Professional Documents
Culture Documents
ابو حنیفہ سے متعلق بشارات
ابو حنیفہ سے متعلق بشارات
انتساب
تصدیق مشرف
دستخط __________
3
مقدمہ
4
فہرست
ف ن
ص حہ مب ر موضوعات
ف ث
ب اب :03کت اب اآل ار واب و حن ی ہ
33 فصل :01فقہ
دیگر تصانیف34
فقہ حنفی34
مقام فقہ حنفی35
حق گوئی36
عظمت ابو حنیفہ36
5
وفات36
حضرت امام ابو حنیفہ اور علم حدیث 37
ضروری تجزیہ37
فصل :02اولیں درس گاہ اور حدیث کیلئے سفر37
شرف تابعیت38
نصاب تعلیم38
علم حدیث میں سبقت38
آپ کی محدثیت اور مہارت حدیث پر شہادتیں39
حافظ حدیث ہو نے پر شہادتیں40
امام صاحب اور جرح وتعدیل40
کثیر الحدیث ہو نے پر شہادتیں 40
آپ امام بخاری کے ہم پلہ ہیں41
ت روایت کے اسباب 42 قل ِ
اہل الرائے اور اہل حدیث43
عظمت حدیث کی دلیل44
محد ثین حنفی کے سایے میں44
ت
صف
فصل :03آ پ کی ن ی ات 45
مسانید45
ب اب:اول
امام صاحب کا تعارف
ابو حنیفہ سے متعلق بشارات
امام ابو حنیفہ کے فضائل و مناقب میں شیخ جالل الدین سیوطی( شافعی -مقلد) (-849
911ھ) اپنی کتاب)التبييض الصحيفه في مناقب اإلمام أبي حنيفه(میں تسلیم کیا ہے کہ اس
پیشین گوئی کے بڑےمصداق امام اعظم ابو حنیفہ نعمان ہیں۔
القرآن اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ
تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے
حدیث میں ہے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم! وہ
دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی ہللا علیہ و آلہ و سلمنےسلمان
فارس پر ہاتھ رکھ کر فرمایا :اس کی قوم اور فرمایا :خدا کی قسم اگرایمان ثریا پر جا
پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار الئیں گے
اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں) سے
نہیں ملے۔
حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی ہللا علیہ وآلہ و سلم سے ( َّو ٰا َخ ِري َْن ِم ْنهُ ْم لَ َّما يَ ْل َحقُ ْوا بِ ِه ْم
ۭ َوهُ َو ْال َع ِز ْي ُز ْال َح ِك ْي ُم) 63۔ الجمعہ )3:کی نسبت سوال کیا گیا تو سلمان فارسی کے شانہ پر
ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر علم یا (فرمایا) دین ثریا پر جا پہنچے گا تو اس کی قوم فارس
کامردوہاں سے بھی لے آئے گا۔
شجرہ نسب
اعظم کا شجرۂ نسب اس طرح نقل کیا ہے ابو حنیفہ النعمانؒ مورخ ابن خلکان نے امام
اورزوطی کو زاء کے پیش اورطا کے زبر اورآخر میں یاء
ٰ بن ثابت بن ُز ْو ٰ
طی بن ماہ
مقصورہ کے ساتھ ضبط کیا ہے،لیکن امام صاحب کے پوتے نے جو شجرۂ نسب اپنے دادا
کا خو دبیان کیا ہے وہ اس طرح ہے اسمعیل بن حماد بن النعمان بن ثابت بن النعمان بن
7
المرزبان عالمہ شبلی کا خیال یہ ہے کہ جب زوطی اسالم الئے ہوں گے تو ان کا نام نعمان
رکھ دیا گیا ہوگا اس لیے جب اسمعیل نے اپنا شجرہ نسب بیان کیا تو اپنے دادا کو اسالمی
نام ہی کا ذکر کیاہے۔ صحیح روایات کی بناء پر یہ طے شدہ ہے کہ امام صاحب کے والد
ماجد کی والدت اسالم ہی پر ہوئی ہے،خطیب بغدادی نے جو کچھ اس کے خالف لکھا ہے
وہ محض بے اصل اوران کے مشہور تعصب پرمبنی ہے،غالبا ً اسی خیال کی تائید کے
ب ذیل روایت بھی نقل کی ہے۔ کان ابو حنیفۃ اسمہ عتیک بن زوطرۃ لیے انہوں نے حس ِ
فسمی نفسہ النعمان واباہ ثابتا ً ابو حنیفہ کا نام عتیک اوران کے والد کا زوطرۃ تھا پھر انہوں
نے اپنا نام نعمان اوراپنے والد کا ثابت بدل دیا تھا اس کا راوی اساجی مختلف فیہ ہونے
کے عالوہ مشہور متعصب ہے تاہم اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو غالبا ً ثابت کو
زوطرۃ ان کے والد زوطی کی مناسبت سے کہا گیا ہوگا۔
ہمارے نزدیک نام ونسب کے فیصلہ کے لیے نسب سے زیادہ معتبر شہادت خود اہل
خاندان ہی کی ہوسکتی ہے لہذا یہاں اسمعیل کے بیان کے خالف جو بیانات بھی ہیں وہ سب
قابل توجہ ہوں گےاسمعیل یہ بھی نقل فرماتے ہیں کہ ہمارے پردادا ثابت زمانہ مرجوح یا ِ
طفولیت میں حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے آپ نے اُن کے اوران کی
اوالد کے حق میں دعاء برکت فرمائی تھی اورہمیں امید ہے کہ ان کی یہ دعاء ہمارے حق
میں ضرور قبول ہوئی ہوگی،وہ کہتے ہیں کہ ثابت کے والد نعمان وہی ہیں جو حضرت
اعظم کے
ؒ علی کی خدمت میں ھدیہ لیکر حاضر ہوئے تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ؓ
علی سے ہمیشہ خاص تعلق رہا ہے اوراسی بنا پر انہوں نے ثابت خاندان کو حضرت ؓ
اوران کی اوالد کے لیے خصوصیت سے دعافرمائی ہوگی ،اسمعیل یہ بھی بیان کرتے ہیں
کہ ہم فارسی النسل ہیں ،ہمارے باپ دادا سب آزاد لوگ تھے اس کے بعدقسم کھاکر کہتے
ہیں :وہللا ما وقع علینا رق قط خدا کی قسم ہے غالمی کی ذلت میں ہم کبھی مبتالء نہیں
ہوئے۔
اُن کے اس تاکیدی بیان سے اس غلط شہرت کی تردید ہوتی ہے جو امام صاحب کے
اعظم
ؒ دادا کے متعلق پیدا ہوگئی تھی کہ وہ بنی تیم ہللا کے آزاد کردہ غالم تھے،اسمعیل امام
کے پوتے ہیں،اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کو اپنے دادا کے حاالت کی بھی پوری
تحقیق نہ ہوگی،اسالمی عہد میں رقیۃ کی غلط فہمی پیدا ہوجانا وہ بھی عجم کے نسب میں
کچھ بعید نہیں ہے اور واقعہ کی حقیقت منکشف ہوجانے کے بعد غلط فہمیوں کے اسباب
بیان کرنے کی مفت درد سری اٹھانا بھی غیر ضروری ہے،ہمارے نزدیک اس افواہ کو
اعظم سے رقابت کے سلسلہ ؒ شہرت دینے میں بہت بڑا دخل اس خلش کو بھی ہے جو امام
میں بعض علماء کو پیدا ہوگئی تھی ،عالمہ کوثری نے مشکل اآلثار کی ایک روایت کی
مولی حلیف کے معنی میں کہا گیا تھا،اگر بالفرض ٰ مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کو
تاریخ سے صحیح طور پر آپ کا اوال ِد موالی ہونا ثابت ہوجاتا تو اسالمی نقطۂ نظر سے یہ
اتنا بڑا عیب بھی نہ تھا جس کی مدافعت کرنا ہمارے لیے ضروری ہوتا لیکن افسوس یہ
ہے کہ عصبیت کی آنکھ جب خشم آلود ہوجاتی ہے تو وہ کوئی ہنر اپنے حریف میں دیکھنا
پسند نہیں کرتی۔
8
مولد ومدفن
آپ کی پیدائش کوفہ میں اوروفات بغداد میں ہوئی ہے،علمی پایہ کے لحاظ سے کوفہ
ہمیشہ ممتاز شہر رہا ہے ،عالمہ کوثری نے نصب الرایہ کے مقدمہ میں اس کی مختصر
تاریخ لکھی ہے ہم اس کا خالصہ یہاں درج کرتے ہیں۔ کوفہ ایک اسالمی شہر ہے جو عہ ِد
فاروقی ۱۷ھ میں بحکم امیر المومنین تعمیر کیا گیا تھا،اس کے ارد گرد فصحاء عرب
ؓ
مسعود ابن
بسائے گئے اوران کے تعلیمی نظم ونسق کے لیے سرکاری طور پر حضرت ِ
عمر نے اہ ِل کوفہ کو یہ کو بھیجا گیا،ان کی علمی منزلت اس سے ظاہر ہے کہ حضرت ؓ
مسعود کی مجھے یہاں خود بھی ضرورت تھی لیکن تمہاری ضرورت کو ؓ لکھا تھا کہ ابن
مقدم سمجھ کر تمہاری تعلیم کے لیے ان کو بھیج رہا ہوں،انہوں نے یہاں بیٹھ کر عہ ِد
عثمان کے آخری دور تک لوگوں کو قرآن پاک اوردین کے مسائل کی تعلیم دی،ان کی ؓ
تعلیمی جدوجہد کا یہ نتیجہ ہوا کہ بعض محدثین کے بیان کے مطابق اس نوآباد شہر میں
علی کوفہ میں داخل ہوئے تو ہوگئے،حتی کہ جب حضرت ؓ ٰ چار ہزار علماء ومحدثین پیدا
مسعود کا بھال کرے انہوں نے ؓ ابن
تعالی ِ
ٰ علم کی یہ شان دیکھ کر بے ساختہ بول اٹھے،ہللا
ت موجودہ ہی کیا کم تھا کہ اس مدینۃ العلم کی تو اس بستی کو علم سے بھردیا کوفہ بحال ِ
عباس کے علوم کاؓ آمدنے اُسے اور چار چاند لگادیئے ،ایک سعید بن جبیر تنہا یہاں اب ِن
ایسا نسخہ موجود تھے کہ جب کوفہ والے اُن کے پاس کوئی ٰفتوی پوچھنے جاتے تو وہ
فرماتے کیا تمہارے یہاں سعید بن جبیر موجود نہ تھے یعنی ان کے ہوتے ہوئے یہاں آنے
کی کیا ضرورت تھی۔
عمر جب ان کو مغازی پر بحث کرتے شعبی کے علم کا یہ عالم تھا کہ حضرت اب ِن ؓ ؒ
ہوئے دیکھتے تو فرماتے میں ان غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک رہ چکا ہوں
مگر ان کی یاداشت ان کو مجھ سے بھی زیادہ ہے۔ ابراہیم نخعی کا تو کہنا ہی کیا ہے،اب ِن
اہل نقد کے نزدیک ان کے سب مراسیل صحیح سمجھے جاتے عبدالبر کہتے ہیں کہ ِ
عائشہ وغیرہ کا زمانہ پایا ہے ابو عمران نے ؓ خدری اورحضر ت ؓ ہیں،انہوں نے ابو سعید
اُن کو اپنے زمانہ کے تمام علماء سے افضل کہا ہے ۹۵ء میں جب ان کی وفات ہوئی تو
ابو عمران نے ایک شخص سے کہا آج تم نے سب سے زیادہ فقیہ شخص کو دفن کردیا،اس
بصری سے نہیں ؛بلکہ ؒ بصری سے بھی زیادہ انہوں نے کہا ایک حسن ؒ نے کہا کیا حسن
تمام اہل بصرہ ،اہل کوفہ،اہل شام اوراہل حجاز سے بھی۔
شعبی کہا کرتے تھے کہ ابراہیم فقہ کے گہوارہ میں تو پیدا ہی ہوئے تھے،اس کے
بعد وہ ہمارے پاس آئے اور ہماری وہ حدیثیں جو بے غبار تھیں اپنی فقہ میں شامل کرکے
اپنے ساتھ لے گئے۔ مسروق جو کبار تابعین میں ہیں فرماتے ہیں آنحضرتﷺ کے صحابہ
کا خالصہ میں نے ان چھ اشخاص میں دیکھا ،علی،عبدہللا بن مسعود،عمر،زید بن
ثابت،ابوالدرداء اورابی بن کعب رضی ہللا تعالی عنہم پھر نظر ڈالی تو ان سب کے علم کا
جبل نے جو زبا ِن رسالت سے اعلم خالصہ پہلے دو شخصوں میں پایا ،حضرت معاذ بن ؓ
بالحالل والحرام کا تمغہ حاصل کرچکے تھے اپنے خاص شاگرد عمرو بن میمون کو حکم
9
امام ترمذی نے فقہ کا کوئی باب کم چھوڑا ہے جہاں اعتنا کے ساتھ اہ ِل کوفہ کا مذہب نقلِ
حنیفہ کا مولد اوران کا علمی گہوارہ جس کے آغوش میں رہ کر
ؒ نہ کیا ہو۔ یہ ہے امام ابو
ان کی علمی پرورش ہوئی ہے کون کہہ سکتا ہے کہ جو فقہ اس سرزمین میں مدون کی
سر موبھی کتاب وسنت سے تجاوز کرسکتی ہے۔ گئی ہو وہ ِ
ابتدائی زندگی
آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب
سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز
ہیں۔ اسالمی فقہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسالً عجمی تھے۔ آپ کی
پیدائش کوفہ میں 80ھ بمطابق699 ء میں ہوئی سنہ وفات 150ھ ہے۔ ابتدائی ذوق والد
ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن ہللا نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھاٰ ،لہذا
تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس
سال کی عمر میں ٰ
اعلی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔
تقوی فہم و فراست اور ٰ آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و
حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔
45سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں ،رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن
حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ دن کو علم پھیالتے اور رات کو عبادت کرتے،
ان کی حیات مبارکہ کے التعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں
تقوی اور طہارت کے پہاڑ ٰ کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و
ہیں۔ ابو حنیفہ میانہ قد ،خوش رو اور موزوں جسم کے مالک تھے۔ گفتگو نہایت شیریں
کرتے آواز بلند اور صاف تھی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ اکثر خوش لباس رہتے
تھے۔ سرکاری وظیفہ خواری سے دور رہے۔ حریت فکر ،بے نیازی اور حق گوئی ان کا
حنیفہ ُخوش روُ ،خوش لباسُ ،خوش ؒ امام اعظم ابو
طرہء امتیاز تھا۔فِقہ حنفی کے بانیِ ،
مجلس ،نہایت کریم النفّس اور اپنے رُفقاء کے بڑے ہمدرد تھےٓ،اپ کی گفتگو نہایت
شیریںٓ،اواز بڑی دل کش اور بڑے قادر الکالم تھےُ ،خوشبوکا بکثرت استعمال کرتےٓ،اپ
تاریخ بغداد
ِ کی نقل و حرکت کا اندازہ ُخوشبوکی مہک سے ہوجاتا تھا۔ (خطیب بغدادی؍
)330/13
ٓاپ نے م ّکہ ،مدینہُ ،کوفہ ،بصرہ غرض یہ کہ عراق و حجاز دونوں مقامات کی روایات کو
حاصل کیا،اور وہاںکے نام ور مح ّدثین ،فُقہاء اور علما سے ُخوب علمی فیض حاصل کیا۔
اکابر صحابٔہِ مدینٔہ طیبّہ کو اگر مہب ِط وحی ہونے کا شرف اور فخر حاصل ہے تو ُکوفہ کو
کرام کا مرجع و مسکن ہونے کا بجا فخر حاصل ہے۔کون کہہ سکتا ہے کہ جو فقہ اس ؓ
سر مو بھی کتاب و ُسنّت ،دین کی حقیقی رُوح اور سرزمین میں مد ّون کی گئی ہو ،وہ ِ
اسالمی تعلیمات سے انحراف اور تجاوزکرسکتی ہے۔
11
صحابی
ِ ٓاپ کے اساتذہ میں خصوصیت کے ساتھ حضرت حمادؒ کا نام ٓاتا ہے ،یہ مشہور
مسعود کے فقہی سلسلے اور ان کے علوم کی ٓاخری کڑیؓ رسول ،حضرت عبدہللا بن
ؐ
ابوحنیفہ حضرت حمادؒ کے خصوصی تربیت یافتہ اور علمی جانشین ثابت
ؒ تھے،امام اعظم
ِ
ہُوئے۔
ابوحنیفہ کے متعلق لکھتے
ؒ سمعانی امام
ؒ علم االنساب کے ماہر ،نام ور تذکرہ نگار ،عالّمہ
ب علم میں مشغول ہُوئے تو اس درجہ انہماک کے ساتھ کہ جس قدر علم اُنہیں ہیں’’،وہ طل ِ
علم
،ابن ماجہ اور ِ نعمانی ِ
ؒ حاصل ہُوا ،دوسروںکو نہ ہوسکا۔‘‘ (بحوالہ موالناعبدالرشید
