You are on page 1of 10

‫کیا نماز باجماعت میں ٹخنے ملنا ضروری ہے‬

‫مولنا محمد عبدالمعبود‬


‫حضور انور صلی ال علیہ وسلم نے نماز باجماعت میں صفوں کی درستگی پر خصوصی توجہ‬
‫فرمائی ہے اور صفوں کو سیدھا اور درست رکھنے کو ”حسن صلوة“ اور ”اتمام صل ٰوة“ قراردیا‬
‫ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ‪ ‬سے روایت ہے‪ :‬رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے ارشاد‬
‫فرمایا‪”:‬اقیموا الصف فی الصلة‪ ،‬فان اقامة الصف من حسن الصلة“․ )صحیح بخاری‪(100/1:‬‬

‫ترجمہ‪ :‬نماز میں صف کو درست کرو‪ ،‬اس لیے کہ صف درست کرنا نماز کی خوبی کا ایک جز‬
‫ہے۔““‬

‫سیدنا حضرت انس‪ ‬سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا‪”:‬سووا صفوفکم‪،‬‬
‫فان تسویة الصف من تمام الصلة․“ )صحیح مسلم‪(182/1:‬‬

‫ترجمہ‪ ” :‬تم لوگ اپنی صفیں درست رکھا کرو‪ ،‬کیوں کہ صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔““‬

‫سیدنا حضرت جابر‪ ‬سے روایت ہے‪”:‬قال رسول ال صلی ال علیہ وسلم‪ :‬ان من تمام الصلة اقامة‬
‫الصف“․ )مسند امام احمد‪ 322/3:‬طبرانی کبیر‪(198/2:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪ :‬بے شک نماز کی تکمیل صفوں کی درستی‬
‫ہوتی ہے۔““‬

‫سیدنا حضرت انس‪ ‬سے روایت ہے‪ ”:‬قال رسول ال صلی ال علیہ وسلم‪ :‬اتموا صفوفکم‪ ،‬فإن‬
‫تسویة الصف من تمام الصلة․“ )صحیح ابن حبان‪ :‬حدیث‪(2168:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬صفیں درست کرو‪ ،‬کیوں کہ صفوں کا برابر کرنا‬
‫نماز کی تکمیل کا جز ہے۔““‬

‫سنت کے مطابق صفوں کو درست کرنے کی صحیح صورت یہ ہے کہ نمازی ایک دوسرے سے اس‬
‫طرح مل کر کھڑے ہوں کہ درمیان میں جگہ خالی نہ رہے اور صف ایسی سیدھی ہو کہ کوئی آدمی‬
‫آگے یا پیچھے نکل ہوا نہ ہو ‪ ،‬محدثین عظام ‪ ،‬فقہائے کرام او رجمہور امت نے صفوں کی درستی کا‬
‫یہی معنی مراد لیا ہے ۔ لیکن غیر مقلدین اور سلفی حضرات کا خیال یہ ہے کہ نماز میں نمازی کا‬
‫ٹخنا اور قدم دوسرے نمازی کے ٹخنے اور قدم سے ملنا سنت اور ضروری ہے اور وہ لوگ‬
‫ن طعن دراز کرتے ہیں او رانہیں مخالفین سنت قرار دیتے ہیں ‪ ،‬لہٰذا اس‬
‫ایسانہ کرنے والوں پر زبا ِ‬
‫عمل کی وضاحت اور صراحت کے لیے احادیث نبوی سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور‬
‫محدثین اور فقہائے کرام کی تشریحات کو بھی ملحوظ رکھاجائے گا ۔‬

‫رسول ال صلی ال علیہ وسلم سے نماز میں صفوں کی درستگی کے سلسلہ میں کئی روایات مروی‬
‫ہیں لیکن رسول ال صلی ال علیہ وسلم کے کسی بھی ارشاد یا آپ کے عمل سے ٹخنے سے ٹخنا‬
‫ملنا اور قدم سے قدم ملنا ثابت نہیں ہے ‪ ،‬اسی طرح حضرات خلفائے راشدین‪ ‬بھی اپنے اپنے‬
‫زمانہٴ خلفت میں صف بندی کا اہتمام تو فرماتے رہے‪ ،‬لیکن ان سے بھی ٹخنے سے ٹخنا ملنا‬
‫ل۔ اس کے شواہد مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫ل ثابت ہے‪ ،‬نہ ہی فع ً‬
‫اور قدم سے قدم ملنا نہ قو ً‬

