ٓاج کل پی ٹی وی پرعثمانی خالفت کے بانی ’ارطغرل ‘ کی حیات و ٓاثار س55ے متعل55ق ای55ک ڈرامہ نش55ر کیا جارہا ہے ۔ اِس ڈرامے کو بڑے ہی شاندار انداز میں پکچرائز 5کیا گی55ا ہے۔ اِس ڈرامے میں مس55لمانوں 5ور ط55الب علم ہمیں ت55اریخ کے ت رفتہ 5جس انداز سے دکھائی جارہی ہے وہ قابِ 5ل دی55د ہے ۔بہ طِ 5 کی عظم ِ کچھ حقائق کو سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر مسلمانوں کے ادوار کا جائزہ لیں تو خلفائے راشدین کے بعد تین بڑی حکومتیں نظر ٓاتی ہیں جن میں :اموی ،عباسی اور عثمانی شامل ہیں ۔ ۴۱ہ ج ری می ں ’اموی‘ حکومت قائم ہوئی 5۔ چ ودہ اموی حکمراں جنھیں خلیفٔہ ثانی اور خلیفہ ٔ ص55الح بھی اِس دور میں ٓائے جن میں ’حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ ؒ ک55ا دور علمی اور انتظ55امی ‘ جیس55ے جلی55ل الق55در ح55اکم بھی ش55امل تھے ۔ ٓاپ کہ55ا جات55اہے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل رہا ۔علمی اعتبار سے دیکھ55ا ج55ائے توت55دوین ِ ح55دیث کے اہم ت55رین ک55ا م کے لیے ٓاپ ؒ نے سرکاری 5طور پر سرپرستی کی ۔انتظامی امور کو دیکھا جائے تو مشہور 5تھا کہ ش55یر بکری ایک گھاٹ میں پانی پیتے تھے ۔اِسی طرح اموی دور میں انتظ55امی 5ام55ور ک55و ای55ک ن55ئی جہت دی نظام حکومت دو حصوں میں منقسم تھا ایک مرکزی نظام جس کی نگرانی خ55ود خلیفہ کرت55ا ِ5 گئی ،جیسے تھا اور دوسرا 5صوبائی نظام جس کی نگرانی صوبہ 5کا گورنر 5کرتا تھا ۔ گورنر 5خلیفہ سے ہدایات وصول کرتا اور اُس پر عمل پیرا ہوتا۔ لیکن اتنا مضبوط 5نظام ہ55ونے کے ب55اوجود 5یہ حک55ومت ٓاہس55تہ ٓاہس55تہ زوال پذیر ہوگئی ۔ معروف 5مٔورخ شاہ معین الدین احمد ندوی 5صاحب نے اموی حک55ومت کے زوال کے چ55ار اراکین س55لطنت کےس55اتھ ب55د ِ اسباب بی55ان ک55یے ہیں ،جن میں :م55وروثیت ،ولی عہ55دی ک55ا نظ55ام ،خلف55ا کی موسی بن نُصیر جیسے فاتح کے ساتھ س55لیمان ک55ا عت55اب اور ٓاخ55ری س55بب ،ع5دنانی ٰ5 سلوکی ،خاص کر ۔(تاریخ اسالم از شاہ معین الدین احمد ِ اور قحطانی قبائل کا تعصب اموی حکومت کے خاتمے کا سبب بنا کی جو ندوی ج لد دوم،ص ۵۸۲تا ،۵۸۵مکت ب ہ ٔ اسالمی ہ الہ ور ،س ن) ساتھ ساتھ مٔورخین نے اموی زوال ق اس دور می نں ج ضو ب ڑے وا عات ہے۔ ق شیعان علی کی مخالفتش سب سے اہم ض وجوہات بیان قکی ہیں اُن میں ن مزید ئ ُ ن ئ دوسرا ا مسوا عہ س ی د ا حنرت ع ب د ہللا ب ن ہ خ ح ں وا عٔہ کرب ال جس می ں س ی د ا ح رت امام سیتن ؓ کینہادت اور غ ے،ان شم ی ش رو ما ہ و ے کسی ی رم لم حکومت ے خکو یف کردار ادا اموی حکومت م تکراے کے ی ل ےئکہ ُ ہ ے۔ ی اد ر ہ نزبیر ؓ کی ہادت امل ے کہ ی ہ حکومت کس طرح ٓاپس کے ا ت ال ات کی ت ے ہ ی ں ان سے معلوم ہ و ا ہ ےگ ہی ں ک ی ا خ۔ت ب لکہئاوپر ج و اس ب اب ب ی ان یک ئ ت وج ہ سے م ہ و ی ۔ ) سے ؓ لیدور سے ہ وگئی ھی ی عنی دمحم ن ن ف ہ (پسر ض ئرت ع ش اموی دا ت با کی س ن ا ِ و ے ا کی ات ت ع ب ئاسیت حکومت کی ض ب ح ی پ ِح ق ٹ ف ج ب رت ے تم ام پر ضمرض الموت یش ٓا ی ج ہاں ح ت ک ایس ے اب و ہ ا م کو ای ن ے کہ دمحم ب ن ح ی ہئکے ب ی ہ وگ ی ھی۔ کہا ی ہ ج ا اہ رکن قاہ ِل ب ی ت موج و د ہی ں ھا ۔ی ہ ح رت ع ب د ہللا ب ن ع ب اس ؓکے پوے یکے نسوا دوسرا کو شن ع ب دہللا بعن تع ب اس کی ش ن اوالد ِ ن (تاریخ اسالم از شاہ معین الدین احمد ندوی ،جلد سوم ِ ے۔ اب و ہ ا م ے ا ھی ں اپ ا ج ا خ ی ًن م رر ک ی ا ۔ دمحم ب ن لی ھ ش س ح ی ت دعوت کا لسلہ ت روع ہ وا اور ۱۳۲ خ کی خ ف کومت پ نص ،۱۷مکت ب ہخ ٔ ا فسالمی ہ الہ ور ،س ن) م صرا ی ہ کہ ہی فں سے ع ب اسی ن ڑیکام کی ساطر ب ث ح اس ف عرف ’س اح ‘ (اب والع ب اس ے ا ی ن تال ق ت کے نتدمحم اپلم ن ئ ن ب ہخ جنری می ں پ ہ نال لی ہ اب و تالع ب اس ع ب تدہللا ن ب ق گ ے۔ اک رمردے ھی اس کے جف وش ِا ام سے مح فوظ ہ رہ ک ق زیف کی۔ق و امیکہ پر و اس کی سخ ی اںپ ای ہا گکوئ ہ چ ی ں۔ ت غ ب و ری خ س ل و مارت گری اور س اکی کے ب اعث ن’س اح ‘کے ب ل ت ف ں۔ ِ خا ی سی اں ڈ کی ان خ کر ھدوا ں یر ب کی ا ل ش اموی کن ہ وا۔ اگر چ ہ ع ب اسی دور کو مسلما وں کا عہ ِد زری نں کہا م ن ر ت ن ال د س کے معنی ون ر ہز یکے ہ ں۔) س ن ن وا ہ ہور ت م سے ئ ت پ م ِ ی ی ج ئ ل ک یتا ب عد می قں وہ عروج حاصل ہی ں مض ا ق ہ ہی ں ہ وگا ف،ن یک وں کہ ِاس تدور می ں مسلما وں ے ج ن ا عروج حاص ت ُ و ے جا نیاے لوق خ م کی ہللا لوم و ف ون کا ہ حال ھا کہ ا ک ئام کی دکان ر ہ ب حث ہ و ی ھی کہ رٓان ت ن ع ں م دور س ا کا۔ ہ ہ ع پی ے کے عرنی می ں ت راج نم ہ وے ت۔ جس طرحفٓاج لوگ ی ق ی حج سف ی ن ی ِ نس و ورپ می ں اع ٰلی لی م حاص خل فکرے ل ع اسی دور می ں یو ا ی ل ُ ا یے ہ ں اسی طرح غ داد ب ھی اس ب تں ۔ ُ ہ کہ فچک ھ ب ا ی ن ہ رہ ا ۔ ٓاپس کے ا ت ال ات زماے تکاف لم و ور کا مرکز ھا ۔ بق ی ٹکن ا سوس ! ت ش ج غ ی ن ف ئ ٹب ء) ئاور مامون (۸۳۳ء) کی ۸۱۳ ی و م ن( یم ا ، وں ی دو کے ء) ن ۸۰۹ ی و م د( خ ی الر ارون ہ ا۔ ی ھا نکا ی روں ے ا فدہ ا کومت کومت ا م کی۔