ؒ
یوسف کا بیان اعظم کے نام ور شاگرد ،مشہور حنفی فقیہ ،قاضی ابو ؒ )امام
حدیث صِ 166
حنیفہ
ؒ نبوی کی تشریح اور اس کے فقہی اسرار و رموزکا امام ابو ؐ ث
ہے کہ میں نے احادی ِ
حنیفہ
ؒ سے زیادہ جاننے واال نہیں دیکھا۔ اُن کا بیان ہے’’،بعض مسائل میں،میں نے امام ابو
ابوحنیفہ
ؒ سے اختالف کرکے ان میں غور کیا تو معلوم ہُواکہ ان کا مسلک ُدرست ہے ،امام
صحیح حدیث کے بارے میں مجھ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔‘‘(صیمری ،اخبار ابی
حنیفہ ۔ص)11
ؒ
نبوی کے تمام سرچشموں سے سیراب ؐ ث
ابوحنیفہ فق ِہ اسالمی کے ساتھ ساتھ حدی ِ
ؒ امام اعظم
ِ
علم حدیث میںگویا امامت کے درجے پر فائز تھے،ایک مرتبہ اور فیض یاب تھےٓ،اپ ِ
عیسی
ٰ مشہور عبّاسی خلیفہ ابو جعفر منصورکے ہاں تشریف لے گئے ،وہاں نام ور مح ّدث
ٰ
میںکرایا’’:ھذا عالم ال ّدنیا الیوم‘‘ ٓاج یہ رُوئے ابوحنیفہ کا تعارف ان الفاظ
ؒ ٰؒ
موسی نے امام بن
زمین کے سب سے بڑے عالم ہیں۔
اعظم
ؒ ہے؟امام
ِ اس پر ابو جعفر منصور نے سوال کیا کہ ٓاپ نے کس سے علم حاصل کیا
ب
علی کا علم اصحا ِ عمر سے ،حضرت ؓ ب ؓ عمر کا علم اصحا ِ
نے جواب دیا’’ ،حضرت ؓ
عباس کا علم
ؓ ابن
مسعود سے،حضرت ِؓ ب اب ِن ؓ
مسعودکا علم اصحا ِ ابن
علی سے ،حضرت ِ ؓ
عباس کے مقابلے میںکوئی ان سے بڑھ کر عالم نہ تھا۔‘‘ ؓ ابن
عباس سے اور ِ ؓ ابن
ب ِ اصحا ِ
یہ سُن کر ابوجعفر منصور نے کہآ’’،اپ نے بہت ہی معتبر اور مستند علم حاصل کیا
تاریخ بغداد )334/13
ِ ہے۔‘‘(خطیب بغدادی؍
دام کا قول نقل کیا
ابوحنیفہ کے عہ ِد طالب علمی کے رفیق ِمسعر بن ِک ؒ
ؒ عالّمہ ؒ
ذہبی نے امام
علم حدیث حاصل کیا ،تو وہ ہم پر غالب رہےحنیفہ نے ساتھ ساتھ ِ
ؒ ہے کہ’’میں نے اور ابو
اور ُزہد میں بھی وہ ہم پرفائق رہے۔ فقہ ان کے ساتھ شروع کی تو ہم دیکھتے ہیںکہ کیا
حنیفہ ص)27
ؒ ب ابی کمال ان سے ظاہر ہُوا۔(ذہبی؍مناق ِ
برّصغیرکے نام ور مح ّدث ،ناقد اور علم اسماء ال ّرجال کے ماہرموالنا عبدالرشید
ابوحنیفہ کی مح ّدثانہ شان اور علمی جاللت کے متعلق لکھتے ہیں:۔یہ
ؒ امام اعظم
نعمانی ِ
ؒ
ث صحیحہ کی سب سے قدیم ترین ناقاب ِل تردید حقیقت ہے کہ ٓاج ُدنیائے اسالم میں احادی ِ
حنیفہ کی تالیف کردہ ’’کتاب آالثار‘‘ ہے ،جسے امام موصوف نے ؒ امام اعظم ابو
کتاب ِ
12
ب فقہ پرث احکام میں صرف صحیح اور معمول بہ روایات کا انتخاب فرماکر ابوا ِ احادی ِ
مرتّب کیا اور بعدکے ائ ّمہ اور مح ّدثین کے لیے ایک عمدہ نمونہ قائم فرمایا۔ چناں چہ
حنیفہ ‘‘ میں لکھتے
ؒ سیوطی ’’تبییض الصحیفہ فی مناقب االمام ابی
ؒ عالّمہ جالل الدین
حنیفہ کے ان خصوصی مناقب میں سے کہ جن میں وہ منفرد ہیں،ایک یہ ؒ ہیں’’،امام ابو
نبوی) کو مد ّون کیا،اور
ؐ ث
علم شریعت (احادی ِبھی ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں ،جنہوں نے ِ
مالک نے ’’موطّٔا‘‘ میں انہی کی پیروی کی اور اس ؒ اس کی ابواب پر ترتیب کی ،امام
ابوحنیفہ پرکسی کو سبقت حاصل نہیں۔‘‘
ؒ بارے میں امام
ابوحنیفہ کو جو مقام حاصل ہُوا ،وہ کسی اورکے ؒ امام اعظم
جب کہ فق ِہ اسالمی میں ِ
حصّے میں نہ ٓایا۔ٓاپ نے فق ِہ اسالمی کی ترتیب و تدوین میں جو عظیم ال ّشان اور قاب ِل فخر
رسول ،حضرت عبدہللا ؐ صحابی
ِ محتاج بیان نہیں ،فق ِہ حنفی کی بنیاد
ِ خدمات انجام دیں ،وہ
علی کے فیصلوں ،قرٓان و ُسنّت سے ماخوذ فتاوی ،خلیفٔہ راشد حضرت ؓ ٰ ؓ
مسعود کے بن
فتاوی پر ہے۔ (شاہ ولی ہللا ؍ االنصاف فی ٰ تابعین و فُقہاء کے فیصلوں اورؒ کرام اور
صحابٔہ ؓ
ابوحنیفہ نے جس قدر فقہی مسائل بیان کیے،اُن کی ؒ سبب االختالف)بیان کیا جاتا ہے کہ امام
اعظم کے فقہی مسلک کی ابتدائی نشوونما ؒ ہے۔امام
ِ تعداد بارہ الکھ ستّر ہزار سے زائد
دارالعلم و الفضالء ُکوفے میں ہُوئی۔ٓاپ کا فقہی مسلک ،فق ِہ حنفی عہ ِد تدوین اورٓاغاز سے
ابوحنیفہ کی
ؒ ہی عالمگیر حیثیت اور شہرت و تداول کا حامل رہا ہے۔ فق ِہ حنفی کو امام
زندگی ہی میں اور وفات کے صرف 8برس بعد عمالً نفاذکے مواقع میسّر ٓائے۔ جس کی
یوسف کیؒ اعظم کے فقہی ترجمان اور معروف حنفی فقیہ قاضی ابو ؒ امام
واضح ترین مثال ِ
ہے ،جنہیں عہ ِد عبّاسی کے نام ور خلفاء کے عہ ِد خالفت میں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)
کا منصب حاصل تھااور تمام اسالمی قلمرو میں قضاۃ کا تقرّر اُن ہی کے دائرٔہ اختیار میں
ب قضاء ابوحنیفہ کے پچاس نام ور تالمذہ عبّاسی عہ ِد خالفت میں منص ِ ؒ تھا۔ چناں چہ امام
پر فائز رہے۔ اس لحاظ سے فق ِہ حنفی کو جو تداول،شہرت اور عمالً اشاعت کے مواقع
حاصل ہُوئے ،وہ کسی اور فقہ یا مسلک کو حاصل نہ ہوسکے۔
ابوحنیفہ نے اپنا فقہی مسلک اپنے اصحاب اور نام ور حنفی فقہاء کےؒ امام اعظم
ِ
درمیان مشاورت کے ذریعے مد ّون کیا تھا۔ وہ اپنی رائے پر اصرار نہیںکرتے تھے ،بلکہ
مجلس بحث و تحقیق میں پیش ٓامدہ مسئلہ پیش کرکے شرکائے مجلس کی ٓاراء سُنتے اور ِ
اپنی رائے سُناتے تھے۔ بعض اوقات یہ علمی مباحثہ ایک ماہ سے بھی زیادہ دنوں تک
ؒ
یوسف اسے قلمبند جاری رہتا۔ یہاں تک کہ کسی رائے پر اتّفاق ہو جاتا اور امام ابو
االعظم )133/2
ؒ کرلیتے۔ (موفق م ّکی؍ مناقب االمام
مجلس بحث و تحقیق کی تعداد 40بتائی
ِ ابوحنیفہ کی قائم کردہ اس فقہی کمیٹی یا
ؒ امام
جاتی ہے۔ یہی اجتماعی اجتہاد اور شورائیت ،فق ِہ حنفی کا امتیاز اور اس کی ُخصوصیت
ہے ،جس کی وجہ سے اسالمی ُدنیاکی اکثریت اس کی اتباع کرتی ہے۔ قرٓان و ُسنّت نے
13
دینی اور فقہی مسائل کے حل کے لیے شورائیت اور اجتماعیت کا جو حکم دیا۔ وہ دراصل
اعظم کے فقہی مکتب کی بنیاد اور فق ِہ حنفی کی نُمایاں ترین ُخصوصیت ہے۔
ؒ امام
ِ
وغیرہ کتب اور حضرت عبد ہللا بن حارث رضی ہللا عنہ کو دیکھنے کا ذکر ابن سعدؒ ،
البیہقی نے مدخل میں ،ابو موسی المدینی ؒ نے الرباعی فی التابعین میں ،ابن عبد البر ؒ نے
ؒ
استغنا فی الکنی میں بھی کیا ہے ۔
یہ تو دوسرے مسالک کے ائمہ کا ذکر ہے ،ورنہ ائمہ احناف کے تقریبا َ تمام فقہا ،محدثین
ابوحنیفہ کے صحابہ رضی ہللا عنہم کے دیکھنے اور اُن سے روایت ؒ ،مورخین کا امام
کرنے پر اتفاق ہے ۔
اساتذہ
علم االدب،علم االنساب اورعلم الکالم کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام
حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقه كے عالم ہیں۔آپ کے شیوخ و اساتذہ
کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتا ً فوقتا ً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام
محمد باقراورامام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل ہے۔
امام ابوحنیفہ نے تقریبا ً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا ،خود امام ابوحنیفہ کا قول ہے
کہ
” میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس
“ سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو
آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے
حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان
علم کی ہوتی۔ عالمہ کروری نے آپ کے خاص تالمذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا
و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے عالوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں
شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسالم کی قانونی و دستوری
جامعیت کی الجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد
بارہ الکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت
بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔
15
مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن
حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسالً فارس سے ہیں۔ ‘‘ امام صاحب کے
دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السالم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے
ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔
‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حالل کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔
لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبہ اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے
جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ
چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتےہ ی ں ۔
تالمذہ
حضرت امام ابو حنیفہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد
مشیر
ِ بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے
خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
امام ابو یوسف
بخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام آپ
کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔
حلیہ واخالق
حنیفہ خوش رو ،خوش ؒ خطیب بغدادی ابو نعیم سے نقل کرتے ہیں کہ ابو
لباس،خوشبو پسند کرنے والے خوش مجلس،نہایت کریم النفس اوراپنے رفقاء کے بڑے
ہمدرد تھے،ابویوسف ؒ فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قد میانہ تھا نہ بہت کوتاہ نہ زیادہ
اعظم کے
ؒ دراز،گفتگو نہایت شیریں ،آواز بڑی دلکش اوربڑے قادرالکالم تھے،عمر،امام
حنیفہ کسی قدر دراز قامت تھے،آپ کے رنگ پر گندم گونی ؒ پوتے فرماتے ہیں کہ ابو
غالب تھی ،اچھالباس پہنتے ،عام طور پر اچھی حالت میں رہتے ،خوشبو کا اتنا استعمال
کرتے تھے کہ آپ کی نقل حرکت کا اندازہ خوشبو کی مہک سے ہوجاتا تھا۔
آپ ریشم کی تجارت کرتے تھے،قیس بن الزبیع بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب
مشائخ اورمحدثین سے ایک رقم لے کر اُن کے لیے بغداد سے سامان خریدتے اور کوفہ
16
الکر اُسے فروخت کردیتے اورسال بہ سال اس کا نفع اپنے پاس جمع رکھتے اور اس نفع
سے محدثین کے خورونوش لباس وغیرہ کی ضروریات مہیا کرتے اس سے جو بچ رہتا وہ
اُن کے حوالہ کردیتے اورکہتے کہ اسے اپنی دیگر ضروریات میں صرف کرلو اورخدا کا
شکر ادا کرومیرے شکر کی ضرورت نہیں ؛کیونکہ میں نے یہ مال اپنے پاس سے تو تم
تعالی کا مجھ پر کرم ہے کہ اس نے اس کا ٰ کو دیا نہیں تمہارے ہی مال کا نفع ہے،یہ ہللا
اہل مجلس میں سے ایک شخص پر امام ذریعہ مجھے بنادیا۔ حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ ِ
صاحب نے خستہ لباس دیکھا اس سے کہا بیٹھ جاؤ،جب محفل برخاست ہوگئی اوریہ تنہا
مصلی اٹھا کر جو اس کے نیچے تم کو ملے وہ لے لو،اس نے جا نماز ٰ رہ گیا تو فرمایا
اٹھائی تو نیچے ہزار درہم تھے،آپ نے فرمایا یہ لے لو اوراپنا لباس درست کرلو ،وہ بوال
ب وسعت ہوں ،مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ،فرمایا تو پھر اپنا حال میں خود صاح ِ
ایسا بناؤ کہ تمہیں دیکھ کر تمہارے بھائی کو غم نہ ہو ،حدیث تم کو معلوم نہیں ہے کہ ہللا
تعالی اپنے بندہ پر اپنے نعمت وکرم کے آثار دیکھنا پسند کرتا ہے۔
حنیفہ کے پاس ایک عورت آئی اوراس نے ؒ جعفر بن عون بیان کرتے ہیں کہ ابو
ایک ریشمیں کپڑا ،آپ سے مانگا آپ نے ایک کپڑا اس کے لیے نکاال تو وہ بولی میں
بڑھیا عورت ہوں اوریہ معاملہ امانت کا ہے،مناسب ہے کہ آپ کو جتنے میں پڑا ہے اسی
قیمت میں میرے ہاتھ فروخت کردیجئے فرمایا چار درہم دیدے ،اُس نے کہا بڑھیا کا مذاق
نہ بنائیے اورٹھیک ٹھیک قیمت بتادیجئے،آپ نے فرمایا میں نے دو کپڑے خریدے تھے
اورایک ہی کپڑے سے چار درہم کم میری پوری قیمت وصول ہوگئی تھی،اب یہ کپڑا
حنیفہ غیبت
ؒ ثوری سے پوچھا،ابوؒ مجھے چار درہم میں بچ رہا ہے۔ابن مبارک نے سفیان
ؒ
،سفیان نے حتی کہ اپنے دشمن کی غیبت بھی نہیں کرتے کرنے سے بہت دور رہتے ہیں ٰ
حنیفہ اس سے باال تر ہیں کہ اپنی نیکیوں پر اپنے دشمن کو مسلط کریں (کہ ؒ جواب دیا ابو
وہ قیامت کے دن اپنی غیبت کے بدلہ میں ان کی نیکیاں لے لے)
اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں بہت ہیں مفصل تذکروں میں دیکھے جاسکتے ہیں
قابل غور نہیں ہے ،دنیا
ان چند واقعات میں امام صاحب کی صرف ہمدردی اورمساوات ِ
میں سخی اورکریم اور بھی گذرے ہیں دیکھنا تو یہ ہو کہ یہاں آپ نے صرف ہمدردی نہیں
کی ؛بلکہ بے منت ہمدردی کرنے کے اصول بھی بتالدیئے ،ہمدردی کا اخفاء،محتاج کو
سر دست اس کی حاجت رفع ہوجائے اورآئندہ کے لیے ندامت کا خطرہ بھی نہ گذر سکےِ ،
ت بد بھی نہ پڑنے پائے ،یہ ایک قیمتی سبق ہے جو ان چند واقعات اس کو سوال کی عاد ِ
سے ہم کو ملتا ہے۔
اعظم
ؒ طبقۂ امام
مالک
ؓ صحابہ کو پایا ہے،انس بن
