You are on page 1of 132

‫شرح ادب‬

‫عربی‬
‫( األدب العربی بین عرض و نقد مؤلفہ حضرت موالنا رابع حسنی‬
‫ندوی کا اردو ترجمہ)‬

‫مترجم‪ :‬شائق علی داور (متعلم‬


‫عالیہ رابعہ شریعہ)‬
‫؁‪۱۴۴۱‬ھ‪-‬؁‪۱۴۴۲‬ھ‬
‫؁‪۲۰۲۰‬ء‪-‬؁‪۲۰۲۱‬ء‬
‫بسم ہللا الرحمن الرحیم‬

‫مضامین‬
‫صفحا‬

‫شمار‬
‫نمبر‬
‫ت‬

‫األدب‪ :‬توطئة و تمهید‬

‫حقیقة األدب‬
‫العلم والفن واألدب ‪ :‬المعارف العقلیة‬
‫القسم العلمي‬
‫القسم الفني‬
‫الكالمیة وغیر الكالمیة‬
‫الفنون الجمیلة‬
‫األدب‬
‫األدب عمل عقلي‬
‫األدب عمل فني‬
‫األدب عمل كالمي‬
‫تعریف األدب‬
‫متى یوجد األدب‬
‫الوجدان ‪ :‬امتزاج األدب مع العلم‬ ‫بین الفكر و‬
‫الروح الفكریة في الكالم األدبي‬
‫األدب أدب خاص وأدب عام‬
‫النثر والنظم ‪ :‬األدب نثر ونظم‬
‫الروح الوجدانیة طبیعة للشعر‬
‫أمثلة من النظم الخالي من الروح الوجدانیة‬
‫طبیعةالنثر‬
‫الروح الوجدانیة في النثر‬
‫التنوع األدبي في النثر والنظم‬
‫بین اللغة واألدب‪ :‬اللغة ودرجاتها‬
‫الكالم البسیط‬
‫علم اللغة‬
‫من اللغة إلى األدب‬
‫النثر البسیط أوال واألدب ثانیا‬
‫مرحلة الشعر‬
‫مرحلة النثر الفني‬
‫كیف یتطور النثر البسیط إلى األدب‬
‫الشعر‪ :‬السجع والرجز والشعر‬
‫الشعر غنائي وتمثیلي‬
‫النثر‪ :‬النثر علمي وأدبي‬
‫سجع ومرسل‬
‫والنثر إنشائي وتوصیفي‬
‫والتوصیفي ھو تاریخ أدبي ونقد أدبي‬
‫بدایة النقد األدبي سابقة على بدایة التاریخ األدبي‬

‫التحلیل والنقد‬
‫األسلوب األدبي‪ :‬تحلیل العمل األدبي‬
‫األسلوب األدبي‬
‫جانبان مؤثران في األسلوب‬
‫الموضوعیة‬
‫الذاتیة‬
‫وال بد من الجانبین‬
‫وخصائصه‪ :‬ولألسلوب أربعة عناصر‬ ‫عناصر األسلوب‬
‫العاطفة‬
‫الفكرة‬
‫الخیال‬
‫الصورة اللفظیة‬
‫كیف تدرس النصوص األدبیة‬
‫الكلمات‬
‫الجمل‬
‫نوع األسلوب‬
‫الروح العامة‬
‫النسق‬
‫الموضوعات‬
‫مثال تطبیقي‪ :‬رسالة عبد الحمید الكاتب‬
‫الظاھرة والموضوع‬
‫نص الرسالة‬
‫شرح تحلیلي‬
‫اختالف األسالیب األدبیة‪ :‬تنوع األسالیب‬
‫األقسام الكبیرة‬
‫أمثلة النثر‬
‫أمثلة النظم‬
‫تأثیر الخصائص والعناصر‬
‫استكشاف شخصیة األدیب‬
‫اتجاھان أدبیان‬ ‫اتجاھان من إنتاج األدباء‪:‬‬
‫أدب األلفاظ‬
‫أدب المعاني‬
‫النثر الفني‬
‫الشعر‬

‫النماذج‬
‫نماذج العهد األدبي األول ‪ :‬من األدب الجاھلي‬
‫األدب یمثل الحیاة ویصورھا‬

‫األدب عند العرب األولین وشعرھم‬


‫الشعر‬
‫المعلقات‬
‫الحماسة والفخر‬
‫الغزل والتشبیب‬
‫الوصف‬
‫ویصف(امرؤ القیس) فرسه‬
‫تجارب الحیاة‬
‫شعر الصعالیك‬
‫یقول الشنفرى في المیة العرب‬
‫شعر الفكرة والتأمل في الحیاة‬
‫المدح واالستعتاب‬
‫الرثاء‬
‫تحلیل عناصر النماذج السابقة‬
‫العاطفة والخیال في شعر عنترة‬
‫شعر عمرو بن كلثوم وأثره في األدب‬
‫معلقة امرئ القیس‬
‫سمة الفكر في الشعر الجاھلي ومعلقة زھیر‬
‫وجدانیة الشعر الجاھلي وغنائیته وكالم النابغة والخنساء‬
‫نضج الشعر الجاھلي وكماله‬
‫عدم وجود الكتابة‬
‫النثر الفني في ذلك العصر‪ :‬النثر الفني وأقسامه‬
‫األمثال واألسجاع‬
‫الحكم‬
‫الوصایا والخطب‬
‫نماذج النثر الفني الجاھلي‪ :‬األسجاع‬
‫األمثال‬
‫الحكم‬
‫الوصایا‬
‫الخطب‬
‫مكانة ھذه النصوص من عصرھا‬
‫نضج العقلیة العربیة‬
‫میزة األدب الجاھلي‬
‫اعتناء العرب بأدبهم‬
‫نماذج عصر التحول واالنقالب‪:‬وھو عصر األدب‬
‫اإلسالمي األول‬
‫األدب في اإلسالم‬

‫النثر الفني في ھذا العهد‬


‫تأثیر القرآن الكریم‬
‫أسلوب القرآن‬
‫طریقة بین طریقتین‬
‫جمال العبارة وعذوبة الصوت‬
‫موافقته للنفسیة والوضع وتنوع عباراته حسب المقتضى والمعنى‬
‫الفخامة والرقة‬
‫الجمال الصوتي والتناغم‬
‫ضرب األمثال‬
‫تصویر المعاني والمشاھد‬
‫األقسام‬
‫فروق المعنى ودقائقها‬
‫صوتیة األلفاظ‬
‫التشریع‬
‫القصص‬
‫الموعظة والهدایة‬
‫تأثیر القرآن في األدب‬
‫نمو النثر وقوته‬
‫محمد رسول ہللا ﷺ ‪ :‬خیر نموذج ألدب النثر األدبي‬
‫كالمه نثر ولیس شعرا‬
‫خصائص كالمه وأصنافه‬
‫أبرز أقسامه األدبیة‬
‫األحادیث‬
‫أما أدبه المرسل فمثاله حدیثه ﷺ‬
‫أما تمثیالته فهي‬
‫األدعیة‬
‫وھذا دعاؤه في عرفات‬
‫أقواله السائرة‬
‫نماذج النثر الفني األخرى لهذا العهد‬
‫نصوص اآلخرین‬
‫الخطابة‬
‫العهود والعقود‬
‫الرسائل‬
‫الشعر‬
‫الغزل‬
‫الوصف‬
‫المدح‬
‫ونموذجه‬
‫الحماسة‬
‫الفخر‬
‫االستعطاف‬
‫الرثاء‬
‫النقائض‬
‫‪ :‬اختالط العرب بالعجم‬ ‫نماذج العهد المدنیة والحضارة‬
‫األدب في مرحلة أوسع وأجد‬
‫النثر والكتابة‬
‫رقي الكتابة وازدھارھا‬
‫تطور أسالیب الكتابة والنثر‬
‫فن الترسل‬
‫عبد الحمید بن یحیى‬
‫أسلوب عبد الحمید‬
‫ویقول في أثناءھا‬
‫عبد ہللا بن المقفع‬
‫تطعیم الكتابة العربیة‬
‫طریقته ونموذجه‬
‫بلوغ الكتابة إلى كمالها‬
‫المدرسة الثانیة وأسلوبها‬
‫خصائص الجاحظ ونماذجه‬
‫الكتابة بعد الجاحظ‬
‫ابن العمید وأسلوبه‬
‫المحافظة على األسلوب المزخرف‬
‫نبغاء ھذا األسلوب‬
‫المقامات‬
‫نموذج من مقامة الحریري‬
‫األسلوب الصناعي المموه‬
‫الخطابة‬
‫التوقیعات‬
‫الرسائل‬
‫العهد ‪ :‬مدى تأثیر األدب الجاھلي‬ ‫الشعر ونماذجه في ھذا‬
‫رقة وتنوع والتزام بدیع‬
‫الخیال والفكرة‬
‫تولید المعاني وبشار بن برد‬
‫ومن في الوصف والحماسة‬
‫أبو نواس‬
‫أبو العتاھیة‬
‫الوصف والتشبیهات وابن الرومي‬
‫الموشحات وعبد ہللا بن المعتز‬
‫تجوید المعنى وأبو تمام‬
‫طریق وسط وأبو عبادة البحتري‬
‫وقال یمدح الفتح ابن خاقان‬
‫الشریف الرضي‬
‫إیثار المعنى والتدقیق فیه‬
‫غلبة الفكرة والمعري‬
‫العاطفة وروعة األداء وأبو فراس‬
‫الشعر في األندلس‬
‫الرقة والخیال‬
‫نماذج شعراء األندلس‬
‫المعتمد بن عباد‬
‫ابن بقي‬
‫ابن عبد ربه‬
‫ابن ھانئ األندلسي‬
‫ابن زیدون‬
‫ابن خفاجه‬
‫نموذج من شعر العهد الفاطمي‬
‫األسلوب األدبي قبل النهضة الحدیثة‬
‫أسلوب الكتابة في ھذا العهد المتأخر‬
‫عهد الجمود األدبي‬
‫ومضات حیة‬
‫بعض نماذج من بالد غیر عربیة‬
‫الشعر في ھذا العهد‬

‫النهضة الحدیثة‬
‫بدء النهضة الحدیثة ‪ :‬مصر والشام‬
‫شخصیات أثرت في النهضة‬
‫تأثیر النهضة على األدب‬
‫ظهور الصحافة وتأثیرھا على أسلوب الكتابة‬
‫النشاط الصحافي‬
‫المقالة‬
‫القصة‬
‫رواج األدبین‬
‫مناھج الكتابة فیهما‬
‫الكتاب ونماذجهم‬
‫األغراض اإلسالمیة‬
‫أدب المهجر‬
‫وظیفة األدیب في نظرھم‬
‫أدب القصة والروایة‬
‫أدب الصحافة واإلذاعة‬
‫أدب الناشئة واألطفال‬
‫الخطابة‬
‫تأثیر األسلوب األجنبي على األسلوب العربي‬
‫الشعر والشعراء ‪ :‬قبل النهضة‬
‫بعض الومضات الشعریة‬
‫محمود سامي البارودي وبدأ النهضة‬
‫نبغاء النهضة‬
‫النماذج ‪ :‬شوقي‬
‫وله في الغزل‬
‫حافظ إبراھیم‬
‫النبغاء اآلخرون‬
‫نموذج من كالم الرصافي‬
‫ظهور النزعة الجدیدة في الشعر العربي‬
‫نماذج شعر عمر أبو ریشة‬
‫نموذج من شعر العقاد‬
‫اشتداد النزعة الجدید وخصائصها‬
‫شعر المهجر‬
‫نماذج الشعر الجدید‬
‫الطابع الدیني‬
‫نموذج من شعر األستاذ األمیري‬
‫األدب ‪ :‬توطئة و تمهید‪:‬‬
‫ادب نام ہے عقل و حکمت کا‪ ،‬شعور و وجدان کا‪ ،‬کاریگری اور فن کا‪ ،‬اس کی طرف‬
‫طبیعتیں مائل ہوتی ہیں ‪ ،‬ا ورلوگ اس کا سننا یا پڑھنا پسند کرتے ہیں۔‬
‫ادب کی پیدائش لوگوں میں اس وقت ہوئی جب ان میں خوبصوت خیاالت اور‬
‫احساسات پیدا ہوئے‪،‬اور جب انهیں اس بات کا علم ہوگیا کہ حسن نطق اور حسن کالم‬
‫کیسے کرتے ہیں ‪،‬اور بہترین الفاظ و کلمات کے پیرایہ میں اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی‬
‫کس طرح کرتے ہیں۔‬
‫جس طرح ادب نے زندگی پر اثر ڈاال اسی طرح زندگی نے بهی ادب کومتاثر‬
‫کیا‪،‬انسان نے اس سےفائده اٹهایا اور دوسروں تک اس کا فائده عام کیا‪ ،‬مختلف زمانوں‬
‫‪،‬قبیلوں اور زبانوں میں ادب نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے‪ ،‬مختلف زبانوں میں اس کی‬
‫عمده اور مؤثر مثالیں ملتی ہیں‪ ،‬عربی زبان ادبی ذخیروں اور نمونوں کے اعتبار سے تمام‬
‫زبانوں پر فضیلت رکهتی ہے‪ ،‬کیون کہ وه ایک طویل زمانہ سےلغات کائنات کا ایک حصہ‬
‫ہے اور قیامت تک رہے گی‪ ،‬اورچو نکہ آخری آسمانی دین (دین اسالم)اور کتاب الہی یعنی‬
‫قرآن مجید(جس میں نہ باطل آگے سے آسکتا ہے اورنہ پیچهے سے‪ ،‬جو خدائے باحکمت‬
‫و پر حمد کی طرف سے نازل ہوا ہے)عربی زبان میں ہے ‪ ،‬اس لئے عربی ادب کا دائره‬
‫وسیع ہوچکا ہے۔‬
‫لوگوں نے عربی کے عہداول میں ادب کے لئے ادب کا لفظ استعمال نہیں کیا ‪،‬‬
‫بلکہ اس کو“ مقالہ” یا “کالم ”کا نام دیا ‪،‬کبهی انهوں نے اس سے “کالم بیانیہ” مراد لیا‪،‬‬
‫کیونکہ اس کے اندرمعنی و مفہوم کی بہترین تشریح ہوتی تهی‪،‬اورکبهی“شعر” مراد لیا‬
‫جبکہ کالم میں قافیہ اور وزن کی پابندی ہو‪،‬اسی طرح دوسری مناسبتوں سے ادب کے‬
‫مختلف نام انهوں نےرکهے۔‬
‫عربوں نے کئی صدیوں کے بعد ادب کیلئے لفظ ِادب استعمال کیا‪ ،‬وه عہد قدیم میں‬
‫ایک دوسرے معنی کیلئے اس کا استعمال کرتے تهے‪ ،‬اور وه “دعوت” کا معنی تهااوراس‬
‫کهانے کوجس پر لوگ مدعو ہوں“مدعاة” یا “مادبۃ” کہتے تهے‪ ،‬اورجس کالم محمود ه کو‬
‫اختیار کرنے کی دعوت لوگوں کو دی جاتی تهی اس کو “مادبۃ” یا “ادب” کہتے تهے‪،‬‬
‫حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث میں ہے کہ ‪“:‬بے شک قرآن روئے زمین پر ہللا کا‬
‫“مادبۃ”(دسترخوان ) ہے ‪ ،‬لہذا اس کے مادبۃ سے علم حاصل کرو”‪ ،‬اور اسی طرح یہ سلسلہ‬
‫چلتا رہا یہاں تک کہ انهوں نے نثر اور شعرمیں سے ہر ایک کوجسمیں حسن ذوق کے ساته‬
‫ساته میالن قلب بهی پایا جائے“ادب” کہنا شروع کردیا۔‬
‫پهر یہ لفظ اس( خاص ) معنی میں عام ہوگیا اور شہرت حاصل کرلی‪ ،‬اورلوگوں کا‬
‫ادب کی طرف رجحان نہ صرف یہ کہ بڑھا بلکہ ساته ساته اس سے اشتغال میں بهی اضافہ‬
‫میں‬
‫ہوا‪ ،‬اوردیکهتے ہی دیکهتے ان میں ادب کی کثرت اور شہرت ہوگئی‪،‬ایسی صورتحال ٖ‬
‫ضرور تها کہ ہم ادب کی قدر و قیمت اور اس کے مقام و مرتبہ سے واقف ہوں‪ ،‬ہمیں معلوم‬
‫ہو کہ وه کیسے پروان چڑھا؟اس کی کتنی شاخیں ہیں؟ کن اجزاء سے وه مرکب ہے؟ اس‬
‫کا پڑھنا کیونکر ضروری ہے؟ اس کے حسن و قبح کی معرفت کیسے ممکن ہے؟ اس کے‬
‫نمونے اور منتخب نصوص کون کون سےہیں؟ اس طرح کے سواالت ہمارے ذہنوں میں‬
‫ہونے چاہئے۔‬
‫اس کتاب کی تمام فصلیں ان تمام چیزوں کا اختصار کے ساته احاطہ کرتی ہیں ۔‬
‫العلم والفن واألدب‬
‫المعارف العقلیة‬
‫انسان کو جو عقل کی صفت عطا کی گئی ہے یہ ایک ایسا امتیاز ہے جس کے ذریعہ‬
‫سے ہللا نے اس کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دی ہے‪ ،‬اسی خوبی کی وجہ سے انسان‬
‫اچهے اور برے کے درمیان فرق کو جانتا ہے ‪ ،‬اوریہ بهی جا نتا ہےکہ اسے کون سے کام‬
‫زیبا دیتے ہیں اور کون سے نہیں ‪ ،‬اسی کے ذریعہ سےوه اپنےتاثرات ‪ ،‬معلومات ‪ ،‬افکار‬
‫اور خیاالت کا تبادلہ کرتا ہے‪،‬اسی کے ذریعہ انسان جب ترقی کرتا ہے اور محنت کرتا‬
‫ہےتو وه تخلیق کرسکتا ہے اور علم کے میدان اور فنون و ادبیات میں آگے بڑھتا ہے‪ ،‬لہذا‬
‫اس کے ذریعہ سےانسان خود بهی مستفید ہوتا ہے اور دوسروں کو بهی فائده پہنچاتا ہے‪،‬‬
‫خود بهی متاثر ہوتا ہے اور دوسروں کو بهی متاثر کرتا ہے‪ ،‬اور یہ عقل ہی زندگی کے‬
‫بہت سے میدانوں میں انسان کی ترقی کا بہت بڑاوسیلہ ہے۔‬

