You are on page 1of 3

‫سادہ خوشبو سے بجلی کہانی‬

‫ریٹیلر ٹیکس نہ دے‪ ،‬آڑھتی ٹیکس نہ دے‪ ،‬زراعت کا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہو‪ ،‬سمگلنگ پہ روک ٹوک نہ ہو‪،‬‬
‫ہر سیکٹر کیش پہ چلے‪ ،‬شہری کے پاس اختیار ہو کہ وہ ریاست کو ٹیکس نہ دے اور خود کو “نان فائلر” کہے‪،‬‬
‫سرکاری ادارے ہزاروں ارب روپے کے گھاٹے میں ہوں تو مطلب آپ چاہتے ہیں کہ پورا ملک صرف پجلی اور‬
‫تیل پر ٹیکس لگا کر چالیا جائے۔ یعنی غریب مر جائے‬

‫کسی فالں لیڈر ‪ ،‬ڈھمکاں ملک کی مثالیں اب اس مملکت پہ زیب نہیں دیتی کیونکہ وہ ملک اپنے لوگوں کے ساتھ‬
‫اور وہ لیڈر اپنے لوگوں کے ساتھ سنجیدہ ہیں۔ انکے پالیسی ساز افسر شاہی کے بجائے شاید ملکی مفاد کو پہلے‬
‫سامنے رکھتے ہیں ۔ ہمارے پالیسی ساز اس ملک میں یوں رہتے ہیں جیسے کوئی افسر دوسرے شہر کی تعیناتی‬
‫میں وقت گزارتا ہے۔ نہ اسے اس شہر سے غرض نہ اسکے لوگوں سے۔ اور اس کے پالیسی فیصلے ِگدھوں اور‬
‫لگڑ بھگوں کا گٹھ بندھن لگتے ہیں۔‬

‫بجلی کا مسئلہ شروع ہوا اس پالیسی سے جس پر عملدرآمد کرانے میں مشرف ناکام رہے۔ سستی بجلی کی پالیسی۔‬
‫مگر نہ بھاشا بنا‪ ،‬نہ بونجی‪ ،‬نہ ڈاسو‪ ،‬نہ ونڈ پاور کے چالیس ہزار میگا واٹ ملے‪ ،‬نہ تھر کول سے ‪ 40‬سال تک‬
‫‪ 20‬ہزار میگاواٹ نکلے۔ بس محکمے ایک دوسرے کو چٹھیاں لکھتے رہے ۔ معیشت کی گروتھ مستحکم تھی۔ بجلی‬
‫کی کھپت بڑھ رہی تھی اور اپالئنسز (اے سی‪ /‬فریج) بنانے والی کمپنیاں دھڑا دھڑ بزنس بڑھا رہی تھی۔‬

‫اس سب سے بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوا ۔ مشرف کو جنگ و جدل سے فرصت نہ ملی اور سن ‪ 1999‬میں‬
‫‪ 15000‬میگا واٹ سے ‪ 2006‬تک ‪ 21‬ہزار میگاواٹ ہی بجلی کی صالحیت بڑھ سکی۔ ضرورت اس سے زیادہ‬
‫کی تھی ۔‬

‫پھر مشرف ایک پر ایک فاش غلطی کرتے رہے اور نتیجتًا سستی بجلی کا خواب ادھورا رہ گیا۔ مگر ڈیمانڈ بڑھتی‬
‫رہی۔ نتیجتًا مہنگی تھرمل بجلی بنائی گئی اور اس پر حکومت نے سبسڈی دے کر عزت بچائی۔ مگر وہ سبسڈی‬
‫کہاں سے دیتی جس حکومت کے پلے کچھ تھا ہی نہیں۔ نتیجہ نکال ‪ 2007‬کا "سرکولر ڈیٹ" یعنی گردشی قرضہ‪.‬‬

‫‪ 2008‬میں زرداری حکومت کو بد ترین بجلی بحران ‪ 100‬ارب کے گردشی قرضے کے ساتھ مال۔ کچھ سمجھ نہ‬
‫آیا کیا کریں۔ ہم مشرف دور کے ‪ 10‬سال نیلم جہلم جیسے فضول منصوبوں پر ضائع کر چکے تھے۔ جلتی آگ پہ‬
‫کنواں کہاں کُھد سکتا ہے۔ چنانچہ سرمایہ کاروں کو من مانے اللچ دے کر کرائے کے بجلی گھر منگوائے گئے۔‬