ؓ صاحب نے چار
ؒ ابن خلکان لکھتا ہے کہ امام
ِ
اوفی کو کوفہ میں سہل بن سعد الساعدی کو مدینہ منورہ میں اورابو ٰ اورعبدہللا بن ابی
صاحب سے نقل کرتے ہیں ؒ الطفیل عامر بن واثلۃ کو مکہ مکرمہ میں،حافظ ذہبی خود امام
حجر ان کے ساتھ اوربہت
ؒ مالک صحابی کو بارہا دیکھا ہے،حافظ اب ِن
ؓ کہ انہوں نے انس بن
17
انس کی رویت تسلیم کی ہے،خالف جو کچھ ہے،وہ سے دیگر حفاظ حدیث نے حضرت ؓ
روایت کے ثبوت وعدم ثبوت میں ہے ،ہمارے نزدیک ایک ایسے شخص کے متعلق جو
ٰ
دعوی بھی بعید نہیں ؛بلکہ صحابہ ہی کے عہد میں پیدا ہوا ہو رؤیت تو درکنار روایت کا
بہت ہی قرین قیاس تھا ؛لیکن کیا کیا جائے جن پر امام صاحب کا اوال ِد احرار ہونا بھی شاق
ہو ان پر آپ کا طبعا ً تابعین میں شمار ہونا کیوں شاق نہ ہوتا ،اس لیے یہ بھی ایک معرکۃ
اآلر مسئلہ بن کر رہ گیاہےمتوسط قول یہ ہے کہ رؤیت سے تو انکار نہ کیا جائے اور
دعوی نہ کیا جائے،اس کے سواء جو کچھ ہو وہ افراط وتفریط کا ٰ روایت کا قطعی طور پر
میدان ہو۔
تحصیل علم
ِ
علم
اعظم سے سنا ہے کہ مجھے ِ ؒ زفربن حذیل روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام
کالم کا پہلے اتنا شوق تھا کہ میں اس علم میں شہرۂ آفاق ہوگیا تھا،حماد بن ابی سلیمان
(حماد ابراہیم نخعی کے خاص تالمذہ میں تھے،تاریخ اصبہان میں ابوالشیخ ذکر کرتے ہیں
کہ ایک دن نخعی نے ان کو ایک درہم کا گوشت النے کے لیے بازار بھیجا،زنبیل ان کے
ہاتھ میں تھی ادہر سے ان کے والد کہیں گھوڑے پر سوار آرہے تھے یہ صورت دیکھ کر
نخعی کی وفاتؒ انہوں نے ان کو ڈانٹا اور زنبیل لے کر ہاتھ سے پھینک دی ،جب ابراہیم
ہوگئی تو حدیث کے طلبہ ان کے والد(مسلم بن یزید) کے دروازہ پر آئے اوردستک دی ،یہ
چراغ لیکر باہر نکلے توانہوں نے کہا ہمیں آپ کی ضرورت نہیں ،آپ کے فرزند حماد کی
ضرورت ہے یہ خفیف ہوکراندر تشریف لے آئے اورحماد سے کہا جاؤ بھئی باہر جاؤ،اب
مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ مقام تمہیں ابراہیم کی زنبیل کی بدولت ہی نصیب ہوا ہے،اب ِن عدی
نے الکامل میں نقل کیا ہے کہ حماد فرماتے تھے میں قتادہ،طاؤس اورمجاہد سے مال ہوں،
جب ابراہیم نخعی سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے مسائل کا حل کس سے کیا کریں تو انہوں
نے حماد ہی کا نام لیا تھا)کاحلقۂ درس میرے قریب تھا،ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ میرے
پاس ایک عورت آئی اوراس نے مجھ سے یہ مسئلہ دریافت کیا :ایک شخص کی بی بی
باندی ہے وہ سنت کے موافق اسے طالق دینا چاہتا ہے ،کتنی طالقیں دے،میری سمجھ میں
کچھ نہ آیا کیا جواب دوں ،میں نے کہا حماد سے پوچھ اورواپس آکر مجھے بھی بتا ،وہ
حماد کے پاس گئی،انہوں نے فرمایا جب وہ حیض سے پاک ہوجائے تو جماع کرنے سے
پہلے اُسے صرف ایک طالق دینا چاہئے ،جب دو حیض اور گذر جائیں تو پھر وہ اپنا
دوسرا نکاح کرسکتی ہے ،اس نے واپس آکر مجھ سے ان کا جواب نقل کیا میں نے اپنے
علم کالم بھال کس کام کی چیز ہے اوراپنے جوتے اٹھا کرحماد کی خدمت دل میں کہا کہ ِ
میں حاضر ہوگیا وہ مسائل بیان کرتے ہیں ان کو سنتا اوریادرکھتا ،جب دوسرے دن وہ
تشریف التے پھر ان کا اعادہ فرماتے تو ان ان کو معلوم ہوتا کہ میں نے ان مسائل کو
صحیح ضبط کیا ہے اوران کے دوسرے شاگردوں نے غلطیاں کی ہیں ،اس لیے انہوں نے
حنیفہ کے سوا اورکوئی شخص نہ بیٹھے ،دس ؒ فرمایا کہ میرے سامنے صدر مقام پر ابو
سال مسلسل بلکہ ان کی وفات تک میں ان کے ساتھ رہا ،حماد کے فرزند کہتےہیں کہ ایک
18
مرتبہ میرے والد کسی سفر میں باہر تشریف لے گئے تھے ،جب واپس تشریف الئے تو
میں نے پوچھا کہ اس اثناء میں آپ کو زیادہ یاد کس کی رہی،میرا خیال تھا وہ یہی فرمائیں
حنیفہ کا نام لیا اورفرمایا کہ اگر مجھے یہ قدرت ہوتی کہ
ؒ گے تیری ؛لیکن انہوں نے ابو
حنیفہ سے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی نظر جدانہ کروں تو نہ کرتا۔ؒ میں ابو
علم
صاحب کی عمر کا ابتدائی حصہ ِ ؒ ت مذکورہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام روای ِ
حنیفہ تھی یہ تحقیق نہیں
ؒ کالم میں صرف ہوا ہے اورزمانہ تلمذ سے ہی آپ کی کنیت ابو
ہوسکا کہ یہ کنیت امام صاحب نے خود اختیار کی تھی یا دوسروں نے آپ کی یہ کنیت
ت حفظ ت ذوق سالمتی فطرت اورقو ِ مقرر کی تھی،اسی روایت سے امام صاحب کے صح ِ
درس حدیث کے صدر نشین نہ ہونے سے یہ ِ کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے،آپ کے صرف
خیال قائم کرلینا کہ آپ کا حفظ کمزور تھا بہت سطحی نظر ہے۔
ماخ ِذ علم
صاحب سے ؒ خطیب بغدادی روایت کرتا ہے کہ امیر المومنین ابو جعفر نے امام
پوچھا آپ نے کن صحابہ کا علم حاصل کیا ہے،فرمایا عمر بن الخطاب،علی بن ابی طالب،
عبدہللا بن مسعود اورعبدہللا بن عباس ؓ اوران کے شاگردوں کا ،فرمایا آپ نے تو بہت
صحیح اور پختہ علم حاصل کیا،یہ ہستیاں بہت مبارک اور بڑی مقدس ہستیاں تھیں،
عمر کی شان تو خود رسول ہللا ﷺ کے اس فرمان سے ظاہر ہے کہ میرے بعد حضرت ؓ
علی تو وہ ہیں جن کو آپ نے خود اپنے اگر کوئی شخص نبی ہوتا تو عمر ہوتے ،حضرت ؓ
عباس ان کی
ؓ ؓ
مسعود اورابن ت مبارک سے قاضی بنا کر بھیجا تھا،رہ گئے عبدہللا بن دس ِ
قرآن دانی اورقرآن فہمی امت میں ضرب المثل ہوچکی ہے اب سوچئے کہ جو علم اتنے
جامع اورمضبوط مآخذ سے حاصل کیا گیا ہوگا وہ کتنا عمیق اورکتنا مستحکم ہوسکتا
ہے،نفسیاتی طریق پر بھی مسائل حنفیہ کا مرجع یہی اصحاب ہونے چاہیے ،کوفہ جو امام
عمر ہی کا بسایا اورآباد کیا ہوا تھا ،پھر جو صحابی اہ ِل کوفہ اعظم کا مسکن تھا،حضرت ؓ ؒ
ؓ
مسعود ہی تھے، کی تعلیم و تربیت کے لیے سرکاری طور پر مقرر کئے گئے وہ ابن
علی کا تو کوفہ دارالخالفت ہی رہ چکا تھا اس لیے اہل کوفہ کے لیے ان اصحاب حضرت ؓ
میں علمی کشش کے عالوہ ایک فطری کشش بھی موجود تھی،کسی مجتہد کے متعلق یہ
خیال قائم کرنا کہ اس کے استفادہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہر ہر جزئی میں ایک مقلد کی
طرح اتباع کرتا ہوگا ،انتہا درجہ کی ناواقفی ہے ؛بلکہ اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ان
اورانداز طبیعت قائم ہوچکا تھا ،وہ ان
ِ کے زیر تربیت رہ کر اس کا جو علمی مذاق
،اصول فکر ،مصالح ومضار پر ِ حضرات ہی سےملتا جلتا تھا ،اس کے اصو ِل استنباط
غور وخوض کا زاویۂ نظر سب اُن ہی سے متحد تھا ،اس لیے دونوں کے مجتہدات
اورمسائل میں ایک قسم کی یک رنگی اوریکسانیت پیدا ہوجانا بھی ضروری امر تھا۔
اصول وعقائد
19
یحیی بن ضریس کہتے ہیں میں سفیان کے پاس حاضر تھا ایک شخص آیا اور اس
نے کہا کہ آپ کو امام صاحب پر کیا اعتراض ہے انہوں نے فرمایا اعتراض کیا ہوتا میں
نے خود انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سب سے پہلے قرآن کو لیتا ہوں ،اگر کوئی
مسئلہ اس میں نہیں ملتا تو پھر سنت رسول ہللاﷺ میں تالش کرتا ہوں ،اگر کتاب ہللا اور
حدیث رسولﷺ دونوں میں نہیں ملتا تو میں پھر صحابہ کے اقوال تالش کرتا ہوں اور ان
میں جو زیادہ پسند آتا ہے اسے اختیار کرلیتا ہوں ،مگر ان کے اقوال سے باہر نہیں
جاتا،ہاں جب تابعین کا نمبر آتا ہے تو پھر ان کا اتباع کرنا الزم نہیں سمجھتا جیسا انہوں
نے اجتہاد کیا میں بھی اجتہاد کرلیتا ہوں۔
ابو یوسف روایت کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا خراسان میں دو قسم کے
یوسف سے دوسری جگہ اس طرح منقول ؒ لوگ سب سے بدتر ہیں ،جہمیۃ اور مشبہہ ،ابو
ہے کہ امام صاحب جہم بن صفوان کی مذمت کیا کرتے تھے اوراس کی باتوں پر نکتہ
چینی فرماتے تھے،عبدالرحمن حمانی کہتے ہیں:میں نے ابو حنیفہ کو یہ فرماتے خود سنا
حنیفہ شیخین کو دوسرے ؒ ہےیحیی بن نضر کہتے ہیں کہ ابو
ٰ ہے کہ جہم بن صفوان کافر
صحابہ پر فضیلت دیتے تھے ختنین سے محبت رکھتے تھے،تقدیر کے قائل تھے اوراس
میں کوئی مین میخ نہیں نکالتے تھے ،مسح علی الخفین کرتے تھے اوراپنے زمانہ کے
سب سے بڑے اور متقی عالم تھے ابو سلیمان جوزجانی اورمعطی بن منصور رازی کہتے
ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے تالمذہ میں کسی نے قرآن کے مخلوق ہونے کے بارے
میں کوئی لفظ زبان سے نہیں نکاال ،ہاں بشر مریسی اورابن ابی داؤد نے اس مسئلہ میں
صاحب کے تالمذہ کو بدنام کیا۔
ؒ بحث شروع کی اورانہوں ہی نے امام
اعظم کی ثقاہت
ؒ محدثین کی نظروں میں امام
مالک پر رحمت نازل فرمائے اپنے وقت کے امام ؒ تعالی
ٰ امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں ہللا
حنیفہ پر رحمت نازل
ؒ ،شافعی پر رحمت نازل فرمائے اپنے وقت کے امام تھے،ابو ؒ تھے
حنیفہ کے کوڑے کھانے اور
ؒ فرمائے اپنے زمانہ کے امام تھےامام احمدؒ جب کبھی امام ابو
قضاء قبول نہ کرنے کا واقعہ ذکر فرماتے تو روپڑتے تھے اورامام صاحب کے لیے دعاء
رحمت فرماتے۔حسن بن علی حلوانی شبابۃ سے نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب کے بارے
میں شعبہ اچھا خیال رکھتے تھے علی بن مدینی کہتے ہیں کہ امام صاحب سے ثوری،ابن
مبارک،حماد بن زید ،ہشیم ،وکیع ،عباد،جعفر بن عون جیسے اجلہ محدثین نے روایت کی
یحیی بن معین سے پوچھا گیا اے ابو
ٰ ہے ،وہ ثقہ ہیں ،ان کی روایت میں کوئی سقم نہیں،
حنیفہ حدیث کے بارے میں سچے شمار ہوتے تھے انہوں ؒ زکریا(ان کی کنیت ہے )کیا ابو
نے فرمایانہایت سچے اوربالکل صحیح روایت کرنے والے تھے،ایک مرتبہ اُن سے
خالف واقع بھی حدیث روایت کرتے تھے؟ فرمایا ِ دریافت کیا گیا :کیا ابو حنیفہ کبھی
حنیفہ اوران کے تالمذہ کے حق میں بڑی زیادتی کرتے ہیں،اُن کی شان اس ؒ محدثین ابو
اعلی تھی۔
ٰ سے کہیں ارفع و
20
حنیفہ کے نزدیک حدیث روایت ؒ خطیب یحیی بن معین سے نقل کرتا ہے کہ ابو
کرنے کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ سننے کے بعد سے برابر یادرہنی چاہئے اگر یاد نہ
رہے تو اس کو روایت کرنا درست نہ سمجھتے تھے،ایک مرتبہ امام صاحب کے متعلق ان
سے دریافت کیا گیا تو دوبار فرمایا ثقہ ہیں ثقہ ہیں،ایک مرتبہ یہ کہا کہ حدیث وفقہ میں ثقہ
اور سچے ہیں اور خدا کے دین کے بارے میں بھروسہ کے قابل ہیں خارجہ بن مصعب
حنیفہ پر
ؒ اورابو وہب عابد کہتے ہیں کہ جو شخص مسح علی الخفین کا قائل نہ ہو یا ابو
نکتہ چینی کرے وہ بال شبہ ناقص العقل ہے۔حافظ ابن حجر شافعی نے امام صاحب کے
یحیی بن معین سے اس کے خالف کوئی نقل پیش نہیں کی اورآخر تذکرہ ٰ مناقب نقل کرکے
صاحب کے مناقب بہت ہیں ہللا تعالی ان سے راضی ہو اورجنت ؒ میں لکھا ہے کہ امام
فردوس میں ان کو جگہ دے،ذہبی نے مناقب امام پر مستقل ایک تصنیف لکھی ہے۔
کریم کے بیان سے بھی ان کومالتے اگر وہ قرآن کریم اوران احادیث کے بیان کے مطابق
ہوجاتیں تو ان پر عمل کرلیتے ورنہ انہیں شاذ قرار دیتے اورعمل نہ کرتے۔
انصاف کیجئے کہ ایک آئینی نظر کے لیے آئین سازی کا کہ کتنا صحیح راستہ تھا
مگر جن مزاجوں میں معیار صحت صرف اسناد ٹھیر گیا ہو وہ اس کا نام صحیح احادیث
ث مضراۃ ہو حنفیہ پر اس مسئلہ کی کا ترک رکھ لیتے تھے،اس کی بہت مشہور مثال حدی ِ
وجہ سے ہمیشہ لے دے کی گئی اوریہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے محض اپنی رائے
سے اس حدیث کو ترک کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر حنفیہ نے تاوان کے وسیع باب
میں اس قسم کا تاوان کہیں نہ دیکھا اوراس لیے یہاں بھی اس باب کے عام ضابطہ ہی پر
عمل کرلیا،تو کچھ بجا بھی نہیں کیا،بقول حافظ ابو عمرو کون ایسا ہے جس نے ہر باب کی
ہر حدیث کو من و عن تسلیم کیا ہو ،اپنے استقراء واجتہاد کے بعد جب ایک حدیث کو
مختارو معمول بہ بنالیا گیا ہے تو اس کی مخالف حدیث میں سب نے تاویل و توجیہ جائز
قرار دی ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ حنفیہ نے اکثر مواضع میں اصول کو جرئیات پر
ب شریعت سے ایک قاعدہ کلیہ قربان نہیں کیا ،جب کسی بات میں ان کے نزدیک صاح ِ
ثابت ہوگیا تو پھر انہوں نے اس کے برخالف جزئیات کو عموما ً قابل ِ سمجھا ہے،مثالً
انسانی حاجت کے لیے بیٹھنے کا ایک آئین یہ ہے کہ قبلہ کو اپنے سامنے یا پشت کی
جانب نہ رکھنا چاہئے ،اس ضابطہ کو حنفیہ نے پہلے منقول اور معقول ہر طریق پر جانچا
عمر کے صرف توال جب اُن کے نزدیک ادب واحترام کا یہ آئین ثابت ہوگیا تو حضرت اب ِن ؓ
ایک جزئی واقعہ کی بناپر کہ انہوں نے ایکبار آنحضرتﷺ کو قضاء حاجت کے لیے قبلہ
کی جانب پشت کئے ہوئے بیٹھے دیکھا تھا ،اس ضابطہ کلیہ کی تاویل نہیں کی ؛بلکہ اس
