You are on page 1of 2

‫تاریخ کی اہمیت‬

‫تاریخ ایک ایسا مضمون ہے جس میں ماضی میں پیش آنے والے لوگوں اور ان کے س اتھ پش آنے والے‬
‫واقعات کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔ تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اس اس میں ارخ‬
‫سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن‪ ،‬عرصہ‪ ،‬وقت وغیرہ لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ جامعہ انس انی کے‬
‫انفرادی و اجتماعی اعمال و افع ال اور ک ردار ک ا آئینہ دار ہ وتی ہے۔ ت اریخ انس انی زن دگی کے مختل ف‬
‫شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے تاکہ تمد ِن انسانی ک ا ک ارواں‬
‫رواں دواں رہے۔ تاریخ دان مختلف جگہوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہیں جن میں پرانے نسخے‪،‬‬
‫شہادتیں‪ ،‬آثار قدیمہ‪ ،‬سینہ بہ سینہ روایات اور دوسری پ رانی چ یزوں کی تحقی ق ش امل ہے۔ البتہ مختل ف‬
‫ادوار میں مختلف ذرائع معلومات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کسی قوم کے ماضی کے واقعات جسے ع رف‬
‫عام میں تاریخ کہا جاتا ہے کسی بھی قوم کا قومی حافظہ ہوتا ہے‪ ،‬جتنا کسی انسان کی ذات کیلئے اس کا‬
‫شخصی حافظہ ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی کا حافظہ درست نہ ہو تو اسے معاشرے میں دیوانہ کہ ا‬
‫جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی قوم اپ نی ماض ی س ے ن اخبر اور التعل ق ہ و ت و وہ پ وری کی پ وری ق وم‬
‫دیوانوں ک ا ہج وم ہ و گی اور وہ گ زرے ہ وئے تجرب ات ک و دیکھ نے کے بج ائے خ ود تج ربہ ب نے گی۔‬
‫انفرادی دیوانگی کا نفع نقصان کسی شخص کی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن اجتماعی دیوانگی کے تب اہ‬
‫کن نقصانات کا احساس بھی پورے معاشرے کی بے حسی کے حوالے سے دل خراش ہے۔ کسی قوم کی‬
‫اپنی ماضی کی تاریخ سے درست واقفیت اس ق وم ک و اس قاب ل بن اتی ہے کہ وہ اپ نے ماض ی کی ق ومی‬
‫کمزوریوں اور کوتاہیوں کا درست تجزیہ کر کے اپنے حال کو س نوارے اور پھ ر اس ی درس ت ح ال کی‬
‫برکت سے شاندار مستقبل کیلئے پرجوش ولولے اور عزم کے ساتھ بالفعل متحرک ہو۔ پختونوں ک ا ای ک‬
‫قومی المیہ یہ بھی ہے کہ ہم زیادہ دور تو درکنار اپنے ماضی ق ریب یع نی ای ک ص دی کی ق ومی ت اریخ‬
‫سے بھی آگاہی حاصل نہیں کرتے‪ ،‬چند لوک داستانوں اور جنگی کہ انیوں ک و اپ نی پ وری ت اریخ س مجھ‬
‫بیٹھے ہیں جبکہ رہی سہی کسر مفلوج و معذور نصاب تعلیم نے پوری کی ہے جو قوم کو مکمل طور پر‬
‫اپنی حقیقی تاریخ سے متنفر کر کے ہیرا رانجھا کی لوک کہانیوں سے ان کے دل وں ک و بہالی ا جات ا ہے۔‬
‫ہماری بدبختی حال میں اٹکی ہے اور اس حال کو اپنی تاریخ سے درست واس طہ رکھ ک ر ہی ٹھی ک ک ر‬
‫سکتے ہیں۔ فرانسیسی مورخ ”مارک بلوخ“ نے روایتی تاریخ نویسی کے حوالے سے کہ ا تھ ا کہ ت اریخ‬
‫عمر رسیدہ ہو چکی ہے کیونکہ اس میں دیو ماالئی قصوں‪ ،‬کہانیوں اور مبالغہ آمیز روایات کی بھر م ار‬
‫ہو گئی ہے۔ تاریخ کو صرف پندرہ فیصد اشرافیہ کے گرد بن انے کی روایت ڈالی گ ئی ہے جبکہ پچاس ی‬
‫فیصد عام لوگ جو اصل تاریخ بنانے والے ہوتے ہیں ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ماضی میں تاریخ ک و‬
‫مصنوعی اور جھوٹی روایات کی بنیاد پر ناقابل اعتبار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بادشاہ سالمت کے‬
‫دربار میں لکھاریوں کو معاوضہ دے کر بٹھایا جاتا تھا اور کسی قسم کی تنقیح و تنقید کے بجائے بادش اہ‬
‫سالمت کی تقدیس و جالل کیلئے اسے مافوق الفطرت بنانے کی کوشش کی جاتی تھی مگر اب زمانہ بدل‬
