You are on page 1of 14

Subject: Urdu

Module: 27
Paper: LANGUAGE & LINGUSTICS
Topic: Nishaniyaat Aur Radd-e-Tashkeel
Content writer: Prof. Ali R Fatihi
Aligarh Muslim University, Aligarh (UP)
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫نشانیات اور رد تشکیل‬


:‫اغراض و مقاصد‬
‫اس سبق میں آپ کو اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ’ نشانیات اور رد تشکیل ‘کی تفصیالت دی‬
‫جائنگی تاکہ آپ کو نشانیات اور رد تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع حاصل ہو‬
‫۔ اس حقیقت سے تو آپ واقف ہیں کہ ادب زبان کے استعمال کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا لہذا‬
‫ادب کا مطالعہ بھی لسانیات کے بغیر ممکن نہیں۔ اطالقی لسانیات کی ایک اہم شاخ نشانیات اور رد‬
‫تشکیل زبان اور تخلیقی اظہار کے رشتے کو واضح کرتی ہے ۔ نشانیات اور رد تشکیل کی تمام‬
‫تر توجہ زبان اور ادب کے تخلیقی اظہار کی طرف ہوتی ہے۔ جبکہ اس کی دوسری جانب لسانیات‬
‫صرف زبان کی باریکیوں کو موضوع گفتگو بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نشانیات کو اطالقی لسانیات‬
‫کا ایک اہم شعبہ مانا جاتا ہے۔ زیر نظر سبق میں نشانیات اور رد تشکیل کی تعریف اس کی قسمیں‬
‫اور اس کی دائرہ عمل پر گفتگو کی جاۓ گی۔‬
‫تمہید‬
‫’نشانیات‘ انگریزی کے لفظ ‪ Semiotics‬کا ترجمہ ہے۔ اگر اس کی تعریف بیان کی جائے تو کہا جا‬
‫سکتا ہے کہ یہ نشانات )‪ (Signs‬کا علم ہے‪ ،‬یعنی یہ وہ علم ہے جس میں ہر طرح کے نشانات کا‬
‫مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس علم کو‪Semiology‬بھی کہتے ہیں۔ اردو میں سیمیالوجی کے لیے بھی‬
‫علم نشانیات )‪ (Semiotics‬میں نشانات )‪ (Signs‬کے‬ ‫’نشانیات‘ کی ہی اصطالح مستعمل ہے۔ ِ‬
‫استعمال اور اس کے دائرہ عمل سے بحث کی جاتی ہے۔ دراصل ہماری زندگی اور معاشرے نیز‬
‫ہمارے گردو پیش کی دنیا میں نشانات کا مکمل نظام پایا جاتا ہے جس کا مطالعہ نشانیات کا اصل‬
‫مقصد ہے۔ نشانات کا استعمال صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں‪ ،‬بلکہ حیوانات کے یہاں بھی اس‬
‫کے استعمال کی واضح شکلیں ملتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کا رقص کرتے ہوئے یہ بتانا کہ پودوں‬
‫نظام نشانات ‪(System of‬‬
‫اور پھولوں کا میٹھا رس جس سے شہد بنتا ہے کہاں دستیاب ہے‪ ،‬حیوانی ِ‬
‫)‪Signs‬کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا مطالعہ نشانیات کا موضوع قرارپاتا ہے۔ بعض دوسری‬
‫طرح کے نشانات مثالً جسمانی حرکات‪ ،‬پہننے اوڑھنے کے طریقے اور بعض فنون کے اظہاری‬
‫طریقے )‪ (Expressive Systems‬بھی نشانیات کے دائرے میں آتے ہیں۔ زبان بھی ایک طرح کا‬
