You are on page 1of 13

‫شریعت اسالمیہ میں مردوعورت کے لیے‬

‫”غض بصر“ کے حکم کا تحقیقی جائزہ‬


‫اسالم پاک وص اف معاش رے کی تعم یر اور انس انی اخالق وع ادات کی تہ ذیب‬
‫کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے ل یے ج و‬
‫اہم تدیبرکرتاہے‪ ،‬وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچاکر پ اکیزہ زن دگی‬
‫حفاظت نظر پر زور دی ا ہے؛ چ ونکہ‬ ‫ِ‬ ‫کاقیام ہے ۔چنانچہ اسی سلسلے میں اسالم نے‬
‫بدنظری تمام فواحش کی بنیاد ہے‪ ،‬اس لیے قران وح دیث س ب سے پہلے اس کی‬
‫گرفت کرتے ہیں۔‬
‫ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ہّٰللا‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫َ‬ ‫ْ‬
‫ک ازکی لہُ ْم اِ َّن َ خَ بِ ْی ٌر بِ َما یَصْ نَعُوْ نَ (‪)۱‬‬‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ار ِہ ْ'م َویَحْ فَظوْ ا فرُوْ َجہُ ْم ذلِ َ‬
‫ْص ِ‬‫قُلْ لِّ ْل ُم ْؤ ِمنِ ْینَ یَ ُغضُّ وْ ا ِم ْن اَب َ‬
‫ترجمہ‪ :‬ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپ نی ش رم‬
‫گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں‪ ،‬یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے‪ ،‬بیشک اللہ جانتا ہے ج و‬
‫وہ کرتے ہیں۔‬
‫اور اسی طرح عورتوں کو بھی غض بصر کا حکم دیاگیاہے ۔ارش اد ب اری تع الی‬
‫ہے‪:‬‬
‫ظنَ فُرُوْ َجہُ َّن(‪)۲‬‬‫ار ِہ َّن َویَحْ فَ ْ‬
‫ْص ِ‬ ‫ت یَ ْغضُضْ نَ ِم ْن اَب َ‬ ‫َوقُلْ لِّ ْل ُم ْؤ ِم ٰن ِ‬
‫ترجمہ ‪ :‬اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عص مت‬
‫کی حفاظت کریں!‬
‫حقیقت یہ ہے کہ ”ب دنظری“ہی ”ب دکاری“ کے راس تے کی پہلی س یڑھی ہے۔‬
‫اظت ف رج“ کے‬ ‫ِ‬ ‫اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم ک و”حف‬
‫ریعت اس المیہ نے ”ب دنظری” سے من ع کی ا او ر اس‬ ‫ِ‬ ‫حکم پر مقدم رکھا گی ا ہے۔ش‬
‫کافائدہ یہ بتایا کہ اس سے شہوت کی جگہوں کی حفاظت ہوگی ن یز یہ چ یز ت زکیہٴ‬
‫”غض بصر“ کا حکم ہر مسلمان ک و دی ا گی اہے ۔نگ اہ‬ ‫ِ‬ ‫قلوب میں بھی معاون ہوگی ۔‬
‫حکمت ال ہی کے تقاضے کے مطابق ہے؛اس لیے کہ عورتوں‬ ‫ٰ‬ ‫ِ‬ ‫نیچی رکھنا فطرت اور‬
‫کی محبت اوردل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضاہے ۔‬
‫ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫ت ِمنَ النِّ َسا ِء(‪)۳‬‬ ‫اس حُبُّ ال َّشہَ ٰو ِ‬‫ُزیِّنَ لِلنَّ ِ‬
‫”لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں“۔‬
‫آنکھوں کی آزادی اوربے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے ۔ای ک ح دیث‬
‫میں بدنظری کو آنکھو ں کا زنا قرار دیا گیا ۔ارشاد نبوی‪  ‬صلی اللہ علیہ وسلم ہے‪:‬‬
‫فَ ِزنَا ْال َعی ِْن النَّظَ ُر(‪” )۴‬آنکھوں کازنا دیکھناہے“۔‬
‫راستے میں مجلس جماکر بیٹھنے سے اسی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ وہ ع ام‬
‫گ زر گ اہ ہے ‪،‬ہرط رح کے آدمی گ زرتے ہیں‪ ،‬نظ ر بے ب اک ہوتی ہے ‪،‬ایس ا نہ ہو کہ‬
‫کسی پر نظر پڑے اور وہ برائی کا باعث بن جائے ۔‬
‫صحابہ کرام‪ ‬سے ایک دفعہ حضوراکرم‪  ‬ص لی اللہ علیہ وس لم نے فرمای ا‪” :‬کہ‬
‫راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو!صحابہ‪ ‬نے اپنی مجبوری پیش کی‪ ،‬تو آپ‪  ‬ص لی‬
‫اللہ علیہ وسلم‪  ‬نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راس تہ ک ا ح ق ادا ک رو!‬
‫صحابہ‪ ‬نے سوال کیا راستہ کا حق کیاہے“۔؟‬
‫الس'''اَل ِم َواأْل َ ْم''' ُر‬
‫'''ف اأْل َ َذی َو َر ُّد َّ‬
‫ص''' ِر َو َک ُّ‬ ‫آپ‪  ‬ص لی اللہ علیہ وس لم نے فرمای ا ‪ :‬غَضُّ ْالبَ َ‬
‫ی ع َْن ْال ُم ْن َک ِر(‪)۵‬‬ ‫بِ ْال َم ْعر ِ'‬
‫ُوف َوالنَّ ْہ ُ‬
‫” نگاہ نیچی رکھنا ‪،‬اذیت کا ردکرنا ‪،‬سالم کا ج واب دین ا ‪،‬اور بھلی ب ات ک احکم‬
‫دینا اور بری بات سے منع کرنا“۔‬
‫حدیث میں نظر کو شیطانی زہر آلود تیر قرار دیا گی اہے۔ ن بی ک ریم‪  ‬ص لی اللہ‬
‫علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫یس َم ْن تَ َر َکہَا ِم ْن َمخَافَتِی' أَ ْبد َْلتہ إی َمانًا یَ ِج ُد َحاَل َوتَہُ فِی قَ ْلبِ ِہ(‪)۶‬‬‫ظ َرةُ َس ْہ ٌم َم ْس ُمو ٌم ِم ْن ِسہَ ِام إ ْبلِ َ‬ ‫النَّ ْ‬
‫”بدنظری شیطان کے زہر آلود ت یروں میں سے ای ک زہریال ت یرہے‪ ،‬ج و ش خص‬
‫اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے‪ ،‬میں اس کو ای ک ایس ی ایم انی ق وت‬
‫دوں گا‪ ،‬جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا“۔‬
‫نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں ک ا بنی ادی س بب ہے ۔چ ونکہ‬
‫دل میں تمام قسم کے خیاالت و تص ورات اور اچھے ب ُ رے ج ذبات ک ا ب را نگیختہ و‬
‫محرک ہونا‪ ،‬اسی کے تابع ہے؛اس لیے اسالم میں نگاہوں ک و نیچ ا رکھن ااور ان کی‬
‫حفاظت کرنابڑی اہمیت کا حامل ہے ۔‬
‫بدنظری کا سب سے بڑا نقص ان یہ ہے کہ اس سے حس رت وافس وس اور رنج‬
‫وغم کی کیفیت ہوجاتی ہے ۔کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خ ود ہی ل گ ک ر‬
‫اس کے دل ودماغ کو زخمی کردیتاہے ۔‬
‫حافظ ابن قیم‪( ‬م‪۷۵۱‬ھ)لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ث َمبْ''''''''''''''''' َداُہَا ِمنَ‬ ‫'''''''''''''''''وا ِد ِ‬
‫َ‬ ‫ْ‬
‫ُک'''''''''''''''''لُّ ال َح‬
‫َر ال َّش َر ِر‬ ‫النَّظَ ِر‪َ        $                    ‬و ُم ْعظَ ُم النَّ ِ‬
