You are on page 1of 51

‫مزاحمتی ادب‬

‫ان تحریروں کو صرف تعیلمی اور تحقیقی مقاصد کے لئے یکجا کیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫تا کہ طلباء استفادہ حاصل کر سکیں۔‬
‫دمحم بادب دیا‬
‫مزاحمتی ادب اور اسکی تشریحات‬
‫ەەەەەەەەەەەەەەەەەەەەەەەە‬

‫نعیم بیگ‬
‫جنگ عظیم دوئم ایک ایسے دور کا آؼاز ہوا جہاں دنیا بھر میں نوآبادیاتی نظام‬
‫ِ‬ ‫بیسویں صدی میں بعد از‬
‫نے دم توڑنا شروع کر دیا تھاە یورپی الوام ‪ ،‬بالخصوص اتحادیوں کی جملہ ممتدر سیاسی جماعتوں کو‬
‫پیش نظر ان اندیشہ ہائے فکر کا سامنا تھا کہ اب انہیں ان کالونیز سے‬
‫جنگ کی ہولناک تباہیوں کے ِ‬
‫مزاحمت کا شدید سامنا کرنا ہوگا‪ ،‬جہاں استعمار کی لوٹ مار اور بد عمالیوں سے معاشی و سیاسی بدحالی‬
‫اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیە یورپی جنگوں نے نوآبادیاتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک ایسا زخم‬
‫لگایا تھا جس سے امپیریلزم کا اعصابی سسٹم انتشار وانتماض کی لپیٹ میں آگیا تھاە اس سے پہلے بھی‬
‫استعماریت اپنے طور پر کالونیل دور میں کمزور سیاسی ‪ ،‬ثمافتی و سماجی مزاحمت کا سامنا تو کر رہی‬
‫تھی‪ ،‬لیکن انکی مائٹی طالت کے سامنے عاللائی اور ممامی لوتیں ہیچ تھیںە اس تناظر میں چالیس کی‬
‫دھائی کے آخری برس بہت اہم تھےە تین بڑے براعظم ایشیا ‪ ،‬افریمہ اور الطینی امریکہ بالواسطہ طور پر‬
‫نوآبادیاتی نظام کی جکڑ میں تھے‪،‬جہاں سیاسی و ادبی مزاحمت نوآبادیاتی ثمافتی پیراڈاکسز کو لئے ابھر‬
‫رہی تھی لیکن لطعیت لبول عام نہ تھیە ایسی صورت میں جب ‪ ۷۴۹۱‬میں ایک طرؾ ہندوستان کی تمسیم‬
‫وسطی میں ‪ ۷۴۹۱‬میں اسرائیل کا‬
‫ٰ‬ ‫ق‬
‫اور آزادی کا اعالن ہوا ‪،‬اور پاکستان کا لیام وجود میں آیا‪ ،‬وہیں مشر ِ‬
‫لیام ایک اہم پیش رفت تھیە‬

‫ت انگلیشیہ کے تحت تھے لہذا یہاں پر‬


‫برصؽیر میں ہر دو ممالک تمسیم و آزادی سے پہلے چونکہ سلطن ِ‬
‫مابعد نوآبادیاتی مسائل کی شاخیں ابھی نئی کونپلوں سے آشنا نہیں ہوئی تھیں‪ ،‬انہیں پھوٹنے کے لئے‬
‫مسلسل کنفلکٹ اور مزاحمت جیسے جوہر کی آبیاری کی ضرورت تھیە آزادی کے بعد ہندوستان میں‬
‫کانگریس نے ایک دبیز ریاستی پردہ اوڑھ لیا اور فوری طور پر آئین سازی کی اور اس کے بعد اپنی‬
‫زرعی و دیگر سوشل اصالحات کی طرؾ متوجہ ہوگیا‪ ،‬جبکہ نومولود پاکستان مابعد تمسیم نہ صرؾ لیڈر‬
‫شپ کے بحران کا شکار ہوگیا بلکہ اپنے معاشی مسائل اور شمال مشرلی اور شمال مؽربی سرحدوں کی‬
‫ؼیر متعینہ صورت حال سے دوچار رہاە‬
‫دوسری طرؾ اسرائیل کے لیام کے بعد فلسطین کی تمسیم سے فلسطیوں کا ایک اکثریتی حصہ محروم‬
‫اِآلرث کا شکار ہو گیاە جؽرافیائی محرومی سے لطع نظر مذہبی اور متبرک ممامات ‪ ،‬بیت الممدس کی‬
‫ؼیراعالنیہ تمسیم اور بعد ازاں اسرائیل کی انانیت مزاحمت کی تحاریک کا ہراول دستہ ثابت ہوئیں چونکہ‬
‫وہاں لیادت اپنی فکری سوچ کے ساتھ جواں تھی‪ ،‬یوں مزاحمت اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگیە‬

‫تاہم ادب میں مزاحمتی اصطالح کے طور پر ‟ ادب المماومۃ ٗ „ کی تاریخی اصطالح اس ولت رائج ہوئی ‪،‬‬
‫‪Adab ul Muqawama meaning thereby (Literature of resistance) which later‬‬
‫ە جب ‪ ۷۴۱۱‬ء میں فلسطینی ادیب و نماد ؼسان کنفانی نے ‟‟ ‪termed as doctrine of Muqawma‬‬
‫‘‘ فلسطین میں مزاحمتی ادب ‪۱۱‬ە‪۷۴۹۱‬‬

‫کے عنوان سے ایک مضمون لکھاە ؼسان نے یہ مضمون ‪ ۷۴۱۱‬کی جنگ سے پہلے لکھا جس میں )‪(۷‬‬
‫فلسطینی مجاہدین اور اسرائیل کے کنفلکٹ کو نہ صرؾ نمایاں عالمی ادب کا حصہ بنایا بلکہ ہم عصر‬
‫ق بعید اور افریمہ میں جاری تھیں کے‬
‫تحاریک جو اس ولت آزادی کی جدو جہد میں الطینی امریکہ ‪ ،‬مشر ِ‬
‫ساتھ ال کھڑا کیاە اس ممالے میں مؽربی استعماریت کے خالؾ ایک پوری تاریخ درج ہونے کے ساتھ ہی‬
‫زیر‬
‫مزاحمتی ادب کا کردار‪ ،‬اس کے بنیادی عناصر اور وسیع تر مابعد نوآبادیاتی رحجانات ‪ ،‬تفاوت کو ِ‬
‫بحث الیا گیاە ؼسان نے ایک کام اور کیا کہ انہوں نے عالمتی ابالؼیات ( سیمیوٹک) سے ہٹ کر مزاحمت‬
‫کے وسیع تر معنیاتی نظام کو بھی تشکیل دینے کی صراحت کی ە مزاحمتی متون کی تثلیث کاری ‟ سیاق ‪،‬‬
‫تناظر و ثمافت„ کو یک جا کرتے ہوئے اسے تجارب کی دنیا سے نکال کر ایک حمیمت کا روپ دینے کی‬
‫بے مثال کوشش کی جو بعد ازاں مزاحمتی محرکات کی متصور ہ صورت متعین کرنے مدومعاون ثابت‬
‫ہوئیە‬

‫جب ‪ ۷۴۱۱‬میں یہ ممالہ لکھا گیا تب اسرائیل نے ممبوضہ عاللوں میں سنسر شپ لگایا ہوا تھا‪ ،‬لہذا ایک‬
‫عرصہ تک عرب دنیا اور عالمی دنیا ممبوضہ فلسطین میں لکھے جانے والے ادب سے ناآشنا تھیە اس‬
‫زمانے میں ؼسان نے زیادہ تر ادبی ملفوظات کو محفوظ کرنے اور انہیں یک جا کر نے میں ولت گزاراە‬

‫اسکا خیال تھا کہ مزاحمت ہمیشہ ممبوضہ اور ؼیر ممبوضہ عاللوں میں کسی ایک لوم کے منمسم ہو‬
‫جانے پر منصہ شہود پر آتی ہے ە جہاں ثمافت اور لسانی بنیادیں یکساں ہوں لیکن ایک حصہ تارک الوطن‬
‫ہو جائے یا جال وطن اور دوسرا ممبوضہ حصہ میں اپنی ثمافت و عمائد کے چھینے جانے پر اسکا محافظ‬
‫بن جائے ە ؼسان کے فکری مزاحمتی نظریے کے مطابك ممبوضہ حصے میں ثمافتی اور ادبی سرگرمیاں‬
‫‟‟ جبری ثمافتی حصار„„ یا ‟‟کلچرل س ِیج „„ کی صورت اختیار کر جانے کی وجہ سے اپنی اسی حیثیت سے‬
‫پہچانی جائیں گی‪ ،‬اور یہی وہ ممام ہے جہاں سے مزاحمتی ادب جنم لیتا ہے ە یہ کہتے ہوئے ؼسان بظاہر‬
‫دعوی کا اظہارکرتا ہے لیکن درحمیمت یہ بنیادی حمائك ہیں جہاں وہ‬
‫ٰ‬ ‫اس بات سے التعلمی اور ترک‬
‫مزاحمتی ادب کے ان جوہری عناصر کی نشان دہی کرتا ہے‪ ،‬اور ایسا کرتے ہوئے عالمی نمادوں کو ایک‬
‫ایسا خال ( ویکیوم ) مہیا کر دیتا ہے جسے پُر کرنے کے لئے عالمی دانشور اپنے عمودی اور افمی تحمیمی‬
‫و فکری سطح کے نئے خیاالت تجسیم کریں ە دراصل یہ حمیمت پسندانہ عمل خود اس بات کی گواہی دیتا‬
‫ترک تعلك کا یہ بیان بذات خود ادبی تنمید و تحمیك کے ان ضوابط کے تحت ان تمام‬
‫ِ‬ ‫ہے کہ ؼسان کا‬
‫مضامین کو جو مزاحمتی ادب کے دائرہ کا ر میں آتے ہوں پر بھرپور توجہ اور اضافت کا اظہار ہےە‬
‫‪ ’’ The attempts at a history of the resistance literature of a given‬ؼسان کہتا ہے ەەە‬
‫‪people are usually, for reasons that are self-evident, accomplished after‬‬
‫‪liberation. With respect to the literature of resistance in occupied Palestine,‬‬
‫‪however it is necessary that the Arab reader is general and the Palestinian‬‬
‫‪emigrant in particular study its persistent continuation, because it is‬‬
‫‪fundamentally to be found in the language itself and speech of the Arabs of‬‬
‫‪occupied Palestine. The resistance springs from these linguistics initiatives‬‬
‫‘‘ ‪working together with the rigidity of conditions of the situation.‬‬

‫پس منظر میں یہ لرین از لیاس ہے کہ کوئی بھی عمومی نظریاتی فلسفہ اپنی اضافت اور لطعیت کے‬
‫اس ِ‬
‫ساتھ اس ولت تک مکمل نہیں ہوتا بالخصوص مزاحمتی ادب کے حوالے سے جب تک کہ متعلمہ تنمید نگار‬
‫اس نظریاتی و فلسفیاتی معنیاتی نظام کے تفاوت کو جؽرافیائی طور پر اپنی ذاتی موجودگی سے خود پرکھ‬
‫صع تو کر‬
‫نہ لےە مزاحمتی ادب میں للمکار دور بیٹھ کر فکشنل انداز سے اپنی تحریر کو ضوابط سے ُمر ّ‬
‫سکتا ہے لیکن اُن انِتمادی تشکیالت کی حدود کو چھو نہیں سکتا جو موجودا ِ‬
‫ت خارجی سے پیدا ہو تی ہوںە‬
‫معروؾ نماد میلڈوناڈو ڈینس اپنے مزاحمتی ادبی کے ممالے ‟‟ اینٹیلکچوئلز رول ان پیرو ریکو ٹوڈے„„ میں‬
‫رلم طراز ہے کہ ‟‟ مزاحمتی ادب دانشوروں کا ایک مخصوص ادبی انداز ہے جس سے وہ سماجی و‬
‫‘‘ ثمافتی جبر کو آسولیشن میں دیکھتے ہیںە‬

‫تیسری دنیا کی لریبی تاریخ اپنے مزاحمتی منظر کو اپنے عدم وجودیت کی تناظر میں نہیں دیکھتی )‪(۲‬‬
‫بلکہ اسے ممکنہ حد تک کالونیلزم کے اثرات کے ابتدائی رول سے دیکھتی ہےە ‟‟ گلوبل رفٹ „„ میں ایل ە‬
‫ایس ە سٹاورنوس اس جملے سے اپنی بات شروع کرتے ہیں کہ ‟‟ نوآبادیاتی نظام درحمیمت پندرہویں صدی‬
‫سے اٹھارویں صدی تک عالمی سرمایہ دارانہ تجارتی ظہور کی ایک شکل تھی جس نے جؽرافیائی حدود‬
‫کو اپنی المحدود طالت سے ممبوض کیا اور ان ممبوضہ سوسائٹیز کے ساتھ نئے اختالط کی شروعات‬
‫ت حال برصؽیر کو اس ولت پیش‬
‫نتائجیت کی پروا کئے بؽیر اِختصام کی راہ پر َمنتج کیںە„„ ایسی ہی صور ِ‬
‫آئی جب تمسیم ہند کے ولت کشمیر و دیگر سرحدی تنازعات کو حل طلب چھوڑ کر سلطنت برطانیہ یہاں‬
‫سے نکل گئی ە انکے ابتدائی خیال میں ہندوستان کو چھوڑ کر چلے جانے کے بعد یہ ُمنمسم ممالک بوجہ‬
‫ت حال پیدا کی‬
‫اپنے سرحدی تنازعات رہنے کے لابل نہ ہونگے ە دوسرے لفظوں میں انہوں نے وہی صور ِ‬
‫ك خودارادیت‬
‫جو ؼسان مزاحمتی ادب کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہےە کشمیر کی ح ِ‬
‫ت حال تھی جس کی بنیاد پر ایک بڑے طبمے‬
‫اور بعد ازاں تمسیم کا تنازع در حمیمت ایک ایسی ہی صور ِ‬
‫نے ِجال وطن ہو کر پاکستان میں پناہ لی اور پھر یہاں سے مزاحمتی تحریک کا احیاء ہواە مزاحمت‬
‫درحممیمت ان آزاد سماجی و ثمافتی رویوں کے جبری استحصال سے انکار کا نام ہے جو سیاسی و عمرانی‬
‫دباؤ کے تحت انسانی زندگی میں در آتا ہے ە اِسی جبری برتاؤ اور دستور کو جب ایک ادیب و شاعر اپنے‬
‫الفاظ میں ایک جدوجہدکا نام دیتا ہے تو اسے ہم مزاحمتی ادب کی شرح میں لبولیت بخشتے ہیںە اسکی‬
‫بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آزادی کا حصول ایک مرحلہ وار اور ہمہ جہت جنگ کی شکل میں ہوتا ہےە‬
‫امریکہ کے معروؾ ادیب و مورخ اور جنوب مؽربی ایشیا کے سیاسی و سماجی علوم پر دسترس رکھنے‬
‫والے پروفیسر سٹینلے وولپرٹ نے اپنی کتاب ‟‟ شیم فل فالئٹ „„ میں رلم طراز ہوتے ہیںە‬