‫نظام نشانات )‪ (Sign-System‬ہے جو بیحد پیچیدہ اور ہمہ گیر ہے۔ زبان میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ‬‫ِ‬
‫نظام نشانات سے ممیّز کرتی ہیں اور اسے ایک انوکھا اور دلچسپ‬ ‫ِ‬ ‫اتم موجود ہیں جو اسے دوسرے‬
‫نظام نشانات بناتی ہیں۔ یہ بات قاب ِل ذکر ہے کہ نشانات کے تمام تر امکانات کا استعمال ترسیلی‬
‫ِ‬
‫مقاصد اور اطالع رسانی )‪ (Communication‬کے لیے کیا جاتا ہے اور نشانیات کا علم ہمارے‬
‫لیے ایک ایسا دائرۂ کار فراہم کرتا ہے جسے بروئے عمل ال کر ہم انسانی ذرائع‪ ،‬ترسیل کے تمام‬
‫ت سماعت سے محروم لوگوں کے‬ ‫پہلوؤں کا پتا لگا سکتے ہیں‪ ،‬خواہ وہ جسمانی حرکات ہوں یا قو ِ‬
‫لیے استعمال کی جانے والی نشانات پر مبنی زبان )‪ (Sign Language‬یا محض تکلمی طریقۂ‬
‫ترسیل یعنی لسان )‪(Language‬‬
‫یہاں شاید اس بات کی وضاجت ضروری ہے کہ نشانیات ایک قدیم علم ہے جس کا سراغ تیسری‬
‫صدی قبل‪ ،‬مسیح کے دوران یونان کے اسٹوئل فلسفیوں )‪ (Stoic Philosophers‬کے یہاں ملتا ہے‪،‬‬
‫لیکن نشانیات کو نشانات کی سائنس )‪ (Science of Signs‬کے طور پر برتنے کا کام سب سے‬
‫نصف آخر میں جان الک نے انجام دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے‬ ‫ِ‬ ‫پہلے سترھویں صدی کے‬
‫یورپ اور امریکہ میں جدید نشانیات )‪ (Modern Semiotics‬کا فروغ ہوتا ہے۔ نشانیات کے فروغ‬
‫میں سسیور کے فلسفۂ لسان نے نمایاں رول انجام دیا۔‬
‫تصور نشان‬
‫ِ‬ ‫فرڈی نینڈی سسیورکا‬
‫سسیور لفظ کو محض نشان تصور کرتا ہے۔ اسے وہ شے تصور نہیں کرتا اور نہ ہی اسے وہ شے‬
‫کا نام دیتا ہے۔ اس کے نزدیک لفظ یعنی نشان صوت و معنی کا اتصال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں‬
‫کہ سسیور نے لفظ کے اس روایتی تصور کو باطل قرار دے دیا ہے جس کے تحت’’زبان لفظوں‬
‫کے ایسے مجموعے کا نام ہے جس کا بنیادی مقصد اشیاء کو نام دینا ہے‘‘۔ نشان کی ایک‬
‫خصوصیت سسیور نے یہ بتائی ہے کہ یہ خود اختیاری )‪ (Arbitrary‬ہوتا ہے‪ ،‬یعنی کسی بھی‬
‫نشان کی صوتی امیج )‪ (Signifier‬اور اس کے معنی )‪ (Signified‬کے درمیان رشتہ فطری نہیں‬
‫ہوتا بلکہ من مانا یا خود اختیاری ہوتا ہے۔ نشان کی دوسری خصوصیت اس کا خطی )‪ (Linear‬ہوتا‬
‫ہے۔ تکلم کے دوران نشانات یکے بعد دیگرے تواتر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ایک سلسلہ‬
‫یا زنجیر بناتے ہیں۔ اسی لیے ان کی تقطیع یا اجزا کاری )‪ (Segmentation‬کی جا سکتی ہے۔‬
‫سسیور نے ’نشان‘ کو ایک عام اصطالح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے نزدیک الفاظ‪،‬‬
‫مرکبات‪ ،‬فقرے اور جملے سبھی نشانات کا درجہ رکھتے ہیں۔ جنھیں مزید نشانات کے ٹکڑوں میں‬
