You are on page 1of 18

‫خوشبو لگے‪ ،‬جادو لگے‪ ،‬رنگوں بھرا سپنا لگے‬

‫اس انجمن میں ہر کوئی مجھ کو میرا اپنا لگے‬


‫‪----------------------------------‬‬
‫لکھتا ہوں میں تو اس کا بدل چاہیے مجھے‬
‫تیرے لبوں پہ اپنی غزل چاہیے مجھے‬
‫‪----------------------------------‬‬
‫کیسے بھولیں گے تجھے تیرے بھالنے والے‬
‫مل ہی جاتے ہیں تری یاد دالنے والے‬
‫‪-----------------------------------‬‬
‫فاصلے اپنے مقدّر ہو گئے‬
‫پھول جیسے لوگ پتھر ہو گئے‬
‫‪-------------------------------------‬‬
‫انجان لڑکیوں سے پہچان کروں گا‬
‫میں تجھ سے بچھڑنے کا اعالن کروں گا‬
‫‪--------------------------------------‬‬
‫مسرت سے مارے گئے تھے‬ ‫ّ‬ ‫وہ فرط‬
‫جو پیاسے ندی کے کنارے گئے تھے‬
‫‪------------------------------------------‬‬
‫تری خوشبو‪ ،‬تری یادیں‪ ،‬ترا احساس رہنے دے‬
‫دوبارہ تجھ دے ملنے کی ذرا سی اس رہنے دے‬
‫‪---------------------------------------------‬‬
‫کیا شوق جان لیوا تھے اپنے کمال کے‬
‫سانپوں کو آستینوں میں ر ّکھا تھا پال کے‬

‫کل آنے والی نسل تعجب تو کر سکے‬


‫رکھنا محبّتوں کے عقیدے سنبھال کے‬

‫اب دوستوں کی چال سمجھنے لگے ہیں ہم‬


‫فاروق مسکراؤ‪ ،‬گئے دن مالل کے‬
‫کبھی جگنو‪ ،‬کبھی سورج‪ ،‬کبھی قندیل ہو جائے‬
‫اجالوں ہی اجالوں میں تری ترسیل ہو جائے‬

‫یہ افواہوں کی بستی ہے زبانیں بند ہی رکھنا‬


‫یہاں اک لفظ بھی نکلے تو وہ تفصیل ہو جائے‬

‫اجازت مل چکی فاروق سرحد پار ہو جاؤ‬


‫کہیں ایسا نہ ہو کے فیصلہ تبدیل ہو جائے‬

‫‪----------------------------------------------‬‬

‫کوئی موسم ہو لیکن وہ برابر پیار کرتے ہیں‬


‫ذرا سے گھونسلے میں دو کبوتر پیار کرتے ہیں‬

‫نئی نسلوں نے سارے رشتے ناطوں کو کچل ڈاال‬


‫مگر اب بھی پرانے سینکڑوں گھر پیار کرتے ہیں‬

‫تری حسرت لئے فاروق کتنی بار گزرا ہوں‬


‫مجھے تیری گلی کے سارے پتھر پیار کرتے ہیں‬

‫‪---------------------------------------------------------‬‬

‫دور تک سنی پڑی ہے رہگزر دیکھے گا کون‬


‫اپنی منزل ہی نہیں تو راہبر دیکھے گا کون‬

‫جاگتی آنکھوں پی آخر نیند غالب آ گئی‬


‫اب تمہارا راستہ بھی رات بھر دیکھے گا کون‬

‫اب غزل کے نام پہ فاروق کچھ بھی پیش کر‬


‫لوگ سب مصروف ہیں زیر و زبر دیکھے گا کون‬
‫چلے نہ جنگ کہیں پر نہ خلفشار چلے‬
‫مری دعا ہے زمانے میں صرف پیار چلے‬