‫‪(۳) "I must say, Bengal's Secretary John DowsonTyson wrote from Calcutta‬‬
‫‪on July 5133 'Mountbatten is a hustler; ever since he came out he has‬‬
‫‪pursued shocked tactics133 He made his plan {and} soon after that the blitz‬‬
‫‪began. And since the time when he launched his blitz, he has given no one‬‬
‫‪any rest--- the Indian leaders least of all. He has kept them so busy--- so‬‬
‫‪much on the run that they have not had the time to draw breath and criticize.‬‬
‫‪Before they know where they are we shall be out--- and I believe now, we‬‬
‫‪shall withdraw in fairly peaceful conditions--- whatever may happen after we‬‬
‫‪have gone133 I think there will be very unsettled conditions in India for some‬‬
‫‪time to come133 but the trouble will be primarily between Hindus and‬‬
‫‪Muslims--- not anti European. The India of "after August 15" will not be the‬‬
‫"‪kind of country I should want to live in.‬‬
‫ت برطانیہ نے کس‬
‫اس التباس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان سے نکلتے ہوئے سلطن ِ‬
‫تیزی کے ساتھ مسائل کے انبار کو بالعموم اور سرحدی تنازعات کو بالخصوص دانستہ پیچھے چھوڑا‪،‬کہ‬
‫سے باہر نہ نکل سکیں ە )‪ (Conflict‬کئی ایک دھائیوں تک ممبوضہ اور ؼیر ممبوضہ الوام اس کنفکلٹ‬
‫ایسی ہی صورت انہوں نے اسرائیل میں پیدا کی تھی ە اوریہی وہ بنیادی سیاسی وجوہات ہیں جن سے‬
‫تارک الوطن اور جال وطنی کا انکھوا پھوٹتا ہے ‪،‬یوں مزاحمت اپنی پوری اخاللی و مادی طالت سے ابھر‬
‫پیش نظر اس حمیمت سے‬
‫کر جنم لیتی ہے ‪ ،‬اور پھر مزاحمتی ادب کا سورج طلوع ہوتا ہےە ان حمائك کے ِ‬
‫بھی نظریں نہیں چرائی جاسکتیں کہ دنیا بھر میں اکیسویں صدی کے آؼاز سے اَن دیکھی عالمی طالتوں‬
‫نے ایک نیا منظر نامہ لکھنا شروع کیا ہے جس کے ابھی ابتدائی باب لکھے جا رہے ہیں ە وہیں ادب کا‬
‫نظریاتی و جدلیاتی پس منظر تیزی سے بدلتا جا رہا ہےە سائینس کی ترلی و ترویج میں دنیا بھر کا انسان‬
‫جس تیزی سے پہیہ کے دور سے نکل کر مکینیکل دور میں داخل ہوا اور پھر الیکٹرونک دور سے‬
‫تسخیر کائنات میں ایسے ایسے علم بلند کئے کہ انسانی عمل‬
‫ِ‬ ‫ڈیجیٹل دور میں داخل ہوتے ہوئے اس نے‬
‫ب روس اور پھر کہیں‬
‫ب فرانس اور انمال ِ‬
‫دنگ رہ گئیە اس سے پہلے چونکہ فکری و علمی سطح پر انمال ِ‬
‫بہت پہلے سولہویں صدی کی اولین دھائیوں میں مارٹن لوتھر کی مذہبی روایات سے رو گردانی کے‬
‫ڈانڈے بہر طور ان نظریات سے متصادم نہ تھے ‪ ،‬جو کسی بھی انسانی حمیمت کو اسکے عاللائی‪ ،‬لسانی‬
‫اور ثمافتی جوہر سے الگ کر کے دیکھے جاتے ہوں‪،‬ە بین ہی دنیا بھر کے ادبی حلموں میں ان نظریات‬
‫اور انکے فکری پہلوؤں پر اس طرح مباحث ہوئی کہ گلوبل ادب کارل مارکس کی داس کپیٹل سے سارتر‬
‫کے وجودیت کے فلسفے تک‪ ،‬کامیو کے ایگزسٹلزم سے لیکر جیکس لیکَن(سٹرکچریلزم) اور جیکس دریدا‬
‫( پوسٹ سٹرکچریلزم) تک کے ان نظریات کو ہمیشہ دنیا بھر میں نہ صرؾ ادبی نمطہ نظر سے ممبولیت‬
‫ملی بلکہ یہ عالمی نظریات ایشیا سے لیکر دوردراز الطینی امریکہ تک پہنچے اور اینالٹنمنٹ کی ابتدا‬
‫ہوئیە انسان جاگ گیا اور اس سے کہیں زیادہ اُن ادب ٗا و شعرا پر اثرات آئے جو طلسماتی یا جادوئی دنیا کی‬
‫فیٹاسی میں مبتال ادب تخلیك کر رہے تھےە ہمارے ہاں یہ روایت حمیمت نگاری کے جد امجد منشی پریم‬
‫چند کی دیہی اور شہری مسائل پر مبنی تحریروں سے اپنے لدموں پر کھڑی ہوئی تھی‪ ،‬جسے بعد میں‬
‫ایک بڑے لافلے نے پروان چڑھایاە گو اس سارے کھیل میں مؽرب میں فوکو اور ہمارے ہاں سبھاش چندر‬
‫بوس جیسے سیاسی مینار مزاحمت کے علم برداروں کی صورت سامنے آئے لیکن انہیں صرؾ منتخب‬
‫پزیرائی ملیە لیکن اس بحث میں الجھے بؽیر کہ کہاں کس نے انسان پرستی کی کونسی کڑی کو مالیا یا‬
‫اسے زنجیر سے الگ کیا ‪ ،‬یہ دیکھنا زیادہ اہم ہے کہ عمرانی و سماجی و ثمافتی ارتمائی مدارج طے‬
‫سوتے پھوٹے تھے یا‬
‫کرتے ہوئے مزاحمتی ادب کی معنوی تشکیالت کیا وہی رہیں جہاں سے اس کے ُ‬
‫پھر مابعد جدیدیت بکھر کر نئے تناظری متون نے جنم لیاە ایشیا میں اور خاص طور پر برصؽیر پاک و‬
‫ہند میں عالمی مزاحمتی ادب اور اس کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچےە انسانی زندگی میں جہاں ادب‬
‫اسکی حمیمی تصویر دکھاتا ہے وہیں ایک خاص نہج پر معاشرے کے اندر پنپنے والی برائیوں کو ایک‬
‫ایسے آئینہ کے ذریعے منعکس بھی کرتا ہے جسے ہم ادب پارے کہتے ہیں جس کے ادبی و ثمافتی اثرات‬
‫معاشرے پر بالعموم ‪ ،‬اور سماجی زندگی میں بالخصوص نظر آتے ہیںە تاہم مزاحمتی ادب ایسے منظر‬
‫نامہ کی تصویر کشی کرتا ہے جو مخصوص سیاق و تناظر سے ہی دیکھے جا سکتے ہیںە‬

‫اب اس سارے تمویمی اور ارتمائی ادبی مدارج کو اگر کوئی عمل سبوتاژ کرتا ہے تو وہ مذہب کی اَن‬
‫دیکھی وہ روایات ہیں جو صرؾ ایک خاص مذہبی طبمے نے حمیمی و فطری بیانیوں سے کشید تو کیں‬
‫تھیں لیکن رفتہ رفتہ ان لانون پاروں اور صحیفوں کو فلسفہ اور منطك سے دور رکھے جانے پر ‪ ،‬اور‬
‫کسی بھی سوال کو پیدا ہو دینے کے عمل سے پرے رکھے جانے پر وہ کسی بند جوہڑ کے کائی زدہ پانی‬
‫کی طرح بدبو دار ‪ ،‬نالابل استعمال اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن گئیںە یہی وجہ تھی کہ مارٹن لوتھر‬
‫نے اپنی تحریروں اور تمریوں سے سولہویں صدی میں بڑھتی ہوئی انسان دشمن کیتھولک فرلہ کی پاپائیت‬
‫کو شدید مزاحمت سے روکا ە بین ہی بیسیویں صدی میں مؽرب نے کیمونزم کے خطرے سے نبٹنے کے‬
‫گ عظیم دوئم ‪ ،‬بالخصوص سرد جنگ کے بعد مسلمانوں کو جو عرصہ دراز سے ملوکیت کی‬
‫لئے جن ِ‬
‫ریشہ دوانیوں کی وجہ کسی حد تک مذہب سے بیزاری کی طرؾ مائل تھے کہ انہیں کیمونزم کے خالؾ‬
‫جہاد کا نعرہ دیکر کھڑا کر دیا گیاە یہ مزاحمت کی وہ ابتدائی اور خام شکل تھی جسے عملی طور پر‬
‫کیمونزم کے خالؾ استعمال کرنے میں استعماریت نے ذرا بھر تامل نہیں کیاە جس کا نتیجہ یہ نکال کہ علم‬
‫و فکر و عمل سے دوری کے باعث ایشیائی ثمافت کا اکثریتی مسلمان حصہ اس جہادی تنظیموں کا دلدادہ‬
‫ہو گیا کیونکہ یہاں انہیں شکم پروری کی فکر نہ تھی اور محنت سے عاری ایک ایسی سہل زندگی کا نمشہ‬
‫نظر آتا تھا جو بعد از حیات ایک نئی خوبصورت زندگی کا سندیسہ بھی التا تھاە اکیسویں صدی کے اوائل‬
‫میں جب یہ مبینہ جہادی مزاحمتی تنظیمیں دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ایک عذاب بن کر اتریں تو عالمی‬
‫طالتوں نے انہیں روکنا چاہا لیکن خاطر خواہ حتمی کامیابی کی امید پر جنگ ابھی تک جاری ہےە یہاں‬
‫کاردارد اور طویل تشریح کی‬
‫پس منظر میں اس خام مزاحمت کی توجیہہ ِ‬
‫مروجہ جمہوری الدار کے ِ‬
‫متماضی ہےە تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس یک رخی عملی مزاحمت نے مزاحمتی ادب کی تشکیل میں‬
‫کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا‪ ،‬جیسا ہندوستان کی سرزمین میں تصوؾ کے علماء کرام فرید الدین شکرگنج ‪،‬‬
‫بابا بلہے شاہ‪،‬سچل سرمست‪ ،‬الل شہباز للندر نے اپنے دور میں اپنی شاعری اور نثری تحاریر و تماریر‬
‫سے کیاە یہاں ہم لمحہ بھر کو رکتے ہوئے اس عرصہ میں برصؽیر‪ ،‬بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے‬
‫والے دیگر نظریاتی مزاحمتی محرکات کا ایک سرسری جائزہ بھی لیتے ہیں ە پاکستان کے ابتدائی حاالت‬
‫میں ہی ایک بڑی امپیرئیلسٹک سٹرائک نے اُس مزاحمتی تحریک کو دم توڑنے پر مجبور کر دیا جو ابھی‬
‫جاگتے خواب کی تشریح تھیە اشتراکی انمالب کی کونپلیں ابھی اپنے انکھواء میں ہی تھیں کہ ان شاخوں‬
‫کو تنوں سے علیحدہ کر دیا گیا ە ریاست کے خالؾ سازش کا نام دیکر ادیبوں و شاعروں و دیگر کرتا‬
‫دھرتاؤں کو پابند و سالسل کر دیا گیا اور کہیں جال وطن کر دیاە بعد ازاں ایبڈو اور اگرتلہ سازش کے‬
‫عکس‬
‫ِ‬ ‫سیاسی بینر تلے ان الدامات کو کچلنے کی کوشش کی جو حمیمی طور پر استعمار ( مابعد نو آبادیاتی‬
‫استعمار) کے ظلم و جبر کے خالؾ ایک مزاحمت کا روپ دھار رہی تھیں ەەە یہی وہ ولت تھا جب انمالبی‬
‫و مزاحمتی ادب نے بالاعدہ پاکستان میں ایک نئی فضا لائم کیە فیض احمد فیض ‪ ،‬حبیب جالب ‪ ،‬جوش‬
‫ملیح آبادی ‪ ،‬سبط حسن سمیت دیگر کئی ایک دانشوروں اور ادیبوں نے انسانی روحوں کو گرما دینے‬
‫والے فن پارے جنم دیئے اور مزاحمتی ادب کا ابتدائی باب لکھا جانے لگاە‬

‫’معروؾ شاعر اور دانشور ڈاکٹر ابرار احمد اپنے مضمون‟‟ مزاحمتی ادب„„ میں لکھتے ہیں (‪)۹‬ە‬

