You are on page 1of 13

‫’گریٹ گیم‘‪ :‬جب انگریزوں نے دریائے سندھ کو دریائے ٹیمز میں بدلنے اور مٹھن کوٹ میں بندرگاہ‬

‫بنانے کا منصوبہ بنایا‬


‫یہ انیسویں صدی کے پہلے نصف کی بات ہے۔نوجوان برطانوی افسروں پر مشتمل ایک خفیہ مشن دریائے سندھ میں‬
‫پانی کے بہاؤ‪ ،‬اس کی گہرائی اور اس میں جہاز رانی کے امکانات کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہا تھا اور اُن‬
‫کی پوری‪ D‬کوشش تھی کہ سندھ کے اُمرا اور پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو۔‬
‫لندن میں دریائے سندھ کو برطانوی مفاد میں ایک تجارتی‪ D‬آبی گزرگاہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ‪ D‬کیا جا چکا تھا۔ ایک‬
‫اعلی انگریز افسر کے الفاظ میں ’دریائے سندھ کو دریائے ٹیمز میں بدال‘ جانا تھا۔ دریائے سندھ پر مرکزی‪ D‬بندرگاہ‬ ‫ٰ‬
‫بنانے کے لیے مٹھن کوٹ نامی عالقے کا انتخاب کیا گیا تھا۔‬
‫یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ‪’ D‬سونے کی چڑیا‘ کہالنے والے انڈیا میں اپنی موجودگی کو مستحکم کر چکا تھا اور اب‬
‫اسے خطرہ تھا کہ روس اس سے انڈیا چھین نہ لے۔ روس اور برطانیہ‪ D‬کے درمیان خطے میں باالدستی‪ D‬کی کشمکش‬
‫پہلے سے جاری‪ D‬تھی۔‬
‫برطانیہ‪ D‬اور روس کے جاسوس اور مخبر پشاور‪ ،‬کابل‪ ،‬قندھار‪ ،‬بخارا‪ ،‬ملتان جیسے بڑے شہروں کے عالوہ بڑے‬
‫بڑے پہاڑی سلسلوں کی دور دراز وادیوں اور ویران صحراؤں میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنی حکومتوں کے‬
‫لیے حمایت اور معلومات حاصل کر رہے تھے۔ برطانیہ اور روس کے درمیان خطے میں باالدستی‪ D‬کی اس کشمکش‬
‫کو ’گریٹ گیم‘ بھی کہا گیا۔ افغانستان میں عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کی تاریخ کی اس کہانی کا سرا کئی جگہوں‬
‫سے پکڑا جا سکتا ہے لیکن ہم بات شروع کرتے ہیں سنہ ‪ 1830‬میں ہرات شہر کے بازار میں دو مختلف دنیاؤں کے‬
‫لوگوں کی ایک اتفاقیہ مالقات سے۔ اُن میں سے ایک تھے برطانوی‪ D‬افسر لیفٹیننٹ آرتھر کونولی اور دوسرے‪ D‬صاحب‬
‫تھے پشین سے تعلق رکھنے والے سید مہین شاہ۔‬
‫‪ 10‬اگست ‪ 1829‬کو انگلینڈ سے روانہ ہو کر اور زمینی‪ D‬راستے سے سفر کرتے ہوئے ہرات پہنچنے والے یہ‬
‫نوجوان برطانوی‪ D‬افسر آرتھر کونولی‪ D‬اُس وقت مالی مشکالت کا شکار تھے اور انھیں نقد رقم‪ D‬کی ضرورت تھی۔ سید‬
‫مہین شاہ اس وقت ہرات کے بازار میں اپنے معمول کے دورے پر تجارت کے لیے انڈیا جانے کی تیاری کر رہے‬
‫تھے۔‬
‫آرتھر کونولی‪ D‬اپنے سفرنامے (‪A Journey to the North of India through Russia, Persia and‬‬
‫‪ )Afghanistan‬میں لکھتے ہیں کہ جب ان کی مشکل کا لوگوں کو پتہ چال تو ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کچھ‬
‫لوگوں کو جانتے ہیں جو شاید مدد کر سکیں اور ’وہ شخص پشین کے کچھ سید برادری کے تاجروں کو لے کر اُن‬
‫کے گھر آ گیا۔‘ کونولی لکھتے ہیں کہ ان سیدوں کی بہت عزت اور اونچا مقام تھا۔ ان کے خصوصی رتبے کی وجہ‬
‫مال تجارت کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا اور اسی لیے‬ ‫سے خطرناک ترین عالقوں میں بھی کوئی اُن کو اور اُن کے ِ‬
‫’عام لوگوں کی بانسبت ان کے لیے تجارت کرنا آسان تھا۔‘‬
‫ُ‬
‫ان میں سے ایک سید مہین شاہ تھے جنھوں نے نوجوان برطانوی افسر کی مدد کا وعدہ کر لیا اور ان کو اور ان کے‬
‫ساتھی کرامت علی کو‪ ،‬جو روس میں سینٹ پیٹرزبرگ سے ان کے ساتھ تھے اور انڈیا کے رہنے والے تھے‪،‬‬
‫بحفاظت دلی پہنچانے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ تاہم انھوں نے کہا کہ نقد رقم تو ان کے پاس نہیں ہے کیونکہ وہ‬
‫انڈیا میں فروخت کرنے کے لیے اپنی پاس موجود‪ D‬رقم سے تیس گھوڑے خرید چکے ہیں۔ کونولی‪ D‬بتاتے ہیں کہ سید‬
‫مہین شاہ کی ضمانت پر کئی دوسرے لوگ بھی اُن کی مدد کرنے پر تیار ہوئے لیکن صرف مال کی حد تک‪ ،‬ان میں‬
‫سے کوئی بھی نقد رقم نہیں دینا چاہتا تھا۔ آرتھر کونولی‪ D‬نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ ’میں نے کچھ دن کی ناکام‬
‫کوشش کے بعد چار ہزار پانچ سو بنگالی روپے کا بل بنا دیا جس کے بدلے میں اس مالیت کی کشمیری شالیں مل‬
‫گئیں‪ ،‬جو ہم نے بازار میں بیچ کر اپنا قرض اتارا اور ہم نے سید مہین شاہ کے ساتھ سفر شروع کر دیا۔ ‪ 19‬اکتوبر کو‬
‫سفر کا آغاز کیا اور ہمارے قافلے میں درجن بھر تاجر بھی تھے جن میں زیادہ تر پشین ہی کے سید تھے۔‘‬
‫افغانستان کے درانی حکمران‬
‫درانی سلطنت کے پہلے حکمران احمد شاہ ابدالی۔ مؤرخین کے مطابق حکمران بننے کے کچھ عرصے بعد انھوں‬
‫نے اٹک کے ایک بزرگ کی طرف سے دیا گیا لقب ’درانی‘ اپنے خاندانی‪ D‬نام کے طور پر اپنایا تھا‪.‬‬
‫یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں درانی خاندان کی حکومت تھی‪ ،‬جس کی بنیاد احمد شاہ ابدالی نے سنہ ‪ 1747‬میں‬
‫(در دران یعنی موتیوں میں موتی) نام اپنا لیا تھا۔ ان کی سلطنت کا‬
‫رکھی تھی اور جنھوں نے بعد میں ’درانی‘ ِ‬
‫دارالحکومت قندھار‪ D‬تھا جو ان کے بیٹے تیمور‪ D‬شاہ کے دور میں کابل منتقل ہو گیا تھا۔ مؤرخ پیٹر لی نے سنہ ‪2019‬‬
‫میں شائع ہونے والی اپنی کتاب (‪ Afghanistan: A history from 1260 to the Present Day‬میں لکھا ہے کہ‬
‫احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں قندھار میں قائم ہونے والی بادشاہت مختلف صورتوں میں سنہ ‪ 1978‬تک قائم رہی۔‬
‫سنہ ‪ 1830‬میں جب آرتھر کونولی‪ D‬اور سید مہین شاہ ہرات سے روانہ‪ D‬ہوئے تو درانی تخت پر دوست محمد بیٹھے‬
‫تھے۔ اور ایک اہم بات یہ ہے کہ ان کے پیش رو اور سلطنت کے چوتھے حکمران شاہ شجاع کو سنہ ‪ 1809‬میں‬
‫محالتی سازشوں کے نتیجے میں اپنی بادشاہت کھونے کے بعد انگریزوں کی میزبانی میں انڈیا میں رہتے ہوئے کئی‬
‫برس بیت چکے تھے۔ جس انڈیا میں درانی خاندان کے بانی احمد شاہ ابدالی حملہ آور کے طور پر گئے تھے اور‬
‫جس انڈیا کی طرف سید مہین شاہ اور آرتھر کونولی‪ D‬سفر کر رہے تھے وہاں اب احمد شاہ ابدالی کے ایک وارث پناہ‬
‫لیے ہوئے تھے اور یہ ایک مختلف انڈیا تھا۔ اس انڈیا پر برطانوی‪ D‬اپنے پنجے گاڑ چکے تھے اور اس پر ہر حملہ‬
‫برطانوی‪ D‬مفادات پر حملہ تھا اور کسی بھی ممکنہ حملے سے نمٹنا برطانیہ‪ D‬کی ترجیحات میں شامل تھا۔ ‪ 19‬ویں‬
‫صدی میں برطانیہ‪ D‬کو روس اور فرانس کی طرف سے خطرہ رہتا تھا کہ وہ شمال مغرب کے راستے انڈیا پر‬
‫چڑھائی نہ کر دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ فرانس کے بارے میں برطانیہ کے خدشات تو کم ہو گئے لیکن روس کی‬
‫طرف سے خطرہ بدستور موجود‪ D‬تھا۔‬
‫برطانیہ‪ D‬میں روس کی طرف سے حملے سے نمٹنے کے لیے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی‬
‫سوچی گئی اس کے پس منظر میں آرتھر کونولی‪ D‬اور پشین کے سید مہین شاہ کی مالقات آئندہ مہینوں اور برسوں میں‬
‫انتہائی اہمیت اختیار کرنے والی تھی۔‬
‫ہرات میں خریدے گئے گھوڑے ممبئی میں انگریز افسر کتنے میں خریدتے تھے؟‬