‫” عن النعمان بن بشیر قال‪ :‬کان رسول ال صلی ال علیہ وسلم یسوی صفوفنا حتی کانما یسوی بھا‬
‫القداح‪ ،‬حتی رأی انا قد عقلنا عنہ‪ ،‬ثم خرج یومًا‪ ،‬فقام حتی کاد ان یکبرفرأی رجل بادیا صدرہ من‬
‫الصف‪ ،‬فقال‪ :‬عباد ال‪ ،‬لتسون صفوفکم‪ ،‬او لیخالفن ال بین وجوھکم ۔““ ) صحیح مسلم‪(182/1:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬حضرت نعمان بن بشیر‪ ‬سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم ہماری صفوں‬
‫کو اس قدر سیدھا اور برابر کرتے تھے‪ ،‬گویا ان کے ذریعہ آپ تیروں کوسیدھا کریں گے ‪ ،‬یہاں تک‬
‫کہ آپ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں کس طرح سیدھا اور کھڑا ہونا چاہی ے ۔‬
‫اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپ صلی ال علیہ وسلم باہر تشریف لئے اور نماز پڑھانے کے لیے‬
‫اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہو گئے ‪ ،‬یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرما دیں‬
‫کہ آپ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی‪ ،‬جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکل ہوا تھا تو آپ صلی ال‬
‫علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬ال کے بندو! اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست رکھا کرو‪ ،‬ورنہ ال تعال ٰی‬
‫تمہارے رخ ایک دوسرے کے مخالف کر دے گا ۔““‬

‫اہل عرب شکار یا جنگ میں استعمال کے لیے جو تیر تیار کرتے تھے ان کو بالکل سیدھا اور برابر‬
‫کرنے کی بڑی کوشش کرتے تھے ‪ ،‬اس لیے کسی چیز کی برابری اور سیدھے پن کی تعریف میں‬
‫مبالغہ کے طور پر کہا جاتا تھا کہ یہ چیز اس قدر سیدھی ہے کہ اس کے ذریعہ تیروں کو سیدھا کیا‬
‫جاسکتاہے‪ ،‬یعنی جو تیروں کو سیدھا کرنے میں معیار اور پیمانہ کا کام دے سکتی ہے ۔‬

‫” عن ابن عمر‪ ‬ان رسول ال صلی ال علیہ وسلم قال‪ :‬اقیموا الصفوف‪ ،‬وحاذوا بین المناکب‪،‬‬
‫وسدوا الخلل‪ ،‬ولینوا بایدی اخوانکم‪ ،‬ولتذروا فرجات للشیطان‪ ،‬ومن وصل صفا وصلہ ال ومن قطع‬
‫صفا قطعہ ال․“ )سنن ابی داؤد‪(67/1:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬حضرت عبدال بن عمر‪ ‬سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے ارشاد‬
‫فرمایا‪ :‬صفیں قائم کرو‪ ،‬کندھے ایک دوسرے کی سیدھ میں کرو‪ ،‬خل کو ُپر کرو اور اپنے بھائیوں‬
‫کے ہاتھ میں نرم ہو جاؤ‪ ،‬شیطان کے لیے صفوں میں خالی جگہ نہ چھوڑو‪ ،‬جس نے صف کو ملیا‪،‬‬
‫ال اسے ملئیں گے اور جس نے صف کو کاٹا‪ ،‬ال اسے کاٹ دیں گ ے۔““‬

‫”قال رسول ال صلی ال علیہ وسلم‪ :‬من سد فرجة فی صف رفعہ ال بھادرجة‪ ،‬وبنی لہ بیتا فی الجنة․“‬
‫)مجمع الزوائد‪ ،204/2:‬مصنف ابن ابی شیبہ‪(416/1:‬‬

‫ترجمہ‪”:‬رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬جس شخص نے صف میں خالی جگہ ُپر کر دی‬
‫) یعنی ساتھ کھڑا ہو گیا( ال تعال ٰی اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا اور اس کے لیے جنت میں گھر‬
‫بنائے گا ۔““‬

‫”عن البراء بن عازب‪ ‬قال‪ :‬کان رسول ال صلی ال علیہ وسلم یتخلل الصف من ناحیة‪ ،‬یمسح‬
‫صدورنا ومناکبنا‪ ،‬ویقول‪ :‬لتختلفوا فتختلف قلوبکم‪ ،‬وکان یقول‪ :‬ان ال عزوجل وملئکتہ یصلون علی‬
‫لول․“ )سنن ابی داؤد‪(67/1:‬‬
‫الصفوف ا ُ‬

‫ترجمہ‪ :‬حضرت براء بن عازب‪ ‬سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم صف میں ایک‬
‫جانب سے دوسری جانب تشریف لے جاتے تھے اور صف کو برابر کرنے کے لیے ہمارے سینوں او‬
‫رکندھوں پر ہاتھ مبارک پھیرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ تم مختلف یعنی آگے پیچھے نہ ہونا‪،‬‬
‫ورنہ تمہارے دل باہم مختلف ہو جائیں گے ‪ ،‬نیز فرماتے تھے ‪ :‬ال تعال ٰی پہلی صفوں پر اپنی رحمت‬
‫نازل فرماتے ہیں اور فرشتے اگلی صف والوں کے لیے دعائے رحمت کرتے ہی ں۔““‬

