You are on page 1of 15

ALLAMA IQBAL OPEN UNIVERSITY ISLAMABAD

DEPARTMENT OF EDUCATION

NAME: Liyaqat Mehmood

USER NAME: 0000141223

COURSE CODE: 6509

COURSE TITLE: Teaching of urdu

SEMESTER: SPRING 2022

ASSIGNMENT NO: 1
‫‪ANS 01‬‬
‫اسکول میں رس می تعلیم کے ذریعے اس ابت دائی واقفیت کی پ رورش و نم و ک ا اہتم ام کی ا جات ا ہے۔ لیکن‬
‫ہمارے نصاب میں ان دونوں بنیادی مہارتوں یع نی س ننے اور بول نے کی ت ربیت ک ا مناس ب ی ا ض روری‬
‫اہتمام نہیں ملتا۔ ہم ابتدائی جماعتوں س ے دیکھ تے ہیں کہ س ارا زور پڑھ نے اور لکھ نے پردی ا جات ا ہے۔‬
‫سننے اور سن کر درست معنی اخذ کرنے اور اسے ی اد رکھ نے کی مش ق اگ ر ہ و بھی ت و ات نی معم ولی‬
‫ہ وتی ہے کہ خ اطر خ واہ نت ائج پی دا نہیں ہ وتے۔ یہی وجہ ہے کہ ی ونی ورس ٹیوں میں بھی طلبہ کی ؛‬
‫لیکچرسن کر سمجھنے اور اسے یادداشت میں محفوظ کر لینے کی صالحیت انتہائی محدود ہوتی ہے۔ اس‬
‫کی توجہ کا مرکز بار بار بدل جاتا ہے اور وہ اگلے جملوں کو پچھلے جمل وں س ے مرب وط ک ر کے کالم‬
‫کے مجموعی معانی سمجھنے کے قابل نہیں ہ وتے۔ اب س ے چ الیس پچ اس ب رس پہلے یہ ص ورت ح ال‬
‫نہیں تھی اور ابتدائی جماعتوں میں ان دونوں مہ ارتوں کی ت ربیت کے ل یے انتہ ائی س ادہ اور ن تیجہ خ یز‬
‫مشقیں عام تھیں۔ مثال ًہر نیا سبق استاد پہلے خود اور بعد میں مانیٹر کے ذریعے بچوں سے بار بار ب ٓاواز‬
‫بلند کہلواتا تھا۔ استاد ایک سطر پڑھتا تھا‪ ،‬بچے اس کے بعد مل کر باجماعت اس س طر ک و دہ راتے تھے‬
‫اور یوں نہ صرف استاد کی‪ ،‬بلکہ خود اپنی بھی‪ٓ،‬اوازس ن ک ر تلف ظ‪ ،‬لب و لہجہ اور ادائیگی کی مش ق ک ر‬
‫لیتے تھے۔ اب اس مشق کو فرسودہ طریقہ سمجھ کر ترک کر دیا گی ا ہے۔ اس تاد بمش کل ای ک ب ار بچ وں‬

‫‪1‬‬
‫کے سامنے سبق کی قرات کرتا ہے اور چند بچوں سے منتخب اقتباس ات کی ق رات کروات ا ہے۔ اس س ے‬
‫ایک تو سب بچوں کو قرات ک ا موق ع نہیں ملت ا جس س ے ان کی ٓام وزش نہیں ہ وتی اور دوس رے ان کی‬
‫دلچسپی بھی سبق میں نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ لمبی گفتگو سن کر اس سے مع انی اخ ذ کرن ا اور انھیں‬
‫دوبارہ بیان کرنے کے قابل ہونا اب جامع ات کے طلبہ کے ل یے بھی ٓاس ان نہیں رہ ا۔اس ی ط رح مارنن گ‬
‫اسمبلی کے نام سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی سرگرمی میں بچے مل ک ر ک وئی دع ا‪ ،‬نغمہ ی ا ت رانہ‬
‫پڑھتے تھے اور اس س ے بھی ان کے اعض اے نط ق کی مناس ب ورزش ہ و ج اتی تھی۔ اب کہیں دہش ت‬
‫گردی کے ڈر اور کہیں عمارتوں کی تنگی کے ب اعث یہ رس م بھی م تروک ہ وتی ج ارہی ہے اور ص بح‬
‫صبح ایک گیت گا کر بچوں کے ذہن میں جو تازگی پیدا ہوتی تھی وہ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ پڑھنے اور‬
‫لکھنے کی مہارتوں کی تربیت کے لیے نصاب ک و اس ط ور پ ر تش کیل دی ا ج ائے کہ اخالقی‪ ،‬دی نی اور‬
‫تہذیبی مقاصد بھی بے شک پیش نظر رہیں لیکن ان کی نوعیت ضمنی رہے۔ اردو کا نصاب مرتب ک رتے‬
‫ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل مقص د زب ان کی ت دریس ہے۔ اس مقص د کے ل یے نص اب ک و نہ ایت‬
‫ذہانت اور فن کارانہ حس تناسب کے استعمال سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب اس طرح وضع‬
‫کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے والی نصابی کتب مطلوبہ نتائج پیدا ک رنے کی پابن د ہ و‬
‫جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات درج ہوں۔ مثالً یہ کہ پ ڑھ ک ر عب ارت‬
‫کی درس ت تفہیم کے ل یے ج و تحری ری ٹک ڑے منتخب ک یے ج اتے ہیں ان میں بچ وں کی عم ر‪ ،‬ذوق‪،‬‬
‫استعداد اور دلچسپی کو تو مد نظر رکھا ہی جاتا ہے لیکن زبان کی چاشنی اور اث ر انگ یزی کے پہل و ک و‬
‫بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحسین کے عمل کو جزو ِ نصاب بنایا جائے۔غ یر‬
‫ضروری طوالت اور پھسپھسی‪ ،‬بے جان عبارتوں س ے گری ز ک ر کے‪ ،‬اردو کے ن ئے پ رانے عظیم اور‬
‫معتبر انشا پردازوں کی تحریروں کے ٹکڑے پیش کیے جائیں جن کے معنوی اور فنی پہل ؤوں کی تفہیم و‬
‫تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے اور اس مقصد کے لیے خود اساتذہ کو بھی نہایت واض ح ہ دایات‬
‫دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ بچے عبارت کو پڑھ کر اس کے مرکزی نکتے یا نک ات‬
‫کو سمجھ لیں اور پھر اس ے اپ نے الف اظ میں بی ان بھی ک ر س کیں۔ ابت دا میں طوی ل عب ارتوں کے بج ائے‬
‫مختصر اقتباسات کے ذریعے مشق کروانا اہم ہوتا ہے جس میں بیک وقت بہت سی باتوں کے بجائے ایک‬
‫ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مش ق ک ا ٓاغ از خ وش خطی اور پھ ر امال س ے ہون ا چ اہیے۔ پہلے‬
‫حروف کی درست نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خ واہ وقت‬

