Professional Documents
Culture Documents
صفين درست كرنا
صفين درست كرنا
ترجمہ :نماز میں صف کو درست کرو ،اس لیے کہ صف درست کرنا نماز کی خوبی کا ایک جز
ہے۔““
سیدنا حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا”:سووا صفوفکم،
فان تسویة الصف من تمام الصلة․“ )صحیح مسلم(182/1:
ترجمہ ” :تم لوگ اپنی صفیں درست رکھا کرو ،کیوں کہ صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔““
سیدنا حضرت جابر سے روایت ہے”:قال رسول ال صلی ال علیہ وسلم :ان من تمام الصلة اقامة
الصف“․ )مسند امام احمد 322/3:طبرانی کبیر(198/2:
ترجمہ ”:رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بے شک نماز کی تکمیل صفوں کی درستی
ہوتی ہے۔““
سیدنا حضرت انس سے روایت ہے ”:قال رسول ال صلی ال علیہ وسلم :اتموا صفوفکم ،فإن
تسویة الصف من تمام الصلة․“ )صحیح ابن حبان :حدیث(2168:
ترجمہ ”:رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا :صفیں درست کرو ،کیوں کہ صفوں کا برابر کرنا
نماز کی تکمیل کا جز ہے۔““
سنت کے مطابق صفوں کو درست کرنے کی صحیح صورت یہ ہے کہ نمازی ایک دوسرے سے اس
طرح مل کر کھڑے ہوں کہ درمیان میں جگہ خالی نہ رہے اور صف ایسی سیدھی ہو کہ کوئی آدمی
آگے یا پیچھے نکل ہوا نہ ہو ،محدثین عظام ،فقہائے کرام او رجمہور امت نے صفوں کی درستی کا
یہی معنی مراد لیا ہے ۔ لیکن غیر مقلدین اور سلفی حضرات کا خیال یہ ہے کہ نماز میں نمازی کا
ٹخنا اور قدم دوسرے نمازی کے ٹخنے اور قدم سے ملنا سنت اور ضروری ہے اور وہ لوگ
ن طعن دراز کرتے ہیں او رانہیں مخالفین سنت قرار دیتے ہیں ،لہٰذا اس
ایسانہ کرنے والوں پر زبا ِ
عمل کی وضاحت اور صراحت کے لیے احادیث نبوی سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور
محدثین اور فقہائے کرام کی تشریحات کو بھی ملحوظ رکھاجائے گا ۔
رسول ال صلی ال علیہ وسلم سے نماز میں صفوں کی درستگی کے سلسلہ میں کئی روایات مروی
ہیں لیکن رسول ال صلی ال علیہ وسلم کے کسی بھی ارشاد یا آپ کے عمل سے ٹخنے سے ٹخنا
ملنا اور قدم سے قدم ملنا ثابت نہیں ہے ،اسی طرح حضرات خلفائے راشدین بھی اپنے اپنے
زمانہٴ خلفت میں صف بندی کا اہتمام تو فرماتے رہے ،لیکن ان سے بھی ٹخنے سے ٹخنا ملنا
ل۔ اس کے شواہد مندرجہ ذیل ہیں:
ل ثابت ہے ،نہ ہی فع ً
اور قدم سے قدم ملنا نہ قو ً
” عن النعمان بن بشیر قال :کان رسول ال صلی ال علیہ وسلم یسوی صفوفنا حتی کانما یسوی بھا
القداح ،حتی رأی انا قد عقلنا عنہ ،ثم خرج یومًا ،فقام حتی کاد ان یکبرفرأی رجل بادیا صدرہ من
الصف ،فقال :عباد ال ،لتسون صفوفکم ،او لیخالفن ال بین وجوھکم ۔““ ) صحیح مسلم(182/1:
ترجمہ ”:حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم ہماری صفوں
کو اس قدر سیدھا اور برابر کرتے تھے ،گویا ان کے ذریعہ آپ تیروں کوسیدھا کریں گے ،یہاں تک
کہ آپ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں کس طرح سیدھا اور کھڑا ہونا چاہی ے ۔
اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپ صلی ال علیہ وسلم باہر تشریف لئے اور نماز پڑھانے کے لیے
اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہو گئے ،یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرما دیں
