Professional Documents
Culture Documents
The Great Game
The Great Game
’دی گریٹ گیم‘ :قراقرم کی چوٹیوں کے سائے میں روسی اور برطانوی جاسوسوں کی
آنکھ مچولی
انڈین فوجی انٹیلیجنس کے سابق چیف جنرل (ریٹائرڈ) امرجیت بیدی نے لداخ کے عالقے میں انڈیا اور چین کی
فوجی کشیدگی Dکے پس منظر میں حال ہی میں کہا تھا کہ انڈیا کو اپنی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کا جائزہ لینا چاہیے
اور چین کے ساتھ تنازعہ ختم ہونے کے بعد ان کی اصالح کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ جن پہاڑی سلسلوں میں آج
چین اور انڈیا آمنے سامنے ہیں وہاں پہلی بار بڑی عالمی طاقتیں آمنے سامنے نہیں آئی ہیں۔ ماضی میں یہ عالقہ
روس ،چین اور برطانوی انڈیا کے درمیان ایک بڑی کشمکش دیکھ چکا ہے۔
آج کل انسانی جرات ،قابلیت اور ذہانت کے ساتھ ساتھ سائنس اور جدید آالت پر دسترس بھی جاسوسی Dکے کام میں
اہم کردار Dادا کرتی ہے ،لیکن سائنسی Dدریافتوں کے دور سے پہلے اُس وقت صورتحال Dبالکل مختلف تھی۔ اس
ماحول کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہمالیہ ،قراقرم ،ہندو Dکش اور پامیر کے ہی پہاڑی سلسلوں میں چلتے ہیں،
لیکن دو سو سال ماضی میں۔ 19ویں صدی کے آغاز میں جانوروں Dکا ایک انگریز ڈاکٹر تبت پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ
ڈاکٹر ولیم مور کرافٹ سے پہلے اس عالقے سے سنہ 1715میں دو یورپی Dپادری گزرے تھے۔
اعلی نسل کے گھوڑوں ٰ سنہ 1808میں برطانیہ سے انڈیا آنے والے ڈاکٹر مور کرافٹ ،ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے
کی تالش میں تھے اور ان کا خیال تھا کہ تبت اور اس سے شمال میں انھیں ایسے جانور Dمل جائیں گے جو انڈیا میں
کمپنی کے کام آئیں گے۔
کوہ ہمالیہ کے دروں کے پار اس برفانی Dعالقے میں اپنے دوسرے یا تیسرے دورے کے دوران ڈاکٹر مور کرافٹ
ایک تبتی اہلکار کے گھر میں موجود تھے۔ ان کے لیے ہر چیز نئی تھی لیکن جس چیز نے انھیں حیران کر دیا وہ
وہاں دو یورپی Dنسل کے کتوں کی موجودگی Dتھی۔ کتوں نے جب ان کے فوجی Dاشاروں کو سمجھنے کا ثبوت دیا تو
مور کرافٹ نے سوچا اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ یہ کتے پہلے کسی فوجی Dکے پاس تھے۔ لیکن وہ فوجی
کون تھا اور یہ کتے اس عالقے میں کیسے پہنچے تھے؟ ان کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ پیٹر
ہوپکرک اپنی کتاب ’دی گریٹ گیم :دی سٹرگل فار ایمپائر ان سنٹرل ایشیا‘ میں لکھتے ہیں کہ مور کرافٹ کے
نزدیک اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ کوئی روسی بھی اس عالقے میں پہنچ چکا تھا۔ گاؤں والوں سے پوچھ گچھ
سے معلوم ہوا کہ انھیں یہ کتے کسی روسی Dتاجر سے ملے تھے ،لیکن مورکرافٹ کو یقین تھا کہ وہ روسی تو ہو
گا لیکن تاجر یقینا ً نہیں تھا۔
’دی گریٹ گیم (‘ )Peter Hopkirk
عالقے میں کسی روسی Dکی موجودگی Dکے امکان سے اس برطانوی Dڈاکٹر کو اپنے پرانے خدشات کے درست
ہونے کا ثبوت مل گیا کہ روس کسی نہ کسی طرح شمال مغرب کے راستے حملہ کر کے انڈیا کو برطانیہ Dسے
چھیننا چاہتے ہیں۔ ان دو کتوں کا مالک وہ روسی Dکون تھا اور کیا وہ اکیال تھا؟ کیا مورکرافٹ کا اس عالقے میں
آنے کا مقصد صرف گھوڑے خریدنا تھا؟ روسی سلطنت اپنے ایجنٹ یہاں کیوں بھیج رہی تھی اور برطانیہ Dکے لیے
اس میں پریشانی کی کیا بات تھی؟ ان سب باتوں کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے خطے کے آج کے حاالت کا
مختصر ذکر ضروری ہے۔ روسی Dاور برطانوی Dسلطنتوں کے لیے ان پہاڑوں میں کسی مہم جوئی سے پہلے یا
کسی ممکنہ یلغار کو روکنے کے لیے معلومات کا ذریعہ تھے ولیم مورکرافٹ اور انھیں ملنے والے یورپی Dنسل
کے کتوں کے روسی مالک جیسے بہت سے نوجوان افسر۔ Dان افسروں اور ایجنٹوں نے اپنی زندگی کے کئی سال