‫‪2‬‬
‫مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نت ائج حاص ل ہ و س کتے ہیں۔‬
‫اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال‬
‫کی جا سکتی تھیں‪ ،‬ماں باپ پر مالی ب وجھ بھی نہیں پڑت ا تھ ا اور بچے تخ تی دھ ونے اور س کھانے کے‬
‫عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے گیت گ ا ک ر کھی ل اور‬
‫تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدی د تدریس ی مہ ارتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر نص اب س ازی کی‬
‫جائے تو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے‬
‫یعنی تصویر کو دیکھ کر عنوان لکھنا‪ ،‬تصویری کہانیاں لکھنا‪ ،‬نامکم ل جمل وں ک و مکم ل کرن ا اور پھ ر‬
‫بتدریج خاکے کی مدد سے کہ انی ی ا مض مون لکھن ا وغ یرہ۔ یہ ت و محض چن د اش ارے ہیں۔ اس ن وع کی‬
‫درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور افکار و خی االت ک و مرب وط ان داز میں بی ان‬
‫کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کے ل یے وقت اور‬
‫توجہ صرف کی جائے۔‬
‫ان چ اروں مہ ارتوں کی ت ربیت کے عالوہ زب ان کے قواع دی نک ات س ے ٓاش نائی پی دا کرن ا بھی انتہ ائی‬
‫ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے لیے رائج استخراجی ط ریقے کے بج ائے اس تقرائی ط ریقے پ ر عم ل‬
‫مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی‬
‫طور پر وہی پرانا ط ریقہ رائج ہے جس کے تحت پہلے تع ریفیں ی اد ک روا دی ج اتی ہیں اور پھ ر ان کی‬
‫مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے‬
‫بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف س ے ٓاگ اہ کی ا ج ائے۔ اس ط ریقے کی م دد س ے بچ وں میں تجس س اور‬
‫دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔‬
‫مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل ک و زی ادہ س ے زی ادہ دلچس پ بنان ا ض روری ہے۔ دلچس پی‬
‫صرف لطیفوں یا مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچس پی اس وقت پی دا ہ وتی ہے جب بچہ اپ نے درس‬
‫میں خود پوری طرح شریک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت ک و ح ل ک ر کے‪ ،‬س واالت کے ج واب‬
‫تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر کے مس رت بھ ری کامی ابی ک و محس وس کرت ا ہے۔اس‬
‫منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس ک ا عم ل دو ط رفہ اور عملی ن وعیت ک ا ہ و۔ یہ اس تاد‬
‫سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ بہأو کا نام نہ بن جائے‪ ،‬جیسا کہ عملی طور پر ہمارے ہ اں‬
‫رائج ہے‬

‫‪3‬‬
‫‪ANS 02‬‬
‫رشید حسن خاں نے اردو میں باغ و بہار اور فسانہ عجائب جیسے کالسکل متون کی ت دوین ک ا ک ام انج ام‬
‫دے کر اردو میں تدوین کی روایت کو جتنا عروج و ارتقا بخش ا ہے اس س ے‪  ‬تم ام اردو والے واق ف ہیں۔‬
‫اپنے عمیق مطالعے اور‪  ‬کل‪  ‬وقتی‪  ‬مش اہدے س ے خ اں ص احب نے اردو میں امال ‪ ،‬انش ا اور قوائ د کے‬
‫ایسے اصول وضع کیے جس سے جدید اردو رس م خ ط کی بنی اد پ ڑی‪  ‬اور اس رس م خ ط س ے اردو میں‬
‫تدوین کے حوالے سے نئے انقالبات رونما ہوئے۔ رشید صاحب سے قب ل‪  ‬ای ک ن ام قاض ی عبدالس تار ک ا‬
‫بھی‪  ‬آتا ہے جو امال و انشا کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔ پر تدوین کی رو سے قاضی صاحب کے بالمقاب ل‬
‫رشید صاحب نے زیادہ اہم کارنامے انجام دی ئے ہیں ۔ ت دوین متن کے تعل ق س ے خ اں ص احب نے فس انہ‬
‫عجائب اور باغ و بہار دون وں‪  ‬کے مق دمات میں ج و ب اتیں کی ہیں در اص ل وہی ان کی ت دوین متن‪   ‬کے‬
‫توسط سے نظری تنقید کا نم ونہ ہیں۔ جس کا ‪implication‬ہمیں ان‪  ‬دون وں کالس کل مت ون‪   ‬پ ر ہوت ا ہ وا‬
‫نظر آتا ہے۔ مثال ً اگر فسانہ عجائب‪  ‬پر خاں ص احب کے لکھے ہ وئے مق دمے اور‪  ‬اس داس تان کے متن‬
‫کو غ ور س ے پڑھ ا ج ائے‪  ‬ت و متن کی ت دوین کی ض رورت کے متعل ق یہ اہم ب اتیں س مجھ میں آتی ہیں‪:‬‬
‫وتی ہے۔‬ ‫دا ہ‬ ‫انی پی‬ ‫نے میں آس‬ ‫و پڑھ‬ ‫دیم متن ک‬ ‫٭‪    ‬ق‬
‫٭‪    ‬قدیم لفظیات‪  ‬پر حرکات‪  ‬کا اضافہ ہو جاتا ہے تاکہ ان کے صحیح تلفظ سے واقفیت حاصل ہو ج ائے۔‬
‫٭‪    ‬متروک لفظیات کی‪  ‬حاشیے‪  ‬میں وضاحت کر دی جاتی ہے اور ق دیم لغ ات س ے اس کے مع نی بھی‬
‫اتے ہیں۔‬ ‫ئے ج‬ ‫دے دی‬
‫٭‪    ‬متن میں ‪( punctuation‬توقیف نگاری)کا اضافہ کر دیا جاتا ہے‪ ،‬تاکہ قاری کے لئے جملہ س مجھنا‬
‫ائے۔‬ ‫وج‬ ‫ان ہ‬ ‫آس‬
‫٭‪    ‬گنجل ک عب ارت کی حاش یہ میں ی ا ح والے کے ط ور پ ر وض احت پیش ک ر دی ج اتی ہے۔‬
‫اتی ہے۔‬ ‫گ دے دی ج‬ ‫اظ کی فرہن‬ ‫کل‪  ‬الف‬ ‫ر میں مش‬ ‫٭‪    ‬آخ‬
‫یہ اصول رشید صاحب نے کہیں واضح طور پر لکھے نہیں ہیں ‪،‬پر جب ت دوین متن کے ح والے س ے ان‬
‫کی نظری اور عملی تنقید کا مطالعہ کیا جائے تو ان باتوں کا علم ہوتا ہے۔ رشید صاحب کا فس انہ عج ائب‬
‫کی تدوین میں کافی عرص ہ اس ی ل ئے خ رچ‪  ‬ہ وا کی وں کہ انہ وں نے اس کالس کل متن ک و مت ذکرہ ب اال‬
‫اصولوں کی روشنی میں م دون کی ا ہے۔‪  ‬یہ ہی وجہ ہے کہ اردو کے دیگ ر دو اہم محققین نے ان کے اس‬
‫کارنامے کا اعتراف‪  ‬بھی کیا ہے اور اپنے تئیں اس کارنامے میں ہر طور شریک بھی رہے ہیں اس ک ام‬
‫کو کس طرح کیا گیا ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے لگای ا ج ا س کتا ہے کہ یہ ک ام مکم ل ہ و چک ا‬