‫ار ِم ْن ُم ْستَصْ غ ِ'‬
‫َت فِی قَ ْل ِ‬ ‫ْ‬
‫َک ْم نَظ''' َر ٍة بَلَغ ْ‬
‫احبِہَا‪َ        $       ‬ک َم ْبلَ ِ‬
‫'''غ‬ ‫ص''' ِ‬ ‫ب َ‬
‫س َو ْال َوت َِر‬ ‫ال َّس ْہ ِم بَ ْینَ ْالقَوْ ِ‬
‫ض ' َّر ُم ْہ َجتَہُ‪       $               ‬اَل َمرْ َحبً 'ا'‬ ‫یَسُرُّ ُم ْقلَتَہُ َم''ا َ‬
‫ض َر ِر‬ ‫ُور عَا َد بِال َّ‬ ‫بِ ُسر ٍ'‬
‫یَا َرا ِمیًا بِ ِسہَ ِام اللَّحْ ِظ ُمجْ ت َِہ'دًا‪       $           ‬أَ ْنتَ ْالقَتِی ' ُل‬
‫ب‬
‫ص ِ‬ ‫بِ َما تَرْ ِمی فَاَل تُ ِ‬
‫الش''فَا َء لَہُ‪       $       ‬اِحْ بِسْ‬ ‫ث الطَّرْ ِ'‬
‫ف یَرْ تَ''ا ُد ِّ‬ ‫یَ''ا بَ''ا ِع َ‬
‫ب(‪)۷‬‬ ‫یک بِ ْال َعطَ ِ‬ ‫ک اَل یَأْتِ َ‬ ‫َرسُولَ َ‬
‫ترجمہ ‪ :‬تمام حادثات کی ابتدا نظر سے ہوتی ہے‪ ،‬اور بڑی آگ چھوٹی چنگاریوں‬
‫سے ہوتی ہے‪ ،‬کت نی ہی نظ ریں ہیں ج و نظ ر والے کے دل میں چبھ ج اتی ہیں‪،‬‬
‫جیساکہ کمان اور تانت کے درمیان تیر ہوتا ہے‪ ،‬اس کی آنکھ ایسی چیز سے خوش‬
‫ہورہی ہے جو اس کی روح کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسی خوشی ج و ض رر ک و الئے‪،‬‬
‫اس کے لیے خوش آمدید نہیں ہے۔ اے نظر کا ت یر چالنے میں کوش ش ک رنے والے!‬
‫اپنے چالئے ہوئے تیر سے توہی قتل ہوگا! اے نظ ر ب از! ت و جس نظ ر سے ش فا ک ا‬
‫متالشی ہے‪ ،‬اپنے قاصد کو روک! کہیں یہ تجھ ہی کو ہالک نہ کردے۔‬
‫یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کرس کتا کہ نگ اہ ک ا غل ط‬
‫استعمال انسان کے لیے نقصان دہ ہے ۔اس ی ل یے ش ریعت نے عفت وعص مت کی‬
‫”غض بصر“کاحکم دی ا ہے۔ ق رآن ک ریم میں م ردوں اور عورت وں‬ ‫ِ‬ ‫حفاظت کے لیے‬
‫”غض بص ر“ک احکم دی ا گی ا؛مگ ر جمہور فقہا ء نے اس حکم میں م رد‬ ‫ِ‬ ‫دون وں ک و‬
‫وعورت کے درمیان فرق کیاہے ۔پہلے مردوں کے ل یے غض بص ر کے حکم میں اہ ل‬
‫علم کا موقف ذکر کرکے پھر عورتوں کے لیے اس حکم کاتفص یلی ج ائزہ پیش کی ا‬
‫جاتاہے ۔‬
‫غض بصر کا حکم ‪:‬‬
‫ِ‬ ‫مردوں کے لیے‬
‫(‪ )۱‬اس پر اجماع ہے کہ مردکے لیے دوسرے مردکے ستر کے عالوہ پورے جسم‬
‫کی طرف نظر کرناجائز ہے۔(‪)۸‬‬
‫(‪ )۲‬اس پر بھی اہل علم کا اجم اع ہے کہ بے ریش ل ڑکے ک و ل ذت اور اس کی‬
‫خوبصورتی سے متمتع ہونے کے ارادہ سے دیکھنا حرام ہے ۔(‪)۹‬‬
‫مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں‪:‬‬
‫(‪ )۱‬مرد کا اپنی بیوی کو دیکھنا جائز ہے۔‬
‫(‪)۲‬مرداپنی ذی محرم عورتوں کے مواضع زینت کو دیکھ س کتاہے اورحنفیہ کے‬
‫نزدی ک مواض ِع زینت میں ‪،‬س ر ‪،‬چہرہ ‪،‬ک ان ‪،‬گال‪،‬س ینہ‪،‬ب ازو‪،‬کالئی‪ ،‬پن ڈلی‪،‬ہتھیلی‬
‫اورپاؤں شامل ہے ۔(‪)۱۰‬‬
‫(‪)۳‬مرد کااجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنا‪ ،‬اس میں تفصیل ہے‪:‬‬
‫‪   $‬اگر م رد کس ی ع ورت سے ش ادی ک ا ارادہ رکھت ا ہے ت و اُس کے ل یے اس‬
‫عورت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے ۔‬
‫امام کاسانی‪(  ‬م‪۵۸۷‬ھ)لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وکذا إذا أراد أن یتزوج امرأة فال بأس أن ینظر إلی وجہہا(‪)۱۱‬‬
‫”اور اسی طر ح جو شخص کسی عورت سے شادی کرن ا چاہت ا ہو ت و اس کے‬
‫لیے ک وئی ح رج نہیں کہ وہ اس ع ورت کے چہرے کی ط رف دیکھے “؛ بلکہ ایس ی‬
‫عورت کے چہرہ کی طرف نظرکرنے میں جمہور فقہاء کااتفاق ہے ۔‬
‫امام نووی‪(  ‬م‪۶۷۶‬ھ)مخطوبہ کی طرف جواز نظر والی حدیث نقل کرنے کے‬
‫بعد لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وفیہ استحباب النظر إلی وجہ من یرید تزوجہا وہو مذہبنا' وم''ذہب مال''ک وأبی حنیف''ة وس''ائر' الکوف''یین‬
‫وأحمد وجماہیر' العلماء(‪)۱۲‬‬
‫”اوراس حدیث میں اس عورت کے چہرے کی طرف نظرکرن ا اس ش خص کے‬
‫لیے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھت ا ہو اور یہی ہم ارا م ذہب ہے اور مالک‪،‬اب و‬
‫ل کوفہ اوراحمد‪ ‬سمیت جمہور علماء کا ہے ۔‬ ‫حنیفہ‪ ،‬تمام اہ ِ‬
‫بغرض عالج اجنبیہ کو دیکھ سکتاہے ۔‬ ‫ِ‬ ‫‪   $‬طبیب‬
‫امام رازی‪(  ‬م‪۶۰۶‬ھ)لکھتے ہیں‪       :‬‬
‫یجوز للطبیب األمین أن ینظر إلیہا للمعالجة(‪)۱۳‬‬
‫بغرض عالج نظر کرنا ج ائز ہے‬ ‫ِ‬ ‫”شریف الطبع طبیب کے لیے عورت کی طرف‬
‫“۔‬
‫‪   $‬گواہ عورت کے خالف گواہی دیتے وقت اور قاض ی ع ورت کے خالف فیص لہ‬
‫کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتاہے ۔‬
‫عالمہ حصکفی‪(‬م‪۱۰۸۸‬ھ)لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا‪ ․․․․․․․․ ‬إال النظر لحاج''ة کق''اض وش''اہد' یحکم ویش''ہد‬
‫علیہا(‪)۱۴‬‬
‫”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے‬
‫چہرے کی طرف دیکھن ا ممن وع ہے؛ البتہ ض رورت کے وقت ‪،‬دیکھن ا ج ائز ہے‪ ،‬مثال‬
‫قاضی کا فیصلہ سناتے یا گواہ کا گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔‬
‫‪   $‬ہ نگامی حاالت میں‪ ،‬مثال کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں ج ل‬
‫رہی ہے تو اس کی جان بچان کے لیے اس کی طرف دیکھا جاسکتاہے۔‬
‫امام رازی‪  ‬لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫لو وقعت فی غرق أو حرق فلہ أن ینظر' إلی بدنہا لیخلصہا(‪)۱۵‬‬
‫”اگر عورت پانی میں ڈوب رہی ہو یا آگ میں جل رہی ہو تو اس کی جان بچانے‬
‫کے لیے اس کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہے“ ۔‬
‫اور اس ی کے س اتھ الح ق ک رتے ہوئے مزی د یہ بھی کہا جاس کتاہے کہ زل زلہ‬
