You are on page 1of 4

‫بچے سیکھنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟‬

‫بعض بچے سست‪ ،‬کند ذہن‪ ،‬موٹی عقل واال‪ ،‬ڈھیال‪ ،‬بیوقوف کیوں کہالتے ہیں؟ اسباب کیا‬
‫ہیں اور عالج کیسے ہوسکتاہے؟‬
‫ایک مدت تک بچوں میں پڑھنے کی کمزوری کاعالج ایک ہی ڈنڈے سے کیاگیا‪ ،‬ان پر‬
‫لیبل لگایاگیا کہ یہ پڑھنے کے قابل نہیں ہیں لیکن پھر ریسرچ نے ثابت کیاکہ اگر کوئی‬
‫بچہ ہجے کرنے میں اٹکتا ہے تو ضروری نہیں کہ لفظوں کو سمجھنے میں بھی اسے‬
‫مشکل پیش ٓاتی ہو۔ اگر کسی کو لفظوں کی ادائیگی میں مشکل پیش ٓاتی ہے تو ہوسکتاہے‬
‫کہ اسے ان لفظوں کو لکھنا ٓاسان ہو۔ ’ریڈنگ ڈ س ایبلٹی‘ سے کہیں زیادہ مشکل کا سامنا’‬
‫لرننگ ڈس ایبلٹی‘ کے حامل بچوں کوکرنا پڑتا ہے۔‬
‫لرننگ ڈس ایبلٹی کے مفہوم میں بہت وسعت ہے‪ ،‬اگرچہ اکثر یہ دونوں ڈس ایبلیٹیزاکٹھی‬
‫ہوجاتی ہیں پھر بھی ان کا الگ الگ تجزیہ ضروری ہے۔ اس موضوع پر بہت تحقیق کی‬
‫گئی ہے‪ ،‬وہ بچے جو بچپن میں ’ڈس لیکسک‘ کے طور پر تشخیص ہوئے جب انہوں نے‬
‫اعلی تعلیم حاصل کرلی تو پھر بھی ان کا دماغ ٹیسٹ کرنے پر ایک‬ ‫ٰ‬ ‫مشکالت پر قابو پا کر‬
‫نارمل دماغ سے مختلف نظر ٓایا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ دماغ کی بناوٹ کو نہیں بدال جا‬
‫سکتا‪ ،‬صرف سیکھنے اور سکھانے کے طریقے بدلنے کی ضرورت ہے۔’ریڈنگ ڈس‬
‫ایبلٹی‘ یا پڑھنے میں مشکل پیش ٓانا ’ڈس لیکسیا‘ کہالتا ہے۔‬
‫اسکے حامل بچوںکے دماغ کی بناوٹ میں فرق ہوتاہے‪ٓ ،‬اسان لفظوں میں دماغ کی وا‬
‫ئرنگ میں ہوتاہے۔ مثال کے طور پر جب ٹی وی کے اینٹینا میں سگنلز کا مسئلہ ہو اور دو‬
‫تین چینل ٓاپس میں مکس اپ ہو جائیں یا ٓاواز اور تصویر کے اوپر الئنیں اس طرح ٓائیں کہ‬
‫کچھ سمجھنا مشکل ہو۔ ڈسلیکس بچہ ہر وقت اس( نہ سمجھ میں ٓانے والی) مشکل میں ہوتا‬
‫ہے اور ارد گرد کے لوگ اس کی مشکل کو مختلف نام (سست‪ ،‬کند ذہن‪ ،‬موٹی عقل واال‪،‬‬
‫ڈھیال‪ ،‬بیوقوف) دے کر اس مشکل کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈسپریکسک‬
‫بچے کو ایک عام سا لکھاہوا جملہ دھندال نظرٓاسکتاہے یا وہ دوہرا نظرٓاتاہے یاپھر‬
‫الٹانظرٓانے لگتاہے‪ ،‬وہ پڑھتے ہوئے کوئی لفظ چھوڑبھی سکتاہے مثالً ’’ہم جوتا لینے‬
‫بازار گئے‘‘ کو وہ پڑھ سکتاہے‪ ’’:‬گئے بازار خریدنے ہم تاجو ‘‘‪ ،‬وہ الفاظ میں تبدیلی‬
‫بھی کرسکتاہے‪’’:‬ہم چپل لینے دکان پرگئے ‘‘۔‬
‫ڈسلیکسیا کی مختلف اقسام میں چند درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫٭ڈسکیلکولیا( ‪ :)Dyscalculia‬بچوں کو ریاضی کے نمبر پڑھنے اور سمجھنے میں‬
