Professional Documents
Culture Documents
100 Sentences For 100 Percent Success
100 Sentences For 100 Percent Success
دلچسپ معلومات
سوال :2انسان کے کون سے اعضاء ہیں جو مرنے کے بعد بھی کچھ عرصے تک زندہ رہتے ہیں؟
جواب :ناخن اور بال
سوال :9مینڈک ایک سال میں کتنا عرصہ سوتا ہے اور کتنا عرصہ جاگتا ہے؟
جواب :چھ مہینے سوتا ہے اور چھ مہینے جاگتا یے
سوال :12ایک منٹ کے اندر انسانی جسم کے کتنے سیلز مر جاتے ہیں؟
جواب :تین سو ملین سیلز
یوٹیوب کے ذریعے خاطر خواہ کمائی کتنی آسان ہے؟ اگر آپ کے پاس نوکری نہیں ہے تو فکر کی کوئی بات نہیں ،آپ یو ٹیوب کے ذریعے
خوب کمائی کرسکتے ہیں۔ ایک ایسی نوکری کے بارے میں سوچیں،جہاں آپ ایک بینک مینیجر سے زیادہ رقم کما اور بچا سکتے ہیں ،جس
کے ذریعے شہر کے کسی پوش عالقے میں جائیداد بھی خرید سکتے ہیں ،یہ سب حقیقت بھی ہوسکتا ہے۔ معاشی صورتحال خراب ہونے کے
بعد مالیاتی اداروں سمیت میڈیا ہاؤسز ،نجی اداروں اور نجی کمپنیوں میں نوکریاں ختم ہورہی ہیں اور معاشی نمو بھی غیر تسلی بخش ہے ،تاہم
اس تمام تر صورتحال کے باوجود ایسے مواقع موجود ہیں جہاں آپ اچھی خاصی رقم کماسکتے ہیں ،جی ہاں ،ہم یوٹیوب کے ذریعے رقم
کمانے کی بات کررہے ہیں۔ پاکستان میں کامیاب اور مشہور یوٹیوبرز تقریبا ً ڈھائی ہزار ڈالر ماہانہ کما رہے ہیں جو کہ آج کے کرنسی ریٹ
کے مطابق 4الکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد نے بیش قیمت گاڑیاں اور جائیدادیں خرید لی ہیں اور یہ سب یوٹیوب چینلز
کے ذریعے ہونے والی کمائی سے ممکن ہوا ہے ،البتہ یہ سب راتوں رات ممکن نہیں ہوا ،کسی کو 3سال لگے اور کچھ کو مزید کئی سال۔ یو
ٹیوب کے ذریعے کس طرح پیسہ کمایا جاسکتا ہے اس پر سماء منی نے چھوٹی سی تحقیق کی ہے۔ کام کیسے شروع کیا جائے؟ یوٹیوب پر کام
کے آغاز کیلئے آپ کو کچھ بنیادی سامان درکار ہوگا جن میں اسمارٹ فون ،مائیک ،ہینڈز فری اور ٹرائی پورڈ الزمی ہیں۔ یوٹیوب چینل بغیر
کسی معاوضے کے بن جاتا ہے ،آپ کو اپنے جی میل اکاؤنٹ سے الگ ان کریں اور کمرشل چینل بنالیں۔ جب آپ نے یہ کام کرلیا تو آپ اپنے
یوٹیوب چینل کے مواد کو تیار کرکے صارفین کیلئے اپ لوڈ کرسکتے ہیں۔ آپ کی آمدنی کب شروع ہوگی؟ یوٹیوب پر آمدنی کا آغاز اس وقت
شروع ہوتا ہے جب آپ کے چینل کے سبسکرائبر کی تعداد ایک ہزار اور آپ کی ویڈیوز 4000گھنٹے دیکھی جاچکی ہوں ،جب آپ یہ سنگ
میل عبور کرلیں گے تو آپ کو یوٹیوب پارٹنر پروگرام (وائی پی پی) کیلئے درخواست دینا ہوگی تاکہ آپ کا چینل مونیٹائزڈ (رقم کے حصوصل
کا اہل) ہوجائے۔ اگر آپ نے یوٹیوب کی کسی کمیونٹی گائیڈ الئنز کی خالف ورزی نہیں کی تو آپ کی درخواست منظور کرلی جاتی ہے اور
آپ کو 2ہفتے کے اندر تصدیقی کوڈ (ویری فکیشن کوڈ) موصول ہوجاتا ہے۔ چینل کی منظوری اور تصدیق کے بعد آپ کے اکاؤنٹ میں ڈالرز
آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنے چینل کو کس طرح بڑھائیں؟ مونیٹائزیشن کی منظوری کے بعد آپ کے چینل کو بڑھانے کیلئے جو ضروری چیز
سبسکرائبرز اور ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہے ،یہ مرحلہ آپ کے صبر اور مستقل مزاجی کا متقاضی ہے ،ابتداء میں آپ اپنے ذاتی سماجی
دائرے سے رابطہ کریں ،اپنے دوستوں ،رشتہ داروں ،کالس فیلوز اور دیگر ساتھیوں سے چینل سبسکرائب اور اپنے دوستوں می شیئر کرنے
کا کہیں ،یہ شروع میں آپ کے چینل کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کیلئے آپ دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک،
