Professional Documents
Culture Documents
Allama Iqbal Open University Islamabad: Department of Education NAME: Liyaqat Mehmood
Allama Iqbal Open University Islamabad: Department of Education NAME: Liyaqat Mehmood
DEPARTMENT OF EDUCATION
ASSIGNMENT NO: 1
ANS 01
اسکول میں رس می تعلیم کے ذریعے اس ابت دائی واقفیت کی پ رورش و نم و ک ا اہتم ام کی ا جات ا ہے۔ لیکن
ہمارے نصاب میں ان دونوں بنیادی مہارتوں یع نی س ننے اور بول نے کی ت ربیت ک ا مناس ب ی ا ض روری
اہتمام نہیں ملتا۔ ہم ابتدائی جماعتوں س ے دیکھ تے ہیں کہ س ارا زور پڑھ نے اور لکھ نے پردی ا جات ا ہے۔
سننے اور سن کر درست معنی اخذ کرنے اور اسے ی اد رکھ نے کی مش ق اگ ر ہ و بھی ت و ات نی معم ولی
ہ وتی ہے کہ خ اطر خ واہ نت ائج پی دا نہیں ہ وتے۔ یہی وجہ ہے کہ ی ونی ورس ٹیوں میں بھی طلبہ کی ؛
لیکچرسن کر سمجھنے اور اسے یادداشت میں محفوظ کر لینے کی صالحیت انتہائی محدود ہوتی ہے۔ اس
کی توجہ کا مرکز بار بار بدل جاتا ہے اور وہ اگلے جملوں کو پچھلے جمل وں س ے مرب وط ک ر کے کالم
کے مجموعی معانی سمجھنے کے قابل نہیں ہ وتے۔ اب س ے چ الیس پچ اس ب رس پہلے یہ ص ورت ح ال
نہیں تھی اور ابتدائی جماعتوں میں ان دونوں مہ ارتوں کی ت ربیت کے ل یے انتہ ائی س ادہ اور ن تیجہ خ یز
مشقیں عام تھیں۔ مثال ًہر نیا سبق استاد پہلے خود اور بعد میں مانیٹر کے ذریعے بچوں سے بار بار ب ٓاواز
بلند کہلواتا تھا۔ استاد ایک سطر پڑھتا تھا ،بچے اس کے بعد مل کر باجماعت اس س طر ک و دہ راتے تھے
اور یوں نہ صرف استاد کی ،بلکہ خود اپنی بھیٓ،اوازس ن ک ر تلف ظ ،لب و لہجہ اور ادائیگی کی مش ق ک ر
لیتے تھے۔ اب اس مشق کو فرسودہ طریقہ سمجھ کر ترک کر دیا گی ا ہے۔ اس تاد بمش کل ای ک ب ار بچ وں
1
کے سامنے سبق کی قرات کرتا ہے اور چند بچوں سے منتخب اقتباس ات کی ق رات کروات ا ہے۔ اس س ے
ایک تو سب بچوں کو قرات ک ا موق ع نہیں ملت ا جس س ے ان کی ٓام وزش نہیں ہ وتی اور دوس رے ان کی
دلچسپی بھی سبق میں نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ لمبی گفتگو سن کر اس سے مع انی اخ ذ کرن ا اور انھیں
دوبارہ بیان کرنے کے قابل ہونا اب جامع ات کے طلبہ کے ل یے بھی ٓاس ان نہیں رہ ا۔اس ی ط رح مارنن گ
اسمبلی کے نام سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی سرگرمی میں بچے مل ک ر ک وئی دع ا ،نغمہ ی ا ت رانہ
پڑھتے تھے اور اس س ے بھی ان کے اعض اے نط ق کی مناس ب ورزش ہ و ج اتی تھی۔ اب کہیں دہش ت
گردی کے ڈر اور کہیں عمارتوں کی تنگی کے ب اعث یہ رس م بھی م تروک ہ وتی ج ارہی ہے اور ص بح
صبح ایک گیت گا کر بچوں کے ذہن میں جو تازگی پیدا ہوتی تھی وہ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ پڑھنے اور
لکھنے کی مہارتوں کی تربیت کے لیے نصاب ک و اس ط ور پ ر تش کیل دی ا ج ائے کہ اخالقی ،دی نی اور
تہذیبی مقاصد بھی بے شک پیش نظر رہیں لیکن ان کی نوعیت ضمنی رہے۔ اردو کا نصاب مرتب ک رتے
ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل مقص د زب ان کی ت دریس ہے۔ اس مقص د کے ل یے نص اب ک و نہ ایت
ذہانت اور فن کارانہ حس تناسب کے استعمال سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب اس طرح وضع
کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے والی نصابی کتب مطلوبہ نتائج پیدا ک رنے کی پابن د ہ و
جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات درج ہوں۔ مثالً یہ کہ پ ڑھ ک ر عب ارت
کی درس ت تفہیم کے ل یے ج و تحری ری ٹک ڑے منتخب ک یے ج اتے ہیں ان میں بچ وں کی عم ر ،ذوق،
استعداد اور دلچسپی کو تو مد نظر رکھا ہی جاتا ہے لیکن زبان کی چاشنی اور اث ر انگ یزی کے پہل و ک و
بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحسین کے عمل کو جزو ِ نصاب بنایا جائے۔غ یر
ضروری طوالت اور پھسپھسی ،بے جان عبارتوں س ے گری ز ک ر کے ،اردو کے ن ئے پ رانے عظیم اور
معتبر انشا پردازوں کی تحریروں کے ٹکڑے پیش کیے جائیں جن کے معنوی اور فنی پہل ؤوں کی تفہیم و
تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے اور اس مقصد کے لیے خود اساتذہ کو بھی نہایت واض ح ہ دایات
دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ بچے عبارت کو پڑھ کر اس کے مرکزی نکتے یا نک ات
کو سمجھ لیں اور پھر اس ے اپ نے الف اظ میں بی ان بھی ک ر س کیں۔ ابت دا میں طوی ل عب ارتوں کے بج ائے