‫وسیالب ‪،‬چھت وں ک ا گرجان ا ‪،‬آس مانی بجلی ک ا گرن ا ‪،‬چ وری ڈکی تی کے وقت بھی‬
‫افراتفری کے عالم میں یہی حکم ہوگا ۔‬
‫‪   $‬معاملہ کرتے وقت یعنی ‪،‬اشیاء کے لینے و دینے اور خری دوفروخت کے وقت‬
‫بھی عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ۔‬
‫امام کاسانی لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫ألن إباحة النظر إلی وجہ األجنبیة وکفیہا للحاجة إلی کشفہا فی األخذ والعطاء(‪)۱۶‬‬
‫”اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف‬
‫نظر کرنا جائز ہے“۔‬
‫امام نووی‪  ‬لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫جواز النظر للحاجة عند البیع والشراء(‪)۱۷‬‬
‫”خرید وفروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے “۔‬
‫اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بائع یا مش تری مع املہ ک رتے وقت اس ع ورت ک و‬
‫پہچان لے؛ تاکہ اگر کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے کس ی نقص ان وض رر کے‬
‫وقت ‪ ،‬یا بعد میں قیمت وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ ش ناخت کی‬
‫جاسکے۔(‪)۱۸‬‬
‫جبکہ بعض اہل علم کی رائے میں خری د وف روخت کے وقت ع ورت ک ا چہرہ‬
‫کھولنا یا مرد کا دیکھنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جس‬
‫کے بغیر کو ئی چار ئہ کار نہ ہو؛چونکہ عورتیں بی ع وش را نق اب وحج اب کے س اتھ‬
‫بھی کرسکتی ہیں(‪)۱۹‬۔اور یہی بات عصرِ حاض ر کے لح اظ سے زی ادہ مناس ب ہے؛‬
‫اس لیے کہ آج کل تو باقاعدہ خریدی ہوئی چیز کی رس ید م ل ج اتی ہے‪ ،‬جس سے‬
‫اس چیز کے واپس کرنے میں مزید کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے ۔مذکورہ باال‬
‫صورتوں کے عالوہ بغیرکس ی ح اجت او ر ض رور ت کے اجن بیہ کی ط رف دیکھ نے‬
‫میں جمہور فقہاء اور حنفیہ کے درمیان اختالف ہے ۔‬
‫حنفیہ کے نزدی ک فتنہ اور شہوت سے بے خ وف ہونے کی ص ورت میں اجن بیہ‬
‫عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے؛مگر ائمہٴ ثالثہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف‬
‫ہ و یا نہ ہ و دونوں صورتوں میں بالضرورت اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔‬
‫ائمہ کے موقف کی تفصیل اور دالئل کے نقل ک رنے سے پہلے ض رور ی ہے کہ فتنہ‬
‫اور شہوت کا مفہوم واضح کیا جائے؛ تاکہ با ت کا سمجھنا آسان ہو۔‬
‫فتنہ کا معنی ‪:‬‬
‫عالمہ شامی‪(‬م‪۱۲۵۲‬ھ)لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫(قولہ بل لخوف الفتنة) أی الفجور بہا قاموس' أو الشہوة(‪)۲۰‬‬
‫فتنہ سے مراد گناہ یا شہوت ہے۔‬
‫شہوت کی تعریف‪:‬‬
‫عالمہ شامی‪  ‬لکھتے ہیں‪:‬‬
‫أنہا میل القلب مطلقا(‪)۲۱‬‬
‫”شہوت دل کے مائل ہونے کانام ہے “۔‬
‫عالمہ شامی‪  ‬مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ویمیل بطبعہ إلی اللذة(‪)۲۲‬‬
‫َ‬ ‫بیان الشہوة التی ہی مناط الحرمةأن یتحرک قلبُ اإلنسان‬
‫”شہوت کا بیان جس پر حرمت کا مدار ہے‪ ،‬وہ یہ کہ انسان کے دل میں ح رکت‬
‫پیدا ہو اور طبیعت لذت کی طرف مائل ہوجائے“ ۔‬
‫مذکورہ باال تعریفات کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ کسی خوبص ورت چہرے‬
‫کی طرف دیکھنے سے (خواہ وہ عورت کا ہو یا بے ریش ل ڑکے ک ا )دل کی کیفی ات‬
‫کا متحرک ہ ونا اور قلبی میالن ورجحان کے ساتھ طبیعت کا حصول لذت کی طرف‬
‫مائل ہونا شہوت کہالتاہے ۔‬
‫جمہور علماء کا تفصیلی موقف درج ذیل ہے ۔‬
‫مالکیہ کاموقف‪:‬‬
‫عالمہ ابن رشد مالکی (م‪۵۲۰‬ھ)‬
‫وال یجوز' لہ أن ینظر إلی الشابة إال لعذر من شہادة أو عالج(‪)۲۳‬‬
‫”اور مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ نوجوان ع ورت کی ط رف نظرک رے س وائے‬
‫گواہی یا عالج وغیرہ کی مجبوری حالت کے۔‬
‫قاضی امام ابن عربی‪ ‬مالکی (م‪۵۴۳‬ھ)لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ال یحل للرجل ان ینظر الی المرأة(‪)۲۴‬‬
‫” آدمی کے لیے حالل نہیں کہ وہ عورت کی طرف دیکھے“۔‬
‫شوافع کاموقف‪:‬‬
‫امام ابو اسحاق شیرازی‪(  ‬م‪۴۷۶‬ھ)لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫وأما من غیر حاجة فال یجوز لألجنبی أن ینظر إلی األجنبیة(‪)۲۵‬‬
‫”اور بہ رحال بال ضرور ت اجنبی کے لیے جائزنہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے‬
‫“۔‬
‫امام غزالی‪(  ‬م‪۵۰۵‬ھ)لکھتے ہیں‪:‬‬
‫نظر الرجل الی المراة․․․․‪ ‬وان کانت اجنبیة حرم النظرالیہا مطلقا(‪)۲۶‬‬
‫ً‬
‫”اگر عورت اجنبیہ ہو تو اس کی طرف نظر کرنا مطلقا حرام ہے “۔‬
‫حنابلہ کا موقف‪:‬‬
‫شیخ االسالم ابن قدامہ‪( ‬م‪۶۲۰‬ھ)لکھتے ہیں‪:‬‬
‫فأما نظر الرجل إلی األجنبیة من غیر سبب فإنہ محرم إلی جمیعہا فی ظاہر کالم أحمد(‪)۲۷‬‬
‫”امام احمد کے ظاہری کالم کے مطابق آدمی کا اجنبیہ عورت کے پ ورے جس م‬
‫کی طرف بالوجہ دیکھنا حرام ہے“ ۔‬
‫جمہور فقہاء کے دالئل‪:‬‬
‫‪ -۱‬آیت کریمہ‪:‬‬
‫ار ِہ ْ'م(‪)۲۸‬‬ ‫ْص ِ‬ ‫ِقُلْ لِّ ْل ُم ْؤ ِمنِ ْینَ یَ ُغضُّ وْ ا ِم ْن اَب َ‬
‫”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں“۔‬
‫امام شافعی‪( ‬م‪۲۰۴‬ھ )اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫فرض ہللا علی العینین أن ال ینظر' بہما إلی ماحرم ہّٰللا ‪ ،‬وأن یغضہما عما نہاہ(‪)۲۹‬‬
‫”اللہ تعالی نے آنکھوں پر ف رض کی ا کہ وہ نہ دیکھیں اس چ یزکو جس کادیکھن ا‬
