمرحضرت عائشہ صدّیقہ رضی ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫عنہا کو بوقت نکاح حضور علیہ السالم کے ساتھ تھی وہ ہی نسبت ان کو ہے‬
‫(االفاضات الیومیہ میں یہ منقول ہے جس کا جواب ساجد خان دیوبندی نے دیا ہے اور اس نقل پر‬
‫اعتراض نہیں کیا)‬

‫اب محترم اس وقت آپ لوگ فورا تاویالت شروع کردیتے ہیں‪ ،‬چاہے وہ صحیح ہوں یا غلط یہ‬
‫موضوع بحث نہیں۔ بحث اس بابت ہے کہ کم سے کم ظاہرا خواب کو نہیں لیا گیا جب ظاہرا اس‬
‫خواب کو نہیں لیا تو اصول پتا چال کہ ہر بار خواب کو ظاہر کے معنی میں لینا خطا ہے اور آپ‬
‫خواب کا ظاہر لے رہے ہیں اب خود فیصلہ کیجئے کہ یہ بھال دوسروں پر حجت کس طرح ہوسکتا‬
‫ہے جب یہ کلیہ ہی غلط ہے۔‬

‫دوسری بات یہ ہے کہ خود علماء اہلسنت کے ہاں خواب حجت نہیں۔ دیکھئے تمام اقوال پیش کرنے‬
‫کے بجائے خالصہ کے عنوان سے عالمہ معلمی جن کو ذہبی وقت حجاز کے بعض علماء کہتے ہیں‬
‫اور آپ لوگ بھی انتساب مذھب حجاز کو سعادت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہے‪:‬‬

‫أن الرؤیا قد تكون حقا و ھي المعدودة من النبوة ‪ ،‬و قد تكون من الشیطان ‪ ،‬و قد تكون من حدیث النفس‬
‫)) ‪ ،‬و التكییز مشكل ‪ ،‬و مع ذلك فالغالب أن تكون على خالف الظاھر حتى في رؤیا اْلنبیاء علیھم‬
‫الصالة و السالم كما قص من ذلك في القرآن ‪ ،‬و ثبت في اْلحادیث الصحیحة ‪ ،‬و لھذہ اْلمور اتفق أھل‬
‫العلم أن الرؤیا ال تصلح للحجة‬
‫خواب کبھی سچے ہوتے ہیں اور وہ نبوات کا حصہ شمار ہوتے ہیں‪ ،‬اور کبھی خواب شیطان کی‬
‫طرف سے ہوتا ہے اور کبھی خواب نفسی حالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ البتہ ان کا فرق کرنا مشکل‬
‫ہے‪ ،‬بہرحال اس کے باوجود اکثر خواب وہ ہوتے ہیں جن کی تشریح ظاہر خواب کے خالف ہوتی‬
‫ہے یہاں تک کہ انبیاء علیھم السالم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے جیسا کہ قرآن‪ ،‬صحیح احادیث میں‬
‫یہ باتیں مذکور ہیں۔ چنانچہ ان ہی وجوہات کی بنا پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ خواب حجت قائم کرنے‬
‫کے قابل نہیں۔‬

‫حوالہ‪ :‬القائد إلى العقائد ص ‪٩٠‬‬

‫‪http://islamport.com/w/aqd/Web/1760/90.htm‬‬

‫تبصرہ‪ :‬محترم خیر اس روایت کا جواب واجب تو نہیں تھا لیکن منصف مزاج اہلسنت کے سامنے‬
‫ہمارا مقدمہ حاضر ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ٢٤‬امیر المؤمنین ع کی زبانی کہ دونوں گروہ جنتی ہوں گے والی روایت کا جواب‬

‫محترم نے پھر کتاب اہلسنت سے نقل کیا‬

‫(فخر‪ :‬سید نا علی رضی ہللا عنہ کا جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں نظریہ بھی دیکھ لیں‪.‬‬

‫صفِّینَ‬
‫ع ْن قَتْلَى‪ ،‬یَ ْو ِم ِ‬
‫ي َ‬ ‫سأ َ َل َ‬
‫ع ِل ٌّ‬ ‫ع ْن یَ ِزیدَ ب ِْن ْاْل َ َ‬
‫ص ِّم‪ ،‬قَالَ‪َ :‬‬ ‫ع ْن َج ْعفَ ِر ب ِْن ب ُْرقَانَ ‪َ ،‬‬ ‫ي‪َ ،‬‬ ‫ُّوب ْال َم ْو ِ‬
‫ص ِل ُّ‬ ‫عُ َم ُر بْنُ أَی َ‬
‫‪ ,‬فَقَالَ‪ :‬قَتْ َالنَا َوقَتْ َالھُ ْم فِي ْال َجنه ِة‬