مختصر اقتباسات کے ذریعے مشق کروانا اہم ہوتا ہے جس میں بیک وقت بہت سی باتوں کے بجائے ایک
ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔
لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مش ق ک ا ٓاغ از خ وش خطی اور پھ ر امال س ے ہون ا چ اہیے۔ پہلے
حروف کی درست نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خ واہ وقت
2
مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نت ائج حاص ل ہ و س کتے ہیں۔
اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال
کی جا سکتی تھیں ،ماں باپ پر مالی ب وجھ بھی نہیں پڑت ا تھ ا اور بچے تخ تی دھ ونے اور س کھانے کے
عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے گیت گ ا ک ر کھی ل اور
تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔
لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدی د تدریس ی مہ ارتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر نص اب س ازی کی
جائے تو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے
یعنی تصویر کو دیکھ کر عنوان لکھنا ،تصویری کہانیاں لکھنا ،نامکم ل جمل وں ک و مکم ل کرن ا اور پھ ر
بتدریج خاکے کی مدد سے کہ انی ی ا مض مون لکھن ا وغ یرہ۔ یہ ت و محض چن د اش ارے ہیں۔ اس ن وع کی
درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور افکار و خی االت ک و مرب وط ان داز میں بی ان
کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کے ل یے وقت اور
توجہ صرف کی جائے۔
ان چ اروں مہ ارتوں کی ت ربیت کے عالوہ زب ان کے قواع دی نک ات س ے ٓاش نائی پی دا کرن ا بھی انتہ ائی
ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے لیے رائج استخراجی ط ریقے کے بج ائے اس تقرائی ط ریقے پ ر عم ل
مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی
طور پر وہی پرانا ط ریقہ رائج ہے جس کے تحت پہلے تع ریفیں ی اد ک روا دی ج اتی ہیں اور پھ ر ان کی
مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے
بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف س ے ٓاگ اہ کی ا ج ائے۔ اس ط ریقے کی م دد س ے بچ وں میں تجس س اور
دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔
مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل ک و زی ادہ س ے زی ادہ دلچس پ بنان ا ض روری ہے۔ دلچس پی
صرف لطیفوں یا مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچس پی اس وقت پی دا ہ وتی ہے جب بچہ اپ نے درس
میں خود پوری طرح شریک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت ک و ح ل ک ر کے ،س واالت کے ج واب
تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر کے مس رت بھ ری کامی ابی ک و محس وس کرت ا ہے۔اس
منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس ک ا عم ل دو ط رفہ اور عملی ن وعیت ک ا ہ و۔ یہ اس تاد
سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ بہأو کا نام نہ بن جائے ،جیسا کہ عملی طور پر ہمارے ہ اں
رائج ہے
3
ANS 02
رشید حسن خاں نے اردو میں باغ و بہار اور فسانہ عجائب جیسے کالسکل متون کی ت دوین ک ا ک ام انج ام
دے کر اردو میں تدوین کی روایت کو جتنا عروج و ارتقا بخش ا ہے اس س ے تم ام اردو والے واق ف ہیں۔
اپنے عمیق مطالعے اور کل وقتی مش اہدے س ے خ اں ص احب نے اردو میں امال ،انش ا اور قوائ د کے
ایسے اصول وضع کیے جس سے جدید اردو رس م خ ط کی بنی اد پ ڑی اور اس رس م خ ط س ے اردو میں
تدوین کے حوالے سے نئے انقالبات رونما ہوئے۔ رشید صاحب سے قب ل ای ک ن ام قاض ی عبدالس تار ک ا
بھی آتا ہے جو امال و انشا کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔ پر تدوین کی رو سے قاضی صاحب کے بالمقاب ل
رشید صاحب نے زیادہ اہم کارنامے انجام دی ئے ہیں ۔ ت دوین متن کے تعل ق س ے خ اں ص احب نے فس انہ
عجائب اور باغ و بہار دون وں کے مق دمات میں ج و ب اتیں کی ہیں در اص ل وہی ان کی ت دوین متن کے
توسط سے نظری تنقید کا نم ونہ ہیں۔ جس کا implicationہمیں ان دون وں کالس کل مت ون پ ر ہوت ا ہ وا
نظر آتا ہے۔ مثال ً اگر فسانہ عجائب پر خاں ص احب کے لکھے ہ وئے مق دمے اور اس داس تان کے متن
کو غ ور س ے پڑھ ا ج ائے ت و متن کی ت دوین کی ض رورت کے متعل ق یہ اہم ب اتیں س مجھ میں آتی ہیں:
وتی ہے۔ دا ہ انی پی نے میں آس و پڑھ دیم متن ک ٭ ق
٭ قدیم لفظیات پر حرکات کا اضافہ ہو جاتا ہے تاکہ ان کے صحیح تلفظ سے واقفیت حاصل ہو ج ائے۔