‫تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ نشان کی دو بنیادی قسمیں بیان کی گئی ہیں‪’ ،‬سادہ نشان )‪‘ (Simple Sign‬‬
‫اور ’منظمہ )‪‘ (Syntagm‬۔ اگر کسی نشان کے مزید ٹکڑے نہ کیے جا سکیں تو وہ سادہ نشان‬
‫کہالئے گا‪ ،‬اور اگر یہ دو یا دو سے زیادہ نشانات پر مشتمل ہو تو اسے ’منظمہ‘۔ جملے کی نحوی‬
‫ترکیب میں ایک نشان دوسرے نشان کے ساتھ اور ایک منظمہ دوسرے منظمہ کے ساتھ افقی طور‬
‫نظام نشانات‪(Sign-‬‬
‫ِ‬ ‫پر )‪ (Syntagmatically‬مربوط ہوتا ہے۔ نشانات کے درمیان یہی ارتباط‬
‫نظام نشانات ہے جس میں ہر نشان ایک دوسرے نشان کے‬ ‫ِ‬ ‫)‪System‬کہالتا ہے۔ زبان بھی ایک‬
‫ساتھ باہمی رشتے میں پرویا یا گندھا ہوتا ہے۔ نشانات کے درمیان انھیں رشتوں کی وجہ سے معنی‬
‫پیدا ہوتے ہیں اور زبان کی افہام و تفہیم ممکن ہوتی ہے‪ ،‬ورنہ نظام سے ہٹ کر نشان کے کوئی‬
‫معنی نہیں ہوتے۔ نشانات کے معنی‪ ،‬نشانات کے رشتوں کا وہ نظام طے کرتا ہے جس میں یہ‬
‫پروئے ہوتے ہیں۔ نشانات اور معنی کے درمیان یہ رشتہ خود اختیاری اور من مانا ہوتا ہے۔‬
‫نظام نشانات کا گہرا‬
‫ِ‬ ‫تصور نشان سے ہم نہ صرف زبان کے‬ ‫ِ‬ ‫فرڈی نینڈی سسیور کے پیش کردہ‬
‫مطالعہ کر سکتے ہیں‪ ،‬بلکہ انسانی زندگی کے نظام اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام تر سماجی‬
‫اور تہذیبی مظاہر کے نظام کو بھی سمجھ سکتے ہیں جس میں ادب بھی شامل ہے۔ ادب کا نشانیاتی‬
‫مطالعہ‪ ،‬ادب کے جمالیاتی‪ ،‬نفسیاتی‪ ،‬اسلوبیاتی‪ ،‬تاریخی و سماجی نیز تاثراتی اور مارکسی مطالعے‬
‫سے بالکل مختلف ہے۔ اس مطالعے میں ادبی فن پارے کے خارجی موثرات‪ ،‬نیز خارجی عوامل اور‬
‫عناصر سے بحث نہیں کی جاتی اور نہ ہی مطالعے کا معیار تاثر‪ ،‬حسن اور جمالیاتی کیف ہوتا ہے۔‬
‫اس مطالعے میں وجدان‪ ،‬جمالیاتی اقدار اور داخلی کیفیات کو بھی کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔ ادیب‬
‫کی ذہنی کیفیات یا کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں سے بھی اس مطالعے کو کوئی سروکار نہیں ہوتا‬
‫اور نہ ہی اس مطالعے میں اسلوبیاتی خصائص کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اس مطالعۂ ادب میں انسان‬
‫کے سماجی شعور سے بھی کوئی بحث کی جاتی اور نہ ہی ادب کو تاریخی اور سماجی حاالت کا‬
‫پروردہ سمجھا جاتا ہے۔‬
‫تصور نشان‬
‫ِ‬ ‫چارلز سینڈرز پیپرس کا‬
‫علم نشانیات کا ارتقا یورپ کے عالوہ امریکہ میں بھی ہوا۔ فرڈی نینڈی سسیور کے انتقال (‪۱۹۱۳‬ء)‬
‫ِ‬
‫تصور نشان‬
‫ِ‬ ‫کے تقریبا ً ‪ ۱۵‬سال بعد امریکہ کے ایک دانشور اور فلسفی چارلز سینڈرز پیپرس نے‬
‫کے نظریے پر کام کرنا شروع کیا اور اس علم میں اس نے اتنا کمال حاصل کر لیا کہ نشانیات کے‬