‫‪4‬‬
‫تھا ‪،‬متن کی کتابت بھی ہو چکی تھی‪،‬کہ اچانک ان کو اس کتاب کا ای ک ایس ا نس خہ مال جس پ ر مص نف‬
‫نے آخری بار نظر ثانی کی تھی۔رشید صاحب نے بال تکلف پچھلے پانچ س ال کے س ارے ک ام ک و کالع دم‬
‫قرار دے دیا اور اب اس نئے نسخے کی بنیاد پر متن ک و ن ئے س رے س ے م رتب کی ا۔غ رض کہ اس کی‬
‫وئے ہیں۔‬ ‫رف ہ‬ ‫ال ص‬ ‫رح کم وبیش‪  ‬آٹھ س‬ ‫ل میں اس ط‬ ‫تکمی‬
‫(ص‪،10‬پیش لفظ‪،‬قمر رئیس ‪،‬فسانہ عجائب ‪،‬مصنفہ‪ :‬رجب علی بیگ سرور‪،‬مرتبہ‪ :‬رشید حس ن خاںانجمن‬
‫ترقی اردو‪  ‬ہند ‪،‬نئی دہلی) فسانہ عجائب کا زیر نظر اڈیشن رشید حسن خاں ص احب کے تقریب ا تیس س الہ‬
‫تجربے اور ان کی سات ‪،‬آٹھ سالہ غیر معمولی محنت‪  ‬اور دیدہ ری زی ک ا ن تیجہ ہے۔ انہ وں نے پہلی ب ار‬
‫طلبہ اور ان کے اساتذہ کے لیے ایسا متن تی ار کی ا ہے ج و کالس کی نص ابی متن وں کی ت رتیب کے ن ئے‬
‫انداز سے ہمیں روشناس کراتا ہے اور مثال و معیار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس میں مشکل الفاظ کا صحیح‬
‫تلفظ نظروں کے سامنے آجاتا ہے ‪،‬فارسی ترکیب وں ک و ص حیح ط ور پ ر پڑھ ا ج ا س کتا ہے اور پیچی دہ‬
‫جملوں کو صحیح طور پر سمجھا جا س کتا ہے ۔ ض میموں میں ج و تش ریحات ہیں ‪ ،‬ان کی م دد س ے اس‬
‫کتاب کے مشکل مقامات واضح‪  ‬اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ میں اس تنقی دی اڈیش ن کے ب ارے میں پ ورے‪ ‬‬
‫یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ استاد اور طالب علم اس مشکل متن کو اب آسانی کے ساتھ پ ڑھ‬
‫کیں گے۔‬ ‫س‬
‫(ص‪،14‬ح رف آغ از ‪،‬خلی ق انجم‪ ،‬فس انہ عج ائب ‪،‬مص نفہ‪ :‬رجب علی بی گ س رور‪،‬م رتبہ‪ :‬رش ید حس ن‬
‫ئی دہلی)‬ ‫د ‪،‬ن‬ ‫رقی اردو‪  ‬ہن‬ ‫خاںانجمن ت‬
‫فسانہ عجائب کے مقدمے اور متن کا مطالعہ کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ رشید صاحب نے فسانہ عجائب ک ا‬
‫متن ایڈیٹ کرتے وقت کئی ایک اہم نکات کو اپنے پیش نظر رکھا تھا‪،‬جس کی بنیاد پر یہ ک ام ات نے ج امع‬
‫انداز میں مکمل ہوا۔ مثال ً انہوں اپنے مقدمے میں مصنف کے متعلق صرف اہم اہم معلومات ف راہم کی ہیں‬
‫اور زیادہ تر اس کے متن کے متعلق بات کی ہے ‪  ،‬حاالت زندگی کے تعل ق س ے انہ وں‪  ‬نےن یر مس عود‬
‫کی کتاب کی طرف اشارہ کر دی ا ہے ‪ ،‬اور س اتھ ہی یہ تاکی د بھی کی ہےکہ ای ک م دون کی یہ ذمہ داری‬
‫ہے کہ وہ غیر ضروری مباحث میں نہ پڑتے ہوئے متن کے معامالت کی جانب زیادہ مت وجہ ہ و۔ متن کی‬
‫طرف رجوع کرتے ہوئے انہ وں نے‪   ‬اولین ص ورت میں متن کی اش اعتوں کے تعل ق س ے اہم معلوم ات‬
‫فراہم کی ہیں‪   ‬اور‪  ‬علی الترتیب یہ بتایا ہے کہ فس انہ عج ائب کس کس س ن میں مص نف کی زن دگی میں‬
‫ش ائع ہ وا اور کس کس س ن میں ان کی حی ات کے بع د ‪،‬مثال ًمص نف کی حی ات میں ‪،1259،1263‬‬
‫‪،1267،1276‬اور‪1280‬میں کل مال‪  ‬کرپانچ م رتبہ ش ائع ہ وا‪ ،‬اس کے بع د منش ی ن ول کش ور نے‪  ‬فس انہ‬

