You are on page 1of 7

‫‪Mirza Moazzam Baig‬‬

‫· ‪Just now‬‬
‫تھرومبوسائٹوسس۔‬
‫(خون میں پلیٹ لیٹس کا بڑھنا)‬
‫تعارف۔۔۔۔۔‬
‫خون میں پائے جانے والے پلیٹ لیٹس کو تھرومبوسائٹس بھی کہا جاتا ہے۔ خون میں ان کی نارمل تعداد ڈیڑھ الکھ سے ساڑھے چار الکھ‬
‫تک فی مائیکرو ملی لیٹر خون میں ہوتی ہے۔‬
‫اگر خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد نارمل مقدار سے بڑھ جائے تو اس کیفیت کو تھرومبوسائٹوسس کہا جاتا ہے۔ جبکہ پلیٹ لیٹس کی کمی‬
‫کو تھرومبوسائٹوپینیا کہا جاتا ہے۔‬
‫تھرومبوسائٹوسس کی اقسام۔‬
‫اس مرض کی اسباب کے لحاظ سے درج ذیل اقسام ہیں۔‬
‫اول۔۔۔ بون میرو کی خرابی سے ہونے والی سیکنڈری تھرومبو سائیتھیمیا۔‬
‫دوئم۔ ری ایکٹو تھرومبوسائیٹوسس۔ اس کا سبب عموما کوئی انفیکشن ہوتا ہے۔ نیز بون میرو کی خرابی بھی ہوسکتی ہے۔‬
‫اگر یہ بون میرو کی خرابی سے ہوتو اسے آٹونومس۔ پرائمری یا ‪ Essential‬تھرومبوسائٹوسس یا ایسینشیئل تھرومبو سیتھیمیا بھی کہا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫سوئم۔۔۔۔۔ فیمیلیل ایسینشیئل تھرومبوسی تھیمیا یہ وراثتی مرض ہے۔‬
‫اسباب مرض۔۔۔۔۔‬
‫طب یونانی میں اربعہ تھیوری کے مطابق یہ گرمی خشکی اور گرمی تری کا مرض ہے۔‬
‫بون میرو ھڈیوں کا گودا ہے جو ھڈیوں کے اندر ایک ‪ spongy‬ٹشو ہے۔ یہ سٹیم خلیات رکھتا ہے۔ سٹیم خلیات بعد میں ‪RBC. WBC‬‬
‫یا پلیٹ لیٹس بننے کی صالحیت رکھتے ہیں۔‬
‫پلیٹ لیٹس۔۔۔‬
‫یہ آپس میں جڑنے کی صالحیت رکھتے ہیں جس کےباعث یہ کسی بھی زخم سے اخراج خون کو بزریعہ انجماد روکتے ہیں۔‬
‫اگر مریض کو تھرومبوسائی ٹوسس بون میرو کی خرابی کے سبب ہوا ہے تو بون میرو پلیٹ لیٹس بنانے والے سٹیم سیلز‬
‫(میگاکریوسائٹس) کی پیدائش زیادہ کر رہا ہوتا ہے۔ اور ان خلیات کو خون میں زیادہ بھیج رہا ہوتا ہے۔‬
‫جبکہ ‪ Essential‬تھرومبوسائی تھیمیا میں خون کے انجماد اور خون میں تھکے بنے کا رجحان خطرناک حد تک پایا جاتا ہے۔‬
‫لہذا اگر ‪ CBC‬ٹیسٹ میں پلیٹ لیٹس کی تعداد نارمل سے زیادہ ہوتو ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیئے کہ مریض کو ای سینشیئل تھرومبوسائی‬
‫تھیمیا ہے یا ری ایکٹو تھرومبوسائٹوسس ہے۔‬
‫ری ایکٹو تھرومبوسائٹوسس کے اسباب و علل۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫جریان خون یا خون کی کمی۔‬
‫جلنا ‪BURNS‬‬
‫سرطان ‪CANCER‬‬
‫کورونری آرٹری بائی پاس۔‬
‫ہارٹ اٹیک۔‬
‫زائد مشقت یا ‪.Exercise‬‬
‫ھیموالئیٹک اینیمیا۔۔۔ یہ اینیمیا کی وہ قسم ہے جس میں امیون ڈس آرڈر کے باعث ‪ RBC‬پیدا ہونے کی نسبت زیادہ تیزی سے ڈیڈ ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫انفیکشن بشمول ‪TB‬‬
‫خون کی کمی۔‬
‫سوزش۔۔۔ بالخصوص رومائٹڈ آرتھرائٹس۔ ‪ CELIAC‬ڈزیز۔‬
‫کنکٹو ٹشوز ڈس آرڈر۔ یا ‪IBS‬‬
‫میجر سرجری۔‬
‫لبلبے کی سوزش۔‬
‫طحال کا نکال دینا۔‬
‫وٹامنز کی کمی۔‬
‫ایپی نیفرائین۔ ٹریٹی نائین۔ ون کرسٹائین سلفیٹ یا ہیپارن سوڈیئم جیسی ادویہ کے سائیڈ ایفیکٹس۔‬