واقعہ ہی کی کوئی توجیہ کرلینا زیادہ مناسب سمجھا۔
دوسری مثال نماز میں بات کرنے کا مسئلہ ہے،عام طور پر احادیث سے نماز میں
بات کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ،قرآن کریم میں بھی یہاں کسی استثناء کی طرف
ادنی اشارہ نہیں ملتا صرف ایک ذوالیدین کی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ٰ
مرتبہ نماز میں کسی کو سہوا اورکسی کو عمداً کچھ بات چیت کرنے کی نوبت آگئی تھی
اس کے باوجود ان کی نمازوں کو فاسد نہیں سمجھا گیا،دیگرائمہ نے اس ایک جزئی واقعہ
کی وجہ سے اصل قاعدہ ہی کی تخصیص وتوجیہ شروع کردی ہے حنفیہ نے یہاں بھی
قاعدہ میں کوئی تخصیص نہیں کی ؛بلکہ اس کو بدستور اپنے عموم پر قائم رکھا ہے
اوراس ایک واقعہ ہی کی کوئی توجیہ تاویل کرنا مناسب خیال کیا ہے،اس قسم کی بہت سی
مثالیں ہیں جہاں حنفیہ نے قاعدہ کلیہ کے مقابلہ میں جزئیات ہی کی تاویل کا راستہ اختیار
کرلیا ہے،ضابطہ ہمیشہ ایک رہتا ہو اورجزئیات منتشر ،اس لیے تاویل کرنے والوں کی
صف میں زیادہ پیش پیش حنفیہ ہی نظر آنے لگے ،اب آپ کو اختیار ہے کہ اس کا نام
ک حدیث رکھ لیجئے یا عمل بالحدیث رکھئے،اسی قسم کے امتیازات ہیں جن کی بنا پر تر ِ
ہر دور میں امت کا نصف حصہ اسی فقہ پر عمل پیرا رہا ہے اوراسی اصول نظر کی وجہ
سے حنفی فقہ میں اتنی لچک ہے کہ اتنی دوسری فقہ میں نہیں اگر علماء انسانوں کی
23
اوردین حنیف کی سہولت دونوں کو پیش نظر رکھتے تو ان کو حنفی کتاب الحیل
ِ ضرورت
پر اتنا غصہ نہ آتا اورنہ وہ حنفیہ کو محض رائے کا مقلد قرار دیتے۔
فقہ ہی آپ کا سب سے بڑا مشغلہ ہوجانا چاہئے تھا،مناقب موفق اورتاریخ خطیب میں
علم فقہ کی مہارت کے لحاظ سے جن پر مذکور ہے کہ ابراہیم نخعی کی وفات کے بعد ِ
نظریں پڑتی تھیں وہ حماد بن ابی سلیمان مفتی کوفہ تھی جب تک یہ بقید حیات رہے لوگ
ان کی وجہ سے دوسروں سے بے نیاز رہے ؛لیکن جب ان کی وفات ہوگئی تو اب اس کی
ضرورت محسوس ہونے لگی،کہ لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ان کا کوئی
دوسرا جانشین ہو ،ادھر ان کے تالمذہ کو یہ اندیشہ ہونے لگا کہ ان کے محترم استاد کا نام
اوران کا علم کہیں ختم نہ ہوجائے،حماد کے ایک فرزند تھے جو اچھے عالم تھے ،ان پر
اتفاق ہوگیا کہ انہیں اپنے والد کی مسند پر بٹھا دیا جائے،ابوبکر نہشلی اورابو بردۃ وغیرہ
جو ان کے شاگرد تھے اب ان کے پاس آنے جانے لگے ؛لیکن ان حضرات پر شعر وسخن
کا ذوق غالب تھا یہ اس جگہ کو نبھانہ سکے،پھر لوگوں کا خیال ابوبکر نہشلی کی طرف
گیا ان سے درخواست کی گئی تو انہوں نے انکار کردیا،اس کے بعد ابو بردہ کی خدمت
صاحب
ؒ میں یہ مسند پیش کی گئی مگر انہوں نے بھی انکار کیا،آخر کار لوگوں نے امام
کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا میرا دل یہ نہیں چاہتا کہ علم فنا ہوجائے اس
لیے ان کی درخواست کو منظور کرلیا اورمسند افتاء پر بیٹھ گئے۔واقعہ یہ ہے کہ جب
مفتی کوفہ کی مسند پر بیٹھنے کے لیے قدرت نے امام صاحب ہی کو انتخاب کیا ہو تو اس
جگہ کوئی دوسرا کیسے بیٹھ سکتا تھا۔ یہ واضح رہنا چاہئے کہ یہ امام ابو حنیفہ وہی ہیں
ب قضا پیش کیا گیا تو ہر سختی دولت برداشت کرنے کے لیے جن کے سامنے جب منص ِ
ب قضا قبول نہ کیا ،اوریہی ہیں کہ جب ان سے ایک آزاد علمی تیار ہوگئے مگر منص ِ
خدمت کی درخواست کی گئی تو فوراً قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئے،بہرحال اس روایت
ت سماویہ کی بنا پر علم کی جو مسند امام صاحب کے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ اتفاقا ِ
علم نبوت ہی کی گہرائیوں میں ثناوری کی مسند تھی،اس لیے مخصوص ہوچکی تھی وہ ِ
لیے قدرتی طور پر آپ کا مشغلہ فقہ ہی بن جانا چاہئے تھا۔
عبدالبرابو یوسف ؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے اعمش نے ؒ ابن
حافظ ِ
ایک مسئلہ دریافت کیا ،اس وقت میرے اوراُن کے سوا وہاں کوئی اورموجود نہ تھا،میں
نے اس کا جواب دیا،انہوں نے فرمایا اے یعقوب یہ جواب تم نے کس حدیث سے اخذ کیا
ہے میں نے کہا اُسی حدیث سے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی انہوں نے فرمایا
یعقوب یہ حدیث تو مجھے تمہاری پیدائش سے بھی پہلے سے یاد تھی مگر میں آج تک اس
کا یہ مطلب نہ سمجھ سکا تھا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ اعمش اورامام صاحب کے درمیان
بھی پیش آیا ہے،عبیدہللا بن عمرو کہتے ہیں کہ میں اعمش کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ایک
شخص ان کے پاس آیا اورایک مسئلہ دریافت کیا وہ اس کا جواب نہ دے سکے ،دیکھا تو
نعمان اس کے متعلق تم کچھ بولو ،انہوں ؓ حنیفہ بھی بیٹھے ہوئے تھے فرمایا اے
ؒ وہاں ابو
صاحب نے فرمایاؒ اعمش نے فرمایا کہاں سے کہتے ہو؟امامؒ نے فرمایا اس کا جواب یہ ہے
اسی حدیث سے جو آپ نے ہم سے روایت کی تھی ،اس پر اعمش نے کہا نحن الصیاد لۃ
وانتم االطباء (تم لوگ اطباء ہو اوربھائی ہم تو عطار ہیں)یعنی عطار کے پاس صرف
دواؤں کا اسٹاک ہوتا ہے وہ اس کی ترکیب وخواص نہیں جانتا،اطباء ان کے اثرات
25
یوسف سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ان ؒ اورترکیب بھی جانتے ہیں۔خطیب بغدادی امام ابو
سے اعمش نے پوچھا کہ آپ کے استاد نے عبدہللا کا یہ مسئلہ کیوں ترک کردیا کہ باندی
عائشہ کی اسی
ؓ کے آزاد ہونے سے اُس پر طالق ہوجاتی ہے،انہوں نے فرمایا کہ حضرت
حدیث کی بناء پر جو آپ نے اُن سے بواسطہ ابراہیم واسود کے نقل فرمائی تھی کہ بریرہ
جب آزاد ہوئیں تو ان کی آزادی طالق نہیں سمجھی گئی ؛بلکہ ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ
اگر وہ چاہیں تو اپنے پہلے نکاح کو قائم رکھیں اور چاہیں تو فسخ کردیں اس پر اعمش نے
یوسف کہتے ہیں کہ اعمش کو ؒ حنیفہ نہایت سمجھدار شخص ہیں،امام ابو ؒ کہا بے شبہ ابو
صاحب کا یہ استنباط بہت پسند آیا تھا۔ ؒ امام
غسل میت کے مسئلہ کی تحقیق کرنے کے بعد فرماتے ِ ترمذی اپنی جامع میں ؒ امام
ہیں :وکذالک قال الفقھاء وھم اعلم بمعانی الحدیث فقہاء نے اس حدیث کا یہی مطلب بیان کیا
ہےا ور حدیث کے مطالب یہی لوگ زیادہ سمجھتے ہیں۔ ان روایات سے ظاہر ہے کہ
حدیث وفقہ دو علیحدہ چیزیں نہیں ،فرق ہے تو یہ کہ محدث کے نزدیک الفا ِظ حدیث کا
حفظ مقدم ہوتا ہے اورفقیہ کے نزدیک ان کے معانی کا فہم مقدم۔ نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ
شغل فقہ صرف امت کے نفع کی خاطر اختیار فرمایا تھا اور بجا اختیار ِ امام صاحب نے
الفاظ حدیث تو محفوظ ہو ہی چکے تھے اب جس خدمت کی ضرورت تھی وہ ِ فرمایا تھا،
واستنباط مسائل اور ان کی آئینی تشکیل وترتیب ہی کی تھی،محدثین ہزاروں ِ استخراج
موجود تھے ،لیکن فقہ کا یہ مقام خالی پڑا ہوا تھا ،اس لیے امام صاحب نے اس خالی گوشہ
کو پُر کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ امام صاحب ف ِن حدیث
و قرآن سے نا آشنا تھے ،ابھی آپ معلوم کرچکے ہیں کہ محدثین اگر الفاظ حدیث کے ذمہ
دار ہیں تو فقہاء اس کے صحیح استعمال کے جاننے والے ہیں ،وہ عطار ہیں تو یہ اطباء،
فقہ کا تمام تاروپود قرآن وحدیث سے ہی قائم ہے۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ کبار ائمہ کی
علم حدیث سے بے بضاعتی کی دلیل سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں قلت روایت کو ان کی ِ
ہوسکتا کیونکہ شریعت کا مآخذ کتاب وسنت ہی ہے،لہذا جو شخص بھی شرعی مسائل کے
استنباط وترتیب کا ارادہ کرے گا اس کے لیے کتاب وسنت کے سوا اورکوئی دوسرا راستہ
مبنی اس علم سے بے بضاعتی نہ تھی ؛بلکہ ت روایت کا ٰ نہیں ہے،امام صاحب کی قل ِ
درحقیقت روایت و تحمل کے وہ شرائط تھے جن کا معیار آپ نے عام محدثین سے بہت
بلند قائم کیا تھا،اس لیے آپ کے لیے روایت کا میدان بھی زیادہ وسیع نہیں رہا تھا،امام
علم حدیث میں ماہر اورمجتہد ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ محدثین کے صاحب کے ِ
بنظر اعتبار دیکھی گئی ہے ،ایک طرف جہاں امام احمد وامام ِ درمیان آپ کی فقہ ہمیشہ
شافعی کا مسلک نقل کیا گیا ہے اسی کے پہلو بہ پہلو امام صاحب کا مسلک بھی نقل کیا گیا ؒ
ہے،یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ محدثین کے نزدیک آپ کی فقہ بھی اسی درجہ پر
معتبر تھی جیسا کہ دیگر فقہاء محدثین کی ،خالصہ یہ کہ ردوقبول کے اعتبار سے اس کا
زیر بحث رہنا اس کی دلیل ہے کہ آپ کی فقہ بھی دیگر محدثین کی فقہ کی صف میں
رہنے کے قابل تھی،یہ دوسری بات ہے کہ اگر ایک جماعت اسے قبول کرتی رہی تو
یوسف فرماتے ہیں کہ حدیث کی صحیح مراد ؒ دوسری جماعت ترک کرتی رہی۔امام ابو
26
اوراس میں مسائل کے مآخذامام صاحب سے زیادہ جاننے واال میں نے کوئی شخص نہیں
دیکھا بعض مرتبہ میں آپ کی رائے چھوڑ کر کسی حدیث کے ظاہر پہلو کو اختیار کرلیتا
تو بعد میں مجھے تنبہ ہوتا کہ حدیث کی صحیح مراد سمجھنے میں امام صاحب کی نظر
مجھ سے زیادہ گہری تھی۔
بطریق تعجب فرماتے
ِ اسرائیل جو مسلم ائمہ حدیث میں ہیں امام صاحب کی مدح میں
ہیں نعمان کیا خوب شخص ہیں جو احادیث مسائل فقیہ سے متعلق ہیں وہ ان کو کیسی
محفوظ ہیں اورکیسی خوبصورتی سے وہ ان سے مسائل فقہ استنباط فرماتے ہیں یہی وجہ
اوریحیی بن سعید القطان جیسے اشخاص امام اعظم کی فقہ کے ٰ تھی کہ محدثین میں وکیع
یحیی بن معین سے نقل کرتے ہیں۔ وکانٰ ٰ
فتوی دیتے تھے ،حافظ ابن ِ عبدالبر مطابق
(وکیع) یفی برأی ابی حنیفۃ وکان یحفظ حدیث کلہ وکان فد سمع من انی حنیفۃ حدیثا
فتوی دیا کرتے تھے اورآپ کی روایت کردہ ٰ کثیراوکیع امام صاحب کی فقہ کے مطابق
تمام حدیثیں یاد کیا کرتے تھے اورانہوں نے آپ سے بہت سی حدیثیں سنی تھیں۔ امام
صاحب کے اساتذۂ محدثین کی جو تعداد علماء نے لکھی ہے وہ ہزاروں تک پہنچتی ہے؛
ت حدیث کے حلقے قائم نہیں لیکن چونکہ دیگر محدثین کی طرح خود امام نے باضابط روای ِ
شان محدثیت نظری کئے اور ترویج فقہ کو ترجیح دی،اس لیے بعد کے زمانہ میں آپ کی ِ
بن کر رہ گئی۔
کے مناقب کابہت سا حصہ ذکر کیا ہے اس کے بعد ایسی ناگفتنی باتیں لکھی ہیں جن کا
اعظم جیسے شخص کے ؒ ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا مناسب تھا؛ کیونکہ امام
ت
متعلق نہ دیانت میں شبہ کیا جاسکتا ہے نہ حفظ ورع میں آپ پر کوئی نکتہ چینی ،بجز قل ِ
عبدالبر مالکی کا کالم یہاں نہایت منصفانہ ہے
ؒ عربیت کے اورنہیں کی گئی۔ حافظ ابن
کیونکہ تنقید کا یہ شاخسانہ صرف ایک امام صاحب کی ذات ہی تک محدود نہیں رہتا؛بلکہ
اورائمہ تک بھی پھیلتا چال گیا ہے،اگر ذرا نظر کو اور وسیع کیجئے تو پھر صحابہ کا
استثناء بھی مشکل نظر آتا ہے،غصہ اورمسرت انسانی فطرت ہے،ان دونوں حالتوں میں
انسان کے الفاظ کا صحیح توازن قائم نہیں رہا کرتا اسی لیے غصہ کے حال میں فیصلہ
کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے،یہ صرف ایک نبی کی شان ہے جس کے منہ سے
غضب ورضا کے دونوں حالوں میں جچے تلے الفاظ ہی نکلتے ہیں اب اگر انسانوں کے
صرف ان جذباتی پہلوؤں سے تاریخ مرتب کرلی جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پھر
صحابہ کے الفاظ صحابہ کے متعلق اورا ئمہ کے ائمہ کے متعلق بھی ایسے مل سکتے ہیں
جن کے بعد امت کا یہ مقدس گروہ بھی زیر تنقید آسکتا ہے حافظ محمد ابراہیم وزیر نے
امام شعبی کا کیسا بصیرت افروز مقولہ نقل کیا ہے :قال الشعبی حدثنا ھم بغضب اصحاب
دنیاشعبی فرماتے ہیں ہم نے تو لوگوں سے آنحضرتؒ محمد صلی ہللا علیہ وسلم فاتخذوہ
ﷺ کے صحابہ کے باہمی غصہ کی حکایات نقل کی تھیں انہوں نے اٹھا کر انہیں عقائد
کی فہرست میں داخل کرلیا ہے۔ اس کے سوا دوسری مشکل یہ ہے کہ محدثین کے جو
مبہم الفاظ آج کتب میں مدون نظر آتے ہیں کسے فرصت ہے کہ ان کے اصل معنی
سمجھنے کی کوش کرے،مثال کی طور پر مالحظہ کیجئے ،ایک مرتبہ امام صاحب اعمش
کی عیادت کے لیے گئے،اعمش نے کچھ روکھا پن دکھالیا اورامام صاحب کے متعلق کچھ
غصہ کے الفاظ کہے،اس اخالق پر اعمش کا یہ رویہ آپ کو ناگوار گذرا اورگذرنا چاہئے
تھا،جب آپ باہر تشریف الئے تو فرمایا کہ اعمش نہ تو رمضان کے روزے رکھتا ہے اور
نہ کبھی جنابت سے غسل کرتا ہے ،واقعہ یہ ہے کہ کسی امام دین پر ان الفاظ کو کتنا ہی
چسپاں کیجئے مگر چسپاں نہیں ہوسکتے اگر کہیں ان الفاظ کی تشریح ہمارے سامنے نہ
ہوتی تو معلوم نہیں کہ اس مقولہ سے ہمارے خیاالت کتنا کچھ پریشان ہوجاتے ؛لیکن جب
ان الفاظ کی مراد ہاتھ آگئی تو آنکھیں کھل گئیں اور معلوم ہوا کہ ائمہ غصہ کے حال میں