‫اللہ نے ح رام قراردی ا‪ ،‬اورجس کے دیکھ نے سے من ع کی ا‪ ،‬وہ اں آنکھ وں ک و‬
‫جھکایاجائے“۔‬
‫‪ -۲‬آیت کریمہ‪:‬‬
‫ب(‪)۳۰‬‬ ‫َواِ َذا َسا َ ْلتُ ُموْ ہ َُّن َمتَاعًا فَ ََْ'ْسلُوْ ہ َُّن ِم ْن َّو َراء ِ ِح َجا ٍ‬
‫”اور جب تمہ یں ان (نبی کی بیویوں)سے کوئی چیز مانگنا (یا کچھ پوچھنا) ہو تو‬
‫تم پردے کے پیچھے سے مانگاکرو۔‬
‫امام قرطبی (م‪۶۷۱‬ھ)لکھتے ہیں‪:‬‬
‫فی ہ''ذہ اآلی'ة دلی''ل علی أن ہّٰللا تع''الی أذن فی مس''ألتہن من وراء حج''اب‪ ،‬فی حاج''ة تع''رض‪ ،‬أو مس''ألة‬
‫یستفتین فیہا‪ ،‬ویدخل فی ذلک جمیع النساء بالمعنی(‪)۳۱‬‬
‫”یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تع الی نے ازواج مطہرات سے ض رورت پ ڑنے‬
‫پر پردے کے پیچھے سے سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے کی اج ازت دی ہے ۔ اور اس‬
‫حکم میں تمام مسلمان عورتیں داخل ہیں“۔‬
‫معلوم ہوا مردوں کے لیے عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں؛ اسی ل یے پ ردے کی آڑ‬
‫میں عورتوں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیاہے ۔‬
‫‪ -۳‬حضرت ابو ہریرہ‪ ‬کی روایت‪:‬‬
‫ان‪َ ،‬و ِزنَاہُ َما' النَّظَرُ‪َ ،‬و ْالیَد ِ‬
‫َان‬ ‫ک اَل َم َحالَةَ فَ ْال َع ْین ِ‬
‫َان ت َْزنِیَ ِ‬ ‫ک َذلِ َ‬ ‫َب َعلَی ا ْب ِن آ َد َم َحظَّہُ ِم ْن ال ِّزنَا أَ ْد َر َ‬ ‫إن ہَّللا َ إ َذا َکت َ‬‫َّ‬
‫'ک أَوْ‬
‫ق َذلِ' َ‬ ‫ی؛ َوالنَّ ْفسُ تَ َمنَّی َوت َْش'ت َِہی' َو ْالفَ''رْ ُج ی َ‬
‫ُص' ِّد ُ‬ ‫طشُ َوال'رِّجْ اَل ِن ت َْزنِیَ''ا ِن َو ِزنَاہُ َم''ا ْال َم ْش' ُ‬ ‫ت َْزنِیَ''ا ِن َو ِزنَاہُ َم''ا ْالبَ ْ‬
‫یُ َک ِّذبُہُ(‪)۳۲‬‬
‫”بے شک اللہ تعالی نے ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیاہے جس کو وہ یقین ا پ ائے‬
‫گا ۔پس آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کازن ا دیکھن اہے اور ہاتھ زن اکرتے ہیں ان کازن ا‬
‫پکڑناہے ۔اور پاؤں زناکرتے ہیں ان کازنا چلن اہے اور نفس زن ا کی تمن ا کرت ا ہے اور‬
‫شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب“ ۔‬
‫‪-۴‬نبی کریم‪  ‬صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی‪ ‬سے فرمایا‪       :‬‬
‫ک اآل ِخ َرةُ(‪)۳۳‬‬ ‫ت لَ َ‬ ‫ک اأْل ُولَی َولَ ْی َس ْ‬ ‫ظ َرةَ‪ ،‬فَإِ َّن لَ َ‬ ‫ظ َرةَ النَّ ْ‬
‫یَا َعلِ ُّی اَل تُ ْتبِع النَّ ْ‬
‫ِ‬
‫”اے علی! نظ ر کی پ یروی مت ک ر؛ اس ل یے کہ پہلی نظ ر ت و ج ائز ہے؛ مگ ر‬
‫دوسری نگاہ جائز نہیں“۔‬
‫‪-۵‬حضرت علی‪ ‬کی روایت ہے‪:‬‬
‫'ال اَب' ُوہ‬
‫ض' ِل فقَ َ‬ ‫ْ‬
‫ق الفَ ْ‬ ‫'وی' ُعنُ' َ‬ ‫ْ‬
‫اریَ'ةٌ ِم ْن خَث َع ٍم فَلَ َ‬ ‫اس'تَ ْقبَلَ ْتہُ َج ِ‬
‫ض' َل فَ ْ‬ ‫أن الن''بی ص'لی ہّٰللا علیہ وس'لم' َأَرْ دَفَ ْالفَ ْ‬
‫ْت َشابًّا َو َشابَّةً فَلَ ْم آ َم ِن ال َّش ْیطَانَ َعلَی ِْہ َما(‪)۳۴‬‬ ‫ک قَا َل َرأَی ُ‬ ‫ق اب ِْن َع ِّم َ‬ ‫ْال َعبَّاسُ لَ َویْتَ ُعنُ َ‬
‫”بے شک نبی کریم‪  ‬صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو اپ نے پیچھے س واری پ ر‬
‫بٹھای ا آپ ک و ق بیلہ خثعم کی ای ک ل ڑکی ملی‪،‬آپ‪  ‬ص لی اللہ علیہ وس لم نے‬
‫فضل‪ ‬کی گردن دوسری طرف پھیر دی ‪،‬اس پر ان کے وال د عب اس‪ ‬نے کہ ا‪ :‬آپ‬
‫نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پھیردی؟آپ نے‪  ‬صلی اللہ علیہ وسلم فرمای ا‬
‫میں نے نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خ وف نہیں‬
‫ہوا۔‬
‫‪-۶‬حض رت جری ر بن عب داللہ البجلی‪ ‬کہتے ہیں میں نے حض وراکرم ص لی اللہ‬
‫علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اچانک نظر پڑجائے تو کیا ک روں ؟آپ‪  ‬ص لی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے مجھے حکم دیا‪:‬‬
‫ص ِری(‪)۳۵‬‬ ‫أَ ْن أَصْ ِر َ'‬
‫ف بَ َ‬
‫”میں اپنی نظر پھیرلوں“‬
‫‪ -۷‬وہ احادیث جن میں نکاح سے پہلے عورت کی طرف دیکھنے کی اج ازت دی‬
‫گئی ہے۔(‪ )۳۶‬اگر عورتوں کی طرف نظر کرن ا مطلق ا ً مب اح ہوت ا ت و پھ ر نک اح کے‬
‫ارادہ کے ساتھ دیکھنے کی تخصیص کیوں کی گئی؟(‪)۳۷‬‬
‫یہ تم ام دالئ ل اس ب ات پ ر داللت ک رتے ہیں کہ اجن بیہ ع ورت کی ط رف‬
‫بالضرورت دیکھنا ناجائز ہے؛چنانچہ ائمہ ثالثہ کے نزدیک م ردوں کے ل یے غض بص ر‬
‫ک احکم الزمی ہے ۔اوراس تثنائی ص ورتوں کے عالوہ اجن بیہ ع ورت کے چہرے کی‬
‫طرف دیکھنامطلقا ً حرام ہے۔فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔‬
‫امام غزالی‪  ‬لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ومنہم من جوز النظر الی الوجہ حیث تومن الفتنة․․․․․‪ ‬وہو بعی''د الن الش''ہوة وخ''وف الفتن'ة ام''ر ب''اطن‬
‫فالضبط' باألنوثة التی ہی من االسباب الظاہرة أقرب الی المصلحة(‪)۳۸‬‬
‫”بعض حض رات نے فتنہ سے امن میں ہونے کی ص ورت میں ع ورت ک ا چہرہ‬
‫دیکھنے کو ج ائز ق رار دی اہے اور وہ بعی د ہے؛اس ل یے کہ شہوت اور فتنہ ک ا خ وف‬
‫باطنی معاملہ ہے‪ ،‬ل ٰہذا موٴنث کے ساتھ حکم کو منضبط کرنا یہ اس باب ظ اہرہ میں‬
‫سے ہے اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے“۔‬
‫اما م غزالی‪  ‬کی مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر عورت کی طرف نظ ر‬
‫کرنے کو فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں جائز قرار دیاجائے تو ایسا ممکن‬
‫نہیں ہے؛اس لیے کہ شہوت اورفتنہ کے خوف ک ا تعل ق انس ان کے ظ اہر سے نہیں؛‬