‫گیا ہے۔ تاریخ اب قصہ گ وئی کے بج ائے ای ک مس تند حقیقت بن گ ئی ہے جس میں سائنس ی وس ائل کے‬
‫ساتھ ساتھ ڈی این اے تک سے مدد لی جاتی ہے۔ تاریخ کو عمر رسیدگی سے بچانے کیلئے مورخوں پ ر‬
‫ذمہ داری پڑتی ہے کہ وہ روایتی تاریخ کے ساتھ تاریخ کو اپنے درست منہج پ ر النے کیل ئے ت اریخ ک و‬
‫غیر روایتی انداز میں بھی پیش کریں تاکہ صدیوں سے پڑے جم ود اور مب الغہ آم یز روای ات ک ا س ائنس‬
‫کے ذریعے توڑ ہو سکے۔ عبد الخالق خلیق کے مط ابق ت اریخ ماض ی کے واقع ات س ے ع برت حاص ل‬
‫کرنے کا نام ہے۔ پختون مورخ بھادر شاہ ظفر کاکاخیل کے مطابق تاریخ اپنے وسیع تر مفہوم میں انسانی‬
‫زندگی کے مختلف کارناموں اور واقعات سے آگاہی کا نام ہے۔ رحیم شاہ رحیم کے مط ابق ت اریخ نہ علم‬
‫ہے نہ آرٹ بلکہ یہ اب جدید دور میں ایک س ائنس بن چکی ہے۔ ت اریخ ک و پہلی دفعہ سائنس ی ش کل میں‬
‫مسلمان مورخ محمد ابن خلدون نے چودہویں صدی عیسوی میں ترتیب دیا اگرچہ وہ بھی اپنی ت اریخ میں‬
‫اپنے ہی اصولوں سے ڈگمگائے ہیں۔ ابن خلدون کہ تے ہیں کہ ت اریخ زم انوں اور س لطنتوں کی روای ات‬
‫سے زیادہ اصلیت نہیں رکھتی لیکن درحقیقت تاریخ تحقیقی نظر‪ ،‬عام لوگوں کے باریک اصولوں اور ان‬
‫کی وجوہات کی بیان کی گہرائی کا نام ہے جس کا تعلق واقعات‪ ،‬کیفیات اور ان کے اسباب کے ساتھ ہوتا‬
‫ہے۔ ابن خلدون کے مطابق تاریخ کی ہر رگ فن کے س اتھ معل ق ہے اور علم ت اریخ اس قاب ل ہے کہ اس‬
‫کا شمار علوم سائنسیہ میں کیا جائے۔ علی خان مسید کے مطابق کسی ق وم کی ت اریخ نویس ی ب ڑا مش کل‬
‫کام ہے جو علم‪ ،‬وسائل اور درست حوالے کا محتاج ہوتی ہے‪ ،‬وہ کوئی آسان ک ام نہیں ہوت ا‪ ،‬مفروض وں‬
‫اور جھوٹی روایات سے تاریخ نہیں بنائی جا سکتی کیونکہ موجودہ سائنسی دور میں درست ح والے کے‬
‫پیچھے درست دلیل کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ تاریخ نویس ی کے ب ارے میں بہت س ی ب اتیں کہی‬
‫جا سکتی ہیں۔ قدیم داستان گوئی سے لے کر مذہبی اور الہامی کتابوں تک ک و انس ان ک ا ابت دائی ت اریخی‬
‫مآخذ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ بائبل کا عہد نامہ عتیق و جدید ہو ی ا رام ائن اور مہ ا بھ ارت ی ا پھ ر ق رآن‬
‫مجید اور دوسرے صحائف‪ ،‬ان میں روایات و حکایات کو خیر اور شر کی قوتوں کے م ابین ٹک راؤ کے‬
‫حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ اور ان سے سبق لینے اور ہ دایت پ انے کی ب اتیں کی گ ئی ہیں۔ گوی ا ت اریخ‬
‫نویسی کا آغاز خیر اور شر کی جدلیات کے بیان سے ہوا جسے انس ان کے ح ال اور مس تقبل کی بہ تری‬
‫کے لیے ہدایت پانے کا ذریعہ بتایا گیا۔ معروف معنوں میں ت اریخ نویس ی ک ا آغ از یون انیوں اوررومی وں‬
‫نے کیا۔ ہیروڈوٹس جسے تاریخ نویس ی ک ا ب اواآدم کہ ا جات ا ہے اور دی و ج انس‪ ،‬پلوٹ ارک اور ج وزفس‬
‫باقاعدہ تاریخ نویسی کے بانی کہے جا سکتے ہیں۔ قدیم تاریخ نویس ی حکم ران خان دانوں کے ب ارے میں‬
‫روایات و حکایات کو یکجا کرنے کا کام تھا مگر اب تاریخ کے علم نے بھی دوسرے بہت سے علوم کی‬
‫طرح پیچھے نہیں دیکھنا بلکہ آگے جانا ہے جس میں مستقبل میں قوموں کے عروج وزوال کی داستانوں‬
‫کے بجائے ان کے سائنسی ارتقاء کی امیدیں ہیں۔آج جو کچھ ہم اپنے وطن میں دیکھ رہے ہیں یہ کچھ نی ا‬
‫نہیں بلکہ اس خطے پر زمانوں سے تاریخ کے جبر کا تسلس ل ہے جس میں ہمیں اوروں ک و م ورد ال زام‬
‫ٹھہرانے کے بجائے خود احتسابی اور اپنی قومی و انفرادی غلطیوں کا درست تجزیہ بھی کرنا ہو گ ا تب‬
‫ہم اپنی ماضی سے درست سبق حاصل کر کے اپنے حال کو س نواریں گے اور اس کے واس طے روش ن‬
‫مستقبل میں داخل ہو سکیں گے۔‬

You might also like