کہ آپ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی ،جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکل ہوا تھا تو آپ صلی ال
علیہ وسلم نے فرمایا :ال کے بندو! اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست رکھا کرو ،ورنہ ال تعال ٰی
تمہارے رخ ایک دوسرے کے مخالف کر دے گا ۔““
اہل عرب شکار یا جنگ میں استعمال کے لیے جو تیر تیار کرتے تھے ان کو بالکل سیدھا اور برابر
کرنے کی بڑی کوشش کرتے تھے ،اس لیے کسی چیز کی برابری اور سیدھے پن کی تعریف میں
مبالغہ کے طور پر کہا جاتا تھا کہ یہ چیز اس قدر سیدھی ہے کہ اس کے ذریعہ تیروں کو سیدھا کیا
جاسکتاہے ،یعنی جو تیروں کو سیدھا کرنے میں معیار اور پیمانہ کا کام دے سکتی ہے ۔
” عن ابن عمر ان رسول ال صلی ال علیہ وسلم قال :اقیموا الصفوف ،وحاذوا بین المناکب،
وسدوا الخلل ،ولینوا بایدی اخوانکم ،ولتذروا فرجات للشیطان ،ومن وصل صفا وصلہ ال ومن قطع
صفا قطعہ ال․“ )سنن ابی داؤد(67/1:
ترجمہ ”:حضرت عبدال بن عمر سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا :صفیں قائم کرو ،کندھے ایک دوسرے کی سیدھ میں کرو ،خل کو ُپر کرو اور اپنے بھائیوں
کے ہاتھ میں نرم ہو جاؤ ،شیطان کے لیے صفوں میں خالی جگہ نہ چھوڑو ،جس نے صف کو ملیا،
ال اسے ملئیں گے اور جس نے صف کو کاٹا ،ال اسے کاٹ دیں گ ے۔““
”قال رسول ال صلی ال علیہ وسلم :من سد فرجة فی صف رفعہ ال بھادرجة ،وبنی لہ بیتا فی الجنة․“
)مجمع الزوائد ،204/2:مصنف ابن ابی شیبہ(416/1:
ترجمہ”:رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا :جس شخص نے صف میں خالی جگہ ُپر کر دی
) یعنی ساتھ کھڑا ہو گیا( ال تعال ٰی اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا اور اس کے لیے جنت میں گھر
بنائے گا ۔““
”عن البراء بن عازب قال :کان رسول ال صلی ال علیہ وسلم یتخلل الصف من ناحیة ،یمسح
صدورنا ومناکبنا ،ویقول :لتختلفوا فتختلف قلوبکم ،وکان یقول :ان ال عزوجل وملئکتہ یصلون علی
لول․“ )سنن ابی داؤد(67/1:
الصفوف ا ُ
ترجمہ :حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم صف میں ایک
جانب سے دوسری جانب تشریف لے جاتے تھے اور صف کو برابر کرنے کے لیے ہمارے سینوں او
رکندھوں پر ہاتھ مبارک پھیرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ تم مختلف یعنی آگے پیچھے نہ ہونا،
ورنہ تمہارے دل باہم مختلف ہو جائیں گے ،نیز فرماتے تھے :ال تعال ٰی پہلی صفوں پر اپنی رحمت
نازل فرماتے ہیں اور فرشتے اگلی صف والوں کے لیے دعائے رحمت کرتے ہی ں۔““
یعنی اگر صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں تم بے پروائی اور کوتاہی کرو گے تو ال تعال ٰی اس
کی سزا میں تمہارے رخ ایک دوسرے سے مختلف کر دے گا ،تمہاری وحدت اور اجتماعیت پارہ
پارہ ہو جائے گی او رتم میں پھوٹ پڑ جائے گی ۔
”عن انس بن مالک عن رسول ال صلی ال علیہ وسلم قال :رصوا صفوفکم ،وقاربوا بینھا ،وحاذوا
بالعناق ،فوالذی نفسی بیدہ ،انی لری الشیطان یدخل من خلل الصف ،کانھا الحذف․“ ) سنن ابو
داود(67/1:
ترجمہ”:حضرت انس بن مالکرسول ال صلی ال علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی
ال علیہ وسلم نے فرمایا :اپنی صفیں ملؤ اور انہیں نزدیک رکھو اور گردنوں کو برابر ایک سیدھ
میں رکھو ،قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں شیطان کو دیکھتا
ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہ میں گھس آتا ہے ،گویا کہ بھیڑکا بچہ ہے ۔““
”عن ابن عباس قال :قال رسول ال صلی ال علیہ وسلم:تراصوا الصفوف ،فانی رایت الشیاطین
تخللکم ،کانھا اولد الحذف․“ ) مجمع الزوائد(204/2:
ترجمہ :حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا :صفوں کو
ملؤ ) کوئی جگہ خالی نہ رہے ( ،میں دیکھتا ہوں کہ شیاطین خالی جگہ گھس رہے ہیں ،گویا وہ
بھیڑ کے بچے ہی ں۔““
”وروی عن عمر انہ کان یؤکل رجل باقامة الصف ،ولیکبر ،حتی یخبر ان الصفوف قد استوت،
وروی عن علی وعثمان انھما کانا یتعاھدان ذلک ،ویقولن :استووا ،وکان علی یقول :تقدم یا فلن،
تاخر یا فلن․“ )جامع ترمذی(31/1:
ترجمہ :سیدنا حضرت عمر کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے صفوں کی درستگی کے لیے ایک
شخص مقرر فرما رکھا تھا اور جب تک وہ شخص آپ کو صفیں درست ہو جانے کی اطلع نہیں
دیتا تھا ،آپ تکبیر نہیں کہتے تھے ۔ حضرت علی اور حضرت عثمان کے متعلق مروی ہے کہ
وہ بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ :سیدھے اور برابر ہو جاؤ ۔ حضرت علی
فرماتے تھے کہ :فلں! آگے ہو ،اے فلں! پیچھے ہو ۔““
”عن مالک بن ابی عامر النصاری ان عثمان بن عفان کان یقول فی خطبتہ :اذا قامت الصلة،
فاعدلوا الصفوف ،وحاذوا بالمناکب․“ )موطا امام محمد(82:
ترجمہ ”:حضرت مالک بن ابی عامر انصاری سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان
اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے کہ :جب جماعت قائم ہو تو صفوں کو درست کرنا اورکندھوں
کو ایک سیدھ میں برابر کر لینا ۔““
”عن بلل قال :کان النبی صلی ال علیہ وسلم یسوی مناکبنا فی الصلة․“ ) طبرانی صغیر،81/2:
مجمع الزوائد(2,3/2:
ترجمہ ”:حضرت بلل سے روایت ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم نماز میں ہمارے کندھوں
کو بالکل برابر کرتے ت ھے۔““
علوہ ازیں حضرت نعمان بن بشیر کی روایت کے مطابق نمازی کا دوسرے نمازی کے ٹخنے
سے ٹخنا اور قدم سے قدم حقیقتًا ملنا ضروری نہیں ہے ،اس میں ظاہری معنی مراد ہی نہیں ،بلکہ
اس سے مقصود صفوں کو سیدھا کرنا اور درمیانی خل کو ُپر کرنا ہے ۔ جیسا کہ حضرات شارحین
او رمحدثین رحمہم ال نے صحیح بخاری شریف کے مذکورہ باب او رروایات کا یہی مقصد اور
مطلب بیان فرمایا ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلنی فرماتے ہیں” :المراد بذلک المبالغة فی تعدیل
الصف وسد خللہ․“ )فتح الباری(211/2:
ترجمہِ ”:الزاق :سے مقصود تعدیل صف اور خلل ُپر کرنے کے لیے مبالغہ ہے ۔““
اس کی مزید وضاحت کے لیے علمہ عسقلنی اس روایت کو بطور استشہاد پیش فرماتے ہیں:
” عن عبدال بن عمر ان رسول ال صلی ال علیہ وسلم :اقیموالصفوف ،وحاذوا بین المناکب،
وسدوا الخلل ،ولتذروا فرجات للشیطان ،ومن وصل صفا وصلہ ال ،ومن قطع صفا قطعہ ال․“ ) فتح
الباری ،211:کتاب الذان(
ترجمہ ”:حضرت عبدال بن عمر سے روایت ہے کہ :رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا :
صفیں سیدھی کر واور کندھے ایک سیدھ میں رکھو اور خالی جگہ ُپر کرو اور شیاطین کے لیے
خالی جگہ نہ چھوڑو ،جو صف کو ملئے گا ال اسے اپنی رحمت سے ملئے گا اور جو صف کو
کاٹے کا ال اسے کاٹ پھینکے گا ۔““
