اسالم پاک وص اف معاش رے کی تعم یر اور انس انی اخالق وع ادات کی تہ ذیب کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے ل یے ج و اہم تدیبرکرتاہے ،وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچاکر پ اکیزہ زن دگی حفاظت نظر پر زور دی ا ہے؛ چ ونکہ ِ کاقیام ہے ۔چنانچہ اسی سلسلے میں اسالم نے بدنظری تمام فواحش کی بنیاد ہے ،اس لیے قران وح دیث س ب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ہّٰللا ٰ ٰ َ ْ ک ازکی لہُ ْم اِ َّن َ خَ بِ ْی ٌر بِ َما یَصْ نَعُوْ نَ ()۱َ ُ ُ ار ِہ ْ'م َویَحْ فَظوْ ا فرُوْ َجہُ ْم ذلِ َ ْص ِقُلْ لِّ ْل ُم ْؤ ِمنِ ْینَ یَ ُغضُّ وْ ا ِم ْن اَب َ ترجمہ :ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپ نی ش رم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں ،یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے ،بیشک اللہ جانتا ہے ج و وہ کرتے ہیں۔ اور اسی طرح عورتوں کو بھی غض بصر کا حکم دیاگیاہے ۔ارش اد ب اری تع الی ہے: ظنَ فُرُوْ َجہُ َّن()۲ار ِہ َّن َویَحْ فَ ْ ْص ِ ت یَ ْغضُضْ نَ ِم ْن اَب َ َوقُلْ لِّ ْل ُم ْؤ ِم ٰن ِ ترجمہ :اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عص مت کی حفاظت کریں! حقیقت یہ ہے کہ ”ب دنظری“ہی ”ب دکاری“ کے راس تے کی پہلی س یڑھی ہے۔ اظت ف رج“ کے ِ اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم ک و”حف ریعت اس المیہ نے ”ب دنظری” سے من ع کی ا او ر اس ِ حکم پر مقدم رکھا گی ا ہے۔ش کافائدہ یہ بتایا کہ اس سے شہوت کی جگہوں کی حفاظت ہوگی ن یز یہ چ یز ت زکیہٴ ”غض بصر“ کا حکم ہر مسلمان ک و دی ا گی اہے ۔نگ اہ ِ قلوب میں بھی معاون ہوگی ۔ حکمت ال ہی کے تقاضے کے مطابق ہے؛اس لیے کہ عورتوں ٰ ِ نیچی رکھنا فطرت اور کی محبت اوردل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضاہے ۔ ارشاد ربانی ہے: ت ِمنَ النِّ َسا ِء()۳ اس حُبُّ ال َّشہَ ٰو ُِزیِّنَ لِلنَّ ِ ”لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں“۔ آنکھوں کی آزادی اوربے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے ۔ای ک ح دیث میں بدنظری کو آنکھو ں کا زنا قرار دیا گیا ۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: فَ ِزنَا ْال َعی ِْن النَّظَ ُر(” )۴آنکھوں کازنا دیکھناہے“۔ راستے میں مجلس جماکر بیٹھنے سے اسی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ وہ ع ام گ زر گ اہ ہے ،ہرط رح کے آدمی گ زرتے ہیں ،نظ ر بے ب اک ہوتی ہے ،ایس ا نہ ہو کہ کسی پر نظر پڑے اور وہ برائی کا باعث بن جائے ۔ صحابہ کرام سے ایک دفعہ حضوراکرم ص لی اللہ علیہ وس لم نے فرمای ا” :کہ راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو!صحابہ نے اپنی مجبوری پیش کی ،تو آپ ص لی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راس تہ ک ا ح ق ادا ک رو! صحابہ نے سوال کیا راستہ کا حق کیاہے“۔؟ الس'''اَل ِم َواأْل َ ْم''' ُر '''ف اأْل َ َذی َو َر ُّد َّ ص''' ِر َو َک ُّ آپ ص لی اللہ علیہ وس لم نے فرمای ا :غَضُّ ْالبَ َ ی ع َْن ْال ُم ْن َک ِر()۵ بِ ْال َم ْعر ِ' ُوف َوالنَّ ْہ ُ ” نگاہ نیچی رکھنا ،اذیت کا ردکرنا ،سالم کا ج واب دین ا ،اور بھلی ب ات ک احکم دینا اور بری بات سے منع کرنا“۔ حدیث میں نظر کو شیطانی زہر آلود تیر قرار دیا گی اہے۔ ن بی ک ریم ص لی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یس َم ْن تَ َر َکہَا ِم ْن َمخَافَتِی' أَ ْبد َْلتہ إی َمانًا یَ ِج ُد َحاَل َوتَہُ فِی قَ ْلبِ ِہ()۶ظ َرةُ َس ْہ ٌم َم ْس ُمو ٌم ِم ْن ِسہَ ِام إ ْبلِ َ النَّ ْ ”بدنظری شیطان کے زہر آلود ت یروں میں سے ای ک زہریال ت یرہے ،ج و ش خص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے ،میں اس کو ای ک ایس ی ایم انی ق وت دوں گا ،جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا“۔ نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں ک ا بنی ادی س بب ہے ۔چ ونکہ دل میں تمام قسم کے خیاالت و تص ورات اور اچھے ب ُ رے ج ذبات ک ا ب را نگیختہ و محرک ہونا ،اسی کے تابع ہے؛اس لیے اسالم میں نگاہوں ک و نیچ ا رکھن ااور ان کی حفاظت کرنابڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ بدنظری کا سب سے بڑا نقص ان یہ ہے کہ اس سے حس رت وافس وس اور رنج وغم کی کیفیت ہوجاتی ہے ۔کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خ ود ہی ل گ ک ر اس کے دل ودماغ کو زخمی کردیتاہے ۔ حافظ ابن قیم( م۷۵۱ھ)لکھتے ہیں: ث َمبْ''''''''''''''''' َداُہَا ِمنَ '''''''''''''''''وا ِد ِ َ ْ ُک'''''''''''''''''لُّ ال َح َر ال َّش َر ِر النَّظَ ِرَ $ و ُم ْعظَ ُم النَّ ِ ار ِم ْن ُم ْستَصْ غ ِ' َت فِی قَ ْل ِ ْ َک ْم نَظ''' َر ٍة بَلَغ ْ احبِہَاَ $ ک َم ْبلَ ِ '''غ ص''' ِ ب َ س َو ْال َوت َِر ال َّس ْہ ِم بَ ْینَ ْالقَوْ ِ ض ' َّر ُم ْہ َجتَہُ $ اَل َمرْ َحبً 'ا' یَسُرُّ ُم ْقلَتَہُ َم''ا َ ض َر ِر ُور عَا َد بِال َّ بِ ُسر ٍ' یَا َرا ِمیًا بِ ِسہَ ِام اللَّحْ ِظ ُمجْ ت َِہ'دًا $ أَ ْنتَ ْالقَتِی ' ُل ب ص ِ بِ َما تَرْ ِمی فَاَل تُ ِ الش''فَا َء لَہُ $ اِحْ بِسْ ث الطَّرْ ِ' ف یَرْ تَ''ا ُد ِّ یَ''ا بَ''ا ِع َ ب()۷ یک بِ ْال َعطَ ِ ک اَل یَأْتِ َ َرسُولَ َ ترجمہ :تمام حادثات کی ابتدا نظر سے ہوتی ہے ،اور بڑی آگ چھوٹی چنگاریوں سے ہوتی ہے ،کت نی ہی نظ ریں ہیں ج و نظ ر والے کے دل میں چبھ ج اتی ہیں، جیساکہ کمان اور تانت کے درمیان تیر ہوتا ہے ،اس کی آنکھ ایسی چیز سے خوش ہورہی ہے جو اس کی روح کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسی خوشی ج و ض رر ک و الئے، اس کے لیے خوش آمدید نہیں ہے۔ اے نظر کا ت یر چالنے میں کوش ش ک رنے والے! اپنے چالئے ہوئے تیر سے توہی قتل ہوگا! اے نظ ر ب از! ت و جس نظ ر سے ش فا ک ا متالشی ہے ،اپنے قاصد کو روک! کہیں یہ تجھ ہی کو ہالک نہ کردے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کرس کتا کہ نگ اہ ک ا غل ط استعمال انسان کے لیے نقصان دہ ہے ۔اس ی ل یے ش ریعت نے عفت وعص مت کی ”غض بصر“کاحکم دی ا ہے۔ ق رآن ک ریم میں م ردوں اور عورت وں ِ حفاظت کے لیے ”غض بص ر“ک احکم دی ا گی ا؛مگ ر جمہور فقہا ء نے اس حکم میں م رد ِ دون وں ک و وعورت کے درمیان فرق کیاہے ۔پہلے مردوں کے ل یے غض بص ر کے حکم میں اہ ل علم کا موقف ذکر کرکے پھر عورتوں کے لیے اس حکم کاتفص یلی ج ائزہ پیش کی ا جاتاہے ۔ غض بصر کا حکم : ِ مردوں کے لیے ( )۱اس پر اجماع ہے کہ مردکے لیے دوسرے مردکے ستر کے عالوہ پورے جسم کی طرف نظر کرناجائز ہے۔()۸ ( )۲اس پر بھی اہل علم کا اجم اع ہے کہ بے ریش ل ڑکے ک و ل ذت اور اس کی خوبصورتی سے متمتع ہونے کے ارادہ سے دیکھنا حرام ہے ۔()۹ مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں: ( )۱مرد کا اپنی بیوی کو دیکھنا جائز ہے۔ ()۲مرداپنی ذی محرم عورتوں کے مواضع زینت کو دیکھ س کتاہے اورحنفیہ کے نزدی ک مواض ِع زینت میں ،س ر ،چہرہ ،ک ان ،گال،س ینہ،ب ازو،کالئی ،پن ڈلی،ہتھیلی اورپاؤں شامل ہے ۔()۱۰ ()۳مرد کااجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنا ،اس میں تفصیل ہے: $اگر م رد کس ی ع ورت سے ش ادی ک ا ارادہ رکھت ا ہے ت و اُس کے ل یے اس عورت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے ۔ امام کاسانی( م۵۸۷ھ)لکھتے ہیں: وکذا إذا أراد أن یتزوج امرأة فال بأس أن ینظر إلی وجہہا()۱۱ ”اور اسی طر ح جو شخص کسی عورت سے شادی کرن ا چاہت ا ہو ت و اس کے لیے ک وئی ح رج نہیں کہ وہ اس ع ورت کے چہرے کی ط رف دیکھے “؛ بلکہ ایس ی عورت کے چہرہ کی طرف نظرکرنے میں جمہور فقہاء کااتفاق ہے ۔ امام نووی( م۶۷۶ھ)مخطوبہ کی طرف جواز نظر والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: وفیہ استحباب النظر إلی وجہ من یرید تزوجہا وہو مذہبنا' وم''ذہب مال''ک وأبی حنیف''ة وس''ائر' الکوف''یین وأحمد وجماہیر' العلماء()۱۲ ”اوراس حدیث میں اس عورت کے چہرے کی طرف نظرکرن ا اس ش خص کے لیے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھت ا ہو اور یہی ہم ارا م ذہب ہے اور مالک،اب و ل کوفہ اوراحمد سمیت جمہور علماء کا ہے ۔ حنیفہ ،تمام اہ ِ بغرض عالج اجنبیہ کو دیکھ سکتاہے ۔ ِ $طبیب امام رازی( م۶۰۶ھ)لکھتے ہیں : یجوز للطبیب األمین أن ینظر إلیہا للمعالجة()۱۳ بغرض عالج نظر کرنا ج ائز ہے ِ ”شریف الطبع طبیب کے لیے عورت کی طرف “۔ $گواہ عورت کے خالف گواہی دیتے وقت اور قاض ی ع ورت کے خالف فیص لہ کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتاہے ۔ عالمہ حصکفی(م۱۰۸۸ھ)لکھتے ہیں : فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا ․․․․․․․․ إال النظر لحاج''ة کق''اض وش''اہد' یحکم ویش''ہد علیہا()۱۴ ”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھن ا ممن وع ہے؛ البتہ ض رورت کے وقت ،دیکھن ا ج ائز ہے ،مثال قاضی کا فیصلہ سناتے یا گواہ کا گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔ $ہ نگامی حاالت میں ،مثال کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں ج ل رہی ہے تو اس کی جان بچان کے لیے اس کی طرف دیکھا جاسکتاہے۔ امام رازی لکھتے ہیں : لو وقعت فی غرق أو حرق فلہ أن ینظر' إلی بدنہا لیخلصہا()۱۵ ”اگر عورت پانی میں ڈوب رہی ہو یا آگ میں جل رہی ہو تو اس کی جان بچانے کے لیے اس کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہے“ ۔ اور اس ی کے س اتھ الح ق ک رتے ہوئے مزی د یہ بھی کہا جاس کتاہے کہ زل زلہ وسیالب ،چھت وں ک ا گرجان ا ،آس مانی بجلی ک ا گرن ا ،چ وری ڈکی تی کے وقت بھی افراتفری کے عالم میں یہی حکم ہوگا ۔ $معاملہ کرتے وقت یعنی ،اشیاء کے لینے و دینے اور خری دوفروخت کے وقت بھی عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ۔ امام کاسانی لکھتے ہیں : ألن إباحة النظر إلی وجہ األجنبیة وکفیہا للحاجة إلی کشفہا فی األخذ والعطاء()۱۶ ”اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔ امام نووی لکھتے ہیں : جواز النظر للحاجة عند البیع والشراء()۱۷ ”خرید وفروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے “۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بائع یا مش تری مع املہ ک رتے وقت اس ع ورت ک و پہچان لے؛ تاکہ اگر کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے کس ی نقص ان وض رر کے وقت ،یا بعد میں قیمت وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ ش ناخت کی جاسکے۔()۱۸ جبکہ بعض اہل علم کی رائے میں خری د وف روخت کے وقت ع ورت ک ا چہرہ کھولنا یا مرد کا دیکھنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جس کے بغیر کو ئی چار ئہ کار نہ ہو؛چونکہ عورتیں بی ع وش را نق اب وحج اب کے س اتھ بھی کرسکتی ہیں()۱۹۔اور یہی بات عصرِ حاض ر کے لح اظ سے زی ادہ مناس ب ہے؛ اس لیے کہ آج کل تو باقاعدہ خریدی ہوئی چیز کی رس ید م ل ج اتی ہے ،جس سے اس چیز کے واپس کرنے میں مزید کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے ۔مذکورہ باال صورتوں کے عالوہ بغیرکس ی ح اجت او ر ض رور ت کے اجن بیہ کی ط رف دیکھ نے میں جمہور فقہاء اور حنفیہ کے درمیان اختالف ہے ۔ حنفیہ کے نزدی ک فتنہ اور شہوت سے بے خ وف ہونے کی ص ورت میں اجن بیہ عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے؛مگر ائمہٴ ثالثہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف ہ و یا نہ ہ و دونوں صورتوں میں بالضرورت اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔ ائمہ کے موقف کی تفصیل اور دالئل کے نقل ک رنے سے پہلے ض رور ی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا مفہوم واضح کیا جائے؛ تاکہ با ت کا سمجھنا آسان ہو۔ فتنہ کا معنی : عالمہ شامی(م۱۲۵۲ھ)لکھتے ہیں : (قولہ بل لخوف الفتنة) أی الفجور بہا قاموس' أو الشہوة()۲۰ فتنہ سے مراد گناہ یا شہوت ہے۔ شہوت کی تعریف: عالمہ شامی لکھتے ہیں: أنہا میل القلب مطلقا()۲۱ ”شہوت دل کے مائل ہونے کانام ہے “۔ عالمہ شامی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ویمیل بطبعہ إلی اللذة()۲۲ َ بیان الشہوة التی ہی مناط الحرمةأن یتحرک قلبُ اإلنسان ”شہوت کا بیان جس پر حرمت کا مدار ہے ،وہ یہ کہ انسان کے دل میں ح رکت پیدا ہو اور طبیعت لذت کی طرف مائل ہوجائے“ ۔ مذکورہ باال تعریفات کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ کسی خوبص ورت چہرے کی طرف دیکھنے سے (خواہ وہ عورت کا ہو یا بے ریش ل ڑکے ک ا )دل کی کیفی ات کا متحرک ہ ونا اور قلبی میالن ورجحان کے ساتھ طبیعت کا حصول لذت کی طرف مائل ہونا شہوت کہالتاہے ۔ جمہور علماء کا تفصیلی موقف درج ذیل ہے ۔ مالکیہ کاموقف: عالمہ ابن رشد مالکی (م۵۲۰ھ) وال یجوز' لہ أن ینظر إلی الشابة إال لعذر من شہادة أو عالج()۲۳ ”اور مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ نوجوان ع ورت کی ط رف نظرک رے س وائے گواہی یا عالج وغیرہ کی مجبوری حالت کے۔ قاضی امام ابن عربی مالکی (م۵۴۳ھ)لکھتے ہیں: ال یحل للرجل ان ینظر الی المرأة()۲۴ ” آدمی کے لیے حالل نہیں کہ وہ عورت کی طرف دیکھے“۔ شوافع کاموقف: امام ابو اسحاق شیرازی( م۴۷۶ھ)لکھتے ہیں : وأما من غیر حاجة فال یجوز لألجنبی أن ینظر إلی األجنبیة()۲۵ ”اور بہ رحال بال ضرور ت اجنبی کے لیے جائزنہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے “۔ امام غزالی( م۵۰۵ھ)لکھتے ہیں: نظر الرجل الی المراة․․․․ وان کانت اجنبیة حرم النظرالیہا مطلقا()۲۶ ً ”اگر عورت اجنبیہ ہو تو اس کی طرف نظر کرنا مطلقا حرام ہے “۔ حنابلہ کا موقف: شیخ االسالم ابن قدامہ( م۶۲۰ھ)لکھتے ہیں: فأما نظر الرجل إلی األجنبیة من غیر سبب فإنہ محرم إلی جمیعہا فی ظاہر کالم أحمد()۲۷ ”امام احمد کے ظاہری کالم کے مطابق آدمی کا اجنبیہ عورت کے پ ورے جس م کی طرف بالوجہ دیکھنا حرام ہے“ ۔ جمہور فقہاء کے دالئل: -۱آیت کریمہ: ار ِہ ْ'م()۲۸ ْص ِ ِقُلْ لِّ ْل ُم ْؤ ِمنِ ْینَ یَ ُغضُّ وْ ا ِم ْن اَب َ ”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں“۔ امام شافعی( م۲۰۴ھ )اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: فرض ہللا علی العینین أن ال ینظر' بہما إلی ماحرم ہّٰللا ،وأن یغضہما عما نہاہ()۲۹ ”اللہ تعالی نے آنکھوں پر ف رض کی ا کہ وہ نہ دیکھیں اس چ یزکو جس کادیکھن ا اللہ نے ح رام قراردی ا ،اورجس کے دیکھ نے سے من ع کی ا ،وہ اں آنکھ وں ک و جھکایاجائے“۔ -۲آیت کریمہ: ب()۳۰ َواِ َذا َسا َ ْلتُ ُموْ ہ َُّن َمتَاعًا فَ ََْ'ْسلُوْ ہ َُّن ِم ْن َّو َراء ِ ِح َجا ٍ ”اور جب تمہ یں ان (نبی کی بیویوں)سے کوئی چیز مانگنا (یا کچھ پوچھنا) ہو تو تم پردے کے پیچھے سے مانگاکرو۔ امام قرطبی (م۶۷۱ھ)لکھتے ہیں: فی ہ''ذہ اآلی'ة دلی''ل علی أن ہّٰللا تع''الی أذن فی مس''ألتہن من وراء حج''اب ،فی حاج''ة تع''رض ،أو مس''ألة یستفتین فیہا ،ویدخل فی ذلک جمیع النساء بالمعنی()۳۱ ”یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تع الی نے ازواج مطہرات سے ض رورت پ ڑنے پر پردے کے پیچھے سے سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے کی اج ازت دی ہے ۔ اور اس حکم میں تمام مسلمان عورتیں داخل ہیں“۔ معلوم ہوا مردوں کے لیے عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں؛ اسی ل یے پ ردے کی آڑ میں عورتوں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیاہے ۔ -۳حضرت ابو ہریرہ کی روایت: انَ ،و ِزنَاہُ َما' النَّظَرَُ ،و ْالیَد ِ َان ک اَل َم َحالَةَ فَ ْال َع ْین ِ َان ت َْزنِیَ ِ ک َذلِ َ َب َعلَی ا ْب ِن آ َد َم َحظَّہُ ِم ْن ال ِّزنَا أَ ْد َر َ إن ہَّللا َ إ َذا َکت ََّ 'ک أَوْ ق َذلِ' َ ی؛ َوالنَّ ْفسُ تَ َمنَّی َوت َْش'ت َِہی' َو ْالفَ''رْ ُج ی َ ُص' ِّد ُ طشُ َوال'رِّجْ اَل ِن ت َْزنِیَ''ا ِن َو ِزنَاہُ َم''ا ْال َم ْش' ُ ت َْزنِیَ''ا ِن َو ِزنَاہُ َم''ا ْالبَ ْ یُ َک ِّذبُہُ()۳۲ ”بے شک اللہ تعالی نے ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیاہے جس کو وہ یقین ا پ ائے گا ۔پس آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کازن ا دیکھن اہے اور ہاتھ زن اکرتے ہیں ان کازن ا پکڑناہے ۔اور پاؤں زناکرتے ہیں ان کازنا چلن اہے اور نفس زن ا کی تمن ا کرت ا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب“ ۔ -۴نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا : ک اآل ِخ َرةُ()۳۳ ت لَ َ ک اأْل ُولَی َولَ ْی َس ْ ظ َرةَ ،فَإِ َّن لَ َ ظ َرةَ النَّ ْ یَا َعلِ ُّی اَل تُ ْتبِع النَّ ْ ِ ”اے علی! نظ ر کی پ یروی مت ک ر؛ اس ل یے کہ پہلی نظ ر ت و ج ائز ہے؛ مگ ر دوسری نگاہ جائز نہیں“۔ -۵حضرت علی کی روایت ہے: 'ال اَب' ُوہ ض' ِل فقَ َ ْ ق الفَ ْ 'وی' ُعنُ' َ ْ اریَ'ةٌ ِم ْن خَث َع ٍم فَلَ َ اس'تَ ْقبَلَ ْتہُ َج ِ ض' َل فَ ْ أن الن''بی ص'لی ہّٰللا علیہ وس'لم' َأَرْ دَفَ ْالفَ ْ ْت َشابًّا َو َشابَّةً فَلَ ْم آ َم ِن ال َّش ْیطَانَ َعلَی ِْہ َما()۳۴ ک قَا َل َرأَی ُ ق اب ِْن َع ِّم َ ْال َعبَّاسُ لَ َویْتَ ُعنُ َ ”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو اپ نے پیچھے س واری پ ر بٹھای ا آپ ک و ق بیلہ خثعم کی ای ک ل ڑکی ملی،آپ ص لی اللہ علیہ وس لم نے فضل کی گردن دوسری طرف پھیر دی ،اس پر ان کے وال د عب اس نے کہ ا :آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پھیردی؟آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمای ا میں نے نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خ وف نہیں ہوا۔ -۶حض رت جری ر بن عب داللہ البجلی کہتے ہیں میں نے حض وراکرم ص لی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اچانک نظر پڑجائے تو کیا ک روں ؟آپ ص لی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا: ص ِری()۳۵ أَ ْن أَصْ ِر َ' ف بَ َ ”میں اپنی نظر پھیرلوں“ -۷وہ احادیث جن میں نکاح سے پہلے عورت کی طرف دیکھنے کی اج ازت دی گئی ہے۔( )۳۶اگر عورتوں کی طرف نظر کرن ا مطلق ا ً مب اح ہوت ا ت و پھ ر نک اح کے ارادہ کے ساتھ دیکھنے کی تخصیص کیوں کی گئی؟()۳۷ یہ تم ام دالئ ل اس ب ات پ ر داللت ک رتے ہیں کہ اجن بیہ ع ورت کی ط رف بالضرورت دیکھنا ناجائز ہے؛چنانچہ ائمہ ثالثہ کے نزدیک م ردوں کے ل یے غض بص ر ک احکم الزمی ہے ۔اوراس تثنائی ص ورتوں کے عالوہ اجن بیہ ع ورت کے چہرے کی طرف دیکھنامطلقا ً حرام ہے۔فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔ امام غزالی لکھتے ہیں: ومنہم من جوز النظر الی الوجہ حیث تومن الفتنة․․․․․ وہو بعی''د الن الش''ہوة وخ''وف الفتن'ة ام''ر ب''اطن فالضبط' باألنوثة التی ہی من االسباب الظاہرة أقرب الی المصلحة()۳۸ ”بعض حض رات نے فتنہ سے امن میں ہونے کی ص ورت میں ع ورت ک ا چہرہ دیکھنے کو ج ائز ق رار دی اہے اور وہ بعی د ہے؛اس ل یے کہ شہوت اور فتنہ ک ا خ وف باطنی معاملہ ہے ،ل ٰہذا موٴنث کے ساتھ حکم کو منضبط کرنا یہ اس باب ظ اہرہ میں سے ہے اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے“۔ اما م غزالی کی مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر عورت کی طرف نظ ر کرنے کو فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں جائز قرار دیاجائے تو ایسا ممکن نہیں ہے؛اس لیے کہ شہوت اورفتنہ کے خوف ک ا تعل ق انس ان کے ظ اہر سے نہیں؛ بلکہ باطن سے ہے اور کسی کے باطن میں کیا ہے؟کو ئی دوس را ف رد نہیں جانت ا؛ چنانچہ فتنہ کے خوف کو ضابطہ بنانے کے بجائے اگر یہ ضابطہ بنا یا جائے کہ عورت کی ط رف بالوجہ نظرکرن اہی ج ائز نہیں ،یہ اس باب ظ اہرہ اور مص لحت کے زی ادہ قریب ہے ۔ مفتی محمد شفیع دیوبندی احکام القرآن للتھانوی میں لکھتے ہیں : ”اور اجنبیہ عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کرن ا،م الکیہ ،ش افعیہ اور حنابلہ کے نزدیک حرام ہے ۔ خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔اور ان حضرات کا خیال ہے کہ خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنا فتنہ کو الزم کرتاہے اور عام ط ور پ ر دل میں میالن پیدا ہوجاتاہے ۔ل ٰہذا ،اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ،خ ود فتنہ کے ق ائم مق ام ہے ۔جس طرح کہ نیند کو خ روج ریح کے احتم ال کی وجہ سے اس کے ق ائم مق ام کردیا گیاہے ۔اور محض سونے سے وضو کے ٹوٹنے کاحکم لگادیا جاتاہے خواہ ریح کا خرو ج ہو یا نہ ہو ،اور اسی طرح خل وت ص حیحہ ع ورت کے س اتھ وطی کے ق ائم مقام ہے تمام احکام میں( )۳۹عام ازیں کہ اس خلوت میں وطی پائی گ ئی ہو ی ا نہ پائی گئی ہو“ ()۴۰۔ معل وم ہوکہ ا ئمہ ثالثہ کے نزدی ک م رد کے ل یے ع ورت کے چہرے کی ط رف بالضرورت نظر کرنا جائز نہیں ،اور اس کی وجہ یہ ذکر کی گئی ہے کہ اک ثر ح االت میں خوبصورت عورت کا چہرہ دیکھ کر انسان اس کی ط رف مائ ل ہوکر فتنہ میں واقع ہوسکتاہے ۔ل ٰہذا جس طرح ،نیند کو خروج ریح کے قائم مقام قرار دے کر وضو ٹوٹنے ک احکم لگادی ا جات اہے خ واہ ہوا خ ارج ہو ی ا نہ ہو۔اور خل وت ص حیحہ( )۴۱میں وطی نہ پائی گئی ہو؛ مگر اس خلوت کو وطی کے قائم مقام ک رکے احک ام ج اری کیے جاتے ہیں()۴۲اسی طرح عورت کی طرف نظر کرنے سے انسان فتنہ میں پ ڑ سکتاہے ،ل ٰہذا اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ایس اہی ہے جیسے ک وئی ش خص فتنہ میں واقع ہوجائے ۔ حنفیہ کاموقف: حنفیہ کے نزدیک بالشہوت اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظرکرنا جائز ہے ۔ امام ابو بکرجصاص( م۳۷۰ھ)لکھتے ہیں: جاز لألجنبی أن ینظر من المرأة إلی وجہہا ویدیہا بغیر شہوة()۴۳ ”اجنبی کے لیے ج ائز ہے کہ وہ بغیرشہوت کے ع ورت کے چہرہ اورہتھیلی وں کی طرف دیکھے“۔ امام کاسانی لکھتے ہیں: فال یحل النظر لألجنبی من األجنبیة الحرة إلی سائر بدنہا إال الوجہ والکفین()۴۴ ”اجنبی کے لیے آزاد جنبیہ کے چہرہ اور ہتھیلیوں کے عالوہ باقی ب دن کی ط رف نظر کرنا حالل نہیں ہے“۔ صاحب ہدایہ عالمہ مرغینانی( م۵۹۳ھ )لکھتے ہیں: وال یجوز' أن ینظر الرجل إلی األجنبیة إال وجہہا وکفیہا()۴۵ ”اور آدمی کے ل یے ج ائز نہیں کہ وہ اجن بیہ کی ط رف دیکھے س وائے چہرہ اور ہتھیلی کے“۔ حنفیہ کے دالئل: -۱ارشاد باری تعالی ہے: ار ِہ ْ'م()۴۶ قُلْ لِّ ْل ُم ْؤ ِمنِ ْینَ یَ ُغضُّ وْ ا ِم ْن اَب َ ْص ِ ”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں“۔ اس آیت میں مردوں کو غض بصر کاحکم دیا گیاہے جس سے معلوم ہوت اہے کہ اجنبیہ کی طرف بالکل دیکھنا ج ائز نہیں؛مگ ر حنفیہ نے س ورة الن ور کی درج ذی ل آیت کی وجہ سے چہرے اورہتھیلیوں کا استثناکیاہے۔ َواَل یُ ْب ِد ْینَ ِز ْینَتَہُ َّن اِاَّل َما ظَہَ َر ِم ْنہَا()۴۷ ”اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں؛ مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے“۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے” اِاَّل َما ظَہَ َر ِم ْنہَا“ کی تفسیر سرمہ اور انگوٹھی سے کی ہے()۴۸۔ سرمہ چونکہ آنکھ میں ڈاال جاتاہے اور انگ وٹھی ہاتھ میں ہوتی ہے؛ل ٰہ ذا زینت ظاہر ہ سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے ۔اور حضرت ابن عب ا س سے دوس ری من َْہا“کی تفس یر ہتھیلی اور چہرہ سے م ا ظ َ َہ َر ِ روایت بھی ہے جس میں آپ نے ”اِاَّل َ کی ہے()۴۹۔ چہرہ اورہتھیلیوں کے عالوہ باقی اعضاء اس ی نہی کے حکم میں داخ ل ہیں()۵۰۔چنانچہ اجن بی م رد کے ل یے اجن بیہ کے چہرے اور ہتھیلی وں کے عالوہ ب اقی جسم کی طرف نظر کرنا حالل نہیں؛لیکن اگر ع ورت کی ط رف نظ ر ک رنے میں شہوت کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کے چہرے کو دیکھنا حالل نہ ہوگا ۔ امام شمس االئمہ سرخسی (م۴۸۳ھ)اس مسئلہ پ ر ب ڑی تفص یلی بحث ک رنے کے بعد لکھتے ہیں: وہ''ذا کلہ إذا لم یکن النظ''ر عن ش''ہوة ف''إن ک''ان یعلم أنہ إن نظ''ر اش''تہی لم یح''ل لہ النظ''ر إلی ش''یء منہا․․․․․ وکذلک إن کان أکبر رأیہ أنہ إن نظر اشتہی ألن أکبر ال''رأی فیم''ا ال یتوق'ف' علی حقیقتہ ک''الیقین( )۵۱ ”اور یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جب مرد کی وہ نظر شہوت سے نہ ہو؛لیکن اگر وہ یہ جانتا ہ و کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف رغبت پیدا ہوجائے گی تو ایسی صورت میں اس مرد کے لیے عورت کے کسی عضو کو بھی دیکھنا حالل نہ ہوگا ۔یہی حکم اس صورت میں ہے جب مرد کی غالب رائے یہ ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی ت و اس کے دل میں اس کی طرف میالن ہوجائے گا؛کیونکہ جس چیز کی حقیقت پر مطل ع نہ ہوس کتے ہ وں ،اس کے اندر غالب رائے یقین کا درجہ رکھتی ہے“۔ امام کاسانی لکھتے ہیں : إنما یحل النظر إلی مواضع الزینة الظاہرة منہا من غیر شہوة فأما عن شہوة فال یحل لقولہ علیہ الصالة ان( )۵۲ولیس زنا العینین إال النظ''ر عن ش''ہوة وألن النظ''ر عن ش''ہوة س''بب الوق''وع فی والسالم اَ ْل َع ْینَا ِن ت َْزنِیَ ِ الحرام فیکون حراما إال فی حالة الضرورة()۵۳ ”بے ش ک زینت ظ اہرہ کی جگہوں کی ط رف نظ ر اس وقت حالل ہے جب وہ بغ یر شہوت کے ہو اور اگ ر وہ نظ ر شہوت سے ہو ت و پھ ر حالل نہ ہ وگی ،اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” :آنکھیں زنا کرتی ہیں“اور آنکھوں کا زناشہوت والی نظرسے ہوتا ہے ۔اور شہوت بھ ری نظ ر ح رام میں واق ع ہونے کاسبب ہے ،ل ٰہذا وہ حرام ہوگی سوائے مجبوری کی حالت میں ۔ -۲نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسن ا ْم َرأَة أَجْ نَبِیَّة عَن َش ْہ َوة صُبَّ فِی َع ْینَ ْی ِہ اآلنک یَوْ َم القِیَا َم ِة()۵۴ من نَظ َر إِلَی م َح ِ ”جس شخص نے شہوت کے ساتھ کسی اجنبی عورت کے محاس ن کی ط رف نظرکی تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ ڈاال جائے گا“۔ مذکورہ باال دالئ ل کی بن اء پ ر حنفیہ کے نزدی ک فتنہ اورشہوت ک اخوف نہ ہونے کی صورت میں عورت کے چہرہ کی طرف نظ ر کی جاس کتی ہے ۔اور اگ ر فتنہ ک ا اندیشہ ہو ت و پھ ر ع ورت ک ا چہرہ دیکھن ا من ع ہوگ ا اس ل یے کہ ع ورت کی اص ل خوبصورتی تو اس کے چہرہ میں ہوتی ہے ۔ امام سرخسی لکھتے ہیں: وألن حرمة النظر لخوف الفتنة وعامة محاسنہا فی وجہہا فخوف' الفتن''ة فی النظ''ر إلی وجہہ''ا أک''ثر منہ إلی سائر األعضاء()۵۵ ”اوربے شک دیکھنے کی حرمت فتنہ کے خوف کی وجہ سے ہے اور ع ورت کے اکثر محاسن اس کے چہرے ہی میں ہوتے ہیں؛اس لیے دوس رے اعض اء کی ط رف دیکھنے کے مقابلے میں چہرہ کی طرف دیکھنے میں فتنہ کا خوف زیادہ ہے “۔ اور اگر فتنہ کاخوف نہیں ہے تو پھر عورت کی طرف دیکھنا بھی حرام نہیں ہے؛ مگر چونکہ اس زمانے میں بے راہ روی اور عریانی وفحاشی کاسیالب نہ ایت ت یزی کے ساتھ بڑھتاجارہاہے اور اس شرط ک ا فی زم انہ پای ا جان ا مش کل ہے؛ اس ل یے متاخرین حنفیہ()۵۶نے مطلقا ً عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے سے منع کیاہے ۔ عالمہ حصکفی لکھتے ہیں: فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا فحل النظر مقید بعدم الشہوة وإال فحرام' وہذا فی زمانہم وأما فی زماننا' فمنع من الشابة قہستانی' وغیرہ إال النظر لحاجة کقاض وشاہد' یحکم ویشہد علیہا()۵۷ ”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے ۔پس نظ ر ک احالل ہو ن ا مقی د ہے شہوت نہ ہونے کے س اتھ وگ رنہ ح رام ہے۔ یہ حکم ان پہلے فقہاء کے زم انے ک ا ہے۔اور جہ اں ت ک ہمارے اس دور کاتعلق ہے،اس میں تو نوجوان عورت کی طرف نظ ر کرن ا ممن وع قرار دیاگیاہے ۔قہستانی وغیرہ؛البتہ ضرورت کے وقت ،دیکھن ا ج ائز ہے ،مثال قاض ی کا فیصلہ سناتے وقت دیکھنایا گواہ کا عورت کے خالف گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔ مذکورہ باال بحث سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثالثہ کے نزدیک مرد کے لیے ع ورت کی طرف بالضرورت دیکھنانا جائز نہیں،اور متقدمین حنفیہ کے نزدیک فتنہ سے م امون ہونے کی صورت میں مرد کے لیے عورت کی ط رف دیکھن ا ج ائز ہے؛ مگ ر چ ونکہ اب وہ حاالت نہیں رہے ،عری انی اورفحاش ی بڑھ تی ج ارہی ہے؛ اس ل یے مت اخرین حنفیہ کے نزدیک بالضرورت مر د کا اجن بی ع ورت کی ط رف دیکھناج ائز نہیں ہے؛ چنانچہ اب یہ کہ ا جاسکتاہے کہ اب جمہور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ م رد کے لیے بالضرورت عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے ۔ $$$
حواشی وحوالہ جات:
