You are on page 1of 8

‫نام ‪ :‬سید اسد عباس زیدی •‬

‫کالس بی ایس فرسٹ ایئر سیکنڈ سیمسٹر •‬


‫شیکن ‪ :‬بی •‬
‫رول نمبر ‪• :‬‬
‫ہیلت فیزیکل ڈیپارٹمنٹ ایجوکیشنل اسپورٹس سائنس •‬
‫غالم عباس‬
‫افسانہ نگار‬
‫(‪)1909-1982‬‬
‫زندگی کی مختلف پہلو ‪:‬۔‬ ‫۔ تعارف‬
‫‪1‬۔ متوازی کردار‬ ‫ادبی خدمات‪:‬۔‬
‫‪2‬۔ بلند حوصلگی‬ ‫‪1‬۔ شعور کی پختگی‬
‫‪3‬۔ ایمیاتی انجام‬ ‫‪2‬۔گہرے مشاہدے‬
‫‪4‬۔ خفیہ قلبی خواہشات کا بیان‬ ‫‪3‬۔دیر پا تاثیر‬

‫• تصانیف ‪:‬۔‬ ‫• سیاسی خدمات ‪:‬۔‬


‫• تبصرہ‪:‬۔‬ ‫• ‪1‬۔تقسیم ہند کے حاالت‬
‫• ‪2‬۔‪4‬تعلیمی خدمات‬
‫• ‪3‬۔‪4‬وسیع مطالعہ‬
‫• ‪4‬۔‪4‬انداز بیان کی سادگی‬
‫تعارف‪:‬‬
‫جدید افسانہ نگاری میں غالم عباس کا نام اعتب ار کی ضمانت ہے۔ آپ کی تحری روں پ ررتن ناتھ سرشار اور عب دالحیلم شرر کے اث رات نمای اں ہیں۔غالم عب اس نے‬
‫اپنے افسانوں میں زندگی کے مختلف روپ سچائی کے ساتھ دکھائے ہیں وہ اپنے کرداروں کو معاشرے سے تالش کر کے انہیں چھان پھٹک ک ر معاشرے ک و واپس ک ر‬
‫دیتے ہیں۔ غالم عباس کی تحریر کی بعض صفات ایسی ہیں جو انہیں دوسروں سے ممتاز‬
‫کرتی ہیں آ ہے ان میں سے چند کا جائزہ یل تے ہیں۔‬