‫مشکل پیش ٓاتی ہے مثالً ‪ 17‬اور ‪ 71‬میں فرق نہ کر سکنا۔ ‪ 031‬کو ‪ 301‬پڑھ جانا۔ اس کے‬
‫عالوہ ‪+‬کو * لکھ دینا‪ ،‬سادہ جمع اور منفی نہ کر سکنا۔ دیر تک نمبر ‪7‬اور ‪ 9‬کو الٹا لکھنا۔‬
‫٭ڈس گرافیا( ‪ :) Dysgraphia‬ڈس گرافیا میں بچہ اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت گندا‪،‬‬
‫ٓاہستہ اور غلط لکھتا ہے۔ اگر ایک دن بہت زیادہ پریکٹس کے بعد وہ چند لفظ صحیح لکھ‬
‫لے تو ضروری نہیں کہ اس کی دماغی وائرنگ اسے اگلے د ن ’ج‘ کو ’خ‘ اور ’‪ ‘9‬کو ’‬
‫‪ ‘6‬یا ’بی‘ کو ’ڈی‘ نہ دکھائے۔ اکثر ڈس گرافیا بچوں کو پنسل پکڑنے میں ‪،‬الئن لگانے‪،‬‬
‫قینچی سے کاٹنے میں اور سیدھا یا کاغذکی صحیح سمت لکھنے میں مشکل پیش ٓا تی ہے۔‬
‫ڈسپریکسیا(‪ :) Dyspraxia‬یعنی ذہنی اور جسمانی حرکات میں ہم ٓاہنگی نہ ہونا۔ بچوں کی‬
‫بڑی تعداد جو ڈسلیکسیا کا شکار ہوتی ہے‪ ،‬وہ اکثر ڈسپریکیا کا شکار بھی ہوتی ہے۔‬
‫ڈسپریکیا میں اکثر موٹر سکلز اتنی موثر نہیں ہوتیں۔ بارش کے بعد گلی میں جمع ہونے‬
‫والے پانی کو پھالنگنا‪ ،‬دو دو سیڑھیاں چڑھنا‪ٓ ،‬اپس میں اونچی چھالنگ لگانے کا مقابلہ‬
‫کرنا‪ ،‬گیند کو اونچا اچھال کر اپنی کیچ کرنے کی صالحیت کو ٓازمانا‪ ،‬یہ سب جسمانی‬
‫حرکات صحتمند بچوں کا روز کا معمول ہوتی ہیں مگر ڈسپریکسیا کا شکار بچے یہ سب‬
‫نہیں کرتے۔ اگر کرنے کا سوچتے ہیں تو اعصابی اور جسمانی ہم ٓاہنگی نہ ہونے کے‬
‫باعث وہ ایسا نہیںکر پاتے۔ فٹ بال کو کک لگانے سے لے کر بھا گنے دوڑنے اور پنسل‬
‫پکڑنے‪ ،‬الئن لگانے تک کے سارے کام ڈسپریکسک بچے کو عام بچوں کی نسبت مشکل‬
‫لگتے ہیں۔‬
‫فائن موٹر سکلز(باریکی کے ایسے کام جن میں جسمانی مدد درکار ھوتی ہے مثالً قینچی‬
‫سے کاٹنا‪ ،‬کاغذ پر سیدھی الئن لگانا‪ ،‬کاغذ یا کپڑے کو تہہ لگانا‪ ،‬پنسل کو صحیح گرفت‬
‫سے پکڑنا) اور گراس موٹر سکلز (موٹے موٹے کام جن میں ذہن کے ساتھ جسم کی‬
‫حرکت بھی ضروری ہو مثالً فٹ بال کو کک لگانا‪ ،‬رسی پھالنگنا )کے مسائل ڈسپریکسیا‬
‫میں شدید ہوکر سامنے ٓاتے ہیں۔ یہ سارے مسائل کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫بچپن تجربات سے بھر پور لیبارٹری کا نام ہے‪ ،‬صرف لکھنا پڑھنا سیکھنے کا نام نہیں‬
‫ہے بلکہ دو ستیاں لگانے‪ ،‬غلطیاں کرنے‪ ،‬ہم جماعت بچوں کے ساتھ کھیلنے‪ ،‬کھیل میں‬
‫ہار جیت کا مزہ لینے‪ ،‬شرار توں کی جرات‪ ™،‬سزا ملنے اور شاباش سننے کا نام ہے لیکن‬
‫لرننگ ڈس ایبلٹی کے حامل بچے اس سب کچھ سے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ ‪ 93‬فیصد‬
‫معلومات کو حاصل نہیں کرپاتے جو نہ صرف ان سرگرمیوں میں حصہ لینے میں معاون‬