‫دوسرے طرؾ ژاں پال سارتر کہتا ہے ‪ ‟،‬ادیب کا للم اس کا ہتھیار ہے بلکہ فرانسیسی ادیبوں نے تو ’‬
‫دوسرے ہتھیاروں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا‪ ،‬کہ وہ بحیثیت ادیب عملی جدوجہد کی ذمہ داری‬
‫سے اپنے آپ کو آزاد خیال نہیں کرتے تھے اور آزادی کا حصول انکا حك تھا‪ ،‬جس کے لئے انہیں ہر‬
‫محاذ پر لڑنا تھا‪ ،‬لیکن ایسی جدوجہد ایک ایسے معاشرے میں ہی ممکن ہے جہاں آزادی کی کوئی نہ‬
‫کوئی شکل پہلے سے موجود ہو یا پھر استحصالی لوتیں اپنی باال دستی کی نتیجے میں محکوم طبموں کو ‟‟‬
‫ت حال ہے جیسے حبیب جالب نے ایوب‬
‫تنگ آمد‪ ،‬بجنگ آمد „„ کی سطح پر لے جائیںە „„ یہ وہی صور ِ‬
‫خان کے عہد میں نئے نظام کی خالؾ اپنی معرکۃ اآلرا نظم کہیە ایسے دستور کو‪ ،‬صبح بے نور کو میں‬
‫نہیں جانتا‪ ،‬میں نہیں مانتا ڈاکٹر ابرار آگے چل کر لکھتے ہیں ە ‟‟ دوسری طرؾ فیض احمد فیض اپنے‬
‫مخصوص کالسیکی اور دھیمے لہجے میں جبر و استبداد کے خالؾ جہاد میں مصروؾ تھےە وہ خاموش‬
‫رہنے والوں کو بول اٹھنے کا درس دیتے رہےە بول یہ تھوڑا ولت بہت ہے جسم و زباں کی موت سے‬
‫پہلے بول کہ سچ زندہ ہے اب تک بول جو کچھ کہناہے‪ ،‬کہہ لے اور پھر چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں‬
‫ك پوشیدہ کافی نہیں آج بازار میں پابجوالں چلو ایسے میں ہمارے ہاں سیاسی مزاحمتی محرکات‬
‫ت عش ِ‬
‫تہم ِ‬
‫کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ادب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ە ایوب خان کے عہ ِد امریت میں ادیب‬
‫نے عالمت اور تجریدیت کا سہارا لیا‪ ،‬لسانی تجربات ہوئے لیکن مزاحمت کا عنصر ؼیر ملکی تراجم کی‬
‫طرؾ مڑ گیاە پابلو نیرودا ‪ ،‬ناظم حکمت محمود درویش کی تخلیمات کے تراجم سامنے آئےە خصوصی‬
‫فروخ فرخ زاد جنہیں بعد ازاں موت کی سزا ملیە اسی طرح نە م راشد نے ایران کے باؼی شاعروں‬
‫یحیی خانی‬
‫ٰ‬ ‫کاترجمہ کیاە ڈاکٹر ابرار احمد اپنے ممالے میں رلم طراز ہیں ‟‟ ایوب خانی مارشل الء نے‬
‫مارشل الء کو جنم دیا اور ملک ایک اندھیرے سے دوسرے اندھیرے میں اتر گیا ە ایک خونریز اور‬
‫خوفناک جنگ کے بعد مشرلی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیاە ەەە یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ناصر کاظمی ‪،‬‬
‫جہان فانی سے‬
‫ِ‬ ‫مختار صدیمی‪ ،‬مجید امجد ‪ ،‬یوسؾ ظفر اور بالی صدیمی اس صدمے کی تاب نہ الکر اس‬
‫کوچ کر گئےە „„ اس سانحہ پر جن نثر نگاروں نے مزاحمتی ادب کے فن پارے تخلیك کئے ان میں انتظار‬
‫حسین کا مجموعہ ‟‟ شہر افسوس „„ مسعود اشعر کا افسانہ ‟‟ اپنی اپنی سچائیاں „„ ‪ ‟‟ ،‬ابابیل „„ اور ‟‟ بیال‬
‫نائی رے جولدی جولدی „„ ‪ ،‬اے حمید کا ‟‟ جاگتے رہنا„„ ‪ ،‬میرزا حامد بیگ کا‟‟ تربیت کا پہال دن „„ اور ‟‟‬
‫رہائی „„ شہزاد منظر کا ‟‟ یوٹوپیا „„ و دیگر بے شمار نثری تخلیمات مزاحمتی ادب کا حصہ بنیںە لیکن یہ‬
‫ایک اتفاق ہے کہ ہندوستان میں مابعد تمسیم ایک عرصے تک خاموشی رہی ە تاہم عالمی منظر میں مڈل‬
‫ایسٹ ‪ ،‬وسطی ایشیا اور جنوب مؽربی ایشیا میں ہوتی ہوئی ؼیر حمیمی مزاحمتی مذہبی تحاریک نے‬
‫ہندوستان کی ہندو آبادی جو تمسیم پاک و ہند کے بعد کسی حد تک سیاسی بالیدگی اور عمرانی و سماجی‬
‫شعور سے بازیافت ہو رہی تھی ‪ ،‬کو شدید متاثر کیا جس کا اندازہ انکے ہاں اٹھنے والی مخصوص ذہن‬
‫کی ہند مت سیاسی پارٹیوں کے انتشار پسند رویوں سے کیا جا سکتاہےە تحریر سے زیادہ تمریر کے‬
‫ذریعے انسانی ذہن کی پیداوار روایات ‪ ،‬جو اس اگلے ولتوں کے سماج میں رائج تھیں کو ایکسپالئٹ‬
‫کرتے ہوئے ہندو مت انتہاپسندی کو مزاحمت کا روپ دینے کی کو شش کرنے لگاەیہ انسانی زندگی کا وہ‬
‫تاریک پہلو ہے جس نے برسوں سے دیکھے گئے انسانی ترلی کے خوابوں کو زمین بوس کر دیا ہے ە‬
‫وہی خواب‪ ،‬جو اس سرزمین کے انسان نے استعماری فسطایت سے چھٹکارا پانے کے دیکھے تھےە انہوں‬
‫نے یہ نہ سوچا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس خطے میں دو سو کروڑ کی آبادی کے چند ممالک جس کی‬
‫اللیتیں بھی دنیا کے نمشے پر ابھرنے والے کئی ایک ملکوں سے بڑی ہیں ‪ ،‬اپنی سالمتی و پرامن حیات‬
‫کی ضمانت اپنی ریاست سے لے پائیں گی جس کی اساس میں آزادی کا ترانہ اللیتوں کے ساتھ لکھا اور‬
‫پڑھا جاتا ہے؟ نتیج ًہ آج بھی اکثریتی سٹیٹس میں گائے کا ذبیحہ لانونی طور پر ممنوع ہے اور یہ لانون‬
‫‪ ۷۴۱۱‬سے الگو ہے ە لیکن آج مزاحمت کے نام پر وہاں دانستہ اس ایشو کو اٹھایا جا رہا ہےە دلتوں کی‬
‫بستیاں صرؾ اس بنیاد پر تہ تیػ کی جا رہی ہیں کہ وہ معاشی طور پر اور روائتی ہندو مت کے مطابك‬
‫شودر اور نیچ ذات ہیںە انہیں انسانوں کی فہرست سے نکاال جا رہا ہےەکیا ایسا ممکن ہے کہ چالیس کروڑ‬
‫)سے زائد دلت معاشرے کا حصہ نہ رہیں ە (‪۱‬‬

‫یوں معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ مزاحمت اپنی نئی جہت کی بازیافت کے مرحلہ میں آ گئی‪ ،‬ایک‬
‫عام ہندو بھی اس انتہا پسند برہمناچاری سوچ سے بیزار نظر آنے لگا ‪ ،‬ایشور کا متالشی ہونا الگ بات ہے‬
‫ت نو کے نام سے‬
‫اور اس تالش میں برہمو سماج کی بنیاد رکھنا الگ بات ہےە اسے ہندو دانشور مزاحم ِ‬
‫دیکھ و سوچ رہا ہے اور اسکی مزاحمت کر رہا ہےە اب تک اس انتہاپسندی کے رویوں کے خالؾ ایک‬
‫احتجاج کی صورت میں معروؾ ادیبوں و شاعروں نے اپنے سرکاری اعزاز اور تمؽے سرکار کو واپس‬
‫لوٹا دیئےە ممبول افسانہ نگار جی ایس بھلر نے اپنا ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا وہ ایسا ان انتہا پسندوں‬
‫لوتوں کے خالؾ بطور احتجاج کر رہے ہیں جو ادب اور ثمافت کو گہنا رہے ہیںە اسکا واضع مطلب یہ‬
‫ہے کہ ہندوستان کی اکثریتی آبادی جو ان اللیتیوں کی تعداد کا تعین بھی کرتی ہے اور لبرل و متوازن‬
‫خیاالت کے حامل ہندو آبادی کا احاطہ بھی کرتی ہے اس احتجاج میں ایک ساتھ کھڑی ہے یوں یہ کہا‬
‫جاسکتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کا نیا مزاحمتی بیانیہ تشکیل ہی نہیں ہو پایا ہے ە بالکل اُس طرح جیسے‬
‫پہلے عرض کیا ‪،‬گزشتہ دو دھائیوں سے پاکستان اور افؽانستان میں جنم لینے والی کئی ایک خام مذہبی‬
‫مزاحمتی تحاریک نے دنیا کو اپنی طرؾ متوجہ تو کیا لیکن ‟ ممبوضہ اور ؼیر ممبوضہ „ اور‟ کلچرل‬
‫سیِج„ کی معنوی اصطالح کے دائرہ کار میں والع نہ ہونے کی وجہ سے اپنے لومی بیانیہ کو تشکیل نہ‬
‫دے سکیں ہیں اور یوں مزاحمتی تحریک سے زیادہ دہشت گردی کی عالمی تعریؾ کی زد میں آ گئیں ە‬
‫دوسرا انہوں نے مزاحمت کے معنیاتی نظام میں صرؾ عمائد کی بنیاد پر نئے متن کو جنم دینے کی‬
‫سر فہرست رہیە یوں انکے ہاں بھی مزاحمتی لومی‬
‫کوشش کی‪ ،‬جس میں نسلی و لسانی تفرلہ بندی بھی ِ‬
‫بیانیہ کی تشکیل نو نہ ہو سکیە چونکہ یہاں مزاحمت سیاسی و جؽرافیائی گروہ بندی اور انتشار کا شکار‬
‫ہوچکی تھی‪ ،‬جو حمیمی طور پر نتائجیت سے بظاہر بے پرواایک کثیر لیکن خاموش پاکستانی آبادی ‪ ،‬بوجہ‬
‫اسکی ثمافتی طرز بود و باش ‪ ،‬روایتی‪ ،‬فکری و لسانی وابستگی (اگرچہ سیاسی طور پرکمزور) کو سماج‬
‫کی سطح پر متاثر نہ کر سکیە چنانچہ اٹھنے والی مزاحمتی مذہبی تحریک باوجود اپنی سخت ترین و‬
‫مسلسل عملی مزاحمت کی لوت رکھنے کے ہر دو ریاستوں کے اپنے اپنے ریاستی بیانیہ و نظریات کو‬
‫شکست دینے میں بری طرح ناکام ہو گئی ‪ ،‬اور اسکی ایک بڑی وجہ انکے ہاں مزاحمتی ادب کا فمدان‬
‫)بھی ہے جس پر وہ ؼیر یمینی تناؤ کا شکار ہیںە (‪۱‬‬

‫ەەەەەەەەەەەەەەەەەەەەەەە حواالجات‪ 3‬ە‬

‫اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل عالمی میڈیا ‪ ،‬اخبارات و جرائد و کتب سے مدد لی گئی ہےە‬

‫ە کتاب ‟‟ ریزسٹنس لٹریچر „„ از باربرا ہارلو ە میتھیون لندن‪ ،‬نیو یارکە )‪(۷‬‬

‫الؾە ممالہ ‟‟ اے ریزسٹنس ٹو تھیوری „„ از پال ڈی مین ە تھیوری اینڈ ہسٹری آؾ لٹریچر یونیورسٹی )‪(۷‬‬
‫آؾ منیسوٹاە امریکہ ە (‪َ)۲‬‬

‫بە انٹیلکچوئلز رول اِن پیرو ریکو ‪ ،‬از میلڈو ناڈو ڈینس (‪)۳‬ە‬

‫کتاب ‟‟ شیم فل فالئٹ „„ از سٹینلے وولپرٹ یونیورسٹی آؾ کیلی فورنیا ە امریکہ (‪)۹‬ە‬
‫ممالہ مزاحمتی ادب از ڈاکٹر ابرار احمد ( ادبیات ‪۴۱‬ە‪ )۷۴۴۹‬اکیڈمی آؾ لیٹرز پاکستانە دیپاچہ مزاحمتی‬
‫ادب انتھالوجی مرتب رشید احمد (‪)۱‬ە‬

‫)بیەبیەسی یونائٹڈ کنگڈم (‪۱‬‬

‫وال سٹریٹ جرنل ە نیویارک امریکہ‬


‫مزاحمت اور تنازعات‬
‫گل رخ کاظمی‬

‫ہماری روزمرہ کی زندگی میں مندرجہ ذیل سواالت کی خاص اہمیت ہےە‬

‫ناراضگی کیا ہےە؟ ہم ناراض کیوں ہوتے ہبں؟ ہم ؼصے کی حالت میں کیا کرتے ہیں؟ کیا ہم ؼصے کی‬
‫ایک حالیہ مثال کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ ہم ناراض ہوۓ بؽیر تنازعہ کیسے حل کرتے ہیں؟‬

‫یہ ایک حمیمت ہے کہ ان سوالوں کا جواب مختلؾ لوگوں کے پاس بہت مختلؾ ہوسکتا ہے‪ ،‬لیکن ہمارا‬
‫ممصد ہمارے طرز عمل میں ظاہر ہونے والی تبدیلی کی منطك کی بنیادی وجہ کو سمجھنا ہےە‬

‫ؼصہ ناپسندیدگی کا مضبوط احساس ہے‪ ،‬جو ؼیر منصفانہ یا خطرناک نفسیاتی مطالبات سے منسلک ہوتا‬
‫ہےە یہ نا پسندیدگي انفرادی‪ ،‬متعلمہ‪ ،‬یا بین الثمافتی ہوسکتی ہے‪ .‬یہ ایک مکمل طور پر عام انسانی جذبات‬
‫ہے‪ .‬ہمارا معاشرہ ہمیں ناراض نہیں ہونے کے لئے سکھاتا ہے‪ ،‬نتیجتا ہم کبھی بھی ؼصے کا اظہار کی‬
‫تہذیب نہیں سیکھ پاتےە اس انسانی جذبات واحساسات کو سمجھنے کے لئے‪ ،‬ہمیں لوگوں کے مزاج اس‬
‫کی نوعیت‪ ،‬ؼصے کا اظہار‪ ،‬اور اس کے بارے میں مذہبی عماید کو سمجھنا نہایت ضروری ہےە‬

‫ئ ہم اپنی گفتگو اس مایوسی سے شروع کرتے ہیں جو جارجیت کا پہال لدم ہےە مثال کے طور پر‪ ،‬اگر کو‬
‫بچہ باربار الماری کھول اور بند کر رہا ہو‪ ،‬تو وہ ماؤں کے ؼصہ کے لئے ابتدائی مرحلہ ہے‪ .‬مایوسی‬
‫ہمیشہ جارحیت سے منسلک ہوتی ہے جو زبانی یا جسمانی ہو سکتی ہے‪ .‬ایک شخص جو اندر اندر کڑھتا‬
‫‪.‬ہے ہمیشہ اداس رہتا ہے ە یہ ایک منفی ؼیر فعال رویہ ہے‬

‫اور جو لوگ اپنے ؼضب اور ؼصے پر لابو پاتے ہیں اور دوسروں کو معاؾ کرتے ہیں‪ ،‬ہللا ان لوگوں "‬
‫)‪. ("Verse 134 Ch: 3‬سے محبت کرتا ہے جو ایسے اچھے اعمال کرتے ہیں‬

‫پیؽمبر دمحم (ص) نے کہا‪" ،‬مضبوط اور لوی وہ نہیں ہے جو اپنی طالت سے لوگوں پر لابو پاتا ہے‪،‬‬
‫"‪.‬مضبوط وہ ہے جو ؼضب اور ؼصے کی حالت میں اپنے آپ پر لابو پاتا ہے‬

‫ؼصہ ایک احساس ہے جو اندرونی توانائی کو لتل کرتا ہے‪ ،‬جب یہ اندر رہتا ہے‪ ،‬تو یاسیت اور‬
‫افسردگی کی کیفیت پیدا ہوتی ہےە اور لوگوں کو ؼیر فعال طرز عمل پر مجبور کرتا ہےە ‪،‬اور ایک دن‬
‫ؼیض و ؼضب کے ساتھ باہر آتا ہے‪ ،‬لہذا ابتدا ئ مرا حل میں ہی ؼصہ سے نمٹنے کی کوشش کرنی‬
‫چاہیےە‬

‫امام ؼزالی کہتے ہیں‪" ،‬جب آپ ناراض ہوتے ہیں‪ ،‬تو آپ کی حکمت عملی چلی جاتی ہے‪ ،‬لہذا ؼصہ کو‬
‫"‪.‬عمل و فہم کا راہزن کہا جا سکتا ہےەکم چور کے طور پر جانا جاتا ہے‬

‫امیر لوگوں کومزاحمت اور ؼصے کپ کسی بھی نتائج کے لئے کچھ بھی نہیں ادا کرنا پڑتا کیونکہ‬
‫دولت اس کا احاطہ کر لیتی ہےە ہم میں سے بعض افراد بہت کمزور ہوتے ہیں‪ ،‬مثال کے طور پر‬
‫عورتوں کے ممابلے میں مرد انا پرست‪ ،‬اور ؼرور و تکبر کے زیادہ شکار ہوتے ہیںە مرد و زن کا رشتہ‬
‫بہت نازک اور کمزور ہوتا ہے اور اس رشتے کو چھوٹی چوٹی باتیں متاثر کر سکتی ہیںە چیزوں کو‬
‫نمصان پہنچاتی ہے‪ .‬خواتین‪ ،‬جینیاتی طور پر مردوں کے ممابلے میں جذباتی ہوتی ہیں اور انھیں جذباتی‬
‫مسائل سے باہر نکلنے میں دشواری محسوس ہوتی ہےە ان کی تخلیمی مزاج کا یہ حصہ ہےە اس طرح ان‬
‫کی یہ نفسیات ان کی کمزوری بھی بنتی ہے‪ ،‬اس حمیمت کے باوجود کہ وہ اپنے حال میں خوش ہیں‬
‫بھول نہیں پاتیںە دوسری طرؾ ‪،‬خواتین ماضی سے باہر نہیں آپاتیںە وہ معاؾ کر سکتی ہیں لیکن کبھی‬
‫‪.‬مرد فوری فیصلے کرتے ہیں اور مسائل کو حل کرلیتے ہیں‬