‫‪5‬‬
‫عجائب کے‪  ‬حقوق‪  ‬اشاعت ان سے خرید لیے جس کے بعد یہ مستقل کئی م رتبہ منش ی ن ول کش ور کے‪ ‬‬
‫پ ریس س ے ش ائع ہ و ک ر من اظر ع ام پ ر آی ا۔ اس کے عالوہ ‪ 1862‬میں مطب ع مص طفائی س ے اور‬
‫‪ 1882،1883‬اور‪ 1912‬میں مختلف مطابع سے شائع ہوا۔ الہ آباد سے پہلی مرتبہ ‪ 1928‬میں اور دوسری‬
‫مرتبہ ‪1976‬میں شائع ہوا جسے مخمور اک بر آب ادی نے ت رتیب دی ا تھ ا اور اس کے ناش ر رام ن رائن الل‬
‫بینی مادھوتھے۔ مصنف نے اپنی زندگی میں آخری بار جس نسخے کو دیکھا تھ ا وہ ‪ 1880‬ک ا نس خہ تھ ا‬
‫جس کے متعلق رشید صاحب نے بحیثیت مدون یہ انکشاف ظاہر کیا کہ اس نسخے کو ان س ے قب ل کس ی‬
‫مدون نے نہیں دیکھا ہے ‪ ،‬اس کے برعکس اس کی نقل جو ‪ 1882‬میں مطبع منشی نول کشور سے ش ائع‬
‫ہوئی تھی اس کو بنیادی متن بنا کر زیادہ تر مدون‪  ‬حضرات‪  ‬نےتدوین کا ک ام انج ام دی ا ہے۔ اس انکش اف‬
‫کے بعد رشید صاحب نے بنیادی نسخے کو بنیاد نہ بنانے کی باعث دیگر مدون حضرات سے جو غلطیاں‬
‫ہوئی ہیں اس کی بھی نشان دہی کی ہے۔ رشید صاحب کی اس تدوین سے اصول تدوین کے تعلق سے ج و‬
‫باتیں معلوم ہوتی ہیں ان میں ای ک ب ات یہ بھی ہے کہ کس ی متن کےنس خوں کی بہت ات ہ ونے‪  ‬پ ر ان ک و‬
‫مختلف عالمتوں کے ذریعے الگ کرنا اور اس میں سے بنیادی نسخے ک و چنن ا‪  ‬کتن ا اہم ہوت ا ہے۔مثالً از‬
‫اول تا آخر نسخوں کو الف‪،‬ب‪،‬ج کی عالمتوں سے نواز کر الگ کی ا جات ا ہے ی ا کس ی ایس ی عالمت کے‬
‫ذریعے جس سے اس نسخے کے متعلق اہم معلوم ات اس عالمت س ے ہی ف راہم ہ و ج ائے۔ اس ط ور پ ر‬
‫رشید صاحب نے‪  ‬فسانہ عجائب کے ان تمام نسخوں کو ج و مص نف کی زن دگی میں ش ائع ہ وئے مختل ف‬
‫عالمت وں س ے‪   ‬واض ح کی ا ہے ۔مثالً‪1259‬کانس خہ ح ہے‪ 1263 ،‬کانس خہ ض‪1267 ،‬کانس خہ ک‪،‬‬
‫‪1276‬کانسخہ ف اور‪1280‬کانسخہ‪  ‬ل ہے۔ اس سے نسخوں کی نشان دہی واض ح ان داز میں ہ و ج اتی ہے‬
‫اور‪  ‬کسی قسم کا دھوکا ہونے کے امکان‪   ‬کافی حد کم ہ و ج اتے ہیں ۔ اس کے عالوہ فس انہ عج ائب کے‬
‫مقدمے کے طور پر بحیثیت مدون رشید ص احب نے ج و ب اتیں کی ہیں اس س ے اور ت دوین ش دہ متن‪  ‬ک ا‬
‫مط العہ ک رنے س ے ج و اہم ب اتیں معل وم ہ وتی ہیں ان میں چن د ای ک من درجہ ذی ل ہیں ‪:‬‬
‫٭‪    ‬متن پر معاشرتی اثرات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے ۔(حاالں کہ یہ خ الص تنقی د ک ا موض وع ہے۔)‬
‫٭‪    ‬زبان کے ذیل میں امال ‪ ،‬انشا ‪ ،‬بیانیہ‪ ،‬قوائد‪ ،‬الفاظ کی نشست و برخاس ت‪ ،‬فص احت و بالغت ان تم ام‬
‫وتی ہے۔‬ ‫لہ‬ ‫ے واقفیت حاص‬ ‫ووں‪  ‬س‬ ‫پہل‬
‫اتی ہے۔‬ ‫وج‬ ‫واہ‪   ‬واقفیت ہ‬ ‫اظر خ‬ ‫ے‪   ‬خ‬ ‫لوب‪  ‬کی بحث س‬ ‫٭‪    ‬اس‬
‫وتی ہے۔‬ ‫لہ‬ ‫ے واقفیت حاص‬ ‫ریقے س‬ ‫ور ط‬ ‫نے کے ط‬ ‫ی دی‬ ‫والہ و حواش‬ ‫٭‪    ‬ح‬
‫٭‪    ‬جملہ معترضہ تحری ر کے درمی ان کس ط رح پیش کی ا جات ا ہے اس س ے واقفیت حاص ل ہ وتی ہے۔‬