‫القسم العلمي‪:‬‬
‫انسان کے عقلی علوم دو قسموں میں منقسم ہوتے ہیں‪:‬ان میں ایک قسم علمی ہے اور‬
‫دوسری فنی۔ جہاں تک علمی قسم کا تعلق ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف زندگی‬
‫کی حقیقتوں میں سے کسی ایک حقیقت کو ظاہر کرنا‪ ،‬یا زندگی یا کائنات سے متعلق حقائق‬
‫کوظاہر کرنا اور واضح کرنا ‪ ،‬اس علمی قسم کے اندر ڈاکٹری ‪ ،‬سائنس‪ ،‬انجینئرنگ اور‬
‫الجبرا وغیره کے ساته وه سارے علوم شامل ہیں جن کا مقصد اور کام صرف اور صرف‬
‫انسان کو اس کائنات کے حقائق میں سے کسی حقیقت سے واقف کرانا‪ ،‬یا اسےکسی انسان‬
‫کے سامنے ساده انداز میں پیش کردیناہے۔‬

‫القسم الفني‪:‬‬
‫ان علوم میں جو فنی قسم ہے اس کا مقصد معنی کے اندر قوت و جمال کے موقعوں‬
‫کو ظاہر کرنا‪ ،‬اور اس کو مؤثر اور خوبصورت انداز میں بیان کرنا ‪ ،‬اور انسانی شعور و‬
‫وجدان میں ہیجان پیدا کرنااور انسانی جذبہ کومہمیز کرنا ہے۔‬
‫الكالمیة وغیر الكالمیة‪:‬‬
‫قسم فنی علوم کالمیہ اور علوم غیر کالمیہ میں منقسم ہوتی ہے‪ ،‬اور وه اس لئے‬
‫کیونکہ اس قسم کو جاننے واال اس چیز کو بیان کرنے کے لئےجسے وه اپنے فن کے ذریعہ‬
‫بیان کرنا چاہتا ہے ‪ ،‬الفاظ اور عبارتوں سے مدد لیتا ہے‪ ،‬یا وه ان کی مدد نہیں لیتا ہےبلکہ‬
‫وه بیان کے ایسے طریقےاختیار کرتا ہےجو الفاظ اور عبارتوں کے عالوه ہوتے ہیں۔‬

‫الفنون الجمیلة‪:‬‬
‫جہاں تک ان علوم کا تعلق ہے جن کا جاننے واالان میں انسانی کالم یعنی الفاظ اور‬
‫عبارتوں کو استعمال نہیں کرتا تو یہ وه علوم ہیں جن کے اندرکالم انسانی کا استعمال نہیں‬
‫کیا جاتا ‪ ،‬بلکہ ان میں انسان ان طریقوں کا استعمال کرتا ہے جو انسانی طبیعت اورذوق کو‬
‫بر انگیختہ کرتے ہیں‪ ،‬خواه وه دست کاری ہو‪ ،‬یا نغمگی ہو‪ ،‬یا نقش و نگار ہو یا رنگ بهرنا‬
‫ہو‪ ،‬اس عمل میں بہت سے علوم جیسے موسیقی ‪ ،‬نقش نگاری ‪ ،‬تصویر نگاری اور اس‬
‫قسم کی مختلف صنعتیں اور دست کاریاں داخل ہیں۔‬

‫األدب‪:‬‬
‫جہاں تک علوم فنیہ کی پہلی قسم کا تعلق ہے‪،‬یعنی ان علوم کالمیہ کا جو اپنی توانائی‬
‫انسانی کالم سے لیتے ہیں اوران علوم کی کارکردگی کی بنیاد الفاظ اور عبارتوں پر ہوتی‬
‫ہے تو اسی قسم کا نام ادب ہے ‪ ،‬اور جو بهی کہانیاں ‪ ،‬خیاالت ‪ ،‬اشعار ‪ ،‬خطبے اور اس‬
‫طرح کی دوسری مختلف چیزیں ہم پڑھتے ‪ ،‬سنتے یا لکهتے ہیں سب ادب کہالتے ہیں۔ اور‬
‫یہی ادب اس کتاب میں ہمارا موضوع ہے ۔‬

‫األدب عمل عقلي‪:‬‬


‫ادب کے سلسلہ میں ایک بات یہ ہے وه ایک عقلی عمل ہے ‪،‬اور یہ عقلی سرگرمیاں وہی‬
‫عقل رکهنے والی مخلوق انجام دے سکتی ہے جسے انسان کہتے ہیں ‪ ،‬اور اس کا پورا‬
‫دارومدار انسان کی عقلی کاوش پر ہی ہوتا ہے۔‬

‫واألدب عمل فني‪:‬‬


‫دوسرے درجہ میں ادب کا شمار فنی علوم میں بهی ہوتا ہے ‪ ،‬اس لئے کہ ادب صرف اسی‬
‫پہلو سے راضی نہیں ہوتا کہ وه زندگی یا کائنات کی کسی حقیقت کوصرف ساده انداز میں‬
‫پیش کرے ‪ ،‬جیسا کہ علمی قسم میں ہوتا ہے بلکہ ادب قوت و جمال کے مقامات دیکهتا ہے‬
‫‪ ،‬اور جب بهی وه کائنات یا زندگی کی کسی صورتحال کو پیش کرتا ہے تو اس میں اس‬
‫بات کی کوشش کرتا ہے کہ انسانی شعور کو مہمیز لگائی جائے۔‬
‫األدب عمل كالمي‪:‬‬
‫تیسرے نمبر پر ادب فن کالمی بهی ہے ‪ ،‬جس میں الفاظ اور عبارتوں کی پابندی کی‬
‫جاتی ہے‪ ،‬یہ غیر کالمی فن نہیں ہے جیسے کہ تراشنا ‪ ،‬مصوری کرنا ‪ ،‬موسیقی ونغمگی‬
‫جو اپنی کارکردگی میں کالم انسانی سے بے نیاز ہیں اور مکمل خاموشی سے اپنا کام کرتی‬
‫ہیں۔‬

‫تعریف األدب‪:‬‬
‫لہذا ادب عقل انسانی کی ایک سرگرمی ہے‪ ،‬اور فنون کالمیہ میں سے ایک فن ہے‬
‫‪ ،‬اور ادب اس کالم کو کہتے ہیں جو شعراء ‪ ،‬خطباء‪ ،‬اہل قلم اور ان جیسے لوگوں سے‬
‫منقول ہو(جیسے ان کی تحریریں ‪ ،‬تقریریں اور اشعار وغیره) اور یہ کالم نازک خیاالت‬
‫اور لطیف احساسات پر مشتمل ہوتا ہے(اور اس کالم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ)یہ نفس انسانی‬
‫کی تہذیب کرتا ہے اور انسانی حس و شعور کے رقت پیدا کرتا ہے اور زبان کو بهی‬
‫سنوارتا ہے۔‬

‫متى یوجد األدب (ادب کب وجود میں ایا( یہ تاریخی اعتبار سے)‪ /‬انسان کا کالم کب‬
‫دائرهٔ ادب میں اتا ہے)( دونوں مفہوم ہوسکتے ہیں)۔‬
‫انسان کے جتنے فنون اور علوم و اداب ہیں ان سب کے دومصدر ہیں‪ :‬اس کے غور‬
‫کرنے صالحیت اور اس کے محسوس کرنے کی قوت۔ اور جب یہ دونوں چیزیں اس زندگی‬
‫و کائنات میں کام کرتی ہیں اور اس کا نتیجہ الفاظ کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے تو یہ دونوں‬
‫چیزیں ادب بن جاتی ہیں ‪ ،‬اسی وجہ سے یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ جب سے انسانوں‬
‫نے(خواه) کسی بهی زبان کے ہوں‪ ،‬اپنے خیاالت و احساسات کا نتیجہ و نچوڑ بیان کرنا‬
‫شروع کیاتها تب سے ادبی تخلیق بهی ہونے لگی (اور یہ کام تو بہت پہلے ہی ہوچکا تها‬
‫اب) خواه اس ادب کا کوئی حصہ ہمارے پاس پہنچاہو یا نہ پہنچا ہو۔ حقیقت یہی ہے کہ‬
‫ہمارے پاس جو کچه پہنچا ہے وه بہت ہی قلیل اور نایاب ہے(اس لئے کہ ابتدائے زمانہ میں‬
‫تدوین و کتابت کا چلن نہیں تها)۔‬

‫بین الفكر و الوجدان‬


‫امتزاج األدب مع العلم‬
‫علم اپنی توانائی اور زندگی خالص غور و فکر سے حاصل کرتا ہے ‪ ،‬اور ادب کا‬
‫مصدر اور سرچشمہ انسان کا وجدان اور شعور ہے ‪،‬اور دونوں الفاظ اور عبارتوں کے‬
‫اسلوب و پیرایہ میں ظاہر ہوتے ہیں‪ ،‬ان میں سے ہر ایک کا راستہ دوسرے سے مختلف‬
‫ہے‪ ،‬اسی طرح ان میں سے ہر ایک کا کام بهی دوسرے سے مختلف ہے۔ البتہ یہ دونوں‬
‫اپس میں بہت سی چیزوں میں ایک دوسرے کا تعاون بهی کرتے ہیں اور قریب قریب بهی‬
‫ہیں ‪ ،‬اورایک دوسرے پر اثر انداز بهی ہوتے ہیں‪ ،‬اس لئے ضروری ہے کہ ہم دیکهیں کہ‬
‫کس کی تاثیر زیاده قوی ہے ۔ اگر کسی بهی کالم میں فکری چهاپ فنی تاثیر پر غالب ہے‬
‫تو وه کالم علم سے زیاده قریب ہوگا۔ لیکن اگر علمی پہلو کے مقابلہ میں ادبی پہلو غالب و‬
‫قوی ہے تواس وقت کالم فن اور ادب سے زیاده قریب تر سمجها جائے گا‪ ،‬اور الگ الگ‬
‫موضوع کے اعتبار سے اس کے نام یا اصطالح رکهے جائیں گے۔‬

‫الروح الفكریة في الكالم األدبي‪:‬‬


‫ادبی کالم یا ادبی جملے کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وه علمی اور فکری روح سے‬
‫کبهی خالی ہو‪ ،‬خواه اس کے اندر فنی روح کتنی ہی طاقتور اورتیز کیوں نہ ہو۔ اسی وجہ‬
‫سےیہ ضروری ہے کہ ہم یہ دیکهیں (اور یہ ناقد کا کام ہے)کہ فکراور احساس کی روحوں‬
‫میں سے کون سی روح زیاده غالب ہے۔ اور اس کے ذریعہ ہم فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کالم‬
‫میں فن کا دائره کتنا ہے اور علم کا دائره کتنا۔‬

‫األدب أدب خاص وأدب عام‪:‬‬


‫اس بنیاد پر ناقدین کی یہ رائے ٹهہری کہ وه ادب کو دوقسموں میں بانٹ دیں ‪ :‬ایک‬
‫وه ادب ہے جس میں فنی چهاپ غالب ہوتی ہے اور ایک ادب وه ہے جس پر علمی رنگ‬
‫زیاده چڑھا ہوتاہے۔‬
‫پہلی قسم(جس میں ادبی چهاپ غالب ہوتی ہے)یہی اصالادب ہے ‪ ،‬اور اسے ادب‬
‫خاص کہا جاتا ہے‪ ،‬جبکہ دوسری قسم(میں بهی ادب کے کچه اثرات ہوتے ہیں اس لئے‬
‫اس) کو بهی توسعا ادب کہہ دیا جاتا ہے‪ ،‬اور ایسے کالم کو ادب عام کہا جاتا ہے ‪ ،‬جس‬
‫میں بہت سے ایسے ابواب داخل ہوتے ہیں جو بظاہر تو ایسا لگتے ہیں کہ وه خالص غیر‬
‫ادبی علوم وفنون ہیں جیسے کہ فلسفہ ‪ ،‬منطق ‪ ،‬مناظره او ر تاریخ وغیره ‪ ،‬لیکن در حقیقت‬
‫ان میں بهی ادبی شہ پارے ہیں ‪،‬لہذایہ علوم ادب عام میں داخل ہیں نہ کہ ادب خاص میں۔‬
‫جہاں تک ادب خاص کی بات ہے تو یہی اصال ادب کی نمائندگی کرتا ہے‪ ،‬اس میں‬
‫فنی روح غالب ہوتی ہے ‪ ،‬اور اس کے اندر پائی جانے والی روح پر ادبی روح غالب ہوتی‬
‫ہے۔ یہی وه ادب ہے جو ہمارے سامنے شاندار اور دالویز نمونے پیش کرتا ہے‪ ،‬جو لوگوں‬
‫کو پسند اتے ہیں اور جادو سا اثر کرتے ہیں‪ ،‬اور دلوں پر طاقتور اندا ز میں کام کرتے ہیں۔‬
‫یہی ادب جذباتی سرگرمیوں کا ‪ ،‬اور نرالی ‪ ،‬اچهوتی اورخیالی شکلوں کوبیان کرنے کا‬
‫حقیقی میدان ہے۔‬
‫النثر والنظم‬
‫األدب نثر ونظم‬
‫ادب کی شکل اور طبیعت (مواد)کے لحاظ سے اس کی اور بهی دو قسمیں بیان کی‬
‫جاتی ہیں ‪ :‬اور وه نثر اور نظم کی قسمیں ہیں۔ جہاں تک نثر کا تعلق ہے تو نثر وه کالم ہے‬
‫جو پهیال ہوا ہو اوراس کے اندر قافیہ اور وزن کی پابندی نہ ہوتی ہو‪ ،‬نثر کا دائر ٔه کار اور‬
‫میدان عمل اور ہراس متکلم اور بولنے والے انسان کیلئے وسیع ہے اور(اس میں ممارست‬
‫کرنااور اس کو اختیار کرنا)آسان ہے جو اپنے مافی الضمیرکی ادائیگی میں قدرت و‬
‫صالحیت رکهتا ہو۔‬
‫جہاں تک نظم کا تعلق ہے تو نظم کہتے ہینوه کالم جس کے اندر وزن اور قافیہ کی‬
‫پابندی ہو‪،‬اور ان دونوں دائره سے نکلنا اس کیلئے ممکن نہ ہو ‪ ،‬اگر شاعری ان دونوں کے‬
‫دائره سے باہر اجائے تو یہ منظوم کالم بهی نثر میں تبدیل ہوجائے گا‪ ،‬اور کالم سے اس‬
‫کے منظوم ہونے کی صفت زائل ہوجائے گی‪ ،‬منظوم کالم کیلئے مناسب اور بہتر یہ ہے‬
‫کہ اس کے اندر تعبیر کا حسن و جمال اور معنی کی قوت و تاثیر پائی جائے ‪ ،‬اور یہ صفت‬
‫منظوم کالم کی بنیادی صفت ہوتی ہے ‪ ،‬یہ بنیادی صفت اس کے اندر حسین وجدانی روح‬
‫پهونک دیتی ہے ‪،‬پهر اسی حسین وجدانی روح کی وجہ سے نظم کو شاعری کہا جاتا ہے۔‬

‫الروح الوجدانیة طبیعة للشعر‪:‬‬


‫شاعری کیلئے ضروری ہے کہ وزن اور قافیہ کی پابندی کے ساته ساته اس کے‬
‫اندر وجدانی روح اور فنی جمال کا چهاپ ہو۔اوراگر شاعری کے اندر یہ دونوں چیزیں نہیں‬
‫ہیں تو ایسا کالم اپنی شعری قدرو قیمت کهو دیتا ہے ‪ ،‬اور اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ‬
‫اس کو شاعری کے عالوه کوئی دوسرا نام دیں(جیسے ازاد شاعری وغیره)‪ ،‬اسی بنیاد پر‬
‫ہم دیکهتے ہیں کہ منظوم کالم جب شعری روح سے خالی ہوجائے اور اس کے اندر علمی‬
‫چهاپ زیاده ہوجائے تو وه اپنی اکثر تاثیر و قوت کهودیتا ہے ‪،‬اور محسوس کی جانے والی‬
‫تاثیر سے خالی ہوجاتا ہے ‪ ،‬اور ایسی صورت میں شاعری کے اندر صرف اور صرف‬
‫ایک تعلیمی فائده ہوتا ہے یا تعلیمی فائده سے ملتے جلتے اور بهی فائدے ہیں جیسے یاد‬
‫کرنے اور خالص پڑھنے کے فائدے۔ اور اس کی مثال ہم الفیہ ابن مالک اور اس کے عالوه‬
‫اس جیسی پڑھنے اور یاد کرنے کی کتابوں میں دیکهتے ہیں۔‬

