You are on page 1of 55

‫‪i‬‬

‫انتساب‬

‫میں اپنی اس اولین خدمت کو پیارے تم ام محس نین کی‬


‫طرف منسوب کرتا ہوں جن میں س ر فہرس ت آق ائے م دنی‬
‫محبوب س بحانی ‪ ،‬رحمت للع المین کی ذات ب ا ب رکت ہیں ‪،‬‬
‫جن کے احسانات سے ایک میں کیا پ وری انس انیت گ راں‬
‫ہارہے۔‬
‫آپﷺ کے بع د مخلوق ات میں ع اجز کے س ب س ے‬
‫ب ڑے محس ن اس کے وال دین ہیں اور اس اتذہ اور دوس ت‬
‫احب اب ہیں جن ک ا پ وری زن دگی کوش ش کے ب اوجود کے‬
‫احسانات کا ب دلہ نہیں دیاجاس کتا ‪،‬ان کی فک روں ‪ ،‬دع اؤں‬
‫اور جہات ہی کا یہ پھل ہے کہ آج بندے نے ایک علمی ک ا‬
‫م اپنی بساط کے مطابق انجام دیا۔‬
‫‪ii‬‬

‫تصدیق مشرف‬

‫دستخط __________‬
‫‪3‬‬

‫مقدمہ‬
‫‪4‬‬

‫فہرست‬
‫ف ن‬
‫ص حہ مب ر‬ ‫موضوعات‬

‫ب اب‪ : 01‬امام صاحب کا تعارف‬

‫فصل ‪ :01‬ابو حنیفہ سے متعلق بشارت‬


‫شجر ہ نسب ‪7‬‬
‫فصل ‪ :02‬مولدومدفن ‪8‬‬
‫ابتدائی زندگی‪11‬‬
‫ابو حنیفہ کی تابعیت ‪14‬‬
‫فصل ‪ :03‬امام کا سفر‪15‬‬
‫اساتذہ‪15‬‬
‫تالمذہ‪16‬‬
‫حلیہ واخالق‪16‬‬
‫طبقہ امام اعظم‪18‬‬
‫فصل ‪:04‬تحصیل علم‪18‬‬
‫ماخذعلم ‪19‬‬
‫اصول وعقائد‪20‬‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ث‬
‫م‬ ‫س‬
‫ب اب‪ : 02‬کت اب اآل ار کاا لوب و ہج اور صوص ی ات‬
‫فصل ‪ :01‬محد ثین کی نظروں میں امام اعظم ؒ کی ثقاہت‪20‬‬
‫فقہ خنفی کا امتیاز‪21‬‬
‫امام اعظ مکاعلمی پایہ‪24‬‬
‫علم فقہ انتخاب ‪24‬‬
‫فصل ‪ :02‬محدثین کو امام صاحب ؒ سے وجہ نکارت‪27‬‬
‫اہم تصانیف‪32‬‬

‫ف‬ ‫ث‬
‫ب اب ‪ :03‬کت اب اآل ار واب و حن ی ہ‬
‫‪33‬‬ ‫فصل ‪ :01‬فقہ‬
‫دیگر تصانیف‪34‬‬
‫فقہ حنفی‪34‬‬
‫مقام فقہ حنفی‪35‬‬
‫حق گوئی‪36‬‬
‫عظمت ابو حنیفہ‪36‬‬
‫‪5‬‬

‫وفات‪36‬‬
‫حضرت امام ابو حنیفہ اور علم حدیث ‪37‬‬
‫ضروری تجزیہ‪37‬‬
‫فصل ‪ :02‬اولیں درس گاہ اور حدیث کیلئے سفر‪37‬‬
‫شرف تابعیت‪38‬‬
‫نصاب تعلیم‪38‬‬
‫علم حدیث میں سبقت‪38‬‬
‫آپ کی محدثیت اور مہارت حدیث پر شہادتیں‪39‬‬
‫حافظ حدیث ہو نے پر شہادتیں‪40‬‬
‫امام صاحب اور جرح وتعدیل‪40‬‬
‫کثیر الحدیث ہو نے پر شہادتیں ‪40‬‬
‫آپ امام بخاری کے ہم پلہ ہیں‪41‬‬
‫ت روایت کے اسباب ‪42‬‬ ‫قل ِ‬
‫اہل الرائے اور اہل حدیث‪43‬‬
‫عظمت حدیث کی دلیل‪44‬‬
‫محد ثین حنفی کے سایے میں‪44‬‬

‫ت‬
‫صف‬
‫فصل‪ :03‬آ پ کی ن ی ات ‪45‬‬
‫مسانید‪45‬‬

‫سترہ حدیث اور ابن خلدون‪46‬‬


‫پس منظر اور حقیقت‪46‬‬
‫آخری بات‪47‬‬
‫حدیث کی قدیم ترین صحیح کتاب‪48‬‬
‫کتاب کا علمی مقام‪49‬‬
‫امام ابو حنیفہ سے منسوب کتب احادیث‪49‬‬
‫جامعین کتاب اآلثار‪50‬‬
‫ترتیب وتبویب‪50‬‬
‫امتیازات‪51‬‬
‫اصول وشرائط‪51‬‬
‫مشہور نسخے‪52‬‬
‫کتاب اآلثا کے مصنف اور مشہور نسخوں میں سے ایک نسخہ کا تعارف ‪53‬‬
‫آپ کے شیوخ حدیث‪53‬‬
‫کتاب اآل ثار پر محدثین کرام کاکام ‪56‬‬
‫محدثین کا کتاب اآلثار کی روایات سے کثرت سے دلیل پکڑنا‪56‬‬
‫حوالے‪56‬‬
‫‪6‬‬

‫ب اب‪:‬اول‬
‫امام صاحب کا تعارف‬
‫ابو حنیفہ سے متعلق بشارات‬
‫امام ابو حنیفہ کے فضائل و مناقب میں شیخ‪ ‬جالل الدین سیوطی‪( ‬شافعی‪ -‬مقلد) (‪-849‬‬
‫‪911‬ھ) اپنی کتاب)التبييض الصحيفه في مناقب اإلمام أبي حنيفه(میں تسلیم کیا ہے کہ اس‬
‫پیشین گوئی کے بڑےمصداق امام اعظم ابو حنیفہ نعمان ہیں۔‬
‫القرآن اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ‪ ‬اور لوگوں‪ ‬کو لے آئے گا اور وہ‬
‫تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے‬
‫حدیث میں ہے‪ ‬صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم! وہ‬
‫دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔‪ ‬آپ صلی ہللا علیہ و آلہ و سلمنےسلمان‬
‫فارس‪ ‬پر ہاتھ رکھ کر فرمایا‪ :‬اس کی قوم اور فرمایا‪ :‬خدا کی قسم اگرایمان‪ ‬ثریا‪ ‬پر جا‬
‫پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار الئیں گے‬
‫اور (اس رسول کی بعثت)‪ ‬دوسرے لوگوں‪ ‬کے لیے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں) سے‬
‫نہیں ملے۔‬
‫حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی ہللا علیہ وآلہ و سلم سے ( َّو ٰا َخ ِري َْن ِم ْنهُ ْم لَ َّما يَ ْل َحقُ ْوا بِ ِه ْم‬
‫ۭ َوهُ َو ْال َع ِز ْي ُز ْال َح ِك ْي ُم) ‪63‬۔ الجمعہ‪ )3:‬کی نسبت سوال کیا گیا تو‪ ‬سلمان فارسی‪ ‬کے شانہ پر‬
‫ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر‪ ‬علم‪ ‬یا (فرمایا)‪ ‬دین‪ ‬ثریا‪ ‬پر جا پہنچے گا تو اس کی قوم فارس‬
‫کامردوہاں سے بھی لے آئے گا۔‬

‫شجرہ نسب‬
‫اعظم کا شجرۂ نسب اس طرح نقل کیا ہے ابو حنیفہ النعمان‬‫ؒ‬ ‫مورخ ابن خلکان نے امام‬
‫اورزوطی کو زاء کے پیش اورطا کے زبر اورآخر میں یاء‬
‫ٰ‬ ‫بن ثابت بن ُز ْو ٰ‬
‫طی بن ماہ‬
‫مقصورہ کے ساتھ ضبط کیا ہے‪،‬لیکن امام صاحب کے پوتے نے جو شجرۂ نسب اپنے دادا‬
‫کا خو دبیان کیا ہے وہ اس طرح ہے اسمعیل بن حماد بن النعمان بن ثابت بن النعمان بن‬
‫‪7‬‬

‫المرزبان عالمہ شبلی کا خیال یہ ہے کہ جب زوطی اسالم الئے ہوں گے تو ان کا نام نعمان‬
‫رکھ دیا گیا ہوگا اس لیے جب اسمعیل نے اپنا شجرہ نسب بیان کیا تو اپنے دادا کو اسالمی‬
‫نام ہی کا ذکر کیاہے۔ صحیح روایات کی بناء پر یہ طے شدہ ہے کہ امام صاحب کے والد‬
‫ماجد کی والدت اسالم ہی پر ہوئی ہے‪،‬خطیب بغدادی نے جو کچھ اس کے خالف لکھا ہے‬
‫وہ محض بے اصل اوران کے مشہور تعصب پرمبنی ہے‪،‬غالبا ً اسی خیال کی تائید کے‬
‫ب ذیل روایت بھی نقل کی ہے۔ کان ابو حنیفۃ اسمہ عتیک بن زوطرۃ‬ ‫لیے انہوں نے حس ِ‬
‫فسمی نفسہ النعمان واباہ ثابتا ً ابو حنیفہ کا نام عتیک اوران کے والد کا زوطرۃ تھا پھر انہوں‬
‫نے اپنا نام نعمان اوراپنے والد کا ثابت بدل دیا تھا اس کا راوی اساجی مختلف فیہ ہونے‬
‫کے عالوہ مشہور متعصب ہے تاہم اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو غالبا ً ثابت کو‬
‫زوطرۃ ان کے والد زوطی کی مناسبت سے کہا گیا ہوگا۔‬
‫ہمارے نزدیک نام ونسب کے فیصلہ کے لیے نسب سے زیادہ معتبر شہادت خود اہل‬
‫خاندان ہی کی ہوسکتی ہے لہذا یہاں اسمعیل کے بیان کے خالف جو بیانات بھی ہیں وہ سب‬
‫قابل توجہ ہوں گےاسمعیل یہ بھی نقل فرماتے ہیں کہ ہمارے پردادا ثابت زمانہ‬ ‫مرجوح یا ِ‬
‫طفولیت میں حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے آپ نے اُن کے اوران کی‬
‫اوالد کے حق میں دعاء برکت فرمائی تھی اورہمیں امید ہے کہ ان کی یہ دعاء ہمارے حق‬
‫میں ضرور قبول ہوئی ہوگی‪،‬وہ کہتے ہیں کہ ثابت کے والد نعمان وہی ہیں جو حضرت‬
‫اعظم کے‬
‫ؒ‬ ‫علی کی خدمت میں ھدیہ لیکر حاضر ہوئے تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام‬ ‫ؓ‬
‫علی سے ہمیشہ خاص تعلق رہا ہے اوراسی بنا پر انہوں نے ثابت‬ ‫خاندان کو حضرت ؓ‬
‫اوران کی اوالد کے لیے خصوصیت سے دعافرمائی ہوگی‪ ،‬اسمعیل یہ بھی بیان کرتے ہیں‬
‫کہ ہم فارسی النسل ہیں‪ ،‬ہمارے باپ دادا سب آزاد لوگ تھے اس کے بعدقسم کھاکر کہتے‬
‫ہیں‪ :‬وہللا ما وقع علینا رق قط خدا کی قسم ہے غالمی کی ذلت میں ہم کبھی مبتالء نہیں‬
‫ہوئے۔‬
‫اُن کے اس تاکیدی بیان سے اس غلط شہرت کی تردید ہوتی ہے جو امام صاحب کے‬
‫اعظم‬
‫ؒ‬ ‫دادا کے متعلق پیدا ہوگئی تھی کہ وہ بنی تیم ہللا کے آزاد کردہ غالم تھے‪،‬اسمعیل امام‬
‫کے پوتے ہیں‪،‬اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کو اپنے دادا کے حاالت کی بھی پوری‬
‫تحقیق نہ ہوگی‪،‬اسالمی عہد میں رقیۃ کی غلط فہمی پیدا ہوجانا وہ بھی عجم کے نسب میں‬
‫کچھ بعید نہیں ہے اور واقعہ کی حقیقت منکشف ہوجانے کے بعد غلط فہمیوں کے اسباب‬
‫بیان کرنے کی مفت درد سری اٹھانا بھی غیر ضروری ہے‪،‬ہمارے نزدیک اس افواہ کو‬
‫اعظم سے رقابت کے سلسلہ‬ ‫ؒ‬ ‫شہرت دینے میں بہت بڑا دخل اس خلش کو بھی ہے جو امام‬
‫میں بعض علماء کو پیدا ہوگئی تھی‪ ،‬عالمہ کوثری نے مشکل اآلثار کی ایک روایت کی‬
‫مولی حلیف کے معنی میں کہا گیا تھا‪،‬اگر بالفرض‬ ‫ٰ‬ ‫مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کو‬
‫تاریخ سے صحیح طور پر آپ کا اوال ِد موالی ہونا ثابت ہوجاتا تو اسالمی نقطۂ نظر سے یہ‬
‫اتنا بڑا عیب بھی نہ تھا جس کی مدافعت کرنا ہمارے لیے ضروری ہوتا لیکن افسوس یہ‬
‫ہے کہ عصبیت کی آنکھ جب خشم آلود ہوجاتی ہے تو وہ کوئی ہنر اپنے حریف میں دیکھنا‬
‫پسند نہیں کرتی۔‬
‫‪8‬‬

‫مولد ومدفن‬
‫آپ کی پیدائش کوفہ میں اوروفات بغداد میں ہوئی ہے‪،‬علمی پایہ کے لحاظ سے کوفہ‬
‫ہمیشہ ممتاز شہر رہا ہے‪ ،‬عالمہ کوثری نے نصب الرایہ کے مقدمہ میں اس کی مختصر‬
‫تاریخ لکھی ہے ہم اس کا خالصہ یہاں درج کرتے ہیں۔ کوفہ ایک اسالمی شہر ہے جو عہ ِد‬
‫فاروقی ‪۱۷‬ھ میں بحکم امیر المومنین تعمیر کیا گیا تھا‪،‬اس کے ارد گرد فصحاء عرب‬
‫ؓ‬
‫مسعود‬ ‫ابن‬
‫بسائے گئے اوران کے تعلیمی نظم ونسق کے لیے سرکاری طور پر حضرت ِ‬
‫عمر نے اہ ِل کوفہ کو یہ‬ ‫کو بھیجا گیا‪،‬ان کی علمی منزلت اس سے ظاہر ہے کہ حضرت ؓ‬
‫مسعود کی مجھے یہاں خود بھی ضرورت تھی لیکن تمہاری ضرورت کو‬ ‫ؓ‬ ‫لکھا تھا کہ ابن‬
‫مقدم سمجھ کر تمہاری تعلیم کے لیے ان کو بھیج رہا ہوں‪،‬انہوں نے یہاں بیٹھ کر عہ ِد‬
‫عثمان کے آخری دور تک لوگوں کو قرآن پاک اوردین کے مسائل کی تعلیم دی‪،‬ان کی‬ ‫ؓ‬
‫تعلیمی جدوجہد کا یہ نتیجہ ہوا کہ بعض محدثین کے بیان کے مطابق اس نوآباد شہر میں‬
‫علی کوفہ میں داخل ہوئے تو‬ ‫ہوگئے‪،‬حتی کہ جب حضرت ؓ‬ ‫ٰ‬ ‫چار ہزار علماء ومحدثین پیدا‬
‫مسعود کا بھال کرے انہوں نے‬ ‫ؓ‬ ‫ابن‬
‫تعالی ِ‬
‫ٰ‬ ‫علم کی یہ شان دیکھ کر بے ساختہ بول اٹھے‪،‬ہللا‬
‫ت موجودہ ہی کیا کم تھا کہ اس مدینۃ العلم کی‬ ‫تو اس بستی کو علم سے بھردیا کوفہ بحال ِ‬
‫عباس کے علوم کا‬‫ؓ‬ ‫آمدنے اُسے اور چار چاند لگادیئے‪ ،‬ایک سعید بن جبیر تنہا یہاں اب ِن‬
‫ایسا نسخہ موجود تھے کہ جب کوفہ والے اُن کے پاس کوئی ٰفتوی پوچھنے جاتے تو وہ‬
‫فرماتے کیا تمہارے یہاں سعید بن جبیر موجود نہ تھے یعنی ان کے ہوتے ہوئے یہاں آنے‬
‫کی کیا ضرورت تھی۔‬
‫عمر جب ان کو مغازی پر بحث کرتے‬ ‫شعبی کے علم کا یہ عالم تھا کہ حضرت اب ِن ؓ‬ ‫ؒ‬
‫ہوئے دیکھتے تو فرماتے میں ان غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک رہ چکا ہوں‬
‫مگر ان کی یاداشت ان کو مجھ سے بھی زیادہ ہے۔ ابراہیم نخعی کا تو کہنا ہی کیا ہے‪،‬اب ِن‬
‫اہل نقد کے نزدیک ان کے سب مراسیل صحیح سمجھے جاتے‬ ‫عبدالبر کہتے ہیں کہ ِ‬
‫عائشہ وغیرہ کا زمانہ پایا ہے ابو عمران نے‬ ‫ؓ‬ ‫خدری اورحضر ت‬ ‫ؓ‬ ‫ہیں‪،‬انہوں نے ابو سعید‬
‫اُن کو اپنے زمانہ کے تمام علماء سے افضل کہا ہے ‪۹۵‬ء میں جب ان کی وفات ہوئی تو‬
‫ابو عمران نے ایک شخص سے کہا آج تم نے سب سے زیادہ فقیہ شخص کو دفن کردیا‪،‬اس‬
‫بصری سے نہیں ؛بلکہ‬ ‫ؒ‬ ‫بصری سے بھی زیادہ انہوں نے کہا ایک حسن‬ ‫ؒ‬ ‫نے کہا کیا حسن‬
‫تمام اہل بصرہ ‪،‬اہل کوفہ‪،‬اہل شام اوراہل حجاز سے بھی۔‬
‫شعبی کہا کرتے تھے کہ ابراہیم فقہ کے گہوارہ میں تو پیدا ہی ہوئے تھے‪،‬اس کے‬
‫بعد وہ ہمارے پاس آئے اور ہماری وہ حدیثیں جو بے غبار تھیں اپنی فقہ میں شامل کرکے‬
‫اپنے ساتھ لے گئے۔ مسروق جو کبار تابعین میں ہیں فرماتے ہیں آنحضرتﷺ کے صحابہ‬
‫کا خالصہ میں نے ان چھ اشخاص میں دیکھا‪ ،‬علی‪،‬عبدہللا بن مسعود‪،‬عمر‪،‬زید بن‬
‫ثابت‪،‬ابوالدرداء اورابی بن کعب رضی ہللا تعالی عنہم پھر نظر ڈالی تو ان سب کے علم کا‬
‫جبل نے جو زبا ِن رسالت سے اعلم‬ ‫خالصہ پہلے دو شخصوں میں پایا ‪،‬حضرت معاذ بن ؓ‬
‫بالحالل والحرام کا تمغہ حاصل کرچکے تھے اپنے خاص شاگرد عمرو بن میمون کو حکم‬
‫‪9‬‬

‫مسعود کی خدمت میں کوفہ جاؤ۔ کوفہ کی‬ ‫ؓ‬ ‫ابن‬


‫تحصیل علم کے لیے تم حضرت ِ‬ ‫ِ‬ ‫دیا تھا کہ‬
‫علمی قدرومنزلت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مصر میں آنے والے صحابہ کی تعداد‬
‫محمد بن ربیع جیزی اورسیوطی تین سو سے زیادہ پیش نہیں کرسکے‪ ،‬اس کے بالمقابل‬
‫صرف ایک کوفہ میں عجلی پندرہ ‪ ۱۵۰۰‬سو صحابہ کا قیام لکھ رہے ہیں‪ ،‬جن میں ستر‬
‫‪ ۷۰‬صحابہ بدری تھے‪،‬عراق کے بقیہ شہروں میں بسنے والے صحابہ کا ابھی ذکر نہیں‬
‫ہے(اوریہ تعداد بھی کم ہے ورنہ جو مقام مرکزی چھاؤنی بنادیا گیا ہو معلوم نہیں کہ وہاں‬
‫کتنے اورصحابہ کا گذر ہوا ہوگا)رامہرمزی اپنی کتاب الفاصلمیں قابوس سے نقل فرماتے‬
‫ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ کیا بات ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو‬
‫ؓ‬
‫مسعود کے شاگرد تھے‪،‬فرمایا اے جا ِن‬ ‫ابن‬
‫چھوڑ کر علقمہ کے پاس جایا کرتے ہیں‪،‬یہ ِ‬
‫صحابہ کو خود ان کے پاس مسائل دریافت‬‫ؓ‬ ‫پدر بات یہ ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے‬
‫کرنے کے لیے آتا دیکھتا ہوں‪،‬شریح جو یہاں کے قاضی تھے اُن کے حق میں حضرت‬
‫علی کا یہ ارشاد ہے‪،‬اے شریح اٹھو اورفیصلہ کرو کیونکہ تم عرب میں سب سے بڑھ کر‬ ‫ؓ‬
‫قاضی ہو‪،‬ان کے عالوہ تینتیس ‪ /۳۳‬اشخاص یہاں اور بھی ایسے موجود تھے جو صحابہ‬
‫فتوی سمجھے جاتے تھے۔‬ ‫ٰ‬ ‫ب‬
‫کی موجود گی میں اربا ِ‬
‫اس دور کے بعد دوسرا دوران حضرات کے تالمذہ کا شروع ہوتا ہے ان کا عدد بھی‬
‫ہزاروں سے متجاوز تھا‪،‬امام ابوبکر جصاص لکھتے ہیں کہ دیر جما جم میں حجاج سے‬
‫جنگ کرنے کے لیے ایک عبدالرحمن بن االشعث کے ساتھ جو جماعت نکلی تھی اس میں‬
‫چار ہزار کی تعداد صرف قراء تابعین کی تھی‪،‬رامہرمزی انس بن سیرین سے نقل کرتے‬
‫ہیں جب میں کوفہ پہنچا تو اس وقت وہاں چار ہزار حدیث کے طلبہ اورچار سو فقہا ء‬
‫موجود تھے(یہ عفان بن مسلم‪ ،‬امام احمد اوربخاری وغیرہ کے شیخ ہیں‪،‬علی بن مدینی ان‬
‫کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی عادت تھی کہ اگر حدیث کے کسی حرف میں ان کو‬
‫ذراشبہ پڑجاتا تو اسے سرے سے ترک کردیا کرتے تھے(تقریب)اب اندازہ فرمائیے کہ‬
‫جب اس سخت شرط کے ساتھ پچاس ہزار حدیثوں کا ذخیرہ ان کو کوفہ میں مل سکتا ہے‬
‫تو‪،‬حدیث کے لحاظ سے کوفہ کا مرتبہ کیا ہوگا)نیز عفان بن مسلم سے ناقل ہیں کہ جب ہم‬
‫کوفہ پہنچے تو ہم نے وہاں صرف چار ماہ اقامت کی‪،‬حدیث کا وہاں یہ چرچا تھا کہ اگر ہم‬
‫ایک الکھ حدیثیں لکھنا چاہتے تو لکھ لیتے مگر ہم نے صرف پچاس ہزار حدیثیں ہی پر‬
‫اکتفاء کیا اورصرف وہی حدیثیں جمع کیں جو جمہور کے نزدیک مسلم تھیں انتہی‪،‬اسی‬
‫ب حدیث کے لیے کوفہ کا سفر کرنا ناگزیر ہوگیا تھا‪ ،‬اگر‬ ‫لیے مسلم ائمہ وحفاظ کو بھی طل ِ‬
‫آج بھی آپ رجال کی کتابیں کھول کر بیٹھیں تو ہزاروں راوی آپ کو کوفہ کے نظر آئیں‬
‫ہیں‪،‬حتی کہ خود امام‬
‫ٰ‬ ‫گے‪ ،‬جن کی روایات سے صحیین اور غیر صحیحین بھری پڑی‬
‫بخاری فرماتے ہیں میں شمار نہیں کرسکتا کہ حدیث حاصل کرنے کے لیے کتنی بار کوفہ‬ ‫ؒ‬
‫گیا ہوں۔‬
‫مہبط وحی ہونے کا فخر حاصل تھا تو کوفہ ہزاروں‬ ‫ِ‬ ‫خالصہ یہ ہے کہ مدینہ کو اگر‬
‫صحابہ کے مرجع ومسکن ہونے کا بجا فخر حاصل تھا‪،‬یہی وجہ ہے کہ محدثین کو دیگر‬
‫اہل کوفہ کا تعامل بھی بڑی اہمیت سے نقل کرنا پڑا ہے‪،‬یہاں تک کہ‬ ‫بال ِد اسالمیہ کے ساتھ ِ‬
‫‪10‬‬

‫امام ترمذی نے فقہ کا کوئی باب کم چھوڑا ہے جہاں اعتنا کے ساتھ اہ ِل کوفہ کا مذہب نقل‬‫ِ‬
‫حنیفہ کا مولد اوران کا علمی گہوارہ جس کے آغوش میں رہ کر‬
‫ؒ‬ ‫نہ کیا ہو۔ یہ ہے امام ابو‬
‫ان کی علمی پرورش ہوئی ہے کون کہہ سکتا ہے کہ جو فقہ اس سرزمین میں مدون کی‬
‫سر موبھی کتاب وسنت سے تجاوز کرسکتی ہے۔‬ ‫گئی ہو وہ ِ‬
‫ابتدائی زندگی‬
‫آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم‪ ‬امام اعظم‪ ‬کے لقب‬
‫سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز‬
‫ہیں۔ اسالمی فقہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسالً عجمی تھے۔ آپ کی‬
‫پیدائش‪ ‬کوفہ‪ ‬میں ‪ 80‬ھ بمطابق‪699 ‬ء‪ ‬میں ہوئی سنہ وفات ‪150‬ھ ہے۔ ابتدائی ذوق والد‬
‫ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن ہللا نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا‪ٰ ،‬لہذا‬
‫تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس‬
‫سال کی عمر میں ٰ‬
‫اعلی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔‬
‫تقوی فہم و فراست اور‬ ‫ٰ‬ ‫آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و‬
‫حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں ‪ 7‬ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔‬
‫‪ 45‬سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں‪ ،‬رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن‬
‫حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ دن کو علم پھیالتے اور رات کو عبادت کرتے‪،‬‬
‫ان کی حیات مبارکہ کے التعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں‬
‫تقوی اور طہارت کے پہاڑ‬ ‫ٰ‬ ‫کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و‬
‫ہیں۔ ابو حنیفہ میانہ قد‪ ،‬خوش رو اور موزوں جسم کے مالک تھے۔ گفتگو نہایت شیریں‬
‫کرتے آواز بلند اور صاف تھی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ اکثر خوش لباس رہتے‬
‫تھے۔ سرکاری وظیفہ خواری سے دور رہے۔ حریت فکر‪ ،‬بے نیازی اور حق گوئی ان کا‬
‫حنیفہ ُخوش رو‪ُ ،‬خوش لباس‪ُ ،‬خوش‬ ‫ؒ‬ ‫امام اعظم ابو‪ ‬‬
‫طرہء امتیاز تھا۔فِقہ حنفی کے بانی‪ِ ،‬‬
‫مجلس‪ ،‬نہایت کریم النفّس اور اپنے رُفقاء کے بڑے ہمدرد تھے‪ٓ،‬اپ کی گفتگو نہایت‬
‫شیریں‪ٓ،‬اواز بڑی دل کش اور بڑے قادر الکالم تھے‪ُ ،‬خوشبوکا بکثرت استعمال کرتے‪ٓ،‬اپ‬
‫تاریخ بغداد‬
‫ِ‬ ‫کی نقل و حرکت کا اندازہ ُخوشبوکی مہک سے ہوجاتا تھا۔ (خطیب بغدادی؍‬
‫‪)330/13‬‬
‫ٓاپ نے م ّکہ‪ ،‬مدینہ‪ُ ،‬کوفہ‪ ،‬بصرہ غرض یہ کہ عراق و حجاز دونوں مقامات کی روایات کو‬
‫حاصل کیا‪،‬اور وہاںکے نام ور مح ّدثین‪ ،‬فُقہاء اور علما سے ُخوب علمی فیض حاصل کیا۔‬
‫اکابر صحابٔہ‬‫ِ‬ ‫مدینٔہ طیبّہ کو اگر مہب ِط وحی ہونے کا شرف اور فخر حاصل ہے تو ُکوفہ کو‬
‫کرام کا مرجع و مسکن ہونے کا بجا فخر حاصل ہے۔کون کہہ سکتا ہے کہ جو فقہ اس‬ ‫ؓ‬
‫سر مو بھی کتاب و ُسنّت‪ ،‬دین کی حقیقی رُوح اور‬ ‫سرزمین میں مد ّون کی گئی ہو‪ ،‬وہ ِ‬
‫اسالمی تعلیمات سے انحراف اور تجاوزکرسکتی ہے۔‬
‫‪11‬‬