بھی ایک دوسرے کے متعلق عوام کی طرح بے سروپا کلمات منہ سے نہیں نکاال کرتے ؛
موسی سے اس کا مطلب دریافت کیا گیا(اس واقعہ میں ٰ چنانچہ اس واقعہ میں جب فضل بن
وہ امام صاحب کے ساتھ ساتھ تھے) تو انہوں نے فرمایا کہ اعمش التقاختانین سے غسل
کے قائل نہ تھے ؛بلکہ جمہور کے خالف اس مسئلہ پر عمل کرتے تھے جس پر کبھی ابتدا
اسالم میں عمل کیا گیا تھا ،یعنی انزال کے بغیر غسل واجب نہیں ہوتا ،اسی طرح بعض
صحابہ کا مذہب یہ تھا کہ طلوع فجر کے بعد روشنی پھیلنے تک سحری کھانا درست
ہے،ان دو مسئلوں کے لحاظ سے امام صاحب کی یہ دونوں باتیں بھی درست تھیں اور
اعمش کا عمل بھی اپنے مختار کے مطابق درست تھا۔اگر اسی طرح امام کے حق میں بھی
بہت سے مشہور مقولوں کی مرادیں تالش کی جائیں تو ہاتھ آسکتی ہیں اوراس کے بعد
28
قابل اعتراض نہیں رہتی جیسا کہ الفاظ کی سطح سے معلوم ہوتی اصل بات بھی اتنی ِ
ب تذکرہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے محدثین کی ناراضگی کا بڑا سبب تھی،کت ِ
اختالف مسائل ،امام صاحب کے دور تک عام مذاق یہ تھا ِ اختالف مذاق تھا نہ کہ
ِ صرف
کہ مسائل کے متعلق بہت ہی محدود پیمانہ پر غور وخوض کیا جاتا تھا ،صرف پیش آمدہ
واقعات کا شرعی حکم وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ معلوم کرلیا جاتا اس کے بعد مسئلہ
کی فرضی صورتوں سے بحث کرنا ایک الیعنی مشغلہ سمجھا جاتا تھا،خطیب بغدادی نے
یہاں ایک بہت دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے۔ نضر بن محمدؒ روایت کرتے ہیں کہ قتادہ کوفہ
آئےاورابوبردہ کے گھر اترے،ایک دن باہر نکلے تو لوگوں کی بھیڑ ان کے ارد گرد جمع
ہوگئی،قتادہ نے قسم کھا کر کہا آج جو شخص بھی حالل و حرام کا کوئی مسئلہ مجھ سے
حنیفہ کھڑے ہوگئے اور سوال ؒ دریافت کرے گا میں اس کا ضرور جواب دونگا ،امام ابو
کیا اے ابو الخطاب (ان کی کنیت ہے) آپ اس عورت کے متعلق کیا فرماتے ہیں جس کا
شوہر چند سال غائب رہا اس نے یہ یقین کرکے کہ اس کا انتقال ہوگیا ہو اپنا دوسرا نکاح
کرلیا اس کے بعد اس کا پہال شوہر بھی آگیا اب آپ اس کے مہر کے متعلق فرمائیے کیا
فرماتے ہیں اورجو بھیڑ ان کو گھیرے کھڑی تھی ان سے مخاطب ہوکر کہا اگر اس مسئلہ
کے جواب میں یہ کوئی حدیث روایت کریں گے تو وہ غلط روایت کریں گے اوراگر اپنی
رائے سے فتوے دیں گے تو وہ بھی غلط ہوگا،قتادہ بولے کیا خوب!کیا یہ واقعہ پیش آچکا
ہے؟امام صاحب نے فرمایا نہیں ،انہوں نے کہا پھر جو مسئلہ ابھی تک پیش نہیں آیا اس کا
جواب مجھ سے کیوں دریافت کرتے ہو ،امام صاحب نے فرمایا کہ ہم حادثہ پیش آنے سے
قبل اس کے لیے تیاری کرتے ہیں تاکہ جب پیش آجائے تو اس سے نجات کی راہ معلوم
رہے،قتادہ ناراض ہوکر بولے خدا کی قسم میں حالل وحرام کا کوئی مسئلہ اب میں تم سے
بیان نہیں کروں گا ،ہاں کچھ تفسیر کے متعلق پوچھنا ہو تو پوچھو اس پر امام صاحب نے
ایک تفسیر ی سوال کیا ،قتادہ اس پر بھی الجواب ہوئے اورناراض ہوگئے،آخر کار غصہ
ہوکر اندر تشریف لے گئے۔
ابو عمرو نے سلف کے اس مذاق کی شہادت پر بہت سے واقعات لکھے ہیں اور بے
تقوی کے اس دور میں مناسب بھی یہی تھا لیکن جب مقدر یہ ہوا کہ علم کا ٰ شبہ علم و
بازار سرد پڑجائے،ورع وتقوی کی جگہ جہل و فریب لے لے ادہر روز مرہ نئے سے
نئے واقعات پیش آنے لگیں تو اس سے پہلے کہ جہال شریعت میں دست اندازی شروع
کردیں یہ بھی مقدر ہوگیا کہ شریعت کی ترتیب وتہذیب ایسے ائمہ کے ہاتھوں ہوجائے
جنہوں نے صحابہ وتابعین کے دور میں پرورش پائی ہو،انصاف کیجئے اگر قتادہ کے
زمانہ کی یہ احتیاط اسی طرح آئندہ بھی چلی جاتی تو کیا شرعی مسائل اسی ضبط وصحت
کے ساتھ جمع ہوجاتے جیسا کہ اب جمع ہوئے،درحقیقت یہ امام صاحب کی بڑی انجام بینی
اور امت کی بروقت دستگیری تھی کہ آپ نے اُن کے سامنے شریعت کو ایک مرتب آئین
بناکر رکھ دیا ،اسی لیے عبدہللا بن داؤد فرماتے تھے کہ امت پر آپ کا یہ حق ہے کہ وہ آپ
کے لیے نمازوں کے بعد دعائیں کیا کریں،یہ خدمت اپنی جگہ خواہ کتنی ہی ضروری
اوربروقت سہی مگر واقعہ یہ ہے کہ محدثین کے مذاق کے خالف جس دوزیں آثار
29
مرفوعات کو علیحدہ علیحدہ ضبط کرنا بھی عام دستور نہ ہو اس دور میں صرف ابواب
قابل برداشت ہوسکتا تھا،یہ بھی ایکفقہیہ کی اونچی اونچی تعمیریں کھڑا کردینا کب ِ
حقیقت ہے کہ جب مسائل منصوصہ سے آپ ذرا قدم ادھر اُدھر ہٹائیں گے تو آپ کو اجتہاد
سے کام لینا ہوگا ،ایسے دور میں جہاں خاموشی کے ساتھ عمل کرنے کے عالوہ ایک قدم
قابل اعتراض نظر آتا ہو ،احادیث وآیات کے اشارات ،دالالت
ادھر ادھر اٹھانا بھی ِ
اوراقتضاء سے ہزاروں مسائل اخذ کرکے ان کو احادیث سے ایک علیحدہ شکل دیدینا کب
گوارا کیا جاسکتا تھا ،آخر جب آپ کا دور گذرگیا تو بعد کے علماء کے سامنے صرف
پہلے علماء کی ان ناگواریوں کی نقل باقی رہ گئی،پھر استادی وشاگردی کے تعلقات نے
حقایق کو ایسا پوشیدہ کردیا کہ جس نے جہمی کو کافر کہا تھا اسے خود جہمی اورکافر کہا
گیا،جس نے کتاب وسنت کے مقابلہ میں اپنی رائے ترک کرنے کی وصیت کی تھی اسی
پر کتاب وسنت کی مخالفت کرنے کی تہمت رکھی گئی ہاں اگر خوش قسمتی سے ماحول
کے تاثرات سے نکل کر کسی ہللا کے بندہ نے تحقیق کی نظر ڈالی تو بہت جلد اس کی
آنکھوں سے یہ حجاب اُٹھ گیا اوراس نے اپنے خیال سے رجوع کرلیا ورنہ تاریخ اُن ہی
افواہوں پر چلتی رہی جو استادی وشاگردی کے انسالک سے علماء کے حلقوں میں گشت
لگارہی تھیں۔
واقعہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کی زندگی میں اس کے متعلق مختلف خیاالت قائم
ہوسکتے ہیں اور فیصلہ کی راہ آسانی سے نہیں نکل سکتی،بہت سی زبانیں اس کی
موافقت اوربہت سی اس کی مخالفت میں بولی ہیں تو اس کی وفات کے بعد جبکہ اس کی
شخصیت بھی سامنے نہیں رہتی فیصلہ کرنا کتنا مشکل ہوگا،اسماء الرجال کے فن میں
تاریخ کی اس تاریکی کو دور کرنے کی سعی کی گئی ہے اورایک معتدل مزاج انسان کے
لیے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا مشکل بھی نہیں رہا لیکن تاریخ کی جو نقول اوراق میں
درج ہوچکی ہیں،اُس سے ہر خیال کا انسان اگر مزاجی اعتدال نہیں رکھتا تو اپنے خیال
کے موافق فائدہ اٹھانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس لیے اسماء الرجال کی پیدا کردہ
روشنی تاریخ کی پھیالئی ہوئی تاریکی کے دور کرنے میں بسا اوقات ناکام ہوکر رہ جاتی
ہے،یہی وجہ ہے کہ جب آپ امام صاحب پر جرح کرنے والوں کی صف پر نظر ڈالیں گے
تو ان میں زیادہ تر آپ کو وہی افراد نظر آئیں گے جو آپ کے عہ ِد حیات کے بعد پیدا
ہوئے ہیں یا نرے محدث ہیں فقاہت سے زیادہ بہرہ ورنہیں صرف سنی ہوئی خبریں اُن تک
درس حدیث کا حلقہ بھی
ِ پہنچتی ہے لیکن ان میں اکثر شاگرد بسلسلہ فقہ تھے کاش آپ کا
اسی پیمانہ پر قائم ہوجاتا تو شاید امام کی تاریخ کا نقشہ آج آپ کو کچھ دوسرا نظر آتا؛
چنانچہ جس حنفی نے بھی اس شغل کو قائم رکھا ہے اس کے ساتھ تاریخ زیادہ بے دردی
کا سلوک نہیں کرسکی۔
ذیل کے ایک ہی واقعہ سے اندازہ لگائیے کہ افواہ کیا ہوتی ہے اورجب حقیقت
المبارک کہتے ہیں کہ
ؒ سامنے آجاتی ہے تو پھر اس کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ عبدہللا بن
اوزاعی کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے مجھ سے پوچھا اے ؒ میں شام میں امام
خراسانی کوفہ میں یہ کون بدعتی شخص پیدا ہوا ہے جس کی کنیت ابو حنیفہ ہے یہ سُن
30
کر میں گھر واپس آیا اورتین دن لگ کر امام صاحب کے عمدہ عمدہ مسائل انتخاب
کئے،تیسرے دن اپنے ہاتھ میں کتاب لیکر آیا یہ اپنی مسجد کے امام ومؤذن تھے انہوں نے
دریافت کیا یہ کیا کتاب ہے میں نے اُن کے حوالہ کردی ،اس میں وہ مسئلے بھی ان کی
نظر سے گذرے جن کے شروع میں میں نے یہ لکھد دیا تھا،اورنعمان اس کے متعلق یہ
فرماتے ہیں ،اذان دے کر جب کھڑے کھڑے وہ کتاب کا ابتدائی حصہ دیکھ چکے تو کتاب
اٹھا کر اپنی آستین میں رکھ لی اور اقامت کہہ کر نماز پڑھی پھر نکالی اور پڑھنا شروع
کی یہاں تک کہ ختم کردی پھر مجھ سے پوچھا اے خراسانی یہ نعمان کون شخص ہیں؟
میں نے عرض کیا ایک شیخ ہیں ،اُن سے عراق میں میری مالقات ہوئی تھی،فرمایا یہ تو
بڑے پایہ کے شیخ ہیں ،جاؤ ان سے اورعلم سیکھو،اب میں نے کہا جی یہ تو وہی ابو
حنیفہ ہیں جن کے پاس جانے سے بھی آپ نے مجھے منع کیا تھا،اس واقعہ سے اندازہ ؒ
صاحب کے متعلق انہوں نے سُن کیا رکھاتھا اورجب حقیقت سامنے آئی ؒ ہوسکتا ہے کہ امام
تو بات کیا نکلی اس لیے خارجی شہادت اورواقعات سے آنکھیں بند کرکے صرف کالے
کالے حروف سے تاریخ مرتب کرنا کوئی صحیح عمل نہیں ہے ،اس کے عالوہ انسان میں
حسد ،تنافس کا بھی ایک کمزور پہلو موجود ہے ،اس کی بدولت بہت سے تاریخی حقائق
پوشیدہ ہوکر رہ گئے ہیں،سؤ اتفاق سے یہاں یہ سب باتیں جمع ہوگئی ہیں۔ عبدہللا بن
حنیفہ کے گھوڑے کی رکاب ؒ المبارک فرماتے ہیں،میں نے حسن بن عمارہ کو امام ابو ؒ
صاحب کی توصیف کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ؒ پکڑے ہوئے دیکھا،وہ امام
لوگ آپ کے متعلق صرف ازرا ِہ حسد چہ میگوئیاں کرتے ہیں،حافظ اب ِن ابی داؤدؒ کہتے
حنیفہ کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والے دوہی قسم کے لوگ ہیں یا حاسد یا ان ؒ ہیں کہ ابو
کی شان سے ناواقف،میرے نزدیک ان دونوں میں ناواقف شخص پھر غنیمت ہے،وکیع
صاحب کے پاس آیا دیکھا تو سرجھکائے کچھ فکر مند سے بیٹھے ؒ کہتے ہیں کہ میں امام
ہیں،مجھ سے پوچھا کدھر سے آرہے ہو میں نے کہا قاضی شریک کے پاس سے آپ نے
سراٹھا کر یہ اشعار پڑھے:
ان یحسدونی فانی ،غیرالئمھم قبلی من الناس اھال الفضل قد حسدوا فدام لی ولھم مابی
ومابھم ومات اکثر ناغیظا بما مجد اگر لوگ مجھ پر حسد کرتے ہیں تو کریں میں تو انہیں
اہل فضل پر مجھ سے پہلے بھی لوگ حسد کرتے آئے کچھ مالمت نہیں کروں گا،کیونکہ ِ
ہیں،میرا اوراُن کا ہمیشہ یہی شیوہ رہے گا۔اورہم میں اکثر لوگ حسد کرکر کے مرگئے
ہیں۔ وکیع کہتے ہیں شاید امام صاحب ؒ کو ان کی طرف سے کوئی بات پہنچی ہوگی اس
لیے انہوں نے یہ اشعار پڑھے ۔ جعفر بن الحنس ابو عمر کے شیخ کہتے ہیں کہ میں نے
حنیفہ کو خواب میں دیکھا تو اُن سے دریافت کیا ہللا تعالی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ ؒ ابو
کیا،فرمایا بخشد یا میں نے کہا علم و فضل کے طفیل میں ،کہا بھئی فتوی تو مفتی کے لیے
بڑی ذمہ داری کی چیز ہے ،میں نے کہا پھر ،فرمایا لوگوں کی اُن ناحق نکتہ چینیوں کے
تعالی جانتا تھا کہ وہ مجھ میں نہ تھیں۔
ٰ طفیل میں جو لوگ مجھ پر کیا کرتے تھے اورہللا
ابو عمر تحریر فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث نے امام صاحب کے حق میں بڑی
زیادتی کی ہے اورحد سے بہت تجاوز کیا ہے آپ پر جو زیادہ سے زیادہ نکتہ چینی کی
31
گئی ہے وہ صرف ان دو باتوں پر،ایک آثار کے مقابلہ میں رائے اور قیاس کا اعتبار کرنا،
دوسری ارجاء کی نسبت حاالنکہ جس جگہ امام صاحب نے کسی اثر کو ترک کیا ہے کسی
نہ کسی موزوں تاویل سے کیا ہے،اس کی نوبت بھی ان کو اس لیے آتی ہے کہ انہوں نے
مسائل میں بیشتر اپنے اہل بلد کا اعتبار کیا ہے جیسے ابراہیم نخعی اورابن مسعودؒ کے
تالمذہ ،اس سلسلہ میں مسائل کی صورتیں فرض کرنے پھر اپنی رائے سے ان کے
جوابات دینے اس پر اس کو مستحسن سمجھنے میں آپ نے اورآپ کے تالمذہ نے بھی
افراط سے کام لیا ہے ان وجوہ سے سلف میں اُن سے مخالفت پیدا ہوگئی ورنہ میرے
اہل علم میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جسے کسی حدیث کے اختیار کرنے نزدیک ِ
دعوی نسخ کرنا الزم نہ آیا ہو ،فرق صرف ٰ کے بعد کسی نہ کسی حدیث کا ترک یا تاویل یا
صاحب کو زیادہ ،اس پر ان کےؒ یہ ہے کہ دوسروں کو ایسا موقعہ کم پیش آیا ہے اورامام
مالک کے
ؒ ساتھ حسد اوربہتان کی مصیبت مزید براں ہے،لیث بن سعد کہتے ہیں کہ امام
مالک نے صرف اپنی ؒ ستر مسئلے مجھے ایسے معلوم ہیں جو سنت کے خالف ہیں ،امام
رائے سے نکالے ہیں اس بارے میں اُن سے خط و کتابت بھی کرچکا ہوں،ابو عمر کہتے
ہیں علماء امت میں یہ حق تو کسی کو حاصل نہیں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی کوئی
حدیث صحت کو پہنچ جائے تو وہ اس کی سند میں طعن یا اسی درجہ کی حدیث سے
دعوی نسخ یا اس کے مقابلہ میں امت کا اجماع پیش کئے بغیر اس کو ترک کردے اوراگر ٰ
کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی عدالت ہی ساقط ہوجاتی ہے چہ جائیکہ اس کو دین کا امام