‫أمثلة من النظم الخالي من الروح الوجدانیة‪:‬‬


‫ابن مالک ایک نحوی مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں‪:‬‬
‫کسی اسم کو مبتدا بنانا نکره کے استعمال سے نہیں ہوسکتا‪ ،‬جب تک وه اسم نکره(‬
‫تخصیص کا )فائده نہ دے ‪ ،‬جیسے ‪ :‬عند زید نمرة‪( .‬زید کے پاس ایک دھاری دار چادرہے)۔‬
‫اس مصرعہ کا فائده صرف اور صرف یہ ہے کہ طالب علم ایک نحوی مسئلہ سے‬
‫واقف ہوتا ہے اور اس کو یاد کرلیتا ہے ‪ ،‬بغیر اس کے کہ اس کے اندر شعری اور وجدانی‬
‫قدر و قیمت پائی جائے۔‬
‫ارض الدریدیۃ‪:‬‬
‫َم َع ِ‬
‫(‪)۱‬جو نہیں چاہتا کہ اس کے جوتے پهٹ جائے تو وه اس کوا پنے ہاتهوں میں اٹهالے‬
‫جب وه چلے‬
‫(‪ )۲‬اور جو یہ چاہتا ہے کہ اس کے پیر صحیح سالمت رہے تو جوتوں کا پہن لینا‬
‫پاوں رہنے سے بہتر ہے ۔‬
‫اس کیلئے ننگے ٔ‬
‫یہ دونوں مصرعے اس منظوم کالم کے مصرعے ہیں جو بے کار اور ڈھیلے ڈھالے‬
‫ہیں‪ ،‬شعری روح اور احساس سے خالی ہیں ‪ ،‬ان کے اور نثر کے درمیان صرف قافیہ اور‬
‫وزن کی پابندی کا فرق ہے۔‬
‫کسی دوسرے شخص نے کہا‪:‬‬
‫رات رات ہے اور دن دن ہے ‪ ،‬زمین ہے جہاں پر پانی اور درخت (پائے جاتے)‬
‫ہیں ۔‬
‫کالم منظوم میں وزن کی پابندی کی گئی ہے ‪ ،‬لیکن اس کالم کی نہ تو کوئی‬ ‫ِ‬ ‫اس‬
‫ادبی قدرو قیمت ہے اور نہ ہی اس کے اندر شعری قدر و قیمت پائی جا رہی ہے‪ ،‬اور نظم‬
‫میں اس طرح کا کوئی بهی کالم پایا جائے تو وه حقیقی شاعری کہالنے کا مستحق نہیں ہوگا‬
‫‪ ،‬اگر چہ اس منظوم کالم میں بهی تاثیر اور احساس کے عالوه کوئی نہ کوئی فائده ہو‬
‫(لیکن) کالم کیلئے تاثیر کا فائده یہ اس کیلئے مناسب ہے ‪ ،‬اور زیاده بہتر ہے کہ اس وقت‬
‫اس کالم کو صرف نظم کا نام دیا جائے ‪ ،‬فن شاعری نہ کہا جائے ‪،‬اور کبهی کبهی اس‬
‫منظوم کالم کا ایک تعلیمی فائده ہوتا ہے‪ ،‬اس لئے کہ ایسے کالم کے اندراس بات کی‬
‫صالحیت ہوتی ہے کہ بہت سے معانی کو چهوٹے اور مختصر جملوں میں جمع کردے ‪،‬‬
‫جن کو یاد کرنا اورذہن میں محفوظ کرلینا اسان ہوتا ہے ‪ ،‬قافیہ اور وزن یہ دونوں نفس ِ‬
‫انسانی میں میالن اور بڑھا دیتے ہیں کہ یہ اس کو پڑھے اور یاد کرے۔‬
‫جہاں تک حقیقی شاعری کا تعلق ہے تو یہی اس بات کی مستحق ہے کہ و ه فنی‬
‫کارکردگی کا حقیقی میدان ہو‪ ،‬جس میں بہت طرح کے احساسات و جذبات بیان کئے جاتے‬
‫ہیں اور یہی حقیقی شاعری (شعرکی) طاقتور نمائندگی بهی کرتی ہے‪ ،‬اور حقیقی شاعری‬
‫کے لئے یہی مناسب ہوتا ہے کہ وه اپنی فنی چهاپ کو قائم رکهے(اس کے اندر کمزوری‬
‫نہ انے دے)۔‬

‫طبیعةالنثر‪:‬‬
‫جہاں تک نثر کا تعلق ہے تواس کا دونوں میدانوں میں حصہ ہے ‪ ،‬اور نثر علمی‬
‫اور ادبی دونوں میدانوں میں یکساں کام کرتی ہے ‪ ،‬نثروزن و قافیہ کی پابندی سے خالی‬
‫ہوتی ہے ‪ ،‬تاکہ اس کے اندر وسعت ‪ ،‬کشادگی اور گنجائش پیدا ہوجائے اور زبان کے تمام‬
‫میدانوں میں(خواه وه منطق ہو ‪ ،‬فلسفہ ہو‪ ،‬علم کالم ہو)اور زیاده یہ کهل کر چل سکے‪ ،‬لہذا‬
‫نثر کبهی علمی چهاپ سے قریب ہوتی ہے ‪ ،‬اور کبهی نثر خالص فنی چهاپ کی طرف مائل‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬اور کبهی ایسا بهی ہوتا ہے کہ نثر کے اندر دونوں چیزیں برابر ہوتی ہیں۔‬

‫الروح الوجدانیة في النثر‪:‬‬


‫نثر کے اندر فنی اور وجدانی شکلیں بعض موقعوں پر زیاده ہوتی ہیں ‪ ،‬جو نثر کو‬
‫شاعری سے قریب تر بنادیتی ہیں‪ ،‬بلکہ ان کے ذریعہ نثر شاعری کا روپ دھار لیتی اگر‬
‫یہ نثر شعری قافیہ بندی اور وزن سے خالی نہ ہوتی ‪( ،‬جب ان شکلوں کا استعمال کیاجاتا‬
‫ہے )تواس حالت میں نثر شاعری کی طرح عمل کرتی ہے اور اس کا مشن انجام دیتی ہے‬
‫‪ ،‬لیکن اس طرح کی فنی نثر بہت کم ہوتی ہے‪ ،‬اور بہت کم کامیاب ہوپاتی ہے ‪،‬اور ایسی‬
‫فنی نثرمحدود اور خاص موقعوں میں استعمال کی جاتی ہے ‪ ،‬اور متعین مقصد کیلئے کی‬
‫جاتی ہے ‪ ،‬ادب عربی میں نثر فنی کی اس قسم کے بہت سے نمونے ہیں‪ ،‬اس کے سب‬
‫سے شاندار اور عمده نمونے قران کریم میں ملتے ہیں ‪ ،‬پهر اس کے نمونے دیگرادباء کی‬
‫تحریروں یا ان کے کالم میں ملتے ہیں۔‬

‫التنوع األدبي في النثر والنظم‪:‬‬


‫نثر اور نظم کے اندرعلمی خصوصیات اورفنی خصوصیات کے غالب ہونے میں‬
‫جو ادبی تنوع ہے اس کو دیکهتے ہوئے بعض ناقدین ادب کی یہ رائے ٹهہری کہ ادب کی‬
‫شکل کے اعتبار سے دو نہیں بلکہ چار صنفیں ہیں‪ :‬پہلی صنف نثر ہے ‪ ،‬اور یہاں پر نثر‬
‫سے مراد وه نثر ہے جس کے اندر شاعری کی کوئی خصوصیت نہ پائی جاتی ہو۔ دوسری‬
‫قسم وه شاعری ہے جس میں فنی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔‬
‫یہی ناقدین ان دو قسموں کے ساته ساته دیگر اور دو قسموں کا بهی تذکره کرتے‬
‫ہیں؛ جن میں پہلی قسم وه شاعری ہےجس میں شاعرانہ روح نہ ہو اور وه فنی خصوصیات‬
‫سے خالی ہو ‪ ،‬لیکن اس میں نظم (قافیہ اور وزن)کی پابندی ہو‪ ،‬ان کے نزدیک اس کو‬
‫شاعری کے مقابلہ میں منظوم نثر کہنا زیاده صحیح ہے‪ ،‬ان کے نزدیک چوتها نمبر اس نثر‬
‫کا اتا ہے جوشعری خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں یعنی اس کے اندر قوت وتاثیر ‪ ،‬چاشنی‬
‫و لطافت‪،‬اور ظاہری حسن و جمال کا ذخیره بهی پایا جاتا ہے ‪ ،‬لیکن یہ نثر نظم (قافیہ اور‬
‫وزن) کی پابندیوں سے خالی ہوتی ہے ‪ ،‬تاکہ (کہیں)اس کو شاعری کے اندر اس کاشمار(نہ)‬
‫کرلیا جائے ۔‬
‫بین اللغة واألدب‬
‫اللغة ودرجاتها‬
‫بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ زبان اور ادب دونوں ایک ہی چیز ہے ‪ ،‬اور بغیر‬
‫کسی لحاظ اور احتیاط کے ایک لفظ سے دوسرے لفظ کی ترجمانی کردیتے ہیں ‪،‬حاالنکہ‬
‫دونوں کے درمیان ایک فرق ہے ‪ ،‬اسی وجہ سے ہر وه چیز جس کو زبان کہا جاتا ہے ادب‬
‫نہیں ہوسکتی‪ ،‬ہاں یہ بات ضرورہے کہ جو ادب ہوگا اس کے اندر زبان بهی ہوگی ‪ ،‬اس‬
‫لئے کہ زبان کہتے ہیں مفردات کو اوران الفاظ کے مجموعہ کو ‪ ،‬جس کے ذریعہ ایک‬
‫انسان دوسرے انسان سے بات کرتا ہے تاکہ وه اس کے ذریعہ سےاپنے آراء و افکار (کسی‬
‫دوسرے شخص سے) بیان کرسکے ۔‬
‫ان الفاظ کے مجموعونمیں سے ایک مجموعہ کبهی تو علم کی ترجمانی کرتا ہےجبکہ‬
‫الفاظ کے ان مجموعوں کے اندر مفید فکری مواد موجود ہوں ‪ ،‬اور فنی پہلو سے بالکل‬
‫خالی ہو ‪ ،‬جیسے کہ حساب وغیره۔‬
‫اور کبهی الفاظ کا یہی مجموعہ ادب کی ترجمانی کرتا ہے‪ ،‬اس وقت اس کے اندر‬
‫موثر فنی مواد پائے جاتے ہیں ‪ ،‬اور یہ حسین و جمیل وجدانی تصویر وں کوبروئے کار‬
‫ٔ‬
‫التا ہے ‪ ،‬جس طریقے سے قصہ اورخطوط وغیره کے اندر ہوتا ہے ۔‬

‫الكالم البسیط‪:‬‬
‫کبهی الفاظ کا وه مجموعہ نہ تو علم ہو تا ہے اور نہ ادب ہوتا ہے ‪ ،‬کیونکہ یہ برابر‬
‫فنی اور علمی پہلو سے خالی ہوتا ہے ‪،‬اور اس وقت یہ ایک ساده اور ابتدائی کالم ہوتا ہے‬
‫‪ ،‬جس کو نثر بسیط یا ساده کالم یا صرف زبان کہا جا سکتا ہے۔‬
‫علم اللغة‪:‬‬
‫کبهی کبهی لفظ لغت الفاظ و کلمات کے مفردات پر بوال جاتا ہے‪ ،‬اور اس کا کام اس‬
‫کے مفرد معانی اور اس کے بدلتے ہوئے صیغوں پر محدود و منحصر ہوتا ہے ‪ (،‬اس‬
‫مرحلہ میں)اس کےکسی ایک مجموعہ سے جو تعبیر حاصل ہوتی ہے اس پربالکل توجہ‬
‫نہیں ہوتی ‪ ،‬اس وقت اس کو علم اللغۃ کہتے ہیں ‪،‬اور یہ زبان دیگر علوم کی طرح ایک فن‬
‫ہوجاتی ہے‪ ،‬جس کی مثالیں ہمیں ڈکشنریوں میں یا مفردات لغویہ کی کتا بوں میں ملتی ہیں۔‬
‫اس چیز کو ہم نہ نثر بسیط کہیں گے اور نہ خالص ابتدائی کالم کہیں گے۔‬
‫اب لغت کی دو قسمیں ہوگئیں‪:‬ایک قسم( کے ذریعہ ہم) الفاظ کے مفردات اور کلمات‬
‫(سے واقف ہوتے ہیں)‪،‬اور یہ علم اللغہ ہے ‪،‬اور دوسری قسم نثر بسیط اور خالص ابتدائی‬
‫کالم پر مشتمل ہے ۔یہ قسم علمی و فنی جمال کی ادائیگی کی طرف یکساں توجہ دینےسے‬
‫خالی ہوتی ہے ۔‬

‫من اللغة إلى األدب ‪:‬‬


‫ہر وه شخص جو یہ چاہتا ہے کہ کسی بهی زبان میں ادب کو سیکهے تو وه اوال اس‬
‫زبان کے ساده کالم کو سیکهتا ہے‪ ،‬اور ایسے ہی ان مفردات و کلمات سے جو جملے بنتے‬
‫ہیں ان کو سیکهتا ہے ‪ ،‬جب اس میں اس کی صالحیت تهوڑی بن جاتی ہے اور کچه سمجه‬
‫لیتا ہے تو پهر وه اگے بڑھتا ہے تاکہ ان جملوں کے معانی اور ان کے استعمال کرنے کی‬
‫جگہوں واقف ہو‪ ،‬جب وه اس مرحلہ کو سیکهتا ہے تو ادب کا متعلم اور طالب علم بن جاتا‬
‫ہے ۔ اس لئے یہ بات عقل میں انے والی نہیں ہے کہ شروع سے ہی ادمی ادب کے مرحلہ‬
‫میں داخل ہوجائے بغیر اس کے کہ وه زبان کے مرحلہ سے گذرے ۔‬
‫تمام عالمی ادبیات چاہے وه مٹ گئیں ہوں یا باقی ہوں‪ ،‬وه پہلے زبان کے ابتدائی‬
‫مرحلوں سے گذرتی ہیں‪ ،‬جب یہی زبانیں دھیرے دھیرے جمال اور کمال کی طرف پہنچتی‬
‫ہیں ‪ ،‬اور ان کو اد ا کرنے کیلئے مختلف اسلوب اختیار کئے جاتے ہیں تو یہ ادبیات کا‬
‫روپ دھار لیتی ہیں ‪ ،‬اور ان سے مختلف رنگ اور شعر و نثر اور علم و فن کی عمده عمده‬
‫شکلیں اور قسمیں نکلتی ہیں۔‬

‫النثر البسیط أوال واألدب ثانیا‪:‬‬


‫جب ہم تمام ادبیات کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ انسان سب‬
‫سے پہلے نثر میں ساده طرز تکلم سیکهتا ہے ‪ ،‬جس کو ہم نثر بسیط یا صرف زبان کہتے‬
‫ہیں۔ لیکن جب وه ترقی کرتا ہے‪ ،‬اور زبان میں اس کی صالحیت بن جاتی ہے ‪ ،‬اور اس‬
‫ک ے الفاظ پر اسے قدرت حاصل ہوجاتی ہےتواس وقت وه اس زبان کے ادب کے مرحلہ‬
‫میں داخل ہوجاتا ہے۔‬
‫مرحلة الشعر‪:‬‬
‫تاریخ سے یہ بات بهی ثابت ہے کہ کسی بهی زبان کے جاننے والے جب اس زبان‬
‫کے ادبی مرحلہ میں داخل ہوتے ہیں(ترقی کرتے کرتے پہنچتے ہیں) تو وه (عدد کے اعتبار‬
‫سے) شاعری کے مرحلہ میں پہلے داخل ہوتے ہیں‪ ،‬اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری انسان‬
‫کی فطری صالحیت سے قریب تر ہے ‪( ،‬دوسری بات یہ بهی ہے کہ) شاعری کے اندرترقی‬
‫یافتہ علمی و فکری پابندیاں نہیں ہیں ‪ ،‬اس لئے ایسے کالم والے کیلئے‪ /‬ایسے انسان کو‬
‫علم اور ثقافت میں کسی خاص درجہ کی ضرورت نہیں ہوتی‪ ،‬بلکہ اس کیلئے تو اس کا‬
‫صرف طبعی اور فطری سلیقہ اورذوق ہی کا فی ہوتا ہے ‪ ،‬اور یہ دونوں(انسان کا ذوق اور‬
‫اس کی فطری صالحیت) دنیا میں پائی جانے والی زبانوں میں سے کسی زبان سےمحض‬
‫معمولی معلومات کی بنیاد پر اس کیلئے کام کرتے ہیں ‪ ،‬پهر یہ دونوں اس کیلئے‪،‬اس زبان‬
‫کی مدد سے جس کو وه جانتا ہےادب کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔‬

‫مرحلة النثر الفني‪:‬‬


‫(اس کے بعد)جب انسان ادب اور علم میں وسعت پیدا کرتا ہے ( گہرائی و گیرائی‬
‫حاصل کرتا ہے)اور پڑھتا ہے اور لکهتا ہے (مطالعہ کرتا ہےاور نوٹ کرتا ہے ) اور اس‬
‫کی عقل میں اور اس کی سوچ میں وسعت پیدا ہوتی ہےتو ( اس مرحلہ کے بعد‪ /‬اس چیز‬
‫کے حاصل ہونے کے بعد) وه ادب کے دوسرے اقسام اوراصناف میں داخل ہوتا ہے (‬
‫جیسے نثر کا مرحلہ ہے ‪ ،‬کوئی قصہ نگار بنتا ہے ‪ ،‬کوئی مضمون نگا ر بنتا ہے ‪ ،‬کوئی‬
‫مقالہ نگار بنتا ہے ‪ ،‬کوئی صحافت کے کام کو انجام دیتا ہے‪ ،‬کوئی بچے کے ادب کو اختیار‬
‫کرتا ہے ‪ ،‬کوئی سفر نامے لکهتا ہے ‪ ،‬یہ سب اصناف ادبیہ ہے)تو اب شاعری کے ساته‬
‫ساته نثر فنی بهی وجود میں اجاتی ہے ( اس کی بہترین مثال عہد عباسی ہے ‪ ،‬جب علم و‬
‫فن نے ترقی کرکے اخری کمال کا درجہ حاصل کرلیا تها‪ ،‬تو جس طریقے کے شعراء‬
‫موجود تهے ویسے ہی ادباء تهے‪ ،‬ایک طرف ابو نواس ہیں ‪ ،‬بہتری ہیں ‪ ،‬متنبی ہیں ‪،‬ابن‬
‫الرومی ہیں ‪،‬معری ہیں ‪ ،‬ابو فراس الحمدانی ہیں ‪ ،‬تودوسری طرف ادباء میں جاحظ ہیں‪،‬‬
‫عبد الحمید کاتب ہیں ‪ ،‬عبد ہللا ابن المقفع ہیں جس طرح سے شعراء کو مقام حاصل تها اسی‬
‫طرح نثار یعنی ادباء کو بهی مقا م حاصل تها) اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب اس کے‬
‫افکار پختہ ہوتے ہیں‪ ،‬اور اس کی علمی و ادبی معلومات میں وسعت پیدا ہوتی ہے ‪ ،‬تو(‬
‫اس مطالعہ کے نتیجہ میں)اس انسان کی نثر اور اس کے ادب میں وسعت ‪ ،‬گہرائی اور‬
‫گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں ( نثر اور ادب) معلومات اور فکر سے مزین ہوتے ہیں‬
‫‪ ،‬اب ایسے انسان کی نثر نثر بدائی اور ساده کالم نہیں رہتا ‪ ( ،‬یہ بات طے شده ہے کہ)‬
‫کسی بهی امت میں یہ مقام نہیں اتا مگر بعد میں( فنی نثر کا جو مقام ہے ‪ ،‬وه تاخیر سے اتا‬
‫ہے ‪ ،‬فنی شاعری کا مرحلہ بعد میں اتا ہے)(تو گویا کہ یہ بات اب ثابت ہوگئی کہ)اس نثر‬
‫کا مرحلہ اس شاعری کے مرحلہ کے بعد ہی آتا ہے ‪ ،‬جس کو اپنے وجود کیلئے کسی بهی‬
‫قوم و ملت میں اسے ان تہذیبی اور لسانی ترقیات وکماالت کی ضرورت نہیں ہوتی‪ ،‬بلکہ‬
‫اس کیلئےصرف ذوق سلیم ‪ ،‬طاقتور شعور اور زنده احساس کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬اسی‬
‫وجہ سے ہم یہ دیکهتے ہیں کہ نثر فنی کا مرحلہ شاعری کے مرحلہ شروع ہونے کے‬
‫بعدہی شروع ہوتا ہے‪ ،‬پهر اس مرحلہ کے بعد شاعری اور نثر فنی دونوں ساته ساته بڑھتے‬
‫ہیں‪،‬پهر ان دونوں کے اندرزمانہ کے گذرنے کے ساته اور تجربوں کے اعتبار سے مختلف‬
‫فنی شکلیں بهی آجاتی ہیں اور ان کے ذریعہ سےیہ دونوں ترقی کرتے ہیں‪ ،‬اور یہ جدت‬
‫اور ندرت کی طرف بڑھتے رہتے ہیں‪ ،‬پهر ادب ان دونوں کے ذریعہ سے ذخیره اور‬
‫ترقی حاصل کرتا ہے۔‬

‫كیف یتطور النثر البسیط إلى األدب(ایک ساده کالم ادب میں کیسے‬
‫محول ہوتا ہے؟)‬
‫ّ‬
‫جب نثر بسیط کسی قوم میں ادب کی طرف ترقی کرتی ہے‪/‬آگے بڑھتی ہے‪ ،‬تو ایک‬
‫ہی چ هالنگ میں وہاں تک نہیں پہنچتی‪ ،‬بلکہ دھیرے دھیرے وه ادب کی طرف چلتی رہتی‬
‫ہے‪ ،‬اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نثر بسیط واال اپنے وجدانی تجربات کوبیان کرنا شروع‬
‫کرتا ہے‪،‬اور وه اپنے اندر ایک چهلکتا ہوا شعور اور اچها خیال محسوس کرتا ہے‪ ،‬ایسےہی‬
‫(مطالعہ کے بعد) وه اپنی زب ان اور اپنے ساده کالم میں اپنے تخیل اور احساس کی ترجمانی‬
‫کی گنجائش بهی پاتا ہے‪،‬تو وه اپنے کالم کے الفاظ میں تصرف کرتا ہے‪ ،‬اور الفاظ منتخب‬
‫کرتا ہے اور ایسے پیرایہ میں جمع کرتا ہے کہ پهر اس کا سننا اچها لگتا ہےاور اس کا‬
‫بیان کرنا مؤثر بهی ہوتا ہے‪ ،‬اور الفاظ کے زیر و بم اور جملوں کی نغمگی اور موسیقی‬
‫سے اور حسن پیدا کردیتا ہے۔یہ صورتحال ابتدائی مرحلہ میں سجع کے جملوں کے ساته‬
‫اسے حاصل ہوجاتی ہے‪ ،‬پهر اس کی یہ سجع بهی دھیرے دھیرے ترقی کرتی ہے‪ ،‬پهر‬
‫اس پر وزن اور قافیہ کی جو پابندیاں ہیں ان کو داخل کرتا ہے تب اس کا کالم پہلے‬
‫رجز(رزمیہ شاعری)بنتا ہے اورپهر شاعری کے مرحلہ میں آتا ہے۔‬
‫نثر بسیط نثر فنی میں اس وقت تبدیل ہوجاتی ہے جبکہ نثر بسیط واال اپنی معلومات‬
‫‪،‬علوم ‪،‬اور اپنی فنی ذہانت کے ذریعہ سےترقی کرتا ہے‪ ،‬اور اپنی صالحیت کو بڑھاتا ہے‬
‫تو پهر وه نثر فنی کے مرحلہ میں آتا ہے اوروه اپنے نثر کو مزین اور خوبصورت بناتا‬
‫ہے۔‬
‫الشعر‬
‫السجع والرجز والشعر‪:‬‬
‫سجع کا لفظ سجع الحمام والیمام(کبوتر اور فاختہ کی ایک خاص قسم کی آواز نکالنے)‬
‫ہے‪،‬زمانہ جاہلیت میں‬
‫ٔ‬ ‫سےماخوذ ہے‪،‬اس لئے کہ ان کی آوازوں میں سر اور نغمگی ہوتی‬
‫مسجع ادب اکثرنجومیوں کے ہاں پایا جاتاتها‪،‬کیونکہ وه اس کا استعمال اپنے متبعین اور‬
‫چاہنے والوں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے کیا کرتے تهے۔‬
‫رجز ‪:‬ان توقیعی(مختصرومؤثر‪،‬سلیم الترکیب‪،‬دقیق الفکر ) جملوں کو کہتے ہیں جو‬
‫لمبائی میں برابر ہوتے ہیں‪ ،‬فواصل (مسجعہ یا فواصل آیات)سےمشابہ ہوتے ہیں‪،‬اوران کا‬
‫استعمال رفتار و عمل کے موافق کیا جاتا ہےتاکہ چلنے والے اور کام کرنے والے کے‬
‫دل میں نشاط و چستی پیدا ہوسکے‪،‬اوالعرب اونٹوں کی حدی(ان کو ہنکانے اور تیز چلنے‬
‫پر اکسانے) کیلئے ان کا استعمال کرتے تهے‪،‬اس لئے کہ اونٹ رجز کے نغموں اوراس کی‬
‫موزونی و توقیعی عبارتوں کو سن کر اپنی رفتارتیز کردیتے تهے‪ ،‬اور ان سے بہت زیاده‬
‫متاثر ہوتے تهے‪،‬رجز کا فائده اونٹ کی رفتار سے مشابہ دوسرے کاموں میں بهی ہوتا‬
‫ہے‪،‬اور اس کی اٖ ثر آفرینی صاحب عمل پر بهی نظر آتی ہے‪،‬عربوں نے رجز پر بہت‬
‫زیاده توجہ دی‪،‬اور اس کو خو ش طبعی اور خوش ذوقی کاذریعہ بهی بنایا‪،‬رجز نے بہت‬
‫زیاده ترقی کی یہاں تک کہ بعد میں وه شاعری کی ایک قسم (رزمیہ شاعری)بن کر سامنے‬
‫آیا۔‬
‫شعر شعور سے ماخوذ ہے‪ ،‬جس کےمعنی انسانی وجدان اور اس اثرپذیری کے ہیں جسے‬
‫انسان کسی چیز کےمشاہده یااطالع یا دل میں پیدا ہونے والے احساسات اورجذبات کے‬
‫نتیجہ میں قبول کرتا ہے۔‬

‫الشعر غنائي وتمثیلي‪:‬‬


‫شاعری کی دو قسمیں ہیں‪ ۱:‬غنائی و ‪۲‬قصصی یا‪ ۱‬وجدانی و ‪۲‬تمثیلی(مثالیہ‬
‫شاعری)‪،‬جہاں تک غنائی شاعی کا تعلق ہے تو اس میں اس کا کہنے واال اپنی زندگی میں‬
‫پیش آمده واقعات و تاثرات کو بیان کرتا ہے‪ ،‬اس قسم کی شاعری کے قصیدے طویل نہیں‬
‫ہوتے ہیں‪،‬بہت کم ان کے اشعار علمی ‪ ،‬منطقی اور معقول ترتیب پر مشتمل ہوتے ہیں‪،‬قدیم‬
‫عربی ادب میں اس قسم کی شاعری کے اغراض و مقاصد میں حماسہ(جوش وولولہ)‪،‬فخرو‬
‫مدح‪ ،‬ہجوگوئی‪ ،‬مرثیہ نگاری ‪ ،‬نسیب اور ادب یہ سب شامل تهے‪ ،‬اور سب کے سب ایک‬
‫اسلوب پر تهے‪ ،‬پهر عربوں نے ترقی کی اور انهوں نے موشحات (وه قصیدے جو کسی‬
‫ایک قافیہ کی پابندی کے بغیر تیار کئے گئے ہوں‪ ،‬اور عام طور پر سات شعروں پر مکمل‬
‫ہوتے ہوں)ازجال(وه قصیدے جس میں عوامی زبان کا غلبہ ہو)اور بعض دوسری قسمیں‬
‫ائجاد کرلی۔‬
‫جہاں تک قصصی و تمثیلی شاعری کا تعلق ہےتو اسمیں اشیاء‪،‬حوادث اور واقعات‪،‬‬
‫قصصی (حکایتی)انداز اور معقول علمی ترتیب کے ساته بیان کئےجاتے ہیں‪ ،‬اس طرح‬
‫کی شاعری پہلے عربی عہد میں بہت ہی کم تعداد میں تهی‪،‬اسالم کی آمد کے بعد یہ پهر‬
‫سے ظاہر ہونے لگی‪،‬لہذا بعد میں عربوں کے وہاں ایک تمثیلی‪ ،‬تعلیمی اور قصصی‬
‫شاعری کا بهی اضافہ ہوگیا۔‬

‫النثر‬
‫النثر علمي وأدبي‪:‬‬
‫رہی بات نثر کی تو اس کی بهی دوقسمیں ہیں‪۱:‬علمی و‪۲‬ادبی‪،‬یا‪۱‬عام و‪۲‬خاص‪،‬علمی‬
‫قسم مقالہ‪،‬تاریخ ‪ ،‬سیرت ‪ ،‬مناظره اورتالیف وتحقیق وغیره پرمشتمل ہوتا ہے‪،‬اور ادبی قسم‬
‫وصف نگاری‪،‬افسانہ نگاری‪،‬قصہ گوئی‪،‬خطوط نگاری‪،‬خطابت‪،‬تخیل اور ان جیسی چیزوں‬
‫پر مشتمل ہوتا ہے‪ ،‬پہلے اس ادبی قسم کا دائره خطوط نگاری‪ ،‬خطابت اور بہت حد تک‬
‫افسانہ نگاری سے مشابہ خبروں‪،‬ضرب االمثال اور حکمتوں کو بیان کرنے تک محدود تها‪،‬‬
‫پهر بعد میں مرور زمانہ کے ساته سات ه اس کا دائره وسیع ہوگیا اور اس کے اغراض متنوع‬
‫ہوگئے۔‬

‫سجع ومرسل‪:‬‬
‫نثر ادبی کی دو قسمیں ہیں‪۱:‬نثر سجعی‪:‬جب کہ نثّار ہر دو فقرے یا اس سے زائد‬
‫میں قافیہ کا التزام کرے۔‪۲‬نثرمرسل ‪:‬جب کہ نثّار اس کا التزام نہ کرے۔لیکن ان دونوں قسموں‬
‫کے(ادبی ہونے کے)لئے ضروری ہے کہ یہ فنی خصوصیات یعنی فکر‪ ،‬وجدان ‪،‬خیال اور‬
‫بلیغ عبارتوں پر مشتمل ہوں۔‬

‫والنثر إنشائي وتوصیفي‪:‬‬


‫ادبی اصناف جن کو ادیب سب سے پہلے اپنی زندگی کے تجربوں سےحاصل کرتا‬
‫ہے‪ ،‬اور اس میں اس اپنے خاص تاثرات وافکار قلم بند کرتا‪،‬یا اس میں اپنے خیاالت یا‬
‫آراءبیان کرتا ہے‪ ،‬ایسے ادبی صنف کو ادب انشائی (تخلیقی ادب)کہتے ہیں‪،‬یہ(دراصل)اس‬
‫ادیب کےدل کی ادبی تصویر اور اس کی ایک فنی کاریگری ہوتی ہے‪،‬جس کے ذریعہ اس‬
‫کے خیاالت و تاثرات کا علم ہوتا ہے‪،‬اور اس مخصوص دائره میں اس سے استفاده بهی کیا‬
‫جاتا ہے‪،‬اور اس کا موضوع فقط اس کائنات یا زندگی کا کوئی تجربہ ہوتا ہے۔‬
‫لیکن ادیب ایک قدم اور بڑھاتا ہےاور اپنے ادب کی بیناد دوسرے کے ادب پر رکهتا‬
‫ہے‪،‬اور کسی دوسرے ادیب یا ادباء کی کارکردگی کواپنی ادبی کارکردگی کاموضوع بناتا‬
‫ہے‪،‬خواه (اس کا مقصد )ان(ادباءکی)کارکردگیوں کوجمع کرکے اورپیش کرکے ہویا ان‬
‫ک الے کرکےہو ‪ ،‬تو اس کی یہ کارکردگی توصیفی کارکردگی بن جاتی ہے ‪،‬اور اس ادب‬
‫کو ہم ادب توصیفی کہتے ہیں۔‬

‫والتوصیفي ھو تاریخ أدبي ونقد أدبي‪:‬‬


‫جب توصیفی ادب کا کام صرف ساده ادبی نصوص کو جمع کرنے‪ ،‬ان کو پیش کرنے‬
‫ان کی تاریخ اور ان کے اصحاب کی تاریخ بیان کرنے تک محدود ہوتا ہے‪،‬تو اس“ادبی‬
‫تاریخ”تاریخ کہا جاتا ہے‪،‬لیکن اگر اس کا کام ان (ادبی) نصوص کی تحقیق‪ ،‬ان پر اور ان‬
‫کے اصحاب پر نظر غائر ڈالنے‪،‬ان کی تنقید ‪ ،‬ان کے اسالیب بیان کے درمیان فرق کرنےاور‬
‫ان کی نظیروں(ان جیسی تحریروں)کے درمیان ان کی فنی قدر و قیمت متعین کرنے پر‬
‫مشتمل ہوتو ایسے ادب کو نقد ادبی کہتے ہیں۔‬
‫اسی وجہ سے ادب کے مؤرخ کا کام صرف ادبی نصوص کو جمع کرنے اور پیش‬
‫کردینے تک محدود ہوتا ہے‪،‬ا ور رہی بات ناقد کی تو اس کا کام ایک ادبی نص یا مختلف‬
‫ادبی نصوص پر علمی نظر رکهنا ہے‪ ،‬تاکہ وه اسے اس کے ذریعہ سے ان کے فنی محاسن‬
‫یا ان کی قباحتوں کا علم ہو سکے‪،‬اوروه ان کی نظیروں(ان جیسی تحریروں)کے درمیان ان‬
‫کی فنی قدر و قیمت متعین کرسکے۔‬