ہمالیہ ،قراقرم ،پامیر جیسے پہاڑی سلسلوں اور خطے کے صحراؤں میں بھیس بدل کر گھومتے ہوئے گزار دیے۔
پیٹر ہوپکرک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ روس اور برطانوی سلطنت کی ایشیا میں اس کشمکش کو ’گریٹ گیم‘
کا نام بھی ایک ایسے ہی نوجوان برطانوی Dفوجی/جاسوس Dنے دیا تھا جو خود بھی وسطی ایشیا کی ایک ریاست میں
اسی ’گریٹ گیم‘ کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اس نوجوان افسر کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔ روس
میں کئی نسلوں سے وسطی Dایشیا اور اس کے پار کے عالقوں میں دولت کی ریل پیل کی کہانیاں پہنچ رہی تھیں اور
ایک طاقتور Dسلطنت بننے کے بعد اب وہ ان کی حقیقت جاننے کے عالوہ اس عالقے کی تجارت میں حصہ بھی
چاہتا تھا۔ دوسری Dطرف انڈیا میں بہت سے برطانوی Dاہلکاروں کو خدشات الحق ہونا شروع ہو گئے تھے کہ شمال
میں اونچے پہاڑوں کے باوجود روس وہاں پہنچنے کی کوشش ضرور کرے گا۔
پیٹر ہوپکرک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وسیع بساط جس پر سیاسی باالدستی Dکی یہ پراسرار Dلڑائی لڑی گئی
مغرب میں کوہ قاف Dکی برف پوش چوٹیوں سے لے کر وسطی Dایشیا کے صحراؤں اور پہاڑی سلسلوں سے ہوتی
ہوئی مشرق میں چینی ترکستان اور تبت تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور اس کھیل کا اصل ہدف کم سے کم لندن اور کلکتہ
میں برطانوی Dاہلکاروں کے ذہن میں اور ایشیا میں تعینات روسی افسروں کے خیال میں صرف ایک تھا’ :برٹش
انڈیا‘۔ اس وضاحت کے بعد کہانی کا رُخ ایک بار پھر ولیم مور کرافٹ اور ان کے مدمقابل روسی Dجاسوسوں کی
طرف کرتے ہیں۔
تبت والے روسی کپڑا پہنیں گا یا برطانوی
ولیم مورکرافٹ Dکو جب تبت میں روسی فوجیوں Dکی موجودگی کا شبہ ہوا تو اس کے بعد سنہ 1825میں اپنی موت
تک وہ کلکتہ میں اپنے افسران کو وسطی ایشیا میں روس کے عزائم کے بارے میں خط لکھ لکھ کر خبردار کرتے
رہے۔ کتاب ’دی گریٹ گیم‘ کے مطابق Dانھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو فیصلہ Dکرنا ہے کہ
’ترکستان اور تبت کے لوگ روس کے کپڑے پہنیں گے یا برطانیہ کے اور برمنگھم Dمیں بنے ہوئے لوہے اور سٹیل
کے اوزار خریدیں گے یا سینٹ پیٹرز Dبرگ میں۔‘
سنہ 1819میں مورکرافٹ Dکی مستقل مزاجی کام دکھا گئی اور انھیں وسطی ایشیا میں بخارا تک دو ہزار میل کے
سفر کے لیے گرانٹ مل گئی۔ لیکن اس دورے کے دوران پکڑے جانے یا روس کی طرف سے احتجاج کی صورت
میں حکومت ان سے التعلقی ظاہر کر سکتی تھی۔ اب ان کے مشن کے راستے میں ایک اور مشکل تھی۔ بخارا تک
کا براہ راست راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا Dتھا جو اس وقت شدید خانہ جنگی کی زد میں تھا۔ ہوپکرک لکھتے
ہیں کہ انھوں نے افغانستان کو بائی پاس کرتے ہوئے شمال سے چینی ترکستان میں کاشغر کے ذریعے بخارا جانے
کا فیصلہ Dکیا اور اس کے لیے پہلے لداخ میں لیہہ جانا ضروری تھا۔
کتاب کے مطابق وہ ستمبر Dسنہ 1820میں لیہہ پہنچے اور وہ اس عالقے میں آنے والے پہلے برطانوی Dتھے۔
انھوں نے آتے ہی قراقرم Dکے پار یارکند میں چینی حکام سے رابطے کی کوششیں شروع Dکر دیں۔ لیکن انھیں جلد
اندازہ ہو گیا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ یارکند لیہہ سے 300میل دور تھا اور راستے میں دنیا
کے مشکل ترین پہاڑی راستے تھے اور جواب آنے میں کئی مہینے لگ سکتے تھے۔ دوسرا یہ کہ مقامی تاجر جو
نسلوں سے وہاں کاروبار Dکر رہے تھے اور جن کی لیہہ یارکند روٹ پر اجارہ داری تھی ،ایسٹ انڈیا کمپنی کے
آنے سے بالکل خوش نھیں تھے۔
مورکرافٹ Dنے ان میں سے کچھ کو کمپنی کا ایجنٹ تعینات کرنے کی بھی کوشش کی لیکن وہ خوش نہیں تھے اور