٭ متروک لفظیات کی حاشیے میں وضاحت کر دی جاتی ہے اور ق دیم لغ ات س ے اس کے مع نی بھی
اتے ہیں۔ ئے ج دے دی
٭ متن میں ( punctuationتوقیف نگاری)کا اضافہ کر دیا جاتا ہے ،تاکہ قاری کے لئے جملہ س مجھنا
ائے۔ وج ان ہ آس
٭ گنجل ک عب ارت کی حاش یہ میں ی ا ح والے کے ط ور پ ر وض احت پیش ک ر دی ج اتی ہے۔
اتی ہے۔ گ دے دی ج اظ کی فرہن کل الف ر میں مش ٭ آخ
یہ اصول رشید صاحب نے کہیں واضح طور پر لکھے نہیں ہیں ،پر جب ت دوین متن کے ح والے س ے ان
کی نظری اور عملی تنقید کا مطالعہ کیا جائے تو ان باتوں کا علم ہوتا ہے۔ رشید صاحب کا فس انہ عج ائب
کی تدوین میں کافی عرص ہ اس ی ل ئے خ رچ ہ وا کی وں کہ انہ وں نے اس کالس کل متن ک و مت ذکرہ ب اال
اصولوں کی روشنی میں م دون کی ا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اردو کے دیگ ر دو اہم محققین نے ان کے اس
کارنامے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اپنے تئیں اس کارنامے میں ہر طور شریک بھی رہے ہیں اس ک ام
کو کس طرح کیا گیا ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے لگای ا ج ا س کتا ہے کہ یہ ک ام مکم ل ہ و چک ا
4
تھا ،متن کی کتابت بھی ہو چکی تھی،کہ اچانک ان کو اس کتاب کا ای ک ایس ا نس خہ مال جس پ ر مص نف
نے آخری بار نظر ثانی کی تھی۔رشید صاحب نے بال تکلف پچھلے پانچ س ال کے س ارے ک ام ک و کالع دم
قرار دے دیا اور اب اس نئے نسخے کی بنیاد پر متن ک و ن ئے س رے س ے م رتب کی ا۔غ رض کہ اس کی
وئے ہیں۔ رف ہ ال ص رح کم وبیش آٹھ س ل میں اس ط تکمی
(ص،10پیش لفظ،قمر رئیس ،فسانہ عجائب ،مصنفہ :رجب علی بیگ سرور،مرتبہ :رشید حس ن خاںانجمن
ترقی اردو ہند ،نئی دہلی) فسانہ عجائب کا زیر نظر اڈیشن رشید حسن خاں ص احب کے تقریب ا تیس س الہ
تجربے اور ان کی سات ،آٹھ سالہ غیر معمولی محنت اور دیدہ ری زی ک ا ن تیجہ ہے۔ انہ وں نے پہلی ب ار
طلبہ اور ان کے اساتذہ کے لیے ایسا متن تی ار کی ا ہے ج و کالس کی نص ابی متن وں کی ت رتیب کے ن ئے
انداز سے ہمیں روشناس کراتا ہے اور مثال و معیار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس میں مشکل الفاظ کا صحیح
تلفظ نظروں کے سامنے آجاتا ہے ،فارسی ترکیب وں ک و ص حیح ط ور پ ر پڑھ ا ج ا س کتا ہے اور پیچی دہ
جملوں کو صحیح طور پر سمجھا جا س کتا ہے ۔ ض میموں میں ج و تش ریحات ہیں ،ان کی م دد س ے اس
کتاب کے مشکل مقامات واضح اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ میں اس تنقی دی اڈیش ن کے ب ارے میں پ ورے
یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ استاد اور طالب علم اس مشکل متن کو اب آسانی کے ساتھ پ ڑھ
کیں گے۔ س
(ص،14ح رف آغ از ،خلی ق انجم ،فس انہ عج ائب ،مص نفہ :رجب علی بی گ س رور،م رتبہ :رش ید حس ن
ئی دہلی) د ،ن رقی اردو ہن خاںانجمن ت
فسانہ عجائب کے مقدمے اور متن کا مطالعہ کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ رشید صاحب نے فسانہ عجائب ک ا
متن ایڈیٹ کرتے وقت کئی ایک اہم نکات کو اپنے پیش نظر رکھا تھا،جس کی بنیاد پر یہ ک ام ات نے ج امع
انداز میں مکمل ہوا۔ مثال ً انہوں اپنے مقدمے میں مصنف کے متعلق صرف اہم اہم معلومات ف راہم کی ہیں
اور زیادہ تر اس کے متن کے متعلق بات کی ہے ،حاالت زندگی کے تعل ق س ے انہ وں نےن یر مس عود
کی کتاب کی طرف اشارہ کر دی ا ہے ،اور س اتھ ہی یہ تاکی د بھی کی ہےکہ ای ک م دون کی یہ ذمہ داری
ہے کہ وہ غیر ضروری مباحث میں نہ پڑتے ہوئے متن کے معامالت کی جانب زیادہ مت وجہ ہ و۔ متن کی
طرف رجوع کرتے ہوئے انہ وں نے اولین ص ورت میں متن کی اش اعتوں کے تعل ق س ے اہم معلوم ات
فراہم کی ہیں اور علی الترتیب یہ بتایا ہے کہ فس انہ عج ائب کس کس س ن میں مص نف کی زن دگی میں
ش ائع ہ وا اور کس کس س ن میں ان کی حی ات کے بع د ،مثال ًمص نف کی حی ات میں ،1259،1263
،1267،1276اور1280میں کل مال کرپانچ م رتبہ ش ائع ہ وا ،اس کے بع د منش ی ن ول کش ور نے فس انہ
5
عجائب کے حقوق اشاعت ان سے خرید لیے جس کے بعد یہ مستقل کئی م رتبہ منش ی ن ول کش ور کے
پ ریس س ے ش ائع ہ و ک ر من اظر ع ام پ ر آی ا۔ اس کے عالوہ 1862میں مطب ع مص طفائی س ے اور
1882،1883اور 1912میں مختلف مطابع سے شائع ہوا۔ الہ آباد سے پہلی مرتبہ 1928میں اور دوسری
مرتبہ 1976میں شائع ہوا جسے مخمور اک بر آب ادی نے ت رتیب دی ا تھ ا اور اس کے ناش ر رام ن رائن الل
