You are on page 1of 2

‫فش فارمنگ‪ ،‬غذائی ضرورت اور کاروبار‬

‫‪‬‬ ‫موضوع کا مصنفمحمد عابد‬


‫‪-‬‬

‫جوالئی ‪2011 ,26‬‬


‫‪#1‬‬
‫پاکستان کے پاس بیش بہا قدرتی خزانے ہیں‪ ،‬جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اپنی تمام پریشانیوں کو دور‬
‫کر سکتا ہے۔ ان خزانوں میں سے ایک سندھ اور بلوچستان سے منسلک ‪ 814‬کلو میٹر لمبی ساحلی پٹی ہے‪،‬‬
‫جو فش فارمنگ کے لحاظ سے قدرت کا بہترین تحفہ ہے اور سمندری خوراک کے حوالے سے نہ صرف‬
‫ملکی بلکہ برآمداتی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی بھرپور صالحیت کی حامل ہے۔ ماہی گیری کو اس‬
‫وقت دنیا میں ایک اہم صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ دنیا میں ‪ 150‬ملین افراد ماہی گیری کی صنعت سے‬
‫وابستہ ہیں اور ایک غیر حتمی اندازے کے مطابق ایسے خاندان جن کا گزارہ اسی صنعت سے ہے کی‬
‫مجموعی تعداد ‪ 45‬کروڑ ہے۔ پاکستان میں پائی جانے والی مچھلی اور سمندری غذا کی بین االقوامی مانگ‬
‫کا اندازہ حال ہی میں پاکستان کے شہر کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ہونے والی نمائش سے لگایاجاسکتا‬
‫ہے۔‬
‫ایک اندازے کے مطابق ملک میں ایک فیصد روزگار ماہی گیری اور افزائش آبی حیات کی وجہ سے ہے‪،‬‬
‫ملک میں چالیس الکھ افراد ماہی گیری سے وابسطہ ہیں۔ پاکستان میں سمندری ماہی گیری سے ساالنہ‬
‫ساڑھے چھ الکھ ٹن سے زائدمچھلی پکڑی جاتی ہے جبکہ مچھلی ساالنہ ‪ 12‬ارب روپے کی مچھلی اور‬
‫سمندری خوراک مختلف ممالک جن میں امریکہ‪ ،‬جاپان‪ ،‬سری لنکا‪ ،‬سنگاپور‪ ،‬یورپی ےونین اور خلیجی‬
‫ریاستیں ہیں کو بھیجی جاتی ہے۔ ملک میں ‪29‬فش پروسیسنگ یونٹ قائم ہیں جن میں ‪ 10‬ہزار ٹن مچھلی‬
‫محفوظ کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے جی ٹی پی میں ماہی گیری کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ پاکستان‬
‫کے ساحلوں اور آبی ذخیروں میں دنیا کے دیگر ساحلوں اور سمندروں کے مقابلے میں مچھلیوں اور‬
‫جھینگوں کی پیداوار دس گنا اور بحیرہ ہند کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ قومی ماہی گیری کی قومی‬
‫پالیسی کے مطابق پاکستان مچھلی اور جھینگے کی پیداوار میں اٹھائس ویننمبر پر اور مچھلی برآمد کرنے‬
‫والے ممالک میں‪ 50‬نمبر پر ہے۔‬

‫پاکستان بلوچستان‪،‬سندھ اور پنجاب میں فش فارمنگ پر توجہ دے کر غربت اور بے روزگاری میں کمی‪،‬‬
‫معیار زندگی بہتر‪ ،‬صحت اور تعلیم کی سہولتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔‬

‫بلوچستان میں فش فارمنگ کے اعتبار سے نصیر آباد‪ ،‬جعفر آباد‪ ،‬سبی‪ ،‬کھپی اور بسیلہ کی ساحلی پٹی اہم‬
‫ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ماہی گیری کو تربیت سمیت دیگر سہولتیں فراہم کرے‪ ،‬تو‬
‫مچھلیوں اور جھینگوں کی برآمد اور اس سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ میں کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔‬
‫پاکستان کی ایسی زمین جو سیم و تھور زدہ ہے کو فش فورم کے طور پر استعمال کر کے نہ صرف بے‬
‫کار زمین کا استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ الکھوں لوگوں کو روزگار بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔‬

‫ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فش انڈسٹری ایک عشاریہ دو بلین ڈالر کی ہے۔ حال ہی میں حکومت‬
‫نے مچھلی کی پیداوار میں بہتری کے لئے سندھ میں ٹھٹھہ اور بدین میں فش فورمنگ اور شرنگ فورمنگ‬
‫کے لیے‪ 20‬ہزارایکڑ زمین مختص کی ہے‪ ،‬اب اس زمین پرفش فورم کی تعمیر کے بعد مچھلی کی مزید‬
‫پیداوار حاصل کی جا سکے گی۔ اس کے عالوہ محکمہ ماہی پروری صوبہ پنجاب بچہ مچھلی کی پیداوار‬
‫بڑھانے کے لئے مچھیروں اور نرسریوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا جس پر نو کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔‬
‫اس منصوبے کے ذریعے بچی مچھلی کی پیداواری تعداد میں ‪ 31‬الکھ تک کا اضافہ ہو گا۔‬
‫ملک میں ماہی گیری کی ترقی کیلئے قومی فشریز پالیسی کا اعالن ہو چکا ہے‪ ،‬پالیسی کے تحت قومی‬
‫معاشی ترقی‪ ،‬غربت کے خاتمے اور خوراک کی فراہمی میں فشریز کے شعبے کی شرکت کو بڑھایا جائے‬
‫گا۔ قومی فشریز پالیسی کے تحت ملک بھر خصوصا ً سندھ اور بلوچستان میں سمندری اور میٹھے پانی سے‬
‫مچھلی اور دیگر سمندری خوراک کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور‬
‫مچھلی کی سٹوریج‪ ،‬مارکیٹنگ اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جانا تھا۔ مگر ابھی‬
‫تک فشریز کے شعبے میں کوئی خاص بہتری کے انتظامات دیکھنے میں نہیں آئے ہیں۔ حکومتی رپورٹ‬
‫کے مطابق جدید سہولیات کی عدم دستیابی‪ ،‬صحت و صفائی کے بنیادی اصولوں سے العلمی کی وجہ سے‬
‫پکڑی جانے والی مچھلی اور سمندری خوراک کا صرف ‪ 20‬فیصد انسانی استعمال کے قابل رہتا ہے جبکہ‬
‫‪ 80‬فیصد پولٹری فیڈ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان میں غذا کے طور پر مچھلی کے استعمال کی‬
‫شرح ایک عشاریہ آٹھ کلوگرام فی فرد ساالنہ ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔‬

‫نجی اور سرکاری شعبہ کی شراکت سے فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جس میں ماہی گیر‪ ،‬تاجر‪،‬‬
‫فارمر‪ ،‬ایکسپورٹر اور محقق شامل ہیں۔ یہ بورڈ ملک میں مچھلی اور جھینگے کے فارم کے قیام کی‬
‫حوصلہ افزائی اور ملک میں ماہی گیری اور ماہی پروری کی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے کام کررہا ہے۔‬

‫ماہی گیروں کو آج کل جو مسائل درپیش ہیں ان میں گہرے سمندروں میں مچھلی کا شکار‪ ،‬نقصان دہ جال‪،‬‬
‫سمندری آلودگی‪ ،‬ماہی گیروں کی آبادیوں میں بنیادی سہولیات کی کمی‪ ،‬سیکورٹی اہل کاروں کا ناروا‬
‫سلوک‪ ،‬سمندری جزائر پر آبادی کے طبی مسائل اور پینے کے پانی کی کمی‪ ،‬انڈس ڈیلٹا کی تباہی‪ ،‬ان لینڈ‬
‫فشریز کی پالیسی نہ ہونا اور انڈیا میں قیدی ماہی گیروں کے مسائل شامل ہیں۔‬

‫دنیا کے سمندری وسائل اور ماہی گیری کے حوالے سے کہیں بھی ٹھیکے داری کا نظام رائج نہیں‪ ،‬لیکن‬
‫پاکستان کے دریاوں اور جھیلوں پر ٹھیکے داری نظام انتہائی ظالمانہ طریقے سے مسلط ہے۔ سندھ کی‬
‫‪ 1209‬جھیلوں اور دریائے سندھ کے کنارے ماہی گیری سے جڑے خاندان اب بھی آزادانہ طریقے سے‬
‫روزگار حاصل کرنے کے بجائے مقامی ٹھیکے داروں اور وڈیروں کے غالموں جیسی زندگی گزارنے پر‬
‫مجبور ہیں۔ ان کو مارکیٹ میناپنی مرضی کی قیمت پر مچھلی فروخت کرنے دی جاتی ہے اور نہ وہ یہ‬
‫مچھلی اپنے بچوں کے لیے گھر لے جا سکتے ہیں۔ حکومت کو ماہی گیروں کے حقوق اور ان کی‬
‫خوشحالی کے لئے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‬

‫تحریر‪ :‬سید محمد عابد‬

‫فش فارمنگ‪ ،‬غذائی ضرورت اور کاروبار سید محمد عابد‬

You might also like