‫ادبی خدمات‪:‬۔‬
‫شعور کی پختگی‪:‬‬
‫دیر پا تاثیر ‪:‬‬ ‫غالم عباس اپنی تحریروں میں ایک پختہ شعور رکھنے والے‬
‫کسی بھی ادیب کی بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ اس کے پیش کردہ‬ ‫ادیب دکھائی دیتے ہیں اور وہ کہانی کی ترتیب سے اس بات کو ثابت‬
‫ماحول کا تاثر دیر پا ہو اور کافی دور تک قاری کے ساتھ سفر کرے‬ ‫بھی کرتے ہیں کہ ان کی نگاہ معاشرتی زندگی پر بڑی گہری ہی نہیں‬
‫اور غالم عباس یہ ہنر اچھی طرح جانتے ہیں ان کے اف‪4‬سانے اپنے اندر‬ ‫بلکہ دور تک دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہے اسی لئے وہ اپنے‬
‫موضوعات کے بعد اثرات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ان کی‬
‫اس قدر بھرپور تاثر لیے ہوئے ہوتے ہیں کہ پڑھنے واال کہانی ختم کرنے‬ ‫ٹریٹمنٹ کرتے ہیں۔وہ بظاہر عام‬
‫کے بعد بھی کرداروں کے ساتھ کچھ نہ کچھ وق‪4‬ت گزارنے پر مجبور ہوتا‬ ‫سی نظر آ نے والی بات کو محض اپنے شعور کی کار فرمائی‬
‫ہے۔ زندگی غالم عباس کے نزدیک صرف خوشی یا صرف غم کا نام‬ ‫سے آسمان پر پہنچا دیتے ہیں۔‬
‫نہیں وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ دونوں کیفیات مل کر زندگی‬
‫میں رنگ‬ ‫•‬
‫بھرتی ہیں اس لیے ان کی کہانیاں اپنے اندر بیک وقت دونوں‬ ‫گہرے مشاہدے‪:‬‬ ‫•‬
‫کیفیات لیے ہوئے ہوتی ہیں وہ اس بات کی ہر ممکن کوشش‬ ‫• می ں‬ ‫غالم عباس کا مشاہدہ کافی گہرا ہے اور وہ اس کی جھلکیاں اپنی تحریروں‬
‫دکھا کر قارئین کو اپنے قلم کے سحر میں گرفتار رکھتے ہیں ان کی یپ ش کردہ ہر ہر‬
‫کرتے ہیں کہ اپنی بات کو بغیر کسی الجھاؤ کے قاری کے ذہن نشین کر‬ ‫صورت حال پڑھنے والے پر اپنی گرفت اس قدر مضبوط رکھتی ہے کہ وہ اس کے‬
‫دیں یہی وجہ ہے کہ الفاظ کی سادگی اور پرکاری سے جو تاثر غالم‬ ‫تانے بانے میں گھرتا چال جاتا ہے۔ غالم عباس زندگی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر‬
‫جذبات کو فکر سے ہم آہنگ کرتے ہیں اور پھر جو‬
‫عباس کے افسانوں میں یپ دا ہوتا ہے وہ آ ج تک ادب‬ ‫کردار سامنے آ تا ہے وہ ان کے عمیق مشاہدے کا ثبوت ہوتا ہے۔ان کے ہاں‬
‫کی دنیا میں موجود ہے۔‬ ‫زندگی کے ہر رخ کو نہایت چھان‪ 4‬پھٹک سے یپ ش کیا جاتا ہے اور وہ تمام‬
‫پہلوؤں کو مکمل ر‪4‬نگ دے کر قاری کے سامنے یپ ش کرتے ہیں۔یہ بات‬
‫کلرک بابو کی ہو یا کسی بادشاہ کی وہ ہر طرح کے کردار کو اس طرح‬
‫سنوارتے ہیں کہ وہ پڑھنے والے سے ہمکالم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے‬
‫سیاسی خدمات‪:‬‬
‫تعلیمی خدمات‪:‬‬ ‫تقسیم ہند کے حاالت ‪:‬‬
‫انداز بیان کی سادگی ‪:‬‬ ‫دیگر ادیبوں کی طرح غالم عباس پر بھی تقسیم ہند کے حاالت‬
‫نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔اور آ پ اپنے مضامین میں تقسیم کے‬
‫آ پ کے یب ان میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے ۔نہ اس میں‬ ‫موقع پر یپ ش آ نے والے واقعات کے نہ صرف متاثر نظر آتے‬
‫دوسری زبانوں کے الفاظ ‪٫‬نہ تراکیب اور نہ ہی اردو کے‬ ‫ہیں بلکہ ان کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔اپ کی نثر میں آپ کے‬
‫متروکات کا استعمال ہے۔نہ اشعار کا بے جا استعمال اور نہ ہی الفاظ‬ ‫حب وطن اور حب قوم ہونے کا جذبہ نمایاں ہے ۔‬
‫کو توڑنے مروڑنے کے نئے تجربات ہیں جیساکہ منٹو ‪،‬اشفاق‪،‬انتظار‬ ‫"ق‪4‬ومی ایثار و قربانی کا عظیم طوفان تھا‪---------‬کالجوں کے طلباء‬
‫حسین یا پریم چند کے افسانوں میں ہے ۔اپ سیدھی اردو زبان میں‬ ‫اپنی تعلیم کے اوقاف کے بعد بیلچوں سے نہریں‬
‫لکھتے ہیں جیساکہ مندرجہ ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے ۔‪"------‬‬ ‫کھودتے ‪،‬پل بناتے ‪،‬مہاجروں کے یل ے جھونپڑیاں یت ار کرتے‬
‫رفتہ رفتہ فکر معاش نے مجھے‬ ‫‪--------‬میں پولیس کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا یل کن‬
‫‪٫‬س‪4‬عارہ مشرق‪،‬میں مالزمت کرنے پر مجبور کر دیا یہ ایک ہوٹل تھا‬ ‫اب میرا دل چاہا کہ ان سے لپٹ جاؤں ان کو یپ ار کروں‬
‫جس کا مالک بمبئی کا ایک سیٹھ تھا ۔میرے زمہ یہ خدمت تھی کہ‬ ‫کیونکہ وہ میرے وطن کے محافظ ہیں"‬
‫ہوٹل میں ٹہرنے والوں کا خیال رکھوں ۔"‬