‫یعنی اگر صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں تم بے پروائی اور کوتاہی کرو گے تو ال تعال ٰی اس‬
‫کی سزا میں تمہارے رخ ایک دوسرے سے مختلف کر دے گا ‪ ،‬تمہاری وحدت اور اجتماعیت پارہ‬
‫پارہ ہو جائے گی او رتم میں پھوٹ پڑ جائے گی ۔‬

‫”عن انس بن مالک عن رسول ال صلی ال علیہ وسلم قال‪ :‬رصوا صفوفکم‪ ،‬وقاربوا بینھا‪ ،‬وحاذوا‬
‫بالعناق‪ ،‬فوالذی نفسی بیدہ‪ ،‬انی لری الشیطان یدخل من خلل الصف‪ ،‬کانھا الحذف․“ ) سنن ابو‬
‫داود‪(67/1:‬‬

‫ترجمہ‪”:‬حضرت انس بن مالک‪‬رسول ال صلی ال علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی‬
‫ال علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬اپنی صفیں ملؤ اور انہیں نزدیک رکھو اور گردنوں کو برابر ایک سیدھ‬
‫میں رکھو‪ ،‬قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں شیطان کو دیکھتا‬
‫ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہ میں گھس آتا ہے ‪ ،‬گویا کہ بھیڑکا بچہ ہے ۔““‬

‫”عن ابن عباس قال‪ :‬قال رسول ال صلی ال علیہ وسلم‪:‬تراصوا الصفوف‪ ،‬فانی رایت الشیاطین‬
‫تخللکم‪ ،‬کانھا اولد الحذف․“ ) مجمع الزوائد‪(204/2:‬‬

‫ترجمہ‪ :‬حضرت ابن عباس‪ ‬سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬صفوں کو‬
‫ملؤ ) کوئی جگہ خالی نہ رہے (‪ ،‬میں دیکھتا ہوں کہ شیاطین خالی جگہ گھس رہے ہیں‪ ،‬گویا وہ‬
‫بھیڑ کے بچے ہی ں۔““‬

‫”وروی عن عمر انہ کان یؤکل رجل باقامة الصف‪ ،‬ولیکبر‪ ،‬حتی یخبر ان الصفوف قد استوت‪،‬‬
‫وروی عن علی وعثمان انھما کانا یتعاھدان ذلک‪ ،‬ویقولن‪ :‬استووا‪ ،‬وکان علی یقول‪ :‬تقدم یا فلن‪،‬‬
‫تاخر یا فلن․“ )جامع ترمذی‪(31/1:‬‬

‫ترجمہ‪ :‬سیدنا حضرت عمر‪ ‬کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے صفوں کی درستگی کے لیے ایک‬
‫شخص مقرر فرما رکھا تھا اور جب تک وہ شخص آپ کو صفیں درست ہو جانے کی اطلع نہیں‬
‫دیتا تھا‪ ،‬آپ تکبیر نہیں کہتے تھے ۔ حضرت علی ‪ ‬اور حضرت عثمان کے متعلق مروی ہے کہ‬
‫وہ بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ‪ :‬سیدھے اور برابر ہو جاؤ ۔ حضرت علی‬
‫‪ ‬فرماتے تھے کہ‪ :‬فلں! آگے ہو‪ ،‬اے فلں! پیچھے ہو ۔““‬

‫”عن مالک بن ابی عامر النصاری ان عثمان بن عفان کان یقول فی خطبتہ‪ :‬اذا قامت الصلة‪،‬‬
‫فاعدلوا الصفوف‪ ،‬وحاذوا بالمناکب․“ )موطا امام محمد‪(82:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬حضرت مالک بن ابی عامر انصاری‪ ‬سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان‪‬‬
‫اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے کہ ‪ :‬جب جماعت قائم ہو تو صفوں کو درست کرنا اورکندھوں‬
‫کو ایک سیدھ میں برابر کر لینا ۔““‬

‫”عن بلل قال‪ :‬کان النبی صلی ال علیہ وسلم یسوی مناکبنا فی الصلة․“ ) طبرانی صغیر‪،81/2:‬‬
‫مجمع الزوائد‪(2,3/2:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬حضرت بلل‪ ‬سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم نماز میں ہمارے کندھوں‬
‫کو بالکل برابر کرتے ت ھے۔““‬