‫بلکہ باطن سے ہے اور کسی کے باطن میں کیا ہے؟کو ئی دوس را ف رد نہیں جانت ا؛‬
‫چنانچہ فتنہ کے خوف کو ضابطہ بنانے کے بجائے اگر یہ ضابطہ بنا یا جائے کہ عورت‬
‫کی ط رف بالوجہ نظرکرن اہی ج ائز نہیں‪ ،‬یہ اس باب ظ اہرہ اور مص لحت کے زی ادہ‬
‫قریب ہے ۔‬
‫مفتی محمد شفیع‪ ‬دیوبندی احکام القرآن للتھانوی میں لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫”اور اجنبیہ عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کرن ا‪،‬م الکیہ ‪،‬ش افعیہ‬
‫اور حنابلہ کے نزدیک حرام ہے ۔ خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔اور ان حضرات کا خیال‬
‫ہے کہ خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنا فتنہ کو الزم کرتاہے اور عام ط ور پ ر دل‬
‫میں میالن پیدا ہوجاتاہے ۔ل ٰہذا ‪،‬اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ‪،‬خ ود فتنہ کے ق ائم مق ام‬
‫ہے ۔جس طرح کہ نیند کو خ روج ریح کے احتم ال کی وجہ سے اس کے ق ائم مق ام‬
‫کردیا گیاہے ۔اور محض سونے سے وضو کے ٹوٹنے کاحکم لگادیا جاتاہے خواہ ریح کا‬
‫خرو ج ہو یا نہ ہو ‪،‬اور اسی طرح خل وت ص حیحہ ع ورت کے س اتھ وطی کے ق ائم‬
‫مقام ہے تمام احکام میں(‪ )۳۹‬عام ازیں کہ اس خلوت میں وطی پائی گ ئی ہو ی ا نہ‬
‫پائی گئی ہو“ (‪)۴۰‬۔‬
‫معل وم ہوکہ ا ئمہ ثالثہ کے نزدی ک م رد کے ل یے ع ورت کے چہرے کی ط رف‬
‫بالضرورت نظر کرنا جائز نہیں‪ ،‬اور اس کی وجہ یہ ذکر کی گئی ہے کہ اک ثر ح االت‬
‫میں خوبصورت عورت کا چہرہ دیکھ کر انسان اس کی ط رف مائ ل ہوکر فتنہ میں‬
‫واقع ہوسکتاہے ۔ل ٰہذا جس طرح ‪،‬نیند کو خروج ریح کے قائم مقام قرار دے کر وضو‬
‫ٹوٹنے ک احکم لگادی ا جات اہے خ واہ ہوا خ ارج ہو ی ا نہ ہو۔اور خل وت ص حیحہ( ‪)۴۱‬میں‬
‫وطی نہ پائی گئی ہو؛ مگر اس خلوت کو وطی کے قائم مقام ک رکے احک ام ج اری‬
‫کیے جاتے ہیں(‪)۴۲‬اسی طرح عورت کی طرف نظر کرنے سے انسان فتنہ میں پ ڑ‬
‫سکتاہے‪ ،‬ل ٰہذا اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ایس اہی ہے جیسے ک وئی ش خص فتنہ میں‬
‫واقع ہوجائے ۔‬
‫حنفیہ کاموقف‪:‬‬
‫حنفیہ کے نزدیک بالشہوت اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظرکرنا‬
‫جائز ہے ۔‬
‫امام ابو بکرجصاص‪( ‬م‪۳۷۰‬ھ)لکھتے ہیں‪:‬‬
‫جاز لألجنبی أن ینظر من المرأة إلی وجہہا ویدیہا بغیر شہوة(‪)۴۳‬‬
‫”اجنبی کے لیے ج ائز ہے کہ وہ بغیرشہوت کے ع ورت کے چہرہ اورہتھیلی وں کی‬
‫طرف دیکھے“۔‬
‫امام کاسانی‪ ‬لکھتے ہیں‪:‬‬
‫فال یحل النظر لألجنبی من األجنبیة الحرة إلی سائر بدنہا إال الوجہ والکفین(‪)۴۴‬‬
‫”اجنبی کے لیے آزاد جنبیہ کے چہرہ اور ہتھیلیوں کے عالوہ باقی ب دن کی ط رف‬
‫نظر کرنا حالل نہیں ہے“۔‬
‫صاحب ہدایہ عالمہ مرغینانی‪( ‬م‪۵۹۳‬ھ )لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وال یجوز' أن ینظر الرجل إلی األجنبیة إال وجہہا وکفیہا(‪)۴۵‬‬
‫”اور آدمی کے ل یے ج ائز نہیں کہ وہ اجن بیہ کی ط رف دیکھے س وائے چہرہ اور‬
‫ہتھیلی کے“۔‬
‫حنفیہ کے دالئل‪:‬‬
‫‪-۱‬ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ار ِہ ْ'م(‪)۴۶‬‬ ‫قُلْ لِّ ْل ُم ْؤ ِمنِ ْینَ یَ ُغضُّ وْ ا ِم ْن اَب َ‬
‫ْص ِ‬
‫”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں“۔‬
‫اس آیت میں مردوں کو غض بصر کاحکم دیا گیاہے جس سے معلوم ہوت اہے کہ‬
‫اجنبیہ کی طرف بالکل دیکھنا ج ائز نہیں؛مگ ر حنفیہ نے س ورة الن ور کی درج ذی ل‬
‫آیت کی وجہ سے چہرے اورہتھیلیوں کا استثناکیاہے۔‬
‫َواَل یُ ْب ِد ْینَ ِز ْینَتَہُ َّن اِاَّل َما ظَہَ َر ِم ْنہَا(‪)۴۷‬‬
‫”اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں؛ مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے“۔‬
‫حضرت عبداللہ بن عباس‪ ‬نے‪” ‬اِاَّل َما ظَہَ َر ِم ْنہَا“ کی تفسیر سرمہ اور انگوٹھی سے‬
‫کی ہے(‪)۴۸‬۔ سرمہ چونکہ آنکھ میں ڈاال جاتاہے اور انگ وٹھی ہاتھ میں ہوتی ہے؛ل ٰہ ذا‬
‫زینت ظاہر ہ سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے ۔اور حضرت ابن عب ا س‪  ‬سے دوس ری‬
‫من َْہا“کی تفس یر ہتھیلی اور چہرہ سے‬ ‫م ا ظ َ َہ َر ِ‬
‫روایت بھی ہے جس میں آپ نے ”اِاَّل َ‬
‫کی ہے(‪)۴۹‬۔ چہرہ اورہتھیلیوں کے عالوہ باقی اعضاء اس ی نہی کے حکم میں داخ ل‬
‫ہیں(‪)۵۰‬۔چنانچہ اجن بی م رد کے ل یے اجن بیہ کے چہرے اور ہتھیلی وں کے عالوہ ب اقی‬
‫جسم کی طرف نظر کرنا حالل نہیں؛لیکن اگر ع ورت کی ط رف نظ ر ک رنے میں‬
‫شہوت کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کے چہرے کو دیکھنا حالل نہ ہوگا ۔‬
‫امام شمس االئمہ سرخسی (م‪۴۸۳‬ھ)اس مسئلہ پ ر ب ڑی تفص یلی بحث ک رنے‬
‫کے بعد لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وہ''ذا کلہ إذا لم یکن النظ''ر عن ش''ہوة ف''إن ک''ان یعلم أنہ إن نظ''ر اش''تہی لم یح''ل لہ النظ''ر إلی ش''یء‬
‫منہا․․․․․‪ ‬وکذلک إن کان أکبر رأیہ أنہ إن نظر اشتہی ألن أکبر ال''رأی فیم''ا ال یتوق'ف' علی حقیقتہ ک''الیقین(‬
‫‪)۵۱‬‬
‫”اور یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جب مرد کی وہ نظر شہوت سے نہ ہو؛لیکن‬
‫اگر وہ یہ جانتا ہ و کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس‬
‫کی طرف رغبت پیدا ہوجائے گی تو ایسی صورت میں اس مرد کے لیے عورت کے‬
‫کسی عضو کو بھی دیکھنا حالل نہ ہوگا ۔یہی حکم اس صورت میں ہے جب مرد کی‬