‫سید مہین شاہ جب درجن بھر دیگر تاجروں اور آرتھر کونولی کے ساتھ ہرات سے روانہ‪ D‬ہوئے تو ان کی تجارتی‬
‫قافلے میں انڈیا میں بیچنے کے لیے تقریبا ً چار سو گھوڑے تھے جن میں ’کوالٹی‘ کے گھوڑے پچاس ہی تھے۔ ایک‬
‫مؤرخ شاہ محمود حنیفی اپنی کتاب (‪Connecting Histories in Afghanistan: Market Relations and State‬‬
‫‪ )Formation on a Colonial frontier‬میں لکھتے ہیں کہ کونولی‪ D‬کے پوچھنے پر کہ اتنے کمزور گھوڑوں‪ D‬سے‬
‫منافع کیسے کمایا جا سکتا ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ ممبئی میں بصرا کے تاجر آتے ہیں جو ان کے چار یا پانچ سو‬
‫روپے کے گھوڑے انگریزوں کو عربی گھوڑے کہہ کر بارہ سو یا پندرہ سو میں بیچ دیتے ہیں۔‬
‫حنیفی لکھتے ہیں کہ گھوڑوں کی خرید و فروخت‪ D‬ان تاجروں کے کاروبار‪ D‬کا سب سے منافع بخش پہلو نہیں تھا۔‬
‫’پشین کے تاجروں نے بتایا کہ ان کا زیادہ تر منافع اس تجارت کے دوسرے راؤنڈ‪ D‬میں ہوتا ہے جب وہ انڈیا اور‬
‫انگلینڈ کی مصنوعات افغانستان‪ ،‬ایران اور وسطی‪ D‬ایشیا میں فروخت‪ D‬کرتے ہیں۔‘‬
‫دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے مہین شاہ کے کھاتے دیکھے اور ان کے مطابق‪ D‬سنہ ‪1828‬‬ ‫ٰ‬ ‫حنیفی کے مطابق‪ D‬کونولی‬
‫میں مہین شاہ نے ممبئی میں سات ہزار روپے کی سرمایہ کاری کی اور وہ مال کشتی کے راستے سندھ الیا گیا اور‬
‫پھر وہاں سے زمینی راستے سے کابل اور بخارا کی منڈیوں تک پہنچا۔ انھوں نے لکھا کہ کونولی کے مطابق‪ D‬سید‬
‫مہین شاہ نے کابل میں ‪ 110‬فیصد اور بخارا میں ‪ 150‬سے ‪ 200‬فیصد کے بیچ منافع کمایا۔ اب ان تاریخی‪ D‬منڈیوں‬
‫میں کمایا جانے واال یہی منافع بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کا مرکز بننے واال تھا۔‬
‫روس اور فرانس کے انڈیا پر حملے کا ڈر اور برطانوی پالیسی‬
‫جن دنوں میں افغان خانہ بدوش تاجروں اور انگریز افسر کا قافلہ ہرات سے دلی کے لیے روانہ ہوا‪ ،‬مؤرخ جانتھن لی‬
‫کے مطابق‪ ،‬اس وقت تک برطانیہ‪ D‬کی ’دریائے سندھ کی ریاستوں‘ کے بارے میں پالیسی ’عدم مداخلت‘ اور‬
‫’التعلقی‘ پر مبنی تھی کیونکہ سنہ ‪ 1809‬کے انگریز‪ ،‬سکھ معاہدے کو شمال سے ممکنہ حملے سے نمٹنے کے لیے‬
‫کافی سمجھا گیا۔‬
‫اور اسی برس انگریزوں نے فرانس اور روس کے متوقع حملوں کے پیش نظر اس وقت کے درانی‪ D‬بادشاہ شاہ شجاع‬
‫سے بھی معاہدہ کیا تھا جن کا بعد میں ان کے بھائی شاہ محمود نے تختہ الٹ دیا تھا۔ لیکن یہ صورتحال‪ D‬یکسر بدلنے‬
‫والی تھی اور اس کے ساتھ ہی برطانوی‪ D‬حکومت کی ’عدم مداخلت‘ کی پالیسی بھی۔ اور اس نئی پالیسی‪ D‬میں جس کا‬
‫نتیجہ پہلی انگریز افغان جنگ کی صورت میں نکال‪ ،‬سید مہین شاہ‪ ،‬آرتھر‪ D‬کونولی اور شاہ شجاع کو سب سے اہم‬
‫کردار ملنا تھا۔‬
‫’ہمیں روس سے انڈس میں لڑنا پڑے گا۔۔اور وہ ایک بہت بڑی جنگ ہو گی‘‬
‫سنہ ‪ 1830‬میں لندن میں الرڈ ایلنبرو‪ D‬کی صورت‪ D‬میں ایک ایسا شخص ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کا‬
‫صدر بن گیا جس کی نظر میں روسی سلطنت کی سلطنت عثمانیہ‪ ،‬ایران اور وسطی ایشیا میں مسلم ریاستوں کے‬
‫خالف حالیہ جنگی کامیابیاں برطانیہ‪ D‬کے لیے براہ راست خطرہ تھیں۔ ایک انگریز‪ D‬افسر جارج ڈی لیسی ایونز نے کہا‬
‫کہ روس کو ’انڈیا پر حملے کے لیے تیس ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی فوج چاہیے۔‘ جانتھن لی کے مطابق‪D‬‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ایران اور افغان حکمران نہ صرف‪ D‬کسی حملہ آور کے سامنے مزاحمت نہیں کریں گے بلکہ روس‬
‫کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔ الرڈ ایلنبرو‪ D‬اس دلیل کو تسلیم کرتے تھے اور انھوں نے اپنی ڈائری میں بھی لکھا کہ‬
‫’مجھے یقین ہے کہ ہمیں روس سے انڈس میں لڑنا پڑے گا۔۔۔ اور وہ ایک بہت بڑی جنگ ہو گی۔‘‬
‫کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول‪ D‬کے صدر کی حیثیت سے ان کی رائے وزن رکھتی تھی۔ انھوں نے گورنر جنرل الرڈ‬
‫بینٹنک کو روسی خطرے سے نمٹنے کے لیے رہنما اصول تیار کرنے کا حکم دیا کہ برطانیہ کو ’روس کے دریائے‬
‫سندھ کی ریاستوں اور خاص طور‪ D‬پر کابل‪ ،‬قندھار‪ D،‬ہرات اور خیوا کے شہروں میں اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے‬
‫لیے تیاری کرنی چاہیے۔‘ ان کا خیال تھا کہ اس کا بہترین طریقہ دریائے سندھ اور وسطی‪ D‬ایشیا کی ریاستوں‪ D‬کے‬
‫ساتھ تجارت میں اضافہ‪ D‬ہے۔ مؤرخ جانتھن لکھتے ہیں کہ ‪19‬ویں صدی میں بہت سے برطانوی‪ D‬سیاستدانوں کے‬
‫نزدیک تجارت وہ ’جادوئی طاقت‘ تھی جس کے ذریعے سلطنت کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔‬
‫حنیفی لکھتے ہیں کہ یہ اتفاق تھا یا مہین شاہ کی خوش قسمتی‪ D‬کہ ان کے آرتھر کونولی‪ D‬کو دلی پہنچانے سے گیارہ‬
‫ماہ پہلے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک خفیہ کمیٹی نے ’انڈیا اور یورپ کی مصنوعات کی ایک کھیپ کو ایران‬
‫اور انڈیا کے درمیان ایک مرکزی شہر تک لے جانے کے لیے پچاس ہزار روپے مختص کیے تھے تاکہ تجارت کو‬
‫فروغ ملے اور ان (وسطی ایشیائی) منڈیوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔‘‬
‫سید مہین شاہ کو برطانوی حکام نے کیا مشن سونپا؟‬
‫سید مہین شاہ کو دلی پہنچنے کے بعد فوری‪ D‬طور پر برطانیہ‪ D‬کے لیے کمرشل تجرباتی‪ D‬مہمات سونپ دی گئیں جن کا‬
‫مقصد یہ ثبوت حاصل کرنا تھا کہ انڈیا اور یورپ کی مصنوعات افغانستان اور وسطی‪ D‬ایشیا میں ایکسپورٹ کرنا کتنا‬
‫منافع بخش ہو سکتا ہے۔‬
‫حنیفی لکھتے ہیں کہ سنہ ‪ 1831‬اور ‪ 1835‬کے درمیان انھوں نے برطانیہ کے لیے وسطی‪ D‬ایشیا کی منڈیوں کے چار‬
‫تجارتی دورے کیے اور برطانیہ‪ D‬کے لیے اس خیال کو درست ثابت کیا کہ دو مختلف راستوں سے افغانستان اور‬
‫وسطی ایشیا کی منڈیوں میں مال پہنچا کر منافع کمایا جا سکتا ہے۔‬
‫حنیفی لکھتے ہیں کہ کمپنی کی سرپرستی میں مہین شاہ کے تجارتی مشن کے اعداد و شمار کو بھی سنہ ‪ 1839‬میں‬
‫افغانستان پر حملے کے لیے دلیل کے طور‪ D‬پر پیش کیا گیا۔‬
‫شکارپور‪ ،‬ملتان‪ ،‬کابل‪ ،‬قندھار میں صدیوں سے جاری تجارت‬
‫سید مہین شاہ اور ان کے ساتھی افغان خاندہ بدوش تاجر جن تجارتی راستوں پر ہر سال سفر کر تے تھے وہ صدیوں‬
‫سے دنیا کے مختلف کونوں میں منڈیوں کو مال رہے تھے۔‬
‫مؤرخ حنیفی بتاتے ہیں کہ مغل دور میں کابل کوہ ہندو کش کی حدود کے اندر ایک اہم سرحدی مرکز تھا اور دریائے‬
‫سندھ سے ذرا مشرق‪ D‬میں ملتان شہر کو اہم تجارتی‪ D‬مقام حاصل تھا۔ یہ کابل اور قندھار‪ D‬سے انڈیا درآمد ہونے والے‬
‫گھوڑوں کی اہم منڈی تھا۔ ملتان کے تاجر سنہ ‪ 1600‬اور سنہ ‪ 1900‬کے درمیان ایران‪ ،‬وسطی‪ D‬ایشیا اور روس تک‬
‫کاروبار‪ D‬کے لیے جاتے تھے۔ بخارا اور ملتان کے درمیان تجارت کابل کے راستے ہوتی تھی اور‪ ،‬حنیفی نے لکھا‬
‫کہ‪ ،‬اس پر شکارپوری‪ D‬ہندوؤں اور لوہانی افغانوں کا غلبہ تھا۔ اب انڈیا کے برطانوی‪ D‬حکمران اس تاریخ تجارتی‬
‫سرکٹ کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے والے تھے۔‬