‫پگھل کے اشکوں میں آنکھیں بھی بہنے والی ہیں‬


‫کہ اور کتنے دنوں تک یہ انتظار چلے‬

‫تو بادشاہوں نے ورثے میں کیا دیا ہم کو‬


‫ہوس کی منڈی میں جمسوں کا کاروبار چلے‬

‫کسی نے جان گنوائی کسی نے دل فاروق‬


‫لٹا کے کیا نہ محبّت میں تیرے یار چلے‬

‫کبھی تنہائی کا احساس نہیں رہتا ہے‬


‫دور رہ کے بھی تو اس دل کے قریں رہتا ہے‬

‫میری پلکوں پہ لگا دینا نظر کا ٹیکہ‬


‫میری آنکھوں میں کوئی پردہ نشیں رہتا ہے‬

‫وقت مٹی میں مال دیتا ہے شاہوں کو بھی‬


‫حشر تک کون بھال تخت نشیں رہتا ہے‬

‫وہ کہیں بھی رہے فاروق دعائیں دے گا‬


‫اس کی چاہت پہ مجھے کتنا یقیں رہتا ہے‬
‫اے کاش تجھے ٹوٹ کے چاہا نہیں ہوتا‬
‫میں ہوش ہی میں رہتا دوانہ نہیں ہوتا‬

‫ہر موڑ اسے لگتا ہے محبوب کا ڈیرہ‬


‫پاگل کا کوئی اپنا عالقہ نہیں ہوتا‬

‫فردوس بدر کرتی ہے اک لغزش پا بھی‬


‫انسان بہرحال فرشتہ نہیں ہوتا‬

‫اس روز کے اخبار میں لگتی ہے کمی سی‬


‫جس روز کہیں بم کا دھماکہ نہیں ہوتا‬

‫بس ایک تو ہی کافی عبادت کے لئے ہے‬


‫ہر آستاں پہ ہم سے تو سجدہ نہیں ہوتا‬

‫اک تو کہ کسی طور بھی ہوتا نہیں راضی‬


‫ہونے کو تو اس دنیا میں کیا کیا نہیں ہوتا‬

‫فاروق محبت سے ذرا دور ہی رہنا‬


‫یہ روگ اگر لگ گیا اچھا نہیں ہوتا‬
‫شرم ہوتی ہے نہاں جزبہ اظہار کے ساتھ‬
‫ایک اقرار چھپا ہوتا ہے انکار کے ساتھ‬

‫اک سپاہی بھی کہاں رہتا ہے بزدل کے قریب‬


‫فوج ہوتی ہے سدا ہر جری سردار کے ساتھ‬

‫روگ سونے کے ترازو میں تولے جاتے ہیں‬


‫اب مسیحائی کہاں ہوتی ہے بیمار کے ساتھ‬

‫لمس الزم ہے محبت کی نموکاری میں‬


‫دائرہ ربط بنا لیتا ہے پرکار کے ساتھ‬

‫بادشاہوں سے بڑی بھول ہوئی ہے اپنے‬


‫اک قلم کاش عطا کرتے وہ تلوار کے ساتھ‬

‫آپ کاغم بسا ہے دل میں کچھ ایسے فاروق‬


‫"جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ "‬
‫جو آدمی ہو تنہا کوئی مشغلہ کرے‬
‫دو چار دوستوں سے وہ جا کر مال کرے‬

‫وہ چاند آ رہا ہے بڑی مدتوں کے بعد‬


‫کہہ دو یہ چاندنی سے ذرا راستہ کرے‬

‫آ دونوں مل کے لکھیں محبت کی داستاں‬


‫جلتی اگر ہے دنیا بال سے جال کرے‬

‫بارود‪ ،‬بم دھماکے‪ ،‬زمینیں لہولہان‬


‫اس زندگی کا کیسے کوئی سامنا کرے‬

‫بچے بچھڑ کے روتے ہیں ماؤں سے بھیڑ میں‬


‫دنیا میں کوئی میلہ نہ ایسا ہوا کرے‬

‫فاروق ہے دعا گو خدایا ! قبول ہو‬


‫بیٹی جوان ہوتے ہی رشتہ مال کرے‬
‫کیا عیب کہیں اپنا قصیدہ نہیں کہتے‬
‫جگنو کو کسی طور ستارا نہیں کہتے‬

‫محبوب کی باتوں کو نہاں رکھیے گا دل میں‬


‫صہ نہیں کہتے‬
‫ہرآدمی سے پیار کا ق ّ‬

‫ہم شاعری کر لیتے ہیں قوال نہیں ہیں‬


‫اک بار کہا جو وہ دوبارہ نہیں کہتے‬

‫اک خون کا دریا ہے کہ بہتا ہی چال ہے‬


‫یہ بے حسی کیسی ہے کہ نوحہ نہیں کہتے‬

‫اس بات سے ناراض سبھی اپنے پرائے‬


‫فاروق کسی بات کو بےجا نہیں کہتے‬
‫نشانہ سادھے کماں میں ہے تیر رات گئے‬
‫ترے لبوں کی پکارے لکیر رات گئے‬