علمہ قسطلنی نے ارشاد الساری ج 268/2:میں بعینہ یہی عبارت نقل فرمائی ہے”:المراد بذلک
المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ․“
”واشار بھذا الی المبالغة فی تعدیل الصفوف وسد الخلل․“ ) عمدہ القاری(259/5:
قلت :وھو مرادہ عند الفقھاء الربعة ،ای لیترک فی البین فرجة تسع فیھا ثالثًا ،وھذہ المسئلة اوجدھا
غیر المقلدین فقط․“ ) فیض الباری(236/2:
ترجمہ ”:میں کہتا ہوں کہ یہی فقہا اربعہ کے نزدیک مراد ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان اتنا خل نہ
چھوڑے کہ جس میں تیسرے آدمی کی گنجائش ہو اوراس مسئلہ کو یعنی ٹخنے ملنا صرف غیر
مقلدین نے جنم دیا ہے۔““
جو منفی سوچ او رنامناسب طرز عمل غیر مقلدین حضرات نے اپنایا ہے اور ٹخنے سے ٹخنا اور
قدم سے قدم ملنے کا ظاہری معنی مراد لیا ہے ،اس میں تکلیف ،تصنع ،کلفت او رمشقت پائی جاتی
ہے ،حالں کہ ال جل شانہ نے دین میں آسانی اور سہولت رکھی ہے ۔ جیسے کہ ارشاد خدا وندی ہے:
﴿وماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾․ )حج(78:
اگر مذکورہ روایت کے ظاہری الفاظ کو حقیقت پر محمول کرنا ہی ہے تو حضرت نعمان بن بشیر
کی اسی روایت میں ”ورکبتہ برکبة“ )ابوداؤد (67/1:اور گھٹنے سے گھٹنا ملیا جائے“ کا
اضافہ بھی مذکور ہے ،پھر گھٹنے سے گھٹنا ملنے کو بھی ضروری قرار دیں ۔ مولنا خلیل
احمد سہارنپوری شارح سنن ابی داود تحریر فرماتے ہیں ” :فان الزاق الرکبة بالرکبة والکعب فی
الصلة مشکل․“ ) بذل المجہود(230/4:
ترجمہ” :نماز میں گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملنامشکل ہے۔““
”ولیخفی ان فی الزاق القدام مع الزاق المناکب بالمناکب مشقة عظیمة ،لسیما مع ابقائھا کذلک آخر
الصلة ،کما ھو مشاھد ،والحرج مدفوع بالنص․“ )اعلء السنن(360/4:
ترجمہ ”:یہ بات ظاہر اور مشاہدہ کی ہے کہ گھٹنے سے گھٹنا ملنے کے ساتھ قدم سے قدم ملنا
میں بہت زیادہ مشقت ہے ،جب کہ اس کو اسی طرح نماز کے آخر تک باقی رکھنا ہو ،جیسا کہ
مشاہدہ بھی ہے اور حرج نص سے مدفوع ہے یعنی زائل کیا گیا ہے۔““
مذکورہ روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنے سے یعنی ٹخنے سے ٹخنا ،قدم سے قدم ،گھٹنے
سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا ملنے سے نماز میں عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ،پاؤں
کے درمیان زیادہ فاصلہ سے طبعی وضع بدل جاتی ہے اور یہ کیفیت خشوع صلة کے منافی بھی
ہے ۔
محدث العصر حضرت مولنا محمدیوسف بنوری اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے
ہیں ”:فزعمہ بعض الناس انہ علی الحقیقة ،ولیس المر کذلک ،بل المراد بذلک مبالغة الراوی فی
تعدیل الصف ،وسدالخلل کما فی الفتح والعمدة وھذا یرد علی الذین یدعون العمل بالسنة ،ویزعمون
التمسک بالحادیث فی بلدنا حیث یجتھدون فی الزاق کعابھم بکعاب القائمین فی الصف ،ویفرجون
جد التفریج بین قدمیھم ،ما یؤدی الی تکلف وتصنع ،ویبدلون الوضاع الطبیعیة ،ویشوھون الھیئة
ل وفرجة واسعة بین قدمیھمالملئمة للخشوع ،وارادوا ان یسدوا الخلل والفرج بین المقتدین ،فابقوا خل ً
ولم یدروا ان ھذا اقبح من ذلک․“ ) معارف السنن(297/2:
ترجمہ ”:بعض لوگ یہ سمجھے ہیں کہ یہ روایت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے ،حالں کہ معاملہ