‫غالب رائے یہ ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی ت و اس کے دل میں اس‬
‫کی طرف میالن ہوجائے گا؛کیونکہ جس چیز کی حقیقت پر مطل ع نہ ہوس کتے ہ وں‬
‫‪،‬اس کے اندر غالب رائے یقین کا درجہ رکھتی ہے“۔‬
‫امام کاسانی‪  ‬لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫إنما یحل النظر إلی مواضع الزینة الظاہرة منہا من غیر شہوة فأما عن شہوة فال یحل لقولہ علیہ الصالة‬
‫ان(‪ )۵۲‬ولیس زنا العینین إال النظ''ر عن ش''ہوة وألن النظ''ر عن ش''ہوة س''بب الوق''وع فی‬ ‫والسالم اَ ْل َع ْینَا ِن ت َْزنِیَ ِ‬
‫الحرام فیکون حراما إال فی حالة الضرورة(‪)۵۳‬‬
‫”بے ش ک زینت ظ اہرہ کی جگہوں کی ط رف نظ ر اس وقت حالل ہے جب وہ‬
‫بغ یر شہوت کے ہو اور اگ ر وہ نظ ر شہوت سے ہو ت و پھ ر حالل نہ ہ وگی ‪،‬اس کی‬
‫دلیل یہ ہے کہ نبی کریم‪  ‬صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪” :‬آنکھیں زنا کرتی ہیں“اور‬
‫آنکھوں کا زناشہوت والی نظرسے ہوتا ہے ۔اور شہوت بھ ری نظ ر ح رام میں واق ع‬
‫ہونے کاسبب ہے‪ ،‬ل ٰہذا وہ حرام ہوگی سوائے مجبوری کی حالت میں ۔‬
‫‪-۲‬نبی کریم‪  ‬صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫اسن ا ْم َرأَة أَجْ نَبِیَّة عَن َش ْہ َوة صُبَّ فِی َع ْینَ ْی ِہ اآلنک یَوْ َم القِیَا َم ِة(‪)۵۴‬‬
‫من نَظ َر إِلَی م َح ِ‬
‫”جس شخص نے شہوت کے ساتھ کسی اجنبی عورت کے محاس ن کی ط رف‬
‫نظرکی تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ ڈاال جائے گا“۔‬
‫مذکورہ باال دالئ ل کی بن اء پ ر حنفیہ کے نزدی ک فتنہ اورشہوت ک اخوف نہ ہونے‬
‫کی صورت میں عورت کے چہرہ کی طرف نظ ر کی جاس کتی ہے ۔اور اگ ر فتنہ ک ا‬
‫اندیشہ ہو ت و پھ ر ع ورت ک ا چہرہ دیکھن ا من ع ہوگ ا اس ل یے کہ ع ورت کی اص ل‬
‫خوبصورتی تو اس کے چہرہ میں ہوتی ہے ۔‬
‫امام سرخسی‪ ‬لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وألن حرمة النظر لخوف الفتنة وعامة محاسنہا فی وجہہا فخوف' الفتن''ة فی النظ''ر إلی وجہہ''ا أک''ثر منہ‬
‫إلی سائر األعضاء(‪)۵۵‬‬
‫”اوربے شک دیکھنے کی حرمت فتنہ کے خوف کی وجہ سے ہے اور ع ورت کے‬
‫اکثر محاسن اس کے چہرے ہی میں ہوتے ہیں؛اس لیے دوس رے اعض اء کی ط رف‬
‫دیکھنے کے مقابلے میں چہرہ کی طرف دیکھنے میں فتنہ کا خوف زیادہ ہے “۔‬
‫اور اگر فتنہ کاخوف نہیں ہے تو پھر عورت کی طرف دیکھنا بھی حرام نہیں ہے؛‬
‫مگر چونکہ اس زمانے میں بے راہ روی اور عریانی وفحاشی کاسیالب نہ ایت ت یزی‬
‫کے ساتھ بڑھتاجارہاہے اور اس شرط ک ا فی زم انہ پای ا جان ا مش کل ہے؛ اس ل یے‬
‫متاخرین حنفیہ(‪)۵۶‬نے مطلقا ً عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے سے منع کیاہے ۔‬
‫عالمہ حصکفی‪ ‬لکھتے ہیں‪:‬‬
‫فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا فحل النظر مقید بعدم الشہوة وإال فحرام' وہذا فی زمانہم‬
‫وأما فی زماننا' فمنع من الشابة قہستانی' وغیرہ إال النظر لحاجة کقاض وشاہد' یحکم ویشہد علیہا(‪)۵۷‬‬
‫”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے‬
‫چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے ۔پس نظ ر ک احالل ہو ن ا مقی د ہے شہوت نہ ہونے‬
‫کے س اتھ وگ رنہ ح رام ہے۔ یہ حکم ان پہلے فقہاء کے زم انے ک ا ہے۔اور جہ اں ت ک‬
‫ہمارے اس دور کاتعلق ہے‪،‬اس میں تو نوجوان عورت کی طرف نظ ر کرن ا ممن وع‬
‫قرار دیاگیاہے ۔قہستانی وغیرہ؛البتہ ضرورت کے وقت‪ ،‬دیکھن ا ج ائز ہے‪ ،‬مثال قاض ی‬
‫کا فیصلہ سناتے وقت دیکھنایا گواہ کا عورت کے خالف گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔‬
‫مذکورہ باال بحث سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثالثہ کے نزدیک مرد کے لیے ع ورت کی‬
‫طرف بالضرورت دیکھنانا جائز نہیں‪،‬اور متقدمین حنفیہ کے نزدیک فتنہ سے م امون‬
‫ہونے کی صورت میں مرد کے لیے عورت کی ط رف دیکھن ا ج ائز ہے؛ مگ ر چ ونکہ‬
‫اب وہ حاالت نہیں رہے ‪،‬عری انی اورفحاش ی بڑھ تی ج ارہی ہے؛ اس ل یے مت اخرین‬
‫حنفیہ کے نزدیک بالضرورت مر د کا اجن بی ع ورت کی ط رف دیکھناج ائز نہیں ہے؛‬
‫چنانچہ اب یہ کہ ا جاسکتاہے کہ اب جمہور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ م رد کے‬
‫لیے بالضرورت عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے ۔‬
‫‪$$$‬‬

‫حواشی وحوالہ جات‪:‬‬


‫(‪  )۱‬القرآن‪ ،‬النو‪۳۰:‬۔‬
‫(‪)۲‬القرآن‪ ،‬النور‪۳۱‬۔‬
‫(‪)۳‬القرآن‪،‬آل عمران‪۱۴:‬۔‬
‫(‪)۴‬البخاری ‪،‬محمد بن اسماعیل ا‪ ،‬الجامع الصحیح ‪،‬ب یروت ‪،‬دار ابن کث یر الیم امہ ‪،‬‬
‫‪۱۴۰۷‬ھ‪ ،‬جلد‪ ، ۵‬صفحہ‪۲۳۰۴‬۔‬
‫(‪)۵‬مسلم بن حجاج‪،‬امام ‪،‬الصحیح ‪،‬بیروت ‪،‬داراحی اء ال تراث الع ربی‪ ،‬جلد‪،۴‬ص فحہ‬
‫‪۱۷۰۴۲۳۰۴‬۔‬
‫(‪)۶‬المنذری‪،‬عبدالعظیم‪،‬ال ترغیب وال ترھیب‪،‬ب یروت ‪،‬دارالکتب العلمیہ‪۱۴۱۷،‬ھ ‪،‬جلد‬
‫‪،۳‬صفحہ‪۱۵۳‬۔‬
‫(‪)۷‬ابن قیم الجوزیہ‪،‬الجواب الک افی لمن س ال عن ال دواء الش افی‪،‬دارالمع رفت‪،‬‬
‫‪۱۴۱۸‬ھ‪،‬جلد‪،۱‬صفحہ‪۱۵۴-۱۵۳‬۔‬
‫(‪)۸‬عب داللہ بن محم ود الموص لی الحنفی ‪،‬االختی ار لتعلی ل المخت ار‪،‬ق اہرہ‪،‬مطبعہ‬
‫الحلبی‪۱۳۵۶،‬ھ‪،‬جلد‪،۴‬صفحہ‪۱۵۴‬۔‬
‫‪      ‬الغ زالی‪،‬محم د بن محم د‪،‬ابوحام د‪،‬الوس یط فی الم ذھب‪،‬ق اہرہ‪ ،‬دارالس الم‪،‬‬
‫‪۱۴۱۷‬ھ‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‪۲۹‬۔‬