‫بنیاد گزاروں میں سسیور کے ساتھ پیپرس کا نام بھی لیا جانے لگا۔ اس طرح جدید نشانیات کا ارتقا‬
‫بنیادی طور پر دو مقامات یعنی یورپ اور امریکہ میں ہوا۔ یورپ میں یہ علم ‪ Semiology‬کہالیا‪،‬‬
‫جب کہ امریکہ میں دانشوروں نے اسے ‪ Semiotics‬کہنا پسند کیا۔‬
‫تصور نشان میں فرق‬
‫ِ‬ ‫چارلز سینڈرز پیپرس اور فرڈی نینڈی سسیورکا‬
‫سسیور کے علی الرغم جو نشان کو دو رخا )‪(Dyadic‬ماننا تھا‪ ،‬پیپرس نے اسے سہ رخا‬
‫)‪(Triadic‬تسلیم کیا ہے۔ پیپرس کے متعین کردہ نشان کے تینوں رخ یا اجزاء یہ ہیں‪:‬‬
‫(سسیور کے‪ Signifier‬سے قریب تر)‬ ‫‪۱‬۔‪Representament‬‬
‫(شے)‬ ‫‪۲‬۔ ‪Object‬‬
‫سسیور کے‪ Signified‬سے قریب تر‬ ‫‪۳‬۔ ‪Interpretant‬‬
‫ان میں سے پہلی اصطالح ‪ Representamer‬سسیور کے‪ Signifier‬سے تقریبا ً ملتی جلتی چیز ہے۔‬
‫یہ نشان کا وہ رخ یا عنصر ہے جو نشان کی صوتی نمائندگی کرتا ہے‪ ،‬جب کہ‪ Object‬سے کوئی‬
‫بھی شے حقیقی یا خیالی مراد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ‪ Interpretant‬کا مقابلہ موٹے طور پر‬
‫معنی مراد لئے جا‬
‫ٰ‬ ‫سسیور کے‪ Signified‬سے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نشان کا تشریحی عنصر یا‬
‫سکتے ہیں۔ نشان کے یہ تینوں اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔ پیرس کا‬
‫کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نشان کی تنوع پذیری کا پتا لگایا ہے اور اس کی اقسام بیان کی ہیں۔‬
‫سسیور کے یہاں چیز نہیں پائی جاتی۔ اس نے نشان کی اقسام سے کہیں بحث نہیں کی ہے۔ پییرس‬
‫اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ نشان کس کس طرح سے اپنا ترسیلی فریضہ انجام دے سکتا ہے۔‬
‫کسی شے )‪ (Object‬اور اس شے کی نمائندگی کرنے والے نشان )‪ (Representamen‬کے درمیان‬
‫جو رشتہ پایا جاتا ہے اس کی پییرس نے تین قسمیں بیان کی ہیں‪:‬‬

‫شبیہ ‪ (Icon) :‬جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان‬ ‫‪۱‬۔‬
‫مادی مماثلت یا مشابہت )‪ (Physical Resemblance‬پائی جاتی ہو‪ ،‬مثالً کوئی شے اور اس (شے)‬
‫کی تصویر یا کوئی جگہ اور اس (جگہ) اور اس(جگہ) کا نقشہ‪ ،‬تو اس نشان (تصویر‪ ،‬نقشہ) کو‬
‫’شبیہ )‪‘ (Icon‬کہیں گے اور دونوں کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو ’شبیہی رشتہ ‘‬
‫)‪(Iconic Relationship‬کہیں گے۔‬
‫اشاریہ ‪ (Index) :‬جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے‬ ‫‪۲‬۔‬
‫درمیان زمانی و مکان یا مادی قربت و نزدیکی )‪ (Physical Proximity‬پائی جاتی ہو‪ ،‬مثالً دھواں‬
‫اور آگ یا گرج اور بجلی‪ ،‬تو اس نشان (دھواں‪ ،‬گرج) کو ’اشاریہ )‪‘ (Index‬اور دونوں کے‬