‫علوہ ازیں حضرت نعمان بن بشیر‪ ‬کی روایت کے مطابق نمازی کا دوسرے نمازی کے ٹخنے‬
‫سے ٹخنا اور قدم سے قدم حقیقتًا ملنا ضروری نہیں ہے ‪ ،‬اس میں ظاہری معنی مراد ہی نہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫اس سے مقصود صفوں کو سیدھا کرنا اور درمیانی خل کو ُپر کرنا ہے ۔ جیسا کہ حضرات شارحین‬
‫او رمحدثین رحمہم ال نے صحیح بخاری شریف کے مذکورہ باب او رروایات کا یہی مقصد اور‬
‫مطلب بیان فرمایا ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلنی‪ ‬فرماتے ہیں‪” :‬المراد بذلک المبالغة فی تعدیل‬
‫الصف وسد خللہ․“ )فتح الباری‪(211/2:‬‬

‫ترجمہ‪ِ ”:‬الزاق‪ :‬سے مقصود تعدیل صف اور خلل ُپر کرنے کے لیے مبالغہ ہے ۔““‬

‫اس کی مزید وضاحت کے لیے علمہ عسقلنی اس روایت کو بطور استشہاد پیش فرماتے ہیں‪:‬‬
‫” عن عبدال بن عمر‪ ‬ان رسول ال صلی ال علیہ وسلم‪ :‬اقیموالصفوف‪ ،‬وحاذوا بین المناکب‪،‬‬
‫وسدوا الخلل‪ ،‬ولتذروا فرجات للشیطان‪ ،‬ومن وصل صفا وصلہ ال‪ ،‬ومن قطع صفا قطعہ ال․“ ) فتح‬
‫الباری‪ ،211:‬کتاب الذان(‬

‫ترجمہ‪ ”:‬حضرت عبدال بن عمر سے روایت ہے کہ ‪ :‬رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا ‪:‬‬
‫صفیں سیدھی کر واور کندھے ایک سیدھ میں رکھو اور خالی جگہ ُپر کرو اور شیاطین کے لیے‬
‫خالی جگہ نہ چھوڑو ‪ ،‬جو صف کو ملئے گا ال اسے اپنی رحمت سے ملئے گا اور جو صف کو‬
‫کاٹے کا ال اسے کاٹ پھینکے گا ۔““‬

‫علمہ قسطلنی‪ ‬نے ارشاد الساری ج‪ 268/2:‬میں بعینہ یہی عبارت نقل فرمائی ہے‪”:‬المراد بذلک‬
‫المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ․“‬

‫علمہ بدر الدین عینی‪ ‬فرماتے ہیں‪:‬‬

‫”واشار بھذا الی المبالغة فی تعدیل الصفوف وسد الخلل․“ ) عمدہ القاری‪(259/5:‬‬

‫خاتم المحدثین علمہ محمد انور شاہ کشمیری‪ ‬فرماتے ہیں‪:‬‬

‫قلت‪ :‬وھو مرادہ عند الفقھاء الربعة‪ ،‬ای لیترک فی البین فرجة تسع فیھا ثالثًا‪ ،‬وھذہ المسئلة اوجدھا‬
‫غیر المقلدین فقط․“ ) فیض الباری‪(236/2:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬میں کہتا ہوں کہ یہی فقہا اربعہ کے نزدیک مراد ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان اتنا خل نہ‬
‫چھوڑے کہ جس میں تیسرے آدمی کی گنجائش ہو اوراس مسئلہ کو یعنی ٹخنے ملنا صرف غیر‬
‫مقلدین نے جنم دیا ہے۔““‬

‫جو منفی سوچ او رنامناسب طرز عمل غیر مقلدین حضرات نے اپنایا ہے اور ٹخنے سے ٹخنا اور‬
‫قدم سے قدم ملنے کا ظاہری معنی مراد لیا ہے‪ ،‬اس میں تکلیف‪ ،‬تصنع‪ ،‬کلفت او رمشقت پائی جاتی‬
‫ہے‪ ،‬حالں کہ ال جل شانہ نے دین میں آسانی اور سہولت رکھی ہے ۔ جیسے کہ ارشاد خدا وندی ہے‪:‬‬
‫﴿وماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾․ )حج‪(78:‬‬

‫﴿لیکلف ال نفسًا الوسعھا﴾․ )بقرہ‪(233:‬‬

‫اگر مذکورہ روایت کے ظاہری الفاظ کو حقیقت پر محمول کرنا ہی ہے تو حضرت نعمان بن بشیر‬
‫‪ ‬کی اسی روایت میں ”ورکبتہ برکبة“ )ابوداؤد‪ (67/1:‬اور گھٹنے سے گھٹنا ملیا جائے“ کا‬
‫اضافہ بھی مذکور ہے‪ ،‬پھر گھٹنے سے گھٹنا ملنے کو بھی ضروری قرار دیں ۔ مولنا خلیل‬
‫احمد سہارنپوری ‪ ‬شارح سنن ابی داود تحریر فرماتے ہیں ‪” :‬فان الزاق الرکبة بالرکبة والکعب فی‬
‫الصلة مشکل․“ ) بذل المجہود‪(230/4:‬‬