ٹویٹر اور انسٹاگرام کا بھی استعمال کرسکتے ہیں ،اپنی یوٹیوب ویڈیوز کو ان سائٹس پر ری شیئر کریں۔ اپنے ناظرین کے ساتھ رابطوں کو
مضبوط کریں ،ان کے سواالت کا جواب دیں ،یہ عمل آپ کے چینل کے مستحکم ناظرین کی بنیاد رکھے گا۔ آپ کتنا کماسکتے ہیں؟ اس کا دار
و مدار آپ کے ناظرین پر ہے ،یو ٹیوب آپ کو سی پی ایم (کلک پر مائل) کی بنیاد پر ادائیگی کرتا ہے ،جس کے نرخ ایک ہزار کلکس یا ویوز
کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ سی پی ایم کے نرخ خطوں کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ،آسٹریلیا کیلئے سی پی ایم کی قیمت 7ڈالر ،امریکا
کیلئے 4ڈالر جبکہ پاکستان کیلئے 0.02ڈالر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یوٹیوب سے کمائی کیلئے آپ کو اپنے ناظرین کو جاننا ضروری ہے،
پاکستان سے 5الکھ ویوز آپ کو 10ہزار روپے دیتے ہیں ،یقینا ً اس کا محنت سے تقابل نہیں ،لیکن تصور کریں کہ اگر اس کا ایک فیصد یعنی
5000ویوز سب سے زیادہ سی پی ایم ریٹ والے ملک آسٹریلیا سے ہوں تو آپ اسی ویڈیو سے 35ہزار روپے تک کماسکتے ہیں۔ اگر آپ
وسطی) کو ذہن میں رکھیں ،ایک بڑے ہدف کے طور ٰ مزید پیسہ کمانا چاہتے ہیں تو بین االقوامی ناظرین (آسٹریلیا ،امریکا ،یورپ اور مشرق
پر آپ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں اور بھارتیوں پر توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں مالزمت کے زیادہ مواقع نہ ہونے کے بعد
یہ کمائی آپ کی بہترین دوست ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ،ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق ہر سال 5الکھ نوجوان گریجویشن کرتے ہیں،
لیکن ان میں سے صرف 10فیصد ( 50ہزار) ہی مالزمت حاصل کرپاتے ہیں ،اگر ہم ان پڑھ نوجوانوں کو بھی مدنظر رکھتے ہیں جو ہر سال
مالزمت کے بازار میں داخل ہوتے ہیں تو یہ تعداد ساالنہ 2الکھ تک بڑھ جاتی ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں نوجوانوں اور یونیورسٹیز
سے فارغ التحصیل افراد کیلئے کیریئر کے قابل عمل آپشنز میں سے یوٹیوب سب سے نمایاں ہے۔ چینل کی نمو کیلئے مواد کلیدی اہم رکھتا ہے
کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے کہ مصداق تمام کامیاب یوٹیوبرز نے اپنا مقام حاصل کرنے کیلئے سخت محنت کی ہے۔ یوٹیوب عالمی اور
.انتہائی مسابقتی میدان ہے ،آپ کا مواد (ٹیکسٹ اور ویڈیو) ہی آپ کی کامیابی کا کلیدی کردار ہے ،ہمیشہ معیاری اور منفرد مواد تخلیق کریں
رابعہ بصری اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں ،اسی لیے آپ کا نام رابعہ یعنی ”چوتھی“ رکھاگیا۔ وہ ایک انتہائی غریب لیکن معزز گھرانے میں
پیدا ہوئیں۔ رابعہ بصری کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جس شب رابعہ بصری پیدا ہوئیں،آپ کے والدین کے پاس
دیا جالنے کے لیے تیل تھا اور نہ آپ کو لپیٹنے کے لیے کوئی کپڑا۔ آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے درخواست کی کہ پڑوسیوں سے تھوڑا
ق حقیقی کے عالوہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیالیا تھا ،چنانچہ وہ تیل ہی لے آئیں تاکہ دیا جالیا جا سکے۔ آپ کے والد نے پوری زندگی اپنے خال ِ
پڑوسی کے دروازے تک تو گئے لیکن خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔ رات کو رابعہ بصری کے والد کو خواب میں حضور پاک صلی ہللا علیہ و آلہ
وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے رابعہ کے والد کو بشارت دی کہ ”تمہاری نومولود بیٹی ،خدا کی برگزیدہ بندی بنے گی