‫صحابی‬
‫ِ‬ ‫ٓاپ کے اساتذہ میں خصوصیت کے ساتھ حضرت حمادؒ کا نام ٓاتا ہے‪ ،‬یہ مشہور‬
‫مسعود کے فقہی سلسلے اور ان کے علوم کی ٓاخری کڑی‬‫ؓ‬ ‫رسول‪ ،‬حضرت عبدہللا بن‬
‫ؐ‬
‫ابوحنیفہ حضرت حمادؒ کے خصوصی تربیت یافتہ اور علمی جانشین ثابت‬
‫ؒ‬ ‫تھے‪،‬امام اعظم‬
‫ِ‬
‫ہُوئے۔‬
‫ابوحنیفہ کے متعلق لکھتے‬
‫ؒ‬ ‫سمعانی امام‬
‫ؒ‬ ‫علم االنساب کے ماہر‪ ،‬نام ور تذکرہ نگار‪ ،‬عالّمہ‬
‫ب علم میں مشغول ہُوئے تو اس درجہ انہماک کے ساتھ کہ جس قدر علم اُنہیں‬ ‫ہیں‪’’،‬وہ طل ِ‬
‫علم‬
‫‪،‬ابن ماجہ اور ِ‬ ‫نعمانی ِ‬
‫ؒ‬ ‫حاصل ہُوا‪ ،‬دوسروںکو نہ ہوسکا۔‘‘ (بحوالہ موالناعبدالرشید‬
‫ؒ‬
‫یوسف کا بیان‬ ‫اعظم کے نام ور شاگرد‪ ،‬مشہور حنفی فقیہ‪ ،‬قاضی ابو‬ ‫ؒ‬ ‫)امام‬
‫حدیث ص‪ِ 166‬‬
‫حنیفہ‬
‫ؒ‬ ‫نبوی کی تشریح اور اس کے فقہی اسرار و رموزکا امام ابو‬ ‫ؐ‬ ‫ث‬
‫ہے کہ میں نے احادی ِ‬
‫حنیفہ‬
‫ؒ‬ ‫سے زیادہ جاننے واال نہیں دیکھا۔ اُن کا بیان ہے‪’’،‬بعض مسائل میں‪،‬میں نے امام ابو‬
‫ابوحنیفہ‬
‫ؒ‬ ‫سے اختالف کرکے ان میں غور کیا تو معلوم ہُواکہ ان کا مسلک ُدرست ہے‪ ،‬امام‬
‫صحیح حدیث کے بارے میں مجھ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔‘‘(صیمری‪ ،‬اخبار ابی‬
‫حنیفہ ۔ص‪)11‬‬
‫ؒ‬
‫نبوی کے تمام سرچشموں سے سیراب‬ ‫ؐ‬ ‫ث‬
‫ابوحنیفہ فق ِہ اسالمی کے ساتھ ساتھ حدی ِ‬
‫ؒ‬ ‫امام اعظم‬
‫ِ‬
‫علم حدیث میںگویا امامت کے درجے پر فائز تھے‪،‬ایک مرتبہ‬ ‫اور فیض یاب تھے‪ٓ،‬اپ ِ‬
‫عیسی‬
‫ٰ‬ ‫مشہور عبّاسی خلیفہ ابو جعفر منصورکے ہاں تشریف لے گئے‪ ،‬وہاں نام ور مح ّدث‬
‫ٰ‬
‫میںکرایا‪’’:‬ھذا عالم ال ّدنیا الیوم‘‘ ٓاج یہ رُوئے‬ ‫ابوحنیفہ کا تعارف ان الفاظ‬
‫ؒ‬ ‫ٰؒ‬
‫موسی نے امام‬ ‫بن‬
‫زمین کے سب سے بڑے عالم ہیں۔‪ ‬‬
‫اعظم‬
‫ؒ‬ ‫ہے؟امام‬
‫ِ‬ ‫اس پر ابو جعفر منصور نے سوال کیا کہ ٓاپ نے کس سے علم حاصل کیا‬
‫ب‬
‫علی کا علم اصحا ِ‬ ‫عمر سے‪ ،‬حضرت ؓ‬ ‫ب ؓ‬ ‫عمر کا علم اصحا ِ‬
‫نے جواب دیا‪’’ ،‬حضرت ؓ‬
‫عباس کا علم‬
‫ؓ‬ ‫ابن‬
‫مسعود سے‪،‬حضرت ِ‬‫ؓ‬ ‫ب اب ِن‬ ‫ؓ‬
‫مسعودکا علم اصحا ِ‬ ‫ابن‬
‫علی سے‪ ،‬حضرت ِ‬ ‫ؓ‬
‫عباس کے مقابلے میںکوئی ان سے بڑھ کر عالم نہ تھا۔‘‘‬ ‫ؓ‬ ‫ابن‬
‫عباس سے اور ِ‬ ‫ؓ‬ ‫ابن‬
‫ب ِ‬ ‫اصحا ِ‬
‫یہ سُن کر ابوجعفر منصور نے کہا‪ٓ’’،‬اپ نے بہت ہی معتبر اور مستند علم حاصل کیا‬
‫تاریخ بغداد ‪)334/13‬‬
‫ِ‬ ‫ہے۔‘‘(خطیب بغدادی؍‬
‫دام کا قول نقل کیا‬
‫ابوحنیفہ کے عہ ِد طالب علمی کے رفیق ِمسعر بن ِک ؒ‬
‫ؒ‬ ‫عالّمہ ؒ‬
‫ذہبی نے امام‬
‫علم حدیث حاصل کیا‪ ،‬تو وہ ہم پر غالب رہے‬‫حنیفہ نے ساتھ ساتھ ِ‬
‫ؒ‬ ‫ہے کہ’’میں نے اور ابو‬
‫اور ُزہد میں بھی وہ ہم پرفائق رہے۔ فقہ ان کے ساتھ شروع کی تو ہم دیکھتے ہیںکہ کیا‬
‫حنیفہ ص‪)27‬‬
‫ؒ‬ ‫ب ابی‬ ‫کمال ان سے ظاہر ہُوا۔(ذہبی؍مناق ِ‬
‫برّصغیرکے نام ور مح ّدث‪ ،‬ناقد اور علم اسماء ال ّرجال کے ماہرموالنا عبدالرشید‬
‫ابوحنیفہ کی مح ّدثانہ شان اور علمی جاللت کے متعلق لکھتے ہیں‪:‬۔یہ‬
‫ؒ‬ ‫امام اعظم‬
‫نعمانی ِ‬
‫ؒ‬
‫ث صحیحہ کی سب سے قدیم ترین‬ ‫ناقاب ِل تردید حقیقت ہے کہ ٓاج ُدنیائے اسالم میں احادی ِ‬
‫حنیفہ کی تالیف کردہ ’’کتاب آالثار‘‘ ہے‪ ،‬جسے امام موصوف نے‬ ‫ؒ‬ ‫امام اعظم ابو‬
‫کتاب ِ‬
‫‪12‬‬

‫ب فقہ پر‬‫ث احکام میں صرف صحیح اور معمول بہ روایات کا انتخاب فرماکر ابوا ِ‬ ‫احادی ِ‬
‫مرتّب کیا اور بعدکے ائ ّمہ اور مح ّدثین کے لیے ایک عمدہ نمونہ قائم فرمایا۔ چناں چہ‬
‫حنیفہ ‘‘ میں لکھتے‬
‫ؒ‬ ‫سیوطی ’’تبییض الصحیفہ فی مناقب االمام ابی‬
‫ؒ‬ ‫عالّمہ جالل الدین‬
‫حنیفہ کے ان خصوصی مناقب میں سے کہ جن میں وہ منفرد ہیں‪،‬ایک یہ‬ ‫ؒ‬ ‫ہیں‪’’،‬امام ابو‬
‫نبوی) کو مد ّون کیا‪،‬اور‬
‫ؐ‬ ‫ث‬
‫علم شریعت (احادی ِ‬‫بھی ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں‪ ،‬جنہوں نے ِ‬
‫مالک نے ’’موطّٔا‘‘ میں انہی کی پیروی کی اور اس‬ ‫ؒ‬ ‫اس کی ابواب پر ترتیب کی‪ ،‬امام‬
‫ابوحنیفہ پرکسی کو سبقت حاصل نہیں۔‘‘‬
‫ؒ‬ ‫بارے میں امام‬
‫ابوحنیفہ کو جو مقام حاصل ہُوا‪ ،‬وہ کسی اورکے‬ ‫ؒ‬ ‫امام اعظم‬
‫جب کہ فق ِہ اسالمی میں ِ‬
‫حصّے میں نہ ٓایا۔ٓاپ نے فق ِہ اسالمی کی ترتیب و تدوین میں جو عظیم ال ّشان اور قاب ِل فخر‬
‫رسول‪ ،‬حضرت عبدہللا‬ ‫ؐ‬ ‫صحابی‬
‫ِ‬ ‫محتاج بیان نہیں‪ ،‬فق ِہ حنفی کی بنیاد‬
‫ِ‬ ‫خدمات انجام دیں‪ ،‬وہ‬
‫علی کے فیصلوں‪ ،‬قرٓان و ُسنّت سے ماخوذ‬ ‫فتاوی‪ ،‬خلیفٔہ راشد حضرت ؓ‬ ‫ٰ‬ ‫ؓ‬
‫مسعود کے‬ ‫بن‬
‫فتاوی پر ہے۔ (شاہ ولی ہللا ؍ االنصاف فی‬ ‫ٰ‬ ‫تابعین و فُقہاء کے فیصلوں اور‬‫ؒ‬ ‫کرام اور‬
‫صحابٔہ ؓ‬
‫ابوحنیفہ نے جس قدر فقہی مسائل بیان کیے‪،‬اُن کی‬ ‫ؒ‬ ‫سبب االختالف)بیان کیا جاتا ہے کہ امام‬
‫اعظم کے فقہی مسلک کی ابتدائی نشوونما‬ ‫ؒ‬ ‫ہے۔امام‬
‫ِ‬ ‫تعداد بارہ الکھ ستّر ہزار سے زائد‬
‫دارالعلم و الفضالء ُکوفے میں ہُوئی۔ٓاپ کا فقہی مسلک‪ ،‬فق ِہ حنفی عہ ِد تدوین اورٓاغاز سے‬
‫ابوحنیفہ کی‬
‫ؒ‬ ‫ہی عالمگیر حیثیت اور شہرت و تداول کا حامل رہا ہے۔ فق ِہ حنفی کو امام‬
‫زندگی ہی میں اور وفات کے صرف ‪ 8‬برس بعد عمالً نفاذکے مواقع میسّر ٓائے۔ جس کی‬
‫یوسف کی‬‫ؒ‬ ‫اعظم کے فقہی ترجمان اور معروف حنفی فقیہ قاضی ابو‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫واضح ترین مثال ِ‬
‫ہے‪ ،‬جنہیں عہ ِد عبّاسی کے نام ور خلفاء کے عہ ِد خالفت میں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)‬
‫کا منصب حاصل تھااور تمام اسالمی قلمرو میں قضاۃ کا تقرّر اُن ہی کے دائرٔہ اختیار میں‬
‫ب قضاء‬ ‫ابوحنیفہ کے پچاس نام ور تالمذہ عبّاسی عہ ِد خالفت میں منص ِ‬ ‫ؒ‬ ‫تھا۔ چناں چہ امام‬
‫پر فائز رہے۔ اس لحاظ سے فق ِہ حنفی کو جو تداول‪،‬شہرت اور عمالً اشاعت کے مواقع‬
‫حاصل ہُوئے‪ ،‬وہ کسی اور فقہ یا مسلک کو حاصل نہ ہوسکے۔‬
‫ابوحنیفہ نے اپنا فقہی مسلک اپنے اصحاب اور نام ور حنفی فقہاء کے‬‫ؒ‬ ‫امام اعظم‬
‫ِ‬
‫درمیان مشاورت کے ذریعے مد ّون کیا تھا۔ وہ اپنی رائے پر اصرار نہیںکرتے تھے‪ ،‬بلکہ‬
‫مجلس بحث و تحقیق میں پیش ٓامدہ مسئلہ پیش کرکے شرکائے مجلس کی ٓاراء سُنتے اور‬ ‫ِ‬
‫اپنی رائے سُناتے تھے۔ بعض اوقات یہ علمی مباحثہ ایک ماہ سے بھی زیادہ دنوں تک‬
‫ؒ‬
‫یوسف اسے قلمبند‬ ‫جاری رہتا۔ یہاں تک کہ کسی رائے پر اتّفاق ہو جاتا اور امام ابو‬
‫االعظم ‪)133/2‬‬
‫ؒ‬ ‫کرلیتے۔ (موفق م ّکی؍ مناقب االمام‬
‫مجلس بحث و تحقیق کی تعداد ‪ 40‬بتائی‬
‫ِ‬ ‫ابوحنیفہ کی قائم کردہ اس فقہی کمیٹی یا‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫جاتی ہے۔ یہی اجتماعی اجتہاد اور شورائیت‪ ،‬فق ِہ حنفی کا امتیاز اور اس کی ُخصوصیت‬
‫ہے‪ ،‬جس کی وجہ سے اسالمی ُدنیاکی اکثریت اس کی اتباع کرتی ہے۔ قرٓان و ُسنّت نے‬
‫‪13‬‬

‫دینی اور فقہی مسائل کے حل کے لیے شورائیت اور اجتماعیت کا جو حکم دیا۔ وہ دراصل‬
‫اعظم کے فقہی مکتب کی بنیاد اور فق ِہ حنفی کی نُمایاں ترین ُخصوصیت ہے۔‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫ِ‬

‫ابو حنیفہ ؒ کی تابعیت‬


‫ابوحنیفہ نے صحابہ رضی ہللا عنہم کا آخری دور پایا ہے‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫کئی صحابہ رضی ہللا عنہم کی زیارت کا شرف حاصل کیاہے ۔‬
‫اور صحابہ رضی ہللا عنہم سے روایت بھی کی ہے ۔‬
‫حنیفہ کا‪ ‬حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ کو دیکھنے پر تو تمام علما کا اتفاق‬ ‫ؒ‬ ‫امام ابو‬
‫ہے ۔‬
‫قدوری ‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫جصاص ‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫المدینی ‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫جوزی ‪ ،‬ابو موسی‬
‫ؒ‬ ‫بیہقی ‪ ،‬ابن‬
‫ؒ‬ ‫بغدادی ‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫ابن سعدؒ ‪ ،‬خطیب‬
‫صیمری ‪،‬‬
‫ؒ‬
‫دمشقی ‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫عسقالنی ‪ ،‬ابن ناصر الدین‬
‫ؒ‬ ‫عراقی ‪ ،‬ابن حجر‬
‫ؒ‬ ‫عراقی ‪ ،‬زین‬
‫ؒ‬ ‫المزی ‪ ،‬ولی‬
‫ؒ‬ ‫نووی ‪،‬‬
‫ؒ‬
‫الہادی‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫ابن عبد‬
‫کے عالوہ ال تعداد ائمہ محدثین فقہا مؤرخین نے سیدنا انس بن مالک رضی ہللا کی زیارت‬
‫کا ذکر کیا ہے ۔‬
‫حافظ‪ ‬ذہبی‪ ‬لکھتے ہیں‪: ‬‬
‫” مولدہ سنۃ ثمانین رای انس بن مالک غیر‬
‫“‬ ‫مرۃ لما قدم علیہم الکوفۃ‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت امام کی پیدائش سنہ ‪80‬ھ میں ہوئی‪ ،‬آپ نے حضرت انس بن مالک (‪93‬ھ)‬
‫کو جب وہ کوفہ گئے تو کئی دفعہ دیکھا۔‬
‫البتہ حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت کرنے میں اختالف ہے ۔‬
‫لیکن دوسرے صحابی حضرت عبد ہللا بن حارث بن جزء الزبیدی رضی ہللا عنہ سے‬
‫صحیح سند سے روایت کرنا بھی ثابت ہے ۔‬
‫جو ان کتب میں موجود ہے ۔‬
‫البر‬
‫‪ -1‬جامع بیان العلم ‪ -‬ابن عبد ؒ‬
‫حنیفہ ‪ ،‬ابن المقرئ ؒ‬
‫ؒ‬ ‫‪ -2‬مسند ابی‬
‫حنیفہ ‪ ،‬ابو نعیم اصفہانی ؒ‬
‫ؒ‬ ‫‪ -3‬مسند ابی‬
‫الجعابی (بحوالہ مناقب موفق)‬
‫ؒ‬ ‫‪ -4‬االنتصار ‪،‬‬
‫‪14‬‬

‫وغیرہ کتب اور حضرت عبد ہللا بن حارث رضی ہللا عنہ کو دیکھنے کا ذکر ابن سعدؒ ‪،‬‬
‫البیہقی نے مدخل میں ‪ ،‬ابو موسی المدینی ؒ نے الرباعی فی التابعین میں ‪ ،‬ابن عبد البر ؒ نے‬
‫ؒ‬
‫استغنا فی الکنی میں بھی کیا ہے ۔‬
‫یہ تو دوسرے مسالک کے ائمہ کا ذکر ہے ‪ ،‬ورنہ ائمہ احناف کے تقریبا َ تمام فقہا ‪ ،‬محدثین‬
‫ابوحنیفہ کے صحابہ رضی ہللا عنہم کے دیکھنے اور اُن سے روایت‬ ‫ؒ‬ ‫‪ ،‬مورخین کا امام‬
‫کرنے پر اتفاق ہے ۔‬

‫امام اعظم‪ ‬کے سفر‬


‫بطور خاص سفر کیا۔‬
‫ِ‬ ‫امام اعظم‪ ‬نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا‬
‫آپ نے علم حدیث سب سے پہلےکوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے‬
‫تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے‪،‬‬
‫وہیں پڑھا‪ ،‬کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا‬
‫مقام‪ ‬حرمین شریفین‪ ‬کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام‪ ‬بصرہ‪ ‬تھا۔‬
‫امام ابو حنیفہ نے تقریبًا ‪ 4‬ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔‬

‫اساتذہ‬
‫علم االدب‪،‬علم االنساب اورعلم الکالم کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے‪ ‬امام‬
‫حماد‪ ‬کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقه كے عالم ہیں۔آپ کے شیوخ و اساتذہ‬
‫کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتا ً فوقتا ً اکتساب علم کرتے رہے۔‪ ‬امام‬
‫محمد باقراورامام جعفر صادق‪ ‬کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل ہے۔‬
‫امام ابوحنیفہ نے تقریبا ً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا‪ ،‬خود امام ابوحنیفہ کا قول ہے‬
‫کہ‬
‫” میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس‬
‫“‬ ‫سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو‬

‫آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے‬
‫حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان‬
‫علم کی ہوتی۔ عالمہ کروری نے آپ کے خاص تالمذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا‬
‫و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے عالوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں‬
‫شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسالم کی قانونی و دستوری‬
‫جامعیت کی الجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد‬
‫بارہ الکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت‬
‫بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔‬
‫‪15‬‬

‫مورخ‪ ‬خطیب بغدادی‪ ‬نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن‬
‫حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسالً فارس سے ہیں۔ ‘‘ امام صاحب کے‬
‫دادا ثابت بچپن میں حضرت‪ ‬علی علیہ السالم‪ ‬کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے‬
‫ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔‬
‫‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حالل کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔‬
‫لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبہ اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے‬
‫جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ‬
‫چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتےہ ی ں ۔‬

‫تالمذہ‬
‫حضرت امام ابو حنیفہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد‬
‫مشیر‬
‫ِ‬ ‫بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے‬
‫خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں‪: ‬‬
‫امام ابو یوسف‬ ‫‪‬‬

‫امام محمد بن حسن شیبانی‬ ‫‪‬‬

‫امام حماد بن ابی حنیفہ‬ ‫‪‬‬

‫امام زفر بن ہذیل‬ ‫‪‬‬

‫امام عبد ﷲ بن مبارک‬ ‫‪‬‬

‫امام وکیع بن جراح‬ ‫‪‬‬

‫امام داؤد بن نصیر‬ ‫‪‬‬

‫عالوہ ازیں‪ ‬قرآن‪ ‬حکیم کے بعد‪ ‬اہل سنت و الجماعت‪ ‬کی صحیح ترین کتاب‪ ‬صحیح‬ ‫‪‬‬

‫بخاری‪ ‬کے مؤلف‪ ‬امام محمد بن اسماعیل بخاری‪ ‬اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام آپ‬
‫کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔‬
‫حلیہ واخالق‬
‫حنیفہ خوش رو‪ ،‬خوش‬ ‫ؒ‬ ‫خطیب بغدادی ابو نعیم سے نقل کرتے ہیں کہ ابو‬
‫لباس‪،‬خوشبو پسند کرنے والے خوش مجلس‪،‬نہایت کریم النفس اوراپنے رفقاء کے بڑے‬
‫ہمدرد تھے‪،‬ابویوسف ؒ فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قد میانہ تھا نہ بہت کوتاہ نہ زیادہ‬
‫اعظم کے‬
‫ؒ‬ ‫دراز‪،‬گفتگو نہایت شیریں‪ ،‬آواز بڑی دلکش اوربڑے قادرالکالم تھے‪،‬عمر‪،‬امام‬
‫حنیفہ کسی قدر دراز قامت تھے‪،‬آپ کے رنگ پر گندم گونی‬ ‫ؒ‬ ‫پوتے فرماتے ہیں کہ ابو‬
‫غالب تھی‪ ،‬اچھالباس پہنتے‪ ،‬عام طور پر اچھی حالت میں رہتے‪ ،‬خوشبو کا اتنا استعمال‬
‫کرتے تھے کہ آپ کی نقل حرکت کا اندازہ خوشبو کی مہک سے ہوجاتا تھا۔‬
‫آپ ریشم کی تجارت کرتے تھے‪،‬قیس بن الزبیع بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب‬
‫مشائخ اورمحدثین سے ایک رقم لے کر اُن کے لیے بغداد سے سامان خریدتے اور کوفہ‬
‫‪16‬‬

‫الکر اُسے فروخت کردیتے اورسال بہ سال اس کا نفع اپنے پاس جمع رکھتے اور اس نفع‬
‫سے محدثین کے خورونوش لباس وغیرہ کی ضروریات مہیا کرتے اس سے جو بچ رہتا وہ‬
‫اُن کے حوالہ کردیتے اورکہتے کہ اسے اپنی دیگر ضروریات میں صرف کرلو اورخدا کا‬
‫شکر ادا کرومیرے شکر کی ضرورت نہیں ؛کیونکہ میں نے یہ مال اپنے پاس سے تو تم‬
‫تعالی کا مجھ پر کرم ہے کہ اس نے اس کا‬ ‫ٰ‬ ‫کو دیا نہیں تمہارے ہی مال کا نفع ہے‪،‬یہ ہللا‬
‫اہل مجلس میں سے ایک شخص پر امام‬ ‫ذریعہ مجھے بنادیا۔ حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ ِ‬
‫صاحب نے خستہ لباس دیکھا اس سے کہا بیٹھ جاؤ‪،‬جب محفل برخاست ہوگئی اوریہ تنہا‬
‫مصلی اٹھا کر جو اس کے نیچے تم کو ملے وہ لے لو‪،‬اس نے جا نماز‬ ‫ٰ‬ ‫رہ گیا تو فرمایا‬
‫اٹھائی تو نیچے ہزار درہم تھے‪،‬آپ نے فرمایا یہ لے لو اوراپنا لباس درست کرلو‪ ،‬وہ بوال‬
‫ب وسعت ہوں‪ ،‬مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬فرمایا تو پھر اپنا حال‬ ‫میں خود صاح ِ‬
‫ایسا بناؤ کہ تمہیں دیکھ کر تمہارے بھائی کو غم نہ ہو ‪،‬حدیث تم کو معلوم نہیں ہے کہ ہللا‬
‫تعالی اپنے بندہ پر اپنے نعمت وکرم کے آثار دیکھنا پسند کرتا ہے۔‬
‫حنیفہ کے پاس ایک عورت آئی اوراس نے‬ ‫ؒ‬ ‫جعفر بن عون بیان کرتے ہیں کہ ابو‬
‫ایک ریشمیں کپڑا‪ ،‬آپ سے مانگا آپ نے ایک کپڑا اس کے لیے نکاال تو وہ بولی میں‬
‫بڑھیا عورت ہوں اوریہ معاملہ امانت کا ہے‪،‬مناسب ہے کہ آپ کو جتنے میں پڑا ہے اسی‬
‫قیمت میں میرے ہاتھ فروخت کردیجئے فرمایا چار درہم دیدے‪ ،‬اُس نے کہا بڑھیا کا مذاق‬
‫نہ بنائیے اورٹھیک ٹھیک قیمت بتادیجئے‪،‬آپ نے فرمایا میں نے دو کپڑے خریدے تھے‬
‫اورایک ہی کپڑے سے چار درہم کم میری پوری قیمت وصول ہوگئی تھی‪،‬اب یہ کپڑا‬
‫حنیفہ غیبت‬
‫ؒ‬ ‫ثوری سے پوچھا‪،‬ابو‬‫ؒ‬ ‫مجھے چار درہم میں بچ رہا ہے۔ابن مبارک نے سفیان‬
‫ؒ‬
‫‪،‬سفیان نے‬ ‫حتی کہ اپنے دشمن کی غیبت بھی نہیں کرتے‬ ‫کرنے سے بہت دور رہتے ہیں ٰ‬
‫حنیفہ اس سے باال تر ہیں کہ اپنی نیکیوں پر اپنے دشمن کو مسلط کریں (کہ‬ ‫ؒ‬ ‫جواب دیا ابو‬
‫وہ قیامت کے دن اپنی غیبت کے بدلہ میں ان کی نیکیاں لے لے)‪ ‬‬
‫اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں بہت ہیں مفصل تذکروں میں دیکھے جاسکتے ہیں‬
‫قابل غور نہیں ہے‪ ،‬دنیا‬
‫ان چند واقعات میں امام صاحب کی صرف ہمدردی اورمساوات ِ‬
‫میں سخی اورکریم اور بھی گذرے ہیں دیکھنا تو یہ ہو کہ یہاں آپ نے صرف ہمدردی نہیں‬
‫کی ؛بلکہ بے منت ہمدردی کرنے کے اصول بھی بتالدیئے‪ ،‬ہمدردی کا اخفاء‪،‬محتاج کو‬
‫سر دست اس کی حاجت رفع ہوجائے اورآئندہ کے لیے‬ ‫ندامت کا خطرہ بھی نہ گذر سکے‪ِ ،‬‬
‫ت بد بھی نہ پڑنے پائے‪ ،‬یہ ایک قیمتی سبق ہے جو ان چند واقعات‬ ‫اس کو سوال کی عاد ِ‬
‫سے ہم کو ملتا ہے۔‬

‫اعظم‬
‫ؒ‬ ‫طبقۂ امام‬
‫مالک‬
‫ؓ‬ ‫صحابہ کو پایا ہے‪،‬انس بن‬
‫ؓ‬ ‫صاحب نے چار‬
‫ؒ‬ ‫ابن خلکان لکھتا ہے کہ امام‬
‫ِ‬
‫اوفی کو کوفہ میں سہل بن سعد الساعدی کو مدینہ منورہ میں اورابو‬ ‫ٰ‬ ‫اورعبدہللا بن ابی‬
‫صاحب سے نقل کرتے ہیں‬ ‫ؒ‬ ‫الطفیل عامر بن واثلۃ کو مکہ مکرمہ میں‪،‬حافظ ذہبی خود امام‬
‫حجر ان کے ساتھ اوربہت‬
‫ؒ‬ ‫مالک صحابی کو بارہا دیکھا ہے‪،‬حافظ اب ِن‬
‫ؓ‬ ‫کہ انہوں نے انس بن‬
‫‪17‬‬

‫انس کی رویت تسلیم کی ہے‪،‬خالف جو کچھ ہے‪،‬وہ‬ ‫سے دیگر حفاظ حدیث نے حضرت ؓ‬
‫روایت کے ثبوت وعدم ثبوت میں ہے‪ ،‬ہمارے نزدیک ایک ایسے شخص کے متعلق جو‬
‫ٰ‬
‫دعوی بھی بعید نہیں ؛بلکہ‬ ‫صحابہ ہی کے عہد میں پیدا ہوا ہو رؤیت تو درکنار روایت کا‬
‫بہت ہی قرین قیاس تھا ؛لیکن کیا کیا جائے جن پر امام صاحب کا اوال ِد احرار ہونا بھی شاق‬
‫ہو ان پر آپ کا طبعا ً تابعین میں شمار ہونا کیوں شاق نہ ہوتا‪ ،‬اس لیے یہ بھی ایک معرکۃ‬
‫اآلر مسئلہ بن کر رہ گیاہےمتوسط قول یہ ہے کہ رؤیت سے تو انکار نہ کیا جائے اور‬
‫دعوی نہ کیا جائے‪،‬اس کے سواء جو کچھ ہو وہ افراط وتفریط کا‬ ‫ٰ‬ ‫روایت کا قطعی طور پر‬
‫میدان ہو۔‬