‫تمام مذاہب منفی سوچ پر یمین رکھتے ہیں‪ ،‬یہ منفی سوچ ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمارے طرز عمل‬
‫کو متاثرکرتی ہیں‪ ،‬وہ ہماری مثبت سوچ کم استحصال کرتی ہیں‪ .‬جذباتی ردعمل خودکار نہیں ہوتا‪ ،‬وہ‬
‫ضروری نہیں ہیں کہ دوسرے شخص کے طرز عمل سے متاثرہوە اس موضوع پر ؼور کرنے کے لئے‬
‫تین آسان مراحل ہیں‪،‬‬

‫ردعمل سے مکمل والفیت‬

‫صبر و استمالل‬

‫معاؾ کرنے کا جذبہ‬

‫دماغ میں مایوس اسٹورز جب تک دماغ کے نمصانات نہیں ہیں‪ ،‬اعصاب خلیات چلے جاتے ہیں تو ہم کبھی‬
‫نہیں بھول جاتے ہیں‪ .‬سچائی بخشش جانے جانے میں کامیاب ہے‪ ،‬جب ہم خدا کی بخشش طلب کرتے ہیں‪،‬‬
‫‪.‬تو وہ معاؾ کر دیتے ہیں لیکن ہم نہیں کرتے‬
‫ؼصہ اور مزاحمت کو بخوبی سمجھنے کے لئے‪ ،‬تنازعات اور تضادات سے والفیت ضروری‬
‫ہے‪ .‬درون ذات یابین گروہی یا بین االلوامی خیاالت یا رائے‪ ،‬ضروریات‪ ،‬دلچسپی‪ ،‬جذبات‪ ،‬عمائد اور‬
‫الدار کا تصادم کو تنازع لرار دیا جاتا ہے‪ .‬یہ خیاالت کے تصادم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے‪ .‬یہ بیرونی یا‬
‫داخلی ہوسکتا ہے اور تنازعات کے ساتھ شروع ہوتا ہےە ایسی صورتیں جب ایک شخص کے خیاالت‪،‬‬
‫معلومات‪ ،‬نتائج‪ ،‬نظریات اور رائے دوسرے کے ساتھ میل نہیں کھاتے تو مزاحمت‪،‬اور تنازعات کی‬
‫شروعات ہوتی ہےە اور پھر دونوں معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں‪ .‬مثال کے طور پر‪،‬‬

‫·‬ ‫امریکی سیاست میں کیا ہو رہا ہے اور اس کے لئے کون مورد الزام ہے ؟‬

‫·‬ ‫آئندہ والعات کیلئے کونسی الدار منتخب کی جانی چاہیئے؟‬

‫·‬ ‫کا دفاع کرنا چاہئے؟ ‪ feminism‬یا ہمیں‬

‫یہ تمام سواالت بیرونی تنازعات سے متعلك ہیں جن کا حل آسان نہیںە تنازعہ کے اثرات دباؤ‪ ،‬تشویش‪،‬‬
‫خوؾ‪ ،‬ڈپریشن‪ ،‬کی شکل میں افراد پر پڑتے ہیںە خاندان کے افراد کے درمیان ربط و ضبط کی کمی ‪،‬‬
‫زبانی یا جسمانی تشدد اور تعلمات کا خراب ہونا مزاحمت کی نشانی ہے‪ .‬لبل اس کے کہ تنازعات ماحول‬
‫کو زیادہ نمصان پہنچا ئں ان مسائل کو حل کرنا ضروری ہےە اگر تنازعات اور مزاحمت بہت دنوں تک‬
‫چلتا رہتا ہے تو اسے حل کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہےە مؤثر انداز گفتگو تنازعے کے حل کے لیے پہلی‬
‫شرط ہے‪ .‬ہمیشہ احتیاط سے سننا اور کسی لسم کی کوئ منصوبہ بندی نہیں کرنا تنازع کا حل ہےە‪ ،‬اس‬
‫بات کو یمینی بنانا کہ آپ کو سمجھا جا رہا ہے ضروری ہے‪ ،‬بین السطور کچھ پڑھنا ہمیشہ سد راہ بنتا‬
‫ہےە‪ .‬مسائل کے حل تالش کرتے ولت کسی لسم کا رد عمل دینا مضر ثابت ہوتا ہےە‬

‫تنازعات سے بچنا آسان نہیں ہے‪ ،‬لیکن ان کا حل ڈھونڈنا اہم ہے‪ .‬دوسرے شخص کو ایڈجسٹ کرنا‪،‬‬
‫مصالحت پیدا کرنا‪ ،‬اپنی پوزیشن کو بھی واضح کرنا ‪ ،‬تعاون کرنا‪ .‬منصفانہ عمل کو یمینی بنانا تنازعات‬
‫کے حل کے لیے ضروری ہےە‬

‫‪.‬تنازعات ہمیشہ منفی نہیں ہوتےە اس کے تعمیری لراردا ہمیں بہت سے فوائد دے سکتے ہیں‬

‫‪.‬ؼصہ میں سخت لدم لینے سے پہلے ہمیشہ کچھ سوال پوچھیں‬

‫میں کیا محسوس کر رہا ہوں‬

‫میں کیا تبدیل کرنا چاہتا ہوں؟‬


‫دیگر امکانات کیا ہیں؟‬

‫ہم ایک ساتھ کیسے کام کرسکتے ہیں اور ہم کیسے مل سکتے ہیں؟‬

‫جو کچھ بھی ہم سیکھتے ہیں‪ ،‬یہ صرؾ اس صورت میں لیمتی ہو جائے گا جب ہم اس پرعمل کریں‪ ،‬آخر‬
‫میں صرؾ اس عمل کو بدلنے میں مدد ملتی ہے‪ ،‬اگر یہ کام نہیں کرتا تو بھی اسےترک نہ کریں‪،‬‬
‫‪.‬عمل کریں اور عمل کو ؼصے کے کنٹرول اور تنازعات کے حل میں مدد ملے گی‬
“Resistence and Conflicts, Learn to Resolve” by Kazmi Gul
e Rukh
We begin with couple of million dollars questions:

What makes you angry? What do you do in the state of anger? Can you think of a recent example when you get angry? How do
you resolve conflicts without getting angry?

Well, answers to these questions, from different people could vary a lot, but our objective is to find the most basic reasoning
behind the apparent happening in our behaviors.

Anger is a sturdy feeling of displeasure, associated with supposed unfair or threatening environmental demands that may be
individual, relational or intercultural. It is a completely normal human emotion. Culturally we are taught to never get angry, as a
result we never learn how to express anger. To understand this hyper feeling, we need to look at the types of people, expression
of anger, what religions say about it and how can we manage it within ourselves. Let’s start with Frustration that is annoyance
and leads to anger. For example, if a child is opening and closing a cupboard again and again, that is the initial stage to
escalates anger in mothers. Frustration is always associated with aggression that can be verbal or physical. A person who
remain depress and keeps feelings inside and it hurts continuously, this is passive behavior.

“And those who control their anger and who pardon others, verify Allah loves those who do such good deeds. (” Verse 134 Ch
:3)

Prophet Mohammad (pbuh) said, “The strong is not the one who overcomes people by his strength, but the strong is the one who
controls himself while in a state of rage.”

Anger is an emotion that kills internal energy, when it remains inside, it turns to depression and people start showing passive
behaviors, this stuffing blows out one day, so it is my suggestion to deal with the anger when it is at low stage.

Imam Ghazali says, “When you get angry, your wisdom is gone, so anger is knowns as wisdom robber.”

Wealthy people must pay nothing to any consequences because they can cover up with wealth, some of us have very weak ego, for
example husbands have more egos when it comes to wives because this relationship is very fragile and little things from the
partners hurt. Women, genetically find it hard to get out of feelings than men, their creation is like that, this gender is nurturer,
but same quality becomes her weakness as well, women are not able to let go of the past even if present is happy, they may
forgive but never forget. Men on the other hand make quick decisions and solve the problems.

All the religions believe on negative forces including Islam, these negative forces have effects on us and the way they affect us,
they exploit our positive forces. Emotions do not pop up, they are caused by something, they are not necessarily caused by other
person’s doing, it’s by how one perceives the things. There are three easy steps to ponder, Knowledge that how to respond,
patience and forgiveness. Unfortunately, forgetting and forgiveness is the hardest part, frustration stores in the brain unless
brain damages, nerve cells are gone so we never forget. True forgiveness is able to let go, when we seek forgiveness from God,
He forgives but we do not.
To understand anger, it is important to know conflicts. any clash, disagreement within oneself or between groups or nations with
regards to ideas or opinions, needs, interest, feelings, beliefs and values is called conflict. It arises due to differences or
variations. It can be internal or external and start with controversies when one-person ideas, information’s, conclusions, theories
and opinions are incompatible with those of another and the two seek to reach an agreement. For example, whom to blame for
what is happening in American Politics? Which values should be selected for upcoming events? Or should we defend feminism?
All these questions are related with external conflicts which are hard to resolve. Conflicts have effects on individuals like stress,
anxiety, fear, depression, apathy. Upon family, there is breakdown of communication, arguments, verbal or physical violence and
relationship problems. Conflicts must be resolved before they do much damage to the person or the family environment, the
longer it stays, the more difficult or sometimes impossible to resolve. Effective communication skills are pre-requisite for
effective conflict and anger resolution. Always listen carefully and do not plan in your head a comeback, ensure you understand
what is being said, do not assume or read between the lines, always be non-judgmental and do not assume. While resolving
issues do not over react, pay attention to your emotional response and acknowledge, think in your head how to best respond to
minimize the conflicts and anger. Make your intent clear.

It is not easy to avoid conflicts, but handling is important. Try to avoid, accommodate the other person, learn to compromise, but
compete your position too and collaborate. By assuring a fair process, direct communication, accepting responsibility, focus on
future, options for mutual gain may return positive environment. We all have different opinions, everyone has a right to his/her
opinion and there is no reason to figure out who is right or who is wrong, always state your opinions and reasons. We cannot
resolve value conflicts because of strong religious beliefs about right and wrong, good and bad involved in these. They may
require knowledge, education to resolve.

Conflicts are not bad at all, it is not a problem, it is what we do with it, constructive resolutions may give us many benefits

Always ask few questions before taking harsh steps in anger.

What I am feeling?

What do I want to change? What is it likely to be in other shoes?

What are the other possibilities?

How can we work together and how can we win together?

Whatever we learn, it will be valuable only if we practice, in the end only practice will help to change, if it does not work, do not
give up, practice and faith will help anger control and conflict resolution.
‫عالمی مزاحمتی ادب‬
‫نسترن احسن فتیحی‬

‫عربی مزاحمتی ادب‬


‫ت حال بھی تبدیل ہوتی رہتی ہےە تشدد کے ادوار میں‬
‫سماجی حاالت کے پیش نظر مزاحمتی صور ِ‬
‫مزاحمت کی جو صورت ہوتی ہے وہ آئینی اور سیاسی ادوار میں اسی انداز اور طریمے سے منطبك نہیں‬
‫ہوسکتیەعرب میں بڑھنے والی ثمافتی‪ ،‬ادبی اور فکری سرگرمیوں کو بھی موجودہ حاالت کے تناظر‬
‫میں فلسطینیوں کی جانب سے پُرامن مزاحمت کی ایک مضبوط صورت ملتی ہےە‬

‫فلسطینیوں کے شہر تمسیم کے بعد گویا عملی طور پر کئ شہر ان سے چھن چکے ہیں اور فلسطینی ہمیشہ‬
‫اس خوؾ اور عدم تحفظ کا شکار رہے کہ کیا ان کے تاریخی شہروں میں ان کی واپسی کبھی ممکن‬
‫ہوپائے گی؟ مندرجہ ذیل مثالوں میں اس عدم تحفظ کا اظہار ملتا ہےە‬

‫محمود دورویش‬

‫محمود دورویش کو عصر حاضر کےعربی ادب کا نمائندہ شاعر تصور کیا جاتا ہےە اُن کی عظمت کا گواہ‬
‫تو آنے واال زمانہ ہو گا کہ اُن کے لکھےاشعار کتنا عرصہ زندہ رہتےہیں لیکن نالدین اُن کو بیسویں‬
‫ت ُگم گشتہ یعنی سن اُنیس سو اڑتالیس‬
‫صدی کا انتہائی معتبر نام لرار دیتے ہیںە اُن کی شاعری میں جن ِ‬
‫والےارض فلسطین کا دُکھ اور صدمہ ُکوٹ ُکوٹ کر‬
‫ِ‬ ‫اور پھر سن اُنیس سو سڑسٹھ میں ممبُوضہ ہو جانے‬
‫بھرا ہوا ہےە‬

‫قاری کے لیے‬

‫فلسطینی شاعر‪ 3‬محمود درویش‬

‫مصری ترجمہ نگار‪ 3‬ھانی السعید‬


‫سیاہ ِللیاں میرے دل کے اندر‬

‫اور لب پہ بھڑکتے ہوئے شعلے‬

‫کس ویرانے سے آئی ہیں‬

‫اے ؼصے کے تمام صلیبیں؟‬

‫سمجھوتہ کر لیا میں نے اپنے ؼموں اور رنجوں سے ەە‬

‫اور اپنا لیا میں نے آوارگی اور بھوک کو‬

‫میرا ہاتھ ؼیظ وؼضب کی تصویر بن گیا ہے ەە‬

‫کنج لب ؼصے سے سرگشتہ ہوگیا ہے ەە‬


‫میرا ِ‬

‫! اور میری رگوں میں ؼصے کا لہو دوڑ رہا ہے‬

‫! اے مجھے پڑھنے والے‬

‫! تو مجھ سے سر گوشی کی امید چھوڑ دے‬

‫اور مجھ سے میرے ؼزل سرا ہونے کی آس چھوڑ دو‬

‫یہ میرا اپنا عذاب ہے ەە‬

‫ایک بے سوچ سمجھے چوٹ ریت میں‬

‫! اور دوسری بادلوں میں‬

‫میرے لیے کافی ہے کہ میں ؼضبناک ہوں‬


‫! اور آگ کا پہال مرحلہ ؼصے کی شکل میں ہوتا ہے‬

‫نزار دبانی‬

‫سلمی جیالنی‬
‫ٰ‬ ‫انگریزی سے اردو ترجمہ‪:‬‬

‫لصیدہ بلمیس ‪ /‬نزار لبانی‬

‫بلمیس !‪ ......‬اوہ شہزادی‬

‫لبائلی جنگوں کی آگ نے‬

‫تمہیں جھلسا دیا‬

‫اپنی ملکہ کی جدائی پر میں کیا لکھوں ؟‬

‫‪ ....‬میرے الفاظ با عث ندامت ہیں‬

‫جب ہر طرؾ مظلوموں کے انبار لگے ہوں‬

‫ایک ستارے کے لئے جو ٹوٹ گیا ہو‬

‫کسی جسم کے لئے‬

‫جو آئنے کی کرچیوں کی طرح ریزہ ریزہ ہو جائے‬

‫جب ہم اپنی محبت سے سوال کرتے ہیں‬

‫کیا یہ تمہاری لبر تھی ؟‬

‫یا پھر عرب لوم پرستی کا مدفن ؟‬


‫آج کے بعد میں تاریخ کو نہیں پڑھوں گا‬

‫میری انگلیاں جل گئی ہیں ‪،‬‬

‫میرا ملبوس لہو میں لتھڑا ہے‬

‫ایسا لگتا ہے جیسے ہم پتھر کے دور میں جا بسے ہوں‬

‫جہاں ہر روز ہزاروں برس پیچھے دھکیل دیئے جاتے ہوں‬

‫! بلمیس‬

‫شاعری اس دور کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟‬

‫اس دور عیار کے بارے میں کیا کہتی ہے شاعری ؟‬

‫عرب دنیا کچلی ہوئی ‪ ،‬مسلی ہوئی ‪ ،‬زباں دریدہ ہے‬

‫ہم مجسم جرم بنا دیئے گئے ہیں‬

‫! بلمیس‬

‫میں تم سے معافی کا طلب گار ہوں‬

‫شائد تمھاری زندگی خود میری زندگی کا تاوان تھی‬

‫میں اچھی طرح سے جانتا ہوں‬

‫اس لتل میں الجھا ئے جانے سے‬

‫ان کا ممصد دراصل‬

‫میرے الفاظ کو لتل کرنا تھا‬

‫خدا کی پناہ میں رہو‬

‫اے حسن بے مثال‬


‫تمہارے بعد‬

‫شاعری محال ہے‬

‫‪-----------‬‬

‫انگریزی سے اردو ترجمہ‬

‫سلمی جیالنی‬
‫ٰ‬

‫‪-------------‬‬

‫‪ :‬نظم بلمیس کا پس منظر‬

‫نزار لبانی شام کے مشھور شاعر اور سیاسی مفکر تھے بلمیس عرالی نژاد اسکول ٹیچر لبانی کی دوسری‬
‫بیوی تھیں ان کی پہلی ماللات ایک مشاعرے میں ہوئی تھی ‪-‬بلمیس سے ان کے دو بچے زینب اور عمر‬
‫ہوئے ‪ ۷۴۱۷ ،‬میں لبنان کی خانہ جنگی کے دوران عرالی سفارت خانے پر بمباری کے نتیجے میں بلمیس‬
‫کی موت والع ہو گئی اس اندہوناک سانحے نے نے نزار لبانی کو بالکل توڑ کر رکھ دیا ان کی طویل نظم‬
‫بلمیس میں اس کے اثرات بآسانی محسوس کئے جا سکتے ہیں جس میں تمام عرب دنیا کو اس لتل کا زمہ‬
‫دار ٹہرایا گیا ہے بلمیس کی ہالکت کے بعد نزار لبانی نے دوبارہ کبھی شادی نہیں کی‬