‫ترجمہ‪” :‬نماز میں گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملنامشکل ہے۔““‬

‫علمہ ظفر احمد عثمانی قدس سرہ فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫”ولیخفی ان فی الزاق القدام مع الزاق المناکب بالمناکب مشقة عظیمة‪ ،‬لسیما مع ابقائھا کذلک آخر‬
‫الصلة‪ ،‬کما ھو مشاھد‪ ،‬والحرج مدفوع بالنص․“ )اعلء السنن‪(360/4:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬یہ بات ظاہر اور مشاہدہ کی ہے کہ گھٹنے سے گھٹنا ملنے کے ساتھ قدم سے قدم ملنا‬
‫میں بہت زیادہ مشقت ہے ‪ ،‬جب کہ اس کو اسی طرح نماز کے آخر تک باقی رکھنا ہو‪ ،‬جیسا کہ‬
‫مشاہدہ بھی ہے اور حرج نص سے مدفوع ہے یعنی زائل کیا گیا ہے۔““‬

‫مذکورہ روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنے سے یعنی ٹخنے سے ٹخنا‪ ،‬قدم سے قدم‪ ،‬گھٹنے‬
‫سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا ملنے سے نماز میں عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ‪ ،‬پاؤں‬
‫کے درمیان زیادہ فاصلہ سے طبعی وضع بدل جاتی ہے اور یہ کیفیت خشوع صلة کے منافی بھی‬
‫ہے ۔‬

‫محدث العصر حضرت مولنا محمدیوسف بنوری‪ ‬اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے‬
‫ہیں‪ ”:‬فزعمہ بعض الناس انہ علی الحقیقة‪ ،‬ولیس المر کذلک‪ ،‬بل المراد بذلک مبالغة الراوی فی‬
‫تعدیل الصف‪ ،‬وسدالخلل کما فی الفتح والعمدة وھذا یرد علی الذین یدعون العمل بالسنة‪ ،‬ویزعمون‬
‫التمسک بالحادیث فی بلدنا حیث یجتھدون فی الزاق کعابھم بکعاب القائمین فی الصف‪ ،‬ویفرجون‬
‫جد التفریج بین قدمیھم‪ ،‬ما یؤدی الی تکلف وتصنع‪ ،‬ویبدلون الوضاع الطبیعیة‪ ،‬ویشوھون الھیئة‬
‫ل وفرجة واسعة بین قدمیھم‬‫الملئمة للخشوع‪ ،‬وارادوا ان یسدوا الخلل والفرج بین المقتدین‪ ،‬فابقوا خل ً‬
‫ولم یدروا ان ھذا اقبح من ذلک․“ ) معارف السنن‪(297/2:‬‬

‫ترجمہ‪ ”:‬بعض لوگ یہ سمجھے ہیں کہ یہ روایت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے ‪ ،‬حالں کہ معاملہ‬
‫ایسا نہیں ہے‪ ،‬بلکہ اس سے مراد راوی کا صف درست کرنے اور خل پر کرنے میں مبالغہ ہے‪،‬‬
‫جیسا کہ فتح الباری اور عمدة القاری میں ہے ۔ اور یہ بات ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جو ہمارے‬
‫شہروں میں سنت پر عمل کے دعوے دار ہیں اور تمسک بالحادیث کا دم بھرتے ہیں ۔ وہ اپنے‬
‫ٹخنے صف میں کھڑے نمازی کے ٹخنوں کے ساتھ ملنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے دونوں‬
‫قدموں کے درمیان کشادگی کی وجہ سے بہت چوڑے ہو کر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں جو تکلف‬
‫وتصنع تک پہنچ جاتا ہے اور وہ لوگ طبعی وضع کو بدلتے ہیں او رمناسب خشوع و ہیئت کو بگاڑ‬
‫دیتے ہیں ‪ ،‬بظاہر وہ مقتدیوں کے درمیان خل ُپر کرنا چاہتے ہیں ‪ ،‬لیکن اپنے دونوں قدموں کے‬
‫درمیان اس سے بھی زیادہ خل اور فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں او رانہیں یہ خیال نہیں آتا یہ تو اس‬
‫سے بھی زیادہ قبیح عمل ہے۔““‬

‫غور طلب‬

‫یہ بات غور طلب ہے کہ غیر مقلدین نماز میں ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملنے کے بعد اپنے‬
‫دونوں قدموں کے درمیا ن جتنا وسیع او رکشادہ فاصلہ اختیار کرتے ہیں کیا اس کا ثبوت کسی حدیث‬
‫سے اور فرمان نبوی سے پیش کر سکتے ہیں ؟ دو نمازیوں کے درمیان تو شیطان کے لیے خالی‬
‫جگہ نہیں چھوڑتے لیکن اپنی ٹانگوں کے درمیان اسے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہی ں ۔ یاللعجب․‬