‫‪9‬‬
‫ری ایکٹو تھرومبوسائی ٹوسس کی عالمات۔۔۔۔۔۔‬
‫سر درد۔‬
‫چکر آنا۔‬
‫سر گھومنا۔‬
‫سینے کا درد۔‬
‫کمزوری۔‬
‫بےھوشی۔‬
‫آنکھوں میں اندھیرا آنا۔‬
‫ہاتھ پاوں سن ہونا۔‬
‫طبی عالج۔۔۔۔‬
‫اسباب کو مدنظر رکھ کر ان کا تدارک کیا جاتا ہے۔ اگر فوالد کی کمی ہے تو شربت فوالد دیا جاتا ہے۔ اگر تلی بڑھی ہوئی ہے تو ملین‬
‫قشری اعصابی دیں۔ خون کی کمی پوری ہوجائے گی۔‬
‫اگر ھڈیوں کی سوزش سے بون میرو میں پلیٹ لیٹس زیادہ بن رہے ہیں یا لبلبے کی سوزش یا ٹی بی ہے تو ٹی‪ 5-‬بہترین عالج ہے۔ اگر‬
‫بلڈ کینسر تشخیص ہوجائے تو دھماسہ حسب عمر و برداشت مسلسل شروع کروادیں۔‬

‫اسالم علیکم ورحمة ہللا وبرکاة‬

‫‪[02/09 8:36 am] Hk Hf Habib Bharwana Jhang:‬‬


‫میں تمام اساتذہ وسینیر حکماء کی توجہ کا طالب ہوں ۔۔‬
‫حکیم احمد دین شاہدروی مرحوم نے ادویہ کے مزاج کو سامنے رکھ کر نسخہ سازی نہ کی ہے بلکہ دوائ کے تاثیر کو سامنے رکھ کر‬
‫نسخہ سازی کی ہے اور یہ بات بھی آپ کو یقینا عجیب لگے گی کہ وہ مزاج پر بالکل یقین نہ رکھتے تھے تاثیر کو ہی مانتے تھے ۔۔۔‬
‫تو کیا یہ ممکن ہے مزاج کو سایڈ پر رکھ کے صرف تاثیر پر دوای کے معیار کو پرکھا جاۓ اس پر انہوں نے کئ ایک دالیل بھی دیے‬
‫ہیں جو کہ یقینا دل کو لگتے ہیں اور ماننے پر مجبور کرتے ہیں کہ جو وہ کہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ جو انہوں‬
‫نے ایک نئ تحقیق پیش کی تھی جو آج کے ساینسی دور میں صحیح ثابت ہورہی ہے یا انکی تحقیق درست نہ تھی تمام سینیر حضرات‬
‫اس پر ضرور روشنی ڈالیں انشاء ہللا بہت سے علم کے دریچے کھلیں گے‬
‫ڈاکٹر سید رضوان شاہ‪ :‬کائنات میں ہر چیز کا مزاج ہوتا۔ جسے ایک معالج کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اطباء قدیم نے مزاج کی جانچ‬