کتاب ’دی گریٹ گیم‘ کے مطابق بعد میں برطانیہ Dکو معلوم ہوا کہ ان تاجروں نے چینیوں سے کہا تھا کہ جیسے ہی
کمپنی کے ایجنٹوں کو اس راستے سے گزرنے کی اجازت ملے گی وہ اپنی فوج لے کر آ جائیں۔
لیہہ میں بھی روسی ایجنٹ بازی لے گیا
مورکرافٹ Dکو ابھی لیہہ میں زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ان کا بڑا خدشہ تبت کی طرح یہاں بھی درست ثابت ہو گیا۔
ایک روسی ایجنٹ پہلے ہی عالقے میں قدم جما چکا تھا۔
بظاہر وہ ایک مقامی تاجر تھا لیکن جلد ہی مورکرافٹ Dکو علم ہوا کہ وہ آدمی ،آغا مہدی ،دراصل روس کا اہم ایجنٹ
تھا جو (تقریبا ً ساڑھے چار ہزار کلومیٹر دور) سینٹ پیٹرزبرگ میں اپنے آقاؤں کے لیے اہم تجارتی اور سیاسیD
مشن انجام دیتا تھا۔
آغا مہدی عرف مہکتی رافیلوو کون تھا؟
پیٹر ہوپکرک نے لکھا ہے کہ آغا مہدی نے ایک عام قلی کی حیثیت سے اس عالقے میں کام شروع Dکیا تھا اور جلد
ہی وہ اپنی خوبصورتی Dکی وجہ سے پورے ایشیا میں مشہور کشمیری شالوں کے تاجر بن گئے اور انھی شالوں کا
کاروبار Dکرتے کرتے وہ سینٹ پیٹرزبرگ پہنچ گئے۔ سینٹ پیٹرزبرگ Dمیں ان کی کشمیری شالوں نے روس کے
حکمران ’زار الیگزینڈر کی توجہ بھی حاصل کر لی جنھوں نے اس زبردست تاجر سے ملنے کی خواہش ظاہر
کی۔‘ یہاں ایک دلچسپ پیشرفت ہوئی۔ Dزار الیگزینڈر نے آغا مہدی کو لداخ اور کشمیر کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم
کرنے کی ہدایات کے ساتھ واپس روانہ کیا۔ ’وہ اس میں کامیاب رہے اور اب کچھ روسی Dمصنوعات ان عالقوں
کے بازاروں میں نظر آنے لگیں۔‘ کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ جب وہ دوبارہ سینٹ پیٹرزبرگ گئے تو
زار نے انھیں ایک چین اور سونے کے میڈل کے ساتھ روسی نام بھی دیا :مہکتی رافیلوو۔D
روس کا مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے پیغام
’روس کے زار کی طرف Dسے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تاجروں کے ساتھ تجارت کی خواہش ظاہر کی گئی تھی
اور لکھا تھا کہ انھیں روس میں خوش آمدید کہا جائے گا'
لیکن اس بار آغا مہدی عرف مہکتی رافیلوو Dکو ایک نئے اور سیاسی مشن کے ساتھ روس سے واپس بھیجا گیا۔ ان
کی منزل اب لداخ اور کشمیر سے سینکڑوں میل جنوب میں پنجاب کی سلطنت میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دربار
تھا۔
ہوپکرک لکھتے ہیں کہ انھیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم Dکرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ’ان
کے پاس زار کا ایک تعارفی Dخط تھا جس پر روس کے وزیر Dخارجہ کے دستخط تھے۔ اس میں روس کی طرفD
سے رنجیت سنگھ کے تاجروں کے ساتھ تجارت کی خواہش ظاہر کی گئی تھی اور لکھا تھا کہ انھیں روس میں
خوش آمدید کہا جائے گا۔‘ کتاب کے مطابق برطانوی ڈاکٹر مور کرافٹ کو جلد ہی اس پیشرفت کا پتہ چل گیا تھا۔
انھیں احساس ہو گیا تھا کہ آغا مہدی میں وہ تمام صالحیتیں تھیں جو ان کے مشن کے لیے اہم تھیں مثالً مقامی
عالقے کی معلومات اور لوگوں میں مقبولیت اور کاروباری Dذہانت۔
ہوپکرک لکھتے ہیں کہ مور کرافٹ نے یہ تمام معلومات گیارہ سو میل دور جنوب میں اپنے افسران کو لکھنے میں
دیر نہیں کی۔ لیکن آغا مہدی کی کہانی اچانک قراقرم کے بلند و باال دروں میں ،ان کی موت کے ساتھ ،،مہاراجہ
رنجیت سنگھ کے دربار Dمیں پہنچنے سے پہلے ختم ہو گئی۔ وہ کیسے ہالک ہوئے یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا۔
تاہم ہوپکرک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مورکرافٹ نے لندن اپنے ایک دوست کو خط میں کہا تھا کہ ’اگر
رافیلوو Dکچھ دیر اور زندہ رہ جاتا تو اس نے ایشیا میں ایسی صورتحال پیدا کر دینی تھی کہ یورپ میں کچھ
کابینائیں حیران رہ جاتیں۔‘ جیسے آغا مہدی نے روسی Dسلطنت کے لیے خدمات انجام دیں اسی طرح باقاعدہ روسیD