‫(‪)۹‬ش امی ابن عاب دین ‪،‬محم دامین ‪،‬رد المحت ار(حاش یہ ابن عاب دین)ب یروت‬
‫‪،‬دارلفکرللطباعةوالنشر‪،‬جلد‪،۶‬صفحہ‪۳۷۱‬۔‬
‫ط البرہانی فی الفقہ‬ ‫د‪،‬المحی‬ ‫ود بن احم‬ ‫دین محم‬ ‫(‪)۱۰‬برہان ال‬
‫النعمانی‪،‬بیروت‪،‬دارلکتب العلمیہ‪۱۴۲۴،‬ھ‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‪ ،۳۳۲-۳۳۱‬ابن ق دامہ ‪،‬عب داللہ بن‬
‫احمد‪،‬المغنی‪،‬مکتبة الق اہرہ‪۱۳۸۸،‬ھ‪،‬جلد‪،۷‬ص فحہ‪ ،۱۰۰-۹۸‬الخطیب الش ربینی‪،‬محم دبن‬
‫احم د الش افعی‪ ،‬مغ نی المحت اج الی معرف ة مع انی الف اظ المنہ اج‪،‬ب یروت‪،‬دارالکتب‬
‫العلمیہ‪۱۴۱۵ ،‬ھ‪ ،‬جلد‪،۴‬صفحہ‪۲۱۴،۲۱۷‬۔الغ زالی‪،‬الوس یط فی الم ذھب‪،‬جلد‪،۵‬ص فحہ‪-۳۱‬‬
‫‪ ،۳۲‬ابن جزی کلبی‪،‬محمد بن احمد‪،‬القوانین الفقیہ‪،‬ناشر نامعلوم‪،‬س ن‪،‬جلداول‪،‬ص فحہ‬
‫‪ ،۲۹۴‬محم دبن محمدالطرابلس ی‪،‬الم الکی‪،‬م واھب الجلی ل فی ش رح مختص ر‬
‫خلیل‪،‬بیروت‪،‬دارالفکر‪۱۴۱۲،‬ھ‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪۴۰۶‬۔‬
‫(‪)۱۱‬الکاسانی ‪،‬عالو الدین ‪،‬البدائع والصنائع فی ترتیب الشرائع‪،‬ب یروت ‪،‬دارالکت اب‬
‫فحہ‪،۹۶‬‬ ‫نی‪،‬جلد‪،۷‬ص‬ ‫دامہ‪،‬المغ‬ ‫فحہ‪ ،۱۲۲‬ابن ق‬ ‫ربی‪،/۱۹۸۲،‬جلد‪،۵‬ص‬ ‫الع‬
‫الطرابلس ی‪،‬الم الکی‪،‬م واھب الجلی ل فی ش رح مختص ر خلی ل‪،‬جلد‪،۳‬ص فحہ‪،۴۰۵‬‬
‫الش یرازی‪ ،‬اب راہیم بن علی‪ ،‬اب و اس حاق ‪،‬المہذب فی فقہ االم ام الش افعی ‪،‬ب یروت‬
‫‪،‬دارالکتب العلمیہ ‪،‬س ن ‪،‬جلد‪،۲‬صفحہ‪۴۲۴‬۔‬
‫(‪)۱۲‬لنووی ‪،‬شرح صحیح مسلم ‪،‬جلد‪،۹‬صفحہ‪۲۱۰‬۔‬
‫(‪)۱۳‬رازی‪،‬محم د بن عم ر بن حس ین ‪،‬اب و عب داللہ ‪،‬تفس یر الفخرال رازی ‪،‬ب یروت‬
‫‪،‬داراحی اء ال تراث الع ربی ‪۱۴۲۰،‬ھ‪،‬جلد‪،۲۳‬ص فحہ‪ ،۳۶۲‬الطرابلس ی‪،‬الم الکی‪،‬م واھب‬
‫الجلیل فی شرح مختصر خلیل‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪ ،۴۰۵‬حصکفی ‪،‬عالوالدین ‪،‬درمختار ‪،‬بیروت‪،‬‬
‫دارالفکر‪۱۳۸۶ ،‬ھ‪،‬جلد‪،۶‬صفحہ‪ ،۳۷۰‬ابن قدامہ‪،‬المغنی‪،‬جلد‪،۷‬صفحہ‪۱۰۱‬۔‬
‫(‪)۱۴‬حصکفی‪،‬الدرالمختار‪،‬جلد‪،۶‬صفحہ‪،۳۷۰‬الطرابلسی‪،‬المالکی‪،‬مواھب الجلیل فی‬
‫شرح مختصر خلیل‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪ ،۴۰۵‬الش یرازی‪ ،‬اب و اس حاق ‪ ،‬المھ ذب ‪،‬جلد‪،۲‬ص فحہ‬
‫‪،۴۲۵‬ابن قدامہ‪،‬المغنی‪،‬جلد‪،۷‬صفحہ‪۱۰۱‬۔‬
‫(‪)۱۵‬رازی ‪،‬تفسیر الفخرالرازی ‪،،‬جلد‪،۲۳‬صفحہ‪۳۶۲‬۔‬
‫(‪)۱۶‬الکاسانی‪،‬البدائع والصنائع ‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‪۱۲۲‬۔‬
‫(‪)۱۷‬النووی ‪،‬شرح صحیح مسلم ‪،‬جلد‪،۹‬صفحہ‪۲۱۰‬۔‬
‫(‪)۱۸‬درویش مصطفی حس ن‪،‬فص ل الخط اب فی مس ئلة الحج اب والنق اب‪،‬ق اہرہ‬
‫‪،‬داراالعتصام‪،‬س ن‪،‬صفحہ ‪۷۳‬۔‬
‫(‪)۱۹‬ایضا ‪،‬صفحہ ‪۷۳‬۔‬
‫(‪)۲۰‬شامی‪،‬ردالمحتارعلی الدرالمختار‪،‬جلد‪،۱‬صفحہ‪۴۰۷‬۔‬
‫(‪)۲۱‬شامی‪،‬ردالمحتارعلی الدرالمختار‪،‬جلد‪،۱‬صفحہ‪۴۰۶‬۔‬
‫(‪)۲۲‬شامی‪،‬ردالمحتارعلی الدرالمختار‪،‬جلد‪،۱‬صفحہ‪۴۰۷‬۔‬
‫(‪)۲۳‬ابن رشد الجد‪،‬محمدبن احمد‪،‬المقدمات المھدات‪،‬بیروت ‪،‬دارالغرب االسالمی‪،‬‬
‫‪۱۴۰۸‬ھ‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪۴۶۰‬۔‬
‫(‪)۲۴‬ابن ع ربی‪،‬محم دبن عب داللہ ‪،‬احک ام الق رآن‪،‬ب یروت‪،‬دارالکتب العلمیہ‪،‬‬
‫‪۱۴۲۴‬ھ‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪۳۸۰‬۔‬
‫(‪)۲۵‬الشیرازی‪،‬ابو اسحاق ‪،‬المھذب ‪،‬جلد‪،۲‬صفحہ‪۴۲۵‬۔‬
‫(‪)۲۶‬الغزالی‪،‬الوسیط فی المذھب‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‪۳۲‬۔‬
‫(‪)۲۷‬ابن قدامہ‪،‬المغنی‪،‬جلد‪،۷‬صفحہ‪۱۰۲‬۔‬
‫(‪)۲۸‬الق رآن ‪،‬الن ور‪ ،۳۰:‬الش یرازی‪،‬اب و اس حاق ‪،‬المھ ذب ‪،‬جلد‪،۲‬ص فحہ‪ ،۴۲۵‬ابن‬
‫عربی‪،‬احکام القرآن ‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪ ،۳۷۹‬ابن رشد‪،‬البیان والتحصیل‪،‬جلد‪،۱۸‬صفحہ‪۵۵۹‬۔‬
‫(‪)۲۹‬الش افعی‪،‬محم د بن ادریس ‪،‬تفس یر االم ام الش افعی‪،‬المملک ة الع ربیہ‬
‫السعودیہ‪،‬دارالتدمریة‪۱۴۲۷،‬ھ‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪۱۱۳۷‬۔‬
‫(‪)۳۰‬القرآن‪،‬االحزاب‪:‬‬
‫‪      ‬ابن ق دامہ‪،‬عب داللہ بن احم د‪،‬اب و محم د‪،‬المغ نی‪،‬مکتب ة الق اہرہ‪۱۳۸۸ ،‬ھ‪،‬جلد‬
‫‪،۷‬صفحہ‪۱۰۲‬۔‬
‫(‪)۳۱‬القرطبی‪،‬محمد بن احمد بن ابی بک ر‪،‬الج امع الحک ام الق رآن‪،‬ق اہرہ‪،‬دارالکتب‬
‫المصریہ‪۱۳۸۴،‬ھ‪،‬جلد‪،۱۴‬صفحہ‪۲۲۷‬۔‬
‫(‪)۳۲‬ابن عربی‪،‬احکام القرآن‪ ،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪۳۸۰‬؛ مسلم ‪،‬الصحیح‪،‬جلد‪،۴‬صفحہ‪۲۰۴۷‬۔‬
‫(‪)۳۳‬ابن قدامہ‪،‬المغنی‪ ،‬جلد‪،۷‬صفحہ‪۱۰۲‬؛ ابن عربی‪،‬احکام القرآن‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪۳۸۰‬؛‬
‫ابوداؤد‪،‬جلد‪،۲‬صفحہ‪۲۴۶‬؛ ابن ابی شیبہ‪ ،‬عبداللہ بن محمد‪،‬الکتاب المصنف فی االحادیث‬
‫واآلثار‪،‬ریاض‪،‬مکتبة الرشید‪۱۴۰۹،‬ھ‪،‬جلد‪،۶‬صفحہ‪۳۶۷‬۔‬
‫(‪)۳۴‬الش یرازی‪،‬اب و اس حاق ‪،‬المھ ذب ‪،‬جلد‪،۲‬ص فحہ‪۴۲۵‬؛ ابن رش د‪،‬البی ان‬
‫والتحصیل‪،‬جلد‪،۱۸‬صفحہ‪۵۵۹‬؛ ابن قدامہ‪ ،‬المغنی‪ ،‬جلد‪،۷‬صفحہ‪۱۰۲‬؛ الترمذی ‪،‬ابوعیس ی‬
‫محمد بن عیسی‪،‬السنن‪،‬مصر‪،‬مطبع مصطفی البابی الحلبی‪۱۳۹۵،‬ھ‪ ،‬جلد‪،۳‬ص فحہ‪۲۲۳‬؛‬
‫احمد بن حنبل‪ ،‬المسند‪،‬بیروت‪،‬موسسہ الرسالة‪۱۴۲۱،‬ھ‪،‬جلد‪،۲‬صفحہ‪۶‬۔‬
‫(‪)۳۵‬ابن قدامہ‪،‬المغنی‪،‬جلد‪،۷‬صفحہ‪۱۰۲‬؛ مسلم‪ ،‬جلد‪ ،۳‬صفحہ‪۱۶۹۹‬۔‬