‫مصنف ابن ابی شیبہ ج‪ 7‬ص ‪552‬‬

‫سیدنا علی رضی ہللا عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ‬
‫ھمارے اور ان کے مقتولین جنت میں جائیں گے)‬

‫جواب‪ :‬اب آتے ہیں محترم فخر الزماں نے جو روایات پیش کیں ہیں ان کا جائزہ لیا جائے۔ تو چونکہ‬
‫یہ ان کی کتب کی روایات ہیں اور اس کی معارض روایات بھی موجود ہیں اس لئے ہم اس پر اپنا‬
‫چھوٹا نوٹ پیش کرتے ہیں۔‬

‫ہمارے سامنے محقق أبو محمد أسامة بن إبراھیم کی تحقیق ہے اور انہوں نے اس روایت پر ارسال کا‬
‫حکم لگایا ہے مالحظہ ہو المصنف‪ ،‬جلد ‪ ١٣‬ص ‪٤٤٣‬۔‬
‫البتہ ہم اس چیز بھی صرف نظر کردیں اور یہ کہیں کہ شاید محترم کے مبنی کے تحت یہ قابل‬
‫استدالل ہو تو روایت کے آخر میں یہ جملہ ہے‪:‬‬

‫ویصیر اْلمر إلي وإلى معاویة‬

‫ترجمہ‪( :‬دونوں گروہ کے مقتول جنتی ہیں لیکن امیر المؤمنین ع کہتے ہے) باقی معاملہ میرا اور‬
‫معاویہ کا رہ جائے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ادھر واضح طور پر جس کے دفاع میں روایت استعمال کی جارہی‪ ،‬آخری جملہ اس کی‬
‫قلعی کھول رہا ہے کہ جس شخص کا محترم فخر الزماں دفاع کررہے ہیں اس کا اور امیر المؤمنین‬
‫ع کا معاملہ باقی رہے گا۔ اب وہ جو بھی ہو‪ ،‬لیکن کم سے کم حکم جنت تو روایت میں نہیں۔‬

‫متن کے اعتبار سے یہ روایت معارض ہے اس روایت کے جس میں امیر المؤمنین ع نے معاویہ اور‬
‫اہل شام پر قنوت میں بددعا کی جس کا ذکر تفصیال اوپر کیا جاچکا ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫دوسری بات یہ ہے روایت خالف ہے حضرت حذیفہ اور ابو موسی اشعری والی روایت کے۔دیکھئے‬
‫المصنف از عبدالرزاق میں روایت‪:‬‬

‫عن معمر عن أیوب عن ابن سیرین عن أبي عبیدة بن حذیفة قال ‪ :‬جاء رجل إلى أبي موسى االشعري ‪،‬‬
‫وحذیفة عندہ ‪ ،‬فقال ‪ :‬أرأیت رجال أخذ سیفه فقاتل به حتى قتل ‪ ،‬أله الجنة ؟ قال االشعري ‪ :‬نعم ‪ ،‬قال ‪:‬‬
‫فقال حذیفة ‪ :‬استفھم الرجل وأفھمه ‪ ،‬قال ‪ :‬كیف قلت ؟ فأعاد علیه مثل قوله االول ‪ ،‬فقال له أبو موسى‬
‫مثل قوله االول ‪ ،‬قال ‪ :‬فقال حذیفة أیضا ‪ :‬استفھم الرجل وأفھمه ‪ ،‬قال ‪ :‬كیف قلت ؟ فأعاد علیه مثل قوله‬
‫‪ ،‬فقال ‪ :‬ما عندي إال ھذا ‪ ،‬فقال حذیفة ‪ :‬لیدخلن النار من یفعل ھذا كذا وكذا ‪ ،‬ولكن من ضرب بسیفه في‬
‫سبیل ہللا یصیب الحق ‪ ،‬فله الجنة ‪ ،‬فقال أبو موسى ‪ :‬صدق‬