(امیر بصرہ) ہر روز رات کو سو ِ امیر بصرہ کے پاس جاؤ اور اسے ہمارا پیغام دو کہ تم
اور مسلمانوں کو صحیح راہ پر لے کر آئے گی۔ تم ِ
( )100مرتبہ اورجمعرات کو چار سو ( )400مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو ،لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درودشریف نہ پڑھا ،لہٰ ذا اس کے
امیر بصرہ کے پاس
کفارہ کے طورپر چارسو ( )400دینار بطور کفارہ یہ پیغام پہنچانے والے کو دے دو۔[ ]4رابعہ بصری کے والد اٹھے اور ِ
امیر بصرہ کو رابعہ بصری کے والد کے ذریعے حضورپاک صلی ہللا پہنچے۔ اس دوران آپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری تھے۔ جب ِ
علیہ و آلہ وسلم کاپیغام مال تو یہ جان کر انتہائی خوش ہوا کہ وہ نبی آخرالزماں صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں ہے۔ اس نے شکرانے
کے طورپر فورا ً ایک ہزار ( )1,000دینارغرباء میں تقسیم کرائے اور چارسو ( )400دینار رابعہ بصری کے والد کو ادا کیے اور ان سے
درخواست کی کہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بالجھجھک تشریف الئیں۔ کچھ عرصے بعد رابعہ بصری کے والد انتقال کر گئے۔ اس اثناء
میں بصرہ کو سخت قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ قحط کے دوران آپ (رابعہ بصری) اپنی بہنوں سے بچھڑگئیں۔ ایک بار رابعہ بصری ایک
قافلے میں جا رہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے
مال کی طرح بازارمیں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔ آپ کا آقا آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتاتھا۔ اس کے باوجود آپ دن بھر میں کام
کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں۔ اتفاقا ً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات کو جاگ گیا اور
کسی کی گریہ و زاری کی آوازسن کر دیکھنے چال کہ رات کے اس پہر کون اس طرح گریہ و زاری کر رہا ہے! وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ
ر ابعہ بصری ہللا کے حضورسربسجود ہیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں ”اے ہللا! تو میری مجبوریوں سے خوب واقف ہے۔ گھر کا
کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے اپنی عبادت کے لیے پکارتا ہے مگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں،
نمازوں کا وقت گز ر جاتا ہے۔ اس لیے میری معذرت قبول فرما لے اورمیرے گناہوں کو معاف کر دے۔“ اپنی کنیزکا یہ کالم اور عبادت کا یہ
منظر دیکھ کر رابعہ بصری کا مالک خوفِ خدا سے لرز گیا۔ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسی ہللا والی کنیزسے اپنی خدمت کرانے کی بجائے بہتر
یہ ہوگا کہ خود اس کی خدمت کی جائے۔ صبح ہوتے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا۔ اس نے کہا کہ آج
سے آپ میری طرف سے آزاد ہیں۔ اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تو میری خوش نصیبی ہوگی وگرنہ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں ،تاہم اگرآپ
یہاں سے کوچ کر جانے کا فیصلہ کرتی ہیں تو میری بس ایک درخواست ہے .کہ میری طرف سے کی جانے والی تمام زیادتیوں کو اس ذات کے
صدقے معاف کر دیں ،جس کی آپ راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرتی ہیں۔ (#معاویہ_______بھائی)
جیسے انسان اپنے مقدمات کے فیصلوں کے لیے عدالت کے محتاج ہیں ،ایسے
ہی کمپنی کے بعض معامالت اور مقدمات بھی ایسے ہوتے ہیں جن کا حل ال
محالہ عدالت کے پاس ہی ہوتا ہے۔ پاکستان میں تین طرح کی عدالتیں کام کر رہی
ہیں:
1سول کورٹ ()Civil Court
2ہائی کورٹ ()High Court
3سپریم کورٹ ()Supreme Court
’’سول کورٹ‘‘ عالقائی سطح پر،جبکہ ہائی کورٹ صوبائی سطح پر کام کرتے
ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کے پانچ ہائی کورٹ ہیں۔ اگر کوئی ہائی کورٹ کے
فیصلے سے مطمئن نہ ہو تو پھر وہ سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔ کمپنی
کے وہ مقدمات جن کا تعلق کمپنی کے ممبرز ،ڈائریکٹرز ،شیئرز ،آڈٹ اور
میٹنگ سے ہوتا ہے،ان کی سماعت ہائی کورٹ میں ہوتی ہے۔ کسی بھی کمپنی
کے مقدمات اسی صوبے کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہوں گے جہاں اس
کمپنی کا رجسٹرڈ آفس ہوتا ہے۔ اگر رجسٹرڈ آفس کراچی میں ہے تو کمپنی کے
مقدمات سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوں گے۔ پاکستان میں چھ چیف جسٹس ہیں۔
پانچ ہائی کورٹس کے اور چھٹا سپریم کورٹ کا۔ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس
کمپنی کے مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیتا ہے ،جسے ’’کمپنی الء
بینچ‘‘ کہتے ہیں۔ یہی بینچ پھر کمپنی کے مقدمات کو دیکھتا ہے۔ کیس داخل
ہونے کے نوے دن کے اندر اندر کمپنی الء کے کیس کو Dispose ofکرنا اس
بینچ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نوے دن سے زیادہ کیس کو Delayنہیں کیا جا
سکتا۔ ایک پیشی سے دوسری پیشی کے درمیانی وقفے کو قانون کی زبان
میں Adjournmentکہتے ہیں۔ اور یہ Adjournmentبیک وقت چودہ دن تک
دی جا سکتا ہے ،اس سے زیادہ کی Adjournmentممکن نہیں ہے۔ ایک کیس
کے اندر سے زیادہ سے زیادہ Adjournmentتین دن تک ہو سکتی ہے جو کہ
subsequentlyیعنی وقفے سے ہو گی ،بیک وقت نہیں ہو سکتی۔
کمپنی کے الء بینچ کے لیے ضروری کہ وہ کمپنی الء کیس کو نوے دن کے
اندر اندر Dispose ofکرے۔ لیکن اگر مذکورہ بینچ نوے دن کے اندر اندر ایسا
نہیں کرتا تو اس کو اس مقدمے کے طویل کرنے کی ٹھوس وجہ آن دی ریکارڈ
بتانا پڑے گی کہ اس وجہ سے کیس نوے دن کے اندر ’’ڈسپوز آف‘‘ نہیں ہو
سکتا ۔جب وجہ معقول ہے تو پھر جج فیصلے کو موخر کر سکتا ہے لیکن اس
کو یہ بات ریکارڈ بھی کرنا پڑے گی۔
کمپنی الء کیس ویسے تو ہائی کورٹس میں پیش ہوتے ہیں لیکن اگر وفاقی
حکومت اپنے آفیشل گزٹ (گورنمنٹ کا اخبار) میں یہ نوٹیفکیشن دے کہ اب
Civilکورٹ کو بھی کمپنی الء کیس کو سننے کی اجازت ہے تو اس وقت سول
کورٹ بھی کمپنی کے مقدمات کی سماعت کا اہل ہو جاتا ہے۔ وفاقی گورنمنٹ
کے پاس اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ ہائی کورٹس کے کلی اختیارات سول
کورٹس کو دے یا محدود اختیار دے۔ یعنی کوئی Restrictionلگا دے کہ اتنے
Paid up Capitalکی کمپنی کا کیس سول کورٹ میں پیش ہو گا اور اس سے
زیادہ کا ہائی کورٹ میں پیش ہو گا۔ جب حکومت نے سول کورٹ کو کمپنی الء
کیس کا اختیار دے دیا تو اب اس کے پاس وہی اختیارات ہوں گے جو ہائی
کورٹس کے پاس ہوتے ہیں ،جیسے ہائی کورٹ میں پیش ہونے والے مقدمات کی
اپیل سپریم کورٹ میں ہوتی ہے ایسے ہی پھر سول کورٹ میں پیش مقدمات کی
اپیل بھی سپریم کورٹ میں ہو گی۔
کمپنی الء کی سماعت کمپنی الء بینچ کرتا ہے۔ اس سے متعلق تمام مقدمات یہیں
پیش ہوں گے۔ بعض اوقات کمپنیاں فراڈ کر کے بھاگ جاتی ہیں اور اپنا رجسٹرڈ
آفس تبدیل کر لیتی ہیں تو اب ان کی Winding upکا کیس اس صوبے کے ہائی
کورٹ میں چلے گا جہاں کمپنی نے آخری چھ ماہ سے زیادہ وقت گزرا ہے۔ اگر
زیادہ وقت اس صوبے میں گزرا جہاں سے فراڈ کر کے آئے ہیں تو وہاں ہی اس
کے ہائی کورٹ میں ان کا مقدمہ پیش ہو گا۔