‫درمیان پائے جانے والے رشتے کو ’اشاریتی رشتہ )‪‘ (Indexical Relationship‬کہیں گے۔‬
‫عالمت ‪ (Symbol) :‬جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان‬ ‫‪۳ ‬۔‬
‫کے درمیان روایت )‪ (Convention‬کی کارفرمائی ہو‪ ،‬یعنی وہ نشان تہذیبی اور روایتی طور‬
‫پر سیکھا اور برتا جائے‪ ،‬مثالً بازو پر بندھی سیاہ پٹی اور سوگ یا گریہ و ماتم‪ ،‬تو اس نشان‬
‫(سیاہ پٹی) کو ’عالمت )‪‘ (Symbol‬کہیں گے۔‬
‫ادب کے نشانیاتی مطالعے میں ادب کو ایک ایسا ذریعۂ ترسیل ‪(Mode of‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪Communication‬تصور کیا جاتا ہے جو نشانات )‪ (Signs‬پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ نشانات‬
‫‪Signifier‬اور ‪ Signified‬سے مل کر تشکیل پاتے ہیں۔‬
‫اس مطالعے میں ضروری نہیں کہ ‪ Signifier‬یا ‪ Representamen‬کوئی لفظ‪ ،‬فقرہ یا جملہ‬ ‫‪‬‬
‫ہی ہو‪ ،‬بلکہ یہ کوئی متن )‪ (Text‬یا کالمیہ )‪ (Discourse‬بھی ہو سکتا ہے جو اپنے لغوی‪،‬‬
‫ظاہری اور ابتدائی معنی سے قطع نظر استعاراتی‪ ،‬عالمتی اور ثانوی معنی رکھتا ہے۔ ادب‬
‫کے نشانیاتی مطالعے میں انتقا ِل معنی )‪ (Transference of Meaning‬کے بے حد امکانات‬
‫پائے جاتے ہیں۔‬
‫اس مطالعے میں ادبی کالمیہ )‪ (Literary Discourse‬جو ایک نشان کی حیثیت رکھتا ہے‬ ‫‪‬‬
‫افقی ترتیب )‪ (Syntagmatic Order‬میں پرویا یا گندھا ہوتا ہے جسے نشانیاتی ترتیب‬
‫)‪(Semiotic Order‬بھی کہتے ہیں۔ درحقیقت نشانات کا انتخاب پہلے عمودی‬
‫)‪(Paradigmatic‬سطح پر ہوتا ہے پھر افقی )‪ (Syntagmatio‬سطح پر یہ ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ پروئے اور ترتیب دیے جاتے ہیں۔‬
‫اس مطالعے میں کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان رشتہ‬ ‫‪‬‬
‫عالمتی )‪ (Symbolic‬ہوتا ہے۔‬
‫‪ ‬نشانیاتی مطالعہ ادبی متن یا کالمیہ کے فوق لغوی )‪ (Supra-literal‬معنی کو برآمد کرتا ہے۔‬
‫ادیب بعض اوقات ایسی عالمتیں استعمال کرتا ہے جن کی معنیاتی گتھی نشانیاتی مطالعے کے‬
‫دوران سلجھائی جاتی ہے اور انھیں تعبیر و تشریح کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔‬
‫‪ ‬اس مطالعے میں متن کو ایک نشان تسلیم کیا جاتا ہے اور متنیت )‪ ، (Textuality‬بین‬
‫المتن )‪(Intertex‬اور بین المتونیت )‪ (Intertextuality‬جیسے تصورات سے بحث کی جاتی‬
‫ہے۔‬
‫اندورن متن ایک‬
‫ِ‬ ‫ادب کے نشانیاتی مطالعے میں ترسیلی امکانات کا بھر پور پتا لگایا جاتا ہے اور‬
‫جہان معنی کی تخلیق کی جاتی ہے جو اس متن کی باالئی معنیاتی پرت سے مختلف ہوتا ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫ایسے‬
‫یہ چیز اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب ادیب کے عالمت سازی کے عمل کو بخوبی سمجھ لیا‬
‫جائے۔ ادیب بالعموم روایتی عالمات استعمال کرتے ہیں‪ ،‬لیکن بعض ادیبوں کے یہاں کلیت ًہ ذاتی‬
‫عالمات بھی ملتی ہیں جو ان کے ذاتی اور انفرادی تجربات و مشاہدات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ایسی‬
‫عالمات کا سمجھنا قاری کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض ادیبوں نے دیوماالئی یا‬
‫اساطیری عالمات سے بھی کام لیا ہے اور مذہبی روایات سے بھی ماخوذ عالمات استعمال کی ہیں۔‬
‫روایتی عالمات جنھیں آفاقی ‪ (Universal) g‬عالمات بھی کہتے ہیں۔ ادیب کے تاریخی اور تہذیبی‬
‫شعور کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ادب و شعر میں ایک زمانے سے استعمال ہوتی چلی آتی ہیں‪ ،‬مثالً ہم‬
‫میں سے غالبا ً ہر شخص واقف ہو گا کہ ’سیاہ رنگ‘ سوگ اور ماتم کی عالمت ہے‪’ ،‬آگ‘ تشدد اور‬
‫قہر کی عالمت ہے‪’ ،‬پانی‘ زندگی کی عالمات ہے اور ’رات‘ بدی کی عالمت ہے۔‬
‫ر ِد تشکیل (‪)De-Construction‬‬
‫ر ِد تشکیل کا آغاز ‪۱۹۶۶‬ء میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اُس مشہور بین االقوامی سیمینار سے‬
‫ہوا جو اگرچہ ساختیات کے مباحث کے لیے منعقد کیا گیا تھا لیکن ژاک دریدا کی موجودگی اورا ُس‬
‫کے مقالے سے یہی سیمینار آگے چل کر ر ِد تشکیل کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ ر ِد تعمیر نقطہ نظر مابعد‬
‫ساختیاتی رجحان ہے۔ اِس رجحان کے اہم ناقدین کرسٹوفارس‪ ،‬جوناتھن کلر اور مرے کرائیگر‬
‫وغیرہ ہیں۔ ان سب کا تعلق امریکہ کی یونیورسٹیوں سے تھا۔ فرانس‪ ،‬امریکہ اور برطانیہ کے ادبی‬
‫حلقوں میں ر ِد تشکیل کے حق اور مخالفت میں نظریاتی اور عملی طور پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے‬
‫لیکن بطور ادبی تنقیدی نظریے کے اِس کو قائم کرنے میں دریدا اور دی مان اور اِن کے اور‬
‫جیفری ہارٹ من‪ ،‬جے پلس ملر اور باربراجانسن قاب ِل ذکر ہیں۔‬
‫ر ِد تشکیل کے اُصول و نظریات‬
‫ر ِد تعمیر ناقدین کے نزدیک شاعر کا تاریخی‪ ،‬سماجیاتی‪ ،‬نفسیاتی‪ ،‬اسلوبیاتی‪ ،‬ساختیاتی مطالعہ‬
‫شاعر یا ادیب کے مطالعے کے مختلف طریقے ہیں۔ یہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ قاری کے مختلف ر ِد‬
‫عمل ہیں۔‬
‫ہر اَدبی متن کے اپنے قبضہ معنی کو َرد کرنے کا مادہ خوداس کے اندر ہوتا ہے۔‬
‫ر ِد تعمیر کلچر‪ ،‬فلسفے اور ادبی معنوں کے روایتی مفروضے کو َرد کرتا ہے۔ وہ عالمات پر تمثیل‬
‫کو فوقیت دیتا ہے۔‬
‫ر ِد تعمیر زبان کے ‪ free play‬پر یقین رکھتا ہے۔ اُن کے نزدیک زبان میں کوئی اشاراتی معنی نہیں‬