فوجی افسر Dبھی انڈیا اور افغانستان تک جانے والے راستوں کو سمجھنے کے لیے مہمات کا حصہ بنے۔
روسی افسر ترک کے بھیس میں جارجیا سے خیوا کیسے پہنچا؟
سنہ 1819میں جورجیا کی ریاست میں روسی فوج کے صدر دفتر میں تعینات ایک 24سالہ روسی فوجی Dافسر
نکوالئی مراوی Dایو ایک مشن کے لیے روانہ ہوا جو بہت سے لوگوں کے لیے شاید ’خودکشی‘ Dکے برابر Dتھا۔
مراوی ایو کا مشن ایک ترک کا روپ دھار کر مشرق میں سنسان میدانوں اور سمندر Dپار 800میل دور خیوا میں
تھا۔
راستے میں ایک صحرا تو تھا ہی لیکن اغوا کر کے غالم کے طور پر فروخت کیے جانے یا لٹیروں کے ہتھے
چڑھنے کا خطرہ بھی تھا۔ ان کا وسطی Dایشیا کی ریاست کے خان کو رام کرنا اور مستقبل میں روس کے ممکنہ
حملے کے لیے حاالت سازگار بنانا تھا۔ ان کے کام میں ان کے برطانوی ہم منصوبوں کی طرح عالقے کے
جغرافیہ اور دفاعی صالحیتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور خطے کی دولت کے بارے میں مشہور
کہانیوں کی حقیقت معلوم کرنا بھی تھا۔
ہوپکرک لکھتے ہیں کہ ان کے مشن میں ان روسیوں کے حاالت معلوم کرنا بھی تھا جنھیں بڑی تعداد میں اغوا کر
کے غالم بنا کر ان عالقوں میں بیچ دیا گیا تھا۔ اس ضمن میں ان کی فراہم Dکی گئی معلومات نے روس کو مستقبل
میں وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں فوجی Dکارروائیوں کا زبردست Dجواز پیش کر دیا تھا۔ کتاب ’دی گریٹ
گیم‘ میں لکھا ہے کہ ناکامی یا پکڑے جانے کی صورت میں اس نوجوان افسر کو معلوم تھا کہ ان کی سلطنت ان
سے التعلقی کا اظہار کر دے گی۔ جس طرح برطانوی Dڈاکٹر ولیم مورکرافٹ Dشمالی پہاڑی سلسلوں میں متحرک
تھے کچھ برطانوی اہلکار جنوبی Dافغانستان اور بلوچستان کی ریکی میں مصروف تھے۔
بمبئی سے ہرات اور فارس براستہ نوشکی :دو برطانوی ایجنٹوں کا ہزاروں میل کا سفر
دی گریٹ گیم میں لکھا ہے کہ ففتھ بمبئی نیٹو انفینٹری کے کیپٹن چارلس کرسٹی اور لیفٹننٹ ہنری پوٹنگر Dسنہ
1810میں جاسوسی Dکے مشن پر بھیس بدل کر بلوچستان Dکے راستے افغانستان اور ایران کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ
اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اس عالقے میں لوگوں نے کبھی پہلے کوئئی Dیورپی نہیں دیکھا تھا۔
پوٹنگر بمبئی سے روانہ Dہونے کے چار ماہ بعد ہرات میں داخل ہوئے۔ ان کے بیس سالہ ساتھی پوٹنگر کی منزل نو
سو میل دور فارس میں تھی۔ ان کے راستے میں دو بڑے صحرا تھے اور اس سفر میں انھیں تین ماہ لگے۔
کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ مغرب کے راستے انڈیا پر کسی حملے کی خوف میں مبتال برطانویوں کے
لیے ہرات کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ یہ شہر مغرب سے انڈیا آنے والے فاتحین کے راستے میں تھا۔ یہاں سے کوئی
بھی فوج خیبر یا بوالن پاس کے ذریعے انڈیا داخل ہو سکتی تھی۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ وسیع و عریض صحراؤں
اور دشوار گزار پہاڑوں کے بیچ میں یہ شہر ایک زرخیز Dوادی میں تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں
ایک پوری فوج کے لیے پانی اور خوراک موجود Dتھی۔ کرسٹی Dکا کام اس بات کی تصدیق Dکرنا تھا۔
انھوں نے لکھا ہے کہ کرسٹی بمبئی سے روانہ ہونے کے چار ماہ بعد شہر کے مرکزی Dدروازے میں داخل ہوئے۔
وہ ایک مسلمان مذہبی شخصیت کا بھیس چھوڑ کر اب ایک تاجر کے روپ میں تھے جو گھوڑوں کی خریداریD
کے لیے نکال تھا کیونکہ Dان کے دستاویزات میں یہی لکھا تھا۔ وہ ایک مہینہ وہاں رہے اور بہت باریکی سے شہر
کے بارے میں نوٹس لیے۔ ہوپکرک نے لکھا ہے کہ بلوچستان سے روانہ Dہونے کے بعد کرسٹی Dنے 2250میل سفر
کیا تھا جبکہ پوٹنگر Dنے 2400میل سے زیادہ۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ ان دونوں افسران کے کام میں راستے کے