‫مٹھن کوٹ دریائے سندھ پر ایک بڑا تجارتی مرکز؟‬
‫حنیفی لکھتے ہیں تمام دستاویزات تو اب موجود نہیں لیکن پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سید مہین شاہ کا پہال تجارتی‪D‬‬
‫دورہ انتہائی کامیاب رہا جس میں وہ کلکتہ سے بڑی مقدار میں مختلف طرح کا کپڑا لے کر وسطی ایشیا گئے تھے۔‬
‫اس طرح مہین شاہ سنہ ‪ 1831‬اور ‪ 1832‬میں اور پھر ‪ 1834‬اور ‪ 1835‬میں چار بار برطانیہ کی سپانسرشپ‪ D‬میں‬
‫مال لے کر وسطی‪ D‬ایشیا گئے اور اس میں انھیں بہت منافع ہوا۔ ’سید مہین شاہ نے برطانیہ‪ D‬کو اہم کمرشل معلومات‬
‫فراہم کیں جسے دریائے سندھ کے ذریعے تجارت کے بڑے پراجیکٹ کے حق میں ٹھوس دلیل کے طور‪ D‬پر پیش کیا‬
‫گیا۔‘ سید مہین شاہ نے جو تجارتی دورے کیے وہ دو روٹوں پر تھے۔ ایک راستہ‪ D‬قندھار اور دوسرا پشاور سے‬
‫گزرتا تھا۔ حنیفی نے ان کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھا کہ قندھار‪ D‬شمال میں مشہد اور ہرات اور جنوب میں کوئٹہ‪،‬‬
‫کراچی‪ ،‬شکارپور‪ D‬اور ممبئی کو مالتا تھا اور پشاور‪ D‬واال روٹ شمال میں کابل‪ ،‬مزار شریف اور بخارا کو مالتا تھا‬
‫اور جنوب میں الہور‪ ،‬امرتسر‪ ،‬دلی اور کلکتہ کو۔ حنیفی لکھتے ہیں ’برطانوی‪ D‬حکام ان روٹوں کو بدلنا چاہتے تھے‬
‫کہ زیادہ تر تجارت قندھار‪ D‬سے کابل کے راستے ہو۔‘ دریائے سندھ پر تجارت میں ممکنہ طور‪ D‬پر اضافے کی‬
‫صورت میں اس پر ایسا پورٹ بنانے کے لیے جگہ کے انتخاب کے لیے کافی بحث ہوئی۔‘‬
‫اس ضمن میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کا نام بھی زیر غور آیا لیکن باآلخر دریائے سندھ پر بندرگاہ‬
‫کے لیے مٹھن کوٹ کا انتخاب کیا گیا۔‬
‫افغانستان کو ’متحد‘ کرنے کا منصوبہ‬
‫اسی دوران آرتھر کونولی کو بھی ایک پالیسی دستاویز تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جنھوں نے مارچ ‪1831‬‬
‫میں رپورٹ دی کہ روس کی طرف‪ D‬سے حملے کا خطرہ حقیقت پر مبنی ہے اور یہ کہ ایران روس کا سامنا نہیں کر‬
‫سکتا کہ وہ ایک بفر کا کام دے۔ انھوں نے افغانستان کو ’متحد‘ کرنے کا مشورہ دیا۔ افغانستان‪ D‬کو کیسے متحد کیا جانا‬
‫تھا اس کا جواب تو شاید شاہ شجاع کو ایک بار پھر ان کے تخت پر بٹھانے کی صورت میں آسان تھا لیکن اس سے‬
‫پہلے کچھ اور مسائل بھی حل ہونے تھے۔ جانتھن نے لکھا ہے کہ سنہ ‪ 1830‬میں دریائے سندھ پر کوئی بندرگاہ نہیں‬
‫تھی اور کراچی نہ صرف یہ کہ برطانیہ‪ D‬کے کنٹرول میں نہیں تھا بلکہ اس وقت صرف‪ D‬ایک ’مچھیروں کا چھوٹا سا‬
‫گاؤں‘ تھا۔‬
‫دریائے سندھ کو دریائے ٹیمز بنانے کا منصوبہ‬
‫وسطی ایشیا کے لیے برطانوی مصنوعات پہلے سمندر کے ذریعے کلکتہ آتی تھیں جہاں سے انھیں کشتیوں پر الد‬
‫کر دریائے گنگا کے ذریعے انڈیا میں اندر تک الیا جاتا تھا اور پھر زمینی راستوں سے یہ الہور اور پھر وہاں سے‬
‫شکارپور‪ D‬پہنچائی جاتی تھیں جہاں سے ’قافلے‘ انھیں افغانستان اور بخارا کے بازاروں تک پہنچاتے تھے۔ یہ بہت‬
‫مہنگا طریقہ تھا اور اتنی مہنگی چیزیں روسی‪ D‬مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔‬
‫الرڈ ایلنبرو کے نزدیک اس مسئلے کا حل ’دریائے سندھ کو دریائے ٹیمز میں بدلنا تھا۔‘ ان کے ذہن میں دو سو ٹن‬
‫تک وزن اٹھانے والی کشتیوں کے ذریعے اٹک تک مال پہنچانے کا منصوبہ‪ D‬تھا۔ جانتھن کے مطابق ایلنبرو کا‬
‫منصوبہ‪ D‬انڈیا میں انگریز افسروں میں بہت مقبول نہیں تھا اسی لیے اس پر عمل کروانے کے لیے انھوں نے کسی‬
‫سینیئر افسر کی بجائے جونیئر‪ D‬افسروں کو دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ اور دیگر پہلؤں کا جائزہ لینے کے لیے‬
‫ذمہ داری سونپی۔‪D‬‬
‫ان میں ایک ایلیگزینڈر‪ D‬برنس تھے جن کے بھائی جو ڈاکٹر تھے اور سندھ کا دورہ کر چکے تھے جس میں انھوں‬
‫نے دریائے سندھ میں جہاز رانی کے امکانات کے بارے میں بہت مثبت رپورٹ‪ D‬دی تھی۔ جانتھن لکھتے ہیں کہ‬
‫ڈاکٹر برنس کے مشن کے اصل مقصد کو خفیہ رکھنے کے لیے اس کا مقصد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار کا‬
‫دورہ اور انھیں ایک بگھی اور گھوڑے تحفے میں دینا بتایا گیا تھا۔ جانتھن لکھتے ہیں کہ سنہ ‪ 1809‬میں سکھوں‬
‫سے معاہدہ کرنے والے چارلس میٹکاف نے اس مشن پر اعتراض اٹھایا تھا کہ یہ ’بالکل بھی ہماری (برطانوی)‬
‫حکومت کے شایان شان نہیں۔‘‬
‫برنس کے سنہ ‪ 1831-1830‬کے مشن کی روشنی‪ D‬میں معلوم ہوا کہ دریائے سندھ پر ’فلیٹ باٹم والی کشتیاں‘ ہی چل‬
‫سکتی ہیں جن پر زیادہ سے زیادہ ‪ 75‬ٹن وزن آ سکتا ہے۔‬
‫پہلی افغان جنگ کس ایجنڈے پر لڑی گئی؟‬
‫دریائے سندھ کی فوج برطانیہ کی اس سوچ کی عکاسی کرتی تھی جس پر دریائے سندھ کا پراجیکٹ حاوی تھا۔‬
‫حنیفی کہتے ہیں پہلی افغان جنگ شجاع کو درانی تخت پر بٹھانے سے بڑے ایجنڈے پر تھی اور یہ بڑے عالمی‬
‫تجارتی مفادات کے لیے لڑی گئی تھی۔‬
‫برطانوی‪ D‬حکام نے اس منصوبے کے حق میں رابطہ مہم کے سلسلے میں کابل میں سیاسی اکابرین سے رابطے کیے‬
‫اور درخواست کی کہ وہ تاجروں کو دریائے سندھ کا روٹ اپنانے پر قائل کریں۔ اس پراجیکٹ میں مرکزی‪ D‬کردار‬
‫لوہانی کہالنے والے افغان خانہ بدوش تاجروں کا تھا۔‬
‫آرتھر کونولی‪ D‬کے ساتھی‪ D‬سید کرامت علی جن کا پہلے ذکر آ چکا ہے جو سنہ ‪ 1831‬سے ‪ 1835‬تک کابل میں‬
‫برطانیہ‪ D‬کے نیوز‪ D‬رائٹر تھے۔ مٹھن کوٹ کے بارے میں انھیں ہدایت دی گئی کہ ’وہ تاجروں کو مٹھن کوٹ کے بارے‬
‫میں بتائیں کہ وہ ایک ایسی منڈی ہو گی جہاں ان کا پھل ہندوستانی تاجر خرید لیں گے چاہے اس کی کتنی بھی مقدار‬
‫ہو اور بدلے میں انھیں ہندوستان کا اپنی ضرورت کا سامان بھی وہیں مل جائے گا۔ اس طرح انھیں پنجاب کے راستے‬
‫ہندوستان جانے کی تکلیف بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔‬
‫حنیفی نے لکھا کہ ’برطانوی‪ D‬مٹھن کوٹ کو جنوبی اور وسطی‪ D‬ایشیا کے درمیان میں ایک منڈی کے طور پر دیکھتے‬
‫تھے جس تک ہر عالقے کے تاجروں کی باآسانی‪ D‬رسائی ہو۔ اور ہر برس کلکتہ تک ایک لمبا چکر لگانے کی بجائے‬
‫ان کا خیال تھا کہ افغان خانہ بدوش تاجر لوہانی دریائے سندھ کے سال میں کئی چکر لگا سکیں گے۔ ’ان کا مقصد تھا‬
‫کہ تجارت خاص سیزن کی بجائے سارا سال جاری رہے۔‘ لیکن دریائے سندھ پر مٹھن کوٹ کے مقام پر بندرگاہ کا‬
‫منصوبہ‪ D‬پہلی انگریز افغان جنگ اور شاہ شجاع کی ناکامی کے ساتھ ختم ہو گیا۔‬
‫شاہ شجاع کی واپس افغانستان جانے کی خواہش‬
‫اسی دوران درانی سلطنت کے چوتھے حکمران شاہ شجاع نے بھی جو سنہ ‪ 1803‬سے ‪ 1809‬تک حکمرانی کرنے‬
‫کے بعد تخت گنوا بیٹھے تھے اب واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ انھوں نے سنہ ‪ 1832‬میں الرڈ بینٹنک کو خط لکھ کر‬
‫خود کو ملنے والے وظیفے کا ایک سال کا ایڈوانس مانگا تاکہ وہ اپنا تخت حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں۔‬
‫مؤرخ بتاتے ہیں کہ کچھ تامل کے بعد انھیں سولہ ہزار روپے دیے گئے اور دلی میں اسلحے کی خریداری‪ D‬پر ٹیکس‬
‫کی چھوٹ بھی دی گئی۔‬