‫‪6‬‬
‫٭‪    ‬تدوین متن سے الفاظ کو درست انداز میں لکھنے ک ا ط ریقہ بھی معل وم ہوت ا ہے ‪،‬مثال ً خ اں ص احب‬
‫ا۔‬ ‫ل کہ لکھ‬ ‫ر جگہ ب‬ ‫وہ‬ ‫نے بلکہ ک‬
‫رشید حسن خاں نے تدوین فسانہ عجائب کے دوران وہ الفاظ اور جملے جس سے دبس تان دہلی اور لکھن و‬
‫کی بحث میں اضافہ ہو ا ان کو بھی نشان زد کی ا ہے‪ ،‬اس س ے معل وم ہوت ا ہے کہ ت دوین متن کے دوران‬
‫ادبی ‪،‬تاریخی ‪،‬لسانی اور سماجی و معاشرتی ب اتوں کی وض احت بھی ہ و ج اتی ہے۔اس ی ط رح لکھن وی‬
‫زبان کی ساخت‪  ‬کو بنانے اور سنوارنے میں فسانہ عجائب کا کیا کردار ہے اس پر بھی اپنے مقدمے میں‬
‫تے ہیں ‪:‬‬ ‫ک جگہ لکھ‬ ‫نی ڈالی ہے۔ مثال ً ای‬ ‫روش‬
‫جس طرح ناسخ کی شاعری کی اندرونی فضا اور اس کا م زاج لکھن و کی اس ن ئی معاش رت ک ا آئینہ دار‬
‫ہے۔ اسی طرح سرور کی نثر ‪،‬آرایش پسندی کے وسیلے سے اس معاش رت کے ان داز و اط وار کی آئینہ‪ ‬‬
‫داری‪  ‬کرتی ہے۔ناسخ اور سرور دونوں اپنے اس الیب بی ان کے واس طے س ے دبس تان لکھن و کے نماین دہ‬
‫افراد ہیں۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫زبان کی تدریس کی چار بنیادی مہارتیں ہیں۔ جو بتدریج سیکھی اور س کھائی ج اتی ہیں۔ یع نی س ب س ے‬
‫پہلے سننا‪ ،‬پھر بولنا‪ ،‬پھر پڑھنا اور پھر لکھنا۔ ان میں سے دو مہارتیں ان پٹ کی حی ثیت رکھ تی ہیں اور‬
‫دو ٓأوٹ پٹ کی۔ سننا اور پڑھنا ان پٹ ہیں اور بولنا اور لکھنا ٓأوٹ پٹ۔ اب ان میں سے پہلی مہارت یع نی‬
‫سننے کے عمل کا ٓاغاز فط ری ط ور پ ر م اں کے پیٹ س ے ہی ہ و جات ا ہے۔ اور بولن ا بھی بچہ س ماجی‬
‫زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں سیکھ لیتا ہے لیکن یہ سننا اور بولن ا دون وں اس کی م ادری زب ان س ے‬
‫تعل ق رکھ تے ہیں۔ اردو ک ا مع املہ یہ ہے کہ پاکس تانیوں کی اک ثریت کی م ادری زب ان نہیں ہے لیکن ہ ر‬
‫پاکستانی کی دوسری زبان یعنی س یکنڈری لینگ ویج ض رور ہے۔ اگ ر کس ی م احول میں اردو بول نے واال‬
‫کوئی ایک فرد بھی موجود نہ ہو‪ ،‬تب بھی ذرائع ابالغ‪ ،‬ریڈیو‪ ،‬ٹیلی وژن‪ ،‬گانوں‪ ،‬گیت وں اور قوالی وں کے‬
‫ذریعے اردو کے الفاظ اور لب و لہجے سے واقفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔‬
‫اسکول میں رس می تعلیم کے ذریعے اس ابت دائی واقفیت کی پ رورش و نم و ک ا اہتم ام کی ا جات ا ہے۔ لیکن‬
‫ہمارے نصاب میں ان دونوں بنیادی مہارتوں یع نی س ننے اور بول نے کی ت ربیت ک ا مناس ب ی ا ض روری‬
‫اہتمام نہیں ملتا۔ ہم ابتدائی جماعتوں س ے دیکھ تے ہیں کہ س ارا زور پڑھ نے اور لکھ نے پردی ا جات ا ہے۔‬
‫سننے اور سن کر درست معنی اخذ کرنے اور اسے ی اد رکھ نے کی مش ق اگ ر ہ و بھی ت و ات نی معم ولی‬
‫ہ وتی ہے کہ خ اطر خ واہ نت ائج پی دا نہیں ہ وتے۔ یہی وجہ ہے کہ ی ونی ورس ٹیوں میں بھی طلبہ کی ؛‬

‫‪7‬‬
‫لیکچرسن کر سمجھنے اور اسے یادداشت میں محفوظ کر لینے کی صالحیت انتہائی محدود ہوتی ہے۔ اس‬
‫کی توجہ کا مرکز بار بار بدل جاتا ہے اور وہ اگلے جملوں کو پچھلے جمل وں س ے مرب وط ک ر کے کالم‬
‫کے مجموعی معانی سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے۔‬
‫اب سے چالیس پچاس برس پہلے یہ صورت حال نہیں تھی اور ابتدائی جم اعتوں میں ان دون وں مہ ارتوں‬
‫کی تربیت کے لیے انتہائی سادہ اور نتیجہ خیز مشقیں عام تھیں۔ مثال ًہر نیا سبق استاد پہلے خ ود اور بع د‬
‫میں مانیٹر کے ذریعے بچوں سے بار بار بٓاواز بلند کہلواتا تھا۔ استاد ایک سطر پڑھت ا تھ ا‪ ،‬بچے اس کے‬
‫بعد مل کر باجماعت اس سطر کو دہراتے تھے اور یوں نہ صرف استاد کی‪ ،‬بلکہ خود اپ نی بھی‪ٓ،‬اوازس ن‬
‫کر تلفظ‪ ،‬لب و لہجہ اور ادائیگی کی مشق کر لیتے تھے۔ اب اس مشق کو فرسودہ طریقہ سمجھ ک ر ت رک‬
‫کر دیا گیا ہے۔ استاد بمشکل ای ک ب ار بچ وں کے س امنے س بق کی ق رات کرت ا ہے اور چن د بچ وں س ے‬
‫منتخب اقتباسات کی قرات کرواتا ہے۔ اس سے ایک تو سب بچوں کو قرات کا موقع نہیں ملتا جس سے ان‬
‫کی ٓاموزش نہیں ہوتی اور دوسرے ان کی دلچسپی بھی سبق میں نہیں رہتی۔ ن تیجہ یہ ہے کہ لم بی گفتگ و‬
‫سن کر اس سے معانی اخذ کرنا اور انھیں دوبارہ بیان کرنے کے قابل ہونا اب جامعات کے طلبہ کے لیے‬
‫بھی ٓاسان نہیں رہا۔اسی طرح مارننگ اسمبلی کے نام سے روزانہ کی بنیاد پ ر ہ ونے والی س رگرمی میں‬
‫بچے مل کر کوئی دعا‪ ،‬نغمہ ی ا ت رانہ پڑھ تے تھے اور اس س ے بھی ان کے اعض اے نط ق کی مناس ب‬
‫ورزش ہو جاتی تھی۔ اب کہیں دہشت گردی کے ڈر اور کہیں عم ارتوں کی تنگی کے ب اعث یہ رس م بھی‬
‫متروک ہوتی جارہی ہے اور صبح صبح ایک گیت گا کر بچوں کے ذہن میں جو تازگی پی دا ہ وتی تھی وہ‬
‫مفقود ہوتی جا رہی ہے۔‬