بینی مادھوتھے۔ مصنف نے اپنی زندگی میں آخری بار جس نسخے کو دیکھا تھ ا وہ 1880ک ا نس خہ تھ ا
جس کے متعلق رشید صاحب نے بحیثیت مدون یہ انکشاف ظاہر کیا کہ اس نسخے کو ان س ے قب ل کس ی
مدون نے نہیں دیکھا ہے ،اس کے برعکس اس کی نقل جو 1882میں مطبع منشی نول کشور سے ش ائع
ہوئی تھی اس کو بنیادی متن بنا کر زیادہ تر مدون حضرات نےتدوین کا ک ام انج ام دی ا ہے۔ اس انکش اف
کے بعد رشید صاحب نے بنیادی نسخے کو بنیاد نہ بنانے کی باعث دیگر مدون حضرات سے جو غلطیاں
ہوئی ہیں اس کی بھی نشان دہی کی ہے۔ رشید صاحب کی اس تدوین سے اصول تدوین کے تعلق سے ج و
باتیں معلوم ہوتی ہیں ان میں ای ک ب ات یہ بھی ہے کہ کس ی متن کےنس خوں کی بہت ات ہ ونے پ ر ان ک و
مختلف عالمتوں کے ذریعے الگ کرنا اور اس میں سے بنیادی نسخے ک و چنن ا کتن ا اہم ہوت ا ہے۔مثالً از
اول تا آخر نسخوں کو الف،ب،ج کی عالمتوں سے نواز کر الگ کی ا جات ا ہے ی ا کس ی ایس ی عالمت کے
ذریعے جس سے اس نسخے کے متعلق اہم معلوم ات اس عالمت س ے ہی ف راہم ہ و ج ائے۔ اس ط ور پ ر
رشید صاحب نے فسانہ عجائب کے ان تمام نسخوں کو ج و مص نف کی زن دگی میں ش ائع ہ وئے مختل ف
عالمت وں س ے واض ح کی ا ہے ۔مثالً1259کانس خہ ح ہے 1263 ،کانس خہ ض1267 ،کانس خہ ک،
1276کانسخہ ف اور1280کانسخہ ل ہے۔ اس سے نسخوں کی نشان دہی واض ح ان داز میں ہ و ج اتی ہے
اور کسی قسم کا دھوکا ہونے کے امکان کافی حد کم ہ و ج اتے ہیں ۔ اس کے عالوہ فس انہ عج ائب کے
مقدمے کے طور پر بحیثیت مدون رشید ص احب نے ج و ب اتیں کی ہیں اس س ے اور ت دوین ش دہ متن ک ا
مط العہ ک رنے س ے ج و اہم ب اتیں معل وم ہ وتی ہیں ان میں چن د ای ک من درجہ ذی ل ہیں :
٭ متن پر معاشرتی اثرات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے ۔(حاالں کہ یہ خ الص تنقی د ک ا موض وع ہے۔)
٭ زبان کے ذیل میں امال ،انشا ،بیانیہ ،قوائد ،الفاظ کی نشست و برخاس ت ،فص احت و بالغت ان تم ام
وتی ہے۔ لہ ے واقفیت حاص ووں س پہل
اتی ہے۔ وج واہ واقفیت ہ اظر خ ے خ لوب کی بحث س ٭ اس
وتی ہے۔ لہ ے واقفیت حاص ریقے س ور ط نے کے ط ی دی والہ و حواش ٭ ح
٭ جملہ معترضہ تحری ر کے درمی ان کس ط رح پیش کی ا جات ا ہے اس س ے واقفیت حاص ل ہ وتی ہے۔
6
٭ تدوین متن سے الفاظ کو درست انداز میں لکھنے ک ا ط ریقہ بھی معل وم ہوت ا ہے ،مثال ً خ اں ص احب
ا۔ ل کہ لکھ ر جگہ ب وہ نے بلکہ ک
رشید حسن خاں نے تدوین فسانہ عجائب کے دوران وہ الفاظ اور جملے جس سے دبس تان دہلی اور لکھن و
کی بحث میں اضافہ ہو ا ان کو بھی نشان زد کی ا ہے ،اس س ے معل وم ہوت ا ہے کہ ت دوین متن کے دوران
ادبی ،تاریخی ،لسانی اور سماجی و معاشرتی ب اتوں کی وض احت بھی ہ و ج اتی ہے۔اس ی ط رح لکھن وی
زبان کی ساخت کو بنانے اور سنوارنے میں فسانہ عجائب کا کیا کردار ہے اس پر بھی اپنے مقدمے میں
تے ہیں : ک جگہ لکھ نی ڈالی ہے۔ مثال ً ای روش
جس طرح ناسخ کی شاعری کی اندرونی فضا اور اس کا م زاج لکھن و کی اس ن ئی معاش رت ک ا آئینہ دار
ہے۔ اسی طرح سرور کی نثر ،آرایش پسندی کے وسیلے سے اس معاش رت کے ان داز و اط وار کی آئینہ
داری کرتی ہے۔ناسخ اور سرور دونوں اپنے اس الیب بی ان کے واس طے س ے دبس تان لکھن و کے نماین دہ
افراد ہیں۔
ANS 03
زبان کی تدریس کی چار بنیادی مہارتیں ہیں۔ جو بتدریج سیکھی اور س کھائی ج اتی ہیں۔ یع نی س ب س ے
پہلے سننا ،پھر بولنا ،پھر پڑھنا اور پھر لکھنا۔ ان میں سے دو مہارتیں ان پٹ کی حی ثیت رکھ تی ہیں اور
دو ٓأوٹ پٹ کی۔ سننا اور پڑھنا ان پٹ ہیں اور بولنا اور لکھنا ٓأوٹ پٹ۔ اب ان میں سے پہلی مہارت یع نی
سننے کے عمل کا ٓاغاز فط ری ط ور پ ر م اں کے پیٹ س ے ہی ہ و جات ا ہے۔ اور بولن ا بھی بچہ س ماجی
زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں سیکھ لیتا ہے لیکن یہ سننا اور بولن ا دون وں اس کی م ادری زب ان س ے
تعل ق رکھ تے ہیں۔ اردو ک ا مع املہ یہ ہے کہ پاکس تانیوں کی اک ثریت کی م ادری زب ان نہیں ہے لیکن ہ ر
پاکستانی کی دوسری زبان یعنی س یکنڈری لینگ ویج ض رور ہے۔ اگ ر کس ی م احول میں اردو بول نے واال
کوئی ایک فرد بھی موجود نہ ہو ،تب بھی ذرائع ابالغ ،ریڈیو ،ٹیلی وژن ،گانوں ،گیت وں اور قوالی وں کے
ذریعے اردو کے الفاظ اور لب و لہجے سے واقفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔
اسکول میں رس می تعلیم کے ذریعے اس ابت دائی واقفیت کی پ رورش و نم و ک ا اہتم ام کی ا جات ا ہے۔ لیکن