‫اس کے عالوہ شاہ شجاع نے رنجیت سنگھ سے بھی سنہ ‪ 1834‬میں معاہدہ کیا کہ وہ تخت پر بیٹھنے کی صورت میں‬
‫درانی سلطنت کے ان عالقوں سے دستبردار ہو جائیں گے جو اب سکھ سلطنت کا حصہ تھے اور جن میں پشاور بھی‬
‫شامل ہے۔‬
‫انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا‪ D‬کے مطابق انگریز مطمئن نہیں تھے کہ درانی بادشاہ دوست محمد ممکنہ حملے کی صورت‬
‫میں روس کا راستہ روک سکیں گے اور اس کے عالوہ انھیں دوست محمد کے بارے میں یہ تسلی بھی نہیں تھی کہ‬
‫وہ ان کو دوست سمجھتے ہیں یا نہیں۔ اس ماحول میں انھوں نے شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانے کے لیے افغانستان میں‬
‫براہ راست مداخلت کا فیصلہ‪ D‬کیا۔ انگریزوں کی ’دریائے سندھ کی فوج‘ کی مدد سے قندھار‪ D‬اور غزنی فتح کرتے‬
‫ہوئے شاہ شجاع اگست ‪ 1839‬میں دوسری بار درانی سلطنت کے تخت پر بیٹھے۔ لیکن یہ تبدیلی بہت مقبول ثابت نہیں‬
‫ہوئی۔‬
‫انسائیکلوپیڈیا کے مطابق دوست محمد پہلے بلخ اور پھر بخارا گئے جہاں انھیں گرفتار‪ D‬کر لیا گیا لیکن وہ قید سے‬
‫نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ’دو نومبر‪ 1840 D‬کو جنگ میں دوست محمد کا پلڑا بھاری تھا لیکن اگلے دن انھوں نے‬
‫کابل میں انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور انھیں اپنے اہلخانہ کے ساتھ انڈیا ڈی پورٹ کر دیا گیا۔‘‬
‫لیکن حاالت پھر بھی قابو‪ D‬میں نہیں آئے اور برطانیہ‪ D‬کو پسپائی پر مجبور‪ D‬ہونا پڑا۔‬

‫شاہ شجاع کی موت اور برطانیہ کی پسپائی‬


‫انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا‪ D‬میں پسپائی کا منظر کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ ’دوست محمد کے بیٹے اکبر خان کے ساتھ‬
‫واپسی کی شرائط طے پا رہی تھیں کہ اس دوران برطانوی‪ D‬پولیٹیکل ایجنٹ ولیم میکناٹین وفات پا گئے۔۔۔۔ چھ جنوری‬
‫‪ 1842‬کو تقریبا ً ساڑھے چار ہزار برطانوی‪ D‬اور انڈین فوجی اور ان کے کیمپ کے تقریبا ً بارہ ہزار افراد کابل سے‬
‫نکل گئے۔۔۔۔ افغانوں کے گروہوں نے ان کو گھیر لیا اور اس طرح پسپائی کے دوران خون کی ندیاں بہہ گئیں۔‬
‫انگریزوں کے کابل سے جانے کے بعد شاہ شجاع بھی مارے گئے۔‘ اس برس برطانوی فوج دوبارہ کابل پر قابض ہو‬
‫گئی تھی‪ ،‬لیکن انسائیکلوپیڈیا کے مطابق انڈیا کے گورنر‪ D‬جنرل الرڈ ایلنبرو نے افغانستان‪ D‬چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور‬
‫سنہ ‪ 1843‬میں دوست محمد دوبارہ کابل کے تخت پر بیٹھ گئے۔ جی ہاں یہ وہی الرڈ ایلنبرو ہیں جنھوں نے ’عدم‬
‫مداخلت‘ اور ’التعلقی‘ کی پالیسی ختم کر کے کابل پر کنٹرول‪ D‬کر کے وسطی‪ D‬ایشیا تک نئے تجارتی‪ D‬روٹ کھولنے‬
‫کا منصوبہ‪ D‬بنایا تھا۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔‪ D‬افغانستان پر روس ہی کہ اثر و رسوخ کے مسئلے پر سنہ ‪- 1878‬‬
‫‪ 1880‬کے درمیان ایک اور انگریز افغان جنگ ہوئی اور یہ بھی برطانوی‪ D‬فوج کی پسپائی‪ D‬پر ختم ہوئی۔‬
‫لیکن مؤرخ شاہ محمود حنیفی لکھتے ہیں کہ اس دور پر زیادہ تر کتابوں سے تاثر ملتا ہے کہ ان دو جنگوں کے نتائج‬
‫کی وجہ سے افغانستان انڈیا پر برطانوی‪ D‬سامراج کے اثرات سے بچا رہا‪ ،‬پر ایسا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں‬
‫جنگیں عام طور پر صرف برطانوی حملہ آوروں کی غیرمعمولی ’ناکامی‘ یا دفاع کرنے والے مقامی افغانوں کی‬
‫متوقع ’کامیابیوں‘ کے طور‪ D‬ہر دیکھی جاتی ہیں جبکہ ان کی تحقیق کے مطابق‪ D‬انڈیا میں برطانوی سامراج کی‬
‫افغانستان پر گہری سیاسی‪ ،‬اقتصادی اور انٹلیکچویل‪ D‬چھاپ ہے۔‬

‫’دی گریٹ گیم‘‪ :‬قراقرم کی چوٹیوں کے سائے میں روسی اور برطانوی جاسوسوں کی‬
‫آنکھ مچولی‬
‫انڈین فوجی انٹیلیجنس کے سابق چیف جنرل (ریٹائرڈ) امرجیت بیدی نے لداخ کے عالقے میں انڈیا اور چین کی‬
‫فوجی کشیدگی‪ D‬کے پس منظر میں حال ہی میں کہا تھا کہ انڈیا کو اپنی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کا جائزہ لینا چاہیے‬
‫اور چین کے ساتھ تنازعہ ختم ہونے کے بعد ان کی اصالح کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ جن پہاڑی سلسلوں میں آج‬
‫چین اور انڈیا آمنے سامنے ہیں وہاں پہلی بار بڑی عالمی طاقتیں آمنے سامنے نہیں آئی ہیں۔ ماضی میں یہ عالقہ‬
‫روس‪ ،‬چین اور برطانوی انڈیا کے درمیان ایک بڑی کشمکش دیکھ چکا ہے۔‬
‫آج کل انسانی جرات‪ ،‬قابلیت اور ذہانت کے ساتھ ساتھ سائنس اور جدید آالت پر دسترس بھی جاسوسی‪ D‬کے کام میں‬
‫اہم کردار‪ D‬ادا کرتی ہے‪ ،‬لیکن سائنسی‪ D‬دریافتوں کے دور سے پہلے اُس وقت صورتحال‪ D‬بالکل مختلف تھی۔ اس‬
‫ماحول کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہمالیہ‪ ،‬قراقرم‪ ،‬ہندو‪ D‬کش اور پامیر کے ہی پہاڑی سلسلوں میں چلتے ہیں‪،‬‬
‫لیکن دو سو سال ماضی میں۔ ‪19‬ویں صدی کے آغاز میں جانوروں‪ D‬کا ایک انگریز ڈاکٹر تبت پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ‬
‫ڈاکٹر ولیم مور کرافٹ سے پہلے اس عالقے سے سنہ ‪ 1715‬میں دو یورپی‪ D‬پادری گزرے تھے۔‬
‫اعلی نسل کے گھوڑوں‬ ‫ٰ‬ ‫سنہ ‪ 1808‬میں برطانیہ سے انڈیا آنے والے ڈاکٹر مور کرافٹ‪ ،‬ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے‬
‫کی تالش میں تھے اور ان کا خیال تھا کہ تبت اور اس سے شمال میں انھیں ایسے جانور‪ D‬مل جائیں گے جو انڈیا میں‬
‫کمپنی کے کام آئیں گے۔‬
‫کوہ ہمالیہ کے دروں کے پار اس برفانی‪ D‬عالقے میں اپنے دوسرے یا تیسرے دورے کے دوران ڈاکٹر مور کرافٹ‬
‫ایک تبتی اہلکار کے گھر میں موجود تھے۔ ان کے لیے ہر چیز نئی تھی لیکن جس چیز نے انھیں حیران کر دیا وہ‬
‫وہاں دو یورپی‪ D‬نسل کے کتوں کی موجودگی‪ D‬تھی۔ کتوں نے جب ان کے فوجی‪ D‬اشاروں کو سمجھنے کا ثبوت دیا تو‬
‫مور کرافٹ نے سوچا اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ یہ کتے پہلے کسی فوجی‪ D‬کے پاس تھے۔ لیکن وہ فوجی‬
‫کون تھا اور یہ کتے اس عالقے میں کیسے پہنچے تھے؟ ان کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ پیٹر‬
‫ہوپکرک اپنی کتاب ’دی گریٹ گیم‪ :‬دی سٹرگل فار ایمپائر ان سنٹرل ایشیا‘ میں لکھتے ہیں کہ مور کرافٹ کے‬
‫نزدیک اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ کوئی روسی بھی اس عالقے میں پہنچ چکا تھا۔ گاؤں والوں سے پوچھ گچھ‬
‫سے معلوم ہوا کہ انھیں یہ کتے کسی روسی‪ D‬تاجر سے ملے تھے‪ ،‬لیکن مورکرافٹ کو یقین تھا کہ وہ روسی تو ہو‬
‫گا لیکن تاجر یقینا ً نہیں تھا۔‬
‫’دی گریٹ گیم (‪‘ )Peter Hopkirk‬‬
‫عالقے میں کسی روسی‪ D‬کی موجودگی‪ D‬کے امکان سے اس برطانوی‪ D‬ڈاکٹر کو اپنے پرانے خدشات کے درست‬
‫ہونے کا ثبوت مل گیا کہ روس کسی نہ کسی طرح شمال مغرب کے راستے حملہ کر کے انڈیا کو برطانیہ‪ D‬سے‬
‫چھیننا چاہتے ہیں۔ ان دو کتوں کا مالک وہ روسی‪ D‬کون تھا اور کیا وہ اکیال تھا؟ کیا مورکرافٹ کا اس عالقے میں‬
‫آنے کا مقصد صرف گھوڑے خریدنا تھا؟ روسی سلطنت اپنے ایجنٹ یہاں کیوں بھیج رہی تھی اور برطانیہ‪ D‬کے لیے‬
