Professional Documents
Culture Documents
شاعرنظم کا آغاز بڑے ہی منفرد اور خوبصورت انداز میں کرتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ نظم تاج محل کے گرد گھومتی ہے۔ تاج محل
،آ گرہ میں جمنا کے کنارے ،سنگِ مر مر کی سلوں میں مقید ہے۔س کے دودھیا حسن میں خاص قسم کی کشش ہے۔ باوجود یہ کہ تاج محل ایک
مزار ہے ،مگر اسے دیکھ کر کبھی موت کا خیال نہیں ٓا تا بلکہ ہمیشہ یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شکل میں محبت مجسم ہے۔اورصدیوں
تک اس تاج کا حسن ،لوگوں کو مسحور کرتا رہا ،پھر اسی ہندوستان میں ،ساحر جیسا ایک ضدی شاعر بھی پیدا ہوا ،جس کے سینے میں دبی
چنگاری بھڑکی اور اس کی حدت نے اسے مجبور کیا کہ وہ اس تاج محل کو محبت کی عالمت ماننے سے انکار کر دے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی
محبوب سے کہنے پر مجبور ہے۔
ساحر کی شاعری محﺾ حسن کی آئینہ دار نہیں بلکہ تلخ حقیقتوں کی ترجمان ہے اور وﮦ انسان کو ﺫہنی خوراک مہیا کراتی ہے۔ اس کے دل ؔ
ساحر کی روح کی آواز ہے۔ وﮦ اس شاعر کی پکار ہے
ؔ ً یقینا ودماﻍ میں نئی نئی ﻓکر کے بیﺞ بوتی ہے ،نئے نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔ وﮦ
جس نے خوب دکﮫ سہے ،مصائب و آالم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی شاعری کے حوالے سے ساری زندگی لمحہ لمحہ انسانی محبت کے چراﻍ
ﻃرز احساس کی اک شایستگی ،
ِ احترام انسانیت کا ابالﻍ کیا ۔ ُاس کے اسلوب میں
ِ روشن کرتے ہوئے گزاردی۔ساحرؔ نے اپنی شعری بصیرت سے
دردمندی اور انسان دوستی کی خوب صورت پرچھائیوں کے ساتﮫ ساتﮫ سماج کے دبے کچلے ﻃبقات پر ہونے والے مظالم کے خالﻑ صداے
احتجاج بھی ابھرتی دکھائی دیتی ہے،یہ چمن زار ،یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
احمد ندیم قاسمی ؔ نظم تاج محل پر تبصرﮦ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ :یہ تاج محل کے بارے میں ایک نیا انداز ﻓکر تھا ،نئی سوچ تھی،جو
نوجوانوں کے ﻃبقہ میں بہت مقبول ہوئی
اگر ہم صرﻑ آٓٓ غاز کو نے لیں اور باقی ساری نظم ایک طرﻑ کر دیں تو یقینا شاعر کی لفظیات تخیل اور تصویر کشی کے گرویدہ ہو جائیں۔