‫فلسطینی شاعر سمیع القاسم‬


‫فلسطینی شاعر سمیع القاسم کی نظمیں ‪:‬ترجمہ افتخار بخاری‬

‫موت کےلئے ایک کام ‪١-‬‬


‫ە‬

‫ان لبروں پر‬

‫سیلن جن کی‬

‫ہزار برس سے‬


‫آنسو مجھے رالتی ہے‬

‫حکم امیر شہر کے بل پر‬

‫باب رزق کھال رہتا ہے‬

‫اندھے مجاور‬

‫اور لفظوں کے سوداگر‬

‫‪.....‬پلتے ہیں‬

‫!دستک دے اے موت‬

‫ذرا دروازوں پر‬

‫میرے پاس اک کام ہے‬

‫!! تیرے کرنے کا‬

‫حیات نو ‪٢ -‬‬
‫ە‬

‫اک دن میرے بال و پر‬

‫پھر اگ آئیں گے‬

‫لوٹ آئے گی‬

‫دور پڑے ولتوں سے‬

‫چڑیا‬

‫جو ممتل سے اڑی تھی‬


‫جس نے کہا تھا‬

‫لمحہ لگے یا صدیاں‬

‫لیکن میرا جسم‬

‫یہ مجھ سے کہتا ہے‬

‫یہ خون آلودہ ریشے‬

‫! وطن کا شہپر بن جائیں گے‬

‫مایوسی ‪٣ -‬‬
‫میں ولت میں‬

‫چلتے چلتے رکا‬

‫تا کہ بچوں کی خاطر‬

‫خریدوں‬

‫میں کچھ روٹیاں‬

‫اور گزر بھی گئے‬

‫‪.....‬جانے کتنے برس‬

‫اور میرے لئے‬

‫ولت بد لسمتی بن گیا‬

‫تھے مرے ہاتھ میں پیسے‬

‫پر ہنسنے والوں نے دیکھا‬


‫انہیں ؼور سے‪،‬‬

‫! اور بولے کہ اے ؼم زدہ‬

‫اب تو سکے ہمارے‬

‫!! بدل‪ .‬بھی چکے ہیں‬

‫ترکی مزاحمتی ادب‬


‫احمد فی‬ ‫ترجمہ‪ :‬فی‬
‫کسی بھی معاشرے میں سماجی اور اخاللی الدار کی بنیاد دور حاضر کا تخلیمی ادب ہوتا ہے„ ایسا تخلیمی‬
‫ادب جو ایک تحریک کی صورت میں سماج کے ارتماءکے ساتھ ساتھ ترلی کرتا ہےە سچا ادیب اور شاعر‬
‫مزاحمتی ادب تخلیك دیتا ہےە‬

‫ًاظن حکوت‬

‫ە‪۷‬ە‬

‫جینے کے لیے مرنا‬

‫یہ کیسی سعادت ہے‬

‫مرنے کے لیے جینا‬

‫یہ کیسی حمالت ہے‬

‫ە‪۲‬ە‬

‫اکیلے جیو ایک شمشاد تن کی طرح‬

‫اور مل کر جیو‬

‫ایک بَن کی طرح‬


‫ە‪۳‬ە‬

‫ہم نے ا ّمید کے سہارے پر‬

‫ٹوٹ کر یوں ہی زندگی کی ہے‬

‫جس طرح تم سے عاشمی کی ہے‬

‫‪........................‬‬

‫سندھی مزاحمتی شاعری‬


‫شیخ ایاز‬
‫شیخ ایاز سندھی زبان کے بہت بڑے شاعر ہیںە آپ مزاحمتی اور ترلی پسند شاعر کے طور پر جانے‬
‫جاتے ہیںە آپ کی پیدائش ‪ 23‬مارچ ‪1223‬ء میں شکارپور میں ہوئیە آپ نے درجنوں کتابیں لکھیں اور‬
‫سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہےە آپ نے "شاہ جو رسالو" کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا جو‬
‫اردو ادب میں سندھی ادب کا نیا لدم سمجھا جاتا ہےە‬

‫شیخ ایازکی شاعری کے ایک انتخاب کا ترجمہ فہمیدہ ریاض نے بھی کیا ہے ‪.‬وہ لکھتی ہیں ‪ "----3‬ان کو‬
‫حکومتوں نے کئی بار جیل میں ڈاال ەە ہم عصر شاعر فیض کی طرح وہ جیل سے بہت خوبصورت‬
‫شاعری لے کر آ َ ئے ەە یہ ایک اور وا َ ئی سکھر جیل میں لکھی جہاں بعد میں بے نظیر کو بھی رکھا گیا‬
‫"‪.‬تھا‬

‫ترجمہ ‪ 3‬فہمیدہ ریاض‬

‫آرے زنداں کے جھروکے سے نہار کتنی‬

‫پیاری رات ہے گر رہی ہے‬

‫آسماں سے چاندنی کی آبشار‬

‫کر رہی ہے دو جہاں پر وار کوئل کی‬


‫پکار‬

‫یہ ہوا یہ سامنے لمبی کھجوروں کی لطار‬

‫چاند بھی سیخوں سے تجھ کو جھانکتا ہے‬

‫بار بار‬

‫ناچ سکتا ہے گھڑی بھر اپنی زنجیروں‬

‫میں یار‬

‫گارے پیارے یہ درو دیوار کب ہیں پائیدار‬

‫کتنی پیاری رات ہے‬

‫) دیدبان عالمی ادب انتخاب‪1.‬‬ ‫) ترجمہ ‪:‬فہمیدہ ریا‬


‫‪.....................‬‬

‫میرے دیدہ ورو‬

‫میرے دانشورو‬

‫پاؤں زخمی سہی‬

‫ڈگمگاتے چلو‬

‫راہ میں سنگ و آہن‬

‫کے ٹکراؤ سے‬

‫اپنی زنجیر کو‬

‫جگمگاتے چلو‬
‫رود کش نیک و بد‬

‫کتنے کوتاہ لد‬

‫سر میں بادل لیے‬

‫ہﯿں تہﯿہ کیے‬

‫بارش زہر کا‬

‫اک نئے لہر کا‬

‫میرے دیدہ ورو‬

‫میرے دانشورو‬

‫اپنی تحریر سے‬

‫اپنی تمدیر سے‬

‫نمش کرتے چلو‬

‫تھام لو ایک دم‬

‫یہ عصائے للم‬

‫ایک فرعون کیا‬

‫الکھ فرعون ہوں‬

‫ڈوب ہی جائیں گے‬

‫) شیخ ایاز )اًہوں ًے یہ ًظن اردو هیں ہی لکھی‬

‫‪...................‬‬
‫احتجاج اور مزاحمت کے شاعر‪:‬کارلس نی ہار‬
‫)‪(CARLOS NEJAR‬‬

‫تعارؾ و ترجمہ ‪ 3‬احمد سہیل‬

‫برازیل کے پرتگیزی زبان کے شاعر ‪ ،‬ناول نگار‪ ،‬نالد ‪ ،‬مترجم اور ادب اطفال نویس‪ ،‬خطوط نویس ان کا‬
‫پورا نام لوئیس کارلس نی ہار ھےە ‪ ۷۷‬جنوری ‪ ۷۴۳۱‬کو برازیل کے شہر " پرٹو ایگر" میں پیدا ھوئے وہ‬
‫‪1211‬میں برازیل کی اکادمی آؾ لیٹر کے رکن رھے ہیںە ‪ ۲۰۰۴‬میں پرتگال کے صدر نے انھیں تعلیم‬
‫کے بورڈ کا رکن ممر کیاە ‪ ۲۰۰۱‬ھوانا [کیوبا] میں برازیلی ادب اور لسانیات کی کانفرس میں شرکت کیە‬
‫ان کا تعلك ‪ 1290‬سے ‪ 1290‬کے درمیاں جنوبی امریکہ میں ابھرنے والی شعری نسل سے ھے ە ان کی‬
‫شاعری میں نظرئیے سے وابستگی‪ ،‬اور ریڈیکل تبدیلی کا تصور نمایاں ھےە ان کے شعری لہجے میں‬
‫تیکھاپن پن ھے جو ان کے اظہار کو دیگر شعرا سے منفرد بناتا ھےە ان کا ادبی نظریہ یساریت پسندی{‬
‫باءیں بازو} سے لریب ھےە اسی سبب ان کی شاعری میں درمندی ھےە جو احتجاج اور مزاحمت ‪،‬‬
‫اسٹبلشمنت شکنی سے بھری ھوئی ھےە وہ بنیادی طور پر احتجاج اور جبر کے شاعر ہیں ە انھوں نے‬
‫موسیمی کے مخصوص آہنگ کو اپنی شاعری میں متعارؾ کرواتے ھوئے پرتاگلی زبان کے زخیرہ الفاظ‬
‫میں بیش بہا اضافہ کیاە جو لاری کو تحیر میں بھی مبتال کردیتی ہےە ان کو ‪ ۷۴۱۰‬میں رونالڈ آگسٹو ناریو‬
‫کونٹینا اور ہیکر اسٹونیا کے ساتھ کار لوس نی ہار کو برازیہل کا بہتریں شاعر لرار دیا گیاە ‪ 1290‬سے‬
‫وہ جنوبی برازیل میں ممیم ہیںە کارلوس نی ہار کے جونتیس ‪ ۳۹ /‬شعری تصانیؾ کے عالوہ تین‪۳/‬‬
‫ناولین‪ ،‬بچوں کے لیے چھہ‪ ۱/‬کتابیں‪ ،‬مماالت کا ایک مجموعہ شائع ھوچکی ہیں ە ان کی چند نظموں کو‬
‫ایک فلپائی‪ /‬امریکی خاتوں میڈلیں پسیوٹو نے انگریزی میں ترجمہ کیا ھےە‬

‫‪..................‬‬

‫"احتجاج"‬
‫کارلوس نی ھار‪ /‬برازیل ترجمہ‪3‬احمد سہیل‬

‫انسان اور کشتی بہتے ہیں احتجاج سے احتجاج تک ساحلوں کی طرؾ برھتے ہیں اور تیز ریت ــــ انسان‬
‫اور کشتی بہتے ہیں احتجاج سے احتجاج تک ان کی روحین لہروں پر گرداب بناتی ہیں‬
‫انسان اور کشتی بہتے ہیں احتجاج سے احتجاج تک اچانک وہ گہرائی میں دھکیل دیے جاتے ہیں دو تیر‬
‫پیالے کو اٹھاتے ہیں احتجاج سے احتجاج تک اور کشتی سورج سے نبردآزما ھے ەەەەەەەەەەەەەەەەەەەە‬

‫"گواہی"‬
‫کارلوس نی ھار‪ /‬برازیل ترجمہ‪3‬احمد سھیل‬

‫خون کو ہاتوں سے مت روکو تمہارا وجود کلنک کا ٹیکہ ھے تم ان ھواؤں میں نہیں سوسکتے‬

‫خون کو اپنے ہاتھوں سے مت روکو اپنے آپ کو آگ اور ولت کے ساتھ باھم کرو تمہارے گیت کبھی‬
‫متعبر نہیں ھوں گے تم کیسے لبول کرسکتے ھو دوسرا ورثہ تمہارے لہو میں شگاؾ پڑ چکا ھے سایوں‬
‫‪ ................‬کو پیدا کرو تمہارے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ولت کچال جاتا ھے‬

‫"تیل کا چراغ"‬
‫کارلوس نی ہار ‪ /‬برازیل ترجمہ‪3‬احمد سھیل‬

‫ھوڈلودو مونٹی جب تم آزاد ھو جاؤ وہاں تمہاری کمر پر کوئی گھٹٹری نہ ھوگی آج تم کاشت نہیں کروگے‬
‫کاؼذ میں لپٹا ' آگ میں تر جنگال تمہاری جنم بھومی کے لریب‬

‫تم آزاد ھو جاؤ گے تمہاری کمر پر کوئی گھٹٹری نہ ھو گی اور نہ رسد گاڑی اور نہ ھی کوئی چابک‬
‫برسائے گا اور نہ تمہارے خوابوں کو سزا دی جائے گی‬

‫جب تم آزاد ھوجاؤ گے تمہاری کمر پر کوئی گھٹٹری نہ ھوگی‬

‫‪..............‬‬

‫)‪ (Tenzin Tsundue‬تبّت کا هساحتوی‪ ،‬احتجاجی‪،‬قوم پرست اًقالبی شاعر اور ادیب ‪ :‬تي زیي تشٌڑو‬

‫ان کی پیدائش ‪ ۷۴۱۱‬میں مینالی‪ ،‬ھما چل پردیش ‪ ،‬بھارت میں ہوئیە ‪ ۷۴۱۴‬میں ان کے والدین ‪ ۷۴۱۴‬میں‬
‫تبّت سے نمل مکانی کرکے ہندوستان آئے تھےە تن شین نے چین کے تبّت کے جابرانہ تسلط کے خالؾ‬
‫اور تبّت کی تحریک آزادی کی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا ە جنوری ‪ ۲۰۰۲‬میں جب چین کے‬
‫وزیر اعظم ژونگ نونگوجی دروے پر ممبئی آئے تو انھوں نے ان کے منہ پرەە" تبّت کو آزاد کرو" ەەەە "‬
‫تبّت سے باہر نکلو" ەەەە کےنعرے لگائے اور آزاد تبّت کا پرچم بھی لہرایاە جس پر وہ گرفتار ہوئےاور‬
‫پابند سالسل کردئیے گئے ە پھر انھوں نے اپریل ‪ ۲۰۰۱‬جب چین کے وزیر اعظم ون چیکوکی بنگلور آئے‬
‫تو انھوں نے شدید احتجاج کیا اور دھرم شاال میں عوامی تحریک بھی چالئی جس پر بھارتی حکومت نے‬
‫ان کی نمل وحمل پر پابندی عائد کردیە تن زین نے ممبمئی یونیورسٹی سےماسٹر کی ڈگری حاصل کی‬
‫ھے ە ایک مرتبہ چین کے سرحدی پولیس نے انھیں گرفتار کرکے "السا" کے ایک عموبت خانے میں تین‬
‫‪. Kora -‬شاعری) ‪ Crossing the Border (2‬ماہ لید رکھاە انھوں نے تیں کتابیں لکھی ہیںە ‪۷‬ە‬
‫‪. Semshook -essays on the tibetan‬کہانیاں اور شاعری) ‪stories and poems ( 3‬‬
‫"مضامین) " میں دھشت گرد ہوں(‪freedom struggle‬‬