‫بدایة النقد األدبي سابقة على بدایة التاریخ األدبي‪:‬‬


‫رہی بات نقد ادبی کے آغاز کی توعربوں اور ان کے عالوه لوگوں کے ہاں اس کا آغاز‬
‫ادبی تاریخ سے پہلے ہوا‪،‬اس لئے کہ نقد ادبی اپنے باریک مفہوم میں نصوص کا مطالعہ‬
‫کرنے‪،‬اور ان اسالیب بیان کے درمیان فرق کرنے ایک فن ہے جو اپنی ترتیب و ترکیب‬
‫اورتجزیہ(اجزائے ترکیبیہ اصلیہ کی وضاحت)میں مختلف ہوتے ہیں‪،‬پهر اس کے بعد ادبی‬
‫تاریخ کا آغاز ہوتا ہے‪ ،‬لہذا یہ (ادبی تاریخ)ان تمام تصنیفات کوموضوع اور ترتیب کے‬
‫اسی ربط کے مطابق جمع کرتی ہے جس کی وضاحت اس (نقد ادبی)نے کی ہے۔‬
‫األسلوب األدبي‬
‫تحلیل العمل األدبي‪:‬‬
‫نقد ادبی چونکہ ادبی نصوص کے مطالعہ پر مشتمل ہےاور وه مختلف اسالیب بیان‬
‫کے درمیان فرق کرنے کا نام ہے اس وجہ سے وه ایک فن بن گیا ہے‪ ،‬اس فن کے ذریعہ‬
‫سے ہم کسی ادب کے محاسن یا نقائص کو جانتے ہیں‪ ،‬اس کے ذریعہ سے ہمیں یہ بات‬
‫معلوم ہوتی ہے کہ قوت و ضعف اور تنوع و اسلوب میں اس ادبی شہ پارے کا مقام کیا‬
‫ہے اور وه کس درجہ میں ہے‪،‬اسی فن تنقید کی وجہ سے ہم دیگر ادبی تخلیقات میں جو‬
‫(ہمارے سامنے)ادبی شہ پاره ہے اس کے مقام کی تعیین کرتے ہیں‪ ،‬یہ عمل اس ادب کی‬
‫فنی خصوصیات پر غور و خوض کرکےاور اس کے اسلوب کا جائزه لیتے ہوئےانجام پاتا‬
‫ہے۔‬

‫األسلوب األدبي‪:‬‬
‫اسلوب ادبی نام ہے ان ادبی اورفنی خصوصیات کے مجموعہ کا جن فنی اور ادبی‬
‫خوبیوں پر کسی بهی ادیب کے کام یا اس کی تخلیق کا دارومدار ہوتا ہے‪ ،‬یہ ادبی اور فنی‬
‫خصو صیات اس بات کی صالحیت رکهتی ہیں کہ وه اس ادب میں پائے جانے والی ادیب‬
‫کی شخصیت کی طرف اشاره کرے ‪ ،‬اور دوسرے جو ادبی نصوص ہیں ان کے درمیان‬
‫اس ادیب کی ادبی تخلیقات کا مقام کیا ہےاس کی تحدید کرتا ہے۔‬
‫جانبان مؤثران في األسلوب‪:‬‬
‫مختصراَََ یہ کہ اسلوب کے دو مؤثر اور عظیم پہلو ہیں اور مختلف جو اسالیب بیان‬
‫ہیں ان کی بنیاد بهی یہی دو چیزیں ہیں‪،‬اور یہ اختالف ان ہی دونوں سے پیدا ہوتا ہے ‪ ،‬اور‬
‫وه دونوں چیزیں‪:‬ادب کاموضوع(مواد کا پیش کرنا)اور اس ادب کو پیش کرنے والے کی‬
‫شخصیت ۔‬

‫الموضوعیة‪:‬‬
‫جہاں تک موضوعیہ کا تعلق ہے تو یہ وه ادبی مواد ہے جسے ادیب اپنی ادبی تخلیق‬
‫کے موضوع کے طور پر اختیار کرلیتا ہے‪،‬اور پهر ہر موضوع کا ایک خاص مزاج ‪ ،‬ذوق‬
‫اور ایک رنگ و آہنگ ہوتا ہے جس سے وه ایک دوسرے کے موضوع سے مختلف ہوتا‬
‫ہے اور ان ہی دونوں (ذوق اور رنگ و آہنگ )سے اس موضو ع کی عال متیں متعین ہوتی‬
‫ہیں‪ ،‬لہذا تاریخی موضوع یہ ادبی موضوع سے مختلف ہوتا ہے ‪،‬اور یہ تاریخی موضوع‬
‫علمی موضوع سے مختلف ہوتا ہے‪ ،‬اور اسی طرح جو تخیالتی مضامین ہیں ان کا انداز‬
‫خط و کتابت سے مختلف ہوتا ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا ہے‪ ،‬اور ان میں سے ہر‬
‫ایک موضوع کا ایک خاص مزاج ہے‪ ،‬مواد تخلیق کار کے اسلوب سے متاثر ہوتا ہےاور‬
‫یہ اس پر اثر بهی ڈالتاہے‪ ،‬اس اعتبار سے تخلیق کار کی شخصیت مواد سے مل جاتی‬
‫ہے(اس کے رنگ میں رنگ جاتی ہے)‪،‬اور اس موضوع میں ادیب کی ‪/‬تخلیق کار کی ادبی‬
‫صالحیت اپنا کام کرتی ہے‪،‬اس کے نتیجہ میں جو ادبی کارکردگی ہے وه بہت ہی طاقتور‬
‫اور صاف و شفاف انداز میں سامنے آتی ہے۔‬

‫الذاتیة‪:‬‬
‫ذاتیہ کہتے ہیں تخلیق کار ادیب کی اس شخصیت کوجو بہت سے موضوعات میں‬
‫سے کسی ایک موضو ع کا انتخاب کرتا ہے‪،‬اور پهر اپنی صالحیت اور اپنی ادبی مہارت‬
‫سے اس صنف میں تصرف کرتا ہے‪ ،‬اور پهر اس موضوع سے نئی ادبی تخلیق پیش کردیتا‬
‫ہے‪ ،‬اور اسی طریقے سے ہر ادیب کا اشعور ا ور تاثیر کے اعتبار سے اپنا ایک خاص‬
‫مزاج ہے‪ ،‬اور تفکر اور منظر نگاری کیلئے اس کا ایک خاص انداز ہوتا ہے‪ ،‬اور پهر اپنی‬
‫تخلیق اور کام کو پیش کرنے میں اسکی اپنی ایک صالحیت ہوتی ہے‪،‬ایسے ہی اس کے‬
‫اندر متاثر ہونے‪ ،‬سخت مزاجی اور نرمی کا بهی ایک خاص پیمانہ ہوتا ہےیہ تمام باتیں‬
‫ادیب کی تخلیق پر اثر انداز ہوتی ہیں‪ ،‬اسی اختالف کی وجہ سےایک ادیب کی تخلیقات‬
‫دوسرے ادیب کی تخلیقات سے الگ الگ ہوتی ہیں اگرچہ موضوع ایک ہی کیوں نہ ہو۔‬

‫وال بد من الجانبین‬
‫ہر ادبی تخلیق کیلئے ان دونوں پہلؤوں میں سے دونوں کا پایا جانا ضروری ہے‪ :‬کہ‬
‫مٹیریل اور مواد کو بهی دیکها جائے اور ادیب کیسا ہے اس کی ذات کو بهی دیکها جائے‪،‬‬
‫اگرچہ یہ دونوں (موضوعیت اور ذاتیت) تاثیر اور ضعف کے اعتبار سے ایک دوسرے‬
‫سے بدلتے ہیں‪ ،‬چنانچہ کبه ی کسی کے ادب میں موضوعیت (مواد)طاقتور ہوتی ہےاور‬
‫ادیب کی شخصیت دبی رہتی ہے اور ک بهی ادیب کی سوچ غالب رہتی ہے اور مواد دب جاتا‬
‫ہے‪ ،‬اسی وجہ سے ہمیں دو ادبوں میں اختالف نظر آتاہے جبکہ دوادب کے لکهنے والے‬
‫الگ الگ ہوتے ہیں اگرچہ موضوع ایک ہی ہوتا ہے‪ ،‬ایسے ہی جب موضوع الگ الگ‬
‫ہوجائیں تب بهی دونوں میں فرق ہوتا ہے اگرچہ دونوں کا لکهنے واال ایک ہی ہو۔‬

‫عناصر األسلوب وخصائصه‬


‫ولألسلوب أربعة عناصر‪:‬‬
‫ادبی اسلوب چار عناصر پر مشتمل ہوتا ہے‪،‬یہ چاروں ادبی تخلیق کے ارکان اور‬
‫اس کے بڑے ستون ہیں‪،‬اس ہر ادب کا دار و مدار اور اسی پر ادب کا ڈھانچہ ہے‪،‬اور‬
‫وه(چاروں عناصر)عاطفہ‪،‬فکره‪،‬خیال اور صورت لفظیہ ہیں۔‬
‫یہ طاقتور اور مؤثر محرکات ہیں جو ادیب کے موضوع پر اثر ڈالتے ہیں‪ ،‬ادیب زندگی یا‬
‫کائنات کسی صورتحال سے اپنے موضوع کا انتخاب کرتا ہے‪ ،‬خواه وه کسی حادثہ کی‬
‫وجہ سے ہو‪،‬یا اس کی اپنی کوئی رائے ہو‪،‬یااس کے دماغ میں کسی چیز کا تصور ہو۔‬
‫العاطفة‪:‬‬
‫جہاں تک عاطفہ کی بات ہے تو وه تخلیق کار ادیب کا ایک دلی تاثر ہے‪ ،‬وه کسی‬
‫چیز کو دیکهتا ہے اور اس پر مطلع ہوتا ہے تو اس کے دل میں اس چیز کے‬
‫رسپونڈ(جواب)میں ‪،‬اور اس سے متاثر و منفعل ہوکرایک قسم کا جذبہ پیدا ہوتاہے‪،‬جیسے‬
‫کہ رضامندی ‪ ،‬غصہ‪،‬محبت‪،‬ناراضی‪،‬خوشی اور غم ہے‪ ،‬اور اس کے عالوه انسان کے‬
‫بہت سے نفسیاتی پہلو ہیں‪،‬یہ تمام چیزیں اس شخص کو اس بات پر آماده کرتی ہیں کہ وه‬
‫ان (جذبات) کو ظاہر کرے‪،‬اور یہ اس کی تخلیق میں نمایاں ہوتا ہے‪،‬اور قاری یا سامع کو‬
‫ِاظہار جذبہ)کی بہت قدر و قیمت ہے؛ اس لئے‬
‫ِ‬ ‫متاثر کرتا ہے‪،‬اور فنی تخلیق میں اس (عمل‬
‫کہ عاطف ہ فنی تخلیق کو اپنے تیز رنگ میں رنگ دیتی ہے۔‬

‫الفكرة‪:‬‬
‫فکره کہتے ہیں ان افکار وخیاالت کو جوتخلیق کار ادیب کے ذہن میں اس کی ادبی‬
‫تخلیق کے وقت پیدا ہوتے ہیں‪،‬اور اپنے مرتبہ اور قوت کے اعتبار سے معانی کو مثقف‪،‬‬
‫منظم اور مرتب کرتے ہیں‪،‬پهر کسی منطقی و معقول شکل میں اس کی تصویر کشی کرتے‬
‫ہیں۔‬

‫الخیال‪:‬‬
‫خیال در حقیقت معانی کی ادائیگی کیلئے مؤثر و انوکهے انداز اور خوبصورت‬
‫تعبیر کی زبان ہے‪،‬جو مہارت و عبقریت پر داللت کرتی ہے‪ ،‬تخلیق کار اپنی ادبی تخلیق‬
‫میں ا س کا سہارا لیتا ہےاور اپنے ادبی حسن و جمال اور معنی کی قوت و تاثیر میں‬
‫اضافہ کرتا ہے‪،‬اور اس میں و ه کبهی مجاز کو حقیقت پر فضیلت دیتا ہے‪ ،‬اور کبهی‬
‫حقیقت کو مجاز پر‪ ،‬اسی طرح کبهی وه مبالغہ کو حقیقی صورتحال پر ترجیح دیتا ہے‪،‬‬
‫اور سادگی کو نزاکت سے زیاده مؤثر قرار دیتا ہے‪،‬یا استعاره ‪ ،‬تمثیل ‪ ،‬اور کنایہ کا‬
‫استعمال کرتا ہے‪ ،‬یااس سے پہلو تہی کرتا ہے۔‬

‫الصورة اللفظیة‪:‬‬
‫یہ ہرادبی تخلیق کے الفاظ اور عبارتوں کاایک لباس ہے‪،‬اور صورت لفظیہ(درحقیقت)‬
‫اس کے اندر ہوتی ہے‪،‬جس کے ذریعہ سے سامع یا قاری اس ادبی تخلیق کے معانی تک‬
‫پہنچ سکتا ہے‪،‬اور یہ(اس ادبی تخلیق کی) زبان کےالفاظ‪ ،‬جملوں ‪ ،‬ترکیبوں اور اس سے‬
‫متعلق چیزوں یعنی اس کی لفظی تعبیر اور شکلی ادائیگی ہر مشتمل ہوتی ہے۔‬

‫كیف تدرس النصوص األدبیة‪:‬‬


‫مذکوره عناصر کو مدنظر رکهتے ہوئے کسی بهی ادبی شہ پاره میں غور وخوض‬
‫کیا جاسکتا ہے‪ ،‬اوران عناصر کی طرف اس کی نمایاں عالمتوں اورہیئتوں کو لوٹاکراس‬
‫ک ے عناصر اسلوب میں بحث کی جا سکتی ہے‪(،‬اور اسی طرح ان عناصر کی طرف)اس‬
‫کی خصوصیات و لوازمات کو لو ٹاکر بحث کی جاسکتی ہے‪ ،‬اس کی خصوصیات و‬
‫لوازمات درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫الكلمات‪:‬‬
‫ادبی تخلیق کے اسلوب میں سب سے پہلے دیکهے جانے والی چیزادیب کے ذریعہ‬
‫برتے گئے الفاظ ہیں‪(،‬یہ دیکها جائے گا کہ)کیا وه الفاظ غیر مانوس ہیں یا واضح ہیں؟ لطیف‬
‫ہیں یا خشک ہیں؟کیونکہ ہر قم کار یا شاعر اپنے لئے الفاظ کا ایک مجموعہ خاص کرلیتا‬
‫ہے‪،‬اور اپنی ادبی تخلیق یا شاعری کرتے وقت اس کا سہارا لیتا ہے اور اس کاکثرت‬
‫سےاستعمال کرتا ہے۔‬

‫الجمل‪:‬‬
‫جہاں تک جملوں کا تعلق ہےتواس میں ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا یہ‬
‫طویل ہیں یا مختصر؟واضح ہیں یا گُن َجلک؟سجع اور محسنات پر مشتمل ہیں یا نہیں؟عام‬
‫حاالت میں ان کی کیا فطرت و طبیعت ہے؟‬

‫نوع األسلوب‪:‬‬
‫اسی طرح نوع اسلوب سے بحث کی جائے گی کہ آیا یہ صحافتی انداز ہےیا خطابی‬
‫انداز؟جذباتی ہے تا توصیفی؟اس میں صورتوں اور شکلوں کا غلبہ ہے یا افکار کا؟اس کا‬
‫رنگ کیا ہے؟ اور اس کی نوعیت کیا ہے؟‬

‫الروح العامة‪:‬‬
‫اس اسلوب کے اندر سے جو روح عامہ(عام جذبہ)سامنے آرہی ہے وه کیا ہے؟متانت‬
‫جذبہ قرار؟نیک فالی کا جذبہ‬
‫ٔ‬ ‫کی؟جذبہ جوش ہے یا‬
‫ٔ‬ ‫وسنجیدگی کی روح ہے یا طنز و مزاح‬
‫ہے یا بد شگونی کا؟باتوں میں صراحت ہے یا پهر مدارات یاگول مول باتیں کرنا یا اشارة‬
‫بات کہنا ہے؟‬

‫النسق‪:‬‬
‫اور(یہ بهی جاننا ضروری ہے کہ)کالم کی ترتیب کیا ہے‪ ،‬کیا ادیب مقدموں اور‬
‫دیباچوں میں اسہاب سے کام لیتا ہے یا پهر فورا اصل موضوع میں داخل ہوجاتا ہے؟کیا وه‬
‫ارباب اختصار میں سے ہے یا طوالت سے کام لینے والوں میں سے ہے؟‬
‫الموضوعات‪:‬‬
‫ان خاص موضوعات کو بهی جاننا چاہئےجن پر عموما ادیب کی تخلیق کا دار و مدار‬
‫ہوتا ہے‪،‬ہر ادیب کے کچه خاص موضوعات ہوتے ہیں جو اس کے نزدیک محبوب ہوتے‬
‫ہیں‪،‬او ر ان ہی پر طبع آزمائی کرتا ہے اور دوسرے موضوعات سےقریب(بهی) نہیں‬
‫ہوتا‪،‬اور ان کے سلسلہ میں گفتگو کرتا ہے‪،‬لہذا(ان کے انتخاب موضوعات میں خاص‬
‫رجحان کی وجہ سے)تم ان میں سے بعض کو قصہ نگار پاؤگے‪ ،‬بعض کو مقالہ نگار اور‬
‫بعض کو صحافی پاؤگے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔‬
‫یہی وه خصوصیات ہیں جن پر اسلوب کا دارومدار ہے‪،‬ان کے ذریعہ سے کسی بهی ادبی‬
‫تخلیق کی طاقت و قوت‪ ،‬ضعف و کمزوری‪ ،‬قدر و قیمت ‪ ،‬مستوی و معیار کو جانا جا‬
‫سکتا ہے‪،‬ان (خصوصیات)کو جان کر ہم کسی بهی تخلیق کار ادیب پر یہ حکم لگا‬
‫سکتے ہیں کہ وه اپنی تخلیق میں کتنا کامیاب ہے‪ ،‬اور (اس کا طریقہ ہے کہ )ہم دیکهیں‬
‫کہ اس ادبی تخلیق میں معانی کیا ہیں؟اور افکار کیاہیں؟پهرا ن معانی و افکار کو لوگوں‬
‫کے سامنے پیش کرتے وقت ان (معانی و افکار)کے اندر عاطفہ و جذبہ کیا ہے؟وه خیال‬
‫کیا ہے جو ان معانی و افکار میں ہم آہنگی پیدا کرتاہے ‪ ،‬اور ان کو ایک مقدار میں تشکیل‬
‫دیتا ہے جو اس کی قوت اور تاثیر میں اضافہ کردیتی ہے؟پهر وه الفاظ اور عبارتیں کیا‬
‫ہیں جن کا انتخاب ادیب نے اپنی اس تخلیق کو پیش کرنے کیلئے کیا ہے؟کیا یہ ادیب کی‬
‫مطلوبہ خدمت کی بجاآوری میں کامیاب ہیں یا اس کے ہر مطلب کی سچی تعبیر پیش‬
‫کرنے سے عاجز ہیں؟‬