ہمارے نصاب میں ان دونوں بنیادی مہارتوں یع نی س ننے اور بول نے کی ت ربیت ک ا مناس ب ی ا ض روری
اہتمام نہیں ملتا۔ ہم ابتدائی جماعتوں س ے دیکھ تے ہیں کہ س ارا زور پڑھ نے اور لکھ نے پردی ا جات ا ہے۔
سننے اور سن کر درست معنی اخذ کرنے اور اسے ی اد رکھ نے کی مش ق اگ ر ہ و بھی ت و ات نی معم ولی
ہ وتی ہے کہ خ اطر خ واہ نت ائج پی دا نہیں ہ وتے۔ یہی وجہ ہے کہ ی ونی ورس ٹیوں میں بھی طلبہ کی ؛
7
لیکچرسن کر سمجھنے اور اسے یادداشت میں محفوظ کر لینے کی صالحیت انتہائی محدود ہوتی ہے۔ اس
کی توجہ کا مرکز بار بار بدل جاتا ہے اور وہ اگلے جملوں کو پچھلے جمل وں س ے مرب وط ک ر کے کالم
کے مجموعی معانی سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے۔
اب سے چالیس پچاس برس پہلے یہ صورت حال نہیں تھی اور ابتدائی جم اعتوں میں ان دون وں مہ ارتوں
کی تربیت کے لیے انتہائی سادہ اور نتیجہ خیز مشقیں عام تھیں۔ مثال ًہر نیا سبق استاد پہلے خ ود اور بع د
میں مانیٹر کے ذریعے بچوں سے بار بار بٓاواز بلند کہلواتا تھا۔ استاد ایک سطر پڑھت ا تھ ا ،بچے اس کے
بعد مل کر باجماعت اس سطر کو دہراتے تھے اور یوں نہ صرف استاد کی ،بلکہ خود اپ نی بھیٓ،اوازس ن
کر تلفظ ،لب و لہجہ اور ادائیگی کی مشق کر لیتے تھے۔ اب اس مشق کو فرسودہ طریقہ سمجھ ک ر ت رک
کر دیا گیا ہے۔ استاد بمشکل ای ک ب ار بچ وں کے س امنے س بق کی ق رات کرت ا ہے اور چن د بچ وں س ے
منتخب اقتباسات کی قرات کرواتا ہے۔ اس سے ایک تو سب بچوں کو قرات کا موقع نہیں ملتا جس سے ان
کی ٓاموزش نہیں ہوتی اور دوسرے ان کی دلچسپی بھی سبق میں نہیں رہتی۔ ن تیجہ یہ ہے کہ لم بی گفتگ و
سن کر اس سے معانی اخذ کرنا اور انھیں دوبارہ بیان کرنے کے قابل ہونا اب جامعات کے طلبہ کے لیے
بھی ٓاسان نہیں رہا۔اسی طرح مارننگ اسمبلی کے نام سے روزانہ کی بنیاد پ ر ہ ونے والی س رگرمی میں
بچے مل کر کوئی دعا ،نغمہ ی ا ت رانہ پڑھ تے تھے اور اس س ے بھی ان کے اعض اے نط ق کی مناس ب
ورزش ہو جاتی تھی۔ اب کہیں دہشت گردی کے ڈر اور کہیں عم ارتوں کی تنگی کے ب اعث یہ رس م بھی
متروک ہوتی جارہی ہے اور صبح صبح ایک گیت گا کر بچوں کے ذہن میں جو تازگی پی دا ہ وتی تھی وہ
مفقود ہوتی جا رہی ہے۔
پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کی تربیت کے لیے نصاب کو اس طور پر تش کیل دی ا ج ائے کہ اخالقی،
دینی اور تہذیبی مقاص د بھی بے ش ک پیش نظ ر رہیں لیکن ان کی ن وعیت ض منی رہے۔ اردو ک ا نص اب
مرتب کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل مقصد زبان کی تدریس ہے۔ اس مقصد کے ل یے نص اب
کو نہایت ذہانت اور فن کارانہ حس تناسب کے استعمال سے م رتب ک رنے کی ض رورت ہے۔ نص اب اس
طرح وضع کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے والی نصابی کتب مطلوبہ نتائج پی دا ک رنے
کی پابند ہو جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات درج ہ وں۔ مثالً یہ کہ پ ڑھ
کر عبارت کی درست تفہیم کے لیے جو تحریری ٹکڑے منتخب ک یے ج اتے ہیں ان میں بچ وں کی عم ر،
ذوق ،استعداد اور دلچسپی کو تو مد نظر رکھا ہی جاتا ہے لیکن زبان کی چاشنی اور اثر انگیزی کے پہلو
8
کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحسین کے عمل کو جزو ِ نصاب بنای ا ج ائے۔
غیر ضروری طوالت اور پھسپھسی ،بے جان عبارتوں سے گری ز ک ر کے ،اردو کے ن ئے پ رانے عظیم
اور معتبر انشا پردازوں کی تحریروں کے ٹکڑے پیش ک یے ج ائیں جن کے معن وی اور ف نی پہل ؤوں کی
تفہیم و تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے اور اس مقصد کے لیے خود اساتذہ کو بھی نہ ایت واض ح
ہدایات دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ بچے عبارت کو پڑھ ک ر اس کے مرک زی نک تے
یا نکات کو سمجھ لیں اور پھر اسے اپ نے الف اظ میں بی ان بھی ک ر س کیں۔ ابت دا میں طوی ل عب ارتوں کے
بجائے مختص ر اقتباس ات کے ذریعے مش ق کروان ا اہم ہوت ا ہے جس میں بی ک وقت بہت س ی ب اتوں کے
بجائے ایک ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔
لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مش ق ک ا ٓاغ از خ وش خطی اور پھ ر امال س ے ہون ا چ اہیے۔ پہلے
حروف کی درست نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خ واہ وقت
مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نت ائج حاص ل ہ و س کتے ہیں۔
اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال
کی جا سکتی تھیں ،ماں باپ پر مالی ب وجھ بھی نہیں پڑت ا تھ ا اور بچے تخ تی دھ ونے اور س کھانے کے
عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے گیت گ ا ک ر کھی ل اور
تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔
لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدی د تدریس ی مہ ارتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر نص اب س ازی کی
جائے تو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے
یعنی تصویر کو دیکھ کر عنوان لکھنا ،تصویری کہانیاں لکھنا ،نامکم ل جمل وں ک و مکم ل کرن ا اور پھ ر
بتدریج خاکے کی مدد سے کہ انی ی ا مض مون لکھن ا وغ یرہ۔ یہ ت و محض چن د اش ارے ہیں۔ اس ن وع کی
درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور افکار و خی االت ک و مرب وط ان داز میں بی ان
کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کے ل یے وقت اور
توجہ صرف کی جائے۔
ان چ اروں مہ ارتوں کی ت ربیت کے عالوہ زب ان کے قواع دی نک ات س ے ٓاش نائی پی دا کرن ا بھی انتہ ائی
ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے لیے رائج استخراجی ط ریقے کے بج ائے اس تقرائی ط ریقے پ ر عم ل
مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی
طور پر وہی پرانا ط ریقہ رائج ہے جس کے تحت پہلے تع ریفیں ی اد ک روا دی ج اتی ہیں اور پھ ر ان کی
9
مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے
بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف س ے ٓاگ اہ کی ا ج ائے۔ اس ط ریقے کی م دد س ے بچ وں میں تجس س اور
دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔
مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل ک و زی ادہ س ے زی ادہ دلچس پ بنان ا ض روری ہے۔ دلچس پی
صرف لطیفوں یا مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچس پی اس وقت پی دا ہ وتی ہے جب بچہ اپ نے درس
میں خود پوری طرح شریک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت ک و ح ل ک ر کے ،س واالت کے ج واب
تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر کے مس رت بھ ری کامی ابی ک و محس وس کرت ا ہے۔اس
منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس ک ا عم ل دو ط رفہ اور عملی ن وعیت ک ا ہ و۔ یہ اس تاد
سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ بہأو کا نام نہ بن جائے ،جیسا کہ عملی طور پر ہمارے ہ اں
رائج ہے
ANS 04
پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کی تربیت کے لیے نصاب کو اس طور پر تش کیل دی ا ج ائے کہ اخالقی،
دینی اور تہذیبی مقاص د بھی بے ش ک پیش نظ ر رہیں لیکن ان کی ن وعیت ض منی رہے۔ اردو ک ا نص اب
مرتب کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل مقصد زبان کی تدریس ہے۔ اس مقصد کے ل یے نص اب
کو نہایت ذہانت اور فن کارانہ حس تناسب کے استعمال سے م رتب ک رنے کی ض رورت ہے۔ نص اب اس
طرح وضع کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے والی نصابی کتب مطلوبہ نتائج پی دا ک رنے
کی پابند ہو جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات درج ہ وں۔ مثالً یہ کہ پ ڑھ
کر عبارت کی درست تفہیم کے لیے جو تحریری ٹکڑے منتخب ک یے ج اتے ہیں ان میں بچ وں کی عم ر،
ذوق ،استعداد اور دلچسپی کو تو مد نظر رکھا ہی جاتا ہے لیکن زبان کی چاشنی اور اثر انگیزی کے پہلو
کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحسین کے عمل کو جزو ِ نصاب بنای ا ج ائے۔
غیر ضروری طوالت اور پھسپھسی ،بے جان عبارتوں سے گری ز ک ر کے ،اردو کے ن ئے پ رانے عظیم
اور معتبر انشا پردازوں کی تحریروں کے ٹکڑے پیش ک یے ج ائیں جن کے معن وی اور ف نی پہل ؤوں کی
تفہیم و تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے اور اس مقصد کے لیے خود اساتذہ کو بھی نہ ایت واض ح
ہدایات دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ بچے عبارت کو پڑھ ک ر اس کے مرک زی نک تے
یا نکات کو سمجھ لیں اور پھر اسے اپ نے الف اظ میں بی ان بھی ک ر س کیں۔ ابت دا میں طوی ل عب ارتوں کے
10
بجائے مختص ر اقتباس ات کے ذریعے مش ق کروان ا اہم ہوت ا ہے جس میں بی ک وقت بہت س ی ب اتوں کے
بجائے ایک ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔
لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مش ق ک ا ٓاغ از خ وش خطی اور پھ ر امال س ے ہون ا چ اہیے۔ پہلے
