You are on page 1of 1

‫تاج محل ساحر لدھیانوی کے قلم سے لکھا ہواوہ شاہکار ہے جسے ان کاادبی دنیا میں منفرد مقامحاصل ہے اردو

ادب کا شاید ہی کوئی ایسا‬


‫طالب علم ہو جو ساحر کے نام اور ان کی نظم تاج محل سے واقف نہ ہو۔ ساحر لدھیانوی کا اصل نام عبدالحیی اور ساحر تخلص تھا۔‪۸‬؍مارچ‬
‫‪ ۱۹۲۱‬ء کو لدھیانہ میں پید اہوئے‪ ،‬نا مساعد گھریلو حاالت اور مالی مسائل کا ہمیشہ سامنا رہا۔ اور یہ چیز ان کے الشعور کے کونے میں دبی‬
‫چنگاری کی طرح موجود رہی جو کچھ عرصے بعد تاج محل جیسی نظم کی صورت میں شعلہ بن کر سامنے آئی۔ اور اس شعلے نے معاشرے‬
‫میں جنم لینے والے اشتراکی نظام کی خاکستر کر دیا‬

‫شاعرنظم کا آغاز بڑے ہی منفرد اور خوبصورت انداز میں کرتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ نظم تاج محل کے گرد گھومتی ہے۔ تاج محل‬
‫‪ ،‬آ گرہ میں جمنا کے کنارے‪ ،‬سنگِ مر مر کی سلوں میں مقید ہے۔س کے دودھیا حسن میں خاص قسم کی کشش ہے۔ باوجود یہ کہ تاج محل ایک‬
‫مزار ہے‪ ،‬مگر اسے دیکھ کر کبھی موت کا خیال نہیں ٓا تا بلکہ ہمیشہ یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شکل میں محبت مجسم ہے۔اورصدیوں‬
‫تک اس تاج کا حسن‪ ،‬لوگوں کو مسحور کرتا رہا‪ ،‬پھر اسی ہندوستان میں‪ ،‬ساحر جیسا ایک ضدی شاعر بھی پیدا ہوا‪ ،‬جس کے سینے میں دبی‬
‫چنگاری بھڑکی اور اس کی حدت نے اسے مجبور کیا کہ وہ اس تاج محل کو محبت کی عالمت ماننے سے انکار کر دے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی‬
‫محبوب سے کہنے پر مجبور ہے۔‬

‫سہی‬ ‫ہی‬ ‫الفت‬ ‫مظہر‬ ‫اک‬ ‫لئے‬ ‫تیرے‬ ‫تاج‬


‫تجھ کو اس وادی ء رنگیں سے عقیدت ہی سہی‬

‫میری محبوب ! کہیں اور مال کر مجھ سے‬

‫ساحر کی شاعری محﺾ حسن کی آئینہ دار نہیں بلکہ تلخ حقیقتوں کی ترجمان ہے اور وﮦ انسان کو ﺫہنی خوراک مہیا کراتی ہے۔ اس کے دل‬ ‫ؔ‬
‫ساحر کی روح کی آواز ہے۔ وﮦ اس شاعر کی پکار ہے‬
‫ؔ‬ ‫ً‬ ‫یقینا‬ ‫ودماﻍ میں نئی نئی ﻓکر کے بیﺞ بوتی ہے‪ ،‬نئے نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔ وﮦ‬
‫جس نے خوب دکﮫ سہے ‪ ،‬مصائب و آالم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی شاعری کے حوالے سے ساری زندگی لمحہ لمحہ انسانی محبت کے چراﻍ‬
‫ﻃرز احساس کی اک شایستگی ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫احترام انسانیت کا ابالﻍ کیا ۔ ُاس کے اسلوب میں‬
‫ِ‬ ‫روشن کرتے ہوئے گزاردی۔ساحرؔ نے اپنی شعری بصیرت سے‬
‫دردمندی اور انسان دوستی کی خوب صورت پرچھائیوں کے ساتﮫ ساتﮫ سماج کے دبے کچلے ﻃبقات پر ہونے والے مظالم کے خالﻑ صداے‬
‫احتجاج بھی ابھرتی دکھائی دیتی ہے‪،‬یہ چمن زار‪ ،‬یہ جمنا کا کنارہ یہ محل‬

‫یہ منقش در دیوار‪ ،‬یہ محراب‪ ،‬یہ طاق‬

‫اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر‬

‫ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‬

‫میری محبوب کہیں اور مال کر مجھ سے!‬

‫احمد ندیم قاسمی ؔ نظم تاج محل پر تبصرﮦ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’‪ :‬یہ تاج محل کے بارے میں ایک نیا انداز ﻓکر تھا‪ ،‬نئی سوچ تھی‪،‬جو‬
‫نوجوانوں کے ﻃبقہ میں بہت مقبول ہوئی‬

‫اگر ہم صرﻑ آٓٓ غاز کو نے لیں اور باقی ساری نظم ایک طرﻑ کر دیں تو یقینا شاعر کی لفظیات تخیل اور تصویر کشی کے گرویدہ ہو جائیں۔‬

You might also like