‫• تعلیمی خدمات‪:‬۔‬
‫وسیع مطالعہ‪:‬‬ ‫•‬
‫عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ لکھنے واال صرف‬ ‫•‬
‫موضوع کی وضاحت سے الجھتا رہتا ہے اور اس میں وہ‬
‫کسی نہ کسی طرح کامیاب بھی ہوجاتا ہے لیکن اس کی کم علمی‬
‫اور شعور کی ناپختگی اس کی تحریروں سے جابجا عیاں ہوتی‬
‫رہتی ہے لیکن غالم عباس اس الزام کی رد میں نہیں آ تے وہ اپنی‬
‫تحریروں میں ایک وسیع المطالعہ شخص دکھائی دیتے ہیں ان کی‬
‫تحریریں ایک ایسے شخص کے‬
‫ش ‪4‬عور کی عکاس ‪4‬ی ک ‪4‬رتی ہیں جو زن‪4‬دگی ک ‪4‬و پڑھن‪4‬ا ہی نہیں برتن‪4 4‬ا بھی‬
‫جانت‪4 4‬ا ہے۔ غالم عباس ک ‪4‬ا مطالعہ انہیں اس اعتب‪4 4‬ار سے بھی دوسروں‬
‫سے ممتاز کرتا ہے کہ وہ مختلف علوم اور دوسری‬
‫زبانوں کے اد‪4‬ب کے اثرات اپنے اف‪4‬سانوں میں دکھاتے ہیں۔‬
‫‪:‬زندگی کےمختلف پہلو‬
‫المیاتی انجام ‪:‬‬
‫متوازی کردار ‪:‬‬
‫غالم عباس کے افسانوں کا انجام اکثر المی ‪4‬اتی ہوت ‪4‬ا ہے یل کن‬
‫جسا کے اوپر یب ان ہوا کہ یہ غمگین فضا لوگوں میں مایوس‪44‬ی‬ ‫غالم عب ‪4 4‬اس کی اک‪44‬ثر کہانیوں میں دو ک‪4 4‬ردار ایس‪4 4‬ے نظر آ‬
‫پی‪44‬دا نہیں ک‪4 4‬رتی لب کہ ای ‪4‬ک چنگ‪44‬اری بن ک‪4 4‬ر کس‪44‬ی حقیقت ک‪4 4‬و‬ ‫تے ہیں جو ب‪4 4‬ڑی ح‪4‬د ت‪4 4‬ک ای ‪4 4‬ک دوس‪44‬رے کے مت‪4 4‬وازی‬
‫ے۔و‪"4‬راس کی‬ ‫شہ""میمیںںدوش بڈھ‬ ‫ً‪4‬‬
‫پڑھنے والے کے دماغ میں روشن کر‬ ‫مشاد ا‬ ‫ن۔ر"وسای‬
‫دہ ف‬
‫ںہمثااولر" ن بضرری‪4‬‬
‫چیلتںےن ہیجم‬
‫یب وی" م‬
‫دی‪4‬تی ہے جیسے کہ افسانہ" کتبہ" کے کلرک شریف‬ ‫مختار اور "بھنور‪ "4‬میں بہار اور گل۔"غازی مرد"میں‬
‫حسین کے انجام ن‪4‬ے پڑھنے و‪4‬الے پر معاشی نا ہمواری‬
‫کے دروازے کھول دیے۔وہ وقتی طور پر اپنے قاری کو‬ ‫چراغ بی بی اور حمتے۔اس کے برعکس "تنکے کا‬
‫دکھ میں مبتال ضرور کرتے ہیں لیکن کچھ دیر کے بعد یہ دکھ‬ ‫س ہارا"م‪4‬یں حاجی صاحب اور امام نورالحد ہے۔غالم‬
‫ایک فکر انگیز کیفیت میں تبدیل ہو جاتا‬ ‫عباس اپنے کرداروں میں دوہری نگاہ سے ایک طرح‬
‫ہے۔‬ ‫کا دہرا طنز پیدا کرتے ہیں ۔‬