‫تن زین تشنڈو ‪ -‬تبّت‬

‫ترجمہ‪ 3‬احمد سہیل‬

‫میں دہشت گرد ہوں میں لتل کرنا پسند کرتا ہوں میرے سینگ ہیں دو لمبے دانت اڑنے والے اژدھے کی‬
‫طرح پونچھ تم نے میرے گھر سے دور میرا تعالب لیا ھم خوؾ سے روپوش ہوجاتے ہیں میری جان بچاو‬
‫میرے چہرے پر زور سے دروازہ بند کرتے ہو میں انصاؾ کی مسلسل تردید کرتا ہوں میں نے صبر کا‬
‫تجربہ کیا ہے ٹیلی وژن پر تباہی خاموش اکژیت کے سامنے مجھے دیوار سے لگایا گیا مردہ گلی سے‬
‫واپس آگیا مجھے ذلّت محسوس ہوئی تم مجھے نیچے سے نگل جاتے ہو چپٹی ناک کے ساتھ میں دھشت‬
‫گرد ہوں مجھے مار ڈالو بزدلی اور خوؾ کو میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں وادی میں میاوں ەە میاوں کرنے‬
‫والی بلیون کے ساتھ اور چوما چاٹی کرنے والے کتوں کے ساتھ میں کنوارہ ہوں میرے پاس کچھ نہیں‬
‫کھونے کے لیے میں ایک " گولی" ہوں میں نہیں سمجھتا ٹین کے خول سے میں نے سننی خیزی کو ان‬
‫کی طرؾ اچھال دی دوسری زندگی اور میں مردوں کے ساتھ مر جاتا ہوںە‬

‫تعارؾ اور ترجمہ‪ 3‬احمد سہیل‬

‫‪..............‬‬

‫آسامی مزاحمتی شاعر‬


‫شاعر‪:‬حسیي‬

‫ًسترى فتیحی‬

‫انڈیا کی شمال مشرلی ریاست آسام کا عاللہ سطح دریا کے لریب کا عالله ہے ‪ .‬وہاں بنگالی نسل کے‬
‫الکھوں باشندے کئی نسلوں سے ریاست میں آباد ہیںە ان بنگالی مسلمانوں نے وہاں کے ایک بنجر زمین‬
‫کے عاللے کو اپنی محنت اور مشمت سے زر خیز بنا لیا‪ .‬اور کئی نسلوں سے آباد ان محنت کشوں نے‬
‫جب اس عاللے کوزرخیز بنا لیا تو آسامیوں نے انہیں ؼیرملکی کہ کر ظلم اور تشدد سے انہیں وہاں سے‬
‫بے دخل کرنا شروع کر دیا‪.‬ان کے پاس سبھی دستاویزات موجود ہیں لیکن انھیں ؼیرملکی یعنی بنگلہ‬
‫دیشی لرار دیا گیا ہےە انھیں فارینرز ٹرائبیونل میں اب ثابت کرنا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیںە‬

‫وہ کہتے ہیں‪' 3‬ہمارا جنم یہیں ہواە ہمارے پاس سارے ریکارڈ ا ہیں حج کرنے کے ولت کا ەپاسپورٹ ہے‬
‫لیکن اس کے باوجود انہیں فارنر ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے ەیہاں تک کہ جیل میں ہزاروں عورتیں بھی لید‬
‫ہیںەہر ثبوت دکھا نے کے بعد بھی پولیس انہیں کسی دن بنگلہ دیشی بتا کر گرفتار کر لیتی ہے ە‬

‫حسین" کا تعلك اسی عاللعے سے ہے ‪ .‬ان کی مزاحمتی نظم دیکھئے جس میں سیالب اور دلدلی زمین "‬
‫‪ .‬ایک کلیدی لفظ ہے‬

‫ًظن "هیں هیاں ہوں" اًگریسی سے آزاد اردو ترجوہ ‪ً:‬سترى فتیحی‬

‫میں "میاں " ہوں‬

‫اس سیالب زدہ عاللے سے‬

‫‪.....‬مجھے‬

‫اب ابھرتے ہوئے دیکھو‬

‫نشیبی عاللوں کے دلدل‬

‫اور پھنسا ر سے پھسلتے ہوئے‬

‫اپنے پھاوڑوں اور بیلچوں سے‬


‫‪ ...‬میں اب بھی‬

‫‪.‬زمین کے سینے کو چیر سکتا ہوں‬

‫گنے اور دھان کے لہلہاتےکھیتوں سے نکل کر‬

‫‪ .‬میں ہیضے میں رنگ رہا ہوں‬

‫میں شاعری کے چند سطور‬

‫اور حسا ب کے چند اصول سمجھ کر‬

‫اپنی دس فیصد خواندگی کا جشن‬

‫اپنے کندھے کو اچکا کر مناتا ہوں‬

‫اور یہ لمحاتی خوشی میری‬

‫اس ولت کافور ہو جاتی ہے‬

‫‪ .‬جب کوئی مجھے بنگلہ دیشی کہتا ہے‬

‫لیکن میں اپنے انمالبی ذہن کو‬

‫سمجھا لیتا ہوں‬

‫‪ .‬کہ میں "میاں " ہوں‬

‫‪...........................‬‬
‫مزاحمت کی شعریات‬

‫علی رفاد فتیحی‬

‫ادب انسانی زندگی کو براہ راست متاثر کرتا ہے اور یہ معاشروں کو شعور کی آگاہی فراہم کرنے کا‬
‫ذریعہ بھی بنتاہےە جب ہم عالمی ادبی سرمائے کا جائیزہ لیتے ہیں تو ہمیں خال خال ہی کوئی ایسا ادیب یا‬
‫شاعر نظر آتا ہے جس کے دل و دماغ کوظلم و جبر نے نہ جھنجوڑا ہو اور جس کے للم سے سیاہی کے‬
‫بدلے خون نہ ٹپکا ہوە اس سےیہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادب میں مزاحمت کا بھر پور اظہار ملتا ہے‬
‫ە بعض ماہرین کے خیال میں ادب کی مزاحمتی اور ؼیر مزاحمتی ادب کی تمسیم ؼلط ہے کیوں کہ ادب‬
‫بذات خود ایک مزاحمتی عمل ہے ە جب ادیب اپنے گرد و پیش کے ساتھ مکمل ہم آہنگی نہیں کر پاتاتو وہ‬
‫اس کا اظہار ادبی تخلیك میں کرتا ہےە اس حوالے سے دیکھا جائے تو سارا ادب مزاحمتی ادب ہے اور ہر‬
‫ادیب باؼی ہےە‬

‫مزاحمت اور بؽاوت کا اظہار یونانی ادب میں واضح طور پر نظر آتا ہےە لدیم یونان میں جو جمہوری‬
‫مزاج تھا‪ ،‬اس نے ادب میں مزاحمتی رویوں کے لئے گنجائش پیدا کی اور مزاحمتی ادب کی شروعات‬
‫ہوئی ە‬

‫جو لدیم یونان کا ایک بڑا ڈرامہ نویس تھا وہ ڈرامے میں جذبات سے بھرپور ‪ Euripides,‬یوری پیڈیز‬
‫احساسات اور ہلچل مچا دینے والے سواالت ڈالتا اور جب کبھی انسانی لدروں کو پائمال ہوتے دیکھتا‪ ،‬وہ‬
‫اس پر احتجاج کرتاە مثالً یوری پیڈیز نے جب جنگ کی تباہ کاریوں کا عورتوں پر اثرات کے موضوع پر‬
‫ڈرامہ لکھا تو ایتھنز کی حکومت نے اس کے مسودے پر اعتراضات کیے اور اس پر پابندی لگا دی ە اس‬
‫پابندی کے زیر اثر یوری پیڈیز نے ایتھنز کی حدود کے باہر جاکر اپنے فن کا اظہار کیاە 'خواتین ٹرائے'‬
‫میں یونانی ہوتے ہوئے بھی اس کی ساری ہمدردیاں ٹرائے والوں کے ساتھ تھیں‪ ،‬جو جنگ میں تباہ ہوگےە‬
‫'خواتین ٹرائے میں وہ کہتا ہے‪" ،‬جب شہر ویران ہوجائیں‪ ،‬تو دیوتاوں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا‪ ،‬ان کے‬
‫"سامنے سر جھکانے واال کوئی نہیں رہتاەە" یعنی دیوتاوں کا ہونا نہ ہونا انسان کے دم سے ہےە‬

‫مزاحمت اور بؽاوت کے بے باک اور بے دریػ اظہار کی وجہ سے یونانیوں نے تمریبا ً ڈھائی ہزار برس‬
‫لبل ہی المیہ نگاری کے فن میں ملکہ حاصل کر لیا تھا اور اس کی بڑی وجہ ہومری ادب ہےە ہومر کی دو‬
‫نظمیں ایلیڈ اور اوڈیسی ہیں جو ایلیڈ جنگ کی ہولناکی اور مفتوحہ ریاست ٹرائے کی بربادی کامعروؾ‬
‫لصہ پیش کرتی ہیںە ان نظموں میں شکست خوردہ لوم کے مصائب کا تذکرہ اس آشوب انداز میں کیاگیا‬
‫جو مزاحمتی ادب کو روح عطاکرتا ہےە یونانی تہذیب کے اثرات یوں تو ا نسانی ترلی پر بے حد نمایاں‬
‫ہیں لیکن مزاحمتی ادب کو جہتیں عطا کرنے میں بھی اس کا کردار نمایاں اورواضح ہےە‬

‫معنیات کے اشتمالی اصول کے مطابك‪" ،‬مزاحمت" کی اصطالح اردو لفظ "مزاحم" سے مشتك ہےە مزاحم‬
‫کے معنی روڑے ڈالنا‪،‬خلل انداز ہونا‪ ،‬رخنہ انداز ہونا‪ ،‬اور ِسد راہ ہےە مزاحمت کا انگریزی متبادل‬
‫سے مشتك ہےە معنوی "‪ " Resistere‬اور الطینی "‪ "Resister‬ہے جو فرانسیسی ‪Resistence‬‬
‫اعتبار سے لفظ مزاحمت کے لؽوی معنی "اطاعت کرنے سے انکار" ہے آکسفورڈ ایڈوانس لؽت کے‬
‫مطابك مزاحمت کسی خیال ‪،‬کسی تصور یا کسی فیصلے کی مخالفت کا عمل ہے اس مخالفت میں اسے‬
‫ہونے سے روکنے کی کوشش بھی شامل ہے گویا مزاحمت ایک مضبوط اختالؾ کا اظہار ہے اس طرح‬
‫"مزاحمت بنیادی طور پر ایک انمالبی سرگرمی ہےە اس کے برعکس ‟احتجاج„ کی اصطالح میں ایک سے‬
‫زائید تجربے اور اس کی توانائی کا پہلو شامل ہوتا ہےە گویا احتجاج اور مزاحمت کے درمیان بنیادی فرق‬
‫یہ ہے کہ احتجاج روایتی طور پر منصوبہ بند‪ ،‬منظم‪ ،‬منضبط ‪،‬شعوری اور اجتماعی ہوتا ہےە اجتماعیت‬
‫اور تکثیریت کی وجہ سے احتجاجی مظاہرہ اس کی مخصوص حکمت عملی بن جاتا ہےە دوسری جانب‬
‫مزاحمت ؼیر منصوبہ بند‪ ،‬ؼیر منظم ‪ ،‬ؼیر شعوری انفرادی عمل ہے‪.‬مزاحمت در اصل مجروح جذبات‬
‫رویے ( )‪ Hegemonic‬اور نا انصافیوں کے زیر اثر ظہور پذیر ردعمل ہےە گویا مزاحمت استبدادانہ‬
‫گروپوں ‪subaltern‬کے خالؾ محکوموں کا طرز عمل ہےە بالفاظ دیگر مزاحمت کے مطالعے میں‬
‫کی تشریح ضروری ہےە کیونکہ )‪( (Hegemonic bias‬محکوم )کی شناخت اور استبدادانہ تعصب‬
‫استبدادانہ رویہ امحکوموں کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتا ہےە‪.‬جبکہ مزاحمت تسلط‪ ،‬ناانصافی‬
‫اور جبر کے خالؾ محکوموں کی آواز ہےە‪ .‬مزاحمت کا ممصد ظالمانہ طریموں کو بے نماب کرتا ‪،‬‬
‫استبدادانہ طالت کو کمزور کرتا اور عام لوگوں کے لئے ایک مساوی جگہ تالش کرنا ہےە مزاحمت در‬
‫حممیمت ان سماجی و ثمافتی رویوں کے جبری استحصال سے انکار کا نام ہے جو سیاسی و عمرانی دباؤ‬
‫کے تحت انسانی زندگی میں د ر آتے ہیںە مزاحمت کی د و شکلیں ہمیشہ دو رویوں کی طرح آپس میں‬
‫مدؼم ہوتی ہیںە مزاحمت کی ایک شکل تو وہ ہے جو ہر جگہ پائی جاتی ہے یعنی کسی ظالم یا ؼاصب‬
‫کے خالؾ کھڑے ہو کر مزاحمت کرنا لیکن مزاحمت کی دوسری شکل ذرا پیچیدہ اورخالص داخلی ہےە‬
‫یعنی منصفانہ الدار کی آبیاری کرتے ہوئے اپنے نفس اور اپنی مفادات کے خالؾ اس ولت تک مزاحمت‬
‫کو جاری رکھنا جب تک کہ منصفانہ الدار اس فرد کی ذاتی منفعت سے بازی نہ لے جائےەدوسرے لفظوں‬
‫میں اپنے اور اپنے ّ‬
‫اعزا کی مفادات اورزندگیوں کی لربانی دے کر اِن منصفانہ الدار کا احیا کرنا ہوتا ہےە‬
‫ادب اور سماج میں مزاحمت کی یہ دونوں شکلیں انتہائی طالتور طریمے سے عیاں ہیںەاور ان دونوں‬
‫رویوں کے انسانی نفسیات پر گہرے نموش ہیںە‬