‫تحصیل علم‬
‫ِ‬
‫علم‬
‫اعظم سے سنا ہے کہ مجھے ِ‬ ‫ؒ‬ ‫زفربن حذیل روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام‬
‫کالم کا پہلے اتنا شوق تھا کہ میں اس علم میں شہرۂ آفاق ہوگیا تھا‪،‬حماد بن ابی سلیمان‬
‫(حماد ابراہیم نخعی کے خاص تالمذہ میں تھے‪،‬تاریخ اصبہان میں ابوالشیخ ذکر کرتے ہیں‬
‫کہ ایک دن نخعی نے ان کو ایک درہم کا گوشت النے کے لیے بازار بھیجا‪،‬زنبیل ان کے‬
‫ہاتھ میں تھی ادہر سے ان کے والد کہیں گھوڑے پر سوار آرہے تھے یہ صورت دیکھ کر‬
‫نخعی کی وفات‬‫ؒ‬ ‫انہوں نے ان کو ڈانٹا اور زنبیل لے کر ہاتھ سے پھینک دی ‪،‬جب ابراہیم‬
‫ہوگئی تو حدیث کے طلبہ ان کے والد(مسلم بن یزید) کے دروازہ پر آئے اوردستک دی‪ ،‬یہ‬
‫چراغ لیکر باہر نکلے توانہوں نے کہا ہمیں آپ کی ضرورت نہیں‪ ،‬آپ کے فرزند حماد کی‬
‫ضرورت ہے یہ خفیف ہوکراندر تشریف لے آئے اورحماد سے کہا جاؤ بھئی باہر جاؤ‪،‬اب‬
‫مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ مقام تمہیں ابراہیم کی زنبیل کی بدولت ہی نصیب ہوا ہے‪،‬اب ِن عدی‬
‫نے الکامل میں نقل کیا ہے کہ حماد فرماتے تھے میں قتادہ‪،‬طاؤس اورمجاہد سے مال ہوں‪،‬‬
‫جب ابراہیم نخعی سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے مسائل کا حل کس سے کیا کریں تو انہوں‬
‫نے حماد ہی کا نام لیا تھا)کاحلقۂ درس میرے قریب تھا‪،‬ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ میرے‬
‫پاس ایک عورت آئی اوراس نے مجھ سے یہ مسئلہ دریافت کیا‪ :‬ایک شخص کی بی بی‬
‫باندی ہے وہ سنت کے موافق اسے طالق دینا چاہتا ہے‪ ،‬کتنی طالقیں دے‪،‬میری سمجھ میں‬
‫کچھ نہ آیا کیا جواب دوں‪ ،‬میں نے کہا حماد سے پوچھ اورواپس آکر مجھے بھی بتا‪ ،‬وہ‬
‫حماد کے پاس گئی‪،‬انہوں نے فرمایا جب وہ حیض سے پاک ہوجائے تو جماع کرنے سے‬
‫پہلے اُسے صرف ایک طالق دینا چاہئے‪ ،‬جب دو حیض اور گذر جائیں تو پھر وہ اپنا‬
‫دوسرا نکاح کرسکتی ہے‪ ،‬اس نے واپس آکر مجھ سے ان کا جواب نقل کیا میں نے اپنے‬
‫علم کالم بھال کس کام کی چیز ہے اوراپنے جوتے اٹھا کرحماد کی خدمت‬ ‫دل میں کہا کہ ِ‬
‫میں حاضر ہوگیا وہ مسائل بیان کرتے ہیں ان کو سنتا اوریادرکھتا‪ ،‬جب دوسرے دن وہ‬
‫تشریف التے پھر ان کا اعادہ فرماتے تو ان ان کو معلوم ہوتا کہ میں نے ان مسائل کو‬
‫صحیح ضبط کیا ہے اوران کے دوسرے شاگردوں نے غلطیاں کی ہیں‪ ،‬اس لیے انہوں نے‬
‫حنیفہ کے سوا اورکوئی شخص نہ بیٹھے‪ ،‬دس‬ ‫ؒ‬ ‫فرمایا کہ میرے سامنے صدر مقام پر ابو‬
‫سال مسلسل بلکہ ان کی وفات تک میں ان کے ساتھ رہا‪ ،‬حماد کے فرزند کہتےہیں کہ ایک‬
‫‪18‬‬

‫مرتبہ میرے والد کسی سفر میں باہر تشریف لے گئے تھے‪ ،‬جب واپس تشریف الئے تو‬
‫میں نے پوچھا کہ اس اثناء میں آپ کو زیادہ یاد کس کی رہی‪،‬میرا خیال تھا وہ یہی فرمائیں‬
‫حنیفہ کا نام لیا اورفرمایا کہ اگر مجھے یہ قدرت ہوتی کہ‬
‫ؒ‬ ‫گے تیری ؛لیکن انہوں نے ابو‬
‫حنیفہ سے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی نظر جدانہ کروں تو نہ کرتا۔‬‫ؒ‬ ‫میں ابو‬
‫علم‬
‫صاحب کی عمر کا ابتدائی حصہ ِ‬ ‫ؒ‬ ‫ت مذکورہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام‬ ‫روای ِ‬
‫حنیفہ تھی یہ تحقیق نہیں‬
‫ؒ‬ ‫کالم میں صرف ہوا ہے اورزمانہ تلمذ سے ہی آپ کی کنیت ابو‬
‫ہوسکا کہ یہ کنیت امام صاحب نے خود اختیار کی تھی یا دوسروں نے آپ کی یہ کنیت‬
‫ت حفظ‬ ‫ت ذوق سالمتی فطرت اورقو ِ‬ ‫مقرر کی تھی‪،‬اسی روایت سے امام صاحب کے صح ِ‬
‫درس حدیث کے صدر نشین نہ ہونے سے یہ‬ ‫ِ‬ ‫کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے‪،‬آپ کے صرف‬
‫خیال قائم کرلینا کہ آپ کا حفظ کمزور تھا بہت سطحی نظر ہے۔‬

‫ماخ ِذ علم‬
‫صاحب سے‬ ‫ؒ‬ ‫خطیب بغدادی روایت کرتا ہے کہ امیر المومنین ابو جعفر نے امام‬
‫پوچھا آپ نے کن صحابہ کا علم حاصل کیا ہے‪،‬فرمایا عمر بن الخطاب‪،‬علی بن ابی طالب‪،‬‬
‫عبدہللا بن مسعود اورعبدہللا بن عباس ؓ اوران کے شاگردوں کا‪ ،‬فرمایا آپ نے تو بہت‬
‫صحیح اور پختہ علم حاصل کیا‪،‬یہ ہستیاں بہت مبارک اور بڑی مقدس ہستیاں تھیں‪،‬‬
‫عمر کی شان تو خود رسول ہللا ﷺ کے اس فرمان سے ظاہر ہے کہ میرے بعد‬ ‫حضرت ؓ‬
‫علی تو وہ ہیں جن کو آپ نے خود اپنے‬ ‫اگر کوئی شخص نبی ہوتا تو عمر ہوتے‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫عباس ان کی‬
‫ؓ‬ ‫ؓ‬
‫مسعود اورابن‬ ‫ت مبارک سے قاضی بنا کر بھیجا تھا‪،‬رہ گئے عبدہللا بن‬ ‫دس ِ‬
‫قرآن دانی اورقرآن فہمی امت میں ضرب المثل ہوچکی ہے اب سوچئے کہ جو علم اتنے‬
‫جامع اورمضبوط مآخذ سے حاصل کیا گیا ہوگا وہ کتنا عمیق اورکتنا مستحکم ہوسکتا‬
‫ہے‪،‬نفسیاتی طریق پر بھی مسائل حنفیہ کا مرجع یہی اصحاب ہونے چاہیے‪ ،‬کوفہ جو امام‬
‫عمر ہی کا بسایا اورآباد کیا ہوا تھا‪ ،‬پھر جو صحابی اہ ِل کوفہ‬ ‫اعظم کا مسکن تھا‪،‬حضرت ؓ‬ ‫ؒ‬
‫ؓ‬
‫مسعود ہی تھے‪،‬‬ ‫کی تعلیم و تربیت کے لیے سرکاری طور پر مقرر کئے گئے وہ ابن‬
‫علی کا تو کوفہ دارالخالفت ہی رہ چکا تھا اس لیے اہل کوفہ کے لیے ان اصحاب‬ ‫حضرت ؓ‬
‫میں علمی کشش کے عالوہ ایک فطری کشش بھی موجود تھی‪،‬کسی مجتہد کے متعلق یہ‬
‫خیال قائم کرنا کہ اس کے استفادہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہر ہر جزئی میں ایک مقلد کی‬
‫طرح اتباع کرتا ہوگا ‪،‬انتہا درجہ کی ناواقفی ہے ؛بلکہ اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ان‬
‫اورانداز طبیعت قائم ہوچکا تھا‪ ،‬وہ ان‬
‫ِ‬ ‫کے زیر تربیت رہ کر اس کا جو علمی مذاق‬
‫‪،‬اصول فکر‪ ،‬مصالح ومضار پر‬ ‫ِ‬ ‫حضرات ہی سےملتا جلتا تھا‪ ،‬اس کے اصو ِل استنباط‬
‫غور وخوض کا زاویۂ نظر سب اُن ہی سے متحد تھا‪ ،‬اس لیے دونوں کے مجتہدات‬
‫اورمسائل میں ایک قسم کی یک رنگی اوریکسانیت پیدا ہوجانا بھی ضروری امر تھا۔‬

‫اصول وعقائد‬
‫‪19‬‬

‫یحیی بن ضریس کہتے ہیں میں سفیان کے پاس حاضر تھا ایک شخص آیا اور اس‬
‫نے کہا کہ آپ کو امام صاحب پر کیا اعتراض ہے انہوں نے فرمایا اعتراض کیا ہوتا میں‬
‫نے خود انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سب سے پہلے قرآن کو لیتا ہوں‪ ،‬اگر کوئی‬
‫مسئلہ اس میں نہیں ملتا تو پھر سنت رسول ہللاﷺ میں تالش کرتا ہوں‪ ،‬اگر کتاب ہللا اور‬
‫حدیث رسولﷺ دونوں میں نہیں ملتا تو میں پھر صحابہ کے اقوال تالش کرتا ہوں اور ان‬
‫میں جو زیادہ پسند آتا ہے اسے اختیار کرلیتا ہوں‪ ،‬مگر ان کے اقوال سے باہر نہیں‬
‫جاتا‪،‬ہاں جب تابعین کا نمبر آتا ہے تو پھر ان کا اتباع کرنا الزم نہیں سمجھتا جیسا انہوں‬
‫نے اجتہاد کیا میں بھی اجتہاد کرلیتا ہوں۔‬
‫ابو یوسف روایت کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا خراسان میں دو قسم کے‬
‫یوسف سے دوسری جگہ اس طرح منقول‬ ‫ؒ‬ ‫لوگ سب سے بدتر ہیں ‪،‬جہمیۃ اور مشبہہ‪ ،‬ابو‬
‫ہے کہ امام صاحب جہم بن صفوان کی مذمت کیا کرتے تھے اوراس کی باتوں پر نکتہ‬
‫چینی فرماتے تھے‪،‬عبدالرحمن حمانی کہتے ہیں‪:‬میں نے ابو حنیفہ کو یہ فرماتے خود سنا‬
‫حنیفہ شیخین کو دوسرے‬ ‫ؒ‬ ‫ہےیحیی بن نضر کہتے ہیں کہ ابو‬
‫ٰ‬ ‫ہے کہ جہم بن صفوان کافر‬
‫صحابہ پر فضیلت دیتے تھے ختنین سے محبت رکھتے تھے‪،‬تقدیر کے قائل تھے اوراس‬
‫میں کوئی مین میخ نہیں نکالتے تھے ‪،‬مسح علی الخفین کرتے تھے اوراپنے زمانہ کے‬
‫سب سے بڑے اور متقی عالم تھے ابو سلیمان جوزجانی اورمعطی بن منصور رازی کہتے‬
‫ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے تالمذہ میں کسی نے قرآن کے مخلوق ہونے کے بارے‬
‫میں کوئی لفظ زبان سے نہیں نکاال ‪،‬ہاں بشر مریسی اورابن ابی داؤد نے اس مسئلہ میں‬
‫صاحب کے تالمذہ کو بدنام کیا۔‬
‫ؒ‬ ‫بحث شروع کی اورانہوں ہی نے امام‬

‫اعظم کی ثقاہت‬
‫ؒ‬ ‫محدثین کی نظروں میں امام‬
‫مالک پر رحمت نازل فرمائے اپنے وقت کے امام‬ ‫ؒ‬ ‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں ہللا‬
‫حنیفہ پر رحمت نازل‬
‫ؒ‬ ‫‪،‬شافعی پر رحمت نازل فرمائے اپنے وقت کے امام تھے‪،‬ابو‬ ‫ؒ‬ ‫تھے‬
‫حنیفہ کے کوڑے کھانے اور‬
‫ؒ‬ ‫فرمائے اپنے زمانہ کے امام تھےامام احمدؒ جب کبھی امام ابو‬
‫قضاء قبول نہ کرنے کا واقعہ ذکر فرماتے تو روپڑتے تھے اورامام صاحب کے لیے دعاء‬
‫رحمت فرماتے۔حسن بن علی حلوانی شبابۃ سے نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب کے بارے‬
‫میں شعبہ اچھا خیال رکھتے تھے علی بن مدینی کہتے ہیں کہ امام صاحب سے ثوری‪،‬ابن‬
‫مبارک‪،‬حماد بن زید‪ ،‬ہشیم‪ ،‬وکیع‪ ،‬عباد‪،‬جعفر بن عون جیسے اجلہ محدثین نے روایت کی‬
‫یحیی بن معین سے پوچھا گیا اے ابو‬
‫ٰ‬ ‫ہے ‪،‬وہ ثقہ ہیں ‪،‬ان کی روایت میں کوئی سقم نہیں‪،‬‬
‫حنیفہ حدیث کے بارے میں سچے شمار ہوتے تھے انہوں‬ ‫ؒ‬ ‫زکریا(ان کی کنیت ہے )کیا ابو‬
‫نے فرمایانہایت سچے اوربالکل صحیح روایت کرنے والے تھے‪،‬ایک مرتبہ اُن سے‬
‫خالف واقع بھی حدیث روایت کرتے تھے؟ فرمایا‬ ‫ِ‬ ‫دریافت کیا گیا ‪:‬کیا ابو حنیفہ کبھی‬
‫حنیفہ اوران کے تالمذہ کے حق میں بڑی زیادتی کرتے ہیں‪،‬اُن کی شان اس‬ ‫ؒ‬ ‫محدثین ابو‬
‫اعلی تھی۔‬
‫ٰ‬ ‫سے کہیں ارفع و‬
‫‪20‬‬

‫حنیفہ کے نزدیک حدیث روایت‬ ‫ؒ‬ ‫خطیب یحیی بن معین سے نقل کرتا ہے کہ ابو‬
‫کرنے کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ سننے کے بعد سے برابر یادرہنی چاہئے اگر یاد نہ‬
‫رہے تو اس کو روایت کرنا درست نہ سمجھتے تھے‪،‬ایک مرتبہ امام صاحب کے متعلق ان‬
‫سے دریافت کیا گیا تو دوبار فرمایا ثقہ ہیں ثقہ ہیں‪،‬ایک مرتبہ یہ کہا کہ حدیث وفقہ میں ثقہ‬
‫اور سچے ہیں اور خدا کے دین کے بارے میں بھروسہ کے قابل ہیں خارجہ بن مصعب‬
‫حنیفہ پر‬
‫ؒ‬ ‫اورابو وہب عابد کہتے ہیں کہ جو شخص مسح علی الخفین کا قائل نہ ہو یا ابو‬
‫نکتہ چینی کرے وہ بال شبہ ناقص العقل ہے۔حافظ ابن حجر شافعی نے امام صاحب کے‬
‫یحیی بن معین سے اس کے خالف کوئی نقل پیش نہیں کی اورآخر تذکرہ‬ ‫ٰ‬ ‫مناقب نقل کرکے‬
‫صاحب کے مناقب بہت ہیں ہللا تعالی ان سے راضی ہو اورجنت‬ ‫ؒ‬ ‫میں لکھا ہے کہ امام‬
‫فردوس میں ان کو جگہ دے‪،‬ذہبی نے مناقب امام پر مستقل ایک تصنیف لکھی ہے۔‬

‫فقہ حنفی کا امتیاز‬


‫اس عنوان پر عالمہ کوثری مصری نے زیلعی کے مقدمہ میں ایک مختصر مقالہ‬
‫سپرد قلم کیا ہے‪،‬ہم یہاں اس کا اختصار ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ فقہ حنفی صرف ایک‬
‫طحاوی‬
‫ؒ‬ ‫ت شوری کی ترتیب دادہ ہے‪،‬امام‬ ‫شخصی رائے نہیں ؛بلکہ چالیس علماء کی جماع ِ‬
‫شوری چالیس افراد پر مشتمل‬ ‫ٰ‬ ‫اسناد کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب کی یہ جماعت‬
‫تھی جن میں ممتاز ہستیاں یہ تھیں‪ :‬ابو یوسف‪ ،‬زفربن الہذیل‪،‬داؤد الطائی‪ ،‬اسد بن عمرو‪،‬‬
‫یحیی بن زکریا بن ابی‬
‫ٰ‬ ‫شافعی کے شیوخ میں ہیں)‬
‫ؒ‬ ‫یوسف بن خالد السمتی‪( ،‬یہ امام‬
‫یوسف کے تذکرہ میں ان اسماء کا اوراضافہ کیا ہے‪،‬عافیہ ازدی‬ ‫ؒ‬ ‫زائدۃ‪،‬خطیب نے امام ابو‬
‫قاسم بن سعن‪،‬علی بن مسہر‪ ،‬جان‪،‬مندل اسد بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب کی‬
‫خدمت میں پہلے ایک مسئلہ کے مختلف مختلف جوابات پیش کئے جاتے پھر جو اس کا‬
‫سب سے زیادہ تحقیقی جواب ہوتا آپ ارشاد فرماتے اسی طرح ایک ایک مسئلہ تین تین دن‬
‫زیر بحث رہتا ‪،‬اس کے بعد کہیں وہ لکھا جاتا تھا‪،‬صمیری بیان فرماتے ہیں کہ امام صاحب‬
‫کے تالمذہ امام صاحب کے ساتھ مسائل میں بحث و تمحیص کرتے اگر اس وقت قاضی‬
‫عافیہ بن یزید موجود نہ ہوتے تو آپ فرماتے‪،‬اُن کے آنے تک ابھی مسئلہ کا فیصلہ ملتوی‬
‫رکھو جب وہ تشریف لے آتے اور وہ بھی دوسروں کی رائے سے اتفاق کرلیتے تو امام‬
‫صاحب فرماتے اب اس کو لکھ لو‪،‬جب تک مسئلہ تحقیق وتفتیش کے یہ مراحل طے نہ‬ ‫ؒ‬
‫والعلل میں لکھتے ہیں کہ‬‫ؒ‬ ‫ؒ‬
‫معین التاریخ‬ ‫‪،‬یحیی بن‬
‫ٰ‬ ‫کرلیتا آپ اس کو لکھنے سے منع کرتے‬
‫یوسف سے فرمایا اے یعقوب جو کچھ مجھ سے سنا‬ ‫ؒ‬ ‫حنیفہ نے ایک دن امام ابو‬
‫ؒ‬ ‫امام ابو‬
‫کرو اسے فورا ہی نہ لکھ لیا کرو کیونکہ کبھی ایک مسئلہ کے متعلق میری رائے آج کچھ‬
‫ہوتی ہے اورکل کچھ ہوجاتی ہے‪،‬اس روایت سے موفق مکی کے بیان کی تائید ہوتی ہے‬
‫کہ امام صاحب کا مسلک شورائی مسلک ہے‪،‬اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب‬
‫نے اپنے تالمذہ پر اپنے مسائل تسلیم کرنے کے متعلق کبھی جبر نہیں کیا ؛بلکہ ہمیشہ اس‬
‫کی پوری آزادی دی کہ وہ بہت خوشی سے اپنی اپنی رائے پیش کریں پھر اس پر خوب‬
‫جرح وقدح ہو‪،‬اس کے بعد اگر سمجھ میں آجائے تو اس کو قبول کرلیں۔‬
‫‪21‬‬

‫شوری نقلی و‬‫ٰ‬ ‫مجلس‬


‫ِ‬ ‫صاحب کی‬
‫ؒ‬ ‫مذکورہ باال بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امام‬
‫عقلی ہر دو لحاظ سے بہت مکمل مجلس تھی‪ ،‬اس میں اگر حفاظ ومحدثین ‪،‬عربیت و تفسیر‬
‫کے جاننے والے شامل تھے تو زفرین ہذیل جیسے میزان عقل پر تولنے والے بھی موجود‬
‫تھے ان ہی اہل علم وفہم علماء کے تبادلہ خیاالت کا نتیجہ تھا کہ مسئلہ کا ہر پہلو اتنا صاف‬
‫ہوجاتا تھا اس کے مصالح و مضار سب اس طرح سامنے آجاتے تھے کہ زمانہ کی ہر‬
‫یوسف کے تذکرہ‬ ‫ؒ‬ ‫ضرورت کی اس میں پوری پوری رعایت ہوجاتی تھی۔ خطیب امام ابو‬
‫حنیفہ نے اس مسئلہ میں غلطی کی‬ ‫ؒ‬ ‫میں لکھتے ہیں کہ کسی شخص نے وکیع سے کہا ابو‬
‫ؒ‬
‫یوسف‬ ‫حنیفہ غلطی کر کیسے سکتے ہیں‪ ،‬جبکہ ان کے ساتھ ابو‬ ‫ؒ‬ ‫ہے ‪،‬وکیع نے فرمایا ابو‬
‫یحیی بن ابی زائدہ‪،‬حفص بن غیاث‪ ،‬حبان و مندل جیسے حفاظ‬ ‫ٰ‬ ‫وزفر جیسے قیاس کے ماہر‬ ‫ؒ‬
‫حدیث اور قاسم بن معن جیسے لغت وعربیت کے جاننے والے‪ ،‬داؤد طائی اور فضیل بن‬
‫عیاض جیسے زاہد و متقی شامل ہوں‪ ،‬اگر وہ غلطی کھائیں گے تو کیا یہ لوگ ان کی‬
‫اصالح نہ کریں گے‪ ،‬دراصل فقہ حنفی کی عام مقبولیت کا من جملہ دیگر اسباب کے ایک‬
‫سبب یہ بھی تھا مگر اس کا یہی کمال محدثین کی نظروں میں موجب نقصان بن گیا تھا‪،‬‬
‫ظاہر ہے کہ عام محدثین کا طور فکر بالکل اس سے جدا گانہ تھا‪،‬وہ اس تمام غور وخوض‬
‫کو رائے کی مداخلت تصور کرتے تھے اور وہ اس میں بڑی حد تک معذور بھی تھے‪،‬‬
‫کیونکہ آئین شریعت کی اس طرح ترتیب وتشکیل کا امت میں یہ پہال قدم تھا اُسے اوپری‬
‫نظروں سے دیکھا جانا چاہئے تھا‪ ،‬یہ دوسری بات ہے کہ پھر شد ہ شدہ دوسرے اماموں‬
‫کو بھی اس ترتیب کی ضرورت محسوس ہوئی حتی کہ کوئی امام ایسا نہیں رہا جس کی‬
‫فقہ باآلخراسی مرتب شکل پر نہ آگئی ہو مگر البادی اظلم) کے قاعدہ کے موافق اصحاب‬
‫الرای کا اولین مخاطب صرف حنفیہ رہ گئے۔‬
‫مالک کے استاد ہیں اپنی اسی خدمت کی وجہ سے‬ ‫ؒ‬ ‫(ربیعہ بن ابی عبدالرحمن جو امام‬
‫ربیعۃ الرای کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے‪ ،‬عبدالعزیز بن ابی سلمہ کہتے تھے اے اہ ِل‬
‫عراق تم تو ربیعہ الرای کہتے ہو اورخدا کی قسم ہے میں نے ان سے بڑھ کر کوئی حافظ‬
‫ابن سعد فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ اورکثیر الحدیث شخص تھے مگر اس‬ ‫حدیث نہیں دیکھا‪ِ ،‬‬
‫الرای‬
‫ٔ‬ ‫کے باوجود ان کی طرف رائے کی نسبت اتنی مشہور ہوگئی کہ ان کا لقب ہی ربیعۃ‬
‫پڑ گیا تھا۔) یہ مسئلہ بہت اہم اور طویل الذیل ہے کہ فقہ حنفی کے امتیازی اصول کیا کیا‬
‫ت رائے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے‪،‬ان تمام کا استقصاء اس مختصر‬ ‫ہیں اورکیا اُن کو مداخل ِ‬
‫تذکرہ میں نہیں کیا جاسکتا‪،‬مثال کے طور پر یہاں ہم صرف ایک دو مثالیں پیش کرتے ہیں‬
‫جن پر غور کرنے کے بعد آپ فقہ حنفی کی گہرائی معلوم کرسکیں گے اوراس کے بعد یہ‬
‫یقین کرنا بھی آسان ہوجائے گا کہ محدثین کی فقہ حنفی سے برہمی اور حنفیہ کی معذوری‬
‫شاطبی ابن عبدالبر سے نقل کرتے ہیں کہ بہت سے‬ ‫ؒ‬ ‫دونوں اپنی اپنی جگہ بجا ہیں‪ ،‬امام‬
‫محدثین امام صاحب پر طعن کرنا اس لیے جائز سمجھتے تھے کہ ان کے نزدیک آپ نے‬
‫بہت سی صحیح اخبار آحاد کو ترک کردیا تھا؛حاالنکہ امام صاحب کا ضابطہ یہ تھا کہ آپ‬
‫پہلے خبر واحد کا اُس باب کی دوسری احادیث کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھتے ‪،‬قرآن‬
‫‪22‬‬

‫کریم کے بیان سے بھی ان کومالتے اگر وہ قرآن کریم اوران احادیث کے بیان کے مطابق‬
‫ہوجاتیں تو ان پر عمل کرلیتے ورنہ انہیں شاذ قرار دیتے اورعمل نہ کرتے۔‬
‫انصاف کیجئے کہ ایک آئینی نظر کے لیے آئین سازی کا کہ کتنا صحیح راستہ تھا‬
‫مگر جن مزاجوں میں معیار صحت صرف اسناد ٹھیر گیا ہو وہ اس کا نام صحیح احادیث‬
‫ث مضراۃ ہو حنفیہ پر اس مسئلہ کی‬ ‫کا ترک رکھ لیتے تھے‪،‬اس کی بہت مشہور مثال حدی ِ‬
‫وجہ سے ہمیشہ لے دے کی گئی اوریہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے محض اپنی رائے‬
‫سے اس حدیث کو ترک کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر حنفیہ نے تاوان کے وسیع باب‬
‫میں اس قسم کا تاوان کہیں نہ دیکھا اوراس لیے یہاں بھی اس باب کے عام ضابطہ ہی پر‬
‫عمل کرلیا‪،‬تو کچھ بجا بھی نہیں کیا‪،‬بقول حافظ ابو عمرو کون ایسا ہے جس نے ہر باب کی‬
‫ہر حدیث کو من و عن تسلیم کیا ہو‪ ،‬اپنے استقراء واجتہاد کے بعد جب ایک حدیث کو‬
‫مختارو معمول بہ بنالیا گیا ہے تو اس کی مخالف حدیث میں سب نے تاویل و توجیہ جائز‬
‫قرار دی ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ حنفیہ نے اکثر مواضع میں اصول کو جرئیات پر‬
‫ب شریعت سے ایک قاعدہ کلیہ‬ ‫قربان نہیں کیا‪ ،‬جب کسی بات میں ان کے نزدیک صاح ِ‬
‫ثابت ہوگیا تو پھر انہوں نے اس کے برخالف جزئیات کو عموما ً قابل ِ سمجھا ہے‪،‬مثالً‬
‫انسانی حاجت کے لیے بیٹھنے کا ایک آئین یہ ہے کہ قبلہ کو اپنے سامنے یا پشت کی‬
‫جانب نہ رکھنا چاہئے‪ ،‬اس ضابطہ کو حنفیہ نے پہلے منقول اور معقول ہر طریق پر جانچا‬
‫عمر کے صرف‬ ‫توال جب اُن کے نزدیک ادب واحترام کا یہ آئین ثابت ہوگیا تو حضرت اب ِن ؓ‬
‫ایک جزئی واقعہ کی بناپر کہ انہوں نے ایکبار آنحضرتﷺ کو قضاء حاجت کے لیے قبلہ‬
‫کی جانب پشت کئے ہوئے بیٹھے دیکھا تھا‪ ،‬اس ضابطہ کلیہ کی تاویل نہیں کی ؛بلکہ اس‬
‫واقعہ ہی کی کوئی توجیہ کرلینا زیادہ مناسب سمجھا۔‬
‫دوسری مثال نماز میں بات کرنے کا مسئلہ ہے‪،‬عام طور پر احادیث سے نماز میں‬
‫بات کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے‪ ،‬قرآن کریم میں بھی یہاں کسی استثناء کی طرف‬
‫ادنی اشارہ نہیں ملتا صرف ایک ذوالیدین کی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک‬ ‫ٰ‬
‫مرتبہ نماز میں کسی کو سہوا اورکسی کو عمداً کچھ بات چیت کرنے کی نوبت آگئی تھی‬
‫اس کے باوجود ان کی نمازوں کو فاسد نہیں سمجھا گیا‪،‬دیگرائمہ نے اس ایک جزئی واقعہ‬
‫کی وجہ سے اصل قاعدہ ہی کی تخصیص وتوجیہ شروع کردی ہے حنفیہ نے یہاں بھی‬
‫قاعدہ میں کوئی تخصیص نہیں کی ؛بلکہ اس کو بدستور اپنے عموم پر قائم رکھا ہے‬
‫اوراس ایک واقعہ ہی کی کوئی توجیہ تاویل کرنا مناسب خیال کیا ہے‪،‬اس قسم کی بہت سی‬
‫مثالیں ہیں جہاں حنفیہ نے قاعدہ کلیہ کے مقابلہ میں جزئیات ہی کی تاویل کا راستہ اختیار‬
‫کرلیا ہے‪،‬ضابطہ ہمیشہ ایک رہتا ہو اورجزئیات منتشر‪ ،‬اس لیے تاویل کرنے والوں کی‬
‫صف میں زیادہ پیش پیش حنفیہ ہی نظر آنے لگے‪ ،‬اب آپ کو اختیار ہے کہ اس کا نام‬
‫ک حدیث رکھ لیجئے یا عمل بالحدیث رکھئے‪،‬اسی قسم کے امتیازات ہیں جن کی بنا پر‬ ‫تر ِ‬
‫ہر دور میں امت کا نصف حصہ اسی فقہ پر عمل پیرا رہا ہے اوراسی اصول نظر کی وجہ‬
‫سے حنفی فقہ میں اتنی لچک ہے کہ اتنی دوسری فقہ میں نہیں اگر علماء انسانوں کی‬
‫‪23‬‬

‫اوردین حنیف کی سہولت دونوں کو پیش نظر رکھتے تو ان کو حنفی کتاب الحیل‬
‫ِ‬ ‫ضرورت‬
‫پر اتنا غصہ نہ آتا اورنہ وہ حنفیہ کو محض رائے کا مقلد قرار دیتے۔‬