ایسا نہیں ہے ،بلکہ اس سے مراد راوی کا صف درست کرنے اور خل پر کرنے میں مبالغہ ہے،
جیسا کہ فتح الباری اور عمدة القاری میں ہے ۔ اور یہ بات ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جو ہمارے
شہروں میں سنت پر عمل کے دعوے دار ہیں اور تمسک بالحادیث کا دم بھرتے ہیں ۔ وہ اپنے
ٹخنے صف میں کھڑے نمازی کے ٹخنوں کے ساتھ ملنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے دونوں
قدموں کے درمیان کشادگی کی وجہ سے بہت چوڑے ہو کر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں جو تکلف
وتصنع تک پہنچ جاتا ہے اور وہ لوگ طبعی وضع کو بدلتے ہیں او رمناسب خشوع و ہیئت کو بگاڑ
دیتے ہیں ،بظاہر وہ مقتدیوں کے درمیان خل ُپر کرنا چاہتے ہیں ،لیکن اپنے دونوں قدموں کے
درمیان اس سے بھی زیادہ خل اور فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں او رانہیں یہ خیال نہیں آتا یہ تو اس
سے بھی زیادہ قبیح عمل ہے۔““
غور طلب
یہ بات غور طلب ہے کہ غیر مقلدین نماز میں ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملنے کے بعد اپنے
دونوں قدموں کے درمیا ن جتنا وسیع او رکشادہ فاصلہ اختیار کرتے ہیں کیا اس کا ثبوت کسی حدیث
سے اور فرمان نبوی سے پیش کر سکتے ہیں ؟ دو نمازیوں کے درمیان تو شیطان کے لیے خالی
جگہ نہیں چھوڑتے لیکن اپنی ٹانگوں کے درمیان اسے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہی ں ۔ یاللعجب․
صحابہ کرام کے تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی دو پاؤں کے درمیان نہ تو زیادہ فاصلہ رکھے
اور نہ ہی مل کر کھڑا ہو ،یہ کیفیت تنہا نماز میں اور جماعت کی حالت میں بھی قرار رہتی تھی ۔
”وکان ابن عمر ل یفرج بین قدمیہ ،ولیمس احداھما بالخری ،ولکن بین ذلک ،لیقارب ولیباعد․“
)المغنی ،ابن قدامہ(698/1:
” انا لم نجد الصحابة والتابعین یفرقون فی قیامھم بین الجماعة والنفراد ،علمنا انہ لم یرد بقولہ الزاق
المنکب ال التراص وترک الفرجة“․ ) فیض الباری(237/2:
”عن ابی عبیدہ عن عبدال انہ رأی رجل یصلی قد صف بین قدمیہ ،فقال أخطأ السنة ولو ،راوح
بینھما کان اعجب الي․“ ) سنن نسائی(90/1:
ترجمہ ” :حضرت عبدال بن مسعود نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جس نے دونوں پاؤں
مل رکھے تھے ،انہوں نے فرمایا :اس نے سنت کوپانے میں غلطی کی ہے ،اگر یہ آدمی دونوں پاؤں
کے درمیان ”مراوحة“ کرتا تو مجھے زیادہ پسند ہوتا“ ۔
دونوں پاؤں میں سے کبھی ایک پر کھڑا ہونا اور دوسرے پاؤں کو آرام دینا ۔
دوسرا معنی تھوڑی سی کشادگی اور تھوڑے سے فاصلہ کو بھی ”مراوحة“ کہا جاتا ہے ۔
اس روایت میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ،لہٰذا اس سے دونوں پاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ کرنا
ثابت ہوتا ہے ۔ )فیض الباری (237/2:
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبدال بن مسعود نے اس نمازی کے دونوں قدم کے ملنے پر نکیر
وانکار پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ” مراوحة“ یعنی تھوڑے فاصلہ کا بھی ذکرفرمایا۔ علمہ سید محمد
یوسف بنوری فرماتے ہیں ” :ثم لم ینکر ابن مسعود الوصل فقط ،بل عدم المراوحة ،ولعل الغرض
ھو النکار علی المبالغة فی الزاق قدمہ بقدمہ ،فالسنة ان لیفرج المصلی بین قدمیہ جدًا ولیصل جدًا،