( )۱القرآن ،النو۳۰:۔ ()۲القرآن ،النور۳۱۔ ()۳القرآن،آل عمران۱۴:۔ ()۴البخاری ،محمد بن اسماعیل ا ،الجامع الصحیح ،ب یروت ،دار ابن کث یر الیم امہ ، ۱۴۰۷ھ ،جلد ، ۵صفحہ۲۳۰۴۔ ()۵مسلم بن حجاج،امام ،الصحیح ،بیروت ،داراحی اء ال تراث الع ربی ،جلد،۴ص فحہ ۱۷۰۴۲۳۰۴۔ ()۶المنذری،عبدالعظیم،ال ترغیب وال ترھیب،ب یروت ،دارالکتب العلمیہ۱۴۱۷،ھ ،جلد ،۳صفحہ۱۵۳۔ ()۷ابن قیم الجوزیہ،الجواب الک افی لمن س ال عن ال دواء الش افی،دارالمع رفت، ۱۴۱۸ھ،جلد،۱صفحہ۱۵۴-۱۵۳۔ ()۸عب داللہ بن محم ود الموص لی الحنفی ،االختی ار لتعلی ل المخت ار،ق اہرہ،مطبعہ الحلبی۱۳۵۶،ھ،جلد،۴صفحہ۱۵۴۔ الغ زالی،محم د بن محم د،ابوحام د،الوس یط فی الم ذھب،ق اہرہ ،دارالس الم، ۱۴۱۷ھ،جلد،۵صفحہ۲۹۔ ()۹ش امی ابن عاب دین ،محم دامین ،رد المحت ار(حاش یہ ابن عاب دین)ب یروت ،دارلفکرللطباعةوالنشر،جلد،۶صفحہ۳۷۱۔ ط البرہانی فی الفقہ د،المحی ود بن احم دین محم ()۱۰برہان ال النعمانی،بیروت،دارلکتب العلمیہ۱۴۲۴،ھ،جلد،۵صفحہ ،۳۳۲-۳۳۱ابن ق دامہ ،عب داللہ بن احمد،المغنی،مکتبة الق اہرہ۱۳۸۸،ھ،جلد،۷ص فحہ ،۱۰۰-۹۸الخطیب الش ربینی،محم دبن احم د الش افعی ،مغ نی المحت اج الی معرف ة مع انی الف اظ المنہ اج،ب یروت،دارالکتب العلمیہ۱۴۱۵ ،ھ ،جلد،۴صفحہ۲۱۴،۲۱۷۔الغ زالی،الوس یط فی الم ذھب،جلد،۵ص فحہ-۳۱ ،۳۲ابن جزی کلبی،محمد بن احمد،القوانین الفقیہ،ناشر نامعلوم،س ن،جلداول،ص فحہ ،۲۹۴محم دبن محمدالطرابلس ی،الم الکی،م واھب الجلی ل فی ش رح مختص ر خلیل،بیروت،دارالفکر۱۴۱۲،ھ،جلد،۳صفحہ۴۰۶۔ ()۱۱الکاسانی ،عالو الدین ،البدائع والصنائع فی ترتیب الشرائع،ب یروت ،دارالکت اب فحہ،۹۶ نی،جلد،۷ص دامہ،المغ فحہ ،۱۲۲ابن ق ربی،/۱۹۸۲،جلد،۵ص الع الطرابلس ی،الم الکی،م واھب الجلی ل فی ش رح مختص ر خلی ل،جلد،۳ص فحہ،۴۰۵ الش یرازی ،اب راہیم بن علی ،اب و اس حاق ،المہذب فی فقہ االم ام الش افعی ،ب یروت ،دارالکتب العلمیہ ،س ن ،جلد،۲صفحہ۴۲۴۔ ()۱۲لنووی ،شرح صحیح مسلم ،جلد،۹صفحہ۲۱۰۔ ()۱۳رازی،محم د بن عم ر بن حس ین ،اب و عب داللہ ،تفس یر الفخرال رازی ،ب یروت ،داراحی اء ال تراث الع ربی ۱۴۲۰،ھ،جلد،۲۳ص فحہ ،۳۶۲الطرابلس ی،الم الکی،م واھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد،۳صفحہ ،۴۰۵حصکفی ،عالوالدین ،درمختار ،بیروت، دارالفکر۱۳۸۶ ،ھ،جلد،۶صفحہ ،۳۷۰ابن قدامہ،المغنی،جلد،۷صفحہ۱۰۱۔ ()۱۴حصکفی،الدرالمختار،جلد،۶صفحہ،۳۷۰الطرابلسی،المالکی،مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد،۳صفحہ ،۴۰۵الش یرازی ،اب و اس حاق ،المھ ذب ،جلد،۲ص فحہ ،۴۲۵ابن قدامہ،المغنی،جلد،۷صفحہ۱۰۱۔ ()۱۵رازی ،تفسیر الفخرالرازی ،،جلد،۲۳صفحہ۳۶۲۔ ()۱۶الکاسانی،البدائع والصنائع ،جلد،۵صفحہ۱۲۲۔ ()۱۷النووی ،شرح صحیح مسلم ،جلد،۹صفحہ۲۱۰۔ ()۱۸درویش مصطفی حس ن،فص ل الخط اب فی مس ئلة الحج اب والنق اب،ق اہرہ ،داراالعتصام،س ن،صفحہ ۷۳۔ ()۱۹ایضا ،صفحہ ۷۳۔ ()۲۰شامی،ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد،۱صفحہ۴۰۷۔ ()۲۱شامی،ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد،۱صفحہ۴۰۶۔ ()۲۲شامی،ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد،۱صفحہ۴۰۷۔ ()۲۳ابن رشد الجد،محمدبن احمد،المقدمات المھدات،بیروت ،دارالغرب االسالمی، ۱۴۰۸ھ،جلد،۳صفحہ۴۶۰۔ ()۲۴ابن ع ربی،محم دبن عب داللہ ،احک ام الق رآن،ب یروت،دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ،جلد،۳صفحہ۳۸۰۔ ()۲۵الشیرازی،ابو اسحاق ،المھذب ،جلد،۲صفحہ۴۲۵۔ ()۲۶الغزالی،الوسیط فی المذھب،جلد،۵صفحہ۳۲۔ ()۲۷ابن قدامہ،المغنی،جلد،۷صفحہ۱۰۲۔ ()۲۸الق رآن ،الن ور ،۳۰:الش یرازی،اب و اس حاق ،المھ ذب ،جلد،۲ص فحہ ،۴۲۵ابن عربی،احکام القرآن ،جلد،۳صفحہ ،۳۷۹ابن رشد،البیان والتحصیل،جلد،۱۸صفحہ۵۵۹۔ ()۲۹الش افعی،محم د بن ادریس ،تفس یر االم ام الش افعی،المملک ة الع ربیہ السعودیہ،دارالتدمریة۱۴۲۷،ھ،جلد،۳صفحہ۱۱۳۷۔ ()۳۰القرآن،االحزاب: ابن ق دامہ،عب داللہ بن احم د،اب و محم د،المغ نی،مکتب ة الق اہرہ۱۳۸۸ ،ھ،جلد ،۷صفحہ۱۰۲۔ ()۳۱القرطبی،محمد بن احمد بن ابی بک ر،الج امع الحک ام الق رآن،ق اہرہ،دارالکتب المصریہ۱۳۸۴،ھ،جلد،۱۴صفحہ۲۲۷۔ ()۳۲ابن عربی،احکام القرآن ،جلد،۳صفحہ۳۸۰؛ مسلم ،الصحیح،جلد،۴صفحہ۲۰۴۷۔ ()۳۳ابن قدامہ،المغنی ،جلد،۷صفحہ۱۰۲؛ ابن عربی،احکام القرآن،جلد،۳صفحہ۳۸۰؛ ابوداؤد،جلد،۲صفحہ۲۴۶؛ ابن ابی شیبہ ،عبداللہ بن محمد،الکتاب المصنف فی االحادیث واآلثار،ریاض،مکتبة الرشید۱۴۰۹،ھ،جلد،۶صفحہ۳۶۷۔ ()۳۴الش یرازی،اب و اس حاق ،المھ ذب ،جلد،۲ص فحہ۴۲۵؛ ابن رش د،البی ان والتحصیل،جلد،۱۸صفحہ۵۵۹؛ ابن قدامہ ،المغنی ،جلد،۷صفحہ۱۰۲؛ الترمذی ،ابوعیس ی محمد بن عیسی،السنن،مصر،مطبع مصطفی البابی الحلبی۱۳۹۵،ھ ،جلد،۳ص فحہ۲۲۳؛ احمد بن حنبل ،المسند،بیروت،موسسہ الرسالة۱۴۲۱،ھ،جلد،۲صفحہ۶۔ ()۳۵ابن قدامہ،المغنی،جلد،۷صفحہ۱۰۲؛ مسلم ،جلد ،۳صفحہ۱۶۹۹۔ ()۳۶اب و داؤد،السجس تانی ،س لیمان بن اش عث ،ب یروت ،المکتبہ العص ریہ ،جلد ،۲صفحہ۲۲۸۔ ابن ماجہ ،محمد بن یزید ،دار احیاء الکتب العربیہ ،جلد،۱صفحہ۶۰۰۔ ()۳۷ابن قدامہ،المغنی،جلد،۷صفحہ۱۰۲۔ ()۳۸الوسیط فی المذھب،جلد،۵صفحہ۳۲۔ ()۳۹مف تی ص احب ک ا ”س ائراالحکام“ لکھن ا ”تس امح“ہے؛ اس ل یے کہ خل وت صحیحہ تمام احکام میں وطی کے قائم مق ام نہیں ہے؛بلکہ بعض احک ا م میں ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ ()۴۰مفتی محمدشفیع دیوبندی ،احکام القرآن،جلد،۳صفحہ۴۶۸۔ ()۴۱خل وت ص حیحہ سے مرادنک اح کے بع د م رد وع ورت کی ایس ی تنہ ائی کی مالقات ہے ،جہاں پر وطی سے کوئی حسی ،شرعی اور طبعی مانع نہ ہو ،حس ی سے مراد وہاں پر کوئی اور ان کے عالوہ موجود نہ ہواور شرعی سے مراد عور ت م اہواری کے ایام میں نہ ہو یا ف رض روزہ نہ رکھ ا ہو ،اور طبعی سے م راد مردوع ورت دون وں میں سے کسی کو ایسی بیماری نہ ہو ج و وطی ک رنے سے م انع ہوی ا ض رر کااندیشہ ہ و،جس خلوت میں یہ رکاوٹیں موجود نہ ہوں ،وہ خلوت صحیحہ کہالتی ہے ۔ فتاوی ہندیہ المعروف ع المگیریہ میں یہی تعری ف کی گ ئی ہے :والخل وة الص حیحة أن یجتمع ا فی مک ان لیس ہن اک م انع یمنعہ من ال وطء حس ا أو ش رعا أو طبع ا (فت اوی ہن دیہ ،بیروت،دارالفکر۱۴۱۱،ھ،جلداول ،صفحہ)۳۰۴ ()۴۲ایسی خلوت صحیحہ جس میں مرد نے عورت سے وطی نہ کی تو اس عورت پر بعض احکام وہ الگو ہونگے جو ایسی عورت پر الگوہوتے ہیں جس کے س اتھ خل وت صحیحہ میں وطی ہوچکی ہو ،فت اوی ہن دیہ میں ہے :وأص حابناأقاموا الخل وة الص حیحة مق ام ال وطء فی ح ق بعض االحک ام دون البعض فاقاموہا مق امہ فی ح ق تاک د المہ ر وثبوت النسب والعدة والنفقة والس کنی فی ہذہ الع دة وحرم ة نک اح اختہاواربع س واہا (جلداول ،صفحہ)۳۰۶ہمارے اصحاب نے کہا خلوت ص حیحہ (جس میں وطی نہ ہ وئی ہو )بعض احکام میں وطی کے قائم مق ام ہے اور بعض میں نہیں ہے ۔پس وہ وطی کے ق ائم مق ام ہے مہرکے الزم ہونے میں ،ثب وت نس ب میں ،اور ع دت میں ،اور دوران ع دت نفقہ اور س کنی کی مس تحق ہونے میں ،اور ع دت کے دوران اس کی بہن سے نکاح کے حرام ہ ونے میں ،اور اس کی عدت میں مزید چار عورتوں کے ساتھ نکاح کی ح رمت میں۔ اور خل وت ص حیحہ بعض احک ام میں وطی کے ق ائم مق ام نہیں ہے۔ مثال وطی کے بعد غسل فرض ہوتاہے؛ مگر ایسی خلوت جس میں وطی نہ ہو اس کے بع د غسل فرض نہیں ہوگا ،اور ایسی خلوت کے بع د اگ ر طالق ہوگ ئی ت و وہ زوج اول کے لیے حال ل نہیں ہوگی ،مرد یا عورت محصن نہ ہونگے،رجعت کا حق نہ ہوگ ا ،وغ یرہ اور بھی مسائل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔(فتاوی ہندیہ ،جلداول ،صفحہ ) ۳۰۶حاالنکہ جب اس ع ورت کے س اتھ وطی نہیں کی گ ئی ت و اس پ ر یہ احک ام الگ و نہیں ہونے چاہئیں؛ مگر فقہاء نے خلوت صحیحہ کو وطی کے قائم مقام کرکے وہی احک ام ج اری کیے ہیں ۔ائمہ ثالثہ کہتے ہیں اسی ط رح ب دنظری چ ونکہ ع ورت کی ط رف میالن اور وقوع فتنہ کا سبب ہے؛ اس لیے یہ فتنہ کے قائم مقام ہے اورحرام ہے ۔ ()۴۳الجصاص،ابو بکر،احکام القرآن،بیروت،دارالکتب العلمیہ ۱۴۱۵،ھ ،جلد،۵صفحہ ۱۷۳۔ ()۴۴کاسانی،بدائع الصنائع ،جلد،۵صفحہ۱۲۲۔ () ۴۵المرغینانی ،علی بن ابی بکر ،الہدایہ فی شرح بدایة المبتدی،بیروت،داراحی اء التراث العربی،س ن ،جلد،۴صفحہ۳۶۸۔ ()۴۶القرآن،النور۳۰:۔ ()۴۷القرآن ،النور۳۱:۔ ()۴۸الطبری ،محمد بن جریر ،ج امع البی ان فی تاوی ل الق رآن،ھ،ب یروت،موسس ة الرسالہ۱۴۲۰،ھ،جلد،۱۹صفحہ۱۵۶۔ ()۴۹ابن ابی شیبہ،ا المصنف ،جلد،۳صفحہ۵۴۶۔ ()۵۰کاسانی،بدائع الصنائع ،جلد،۵صفحہ۱۲۲ ،۱۲۱۔ ()۵۱السرخسی ،محمد بن ابی سھل ،المبسوط،بیروت ،دارالمع رفت۱۴۱۴،ھ ،جلد ،۱۰صفحہ۱۵۳۔ ()۵۲ابو بکراحمد بن عمروالبزار،مس ند البزارالمنش ور باس م البحرالزخ ار،المدین ة المنورة ،المکتبة العلوم والحکم ،/۱۹۸۸،جلد ،۵صفحہ۳۳۲۔ ()۵۳کاسانی،بدائع الصنائع ،جلد،۵صفحہ۱۲۲۔ ()۵۴السرخس ی ،المبس وط،جلد،۱۰ص فحہ۱۵۳؛ المرغین انی ،الہدایہ ،جلد،۴ص فحہ ۳۶۸۔ ()۵۵السرخسی ، ،المبسوط،جلد،۱۰صفحہ۱۵۲۔ ()۵۶متق دمین سے م راد وہ حض رات ہیں جنہوں نے ام ام ابوح نیفہ ، ام ام ابویوسف اور امام محمد کا زم انہ پای ا ،اور ان سے فیض حاص ل کی ا اورجنہوں نے ان ائمہ ثالثہ ک ا زم انہ نہیں پای ا وہ مت اخرین کہالتے ہیں ۔عالمہ ذہ بی نے م یزان میں ،متقدمین اورمتاخرین کے درمی ان حدفاص ل تیس ری ص دی ک ا ش روع ق رار دی ا ہے ۔ تیسری صدی ہجری سے پہلے تک کہ علماء متقدمین اور تیس ری ص دی کے آغ از سے مت اخرین کہالتے ہیں ۔(مش تاق علی ش اہ،تع ارف فقہ،گوجران والہ،مکتبہ حنفیہ،س ن ،صفحہ)۶۳ ()۵۷حصکفی،الدرالمختار،جلد،۶صفحہ۳۷۰۔