حروف کی درست نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خ واہ وقت
مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نت ائج حاص ل ہ و س کتے ہیں۔
اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال
کی جا سکتی تھیں ،ماں باپ پر مالی ب وجھ بھی نہیں پڑت ا تھ ا اور بچے تخ تی دھ ونے اور س کھانے کے
عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے گیت گ ا ک ر کھی ل اور
تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔
لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدی د تدریس ی مہ ارتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر نص اب س ازی کی
جائے تو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے
یعنی تصویر کو دیکھ کر عنوان لکھنا ،تصویری کہانیاں لکھنا ،نامکم ل جمل وں ک و مکم ل کرن ا اور پھ ر
بتدریج خاکے کی مدد سے کہ انی ی ا مض مون لکھن ا وغ یرہ۔ یہ ت و محض چن د اش ارے ہیں۔ اس ن وع کی
درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور افکار و خی االت ک و مرب وط ان داز میں بی ان
کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کے ل یے وقت اور
توجہ صرف کی جائے۔
ان چ اروں مہ ارتوں کی ت ربیت کے عالوہ زب ان کے قواع دی نک ات س ے ٓاش نائی پی دا کرن ا بھی انتہ ائی
ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے لیے رائج استخراجی ط ریقے کے بج ائے اس تقرائی ط ریقے پ ر عم ل
مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی
طور پر وہی پرانا ط ریقہ رائج ہے جس کے تحت پہلے تع ریفیں ی اد ک روا دی ج اتی ہیں اور پھ ر ان کی
مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے
بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف س ے ٓاگ اہ کی ا ج ائے۔ اس ط ریقے کی م دد س ے بچ وں میں تجس س اور
دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔
مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل ک و زی ادہ س ے زی ادہ دلچس پ بنان ا ض روری ہے۔ دلچس پی
صرف لطیفوں یا مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچس پی اس وقت پی دا ہ وتی ہے جب بچہ اپ نے درس
میں خود پوری طرح شریک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت ک و ح ل ک ر کے ،س واالت کے ج واب
11
تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر کے مس رت بھ ری کامی ابی ک و محس وس کرت ا ہے۔اس
منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس ک ا عم ل دو ط رفہ اور عملی ن وعیت ک ا ہ و۔ یہ اس تاد
سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ بہأو کا نام نہ بن جائے ،جیسا کہ عملی طور پر ہمارے ہ اں
رائج ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ نصاب کیسا ہی عمدہ کیوں نہ ہو ،اگر درسی کتاب نصاب کے مقاصد پورے نہ ک رتی
ہو تو نصاب بے کار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف درسی کتاب کیس ی ہی دلچس پ اور ک ارگر کی وں نہ ہ و،
اگر استاد میں ذہانت ،تدریسی عمل سے دلچسپی اور تخلیقی صالحیت نہ ہو تو کتاب اپ نے مقاص د پ ورے
نہیں کرتی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ نصاب ،کت اب اور اس تاد س ب کے ہ وتے ہ وئے مطل وبہ نت ائج
حاصل نہیں کیے جا سکتے اگر امتحانی نظام ان مقاصد سے ہم ٓاہن گ نہ ہ و جن کے ل یے نص اب تش کیل
دیا گیا ہے۔ جدید دنیا میں امتحان لینے کے خاصے غیر رس می ط ریقے رائج ہیں جن میں س ے بعض ت و
دیکھنے میں قطعی امتح ان معل وم نہیں ہ وتے لیکن وہ عملی ط ور پ ر بچ وں کی ک ارکردگی کی ٓازم ائش
کرتے ہیں اور تعلیم کو عملی زندگی سے ہم ٓاہنگ کرنےکی ضمانت دیتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نصاب ہو ،یا امتحان ،اساتذہ ہوں یا طلبہ ،جب تک حس ن نیت اور خل وص ک ار ش امل
ہو ،سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
ANS 05
نصاب اس طرح وضع کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے والی نصابی کتب مطل وبہ نت ائج
پیدا کرنے کی پابند ہو جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات درج ہ وں۔ مثالً
یہ کہ پڑھ کر عبارت کی درست تفہیم کے لیے جو تحریری ٹکڑے منتخب ک یے ج اتے ہیں ان میں بچ وں
کی عمر ،ذوق ،اس تعداد اور دلچس پی ک و ت و م د نظ ر رکھ ا ہی جات ا ہے لیکن زب ان کی چاش نی اور اث ر