‫اس انسانی کرہ ارض پر بڑھتی معاشی ‪ ،‬سیاسی ‪ ،‬سماجی بد حالی اور انتشار کو تاریخ کے آئینہ میں‬
‫یا حاشیائ آبادی میں جتنی بے چینی آج ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھیە ‪ subaltern‬دیکھیں تو معلوم ہو گا‬
‫آج جب حاشیائ آبادی کا استحصال بڑھ رہا ہے اس کے خالؾ احتجاجی جدوجہد تمام دنیا میں ہو رہی ہے‬
‫اور مختلؾ شکلوں میں مزید تیز ہو رہی ہےە اس کا اظہار ادب کے موضوعات اور بیانیہ میں بھی نظر آتا‬
‫ہے جہاں حاشیائ آبادی استحصال کا شکار ہوتی ہے اور ایک منفی خود خیال پسماندگی اور احساس کم‬
‫تری کی شکار نظر آتی ہےە مزاحمت کے لیے جہاں انمالبی نظریات‪ ،‬الئحہ عمل اور تناظر کی ضرورت‬
‫ہوتی ہے وہاں ان نظریات کو اپنانے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے جرات اور دلیری کی بھی‬
‫ضرورت ہوتی ہےە جرات اور دلیری کے بؽیر نظریات ایسے ہی ہیں جیسے ایدھن کے بؽیر گاڑیە آج‬
‫مزاحمتی سوچ کے زوال کی بنیادی وجہ انمالبی نظریات کا فمدان ہےە نظریاتی اختالؾ کے اسی خال کے‬
‫باعث آج بکھری ہوئی تحریکوں کو مجتمع نہیں کیا جا رہاە نظریات کا فمدان حوصلوں کو بھی پست کرتا‬
‫ہے اور مزاحمت کارکنان کو مشکالت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے مفاد پرستی کے گھٹیا رستے پر چلنے‬
‫پر مجبور کرتا ہےە ایک متبادل نظام پر یمین کی عدم موجودگی صورت حال کے ازلی اور ابدی ہونے‬
‫کایمین دالتی ہے جو مزاحمت کے لیے درکار بلند حوصلوں کے فمدان کا باعث بنتا ہےە مزاحمت اور‬
‫انمالب کے رستے پر گامزن ہونے والوں پر آؼاز سے انجام تک پھول نہیں نچھاور کیے جاتے بلکہ یہ‬
‫کانٹوں سے بھرا ہوا رستہ ہےە انہی خاردار رستوں پر چل کر منزل کی جانب بڑھنا پڑتا ہےە ماضی کی‬
‫تحریکوں کی پسپائی سے مایوس لوگ بھی حوصلہ شکنی بھرپور انداز میں کرتے ہیںە موجود نظام کو‬
‫ازلی اور ابدی تصور کرنے والے عام افراد کی بھی کمی نہیں ہوتیەسائنسی نظریات اور متبادل پر یمین نہ‬
‫ہونے کے باعث انہی مشکالت کاخوؾ مزاحمت کو ترک کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اکثریت راہ‬
‫فرارکو ترجیح دیتی ہےە سرمایہ دارانہ ریاست کے انہی ظالمانہ لوانین اور جبر کے اداروں پر مبنی‬
‫اوزاروں کی موجودگی کے باعث حکمران طبمہ کسی بھی لسم کے باؼی خیاالت کو کچلنے میں پر اعتماد‬
‫ہوتا ہےە جہاں پیسے اور سماجی رتبے کا اللچ بہت سے مزاحم کارکنا ن کو مزاحمت کی بجائے مفادات‬
‫کی تکمیل کے رستے پر چلنے پر مجبور کر دیتا ہے وہاں ریاستی جبر کا خوؾ بھی انہیں ؼدار سیاسی‬
‫لوتوں کا کاسہ لیس بنا دیتا ہےە آج بھی مزاحمت کرنے والوں اور انمالبی نظریات کو عملی جامہ پہنانے‬
‫کی کوشش کرنے والوں کو رجعتی لوتوں کی جانب سے بد ترین انتمامی کاروائیوں کا نشانہ بننے کے لیے‬
‫تیار رہنا ہو تا ہے اور اس کیخالؾ سیاسی لڑائی لڑنے کا الئحہ عمل موجود حاالت میں ترتیب دینا ہوتا‬
‫ہےەە اپنے فوری مطالبات کے حصول کی جدوجہد سے لے کر سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کی‬
‫جدوجہد تک ہر سطح پر مصائب کے پہاڑ ان کے منتظر ہوتے ہیں اس کے بعد ریاستی اداروں اور‬
‫رجعتی لوتوں کے ساتھ ٹکراؤاس سفر کا ایک ناگزیر مرحلہ ہے جس سے گزرے بؽیر کوئی بھی‬
‫مزاحمتی تحریک منزل تک نہیں پہنچ سکتیە‬

‫مزاحمتی ادب‬

‫مزاحمتی ادب ایسی تخلیك ہے جس میں تسلط‪ ،‬ؼلبہ نا انصافی اور جبرکے خالؾ مزاحمت ہوە مزاحمتی‬
‫ادب بااختیار بنانے اورموجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی ادبی کوشش ہےە فلسطینی مصنؾ ؼسان‬
‫کانافیانی نے‪ 1291‬میں پہلی بار اپنی کتاب ” ممبوضہ فلسطین میں مزاحمتی ادب‪ “.‬میں "مزاحمت" کا‬
‫لفظاستعمال کیاە جبکہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ "مزاحمت ادب" کی اصطالح سب سے پہلے ”باربرا‬
‫نے متعارؾ کرایا اور مسلح جدوجہد میں ادب کا کردار پر گفتگو کی ە ان کی ‪“ Barbara Harlow‬ہارلو‬
‫اس گفتگو میں افریمہ‪ ،‬الطینی امریکہ اور ایشیا کے مزاحمتی ادب شامل تھے جو آزادی کے لئے مسلح‬
‫جدوجہد میں مصروؾ تھے‪ .‬وہ وضاحت کرتی ہیں کہ کس طرح جدوجہد لومی آزادی نے نظریاتی تجزیہ‬
‫کے لیے کس طرح شعری‪ ،‬اور نثری مزاحمتی ادبیات کا ذخیرہ تیار کیاە‬

‫مزاحمتی ادب کی اصطالح پہلی بار فلسطینی مصنؾ ؼسان کانافیانی نے کی ہو یا ”باربرا ہارلو„ „ لیکن‬
‫اتنا یمینی ہے کہ مزاحمتی ادب کی اصطالح عہ ِد آمریت میں وجود میں آئیە اس طرح ایک جانب ویت نام ‪،‬‬
‫فلسطین‪ ،‬الجزائر اور کشمیر کی آزادی کے لئے لکھا گیا ادب مزاحمتی ادب کہالیا تو دوسری جانب‬
‫حاشیائی آبادی کی حوصلہ افزائی میں تحریر کردہ ادب بھی مزاحمتی ادب شمار کیا گیاە اہ ِل للم نے ہمیشہ‬
‫ظلم وجبرکے اندھیروں کے خالؾ حك اور سچائی کے چراغ روشن کیے ہیںە ہر سچا شاعر اور ادیب‬
‫مظلوم کیساتھ کھڑاہوتا ہےە فرانس کے معروؾ دانشور سارترالجائزر پر فرانسیسی تسلط کے خالؾ اپنے‬
‫ہی ملک کی حکومت کو ہدؾ تنمید بناتا ہے اور احتجاجی تحریک کی لیادت کرتا ہے حاالت بگڑجانے‬
‫باوجود فرانس کے حاکم ولت نے اسے اس بنیاد پرگرفتار کرنے سے انکار کردیا کہ سارتر فرانسی‬
‫دانشور ہے اور پورے فرانس کے دانش ورونکو ہتھکڑیاں نہیں پہنائی جاسکتیە‬

‫ایک اعتدال پسند ‪،‬منطمی اور ؼیر متشدد اخاللی )‪ ( Albert Camus‬فرانسسی فلسفی البرٹ کیمس‬
‫مزاحمت کو پر تشدد مزاحمت پر ترجیح دیتا ہے ە اس کا خیال ہے کہ وہ ادب جو ایک اعتدال پسند ‪،‬منطمی‬
‫اور ؼیر متشدد اخاللی مزاحمت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے وہ ظالمانہ حکم کے خالؾ ایک عام لاری کی‬
‫لوت مدافعت میں اضافے کی منطك فراہم کرتا ہےە گویا مزاحمتی ادب کا بنیادی ممصد عام انسان کی لوت‬
‫میں البرٹ کیمپس مزاحمت کی درجہ بندی کے )‪ The rebel) ( (1951‬مدافعت میں اضافہ ہےەباؼی‬
‫لیے مزاحمت کاایک مناسب فریم ورک فراہم کرتا ہےە اس فریم ورک میں وہ ادب کو مندرجہ ذیل خانوں‬
‫میں تمسیم کرتا ہےە‬

‫‪.‬‬ ‫"‪۷‬ە "ستائیشی ادب‬

‫ە مزاحمتی ادب ‪۲‬‬

‫اس کا خیال ہے کہ لابل تملید تخلیمی ادب جمالیاتی مزاحمت کا اظہار ہےە اس کے مطابك‪ ،‬ایک تخلیمی‬
‫فنکار اپنی منظم کائنات بناتا ہے تاکہ وہ بے ربط اور بے لاعدہ دنیا میں مداخلت کرسکےە کیمپس کے‬
‫مطابك مداخلت کی یہ کوشش در اصل جمالیاتی مزاحمت ہےە‬

‫اردو میں لدیم شعری اصناؾ”شہر آشوب“ اور ”مرثیہ “کو مزاحمتی ادب کے ابتدائی نموش کے طورپر‬
‫پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان اصناؾ میں در حممیمت ان سماجی و ثمافتی رویوں کے جبری استحصال‬
‫ؤ کے تحت انسانی زندگی میں د ر آتے ہیںە اسی سے انکار کا اظہار نظر آتا ہے جو سیاسی و عمرانی دبا‬
‫جبری برتاؤاور دستور کو جب ایک شاعراپنے الفاظ میں ”مرثیہ “ یا ”شہر آشوب“ کی صنؾ میں ایک‬
‫تخلیمی رنگ دیتا ہے تو اسے ہم مزاحمتی ادب کی شرح میں لبولیت بخشتے ہیںە اسکی بنیادی وجہ یہ ہے‬
‫کہ مزاحمت کا حصول ایک مرحلہ وار اور ہمہ جہت جدوجہدکی شکل میں ہوتا ہےە مزاحمتی روایت کے‬
‫علمبردار اور معروؾ افؽان شاعر” مطیع ہللا تراب“ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں جنگ و جدل کے دور‬
‫میں رومان اور رومانوی شاعری کوئی معنی نہیں رکھتیەرومان تو اس ولت لکھا جاتا ہے جب امن ہوە‬
‫جب روٹی‪ ،‬کپڑا اور مکان کی فکر نہ ہوە جنگ و جدل نہ ہوە ان کے خیال میں مزاحمتی شعر وہ ہے جس‬
‫میں کسی بے کس اور مجبور کے احساسات کو زبان ملےە‬

‫مزاحمتی ادب تسلط کے خالؾ ایک مخصوص تناظر میں لکھا جاتا ہے‪ .‬یہ تناظر جاگیر دارانہ مسلمات کا‬
‫تسلط ہو ‪،‬یا ؼالب سماجی اداروں کی اجارہ داری ہو یا پدرانہ نظام پر لائم سماجی تصورات اور جنسی‬
‫تفریك کی باالدستی ەان کے خالؾ ادبی اظہار ایک ایسے مزاحمتی ادب کی شکل میں ابھرتا ہے جہاں‬
‫روایتی طور پر تسلیم شدہ اصول و معیار کی نفی پر اصرار بڑھ جاتا ہےە ورجینیا وولؾ سے لے کر‬
‫سیمون دی بوائر تک تمام دانشوروں نے تسلیم شدہ صدیوں سے رائج پدری نظام کے معیار کی نفی پر‬
‫زور دیاە پدری نظام‪ ،‬مرد کی مرکزیت کے تصور کا ایسا عادی ہے کہ اس میں عورت محکوم بن کر رہ‬
‫جاتی ہےە جنوبی ایشیا کے معاشرے میں عورت کو‟ ‟نصؾ بہتر“ لرار دینے کا مشفمانہ اور ترحم آمیز‬
‫رویّہ لابل مزاحمت ہےە اس رویّے کی مزاحمت کی خاطر ایک ایسا ادب تخلیك کیا گیا جس نے جنسی عدم‬
‫توازن اور افراط و تفریط کو نشان زد کیا گیا اور جس میں ایک فکری بؽاوت کا اظہار نظر آیاە اس ادب‬
‫کو مزاحمتی ادب کا نام دیا گیا ہےە‬

‫ہندوستان میں مزاحمتی ادب‬

‫انگریزوں کی ہندوستان آمد کے بعد جو سماجی تبدیلی آئی وہ یہ تھی کہ ایک متحرک دنیا کا ٹکراؤ ایک‬
‫جامد معاشرے کے ساتھ ہواە اردو زبان فارسی کے بوجھ تلے دبی تھی اور ادب بھی روایتی شاعری کی‬
‫حدود میں ممید تھا اس سے آزاد ہونے کی مزاحمت شروع ہوئی ەابتداءمیں نظیر اکبرآبادی اور اکبر ٰالہ‬
‫آبادی کے ہاں مزاحمت کی یہ روایت ملتی ہےە‬

‫ہم ایسی کل کتابیں لاب ِل ضبطی سمجھتے ہیں‬

‫کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں‬

‫رلیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں‬

‫کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں‬

‫علی گڑھ تحریک نے جب حالی اور شبلی جیسے لوگوں کے لئے ایک مزاحمتی پلیٹ فارم فراہم کیا تو‬
‫جدید اسلوب کی جھلک نظر آئی کیونکہ اس تحریک نے ادب برائے زندگی کا نظریہ متعارؾ کروایاە ادبی‬
‫دنیا میں اسے افادی نظریہ بھی کہا گیاە مگر ترلی پسند تحریک جس کی بنیاد ‪ 1239‬ء میں پڑی‪ ،‬دراصل‬
‫اردو کی پہلی خالص مزاحمتی تحریک تھی جس نے اردوادب کے آسمان کو ستاروں سے بھر دیاە منشی‬
‫پریم چند‪ ،‬فیض احمد فیض‪ ،‬راجندر سنگھ بیدی‪ ،‬جوش‪ ،‬ساحر اور ایسے التعداد لکھاری اس تحریک سے‬
‫وابستہ رہےەمنٹو کی تحریریں متنازعہ رہیں مگر سماج پر تازیانے برسانے واال مزاحمتی مزاج رکھتی‬
‫تھیںە شوکت صدیمی نے خدا کی بستی جیسا ناول رلم کیا جو اپنے دور کے سماجی مسائل کا نہ صرؾ‬
‫ترجمان تھا بلکہ مزاحمتی تھاە‬

‫دمحم عامر حسینی کا خیال ہے کہ آزادی کے بعد ایک ن۔ دور کا آؼاز ہوا جسے بالعموم نو آبادیاتی دور (‬
‫پوسٹ کالونیل دور) کہا جاتا ہےە نوآبادیاتی دور میں اردو ادب میں افریمہ‪ ،‬اور عرب کے مزاحمتی ادب کا‬
‫صہ اردو میں منتمل ہونا شروع ہوگیاەجیسےنایجیریا سےچینوا ایشو‬
‫لابل تملید ح ّ‬
‫بے‬ ‫کا ترجمہ „توڑ پھوڑ „ ‪ Things Fall Apart‬کے ناول‪Chinua Achebe‬‬
‫کے نام سے سامنے آیاەاسی دوران عرب شاعر” محمود درویش“ ‪ ”،‬نزار لبانی“ اور ترکی شاعر” ناظم‬
‫ۓاور اردو لاری نے ان سے آشنائی حاصل کیەحکمت“ کی شاعری کے تراجم ہو‬

‫وہ مجھ سے کہہ رہا ہے "تم اپنی آگ مں جل جل کے خود ہی مثا ِل شمع خاکستر بنوگے ە” "بہت ہے درد‬
‫لیکن نہیں ہمدرد کوئی ” تمہارے گوش و دل پر لگی ہے ُمہر جیسے فضاء اتنی گراں ہے جیسے‬
‫سیسہ‬