م تع ب اسی ح ت ق کار مامون ے امی ن کو ت ل کرتکے ُاپ نی ٰ ح ٰ ر ٓا خ اور ،ت ے ئ گ سے ئ ان ج گ می ں ہ زار ہ ا ا ج راد ت کے م طابق ُرکوں کا تعروج ھاناور اتس کا اصل ذمہ دار ع صم ب اہللا ھا ۔ مٔورت ی نن ےجا ی ں و خ زوال کے اس ب ناب دی کھ کے ت کومت ح اسی و ج ا ڑھا گے ٓا کو رکوں ے ) صم ع ے ُ ِاس ق(م ی کے ے کر م رسوخ اسرو کا ن وں ی را ن ع خ ف بح ی ن ب ت ل ت ث کہا ی ہ ج ا نہ ف ی ا کہ ے ا ے سے ب ھی ا کار س ن کم کا ہ لی وہ ،اب ا گ ب یڑھ اور دار ت ا کا مرا ا ُرک عد ب کے وکل م ۔ وا ہ ں یہ ت اب ال ے یک کے یل ن ق ن ن ئ خف ت ن ح ت ب ت ب ُ ل ُرکوں ئے مرکزی کومت قکو مزی د کمزورن کردی ا۔ ت طرح سی خ ا ا۔ ی خِ ک ھی لق کو عض اور ن ارا ا اکو ل ی ئک ق ے ہوں ا ے۔ گ ے کر ں۔ ج ن مینں اب ل ذکر ب ی ب وی ہ، نں ود م ت ار حکو خمتی ں ق انم کر لی ئ ے عال وں یم ن ن ا پ پت ت ے ا ے مرا ت ا امی ی ی ک شم ںت م حال صورت ِف نس ِا م ھوڑی ،گرب ہ چ تسر ہی ںخ ن س م م ح ط وں ت کو م کرے قمی ں کو ی ک ساما ی جاور ا می کو ی ں ا ل ھی ں۔ت اگرچ ہت تا شاریوں ے نع ب ا ی ت ح ی ی ِت مموعی اگر ِان (ع ب اسی وں ُ)می ں ا حاد ہ و ا و ای د ی ہ ن ق ے فزوال ن خ ن ی مٔورق ۔ ف ے ا ج کر لہ ب ا م کا وں) ی ارن ا دھی(اس ٓا ن ث ہ ات ب ی ان کی ہ ی ں ا ن می ں :ولی عہدی کا ا ص ظ ام ،ا ا ل اور کمزور حکمراں ،ر ہ وارا ہ ا ت ال ات ش کی ج و ئمزی د وج وہ اوروب ا ی امراض امل ہ ی ں ۔ سوال یہ پیدا ہوت55اہے کہ یہ کیس55ے ق55ائم ہ55وئی؟ اِس پ55ر غ55ور قو فک55ر عثمانی حکومت کو دیکھا جائے تو ت ص ت ت ٓای ا پ ن لش وائاور ھر ای ک و خ ہ ح ے کہ ُرکوں کوع ب اسی کومت ثمی نں تعروج حا ن ہشکی سطروں سے مع نلو م ہ و ا ق ن چاہیے ن۔اوپر ن ش کرنا ن ی اتورلڈ ٓارڈر ٓاگ ی ا ۔ع ما ی رکوں ے ای تی اے کوچ ک نمی ںتدا ل ے پر ای ک کے ا د اور ا گ مٹ ان و ام کا وں س ی ا کہ ع ب ن ک)می ں د ی ا کین وسی ع ء ق۱۹۲۴ سے ء ۱۵۱۷ ( سال سو ن ے س ھی ے کے عد ا ک ای سی قسل ن یت کیی ب ن اد رک تہ و ش ئت ن ی جخ ی ادہت طا تورط سل ن ت ب ی کردار ُرک وم کی ج اعت اور ظ فی تمی ںب ی ق ئ ادی ن س م س ا اور ا کر ار ق سط ن ف ق ث ن ج ی ت ی س ل ی ئ ِ ی ا روپ کا ت ن ی ز سے سب اور ن ری س ت ا م ش و ی ن۔ ِاس دور می ں ل طانتدمحم ا ح ہ ت ل ی ے می نں ط ت ع نما ی ہ سی و ع اور پ ا ی دار ف ط ن ت ل التحی ت ھی جس کے یج ف ص ول رکھا مگرن رکوں کو طان دمحم ا ح ے ِاس نہر کا ام اسالم ب ف ت سل ُ ے ست ط تطن ی ہ ت( ح س ط طن ی ہ کے ب عدت ت (م و ٰی ۱۴۸۱نء)کے شذر ع ہ ت ے ،ا تس و ہ سے ِاس کا ام اس ک ت ے م ں من کی خل ہ و ی ت ھی و وہ ِاسے اس ے عروج پ ا وا۔ ح ڑا) پ ول ب ن ج ھ ے شہ ول ب ن ناسالم ب ول ب ول ی ث زوال روع ہ وا و ایسا ہ و اکہ ی ہتوسی ع و عری ض سل طن ت ۱۹۲۴خ ءدنف ی ا کے ے ۔ل ی کن ج ب خ ہی ع ما یسم ت نا ِر کل ث نھ کے دور می ں ی ئ قش ان کی ج ا خیتہ ی ںن ج ن می ں نٓ:اپس کے ا ت ال غات ، یخ ف ب ات ہ و ج و لف ت مغ کی زوال کے ہ ما طت ِ ع ی ت ل ۔ ق ی گ مٹ سے ے ن ے الر س ئٓاف ئعرب ی ہ و ی رہ ۔ اس ف ال ت کو م تکرا ا ج ی س خ کا لوگوں ت دار ھ ن چک اور سازش کی ہود ی ، ی س ر ث نپ وم ں ا ادر یے کہ سل ین م صدی ں وس ی ء) چ ال نی گت ی۔ اگرچ ہ ی ہ خ ۱۹۲۵ ا ء ۱۹۱۸ ت( ال ک ی ِ حر ں یم ان ت دو ح ی ض ثل ہ تس ے ی کے ا ا کے ہ ما ت ت نی ہ ئ ل ط ِ ع ی ے۔ ے کہ مسلمان ای ک مرکزی حکومت کے واہ ش م د ھ اکام ہ وگ ی ی کن اس حری ک سے ی ہ رور اب ت ہ و اہ ت ممل55وک (خان55دا ِن ہندوس55تا 5ن کی ب55ات ک55ریں ت55و یہ55اں بہت س55ی حکوم55تیں ق55ائم ہ55وئیں جن میں :س55لطن ِ سوری 5س55لطنت بھی ق55ائم ہ55وئی ۔ ہم55ایوں کی (درمیان نمیں ن سید ُ،لودھی اور مغل ،خلجی ش ،تغلق ،ن غالمان ) ت خت ش سل طن ت کا ہ ی ر اہ سوری ے الٹ دی ا ِ ،اس طرح سوری ا دان ے ہ دوست ان پر چک ھ عرصے کومت کی )سلطنت ح ن خ 5وفی ۱۵۳۰ء)نےہندوس55تان پ55ر شامل ہے ۔ تاہم ،اِ ن میں مغل خاندان سب زیادہ سے مقب55ول تھ55ا ۔ب55ابر(مت5ٰ 5 مغلیہ(۱۵۲۶ء) سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس نے کسی کافر کو قتل کر کے ہندوس55تان میں اپن55ا جھن55ڈا نہیں ت مغلیہ کی بنیاد رکھی۔ ترکوں کے گاڑا بلکہ ایک کلمہ گو ابراہیم لودھی کو شکست دینے کے بعد سلطن ِ بعد دنیا میں جدید جمہ5وری 5نظ5ام ٓای55ا جس55ے مس5لم اورغ55یر مس5لم ،س5ب نے قب55ول کی5ا۔ مس5لمانوں نے اِس جمہوری نظام کو اسالمی جمہوری نظام کا نام دیا جس میں یہ کہا گیا کہ ک55وئی ق55انون ق55رٓان و س55نت کے خالف نہیں بنے گا۔دنیا نے اِس جمہوری 5نظام س55ے بہت کچھ س55یکھا ،غلطی55اں بھی نظ55ر ٓائیں جنھیں اب بھی صحیح کرنے کی کوششیں کی جارہی 5ہیں۔ اب دنیا بدل گئی ہے ۔ اب دنیا سرحدوں میں تقسیم ہوگئی5 ہے ۔ ہم ان معاہ555دوں میں ش555امل ہیں جن میں ای555ک یہ بھی ہے کہ س555رحدوں کی خالف ورزی 5نہیں کی جائے گی ۔ ماضی 5میں طاقت ور کمزور پر غالب ٓاجاتے تھے ۔ (اگ5رچہ اب بھی اِس5ی ط55رح س55ے ہورہ5ا5 ہے مگر ستر فیصد 5ممال5ک اِس ق5انون پ5ر عم5ل پ5یرا ہیں۔)اب ہم اگ5ر اپ5نی ماض5ی کی ت5اریخ پ5ڑھیں ت5و پیش نظر زمانےکے حاالت ،واقعات ،ضروریات ،معیشت اور معاشرت ہونے چاہییں۔ ِ ہمارے ہمارا عمومی رویہ : مسلمانوں نے اپنے وقت میں عروج حاصل کیا ہے لیکن ہم اگر ہندوستان کو دیکھیں تو یہ55اں کے بس55نے والے مسلمانوں نے صرف اپنی تاریخ پر فخر کیا ہے۔ جب بھی کوئی ُمکالمہ ہوتاہے تو کہا جات55اہے کہ ہم نے اپنے عروج کے زمانے میں یہ حاصل کیا ،وہ حاص55ل کی55ا ۔ درحقیقت وہ ہم نے نہیں بلکہ اموی55وں نے حاصل کیا ،عباسیوں نے حاصل کیااور ترکوں نے حاصل کیا ۔ ہمارے ہندوستان کے حکمران55وں نے توصرف 5عیاشیاں کی ہیں اور ع55وام پ55ر ٹیکس ہی لگای55ا ہے۔ ک55ون ساایس5ا 5ک55ام ہے جس پ55ر ہم فخ55ر ک55ر سکیں بلکہ ہمارا معاملہ تویہ ہے کہ ہم اکبر کے دین ِ ٰالہی کی بھی تفہیم و تبیین ک55ر رہے ہ55و تے ہیں ۔ہم پہلے کچھ کر کے دکھ55ائیں پھ55ر کس55ی ب55ات پ55ر فخ55ر ک55ریں ۔ ہم55ارا ح55ال ت55و یہ ہے کہ ہم ڈرام55ا دیکھ ک55ر سمجھتے ہیں کہ اب دنیا پر حکومت قائم کرنے والے ہیں ۔ ڈراما ضرور دیکھیں مگر اِس5ے ڈرامے کی حد تک ہی رکھیں ۔ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم ڈرامے کو صرف ڈرام55ا نہیں رہ55نے دی55تے۔ ہم ت55اریخ ک55و صرف تاریخ کے طور 5پر نہیں دیکھتے بلکہ اِس کی مٹی میں ہم جذبات کو گوندھتے ہیں اور پھ55ر اس55ے اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں۔ جذباتیت کا یہ عالم ہے کہ ڈرامے کے مرکزی کرداروں کو اص55لی رن55گ ڈھنگ میں دیکھا تو ہم پر قیامت گزر گ5ئی‘ ہم اس ڈرامے ک5و ٓاج کی زن5دگی 5میں متش5کل دیکھن5ا چ5اہتے ہیں ،وہ بھی دوسروں کی مدد سے۔ خود ہم ٓاج کے دور میں جینا چاہتے ہیں مگرساتھ ساتھ تڑپ رہے ہیں 5رز زن55دگی اپن55ائے۔ارطغ55رل5 کہ ڈرامے کے مرکزی کردار حقیقی زندگی 5میں سینکڑوں سال پہلے ک55ا ط5ِ 5 دیکھنے والے کئی بھولے بھالے پاکستانی نشا ِ5ط ثانیہ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ت55و یہ خ55واب کیس55ے پ55ورا ہوگ55ا؟ نہ ک55وئی ایس55ی مس55لم ط55اقت ہے جس55ے ہم شکس55ت دے س55کیں جیس55ا کہ ماض55ی میں اموی55وں اور عباسیوں کے ساتھ ہ55وا اورنہ ہی اب ایس55ے ح55االت ہیں۔ ت55و؟ ت55و پھ55ر بس یہ کہ ڈرامے ض55رور دیکھیں‘ مگ555ر یہ ذہن نش555ین رہے کہ حقیقی زن555دگی 5کچھ اور ہ555وتی ہے۔ مش555ہور ت555اریخ دان ابن خل555دون اپ555نی ’’سلطنتیں کسی فرد کی طرح اپنی ایک عم55ر رکھ55تی ہیں۔ کتاب’’مقدمہ‘‘میں لکھتے ہیں: یہ پیدا ہوتی ہیں اور عمر کے ساتھ عروج اور پھر زوال ت55ک پہنچ ک55ر ختم ہ55و ج55اتی ہیں‘‘۔لہٰ 5ذا اب ہمیں حال میں رہنا ہے اور اپنی اغالط کوسدھار کر ٓاگے بڑھنا ہے تاکہ ہم بھی اپنے بازو 5پ5ر فخ5ر محس5وس کر سکیں۔