‫مثال تطبیقي‬
‫رسالة عبد الحمید الكاتب‪:‬‬
‫یہاں پر ہم ادبی جائزه کی ایک مثال پیش کریں گے ‪ ،‬اور(جس شہ پاره کا ادبی جائزه‬
‫لیں گے)وه عرب کے بڑے ادیب اور قلم کاروں کے لیڈر عبد الحمید الکاتب(منشی)کا وه‬
‫ادبی و نثری شہ پاره ہے جو انهوں نےاپنے اہل و عیال کے نام ایک خط کی شکل میں اس‬
‫وقت تخلیق کی جب بنو امیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد کے ساته شکست سے دوچار‬
‫تهے‪،‬منشی عبد الحمید کے خطوط بہت ہی مؤثر ہوتے تهےاور اپنے زمانہ کے بہت ہی‬
‫مہذب اور طاقتور خطوط سمجهے جاتےتهے۔‬

‫الظاھرة والموضوع‪:‬‬
‫ظاہره اصل میں خط کا موضوع ہے‪(،‬اور عبد الحمید کاتب کے خط کا ظاہره )وه‬
‫خزاں دیده اور شکستہ صورتحال ہے جو اخیر اموی خلیفہ کو دشمنوں کے مقابلہ میں مسلسل‬
‫شکستوں سے دوچار ہونےکے بعد پیش آئی‪،‬ان کے ساته یہ منشی ادیب بهی تهے‪،‬جب ان‬
‫کو سابق غلبہ اور قوت ِرفتہ کی باز یابی کی کوئی امید نہ رہی‪ ،‬اور ان کی نگاہوں کے‬
‫سامنے فیصلہ کن شکست اور قتل کے عالوه کچه بهی نہ تها۔‬
‫(اس وقت)عبد الحمید اپنے وطن اقارب و اعزه کے نام یہ خط لکهتے ہیں ‪ ،‬اور اس‬
‫میں اپنی کبیده خاطری اور شکستہ دلی بیان کرتے ہیں۔‬

‫نص الرسالة‪:‬‬
‫حمد و سالم کے بعد‪ ،‬ہللا نے دنیا کو پسندیده و ناپسندیده چیزوں سے گهیر دیا ہے‪،‬لہذا‬
‫جس کی قسمت ساته دیتی ہےوه اس میں آرام پاتا ہے‪،‬اورجسے(دنیا)اپنے دانتوں سے کاٹ‬
‫دیتی ہے تو وه اس پر غصہ ہوتا ہوکر اس کی مذمت کرتا ہے‪،‬اور اس سے مزید کا مطالبہ‬
‫کرتے ہوئے شکوه کرنے لگتا ہے‪ ،‬ہمیں دودھ والی اونٹنی نے مزه چکهایا جسے(جس کے‬
‫دودھ کو) ہم نے میٹها سمجها تها‪،‬پهر وه بدک کر ہم سے سر کشی پر اتر آئی‪،‬اوراس نے‬
‫ہمیں الت ماری اور پیٹه کر چلی گئی‪،‬لہذا اس (کے دودھ )کی شیرینی نمکینیت میں تبدیل‬
‫ہوگئی ‪ ،‬اور اس کی رطوبت یابس میں بدل گئی‪،‬اور اس نے ہمیں(ہم)وطنوں سے دور کردیا‬
‫‪ ،‬اور بهائیوں سے جدا کردیا‪ ،‬گهروں سے فراق ہونے واال ہے اور پرنده دائیں جانب سے‬
‫بائیں طرف کو گذرنے واال ہے‪ ،‬میں نے تمہیں یہ خط اس حال میں لکها ہے کہ زمانہ ہمیں‬
‫تم سے دور کررہا ہے اور تم سے ملنے کا شوق پیدا کررہا ہے‪،‬اگر یہ آزمائش اپنی انتہا‬
‫کوپہنچتی ہےتو یہ ہماری اور تمہاری شناسائی اور تعلق کا آخری دن ہوگا‪ ،‬تو اگراب جو‬
‫تمہارے حاکم ہوں گے ان کاکوئی نوچ ڈالنے واال(سخت)ناخن ہم تک پہنچا(کارروائی اور‬
‫گرفتاری سے کنایہ)تو ہم تمہاری طرف گرفتاری کی ذلت کے ساته لوٹ کر آئیں گے ‪ ،‬اور‬
‫ذلت ایسی برائی ہوتی ہے جو لگی رہتی ہے (چنانچہ ان حاالت میں)میں اس ذات پاک سے‬
‫اعلی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل‬ ‫ٰ‬ ‫دعا سوال کررہاہوں جو ذات‬
‫کردیتا ہےکہ وه ہمیں اور تم کو ایسی محبت عطا کرے جو ہمیں ایسے مقام پر مالدے جو‬
‫تعالی دونوں جہان کا‬
‫ٰ‬ ‫پرامن ہواور جو جسموں اور مذاہب کی سالمتی کو جمع کردے ‪ ،‬ہللا‬
‫پالنہار ہے اور وہی سب سے زیاده رحم کرنے واالہے"۔‬

‫شرح تحلیلي‪:‬‬
‫‪ .1‬اس خط کے اندر جو جذبہ اور عاطفہ پهیال ہوا ہے وه یہ ہے کہ ماضی‬
‫میں جو عزت و مرتبہ اور مقام حاصل تها اس کے فوت ہونے پر حسرت و افسوس‬
‫اور مالل ‪ ،‬اور وه مس ائل و پریشانیاں اور اندیشے جن سے وه گهر گئے تهے ان کا‬
‫بہت ہی طاقتور احساس‪ ،‬اور ایسے ہی مستقبل میں ہر طرح کی عافیت و سالمتی‬
‫اور عزت و کرم فرمائی سےبالکل ناامیدی کا جذبہ و عاطفہ ہے۔‬
‫‪ .2‬یہاں پر فکره یہ ہے کہ اس خط کو لکهنے والے نے یہاں پر بہت ہی‬
‫صحیح اور سچا ان دازه کیا ہے‪ ،‬اور ایسے ہی بہت ہی باریکی اوردیانت داری سے‬
‫اس صورتحال کا ادراک کیا ہے جس سےوه دوچار تها اور جس میں وه گرفتار ہوگیا‬
‫تها‪(،‬اس صحیح صورتحال کے ادراک کے بعد)اس صورتحال اور احساس کی‬
‫ترجمانی بہت ہی دلکش تنظیم اور ترتیب کے ساته کی ہے‪،‬اور صاف انداز گفتگو‬
‫اختیار کرتے ہوئے ‪ ،‬باریک بینی اور امانت داری کے ساته ‪ ،‬یہاں تک کہ اسے اس‬
‫بات کی قدرت حاصل ہوگئی تهی کہ وه اپنے اندر کی چیز (احساسات و تاثرات)کو‬
‫بیان کرےاور اس کے ارد گرد کا جو ماحول ہے جو اس کے لئے سازگار نہیں ہے‬
‫اس کو بهی اس نے بیان کردیا ہے‪ ،‬اور لوگوں کے سامنے ان چیزوں کو پورے‬
‫زور و قوت اور سچائی کے ساته بیان کردیا ہے جن کو وه بیان کرنا چاہتا تها۔‬
‫‪ .3‬پهر قارئین کے سامنے یہ جذبہ ظاہر ہو اس کیلئے ضرورت تهی ایک‬
‫ایسے تخیل کی جو تصویر کشی کرنے واال ہوتاکہ وه اس جذبہ کو پیش کرے اور‬
‫اس کو واضح طور پر ‪ ،‬پوری قوت کے ساته اور اثر انداز ہونے والی کیفیت کے‬
‫ساته سامنے لے آئے ‪ ،‬لہذا اس نے تشبیہہ ‪ ،‬تصویر کشی اور مؤثر انداز بیان اختیار‬
‫کیا‪ ،‬تو اس نے دنیا کی اس اعتبار سے کہ دنیاخیر و شر دونوں کا مجموعہ ہے ‪،‬اس‬
‫اونٹنی سے تشبیہہ دی ہے جو بہت مانوس ‪ ،‬بڑی اطاعت گذار اور بالکل تابع تهی‪،‬‬
‫پهر یہی اونٹنی ایک دم سے پلٹ جاتی ہےاور سرکش ہوکر بدکنی لگتی ہے‪ ،‬اور‬
‫قلم کارنے اس ناپسندیده حالت کی بہت عمده تصور کشی کی ہے‪ ،‬یہاں تک کہ قاری‬
‫کو یہ خیال گذرنے لگتا ہے کہ جو بهی اس حالت سے دوچار ہوتا ہے اس کے لئے‬
‫ممکن ہی نہیں ہے کہ وه زندگی میں معمولی سی راحت اورکوئی اچهائی حاصل‬
‫کرسکے‪،‬اس لئے کہ زندگی کا انحصار دنیا پر ہے اور دنیا کی مثال اس اونٹنی کی‬
‫ہے جو سرکش ہوجائے اور بهاگنے لگے‪ ،‬ان تمام حاالت کو اس نے ایسے مؤثر‬
‫پیرایہ بیان میں بیان ک یا ہےجو بہت حسین وجمیل ہے اور پڑھنے والے کے دل و‬ ‫ٔ‬
‫دماغ کو حسرت و افسوس اور رنج و الم پر آماده کرتا ہے۔‬
‫‪ .4‬یہاں پر ادیب نے جوالفاظ کا جامہ اختیار کیا ہےوه بہت ہی بلیغ ‪،‬‬
‫دآلویز اور ایسے الفاظ پر مشتمل ہے جن میں کوئی سقم اور نقص نہیں ہے اورنہ‬
‫ہی اجنبیت ‪ ،‬غرابت اور تعقید ہے‪،‬ساده عبارت ہے (لیکن ترتیب ‪ ،‬ہم آہنگی اور‬
‫انسجا م کے اعتبار سے)گٹهی ہوئی ‪ ،‬مضبوط اور طاقتور ہے‪،‬یہ ایسا کالم ہے جو‬
‫اپنے ظاہری اور چهوٹے چهوٹے جملوں کے اعتبار سے شاعری نہیں ہے ‪،‬ہاں‬
‫شاعری کی روح اور اس کی اثرآفرینی اس کے اندر پائی جاتی ہیں۔‬
‫اختالف األسالیب األدبیة‬
‫تنوع األسالیب‬
‫ادبی اسلوب اہل ادب کے رجحان اور ان کی اپنی تخلیق میں کچه لوازمات اور مخصوص‬
‫عناصر کی پابندی سے بدلتے رہتے ہیں‪ ،‬ان میں سے ہر ایک اپنی طبیعت اور ذوق کے‬
‫مطابق عمل کرتا ہے‪ ،‬اور ان چیزوں کا استعمال کرتا ہے جو اس کے عمل میں تاثیر کی‬
‫روح پهونک دے۔ اسی وجہ سے انداز بیان مختلف ہوتے ہیں ‪ ،‬اور ادبی عمل بهی اتنے‬
‫متنوع ہوتے ہیں کہ ایک اسلوب دوسرے اسلوب سے بہت سی ادبی خصوصیتوں میں مشابہ‬
‫نہیں ہوتا‪ ،‬اور ان کثیر اور متنوع اسلوب کو گننا بہت مشکل ہے۔‬

‫األقسام الكبیرة‪:‬‬
‫البتہ یہ جو بہت سے اسالیب بیان ہیں یہ چند بڑی قسموں کے تحت جمع ہوتے ہیں‪،‬‬
‫پهر ان بڑی قسموں میں دوخاص طور پر معروف ہیں‪:‬پہلی قسم وه ہے جس کے اندر علمی‬
‫وفکری چهاپ غالب ہ وتی ہے‪،‬اور دوسری قسم وه ہے جسمیں ادبی اور فنی چهاپ غالب‬
‫ہوتی ہے جیسا کہ ہم نے اس کو پچهلے صفحات میں بیان کردیا ہے‪ ،‬ان ہی دونوں کو ادب‬
‫عام اور ادب خاص بهی کہا جاتا ہے۔‬
‫رہی بات علمی قسم کی تو اس سے مختلف اسالیب نکلتے ہیں جیسے کہ عام فہم‬
‫تاریخی اسلوب‪ ،‬سنجیده منطقی اسلوب اورخشک تعلیمی اسلوب‪،‬اور ادب خاص سے فنی‬
‫دلکش انداز نکلتا ہے‪ ،‬اسی طرح مہمیز لگانے واال ت قریری انداز‪ ،‬علم بدیع واال ادبی انداز‬
‫اور با مشقت استعمال کیا جانے واال مصنوعی انداز یہ سب ادب خاص سےنکلتے ہیں۔پهر‬
‫ان دونوں سے(ادب عام اور ادب خاص سے)ایک رواں اور عام فہم اسلوب بهی نکلتا ہےجس‬
‫میں نہ تو علمی چهاپ کی خشکی ہوتی ہے اور نہ ہی ادبی چهاپ کی چمک اور دمک‪،‬‬
‫نئے صحافی اسلوب کا تعلق اسی اسلوب سے ہے۔‬
‫أمثلة النثر‪:‬‬
‫ان تمام اسالیب کی مثالیں بهی ہیں اور نمونے بهی ہیں جو ہمارے ادبی ورثہ اور‬
‫خزانہ میں موجود ہیں‪ ،‬مثال کے طور پر حضرت علی ؓبن ابو طالب(المتوفی ؁ ‪۴۰‬ھ )کے‬
‫خطبے اور خطوط ہیں جو معنی کی لطافت ‪ ،‬رعنائی اور قوت و تاثیر سے مزین ہیں‪ ،‬ایسے‬
‫ہی لفظ کا حسن و جمال اور اس کی تاثیر بهی ہے اور ان باتوں کو بلیغ و فصیح اور تقریری‬
‫انداز میں پیش کیا ہے‪،‬اسکے بعد عربی تحریر و انشا کے امام عبد الحمید بن یحیی ہیں جن‬
‫کا انتقال؁ ‪۱۳۲‬ھ میں ہوا‪ ،‬یہ اپنے اس مؤثر اور بلیغ خطوط میں ممتاز ہیں جن خطوط‬
‫کے ذریعہ سے انهوں نےایک ایسے انداز‪/‬اسلوب کا آغاز کیاجس میں لفظ کی فصاحت کے‬
‫ساته ساته معنی کی اثر آفرینی بهی ہے‪ ،‬اوراس میں مخاطبت کاجو انداز ہے اس میں‬
‫مخاطب کے اقتضائے حال کی رعایت کی گئی ہے‪ ،‬اسی طرح مضمون کے اندر ترتیب‬
‫بهی ہے‪ ،‬ان کے بعد انشا پرداز اور ادیب عبد ہللا بن المقفع کا نمبر آتا ہے جن کا انتقال ؁‬
‫‪ ۱۴۲‬ھ میں ہوا ‪ ،‬یہ بالکل عام فہم اور ساده اسلوب میں لکهتے ہیں ان کے وہاں جذباتیت‬
‫نہیں ہے‪ ،‬ان کے اسلوب میں کم الفاظ کے ذریعہ سے طاقتور معانی بیان کئے جاتے ہیں‪،‬‬
‫اور ان کے اسلوب میں حکمت کو بیان کرنے اور اظہار رائے کی صالحیت ہوتی ہے‪،‬اس‬
‫کے بعد ابن العمید ہیں جن کا انتقال ؁ ‪ ۱۵۵‬ھ میں ہوا ‪ ،‬یہ وه ادیب ہیں جنهوں نے سب‬
‫سے پہلے عربی تحریر و انشا کے اندر صنعت لفظی کو داخل کیا‪،‬اور محسنات بدیع(علم‬
‫بدیع کی ایک شکل) میں اضافہ کیا‪ ،‬اس کے بعد عربی زبان کے بڑے ادیب ابو عثمان عمر‬
‫و بن بحر الجاحظ ہیں جن کا انتقال ؁ ‪۲۵۵‬ھ میں ہوا‪ ،‬انهوں نے اپنے لئےایک ایسا شفاف‬
‫اسلوب اختیار کیا جو سنجیده علمی چهاپ اور سنجیده ادبی چهاپ سے مرکب ہے‪ ،‬اسی کے‬
‫ساته ساته کالم کے جومخلتف اصناف ہیں تمام اصناف میں بہت ہی عمدگی اور بہتری کے‬
‫ساته استعمال کی صالحیت بهی رکهتے ہیں‪ ،‬اور یہ خاص طور پر حروف جر کے ذریعہ‬
‫سے تنوع پیدا کرتے ہیں ‪ ،‬اس کے بعد ابن قتیبہ الدینوری ہے جن کی وفات ؁ ‪۲۶۵‬ھ‬
‫میں ہوئی‪ ،‬ابن قتیبہ ایسے انداز میں لکهتے ہیں جس حسین اور دآلویز ادبی چهاپ تاریخی‬
‫اور علمی چهاپ پر غالب ہوتی ہے‪ ،‬ایسے ہی ابو الفرج االصفہانی ہیں جن کا انتقال ؁‬
‫‪۳۵۶‬ھ میں ہ وا تها‪ ،‬یہ اپنی کتاب “االغانی” میں ایسے اسلوب میں لکهتے ہیں جو بہتے ہوئے‬
‫پانی کی طرح رواں اور خوشگوار ہے‪ ،‬ایسے ہی حریری ہیں جن کا انتقال؁ ‪۵۱۶‬ھ میں‬
‫ہوا‪ ،‬یہ وہی ہیں جنهوں نے فن مقامات کو پیش کیایا ان جیسے لوگ(ان کے معاصر یا ان‬
‫کی روش پر چلنے والے لوگ)جنهوں ن ے (حریری بعد) زوال و انحطاط کی صدیوں میں‬
‫کتابیں لکهی(کیونکہ ان سب کا انداز ایک ہی ہےجس کو حریری نے پیش کر دیا تها)(اور‬
‫ان سب کا انداز یہ تها کہ)وه اس ادبی اسلوب میں لکهتے تهے جو مصنوعی تها اور ملمع‬
‫سازی کیا ہواتها‪ ،‬جس میں ادبی چٹکلے اور پر لطف نکتے بیان کئے جاتے ہیں‪ ،‬ان اسالیب‬
‫بیان کے اندرلفظ کی چمک دمک اور ظاہر ی رعنائی معنی کی سنجیدگی پر غالب آتی‬
‫ہے‪،‬اس طور پر الفاظ کے نیچے معنے کمزور پڑ جاتے ہیں اور معدوم ہونے کے قریب‬
‫پہنچ جاتے ہیں‪ ،‬اس کے بعد (عہد زوال کے اختتام ہی پر) بڑے مؤرخ عبد الرحمن ابن‬
‫خلدون ہیں جن کا انتقال ؁ ‪ ۸۰۸‬ھ میں ہواتها‪ ،‬انهوں نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں بہت‬
‫ہی آسان تاریخی اسلوب اختیار کیا ہے ‪ ،‬ایسا اسلوب جو ان کے تاریخی موضوع سے بہت‬
‫مناسبت رکهتا ہے‪ ،‬انهوں نےخوداپنے زمانہ کےعام چلن اور روش کے بر خالف ایسا‬
‫طریقہ اختیار کیاجو تاریخی ‪ ،‬عام فہم اور سہل تها۔‬