‫ایک شخص ابو موسی اشعری کے پاس آیا اور ان کے پاس حضرت حذیفہ تھے‪ ،‬تو اس شخص نے‬
‫پوچھا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہے جو اپنی تلوار کو لے تاکہ جنگ کرے یہاں‬
‫تک کہ قتل ہوجائے تو کیا اس کے لئے جنت ہے‪ ،‬ابو موسی اشعری نے کہا بیشک۔ تو حذیفہ نے کہا‬
‫اس شخص سے پھر پوچھو اور اس کا سوال سمجھو۔ تو ابو موسی نے کہا کیا کہتے ہو؟ تو اس نے‬
‫وہی سوال دھرایا اور ابو موسی اشعری نے وہی جواب دیا۔ پھر حذیفہ نے کہا اس شخص سے پھر‬
‫پوچھو تو ابو موسی نے کہا کیا کہتے ہو؟ تو اس نے وہی سوال دھرایا اور ابو موسی اشعری نے کہا‬
‫میرا تو یہی جواب ہے‪ ،‬اس کے عالوہ نہیں۔ حذیفہ نے اس وقت کہا نہیں وہ جہنم میں داخل ہوگا جس‬
‫نے فالں فالں کام کیا‪ ،‬لیکن جو ہللا کی راہ میں اپنی تلوار سے مقتول ہے اور وہ حق کو پالے (یعنی‬
‫غلطی پر نہ ہو) تو اس کے لئے جنت ہے‪ ،‬تو ابو موسی نے کہا بیشک صحیح فرمایا۔‬

‫حوالہ‪ :‬المصنف جلد ‪ ٥‬ص ‪٢٦٨-٢٦٧‬‬


‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-13174#page-10312‬‬

‫سعید بن منصور بھی اس سے ملتی جلتی روایت نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫حدثنا سعید قال ‪ :‬نا أبو معاویة ‪ ،‬قال ‪ :‬نا اْلعمش ‪ ،‬عن إبراھیم التیمي ‪ ،‬عن أبیه ‪ ،‬قال ‪ :‬قال حذیفة ْلبي‬
‫موسى ‪ « :‬أرأیت لو أن رجال خرج بسیفه یبتغي وجه ہللا ‪ ،‬فضرب فقتل كان یدخل الجنة ؟ » فقال له أبو‬
‫موسى ‪ :‬نعم ‪ ،‬فقال حذیفة ‪ :‬ال ‪ ،‬ولكن إذا خرج بسیفه یبتغي به وجه ہللا ثم أصاب أمر ہللا فقتل ‪ ،‬دخل‬
‫الجنة‬

‫حضرت حذیہ نے ابو موسی اشعری سے پوچھا کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہو گے جو‬
‫اپنی تلوار اٹھائے اور اس کا قصد خدا کی رضا کا حصول ہو‪ ،‬چنانچہ اس اثنا میں وہ مارا جائے تو‬
‫کیا وہ جنت میں جائے گا؟ ابو موسی اشعری نے کہا بیشک۔ تو حضرت حذیفہ نے جواب دیا میاں‬
‫ایسا نہیں۔ بلکہ اگر وہ اپنی تلوار لے کر جنگ کے لئے نکلے اور اس کا قصد خدا کی رضا کا‬
‫حصول ہو اور پھر وہ خدا کے امر کو حاصل کرے اور قتل ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا۔‬

‫حوالہ‪ :‬سنن سعید بن منصور جلد ‪ ٢‬ص ‪٢١١‬‬

‫‪http://islamport.com/d/1/mtn/1/63/2261.html‬‬

‫اس روایت سے ملتا جلتا اثر یوں ملتا ہے‪ ،‬ابن وضاح اپنی کتاب البدع میں نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫سى ْاْل َ ْشعَ ِر ه‬


‫ي َو ِع ْندَہُ ابْنُ‬ ‫س ِن‪ " :‬أ َ هن َر ُج ًال أَت َى أَبَا ُمو َ‬
‫ع ِن ْال َح َ‬‫ضالَةَ ‪َ ,‬‬ ‫اركُ بْنُ فَ َ‬‫سد ٌ قَالَ‪ :‬نا ْال ُم َب َ‬
‫‪ - 82‬نا أ َ َ‬
‫سى‪ :‬فِي‬ ‫َّلل ت َ َعالَى َفقَات َ َل َحتهى قُتِ َل ‪ ,‬أَیْنَ ھ َُو؟ قَا َل أَبُو ُمو َ‬
‫ضبًا ِ ه ِ‬‫غ َ‬ ‫َم ْسعُو ٍد ‪ ,‬فَقَالَ‪ :‬أ َ َرأَیْتَ َر ُج ًال خ ََر َج ِب َ‬
‫س ْی ِف ِه َ‬
‫سنُ‪ :‬فَإِذَا‬‫عةٍ؟» ‪ .‬قَا َل ْال َح َ‬ ‫ب أ َ ْم َ‬
‫علَى بِدْ َ‬ ‫علَى سُنه ٍة َ‬
‫ض َر َ‬ ‫احبِكَ ‪َ ,‬‬ ‫ص ِ‬ ‫ْال َجنه ِة ‪ ,‬فَقَا َل ابْنُ َم ْسعُودٍ‪« :‬إِنه َما ْال ُم ْفتِي ِمثْ ُل َ‬
‫ض َربُوا ِبأ َ ْس َیا ِف ِھ ْم َ ْ‬
‫ِب ْالقَ ْو ِم قَدْ َ‬
‫علَى ال ِبدَع ِ‬

