Professional Documents
Culture Documents
میر تقی میر
میر تقی میر
محمد تقی المعروف مير تقّى مير ـ اردو كے عظیم شاعر تھے .اردو شاعرى ميں
مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے
سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايكـ منفرد شاعر تھے ـ آپ كے
متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے ـ
ریختے كےتمہی استاد نہیں ہو غالب ـ
کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى مير بھی تھاـ
میر تقی میر تخلص ،آگر ہ میں 1723ءمیں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام محمد
علی تھا لیکن علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ اور درویش گوشہ نشین تھے۔
میر نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان ہلل سے حاصل کی۔ میر ابھی نو
برس کے تھے کہ وہ چل بسے ان کے بعد ان کے والد نے تعلیم و تربیت شروع
کی۔ مگر چند ہی ماہ بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میر کی زندگی میں
رنج و الم کے طویل باب کی ابتداءہوئی۔
ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے اچھا سلوک نہ کیا۔ تالش معاش کی فکر
میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے ہاں مالزم ہو گئے ۔ مگر جب نواب
موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی
کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے خالو سراج
الدین آرزو کے ہاں قیام پذیر ہوئے ۔ سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو نے
بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ غم دوراں کچھ غم جاناں ،سے جنوں کی
کیفیت پیدا ہو گئی۔
میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف صعوبتوں کو
برداشت کرنے کے باآلخر میر گوشہ عافیت کی تالش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔
اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد لکھنو پہنچے ۔ وہاں ان کی
شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ
مقرر کر دیا۔ اور میر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ
سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں
جوان بیٹی او ر بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم
سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 1810ءمیں لکھنو کی آغوش میں ہمیشہ کے
لیے سو گیا۔
محاسن کالم
ِ میر تقی میر کے
محاسن کالم درج ذیل ہیں
ِ میرتقی میر کے نمایاں
:
عہد کا ترجمان
میر کا عہد افراتفری اور طوائف الملوکی کا عہد تھا۔ اگر میر میں زمانے کی
چوٹ کھانے اور زخم سہنے کی عادت نہ ہوتی تو زمانے کی بھیانک آندھی کے
سامنے ان کی شخصیت اور شاعری کا چراغ گل ہوجاتا اس لئے میر کی رام
کہانی اس عہد کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ میر کی تنہائی پسندی اورخلوت نشینی
انہیں اپنے عہد اور ماحول کی ترجمانی سے باز نہ رکھ سکی۔ اس عہد کی
افراتفری ،ذہنی انتشار ،سکون کی تالش ،شرفاء کی پریشان حالی اور معاش کی
قلت کی جیتی جاگتی تصویریں ہمیں ان کے کالم سے ملتی ہیں۔
خودداری
میر کی ایک اور خصوصیتـ ان کی غیرت اور خودداری ہے۔ وہ امراء اور
روسا سے میل جول کو پسند نہ کرتے تھے کہ اس سے ان کی خودداری کو
ٹھیس نہ لگے۔ وہ بے حد کم گو اور آزاد طبیعت واقع ہوئے تھے۔ مفلسی اور
درویشی نے ان کی اعلی ظرفی کو اور بلند تر کردیا تھا ان کی خودداری کا ایک
سبب تو طبعی تھا۔ دوسرے انہیں اپنی وضع کا بہت پاس تھا
تصوف و فلسفہ
میر تصوف کے نہیں تغزل کے شاعر ہیں لیکن اس دور کے رواج کے مطابق
ان کی شاعری میں عارفانہ مضامین بھی ملتے ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری
میں فلسفہ کا اثر بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ فلسفہ کوئی ٹھوس حقیقت نہیں ہے۔
مرقع نگاری
میر کے کالم میں حقیقت اور اصلیت بھرپور انداز میں ملتی ہے وہ ایک ایسے
مصور ہیں کہ ان کے لفظی مرقعے ہماری آنکھوں کے سامنے جیتی جاگتی
تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ یہ مرقع نگاری داخلی اور خارجی اثرات دونوں کی
ت انسانی بھی ہے اور مناظر قدرت بھی ہیں۔ ان کے کالم میں
ہے۔ ان میں جذبا ِ
انفرادی اور اجتماعی شعور کا حسین امتزاج ملتا ہے۔