‫ہوتے بلکہ وہ لسانیاتی مترادفات کا آزاد استعمال ‪ free play‬ہے۔‬
‫ر ِد تعمیر روایات کو چیلنج کرتا ہے۔‬
‫’’برائی ایک آفاقی حقیقت ہے اور اچھائی اِس آفاقی حقیقت سے گریز۔ جیسے روشنی کو ہم مثبت‬
‫اور تاریکی کو منفی مانتے ہیں اور عام طور پر کہتے ہیں کہ تاریکی روشنی کے غائب ہو جانے‬
‫کی وجہ سے ہے لیکن ر ِد تعمیر نقطہ نظر کے تحت تاریکی حقیقت اور روشنی اِس حقیقت کا نہ‬
‫ہوتا ہے۔ ‘‘‬
‫ر ِد تشکیل تنقید پر اعتراضات بھی کیے گئے ہیں کہ یہ کسی ماورائی یا مطلق قدر سے وابستہ تھی۔‬
‫یہ بے قدر فلسفہ ہے‪ ،‬یہ تنقید اپنی اصالحات اور تفہیم کے اعتبار سے تکرار کا شکار ہے۔ وغیرہ‬
‫وغیرہ لیکن ڈاکٹر گوپی نارنگ ر ِد تشکیل تنقیدسے جو لذت حاصل کرتے ہیں اُس کا دائرہ کار وسیع‬
‫ہے لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫’’ر ِد تشکیل معنی کی ایک لذت پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ ہر لذت کی راہ کھلی رکھنا چاہتی ہے۔‬
‫حاضر لذت کی بھی‪ ،‬غائب لذت کی بھی اور اُس لذت کی بھی جس پر پہرہ بٹھایا گیا ہے۔ ‘‘‬
‫‪ ‬اہم نکات ‪POINTS TO PONDER‬‬
‫‪ ‬نشانیات‘ انگریزی کے لفظ ‪ Semiotics‬کا ترجمہ ہے۔ اگر اس کی تعریف بیان کی جائے تو‬
‫کہا جا سکتا ہے کہ یہ نشانات )‪ (Signs‬کا علم ہے‪ ،‬یعنی یہ وہ علم ہے جس میں ہر طرح کے‬
‫نشانات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔‬
‫نظام نشانات )‪ (Sign-System‬ہے جو بیحد پیچیدہ اور ہمہ گیر ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫‪ ‬زبان بھی ایک طرح کا‬
‫نظام نشانات سے ممیّز کرتی‬
‫ِ‬ ‫زبان میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں جو اسے دوسرے‬
‫ہیں‬
‫‪ ‬نشانیات ایک قدیم علم ہے جس کا سراغ تیسری صدی قبل‪ ،‬مسیح کے دوران یونان کے اسٹوئل‬
‫فلسفیوں )‪ (Stoic Philosophers‬کے یہاں ملتا ہے‪،‬‬
‫‪ ‬نشانیات کو نشانات کی سائنس )‪ (Science of Signs‬کے طور پر برتنے کا کام سب سے‬
‫نصف آخر میں جان الک نے انجام دیا۔‬
‫ِ‬ ‫پہلے سترھویں صدی کے‬
‫‪ ‬بیسویں صدی کے آغاز سے یورپ اور امریکہ میں جدید نشانیات )‪ (Modern Semiotics‬کا‬
‫فروغ ہوتا ہے۔ نشانیات کے فروغ میں سسیور کے فلسفۂ لسان نے نمایاں رول انجام دیا۔‬
‫‪ ‬ر ِد تعمیر ناقدین کے نزدیک شاعر کا تاریخی‪ ،‬سماجیاتی‪ ،‬نفسیاتی‪ ،‬اسلوبیاتی‪ ،‬ساختیاتی مطالعہ‬
‫شاعر یا ادیب کے مطالعے کے مختلف طریقے ہیں۔ یہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ قاری کے‬
‫مختلف ر ِد عمل ہیں۔‬
‫خالصہ‬
‫نشانیات‘ انگریزی کے لفظ ‪ Semiotics‬کا ترجمہ ہے۔ اگر اس کی تعریف بیان کی جائے تو کہا جا‬
‫سکتا ہے کہ یہ نشانات )‪ (Signs‬کا علم ہے‪ ،‬یعنی یہ وہ علم ہے جس میں ہر طرح کے نشانات کا‬