‫حوالہ‪ :‬البدع البن وضاح رقم ‪٨٢‬‬

‫ایک شخص ابو موسی اشعری کے پاس آیا اور ابو موسی اشعری کے ساتھ ابن مسعود بھی تھے‪ ،‬تو‬
‫اس شخص نے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا حکم لگاتے ہے جس نے اپنی تلوار کو‬
‫ہللا کے غضب کی راہ میں اٹھایا اور قتل ہوا تو کہا ہے وہ؟ ابو موسی اشعری نے کہا وہ جنتی ہے تو‬
‫ابن مسعود نے کہا کہ بتحقیق فتوی دینے واال تیرے ساتھی کی طرح ہے‪ ،‬آیا وہ سنت پر مارا گیا ہے‬
‫یا بدعت پر؟ حسن کہتے ہے کہ بالشبہ گروہ اپنی تلواروں کو بدعت کے راستہ میں استعمال کرتے‬
‫تھے۔‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-8208#page-85‬‬
‫‪Khair Talab‬‬

‫تبصرہ‪ :‬یہ روایت داللت میں واضح ہے کہ جنتی وہی ہوگا جو حق اور صحیح راستہ کو پائے اور‬
‫خود ابو موسی اشعری جن کا فتوی موجودہ اہلسنت واال فتوی تھا‪ ،‬انہوں نے بھی رجوع کرلیا تھا۔ اب‬
‫یہ کہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ امیر المؤمنین ع دونوں گروہ کو جنتی کہیں بلکہ صحیح نص کے‬
‫متعلق اس گروہ کا کام ہی جہنم کی طرف بالنا جیسے کہ حدیث عمار میں الفاظ ہیں‪:‬‬

‫ت َ ْقتُلُهُ ْال ِفئَةُ ْالبَا ِغیَةُ‪ ،‬یَدْعُوھُ ْم ِإلَى ْال َجنه ِة‪َ ،‬ویَدْعُونَهُ ِإلَى ال هن ِ‬
‫ار‬

‫عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا‪ ،‬عمار ان کو جنت کی طرف بالئے گا اور وہ گروہ باغی عمار کو‬
‫جہنم کی طرف‬

‫ارنووط نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے بخاری کی شرط پر۔‬

‫حوالہ‪ :‬اْلحسان في تقریب صحیح ابن حبان جلد ‪ ١٥‬ص ‪٥٥٤‬‬

‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-1729#page-10379‬‬

‫لہذا یہ روایت باطل ہے۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ،٢٥‬حضرت عقیل کا معاویہ کے ساتھ شرکت کرنا۔‬

‫محترم نے حضرت عقیل کے بارے میں فرمایا‬

‫(فخر‪43 :‬‬
‫خیر طلب صاحب اور دوسرے شیعہ سیدنا معاویہ رض پر سیدنا علی رض سے لڑنے کی وجہ سے‬
‫منافقت اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے دشمنی کے فتوے لگاتے ہیں‪ ،‬حاالنکہ معاویہ رض تو‬
‫صرف اپنا دفاع کررھے تھے‪.‬‬
‫اب زرا شیعہ یھی فتوے سیدنا علی رض کے سگے بھائی عقیل بن ابی طالب پر بھی لگائیں‪.‬‬

‫یزید أ َ ْنت ْال َی ْوم َمعنا‪ ،‬قَالَ‪َ :‬و َی ْوم‬


‫فلحق ِب ُم َعا ِو َیة َو َكانَ َم َع ُم َعا ِو َیة َی ْوم صفّین فَقَا َل لَهُ ُم َعا ِو َیة یمازحه‪َ :‬یا أ َ َبا ِ‬
‫بدر كنت أَیْضا َمعكُم‬