ہر گاؤں اور بستی کی تفصیل نوٹ کرنا ،ہر کنویں اور تاالب کا ذکر اور دفاعی نقطہ نظر سے اہم مقامات کا اندراج
کرنا شامل تھا۔ ان افسران نے راستے میں ملنے والے قبائل اور ان کی زندگی کے حاالت کے بارے میں تفصیلی
معلومات اکٹھی کیں۔
جب نیپولین نے روس کے زار کو مل کر انڈیا پر حملے کا مشورہ دیا
کتاب ہمالین بیٹل گراؤنڈ میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ انڈیا کی دولت کی چکا چوند کئی بار حملہ آوروں کو کھینچ کر
یہاں ال چکی تھی اور اس خطے کے لوگوں نے حملوں کے مستقل خوف میں رہنا سیکھ لیا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں
کہ برطانیہ Dکا انڈیا کے شمال مغرب میں اپنے زیر تسلط عالقوں میں اضافے اور اپنی سلطنت کی حدود کو پھیالنے
کے دوران شمال سے جنوب کی طرف مغربی Dترکستان کی ریاستوں طرف Dپیشقدمی کرتی ہوئی روسی Dسلطنت سے
سامنا ہوا۔ ’ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ ناگزیر Dلگنے لگا اور دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے عزائم
کے بارے میں شکوک و شبہات نے صورتحال کو زیادہ خطرناک بنا دیا۔‘ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ سنہ 1807میں
لندن میں اس وقت خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی تھیں جب خبر پہنچی کہ فرانس کے حکمران نیپولین بونا پارٹ نے
روس کے زار ایلیگزیبڈر ا ّول کو مل کر انڈیا پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی ہے۔ تاہم جلد ہی دونوں میں
اختالفات کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
جب روس نے سوچا کیوں نہ مسلمانوں سے مغلیہ سلطنت کو بحال کرنے کا وعدہ کیا جائے؟
کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ پیٹر دی گریٹ پہلی روسی Dزار تھے جن کی نظر انڈیا کی طرف گئی تھی۔ ان
کے زمانے میں وسطی Dایشیا میں دریائے آکسس کے پار سونے کے بڑے ذخائر کی خبریں آتی تھیں۔ انھوں نے
روسی سیاحوں سے انڈیا کے بارے میں سُن رکھا تھا کہ وسطی Dایشیا کی ریاستوں کے پار یہ ملک دولت سے ماال
مال ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بحر کیسپین کے پار تعلقات بڑھانے کے لیے خیوا کی طرف ایک مشن بھی
روانہ کیا لیکن وہ ناکام رہا۔ زار پیٹر دی گریٹ کی موت کے کچھ عرصے کے بعد سنہ 1725میں روس میں ایک
کہانی گردش کرنے لگی کہ ان کے عظیم بادشاہ نے بستر مرگ پر وصیت کی تھی کہ ان کے بعد آنے والے
حکمران روس کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنائیں گے اور مؤرخین کے مطابق اس خواب کی تکمیل کی دو
چابیاں تھیں :انڈیا اور قسطنطنیہ۔ اس کہانی کے مطابق انھوں نے اپنے بعد آنے والوں کو حکم دیا تھا کہ اس منزل
کے حصول تک ان کا کام ختم نہیں ہو گا۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ پیٹر دی گریٹ کے تقریبا ً 40برس بعد کیتھرین
دی گریٹ کا زمانہ شروع Dہوا اور روس نے ایک بار انڈیا میں دلچسپی Dدکھانا شروع کر دی جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی
اب اپنے قدم جما رہی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1791میں اپنے دور کے آخری حصے میں کیتھرین نے انڈیا میں دلچسپی ظاہر Dکی تھی اور
شاید اس کا منصوبہ Dانھیں غالبا ً ایک فرانسیسی Dنے پیش کیا تھا۔ اس فرانسیسی نے کیتھرین کو تجویز پیش کی کہ وہ
بخارا اور کابل کے راستے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھیں کہ وہ مغلیہ سلطنت کو بحال کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم ان کے
ایک اعلی اہلکار نے انھیں اس پر عمل کرنے سے باز رکھا۔یہ اگلی صدی Dمیں انڈیا پر روس کے حملے کے بہت
سے منصوبوں کے سلسلے کی پہلی کڑی تھی۔
اور گریٹ گیم شروع ہو گئی