‫عذاب ہونا ہے الزم بخیل بستی پر‬


‫صدایئں دیتا ہے بھوکا فقیر رات گئے‬

‫بپھرا دریا بھی جنون عشق سے ڈرتا ہے‬


‫گھڑے کی کشتی پہ نکلی ہے ہیر رات گئے‬

‫تمام عیش کا ساماں ہے غم بھالنے کو‬


‫ہماری فکر میں جاگے وزیر رات گئے‬

‫جال کے خون بھی اترے نہ شعر جب فاروق‬


‫تو یاد آتے ہیں غالب و میر رات گئے‬
‫یوں زندگی کے معنی کسی نے بتا دیے‬
‫نم ریت پہ دو حرف لکھے اور مٹا دیے‬

‫کیسے کہوں کہ کتنا وہ کھل کر مال ہے آج‬


‫شرم و حیا کے سارے پرندے اڑا دیے‬

‫دشمن سے ہار جیت کا ہونا تھا فیصلہ‬


‫تو واپسی کے ہم نے سفینےجال دیے‬

‫تو بخش یا نہ بخش تجھے اختیار ہے‬


‫گزریں گے تیرے در سے نہ ہم بن صدا دیے‬

‫فاروق ان سے کوئی شکایت نہیں رہی‬


‫آنکھیں ملیں تو دھیرے سے وہ مسکرا دیے‬
‫ستارے جب بھی قسمت کے سحرآور نہیں لگتے‬
‫سفینے ڈوب جاتے ہیں کنارے پرنہیں لگتے‬

‫امیرو! اپنے محلوں سے اتر آؤ ذرا دیکھو‬


‫ہمارے ٹاٹ کے پردے کہیں سے گھر نہیں لگتے‬

‫ذرا سا حوصلہ‪ ،‬ہ ّمت‪ ،‬جگر درکار ہوتے ہیں‬


‫حد پرواز کے آگے کبھی شہپر نہیں لگتے‬

‫تمہاری آنکھ کا بس اک اشارہ کافی ہوتا ہے‬


‫ہماری جان لینے کے لئے خنجر نہیں لگتے‬

‫کہاں احساس ہوتا ہے جنوں میں درد کا فاروق‬


‫دوانہ مسکراتا ہے اسے پتھر نہیں لگتے‬
‫بیگم کے ایک حکم پہ بچے سال کے ہم‬
‫بیٹھے ہیں انتظار میں بھیجہ پکا کے ہم‬

‫دو گھونٹ پی کے بڈھے نے اعالن کر دیا‬


‫اس عمر میں دکھائیں گے لڑکی پٹا کے ہم‬

‫اتنی ذرا سی بات پہ ہنگامہ کس لئے‬


‫اک دوسری جو الۓ ہیں دلہن سجا کے ہم‬

‫یہ شاعری کا روگ محبت سے کم نہیں‬


‫اب دارو کے رہے نہ کسی بھی دوا کے ہم‬

‫کچھ مال بٹ رہا تھا کسی حادثے کے بعد‬


‫شامل ہوئے شہیدوں میں انگلی کٹا کے ہم‬

‫مسجد میں ہم ہی کرتے ہیں سجدے‪ ،‬عبادتیں‬


‫باہر بھی خوب کرتے ہیں جم کے دھماکے ہم‬

‫تقسیم کے عمل میں تفاوت ہے کس لئے‬


‫بندے خدا کے وہ بھی ہیں بندے خدا کے ہم‬

‫فاروق جھوٹے وعدوں پہ جی جایئں گے مگر‬


‫گھٹنے ضرور توڑیں گے اس بے وفا کے ہم‬
‫دیوارہو کہیں پہ کہیں سایہ ڈھال ہو‬
‫"ایسی بھی کیا خوشی کہ سڑک پر وصال ہو"‬