‫اس میں پریشانی کی کیا بات تھی؟ ان سب باتوں کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے خطے کے آج کے حاالت کا‬
‫مختصر ذکر ضروری ہے۔ روسی‪ D‬اور برطانوی‪ D‬سلطنتوں کے لیے ان پہاڑوں میں کسی مہم جوئی سے پہلے یا‬
‫کسی ممکنہ یلغار کو روکنے کے لیے معلومات کا ذریعہ تھے ولیم مورکرافٹ اور انھیں ملنے والے یورپی‪ D‬نسل‬
‫کے کتوں کے روسی مالک جیسے بہت سے نوجوان افسر۔‪ D‬ان افسروں اور ایجنٹوں نے اپنی زندگی کے کئی سال‬
‫ہمالیہ‪ ،‬قراقرم‪ ،‬پامیر جیسے پہاڑی سلسلوں اور خطے کے صحراؤں میں بھیس بدل کر گھومتے ہوئے گزار دیے۔‬
‫پیٹر ہوپکرک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ روس اور برطانوی سلطنت کی ایشیا میں اس کشمکش کو ’گریٹ گیم‘‬
‫کا نام بھی ایک ایسے ہی نوجوان برطانوی‪ D‬فوجی‪/‬جاسوس‪ D‬نے دیا تھا جو خود بھی وسطی ایشیا کی ایک ریاست میں‬
‫اسی ’گریٹ گیم‘ کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اس نوجوان افسر کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔ روس‬
‫میں کئی نسلوں سے وسطی‪ D‬ایشیا اور اس کے پار کے عالقوں میں دولت کی ریل پیل کی کہانیاں پہنچ رہی تھیں اور‬
‫ایک طاقتور‪ D‬سلطنت بننے کے بعد اب وہ ان کی حقیقت جاننے کے عالوہ اس عالقے کی تجارت میں حصہ بھی‬
‫چاہتا تھا۔ دوسری‪ D‬طرف انڈیا میں بہت سے برطانوی‪ D‬اہلکاروں کو خدشات الحق ہونا شروع ہو گئے تھے کہ شمال‬
‫میں اونچے پہاڑوں کے باوجود روس وہاں پہنچنے کی کوشش ضرور کرے گا۔‬
‫پیٹر ہوپکرک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وسیع بساط جس پر سیاسی باالدستی‪ D‬کی یہ پراسرار‪ D‬لڑائی لڑی گئی‬
‫مغرب میں کوہ قاف‪ D‬کی برف پوش چوٹیوں سے لے کر وسطی‪ D‬ایشیا کے صحراؤں اور پہاڑی سلسلوں سے ہوتی‬
‫ہوئی مشرق میں چینی ترکستان اور تبت تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور اس کھیل کا اصل ہدف کم سے کم لندن اور کلکتہ‬
‫میں برطانوی‪ D‬اہلکاروں کے ذہن میں اور ایشیا میں تعینات روسی افسروں کے خیال میں صرف ایک تھا‪’ :‬برٹش‬
‫انڈیا‘۔ اس وضاحت کے بعد کہانی کا رُخ ایک بار پھر ولیم مور کرافٹ اور ان کے مدمقابل روسی‪ D‬جاسوسوں کی‬
‫طرف کرتے ہیں۔‬
‫تبت والے روسی کپڑا پہنیں گا یا برطانوی‬
‫ولیم مورکرافٹ‪ D‬کو جب تبت میں روسی فوجیوں‪ D‬کی موجودگی کا شبہ ہوا تو اس کے بعد سنہ ‪ 1825‬میں اپنی موت‬
‫تک وہ کلکتہ میں اپنے افسران کو وسطی ایشیا میں روس کے عزائم کے بارے میں خط لکھ لکھ کر خبردار کرتے‬
‫رہے۔ کتاب ’دی گریٹ گیم‘ کے مطابق‪ D‬انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو فیصلہ‪ D‬کرنا ہے کہ‬
‫’ترکستان اور تبت کے لوگ روس کے کپڑے پہنیں گے یا برطانیہ کے اور برمنگھم‪ D‬میں بنے ہوئے لوہے اور سٹیل‬
‫کے اوزار خریدیں گے یا سینٹ پیٹرز‪ D‬برگ میں۔‘‬
‫سنہ ‪ 1819‬میں مورکرافٹ‪ D‬کی مستقل مزاجی کام دکھا گئی اور انھیں وسطی ایشیا میں بخارا تک دو ہزار میل کے‬
‫سفر کے لیے گرانٹ مل گئی۔ لیکن اس دورے کے دوران پکڑے جانے یا روس کی طرف سے احتجاج کی صورت‬
‫میں حکومت ان سے التعلقی ظاہر کر سکتی تھی۔ اب ان کے مشن کے راستے میں ایک اور مشکل تھی۔ بخارا تک‬
‫کا براہ راست راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا‪ D‬تھا جو اس وقت شدید خانہ جنگی کی زد میں تھا۔ ہوپکرک لکھتے‬
‫ہیں کہ انھوں نے افغانستان کو بائی پاس کرتے ہوئے شمال سے چینی ترکستان میں کاشغر کے ذریعے بخارا جانے‬
‫کا فیصلہ‪ D‬کیا اور اس کے لیے پہلے لداخ میں لیہہ جانا ضروری تھا۔‬
‫کتاب کے مطابق وہ ستمبر‪ D‬سنہ ‪ 1820‬میں لیہہ پہنچے اور وہ اس عالقے میں آنے والے پہلے برطانوی‪ D‬تھے۔‬
‫انھوں نے آتے ہی قراقرم‪ D‬کے پار یارکند میں چینی حکام سے رابطے کی کوششیں شروع‪ D‬کر دیں۔ لیکن انھیں جلد‬
‫اندازہ ہو گیا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ یارکند لیہہ سے ‪ 300‬میل دور تھا اور راستے میں دنیا‬
‫کے مشکل ترین پہاڑی راستے تھے اور جواب آنے میں کئی مہینے لگ سکتے تھے۔ دوسرا یہ کہ مقامی تاجر جو‬
‫نسلوں سے وہاں کاروبار‪ D‬کر رہے تھے اور جن کی لیہہ یارکند روٹ پر اجارہ داری تھی‪ ،‬ایسٹ انڈیا کمپنی کے‬
‫آنے سے بالکل خوش نھیں تھے۔‬
‫مورکرافٹ‪ D‬نے ان میں سے کچھ کو کمپنی کا ایجنٹ تعینات کرنے کی بھی کوشش کی لیکن وہ خوش نہیں تھے اور‬
‫کتاب ’دی گریٹ گیم‘ کے مطابق بعد میں برطانیہ‪ D‬کو معلوم ہوا کہ ان تاجروں نے چینیوں سے کہا تھا کہ جیسے ہی‬
‫کمپنی کے ایجنٹوں کو اس راستے سے گزرنے کی اجازت ملے گی وہ اپنی فوج لے کر آ جائیں۔‬
‫لیہہ میں بھی روسی ایجنٹ بازی لے گیا‬
‫مورکرافٹ‪ D‬کو ابھی لیہہ میں زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ان کا بڑا خدشہ تبت کی طرح یہاں بھی درست ثابت ہو گیا۔‬
‫ایک روسی ایجنٹ پہلے ہی عالقے میں قدم جما چکا تھا۔‬
‫بظاہر وہ ایک مقامی تاجر تھا لیکن جلد ہی مورکرافٹ‪ D‬کو علم ہوا کہ وہ آدمی‪ ،‬آغا مہدی‪ ،‬دراصل روس کا اہم ایجنٹ‬
‫تھا جو (تقریبا ً ساڑھے چار ہزار کلومیٹر دور) سینٹ پیٹرزبرگ میں اپنے آقاؤں کے لیے اہم تجارتی اور سیاسی‪D‬‬
‫مشن انجام دیتا تھا۔‬
‫آغا مہدی عرف مہکتی رافیلوو کون تھا؟‬
‫پیٹر ہوپکرک نے لکھا ہے کہ آغا مہدی نے ایک عام قلی کی حیثیت سے اس عالقے میں کام شروع‪ D‬کیا تھا اور جلد‬
‫ہی وہ اپنی خوبصورتی‪ D‬کی وجہ سے پورے ایشیا میں مشہور کشمیری شالوں کے تاجر بن گئے اور انھی شالوں کا‬
‫کاروبار‪ D‬کرتے کرتے وہ سینٹ پیٹرزبرگ پہنچ گئے۔ سینٹ پیٹرزبرگ‪ D‬میں ان کی کشمیری شالوں نے روس کے‬
‫حکمران ’زار الیگزینڈر کی توجہ بھی حاصل کر لی جنھوں نے اس زبردست تاجر سے ملنے کی خواہش ظاہر‬
‫کی۔‘ یہاں ایک دلچسپ پیشرفت ہوئی۔‪ D‬زار الیگزینڈر نے آغا مہدی کو لداخ اور کشمیر کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم‬
‫کرنے کی ہدایات کے ساتھ واپس روانہ کیا۔ ’وہ اس میں کامیاب رہے اور اب کچھ روسی‪ D‬مصنوعات ان عالقوں‬
‫کے بازاروں میں نظر آنے لگیں۔‘ کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ جب وہ دوبارہ سینٹ پیٹرزبرگ گئے تو‬
‫زار نے انھیں ایک چین اور سونے کے میڈل کے ساتھ روسی نام بھی دیا‪ :‬مہکتی رافیلوو۔‪D‬‬
‫روس کا مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے پیغام‬
‫’روس کے زار کی طرف‪ D‬سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تاجروں کے ساتھ تجارت کی خواہش ظاہر کی گئی تھی‬
‫اور لکھا تھا کہ انھیں روس میں خوش آمدید کہا جائے گا'‬
‫لیکن اس بار آغا مہدی عرف مہکتی رافیلوو‪ D‬کو ایک نئے اور سیاسی مشن کے ساتھ روس سے واپس بھیجا گیا۔ ان‬
‫کی منزل اب لداخ اور کشمیر سے سینکڑوں میل جنوب میں پنجاب کی سلطنت میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دربار‬
‫تھا۔‬
‫ہوپکرک لکھتے ہیں کہ انھیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم‪ D‬کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ’ان‬