انگیزی کے پہلو کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحس ین کے عم ل ک و ج زو ِ
نصاب بنایا جائے۔غیر ضروری طوالت اور پھسپھسی ،بے جان عب ارتوں س ے گری ز ک ر کے ،اردو کے
نئے پرانے عظیم اور معتبر انشا پردازوں کی تحریروں کے ٹکڑے پیش کیے ج ائیں جن کے معن وی اور
فنی پہلؤوں کی تفہیم و تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے اور اس مقص د کے ل یے خ ود اس اتذہ ک و
بھی نہایت واضح ہدایات دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا ج ائے کہ بچے عب ارت ک و پ ڑھ ک ر اس
کے مرکزی نکتے یا نکات کو س مجھ لیں اور پھ ر اس ے اپ نے الف اظ میں بی ان بھی ک ر س کیں۔ ابت دا میں
12
طویل عبارتوں کے بج ائے مختص ر اقتباس ات کے ذریعے مش ق کروان ا اہم ہوت ا ہے جس میں بی ک وقت
بہت سی باتوں کے بجائے ایک ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔
لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مش ق ک ا ٓاغ از خ وش خطی اور پھ ر امال س ے ہون ا چ اہیے۔ پہلے
حروف کی درست نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خ واہ وقت
مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نت ائج حاص ل ہ و س کتے ہیں۔
اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال
کی جا سکتی تھیں ،ماں باپ پر مالی ب وجھ بھی نہیں پڑت ا تھ ا اور بچے تخ تی دھ ونے اور س کھانے کے
عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے گیت گ ا ک ر کھی ل اور
تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔
لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدی د تدریس ی مہ ارتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر نص اب س ازی کی
جائے تو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے
یعنی تصویر کو دیکھ کر عنوان لکھنا ،تصویری کہانیاں لکھنا ،نامکم ل جمل وں ک و مکم ل کرن ا اور پھ ر
بتدریج خاکے کی مدد سے کہ انی ی ا مض مون لکھن ا وغ یرہ۔ یہ ت و محض چن د اش ارے ہیں۔ اس ن وع کی
درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور افکار و خی االت ک و مرب وط ان داز میں بی ان
کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کے ل یے وقت اور
توجہ صرف کی جائے۔
ان چ اروں مہ ارتوں کی ت ربیت کے عالوہ زب ان کے قواع دی نک ات س ے ٓاش نائی پی دا کرن ا بھی انتہ ائی
ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے لیے رائج استخراجی ط ریقے کے بج ائے اس تقرائی ط ریقے پ ر عم ل
مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی
طور پر وہی پرانا ط ریقہ رائج ہے جس کے تحت پہلے تع ریفیں ی اد ک روا دی ج اتی ہیں اور پھ ر ان کی
مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے
بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف س ے ٓاگ اہ کی ا ج ائے۔ اس ط ریقے کی م دد س ے بچ وں میں تجس س اور
دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔
مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل ک و زی ادہ س ے زی ادہ دلچس پ بنان ا ض روری ہے۔ دلچس پی
صرف لطیفوں یا مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچس پی اس وقت پی دا ہ وتی ہے جب بچہ اپ نے درس
میں خود پوری طرح شریک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت ک و ح ل ک ر کے ،س واالت کے ج واب
13
تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر کے مس رت بھ ری کامی ابی ک و محس وس کرت ا ہے۔اس
منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس ک ا عم ل دو ط رفہ اور عملی ن وعیت ک ا ہ و۔ یہ اس تاد
سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ بہأو کا نام نہ بن جائے ،جیسا کہ عملی طور پر ہمارے ہ اں
رائج ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ نصاب کیسا ہی عمدہ کیوں نہ ہو ،اگر درسی کتاب نصاب کے مقاصد پورے نہ ک رتی
ہو تو نصاب بے کار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف درسی کتاب کیس ی ہی دلچس پ اور ک ارگر کی وں نہ ہ و،
اگر استاد میں ذہانت ،تدریسی عمل سے دلچسپی اور تخلیقی صالحیت نہ ہو تو کتاب اپ نے مقاص د پ ورے
نہیں کرتی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ نصاب ،کت اب اور اس تاد س ب کے ہ وتے ہ وئے مطل وبہ نت ائج
حاصل نہیں کیے جا سکتے اگر امتحانی نظام ان مقاصد سے ہم ٓاہن گ نہ ہ و جن کے ل یے نص اب تش کیل
دیا گیا ہے۔
14