‫تصویر کے بھروسے پہ کیا دوستی کریں‬


‫ہو سکتا ہے جمیلہ نہیں وہ جمال ہو‬

‫ہو سکتا ہے کہ سالی نے تھوپی ہوں اللیاں‬


‫جلتے توے پہ پنکھڑی کا احتمال ہو‬

‫ساال سجا کے الئی ہے بیگم جہیز میں‬


‫کمبخت کا کروں کیا‪ ،‬کہاں استعمال ہو‬

‫بٹوہ بھی غائب اور گھڑی کا پتا نہیں‬


‫تم لوٹنے میں جان بڑی بے مثال ہو‬

‫جب دیکھو پیٹتی ہیں محلّے کی لڑکیاں‬


‫اترے جو عشق سر سے تو عزت بحال ہو‬

‫تیری بھی جوتیوں سے ہو خاطر مرے رقیب !‬


‫میرا ہوا جو حال وہی تیرا حال ہو‬

‫اب ایسی ایک بیل پہ رپالئے کیا کریں‬


‫کنجوس دوستوں کی کوئی مسڈ کال ہو‬

‫فاروق ان دنوں ہے بہت ساس مہرباں‬


‫اس الڈ میں بھی چانس ہے سسرے کی چال ہو‬
‫دو جام چڑھاتے ہی الٹا نظر آتا ہے‬
‫"مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے"‬

‫اک بھنگ کی گولی نے دنیا ہی بدل ڈالی‬


‫خرگوش کا بچہ بھی کتا نظر آتا ہے‬

‫داماد بنا جب سے پچھتایا بہت یارو!‬


‫اب خواب میں بھی مجھ کو سسرا نظر آتا ہے‬

‫بیگم کی پٹائی نے کیا حال بنا ڈاال‬


‫ہر رنگ مجھے اب تو کاال نظر آتا ہے‬

‫محبوب اگر چھولے اک بار محبت سے‬


‫تو کڑوا کریال بھی بھی میٹھا نظر آتا ہے‬

‫مطلب کی سبھی باتیں سن لیتا ہے بہرہ بھی‬


‫اندھے کو اندھیرے میں دگنا نظر آتا ہے‬

‫فاروق چلو لوٹیں پھر عیش کریں جم کر‬


‫یہ مال تو منڈی میں تازہ نظر آتا ہے‬
‫جو اپنی تھی وہ اب اس کی کہانی ہو گئی ہے‬
‫مری چاہت میں اک لڑکی دوانی ہو گئی ہے‬

‫اچانک ساس ٹپکی آ گیئں پھر سالیاں بھی‬


‫کروں میں کیا بالئے ناگہانی ہو گئی ہے‬

‫گئے وہ دِن کہ جب کہتے تھے لیلی کو کنواری‬


‫"سنا ہے وہ بھی چھ بچوں کی نانی ہوگئی ہے"‬

‫سناتی روز ہے وہ دل ربا چوری کی غزلیں‬


‫کسی شاعر کی اس پرمہربانی ہو گئی ہے‬

‫غرض دل میں چھپا ئے لوگ ملتے ہیں یہاں پر‬


‫کسی بیوہ سے بد تر زندگانی ہو گئی ہے‬

‫سیاست میں نظر آتے ہیں اب زنخے ہی زنخے‬


‫داللوں کی وطن پر حکمرانی ہو گئی ہے‬

‫تری زلفوں کے ناگوں نے ڈسا ہے جب سےجانم‬


‫بدن کی ڈالی ڈالی رات رانی ہو گئی ہے‬

‫چل اے فاروق ! بیگم منتظرہے تھامے بیلن‬


‫ترے شعروں پہ کافی گل فشانی ہو گئی ہے‬
‫نیم کی شاخ لکھوں کڑوا کریال لکھوں‬
‫ساس کہتی ہے کہ بیوی کا قصیدہ لکھوں‬

‫روز بیلن سے پذیرائی مری ہوتی ہے‬


‫روز ہی ہوتا ہے گھر میں جو تماشہ لکھوں‬

‫عمر بیگم کی غالمی میں کڑی گزری ہے‬


‫زندگی قید تھی کیا اس کا خالصہ لکھوں‬

‫خود تو ستّر کا ہے سترہ کی بھگا الیا ہے‬


‫دن وہ آیا ہے کہ سسرے کا بھی سہرہ لکھوں‬

‫آتے جاتے ہوئے انکل وہ مجھے کہتی ہے‬


‫جی میں آتا ہے کہ میں بھی اسے خالہ لکھوں‬

‫تیرے کوچے میں رقیبوں نے مجھے پیٹا تھا‬


‫صہ لکھوں‬‫کیسے ناکام محبت کا وہ ق ّ‬

‫ایک مدت سے پڑوسی ہے دبئی میں فاروق‬


‫غم پڑوسن کا کروں کم‪ ،‬کوئی نغمہ لکھوں‬
‫رقیب کرتا ہے مرغا حالل عاشق کا‬
‫"ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے حال عاشق کا"‬