مؤرخ لکھتے ہیں کہ 19ویں صدی میں روس کے حملے کا خطرہ بہت حقیقی تھا۔تقریبا ً چار صدیوں سے روس 55
مربع میل یومیہ یا 20ہزار میل ساالنہ کے حساب سے مشرق کی طرف پیشرفت کر رہا تھا۔ 19ویں صدی کے
آغاز پر ایشیا میں روس اور برطانوی سلطنتوں کے درمیان دو ہزار میل کی دوری تھی جو کہ صدی کے اختتام
تک کم ہو کر چند سو میل رہ گئی تھی اور پامیر کے کچھ عالقوں میں تو یہ فاصلہ 20میل تھا۔‘ مؤرخین کے
مطابق 19ویں صدی کے وسط Dتک شاہراہ ریشم کے تاریخی Dشہر ایک ایک کر کے روس کے قبضے میں جا رہے
تھے۔ سنہ 1865میں تاشقند بھی روس نے فتح کر لیا تھا۔ مزید تین سالوں میں ثمرقند Dاور بخارا بھی زار کی سلطنت
کا حصہ بن چکے تھے۔
برطانیہ Dکا خیال تھا کہ بلند و باال ہندو کش اور پامیر کے پہاڑی سلسلے ان کے عالقوں کو ہمیشہ Dروس کی یلغار
سے محفوظ رکھیں گے اور یہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ کتاب ’ہمالین بیٹل گراؤنڈ :سائنو Dانڈیا رائولری اِن
لداخ‘(ہمالیائی میدان جنگ :لداخ میں انڈیا چین دشمنی) میں لکھا ہے کہ ان پہاڑی سلسلوں میں گھومتے پھرتے
برطانوی Dایجنٹوں کی ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹوں نے بھی سلطنت کے محفوظ ہونے کے اس احساس کو تقویت
بخشی۔ ان ایجنٹوں کا کام ان دشوار گزار پہاڑوں میں چھپے ہوئے ایسے ممکنہ راستوں کی تالش تھی جہاں سے
روس انڈیا میں داخل ہو سکتا تھا۔
کتاب میں لکھا ہے کہ ایسے ہی ایک برطانوی افسر Dتھامس گورڈن جنھوں نے سنہ 1873میں پامیر کے پہاڑی
سلسلے میں وقت گزارا تھا لکھا کہ مشرقی( Dیا چینی) ترکستان اور لداخ کے درمیان بلند و باال پہاڑ کسی بھی جدید
فوج کو اس طرف Dنہیں آنے دیں گے لیکن پامیر اور گلگت اور چترال میں دروں کے بارے میں کچھ نھیں کہا جا
سکتا۔
’ہمالین بیٹل گراؤنڈ‘کے مطابق اسی طرح کی ایک رپورٹ سر ہنری رالنسن نے سنہ 1876میں لکھی تھی کہ
’میرے خیال میں اس راستے سے روس کے ساتھ ٹکراؤ کا ذرا بھی خطرہ نھیں۔۔۔ ان دوسرے راستوں کے ہوتے
ہوئے کوئی بھی فوج کبھی بھی۔۔۔قراقرم Dسے پنجاب تک پھیلے ہوئے ان پہاڑوں کے راستے آنے کی کوشش نہیں
کرے گی جہاں ایک کے بعد ایک 15سے 19ہزار فٹ بلندی والے درے ہیں۔ انڈیا کے شمال مغرب میں یہ عالقہ
سب سے دشوار گزار ہے اور نتیجتا ً اس عالقے میں دو بڑی سلطنتوں کے ٹکراؤ کا امکان انتہائی کم ہے۔‘ لیکن
مؤرخ لکھتے ہیں کہ سنہ 1885میں روس کی وسطی Dایشیا میں پیش قدمی نے برطانیہ Dکو کشمیر Dکے راستے
روس کے ممکنہ حملے کے بارے ہوشیار کر دیا۔ پھر سنہ 1888میں جب ایک برطانوی افسر ایلگرنن ڈیورنڈ Dنے
ہنزہ سے واپسی پر الہور آ کر رپورٹ دی کہ انھوں نے گلگت سے گزرتے ہوئے سُنا تھا کہ ایک روسی Dافسر ہنزہ
میں دیکھا گیا ہے۔ اس کی اطالع بالکل درست تھی۔ یہ روسی Dافسر کیپٹن ُگرومچیوسکی تھا جو پامیر کے پہاڑی
سلسلے اور مشرقی Dترکستان کے درمیان راستہ Dتالش کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اور یوں پھر جیسا کہ ڈیورنڈ
نے کہا ’کھیل شروع ہو گیا۔‘
ہنزہ کے عالقے میں خفیہ پہاڑی راستے کی تالش جہاں سے ڈاکو آتے تھے
سنہ 1888میں ایک برطانوی Dافسر ایلگرنن ڈیورنڈ نے ہنزہ سے واپسی پر الہور آ کر رپورٹ دی کہ انھوں نے
گلگت سے گزرتے ہوئے سنا تھا کہ ایک روسی افسر ہنزہ میں دیکھا گیا ہے.روسی کیپٹن گرومچیوسکی کی ہنزہ
میں آمد اور ان کے ذریعے ہنزہ کے حکمران کا روس کے قریب ہونے کا امکان تو برطانیہ Dکے لیے تشویش کا
باعث تھا ہی اس کے ساتھ ایک اور بڑا مسئلہ بھی تھا :ہنزہ میں ایک خفیہ پہاڑی درہ جہاں سے لیہہ یارکند روٹ پر
حملہ کیا جا سکتا تھا۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ برسوں سے حملہ آور اس خفیہ درے سے آ کر لیہہ اور یارکند کے
بیچ سفر کرنے والے تاجروں کو لوٹ کر خفیہ راستے سے غائب ہو جاتے تھے۔’یہ نہ صرف Dبرطانوی Dاشیا میں