‫کے جو پیمانے مقرر کیئے تھے ان کے مطابق درست مزاج کا جانکاری ایک مشکل اور غیر یقینی عمل تھا۔ اسی لیئے آپ کو مفردات‬
‫کی قدیم کتب میں اکثر ادویہ کے مزاج گرم خشک ہی لکھے ملتے ہیں۔ اسی طرح افعال االعضاء پہ مکمل تحقیق نہ ہونے کے سبب‬
‫امراض کے امزجہ بھی درست معلوم کرنا مشکل و ناممکن تھا۔‬
‫اس مشکل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ہی مرض کے درجات کو الگ الگ امراض کے نام دے دیئے گئے اور تجربات میں جو ادویہ‬
‫مفید ثابت ہوتیں ان کا مزاج جاننے کے بجائے ان کی بالخاصہ تاثیر لکھ دی جاتی تھی۔ آج بھی بےشمار ادویہ مزاج سے قطع نظر‬
‫بالخاصہ استعمال کروائی جارہی ہیں۔‬
‫تاثیر االدویہ یا بالخاصہ کو مد نظر رکھنا غلط نہیں البتہ ان کے مزاج جاننا ابھی باقی ہیں۔ جن پہ تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫دوا کی تاثیر پر اطباۓ قدیم بھی یقین رکھتے تھے اور انھوں نے اس موضوع پر تفصیلی بحث بھی کی ھے‪ .‬انہوں نے دواوں کی داخلی‬
‫اور خارجی تاثیرات کو بیان کرتے ھوے پیاز کی مثال دی ھے کہ اگر جسم کے باھر لگایا جاے تو اکال ھے جبکہ اندرونی طور پر‬
‫ہاضم ھے اسی طرح دھنیا بیرونی طور پر محلل اور اندرونی طور پر مبرد ھے‪ .‬طبیہ کالج کے سال اول میں علم االدویہ میں دوا کی‬
‫تاثیر پر بیان موجود ھے‪ .‬باقی مغربی ممالک کا جو ‪ Herbalism‬ھے وہ سارا کا سارا تاثیر دوا کی بنیاد پر ھے اور اب تو کیمیاٸ‬
‫تجزیہ کے ذریعے تاثیرات معلوم کر کے وہ بہت اعلی دواسازی کر رھے ھیں‪ .‬میرے نزدیک یہ علم کے ارٹقاٸ مراحل ھیں‪ .‬علم کا‬
‫حقیقی متالشی کسی ایک فلسفے یا نظریے تک محدود نہیں رھتا کیونکہ اس کے اندر جو طلب ھوتی ھے وہ اس کو مختلف ٹجربات پر‬
‫مجبور کرتی رھتی ھے‪.‬‬
‫محترم اطب ٕا کرام‬
‫‪[02/09 9:41 am] Hk Aqeel Abbasi Rwp:‬‬
‫السالم علیكم صبح بخیر‬