‫سوال کرتی ہے بیگم تو ٹوکتی ہے ساس‬


‫کہ سالے کرتے ہیں جینا محال عاشق کا‬

‫پٹھان آےاسی وقت ادھاری لینے‬


‫بڑے جتن سے ہوا تھا وصال عاشق کا‬

‫وگرنہ خاک پتا چل سکے گا شوہر کو‬


‫کہ بچے کرتے ہیں اکثر بوال عاشق کا‬

‫ڈنر کے بعد ستم گر کی ہوتی ہے شاپنگ‬


‫اڑایا جاتا ہے ایسے بھی مال عاشق کا‬

‫پسینہ آتے ہی فرمان جاری ہوتا ہے‬


‫کہیں سے ڈھونڈھ کے الؤ رومال عاشق کا‬

‫اسی گلی میں کنواروں نے ریوڑیاں بانٹی‬


‫کہ جس گلی میں ہوا انتقال عاشق کا‬

‫تو محبوبہ بھی اسے چندا ماما کہنے لگی‬


‫بچا نہ ایک بھی جب سر پہ بال عاشق کا‬

‫کفن سمیت وہ فاروق کودجائے گا‬


‫ہے کوۓ یار جنازہ سنبھال عاشق کا‬
‫سب بھول گیا عشق‪ ،‬وفا ان کی گلی میں‬
‫"پتھر جو مرے سر پہ لگا ان کی گلی میں"‬

‫جی بھر کے رقیبوں کی شکایت میں کروں گا‬


‫شاید کبھی مل جائے خدا ان کی گلی میں‬

‫آسیب کھڑے رہتے ہیں دروازے پہ ان کے‬


‫ہر موڑ پہ رہتی ہے بال ان کی گلی میں‬

‫سالے بھی تھے اس حسن پری وش کے دوانے‬


‫اک روز تو سسرا بھی مال ان کی گلی میں‬

‫اب اپنی بھال کیسے وہاں دال گلے گی‬


‫عشاق کا میلہ ہے لگا ان کی گلی میں‬

‫دکھ درد زمانے کے ہیں بیگم کے حوالے‬


‫سب چھوڑ‪ ،‬کر یارو! میں چال ان کی گلی میں‬

‫گر جان سے جانا ہے تواس سمت چلے جاؤ‬


‫بارود سا ہر سو ہے بچھا ان کی گلی میں‬

‫کیا خوب تماشا تھا کہ کتے تو تھے آزاد‬


‫پتھر نہ مال کوئی کھال ان کی گلی میں‬

‫کس منہ سے میں فاروق بھال پیار جتاؤں‬


‫کہتے ہیں مجھے لوگ چچا ان کی گلی میں‬
‫اس نے دیکھا جو مجھے چھت سے ذرا عید کے بعد‬
‫عید کا چاند نظر آنے لگا عید کے بعد‬

‫چورلیڈر جو چال آیا مری بستی میں‬


‫لوگ کہنے لگے شیطان کھال عید کے بعد‬

‫چاند دیکھا تو ہوئے آدھے نمازی غائب‬


‫شیخ صاحب ہیں پریشاں و خفا عید کے بعد‬

‫جیب کترے کئی شامل تھے تری محفل میں‬


‫کس صفائی سے مرا بٹوہ کٹا عید کے بعد‬

‫ہاتھ میں میرے تھما ڈالے دو س ّکے کھوٹے‬


‫ساس سسرے سے جو میں جا کے مال عید کے بعد‬

‫عیش کرتے رہے کیا ڈٹ کے مرے گھر والے‬


‫بل ادھاری کا مال مجھ کو بڑا عید کے بعد‬

‫جام ہاتھوں میں نظر آنے لگے پھر ان کے‬


‫جب بھی برسی جو ذرا جم کے گھٹا عید کے بعد‬

‫تیری آنکھوں میں ہوئے چاند ستارے روشن‬


‫رنگ الئی ترے ہاتھوں پہ حنا عید کے بعد‬

‫مانگ لو جو بھی دعا مانگنی ہے اب فاروق‬


‫اور آ جاتا ہے نزدیک خدا عید کے بعد‬

You might also like