‫امام اعظم کا علمی پایہ‬


‫حنیفہ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں‬‫ؒ‬ ‫شداد بن حکیم فرماتے ہیں کہ ابو‬
‫دیکھا‪،‬مکی بن ابراہیم نے امام صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنے زمانہ کے‬
‫حنیفہ سے‬
‫ؒ‬ ‫سب سے بڑے عالم تھے‪،‬وکیع فرماتے ہیں میں کسی عالم سے نہیں مال جو ابو‬
‫علم فقہ سے بے‬‫زیادہ فقیہ ہوا اوران سے بہتر نماز پڑھتا ہو‪،‬نظر بن شمیل کہتے ہیں لوگ ِ‬
‫ہے‪،‬یحیی بن سعید القطان فرماتے‬
‫ٰ‬ ‫حنیفہ نے آکر انہیں بیدار کیا‬
‫ؒ‬ ‫خبر پڑے ہوئے تھے‪ ،‬ابو‬
‫حنیفہ سے بہتر فقہ‬
‫ؒ‬ ‫ہیں ہم خدا کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے‪،‬واقعی بات یہ ہے کہ ابو‬
‫ہم نے کسی کی نہیں سنی اور اس لیے لیے ان کے اکثر اقوال ہم نے بھی اختیار کرلیے‬
‫یحیی بن سعید کوفیوں کا قول اختیار کیا کرتے‬‫ٰ‬ ‫معین کہتے ہیں کہ فتوے میں‬ ‫ؒ‬ ‫ہیں‪،‬یحیی بن‬
‫ٰ‬
‫علم فقہ میں مہارت حاصل کرنا ہو اُسے الزم ہے کہ‬ ‫شافعی فرماتے ہیں جسے ِ‬ ‫ؒ‬ ‫تھے‪،‬امام‬
‫حنیفہ اوران کے تالمذہ کو نہ چھوڑے ؛کیونکہ تمام لوگ فقہ میں اُن کے محتاج ہیں‪،‬‬ ‫ؒ‬ ‫ابو‬
‫حنیفہ ہی کی ہے‪ ،‬جعفر بن ربیع کہتے ہیں‬
‫ؒ‬ ‫یحیی بن معین کہتے ہیں کہ فقہ تو بس امام ابو‬ ‫ٰ‬
‫حنیفہ کی خدمت میں رہا‪ ،‬اُن جیسا خاموش انسان میں نے نہیں دیکھا‪،‬ہاں‬ ‫ؒ‬ ‫میں پانچ سال ابو‬
‫جب ان سے فقہ کا کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو اس وقت کھل جاتے اور دریا کی طرح‬
‫اہل اسالم پر فرض ہو کہ وہ اپنی نمازوں‬‫بہنے لگتے تھی‪،‬عبدہللا بن داؤد فرماتے ہیں کہ ِ‬
‫حنیفہ کے لیے دعا کیا کریں اور ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں‬ ‫ؒ‬ ‫کے بعد امام ابو‬
‫نے امت کے لیے آنحضرتﷺ کی سنتیں اورمسائل فقہ جمع کرکے رکھ دیئے ہیں‪،‬روح‬
‫بن عبادہ کہتے ہیں کہ میں ابن جریج کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ انہیں امام صاحب ؒ کے وفات‬
‫کی خبر پہنچی‪ :‬انہوں نے فورا ًانالِ ٰللّہ کہا اورفرمایا افسوس کیسا عجیب علم جاتا رہا‪،‬اسی‬
‫سال ابن جریج کا بھی انتقال ہوگیا۔‬

‫علم فقہ کا انتخاب‬


‫صاحب کے مناظرات وحاالت سے ذرا بھی واقف ہے وہ اس سے‬ ‫ؒ‬ ‫جو شخص امام‬
‫علم کالم‬
‫انکار نہیں کرسکتا کہ امام صاحب کو جمیع علوم میں پوری دستگاہ حاصل تھی ِ‬
‫سے آپ کی ابجد شروع ہوتی ہے اورحدیث و تفسیر و فقہ تو آپ کا مشغلہ ہی تھا‪ ،‬مورخ‬
‫ابن خلکان آپ کے متعلق یہ لکھتا ہے ولم یکن یعاب بشئی سوی قلۃ العربیۃ یعنی آپ پر‬
‫ت عربیت کے سوا اور کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی‪،‬اس کے اسباب بھی جو کچھ ہیں وہ‬ ‫قل ِ‬
‫تحقیق کے بعد کچھ نہیں رہتے ؛لیکن ہم اس سلسلہ میں ان چند اسباب کو ظاہر کرنا مناسب‬
‫سمجھتے ہیں جن کی بنا پر امام صاحب نے دیگر علوم کی بجائے علم فقہ کو اپنا دائمی‬
‫مشغلہ بنالیا تھا‪،‬اگرچہ یہ بات اپنی جگہ طے شدہ ہے کہ جو شخص حدیث وقرآن نہیں‬
‫جانتا وہ فقہ سے بھی کوئی مجتہدانہ مذاق نہیں رکھ سکتا۔ ہمارے نزدیک اس موقعہ پر‬
‫اختیاری اسباب کے ساتھ کچھ قدرتی اسباب بھی ایسے پیدا ہوگئے تھے جن کی وجہ سے‬
‫‪24‬‬

‫فقہ ہی آپ کا سب سے بڑا مشغلہ ہوجانا چاہئے تھا‪،‬مناقب موفق اورتاریخ خطیب میں‬
‫علم فقہ کی مہارت کے لحاظ سے جن پر‬ ‫مذکور ہے کہ ابراہیم نخعی کی وفات کے بعد ِ‬
‫نظریں پڑتی تھیں وہ حماد بن ابی سلیمان مفتی کوفہ تھی جب تک یہ بقید حیات رہے لوگ‬
‫ان کی وجہ سے دوسروں سے بے نیاز رہے ؛لیکن جب ان کی وفات ہوگئی تو اب اس کی‬
‫ضرورت محسوس ہونے لگی‪،‬کہ لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ان کا کوئی‬
‫دوسرا جانشین ہو ‪،‬ادھر ان کے تالمذہ کو یہ اندیشہ ہونے لگا کہ ان کے محترم استاد کا نام‬
‫اوران کا علم کہیں ختم نہ ہوجائے‪،‬حماد کے ایک فرزند تھے جو اچھے عالم تھے‪ ،‬ان پر‬
‫اتفاق ہوگیا کہ انہیں اپنے والد کی مسند پر بٹھا دیا جائے‪،‬ابوبکر نہشلی اورابو بردۃ وغیرہ‬
‫جو ان کے شاگرد تھے اب ان کے پاس آنے جانے لگے ؛لیکن ان حضرات پر شعر وسخن‬
‫کا ذوق غالب تھا یہ اس جگہ کو نبھانہ سکے‪،‬پھر لوگوں کا خیال ابوبکر نہشلی کی طرف‬
‫گیا ان سے درخواست کی گئی تو انہوں نے انکار کردیا‪،‬اس کے بعد ابو بردہ کی خدمت‬
‫صاحب‬
‫ؒ‬ ‫میں یہ مسند پیش کی گئی مگر انہوں نے بھی انکار کیا‪،‬آخر کار لوگوں نے امام‬
‫کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا میرا دل یہ نہیں چاہتا کہ علم فنا ہوجائے اس‬
‫لیے ان کی درخواست کو منظور کرلیا اورمسند افتاء پر بیٹھ گئے۔واقعہ یہ ہے کہ جب‬
‫مفتی کوفہ کی مسند پر بیٹھنے کے لیے قدرت نے امام صاحب ہی کو انتخاب کیا ہو تو اس‬
‫جگہ کوئی دوسرا کیسے بیٹھ سکتا تھا۔ یہ واضح رہنا چاہئے کہ یہ امام ابو حنیفہ وہی ہیں‬
‫ب قضا پیش کیا گیا تو ہر سختی دولت برداشت کرنے کے لیے‬ ‫جن کے سامنے جب منص ِ‬
‫ب قضا قبول نہ کیا‪ ،‬اوریہی ہیں کہ جب ان سے ایک آزاد علمی‬ ‫تیار ہوگئے مگر منص ِ‬
‫خدمت کی درخواست کی گئی تو فوراً قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئے‪،‬بہرحال اس روایت‬
‫ت سماویہ کی بنا پر علم کی جو مسند امام صاحب کے‬ ‫سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ اتفاقا ِ‬
‫علم نبوت ہی کی گہرائیوں میں ثناوری کی مسند تھی‪،‬اس‬ ‫لیے مخصوص ہوچکی تھی وہ ِ‬
‫لیے قدرتی طور پر آپ کا مشغلہ فقہ ہی بن جانا چاہئے تھا۔‬
‫عبدالبرابو یوسف ؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے اعمش نے‬ ‫ؒ‬ ‫ابن‬
‫حافظ ِ‬
‫ایک مسئلہ دریافت کیا ‪،‬اس وقت میرے اوراُن کے سوا وہاں کوئی اورموجود نہ تھا‪،‬میں‬
‫نے اس کا جواب دیا‪،‬انہوں نے فرمایا اے یعقوب یہ جواب تم نے کس حدیث سے اخذ کیا‬
‫ہے میں نے کہا اُسی حدیث سے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی انہوں نے فرمایا‬
‫یعقوب یہ حدیث تو مجھے تمہاری پیدائش سے بھی پہلے سے یاد تھی مگر میں آج تک اس‬
‫کا یہ مطلب نہ سمجھ سکا تھا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ اعمش اورامام صاحب کے درمیان‬
‫بھی پیش آیا ہے‪،‬عبیدہللا بن عمرو کہتے ہیں کہ میں اعمش کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ایک‬
‫شخص ان کے پاس آیا اورایک مسئلہ دریافت کیا وہ اس کا جواب نہ دے سکے ‪،‬دیکھا تو‬
‫نعمان اس کے متعلق تم کچھ بولو ‪،‬انہوں‬ ‫ؓ‬ ‫حنیفہ بھی بیٹھے ہوئے تھے فرمایا اے‬
‫ؒ‬ ‫وہاں ابو‬
‫صاحب نے فرمایا‬‫ؒ‬ ‫اعمش نے فرمایا کہاں سے کہتے ہو؟امام‬‫ؒ‬ ‫نے فرمایا اس کا جواب یہ ہے‬
‫اسی حدیث سے جو آپ نے ہم سے روایت کی تھی‪ ،‬اس پر اعمش نے کہا نحن الصیاد لۃ‬
‫وانتم االطباء (تم لوگ اطباء ہو اوربھائی ہم تو عطار ہیں)یعنی عطار کے پاس صرف‬
‫دواؤں کا اسٹاک ہوتا ہے وہ اس کی ترکیب وخواص نہیں جانتا‪،‬اطباء ان کے اثرات‬
‫‪25‬‬

‫یوسف سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ان‬ ‫ؒ‬ ‫اورترکیب بھی جانتے ہیں۔خطیب بغدادی امام ابو‬
‫سے اعمش نے پوچھا کہ آپ کے استاد نے عبدہللا کا یہ مسئلہ کیوں ترک کردیا کہ باندی‬
‫عائشہ کی اسی‬
‫ؓ‬ ‫کے آزاد ہونے سے اُس پر طالق ہوجاتی ہے‪،‬انہوں نے فرمایا کہ حضرت‬
‫حدیث کی بناء پر جو آپ نے اُن سے بواسطہ ابراہیم واسود کے نقل فرمائی تھی کہ بریرہ‬
‫جب آزاد ہوئیں تو ان کی آزادی طالق نہیں سمجھی گئی ؛بلکہ ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ‬
‫اگر وہ چاہیں تو اپنے پہلے نکاح کو قائم رکھیں اور چاہیں تو فسخ کردیں اس پر اعمش نے‬
‫یوسف کہتے ہیں کہ اعمش کو‬ ‫ؒ‬ ‫حنیفہ نہایت سمجھدار شخص ہیں‪،‬امام ابو‬ ‫ؒ‬ ‫کہا بے شبہ ابو‬
‫صاحب کا یہ استنباط بہت پسند آیا تھا۔‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫غسل میت کے مسئلہ کی تحقیق کرنے کے بعد فرماتے‬ ‫ِ‬ ‫ترمذی اپنی جامع میں‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫ہیں ‪:‬وکذالک قال الفقھاء وھم اعلم بمعانی الحدیث فقہاء نے اس حدیث کا یہی مطلب بیان کیا‬
‫ہےا ور حدیث کے مطالب یہی لوگ زیادہ سمجھتے ہیں۔ ان روایات سے ظاہر ہے کہ‬
‫حدیث وفقہ دو علیحدہ چیزیں نہیں ‪،‬فرق ہے تو یہ کہ محدث کے نزدیک الفا ِظ حدیث کا‬
‫حفظ مقدم ہوتا ہے اورفقیہ کے نزدیک ان کے معانی کا فہم مقدم۔ نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ‬
‫شغل فقہ صرف امت کے نفع کی خاطر اختیار فرمایا تھا اور بجا اختیار‬ ‫ِ‬ ‫امام صاحب نے‬
‫الفاظ حدیث تو محفوظ ہو ہی چکے تھے اب جس خدمت کی ضرورت تھی وہ‬ ‫ِ‬ ‫فرمایا تھا‪،‬‬
‫واستنباط مسائل اور ان کی آئینی تشکیل وترتیب ہی کی تھی‪،‬محدثین ہزاروں‬ ‫ِ‬ ‫استخراج‬
‫موجود تھے‪ ،‬لیکن فقہ کا یہ مقام خالی پڑا ہوا تھا ‪،‬اس لیے امام صاحب نے اس خالی گوشہ‬
‫کو پُر کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ امام صاحب ف ِن حدیث‬
‫و قرآن سے نا آشنا تھے‪ ،‬ابھی آپ معلوم کرچکے ہیں کہ محدثین اگر الفاظ حدیث کے ذمہ‬
‫دار ہیں تو فقہاء اس کے صحیح استعمال کے جاننے والے ہیں ‪،‬وہ عطار ہیں تو یہ اطباء‪،‬‬
‫فقہ کا تمام تاروپود قرآن وحدیث سے ہی قائم ہے۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ کبار ائمہ کی‬
‫علم حدیث سے بے بضاعتی کی دلیل سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں‬ ‫قلت روایت کو ان کی ِ‬
‫ہوسکتا کیونکہ شریعت کا مآخذ کتاب وسنت ہی ہے‪،‬لہذا جو شخص بھی شرعی مسائل کے‬
‫استنباط وترتیب کا ارادہ کرے گا اس کے لیے کتاب وسنت کے سوا اورکوئی دوسرا راستہ‬
‫مبنی اس علم سے بے بضاعتی نہ تھی ؛بلکہ‬ ‫ت روایت کا ٰ‬ ‫نہیں ہے‪،‬امام صاحب کی قل ِ‬
‫درحقیقت روایت و تحمل کے وہ شرائط تھے جن کا معیار آپ نے عام محدثین سے بہت‬
‫بلند قائم کیا تھا‪،‬اس لیے آپ کے لیے روایت کا میدان بھی زیادہ وسیع نہیں رہا تھا‪،‬امام‬
‫علم حدیث میں ماہر اورمجتہد ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ محدثین کے‬ ‫صاحب کے ِ‬
‫بنظر اعتبار دیکھی گئی ہے‪ ،‬ایک طرف جہاں امام احمد وامام‬ ‫ِ‬ ‫درمیان آپ کی فقہ ہمیشہ‬
‫شافعی کا مسلک نقل کیا گیا ہے اسی کے پہلو بہ پہلو امام صاحب کا مسلک بھی نقل کیا گیا‬ ‫ؒ‬
‫ہے‪،‬یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ محدثین کے نزدیک آپ کی فقہ بھی اسی درجہ پر‬
‫معتبر تھی جیسا کہ دیگر فقہاء محدثین کی‪ ،‬خالصہ یہ کہ ردوقبول کے اعتبار سے اس کا‬
‫زیر بحث رہنا اس کی دلیل ہے کہ آپ کی فقہ بھی دیگر محدثین کی فقہ کی صف میں‬
‫رہنے کے قابل تھی‪،‬یہ دوسری بات ہے کہ اگر ایک جماعت اسے قبول کرتی رہی تو‬
‫یوسف فرماتے ہیں کہ حدیث کی صحیح مراد‬ ‫ؒ‬ ‫دوسری جماعت ترک کرتی رہی۔امام ابو‬
‫‪26‬‬

‫اوراس میں مسائل کے مآخذامام صاحب سے زیادہ جاننے واال میں نے کوئی شخص نہیں‬
‫دیکھا بعض مرتبہ میں آپ کی رائے چھوڑ کر کسی حدیث کے ظاہر پہلو کو اختیار کرلیتا‬
‫تو بعد میں مجھے تنبہ ہوتا کہ حدیث کی صحیح مراد سمجھنے میں امام صاحب کی نظر‬
‫مجھ سے زیادہ گہری تھی۔‬
‫بطریق تعجب فرماتے‬
‫ِ‬ ‫اسرائیل جو مسلم ائمہ حدیث میں ہیں امام صاحب کی مدح میں‬
‫ہیں نعمان کیا خوب شخص ہیں جو احادیث مسائل فقیہ سے متعلق ہیں وہ ان کو کیسی‬
‫محفوظ ہیں اورکیسی خوبصورتی سے وہ ان سے مسائل فقہ استنباط فرماتے ہیں یہی وجہ‬
‫اوریحیی بن سعید القطان جیسے اشخاص امام اعظم کی فقہ کے‬ ‫ٰ‬ ‫تھی کہ محدثین میں وکیع‬
‫یحیی بن معین سے نقل کرتے ہیں۔ وکان‬‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫فتوی دیتے تھے ‪،‬حافظ ابن ِ عبدالبر‬ ‫مطابق‬
‫(وکیع) یفی برأی ابی حنیفۃ وکان یحفظ حدیث کلہ وکان فد سمع من انی حنیفۃ حدیثا‬
‫فتوی دیا کرتے تھے اورآپ کی روایت کردہ‬ ‫ٰ‬ ‫کثیراوکیع امام صاحب کی فقہ کے مطابق‬
‫تمام حدیثیں یاد کیا کرتے تھے اورانہوں نے آپ سے بہت سی حدیثیں سنی تھیں۔ امام‬
‫صاحب کے اساتذۂ محدثین کی جو تعداد علماء نے لکھی ہے وہ ہزاروں تک پہنچتی ہے؛‬
‫ت حدیث کے حلقے قائم نہیں‬ ‫لیکن چونکہ دیگر محدثین کی طرح خود امام نے باضابط روای ِ‬
‫شان محدثیت نظری‬ ‫کئے اور ترویج فقہ کو ترجیح دی‪،‬اس لیے بعد کے زمانہ میں آپ کی ِ‬
‫بن کر رہ گئی۔‬

‫محدثین کو امام صاحب ؒ سے وجہ نکارت‬


‫تاریخ کا یہ بھی ایک تعجب خیز ورق ہے کہ وہ ایک طرف تو امام صاحب کی‬
‫تعریف وتوصیف میں بکھری جاتی ہے‪،‬وہ جلی حروف میں یہ لکھ جاتی ہے کہ آپ عہد‬
‫وتقوی جود وسخا‪،‬علم و فیض‪،‬خردو عقل کے تمام کماالت آپ‬ ‫ٰ‬ ‫صحابہ میں پیدا ہوئے ورع‬
‫اعظم آپ کا لقب تھا محدثین و علماء کا ایک جم غفیر ہمیشہ‬ ‫ؒ‬ ‫میں جمع تھے‪،‬ائمہ میں امام‬
‫ت مرحومہ کا نصف سے زیادہ حصہ اب بھی‬ ‫آپ کے زمرۂ مقلدین میں شامل رہا اور ام ِ‬
‫آپ کے پیچھے پیچھے جارہا ہے ‪،‬اسی کے ساتھ وہ دوسرے ہی ورق پر دیانت وعقل کا‬
‫کوئی عیب ایسا اٹھا کر نہیں رکھتی جو آپ کی ذات میں لگا نہیں دیتی۔‬
‫خطیب بغدادی نے پورے سو صفحات پر امام صاحب کا تذکرہ لکھا ہے‪،‬پہلے امام‬
‫صاحب کے مناقب میں صفحہ کے صفحہ رنگ دیئے ہیں اس کے بعد پورے ‪ ۵۴‬صفحات‬
‫پر آپ کی ذات میں وہ نکتہ چینیاں نقل کی ہیں جو دنیا کے پردہ پر کبھی کسی بد تر سے‬
‫بدتر کافر پر بھی نہیں کی جاسکتیں‪،‬ایک متوسط عقل کا انسان ان متناقض بیانات کو پڑھ‬
‫کر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسے دو متضاد وصفات کا حامل نہیں‬
‫ہوسکتا یا اس کے مناقب کی یہ تمام داستان فرضی ہے یا پھر عیوب کی یہ طویل فہرست‬
‫صرف مخترع حکایات اورصریح بہتان ہے‪،‬مورخ ابن خلکان نے خطیب کے اس غلط‬
‫طرز پر حسب ذیل الفاظ میں تنقید کی ہے۔ وقد ذکرالخطیب فی تاریخد منھا شیا کثیرا ثم‬
‫اعقب ذلک بذکر ما کان اال لیق ترکہ واال ضراب عنہ فمثل ھذا االمام ال یثک فی دیہ وال فی‬
‫ورعہ وال فی حفظ ولم یکن یعاب بشئی سوی قلۃ العربیۃ‪ ‬یعنی خطیب نے اپنی تاریخ میں آپ‬
‫‪27‬‬

‫کے مناقب کابہت سا حصہ ذکر کیا ہے اس کے بعد ایسی ناگفتنی باتیں لکھی ہیں جن کا‬
‫اعظم جیسے شخص کے‬ ‫ؒ‬ ‫ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا مناسب تھا؛ کیونکہ امام‬
‫ت‬
‫متعلق نہ دیانت میں شبہ کیا جاسکتا ہے نہ حفظ ورع میں آپ پر کوئی نکتہ چینی ‪،‬بجز قل ِ‬
‫عبدالبر مالکی کا کالم یہاں نہایت منصفانہ ہے‬
‫ؒ‬ ‫عربیت کے اورنہیں کی گئی۔ حافظ ابن‬
‫کیونکہ تنقید کا یہ شاخسانہ صرف ایک امام صاحب کی ذات ہی تک محدود نہیں رہتا؛بلکہ‬
‫اورائمہ تک بھی پھیلتا چال گیا ہے‪،‬اگر ذرا نظر کو اور وسیع کیجئے تو پھر صحابہ کا‬
‫استثناء بھی مشکل نظر آتا ہے‪،‬غصہ اورمسرت انسانی فطرت ہے‪،‬ان دونوں حالتوں میں‬
‫انسان کے الفاظ کا صحیح توازن قائم نہیں رہا کرتا اسی لیے غصہ کے حال میں فیصلہ‬
‫کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے‪،‬یہ صرف ایک نبی کی شان ہے جس کے منہ سے‬
‫غضب ورضا کے دونوں حالوں میں جچے تلے الفاظ ہی نکلتے ہیں اب اگر انسانوں کے‬
‫صرف ان جذباتی پہلوؤں سے تاریخ مرتب کرلی جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پھر‬
‫صحابہ کے الفاظ صحابہ کے متعلق اورا ئمہ کے ائمہ کے متعلق بھی ایسے مل سکتے ہیں‬
‫جن کے بعد امت کا یہ مقدس گروہ بھی زیر تنقید آسکتا ہے حافظ محمد ابراہیم وزیر نے‬
‫امام شعبی کا کیسا بصیرت افروز مقولہ نقل کیا ہے‪ :‬قال الشعبی حدثنا ھم بغضب اصحاب‬
‫دنیاشعبی فرماتے ہیں ہم نے تو لوگوں سے آنحضرت‬‫ؒ‬ ‫محمد صلی ہللا علیہ وسلم فاتخذوہ‬
‫ﷺ کے صحابہ کے باہمی غصہ کی حکایات نقل کی تھیں انہوں نے اٹھا کر انہیں عقائد‬
‫کی فہرست میں داخل کرلیا ہے۔ اس کے سوا دوسری مشکل یہ ہے کہ محدثین کے جو‬
‫مبہم الفاظ آج کتب میں مدون نظر آتے ہیں کسے فرصت ہے کہ ان کے اصل معنی‬
‫سمجھنے کی کوش کرے‪،‬مثال کی طور پر مالحظہ کیجئے‪ ،‬ایک مرتبہ امام صاحب اعمش‬
‫کی عیادت کے لیے گئے‪،‬اعمش نے کچھ روکھا پن دکھالیا اورامام صاحب کے متعلق کچھ‬
‫غصہ کے الفاظ کہے‪،‬اس اخالق پر اعمش کا یہ رویہ آپ کو ناگوار گذرا اورگذرنا چاہئے‬
‫تھا‪،‬جب آپ باہر تشریف الئے تو فرمایا کہ اعمش نہ تو رمضان کے روزے رکھتا ہے اور‬
‫نہ کبھی جنابت سے غسل کرتا ہے ‪ ،‬واقعہ یہ ہے کہ کسی امام دین پر ان الفاظ کو کتنا ہی‬
‫چسپاں کیجئے مگر چسپاں نہیں ہوسکتے اگر کہیں ان الفاظ کی تشریح ہمارے سامنے نہ‬
‫ہوتی تو معلوم نہیں کہ اس مقولہ سے ہمارے خیاالت کتنا کچھ پریشان ہوجاتے ؛لیکن جب‬
‫ان الفاظ کی مراد ہاتھ آگئی تو آنکھیں کھل گئیں اور معلوم ہوا کہ ائمہ غصہ کے حال میں‬
‫بھی ایک دوسرے کے متعلق عوام کی طرح بے سروپا کلمات منہ سے نہیں نکاال کرتے ؛‬
‫موسی سے اس کا مطلب دریافت کیا گیا(اس واقعہ میں‬ ‫ٰ‬ ‫چنانچہ اس واقعہ میں جب فضل بن‬
‫وہ امام صاحب کے ساتھ ساتھ تھے) تو انہوں نے فرمایا کہ اعمش التقاختانین سے غسل‬
‫کے قائل نہ تھے ؛بلکہ جمہور کے خالف اس مسئلہ پر عمل کرتے تھے جس پر کبھی ابتدا‬
‫اسالم میں عمل کیا گیا تھا ‪،‬یعنی انزال کے بغیر غسل واجب نہیں ہوتا ‪ ،‬اسی طرح بعض‬
‫صحابہ کا مذہب یہ تھا کہ طلوع فجر کے بعد روشنی پھیلنے تک سحری کھانا درست‬
‫ہے‪،‬ان دو مسئلوں کے لحاظ سے امام صاحب کی یہ دونوں باتیں بھی درست تھیں اور‬
‫اعمش کا عمل بھی اپنے مختار کے مطابق درست تھا۔اگر اسی طرح امام کے حق میں بھی‬
‫بہت سے مشہور مقولوں کی مرادیں تالش کی جائیں تو ہاتھ آسکتی ہیں اوراس کے بعد‬
‫‪28‬‬

‫قابل اعتراض نہیں رہتی جیسا کہ الفاظ کی سطح سے معلوم ہوتی‬ ‫اصل بات بھی اتنی ِ‬
‫ب تذکرہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے محدثین کی ناراضگی کا بڑا سبب‬ ‫تھی‪،‬کت ِ‬
‫اختالف مسائل‪ ،‬امام صاحب کے دور تک عام مذاق یہ تھا‬ ‫ِ‬ ‫اختالف مذاق تھا نہ کہ‬
‫ِ‬ ‫صرف‬
‫کہ مسائل کے متعلق بہت ہی محدود پیمانہ پر غور وخوض کیا جاتا تھا‪ ،‬صرف پیش آمدہ‬
‫واقعات کا شرعی حکم وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ معلوم کرلیا جاتا اس کے بعد مسئلہ‬
‫کی فرضی صورتوں سے بحث کرنا ایک الیعنی مشغلہ سمجھا جاتا تھا‪،‬خطیب بغدادی نے‬
‫یہاں ایک بہت دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے۔ نضر بن محمدؒ روایت کرتے ہیں کہ قتادہ کوفہ‬
‫آئےاورابوبردہ کے گھر اترے‪،‬ایک دن باہر نکلے تو لوگوں کی بھیڑ ان کے ارد گرد جمع‬
‫ہوگئی‪،‬قتادہ نے قسم کھا کر کہا آج جو شخص بھی حالل و حرام کا کوئی مسئلہ مجھ سے‬
‫حنیفہ کھڑے ہوگئے اور سوال‬ ‫ؒ‬ ‫دریافت کرے گا میں اس کا ضرور جواب دونگا‪ ،‬امام ابو‬
‫کیا اے ابو الخطاب (ان کی کنیت ہے) آپ اس عورت کے متعلق کیا فرماتے ہیں جس کا‬
‫شوہر چند سال غائب رہا اس نے یہ یقین کرکے کہ اس کا انتقال ہوگیا ہو اپنا دوسرا نکاح‬
‫کرلیا اس کے بعد اس کا پہال شوہر بھی آگیا اب آپ اس کے مہر کے متعلق فرمائیے کیا‬
‫فرماتے ہیں اورجو بھیڑ ان کو گھیرے کھڑی تھی ان سے مخاطب ہوکر کہا اگر اس مسئلہ‬
‫کے جواب میں یہ کوئی حدیث روایت کریں گے تو وہ غلط روایت کریں گے اوراگر اپنی‬
‫رائے سے فتوے دیں گے تو وہ بھی غلط ہوگا‪،‬قتادہ بولے کیا خوب!کیا یہ واقعہ پیش آچکا‬
‫ہے؟امام صاحب نے فرمایا نہیں‪ ،‬انہوں نے کہا پھر جو مسئلہ ابھی تک پیش نہیں آیا اس کا‬
‫جواب مجھ سے کیوں دریافت کرتے ہو‪ ،‬امام صاحب نے فرمایا کہ ہم حادثہ پیش آنے سے‬
‫قبل اس کے لیے تیاری کرتے ہیں تاکہ جب پیش آجائے تو اس سے نجات کی راہ معلوم‬
‫رہے‪،‬قتادہ ناراض ہوکر بولے خدا کی قسم میں حالل وحرام کا کوئی مسئلہ اب میں تم سے‬
‫بیان نہیں کروں گا‪ ،‬ہاں کچھ تفسیر کے متعلق پوچھنا ہو تو پوچھو اس پر امام صاحب نے‬
‫ایک تفسیر ی سوال کیا ‪،‬قتادہ اس پر بھی الجواب ہوئے اورناراض ہوگئے‪،‬آخر کار غصہ‬
‫ہوکر اندر تشریف لے گئے۔‬
‫ابو عمرو نے سلف کے اس مذاق کی شہادت پر بہت سے واقعات لکھے ہیں اور بے‬
‫تقوی کے اس دور میں مناسب بھی یہی تھا لیکن جب مقدر یہ ہوا کہ علم کا‬ ‫ٰ‬ ‫شبہ علم و‬
‫بازار سرد پڑجائے‪،‬ورع وتقوی کی جگہ جہل و فریب لے لے ادہر روز مرہ نئے سے‬
‫نئے واقعات پیش آنے لگیں تو اس سے پہلے کہ جہال شریعت میں دست اندازی شروع‬
‫کردیں یہ بھی مقدر ہوگیا کہ شریعت کی ترتیب وتہذیب ایسے ائمہ کے ہاتھوں ہوجائے‬
‫جنہوں نے صحابہ وتابعین کے دور میں پرورش پائی ہو‪،‬انصاف کیجئے اگر قتادہ کے‬
‫زمانہ کی یہ احتیاط اسی طرح آئندہ بھی چلی جاتی تو کیا شرعی مسائل اسی ضبط وصحت‬
‫کے ساتھ جمع ہوجاتے جیسا کہ اب جمع ہوئے‪،‬درحقیقت یہ امام صاحب کی بڑی انجام بینی‬
‫اور امت کی بروقت دستگیری تھی کہ آپ نے اُن کے سامنے شریعت کو ایک مرتب آئین‬
‫بناکر رکھ دیا‪ ،‬اسی لیے عبدہللا بن داؤد فرماتے تھے کہ امت پر آپ کا یہ حق ہے کہ وہ آپ‬
‫کے لیے نمازوں کے بعد دعائیں کیا کریں‪،‬یہ خدمت اپنی جگہ خواہ کتنی ہی ضروری‬
‫اوربروقت سہی مگر واقعہ یہ ہے کہ محدثین کے مذاق کے خالف جس دوزیں آثار‬
‫‪29‬‬