‫(‪)۳۶‬اب و داؤد‪،‬السجس تانی ‪،‬س لیمان بن اش عث ‪،‬ب یروت‪ ،‬المکتبہ العص ریہ ‪،‬جلد‬
‫‪،۲‬صفحہ‪۲۲۸‬۔‬
‫‪       ‬ابن ماجہ ‪،‬محمد بن یزید ‪،‬دار احیاء الکتب العربیہ ‪،‬جلد‪،۱‬صفحہ‪۶۰۰‬۔‬
‫(‪)۳۷‬ابن قدامہ‪،‬المغنی‪،‬جلد‪،۷‬صفحہ‪۱۰۲‬۔‬
‫(‪)۳۸‬الوسیط فی المذھب‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‪۳۲‬۔‬
‫(‪)۳۹‬مف تی ص احب‪  ‬ک ا ”س ائراالحکام“ لکھن ا ”تس امح“ہے؛ اس ل یے کہ خل وت‬
‫صحیحہ تمام احکام میں وطی کے قائم مق ام نہیں ہے؛بلکہ بعض احک ا م میں ہے جس‬
‫کی تفصیل آگے آرہی ہے۔‬
‫(‪)۴۰‬مفتی محمدشفیع دیوبندی ‪،‬احکام القرآن‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪۴۶۸‬۔‬
‫(‪)۴۱‬خل وت ص حیحہ سے مرادنک اح کے بع د م رد وع ورت کی ایس ی تنہ ائی کی‬
‫مالقات ہے‪ ،‬جہاں پر وطی سے کوئی حسی ‪،‬شرعی اور طبعی مانع نہ ہو‪ ،‬حس ی سے‬
‫مراد وہاں پر کوئی اور ان کے عالوہ موجود نہ ہواور شرعی سے مراد عور ت م اہواری‬
‫کے ایام میں نہ ہو یا ف رض روزہ نہ رکھ ا ہو ‪،‬اور طبعی سے م راد مردوع ورت دون وں‬
‫میں سے کسی کو ایسی بیماری نہ ہو ج و وطی ک رنے سے م انع ہوی ا ض رر کااندیشہ‬
‫ہ و‪،‬جس خلوت میں یہ رکاوٹیں موجود نہ ہوں‪ ،‬وہ خلوت صحیحہ کہالتی ہے ۔ فتاوی ہندیہ‬
‫المعروف ع المگیریہ میں یہی تعری ف کی گ ئی ہے‪ :‬والخل وة الص حیحة أن یجتمع ا فی‬
‫مک ان لیس ہن اک م انع یمنعہ من ال وطء حس ا أو ش رعا أو طبع ا (فت اوی ہن دیہ‬
‫‪،‬بیروت‪،‬دارالفکر‪۱۴۱۱،‬ھ‪،‬جلداول ‪،‬صفحہ‪)۳۰۴‬‬
‫(‪)۴۲‬ایسی خلوت صحیحہ جس میں مرد نے عورت سے وطی نہ کی تو اس عورت‬
‫پر بعض احکام وہ الگو ہونگے جو ایسی عورت پر الگوہوتے ہیں جس کے س اتھ خل وت‬
‫صحیحہ میں وطی ہوچکی ہو ‪،‬فت اوی ہن دیہ میں ہے‪ :‬وأص حابناأقاموا الخل وة الص حیحة‬
‫مق ام ال وطء فی ح ق بعض االحک ام دون البعض فاقاموہا مق امہ فی ح ق تاک د المہ ر‬
‫وثبوت النسب والعدة والنفقة والس کنی فی ہذہ الع دة وحرم ة نک اح اختہاواربع س واہا‬
‫(جلداول ‪،‬صفحہ‪)۳۰۶‬ہمارے اصحاب‪  ‬نے کہا خلوت ص حیحہ (جس میں وطی نہ ہ وئی‬
‫ہو )بعض احکام میں وطی کے قائم مق ام ہے اور بعض میں نہیں ہے ۔پس وہ وطی کے‬
‫ق ائم مق ام ہے مہرکے الزم ہونے میں ‪،‬ثب وت نس ب میں ‪،‬اور ع دت میں ‪،‬اور دوران‬
‫ع دت نفقہ اور س کنی کی مس تحق ہونے میں ‪،‬اور ع دت کے دوران اس کی بہن سے‬
‫نکاح کے حرام ہ ونے میں ‪،‬اور اس کی عدت میں مزید چار عورتوں کے ساتھ نکاح کی‬
‫ح رمت میں۔ اور خل وت ص حیحہ بعض احک ام میں وطی کے ق ائم مق ام نہیں ہے۔ مثال‬
‫وطی کے بعد غسل فرض ہوتاہے؛ مگر ایسی خلوت جس میں وطی نہ ہو اس کے بع د‬
‫غسل فرض نہیں ہوگا ‪،‬اور ایسی خلوت کے بع د اگ ر طالق ہوگ ئی ت و وہ زوج اول کے‬
‫لیے حال ل نہیں ہوگی ‪،‬مرد یا عورت محصن نہ ہونگے‪،‬رجعت کا حق نہ ہوگ ا ‪،‬وغ یرہ اور‬
‫بھی مسائل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔(فتاوی ہندیہ ‪،‬جلداول ‪،‬صفحہ ‪) ۳۰۶‬حاالنکہ‬
‫جب اس ع ورت کے س اتھ وطی نہیں کی گ ئی ت و اس پ ر یہ احک ام الگ و نہیں ہونے‬
‫چاہئیں؛ مگر فقہاء نے خلوت صحیحہ کو وطی کے قائم مقام کرکے وہی احک ام ج اری‬
‫کیے ہیں ۔ائمہ ثالثہ کہتے ہیں اسی ط رح ب دنظری چ ونکہ ع ورت کی ط رف میالن اور‬
‫وقوع فتنہ کا سبب ہے؛ اس لیے یہ فتنہ کے قائم مقام ہے اورحرام ہے ۔‬
‫(‪)۴۳‬الجصاص‪،‬ابو بکر‪،‬احکام القرآن‪،‬بیروت‪،‬دارالکتب العلمیہ ‪۱۴۱۵،‬ھ ‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‬
‫‪۱۷۳‬۔‬
‫(‪)۴۴‬کاسانی‪،‬بدائع الصنائع ‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‪۱۲۲‬۔‬
‫(‪) ۴۵‬المرغینانی ‪،‬علی بن ابی بکر ‪ ،‬الہدایہ فی شرح بدایة المبتدی‪،‬بیروت‪،‬داراحی اء‬
‫التراث العربی‪،‬س ن ‪،‬جلد‪،۴‬صفحہ‪۳۶۸‬۔‬
‫(‪)۴۶‬القرآن‪،‬النور‪۳۰:‬۔‬
‫(‪)۴۷‬القرآن‪ ،‬النور‪۳۱:‬۔‬
‫(‪)۴۸‬الطبری ‪،‬محمد بن جریر ‪،‬ج امع البی ان فی تاوی ل الق رآن‪،‬ھ‪،‬ب یروت‪،‬موسس ة‬
‫الرسالہ‪۱۴۲۰،‬ھ‪،‬جلد‪،۱۹‬صفحہ‪۱۵۶‬۔‬
‫(‪)۴۹‬ابن ابی شیبہ‪،‬ا المصنف ‪،‬جلد‪،۳‬صفحہ‪۵۴۶‬۔‬
‫(‪)۵۰‬کاسانی‪،‬بدائع الصنائع ‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‪۱۲۲ ،۱۲۱‬۔‬
‫(‪)۵۱‬السرخسی ‪،‬محمد بن ابی سھل ‪،‬المبسوط‪،‬بیروت ‪،‬دارالمع رفت‪۱۴۱۴،‬ھ ‪،‬جلد‬
‫‪،۱۰‬صفحہ‪۱۵۳‬۔‬
‫(‪)۵۲‬ابو بکراحمد بن عمروالبزار‪،‬مس ند البزارالمنش ور باس م البحرالزخ ار‪،‬المدین ة‬
‫المنورة ‪،‬المکتبة العلوم والحکم‪ ،/۱۹۸۸،‬جلد‪ ،۵‬صفحہ‪۳۳۲‬۔‬
‫(‪)۵۳‬کاسانی‪،‬بدائع الصنائع ‪،‬جلد‪،۵‬صفحہ‪۱۲۲‬۔‬
‫(‪)۵۴‬السرخس ی ‪،‬المبس وط‪،‬جلد‪،۱۰‬ص فحہ‪۱۵۳‬؛ المرغین انی ‪،‬الہدایہ ‪،‬جلد‪،۴‬ص فحہ‬
‫‪۳۶۸‬۔‬
‫(‪)۵۵‬السرخسی ‪، ،‬المبسوط‪،‬جلد‪،۱۰‬صفحہ‪۱۵۲‬۔‬
‫(‪)۵۶‬متق دمین سے م راد وہ حض رات ہیں جنہوں نے ام ام ابوح نیفہ‪ ، ‬ام ام‬
‫ابویوسف‪ ‬اور امام محمد‪ ‬کا زم انہ پای ا ‪،‬اور ان سے فیض حاص ل کی ا اورجنہوں نے‬
‫ان ائمہ ثالثہ ک ا زم انہ نہیں پای ا وہ مت اخرین کہالتے ہیں ۔عالمہ ذہ بی‪  ‬نے م یزان میں‬
‫‪،‬متقدمین اورمتاخرین کے درمی ان حدفاص ل تیس ری ص دی ک ا ش روع ق رار دی ا ہے ۔‬
‫تیسری صدی ہجری سے پہلے تک کہ علماء متقدمین اور تیس ری ص دی کے آغ از سے‬
‫مت اخرین کہالتے ہیں ۔(مش تاق علی ش اہ‪،‬تع ارف فقہ‪،‬گوجران والہ‪،‬مکتبہ حنفیہ‪،‬س ن‬
‫‪،‬صفحہ‪)۶۳‬‬
‫(‪)۵۷‬حصکفی‪،‬الدرالمختار‪،‬جلد‪،۶‬صفحہ‪۳۷۰‬۔‬

You might also like