صاحب سے روایت کرنے والوں اورآپ کو ثقہ ؒ مانا جائے،اس کے بعد لکھتے ہیں کہ امام
کہنے والوں کی تعداد اُن سے زیادہ ہے جنہوں نے آپ پر نکتہ چینی کی ہو ،پھر جنہوں
نے نکتہ چینی کی بھی ہے تو وہ صرف اُن ہی دو باتوں پر کی ہے جو ابھی مذکور ہوئیں
پھر تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں یہ مشہور تھاکہ بزرگی وبرتری کا یہ بھی
ایک معیار ہے کہ اس کے متعلق لوگ افراط وتفریط کی دوراہوں پر نکل جائیں جیسا کہ
علی یہاں بھی ایک جماعت افراط اوردوسری تفریط میں مبتالء نظر آتی ہے۔آخر حضرت ؓ
میں حافظ عمر بطور قاعدہ تحریر فرماتے ہیں (اس قاعدہ کی پوری تفصیل کے لیے
طبقات الشافعیہ میں احمد بن صالح مصری اورحاکم کا ترجمہ مالحظہ کیجئے انہوں نے
اس کے ہر گوشہ پر تفصیلی بحث کردی ہے اوراس مجمل ضابطہ میں جن جن قید وشرط
کی ضرورت تھی سب ذکر کردی ہیں):کہ جس شخص کی عدالت صحت کے درجہ کو
پہنچ چکی ہو،علم کے ساتھ اس کا مشغلہ ثابت ہوچکا ہو،کبائر سے وہ احتراز کرتا
ہو،مروت اورہمدردی اس کا شعار ہو،اس کی بھالئیاں زیادہ ہوں اوربرائیاں کم تو ایسے
قابل قبول نہیں ہونگے۔سچ تویہ ہے کہ شخص کے بارے میں بے سروپا الزامات ہرگز ِ
مخلوق نے جب اپنی زبان خالق سے بند نہیں کی تو اب ہمہ وشما سے اس کی توقع فضول
موسی علیہ السالم نے ایک بار دعا کی اے پروردگار بنی اسرائیل کی زبان ٰ ہے ،حضرت
سے میرا پیچھا چھڑا دے ،وحی آئی جب میں نے مخلوق کی زبان اپنے نفس سے،بند نہیں
کی تو تم سے کیسے بندکردوں۔
اہم تصانیف
32
فقہ:
ابوحنیفہ نے قرآن و سنت سے ہزاروں مسائل نکالے اور فقہ کی تدوین فرمائی ۔ؒ امام
جن کو ان کے تالمذہ کی جماعت نے ان کی زیر نگرانی کتب میں لکھا۔
امام صاحب کے تالمذہ نے ان مسائل کو امام صاحب سے روایت بھی کیا اور اُن پر اپنی
آراء کا بھی اضافہ کیا ،جس کی تکمیل امام محمد بن حسن شیبانی ؒ نے
فرمائی ،انہوں نے ان مسائل کو 6کتب میں بیان کیا ۔ یہ کتب ظاہر الروایۃ کہالتی ہیں ۔
جو فقہ حنفی کی بنیاد ہیں ۔
1۔ کتاب االصل (المبسوط ) 2۔ جامع الصغیر 3۔ جامع الکبیر 4۔ السیر الصغیر 5۔ السیر
الکبیر 6۔ الزیادات
33
دیگر تصانیف:
اس کے عالوہ امام صاحب کی تصانیف جو ہم تک نہیں پہنچ سکیں ۔
تبصرہ مکتبہ سال و جائے پیدائش سال و جائے وفات ترتی نام امام
فکر ب
حق گوئی
جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے انہوں نے کبھی بھی کسی خلیفہ کی خوشامد یا
مالزمت نہ کی۔ ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ یزید نے ان کو مشیر بنانا چاہا تو آپ
نے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا کہ ’’اگر یزید کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ
بھی مجھے گوارا نہیں۔ ‘‘ امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم کے خروج کے موقع پر انہوں
نے ابراہیم کی تائید کی تھی۔ منصور نے انہیں بال کر عہدہ قضا پر فائز کرنا چاہا لیکن آپ
کے مسلسل انکار پر اول بغداد کی تعمیر کے موقع پر انہیں اینٹیں شمار کرنے کے کام پر
لگایا اور بعد میں قید خانہ میں ڈال دیا۔
35
عظمت ابوحنیفہ
ایک دفعہ حضرت امام اعظم اور امام شافعی کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہو
گیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبد ﷲ نے دونوں کے
درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا :پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو۔ جب
گنے گئے تو 80تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا :اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو
جب انہوں نے شمار کیے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس
جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام االئمہ تھے۔
وفات
150ھ میں بغداد میں ان کا انتقال ہوا۔ پہلی بار نماز جنازہ پڑھی گئی تو پچاس ہزار آدمی
جمع ہوئے جب آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا تو چھ بار نماز جنازہ پڑھائی گئی آپ ملکہ
خیزراں کے مقبرہ کے مشرق کی جانب دفن ہوئے۔ اس دور کے ائمہ اور فضال نے آپ
کی وفات پر بڑے رنج کا اظہار کیا۔
ضروری تجزیہ
ب
امام صاحب کی علم حدیث میں مہارت معلوم کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ ،نصا ِ
تعلیم اور اساتذہ کا تجزیہ ایک ناگزیر ضرورت ہے ،جسے اختصار کے ساتھ پیش کیا
جارہا ہے۔
امام صاحب کی تبحر حدیث میں ،اس کا بھی دخل ہے کہ آپ کی اولیں درس گاہ
اعلی :حضرت علی کرم ہللا وجہہ اور صدر مدرس ٰ ”کوفہ“ ہے جس کے سرپرست
حضرت عبدہللا بن مسعود تھے ،واضح رہے کہ یہ ”کوفہ“ ان حضرات کے ورود مسعود
سے پہلے بھی علم حدیث کا شہر تھا اور بعد میں تو خیر رہا ہی۔( )۱امام صاحب کی
تحصیل حدیث کی دوسری بڑی درسگاہ ”بصرہ“ ہے جو حسن بصری ،شعبہ قتادہ
کے فیض تعلیم سے ماال مال تھا۔ چوں کہ اسالم کی ابتدائی صدیوں میں ”حج“ استفادے
اور افادے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا؛ اس لیے تکمیل حدیث کے لیے علوم شرعیہ کے
تعالی) کا سفر کیا اور پچپن حج کیے۔ سب سے ٰ اصل مرکز :حرمین شریفین (صانہما ہللا
پہال حج سولہ سال کی عمر میں والد صاحب کی معیت میں ۹۶ھ میں کیا ،اس سفر میں
صحابی رسول حضرت عبدہللا بن الحارث سے مالقات کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور
ان کی زبان مبارک سے یہ ارشاد بھی سنا” :من تفقہ فی دین ہّٰللا ،کفاہ ہّٰللا ہمہ ورزقہ من
حیث ال یحتسب“()۲
شرف تابعیت
ِ
اسی وجہ سے باتفاق ائمہ محدثین آپ تابعی ہیں ،لہٰ ذا آپ ہللا کے قول” :والذین اتبعوہم
باحسان رضی ہّٰللا عنہم ورضوا عنہ“ میں داخل ہیں؛کیوں کہ حج کے مسلسل سفروں میں
ت صحابہ سے استفادے کا موقع مال؛ اسی کے ساتھ ساتھ آپ کو حج کے سفروں حضرا ِ
میں تدریس کے مواقع بھی فراہم ہوئے ،جہاں لوگ آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے
ٹوٹ پڑتے تھے؛ اسی وجہ سے آپ کے شاگردوں کی تعداد ،حد شمار سے باہر ہے ،جب
کہ آپ کے اساتذہ و شیوخ کی تعداد چارہزار تک ہے۔()۴
نصاب تعلیم
ب تعلیم ،قرآن واحادیث ہی تھا ،بلکہ اس وقت علم سے مراد اس زمانے میں نصا ِ
قرآن و حدیث ہی کا علم ہوتا تھا۔ چانچہ خلف بن ایوب فرماتے ہیں:
تعالی الی محمد صلی ہّٰللا علیہ وسلم ،ثم الی اَصحابہ ،ثم الی التابعین،
ٰ ”صار العلم من ہّٰللا
ثم صار الی ابی حنیفة وأصحابہ“(( )۵یعنی ”علم خدا کی طرف سے حضرت محمد صلی
ہللا علیہ وسلم کے پاس آیا ،پھر صحابہ میں تقسیم ہوا ،پھر تابعین میں ،اس کے بعدامام
ابوحنیفہ اوران کے اصحاب میں آیا“) اس قول کو نقل کرنے کے معا ً بعد عالمہ ظفر
یخفی أن العل َم في ٰذلک الزمان ،لم یکن اال علم الحدیث والقرآن“ (یعنی
ٰ لکھتے ہیں کہ ” :وال
یہ بات واضح رہے کہ اس وقت علم صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی کا علم تھا) لہٰذا
اس وقت کا سب سے بڑا عالم وہی مانا جاتا تھا جو قرآن و حدیث کا عالم ہو،اسی وجہ سے
حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ ” :امام ابوحنیفہ علم ”حدیث“ و” فقہ“ میں اعلم
الناس ہیں۔( )۶اور خلف بن ایوب نے ابھی اوپر آپ کو عالم قرآن و حدیث ثابت کردیا ،تو
جس کا نصاب تعلیم ہی قرآن و حدیث ہو ،وہ کیسے ”یتیم فی الحدیث“ ہوسکتا ہے؟
37
ت حدیث پر شہادتیں
آپ کی محدثیت اور Rمہار ِ
علم حدیث کے سلسلے میں ،جس قدر آپ معرفت رکھتے ہیں اور جس قدر آپ نے
اس سے حصہ وافر پایا ہے ،اس کے جان لینے کے بعد کوئی انصاف پسند عالم ،یہ نہیں
کہہ سکتا کہ” :ولم یعدہ أحد من المحدثین“ (حضرت امام صاحب کو کسی نے بھی محدثین
کی فہرست میں شمار نہیں کیا) چوں کہ آپ کی محدثیت کا بے شمار لوگوں نے بار بار
اعتراف کیا ہے ،چند اقوال مالحظہ فرمائیں:
-۱امام ذہبی نے آپ کا شمار ”حملة الحدیث“ (حاملین حدیث) میں کیا ہے۔()۸
-۲ابن خلدون نے آپ کو ”کبار المجتہدین فی علم الحدیث“ (علم حدیث میں بڑا مجتہد)
کہا ہے۔()۹
-۳حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں” :میں نے امام ابوحنیفہ سے زیادہ جاننے
واال نفس حدیث کو ،کسی کو نہیں دیکھا اور نہ کوئی ان سے زیادہ تفسیر حدیث کا عالم،
میری نظر سے گزرا“()۱۰
-۴حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں” :اول من صیَّرني محدثا أبوحنیفة“ ”مجھے
محدث بنانے واال ،سب سے پہال شخص ،امام ابوحنیفہ کی ذات اقدس ہے۔ (اِنجاء
الوطن،ص)۳۱:
-۵شیخ االسالم عالمہ ابن تیمیہ نے بھی آپ کو محدثین کی فہرست میں شمار کیا ہے۔(
)۱۱
-۶حضرت عبدہللا بن المبارک فرماتے ہیں کہ :اگر مجھے ابوحنیفہ اور سفیان کا شرف
حاصل نہ ہوا ہوتا ،تو میں بدعتی ہوجاتا۔()۱۲
-۷شیخ االسالم عالمہ ابن عبدالبر مالکی ،تحریر فرماتے ہیں کہ ٰ ” :
روی حماد بن زید
َ
أحادیث کثیرة“ (( )۱۳حماد بن زید نے امام ابوحنیفہ سے بہت سی حدیثیں عن أبي حنیفة
روایت کی ہیں) اگر حضرت امام صاحب ”محدث“ نہیں تھے ،تو احادیث کثیرہ کا کیا
مطلب ہوگا؟ اور جب وہ ”قلیل الحدیث“ تھے اور ان کے پاس زیادہ حدیثیں بھی نہ تھیں ،تو
ت کثیرہ اور احادیث کثیرہ کس طرح لیں؟
حماد بن زید نے ،ان سے روایا ِ
38
(از امام مزی) ”تہذیب التہذیب“ (از امام ذہبی) اور ”تذہیب التہذیب“ (از حافظ ابن حجر)
میں ”جرح و تعدیل“ سے متعلق امام صاحب کے مزید اقوال دیکھے جاسکتے ہیں۔
کے درمیان جو الکھوں اور ستر ہزار حدیثوں کا فرق ہے ،وہ دراصل اسانید کی تعداد کا
فرق ہے؛ ونہ صحیح بخاری کے مکررات نکال کر ،احادیث کی تعداد ،حافظ عراقی نے
چار ہزار بتائی ہے( ،)۲۳امام نووی نے صحیح مسلم کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے:
”ومسلم باسقاط المکرر نحو أربعة آالف“( )۲۴اور تقریبا ً یہی تعداد ”سنن ابی داؤد“ و ”ابن
ماجہ“ وغیرہ کے متعلق ہے۔( )۲۵غرضیکہ امام صاحب ،ان حضرات محدثین کے ”متو ِن
احادیث“ میں بالکل ہم پلہ ہیں؛ بلکہ تعدد سند میں بھی آپ،امام بخاری کے تقریبا ً برابر ہی
ہیں؛ چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے حماد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا” :جمعتہا من خمس
مائة ألف حدیث(( )۲۶الوصیة ،ص)۶۵:؛ لہٰ ذا معلوم ہوا کہ امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“
ہونے کا الزام غلط ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ جس طرح ،طلوع آفتاب سے رات کی
تمام تاریکیاں ختم ہوجاتی ہیں ،اسی طرح آپ سے ”قلیل الحدیث“ ہونے کا الزام ختم ہوجاتا
ہے۔
ت روایت کے اسباب
قل ِ
ت روایت“ کی آڑ میں ،امام صاحب کی حدیث دانی اور فقہی مخالفین اورحاسدین” ،قل ِ
قدر و منزلت کو مجروح کرکے ”حنفیت“ کا راستہ روکنے کی بے جا کوشش کرتے ہیں
مگرپھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گااس سلسلے میں واضح رہے کہ قلت روایت،
کوئی عیب نہیں اور نہ یہ کوئی عار کی بات ہے اور نہ قلت روایت ،قلت علم حدیث کو
مستلزم ہے؛ چنانچہ حضرت ابوبکر ،حضرت عمر ،حضرت علی اور حضرت عبدہللا
بن مسعود کی مرویات کی تعداد ایک ہزار سے کم ہی ہے؛ جبکہ ان سے کم درجہ کے
صحابی کی تعداد حضرت ابوبکر و عمر وغیرہ سے کہیں زیادہ ہے ،تو کیا اب یہ کہہ
دینا چاہیے کہ حضرت ابوبکر و عمر زیادہ بڑے محدث نہیں تھے؟ نہیں ہرگز نہیں؛
بلکہ یہ حضرات نقل روایات میں ،حد درجہ احتیاط کرتے تھے ،کہ مبادا نقل روایت میں
کبار صحابہ نے ،حدیث کے اپنے وافر معلومات کو ِ کوئی فرق ہوجائے؛ اسی لیے ان
فتاوی کی صورت میں بیان کیا۔ امام صاحب بھی انہی کے نقش قدم پر چلے ٰ مسائل اور
اورحدیث کے اپنے وافر معلومات کو استنباط میں لگایا )۲۷(،اسی کو حافظ محمدیوسف
صالحی شافعی یوں بیان فرماتے ہیں” :وانما قلَّت الروایة عنہ ،الشتغالہ باالستنباط ،کما قلَّت
روایة أبی بکر وعمر )۲۸( “ قلت کی دوسری وجہ ،ابن خلدون اس طرح لکھتے ہیں:
”واالمام أبوحنیفة انما قلت روایتہ ،لما اشتد فی شروط الروایة والتحمل“( )۲۹تیسری وجہ
قلت کی یہ ہے کہ آپ صحابہ کی طرح غیر احکامی احادیث بیان کرنے میں حددرجہ
احتیاط کرتے تھے؛ کیوں کہ حضرت عمر نے اسی طرح کا ارشاد فرمایا ہے۔ اور یہی
نظریہ امام مالک کا بھی ہے ،فرماتے ہیں” :اگر میں لوگوں کو ،وہ تمام روایت کروں جو
میں نے سنیں،تو میں احمق ہوں گا ،اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں لوگوں کو گمراہ کررہا
ہوں۔( )۳۰غرضیکہ امام صاحب قلت روایت میں ،صحابہ کے ہی نقش قدم پر چلے ہیں؛
مگر یہ فضیلت ،مخالفین کے لیے وجہ حسد بن گئی ،جب کچھ نہ بن پڑا تو ”قلت روایت“
کا الزام دھردیا ،فیا للعجب!