‫مرفوعات کو علیحدہ علیحدہ ضبط کرنا بھی عام دستور نہ ہو اس دور میں صرف ابواب‬
‫قابل برداشت ہوسکتا تھا‪،‬یہ بھی ایک‬‫فقہیہ کی اونچی اونچی تعمیریں کھڑا کردینا کب ِ‬
‫حقیقت ہے کہ جب مسائل منصوصہ سے آپ ذرا قدم ادھر اُدھر ہٹائیں گے تو آپ کو اجتہاد‬
‫سے کام لینا ہوگا‪ ،‬ایسے دور میں جہاں خاموشی کے ساتھ عمل کرنے کے عالوہ ایک قدم‬
‫قابل اعتراض نظر آتا ہو‪ ،‬احادیث وآیات کے اشارات‪ ،‬دالالت‬
‫ادھر ادھر اٹھانا بھی ِ‬
‫اوراقتضاء سے ہزاروں مسائل اخذ کرکے ان کو احادیث سے ایک علیحدہ شکل دیدینا کب‬
‫گوارا کیا جاسکتا تھا‪ ،‬آخر جب آپ کا دور گذرگیا تو بعد کے علماء کے سامنے صرف‬
‫پہلے علماء کی ان ناگواریوں کی نقل باقی رہ گئی‪،‬پھر استادی وشاگردی کے تعلقات نے‬
‫حقایق کو ایسا پوشیدہ کردیا کہ جس نے جہمی کو کافر کہا تھا اسے خود جہمی اورکافر کہا‬
‫گیا‪،‬جس نے کتاب وسنت کے مقابلہ میں اپنی رائے ترک کرنے کی وصیت کی تھی اسی‬
‫پر کتاب وسنت کی مخالفت کرنے کی تہمت رکھی گئی ہاں اگر خوش قسمتی سے ماحول‬
‫کے تاثرات سے نکل کر کسی ہللا کے بندہ نے تحقیق کی نظر ڈالی تو بہت جلد اس کی‬
‫آنکھوں سے یہ حجاب اُٹھ گیا اوراس نے اپنے خیال سے رجوع کرلیا ورنہ تاریخ اُن ہی‬
‫افواہوں پر چلتی رہی جو استادی وشاگردی کے انسالک سے علماء کے حلقوں میں گشت‬
‫لگارہی تھیں۔‬
‫واقعہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کی زندگی میں اس کے متعلق مختلف خیاالت قائم‬
‫ہوسکتے ہیں اور فیصلہ کی راہ آسانی سے نہیں نکل سکتی‪،‬بہت سی زبانیں اس کی‬
‫موافقت اوربہت سی اس کی مخالفت میں بولی ہیں تو اس کی وفات کے بعد جبکہ اس کی‬
‫شخصیت بھی سامنے نہیں رہتی فیصلہ کرنا کتنا مشکل ہوگا‪،‬اسماء الرجال کے فن میں‬
‫تاریخ کی اس تاریکی کو دور کرنے کی سعی کی گئی ہے اورایک معتدل مزاج انسان کے‬
‫لیے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا مشکل بھی نہیں رہا لیکن تاریخ کی جو نقول اوراق میں‬
‫درج ہوچکی ہیں‪،‬اُس سے ہر خیال کا انسان اگر مزاجی اعتدال نہیں رکھتا تو اپنے خیال‬
‫کے موافق فائدہ اٹھانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس لیے اسماء الرجال کی پیدا کردہ‬
‫روشنی تاریخ کی پھیالئی ہوئی تاریکی کے دور کرنے میں بسا اوقات ناکام ہوکر رہ جاتی‬
‫ہے‪،‬یہی وجہ ہے کہ جب آپ امام صاحب پر جرح کرنے والوں کی صف پر نظر ڈالیں گے‬
‫تو ان میں زیادہ تر آپ کو وہی افراد نظر آئیں گے جو آپ کے عہ ِد حیات کے بعد پیدا‬
‫ہوئے ہیں یا نرے محدث ہیں فقاہت سے زیادہ بہرہ ورنہیں صرف سنی ہوئی خبریں اُن تک‬
‫درس حدیث کا حلقہ بھی‬
‫ِ‬ ‫پہنچتی ہے لیکن ان میں اکثر شاگرد بسلسلہ فقہ تھے کاش آپ کا‬
‫اسی پیمانہ پر قائم ہوجاتا تو شاید امام کی تاریخ کا نقشہ آج آپ کو کچھ دوسرا نظر آتا؛‬
‫چنانچہ جس حنفی نے بھی اس شغل کو قائم رکھا ہے اس کے ساتھ تاریخ زیادہ بے دردی‬
‫کا سلوک نہیں کرسکی۔‬
‫ذیل کے ایک ہی واقعہ سے اندازہ لگائیے کہ افواہ کیا ہوتی ہے اورجب حقیقت‬
‫المبارک کہتے ہیں کہ‬
‫ؒ‬ ‫سامنے آجاتی ہے تو پھر اس کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ عبدہللا بن‬
‫اوزاعی کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے مجھ سے پوچھا اے‬ ‫ؒ‬ ‫میں شام میں امام‬
‫خراسانی کوفہ میں یہ کون بدعتی شخص پیدا ہوا ہے جس کی کنیت ابو حنیفہ ہے یہ سُن‬
‫‪30‬‬

‫کر میں گھر واپس آیا اورتین دن لگ کر امام صاحب کے عمدہ عمدہ مسائل انتخاب‬
‫کئے‪،‬تیسرے دن اپنے ہاتھ میں کتاب لیکر آیا یہ اپنی مسجد کے امام ومؤذن تھے انہوں نے‬
‫دریافت کیا یہ کیا کتاب ہے میں نے اُن کے حوالہ کردی‪ ،‬اس میں وہ مسئلے بھی ان کی‬
‫نظر سے گذرے جن کے شروع میں میں نے یہ لکھد دیا تھا‪،‬اورنعمان اس کے متعلق یہ‬
‫فرماتے ہیں ‪،‬اذان دے کر جب کھڑے کھڑے وہ کتاب کا ابتدائی حصہ دیکھ چکے تو کتاب‬
‫اٹھا کر اپنی آستین میں رکھ لی اور اقامت کہہ کر نماز پڑھی پھر نکالی اور پڑھنا شروع‬
‫کی یہاں تک کہ ختم کردی پھر مجھ سے پوچھا اے خراسانی یہ نعمان کون شخص ہیں؟‬
‫میں نے عرض کیا ایک شیخ ہیں‪ ،‬اُن سے عراق میں میری مالقات ہوئی تھی‪،‬فرمایا یہ تو‬
‫بڑے پایہ کے شیخ ہیں‪ ،‬جاؤ ان سے اورعلم سیکھو‪،‬اب میں نے کہا جی یہ تو وہی ابو‬
‫حنیفہ ہیں جن کے پاس جانے سے بھی آپ نے مجھے منع کیا تھا‪،‬اس واقعہ سے اندازہ‬ ‫ؒ‬
‫صاحب کے متعلق انہوں نے سُن کیا رکھاتھا اورجب حقیقت سامنے آئی‬ ‫ؒ‬ ‫ہوسکتا ہے کہ امام‬
‫تو بات کیا نکلی اس لیے خارجی شہادت اورواقعات سے آنکھیں بند کرکے صرف کالے‬
‫کالے حروف سے تاریخ مرتب کرنا کوئی صحیح عمل نہیں ہے‪ ،‬اس کے عالوہ انسان میں‬
‫حسد‪ ،‬تنافس کا بھی ایک کمزور پہلو موجود ہے‪ ،‬اس کی بدولت بہت سے تاریخی حقائق‬
‫پوشیدہ ہوکر رہ گئے ہیں‪،‬سؤ اتفاق سے یہاں یہ سب باتیں جمع ہوگئی ہیں۔ عبدہللا بن‬
‫حنیفہ کے گھوڑے کی رکاب‬ ‫ؒ‬ ‫المبارک فرماتے ہیں‪،‬میں نے حسن بن عمارہ کو امام ابو‬ ‫ؒ‬
‫صاحب کی توصیف کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ‬ ‫ؒ‬ ‫پکڑے ہوئے دیکھا‪،‬وہ امام‬
‫لوگ آپ کے متعلق صرف ازرا ِہ حسد چہ میگوئیاں کرتے ہیں‪،‬حافظ اب ِن ابی داؤدؒ کہتے‬
‫حنیفہ کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والے دوہی قسم کے لوگ ہیں یا حاسد یا ان‬ ‫ؒ‬ ‫ہیں کہ ابو‬
‫کی شان سے ناواقف‪،‬میرے نزدیک ان دونوں میں ناواقف شخص پھر غنیمت ہے‪،‬وکیع‬
‫صاحب کے پاس آیا دیکھا تو سرجھکائے کچھ فکر مند سے بیٹھے‬ ‫ؒ‬ ‫کہتے ہیں کہ میں امام‬
‫ہیں‪،‬مجھ سے پوچھا کدھر سے آرہے ہو میں نے کہا قاضی شریک کے پاس سے آپ نے‬
‫سراٹھا کر یہ اشعار پڑھے‪:‬‬
‫ان یحسدونی فانی ‪،‬غیرالئمھم قبلی من الناس اھال الفضل قد حسدوا فدام لی ولھم مابی‬
‫ومابھم ومات اکثر ناغیظا بما مجد اگر لوگ مجھ پر حسد کرتے ہیں تو کریں میں تو انہیں‬
‫اہل فضل پر مجھ سے پہلے بھی لوگ حسد کرتے آئے‬ ‫کچھ مالمت نہیں کروں گا‪،‬کیونکہ ِ‬
‫ہیں‪،‬میرا اوراُن کا ہمیشہ یہی شیوہ رہے گا۔اورہم میں اکثر لوگ حسد کرکر کے مرگئے‬
‫ہیں۔ وکیع کہتے ہیں شاید امام صاحب ؒ کو ان کی طرف سے کوئی بات پہنچی ہوگی اس‬
‫لیے انہوں نے یہ اشعار پڑھے ۔ جعفر بن الحنس ابو عمر کے شیخ کہتے ہیں کہ میں نے‬
‫حنیفہ کو خواب میں دیکھا تو اُن سے دریافت کیا ہللا تعالی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ‬ ‫ؒ‬ ‫ابو‬
‫کیا‪،‬فرمایا بخشد یا میں نے کہا علم و فضل کے طفیل میں‪ ،‬کہا بھئی فتوی تو مفتی کے لیے‬
‫بڑی ذمہ داری کی چیز ہے‪ ،‬میں نے کہا پھر‪ ،‬فرمایا لوگوں کی اُن ناحق نکتہ چینیوں کے‬
‫تعالی جانتا تھا کہ وہ مجھ میں نہ تھیں۔‬
‫ٰ‬ ‫طفیل میں جو لوگ مجھ پر کیا کرتے تھے اورہللا‬
‫ابو عمر تحریر فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث نے امام صاحب کے حق میں بڑی‬
‫زیادتی کی ہے اورحد سے بہت تجاوز کیا ہے آپ پر جو زیادہ سے زیادہ نکتہ چینی کی‬
‫‪31‬‬

‫گئی ہے وہ صرف ان دو باتوں پر‪،‬ایک آثار کے مقابلہ میں رائے اور قیاس کا اعتبار کرنا‪،‬‬
‫دوسری ارجاء کی نسبت حاالنکہ جس جگہ امام صاحب نے کسی اثر کو ترک کیا ہے کسی‬
‫نہ کسی موزوں تاویل سے کیا ہے‪،‬اس کی نوبت بھی ان کو اس لیے آتی ہے کہ انہوں نے‬
‫مسائل میں بیشتر اپنے اہل بلد کا اعتبار کیا ہے جیسے ابراہیم نخعی اورابن مسعودؒ کے‬
‫تالمذہ‪ ،‬اس سلسلہ میں مسائل کی صورتیں فرض کرنے پھر اپنی رائے سے ان کے‬
‫جوابات دینے اس پر اس کو مستحسن سمجھنے میں آپ نے اورآپ کے تالمذہ نے بھی‬
‫افراط سے کام لیا ہے ان وجوہ سے سلف میں اُن سے مخالفت پیدا ہوگئی ورنہ میرے‬
‫اہل علم میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جسے کسی حدیث کے اختیار کرنے‬ ‫نزدیک ِ‬
‫دعوی نسخ کرنا الزم نہ آیا ہو‪ ،‬فرق صرف‬ ‫ٰ‬ ‫کے بعد کسی نہ کسی حدیث کا ترک یا تاویل یا‬
‫صاحب کو زیادہ‪ ،‬اس پر ان کے‬‫ؒ‬ ‫یہ ہے کہ دوسروں کو ایسا موقعہ کم پیش آیا ہے اورامام‬
‫مالک کے‬
‫ؒ‬ ‫ساتھ حسد اوربہتان کی مصیبت مزید براں ہے‪،‬لیث بن سعد کہتے ہیں کہ امام‬
‫مالک نے صرف اپنی‬ ‫ؒ‬ ‫ستر مسئلے مجھے ایسے معلوم ہیں جو سنت کے خالف ہیں ‪ ،‬امام‬
‫رائے سے نکالے ہیں اس بارے میں اُن سے خط و کتابت بھی کرچکا ہوں‪،‬ابو عمر کہتے‬
‫ہیں علماء امت میں یہ حق تو کسی کو حاصل نہیں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی کوئی‬
‫حدیث صحت کو پہنچ جائے تو وہ اس کی سند میں طعن یا اسی درجہ کی حدیث سے‬
‫دعوی نسخ یا اس کے مقابلہ میں امت کا اجماع پیش کئے بغیر اس کو ترک کردے اوراگر‬ ‫ٰ‬
‫کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی عدالت ہی ساقط ہوجاتی ہے چہ جائیکہ اس کو دین کا امام‬
‫صاحب سے روایت کرنے والوں اورآپ کو ثقہ‬ ‫ؒ‬ ‫مانا جائے‪،‬اس کے بعد لکھتے ہیں کہ امام‬
‫کہنے والوں کی تعداد اُن سے زیادہ ہے جنہوں نے آپ پر نکتہ چینی کی ہو ‪،‬پھر جنہوں‬
‫نے نکتہ چینی کی بھی ہے تو وہ صرف اُن ہی دو باتوں پر کی ہے جو ابھی مذکور ہوئیں‬
‫پھر تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں یہ مشہور تھاکہ بزرگی وبرتری کا یہ بھی‬
‫ایک معیار ہے کہ اس کے متعلق لوگ افراط وتفریط کی دوراہوں پر نکل جائیں جیسا کہ‬
‫علی یہاں بھی ایک جماعت افراط اوردوسری تفریط میں مبتالء نظر آتی ہے۔آخر‬ ‫حضرت ؓ‬
‫میں حافظ عمر بطور قاعدہ تحریر فرماتے ہیں (اس قاعدہ کی پوری تفصیل کے لیے‬
‫طبقات الشافعیہ میں احمد بن صالح مصری اورحاکم کا ترجمہ مالحظہ کیجئے انہوں نے‬
‫اس کے ہر گوشہ پر تفصیلی بحث کردی ہے اوراس مجمل ضابطہ میں جن جن قید وشرط‬
‫کی ضرورت تھی سب ذکر کردی ہیں)‪:‬کہ جس شخص کی عدالت صحت کے درجہ کو‬
‫پہنچ چکی ہو‪،‬علم کے ساتھ اس کا مشغلہ ثابت ہوچکا ہو‪،‬کبائر سے وہ احتراز کرتا‬
‫ہو‪،‬مروت اورہمدردی اس کا شعار ہو‪،‬اس کی بھالئیاں زیادہ ہوں اوربرائیاں کم تو ایسے‬
‫قابل قبول نہیں ہونگے۔سچ تویہ ہے کہ‬ ‫شخص کے بارے میں بے سروپا الزامات ہرگز ِ‬
‫مخلوق نے جب اپنی زبان خالق سے بند نہیں کی تو اب ہمہ وشما سے اس کی توقع فضول‬
‫موسی علیہ السالم نے ایک بار دعا کی اے پروردگار بنی اسرائیل کی زبان‬ ‫ٰ‬ ‫ہے ‪،‬حضرت‬
‫سے میرا پیچھا چھڑا دے ‪،‬وحی آئی جب میں نے مخلوق کی زبان اپنے نفس سے‪،‬بند نہیں‬
‫کی تو تم سے کیسے بندکردوں۔‬

‫اہم تصانیف‬
‫‪32‬‬

‫آپ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں‪: : ‬‬


‫‪ -1‬فقہ اکبر ‪ -‬بروایت ‪ ،‬امام حماد بن ابی حنیفہ ؒ‬
‫‪ -2‬فقہ اکبر ‪ -‬بروایت ‪ ،‬امام ابو مطیع بلخی ؒ‬
‫السمرقندی‬
‫ؒ‬ ‫‪ -3‬العالم والمتعلم ‪ -‬بروایت ‪ ،‬امام ابو حفص مقاتل‬
‫‪ -4‬الرسالہ الی البتی‬
‫البتی کی طرف بعض مسائل کی وضاحت کے سلسلہ میں‬ ‫ؒ‬ ‫یہ مشہور فقیہ اور امام عثمان‬
‫لکھا۔‬
‫حنیفہ‬
‫ؒ‬ ‫‪ -5‬الوصایا ‪ -‬ابو‬
‫امام صاحب نے اصول دین ‪ ،‬قضاء وغیرہ سے متعلق اپنے تالمذہ کو وصیتیں کیں۔‬
‫الوصیہ الی اصحابہ‬ ‫‪.1‬‬
‫الوصیہ الی ابویوسف قاضی‬ ‫‪.2‬‬
‫الوصیہ الی یوسف السمتی‬ ‫‪.3‬‬
‫الوصیہ الی حماد بن ابی حنیفہ‬ ‫‪.4‬‬
‫الوصیہ الی نوح بن ابی مریم‬ ‫‪.5‬‬
‫کتاب اآلثار ‪ -‬ابو حنیفہ النعمان ؒ‬
‫حدیث کی قدیم ترین اور صحیح روایات پر مشتمل کتاب ہے ۔ اس کو ائمہ کی بڑی‬
‫ابوحنیفہ سے روایت کیا ہے ۔‬
‫ؒ‬ ‫تعداد نے امام‬
‫اس کے عالوہ امام صاحب کی روایت کردہ احادیث کو جلیل القدر ائمہ نے مسانید ‪ ،‬اربعین‬
‫‪ ،‬وحدان ‪،‬موسوعہ کی شکل میں جمع کیا۔‬

‫فقہ‪:‬‬
‫ابوحنیفہ نے قرآن و سنت سے ہزاروں مسائل نکالے اور فقہ کی تدوین فرمائی ۔‬‫ؒ‬ ‫امام‬
‫جن کو ان کے تالمذہ کی جماعت نے ان کی زیر نگرانی کتب میں لکھا۔‬
‫امام صاحب کے تالمذہ نے ان مسائل کو امام صاحب سے روایت بھی کیا اور اُن پر اپنی‬
‫آراء کا بھی اضافہ کیا ‪ ،‬جس کی تکمیل امام محمد بن حسن شیبانی ؒ نے‬
‫فرمائی ‪ ،‬انہوں نے ان مسائل کو ‪ 6‬کتب میں بیان کیا ۔ یہ کتب ظاہر الروایۃ کہالتی ہیں ۔‬
‫جو فقہ حنفی کی بنیاد ہیں ۔‬
‫‪1‬۔ کتاب االصل (المبسوط ) ‪2‬۔ جامع الصغیر ‪3‬۔ جامع الکبیر ‪4‬۔ السیر الصغیر ‪5‬۔ السیر‬
‫الکبیر ‪6‬۔ الزیادات‬
‫‪33‬‬

‫دیگر تصانیف‪: ‬‬
‫اس کے عالوہ امام صاحب کی تصانیف جو ہم تک نہیں پہنچ سکیں ۔‬

‫كتاب الصالة‬ ‫‪‬‬


‫المناسك‬ ‫‪‬‬
‫كتاب الرهن‬ ‫‪‬‬
‫الشروط‬ ‫‪‬‬
‫الفرائض‬ ‫‪‬‬
‫كتاب االجاء‬ ‫‪‬‬
‫كتاب السير‬ ‫‪‬‬
‫كتاب الرأي‬ ‫‪‬‬
‫اختالف الصحابة‬ ‫‪‬‬
‫كتاب الجامع‬ ‫‪‬‬
‫كتاب السير‬ ‫‪‬‬
‫الكتاب األوسط‬ ‫‪‬‬
‫فقہ حنفی‬
‫امام اعظم‪ ‬اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں‪’’ : ‬میں سب سے پہلے‬
‫ت‬
‫کسی مسئلے کا حکم کتاب ہللا سے اخذ کرتا ہوں‪ ،‬پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سن ِ‬
‫رسول صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں‪ ،‬جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام‬
‫کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں‬
‫لیتا اور جب معاملہ‪ ‬ابراہیم شعبی‪ ،‬ابن سیرین‪ ‬اور‪ ‬عطاء‪ ‬پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد‬
‫تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔ ‘‘ آپ کے اجتہادی مسائل‬
‫تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسالمی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم‬
‫اسالمی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل‪ ،‬قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسالمی دنیا کا‬
‫بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔‬
‫فقہی ائمہ کرام بلحاظ ترتیب زمانی والدت‬

‫تبصرہ‬ ‫مکتبہ سال و جائے پیدائش سال و جائے وفات‬ ‫ترتی نام امام‬
‫فکر‬ ‫ب‬

‫اہل ‪80‬ھ‪699 ( ‬ء‪ ) ‬کوفہ ‪150‬ھ‪767 ( ‬ء‪ ) ‬بغدا فقہ حنفی‬ ‫ابو حنیفہ‬ ‫‪1‬‬


‫د‬ ‫سنت‬
‫‪34‬‬

‫جعفر صادق اہل ‪83‬ھ‪702 ( ‬ء‪ ) ‬مدین ‪148‬ھ‪765 ( ‬ء‪ ) ‬مدین فقہ جعفریہ‪ ،‬کتب‬ ‫‪2‬‬


‫اربعہ‬ ‫ہ‬ ‫تشیع ہ‬

‫مالک بن انس اہل ‪93‬ھ‪712 ( ‬ء‪ ) ‬مدین ‪179‬ھ‪795 ( ‬ء‪ ) ‬مدین فقہ مالکی‪ ،‬موطا امام‬ ‫‪3‬‬


‫مالک‬ ‫ہ‬ ‫سنت ہ‬

‫اہل ‪150‬ھ‪767 ( ‬ء‪ ) ‬غز ‪204‬ھ‪819 ( ‬ء‪ ) ‬فسط فقہ شافعی‪ ،‬کتاب االم‬ ‫محمد بن‬ ‫‪4‬‬


‫اط‬ ‫ادریس شافعی سنت ہ‬

‫احمد بن حنبل اہل ‪164‬ھ‪781 ( ‬ء‪ ) ‬مر ‪241‬ھ‪855 ( ‬ء‪ ) ‬بغدا فقہ حنبلی‪ ،‬مسند‬ ‫‪5‬‬


‫احمد بن حنبل‬ ‫د‬ ‫سنت و‬

‫اہل ‪201‬ھ‪817 ( ‬ء‪ ) ‬کو ‪270‬ھ‪883 ( ‬ء‪ ) ‬بغدا فقہ ظاہری‪،‬‬ ‫داود ظاہری‬ ‫‪6‬‬


‫د‬ ‫سنت فہ‬

‫مقام فقہ حنفی‬


‫حضرت ضرار بن صرد نے کہا‪ ،‬مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ‬
‫سب سے زیادہ‪ ‬فقہ‪( ‬سمجھ) واال امام ثوری ہیں یا امام ابو حنیفہ؟ تو انہوں نے کہا کہ‪ :‬ابو‬
‫حنیفہ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ‪ ‬فقیہ) ہیں اور سفیان (ثوری) تو سب سے زیادہ‬
‫حافظ ہیں حدیث میں ‪ .‬حضرت عبد ہللا بن مبارک نے فرمایا‪ :‬امام ابو حنیفہ لوگوں میں سب‬
‫سے زیادہ‪ ‬فقہ‪( ‬سمجھ) رکھنے والے تھے۔ حضرت‪ ‬امام شافعی‪ ‬فرماتے ہیں‪” : ‬جو‬
‫شخص‪ ‬فقہ‪ ‬حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو الزم پکڑے‬
‫کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چین (محتاج) ہیں۔ “ (مناقب االمام ابی‬
‫حنیفہ ص‪ ) 27‬محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداؤد فرماتے ہیں‪" : ‬ان ابا‬
‫حنیفۃ کان اماما"۔ ترجمہ‪ :‬بے شک ابوحنیفہ (حديث میں) امام تھے۔‪ ‬تذكرة الحفاظ‪ ،‬دار‬
‫الكتب العلمية‪ :‬صفحة ‪ ،١٦٨ #‬جلد ‪ ،١‬طبقه ‪ ،٥ #‬بيان‪ :‬أبو حنيفة االمام اعظم‬

‫حق گوئی‬
‫جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے انہوں نے کبھی بھی کسی خلیفہ کی خوشامد یا‬
‫مالزمت نہ کی۔ ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ یزید نے ان کو مشیر بنانا چاہا تو آپ‬
‫نے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا کہ ’’اگر یزید کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ‬
‫بھی مجھے گوارا نہیں۔ ‘‘ امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم کے خروج کے موقع پر انہوں‬
‫نے ابراہیم کی تائید کی تھی۔ منصور نے انہیں بال کر عہدہ قضا پر فائز کرنا چاہا لیکن آپ‬
‫کے مسلسل انکار پر اول بغداد کی تعمیر کے موقع پر انہیں اینٹیں شمار کرنے کے کام پر‬
‫لگایا اور بعد میں‪ ‬قید خانہ‪ ‬میں ڈال دیا۔‬
‫‪35‬‬

‫عظمت ابوحنیفہ‬
‫ایک دفعہ حضرت امام اعظم اور‪ ‬امام شافعی‪ ‬کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہو‬
‫گیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبد ﷲ نے دونوں کے‬
‫درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا‪ :‬پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو۔ جب‬
‫گنے گئے تو ‪ 80‬تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا‪ :‬اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو‬
‫جب انہوں نے شمار کیے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس‬
‫جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ‪ ‬فقہ‪ ‬اور‪ ‬حدیث‪ ‬دونوں میدانوں میں‪ ‬امام االئمہ‪ ‬تھے۔‬

‫وفات‬
‫‪150‬ھ میں‪ ‬بغداد‪ ‬میں ان کا انتقال ہوا۔ پہلی بار نماز جنازہ پڑھی گئی تو پچاس ہزار آدمی‬
‫جمع ہوئے جب آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا تو چھ بار نماز جنازہ پڑھائی گئی آپ‪ ‬ملکہ‬
‫خیزراں‪ ‬کے مقبرہ کے مشرق کی جانب دفن ہوئے۔ اس دور کے ائمہ اور فضال نے آپ‬
‫کی وفات پر بڑے رنج کا اظہار کیا۔‬