بل بین التفریج والوصل ،فاذا لم یکن التفریج کثیرا لم یکن الزاق کعب المصلی بکعب آخر ،فاذن
تکون روایة اللزاق محمولة علی ماذکرہ البدر والشھاب“․ ) معارف السنن(298/1:
شیخ الحدیث مولنا محمد زکریا مہاجر مدنی نور ال مرقدہ فرماتے ہیں:
”امام بخاری نے ترجمة الباب میں منکب ) کندھا( اور قدم دونوں میں سے ہر ایک کے ملنے کا
ذکر کیا ہے ،اس سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کندھے اور قدم کو ملنے میں محاذات اور
مبالغہ فی القرب ہی کا معنی ممکن ہے ،حقیقتًا کندھے کو کندھے او رقدم کو قدم سے ملنا مراد نہیں
ہے ،پھر امام بخاری نے تعلیقًا حضرت نعمان کی روایت کو ذکر کرکے اس بات کی طرف
اشارہ کیا کہ جو معنی ) محاذات اور مبالغہ فی القرب کا( پہلے دونوں میں یعنی کندھے اور قدم میں
مراد ہے ،وہی معنی تیسرے میں یعنی ٹخنے میں مراد ہے ،اس لیے کہ روایات کا سیاق متحد
ہے۔“ ) حاشیہ لمع الداری(228/3:
” قال :فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ ،ورکبتہ برکبتہ ومنکبہ بمنکبہ“․
ترجمہ ”:میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اپنے ساتھی کے ٹخنے سے اپنا ٹخنا اور گھٹنے
سے گھٹنا اور کندھے سے اپنا کندھا ملیا ہوا تھا ۔““
یہ بھی حضرت نعمان بن بشیر ہی کی روایت ہے ،ہم غیر مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس پر
عمل کیوں نہیں کرتے او ردوسروں کواس پر عمل کرنے کی ترغیبکیوں نہیں دیتے ؟ بعض روایت
میں ہے ”:حاذوا بین المناکب“․ )ابوداؤد (68/1:اس کی تشریح میں عون المعبود میں ہے:
”ای اجعلوا بعضا حذاء بعض بحیث یکون منکب کل واحد من المصلین موازیا لمنکب الخر،
ومسامتالہ ،فتکون المناکب والعناق والقدام علی سمت واحد․“ ) نیل الوطار، 231/3:عون المعبود:
(275/2
ترجمہ”:کندھوں کے محاذات کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی کا کندھا دوسرے نمازی کے کندھے کے
محاذی ومقابل اور ایک سمت میں ہو ،اس صورت میں سب کے کندھے ،گردن اور قدم ایک سمت
میں ہوں گے ۔““
یہی مفہوم ومقصود تمام روایات کا ہے ،یعنی نمازی اپنا کندھا ،ٹخنا اور قدم دوسرے نمازی کے
کندھے اور قدم کی محاذات اور سیدھ میں رک ھے ۔
صحیح بخاری شریف کی جن روایات کو غیر مقلدین حضرات اپنا مستدل ٹھہراتے ہیں اگر انہیں
اپنے ظاہری معنی پر ہی رکھا جائے تب بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ” الزاق“ یعنی قدم سے قدم او
رکندھے سے کندھا ملنا سنت مقصود ہ نہیں ہے ،اس لیے کہ حضرت انس سے ایک روایت جو
معمر کے اضافہ کے ساتھ مرو ی ہے اس نے اس تمام الجھن کو حل کر دیا ہے کہ:
”وزاد معمر فی روایتہ :ولو فعلت ذلک باحدھم الیوم لنفر کانہ بغل شموس․“ ) فتح الباری(211/2:
”حضرت انس فرماتے ہیں کہ اگر آج میں ان لوگوں میں سے کسی کے ساتھ ایسا کروں یعنی
اس کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملؤں تو وہ سرکش خچر کی طرح بھاگے گا ۔““․
حضرت انس کی اس فیصلہ کن روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام
رسول ال صلی ال علیہ وسلم کے وصال کے بعد کندھے سے کندھا ،ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے
قدم نہیں ملیا کرتے تھے ،اگر ”الزاق“ سنت مقصودہ ہوتی تو صحابہ کرام اسے کسی صورت