41
اہل حدیث
اہل الرائے اور ِ
”حدیث بیانی“ اور ”حدیث دانی“ دو الگ الگ فن ہیں ،تمام ”رواة حدیث“ (اہل
حدیث) ”حدیث بیاں“ تو ہیں؛ مگر ضروری نہیں کہ وہ ”حدیث داں“ بھی ہوں؛ (کیوں کہ
آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے خود ان میں ”رب حامل فقہ ،غیر فقیہ ( )۳۱کے ذریعے فرق
بتالدیا ہے) البتہ ”فقہاء“ (اہل الرائے) ”،حدیث داں“ ضرور ہوتے ہیں۔ توجو ”حدیث دانی“
کے ساتھ ساتھ ”حدیث بیانی“ میں بھی مہارت رکھتا ہو ،اس پر ”اہل الرائے“ کا اطالق ہوتا
ت حمیدہ ہے؛ اسی لیے محدثین نے آپ کو ”اہل الرائے“ کہا ہے،جو بال ریب و شک صف ِ
ہے؛ جس کی دلیل یہ ہے کہ محدثین اس کا اطالق ،صحابہ وغیرہ پر بھی کرتے ہیں؛
چنانچہ کہتے ہیں” :مغیرة بن شعبة کان من أہل الرأي ،و ربیعة بن عبدالرحمن کان من أہل
الرأي“( )۳۲یعنی یہ دونوں حضرات اہل الرائے میں سے ہیں) مگر غیرمقلدین نے ”اہل
ت قبیحہ اور ”جرح و طعن“ پر محمول کیا ہے ،جو محدثین کی مراد کے الرائے“ کو صف ِ
خالف ہے؛ اگر یہ لفظ ”جرح و طعن“ کے لیے ہے ،تو کیا حضرت مغیرہ بن شعبہ
مجروح ہوں گے؟! جبکہ تمام صحابہ عدول ہی ہیں ،کوئی مجروح نہیں ہوسکتا
(الصحابة کلہم عدول) کیا حضرت ربیعہ بھی مجروح ہوں گے؟ٍ جبکہ ان سے تمام ائمہ
حدیث نے روایت لی ہیں؟ ! نہیں ہرگز نہیں ،بلکہ محدثین ،لف ِظ ”اہل الرائے“ کا اطالق اسی
پر کرتے ہیں جو ”حدیث بیانی“ کے ساتھ ”حدیث دانی“ میں بھی ماہر ہو ،یہی فرق ہے
”اہل الرائے“ اور ”اصحاب الحدیث“ میں کہ ”اہل الرائے“ لفظ انسان“ کی طرح خاص ہے
اور ”اصحاب الحدیث“ لفظ ”حیوان“ کی طرح عام ہے ،فبینہ ما نسبة عموم وخصوص
مطلقا ً اور چوں کہ خاص افضل ہوتا ہے؛ اس لیے محدثین کے یہاں ”اہل الرائے“ کا درجہ
بڑھا ہوا ہے؛ اسی لیے محدثین ،فقہاء کو اپنے سے آگے رکھتے تھے ،جس کا اندازہ
مندرجہ ذیل اقوال سے ہوتا ہے:
حضرت امام وکیع بن الجراح لکھتے ہیں” :حدیث یتداولہ الفقہاء خیر من أن یتداولہ
الشیوخ“ (حدیث فقہاء کو ہاتھ لگے یہ اس سے بہتر ہے کہ شیخ الحدیث کے ہاتھ لگے)(
ث عظیم حضرت اعمش فرماتے ہیں : یامعشرالفقہاء! ”أنتم األطبا“ ونحن )۳۳محد ِ
”الصیادلة“(( )۳۴اے گروہ فقہاء طبیب تم ہو ،ہم تو صرف دوائیں لگائے بیٹھے
ہیں)حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں” :وکذلک قال الفقہاء ،وہم أعلم بمعانی الحدیث“()۳۵
(اسی طرح فقہاء نے کہا ہے اور وہ حدیث کے معنی کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں)ان
اقوال سے معلوم ہوا ”اصحاب الرائے“ بہرحال محدث ہوتے ہیں (اسی لیے صاحب ہدایہ
نے کہا ہے کہ فقیہ کے لیے حدیث دانی شرط ہے)( )۳۶تو معلوم ہوا کہ اس کا اطالق آپ
ت حدیث پر دال ہے۔قیاس پر حدیث ضعیف کو مقدم کرنا، کی مہار ِ
ان کے مذہب کی بنیاد ہے ،اور اسی قاعدے کی وجہ سے )۱( :رکوع سجدے والی
نمازمیں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ جنازے کی نماز میں نہیں ٹوٹتا۔ ( )۲نبیذ تمر
سے سفر میں وضو ہوجاتا ہے۔ ( )۳دس درہم سے کم کی چوری پر ،چور کا ہاتھ نہیں کٹتا۔
( )۴حیض کی اکثر مدت دس دن ہوتی ہے۔ ( )۵جمعہ کی نماز میں مصر کی قید لگانا اور
کنویں کے مسئلے میں قیاس نہ کرنا ،یہ سب وہ مسائل ہیں جن میں قیاس کا تقاضا کچھ اور
ث ضعیفہ“ کے ہوتے ہوئے قیاس کو ردی کی ٹوکری میں رکھ دیا۔( تھا؛ مگر ”احادی ِ
)۳۷جس سے علم حدیث کے تعلق سے آپ کی غایت شغل کا اندازہ ہوتا ہے؛ اسی پر بس
موثر ،قیاس مناسب ،قیاس شبہ ،قیاس طرد) میں نہیں؛ بلکہ قیاس کی چار قسموں (قیاس ٴ
موثر (اور ایک قول کے مطابق قیاس مناسب بھی) امام صاحب کے سے ،صرف قیاس ٴ
یہاں معتبر ہے ،بقیہ قسمیں باطل ہیں؛ (جبکہ قیاس کی تمام اقسام کو حجت گرداننے اور
احادیث ضعیفہ و مرسلہ کو غیر معتبر ماننے والے دوسرے حضرات مثالً :حضرت امام
شافعی رحمہ ہللا ہیں)( )۳۸اسی لیے تعجب ہے ان لوگوں پر جو آنکھ بند کرکے امام
صاحب پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ قیاس وغیرہ کو حدیث پرمقدم کرتے ہیں اور حدیث
کی مخالفت کرتے ہیں؛ حاالں کہ حقیقت وہ ہے جو ابن قیم نے کہا ” :فتقدیم الحدیث
الضعیف و آثار الصحابة علی القیاس والرأي قولہ (ابی حنیفة) وقول أحمد و علی ذلک بنی
ت مستمرہ َ
حدیث القہقہة مع ضعفہ علی القیاس والرأي“( )۳۹الخ یہی وہ عاد ِ مذہبہ کما ق َّدم
ہے جس کی وجہ سے کبار محدثین فقہ حنفی کے سایے میں ملیں گے۔
رکھتے تھے ،پھر حنفی مذہب اختیار کیا۔(( )۴۴تفصیل دیکھئے کشف الغمہ بسراج االمہ،
ص)۱۱۴ :
یقینا یہ اقتباس واضح دلیل ہے کہ حدیث سے آپ کا شغف اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ”فقہ
حنفی“ میں بھی حدیث ہی حدیث ہے ،تبھی تو مذکورہ کبار محدثین آپ کی فقہ کی طرف
مائل ہوئے؛ اسی لیے بہت سے اکابرین مثالً عبدہللا بن المبارک فرماتے تھے کہ ”ابوحنیفہ
کی رائے“ کا لفظ مت کہو ،بلکہ تفسیر و حدیث کہو۔“ ()۴۵
آپ کی تصنیفات
آپ نے تدریس و تدوین فقہ کے ساتھ ،فقہ کے ابواب پر مشتمل حدیثوں کا مجموعہ
بھی ،صحیح اور معمول بہا روایتوں سے منتخب فرماکر مرتب کیا ،جس کا نام ”کتاب
اآلثار“ ہے ،یہ دوسری صدی کے ربع ثانی کی تالیف ہے ،اس کتاب سے پہلے حدیث
نبوی کے جتنے مجموعے تھے ،ان کی ترتیب فنی نہیں تھی؛ مگر یہ پہلی تصنیف ہے
جس نے بعد کے محدثین کے لیے ترتیب و تبویب کی شاہراہ قائم کردی۔( )۴۶واضح رہے
کہ اس کا انتخاب امام صاحب نے چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔ (انتخب ابوحنیفة اآلثار
من أربعین ألف حدیث)()۴۷
مسانید
حدیث کی دوسری کتابوں کی طرح ”کتاب اآلثار“ کی بھی علمی خدمت کی گئی؛
چنانچہ امام صاحب کے ہر استاذ کی مرویات کو یکجا کرکے،اس کو ”مسند ابی حنیفہ“
کے نام سے موسوم کیاگیا۔( )۴۸جس کی تعداد باتفاق محدثین ،پندرہ ہیں ،جبکہ محمد بن
یوسف صالحی شافعی نے سترہ ذکر کیے ہیں۔()۴۹
جامع المسانید
امام ابوالموید محمد بن محمود خوارزمی نے ،تمام مسانید کو یکجا جمع کرکے” ،جامع
المسانید“ نام رکھا ہے ،اور مکررات کو حذف کرکے فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔()۵۰
عالمہ ابن خلدون کی منقول سترہ روایت کا پس منظر یہ ہے کہ امام محمد نے
”موطا امام محمد“ کی تمام احادیث کو ،امام مالک سے ہی روایت کیا ہے؛ کیوں کہ انہوں ٴ
نے خاص طور پر صرف امام مالک ہی کی روایات بیان کرنے کا التزام کیا ہے؛ لیکن
موقع بہ موقع کہیں کہیں امام ابوحنیفہ و ابویوسف کی روایتیں بھی ضمنا ً آگئی ہیں ،جن
کی تعداد سترہ یا ان کے لگ بھگ ہے )۵۱(،تو بعض لوگ آپ کے بقیہ تمام ذخیرئہ
احادیث سے قطع نظر کرکے حسداً یہ کہہ بیٹھے کہ :آپ ”قلیل البضاعة فی الحدیث“ تھے
تبھی تو سترہ حدیثیں ہی مروی ہیں۔ اس زبردست غلطی کا عالمہ ابن خلدون نے اس طرح
”موطا امام محمد“ میں جو صرف سترہ ازالہ کیا ہے کہ ” :امام صاحب کے حوالے سے ٴ
حدیثیں مروی ہیں ،ان سے بغض و تعصب رکھنے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ ”قلیل
البضاعہ فی الحدیث“ تھے اورحدیث میں آپ کا کل سرمایہ اتنا ہی تھا ،حاالنکہ سترہ
روایت کا نظریہ ،سرے سے باطل ہے؛ بلکہ سترہ کے واسطے سے ”قلیل البضاعہ فی
تقول اور جھوٹ پر مبنی ہے اور الحدیث“ کا نظریہ ،جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ُّ
را ِہ راست سے بہت دور ہے ،تو ابن خلدون کا مقصد امام صاحب پر لگائے گئے الزام کو
دفع کرنا ہے ،نہ یہ کہ آپ کے لیے اسے ثابت کرنا ہے؛ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
ابن خلدون کا مکمل حوالہ و عبارت نقل کردی جائے تاکہ اصل حقیقت سامنے آسکے،
مالحظہ فرمائیں :ابن خلدون فرماتے ہیں:
”واعلم ایضا ً أن األئمة المجتہدین تفاوتوا في االکثار من ہذہ الصناعة واالقالل ،فأبوحنیفة
تعالی عنہ یقال :بلغت روایتہ الی سبعة عشر حدیثًا أو نحوہا ،ومالک رحمہ ہللا ٰ رضي ہللا
الموطا ،وغایتہا ثالث مائة حدیث ،أو نحوہا ،وأحمد بنتعالی انما صح عندہ ما في الکتاب ٴ ٰ
حنبل رحمہ ہللا في مسندہ خمسون ألف حدیث ،ولکل ما أداہ الیہ اجتہادہ فی ذلک․ وقد تقول
بعض المبغضین المتعصبین الی أن” :منہم من کان قلیل البضاعة فی الحدیث“ فلہذا قلت
روایتہ“()۵۲
وال سبیل الی ہذا المعتقد في کبار األئمة․( مقدمہ ابن خلدون ،ص ،۴۴۴:مصر)
”اور تو یہ بھی جان لے کہ ائمہ مجتہدین ،حدیث کے فن میں متفاوت رہے ہیں ،کسی
نے زیادہ حدیثیں بیان کی ہیں کسی نے کم ،سو امام ابوحنیفہ رضی ہللا عنہ کے بارے میں
کہا جاتا ہے ،کہ ان کی روایتیں صرف سترہ یا ان کے لگ بھگ ہیں اور امام مالک سے
موطا میں درج ہیں اور امام احمد بن
جو روایتیں ان کے یہاں صحیح ہیں ،وہ وہی ہیں جو ٴ
حنبل کی مسند میں پچاس ہزار احادیثیں ہیں اور ہر ایک نے اپنے اپنے اجتہاد کے
مطابق اس میں سعی کی ہے۔
اور بعض بغض و کج روی رکھنے والوں نے اس جھوٹ پر کمر باندھ لی ہے کہ
”ائمہ مجتہدین میں سے جن سے کم حدیثیں مروی ہیں وہ محض اس لیے کہ ان کا سرمایہ
ہی اس فن میں اتنا ہے ل ٰہذا ان کی روایتیں بھی کم ہیں“؛ حاالنکہ ان بڑے بڑے اماموں کی
نسبت ایسا خیال کرنا را ِہ راست سے دوری ہے۔
45
یہ عبارت چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ امام صاحب پر مذکورہ الزام سرے سے ہی
تقول و جھوٹ پر مبنی ہے ،خاص طو ر پر ،خط کشیدہ عبارت میں ،نظر
باطل ہے اور ُّ
عمیق سے غور کرنے سے حاسدین کے جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے۔
اس موقع سے حضرت تھانوی نے ایک لطیفہ ذکر کیا ہے کہ (سترہ کی) تردید
کے بغیر بھی ،اس سے امام صاحب کی منقبت نکلتی ہے نہ کہ منقصت ،کہ امام صاحب
کی فہم اتنی عالی تھی کہ صرف سترہ حدیثوں سے اس قدر مسائل استنباط کیے کہ
دوسرے ائمہ ،باوجود الکھوں احادیث کے حافظ ہونے کے بھی ،ان کے برابر مسائل
مستنبط نہ کرسکے ،اس سے زیادہ فہم کی کیا دلیل ہوگی۔()۵۳
آپ پر ہوئے اعتراض کی حقیقت
شرف تابعیت (جو آپ کو اپنے معاصرین میں ممتاز بنائے ہوئے ہے) اورِ آپ کی
صحیح مسلم (ج ،۲:ص )۳۱۲ :پر حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی بشارت ہی ،تمام
اعتراضات کا مسکت جواب ہے؛ تاہم منصف مزاج حضرات نے تمام اعتراضوں کو
”بکواس“ کہہ کر ،آپ کی جاللت شان پر مہر ثبت کردی ہے؛ چنانچہ شیخ عبدالوہاب
شعرانی فرماتے ہیں” :وال عبرة لکالم بعض المتعصبین في حق االمام ،بل کالم من یطعن
في ہذا االمام ،عند المحققین یشبہ الہذیانات“(( )۵۴امام ابوحنیفہ کے حق میں بعض
متعصبین کے کالم کا اعتبار نہیں؛ بلکہ جو شخص امام صاحب پر طعن کرتا ہے تو اس کا
کالم بکواس کے مشابہ ہے عند المحققین)
آخری بات
خالصہ یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا ”علم حدیث“ میں بہت اونچا مقام ہے؛
امام حدیث ،حافظ حدیث اور صاحب ”جرح و چنانچہ آپ صرف محدث ہی نہیں بلکہ ِ
تعدیل“ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر الحدیث ہونے میں امام بخاری وغیرہ کے ہم پلہ ہیں،
نیز آپ پر مخالفین کی جانب سے ،خصوصا ً حدیث کے تعلق سے کیے گئے اعتراضات،
محض حسد و عناد پرمبنی ہیں )۵۵(،جو بازاری افسانوں اور بکواس کالموں سے زیادہ
غریق رحمت فرما،آمین یا رب العالمین ،بجاہ
ِ حیثیت نہیں رکھتے۔ (خدایا! امام صاحب کو
ہّٰلل سید المرسلین) ٰ
اللّہم وتغ َّمد امامنا بعفوک ،واجعلہ فی سعة رحمتک ،والحمد أوالً و آخرا،
والصالة والسالم علی أفضل رسلہ دائما ً متواتراً․
حدیث کی قدیم ترین صحیح کتاب
اس وقت احادیث مبارکہ کی دستیاب کتب میں سب سے قدیم کتاب صحیفہ ہمام ابن
منبہؒ ہے ۔
ؒ
نعمان کی کتاب اآلثار ہے ۔ اور یہ حدیث کی اس کے بعد تابعی صغیر امام اعظم ابو حنیفہ
سب سے پہلی کتاب ہے جو باقاعدہ موضوع کے حساب سے ہے ،یعنی ابواب پر مشتمل
ہے ۔
46
ابوحنیفہ سے ائمہ فقہا و محدثین کے جم غفیر نے روایت کیا ہے ۔ جن ؒ اس کتاب کو امام
شیبانی ،
ؒ یوسف ،امام محمد بن حسن ؒ میں امام ابو
لؤلؤی ،امام حماد بن ابی حنیفہ ؒ کے نسخے مشہور ؒ ہذیل ،امام حسن بن زیاد امام زفر بن ؒ
عمرو ،امام ابو عبد الرحمٰ ن المقرئ ؒ ،امام المقرئ ؒ ہیں ۔ دوسرے ائمہ میں سے امام اسد بن
غیاث اورؒ مبارک ،امام حفص بن ؒ حمزۃ بن زیات ؒ ،امام مکی بن ابراہیم ؒ ،امام عبد ہللا بن
ان کے عالوہ بہت بڑی تعداد میں ائمہ نے کتاب اآلثار کو روایت کیا ہے ۔ سب سے مشہور
شیبانی اور امام ابویوسف قاضی ؒ کے ہیں اور مطبوع ہیں ۔ ؒ نسخے امام محمد بن حسن
ان دونوں نے ان نسخوں کو روایت کرنے کے ساتھ اس میں چند روایات کا اضافہ بھی کیا
ہے جن کی حیثیت زوائد کی سی ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح مسند احمد میں امام حمد
حنبل کے صاحبزادہ نے چند روایات کا اضافہ کیا ہے ۔ یا امام محمد بن حسن ؒ نے موطا ؒ بن
مالک کوروایت کر کے اس میں بھی چند روایات کا اضافہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے غلط ؒ امام
فہمی کی جس سے بعض لوگ ان کا انتساب شاگردوں سے کر دیتے ہیں ،جو درست
نہیں ۔اسی لیے نامور حافظ حدیث امام ابن حجر عسقالنی ؒ المتوفی 852ھ نے ائمہ اربعہ ؒ
کی کتب کے رجال پر کتاب ((تعجيل المنفعة بزوائد رجال األئمة األربعة)) ج1ص 239میں
فرماتے ہیں۔
َو ْال َم ْوجُود من َح ِديث أبي حنيفَة ُمفردا ِإنَّ َما هُ َو كتاب اآْل ثَار الَّتِي َر َواهَا ُم َح َّمد بن ْالحسن َعنهُ
ابوحنیفہ کی حدیث میں مستقل کتاب موجود ہے جو کتاب اآلثار ہے ؒ ترجمہ ’’ : اور امام
جس کو امام محمد بن حسن ؒ نے اُن سے روایت کیا ہے ‘‘۔
ان میں سے "کتاب اآلثار" آپ کی تصنیف کردہ ہے؛ مگربہت سے حضرات نے اس کتاب
کو ان لوگوں کی تصنیف قرار دے دیا ہے جواس کتاب کے رواۃ میں سے ہیں جوصحیح
نہیں ہے؛
البتہ اس کے عالوہ باقی تینوں کتابیں آپکی تصنیف کردہ نہیں ہیں؛ بلکہ بعد کے لوگوں نے
ان میں امام ابو حنیفہ کی روایت حدیث کوموضوع کے لحاظ سے جمع کیا ہے۔اس سلسلے