‫حضرت امام ابوحنیفہ اور علم حدیث‬


‫حافظ حدیث‪ ،‬امام اعظم‬
‫ِ‬ ‫ث کبیر‪،‬‬‫سیدنا امام االئمہ‪ ،‬سراج االمہ‪ ،‬رئیس الفقہاء‪ ،‬محد ِ‬
‫اوصاف مخصوصہ‪ :‬علم‬‫ِ‬ ‫ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی (و‪۸۰:‬ھ‪ -‬م‪۱۵۰:‬ھ) رحمہ ہللا کے‬
‫تقوی‪ ،‬ریاضت وعبادت اور فہم و فراست کی طرح‪ ،‬آپ کی شا ِن محدثیت‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫و عمل‪ ،‬زہد و‬
‫حدیث دانی اور حدیث بیانی بھی‪ ،‬اہل ایمان میں مسلم اور ایک ناقابل انکار حقیقت ہے؛‬
‫لیکن اس کے باوجود‪ ،‬کچھ کم علم اور متعصب افراد نے امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“‬
‫اور ”یتیم فی الحدیث“ وغیرہ ہونے کا الزام لگایا ہے‪ ،‬جو خالص حسد و عناد پر مبنی ہے۔‬
‫شان محدثیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ‬ ‫ذیل کے مقالے میں‪ ،‬آپ کی ِ‬
‫ب ”جرح و تعدیل“ ہونے‬ ‫حافظ حدیث اور صاح ِ‬‫ِ‬ ‫امام حدیث‪،‬‬
‫صرف محدث ہی نہیں بلکہ ِ‬
‫کے ساتھ ساتھ‪ ،‬کثیر الحدیث ہونے میں بعد کے محدثین مثالً امام بخاری‪ ‬و مسلم‪ ‬وغیرہ‬
‫علم حدیث میں بلند مقام ومرتبہ کا ہونا ظاہر ہے؛ نیز آپ پر‬‫کے ہم پلہ ہیں؛ جس سے آپ کا ِ‬
‫حدیث کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کا بے بنیاد ہونا بھی ان شاء ہللا ثابت ہوجائے‬
‫گا۔‬

‫ضروری تجزیہ‬
‫ب‬
‫امام صاحب کی علم حدیث میں مہارت معلوم کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ‪ ،‬نصا ِ‬
‫تعلیم اور اساتذہ کا تجزیہ ایک ناگزیر ضرورت ہے‪ ،‬جسے اختصار کے ساتھ پیش کیا‬
‫جارہا ہے۔‬

‫اولیں درس گاہ اور حدیث کے لیے سفر‬


‫‪36‬‬

‫امام صاحب کی تبحر حدیث میں‪ ،‬اس کا بھی دخل ہے کہ آپ کی اولیں درس گاہ‬
‫اعلی‪ :‬حضرت علی کرم ہللا وجہہ اور صدر مدرس‬ ‫ٰ‬ ‫”کوفہ“ ہے جس کے سرپرست‬
‫حضرت عبدہللا بن مسعود‪ ‬تھے‪ ،‬واضح رہے کہ یہ ”کوفہ“ ان حضرات کے ورود مسعود‬
‫سے پہلے بھی علم حدیث کا شہر تھا اور بعد میں تو خیر رہا ہی۔(‪ )۱‬امام صاحب کی‬
‫تحصیل حدیث کی دوسری بڑی درسگاہ ”بصرہ“ ہے جو حسن بصری‪ ،‬شعبہ‪ ‬قتادہ‬
‫‪ ‬کے فیض تعلیم سے ماال مال تھا۔ چوں کہ اسالم کی ابتدائی صدیوں میں ”حج“ استفادے‬
‫اور افادے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا؛ اس لیے تکمیل حدیث کے لیے علوم شرعیہ کے‬
‫تعالی) کا سفر کیا اور پچپن حج کیے۔ سب سے‬ ‫ٰ‬ ‫اصل مرکز‪ :‬حرمین شریفین (صانہما ہللا‬
‫پہال حج سولہ سال کی عمر میں والد صاحب کی معیت میں ‪۹۶‬ھ میں کیا‪ ،‬اس سفر میں‬
‫صحابی رسول حضرت عبدہللا بن الحارث‪ ‬سے مالقات کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور‬
‫ان کی زبان مبارک سے یہ ارشاد بھی سنا‪” :‬من تفقہ فی دین ہّٰللا ‪ ،‬کفاہ ہّٰللا ہمہ ورزقہ من‬
‫حیث ال یحتسب“(‪)۲‬‬

‫شرف تابعیت‬
‫ِ‬
‫اسی وجہ سے باتفاق ائمہ محدثین آپ تابعی ہیں‪ ،‬لہٰ ذا آپ ہللا کے قول‪” :‬والذین اتبعوہم‬
‫باحسان رضی ہّٰللا عنہم ورضوا عنہ“‪ ‬میں داخل ہیں؛کیوں کہ حج کے مسلسل سفروں میں‬
‫ت صحابہ‪ ‬سے استفادے کا موقع مال؛ اسی کے ساتھ ساتھ آپ کو حج کے سفروں‬ ‫حضرا ِ‬
‫میں تدریس کے مواقع بھی فراہم ہوئے‪ ،‬جہاں لوگ آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے‬
‫ٹوٹ پڑتے تھے؛ اسی وجہ سے آپ کے شاگردوں کی تعداد‪ ،‬حد شمار سے باہر ہے‪ ،‬جب‬
‫کہ آپ کے اساتذہ و شیوخ کی تعداد چارہزار تک ہے۔(‪)۴‬‬

‫نصاب تعلیم‬
‫ب تعلیم‪ ،‬قرآن واحادیث ہی تھا‪ ،‬بلکہ اس وقت علم سے مراد‬ ‫اس زمانے میں نصا ِ‬
‫قرآن و حدیث ہی کا علم ہوتا تھا۔ چانچہ خلف بن ایوب فرماتے ہیں‪:‬‬
‫تعالی الی محمد صلی ہّٰللا علیہ وسلم‪ ،‬ثم الی اَصحابہ‪ ،‬ثم الی التابعین‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫”صار العلم من ہّٰللا‬
‫ثم صار الی ابی حنیفة وأصحابہ“(‪( )۵‬یعنی ”علم خدا کی طرف سے حضرت محمد‪  ‬صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کے پاس آیا‪ ،‬پھر صحابہ میں تقسیم ہوا‪ ،‬پھر تابعین میں‪ ،‬اس کے بعدامام‬
‫ابوحنیفہ اوران کے اصحاب میں آیا“) اس قول کو نقل کرنے کے معا ً بعد عالمہ ظفر‬
‫یخفی أن العل َم في ٰذلک الزمان‪ ،‬لم یکن اال علم الحدیث والقرآن“ (یعنی‬
‫ٰ‬ ‫لکھتے ہیں کہ ‪” :‬وال‬
‫یہ بات واضح رہے کہ اس وقت علم صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی کا علم تھا) لہٰذا‬
‫اس وقت کا سب سے بڑا عالم وہی مانا جاتا تھا جو قرآن و حدیث کا عالم ہو‪،‬اسی وجہ سے‬
‫حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ ‪” :‬امام ابوحنیفہ علم ”حدیث“ و” فقہ“ میں اعلم‬
‫الناس ہیں۔(‪ )۶‬اور خلف بن ایوب‪ ‬نے ابھی اوپر آپ کو عالم قرآن و حدیث ثابت کردیا‪ ،‬تو‬
‫جس کا نصاب تعلیم ہی قرآن و حدیث ہو‪ ،‬وہ کیسے ”یتیم فی الحدیث“ ہوسکتا ہے؟‬
‫‪37‬‬

‫علم حدیث میں سبقت‬


‫ک حدیث؛ اسی‬‫امام صاحب اپنے زمانے کے تمام محدثین پر فائق تھے درادرا ِ‬
‫ُ‬
‫طلبت مع‬ ‫لیے آپ کے معاصر اور مشہور محدث امام مسعر بن کدام فرماتے ہیں‪” :‬‬
‫الحدیث فَ َغلَبَنَا الخ“‪ ‬کہ ”میں نے امام ابوحنیفہ کے ساتھ ”حدیث“ کی‬
‫َ‬ ‫أبي حنیفة‬
‫تحصیل کی وہ ہم سب پر غالب رہے“(‪)۷‬‬

‫ت حدیث پر شہادتیں‬
‫آپ کی محدثیت اور‪ R‬مہار ِ‬
‫علم حدیث کے سلسلے میں‪ ،‬جس قدر آپ معرفت رکھتے ہیں اور جس قدر آپ نے‬
‫اس سے حصہ وافر پایا ہے‪ ،‬اس کے جان لینے کے بعد کوئی انصاف پسند عالم‪ ،‬یہ نہیں‬
‫کہہ سکتا کہ‪” :‬ولم یعدہ أحد من المحدثین“ (حضرت امام صاحب کو کسی نے بھی محدثین‬
‫کی فہرست میں شمار نہیں کیا) چوں کہ آپ کی محدثیت کا بے شمار لوگوں نے بار بار‬
‫اعتراف کیا ہے‪ ،‬چند اقوال مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫‪ -۱‬امام ذہبی نے آپ کا شمار ”حملة الحدیث“ (حاملین حدیث) میں کیا ہے۔(‪)۸‬‬
‫‪ -۲‬ابن خلدون نے آپ کو ”کبار المجتہدین فی علم الحدیث“ (علم حدیث میں بڑا مجتہد)‬
‫کہا ہے۔(‪)۹‬‬
‫‪ -۳‬حضرت امام ابویوسف‪ ‬فرماتے ہیں‪” :‬میں نے امام ابوحنیفہ‪ ‬سے زیادہ جاننے‬
‫واال نفس حدیث کو‪ ،‬کسی کو نہیں دیکھا اور نہ کوئی ان سے زیادہ تفسیر حدیث کا عالم‪،‬‬
‫میری نظر سے گزرا“(‪)۱۰‬‬
‫‪ -۴‬حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں‪” :‬اول من صیَّرني محدثا أبوحنیفة“ ”مجھے‬
‫محدث بنانے واال‪ ،‬سب سے پہال شخص‪ ،‬امام ابوحنیفہ کی ذات اقدس ہے۔ (اِنجاء‬
‫الوطن‪،‬ص‪)۳۱:‬‬
‫‪ -۵‬شیخ االسالم عالمہ ابن تیمیہ نے بھی آپ کو محدثین کی فہرست میں شمار کیا ہے۔(‬
‫‪)۱۱‬‬
‫‪ -۶‬حضرت عبدہللا بن المبارک فرماتے ہیں کہ‪ :‬اگر مجھے ابوحنیفہ اور سفیان کا شرف‬
‫حاصل نہ ہوا ہوتا‪ ،‬تو میں بدعتی ہوجاتا۔(‪)۱۲‬‬
‫‪ -۷‬شیخ االسالم عالمہ ابن عبدالبر مالکی‪ ،‬تحریر فرماتے ہیں کہ ‪ٰ ” :‬‬
‫روی حماد بن زید‬
‫َ‬
‫أحادیث کثیرة“ (‪( )۱۳‬حماد بن زید نے امام ابوحنیفہ‪ ‬سے بہت سی حدیثیں‬ ‫عن أبي حنیفة‬
‫روایت کی ہیں) اگر حضرت امام صاحب ”محدث“ نہیں تھے ‪ ،‬تو احادیث کثیرہ کا کیا‬
‫مطلب ہوگا؟ اور جب وہ ”قلیل الحدیث“ تھے اور ان کے پاس زیادہ حدیثیں بھی نہ تھیں‪ ،‬تو‬
‫ت کثیرہ اور احادیث کثیرہ کس طرح لیں؟‬
‫حماد بن زید نے‪ ،‬ان سے روایا ِ‬
‫‪38‬‬

‫‪ -۸‬آپ کی مہارت و تبحر حدیث کا اندازہ اس سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امام‬


‫احمد بن حنبل‪ ‬اورامام بخاری‪ ‬کے استا ِذ حدیث‪ ،‬شیخ االسالم حافظ ابو عبدالرحمن‬
‫مقری‪ ،‬جب امام صاحب سے کوئی حدیث روایت کرتے‪ ،‬تو اِس لفظ کے ساتھ روایت‬
‫کرتے کہ ‪” :‬أخب َرنا شاہنشاہ“(‪( )۱۴‬ہمیں علم حدیث کے شہنشاہ نے خبردی) اندازہ‬
‫فرمائیے ! ایک محدث کامل‪ ،‬امام صاحب کو حدیث کا ”بادشاہ“ ہی نہیں ‪ ،‬بلکہ ”شاہنشاہ“‬
‫کہہ رہے ہیں؛ جس سے علم حدیث میں تبحر ظاہر ہے‪ ،‬جن لوگوں نے آپ کو محدثین میں‬
‫شمار نہیں کیا ہے‪ ،‬ان کی بات قابل قبول نہیں۔(‪)۱۵‬‬

‫حافظ حدیث ہونے پر شہادتیں‬


‫یحیی بن معین‪ ،‬علی ابن مدینی‪ ،‬سفیان ثوری‪ ،‬عبدہللا بن المبارک اور حافظ ابن‬ ‫ٰ‬
‫ت محدثین کا قول ثابت کرتا ہے کہ آپ ”حافظ حدیث“ بھی‬ ‫عبدالبر مالکی وغیرہ حضرا ِ‬
‫ہیں‪،‬جیسا کہ ”تذکرة الحفاظ“ سے معلوم ہوتا ہے؛ کیوں کہ عالمہ ذہبی نے آپ کو ”حافظ‬
‫الحدیث“ کہا ہے(‪ ،)۱۶‬اگر آپ حافظ حدیث نہ ہوتے‪ ،‬تو امام ذہبی جیسا شخص (جو مذہبا ً‬
‫شافعی ہیں) امام ابوحنیفہ کو ”حافظ حدیث“ نہ کہتے۔ اسی بات کا اعتراف‪ ،‬حافظ یزید بن‬
‫ہارون نے اپنے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ‪” :‬کان أبو حنیفة نقیًا‪ ․․․ ‬أحفظَ أہل زمانہ“‪)۱۷( ‬‬
‫(امام ابوحنیفہ پرہیز گار ․․․ اور اپنے زمانے کے بہت بڑے حاف ِظ حدیث تھے) ابن حجر‬
‫مکی فرماتے ہیں کہ ‪” :‬عالمہ ذہبی وغیرہ نے امام ابوحنیفہ کو حفاظ حدیث کے طبقے میں‬
‫لکھا ہے اور جس نے ان کے بارے میں یہ خیال کیاہے کہ وہ حدیث میں کم شان رکھتے‬
‫تھے‪ ،‬تو اس کا یہ خیال یا تو تساہل پر مبنی ہے یا حسد پر۔(‪ )۱۸‬حافظ محمد یوسف شافعی‬
‫حفاظ حدیث اور ان کے فضالء میں شمار ہوتے ہیں“‬ ‫ِ‬ ‫لکھتے ہیں کہ ‪” :‬امام ابوحنیفہ بڑے‬
‫(مقام ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪)۱۲۰ :‬‬

‫امام صاحب اور جرح و تعدیل‬


‫جس طرح امام بخاری اور ابن معین وغیرہ کے اقوال کو محدثین‪ ،‬اپنی کتابوں میں بہ‬
‫طور احتجاج پیش کرتے ہیں‪ ،‬اسی طرح امام صاحب کے اقوال کو بھی پیش کرتے ہیں؛‬
‫چناں چہ امام ترمذی‪ ‬فرماتے ہیں‪” :‬حدثنا محمود بن غیالن عن جریر عن یحیی الحمانی‬
‫سمعت أبا حنیفة یقول‪ :‬ما رأیت أکذب من جابر الجعفي وال أفضل من عطاء“(‪( )۱۹‬ترجمہ‬
‫ظاہر ہے) اسی طرح عالمہ ابن حزم اپنی مشہور کتاب ”المحلی في شرح المجلی“ میں‬
‫لکھتے ہیں‪” :‬جابر الجعفي کذاب‪ ،‬و أول من شہد علیہ بالکذب أبوحنیفة“ (جابر جعفی کذاب‬
‫ہے اور سب سے پہلے جس نے اس کے کاذب ہونے کی شہادت دی وہ امام ابوحنیفہ ہیں)‬
‫(انجاء الوطن‪ ،‬ص‪)۳۱ :‬‬
‫ان عبارات کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ امام صاحب کے اقوال‬
‫”جرح و تعدیل“ کے باب میں‪ ،‬اصح طریقے پر معتبر ہیں‪ ،‬کتب رجال‪” :‬تہذیب الکمال“‬
‫‪39‬‬

‫(از امام مزی) ”تہذیب التہذیب“ (از امام ذہبی) اور ”تذہیب التہذیب“ (از حافظ ابن حجر)‬
‫میں ”جرح و تعدیل“ سے متعلق امام صاحب کے مزید اقوال دیکھے جاسکتے ہیں۔‬

‫کثیر الحدیث ہونے پر شہادتیں‬


‫اجلہ محدثین میں ہونے کے ساتھ‬ ‫تمام کبار محدثین کے نزدیک یہ بات محقق ہے کہ آپ ٴ‬
‫ساتھ‪” ،‬کثیر الحدیث“ بھی ہیں؛ لہٰ ذا ذیل میں چند اقوال پیش کیے جارہے ہیں جن سے پتہ‬
‫چلتا ہے کہ آپ ”کثیر الحدیث“ ہیں؛ چناں چہ مال علی قاری ابن سماعہ سے نقل کرتے ہیں‬
‫کہ‪” :‬امام ابوحنیفہ نے اپنی (امالئی) تصانیف میں ستر ہزار سے کچھ اوپر حدیثیں بیان کی‬
‫یحیی بن معین‬
‫ٰ‬ ‫ہیں اور چالیس ہزار سے ‪” ،‬کتاب اآلثار“ کا انتخاب کیا ہے۔(‪ )۲۰‬اسی طرح‬
‫فرماتے ہیں‪” :‬کان النعمان جمع حدیث بلدہ کلہ“‪( ‬امام صاحب نے اپنے شہر کوفہ (علم‬
‫حدیث کا مرکز و مرجع ہے) کی تمام حدیثیں جمع کرلی تھیں) پھر خود حضرت امام‬
‫ابوحنیفہ‪ ‬فرماتے ہیں کہ ‪” :‬عندي صنادیق الحدیث ‪ ،‬ما أخرجت منہا اال الیسیر الذي ینتفع‬
‫بہ“ (‪( )۲۱‬میرے پاس حدیث کے بہت سے صندوق بھرے ہوئے موجود ہیں مگر میں نے‬
‫ان میں سے تھوڑی حدیثیں نکالی ہیں جن سے لوگ نفع اٹھائیں) یہاں لفظ ”صنادیق“ جمع‬
‫کا ہے‪ ،‬جس سے واضح ہے کہ آپ کثیر الحدیث ہیں‪ ،‬عالمہ ظفر احمد عثمانی نے ”کثیر‬
‫الحدیث“ سے متعلق بہت سے اقوال پیش کیے ہیں‪ ،‬تفصیل کے لیے دیکھیں مقدمہ اعالء‬
‫السنن۔‬

‫آپ امام بخاری کے ہم پلہ ہیں‬


‫باتفاق محدثین عظام (جس میں خصوصیت کے ساتھ سفیان ثوری‪ ،‬امام شعبہ‪ ،‬ابن‬ ‫ِ‬
‫قطان‪ ،‬امام عبدالرحمن مہدی اور امام احمد بن حنبل‪ ،‬خصوصیت سے قابل ذکر ہیں) متون‬
‫حدیث کی تعداد چار ہزار چار سو ہے‪” :‬ان جملة األحادیث المسندة عن النبی صلی ہّللا علیہ‬
‫وسلم یعنی الصحیحة بال تکرار‪ ،‬أربعة آالف و أربع مائة حدیث“ (احادیث صحیحہ‪ ،‬جو بال‬
‫تکرار آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم سے روایت کی گی ہیں‪ ،‬ان کی تعداد چار ہزار چار‬
‫سو ہے) اور یہ بات مسلم ہے کہ آپ چار ہزار متون احادیث کے حافظ تھے۔‬
‫آالف‬
‫ِ‬ ‫چنانچہ امام صدراالئمہ مکی فرماتے ہیں کہ‪” :‬کان أبوحنیفة یروي أربعة‬
‫حدیث ‪ ،‬ألفین لحماد‪ ،‬وألفین لسائر المشیخة“(‪( )۲۲‬یعنی امام صاحب نے چار ہزار حدیثیں‬
‫روایت کی ہیں‪ ،‬دو ہزار صرف حماد کے طریق سے اور دو ہزار باقی شیوخ سے) معلوم‬
‫صرف نظر کرلی جائے تو چار ہزار‬‫ِ‬ ‫یہ ہوا کہ اگر تعدد طرق و اسانید اور تکرار سے‬
‫حدیثیں امام صاحب سے مروی ہیں اوراگر تعد ِد طرق کا لحاظ کیاجائے‪ ،‬تو ستر ہزار سے‬
‫بھی آپ کی مرویات کی تعداد بڑھ جاتی ہے‪ ،‬جن کا تذکرہ آپ نے اپنی امالئی تصانیف میں‬
‫کیا ہے؛ چوں کہ امام صاحب اور بعد کے محدثین (مثالً امام بخاری‪ )‬کے درمیان ‪/۱۱۴‬‬
‫سال کے طویل عرصے میں‪ ،‬ایک حدیث کو سینکڑوں‪ ،‬بلکہ ہزاروں اشخاص نے روایت‬
‫کیاہوگا (جس سے حدیث کی تعداد بدل جاتی ہے فی اصطالح المحدثین) اس لیے دونوں‬
‫‪40‬‬

‫کے درمیان جو الکھوں اور ستر ہزار حدیثوں کا فرق ہے‪ ،‬وہ دراصل اسانید کی تعداد کا‬
‫فرق ہے؛ ونہ صحیح بخاری کے مکررات نکال کر‪ ،‬احادیث کی تعداد‪ ،‬حافظ عراقی نے‬
‫چار ہزار بتائی ہے(‪ ،)۲۳‬امام نووی نے صحیح مسلم کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے‪:‬‬
‫”ومسلم باسقاط المکرر نحو أربعة آالف“(‪ )۲۴‬اور تقریبا ً یہی تعداد ”سنن ابی داؤد“ و ”ابن‬
‫ماجہ“ وغیرہ کے متعلق ہے۔(‪ )۲۵‬غرضیکہ امام صاحب‪ ،‬ان حضرات محدثین کے ”متو ِن‬
‫احادیث“ میں بالکل ہم پلہ ہیں؛ بلکہ تعدد سند میں بھی آپ‪،‬امام بخاری کے تقریبا ً برابر ہی‬
‫ہیں؛ چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے حماد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا‪” :‬جمعتہا من خمس‬
‫مائة ألف حدیث(‪( )۲۶‬الوصیة‪ ،‬ص‪)۶۵:‬؛ لہٰ ذا معلوم ہوا کہ امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“‬
‫ہونے کا الزام غلط ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ جس طرح ‪ ،‬طلوع آفتاب سے رات کی‬
‫تمام تاریکیاں ختم ہوجاتی ہیں‪ ،‬اسی طرح آپ سے ”قلیل الحدیث“ ہونے کا الزام ختم ہوجاتا‬
‫ہے۔‬

‫ت روایت کے اسباب‬
‫قل ِ‬
‫ت روایت“ کی آڑ میں‪ ،‬امام صاحب کی حدیث دانی اور فقہی‬ ‫مخالفین اورحاسدین‪” ،‬قل ِ‬
‫قدر و منزلت کو مجروح کرکے ”حنفیت“ کا راستہ روکنے کی بے جا کوشش کرتے ہیں‬
‫مگرپھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گااس سلسلے میں واضح رہے کہ قلت روایت‪،‬‬
‫کوئی عیب نہیں اور نہ یہ کوئی عار کی بات ہے اور نہ قلت روایت‪ ،‬قلت علم حدیث کو‬
‫مستلزم ہے؛ چنانچہ حضرت ابوبکر‪ ،‬حضرت عمر‪ ،‬حضرت علی‪ ‬اور حضرت عبدہللا‬
‫بن مسعود‪ ‬کی مرویات کی تعداد ایک ہزار سے کم ہی ہے؛ جبکہ ان سے کم درجہ کے‬
‫صحابی‪ ‬کی تعداد حضرت ابوبکر‪ ‬و عمر‪ ‬وغیرہ سے کہیں زیادہ ہے‪ ،‬تو کیا اب یہ کہہ‬
‫دینا چاہیے کہ حضرت ابوبکر‪ ‬و عمر‪ ‬زیادہ بڑے محدث نہیں تھے؟ نہیں ہرگز نہیں؛‬
‫بلکہ یہ حضرات نقل روایات میں‪ ،‬حد درجہ احتیاط کرتے تھے‪ ،‬کہ مبادا نقل روایت میں‬
‫کبار صحابہ‪ ‬نے‪ ،‬حدیث کے اپنے وافر معلومات کو‬ ‫ِ‬ ‫کوئی فرق ہوجائے؛ اسی لیے ان‬
‫فتاوی کی صورت میں بیان کیا۔ امام صاحب بھی انہی کے نقش قدم پر چلے‬ ‫ٰ‬ ‫مسائل اور‬
‫اورحدیث کے اپنے وافر معلومات کو استنباط میں لگایا‪ )۲۷(،‬اسی کو حافظ محمدیوسف‬
‫صالحی شافعی یوں بیان فرماتے ہیں‪” :‬وانما قلَّت الروایة عنہ‪ ،‬الشتغالہ باالستنباط‪ ،‬کما قلَّت‬
‫روایة أبی بکر وعمر‪ )۲۸( “ ‬قلت کی دوسری وجہ‪ ،‬ابن خلدون‪ ‬اس طرح لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”واالمام أبوحنیفة انما قلت روایتہ‪ ،‬لما اشتد فی شروط الروایة والتحمل“(‪ )۲۹‬تیسری وجہ‬
‫قلت کی یہ ہے کہ آپ صحابہ‪ ‬کی طرح غیر احکامی احادیث بیان کرنے میں حددرجہ‬
‫احتیاط کرتے تھے؛ کیوں کہ حضرت عمر‪ ‬نے اسی طرح کا ارشاد فرمایا ہے۔ اور یہی‬
‫نظریہ امام مالک کا بھی ہے ‪ ،‬فرماتے ہیں‪” :‬اگر میں لوگوں کو‪ ،‬وہ تمام روایت کروں جو‬
‫میں نے سنیں‪،‬تو میں احمق ہوں گا‪ ،‬اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں لوگوں کو گمراہ کررہا‬
‫ہوں۔(‪ )۳۰‬غرضیکہ امام صاحب قلت روایت میں‪ ،‬صحابہ‪ ‬کے ہی نقش قدم پر چلے ہیں؛‬
‫مگر یہ فضیلت‪ ،‬مخالفین کے لیے وجہ حسد بن گئی‪ ،‬جب کچھ نہ بن پڑا تو ”قلت روایت“‬
‫کا الزام دھردیا‪ ،‬فیا للعجب!‬
‫‪41‬‬

‫اہل حدیث‬
‫اہل الرائے اور ِ‬
‫”حدیث بیانی“ اور ”حدیث دانی“ دو الگ الگ فن ہیں‪ ،‬تمام ”رواة حدیث“ (اہل‬
‫حدیث) ”حدیث بیاں“ تو ہیں؛ مگر ضروری نہیں کہ وہ ”حدیث داں“ بھی ہوں؛ (کیوں کہ‬
‫آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے خود ان میں ”رب حامل فقہ‪ ،‬غیر فقیہ (‪ )۳۱‬کے ذریعے فرق‬
‫بتالدیا ہے) البتہ ”فقہاء“ (اہل الرائے)‪ ”،‬حدیث داں“ ضرور ہوتے ہیں۔ توجو ”حدیث دانی“‬
‫کے ساتھ ساتھ ”حدیث بیانی“ میں بھی مہارت رکھتا ہو‪ ،‬اس پر ”اہل الرائے“ کا اطالق ہوتا‬
‫ت حمیدہ‬ ‫ہے؛ اسی لیے محدثین نے آپ کو ”اہل الرائے“ کہا ہے‪،‬جو بال ریب و شک صف ِ‬
‫ہے؛ جس کی دلیل یہ ہے کہ محدثین اس کا اطالق‪ ،‬صحابہ‪ ‬وغیرہ پر بھی کرتے ہیں؛‬
‫چنانچہ کہتے ہیں‪” :‬مغیرة بن شعبة کان من أہل الرأي‪ ،‬و ربیعة بن عبدالرحمن کان من أہل‬
‫الرأي“(‪ )۳۲‬یعنی یہ دونوں حضرات اہل الرائے میں سے ہیں) مگر غیرمقلدین نے ”اہل‬
‫ت قبیحہ اور ”جرح و طعن“ پر محمول کیا ہے‪ ،‬جو محدثین کی مراد کے‬ ‫الرائے“ کو صف ِ‬
‫خالف ہے؛ اگر یہ لفظ ”جرح و طعن“ کے لیے ہے‪ ،‬تو کیا حضرت مغیرہ بن شعبہ‬
‫‪ ‬مجروح ہوں گے؟! جبکہ تمام صحابہ‪ ‬عدول ہی ہیں‪ ،‬کوئی مجروح نہیں ہوسکتا‬
‫(الصحابة کلہم عدول) کیا حضرت ربیعہ بھی مجروح ہوں گے؟ٍ جبکہ ان سے تمام ائمہ‬
‫حدیث نے روایت لی ہیں؟ ! نہیں ہرگز نہیں‪ ،‬بلکہ محدثین‪ ،‬لف ِظ ”اہل الرائے“ کا اطالق اسی‬
‫پر کرتے ہیں جو ”حدیث بیانی“ کے ساتھ ”حدیث دانی“ میں بھی ماہر ہو‪ ،‬یہی فرق ہے‬
‫”اہل الرائے“ اور ”اصحاب الحدیث“ میں کہ ”اہل الرائے“ لفظ انسان“ کی طرح خاص ہے‬
‫اور ”اصحاب الحدیث“ لفظ ”حیوان“ کی طرح عام ہے‪ ،‬فبینہ ما نسبة عموم وخصوص‬
‫مطلقا ً اور چوں کہ خاص افضل ہوتا ہے؛ اس لیے محدثین کے یہاں ”اہل الرائے“ کا درجہ‬
‫بڑھا ہوا ہے؛ اسی لیے محدثین‪ ،‬فقہاء کو اپنے سے آگے رکھتے تھے‪ ،‬جس کا اندازہ‬
‫مندرجہ ذیل اقوال سے ہوتا ہے‪:‬‬
‫حضرت امام وکیع بن الجراح لکھتے ہیں‪” :‬حدیث یتداولہ الفقہاء خیر من أن یتداولہ‬
‫الشیوخ“ (حدیث فقہاء کو ہاتھ لگے یہ اس سے بہتر ہے کہ شیخ الحدیث کے ہاتھ لگے)(‬
‫ث عظیم حضرت اعمش فرماتے ہیں‪ : ‬یامعشرالفقہاء! ”أنتم األطبا“ ونحن‬ ‫‪ )۳۳‬محد ِ‬
‫”الصیادلة“(‪( )۳۴‬اے گروہ فقہاء طبیب تم ہو‪ ،‬ہم تو صرف دوائیں لگائے بیٹھے‬
‫ہیں)حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں‪” :‬وکذلک قال الفقہاء‪ ،‬وہم أعلم بمعانی الحدیث“(‪)۳۵‬‬
‫(اسی طرح فقہاء نے کہا ہے اور وہ حدیث کے معنی کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں)ان‬
‫اقوال سے معلوم ہوا ”اصحاب الرائے“ بہرحال محدث ہوتے ہیں (اسی لیے صاحب ہدایہ‬
‫نے کہا ہے کہ فقیہ کے لیے حدیث دانی شرط ہے)(‪ )۳۶‬تو معلوم ہوا کہ اس کا اطالق آپ‬
‫ت حدیث پر دال ہے۔قیاس پر حدیث ضعیف کو مقدم کرنا‪،‬‬ ‫کی مہار ِ‬