‫پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کی تربیت کے لیے نصاب کو اس طور پر تش کیل دی ا ج ائے کہ اخالقی‪،‬‬
‫دینی اور تہذیبی مقاص د بھی بے ش ک پیش نظ ر رہیں لیکن ان کی ن وعیت ض منی رہے۔ اردو ک ا نص اب‬
‫مرتب کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل مقصد زبان کی تدریس ہے۔ اس مقصد کے ل یے نص اب‬
‫کو نہایت ذہانت اور فن کارانہ حس تناسب کے استعمال سے م رتب ک رنے کی ض رورت ہے۔ نص اب اس‬
‫طرح وضع کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے والی نصابی کتب مطلوبہ نتائج پی دا ک رنے‬
‫کی پابند ہو جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات درج ہ وں۔ مثالً یہ کہ پ ڑھ‬
‫کر عبارت کی درست تفہیم کے لیے جو تحریری ٹکڑے منتخب ک یے ج اتے ہیں ان میں بچ وں کی عم ر‪،‬‬
‫ذوق‪ ،‬استعداد اور دلچسپی کو تو مد نظر رکھا ہی جاتا ہے لیکن زبان کی چاشنی اور اثر انگیزی کے پہلو‬

‫‪8‬‬
‫کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحسین کے عمل کو جزو ِ نصاب بنای ا ج ائے۔‬
‫غیر ضروری طوالت اور پھسپھسی‪ ،‬بے جان عبارتوں سے گری ز ک ر کے‪ ،‬اردو کے ن ئے پ رانے عظیم‬
‫اور معتبر انشا پردازوں کی تحریروں کے ٹکڑے پیش ک یے ج ائیں جن کے معن وی اور ف نی پہل ؤوں کی‬
‫تفہیم و تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے اور اس مقصد کے لیے خود اساتذہ کو بھی نہ ایت واض ح‬
‫ہدایات دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ بچے عبارت کو پڑھ ک ر اس کے مرک زی نک تے‬
‫یا نکات کو سمجھ لیں اور پھر اسے اپ نے الف اظ میں بی ان بھی ک ر س کیں۔ ابت دا میں طوی ل عب ارتوں کے‬
‫بجائے مختص ر اقتباس ات کے ذریعے مش ق کروان ا اہم ہوت ا ہے جس میں بی ک وقت بہت س ی ب اتوں کے‬
‫بجائے ایک ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مش ق ک ا ٓاغ از خ وش خطی اور پھ ر امال س ے ہون ا چ اہیے۔ پہلے‬
‫حروف کی درست نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خ واہ وقت‬
‫مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نت ائج حاص ل ہ و س کتے ہیں۔‬
‫اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال‬
‫کی جا سکتی تھیں‪ ،‬ماں باپ پر مالی ب وجھ بھی نہیں پڑت ا تھ ا اور بچے تخ تی دھ ونے اور س کھانے کے‬
‫عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے گیت گ ا ک ر کھی ل اور‬
‫تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدی د تدریس ی مہ ارتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر نص اب س ازی کی‬
‫جائے تو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے‬
‫یعنی تصویر کو دیکھ کر عنوان لکھنا‪ ،‬تصویری کہانیاں لکھنا‪ ،‬نامکم ل جمل وں ک و مکم ل کرن ا اور پھ ر‬
‫بتدریج خاکے کی مدد سے کہ انی ی ا مض مون لکھن ا وغ یرہ۔ یہ ت و محض چن د اش ارے ہیں۔ اس ن وع کی‬
‫درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور افکار و خی االت ک و مرب وط ان داز میں بی ان‬
‫کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کے ل یے وقت اور‬
‫توجہ صرف کی جائے۔‬
‫ان چ اروں مہ ارتوں کی ت ربیت کے عالوہ زب ان کے قواع دی نک ات س ے ٓاش نائی پی دا کرن ا بھی انتہ ائی‬
‫ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے لیے رائج استخراجی ط ریقے کے بج ائے اس تقرائی ط ریقے پ ر عم ل‬
‫مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی‬
‫طور پر وہی پرانا ط ریقہ رائج ہے جس کے تحت پہلے تع ریفیں ی اد ک روا دی ج اتی ہیں اور پھ ر ان کی‬