‫ہوتی ہیں بلکہ روز مرہ زندگی کے لیے بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ‪93‬‬
‫فیصد میں اشاروں کو سمجھنا ‪ ،‬موقع محل کا اندازہ لگا کر عمل کرنا ‪ ،‬وقت سے ٓاگے‬
‫دیکھنے کی اور گزرے وقت سے سیکھنے کی صالحیت ہونا ‪ ،‬پیش ٓانے والی صورت‬
‫حال کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کی صالحیت™ پانا۔‬
‫ایمری یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ ایل ڈی(لرننگ ڈس ایبل)‬
‫بچوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ وہ بغیر لفظوں کی زبان سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ہم‬
‫لوگ صرف سات فیصد لفظ استعمال کرتے ہیں اور بہت سی باتیں ہمارے انداز اور رویے‬
‫سے دوسرے لوگ سمجھ لیتے ہیں۔ نفسیات کی زبان میں ایسے بچوں کو سماجی نفسیات‬
‫کے مسائل کا شکار بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬جن پر اگر بچپن میں توجہ نہ دی جائے تو وہ‬
‫شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں سات فیصد افراد)‬
‫تین عورتیں اور دو مرد( نفسیاتی طور پر سماجی اضطراب یعنی سوشل اینگزائٹی ڈس‬
‫ٓارڈر کا شکار ہیں۔ مثال ً دوسروں کے سامنے بول نہ سکنا‪ ،‬لکھ نہ سکنا‪ ،‬غیر منطقی‬
‫خوف پال لینا‪ ،‬اس خیال میں رہنا کہ میرے اندر کوئی کشش یا خوبی نہیں کہ میں کوئی کام‬
‫ڈھنگ سے انجام دے سکوں‪ ،‬وغیرہ وغیرہ‪ ،‬یہ سب مسائل بچپن کے حادثات واقعات باعث‬
‫پیدا ہوتے ہیں لیکن لرننگ ڈس ایبلٹی کے مسائل ان سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں۔‬

‫ماہرین بغیر لفظوں کی زبان کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں‪:‬‬


‫٭جسمانی حرکات و سکنات کے اشارے سے کوئی پیغام دینے کی کوشش کرنا (‬
‫‪ :)Kinesics‬مثال ً کندھے اچکانا‪ٓ ™،‬انکھ مارنا‪ ،‬خاص انداز میں مسکرانا۔ ہاتھ کے اشارے‬
‫سے کوئی پیغام دینے کی کوشش کرنا۔ نارمل افراد اکثر بغیر کوئی لفظ ادا کیے صرف‬
‫اشارے سے اپنا مطلب واضح کر دیتے ہیں۔ مثال ً اگر کوئی بار بار گھڑی دیکھے تو ہم‬
‫سمجھ جاتے ہیں کہ اس شخص کو کہیں پہنچنا ہے‪ ،‬پیٹ پر ہاتھ پھیر کر نارمل بچے بھوک‬
‫کا اظہار کر دیتے ہیں۔ ہم فون کرنے کا اشارہ انگلی اور انگوٹھے سے کر دیتے ہیں۔ دور‬
‫سے ویٹر کو بالنا ہو تو ہاتھ اوپر کرکے ہالیا جاتا ہے اور بل النے کا کہنا ہو تو ہاتھ سے‬
‫لکھنے کا اشارہ کرکے اسے متوجہ کیا جاتا ہے کہ ہم کھانا کھا چکے ہیں۔‬
‫٭فاصلے کا تعین کرنا(‪ :)Proxemics‬گھروں کے عالوہ سڑکوں‪ ،‬بسوں‪ ،‬جہازوں میں‬
‫بھی ہماری جگہ ہوتی ہے۔ سڑک پر ہمارے قدم اور بس میں ہماری سیٹ ہماری جگہ ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬منزل ٓانے تک وہ ہماری رہتی ہے۔ اس کے عالوہ ایک سماجی فاصلہ ہوتا ہے مثالً‬