‫تاریخ ابن الوردی ج‪ 1‬ص ‪157‬‬

‫عقیل بن ابی طالب معاویہ سے مل گئے تھے اور جنگ صفین کے وقت معاویہ رض کے ساتھ تھے‪،‬‬
‫معاویہ رض نے ان سے مزاح کرتے ہوئے کہا کہ اے ابو یزید (کنیت ھے عقیل رض کی) آج تم‬
‫ھمارے ساتھ؟ عقیل رض نے کھا کہ بدر والے دن بھی تمھارے ساتھ ھی تھا‪.‬‬

‫‪shamela.ws/browse.php/book-6624/page-155‬‬

‫اس بات کا ثبوت شیعہ کتاب سے بھی دیکھ لیں‪،‬‬

‫فی ذکر عقب عقیل بن ابی طالب‬

‫و فارق اخاہ علیا امیرالمومنین فی ایام خالفتہ و ھرب الی معاویہ و شھد صفین معہ‬

‫عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب‬


‫ص ‪31‬‬

‫اور عقیل اپنے بھائی امیر المؤمنین علی رض سے الگ ھوگئے تھے ان کی خالفت کے دنوں میں‬
‫اور معاویہ رض کی طرف چلے گئے تھے اور صفین میں ان کی ساتھ تھے‪.‬‬

‫‪/archive.org/stream/olomnasb_ymail_20160902_1205‬عمدة الطالب في أنساب آل أبي‬


‫طالب‪page/n26/mode/1up#‬‬

‫اب دیکھتے ہیں کیا فتوی لگتا ہے سیدنا علی رض کے بھائی پر‪.‬‬
‫حب علی کا ثبوت دے کر عقیل رض پر بھی وھی فتوے لگائیں یا بغض معاویہ کا ثبوت دے کر‬
‫تاویالت کریں تاکہ ھم کو بھی بولنے کا موقعہ ملے‪).‬‬

‫جواب‪:‬‬
‫جہاں تک جناب عقیل کی بات ہے تو اس پر کچھ تاماالت ہیں۔۔ اگر خالص سندی حوالہ سے واقعہ کی‬
‫تحقیق کی جائے تو یہ کہنا بھی بہت مشکل ہے کہ جناب عقیل امیر المؤمنین ع کو چھوڑ کر گئے‬
‫بھی تھے یا نہیں۔ اور اگر تسامح سے کام لیں اور سند کی بحث کو سائیڈ پر رکھ دیں تو اس پر‬
‫ہمارے جوابات کو مالحظہ کیجئے‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫‪ ، ١‬جناب عقیل کے جانے کی جس عبارت سے آپ نے استدالل کیا جائے عمدتہ الطالب میں (ادھر‬
‫سہولت کے لئے پوری عبارت جو اس قضیہ کے متعلق ہے نقل کئے دیتے ہوں)‬

‫وفارق أخاہ علیا أمیر المؤمنین في أیام خالفته وھرب إلى معاویة وشھد صفین معه غیر أنه لم یقاتل ولم‬
‫یترك نصح أخیه والتعصب له‪.‬‬

‫عقیل اپنے بھائی امیر المؤمنین علی ع کو ان کے ایام خالفت میں چھوڑ کر معاویہ کے پاس چلے‬
‫گئے اور صفین معاویہ کے ساتھ کی‪ ،‬البتہ عقیل نے جنگ میں حصہ نہیں اور اپنے بھائی (یعنی‬
‫امیر ع) کو نصحیت دینا ختم نہ کی (اس پر طویل کالم ممکن ہے از خیر طلب) اور اپنے بھائی کے‬
‫لئے تعصب (یعنی دفاع امیر المؤمنین ع) میں کمی نہ کی۔‬

‫حوالہ‪ :‬عمدتہ الطالب ص ‪٣١‬‬

‫اس عبارت میں یہ ضرور ہے کہ عقیل صفین میں تھے لیکن وہاں یہ بھی موجود ہے کہ جنگ میں‬
‫حصہ نہ لیا‪ ،‬عقیل کی مثال اگر اس عبارت کے سایہ میں لیں تو بدر میں حضرت عباس بن‬
‫عبدالمطلب والی بنتی ہے۔ جو جواب ادھر ہوگا وہی ادھر سمجھئے۔‬