‫صحابہ کرام‪ ‬کے تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی دو پاؤں کے درمیان نہ تو زیادہ فاصلہ رکھے‬
‫اور نہ ہی مل کر کھڑا ہو ‪ ،‬یہ کیفیت تنہا نماز میں اور جماعت کی حالت میں بھی قرار رہتی تھی ۔‬

‫”وکان ابن عمر ل یفرج بین قدمیہ‪ ،‬ولیمس احداھما بالخری‪ ،‬ولکن بین ذلک‪ ،‬لیقارب ولیباعد․“‬
‫)المغنی‪ ،‬ابن قدامہ‪(698/1:‬‬

‫علمہ محمد انور شاہ کشمیری‪ ‬فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫” انا لم نجد الصحابة والتابعین یفرقون فی قیامھم بین الجماعة والنفراد‪ ،‬علمنا انہ لم یرد بقولہ الزاق‬
‫المنکب ال التراص وترک الفرجة“․ ) فیض الباری‪(237/2:‬‬

‫امام نسائی ‪ ‬کی روایت میں ہے‪:‬‬

‫”عن ابی عبیدہ‪ ‬عن عبدال‪ ‬انہ رأی رجل یصلی قد صف بین قدمیہ‪ ،‬فقال أخطأ السنة ولو‪ ،‬راوح‬
‫بینھما کان اعجب الي․“ ) سنن نسائی‪(90/1:‬‬

‫ترجمہ‪ ” :‬حضرت عبدال بن مسعود‪ ‬نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جس نے دونوں پاؤں‬
‫مل رکھے تھے ‪،‬انہوں نے فرمایا‪ :‬اس نے سنت کوپانے میں غلطی کی ہے‪ ،‬اگر یہ آدمی دونوں پاؤں‬
‫کے درمیان ”مراوحة“ کرتا تو مجھے زیادہ پسند ہوتا“ ۔‬

‫دوسری روایت میں ہے ‪ ” :‬لو راوح بینھما کان افضل“․‬

‫”مراوحة“ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‪:‬‬

‫دونوں پاؤں میں سے کبھی ایک پر کھڑا ہونا اور دوسرے پاؤں کو آرام دینا ۔‬
‫دوسرا معنی تھوڑی سی کشادگی اور تھوڑے سے فاصلہ کو بھی ”مراوحة“ کہا جاتا ہے ۔‬

‫اس روایت میں یہی دوسرا معنی مراد ہے‪ ،‬لہٰذا اس سے دونوں پاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ کرنا‬
‫ثابت ہوتا ہے ۔ )فیض الباری ‪(237/2:‬‬

‫یہی وجہ ہے کہ حضرت عبدال بن مسعود ‪ ‬نے اس نمازی کے دونوں قدم کے ملنے پر نکیر‬
‫وانکار پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ” مراوحة“ یعنی تھوڑے فاصلہ کا بھی ذکرفرمایا۔ علمہ سید محمد‬
‫یوسف بنوری‪ ‬فرماتے ہیں ‪” :‬ثم لم ینکر ابن مسعود الوصل فقط‪ ،‬بل عدم المراوحة‪ ،‬ولعل الغرض‬
‫ھو النکار علی المبالغة فی الزاق قدمہ بقدمہ‪ ،‬فالسنة ان لیفرج المصلی بین قدمیہ جدًا ولیصل جدًا‪،‬‬
‫بل بین التفریج والوصل‪ ،‬فاذا لم یکن التفریج کثیرا لم یکن الزاق کعب المصلی بکعب آخر‪ ،‬فاذن‬
‫تکون روایة اللزاق محمولة علی ماذکرہ البدر والشھاب“․ ) معارف السنن‪(298/1:‬‬

‫شیخ الحدیث مولنا محمد زکریا مہاجر مدنی نور ال مرقدہ فرماتے ہیں‪:‬‬

‫”امام بخاری‪ ‬نے ترجمة الباب میں منکب ) کندھا( اور قدم دونوں میں سے ہر ایک کے ملنے کا‬
‫ذکر کیا ہے‪ ،‬اس سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کندھے اور قدم کو ملنے میں محاذات اور‬
‫مبالغہ فی القرب ہی کا معنی ممکن ہے‪ ،‬حقیقتًا کندھے کو کندھے او رقدم کو قدم سے ملنا مراد نہیں‬
‫ہے ‪ ،‬پھر امام بخاری‪ ‬نے تعلیقًا حضرت نعمان‪ ‬کی روایت کو ذکر کرکے اس بات کی طرف‬
‫اشارہ کیا کہ جو معنی ) محاذات اور مبالغہ فی القرب کا( پہلے دونوں میں یعنی کندھے اور قدم میں‬
‫مراد ہے ‪ ،‬وہی معنی تیسرے میں یعنی ٹخنے میں مراد ہے ‪ ،‬اس لیے کہ روایات کا سیاق متحد‬
‫ہے۔“ ) حاشیہ لمع الداری‪(228/3:‬‬