‫أمثلة النظم‪:‬‬
‫جہاں تک عربی شاعری کا تعلق ہے تو آپ دیکهیں گے کہ عربی شاعری بہت زیاده‬
‫وجدانی عناصر کی تابع ہوتی ہے‪،‬شاعری کے اندر ان وجدانی محرکات کی وجہ سے تاثیر‬
‫زیاده بہم پہنچتی ہےاور اس کے حسن و جمال میں اضافہ ہوتا ہے‪ ،‬البتہ عربی شاعری بهی‬
‫عناصر اسلوب کے اختالف کے تابع ہے‪ ،‬اس اختال ف کی وجہ سےشاعری کے اندر تنوع‬
‫پایا جاتا ہے اور کئی کئی مقاصد سامنے آتے ہیں‪ ،‬مثال کےطور پر آپ متنبی کی شاعری‬
‫کو پائیں گے کہ اسمیں فکری کد و کاوش (تخیالت) اور علمی بالغت کا غلبہ ہے‪،‬اسی طرح‬
‫آپ ابو فراس الحمدانی کی شا عری کو دیکهیں تو آپ کو جوش مارتاہوا جذبہ غالب نظر آئے‬
‫گااور اس کے اندربیان کی لطافت بهی پائی جاتی ہے‪،‬اس کے مقابلے میں آپ عہد جاہلی‬
‫کے عظیم شعراء کےکالم کو دیکهیں تو آپ پائیں گے کہ ان کے اندر انداز بیان کی پختگی‪،‬‬
‫شاندار اور پرشکوه الفاظ‪،‬معنی کی سادگی اور طاقتور اسلوب موجود ہیں‪ ،‬جہاں تک اسالمی‬
‫عہد کے شاعروں کے کالم کا تعلق ہے تو عام طور پر ان کا اسلوب بہت عام فہم‪ ،‬عمده‬
‫تعبیر اور دلکش عبارتوں سے مزین ہے۔‬

‫تأثیر الخصائص والعناصر‪:‬‬


‫اس اختالف اورتنوع کی وجہ یہ ہے کہ جو تخلیق کار ادیب ہےکبهی تو اس پرعاطفہ‬
‫غالب ہوتا ہےیعنی جوش و جذبہ یافخر و مباہات یاعشق و محبت یا درد و غم یا فرحت و‬
‫خوشی یا غصہ و ناراضی‪،‬اور کبهی ایسا بهی ہوتا ہے کہ تخلیق کار ادیب پر سنجیده و‬
‫بهاری بهرکم تخیالت غالب آجاتے ہیں یااس پر خشک اور گہری فکر کا غلبہ ہوجاتا ہے‪،‬‬
‫اور کبهی اس پر ایسا خیال غالب آج اتا ہے جو چیزوں کی تصویر کشی کرتا ہےاور حسن‬
‫و جمال کے ساته نئی تخلیق پیش کردیتا ہے‪ ،‬اور کبهی کوئی شاعر یا ادیب ایسا ہوتا ہے‬
‫جو عبارت کو حسین بنانے پر توجہ دیتا ہےاور پرشکوه الفاظ کے انتخاب پر غور کرتا‬
‫ہے‪ ،‬اور کبهی ایسا بهی ہوتا ہے کہ لفظوں کے استعمال کی جگہ پر حروف کا استعمال‬
‫زیاده کرتا ہے‪،‬اور کبهی تخلیق کار ادیب ساده اور عام تعبیر استعمال کرتے ہیں یابہت سے‬
‫ایسے بهی ہیں جو الفاظ کے شکوه اور تعبیر کی رعنائی کی طرف توجہ دیتے ہیں اور بہت‬
‫سے ایسے بهی ہیں جو مترادف کے استعمال کی پابندی کرتے ہیں یا بہت سے ایسے بهی‬
‫ہیں جو اپنی عبارتوں کی بنیاد چهوٹے چهوٹے مسجع جملوں پر رکهتا ہے یا(جملوں‪ ،‬الفاظ‬
‫یامعانی کے اعتبار سے)مکررات کا استعمال کرتا ہے‪،‬یا وه آزاد اور رواں جملوں پر اکتفا‬
‫کر لیتا ہے۔‬
‫لہذا (اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ)ہر ادیب کا ایک خاص ذوق یا اس کا اپنارجحان‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬یا اس کی ایک خاص عادت ہوتی ہے‪ ،‬اور بہت کم امید ہوتی ہےکہ وه اس سے‬
‫خالصی پاجائے‪ ،‬اسی طریقے سے وه اپنے آپ کو ان محرکات اور اثرات سے بچا نہیں‬
‫سکتا ہے جو اس کو گهیرے ہوئے ہوتے ہیں (ماحول مراد ہے)یعنی اس کے سماجی اور‬
‫اقتصادی حاالت اوراس کا سیاسی ماحول۔‬

‫استكشاف شخصیة األدیب(ادیب کی شخصیت کی پہچان)‬


‫اسلوب کی خصوصیات ‪ ،‬اس کے ادبی عناصراور فنی ادب پاروں کے مطالعہ سے‬
‫آپ ادیب کی شخصیت کو بهی جان سکتے ہیں جو اس کی ادبی تخلیق میں چهپی رہتی ہے‪،‬‬
‫اس لئے کہ ادیب کی تخلیق اس کی انسانی اور ادبی دونوں طرح کی شخصیت کے خد و‬
‫خال کا سچا ادبی آئینہ ہوتی ہے۔‬

‫(ادباء کی تخلیق میں دو طرح‬ ‫اتجاھان من إنتاج األدباء‬


‫کے رجحان)‬
‫اتجاھان أدبیان‬
‫اصحاب نصوص یا وه لو گ جو اپنا ایک ادبی اسلوب رکهتے ہیں ان کو ہم دیکهتے‬
‫ہیں کہ یہ اپنی ادبی تخلیقات کی تاریخ میں دو بڑے ادبی رجحان میں بٹے ہوئے ہیں‪ ،‬ایک‬
‫رجحان معنی کا ہے اور ایک لفظ کا۔‬

‫أدب األلفاظ(لفظوں کا ادب یعنی وه کالم جس میں شعراء یا ادباء نے الفاظ‬


‫پر توجہ زیاده دی)‪:‬‬
‫جو الفاظ والے ہیں وه اپنی ادبی تخلیق میں الفاظ کی شکوه اور لطافت پر توجہ دیتے‬
‫ہیں‪ ،‬کہ عبارت کے اندر حسن و جمال پایا جائے ‪ ،‬اور اسی طریقے سے اس بات پر توجہ‬
‫دیتے ہینکہ لفظ کے اندر تاثیر پیدا ہوبمقابلہ اس کے کہ وه معانی کے اندر کوئی جدت اور‬
‫نیاپن یا اس کے انتخاب پر توجہ دیں‪ ،‬اور لوگ بهی ( ایسی ان کی تعداد بهی ہوتی ہے کہ‬
‫وه) اپنے اپنے زمانے میں ایسے ادب کو پسند بهی کرتے ہیں اور ذوق و شوق سے اس کو‬
‫لیتے ہیں اور اس سے متاثر بهی ہوتے ہیں‪ ،‬ادبیات مینجتنی صنفیں ہیں جو ان صدیوں میں‬
‫( قریبی عہد یا جس زمانہ کے لوگ اس قسم کے ادب کو پسند کرتے ہیں جس میں لفظ کے‬
‫پہلو پر توجہ دی جاتی ہے) میں رائج ہیں ان میں شاعری کی جو صنف ہے یہ سب سے‬
‫زیاده مقبول اور رائج ہے۔ تو (ایسے ماحول اور ایسے زمانہ میں ) شاعری کی مقدار زیاده‬
‫ہوتی ہے اور پهر اس کا اثر انسان کے دل ودماغ پر بہت زیاده پڑتا بهی ہے‪ ،‬جہاں تک نثر‬
‫کا تعلق ہے (تو ایسے ماحول میں جب بهی اس کا اغاز ہوتا ہے) تو وه ساده اور نیا نیا ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬اور ابهی تک وه گویا کہ ادبی اور فن کے مرحلہ میں نہینایا ہے‪ ،‬اور ( اس زمانہ میں‬
‫) نثر کا کوئی حصہ مقبول نہیں ہوا مگر جو شعری ادب کے مشابہ ہوصوتی حسن میں(جب‬
‫گویے کی اواز اخری حروف پر ٹوٹتی ہے ‪ ،‬تو اس اخری حرف پر اواز کے ٹوٹنے سے‬
‫جو نغمگی پیدا ہوتی ہے اس کو ایقاع کہتے ہیں) اور جو صوتی زیر و بم ہے اس میں مشابہ‬
‫ہو( نبره کہتے ہیں ٹون (‪ ) Tone‬کو ‪،‬لہجہ کو‪ ،‬زیر وبم بهی ترجمہ کر سکتے ہیں کہ‬
‫شاعری کو اگر گنگناکر پڑھتا ہے‪ ،‬اسی لئے اپ دیکهیں گے کہ شاعری کیلئے انشد کا لفظ‬
‫اتا ہے‪ ،‬عہد جاہلی میں قصیدے پڑھ کر سنائے جاتے تهے ‪ ،‬اگر شاعر کی اواز اچهی نہیں‬
‫ہے تو ایسے لوگوں کو الیا جاتاتها جن کی اواز اچهی ہوتی) جیسے کہ خطابت ہے یا مسجع‬
‫موثر انداز میں ادا کیاگیا ہو‪ ،‬عربی ادب کی تاریخ مینادب‬
‫جملے ہیں‪ ،‬یا وه عبارتیں جن کو ٔ‬
‫کی اس صنف کا زمانہ وه عہد جاہلی اور اسال م کا ابتدائی زمانہ ہے‪ ،‬جہاں تک ان صدیوں‬
‫میں شاعری کا تعلق ہے تو یہ بہت ہی فنی اور شاندار نمونے سے ماال مال تهی‪ ،‬وه نمونے‬
‫موثر اور طاقتور تهے‪ ،‬اور ان میں ایک اثر اورجادوبیانی پائی جاتی تهی‪ ،‬اسی‬‫جو بہت ہی ٔ‬
‫لئے یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ انسان کا کالم جادو کا اثر رکهتا ہے‪ ،‬عرب ان صدیوں‬
‫میں سب سے زیاده شاندار اور طاقتور ادب سے متاثر ہوتے تهے‪ ،‬خاص طور سے اس‬
‫کالم میں شاعری کا جو حصہ ہے اس سے بہت زیاده متاثر ہوتے تهے‪ ،‬اور کا بڑا خیال‬
‫کرتے تهے‪،‬شاعری کا جو حکم ہے ان کے دلوں پر نافذ ہوتا تها‪ ،‬یہ لوگ شاعر اور خطیب‬
‫کا بہت اکرام کرتے تهے‪ ،‬اور ان کا بڑا حساب لگاتے تهے۔‬
‫ادب کے اس صنف(شاعری)کے اندر ہم دیکهتے ہیں کہ اس کے اندر بہت تاثیر‬
‫پائی جاتی ہے‪ ،‬اور اس کو مقبولیت ملتی ہے ہر اس قوم میں جو اپنے ادب کے ابتدائی‬
‫مرحلہ میں ہوتی ہے‪ ،‬اب یہ (قوم وملت) چاہے مشرقی ممالک میں رہنے والی ہو‪ ،‬یا مغرب‬
‫میں رہنے والی ہو‪ ،‬لہذ ا یوروپ کی جو ادبیات ہیں وه عہد وسطی میں یعنی ابتدائی صدیوں‬
‫میں اسی طرز کی تهیں (جو عہد جاہلی میں عربوں کی شاعری تهی)‪ ،‬یوروپ کی ادبیات‬
‫میں بهی اسی طریقے کی تاثیر پائی جاتی تهی کہیں کم کہیں زیاده۔‬
‫ہم دیکهتے ہیں کہ عبارت کے ظاہری حصہ پر (الفاظ پر) توجہ بہت زیاده دی جاتی‬
‫ہے‪ ،‬خاص طور پر قوموں کی پستی اور ان کے زوال و انحطاط کے زمانہ میں ‪ ،‬لیکن ان‬
‫صدیوں کا جو ادب ہے وه عام طور پر مصنوعی ہے‪ ،‬اس پربہت ملمع سازی کی گئی ہے‪،‬‬
‫اور یہ ان عوامل اور اسباب سے بهی مزین ہوتا ہے جن کا تعلق بالغت سے ہوتا ہے ‪ ،‬اور‬
‫جو طبعی جاذبیت ہے وه نہیں ہوتی‪ ،‬اور یہ ادب ایسا ہوتا ہے جس میں کالم کا ظاہری پہلو‬
‫زنده ہوتا ہے اور وه چمکتا ہے اور روشن ہوتا ہے‪ ،‬لیکن معنوی پہلو مرده ہوجاتا ہے اور‬
‫اندرون کا حصہ پس مرده ہوجاتا ہے‪ ،‬اس ادب کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ہر اس قوم میں‬
‫جو زبان و ادب والی ہے اس وقت جب وه زوال اور پستی کے زمانہ سے گزرتی ہے‪ ،‬جہاں‬
‫تک عربی ادب کا تعلق ہے تو اس میں جو انحطاط اور زوال کا زمانہ ہے وه چوتهی صدی‬
‫ہجری سے شروع ہوتاہے اور عہد جدید کے اغاز پر اکر ختم ہوتا ہے ۔‬