‫‪10‬‬
‫ادویات کی تاثیر یعنی خواص االدویات کہ دوا گرم مزاج ھے یا سرد اسقدر اس لیۓ الزم ھے کہ اگر بلڈ پریشر کے مریض کو جب بلڈ‬
‫پریشر ہائی ہو تو اسے بجائے کم کرنے کی دوا کے دودھ پتی‪ ,‬چکن سوپ یا کافی جیسی گرم اشی ٕا میں سے کچھ بھی کھالیا جائے تو جو‬
‫اسکا حشر ہو گا وہ اطب ٕا تو کیا ایک عام آدمی کو بھی معلوم ھے۔‬
‫لہزا جس طرح ایک حقیقی مسلمان ہونے کیلیۓ پختہ ایمان کا ہونا الزم ھے اسی طرح طبیب کو ادویہ کی تاثیر کا جاننا ضروری‬
‫ھےورنہ وہ گمرہ ھے کسائی ھے اورمریض کا جانی مالی دشمن ھے۔‬
‫کیا اب بھی مزید کسی مثال کی ضرورت ھے‬
‫‪[02/09 10:12 am] Hk Hf Habib Bharwana Jhang:‬‬
‫محترم آپ نے اچھی بات کی ہے لیکن ذرا ادھر بھی توجہ فرمایں کہ کہ جو دواء کا مزاج ہے وہی رہنا چاہیے ۔چہ جایکہ اسی قلیل مقدار‬
‫میں دیا جاے یا کثیر میں لیکن اسکی کئ مثالیں الٹ ہو جاتی ہیں مثال سم الفار اگر دوایہ مقدار سے سے زیادہ دیا جاے جیسی رتی بھر‬
‫کے قریب تو مریض کو اسہال قے پیٹ درد گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہوجاتی ہے اگر یہی سم الفار دوایہ مقدار میں دی جاۓ تو یہ‬
‫ساری کیفیات اسی سم سے ختم ہو جاتی ہیں کیا یہاں مزاج تبدیل ہوجاتا ہے‬
‫نیال تھوتھہ دارچکنہ زنگار اکال وغیرہ اپنی حارہ طبیعت کے باعث قرحہ پیدا کرنیوالی ادویہ ہیں جب اگر ان کو قلیل مقدار میں استعمال‬
‫کرنے سے کئ ڈھیٹ قسم کے زخم ٹھیک ہو جاتے ہیں اگر اور بھی کئ امراض میں مستعمل نسخہ جات پر غور کیا جاۓ گا تو یقینا‬
‫اکثر گرم امراض میں گرم ادویہ کا استعمال مشاہدہ میں آے گا جو کہ یقینا ایک غور طلب بات ہے اور ایلو پیتھی ہومیو جو کہ امزجہ پر‬
‫یقین ہی نہی رکھتے انکا عالج بھی قابل غور ہے‬
‫اب بندہ کہاں کہاں پر ایمان کو چھوڑے ۔۔۔۔۔۔‬
‫بہت اچھی دلیل دی آپ نے‪ .‬اصل میں تاثیرات کو مشاھدات اور تجربات سے پرکھ کر ‪ Scientificaly‬ثابت کیا جا سکتا ھے‪ .‬اکثر‬
‫مفردات چونکہ مرکب القوٸ ھوتی ھیں اور مختلف افراد پر مختلف اثرات مرتب کرنے کے عالوہ مختلف مقدار خوراک میں استعمال‬
‫کرانے پر مختلف کیفیات ظاہر کرتی ھیں اس لیے مزاج کو ‪ scientificaly‬ثابت کرنا ناممکن تو نہیں البتہ بہت دشوار ھے‪ .‬بدقسمتی‬
‫سے ابھی تک ھمارے ملک میں ایسا کوٸ ‪ Scientific research institute‬نہیں بنا جو اس پر تحقیقی کام کرے مجبورا”‬
‫‪ scientific studies‬کے لیے مغربی تحقیقی مواد کا سہارہ لینا پڑتا ھے جو کہ مزاج کو نہیں مانتا‪.‬‬
‫اصل میں ہماری طب کے تنزلی کے اسباب میں سے ایک سبب اسکو منزل ہللا مان کر تحقیق وریسرچ کے دروازے بند کرنا بھی ہ‬

‫‪Hakeem Tahir Jan Saeed‬‬


‫میرے پاس اس موضوع پر کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن اکتفا اسی پر کرتا ہوں کہ موجودہ مغربی طب کی محیرالعقول ترقی میں اگر کوئی‬
‫کمی اور کمزوری ہے تو وہ مزاج کی ہے۔ طب یونانی میں مزاج اصول العلم کے درجے میں ہے اور اصول بمن‪ll‬زلہ بنیاد۔۔بنیاد کے بغیر‬
‫شاندار عمارت ناقص۔۔اگر انسان کا مزاج ماننا پڑتا ہے تو یقینا ً ادویات میں بھی بہ حیثیت مجموعی ایک مزاجی کیفیت غالب ماننا پڑےگا۔۔۔جو‬
‫صرف بالخاصہ کا زکر کرتا ہے وہ معالجات میں علم االدویہ اور کلیات و نباضی میں علم تام نہیں رکھتے۔‬

‫‪11‬‬
12
13
14
15

You might also like