‫‪ ، ٢‬بعض محققین کے نزدیک جناب عقیل کا امیر المؤمنین ع کی خالفت میں جانا ہی ثابت نہیں بلکہ‬
‫امیر المؤمنین ع کی خالفت کے بعد معاویہ کی طرف خروج کیا تھا‪ ،‬اس پر ابن ابی حدید معتزلی اور‬
‫دیگر علماء کے اقوال موجود ہیں۔‬

‫‪ ، ٣‬اگر عقیل کے اس خروج کو مان بھی لیا جائے اور اس کو بھی تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی‬
‫مصلحت خروج نہ تھی (بعض نے اس طرف اشارہ کیا ہے جو موضوع سے خارج ہے) تو اس کو‬
‫قدح عقیل سمجھی جائے گی تاکہ تبریر معاویہ یعنی یہ معاویہ کے حق میں نہیں بلکہ عقیل کے‬
‫خالف بات سمجھی جائے گی‪ ،‬ہمارا معیار کسی کے لئے نہیں ٹوٹتا۔‬

‫‪ ، ٤‬جب آپ حضرت عقیل اور معاویہ کے درمیان ہونے والے مباحث‪ ،‬حوار اور بات چیت کو‬
‫دیکھیں تو خود اہلسنت کتب میں کافی حوالے ایسے ہیں جس سے قدح معاویہ ثابت ہوتی ہے‪ ،‬آپ‬
‫دیکھئے کہ آپ نے ایک بے سند بات سے اثبات مطلب کیا تو اگر ہم بھی بے سند بات سے آپ کو‬
‫ملزم کریں تو یہ سودہ برا نہیں‪ ،‬میں انشاء ہللا اگر موقع ہوا تو ان مباحث کو بھی نقل کرکے قدح‬
‫معاوی ہ پر استدالل کروں گا۔ خیر جو جواب آپ ان واقعات پر دیں گے وہی میرا سمجھئے۔ البتہ میں‬
‫ایک استدالل نقل کئے دیتا ہوں۔‬

‫ابن عبدالبر نقل کرتے ہے‪:‬‬

‫َھذَا لوال علمه بأني خیر لَهُ من أخیه لما أقام عندنا وتركه‪ .‬فقال ُ‬
‫عقَیْل‪ :‬أخي خیر لي ِفي دیني‪ ،‬وأنت خیر‬
‫لي فِي دنیاي‪ ،‬وقد آثرت دنیاي‪ ،‬وأسأل ہللا تعالى خاتمة الخیر‪.‬‬

‫معاویہ کہتا ہے کہ اگر عقیل مجھے اپنے بھائی سے بہتر نہیں جانتا تھا تو کبھی ہمارے پاس نہ آتا‬
‫اور علی کو ترک نہیں کرتا‪ ،‬پس عقیل نے کہا میرا بھائی (یعنی علی) میرے لئے دین میں بہتر ہے‪،‬‬
‫اور تم میرے لئے میری دنیا بنانے میں اچھے ہو‪ ،‬اور میرے اوپر دنیا بنانے کا اثر ہوگیا ہے‪ ،‬اور‬
‫ہللا سے دعا کرتا ہوں کہ میرا خاتمہ خیر کے ساتھ ہو۔‬

‫حوالہ‪ :‬االستیعاب ص ‪١٠٧٩‬‬


‫‪http://shamela.ws/browse.php/book-12288#page-1069‬‬

‫انشاء ہللا ضرورت پڑی تو اور مکالمے جات بھی ہیں‪ ،‬ان کو بھی نقل کیا جائے گا۔‬

‫‪Khair Talab‬‬

‫اختتام‬

‫الحمد ہلل ہمارا جواب ختم ہو اور اس کے لئے تھوڑا وقت لگا کیونکہ کافی سارے مصادر اور حوالے‬
‫جات سے کوشش کی گئی کہ جواب کو مزین کیا جائے اور اس اثناء میں تحقیق میں یقینا وقت لگتا‬
‫ہے۔ انشاء ہللا انصاف پسند قارئین لطف اٹھائیں گے اور اپنے لئے مزید سامان تحقیق پائیں گے۔‬
‫محترم فخر الزماں سے بھی گذارش ہے جس طرح میں نے آپ کے ہر حوالہ پر بات کی ہے‪ ،‬آپ‬
‫بھی کوشش کیجئے گا کہ ضرور کریں تاکہ جو انصاف اور حق کے طلب گار ہے وہ اپنی منزل پر‬
‫آرام سے پہنچ سکیں‬

You might also like