‫)ناظم حکمت (‬

‫‪..........‬‬

‫عاشك من الفلسطین‬

‫زیتون کی کوئی شاخ مجھ سے لے لو میرے المیے کی کوئی سطر میرے خیال کا کوئی سلسلہ میرے‬
‫بچپن کا کوئی کھلونا مصائب کی اس چہار دیواری سے کوئی اینٹ کہ ہمارے بچے اور ان کے بچے‬
‫رستے کا پتہ رکھیں اور لوٹ آئیں‬

‫)محمود درویش(‬

‫‪...........‬‬

‫جب میں محبت کرتا ہوں‬

‫جب میں تم سے محبت کرتا ہوں‬

‫تو نئی زبان کا ایک چشمہ اُبل پڑتا ہے‬

‫ایک نیا نمشہ بننے لگتا ہے‬

‫ملک دریافت ہوتے ہیں اور نئے نئے شہر‬

‫درخت ایسے کپڑے بدلنے لگتے ہیں جیسے بہار آ گئی ہو‬

‫کتابوں میں گندم کی بالیاں لہلہانے لگتی ہیں‬


‫تمھاری آنکھوں سے پرندوں کے ؼول ایسے پرواز کرتے ہیں‬

‫جیسے شہد کی بشارت لے کر جا رہے ہوں‬

‫تمھارے سینے سے لافلے ایسے نکلتے ہیں‬

‫جیسے ہندوستان سے مصالحے لے کر جا رہے ہوں‬

‫آموں کے ٹپکے لگ جاتے ہیں ہر طرؾ‬

‫جنگلوں میں آگ لگ جاتی ہے‬

‫بوبئیوں کے ڈھولوں کی تال تیز ہو جاتی ہے‬

‫جب میں تم سے محبت کرتا ہوں‬

‫تو تمھارے پستانوں میں ایک نیا آہنگ جاگ اُٹھتا ہے‬

‫بجلی کڑکتی ہے‪،‬ریت رلص کرتی ہے‪،‬تلواریں لہراتی ہیں‬

‫اور ایک طوفان آ جاتا ہے‬

‫جب میں تم سے محبت کرتا ہوں‬

‫تو عرب شہر‬

‫زمانوں کے جبر کے خالؾ آواز اُٹھانے کے لیے‬

‫سڑکوں اور بازاروں میں نکل آتے ہیں‬

‫جیسے ان کی آنکھیں پہلی بار کھلی ہوں‬

‫جیسے انھیں‬

‫لبائلی انتمام کا دور یاد آ گیا ہو‬


‫اور جب میں تم سے محبت کرتا ہوں‬

‫تو جلوس بن جاتا ہوں‪،‬بد صورتی کے خالؾ‬

‫نمک کے بادشاہوں کے خالؾ‬

‫صحرا کو ایک ادارے میں تبدیل کرنے کے خالؾ‬

‫اور میں تم سے محبت کرتا رہوں گا‬

‫جب تک دنیا بھر میں سیالب نہیں آ جاتا‬

‫میں تم سے محبت کرتا رہوں گا‬

‫جب تک دنیا بھر میں سیالب نہیں آجاتا‬

‫)نزار لبانی (‬

‫‪...............‬‬

‫ایران کے اندر اس دوران برطانوی سامراج اور پھر امریکی سامراج کے خالؾ جدوجہد اور تحریکوں‬
‫کے زیر اثر جو مزاحمتی ادب پیدا ہوا اس میں سے بھی کافی تراجم اردو ادب میں ہوئے اور اس‬
‫مزاحمتی ادب کویہاں پذیرائی ملنا شروع ہوئیەفلسطین ‪ ،‬الجزائر کی آزادی کی تحریکوں کے زیر اثر جو‬
‫ادب ان ممالک میں پیدا ہوا اس کی بازگشت بھی اردو ادب میں سنائی دی اور ہم نے الجزائر کے پس‬
‫منظر ہی میں ڑاں پال سارتر کے ناول ‪ ،‬کہانیوں کا ترجمہ اردو میں ہوتے دیکھا اور اسی ضمن میں فرانز‬
‫فین کی کتاب ”افتادگان خاک “کے نام سے اردو میں منتمل ہوئیەاردو ادب کے پڑھنے والوں ‪ ،‬فکشن ‪،‬‬
‫شاعری کی تخلیك کرنے والوں کے ہاں روسی‪ ،‬فرانسیسی‪ ،‬نوآبادیاتی ریاستوں کی ؼالمی اور بعد از‬
‫رسمی آزادی کے بعد پیدا ہونے والے ادب کے تراجم نے گہرے اثرات مرتب کئے‪،‬اگر یہ کہا جائے کہ‬
‫اردو ادب کے بڑے ناول نگاروں‪ ،‬کہانی کاروں اور افسانہ نگاروں کے ہاں „سماجی تبدیلی „ کے آدرش‬
‫سے ایک اٹوٹ رشتے کا ایک بڑا سبب کالونیل و پوسٹ کالونیل معاشروں میں پیدا ہونے واال مزاحمتی‬
‫ادب ہے تو یہ کوئی مبالؽہ آرائی پہ مشتمل دعوی نہیں ہوگاە‬

‫ستائیشی ادب‬
‫جب جب حکمران طبمے کی پالیسیاں عمیدت کو مزاحمت اور منطك کے ممابل ال کھڑا کرتی ہیں تو ایک‬
‫ؼیر جمہوری دور کے اثرات سیاسی سے زیادہ سماجی ثابت ہوتے ہیں اورعدم برداشت کا رویہ جڑ پکڑتا‬
‫ہےە اور اس کے بعد ادب میں مزاحمتی رویوں کا فمدان ہونے لگتا ہےە اگر ادب کا راستہ سماج سے جدا‬
‫ہوکر محض عمیدت اور ذہنی عیاشی کی جانب نکل جائے تو یہ اپنے اظہار کے پست ترین درجے پر چال‬
‫جاتا ہے اور ایسی صورت میں ا دب میں مزاحمتی لہجہ شاذ و نادر ہی دکھتاہےە ستائیش کے معنی وصؾ‬
‫و خوبی اور تعریؾ و توصیؾ کے ہیںە یوں تو یہ لفظ ستائیش مستمل ایک موضوع یا مضمون کااحاطہ‬
‫کرتا ہے اور جب یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو وہ تمام خزائن اور ذخائر مراد ہوتے ہیں جو حاکم ولت‬
‫کے فضائل و منالب‪،‬اخالق و کردار‪،‬تعریؾ و توصیؾ اور مدح و تعریؾ پر مشتمل ہوتے ہیںە یعنی‬
‫ستائیش کسی شَے کی خوبی یا وصؾ کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ اس میں مبالؽہ سے کام لیا جائے‬
‫ذرہ بھر شائبہ نہ ہوەستائیش کا موضوع ادب کی کسی ایک صنؾ سے مخصوص نہیں ہےەاس‬
‫اورلبح کا ّ‬
‫میں لصائد ‪ ،‬منظوم والعات ِ ‪ ،‬ؼزلیں ‪ ،‬رباعیاں اور مثنویاں سبھی ہیئتیں شامل ہیںە‬

‫اس دور کے اکثر شعرااور ادیب خون آشام حاالت کے بارے میں آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنے ارد‬
‫گرد کے روح فرسا حاالت سے بے اعتنائی کرتے ہیںەایسی صورتحال میں ان ادیبوں سے عوامی‬
‫احساسات کی ترجمانی یا مزاحمت کی امید رکھنا بے معنی ہےە ستائیشی دور کا آؼاز تخلیمی ادب اور‬
‫مزاحمتی روئیوں کے لئے مہلک ترین ثابت ہو تا ہے ەبدلسمتی سے مزاحمتی تخلیمی صالحیتوں کے اظہار‬
‫‪-‬کے لئے اب پلیٹ فارمز بھی محدود ہو گئے ہیں‬
‫نائن الیون کے بعد افغانستان میں مزاحمتی شاعری‬
‫عمر آفریدیبی بی سی اردو سروس‪ ،‬لندن‬

‫ب ثور کے بعد ایسی خانہ جنگی شروع ہوئی جس کے شعلے اب بھی لپک رہے ہیںە اس‬ ‫افؽانستان میں ‪ 1212‬کے انمال ِ‬
‫کا اثر افؽان شاعری پر بھی ہواە خاص طور پر نائن الیون کے بعد امریکی یلؽار اور طالبان حکومت کے خاتمے کے‬
‫بعد پشتو میں مزاحمتی شاعری کو بہت زیادہ پذیرائی ملیە‬

‫ابتال کے اس دور میں شعرا کے ایک بڑے طبمے نے لب و رخسار اور گل و بلبل کے بجائے ملک میں سیاسی اور‬
‫جنگی دنگل سے برا ِہ راست متاثر ہونے والے نِہتّے عوام کے مسائل کو اپنا موضوع بنایاە‬

‫اس طرح پشتو ادب میں ایک لمبے عرصے بعد مزاحمتی شاعری کو پھر سے فروغ اور عوامی پذیرائی ملیە‬

‫اس مزاحمتی روایت کے علمبردار اور معروؾ افؽان شاعر مطیع ہللا تراب کا کہنا ہے کہ وہ کسی پر تنمید نہیں کرنا‬
‫چاہتےە مگر ان کے خیال میں جنگ و جدل کے دور میں رومان اور رومانوی شاعری کوئی معنی نہیں رکھتیە‬

‫رومان تو اس ولت لکھا جاتا ہے جب امن ہوە جب روٹی‪ ،‬کپڑا اور مکان کی فکر نہ ہوە جنگ و جدل نہ ہوە میرے خیال ’‬
‫‘میں شعر وہ ہے جس میں کسی بے کس اور مجبور کے احساسات کو زبان ملےە‬

‫برسرپیکار لوتوں پر طنز کے تیروں کی بوچھاڑ لیے ان کی ایک نظم کا بند ہے‬
‫ِ‬ ‫‪:‬افؽانستان میں‬

‫وہ ہماری بما کے لیے اپنا خون نہیں بہا رہے’‬

‫ہماری بہبود و فالح کے لیے خون نہیں بہا رہے‬

‫وہ اپنے مماصد‪ ،‬حکمت عملیاں اور اہداؾ رکھتے ہیں‬

‫ان کی سیاستیں دو رخی اور چار رخی ہیںە‬

‫وہ اپنے تربیت یافتہ ایجنٹ اور ایجنسیاں رکھتے ہیں‬

‫‘وہ تو اپنے اہداؾ کے حصول کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں‬

‫افؽانستان میں عصری مزاحمتی شاعری کے باب میں عزت ہللا ځواب‪ ،‬سمیع ہللا تړون‪ ،‬پرھیز شگیوال‪ ،‬زاہدہللا ظاہر اور‬
‫تحسین ہللا تحسین کے نام بھی نمایاں ہیںە جبکہ نوجوان خواتین شاعرات میں نبیلہ وفا‪ ،‬ہماسہ اور شفیمہ خپلواک شامل‬
‫ہیں مگر ان کی شاعری مزاحمتی سے زیادہ ِملّی ہےە‬

‫‪:‬نبیلہ وفا کے کالم کا ایک نمونہ‬

‫میں ملت کے ؼم میں سلگ رہی ہوں’‬

‫میرے ہم وطن ؼفلت کی نیند سونا سیکھ چکے ہیں‬

‫میرے بابا نے کہا تھا کہ وہ لوم ِمٹ جاتی ہے‬

‫ؼفلت کی نیند جس کا شعار ہو‬

‫میں نہیں چاہتی کہ میری لوم مٹ جائے‬


‫‘اور میرے بابا کی بات سچ ہوجائے‬

‫‪:‬شفیمہ خپلواک افؽان پرچم کے سیاہ‪ ،‬سرخ اور سبز رنگوں پر تنمید کرنے والوں کے جواب میں کہتی ہیں‬

‫میرا پرچم تو رنگوں سے سجا ہوا ہے’‬

‫ارے‪ ،‬تم اس سیاہ رنگ کو وحشت کا رنگ کہتے ہو‬

‫مجھے تو یہ سیاہ رات کا سا سکون بخشتا ہے‬

‫یہ تو اُن اندھیروں جیسا ہے جن میں‬

‫میری چراغ کی سی آنکھیں روشنی التی ہیں‬

‫‘جن میں میرا دل دھڑکتا ہے اور میرا انگ انگ پناہ لیتا ہے‬

‫ان شعرا نے نئی تشبیہوں‪ ،‬استعاروں اور تراکیب کا بھی خوب استعمال کیا ہےە مثالً عزت ہللا ځواب نے اِنھیں یوں برتا‬
‫ہےە‬

‫ٹررسٹ کے طور پر بدنام ہے’‬


‫آج پختون ِ ّ‬

‫وہ بدبخت ہے جو اس لوم کا ہے‬

‫آج اس میں شرم محسوس نہیں ہوتی‬

‫کہ ہر ادارے میں رشوت عام ہے‬

‫اور جو اس نظام کا مخالؾ ہے‬

‫‘اس کا ممام گوانتانامو یا بگرام ہے‬

‫ٰ‬
‫مصطفی سالک کے مطابك پشتو ادب میں موجودہ‬ ‫مگر کابل میں بی بی سی پشتو کے نامہ نگار‪ ،‬شاعر اور نماد‬
‫مزاحمتی شاعری کوئی نئی بات نہیںە‬

‫تمریبا ً چار سو سال پہلے خوشحال خٹک نے مؽلوں کی مزاحمت کی تو اس کی جھلک ان کی شاعری میں بھی نظر ’‬
‫آئیە افؽانستان میں انمالب ثور کے بعد سلیمان الئك اور پختونخواہ میں اجمل خٹک نے خان اور جاگیردار کو تنمید کا‬
‫نشانہ بنایاە آج کی مزاحمتی شاعری کو عوامی لبولیت تو حاصل ہے مگر اس میں فیض اور ساحر لدھیانوی والی بات‬
‫‘نہیںە‬

‫فیض اور ساحر یا اجمل اور الئك جیسا آہنگ نہ سہی مگر مطیع ہللا تراب کہتے ہیں کہ وہ تو کسی گروہ یا نظام کے‬
‫حامی نہیں‪ ،‬بلکہ عوامی احساسات کے ترجمان ہیںە‬

‫میں سرکاری اہلکار ہوں‪ ،‬نہ طالبان کا ترجمان اور نہ ہی ؼیرملکی افواج کا وظیفہ خوارە جو عوام کا مجرم ہوگا‪ ،‬میری ’‬
‫‘انگلی اس کی طرؾ اٹھے گیە‬

‫ٰ‬
‫مصطفی سالک عوامی پذیزائی کو شاعری کا معیار نہیں گردانتےە ان کے بمول یہ جذبات سیاسی حاالت کے تابع ہوتے‬
‫ہیں جن کی عمر لمبی نہیں ہوتیە‬
‫سالک کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ حال‪ ،‬ماضی کا تابع نہیں ہوتاە مگر اکیسویں صدی کی اس افؽان مزاحمتی شاعری‬
‫کی ممبولیت میں انٹرنیٹ کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہےە اِن افؽان شعراء کا کالم سوشل میڈیا بشمول یوٹیوب پر وسیع پیمانے پر‬
‫دستیاب اور شیئر ہواە ہر کلپ کے سننے اور دیکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہےە ممکن ہے کہ انٹرنیٹ کے فیض‬
‫اس بار افؽان مزاحتمی شاعری اتنی جلد فراموش نہ ہو پائےە‬
‫مسئلہ فلسطینی اور مزاحمتی ادة کب پس منظر‬
‫)‪(Ghazi Abdul Rehman Qasmi, Multan‬‬

You might also like