‫حضرت نعمان بن بشیر‪ ‬کی ایک روایت میں ہے‪:‬‬

‫” قال‪ :‬فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ‪ ،‬ورکبتہ برکبتہ ومنکبہ بمنکبہ“․‬

‫ترجمہ‪ ”:‬میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اپنے ساتھی کے ٹخنے سے اپنا ٹخنا اور گھٹنے‬
‫سے گھٹنا اور کندھے سے اپنا کندھا ملیا ہوا تھا ۔““‬

‫یہ بھی حضرت نعمان بن بشیر‪ ‬ہی کی روایت ہے ‪ ،‬ہم غیر مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس پر‬
‫عمل کیوں نہیں کرتے او ردوسروں کواس پر عمل کرنے کی ترغیبکیوں نہیں دیتے ؟ بعض روایت‬
‫میں ہے ‪”:‬حاذوا بین المناکب“․ )ابوداؤد‪ (68/1:‬اس کی تشریح میں عون المعبود میں ہے‪:‬‬

‫”ای اجعلوا بعضا حذاء بعض بحیث یکون منکب کل واحد من المصلین موازیا لمنکب الخر‪،‬‬
‫ومسامتالہ‪ ،‬فتکون المناکب والعناق والقدام علی سمت واحد․“ ) نیل الوطار‪، 231/3:‬عون المعبود‪:‬‬
‫‪(275/2‬‬
‫ترجمہ‪”:‬کندھوں کے محاذات کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی کا کندھا دوسرے نمازی کے کندھے کے‬
‫محاذی ومقابل اور ایک سمت میں ہو‪ ،‬اس صورت میں سب کے کندھے‪ ،‬گردن اور قدم ایک سمت‬
‫میں ہوں گے ۔““‬

‫یہی مفہوم ومقصود تمام روایات کا ہے ‪ ،‬یعنی نمازی اپنا کندھا‪ ،‬ٹخنا اور قدم دوسرے نمازی کے‬
‫کندھے اور قدم کی محاذات اور سیدھ میں رک ھے ۔‬

‫صحیح بخاری شریف کی جن روایات کو غیر مقلدین حضرات اپنا مستدل ٹھہراتے ہیں اگر انہیں‬
‫اپنے ظاہری معنی پر ہی رکھا جائے تب بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ” الزاق“ یعنی قدم سے قدم او‬
‫رکندھے سے کندھا ملنا سنت مقصود ہ نہیں ہے‪ ،‬اس لیے کہ حضرت انس ‪ ‬سے ایک روایت جو‬
‫معمر کے اضافہ کے ساتھ مرو ی ہے اس نے اس تمام الجھن کو حل کر دیا ہے کہ‪:‬‬

‫”وزاد معمر فی روایتہ‪ :‬ولو فعلت ذلک باحدھم الیوم لنفر کانہ بغل شموس․“ ) فتح الباری‪(211/2:‬‬

‫”حضرت انس ‪ ‬فرماتے ہیں کہ اگر آج میں ان لوگوں میں سے کسی کے ساتھ ایسا کروں یعنی‬
‫اس کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملؤں تو وہ سرکش خچر کی طرح بھاگے گا ۔““․‬

‫حضرت انس ‪ ‬کی اس فیصلہ کن روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ‪‬‬
‫رسول ال صلی ال علیہ وسلم کے وصال کے بعد کندھے سے کندھا‪ ،‬ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے‬
‫قدم نہیں ملیا کرتے تھے‪ ،‬اگر ”الزاق“ سنت مقصودہ ہوتی تو صحابہ کرام ‪ ‬اسے کسی صورت‬
‫ترک نہ کرتے اور نہ ہی کسی کی نفرت کی پروا کرتے ۔ کیوں کہ نفرت تو اس فعل سے ہوا کرتی‬
‫ہے ‪ ،‬جو غیر ضروری ہو اور عام طور پر نہ کیا جاتا ہو ۔ جو عمل ہر ایک نمازی کرتا ہو ‪ ،‬اس‬
‫سے نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‪ ،‬بلکہ جو حکم رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے دیا ہو اس سے‬
‫مسلمان کیسے نفرت کر سکتا ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ اگر غیر مقلدین کا نظریہ درست ہوتا اور‬
‫الزاق سنت مقصودہ ہوتا تو تمام صحابہ کرام‪ ‬اس پر عمل کرتے اور تابعین بھی صحابہ کرام‪‬‬
‫کے عام اوردوامی عمل کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ یہ سنت صلة ہے ‪ ،‬پھر کسی کے ٹخنے سے‬
‫ٹخنا قدم سے قدم ملنے سے نفرت نہ ہوتی۔ غیر مقلدین حضرات نے حضرت انس‪ ‬کی بخاری‬
‫والی روایت کو تو اپنا اوڑھنابچھونا بنالیا ہے‪ ،‬لیکن حضرت انس ‪ ‬کی اسی مسئلہ سے متعلق‬
‫دوسری روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے ‪ ،‬گویا کہ ‪﴿:‬افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض﴾ کے‬
‫مصداق ہیں۔ چاہیے کہ غیر مقلدین حضرات ناروا ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس مسئلہ میں‬
‫جمہورعلمائے امت کی تحقیق کو قبول کر لیں‪ ،‬اسی میں ان کے لیے دارین کی کامرانی اور فلح‬
‫ہے ۔‬