ترک نہ کرتے اور نہ ہی کسی کی نفرت کی پروا کرتے ۔ کیوں کہ نفرت تو اس فعل سے ہوا کرتی
ہے ،جو غیر ضروری ہو اور عام طور پر نہ کیا جاتا ہو ۔ جو عمل ہر ایک نمازی کرتا ہو ،اس
سے نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،بلکہ جو حکم رسول ال صلی ال علیہ وسلم نے دیا ہو اس سے
مسلمان کیسے نفرت کر سکتا ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ اگر غیر مقلدین کا نظریہ درست ہوتا اور
الزاق سنت مقصودہ ہوتا تو تمام صحابہ کرام اس پر عمل کرتے اور تابعین بھی صحابہ کرام
کے عام اوردوامی عمل کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ یہ سنت صلة ہے ،پھر کسی کے ٹخنے سے
ٹخنا قدم سے قدم ملنے سے نفرت نہ ہوتی۔ غیر مقلدین حضرات نے حضرت انس کی بخاری
والی روایت کو تو اپنا اوڑھنابچھونا بنالیا ہے ،لیکن حضرت انس کی اسی مسئلہ سے متعلق
دوسری روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے ،گویا کہ ﴿:افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض﴾ کے
مصداق ہیں۔ چاہیے کہ غیر مقلدین حضرات ناروا ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس مسئلہ میں
جمہورعلمائے امت کی تحقیق کو قبول کر لیں ،اسی میں ان کے لیے دارین کی کامرانی اور فلح
ہے ۔
” تسویہٴ صف ،ائمہ ثلثہ :امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک نماز کیسنتوں میں
سے ہے ،لیکن شرط صحت نماز سے نہیں ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ امر تو وجوب کے لیے ہے
خصوصًا جب کہ ترک پر وعید بھی وارد ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں وعید بطور تغلیظ
وتشدید کے ہے ،جیسا کہ علمہ کرمانی فرماتے ہیں ”:تاکیدًا وتحریضًا علی فعلھا“․ جب کہ
علمہ عینی فرماتے ہیں کہ امر مقرون بالوعید وجوب پر دللت کرتا ہے ،لہٰذا یہ کہنا چاہیے کہ
تسویہ واجب تو ہے ،مگر واجبات صلة سے نہیں ہے کہ اس کے ترک سے فساد صلة کا حکم ہو ،
البتہ اس کے ترک سے گناہ لزم آئے گا ،اسی لیے حافظ ابن حجر نے بھی کہا ہے کہ وجوب مانتے
ہوئے بھی اس کے ترک سے نماز صحیح ہو جائے گی۔“ ) حاشیہ لمع الدراری(279/1:
شیخ الحدیث مولنا سلیم ال خان صاحب زید مجدہ رقم طراز ہیں:
” جمہور کے نزدیک تسویة الصفوف نماز کی حقیقت میں داخل نہیں اور نہ ان شرائط میں سے ہے
جن پر نماز کا حسن وکمال موقوف ہے۔ علمہ عثمانی فرماتے ہیں کہ حضرات حنفیہ کے
کلم کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تسویة الصفوف سنت مؤکدہ ہے ،کیوں کہ ترک کو مکروہ
کہا گیا ہے اور کراہت مطلقہ سے مراد کراہت تحریمہ ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت مؤکدہ کے
ترک کو مکروہ تحریمی کہا جاسکتا ہے ،مطلق سنت کے ترک کو مکروہ تحریمی نہیں کہا جاتا ۔
علمہ شامی نے کراہت تحریمہ کی تصریح کی ہے اور استدلل حضرت ابن عمر کی اس
حدیث سے کیا ہے کہ ” :من وصل صفًا وصلہ ال ،ومن قطعہ قطعہ ال“․
”اس وعید کی تشدید کی بنا پر علمہ ابن حجر نے اپنی کتاب ” الزواجر“ میں ترک تسویہ کو
کبائر میں سے شمار کیا ہے۔“ ) نفحات التنقیح ،شرح مشک ٰوة المصابیح(552/2:
ال رب العزت ہم سب کو سلف صالحین ،محدثین عظام اور ائمہ وفقہائے کرام کی احادیث کی
تشریح وتوضیح کے مطابق سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بے جاہٹ
دھرمی سے محفوظ فرمائ ے ۔