‫لوگ ایک فاصلہ رکھ کر بات چیت کرتے ہیں۔ ایل ڈی بچے اس فاصلے کا تعین کرنے‬
‫سے قاصر ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے جو بچے فاصلوں کا تعین نہیں کر پاتے وہ زیادہ‬
‫تر اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں جنسی استحصال™ کا شکار ہوتے ہیں‪ ،‬وہ یہ اندازہ نہیں‬
‫کر پاتے کہ ان کے قریب ٓا کر چھونے واال شخص کس نیت سے انہیں چھو رہا ہے۔‬
‫٭ٓاواز کا اتار چڑھاو (‪ :)Vocalics‬لہجہ یا بولنے کا انداز پوری بات کا مفہوم بدل دیتا‬
‫ہے۔ مثالً ’’اچھا‘‘ اگر زور دے کر کہا جائے تو یہ ’’اچھا؟‘‘ ہوگا اور اگر کسی چیز کی‬
‫رضامندی ظاہرکرنے کے لئے ہوگا تو صرف نارمل انداز میں ’’اچھا‘‘ ہوگا۔اگر ٓاپ کو‬
‫کوئی حیران کن واقعہ سنا رہا ہو تو ٓاپ کہیں گے کہ ’’نہیں‘‘ اس نہیں کا مطلب ہوگا‬
‫’ناقابل یقین بات ہے‘ لیکن اگر کوئی ٓاپ کو چائے پینے کا پوچھے تو ٓاپ بڑے ٓارام سے‬
‫’نہیں‘ کہیں گے۔ ایل ڈی بچے ٓاواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلنے والے لفظوں کا مطلب‬
‫یا بات کے اندر چھپا طنز‪ ،‬سرد مہری اور گرم جوشی کو سمجھنے سے قاصرہوتے ہیں۔‬
‫٭ظاہری حلیے کا ادراک(‪:) Appearance consciousness‬‬
‫پوری دنیا میںہر شخص موقع محل‪ ،‬کام اور موسم کی نوعیت سے کپڑے پہنتا ہے۔مالزم‬
‫پیشہ افراد‪ ،‬کاروباری لوگ اور کھالڑی سب کے کپڑے ان کے کام کے مطابق ہوتے ہیں۔‬
‫ایل ڈی بچے اکثر موسم اور موقع کی مناسبت سے کپڑوں کا انتخاب نہیں کرسکتے۔‬
‫٭سماجی رابطے(‪:) Social contracts‬‬
‫دن میں کئی دفعہ ہمارے دوسرے لوگوں سے سماجی رابطے ہوتے ہیں‪ ،‬سودا سلف لیتے‬
‫ہوئے اپنی باری کا انتظار کرنا‪ ،‬گزرتے ہوئے دوسرے کو راستہ دینا‪ ،‬واقف کار کو دیکھ‬
‫کر سالم کرنا۔ بولنے میں دوسرے کی بات ختم ہونے کا انتظار کرنا۔ ایل ڈی بچے سماجی‬
‫رابطوں کا ادراک نہیں کر پاتے۔‬
‫٭تاثرات کا بدلنا یا قائم رکھنا(‪ :) Expression management‬وقت گزرنے کے ساتھ‬
‫دوسروں سے متعلق ہمارے اچھے اور برے تاثرات بدل جاتے ہیں‪ ،‬عام طور پر بچے‬
‫اپنے تاثرات نہیں بدل پاتے ۔ان صالحیتوں کے فقدان کی وجہ سے ایسے بچے پبلک میں‬
‫نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ان سماجی رویوں‬
‫میں کمی کی اقسام کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔‬
‫عالج‬
‫کیا ان امراض کا کو ئی عالج ہے؟ یہ والدین کی طرف سے کیا جانے واال سے بڑا سوال‬
‫ہے‪ ،‬اس کا جواب یہ ہے کہ دماغ کی وائرنگ تو نہیں بدلی جا سکتی لیکن بچوں کے ساتھ‬
‫تعاون سے ان کی زندگی کو کافی حد تک نارمل کیا جا سکتا ہے۔اس کے لیے سب سے‬