‫ضیاء دور میں جب ‪ IPP‬کا تصور آیا تو پرائیویٹ پارٹیوں کو ‪ Capacity Payments‬کی کشش دی گئی کہ وہ‬
‫سرمایہ کاری میں دلچسپی لیں۔ کیپیسٹی پیمنٹ میں ان پارٹیوں کے بجلی گھر کے لئے حاصل کئے گئے قرضوں‬
‫کی ادائیگی ‪ ،‬ڈالر کی قیمت کے اتار چڑھاؤ‪ 18 ،‬فیصد ‪ IRR‬اور ‪ ROI‬کی مد میں‪ ،‬بجلی گھر کی انشورنس اور‬
‫آپریشن اینڈ مینٹیننس کی لئے بجلی گھر کی صالحیت کا ساٹھ فیصد دیا جانا تھا۔‬

‫ان تمام ادائیگیوں کے باوجود ڈالر اور تیل سستا ہونے کے باعث یہ بجلی سرکاری تھرمل بجلی گھروں سے ‪11‬‬
‫سے ‪ 25‬فیصد سستی پڑتی تھی۔‬

‫بی بی دور میں ان پارٹیوں پر یہ شرط باندھی گئی کہ پہلے دس سال کے لئے بجلی کا نرخ ساڑھے چھ سینٹ‬
‫(آجکل کے ‪ 20‬روپے) اور اسکے بعد چھ سینٹ (آجکل کے اٹھارہ روپے) ہوگا۔ تب بھی یہ بجلی سرکاری تھرمل‬
‫بجلی گھروں سے سستی پڑ رہی تھی۔ یہ اور بات کہ تربیال اور منگال اس زمانے میں ‪ 22‬پیسے کا یونٹ بنا رہے‬
‫تھے۔‬

‫زرداری دور میں بھی یہی توقع تھی کہ جیسے ماضی میں پرائیویٹ پارٹیوں سے بجلی لینا فائدہ مند رہا ہے اس بار‬
‫بھی ایسا ہی ہوگا۔ مگر ‪ 2008‬میں شروع ہونے واال رینٹل پاور منصوبہ برے طریقے سے ناکام ہوا۔ جو پی پی‬
‫حکومت کے سب سے بڑی ناکامی بنا۔‬

‫‪2100‬میگاواٹ کے رینٹل بجلی گھروں سے بجلی کیا حاصل ہوتی‪ 60 ،‬ارب روپے کے خسارے اور خرد برد کے‬
‫معامالت سامنے آگئے۔ جس پر ‪ 2012‬میں سپریم کورٹ نے تمام رینٹل بجلی گھر غیر قانونی قرار دے کر بند کرا‬
‫دئیے۔ اسکے جرمانے کے طور پر ہمیں کارکے کمپنی کو ‪ 70‬کروڑ ڈالر الگ سے ادا کرنے پڑے۔ وہ گردشی‬
‫قرضے جو مشرف ‪ 100‬ارب پر چھوڑ گئے تھے‪ ،‬اب ‪ 400‬ارب سے تجاوز ر چکے تھے۔‬

‫پھر آیا ‪ 2013‬اور آئی ن لیگ۔ جس نے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بن کر میمو گیٹ‪ ،‬عدلیہ تحریک چال کر پی پی‬
‫حکومت کے لئے سیاسی مشکالت کھڑی کی تھی‪ ،‬مینار پاکستان پر خیمے میں پنکھا جھلتے ہوئے شرفاء سے عوام‬
‫نے توقعات وابستہ کر لی تھی۔ اس حکومت نے آتے کے ساتھ ہی گردشی قرضوں کی تمام ادائیگیاں کرنے کا اعالن‬
‫کر دیا۔ دو سال بعد وہی گردشی قرضہ ‪ 200‬ارب روپے پر کھڑا تھا۔‬

‫‪ 2013‬اور ‪ 2015‬میں دو پالیسیاں بنی۔ پہلی ‪ upfront‬ٹیرف اور ‪ competitive bidding‬کی‪ ،‬دوسری ‪capacity‬‬
‫میں اضافے کی۔ اس کی تفصیالت میں جانا بورنگ ہے مگر اسکا ماڈل یہ تھا کہ جتنی زیادہ بجلی استعمال ہوگی‬
‫حکومت کو اتنی سستی پڑے گی۔‬