وہاں جو تھوڑی بہت تجارت ہوتی تھی اس کا گال گھونٹنے کے مترادف Dتھا بلکہ انڈیا کے دفاع کی ذمہ داران کا
خیال تھا کہ اگر لٹیرے یہ راستہ استعمال کر سکتے ہیں تو کل کو روس بھی اسی راستے کے ذریعے آ سکتا ہے۔‘
کلکتہ میں برطانوی Dنے اس خفیہ درے کی تالش کا فیصلہ Dکر لیا اور اس کی ذمہ داری کیپٹن ینگہزبینڈ کو سونپی
گئی جنھیں پہلے ہی چین سے ایک نئے راستے سے انڈیا تک کا 1200میل کا سفر کرنے کے بعد کافی شہرت مل
چکی تھی۔
برطانوی فوجی افسر نے روسی کیپٹن کے نقشے پر کیا دیکھا
ینگہزبینڈ آٹھ اگست 1889کو کشمیری اور گورکھا Dسپاہیوں کے ایک گروپ کے ساتھ لیہہ سے قراقرم پاس کے
ذریعے ایک دور افتادہ گاؤں شاہد ہللا کی طرف روانہ ہوئے۔ بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر اس گاؤں میں زیادہ تر تاجر
رہتے تھے جو لیہہ یارکند روٹ پر اکثر سفر کرتے تھے۔ وہ ان تاجروں سے اس خفیہ راستے (شمشال پاس) کے
بارے میں معلوم کرنا چاہتے تھے۔ انھیں اس گاؤں تک پہنچنے میں 15روز لگے۔ وہاں لوگوں نے بتایا کہ چینی
حکام ان کی لٹیروں کے بارے میں شکایات پر دھیان نہیں دیتے کیونکہ وہ انڈیا اور سنکیانگ کے درمیان تجارت
کے حق میں نہیں تھے کیونکہ اس سے ان کی اپنی چائے کی تجارت متاثر ہوتی Dتھی۔ ینگہزبینڈ Dاس گاؤں سے
شمشال پاس کے بارے میں معلومات حاصل کر کے روانہ Dہوئے اور 41روز Dکے بعد ایک انتہائی مشکل راستے
سے گزر کر اس قلعے تک پہنچے جو ڈاکوؤں کا ٹھکانہ تھا اور جہاں سے اس خفیہ راستے شمشال پاس پر نظر
رکھی جاتی تھی۔ قلعے میں لوگوں سے بات چیت کر کے انھیں اندازہ ہوا کہ یہ لوگ کسی کے کہنے پر لیہہ یارکند
روٹ پر قافلے لوٹتے ہیں۔ اسی دوران ایک دلچسپ پیشرفت Dہوئی۔ کیپٹن ینگہزینڈ کو اطالع ملی کہ روسی کیپٹن
گرومچیوسکی Dعالقے میں واپس آ چکے ہیں اور انھوں نے ان سے ملنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔ کیپٹن ینگہزبینڈ
نے بعد میں اس مالقات کے بارے میں لکھا بھی تھا۔ انھوں نے اُس رات پہاڑوں روسی میزبانوں نے پُرتکلف کھانا
پیش کیا اور خوب ووڈکا Dپی گئی۔ برطانوی Dکیپٹن نے روسی Dافسر کے نقشے پر پہاڑی سلسلے پامیر Dمیں ایک
راستے پر الل نشان لگا ہوا دیکھا۔ ’اب اس بات میں کوئی شک باقی نھیں تھا کہ روس اس سنسان عالقے کے بارے
میں جانتا ہے جہاں روس ،افغانستان ،چین اور برطانوی Dانڈیا ملتے ہیں۔‘ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ گرومچیوسکی نے
برطانوی Dافسر پر واضح کیا کہ روس کی فوج میں افسروں اور جوانوں کو ایک ہی چیز کا انتظار ہے اور وہ ہے
انڈیا پر مارچ کا حکم۔
دو مخالف سلطنتوں کے افسران نے ان بلند برف پوش چوٹیوں کے سائے میں اپنی حکومتوں کی پالیسیوں Dکا دفاع
کیا ،ایک دوسرے کے عزائم کو سمجھنے کی کوشش کی اور غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے سے
معلومات بھی نکلوانے کی کوشش کی۔ تین روز اکٹھے گزارنے کے بعد وہ اپنے اپنے خفیہ مشن پر روانہ ہو گئے۔
لیکن یہ دونوں کے درمیان آخری رابطہ نھیں تھا۔ برسوں بعد ینگہزبینڈ کو اپنے پرانے دشمن کا خط مال۔
ہوپکرک لکھتے ہیں کہ گرومچیوسکی نے اس خط میں بتایا کہ کیسے وہ جنرل کے عہدے تک پہنچا اور پھر
1917کے انقالب کے بعد ان سے سب کچھ چھین کر انھیں سائبیریا Dمیں قید کر دیا گیا۔ وہ وہاں سے فرار ہونے میں
کامیاب ہونے کے بعد پولینڈ Dپہنچ گئے جہاں سے ان کے خاندان کا اصل میں تعلق تھا۔
گرومچیوسکی Dنے اپنی مہمات کے بارے میں اپنی کتاب بھی خط کے ساتھ ینگہزبینڈ Dکو بھیجی تھی جو برطانیہD
میں بہت سے اعزازات اور انعامات سے نوازے جا چکے تھے۔
روس ،برطانیہ اور چین کی اس ’گریٹ گیم‘ میں بہت سے افسران ،سپاہی اور ایجنٹ شامل تھے اور جو اس کام
میں ہالک بھی ہوئے۔
بخارا میں دو برطانوی افسروں کی ہالکت