‫عظمت حدیث کی دلیل‬


‫ث ضعیف“ اور ”مرسل حدیث“‬ ‫امام صاحب کے اہم اصول میں سے ہے کہ ”حدی ِ‬
‫قیاس سے افضل ہے‪ ،‬جس سے آپ کی عظمت حدیث کا بین ثبوت ملتا ہے‪ ،‬اسی قاعدے پر‬
‫‪42‬‬

‫ان کے مذہب کی بنیاد ہے‪ ،‬اور اسی قاعدے کی وجہ سے ‪ )۱( :‬رکوع سجدے والی‬
‫نمازمیں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ جنازے کی نماز میں نہیں ٹوٹتا۔ (‪ )۲‬نبیذ تمر‬
‫سے سفر میں وضو ہوجاتا ہے۔ (‪ )۳‬دس درہم سے کم کی چوری پر‪ ،‬چور کا ہاتھ نہیں کٹتا۔‬
‫(‪ )۴‬حیض کی اکثر مدت دس دن ہوتی ہے۔ (‪ )۵‬جمعہ کی نماز میں مصر کی قید لگانا اور‬
‫کنویں کے مسئلے میں قیاس نہ کرنا‪ ،‬یہ سب وہ مسائل ہیں جن میں قیاس کا تقاضا کچھ اور‬
‫ث ضعیفہ“ کے ہوتے ہوئے قیاس کو ردی کی ٹوکری میں رکھ دیا۔(‬ ‫تھا؛ مگر ”احادی ِ‬
‫‪)۳۷‬جس سے علم حدیث کے تعلق سے آپ کی غایت شغل کا اندازہ ہوتا ہے؛ اسی پر بس‬
‫موثر‪ ،‬قیاس مناسب‪ ،‬قیاس شبہ‪ ،‬قیاس طرد) میں‬ ‫نہیں؛ بلکہ قیاس کی چار قسموں (قیاس ٴ‬
‫موثر (اور ایک قول کے مطابق قیاس مناسب بھی) امام صاحب کے‬ ‫سے‪ ،‬صرف قیاس ٴ‬
‫یہاں معتبر ہے‪ ،‬بقیہ قسمیں باطل ہیں؛ (جبکہ قیاس کی تمام اقسام کو حجت گرداننے اور‬
‫احادیث ضعیفہ و مرسلہ کو غیر معتبر ماننے والے دوسرے حضرات مثالً‪ :‬حضرت امام‬
‫شافعی رحمہ ہللا ہیں)(‪ )۳۸‬اسی لیے تعجب ہے ان لوگوں پر جو آنکھ بند کرکے امام‬
‫صاحب پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ قیاس وغیرہ کو حدیث پرمقدم کرتے ہیں اور حدیث‬
‫کی مخالفت کرتے ہیں؛ حاالں کہ حقیقت وہ ہے جو ابن قیم نے کہا ‪” :‬فتقدیم الحدیث‬
‫الضعیف و آثار الصحابة علی القیاس والرأي قولہ (ابی حنیفة) وقول أحمد و علی ذلک بنی‬
‫ت مستمرہ‬ ‫َ‬
‫حدیث القہقہة مع ضعفہ علی القیاس والرأي“(‪ )۳۹‬الخ یہی وہ عاد ِ‬ ‫مذہبہ کما ق َّدم‬
‫ہے جس کی وجہ سے کبار محدثین فقہ حنفی کے سایے میں ملیں گے۔‬

‫محدثین فقہ حنفی کے سایے میں‬


‫حدیث کے ساتھ والہانہ لگاؤ ہی کے سبب‪ ،‬آپ کا بیان فرمودہ ہر مسئلہ‪ ،‬قرآن و‬
‫حدیث کے مطابق ہے‪،‬آج تک کوئی یہ ثابت نہ کرسکا کہ آپ کا فالں مسئلہ قرآن وحدیث‬
‫ت حدیث کی وجہ سے کبار محدثین نے آپ کے بیان کردہ مسائل‬ ‫کے خالف ہے‪ ،‬اسی مہار ِ‬
‫فتاوی کے سامنے‪،‬اپنا سر تسلیم خم کردیا؛ چنانچہ بہت سے چوٹی کے محدثین‬ ‫ٰ‬ ‫و‬
‫اورماہرین اسماء الرجال‪ ،‬امام صاحب کے قول کے مطابق ہی فیصلے دیتے تھے‪ ،‬جن میں‬
‫یحیی بن سعید القطان(‪ )۴۱‬اور‬
‫ٰ‬ ‫سے امام وکیع(‪ )۴۰‬ابن الجراح‪ ،‬ماہر اسماء الرجال امام‬
‫یحیی بن بکیر) کے استاذ امام لیث(‪ )۴۲‬بن سعد‪ ،‬خاص‬‫ٰ‬ ‫امام بخاری کے استاذ (حضرت‬
‫طور سے قابل ذکر ہیں اور حضرت موالنا مفتی سید مہدی حسن صاحب سابق صدر مفتی‬
‫کبار محدثین کا ذکر کیا ہے جو خالص حنفی تھے‪(،‬‬ ‫ِ‬ ‫دارالعلوم دیوبند نے کم و بیش چالیس‬
‫‪ )۴۳‬جبکہ حضرت موصوف ہی نے اپنی کتاب کشف الغمہ میں نمونہ کے طور پر چار‬
‫ایسے نام ذکر کیے ہیں جنھوں نے دوسرے مذاہب چھوڑ کر حنفی مذہب اختیار کرلیا مثالً‪:‬‬
‫(‪”)۱‬امام طحاوی“ یہ پہلے شافعی تھے‪ ،‬پھر حنفی بن گئے‪ )۲( ،‬امام احمد بن محمد بن‬
‫محمد بن حسن تقی شمنی‪ :‬یہ پہلے مالکی تھے‪ ،‬پھر حنفی مذہب کو اختیار کیا‪ )۳( ،‬تیسرے‬
‫عالمہ عبدالواحد بن علی العبکری‪ :‬اول یہ حنبلی تھے‪ ،‬اس کے بعد حنفی مذہب اختیار کیا‪،‬‬
‫(‪ )۴‬چوتھے عالمہ یوسف بن فرغلی البغدادی سبط ابن الجوزی‪ :‬پہلے یہ حنبلی مذہب‬
‫‪43‬‬

‫رکھتے تھے‪ ،‬پھر حنفی مذہب اختیار کیا۔(‪( )۴۴‬تفصیل دیکھئے کشف الغمہ بسراج االمہ‪،‬‬
‫ص‪)۱۱۴ :‬‬
‫یقینا یہ اقتباس واضح دلیل ہے کہ حدیث سے آپ کا شغف اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ”فقہ‬
‫حنفی“ میں بھی حدیث ہی حدیث ہے‪ ،‬تبھی تو مذکورہ کبار محدثین آپ کی فقہ کی طرف‬
‫مائل ہوئے؛ اسی لیے بہت سے اکابرین مثالً عبدہللا بن المبارک فرماتے تھے کہ ”ابوحنیفہ‬
‫کی رائے“ کا لفظ مت کہو‪ ،‬بلکہ تفسیر و حدیث کہو۔“ (‪)۴۵‬‬

‫آپ کی تصنیفات‬
‫آپ نے تدریس و تدوین فقہ کے ساتھ‪ ،‬فقہ کے ابواب پر مشتمل حدیثوں کا مجموعہ‬
‫بھی‪ ،‬صحیح اور معمول بہا روایتوں سے منتخب فرماکر مرتب کیا‪ ،‬جس کا نام ”کتاب‬
‫اآلثار“ ہے‪ ،‬یہ دوسری صدی کے ربع ثانی کی تالیف ہے‪ ،‬اس کتاب سے پہلے حدیث‬
‫نبوی کے جتنے مجموعے تھے‪ ،‬ان کی ترتیب فنی نہیں تھی؛ مگر یہ پہلی تصنیف ہے‬
‫جس نے بعد کے محدثین کے لیے ترتیب و تبویب کی شاہراہ قائم کردی۔(‪ )۴۶‬واضح رہے‬
‫کہ اس کا انتخاب امام صاحب نے چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔ (انتخب ابوحنیفة اآلثار‬
‫من أربعین ألف حدیث)(‪)۴۷‬‬

‫مسانید‬
‫حدیث کی دوسری کتابوں کی طرح ”کتاب اآلثار“ کی بھی علمی خدمت کی گئی؛‬
‫چنانچہ امام صاحب کے ہر استاذ کی مرویات کو یکجا کرکے‪،‬اس کو ”مسند ابی حنیفہ“‬
‫کے نام سے موسوم کیاگیا۔(‪ )۴۸‬جس کی تعداد باتفاق محدثین‪ ،‬پندرہ ہیں‪ ،‬جبکہ محمد بن‬
‫یوسف صالحی شافعی‪ ‬نے سترہ ذکر کیے ہیں۔(‪)۴۹‬‬

‫جامع المسانید‬
‫امام ابوالموید محمد بن محمود خوارزمی نے‪ ،‬تمام مسانید کو یکجا جمع کرکے‪” ،‬جامع‬
‫المسانید“ نام رکھا ہے‪ ،‬اور مکررات کو حذف کرکے فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔(‪)۵۰‬‬

‫سترہ حدیث اور ابن خلدون‬


‫مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ آپ کثیر الحدیث ہیں؛ مگر آپ کے حاسدین‬
‫رخ اسالم‪ ،‬انصاف پسند‪ ،‬عالمہ ابن خلدون‪  ‬کی‬
‫مو ِ‬
‫”قلیل الحدیث“ ثابت کرنے کے لیے ٴ‬
‫منقول سترہ روایت کا حوالہ دیتے ہیں‪ ،‬تو عارضی طور پر ہم بھی حیران و ششدر رہ‬
‫مورخ‪ ،‬امام صاحب جیسے عظیم محدث اور حاف ِظ حدیث‬ ‫جاتے ہیں کہ اتنے بڑے اسالمی ٴ‬
‫کے حق میں صرف سترہ ہی روایت کے قائل ہیں؟! اس لیے حقیقت سمجھنی چاہیے۔‬

‫پس منظر اورحقیقت‬


‫‪44‬‬

‫عالمہ ابن خلدون کی منقول سترہ روایت کا پس منظر یہ ہے کہ امام محمد نے‬
‫”موطا امام محمد“ کی تمام احادیث کو‪ ،‬امام مالک سے ہی روایت کیا ہے؛ کیوں کہ انہوں‬ ‫ٴ‬
‫نے خاص طور پر صرف امام مالک ہی کی روایات بیان کرنے کا التزام کیا ہے؛ لیکن‬
‫موقع بہ موقع کہیں کہیں امام ابوحنیفہ‪ ‬و ابویوسف‪ ‬کی روایتیں بھی ضمنا ً آگئی ہیں‪ ،‬جن‬
‫کی تعداد سترہ یا ان کے لگ بھگ ہے‪ )۵۱(،‬تو بعض لوگ آپ کے بقیہ تمام ذخیرئہ‬
‫احادیث سے قطع نظر کرکے حسداً یہ کہہ بیٹھے کہ ‪ :‬آپ ”قلیل البضاعة فی الحدیث“ تھے‬
‫تبھی تو سترہ حدیثیں ہی مروی ہیں۔ اس زبردست غلطی کا عالمہ ابن خلدون نے اس طرح‬
‫”موطا امام محمد“ میں جو صرف سترہ‬ ‫ازالہ کیا ہے کہ ‪” :‬امام صاحب کے حوالے سے ٴ‬
‫حدیثیں مروی ہیں‪ ،‬ان سے بغض و تعصب رکھنے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ ”قلیل‬
‫البضاعہ فی الحدیث“ تھے اورحدیث میں آپ کا کل سرمایہ اتنا ہی تھا‪ ،‬حاالنکہ سترہ‬
‫روایت کا نظریہ‪ ،‬سرے سے باطل ہے؛ بلکہ سترہ کے واسطے سے ”قلیل البضاعہ فی‬
‫تقول اور جھوٹ پر مبنی ہے اور‬ ‫الحدیث“ کا نظریہ‪ ،‬جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ُّ‬
‫را ِہ راست سے بہت دور ہے‪ ،‬تو ابن خلدون کا مقصد امام صاحب پر لگائے گئے الزام کو‬
‫دفع کرنا ہے‪ ،‬نہ یہ کہ آپ کے لیے اسے ثابت کرنا ہے؛ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫ابن خلدون کا مکمل حوالہ و عبارت نقل کردی جائے تاکہ اصل حقیقت سامنے آسکے‪،‬‬
‫مالحظہ فرمائیں‪ :‬ابن خلدون فرماتے ہیں‪:‬‬
‫”واعلم ایضا ً أن األئمة المجتہدین تفاوتوا في االکثار من ہذہ الصناعة واالقالل‪ ،‬فأبوحنیفة‬
‫تعالی عنہ یقال‪ :‬بلغت روایتہ الی سبعة عشر حدیثًا أو نحوہا‪ ،‬ومالک رحمہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫رضي ہللا‬
‫الموطا‪ ،‬وغایتہا ثالث مائة حدیث‪ ،‬أو نحوہا‪ ،‬وأحمد بن‬‫تعالی انما صح عندہ ما في الکتاب ٴ‬ ‫ٰ‬
‫حنبل رحمہ ہللا في مسندہ خمسون ألف حدیث‪ ،‬ولکل ما أداہ الیہ اجتہادہ فی ذلک․‪ ‬وقد تقول‬
‫بعض المبغضین المتعصبین الی أن‪” :‬منہم من کان قلیل البضاعة فی الحدیث“ فلہذا قلت‬
‫روایتہ“(‪)۵۲‬‬
‫وال سبیل الی ہذا المعتقد في کبار األئمة․‪( ‬مقدمہ ابن خلدون‪ ،‬ص‪ ،۴۴۴:‬مصر)‬
‫”اور تو یہ بھی جان لے کہ ائمہ مجتہدین‪ ،‬حدیث کے فن میں متفاوت رہے ہیں‪ ،‬کسی‬
‫نے زیادہ حدیثیں بیان کی ہیں کسی نے کم‪ ،‬سو امام ابوحنیفہ رضی ہللا عنہ کے بارے میں‬
‫کہا جاتا ہے‪ ،‬کہ ان کی روایتیں صرف سترہ یا ان کے لگ بھگ ہیں اور امام مالک‪ ‬سے‬
‫موطا میں درج ہیں اور امام احمد بن‬
‫جو روایتیں ان کے یہاں صحیح ہیں‪ ،‬وہ وہی ہیں جو ٴ‬
‫حنبل‪ ‬کی مسند میں پچاس ہزار احادیثیں ہیں اور ہر ایک نے اپنے اپنے اجتہاد کے‬
‫مطابق اس میں سعی کی ہے۔‬
‫اور بعض بغض و کج روی رکھنے والوں نے اس جھوٹ پر کمر باندھ لی ہے کہ‬
‫”ائمہ مجتہدین میں سے جن سے کم حدیثیں مروی ہیں وہ محض اس لیے کہ ان کا سرمایہ‬
‫ہی اس فن میں اتنا ہے ل ٰہذا ان کی روایتیں بھی کم ہیں“؛ حاالنکہ ان بڑے بڑے اماموں کی‬
‫نسبت ایسا خیال کرنا را ِہ راست سے دوری ہے۔‬
‫‪45‬‬

‫یہ عبارت چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ امام صاحب پر مذکورہ الزام سرے سے ہی‬
‫تقول و جھوٹ پر مبنی ہے‪ ،‬خاص طو ر پر‪ ،‬خط کشیدہ عبارت میں‪ ،‬نظر‬
‫باطل ہے اور ُّ‬
‫عمیق سے غور کرنے سے حاسدین کے جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے۔‬
‫اس موقع سے حضرت تھانوی‪ ‬نے ایک لطیفہ ذکر کیا ہے کہ (سترہ کی) تردید‬
‫کے بغیر بھی‪ ،‬اس سے امام صاحب کی منقبت نکلتی ہے نہ کہ منقصت‪ ،‬کہ امام صاحب‬
‫کی فہم اتنی عالی تھی کہ صرف سترہ حدیثوں سے اس قدر مسائل استنباط کیے کہ‬
‫دوسرے ائمہ‪ ،‬باوجود الکھوں احادیث کے حافظ ہونے کے بھی‪ ،‬ان کے برابر مسائل‬
‫مستنبط نہ کرسکے‪ ،‬اس سے زیادہ فہم کی کیا دلیل ہوگی۔(‪)۵۳‬‬
‫آپ پر ہوئے اعتراض کی حقیقت‬
‫شرف تابعیت (جو آپ کو اپنے معاصرین میں ممتاز بنائے ہوئے ہے) اور‬‫ِ‬ ‫آپ کی‬
‫صحیح مسلم (ج‪ ،۲:‬ص‪ )۳۱۲ :‬پر حضور‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کی بشارت ہی‪ ،‬تمام‬
‫اعتراضات کا مسکت جواب ہے؛ تاہم منصف مزاج حضرات نے تمام اعتراضوں کو‬
‫”بکواس“ کہہ کر‪ ،‬آپ کی جاللت شان پر مہر ثبت کردی ہے؛ چنانچہ شیخ عبدالوہاب‬
‫شعرانی فرماتے ہیں‪” :‬وال عبرة لکالم بعض المتعصبین في حق االمام‪ ،‬بل کالم من یطعن‬
‫في ہذا االمام‪ ،‬عند المحققین یشبہ الہذیانات“(‪( )۵۴‬امام ابوحنیفہ کے حق میں بعض‬
‫متعصبین کے کالم کا اعتبار نہیں؛ بلکہ جو شخص امام صاحب پر طعن کرتا ہے تو اس کا‬
‫کالم بکواس کے مشابہ ہے عند المحققین)‬

‫آخری بات‬
‫خالصہ یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ‪ ‬کا ”علم حدیث“ میں بہت اونچا مقام ہے؛‬
‫امام حدیث‪ ،‬حافظ حدیث اور صاحب ”جرح و‬ ‫چنانچہ آپ صرف محدث ہی نہیں بلکہ ِ‬
‫تعدیل“ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر الحدیث ہونے میں امام بخاری‪ ‬وغیرہ کے ہم پلہ ہیں‪،‬‬
‫نیز آپ پر مخالفین کی جانب سے‪ ،‬خصوصا ً حدیث کے تعلق سے کیے گئے اعتراضات‪،‬‬
‫محض حسد و عناد پرمبنی ہیں‪ )۵۵(،‬جو بازاری افسانوں اور بکواس کالموں سے زیادہ‬
‫غریق رحمت فرما‪،‬آمین یا رب العالمین‪ ،‬بجاہ‬
‫ِ‬ ‫حیثیت نہیں رکھتے۔ (خدایا! امام صاحب کو‬
‫ہّٰلل‬ ‫سید المرسلین) ٰ‬
‫اللّہم وتغ َّمد امامنا بعفوک‪ ،‬واجعلہ فی سعة رحمتک‪ ،‬والحمد أوالً و آخرا‪،‬‬
‫والصالة والسالم علی أفضل رسلہ دائما ً متواتراً․‬
‫حدیث کی قدیم ترین صحیح کتاب‬
‫اس وقت احادیث مبارکہ کی دستیاب کتب میں سب سے قدیم کتاب‪ ‬صحیفہ ہمام ابن‬
‫منبہ‪ؒ ‬ہے ۔‬
‫ؒ‬
‫نعمان‪ ‬کی کتاب اآلثار ہے ۔ اور یہ حدیث کی‬ ‫اس کے بعد تابعی صغیر‪ ‬امام اعظم ابو حنیفہ‬
‫سب سے پہلی کتاب ہے جو باقاعدہ موضوع کے حساب سے ہے ‪ ،‬یعنی ابواب پر مشتمل‬
‫ہے ۔‬
‫‪46‬‬

‫ابوحنیفہ سے ائمہ فقہا و محدثین کے جم غفیر نے روایت کیا ہے ۔ جن‬ ‫ؒ‬ ‫اس کتاب کو امام‬
‫شیبانی ‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫یوسف ‪ ،‬امام محمد بن حسن‬ ‫ؒ‬ ‫میں امام ابو‬
‫لؤلؤی ‪ ،‬امام حماد بن ابی حنیفہ ؒ کے نسخے مشہور‬ ‫ؒ‬ ‫ہذیل ‪ ،‬امام حسن بن زیاد‬ ‫امام زفر بن ؒ‬
‫عمرو ‪ ،‬امام ابو عبد الرحمٰ ن المقرئ ؒ ‪ ،‬امام المقرئ‬ ‫ؒ‬ ‫ہیں ۔ دوسرے ائمہ میں سے امام اسد بن‬
‫غیاث اور‬‫ؒ‬ ‫مبارک ‪ ،‬امام حفص بن‬ ‫ؒ‬ ‫حمزۃ بن زیات ؒ ‪ ،‬امام مکی بن ابراہیم ؒ ‪ ،‬امام عبد ہللا بن‬
‫ان کے عالوہ بہت بڑی تعداد میں ائمہ نے کتاب اآلثار کو روایت کیا ہے ۔ سب سے مشہور‬
‫شیبانی اور امام ابویوسف قاضی ؒ کے ہیں اور مطبوع ہیں ۔‬ ‫ؒ‬ ‫نسخے امام محمد بن حسن‬
‫ان دونوں نے ان نسخوں کو روایت کرنے کے ساتھ اس میں چند روایات کا اضافہ بھی کیا‬
‫ہے جن کی حیثیت زوائد کی سی ہے ‪ ،‬بالکل اسی طرح جس طرح مسند احمد میں امام حمد‬
‫حنبل کے صاحبزادہ نے چند روایات کا اضافہ کیا ہے ۔ یا امام محمد بن حسن ؒ نے موطا‬ ‫ؒ‬ ‫بن‬
‫مالک کوروایت کر کے اس میں بھی چند روایات کا اضافہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے غلط‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫فہمی کی جس سے بعض لوگ ان کا انتساب شاگردوں سے کر دیتے ہیں ‪ ،‬جو درست‬
‫نہیں ۔اسی لیے نامور حافظ حدیث امام ابن حجر عسقالنی ؒ المتوفی ‪852‬ھ نے ائمہ اربعہ ؒ‬
‫کی کتب کے رجال پر کتاب ((تعجيل المنفعة بزوائد رجال األئمة األربعة))‪ ‬ج‪1‬ص‪ 239‬میں‬
‫فرماتے ہیں۔‬
‫َو ْال َم ْوجُود من َح ِديث أبي حنيفَة ُمفردا ِإنَّ َما هُ َو كتاب اآْل ثَار الَّتِي َر َواهَا ُم َح َّمد بن ْالحسن َعنهُ‬
‫ابوحنیفہ کی حدیث میں مستقل کتاب موجود ہے جو کتاب اآلثار ہے‬ ‫ؒ‬ ‫ترجمہ‪ ’’ : ‬اور امام‬
‫جس کو امام محمد بن حسن ؒ نے اُن سے روایت کیا ہے ‘‘۔‬

‫کتاب کا علمی مقام‪:‬‬


‫یہ کتاب بالکل صحیح روایات پر مشتمل ہے ۔‬
‫عبد هللا بن المبارك‪ ‬قال‪ :‬سألت أبا عبد هللا سفيان بن سعيد الثوري‪ ‬۔۔۔۔۔‬
‫قال‪ :‬كان أبو حنيفة‪ ‬شديد األخذ للعلم‪ ،‬ذابا ً عن حرام هللا عز وجل عن أن يستحل‪ ،‬يأخذ بما صح‬
‫عنده من األحاديث التي تحملها الثقات وباآلخر من فعل رسول هللا صلى هللا عليه وسلم‪ ،‬وما‬
‫ْت َأبَا َحنِيفَةَ يَقُو ُل ِإ َذا َجا َء ْال َح ِد ُ‬
‫يث‬ ‫ي يَقُو ُل َس ِمع ُ‬ ‫أدرك عليه علما الكوفة‪َ ،‬أبَا َح ْم َزةَ ال ُّس َّك ِر َّ‬
‫َّحي ُح اِإل ْسنَا ِد َع ِن النَّبِ ِّي َعلَ ْي ِه السَّال ُم َأ َخ ْذنَا بِ ِه‬
‫الص ِ‬
‫مناقب ۔‬
‫الدخیل ‪ -‬مناقب ائمہ اربعہ ص‪،63‬‬
‫ؒ‬ ‫البر عن ابن‬
‫العوام ‪ -‬االنتقاء‪ ،‬ابن عبد ؒ‬
‫ؒ‬ ‫الحافظ ابن ابی‬
‫دوالبی‬
‫ؒ‬ ‫الحنبلی عن حافظ‬
‫ؒ‬ ‫حافظ ابن عبد الہادی‬
‫ابوحنیفہ‬
‫ؒ‬ ‫ثوری نے فرمایا کہ امام‬
‫ؒ‬ ‫مبارک کے سوال پر امام سفیان‬
‫ؒ‬ ‫یعنی ‪ ،‬امام عبد ہللا بن‬
‫صرف ثقہ راویوں کی روایت ہی کو لیتے ہیں۔ اور نبی کریمﷺ کے آخری فعل کو ہی‬
‫لیتے ہیں اور جس پر علما کوفہ عمل کرتے ہوں ۔‬
‫‪47‬‬

‫ابوحنیفہ نے فرمایا کہ کہ اگر نبی کریم ﷺ‬


‫ؒ‬ ‫السکری کی روایت میں امام‬
‫ؒ‬ ‫اور امام ابو حمزہ‬
‫سے جو حدیث صحیح سند سے ہم تک پہنچ جائے ہم اس پر عمل کرتے ہیں‬

‫احادیث‪: ‬‬ ‫ابوحنیفہ سے منسوب کتب‬


‫ؒ‬ ‫امام‬
‫امام االئمہ‪ ،‬سراج االمت نعمان بن ثابت‪ ‬امام ابوحنیفہ‪ ‬کی طرف حدیث کی کئی کتابیں‬
‫منسوب ہیں؛‬
‫(‪)1‬کتاب اآلثار‬ ‫‪‬‬

‫(‪)2‬مسندامام ابی حنیفہ‬ ‫‪‬‬

‫(‪)3‬اربعینات امام ابی حنیفہ‬ ‫‪‬‬

‫(‪)4‬وحدانیات امام ابی حنیفہ‪،‬‬ ‫‪‬‬

‫ان میں سے "کتاب اآلثار" آپ کی تصنیف کردہ ہے؛ مگربہت سے حضرات نے اس کتاب‬
‫کو ان لوگوں کی تصنیف قرار دے دیا ہے جواس کتاب کے رواۃ میں سے ہیں جوصحیح‬
‫نہیں ہے؛‬
‫البتہ اس کے عالوہ باقی تینوں کتابیں آپکی تصنیف کردہ نہیں ہیں؛ بلکہ بعد کے لوگوں نے‬
‫ان میں‪ ‬امام ابو حنیفہ‪ ‬کی روایت حدیث کوموضوع کے لحاظ سے جمع کیا ہے۔اس سلسلے‬
‫کا سب سے بڑا کام موسوعہ حدیثیہ لمرویات امام ابوحنیفہ ؒ ہے جو‪ ‬شیخ لطیف الرحمٰ ن‬
‫بہرائچی‪ ‬کی کاوش ہے ۔‬
‫جامعین کتاب اآلثار‬
‫کتاب اآلثار کوامام ابو حنیفہ سے مختلف تالمذہ نے مختلف دور میں روایت کیا ہے‪،‬‬
‫جونسخے دنیا میں رائج ہیں وہ حسب ذیل ہیں‬
‫(‪)1‬کتاب اآلثار ابوحنیفہ ‪ -‬بروایت‪ ،‬امام محمد بن حسن شیبانیؒ‪ ‬‬ ‫‪‬‬

‫(‪)2‬کتاب اآلثار بروایت‪ ‬امام ابو یوسف‬ ‫‪‬‬

‫(‪)3‬کتاب اآلثار بروایت‪ ‬حسن بن زیاد لؤلوی‬ ‫‪‬‬

‫(‪)4‬کتاب اآلثار ابوحنیفہ ‪ -‬بروایت‪ ،‬حماد بن امام ابی حنیفہ‬ ‫‪‬‬

‫غیاث‪ ،‬یہ نسخہ زیادہ مشہور نہیں ہے‬‫ؒ‬ ‫(‪)5‬کتاب اآلثار بروایت حفص بن‬ ‫‪‬‬

‫وہبی جو "مسنداحمد بن محمد کالعی" کے نام‬‫ؒ‬ ‫(‪)6‬کتاب اآلثار بروایت محمد بن خالد‬ ‫‪‬‬