‫کے پاس زار کا ایک تعارفی‪ D‬خط تھا جس پر روس کے وزیر‪ D‬خارجہ کے دستخط تھے۔ اس میں روس کی طرف‪D‬‬
‫سے رنجیت سنگھ کے تاجروں کے ساتھ تجارت کی خواہش ظاہر کی گئی تھی اور لکھا تھا کہ انھیں روس میں‬
‫خوش آمدید کہا جائے گا۔‘ کتاب کے مطابق برطانوی ڈاکٹر مور کرافٹ کو جلد ہی اس پیشرفت کا پتہ چل گیا تھا۔‬
‫انھیں احساس ہو گیا تھا کہ آغا مہدی میں وہ تمام صالحیتیں تھیں جو ان کے مشن کے لیے اہم تھیں مثالً مقامی‬
‫عالقے کی معلومات اور لوگوں میں مقبولیت اور کاروباری‪ D‬ذہانت۔‬
‫ہوپکرک لکھتے ہیں کہ مور کرافٹ نے یہ تمام معلومات گیارہ سو میل دور جنوب میں اپنے افسران کو لکھنے میں‬
‫دیر نہیں کی۔ لیکن آغا مہدی کی کہانی اچانک قراقرم کے بلند و باال دروں میں‪ ،‬ان کی موت کے ساتھ‪ ،،‬مہاراجہ‬
‫رنجیت سنگھ کے دربار‪ D‬میں پہنچنے سے پہلے ختم ہو گئی۔ وہ کیسے ہالک ہوئے یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا۔‬
‫تاہم ہوپکرک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مورکرافٹ نے لندن اپنے ایک دوست کو خط میں کہا تھا کہ ’اگر‬
‫رافیلوو‪ D‬کچھ دیر اور زندہ رہ جاتا تو اس نے ایشیا میں ایسی صورتحال پیدا کر دینی تھی کہ یورپ میں کچھ‬
‫کابینائیں حیران رہ جاتیں۔‘ جیسے آغا مہدی نے روسی‪ D‬سلطنت کے لیے خدمات انجام دیں اسی طرح باقاعدہ روسی‪D‬‬
‫فوجی افسر‪ D‬بھی انڈیا اور افغانستان تک جانے والے راستوں کو سمجھنے کے لیے مہمات کا حصہ بنے۔‬
‫روسی افسر ترک کے بھیس میں جارجیا سے خیوا کیسے پہنچا؟‬
‫سنہ ‪ 1819‬میں جورجیا کی ریاست میں روسی فوج کے صدر دفتر میں تعینات ایک ‪ 24‬سالہ روسی فوجی‪ D‬افسر‬
‫نکوالئی مراوی‪ D‬ایو ایک مشن کے لیے روانہ ہوا جو بہت سے لوگوں کے لیے شاید ’خودکشی‘‪ D‬کے برابر‪ D‬تھا۔‬
‫مراوی ایو کا مشن ایک ترک کا روپ دھار کر مشرق میں سنسان میدانوں اور سمندر‪ D‬پار ‪ 800‬میل دور خیوا میں‬
‫تھا۔‬
‫راستے میں ایک صحرا تو تھا ہی لیکن اغوا کر کے غالم کے طور پر فروخت کیے جانے یا لٹیروں کے ہتھے‬
‫چڑھنے کا خطرہ بھی تھا۔ ان کا وسطی‪ D‬ایشیا کی ریاست کے خان کو رام کرنا اور مستقبل میں روس کے ممکنہ‬
‫حملے کے لیے حاالت سازگار بنانا تھا۔ ان کے کام میں ان کے برطانوی ہم منصوبوں کی طرح عالقے کے‬
‫جغرافیہ اور دفاعی صالحیتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور خطے کی دولت کے بارے میں مشہور‬
‫کہانیوں کی حقیقت معلوم کرنا بھی تھا۔‬
‫ہوپکرک لکھتے ہیں کہ ان کے مشن میں ان روسیوں کے حاالت معلوم کرنا بھی تھا جنھیں بڑی تعداد میں اغوا کر‬
‫کے غالم بنا کر ان عالقوں میں بیچ دیا گیا تھا۔ اس ضمن میں ان کی فراہم‪ D‬کی گئی معلومات نے روس کو مستقبل‬
‫میں وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں فوجی‪ D‬کارروائیوں کا زبردست‪ D‬جواز پیش کر دیا تھا۔ کتاب ’دی گریٹ‬
‫گیم‘ میں لکھا ہے کہ ناکامی یا پکڑے جانے کی صورت میں اس نوجوان افسر کو معلوم تھا کہ ان کی سلطنت ان‬
‫سے التعلقی کا اظہار کر دے گی۔ جس طرح برطانوی‪ D‬ڈاکٹر ولیم مورکرافٹ‪ D‬شمالی پہاڑی سلسلوں میں متحرک‬
‫تھے کچھ برطانوی اہلکار جنوبی‪ D‬افغانستان اور بلوچستان کی ریکی میں مصروف تھے۔‬
‫بمبئی سے ہرات اور فارس براستہ نوشکی‪ :‬دو برطانوی ایجنٹوں کا ہزاروں میل کا سفر‬
‫دی گریٹ گیم میں لکھا ہے کہ ففتھ بمبئی نیٹو انفینٹری کے کیپٹن چارلس کرسٹی اور لیفٹننٹ ہنری پوٹنگر‪ D‬سنہ‬
‫‪ 1810‬میں جاسوسی‪ D‬کے مشن پر بھیس بدل کر بلوچستان‪ D‬کے راستے افغانستان اور ایران کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ‬
‫اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اس عالقے میں لوگوں نے کبھی پہلے کوئئی‪ D‬یورپی نہیں دیکھا تھا۔‬
‫پوٹنگر بمبئی سے روانہ‪ D‬ہونے کے چار ماہ بعد ہرات میں داخل ہوئے۔ ان کے بیس سالہ ساتھی پوٹنگر کی منزل نو‬
‫سو میل دور فارس میں تھی۔ ان کے راستے میں دو بڑے صحرا تھے اور اس سفر میں انھیں تین ماہ لگے۔‬
‫کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ مغرب کے راستے انڈیا پر کسی حملے کی خوف میں مبتال برطانویوں کے‬
‫لیے ہرات کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ یہ شہر مغرب سے انڈیا آنے والے فاتحین کے راستے میں تھا۔ یہاں سے کوئی‬
‫بھی فوج خیبر یا بوالن پاس کے ذریعے انڈیا داخل ہو سکتی تھی۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ وسیع و عریض صحراؤں‬
‫اور دشوار گزار پہاڑوں کے بیچ میں یہ شہر ایک زرخیز‪ D‬وادی میں تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں‬
‫ایک پوری فوج کے لیے پانی اور خوراک موجود‪ D‬تھی۔ کرسٹی‪ D‬کا کام اس بات کی تصدیق‪ D‬کرنا تھا۔‬
‫انھوں نے لکھا ہے کہ کرسٹی بمبئی سے روانہ ہونے کے چار ماہ بعد شہر کے مرکزی‪ D‬دروازے میں داخل ہوئے۔‬
‫وہ ایک مسلمان مذہبی شخصیت کا بھیس چھوڑ کر اب ایک تاجر کے روپ میں تھے جو گھوڑوں کی خریداری‪D‬‬
‫کے لیے نکال تھا کیونکہ‪ D‬ان کے دستاویزات میں یہی لکھا تھا۔ وہ ایک مہینہ وہاں رہے اور بہت باریکی سے شہر‬
‫کے بارے میں نوٹس لیے۔ ہوپکرک نے لکھا ہے کہ بلوچستان سے روانہ‪ D‬ہونے کے بعد کرسٹی‪ D‬نے ‪ 2250‬میل سفر‬
‫کیا تھا جبکہ پوٹنگر‪ D‬نے ‪ 2400‬میل سے زیادہ۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ ان دونوں افسران کے کام میں راستے کے‬
‫ہر گاؤں اور بستی کی تفصیل نوٹ کرنا‪ ،‬ہر کنویں اور تاالب کا ذکر اور دفاعی نقطہ نظر سے اہم مقامات کا اندراج‬
‫کرنا شامل تھا۔ ان افسران نے راستے میں ملنے والے قبائل اور ان کی زندگی کے حاالت کے بارے میں تفصیلی‬
‫معلومات اکٹھی کیں۔‬
‫جب نیپولین نے روس کے زار کو مل کر انڈیا پر حملے کا مشورہ دیا‬
‫کتاب ہمالین بیٹل گراؤنڈ میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ انڈیا کی دولت کی چکا چوند کئی بار حملہ آوروں کو کھینچ کر‬
‫یہاں ال چکی تھی اور اس خطے کے لوگوں نے حملوں کے مستقل خوف میں رہنا سیکھ لیا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں‬
‫کہ برطانیہ‪ D‬کا انڈیا کے شمال مغرب میں اپنے زیر تسلط عالقوں میں اضافے اور اپنی سلطنت کی حدود کو پھیالنے‬
‫کے دوران شمال سے جنوب کی طرف مغربی‪ D‬ترکستان کی ریاستوں طرف‪ D‬پیشقدمی کرتی ہوئی روسی‪ D‬سلطنت سے‬
‫سامنا ہوا۔ ’ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ ناگزیر‪ D‬لگنے لگا اور دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے عزائم‬
‫کے بارے میں شکوک و شبہات نے صورتحال کو زیادہ خطرناک بنا دیا۔‘ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ سنہ ‪ 1807‬میں‬
‫لندن میں اس وقت خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی تھیں جب خبر پہنچی کہ فرانس کے حکمران نیپولین بونا پارٹ نے‬
‫روس کے زار ایلیگزیبڈر ا ّول کو مل کر انڈیا پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی ہے۔ تاہم جلد ہی دونوں میں‬
‫اختالفات کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔‬
‫جب روس نے سوچا کیوں نہ مسلمانوں سے مغلیہ سلطنت کو بحال کرنے کا وعدہ کیا جائے؟‬
‫کتاب ’دی گریٹ گیم‘ میں لکھا ہے کہ پیٹر دی گریٹ پہلی روسی‪ D‬زار تھے جن کی نظر انڈیا کی طرف گئی تھی۔ ان‬
‫کے زمانے میں وسطی‪ D‬ایشیا میں دریائے آکسس کے پار سونے کے بڑے ذخائر کی خبریں آتی تھیں۔ انھوں نے‬
‫روسی سیاحوں سے انڈیا کے بارے میں سُن رکھا تھا کہ وسطی‪ D‬ایشیا کی ریاستوں کے پار یہ ملک دولت سے ماال‬
‫مال ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بحر کیسپین کے پار تعلقات بڑھانے کے لیے خیوا کی طرف ایک مشن بھی‬
‫روانہ کیا لیکن وہ ناکام رہا۔ زار پیٹر دی گریٹ کی موت کے کچھ عرصے کے بعد سنہ ‪ 1725‬میں روس میں ایک‬
‫کہانی گردش کرنے لگی کہ ان کے عظیم بادشاہ نے بستر مرگ پر وصیت کی تھی کہ ان کے بعد آنے والے‬
‫حکمران روس کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنائیں گے اور مؤرخین کے مطابق اس خواب کی تکمیل کی دو‬
‫چابیاں تھیں‪ :‬انڈیا اور قسطنطنیہ۔ اس کہانی کے مطابق انھوں نے اپنے بعد آنے والوں کو حکم دیا تھا کہ اس منزل‬
‫کے حصول تک ان کا کام ختم نہیں ہو گا۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ پیٹر دی گریٹ کے تقریبا ً ‪ 40‬برس بعد کیتھرین‬
‫دی گریٹ کا زمانہ شروع‪ D‬ہوا اور روس نے ایک بار انڈیا میں دلچسپی‪ D‬دکھانا شروع کر دی جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی‬
‫اب اپنے قدم جما رہی تھی۔‬
‫کہا جاتا ہے کہ سنہ ‪ 1791‬میں اپنے دور کے آخری حصے میں کیتھرین نے انڈیا میں دلچسپی ظاہر‪ D‬کی تھی اور‬
‫شاید اس کا منصوبہ‪ D‬انھیں غالبا ً ایک فرانسیسی‪ D‬نے پیش کیا تھا۔ اس فرانسیسی نے کیتھرین کو تجویز پیش کی کہ وہ‬
‫بخارا اور کابل کے راستے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھیں کہ وہ مغلیہ سلطنت کو بحال کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم ان کے‬
‫ایک اعلی اہلکار نے انھیں اس پر عمل کرنے سے باز رکھا۔یہ اگلی صدی‪ D‬میں انڈیا پر روس کے حملے کے بہت‬
‫سے منصوبوں کے سلسلے کی پہلی کڑی تھی۔‬
‫اور گریٹ گیم شروع ہو گئی‬
‫مؤرخ لکھتے ہیں کہ ‪19‬ویں صدی میں روس کے حملے کا خطرہ بہت حقیقی تھا۔تقریبا ً چار صدیوں سے روس ‪55‬‬
‫مربع میل یومیہ یا ‪ 20‬ہزار میل ساالنہ کے حساب سے مشرق کی طرف پیشرفت کر رہا تھا۔ ‪19‬ویں صدی کے‬
‫آغاز پر ایشیا میں روس اور برطانوی سلطنتوں کے درمیان دو ہزار میل کی دوری تھی جو کہ صدی کے اختتام‬
‫تک کم ہو کر چند سو میل رہ گئی تھی اور پامیر کے کچھ عالقوں میں تو یہ فاصلہ ‪ 20‬میل تھا۔‘ مؤرخین کے‬
‫مطابق ‪19‬ویں صدی کے وسط‪ D‬تک شاہراہ ریشم کے تاریخی‪ D‬شہر ایک ایک کر کے روس کے قبضے میں جا رہے‬
‫تھے۔ سنہ ‪ 1865‬میں تاشقند بھی روس نے فتح کر لیا تھا۔ مزید تین سالوں میں ثمرقند‪ D‬اور بخارا بھی زار کی سلطنت‬
‫کا حصہ بن چکے تھے۔‬
‫برطانیہ‪ D‬کا خیال تھا کہ بلند و باال ہندو کش اور پامیر کے پہاڑی سلسلے ان کے عالقوں کو ہمیشہ‪ D‬روس کی یلغار‬
‫سے محفوظ رکھیں گے اور یہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ کتاب ’ہمالین بیٹل گراؤنڈ‪ :‬سائنو‪ D‬انڈیا رائولری اِن‬
‫لداخ‘(ہمالیائی میدان جنگ‪ :‬لداخ میں انڈیا چین دشمنی) میں لکھا ہے کہ ان پہاڑی سلسلوں میں گھومتے پھرتے‬
‫برطانوی‪ D‬ایجنٹوں کی ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹوں نے بھی سلطنت کے محفوظ ہونے کے اس احساس کو تقویت‬
‫بخشی۔ ان ایجنٹوں کا کام ان دشوار گزار پہاڑوں میں چھپے ہوئے ایسے ممکنہ راستوں کی تالش تھی جہاں سے‬
‫روس انڈیا میں داخل ہو سکتا تھا۔‬
‫کتاب میں لکھا ہے کہ ایسے ہی ایک برطانوی افسر‪ D‬تھامس گورڈن جنھوں نے سنہ ‪ 1873‬میں پامیر کے پہاڑی‬
‫سلسلے میں وقت گزارا تھا لکھا کہ مشرقی‪( D‬یا چینی) ترکستان اور لداخ کے درمیان بلند و باال پہاڑ کسی بھی جدید‬
‫فوج کو اس طرف‪ D‬نہیں آنے دیں گے لیکن پامیر اور گلگت اور چترال میں دروں کے بارے میں کچھ نھیں کہا جا‬
‫سکتا۔‬
‫’ہمالین بیٹل گراؤنڈ‘کے مطابق اسی طرح کی ایک رپورٹ سر ہنری رالنسن نے سنہ ‪ 1876‬میں لکھی تھی کہ‬
‫’میرے خیال میں اس راستے سے روس کے ساتھ ٹکراؤ کا ذرا بھی خطرہ نھیں۔۔۔ ان دوسرے راستوں کے ہوتے‬
‫ہوئے کوئی بھی فوج کبھی بھی۔۔۔قراقرم‪ D‬سے پنجاب تک پھیلے ہوئے ان پہاڑوں کے راستے آنے کی کوشش نہیں‬
‫کرے گی جہاں ایک کے بعد ایک ‪ 15‬سے ‪ 19‬ہزار فٹ بلندی والے درے ہیں۔ انڈیا کے شمال مغرب میں یہ عالقہ‬
‫سب سے دشوار گزار ہے اور نتیجتا ً اس عالقے میں دو بڑی سلطنتوں کے ٹکراؤ کا امکان انتہائی کم ہے۔‘ لیکن‬
‫مؤرخ لکھتے ہیں کہ سنہ ‪ 1885‬میں روس کی وسطی‪ D‬ایشیا میں پیش قدمی نے برطانیہ‪ D‬کو کشمیر‪ D‬کے راستے‬
‫روس کے ممکنہ حملے کے بارے ہوشیار کر دیا۔ پھر سنہ ‪ 1888‬میں جب ایک برطانوی افسر ایلگرنن ڈیورنڈ‪ D‬نے‬
‫ہنزہ سے واپسی پر الہور آ کر رپورٹ دی کہ انھوں نے گلگت سے گزرتے ہوئے سُنا تھا کہ ایک روسی‪ D‬افسر ہنزہ‬
‫میں دیکھا گیا ہے۔ اس کی اطالع بالکل درست تھی۔ یہ روسی‪ D‬افسر کیپٹن ُگرومچیوسکی تھا جو پامیر کے پہاڑی‬
‫سلسلے اور مشرقی‪ D‬ترکستان کے درمیان راستہ‪ D‬تالش کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اور یوں پھر جیسا کہ ڈیورنڈ‬
‫نے کہا ’کھیل شروع ہو گیا۔‘‬
‫ہنزہ کے عالقے میں خفیہ پہاڑی راستے کی تالش جہاں سے ڈاکو آتے تھے‬
‫سنہ ‪ 1888‬میں ایک برطانوی‪ D‬افسر ایلگرنن ڈیورنڈ نے ہنزہ سے واپسی پر الہور آ کر رپورٹ دی کہ انھوں نے‬
‫گلگت سے گزرتے ہوئے سنا تھا کہ ایک روسی افسر ہنزہ میں دیکھا گیا ہے‪.‬روسی کیپٹن گرومچیوسکی کی ہنزہ‬
‫میں آمد اور ان کے ذریعے ہنزہ کے حکمران کا روس کے قریب ہونے کا امکان تو برطانیہ‪ D‬کے لیے تشویش کا‬
‫باعث تھا ہی اس کے ساتھ ایک اور بڑا مسئلہ بھی تھا‪ :‬ہنزہ میں ایک خفیہ پہاڑی درہ جہاں سے لیہہ یارکند روٹ پر‬
‫حملہ کیا جا سکتا تھا۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ برسوں سے حملہ آور اس خفیہ درے سے آ کر لیہہ اور یارکند کے‬
‫بیچ سفر کرنے والے تاجروں کو لوٹ کر خفیہ راستے سے غائب ہو جاتے تھے۔’یہ نہ صرف‪ D‬برطانوی‪ D‬اشیا میں‬
‫وہاں جو تھوڑی بہت تجارت ہوتی تھی اس کا گال گھونٹنے کے مترادف‪ D‬تھا بلکہ انڈیا کے دفاع کی ذمہ داران کا‬
‫خیال تھا کہ اگر لٹیرے یہ راستہ استعمال کر سکتے ہیں تو کل کو روس بھی اسی راستے کے ذریعے آ سکتا ہے۔‘‬
‫کلکتہ میں برطانوی‪ D‬نے اس خفیہ درے کی تالش کا فیصلہ‪ D‬کر لیا اور اس کی ذمہ داری کیپٹن ینگہزبینڈ کو سونپی‬
‫گئی جنھیں پہلے ہی چین سے ایک نئے راستے سے انڈیا تک کا ‪ 1200‬میل کا سفر کرنے کے بعد کافی شہرت مل‬
‫چکی تھی۔‬
‫برطانوی فوجی افسر نے روسی کیپٹن کے نقشے پر کیا دیکھا‬
‫ینگہزبینڈ آٹھ اگست ‪ 1889‬کو کشمیری اور گورکھا‪ D‬سپاہیوں کے ایک گروپ کے ساتھ لیہہ سے قراقرم پاس کے‬
‫ذریعے ایک دور افتادہ گاؤں شاہد ہللا کی طرف روانہ ہوئے۔ بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر اس گاؤں میں زیادہ تر تاجر‬