‫خفیہ قلبی خواہشات کا بیان‬ ‫•‬ ‫بلند حوصلگی ‪:‬‬ ‫•‬


‫یہ ان کی کہانیوں کا پسندیدہ موضوع ہے کہ انسان اکثر ایسے عقائد‬ ‫نصب کردے۔"‬
‫اور خیاالت سے وابستہ رہتا ہے۔جن کا جواز اسے خود بھی یب ش‪44‬تر نظر‬
‫نہیں آتا۔ان ظاہری اعمال کے س ‪4‬اتھ جو انس ‪4‬ان س ‪4‬ے س ‪4‬رد ہونے ہیں۔انس‪4‬ان‬
‫کے دل میں ط‪44‬رح ط‪44‬رح کی خفیہ آرزوءیں ل‪4 4 4‬رزتی رہ‪444‬تی ہیں ج‪44‬و‬
‫معاش ‪4‬رت اور اردگ‪4‬رد کے دوس ‪4‬رے انس ‪4‬انوں ک ‪4‬و بن ‪4‬اے ہوئے بن ‪4‬دھنوں کی‬
‫وجہ سے کھل کر ظاہر نہیں ہوتیں۔اور کبھی نادانستہ‬
‫وہ کام کراتی ہیں‪4‬۔جو اس کے ظاہری عقائد سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔‬
‫"ک‪4‬ی‪44‬ا عجب کہ اس دن پھ ‪4‬ر جا یں وہ کل‪44‬رک د‪4‬رجہ دوم سے ت‪4 4‬رقی ک ‪4‬ر‬
‫کے س ‪4‬پریڈنٹ بن جائے۔۔۔۔۔۔۔پھ‪4‬ر اس ‪4‬ے اس س ‪4‬اجھے کے مک‪4‬ان میں رہ ‪4‬نے‬
‫کی ض ‪4‬رورت نہ رہے بلکہ وہ ک ‪4‬وئی جھوٹ‪4 4‬ا س‪44‬ا مک ‪4‬ان لے لے اور اس‬
‫مرمریں ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا کے دروازے کے باہر‬
‫غالم عباس کے افسانے صرف وقت گزاری اور لذت یا دلچسپی کی عالمت‬
‫• نہیں ہوتے لب کہ ان میں زندگی کے مسائل سے لڑنے کا حوصلہ ملتا ہے وہ‬
‫زندگی کے نشیب و فراز کی تصویریں بھیانک بنا کر پیش نہیں کرتے لب کہ‬
‫انہیں ہر مقام پر انسانی حوصلے سے پست نقل میں دکھاتے ہیں یہی وجہ‬
‫ہے کہ ان کے ہاں ایک خاص مقام پر جا کر زندگی کے مصائب‬
‫جدوجہد سے ہار جاتے ہیں اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے افسانے غمگین‬
‫انداز سے‬
‫اخ تام پذیر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں مایوسی یا محرومی کا تاثر‬
‫نہیں پیدا ہوتا اور کس نہ کسی زاویے سے وہ پڑھنے والے کو پورے قد سے‬
‫کھڑا رہنے کی ترغیب دے جاتے ہیں۔ان کے افسانوں کی خاص بات یہ ہی‬
‫• ہے کہ وہ زندگی کی لت خیوں پر مسکرانے کا فن جانتے ہیں اسی ل‪4 4‬ئے وہ‬
‫ان لت خ حق ‪4 4‬ائق ک‪4 4‬و اس ق‪4 4‬در دلچس‪4 4‬پ بن‪4 4‬ا ک‪4 4‬ر پیش ک‪4 4‬رتے ہیں کہ بے لط ‪4‬ف‬
‫زندگی بھی‬
‫پر لطف معلو‪4‬م ہونے لگتی ہے اور‪ 4‬اس فضا میں ال کر وہ پڑھنے والے کو‬
‫زندگی کا رخ بدلنے کی حکمت سکھا دیتے ہیں۔‬
‫تصنیفات‪:‬‬
‫غ الم عب اس کی تص نیفات میں گون دنی واال تکیہ‪،‬‬
‫مجس مہ‪،‬کتبہ‪،‬جیس ے مش ہور افس انوں کے ع الوہ جزی رہ‬
‫سخن وراء‪،‬کن رس‪ ،‬آنندی‪،‬دھنک‪،‬جاڑے‬
‫کی چاندی اور الحمر کے افسانے وہ تخلیقات ہیں‬
‫جو آ نے والے زمانے میں بھی ادب میں اپنی‬
‫حیثیت منواتی رہیں گی۔‬
‫تبصرہ‪:‬‬
‫( غالم عباس‪------‬عام انسانیت کا داستان گو)‬
‫غالم عباس محض چھوٹے آ دمی کا داستان گو ہے۔اسے کبھی وہ شہر کے کسی‬
‫دور افتادہ محلے میں جا ڈھونڈتا ہے اور کبھی کسی گاؤں سے جا نکالتا ہے۔سب‬
‫سے پہلے اس کے گردو پیش کی تصویر کھینچتا ہے۔تاکہ اس کی معاشرتی حیثیت‬
‫ہمارے ذہن نشین ہوجاے۔اس‬
‫کے بعد کہانی میں اس کے عمل اور گفتگو سے اس کے تمام خدو خال‬
‫کی واضح تصویر ہمارے سامنے آ نے لگتی ہے۔‬
‫غالم عباس نے اپنی کہانیوں میں شہروں کے گمنام محلوں کی اور ان‬
‫کے مکانوں کی نہایت دل آ ویز تصویر یں پیش کی ہیں جو اس کے‬
‫کرداروں کے لیے عقبی پردے کا کام کرتی ہیں۔‬

You might also like