‫سے مشہور ہے‬


‫(‪)7‬کتاب اآلثار بروایت‪ ‬امام زفر‪ ‬جو "سنن زفر" کے نام سے بھی معروف ہے۔‬ ‫‪‬‬

‫ترتیب وتبویب‬
‫‪48‬‬

‫اس کتاب "کتاب اآلثار" کی ترتیب کتاب وار‪ ،‬وباب وار ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ‬
‫امام ابو حنیفہ نے صرف ابواب کے عناوین تجویز فرمائے‪ ،‬کتب کے عناوین تجویز نہیں‬
‫فرمائے؛ مگران کے سامنے کتب کی رعایت بھی تھی؛ کیونکہ ایک اصل سے متعلق‬
‫ابواب آپ نے ترتیب وار ذکر کیے ہیں؛ البتہ "کتاب المناسک" کا عنوان خود آپ نے قائم‬
‫فرمایا ہے‪ ،‬اس کے بعد پھرابواب کا ذکر کیا ہے۔ امام محمدکے نسخے میں کل ‪/305‬ابواب‬
‫ہیں‪ ،‬اس کی ترتیب درحقیقت فن فقہ میں لکھی جانے والی کتاب کی ترتیب کے مطابق ہے؛‬
‫کیونکہ فن فقہ میں سب سے پہلے طہارت کا بیان کرتے ہیں؛ پھراس کے بعد کتاب‬
‫ترمذی نے اپنی کتاب کوفقہی طرز پر مرتب کیا‬
‫ؒ‬ ‫ٰ‬
‫الصلوۃ؛ جیسا کہ امام ابوداؤد اور امام‬
‫ہے‪ ،‬برخالف بخاری ومسلم وغیرہ کے انہوں نے اس کا لحاظ نہیں کیا‪ ،‬بس من وعن اسی‬
‫فقہی انداز پر امام ابو حنیفہ کی کتاب "کتاب اآلثار" مرتب کی گئی ہے۔‬
‫امتیازات‬
‫یہ ایک ایسی کتاب ہے‪ ،‬جس کے مصنف کوتابعیت کا شرف حاصل ہے‪ ،‬آج دنیا میں‬
‫کوئی ایسی کتاب نہیں پائی جاتی ہے‪ ،‬جس کویہ ناقابل فراموش فضیلت حاصل ہو۔‬
‫صاحب ہی کی‬
‫ؒ‬ ‫اسالم میں فقہ کے نہج پر جوکتاب لکھی گئی‪ ،‬اس میں ا ّولین کاوش امام‬ ‫‪‬‬

‫ہے‪،‬‬
‫یہ کتاب اسالم کی اولین مؤلفات میں سے ہے‪ ،‬اس لیے کہ امام صاحب علیہ الرحمہ کا‬ ‫‪‬‬

‫زمانہ سنہ‪150 ‬ھ‪ ‬تک کا ہے؛‬


‫اس سلسلہ میں عموما ً اولیت‪ ‬امام مالک‪ ‬اور ان کی کتاب "موطا" کی بتائی جاتی ہے؛‬ ‫‪‬‬

‫صاحب کی "کتاب اآلثار" ہے‪ ،‬امام‬


‫ؒ‬ ‫لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس انداز پر اولین تالیف امام‬
‫مالک ودیگر حضرات جواس انداز سے کام کرنے والے ہیں‪ ،‬وہ ثانوی درجہ میں اس‬ ‫ؒ‬
‫مذاق ومزاج کواپنانے والے ہیں‬
‫"کتاب اآلثار" کوامام اعظم ابوحنیفہ نے چالیس ہزار احادیث کے مجموعہ سے منتخب‬ ‫‪‬‬

‫فرمایا ہے اور ان میں سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب میں ایک ہزار احادیث و آثار کوجمع‬
‫فرمایا ہے؛‬
‫آپ سے امام محمدؒ نے روایت کرکے کتابی شکل میں مرتب فرمایا ہے۔‬ ‫‪‬‬

‫ت قدر کے لیے اس سے زیادہ اور کیا درکار ہے کہ وہ امت‬ ‫امام ابو حنیفہ کی جالل ِ‬
‫میں‪ ‬امام اعظم‪ ‬کے لقب سے مشہور ہوئے اور ان کے اجتہادی مسائل پر اسالمی دنیا کی‬
‫دوتہائی آبادی تقریبا ً چودہ سوبرس سے برابر عمل کرتی آ رہی ہے اور تمام اکابر ائمہ آپ‬
‫کے فضل وکمال کے معترف ہیں‪ ،‬اس کتاب میں علم شریعت کوباقاعدہ ابواب پر مرتب کیا‬
‫ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد کتاب اآلثار کی احادیث‬‫ِ‬ ‫گیا ہے اور یہ ایک‬
‫وروایات پر مبنی ہے۔‬
‫اصول و شرائط‬
‫‪49‬‬

‫امام ابو حنیفہ نے اپنے مقرر کردہ اصول وشروط کے پیش نظر اپنی صوابدید سے‬
‫چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے اپنے تالمذہ کواس کا‬
‫امال کرایا ہے اور انتخاب کے بعد اس میں جومرویات لی ہیں وہ مرفوع بھی ہیں اور‬
‫موقوف ومقطوع بھی‪ ،‬زیادہ ترحصہ غیر مرفوع کا ہے‪،‬‬
‫مرویات کی مجموعی تعداد نسخوں کے اختالف کی وجہ سے مختلف بھی ذکر کی گئی‬
‫ہے‪،‬‬
‫ابویوسف کے نسخے میں ایک ہزار ستر کے قریب ہے اور امام محمدؒ کے نسخے میں‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫صرف مرفوعات ایک سو بائیس ہیں۔‬

‫مشہور نسخے‬
‫ؒ‬
‫ابویوسف کا اور‬ ‫سب سے مشہور نسخے دو ہیں‪ ،‬ایک امام محمدؒ کا اور دوسرا امام‬
‫یہی دونوں نسخے شائع بھی ہوئے ہیں‬
‫اور ان میں بھی امام محمدؒ کا نسخہ زیادہ معروف متداول ہے اور علما نے بھی اس پر‬
‫زیادہ کام کیا ہے‪،‬‬
‫موصلی اور ماضی‬
‫ؒ‬ ‫قونوی ‪ ،‬ابوالفضل علی بن مراد‬
‫ؒ‬ ‫طحاوی‪ ،‬شیخ جمال الدین‬
‫ؒ‬ ‫مثالً امام‬
‫صاحب شاہجہاں پوری "سابق صدر مفتی دار العلوم دیوبند"‬ ‫ؒ‬ ‫قریب میں‪ ‬مفتی مہدی حسن‪ ‬‬
‫[‪]6‬‬
‫نے "قالئداالزھار" کے نام سے اس کی نہایت ضخیم شرح لکھی ہے‪،‬‬
‫افغانی کا کتاب اآلثار پر حاشیہ بھی‬
‫ؒ‬ ‫محلی اور موالنا ابوالوفاء‬
‫ؒ‬ ‫موالنا عبد الباری فرنگی‬
‫ہے؛‬
‫نیز شیخ‪ ‬عبد العزیز‪ ‬بن‪ ‬عبد الرشید‪ ‬اور شیخ محمدصغیرالدین نے اس کا اردو میں ترجمہ‬
‫بھی کیا ہے اور شیخ عبد العزیز نے ترجمہ کے ساتھ کچھ اضافہ بھی کیا ہے‬
‫اور اردو ترجمہ کے ساتھ موالنا عبد الرشید نعمانی کا کتاب اآلثار کے تعارف سے متعلق‬
‫ایک مبسوط مقدمہ بھی ہے‪،‬‬
‫ابویوسف اور امام محمدؒ کے دونوں نسخوں کے ساتھ عالمہ ابوالوفا افغانی کے عربی‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫میں مقدمے بھی ہیں‪،‬‬
‫ان کے عالوہ دیگر شراح ومحشین نے بھی مقدمے لکھے ہیں‪ ،‬امام ابویوسف کے نسخے‬
‫پر موالنا ابوالوفاء کی تعلیقات بھی ہیں‬
‫اور‪ ‬حافظ ابن حجر عسقالنی‪ ‬اور ان کے شاگر ِد رشید قاسم بن قطلوبغا حنفی‪ ،‬دونوں‬
‫حضرات نے کتاب اآلثار لمحمد کے رجال پر "االیثار بمعرفۃ رجال کتاب اآلثار" کے نام‬
‫سے کتابیں لکھی ہیں‪،‬‬
‫کتاب اآلثار کے متعدد نسخے یا ان کے کافی اجزاء "مسانید امام اعظم" کے مجموعے‬
‫"جامع المسانید" میں بھی شامل ہیں‪،‬‬
‫‪50‬‬

‫مثالً امام ابویوسف کے نسخے کی مرفوع روایات اور امام زفر وحفص بن غیاث کے‬
‫عالوہ دیگر حضرات کے نسخے بھی اس میں شامل کر دیے گئے ہیں۔‬
‫کتاب اآلثار کے مصنف اور مشہور نسخوں میں سے ایک نسخہ کا‬
‫تعارف‬
‫کتاب اآلثار امام ابوحنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کی حدیث پر وہ کتاب ھے جو آپ نے اپنے تالمذہ‬
‫کو امالء کروائی تھی اور اس کتاب کا انتخاب چالیس ھزار احادیث مبارکہ سے کیا ہے‬
‫اس کتاب کے مشہور نسخوں میں درج ذیل پانچ نسخوں کا ذکر ملتا ھے‬
‫*نسخہ امام زفر بن ھذیل*‬
‫*نسخہ امام ابو یوسف*‬
‫*نسخہ امام حسن بن زیاد*‬
‫*نسخہ امام حماد بن ابی حنیفہ*‬
‫*نسخہ امام محمد بن حسن الشیبانی*‬
‫ان پانچ نسخوں میں سے ہم تک جو باسند طریقے سے طبع ھو کر نسخے پہنچے وہ دو‬
‫ہیں‬
‫*امام ابویوسف اور امام محمد کے طریق سے*‬
‫اس پوسٹ میں ہم امام محمد بن حسن الشیبانی کے نسخے کا تذکرہ کریں گے کیونکہ‬
‫ہمارے ہاں یہی متداول اور مشہور نسخہ عام دستیاب ہے‬
‫*کتاب اآلثار بروایت امام محمد کے مصنف کا مختصر تذکرہ*‬
‫والدت ‪ 132‬ہجری میں ہوئی‬
‫آپ کا نام محمد بن حسن ھے‬
‫عالقہ واسط میں پیدا ھوئے‬
‫اور عالقہ رقہ میں قاضی رہے اپنے دور میں‬
‫آپ کے شیوخ حدیث‬
‫آپ کے شیوخ حدیث میں کثیر افراد ہیں جن میں سے چند مشہور کا تذکرہ ہم یہاں کرتے‬
‫ہیں‬
‫امام االئمہ فی الحدیث امام ابوحنیفہ‬
‫امام دار الہجرت امام مالک‬
‫امام المحدثین سفیان بن عیینہ‬
‫امام ابن جریج‬
‫سعید بن ابی عروبہ‬
‫مجتہد شام حافظ الحدیث امام اوزاعی‬
‫امام المحدثین عبد ہللا بن المبارک‬
‫امام فن الرجال سند المحدثین امام شعبہ بن الحجاج‬
‫اور اسکے عالوہ کثیر تعداد ھے جن سے آپ نے اخذ علم الحدیث کیا‬
‫‪51‬‬

‫*آپ کے تالمذہ یعنی شاگرد*‬


‫امام محمد بن حسن الشیبانی سے کثیر خلق نے استفادہ و افاضہ حدیث کیا ھے چند مشہور‬
‫زمانہ آپ کے تالمذہ کے اسماء درج ذیل ہیں‬
‫امام محمد بن ادریس الشافعی‬
‫امام المحدثین و حجۃ المحدثین امام احمد بن حنبل‬
‫امام اسد بن فرات‬
‫بانی اسماء الرجال امام اول فن اسماء الرجال امام یحی بن معین‬
‫امام احمد بن حفص الکبیر البخاری‬
‫امام اہل بلخ و مفتی بلخ امام خلف بن ایوب‬
‫ریحانۃ العلم الحدیث امام محمد بن سماعہ‬
‫*امام محمد بن حسن الشیبانی کا مقام محدثین کے ہاں*‬
‫امام محمد بن حسن کا محدثین کے ہاں مقام جاننے کے لیے اتنا جاننا ہی کافی ھے کہ ائمہ‬
‫اربعہ میں سے دو مشہور امام سیدنا امام الشافعی و امام احمد بن حنبل کا شمار آپ کے‬
‫تالمذہ میں ھوتا ھے اور مشہور ناقد و امام اسماء الرجال حفاظ الحدیث شمس الدین الذہبی‬
‫جیسی ھستی نے آپ کے مناقب پر مکمل کتاب لکھی ھے جس کا نام ھے *مناقب ابی‬
‫حنیفہ و صاحبیہ*‬
‫*کتاب اآلثار بروایت امام محمد کا تعارف*‬
‫یہ کتاب دراصل امام ابوحنیفہ کی تصنیف ھے اور اسکے کئی نسخے ہیں جن کو آپکے۔‬
‫متعدد تالمذہ نے آپ سے روایت کیا ھے ان نسخوں میں سے سب سے زیادہ مشہور نسخہ‬
‫امام محمد کا روایت کردہ ھے‬
‫واضح رھے کہ کتاب اآلثار کے اس نسخہ کو امام محمد سے روایت کرنے والے کئی‬
‫حضرات ہیں جن میں سے زیادہ مشہور درج ذیل تین تالمذہ ہیں‬
‫*امام ابو سلیمان جوزجانی*‬
‫*امام ابوحفص الکبیر*‬
‫*امام اسماعیل بن توبہ القزوینی*‬
‫*شاگرد اول ابو سلیمان جوزجانی کی دو اسناد*‬
‫پھر ان تینوں میں سے پہلے امام ابو سلیمان جوزجانی کا روایت کردہ نسخہ متعدد محدثین‬
‫کی مرویات میں سے ھے *جن میں سے ایک امام محمد بن محمود الخوارزمی ہیں* امام‬
‫خوارزمی نے اس نسخہ کو تین سندوں سے روایت کیا ھے جن میں سے صرف ایک سند‬
‫یہاں نقل کر رھے ہیں‬
‫*یوسف بن عبد الرحمن بن علی بن جوزی وہ عبد المنعم بن عبد الوہاب سے وہ احمد بن‬
‫عبد الجبار سے وہ علی بن محسن تنوخی سے وہ ابراہیم بن احمد الطبری سے وہ محمد بن‬
‫احمد الرازی سے وہ ابو عامر عمر بن تمیم سے وہ ابوسلیمان جوزجانی سے اور وہ امام‬
‫محمد بن حسن سے روایت کرتے ہیں (اس کتاب اآلثار کے پورے نسخہ کو)‬
‫‪52‬‬

‫اسی طرح یہ نسخہ *مسند الشام حافظ الحدیث امام محمد بن یوسف الصالحی کی مرویات‬
‫سے بھی ھے* اور ان کا امام محمد تک سلسلہ سند درج ذیل ہےقاضی عمر بن حسن نووی‬
‫وہ حافظ ابن حجر عسقالنی سے وہ تقی الدین عبد ہللا بن محمد سے وہ احمد بن ابوطالب‬
‫سے وہ محمد بن محمد بن عمر سے وہ محمد بن عبد الباقی سے وک ابوالفضل بن خیرون‬
‫سے وہ حسین بن علی الصیمری سے وہ ابراہیم بن احمد سے وہ محمد بن احمد سے وہ ابو‬
‫عامر بن تمیم سے وہ ابو سلیمان جوزجانی سے اور وہ امام محمد بن حسن سے اس نسخہ‬
‫کو کامل طور پر روایت کرتے ہیں‬
‫*دوسرے شاگرد امام ابو حفص الکبیر کی روایت سے ایک سند*‬
‫ان کی سند سے بھی کتاب اآلثار کو کثیر محدثین سے سماع کیا اور اسکو اپنی اسناد سے‬
‫آگے نقل کیا ہم یہاں صرف ایک سند کا ذکر کرتے ہیں جو شیخ االسالم حافظ الحدیث امام‬
‫ابن حجر عسقالنی رحمہ ہللا کی سند ھے اور ابن حجر عسقالنی باوجود شافعی المذہب‬
‫ھونے کے اس کتاب کو اپنی سند سے نقل کرتے ہیں‬
‫حافظ ابن حجر عسقالنی کی سند یہ ھے‬
‫ابو عبد ہللا حریری سے وہ قوام الدین اتقانی سے وہ احمد بن اسعد بخاری سے وہ حسین بن‬
‫علی سغناقی سے وہ محمد بن نصر بخاری سے وہ محمد بن عبد الستار کردری سے وہ‬
‫عمر بن عبد الکریم سے وہ عبدالرحمن بن محمد سے وہ نجم الدین حسین سے وہ ابو زید‬
‫الدبوسی سے وہ ابوحفص استروشی سے وہ حسین بن محمد سے وہ امام عبد ہللا الحارثی‬
‫سے وہ ابو عبد ہللا بن ابوحفص سے وہ اپنے والد ابو حفص سے وہ امام محمد سے اور وہ‬
‫امام ابوحنیفہ سے کتاب اآلثار کو نقل کرتے ہیں‬
‫یہ سب کچھ اس بات کی بین و واضح دلیل ھے کہ محدثین کا اس کتاب کے ساتھ خصوصی‬
‫اعتناء و لگاؤ رہا ھے اور وہ اسکو اپنی اپنی اسناد سے نقل کرتے رھے اور اس سے‬
‫استفادہ کرتے رھے‬
‫کتاب اآلثار پر محدثین کرام کا کام‬
‫اس کتاب پر محدثین نے مفصل شروحات و تراجم و تخریجات اور صرف اسکے رواۃ پر‬
‫مستقل کتب تحریر کی ہیں ہم چند ایک کا ذکر کر رہے ہیں حافظ ابن حجر عسقالنی نے‬
‫اس کے روات پر مستقل کتاب لکھی جس کا نام ھے *االیثار بمعرفۃ رواۃ اآلثار*‬
‫اسی طرح حافظ عسقالنی کے شاگرد عظیم حنفی محدث قاسم بن قطلوبغا نے بھی اس کے‬
‫رواۃ پر ایک کتاب لکھی ھے‬
‫اس کتاب کی ایک شرح حافظ الحدیث مجتہد منتسب سرخیل احناف امام ابو جعفر الطحاوی‬
‫نے لکھی ھے جو امام ابو سعد المسعانی جیسے محدث کہ مرویات سے ہے۔‬
‫محدثین کا کتاب اآلثار کی روایات سے کثرت سے دلیل پکڑنا‬
‫اس کتاب کی عظمت و افادیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ھے کہ امام بخاری نے اپنی‬
‫صحیح بخاری میں ایک معلق یعنی بالسند روایت نقل کی تو ابن حجر عسقالنی نے اسکی‬
‫سند کو کتاب اآلثار کے حوالے سے نقل کیا وہ لکھتے ہیں‬
‫*وصلہ محمد بن الحسن فی کتاب اآلثار عن ابی حنیفہ عن حماد عنہ بلفظ*‬
‫‪53‬‬

‫یعنی اس حدیث کو امام محمد بن حسن نے اپنی سند سے نقل کیا ھے (فتح الباری ج‪ 12‬ص‬
‫‪)402‬‬
‫اسی طرح ایک اور حدیث کی تحقیق میں رقم طراز ہیں کہ‬
‫*واخرج محمد بن الحسن فی اآلثار عن ابی حنفیہ بسند لہ عن ابن عباس نحو ذلک*‬
‫یعنی امام محمد بن حسن نے کتاب اآلثار میں بسند ابی حنیفہ ابن عباس سے اسی طرح نقل‬
‫کیا ھے (فتح الباری ج‪9‬ص‪)811‬‬
‫اسی طرح ابن حجر عسقالنی نے الہدایہ کی احادیث کی تخریج کی جس کا نام ھے *الدرایہ‬
‫لتخریج احادیث الہدایہ* اس میں تقریبا پچاس سے زائد مقامات پر اسی کتاب اآلثار سے‬
‫حدیث کی تخریج کی ھے اور بہت سارے مقامات پر اسنادہ صحیح کہا ھے‬
‫اسی طرح حافظ الحدیث جمال الدین زیلعی نے بھی *نصب الرایہ* میں تقریبا ایک سو سے‬
‫زائد مقامات پر اسی کتاب اآلثار کی احادیث سے تخریج فرمائی ہے جو اس بات کا منہ‬
‫بولتا ثبوت ھے کہ کتاب اآلثار عند المحدثین و محققین و مخرجین و شارحین معتبر و مستند‬
‫کتاب ہے اور وہ باقاعدہ اسکو سماعت کرتے رھے اور دلیل کے طور پر اسکو اپنی اسناد‬
‫سے آگے نقل کرتے رھے اور اسکی روایات کو دلیل بناتے رہے۔‬

‫حوالے‬
‫(‪         )۱‬منہاج السنة‪ ،‬ج‪ ،۴:‬ص‪ ،۱۳۹ :‬بہ حوالہ‪ :‬دفاع امام ابوحنیفہ‪ ،‬ص‪ ،۴۲ :‬و مقام‬
‫ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪( ۱۷ :‬اردو)‬
‫(‪        )۲‬جامع علم البیان‪ ،‬بہ حوالہ‪ :‬دفاع امام ابوحنیفہ‪ ،‬ص‪۶۶ :‬۔‬
‫‪       )۳( ‬انجاء الوطن مقدمہ ”اعالء السنن“‬
‫(‪        )۴‬صدراالئمہ‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪۲۵۴ :‬‬
‫(‪        )۵‬انجاء الوطن۔‬
‫(‪        )۶‬دفاع امام ابوحنیفہ‪ ،‬ص‪( ۹۰ :‬اردو)‬
‫(‪        )۷‬دفاع امام ابوحنیفہ‪ ،‬ص‪ )۸( ۸۸ :‬انجاء الوطن‬
‫(‪         )۹‬مقدمہ تاریخ ابن خلدون‪ ،‬ص‪ ۴۴۵ :‬بحوالہ ‪:‬مناقب ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪۱۶۳ :‬۔‬
‫(‪       )۱۰‬کشف الغمہ بسراج االمہ‪ ،‬ص‪( ۶۴ :‬از ‪ :‬حضرت موالنا سید مہدی حسن‬
‫صاحب)‬
‫(‪        )۱۱‬تلخیص االستغاثہ‪ ،‬ص‪ ،۱۳ :‬بحوالہ‪ :‬مناقب ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪۱۲۵ :‬‬
‫(‪       )۱۲‬آثار امام صاحب‪ ،‬ص‪۳۶ :‬‬
‫(‪      )۱۳‬االنتقاء‪ ،‬ص‪ ۱۳۰ :‬بحوالہ‪ :‬مناقب ․․․ ص‪۱۰۹:‬‬
‫‪54‬‬

‫(‪ )۱۴‬تاریخ بغداد‪ ،‬ج‪ ،۱۳:‬ص‪ ،۲۴۵ :‬بحوالہ‪” :‬علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کا مقام و‬
‫مرتبہ“ (از‪ :‬حضرت موالنا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہ)‬
‫(‪ )۱۵‬آثار امام صاحب‪ ،‬ص‪۱۳۶:‬‬
‫(‪ )۱۶‬کشف الغمہ․․․ ص‪ ،۵۹ :‬بحوالہ‪” :‬علم حدیث میں امام صاحب کامقام و مرتبہ“‬
‫ص‪۶:‬‬
‫(‪ )۱۷‬اخبار ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪۳۶ :‬‬
‫(‪ )۱۸‬الخیرات الحسان‪ ،‬ص‪ ،۶۰ :‬وانجاء الوطن‬
‫(‪)۱۹‬تہذیب التہذیب‪ ،‬ج‪ ،۴:‬ص‪ ،۲۴۴ :‬انجاء الوطن‪ ،‬ص‪۳۱ :‬‬
‫(‪ )۲۰‬عقود الجواہر‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۲۳ :‬بحوالہ‪ :‬دفاع‪ ،‬ص‪۱۱۲ :‬‬
‫(‪ )۲۱‬مناقب االمام اعظم‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۹۵ :‬بحوالہ‪ :‬علم حدیث میں ․․․ ص‪۸ :‬‬
‫(‪ )۲۲‬توضیح االفکار‪ ،‬ص‪ ،۶۳ :‬بحوالہ‪ :‬دفاع․․․ ص‪۱۱۷ :‬‬
‫(‪ )۲۳‬مناقب موفق‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۹۶ :‬بحوالہ‪ :‬مقام ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪۱۱۶ :‬‬
‫(‪ )۲۴‬تنقیح االفکار‪ ،‬ص‪۶۵ :‬‬
‫(‪)۲۵‬التقریب‪ ،‬ص‪ ،۵۱ :‬بحوالہ‪ :‬دفاع ․․․ ص‪۱۱۷:‬‬
‫(‪ )۲۶‬دفاع ․․․․ ص‪۱۱۷ :‬‬
‫(‪ )۲۷‬الوصیة‪ ،‬ص‪ ،۶۵ :‬بحوالہ‪ :‬پمفلٹ‬
‫(‪ )۲۸‬دفاع امام صاحب‪ ،‬ص‪۹۲ :‬‬
‫(‪ )۲۹‬تأنیب الخطیب‪ ،‬ص‪ ،۵۶ :‬بحوالہ مقام ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪۱۴۰ :‬‬
‫(‪)۳۰‬مقدمہ ابن خلدون‪ ،‬ص‪ ،۴۵۵ :‬بحوالہ‪ :‬دفاع ․․․ ص‪۹۴ :‬‬
‫(‪ )۳۱‬ترتیب المدارک‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۱۸۸ :‬بحوالہ‪ :‬ماہ نامہ ”دارالعلوم دیوبند“ ماہ رمضان‬
‫المبارک ‪۱۴۱۳‬ھ‬
‫(‪ )۳۲‬ماہ نامہ ”دارالعلوم دیوبند“ سابقہ‬
‫‪ )۳۳( ‬انجاء الوطن‪ ،‬ص‪۴۴ :‬‬
‫(‪)۳۴‬معرفة علم الحدیث‪ ،‬ص‪ ،۱۱ :‬بحوالہ‪:‬ماہ نامہ ”دارالعلوم“‬
‫(‪ )۳۵‬نشر العرف‪ ،‬ص‪ ،۱:‬بحوالہ‪ :‬ماہ نامہ دارالعلوم“ مذکورہ‪ ،‬ص‪۸ :‬‬
‫(‪ )۳۶‬ترمذی شریف‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۱۱۸ :‬بحوالہ‪ :‬ماہ نامہ دارالعلوم سابقہ‬
‫(‪ )۳۷‬ہدایہ کتاب القاضی‬
‫‪55‬‬

‫(‪ )۳۸‬اعالم الموقعین‪،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۷۷ :‬بحوالہ‪ :‬مسند االمام ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪۳۴ :‬‬
‫(‪ )۳۹‬انجاء الوطن‪ ،‬ص‪۴۰ :‬‬
‫(‪ )۴۰‬اعالم الموقعین‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۳۱ :‬بحوالہ‪ :‬انجاء الوطن‬
‫(‪ )۴۱‬مفتاح السعادہ‪ ،‬ج‪ ،۲۰:‬ص‪ ،۱۱۷ :‬بحوالہ‪ :‬ماہ نامہ مذکورہ‬
‫(‪ )۴۲‬تاریخ بغداد‪ ،‬ج‪ ،۱۳ :‬ص‪ ،۴۷۱ :‬بحوالہ ماہ نامہ مذکورہ‬
‫(‪ )۴۳‬اتحاف النبالء المتقین‪ ،‬ص‪ ،۲۳۷ :‬بحوالہ ماہ نامہ مذکورہ‬
‫(‪ )۴۴‬ماہ نامہ ”دعوة الحق“ عربی‪ ،‬شوال ‪۸۴‬ھ (ایڈیٹر‪ :‬حضرت موالنا وحید الزماں‬
‫کیرانوی‪ ،‬نورہللا مرقدہ)‬
‫(‪ )۴۵‬کشف الغمہ بسراج االمہ‪ ،‬ص‪۱۱۴ :‬‬
‫(‪ )۴۶‬دفاع امام ابوحنیفہ‪ ،‬ص‪۷۶ :‬‬
‫(‪ )۴۷‬دفاع ابوحنیفہ‪ ،‬ص‪۱۱۵ :‬‬
‫(‪ )۴۸‬عقود الجواہر‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۲۳ :‬بحوالہ‪ :‬دفاع ․․․ ص‪۱۱۲ :‬‬
‫(‪ )۴۹‬بستان المحدثین‪ ،‬ص‪۷۸ :‬‬
‫(‪)۵۰‬مستدالت االمام ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪۴۲ :‬‬
‫(‪ )۵۱‬دفاع ․․․․ ص‪( ۱۱۵ :‬اردو)‬
‫(‪ )۵۲‬مقام ابی حنیفہ‪ ،‬ص‪ ،۱۳۹ :‬دفاع امام ابوحنیفہ‪ ،‬ص‪ ،۱۰۰ :‬کشف الغمہ․․․ ص‪:‬‬
‫‪ ،۵۳‬نصر المقلدین‪ ،‬ص‪( ۱۹۱ :‬از حافظ احمد علی) (‪ )۵۳‬اشرف الجواب‪ ،‬ص‪۱۷۴ :‬‬
‫ٰ‬
‫کبری للشعرانی‪ ،‬ص‪ ،۱۸ :‬بحوالہ‪ :‬کشف الغمہ‪ ،‬ص‪۵۸ :‬‬ ‫(‪ )۵۴‬میزان‬
‫(‪ )۵۵‬انجاء الوطن‪ ،‬ص‪۴۴ :‬‬
‫(‪ )۵۶‬دفاع امام ابوحنیفہ‪ ،‬ص‪۱۰۲ :‬‬

You might also like