‫رہتے تھے جو لیہہ یارکند روٹ پر اکثر سفر کرتے تھے۔ وہ ان تاجروں سے اس خفیہ راستے (شمشال پاس) کے‬
‫بارے میں معلوم کرنا چاہتے تھے۔ انھیں اس گاؤں تک پہنچنے میں ‪ 15‬روز لگے۔ وہاں لوگوں نے بتایا کہ چینی‬
‫حکام ان کی لٹیروں کے بارے میں شکایات پر دھیان نہیں دیتے کیونکہ وہ انڈیا اور سنکیانگ کے درمیان تجارت‬
‫کے حق میں نہیں تھے کیونکہ اس سے ان کی اپنی چائے کی تجارت متاثر ہوتی‪ D‬تھی۔ ینگہزبینڈ‪ D‬اس گاؤں سے‬
‫شمشال پاس کے بارے میں معلومات حاصل کر کے روانہ‪ D‬ہوئے اور ‪ 41‬روز‪ D‬کے بعد ایک انتہائی مشکل راستے‬
‫سے گزر کر اس قلعے تک پہنچے جو ڈاکوؤں کا ٹھکانہ تھا اور جہاں سے اس خفیہ راستے شمشال پاس پر نظر‬
‫رکھی جاتی تھی۔ قلعے میں لوگوں سے بات چیت کر کے انھیں اندازہ ہوا کہ یہ لوگ کسی کے کہنے پر لیہہ یارکند‬
‫روٹ پر قافلے لوٹتے ہیں۔ اسی دوران ایک دلچسپ پیشرفت‪ D‬ہوئی۔ کیپٹن ینگہزینڈ کو اطالع ملی کہ روسی کیپٹن‬
‫گرومچیوسکی‪ D‬عالقے میں واپس آ چکے ہیں اور انھوں نے ان سے ملنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔ کیپٹن ینگہزبینڈ‬
‫نے بعد میں اس مالقات کے بارے میں لکھا بھی تھا۔ انھوں نے اُس رات پہاڑوں روسی میزبانوں نے پُرتکلف کھانا‬
‫پیش کیا اور خوب ووڈکا‪ D‬پی گئی۔ برطانوی‪ D‬کیپٹن نے روسی‪ D‬افسر کے نقشے پر پہاڑی سلسلے پامیر‪ D‬میں ایک‬
‫راستے پر الل نشان لگا ہوا دیکھا۔ ’اب اس بات میں کوئی شک باقی نھیں تھا کہ روس اس سنسان عالقے کے بارے‬
‫میں جانتا ہے جہاں روس‪ ،‬افغانستان‪ ،‬چین اور برطانوی‪ D‬انڈیا ملتے ہیں۔‘ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ گرومچیوسکی نے‬
‫برطانوی‪ D‬افسر پر واضح کیا کہ روس کی فوج میں افسروں اور جوانوں کو ایک ہی چیز کا انتظار ہے اور وہ ہے‬
‫انڈیا پر مارچ کا حکم۔‬
‫دو مخالف سلطنتوں کے افسران نے ان بلند برف پوش چوٹیوں کے سائے میں اپنی حکومتوں کی پالیسیوں‪ D‬کا دفاع‬
‫کیا‪ ،‬ایک دوسرے کے عزائم کو سمجھنے کی کوشش کی اور غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے سے‬
‫معلومات بھی نکلوانے کی کوشش کی۔ تین روز اکٹھے گزارنے کے بعد وہ اپنے اپنے خفیہ مشن پر روانہ ہو گئے۔‬
‫لیکن یہ دونوں کے درمیان آخری رابطہ نھیں تھا۔ برسوں بعد ینگہزبینڈ کو اپنے پرانے دشمن کا خط مال۔‬
‫ہوپکرک لکھتے ہیں کہ گرومچیوسکی نے اس خط میں بتایا کہ کیسے وہ جنرل کے عہدے تک پہنچا اور پھر‬
‫‪ 1917‬کے انقالب کے بعد ان سے سب کچھ چھین کر انھیں سائبیریا‪ D‬میں قید کر دیا گیا۔ وہ وہاں سے فرار ہونے میں‬
‫کامیاب ہونے کے بعد پولینڈ‪ D‬پہنچ گئے جہاں سے ان کے خاندان کا اصل میں تعلق تھا۔‬
‫گرومچیوسکی‪ D‬نے اپنی مہمات کے بارے میں اپنی کتاب بھی خط کے ساتھ ینگہزبینڈ‪ D‬کو بھیجی تھی جو برطانیہ‪D‬‬
‫میں بہت سے اعزازات اور انعامات سے نوازے جا چکے تھے۔‬
‫روس‪ ،‬برطانیہ اور چین کی اس ’گریٹ گیم‘ میں بہت سے افسران‪ ،‬سپاہی اور ایجنٹ شامل تھے اور جو اس کام‬
‫میں ہالک بھی ہوئے۔‬
‫بخارا میں دو برطانوی افسروں کی ہالکت‬
‫دونوں برطانوی‪ D‬افسران کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بخارا کے ساتھ روس کے خالف اتحاد میں اپنے ساتھ مالنے کے‬
‫لیے بھیجا تھا۔ ہوپکرک نے اپنی کتاب میں تفصیل سے دو برطانوی افسران کرنل چارلس سٹوڈارٹ اور کیپٹن آرتھر‬
‫کونولی کی بخارا میں ہالکت کی تفصیل بتائی ہے۔ یہ واقعہ‪ D‬جون سنہ ‪ 1842‬میں پیش آیا۔‬
‫ہوپکرک لکھتے ہیں کہ دونوں افسران جو برطانیہ میں اپنے گھر سے تقریبا ً چار ہزار میل دور تھے کئی ماہ سے‬
‫مقامی امیر کی قید میں تھے۔ دونوں اس بڑی کشمکش کا حصہ بننے کی قیمت ادا کر رہے تھے جسے ’دی گریٹ‬
‫گیم‘ کا نام دیا گیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ان دونوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بخارا کے ساتھ روس کے خالف‬
‫اتحاد میں اپنے ساتھ مالنے کے لیے بھیجا تھا۔ ہوپکرک لکھتے ہیں ’المیہ یہ تھا کہ یہ کرنل ہی تھے جنہوں نے‬
‫پہلی بار گریٹ گیم کی اصالح گھڑی تھی۔۔۔ کئی سال بعد میں (رڈیارڈ) کپلنگ نے اپنے ناول کم کے ذریعے اسے‬
‫مشہور کر دیا تھا۔‘‬
‫دی گریٹ گیم ختم کیسے ہوئی؟‬
‫طے پایا تھا کے دونوں طاقتیں تبت میں مداخلت نہیں کریں گی اور اس کے ساتھ کوئی بھی معاملہ چین کے ذریعے‬
‫طے کیا جائے گا۔ سنہ ‪ 1905‬کے دسمبر میں برطانیہ‪ D‬میں سر ہنری کیمبل بینر مین کی قیادت میں نئی کابینہ وجود‬
‫میں آئی۔ ہوپکرک لکھتے ہیں کہ روس اور برطانیہ دونوں حکومتیں اب ایشیا کے بارے میں تنازعات ہمیشہ کے‬
‫لیے حل کرنا چاہتی تھیں جس پر حالیہ دہائیوں میں دونوں ممالک کا بہت وقت اور توانائی‪ D‬صرف ہوتی چلی آ رہی‬
‫تھی۔انھوں نے لکھا ہے کہ کئی مہینوں تک جاری رہنے والے یہ مذاکرات صرف تین ممالک تبت‪ ،‬افغانستان‪ D‬اور‬
‫ایران پر مرکوز تھے اور یہ تینوں ممالک انڈیا کے دفاع کے لیے بہت ضروری‪ D‬تھے۔ بہت سے اختالفات اور لے‬
‫دے کے بعد باآلخر اگست سنہ ‪ 1907‬میں برطانیہ‪ D‬کے وزیر خارجہ سر ایڈورڈ‪ D‬گرے اور روس کے وزیر خارجہ‬
‫کاؤنٹ الیگزینڈر ازولسکی‪ D‬کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا۔‬
‫’گریٹ گیم تیزی سے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔‘ہوپکرک لکھتے ہیں کہ برطانیہ اب جرمنی کے بارے میں‬
‫فکرمند تھا۔ ’‪ 31‬اگست کو سینٹ پیٹرز برگ میں انتہائی رازداری‪ D‬کے ساتھ روس برطانیہ نے ایک تاریخی معاہدے‬
‫پر دستخط‪ D‬کر دیے۔ ` طے پایا تھا کے دونوں طاقتیں تبت میں مداخلت نہیں کریں گی اور اس کے ساتھ کوئی بھی‬
‫معاملہ چین کے ذریعے طے کیا جائے گا۔‬
‫ہوپکرک لکھتے ہیں کہ روس نے افغانستان پر برطانیہ‪ D‬کا اثر و رسوخ تسلیم کر لیا اور دونوں نے وہاں اپنے ایجنٹ‬
‫نہ بھیجنے کا عہد کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ برطانیہ نے وسطی‪ D‬ایشیا میں زار کی حکمرانی کی مخالفت نہ کرنے کی‬
‫بھی ضمانت دی۔ ایران کے معاملہ میں اس فیصلے کے مطابق‪ D‬ملک کی آزادی کا پاس کرنے کا عہد ہو گیا اور‬
‫ساتھ ہی روس کا اس کے شمال اور وسطی حصوں میں اثر تسلیم کیا گیا جبکہ ملک کے جنوب پر برطانیہ‪ D‬کے اثر‬
‫کو تسلیم کیا گیا۔ روس اور برطانیہ کے درمیان اس معاہدے کی دونوں ممالک میں شدید مخالفت ہوئی۔ ہوپکرک‬
‫لکھتے ہیں کہ ایران اور افغانستان‪ D‬کو بھی ان سے مشاورت نہ کیے جانے پر شدید اعتراض تھا۔ ’باآلخر روس کے‬
‫حملے کا ڈر ختم ہو گیا۔ اس کام میں تقریبا ً ایک صدی لگ گئی جس میں دونوں طرف سے بہت سے بہادر لوگوں‬
‫کی جانیں گئیں لیکن آخر میں مسئلہ سفارتکاری‪ D‬کے ذریعے ہی حل ہوا۔‘ ہوپکرک لکھتے ہیں اگست سنہ ‪ 1914‬میں‬
‫روس اور برطانیہ ایشیا اور یورپ میں جرمنی اور ترکی کے خالف جنگ میں اتحادی کی حیثیت میں شامل ہوئے۔‬
‫لیکن پھر روس میں اکتوبر‪ D‬سنہ ‪ 1917‬میں انقالب آ گیا اور نئی حکومت کی طرف‪ D‬سے سنہ ‪ 1907‬کے معاہدے‬
‫تمام معاہدے ختم کر دیے گئے۔ ہوپکرک لکھتے ہیں اس کے بعد ’گریٹ گیم‘ نئے روپ میں ایک بار پھر شروع‪ D‬ہو‬
‫گئی۔‬

You might also like