‫‪9‬‬
‫مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے‬
‫بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف س ے ٓاگ اہ کی ا ج ائے۔ اس ط ریقے کی م دد س ے بچ وں میں تجس س اور‬
‫دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔‬
‫مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل ک و زی ادہ س ے زی ادہ دلچس پ بنان ا ض روری ہے۔ دلچس پی‬
‫صرف لطیفوں یا مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچس پی اس وقت پی دا ہ وتی ہے جب بچہ اپ نے درس‬
‫میں خود پوری طرح شریک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت ک و ح ل ک ر کے‪ ،‬س واالت کے ج واب‬
‫تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر کے مس رت بھ ری کامی ابی ک و محس وس کرت ا ہے۔اس‬
‫منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس ک ا عم ل دو ط رفہ اور عملی ن وعیت ک ا ہ و۔ یہ اس تاد‬
‫سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ بہأو کا نام نہ بن جائے‪ ،‬جیسا کہ عملی طور پر ہمارے ہ اں‬
‫رائج ہے‬
‫‪ANS 04‬‬
‫پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کی تربیت کے لیے نصاب کو اس طور پر تش کیل دی ا ج ائے کہ اخالقی‪،‬‬
‫دینی اور تہذیبی مقاص د بھی بے ش ک پیش نظ ر رہیں لیکن ان کی ن وعیت ض منی رہے۔ اردو ک ا نص اب‬
‫مرتب کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل مقصد زبان کی تدریس ہے۔ اس مقصد کے ل یے نص اب‬
‫کو نہایت ذہانت اور فن کارانہ حس تناسب کے استعمال سے م رتب ک رنے کی ض رورت ہے۔ نص اب اس‬
‫طرح وضع کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے والی نصابی کتب مطلوبہ نتائج پی دا ک رنے‬
‫کی پابند ہو جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات درج ہ وں۔ مثالً یہ کہ پ ڑھ‬
‫کر عبارت کی درست تفہیم کے لیے جو تحریری ٹکڑے منتخب ک یے ج اتے ہیں ان میں بچ وں کی عم ر‪،‬‬
‫ذوق‪ ،‬استعداد اور دلچسپی کو تو مد نظر رکھا ہی جاتا ہے لیکن زبان کی چاشنی اور اثر انگیزی کے پہلو‬
‫کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحسین کے عمل کو جزو ِ نصاب بنای ا ج ائے۔‬
‫غیر ضروری طوالت اور پھسپھسی‪ ،‬بے جان عبارتوں سے گری ز ک ر کے‪ ،‬اردو کے ن ئے پ رانے عظیم‬
‫اور معتبر انشا پردازوں کی تحریروں کے ٹکڑے پیش ک یے ج ائیں جن کے معن وی اور ف نی پہل ؤوں کی‬
‫تفہیم و تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے اور اس مقصد کے لیے خود اساتذہ کو بھی نہ ایت واض ح‬
‫ہدایات دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ بچے عبارت کو پڑھ ک ر اس کے مرک زی نک تے‬
‫یا نکات کو سمجھ لیں اور پھر اسے اپ نے الف اظ میں بی ان بھی ک ر س کیں۔ ابت دا میں طوی ل عب ارتوں کے‬

‫‪10‬‬
‫بجائے مختص ر اقتباس ات کے ذریعے مش ق کروان ا اہم ہوت ا ہے جس میں بی ک وقت بہت س ی ب اتوں کے‬
‫بجائے ایک ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مش ق ک ا ٓاغ از خ وش خطی اور پھ ر امال س ے ہون ا چ اہیے۔ پہلے‬
‫حروف کی درست نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خ واہ وقت‬
‫مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نت ائج حاص ل ہ و س کتے ہیں۔‬
‫اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال‬
‫کی جا سکتی تھیں‪ ،‬ماں باپ پر مالی ب وجھ بھی نہیں پڑت ا تھ ا اور بچے تخ تی دھ ونے اور س کھانے کے‬
‫عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے گیت گ ا ک ر کھی ل اور‬
‫تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدی د تدریس ی مہ ارتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر نص اب س ازی کی‬
‫جائے تو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے‬
‫یعنی تصویر کو دیکھ کر عنوان لکھنا‪ ،‬تصویری کہانیاں لکھنا‪ ،‬نامکم ل جمل وں ک و مکم ل کرن ا اور پھ ر‬
‫بتدریج خاکے کی مدد سے کہ انی ی ا مض مون لکھن ا وغ یرہ۔ یہ ت و محض چن د اش ارے ہیں۔ اس ن وع کی‬
‫درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور افکار و خی االت ک و مرب وط ان داز میں بی ان‬
‫کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کے ل یے وقت اور‬
‫توجہ صرف کی جائے۔‬
‫ان چ اروں مہ ارتوں کی ت ربیت کے عالوہ زب ان کے قواع دی نک ات س ے ٓاش نائی پی دا کرن ا بھی انتہ ائی‬
‫ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے لیے رائج استخراجی ط ریقے کے بج ائے اس تقرائی ط ریقے پ ر عم ل‬
‫مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی‬
‫طور پر وہی پرانا ط ریقہ رائج ہے جس کے تحت پہلے تع ریفیں ی اد ک روا دی ج اتی ہیں اور پھ ر ان کی‬
‫مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے‬
‫بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف س ے ٓاگ اہ کی ا ج ائے۔ اس ط ریقے کی م دد س ے بچ وں میں تجس س اور‬
‫دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔‬
‫مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل ک و زی ادہ س ے زی ادہ دلچس پ بنان ا ض روری ہے۔ دلچس پی‬
‫صرف لطیفوں یا مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچس پی اس وقت پی دا ہ وتی ہے جب بچہ اپ نے درس‬
‫میں خود پوری طرح شریک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت ک و ح ل ک ر کے‪ ،‬س واالت کے ج واب‬