‫یعنی اگر ایک پالنٹ ‪ 100‬یونٹ بناتا ہے اور مان لو ایک روپے کا یونٹ ہے(کاش!) تو حکومت ساٹھ روپے تو‬
‫اسے ‪ capacity‬کی مد میں دے ہی رہی ہے۔ اگر وہ پالنٹ ‪ 100‬یونٹ بنائے تو حکومت کو ‪ 1‬روپے کا یونٹ پڑے‬
‫گا۔ اگر صرف ‪ 1‬یونٹ بنائے گا تو حکومت کو ‪ 60‬روپے کا یونٹ پڑے گا (یہ حساب بالکل فرضی ہے اور صرف‬
‫سمجھانے کے لئے ہے)‬

‫نواز حکومت نے آخری ‪ 14‬مہینوں میں ‪ 7500‬میگاواٹ کے نئے بجلی گھر لگائے۔ نئے پالنٹس کو ‪ LNG‬پر منتقل‬
‫کیا جو اسوقت سستا فیول تھا۔ قطر سے معائدہ بھی کر لیا۔ مگر یہ کسی نے نہیں سوچا کہ جب ‪ LNG‬مہنگی ہو‬
‫جائے گی تب ان بجلی گھروں اور ان کی ‪ capacity‬پےمنٹ کا کیا ہوگا۔ اور اتنی بڑی ‪ capacity payment‬جو‬
‫گردشی قرضہ ‪ generate‬کرے گی وہ حکومت کیسے ادا کر پائے گی۔‬

‫پی ٹی آئی حکومت کے سر پر یہ ن لیگ کے کئے یہ معاہدے اور ‪ 700‬ارب کے گردشی قرضے اس طرح گرے‬
‫جیسے خچر پہ سریا الد دیا جائے۔ نہ آگے چل پائے‪ ،‬نہ کھڑا رہ پائے۔ بجلی گھر اتنی تعداد میں لگ چکے تھے کہ‬
‫ان کی بجلی لینے کے لئے سسٹم کی تاروں میں گنجائش ہی نہیں تھی۔ معیشت وینٹیلیٹر پر تھی۔ روپے کی قدر‬
‫گرانی پڑی۔ روپے کی قدر گری تو فیول پاکستانی روپے میں مہنگا ہو گیا۔ عالمی منڈی میں تیل سو ڈالر سے اوپر‬
‫چال گیا۔ ایل این جی کے موجودہ ٹرمینل کم پڑنے لگے۔ طویل مدتی معائدے کے بجائے جگاڑو کام چالیا گیا اور‬
‫ایل این جی کی ‪ spot buying‬شروع کر دی گئی۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ کبھی ایل این جی کا کارگو ‪ 30‬کروڑ ڈالر‬
‫کا آتا اور کبھی وہی کارگو ‪ 1‬کروڑ کا۔ اور اس سب پر ‪ capacity payment‬اور گردشی قرضے کا جن تھا کہ‬
‫بڑھتا ہی چال جا رہا تھا۔ حکومت دیوانہ وار مزید قرضے لے کر سسٹم کو زندہ رکھ رہی تھی۔ ان قرضوں پہ سود‬
‫پڑ رہا تھا۔ ایک افراتفری کا عالم تھا۔ ایسے میں حکومت ٹیکس لینے تاجروں ‪ ،‬زمینداروں‪ ،‬آڑھتیوں‪ ،‬پراپرٹی والوں‬
‫کے پاس گئی۔ سب نے ٹھینگا دکھا دیا کیونکہ اس ملک میں سوائے حکومت کے سب کی بدمعاشی ہے۔ نتیجہ اس‬
‫ساری دیوانگی کا بوجھ منتقل کیا گیا بجلی کے بلوں پر۔‬
‫عمران خان صاحب نے اس کروشل موقع پر ‪ IMF‬کے پروگرام کو سائڈ پہ رکھا اور عوامی بن گئے۔ حکومت فی‬
‫لیٹر پیٹرول پہ ‪ 100‬روپیا پلے سے دینے لگی۔ یعنی مزید قرضہ‪ ،‬مزید گردشی قرضہ۔ بجلی کی قیمت عارضی‬
‫مستحکم ہوئی اور غریب دعائیں دینے لگے۔ البتہ اکانومسٹ آیت کریمہ کا ورد کرنے لگے۔‬