کا سب سے بڑا کام موسوعہ حدیثیہ لمرویات امام ابوحنیفہ ؒ ہے جو شیخ لطیف الرحمٰ ن
بہرائچی کی کاوش ہے ۔
جامعین کتاب اآلثار
کتاب اآلثار کوامام ابو حنیفہ سے مختلف تالمذہ نے مختلف دور میں روایت کیا ہے،
جونسخے دنیا میں رائج ہیں وہ حسب ذیل ہیں
()1کتاب اآلثار ابوحنیفہ -بروایت ،امام محمد بن حسن شیبانیؒ
غیاث ،یہ نسخہ زیادہ مشہور نہیں ہےؒ ()5کتاب اآلثار بروایت حفص بن
وہبی جو "مسنداحمد بن محمد کالعی" کے نامؒ ()6کتاب اآلثار بروایت محمد بن خالد
ترتیب وتبویب
48
اس کتاب "کتاب اآلثار" کی ترتیب کتاب وار ،وباب وار ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ
امام ابو حنیفہ نے صرف ابواب کے عناوین تجویز فرمائے ،کتب کے عناوین تجویز نہیں
فرمائے؛ مگران کے سامنے کتب کی رعایت بھی تھی؛ کیونکہ ایک اصل سے متعلق
ابواب آپ نے ترتیب وار ذکر کیے ہیں؛ البتہ "کتاب المناسک" کا عنوان خود آپ نے قائم
فرمایا ہے ،اس کے بعد پھرابواب کا ذکر کیا ہے۔ امام محمدکے نسخے میں کل /305ابواب
ہیں ،اس کی ترتیب درحقیقت فن فقہ میں لکھی جانے والی کتاب کی ترتیب کے مطابق ہے؛
کیونکہ فن فقہ میں سب سے پہلے طہارت کا بیان کرتے ہیں؛ پھراس کے بعد کتاب
ترمذی نے اپنی کتاب کوفقہی طرز پر مرتب کیا
ؒ ٰ
الصلوۃ؛ جیسا کہ امام ابوداؤد اور امام
ہے ،برخالف بخاری ومسلم وغیرہ کے انہوں نے اس کا لحاظ نہیں کیا ،بس من وعن اسی
فقہی انداز پر امام ابو حنیفہ کی کتاب "کتاب اآلثار" مرتب کی گئی ہے۔
امتیازات
یہ ایک ایسی کتاب ہے ،جس کے مصنف کوتابعیت کا شرف حاصل ہے ،آج دنیا میں
کوئی ایسی کتاب نہیں پائی جاتی ہے ،جس کویہ ناقابل فراموش فضیلت حاصل ہو۔
صاحب ہی کی
ؒ اسالم میں فقہ کے نہج پر جوکتاب لکھی گئی ،اس میں ا ّولین کاوش امام
ہے،
یہ کتاب اسالم کی اولین مؤلفات میں سے ہے ،اس لیے کہ امام صاحب علیہ الرحمہ کا
فرمایا ہے اور ان میں سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب میں ایک ہزار احادیث و آثار کوجمع
فرمایا ہے؛
آپ سے امام محمدؒ نے روایت کرکے کتابی شکل میں مرتب فرمایا ہے۔
ت قدر کے لیے اس سے زیادہ اور کیا درکار ہے کہ وہ امت امام ابو حنیفہ کی جالل ِ
میں امام اعظم کے لقب سے مشہور ہوئے اور ان کے اجتہادی مسائل پر اسالمی دنیا کی
دوتہائی آبادی تقریبا ً چودہ سوبرس سے برابر عمل کرتی آ رہی ہے اور تمام اکابر ائمہ آپ
کے فضل وکمال کے معترف ہیں ،اس کتاب میں علم شریعت کوباقاعدہ ابواب پر مرتب کیا
ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد کتاب اآلثار کی احادیثِ گیا ہے اور یہ ایک
وروایات پر مبنی ہے۔
اصول و شرائط
49
امام ابو حنیفہ نے اپنے مقرر کردہ اصول وشروط کے پیش نظر اپنی صوابدید سے
چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے اپنے تالمذہ کواس کا
امال کرایا ہے اور انتخاب کے بعد اس میں جومرویات لی ہیں وہ مرفوع بھی ہیں اور
موقوف ومقطوع بھی ،زیادہ ترحصہ غیر مرفوع کا ہے،
مرویات کی مجموعی تعداد نسخوں کے اختالف کی وجہ سے مختلف بھی ذکر کی گئی
ہے،
ابویوسف کے نسخے میں ایک ہزار ستر کے قریب ہے اور امام محمدؒ کے نسخے میں
ؒ امام
صرف مرفوعات ایک سو بائیس ہیں۔
مشہور نسخے
ؒ
ابویوسف کا اور سب سے مشہور نسخے دو ہیں ،ایک امام محمدؒ کا اور دوسرا امام
یہی دونوں نسخے شائع بھی ہوئے ہیں
اور ان میں بھی امام محمدؒ کا نسخہ زیادہ معروف متداول ہے اور علما نے بھی اس پر
زیادہ کام کیا ہے،
موصلی اور ماضی
ؒ قونوی ،ابوالفضل علی بن مراد
ؒ طحاوی ،شیخ جمال الدین
ؒ مثالً امام
صاحب شاہجہاں پوری "سابق صدر مفتی دار العلوم دیوبند" ؒ قریب میں مفتی مہدی حسن
[]6
نے "قالئداالزھار" کے نام سے اس کی نہایت ضخیم شرح لکھی ہے،
افغانی کا کتاب اآلثار پر حاشیہ بھی
ؒ محلی اور موالنا ابوالوفاء
ؒ موالنا عبد الباری فرنگی
ہے؛
نیز شیخ عبد العزیز بن عبد الرشید اور شیخ محمدصغیرالدین نے اس کا اردو میں ترجمہ
بھی کیا ہے اور شیخ عبد العزیز نے ترجمہ کے ساتھ کچھ اضافہ بھی کیا ہے
اور اردو ترجمہ کے ساتھ موالنا عبد الرشید نعمانی کا کتاب اآلثار کے تعارف سے متعلق
ایک مبسوط مقدمہ بھی ہے،
ابویوسف اور امام محمدؒ کے دونوں نسخوں کے ساتھ عالمہ ابوالوفا افغانی کے عربی ؒ امام
میں مقدمے بھی ہیں،
ان کے عالوہ دیگر شراح ومحشین نے بھی مقدمے لکھے ہیں ،امام ابویوسف کے نسخے
پر موالنا ابوالوفاء کی تعلیقات بھی ہیں
اور حافظ ابن حجر عسقالنی اور ان کے شاگر ِد رشید قاسم بن قطلوبغا حنفی ،دونوں
حضرات نے کتاب اآلثار لمحمد کے رجال پر "االیثار بمعرفۃ رجال کتاب اآلثار" کے نام
سے کتابیں لکھی ہیں،
کتاب اآلثار کے متعدد نسخے یا ان کے کافی اجزاء "مسانید امام اعظم" کے مجموعے
"جامع المسانید" میں بھی شامل ہیں،
50
مثالً امام ابویوسف کے نسخے کی مرفوع روایات اور امام زفر وحفص بن غیاث کے
عالوہ دیگر حضرات کے نسخے بھی اس میں شامل کر دیے گئے ہیں۔
کتاب اآلثار کے مصنف اور مشہور نسخوں میں سے ایک نسخہ کا
تعارف
کتاب اآلثار امام ابوحنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کی حدیث پر وہ کتاب ھے جو آپ نے اپنے تالمذہ
کو امالء کروائی تھی اور اس کتاب کا انتخاب چالیس ھزار احادیث مبارکہ سے کیا ہے
اس کتاب کے مشہور نسخوں میں درج ذیل پانچ نسخوں کا ذکر ملتا ھے
*نسخہ امام زفر بن ھذیل*
*نسخہ امام ابو یوسف*
*نسخہ امام حسن بن زیاد*
*نسخہ امام حماد بن ابی حنیفہ*
*نسخہ امام محمد بن حسن الشیبانی*
ان پانچ نسخوں میں سے ہم تک جو باسند طریقے سے طبع ھو کر نسخے پہنچے وہ دو
ہیں
*امام ابویوسف اور امام محمد کے طریق سے*
اس پوسٹ میں ہم امام محمد بن حسن الشیبانی کے نسخے کا تذکرہ کریں گے کیونکہ
ہمارے ہاں یہی متداول اور مشہور نسخہ عام دستیاب ہے
*کتاب اآلثار بروایت امام محمد کے مصنف کا مختصر تذکرہ*
والدت 132ہجری میں ہوئی
آپ کا نام محمد بن حسن ھے
عالقہ واسط میں پیدا ھوئے
اور عالقہ رقہ میں قاضی رہے اپنے دور میں
آپ کے شیوخ حدیث
آپ کے شیوخ حدیث میں کثیر افراد ہیں جن میں سے چند مشہور کا تذکرہ ہم یہاں کرتے
ہیں
امام االئمہ فی الحدیث امام ابوحنیفہ
امام دار الہجرت امام مالک
امام المحدثین سفیان بن عیینہ
امام ابن جریج
سعید بن ابی عروبہ
مجتہد شام حافظ الحدیث امام اوزاعی
امام المحدثین عبد ہللا بن المبارک
امام فن الرجال سند المحدثین امام شعبہ بن الحجاج
اور اسکے عالوہ کثیر تعداد ھے جن سے آپ نے اخذ علم الحدیث کیا
51
اسی طرح یہ نسخہ *مسند الشام حافظ الحدیث امام محمد بن یوسف الصالحی کی مرویات
سے بھی ھے* اور ان کا امام محمد تک سلسلہ سند درج ذیل ہےقاضی عمر بن حسن نووی
وہ حافظ ابن حجر عسقالنی سے وہ تقی الدین عبد ہللا بن محمد سے وہ احمد بن ابوطالب
سے وہ محمد بن محمد بن عمر سے وہ محمد بن عبد الباقی سے وک ابوالفضل بن خیرون
سے وہ حسین بن علی الصیمری سے وہ ابراہیم بن احمد سے وہ محمد بن احمد سے وہ ابو
عامر بن تمیم سے وہ ابو سلیمان جوزجانی سے اور وہ امام محمد بن حسن سے اس نسخہ
کو کامل طور پر روایت کرتے ہیں
*دوسرے شاگرد امام ابو حفص الکبیر کی روایت سے ایک سند*
ان کی سند سے بھی کتاب اآلثار کو کثیر محدثین سے سماع کیا اور اسکو اپنی اسناد سے
آگے نقل کیا ہم یہاں صرف ایک سند کا ذکر کرتے ہیں جو شیخ االسالم حافظ الحدیث امام
ابن حجر عسقالنی رحمہ ہللا کی سند ھے اور ابن حجر عسقالنی باوجود شافعی المذہب
ھونے کے اس کتاب کو اپنی سند سے نقل کرتے ہیں
حافظ ابن حجر عسقالنی کی سند یہ ھے
ابو عبد ہللا حریری سے وہ قوام الدین اتقانی سے وہ احمد بن اسعد بخاری سے وہ حسین بن
علی سغناقی سے وہ محمد بن نصر بخاری سے وہ محمد بن عبد الستار کردری سے وہ
عمر بن عبد الکریم سے وہ عبدالرحمن بن محمد سے وہ نجم الدین حسین سے وہ ابو زید
الدبوسی سے وہ ابوحفص استروشی سے وہ حسین بن محمد سے وہ امام عبد ہللا الحارثی
سے وہ ابو عبد ہللا بن ابوحفص سے وہ اپنے والد ابو حفص سے وہ امام محمد سے اور وہ
امام ابوحنیفہ سے کتاب اآلثار کو نقل کرتے ہیں
یہ سب کچھ اس بات کی بین و واضح دلیل ھے کہ محدثین کا اس کتاب کے ساتھ خصوصی
اعتناء و لگاؤ رہا ھے اور وہ اسکو اپنی اپنی اسناد سے نقل کرتے رھے اور اس سے
استفادہ کرتے رھے
کتاب اآلثار پر محدثین کرام کا کام
اس کتاب پر محدثین نے مفصل شروحات و تراجم و تخریجات اور صرف اسکے رواۃ پر
مستقل کتب تحریر کی ہیں ہم چند ایک کا ذکر کر رہے ہیں حافظ ابن حجر عسقالنی نے
اس کے روات پر مستقل کتاب لکھی جس کا نام ھے *االیثار بمعرفۃ رواۃ اآلثار*
اسی طرح حافظ عسقالنی کے شاگرد عظیم حنفی محدث قاسم بن قطلوبغا نے بھی اس کے
رواۃ پر ایک کتاب لکھی ھے
اس کتاب کی ایک شرح حافظ الحدیث مجتہد منتسب سرخیل احناف امام ابو جعفر الطحاوی
نے لکھی ھے جو امام ابو سعد المسعانی جیسے محدث کہ مرویات سے ہے۔
محدثین کا کتاب اآلثار کی روایات سے کثرت سے دلیل پکڑنا
اس کتاب کی عظمت و افادیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ھے کہ امام بخاری نے اپنی
صحیح بخاری میں ایک معلق یعنی بالسند روایت نقل کی تو ابن حجر عسقالنی نے اسکی
سند کو کتاب اآلثار کے حوالے سے نقل کیا وہ لکھتے ہیں
*وصلہ محمد بن الحسن فی کتاب اآلثار عن ابی حنیفہ عن حماد عنہ بلفظ*
53
یعنی اس حدیث کو امام محمد بن حسن نے اپنی سند سے نقل کیا ھے (فتح الباری ج 12ص
)402
اسی طرح ایک اور حدیث کی تحقیق میں رقم طراز ہیں کہ
*واخرج محمد بن الحسن فی اآلثار عن ابی حنفیہ بسند لہ عن ابن عباس نحو ذلک*
یعنی امام محمد بن حسن نے کتاب اآلثار میں بسند ابی حنیفہ ابن عباس سے اسی طرح نقل
کیا ھے (فتح الباری ج9ص)811
اسی طرح ابن حجر عسقالنی نے الہدایہ کی احادیث کی تخریج کی جس کا نام ھے *الدرایہ
لتخریج احادیث الہدایہ* اس میں تقریبا پچاس سے زائد مقامات پر اسی کتاب اآلثار سے
حدیث کی تخریج کی ھے اور بہت سارے مقامات پر اسنادہ صحیح کہا ھے
اسی طرح حافظ الحدیث جمال الدین زیلعی نے بھی *نصب الرایہ* میں تقریبا ایک سو سے
زائد مقامات پر اسی کتاب اآلثار کی احادیث سے تخریج فرمائی ہے جو اس بات کا منہ
بولتا ثبوت ھے کہ کتاب اآلثار عند المحدثین و محققین و مخرجین و شارحین معتبر و مستند
کتاب ہے اور وہ باقاعدہ اسکو سماعت کرتے رھے اور دلیل کے طور پر اسکو اپنی اسناد
سے آگے نقل کرتے رھے اور اسکی روایات کو دلیل بناتے رہے۔
حوالے
( )۱منہاج السنة ،ج ،۴:ص ،۱۳۹ :بہ حوالہ :دفاع امام ابوحنیفہ ،ص ،۴۲ :و مقام
ابی حنیفہ ،ص( ۱۷ :اردو)
( )۲جامع علم البیان ،بہ حوالہ :دفاع امام ابوحنیفہ ،ص۶۶ :۔
)۳( انجاء الوطن مقدمہ ”اعالء السنن“
( )۴صدراالئمہ ،ج ،۱:ص۲۵۴ :
( )۵انجاء الوطن۔
( )۶دفاع امام ابوحنیفہ ،ص( ۹۰ :اردو)
( )۷دفاع امام ابوحنیفہ ،ص )۸( ۸۸ :انجاء الوطن
( )۹مقدمہ تاریخ ابن خلدون ،ص ۴۴۵ :بحوالہ :مناقب ابی حنیفہ ،ص۱۶۳ :۔
( )۱۰کشف الغمہ بسراج االمہ ،ص( ۶۴ :از :حضرت موالنا سید مہدی حسن
صاحب)
( )۱۱تلخیص االستغاثہ ،ص ،۱۳ :بحوالہ :مناقب ابی حنیفہ ،ص۱۲۵ :
( )۱۲آثار امام صاحب ،ص۳۶ :
( )۱۳االنتقاء ،ص ۱۳۰ :بحوالہ :مناقب ․․․ ص۱۰۹:
54
( )۱۴تاریخ بغداد ،ج ،۱۳:ص ،۲۴۵ :بحوالہ” :علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کا مقام و
مرتبہ“ (از :حضرت موالنا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہ)
( )۱۵آثار امام صاحب ،ص۱۳۶:
( )۱۶کشف الغمہ․․․ ص ،۵۹ :بحوالہ” :علم حدیث میں امام صاحب کامقام و مرتبہ“
ص۶:
( )۱۷اخبار ابی حنیفہ ،ص۳۶ :
( )۱۸الخیرات الحسان ،ص ،۶۰ :وانجاء الوطن
()۱۹تہذیب التہذیب ،ج ،۴:ص ،۲۴۴ :انجاء الوطن ،ص۳۱ :
( )۲۰عقود الجواہر ،ج ،۱:ص ،۲۳ :بحوالہ :دفاع ،ص۱۱۲ :
( )۲۱مناقب االمام اعظم ،ج ،۱:ص ،۹۵ :بحوالہ :علم حدیث میں ․․․ ص۸ :
( )۲۲توضیح االفکار ،ص ،۶۳ :بحوالہ :دفاع․․․ ص۱۱۷ :
( )۲۳مناقب موفق ،ج ،۱:ص ،۹۶ :بحوالہ :مقام ابی حنیفہ ،ص۱۱۶ :
( )۲۴تنقیح االفکار ،ص۶۵ :
()۲۵التقریب ،ص ،۵۱ :بحوالہ :دفاع ․․․ ص۱۱۷:
( )۲۶دفاع ․․․․ ص۱۱۷ :
( )۲۷الوصیة ،ص ،۶۵ :بحوالہ :پمفلٹ
( )۲۸دفاع امام صاحب ،ص۹۲ :
( )۲۹تأنیب الخطیب ،ص ،۵۶ :بحوالہ مقام ابی حنیفہ ،ص۱۴۰ :
()۳۰مقدمہ ابن خلدون ،ص ،۴۵۵ :بحوالہ :دفاع ․․․ ص۹۴ :
( )۳۱ترتیب المدارک ،ج ،۱:ص ،۱۸۸ :بحوالہ :ماہ نامہ ”دارالعلوم دیوبند“ ماہ رمضان
المبارک ۱۴۱۳ھ
( )۳۲ماہ نامہ ”دارالعلوم دیوبند“ سابقہ
)۳۳( انجاء الوطن ،ص۴۴ :
()۳۴معرفة علم الحدیث ،ص ،۱۱ :بحوالہ:ماہ نامہ ”دارالعلوم“
( )۳۵نشر العرف ،ص ،۱:بحوالہ :ماہ نامہ دارالعلوم“ مذکورہ ،ص۸ :
( )۳۶ترمذی شریف ،ج ،۱:ص ،۱۱۸ :بحوالہ :ماہ نامہ دارالعلوم سابقہ
( )۳۷ہدایہ کتاب القاضی
55
( )۳۸اعالم الموقعین،ج ،۱:ص ،۷۷ :بحوالہ :مسند االمام ابی حنیفہ ،ص۳۴ :
( )۳۹انجاء الوطن ،ص۴۰ :
( )۴۰اعالم الموقعین ،ج ،۱:ص ،۳۱ :بحوالہ :انجاء الوطن
( )۴۱مفتاح السعادہ ،ج ،۲۰:ص ،۱۱۷ :بحوالہ :ماہ نامہ مذکورہ
( )۴۲تاریخ بغداد ،ج ،۱۳ :ص ،۴۷۱ :بحوالہ ماہ نامہ مذکورہ
( )۴۳اتحاف النبالء المتقین ،ص ،۲۳۷ :بحوالہ ماہ نامہ مذکورہ
( )۴۴ماہ نامہ ”دعوة الحق“ عربی ،شوال ۸۴ھ (ایڈیٹر :حضرت موالنا وحید الزماں
کیرانوی ،نورہللا مرقدہ)
( )۴۵کشف الغمہ بسراج االمہ ،ص۱۱۴ :
( )۴۶دفاع امام ابوحنیفہ ،ص۷۶ :
( )۴۷دفاع ابوحنیفہ ،ص۱۱۵ :
( )۴۸عقود الجواہر ،ج ،۱:ص ،۲۳ :بحوالہ :دفاع ․․․ ص۱۱۲ :
( )۴۹بستان المحدثین ،ص۷۸ :
()۵۰مستدالت االمام ابی حنیفہ ،ص۴۲ :
( )۵۱دفاع ․․․․ ص( ۱۱۵ :اردو)
( )۵۲مقام ابی حنیفہ ،ص ،۱۳۹ :دفاع امام ابوحنیفہ ،ص ،۱۰۰ :کشف الغمہ․․․ ص:
،۵۳نصر المقلدین ،ص( ۱۹۱ :از حافظ احمد علی) ( )۵۳اشرف الجواب ،ص۱۷۴ :
ٰ
کبری للشعرانی ،ص ،۱۸ :بحوالہ :کشف الغمہ ،ص۵۸ : ( )۵۴میزان
( )۵۵انجاء الوطن ،ص۴۴ :
( )۵۶دفاع امام ابوحنیفہ ،ص۱۰۲ :