‫پہال مرحلہ تشخیص ہے جونہی والدین کو احساس ہو کہ ان کا بچہ اپنے ہم عمر بچوں سے‬
‫پیچھے یا مختلف ہے‪ ،‬فیملی ڈاکٹر کے مشورے سے نیورالوجی ٹیسٹ کروائیں۔‬
‫ہر بچے کا مسئلہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور نیورالوجسٹ اس کے حساب سے تھرا‬
‫پی تجویز کرتاہے‪ ،‬لیکن اگر ٓاپ تھرا پی نہیں کروا سکتے تو بچے کے استاد سے رابطہ‬
‫کریں۔ بچے کی کمزوریوں اور مثبت پوائنٹس پر تفصیلی گفتگو کریں۔‬
‫استاد سے گفتگو اور اپنے مشاہدے کے بعد والدین یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچے کو‬
‫گراس موٹر سکلز ( جسمانی حرکات‪ ،‬کھیل کود وغیرہ) اور فائن موٹر سکلز ( پنسل‬
‫پکڑنے‪ ،‬کاغذ کاٹنے الئن لگانے جیسے باریک کام) کہاں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔‬
‫گراس موٹر سکلز یعنی کھیل کود میں مسائل کے لئے بچے کو کھیلنے کا موقع فراہم‬
‫کریں۔ روزانہ نہیں تو ہفتے میں چند دفعہ اس کے ساتھ فٹ بال کھیلیں‪ ،‬کک لگوائیں‪،‬‬
‫توازن کی ورزش بے حد مٔوثر اور ٓاسان ہے۔ تین اینٹیں ایک طرف اور تین اینٹیں دوسری‬
‫طرف رکھ کر ان پر چند فٹ لمبی ایک فٹ چوڑی لکڑی رکھیں جس پر بچے کو چلنے‬
‫کی پریکٹس کروائیں۔ سائیکل ضرور چلوائیں۔ گھر کے نزد یکی پارک میں جتنی بھی‬
‫سالئڈز اور بارز ہوں ان پر چڑھنے میں اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ یاد رہے کہ ایک ہی‬
‫دن میں بہت ساری سرگرمیاں کروانا مناسب نہیں بلکہ تھوڑی مگر کثرت سے پریکٹس‬
‫بہت جلد بچے کی توازن کی صالحیتوں میں بہتری الئے گی۔‬
‫فائن موٹر سکلز کے لیے موٹی پنسل کا انتخاب کریں جسے پکڑنا ٓاسان ہو‪ ،‬اور سیدھی‬
‫الئن کی مشق کروائیں۔ پیپر کی دوہری تہری تہہ لگوائیں‪ ،‬شرٹ کے بٹن بند کروائیں‪،‬‬
‫تسمے باندھنے کی پریکٹس کروائیں‪ ،‬اور جتنے چھوٹے موٹے کام کروا سکتی ہیں‬
‫کروائیں۔ کپڑا تہہ لگوانا‪ ،‬دھاگہ لپیٹنا‪ ،‬پیچ کے کسنا وغیرہ وغیرہ۔‬
‫گھر میں مطالعے کا رواج قائم کریں۔ بچے کو روزانہ کوئی ایسی چیز پڑھنے کی ترغیب‬
‫دیں جو اسے پسند ہو‪ ،‬اس سے لفظ میں رنگ بھروائیں اور پلیڈو سے وہ لفظ بنوائیں جو‬
‫بچہ الٹے لکھتا ہے۔ اسے ترغیب دیں کہ وہ لکھتے وقت ان الفاظ کو با ٓاواز بلند دہرائے۔‬
‫یادرکھیںکہ یہ محنت تھکا دینے والی ہو گی لیکن ہمیشہ کے لیے بچے پر بند دروازے‬
‫کھول دے گی۔‬
‫محبت اور برداشت سیکھنے کے دروازے کھولتی ہے‪ ،‬سختی اور غصہ کھلے ہوئے‬
‫راستے بھی بند کر دیتا ہے۔‬
‫ایک طویل فہرست ان کامیاب اور نامور لوگوں کی ہے جنھوں نے لرننگ ڈس ایبلٹی پر‬
‫قابو پایا اور اپنے شعبوں میں نام کمایا۔‬

You might also like