‫مسئلہ کی شرعی حیثیت‬


‫اگرچہ گزشتہ تفصیلت سے مسئلہ کی اہمیت اور اس کا شرعی مقام پوری طرح واضح ہو گیاہے‪،‬‬
‫تاہم ائمہ‪ ،‬فقہاء اور محدثین کی آرا اس کی شرعی حیثیت کو پوری طرح آشکارا کرتی ہیں ۔ شیخ‬
‫الحدیث مولنا محمد زکریا مہاجر مدنی لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫” تسویہٴ صف‪ ،‬ائمہ ثلثہ‪ :‬امام ابوحنیفہ‪، ‬امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک نماز کیسنتوں میں‬
‫سے ہے ‪ ،‬لیکن شرط صحت نماز سے نہیں ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ امر تو وجوب کے لیے ہے‬
‫خصوصًا جب کہ ترک پر وعید بھی وارد ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں وعید بطور تغلیظ‬
‫وتشدید کے ہے ‪ ،‬جیسا کہ علمہ کرمانی ‪ ‬فرماتے ہیں‪ ”:‬تاکیدًا وتحریضًا علی فعلھا“․ جب کہ‬
‫علمہ عینی فرماتے ہیں کہ امر مقرون بالوعید وجوب پر دللت کرتا ہے ‪ ،‬لہٰذا یہ کہنا چاہیے کہ‬
‫تسویہ واجب تو ہے‪ ،‬مگر واجبات صلة سے نہیں ہے کہ اس کے ترک سے فساد صلة کا حکم ہو ‪،‬‬
‫البتہ اس کے ترک سے گناہ لزم آئے گا‪ ،‬اسی لیے حافظ ابن حجر‪ ‬نے بھی کہا ہے کہ وجوب مانتے‬
‫ہوئے بھی اس کے ترک سے نماز صحیح ہو جائے گی۔“ ) حاشیہ لمع الدراری‪(279/1:‬‬

‫شیخ الحدیث مولنا سلیم ال خان صاحب زید مجدہ رقم طراز ہیں‪:‬‬

‫” جمہور کے نزدیک تسویة الصفوف نماز کی حقیقت میں داخل نہیں اور نہ ان شرائط میں سے ہے‬
‫جن پر نماز کا حسن وکمال موقوف ہے۔ علمہ عثمانی ‪ ‬فرماتے ہیں کہ حضرات حنفیہ‪ ‬کے‬
‫کلم کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تسویة الصفوف سنت مؤکدہ ہے ‪ ،‬کیوں کہ ترک کو مکروہ‬
‫کہا گیا ہے اور کراہت مطلقہ سے مراد کراہت تحریمہ ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت مؤکدہ کے‬
‫ترک کو مکروہ تحریمی کہا جاسکتا ہے‪ ،‬مطلق سنت کے ترک کو مکروہ تحریمی نہیں کہا جاتا ۔‬

‫علمہ شامی‪ ‬نے کراہت تحریمہ کی تصریح کی ہے اور استدلل حضرت ابن عمر‪ ‬کی اس‬
‫حدیث سے کیا ہے کہ ‪” :‬من وصل صفًا وصلہ ال‪ ،‬ومن قطعہ قطعہ ال“․‬

‫مل علی قاری ‪ ‬فرماتے ہیں‪:‬‬

‫”اس وعید کی تشدید کی بنا پر علمہ ابن حجر‪ ‬نے اپنی کتاب ” الزواجر“ میں ترک تسویہ کو‬
‫کبائر میں سے شمار کیا ہے۔“ ) نفحات التنقیح‪ ،‬شرح مشک ٰوة المصابیح‪(552/2:‬‬

‫ال رب العزت ہم سب کو سلف صالحین‪ ،‬محدثین عظام اور ائمہ وفقہائے کرام کی احادیث کی‬
‫تشریح وتوضیح کے مطابق سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بے جاہٹ‬
‫دھرمی سے محفوظ فرمائ ے ۔‬

You might also like