---------------------------------- لکھتا ہوں میں تو اس کا بدل چاہیے مجھے تیرے لبوں پہ اپنی غزل چاہیے مجھے ---------------------------------- کیسے بھولیں گے تجھے تیرے بھالنے والے مل ہی جاتے ہیں تری یاد دالنے والے ----------------------------------- فاصلے اپنے مقدّر ہو گئے پھول جیسے لوگ پتھر ہو گئے ------------------------------------- انجان لڑکیوں سے پہچان کروں گا میں تجھ سے بچھڑنے کا اعالن کروں گا -------------------------------------- مسرت سے مارے گئے تھے ّ وہ فرط جو پیاسے ندی کے کنارے گئے تھے ------------------------------------------ تری خوشبو ،تری یادیں ،ترا احساس رہنے دے دوبارہ تجھ دے ملنے کی ذرا سی اس رہنے دے --------------------------------------------- کیا شوق جان لیوا تھے اپنے کمال کے سانپوں کو آستینوں میں ر ّکھا تھا پال کے
کل آنے والی نسل تعجب تو کر سکے
رکھنا محبّتوں کے عقیدے سنبھال کے
اب دوستوں کی چال سمجھنے لگے ہیں ہم
فاروق مسکراؤ ،گئے دن مالل کے کبھی جگنو ،کبھی سورج ،کبھی قندیل ہو جائے اجالوں ہی اجالوں میں تری ترسیل ہو جائے