دونوں برطانوی Dافسران کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بخارا کے ساتھ روس کے خالف اتحاد میں اپنے ساتھ مالنے کے
لیے بھیجا تھا۔ ہوپکرک نے اپنی کتاب میں تفصیل سے دو برطانوی افسران کرنل چارلس سٹوڈارٹ اور کیپٹن آرتھر
کونولی کی بخارا میں ہالکت کی تفصیل بتائی ہے۔ یہ واقعہ Dجون سنہ 1842میں پیش آیا۔
ہوپکرک لکھتے ہیں کہ دونوں افسران جو برطانیہ میں اپنے گھر سے تقریبا ً چار ہزار میل دور تھے کئی ماہ سے
مقامی امیر کی قید میں تھے۔ دونوں اس بڑی کشمکش کا حصہ بننے کی قیمت ادا کر رہے تھے جسے ’دی گریٹ
گیم‘ کا نام دیا گیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ان دونوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بخارا کے ساتھ روس کے خالف
اتحاد میں اپنے ساتھ مالنے کے لیے بھیجا تھا۔ ہوپکرک لکھتے ہیں ’المیہ یہ تھا کہ یہ کرنل ہی تھے جنہوں نے
پہلی بار گریٹ گیم کی اصالح گھڑی تھی۔۔۔ کئی سال بعد میں (رڈیارڈ) کپلنگ نے اپنے ناول کم کے ذریعے اسے
مشہور کر دیا تھا۔‘
دی گریٹ گیم ختم کیسے ہوئی؟
طے پایا تھا کے دونوں طاقتیں تبت میں مداخلت نہیں کریں گی اور اس کے ساتھ کوئی بھی معاملہ چین کے ذریعے
طے کیا جائے گا۔ سنہ 1905کے دسمبر میں برطانیہ Dمیں سر ہنری کیمبل بینر مین کی قیادت میں نئی کابینہ وجود
میں آئی۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ روس اور برطانیہ دونوں حکومتیں اب ایشیا کے بارے میں تنازعات ہمیشہ کے
لیے حل کرنا چاہتی تھیں جس پر حالیہ دہائیوں میں دونوں ممالک کا بہت وقت اور توانائی Dصرف ہوتی چلی آ رہی
تھی۔انھوں نے لکھا ہے کہ کئی مہینوں تک جاری رہنے والے یہ مذاکرات صرف تین ممالک تبت ،افغانستان Dاور
ایران پر مرکوز تھے اور یہ تینوں ممالک انڈیا کے دفاع کے لیے بہت ضروری Dتھے۔ بہت سے اختالفات اور لے
دے کے بعد باآلخر اگست سنہ 1907میں برطانیہ Dکے وزیر خارجہ سر ایڈورڈ Dگرے اور روس کے وزیر خارجہ
کاؤنٹ الیگزینڈر ازولسکی Dکے درمیان اتفاق رائے ہو گیا۔
’گریٹ گیم تیزی سے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔‘ہوپکرک لکھتے ہیں کہ برطانیہ اب جرمنی کے بارے میں
فکرمند تھا۔ ’ 31اگست کو سینٹ پیٹرز برگ میں انتہائی رازداری Dکے ساتھ روس برطانیہ نے ایک تاریخی معاہدے
پر دستخط Dکر دیے۔ ` طے پایا تھا کے دونوں طاقتیں تبت میں مداخلت نہیں کریں گی اور اس کے ساتھ کوئی بھی
معاملہ چین کے ذریعے طے کیا جائے گا۔
ہوپکرک لکھتے ہیں کہ روس نے افغانستان پر برطانیہ Dکا اثر و رسوخ تسلیم کر لیا اور دونوں نے وہاں اپنے ایجنٹ
نہ بھیجنے کا عہد کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ برطانیہ نے وسطی Dایشیا میں زار کی حکمرانی کی مخالفت نہ کرنے کی
بھی ضمانت دی۔ ایران کے معاملہ میں اس فیصلے کے مطابق Dملک کی آزادی کا پاس کرنے کا عہد ہو گیا اور
ساتھ ہی روس کا اس کے شمال اور وسطی حصوں میں اثر تسلیم کیا گیا جبکہ ملک کے جنوب پر برطانیہ Dکے اثر
کو تسلیم کیا گیا۔ روس اور برطانیہ کے درمیان اس معاہدے کی دونوں ممالک میں شدید مخالفت ہوئی۔ ہوپکرک
لکھتے ہیں کہ ایران اور افغانستان Dکو بھی ان سے مشاورت نہ کیے جانے پر شدید اعتراض تھا۔ ’باآلخر روس کے
حملے کا ڈر ختم ہو گیا۔ اس کام میں تقریبا ً ایک صدی لگ گئی جس میں دونوں طرف سے بہت سے بہادر لوگوں
کی جانیں گئیں لیکن آخر میں مسئلہ سفارتکاری Dکے ذریعے ہی حل ہوا۔‘ ہوپکرک لکھتے ہیں اگست سنہ 1914میں
روس اور برطانیہ ایشیا اور یورپ میں جرمنی اور ترکی کے خالف جنگ میں اتحادی کی حیثیت میں شامل ہوئے۔
لیکن پھر روس میں اکتوبر Dسنہ 1917میں انقالب آ گیا اور نئی حکومت کی طرف Dسے سنہ 1907کے معاہدے
تمام معاہدے ختم کر دیے گئے۔ ہوپکرک لکھتے ہیں اس کے بعد ’گریٹ گیم‘ نئے روپ میں ایک بار پھر شروع Dہو
گئی۔