‫‪ 2022‬میں عمران خان کے رخصت ہونے کے بعد ‪ 2400‬ارب روپے کا گردشی قرضہ آنکھیں دکھا رہا تھا۔ ہم‬
‫المدد آئی ایم ایف کہتے جب انکے پاس گئے تو آئی ایم ایف نے ہماری معیشت کی حالت دیکھتے ہوئے مخلصانہ‬
‫مشورہ دیا کہ میاں ٹیکس اکھٹا کرنا سیکھو‪ ،‬معاشی اصالحات کرو‪ ،‬افسر شاہی اور ٹھاٹھ باٹھ ختم کرو‪ ،‬اور ہاں‪،‬یہ‬
‫سبسڈی دے دے کر ‪ capacity payment‬اور گردشی قرضے مت بڑھاؤ اور بجلی کی جو قیمت بنتی ہو وہی‬
‫وصول کرو۔ یہ تجاویز کسی بھی عقل والے کی سمجھ میں آتی مگر کم سے کم کسی سیاسی جماعت کے بس کا‬
‫روگ نہیں تھا۔‬

‫سیاسی انتشار نے پہلے ہی غیر یقینی پیدا کر رکھی تھی۔ نتیجہ ڈالر پہ پریشر بڑھا اور روپے کی قدر گرتی چلی‬
‫گئی۔ بجلی گھروں میں ایل این جی اور تیل تو ڈالر کا ہی ڈلتا ہے۔ اس کا بوجھ حکومت کہاں سے دے جس کی آمدن‬
‫ہی صرف ٹیکس ہوتی ہے۔وہ ٹیکس جو اس حکومت کو کوئی نہیں دیتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکس کو بجلی کے بلوں‬
‫میں ڈال دئیے گئے۔ اور لوگ بجلی کے بل سے زیادہ قیمت ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔‬

‫اس سال کا گردشی قرضہ ‪ 2700‬ارب روپے ہوگا۔ اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا۔ عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر ان‬
‫بجلی گھروں کے انجن کا جہنم بھرنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔‪ 2007‬سے ابتک ‪ 37‬ارب ڈالر اس بے ہودگی میں‬
‫جھونکے جا چکے ہیں۔ اور اس پاگل پن کا کوئی اختتام نہیں۔‬

‫بجلی کی ترسیل کا نظام اس چھ طرفہ تباہی میں ایک اور بڑھا کر ستے خیراں پوری کر دیتا ہے۔ بجلی کا نظام اس‬
‫قدر فرسودہ‪ ،‬بھونڈا‪ ،‬کرپشن سے بھرپور اور بےکار ہے کہ ملک میں ‪ 120‬ارب یونٹ بجلی ساالنہ بنتی ہے جس‬
‫میں سے ‪ 90‬ارب یونٹ ہی ریکوری ہوتی ہے اور ‪ 30‬ارب یونٹ ضائع ہو جاتے ہیں جو کل پیداوار کا پچیس‬
‫فیصد ہیں۔ اس بے ہودگی کو پیار سے الئن السز کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں الئن السز ‪ 5‬فیصد ہیں۔‬

‫بروقت بڑے پن بجلی منصوبے نہ بنانا‪ ،‬ونڈ‪ ،‬سولر‪،‬ہائیڈرو کے بجائے تھرمل پر فوکس کرنا‪ ،‬امپورٹڈ فیول پہ‬
‫انحصار ‪ ،‬عجلت میں کئے گئے نا سمجھی پر مبنی فیصلے‪ ،‬کرپشن ‪ ،‬ٹیکس اصالحات سے فرار اور طویل مدتی‬
‫کلئیر روڈ میپ پر سیاسی جماعتوں کا ‪ consensus‬نہ ہونا‪ ،‬یہ وہ مسائل ہیں جس کے باعث آج ہر طرف بجلی کے‬
‫بلوں نے آگ لگا دی ہے۔ جتنا روپیہ مزید گرے گا یہ آگ مزید بھڑکے گی۔‬

‫میں گزشتہ چند دنوں میں تین ایسے افراد سے مال ہوں جنہوں نے گردشی قرضے کو کم کرنے کے فارمولے پر‬
‫کام کیا ہے۔ ایک صاحب کا دعوی ہے کہ ان کے فارمولے کے ذریعے گردشی قرضہ آدھا ہو سکتا ہے۔‬

‫معاملہ بگڑ چکا ہے ‪ ،‬ہم تیرا لیڈر میرا لیڈر ‪ ،‬تیرا جج میرا جج کھیل رہے ہیں اور عوام کی حالت یہ ہے کہ لوگ‬
‫خود سوزیاں کر رہے ہیں اور آثار دیکھ کر لگتا ہے کہ خاکم بدہن کرتے رہیں گے۔‬

You might also like