‫مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس علم کو‪Semiology‬بھی کہتے ہیں۔ اردو میں سیمیالوجی کے لیے بھی‬
‫علم نشانیات )‪ (Semiotics‬میں نشانات )‪ (Signs‬کے‬ ‫’نشانیات‘ کی ہی اصطالح مستعمل ہے۔ ِ‬
‫استعمال اور اس کے دائرہ عمل سے بحث کی جاتی ہے۔ دراصل ہماری زندگی اور معاشرے نیز‬
‫ہمارے گردو پیش کی دنیا میں نشانات کا مکمل نظام پایا جاتا ہے جس کا مطالعہ نشانیات کا اصل‬
‫مقصد ہے۔ نشانات کا استعمال صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں‪ ،‬بلکہ حیوانات کے یہاں بھی اس‬
‫کے استعمال کی واضح شکلیں ملتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کا رقص کرتے ہوئے یہ بتانا کہ پودوں‬
‫نظام نشانات ‪(System of‬‬
‫اور پھولوں کا میٹھا رس جس سے شہد بنتا ہے کہاں دستیاب ہے‪ ،‬حیوانی ِ‬
‫)‪Signs‬کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا مطالعہ نشانیات کا موضوع قرارپاتا ہے۔ بعض دوسری‬
‫طرح کے نشانات مثالً جسمانی حرکات‪ ،‬پہننے اوڑھنے کے طریقے اور بعض فنون کے اظہاری‬
‫طریقے )‪ (Expressive Systems‬بھی نشانیات کے دائرے میں آتے ہیں۔ زبان بھی ایک طرح کا‬
‫نظام نشانات )‪ (Sign-System‬ہے جو بیحد پیچیدہ اور ہمہ گیر ہے۔ زبان میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ‬‫ِ‬
‫نظام نشانات سے ممیّز کرتی ہیں اور اسے ایک انوکھا اور دلچسپ‬ ‫ِ‬ ‫اتم موجود ہیں جو اسے دوسرے‬
‫نظام نشانات بناتی ہیں۔ یہ بات قاب ِل ذکر ہے کہ نشانات کے تمام تر امکانات کا استعمال ترسیلی‬
‫ِ‬
‫مقاصد اور اطالع رسانی )‪ (Communication‬کے لیے کیا جاتا ہے اور نشانیات کا علم ہمارے‬
‫لیے ایک ایسا دائرۂ کار فراہم کرتا ہے جسے بروئے عمل ال کر ہم انسانی ذرائع‪ ،‬ترسیل کے تمام‬
‫ت سماعت سے محروم لوگوں کے‬ ‫پہلوؤں کا پتا لگا سکتے ہیں‪ ،‬خواہ وہ جسمانی حرکات ہوں یا قو ِ‬
‫لیے استعمال کی جانے والی نشانات پر مبنی زبان )‪ (Sign Language‬یا محض تکلمی طریقۂ‬
‫ترسیل یعنی لسان )‪(Language‬‬
‫یہاں شاید اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ نشانیات ایک قدیم علم ہے جس کا سراغ تیسری‬
‫صدی قبل‪ ،‬مسیح کے دوران یونان کے اسٹوئل فلسفیوں )‪ (Stoic Philosophers‬کے یہاں ملتا ہے‪،‬‬
‫لیکن نشانیات کو نشانات کی سائنس )‪ (Science of Signs‬کے طور پر برتنے کا کام سب سے‬
‫نصف آخر میں جان الک نے انجام دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے‬ ‫ِ‬ ‫پہلے سترھویں صدی کے‬
‫یورپ اور امریکہ میں جدید نشانیات )‪ (Modern Semiotics‬کا فروغ ہوتا ہے۔ نشانیات کے فروغ‬
‫میں سسیور کے فلسفۂ لسان نے نمایاں رول انجام دیا۔‬

You might also like