‫‪11‬‬
‫تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر کے مس رت بھ ری کامی ابی ک و محس وس کرت ا ہے۔اس‬
‫منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس ک ا عم ل دو ط رفہ اور عملی ن وعیت ک ا ہ و۔ یہ اس تاد‬
‫سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ بہأو کا نام نہ بن جائے‪ ،‬جیسا کہ عملی طور پر ہمارے ہ اں‬
‫رائج ہے۔‬
‫اصل بات یہ ہے کہ نصاب کیسا ہی عمدہ کیوں نہ ہو‪ ،‬اگر درسی کتاب نصاب کے مقاصد پورے نہ ک رتی‬
‫ہو تو نصاب بے کار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف درسی کتاب کیس ی ہی دلچس پ اور ک ارگر کی وں نہ ہ و‪،‬‬
‫اگر استاد میں ذہانت‪ ،‬تدریسی عمل سے دلچسپی اور تخلیقی صالحیت نہ ہو تو کتاب اپ نے مقاص د پ ورے‬
‫نہیں کرتی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ نصاب‪ ،‬کت اب اور اس تاد س ب کے ہ وتے ہ وئے مطل وبہ نت ائج‬
‫حاصل نہیں کیے جا سکتے اگر امتحانی نظام ان مقاصد سے ہم ٓاہن گ نہ ہ و جن کے ل یے نص اب تش کیل‬
‫دیا گیا ہے۔ جدید دنیا میں امتحان لینے کے خاصے غیر رس می ط ریقے رائج ہیں جن میں س ے بعض ت و‬
‫دیکھنے میں قطعی امتح ان معل وم نہیں ہ وتے لیکن وہ عملی ط ور پ ر بچ وں کی ک ارکردگی کی ٓازم ائش‬
‫کرتے ہیں اور تعلیم کو عملی زندگی سے ہم ٓاہنگ کرنےکی ضمانت دیتے ہیں۔‬
‫حقیقت تو یہ ہے کہ نصاب ہو‪ ،‬یا امتحان‪ ،‬اساتذہ ہوں یا طلبہ‪ ،‬جب تک حس ن نیت اور خل وص ک ار ش امل‬
‫ہو‪ ،‬سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔‬
‫‪ANS 05‬‬
‫نصاب اس طرح وضع کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے والی نصابی کتب مطل وبہ نت ائج‬
‫پیدا کرنے کی پابند ہو جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات درج ہ وں۔ مثالً‬
‫یہ کہ پڑھ کر عبارت کی درست تفہیم کے لیے جو تحریری ٹکڑے منتخب ک یے ج اتے ہیں ان میں بچ وں‬
‫کی عمر‪ ،‬ذوق‪ ،‬اس تعداد اور دلچس پی ک و ت و م د نظ ر رکھ ا ہی جات ا ہے لیکن زب ان کی چاش نی اور اث ر‬
‫انگیزی کے پہلو کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحس ین کے عم ل ک و ج زو ِ‬
‫نصاب بنایا جائے۔غیر ضروری طوالت اور پھسپھسی‪ ،‬بے جان عب ارتوں س ے گری ز ک ر کے‪ ،‬اردو کے‬
‫نئے پرانے عظیم اور معتبر انشا پردازوں کی تحریروں کے ٹکڑے پیش کیے ج ائیں جن کے معن وی اور‬
‫فنی پہلؤوں کی تفہیم و تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے اور اس مقص د کے ل یے خ ود اس اتذہ ک و‬
‫بھی نہایت واضح ہدایات دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا ج ائے کہ بچے عب ارت ک و پ ڑھ ک ر اس‬
‫کے مرکزی نکتے یا نکات کو س مجھ لیں اور پھ ر اس ے اپ نے الف اظ میں بی ان بھی ک ر س کیں۔ ابت دا میں‬

‫‪12‬‬
‫طویل عبارتوں کے بج ائے مختص ر اقتباس ات کے ذریعے مش ق کروان ا اہم ہوت ا ہے جس میں بی ک وقت‬
‫بہت سی باتوں کے بجائے ایک ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مش ق ک ا ٓاغ از خ وش خطی اور پھ ر امال س ے ہون ا چ اہیے۔ پہلے‬
‫حروف کی درست نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خ واہ وقت‬
‫مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نت ائج حاص ل ہ و س کتے ہیں۔‬
‫اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال‬
‫کی جا سکتی تھیں‪ ،‬ماں باپ پر مالی ب وجھ بھی نہیں پڑت ا تھ ا اور بچے تخ تی دھ ونے اور س کھانے کے‬
‫عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے گیت گ ا ک ر کھی ل اور‬
‫تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدی د تدریس ی مہ ارتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر نص اب س ازی کی‬
‫جائے تو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے‬
‫یعنی تصویر کو دیکھ کر عنوان لکھنا‪ ،‬تصویری کہانیاں لکھنا‪ ،‬نامکم ل جمل وں ک و مکم ل کرن ا اور پھ ر‬
‫بتدریج خاکے کی مدد سے کہ انی ی ا مض مون لکھن ا وغ یرہ۔ یہ ت و محض چن د اش ارے ہیں۔ اس ن وع کی‬
‫درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور افکار و خی االت ک و مرب وط ان داز میں بی ان‬
‫کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کے ل یے وقت اور‬
‫توجہ صرف کی جائے۔‬
‫ان چ اروں مہ ارتوں کی ت ربیت کے عالوہ زب ان کے قواع دی نک ات س ے ٓاش نائی پی دا کرن ا بھی انتہ ائی‬
‫ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے لیے رائج استخراجی ط ریقے کے بج ائے اس تقرائی ط ریقے پ ر عم ل‬
‫مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی‬
‫طور پر وہی پرانا ط ریقہ رائج ہے جس کے تحت پہلے تع ریفیں ی اد ک روا دی ج اتی ہیں اور پھ ر ان کی‬
‫مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے‬
‫بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف س ے ٓاگ اہ کی ا ج ائے۔ اس ط ریقے کی م دد س ے بچ وں میں تجس س اور‬
‫دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔‬
‫مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل ک و زی ادہ س ے زی ادہ دلچس پ بنان ا ض روری ہے۔ دلچس پی‬
‫صرف لطیفوں یا مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچس پی اس وقت پی دا ہ وتی ہے جب بچہ اپ نے درس‬
‫میں خود پوری طرح شریک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت ک و ح ل ک ر کے‪ ،‬س واالت کے ج واب‬

‫‪13‬‬
‫تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر کے مس رت بھ ری کامی ابی ک و محس وس کرت ا ہے۔اس‬
‫منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس ک ا عم ل دو ط رفہ اور عملی ن وعیت ک ا ہ و۔ یہ اس تاد‬
‫سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ بہأو کا نام نہ بن جائے‪ ،‬جیسا کہ عملی طور پر ہمارے ہ اں‬
‫رائج ہے۔‬
‫اصل بات یہ ہے کہ نصاب کیسا ہی عمدہ کیوں نہ ہو‪ ،‬اگر درسی کتاب نصاب کے مقاصد پورے نہ ک رتی‬
‫ہو تو نصاب بے کار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف درسی کتاب کیس ی ہی دلچس پ اور ک ارگر کی وں نہ ہ و‪،‬‬
‫اگر استاد میں ذہانت‪ ،‬تدریسی عمل سے دلچسپی اور تخلیقی صالحیت نہ ہو تو کتاب اپ نے مقاص د پ ورے‬
‫نہیں کرتی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ نصاب‪ ،‬کت اب اور اس تاد س ب کے ہ وتے ہ وئے مطل وبہ نت ائج‬
‫حاصل نہیں کیے جا سکتے اگر امتحانی نظام ان مقاصد سے ہم ٓاہن گ نہ ہ و جن کے ل یے نص اب تش کیل‬
‫دیا گیا ہے۔‬

‫‪14‬‬

You might also like