‫أدب المعاني‪:‬‬
‫وه لوگ جو اصحاب معانی کہالتے ہیں‪ ،‬تو یہ وه ادباء ہیں جو اپنی تمام تر کوشش‬
‫معانی کو اچها اور عمده بنانے میں خرچ کرتے ہیں‪ ،‬اور اس کے اندر لطافت پیدا کرنے‬
‫کی کوشش کرتے ہیں‪ ،‬اور معنی کے اندر جدت اور نیا پن ‪،‬اور نئے نئے معانی کے انتخاب‬
‫پر توجہ دیتے ہیں۔‬
‫ایسا ادب(جس میں معنوی پہلو پر توجہ دی جاتی ہے)عام طور پر تہذیب و تمدن کی‬
‫صدیوں میں ہوتا ہے (جیسا کہ عہد عباسی اور اس سے پہلے عہداموی)اور یہ اس لئے کیا‬
‫جاتا ہے تاکہ تمدنی اور تہذیبی عہد کی زندگی کے تقاضوں کو قبول کیا جائے‪ ،‬اسی طرح‬
‫تمدنی ضروریات میں جو تنوع ہے اورعلوم و معارف کا عام ہونا اور بہت سے ادبی پہلؤوں‬
‫کا سامنے آنا یہ تمام باتیں اس بات کی متقاضی ہوتی ہیں کہ اس طرح کاادب زندگی کی‬
‫ضروریات کے موافق آگے بڑھتا رہے‪،‬اور یہ پہلو ہمیں شاعری کے اعتبار سے متنبی اور‬
‫کبهی کبهی ابو تمام کے یہانملتا ہے۔‬
‫النثر الفني‪:‬‬
‫جہاں تک ان(ترقی اور تمدنی) صدیوں میں نثرفنی کا تعلق ہے تووه ان صدیوں میں‬
‫پهیلتا ہے‪ ،‬قوت حاصل کرتا ہےاور فروغ پاتا ہے‪،‬اور ان صدیوں میں نثری کالم کے اصناف‬
‫بهی ترقی کرتے ہیں‪ ،‬اس لئے کہ ان نثری صنفوں کے اندر اس بات کی زیاده صالحیت‬
‫ہوتی ہے کہ وه ان ادبی کاوشوں کا میدان بن سکیں جو ترقی و تمدن کی صدیوں میں عام‬
‫ہوتی ہیں‪،‬عربی زبان میں ہ میں اس ادب کا آغاز اس وقت سے ملتا ہے جب سے اسالم کا‬
‫سورج طلوع ہونا شروع ہوتا ہے‪،‬اور عہد عباسی کے نصف اول میں یہ مزید طاقتور ہوتا‬
‫ہے اپنے کمال کو پہنچ جاتاہے۔‬
‫اس شاندار زمانہ کے ادباء کی تحریروں میں عربی ادب اپنےزنده جاوید اور طاقتور‬
‫نمونوں سے بهرا ہوا ہے ‪،‬جیسے کہ عبد الحمید ہیں‪،‬عبد ہللا بن مقفع ہیں اور جاحظ اور ان‬
‫کے عالوه علمی چهاپ والے بهی اس زمره میں شامل ہیں۔‬

‫الشعر‪:‬‬
‫جہاں تک اس زمانہ کی شاعری کا تعلق ہے تو یہ دوسری صنف بهی تہذیبی عوامل‬
‫اور ان کے تقاضوں کے تابع رہی ہے‪ ،‬چنانچہ اس عہد میں معانی کو عمده بنانے اور اس‬
‫میں جدت پیدا کرنے پر توجہ دی گئی ‪ ،‬نئی نئی باتوں کو بهی اختیار کیا گیا‪ ،‬ایسے ہی اس‬
‫عہد میں شاعری کو نئے نئے اورعام ہوجانے والے علمی اور فنی رجحانات کا تابع بنا گیا‬
‫‪،‬چنانچہ جس وقت شاعروں کے اندر فنی اور وجدانی رجحان غالب ہونے لگتا ہے تو پهر‬
‫وه نئے نئے معانی ایجاد کرنے پر توجہ دیتے ہیں ‪ ،‬اور خالص فنی صورتیں پیدا کرنے‬
‫کی طرف مائل ہوتے ہیں‪،‬ایسے ہی یہ لوگ عوام کی خواہشات اور تقاضوں کو اپیل کرنے‬
‫کی طرف توجہ دیتے ہیں‪،‬لہذااسوقت( اس رجحان کے نتیجہ میں) ادب کے اندر وقار اور‬
‫سنجیدگی کمزور ہوجاتی ہے‪،‬اس کی مثال ہمیں بشار بن برد‪ ،‬ابو العتاہیہ‪ ،‬ابو نواس ‪ ،‬ابن‬
‫ہانی االندلسی یاان شعرا ء کے اشعار میں ملتی ہے جنهوں نے ان کے طریقےکو عہد عباسی‬
‫اور اندلس کے روشن اور تابناک عہد میں اختیار کیا ۔‬
‫اور جب شعراء کے اندر علمی اور فکری چهاپ غالب آجائے تو پهر شعراء(اس‬
‫رجحان کے غلبہ کی وجہ سے)ان شکلوں اور صورتوں کو بیان کرتے ہیں جن کا تعلق‬
‫انسان کے ذہن و دماغ سے ہوتا ہے‪ ،‬اور فکری شکلوں کو گرفت میں التے ہیں‪،‬اور باریک‬
‫عقلی نکتوں کو خشک علمی روح کے ساته بیان کرتے ہیں‪ ،‬اس کے نتیجہ میں طبعی طور‬
‫پریہ کمزور پڑجاتے ہیں کہ یہ عبارت کی پختگی اور لطافت‪ ،‬تعبیر کی دلکشی اور الفاظ‬
‫کی سالست و روانی پر توجہ دیں‪ ،‬اور جب جب ان کے ادب میں یہ خامی آتی ہے تو وه‬
‫اس کو ایسے اضافی محرکات کو شامل کرکےدور کرتے ہیں جن کا تعلق بالغت اور علم‬
‫بدیع سے ہے‪،‬اس کی مثال ہمیں ابو تمام کےہاں اور کبهی متنبی کے ہاں ملتی ہے‪ ،‬اسی‬
‫کی طرف متنبی نے بهی اشاره کیا ہے جبکہ اس نے خود اپنے اور ابو تمام (کی شاعری)کو‬
‫بیان کیا ہے‪“:‬میں اور ابو تم ا م تو دانشور (مفکر)ہیں اور شاعر تو اصل میں بحتری‬
‫ہے”حاالنکہ بحتری ابو تمام کا شاگرد ہے لیکن (ابو تمام کا شاگرد ہونے کے باوجود) اس‬
‫نے اپنے آپ کو بچا لیا تها کہ وه شاعری کے ادبی پہلو میں تفریط سے کام لے۔‬
‫نماذج العهد األدبي األول‬
‫من األدب الجاھلي‬

‫األدب یمثل الحیاة ویصورھا‪:‬‬


‫جب ادب ان چیزوں کو پیش کرکے اپناکام انجام دیتا ہے جو ادب والے کے دل میں‬
‫گردش کرتی ہیں یعنی تاثرات اور احساسات‪ ،‬اس وقت ادب ایک تختی کی مانند ہوجاتا ہے‬
‫جس میں کوئی تصویر کهینچ دی گئی ہو‪،‬یا اس کی مثال اس آئینہ کی طرح ہوجاتی ہے جس‬
‫میں چہرے اور اس کے خدو خال سامنے آتے ہیں‪،‬ادب کے ذریعہ سے ادیب اس بات پر‬
‫قادر ہوتا ہے کہ وه حاالت اور واقعات کو ان دوسرے لوگوں تک نقل کریں جن سے یہ بات‬
‫فوت ہوگئی ہے کہ وه خود ان حاالت اور واقعات کا مشاہده کرسکتے یا اپنی آنکهوں سے‬
‫دیکه سکتے ‪ ،‬اس کے ذریعہ سے ادب وجدانی اور نفسیاتی لٹریچراور انسانی تاثرات کو‬
‫دوام بخشنے کا ایک بڑا سبب بن جاتا ہے‪ ،‬اور اس کے ذریعہ وه ایک لٹریچر کو آنے والی‬
‫نسلوں تک پہنچاتا ہےسچائی اور امانت داری کے ساته‪ ،‬اور ادب ہی کے ذریعہ سے ایک‬
‫محقق کیلئے ممکن ہوتا ہے کہ وه کسی بهی ماضی کی قوم کے حاالت اور واقعات کی تہہ‬
‫تک پہنچ سکے‪ ،‬ایسے ہی اس قوم کے جذباتی حاالت کیسے تهے ؟یاان کی تاثراتی کیفیات‬
‫کیسی تهیں ؟یہ تمام چیزیں ادب کے ذریعہ سے ہم کو معلوم ہوتی ہے۔‬

‫األدب عند العرب األولین وشعرھم‪:‬‬


‫پہلے کے عربوں کے نزدیک ادبی عمل لطا فت اور تاثیر کے ایک بڑے مقام تک‬
‫پہنچ چکا تها‪ ،‬اور خاص طور سے ادب میں ان کی شاعری بہت ممتاز ہوتی تهی‪ ،‬اسی وجہ‬
‫سے شاعری ان کی زندگی کی خدو خال اور ان کے طبعی احساسات کا سچا آئینہ ہے‪ ،‬اور‬
‫وه اس وجہ سے کیونکہ ان کے دل بالکل صاف تهے‪،‬ان کی فکر بہت ساده تهی‪ ،‬اور ان کا‬
‫ذوق بہت ہی لطیف ‪ ،‬نازک اور حساس تها‪،‬اور طبعی طور پر ان کے اندر بیان اور فصاحت‬
‫کا میالن بهی تها‪ ،‬اور ان کو عربی زبان و ادب سے وارفتگی اور شیفتگی بهی تهی‪،‬اور وه‬
‫حد سے زیاده عمده شاعری سے متاثر ہوتے تهے‪ ،‬چنانچہ اسی شاعری کے ذریعہ سے‬
‫شعراء کسی قبیلہ کو اٹهاتے تهے اور کسی دوسرے قبیلہ کو گرادیتے تهے‪ ،‬اور ان کے‬
‫دلوں میں جو چیزیں تهیں ان کی بہت سچی تعبیر اور ترجمانی کرتے تهے۔‬
‫دعوی کیا ‪،‬اور دوسروں‬
‫ٰ‬ ‫عربوں نے اپنی زبان اور خود اپنے لئے بیان کی خوبی کا‬
‫سے اس کی نفی کی ‪ ،‬اور اس کو فخریہ انداز میں بیان بهی کیا ‪ ،‬اسی وجہ سے انهوں نے‬
‫اپنا نام عرب(صاف بولنے والے) رکهااور اپنے عالوه دوسروں کوعجمی (گونگے)کہنے‬
‫لگے‪،‬شاعری نے ان کے اندر بہت زیاده پذیرائی اوربہت زیاده مقبولیت حاصل کرلی تهی‪،‬‬
‫اور انهوں نے شاعری کو اپنے تاثرات اور واقعات کے تذکره سے بهردیا ‪،‬اسی وجہ سے‬
‫کہا گیا ہے کہ“شاعری عربوں کی تاریخ ہے”۔‬
‫پہال ادبی زمانہ ‪-‬جو کہ عہد جاہلی ہے‪ -‬اس کے اندرساده بدوی زندگی تهی‪ ،‬اور‬
‫عرب بدوی خصوصیات کو تمدنی خصوصیات پر ترجیح دیتے تهے‪ ،‬اور یہ بات ان کے‬
‫شعری کالم میں نمایاں تهی‪ ،‬اس کی مثال قطامی کے شعر سے ملتی ہے‪ ،‬اور یہ بنو امیہ‬
‫کے زمانہ کا شاعر ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح ‪:‬الحضارة‪:‬شہری زندگی‪ ،‬شہری آبادی‪ ،‬اہل الحضارة (شہر میں رہنے‬
‫والے)بهی مراد ہو سکتے ہیں۔اعجب(افعال)‪:‬پسند آنا‪/‬پسند کرنا۔بادیۃ‪:‬دیہات‪/‬دیہات کے رہنے‬
‫والے۔)‬
‫‪۱‬۔جو تہذیب ‪/‬شہر والوں کو پسند کرتے ہیں (وه پسند کریں ہمیں اس سے کوئی مطلب‬
‫نہیں)لیکن ہم بهی دیہات کے رہنے والے کسی سے کم نہیں ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ربط ‪:‬باندھنا۔جحش (ج) جحاش‪ :‬گدھا۔قنا(ج)قناة‪:‬نیزه‪،‬سُلوب(ج)‬
‫سلُب‪:‬جان لیوا‪/‬جان لینے والے۔حسان‪:‬مضبوط‪ ،‬بہادر‪،‬عمده نسل کے۔‬
‫‪۲‬۔جو گدھے باندھتے ہیں(وه باندھا کرےلیکن) ہم بادیہ والوں کے پاس جان لیوا نیزے‬
‫اور عمده نسل کے گهوڑے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬اغار (علی) ‪:‬حملہ کرنا۔جناب‪:‬حصہ‪/‬جماعت‪/‬قبیلہ۔اعوز(افعال)‪:‬مشکل‬
‫ہونا‪ /‬دشوار ہونا۔نهب‪:‬لوٹ کهسوٹ۔)‬
‫‪ ۳‬۔ یہ گهوڑے جب زمین کے کسی حصہ یا کسی قبیلہ پر حملہ آور ہوتے ہیں‪،‬اور‬
‫وہاں ان کے لئے لوٹ کا مال حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ضبیب(ج) ضباب‪:‬چهوٹےچهوٹے قبیلے۔حلول‪:‬اطمینان سے کہیں‬
‫ٹهہرے ہوئے‪،‬حان‪ :‬ہالک ہونا ‪ /‬مرنا۔حان ‪ :‬قریب ہونا)‬
‫‪ ۴‬۔تو پهر یہ وہاں سے نکل کربنو ضباب اوربنو ضبہ پر حملہ کردیتے ہیں جب کہ‬
‫وه مطمئن اور پر سکون ہوتے ہیں‪،‬اور جو ہم سے قریب ہوتا ہے ہالک ہوجاتا ہے‪/‬جو ہماری‬
‫مار سے مرتا ہے تو وه مرہی جاتا ہے۔‬
‫‪ ۵‬۔اور کبهی ہم اپنے ہی بهائی بنو بکر پر حملہ کردیتے ہیں ‪ ،‬جبکہ ہم اپنے بهائیوں‬
‫کے عالوه کسی کو نہیں پاتے۔‬
‫بدوی زندگی صحراء اور چٹیل میدانوں کی زندگی تهی‪،‬کم مائگی اورمشقت کی‬
‫زندگی تهی‪،‬تو ایسی زندگی کو صبر و شجاعت ‪ ،‬خودداری اور کام میں سچائی کی ضرورت‬
‫تهی‪ ،‬ایسے ہی ان کو کشاده قلبی اور احساس کے اندر رقت کی ضرورت تهی ‪،‬اور عام‬
‫طور پر عربوں میں یہ صفات موجود تهیں‪ ،‬اور ان کے اثرات ان کے ادب اور ان کی‬
‫شاعری میں منعکس نظر آتی ہیں‪ ،‬بلکہ ان کا تمام کا تمام ادب ان ہی صفات کا ترجمان تها‬
‫‪،‬اور انہی کے اردگرد گهومتا تهااور ان کی شکلوں کی منظر کشی کرتا تها۔‬
‫عربوں نےاس زمانہ میں(پہلے ادبی زمانہ میں)لمبے قصیدے بهی کہے ہیں اور‬
‫چهوٹے قصیدے بهی کہے ہیں‪ ،‬ان تمام قصائد میں معنوی سادگی ہے‪،‬اور ان کاحقیقی زندگی‬
‫سے تعلق ہے‪،‬اور ان کی عبارتوں اور الفاظ میں شکوه پایا جاتا ہے‪ ،‬یہ تمام قصائد ان کی‬
‫حقیقی زندگی سے پهوٹے ہیں اور تصنع و تکلف اور من گهڑت تعبیر سے دور ہیں‪ ،‬انسان‬
‫کے دل و دماغ پر اثر ڈالتے ہیں‪ ،‬اپنے کہنے والےکی شخصیت کی بہت ہی سچی تصویر‬
‫پیش کرتے ہیں‪،‬اور یہ قصائد شاعر کی قوم اور خود اس کی زندگی کے حاالت اور اس‬
‫سے وابستہ امیدوں کی بہترین اور عمده ترجمانی کرتے ہیں۔‬
‫یہ مندرجہ ذیل اشعار اس جاہلی شاعر کے ہیں جس کا نام اخنس بن شہاب بن شریک‬
‫بن ثمامۃ بن ارقم التغلبی ہے‪ ،‬اسالم سے کچه سال پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا‪ ،‬یہ اشعار ان‬
‫کے زمانہ میں زندگی کی نمایاں خصوصیات اور قدروں کی ترجمانی کرتے ہیں‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬امسی‪:‬شام کرنا‪/‬موجود ہونا‪/‬ہونا۔بالد‪:‬ملک‪/‬جگہ۔مقامۃ‪:‬ٹهہرنے کی‬
‫طلَل (ج)اطالل‪:‬کهنڈرات‬
‫جگہ۔سائل(مفاعلۃ)‪:‬ایک دوسرے سے سوال کرنا‪/‬آپس میں پوچهنا۔ َ‬
‫‪/‬ملبہ‪/‬ٹیلہ‪/‬خیمہ اکهاڑنے بع د جو رسیاں ‪ ،‬لکڑیاں اور کیلیں وغیره پڑی ره جاتی ہیں ان کے‬
‫لئے اس لفظ کااستعمال ہوتا ہے۔جاوب(مفاعلۃ)‪:‬جواب دینا)‬
‫‪ ۱‬۔جو بهی کسی رہائش کی جگہ پر(بہت لمبے سفر کے بعد)شام کرتا ہے‪/‬پہنچتا ہے‪،‬‬
‫تو (وہاں پہنچ کر)وہاں پڑے ہوئے ملبےسے پوچهتا ہے(کہ کون لوگ تهے یہاں پر؟ جو‬
‫مقیم تهے وه کہاں چلے گئے؟لیکن)یہ اس کو جواب نہیں دیتے۔‬
‫لکهنے‬ ‫‪/‬پتہ۔کاتب‬ ‫بنانا۔عنوان‪:‬ایڈریس‬ ‫تشریح‪:‬ن ّمق(تفعیل)‪:‬لکهنا‪/‬نقش‬ ‫(لغوی‬
‫واال۔ر ّق‪:‬کاغذ)‬
‫َ‬
‫‪ ۲‬۔حطان بن قیس کی بیٹی کے بہت سے مکانات (ایسے ہی پڑے ہوئے)ہیں‪،‬کہ جس‬
‫طریقے سے کاغذ پر لکهنے والے نے کسی کا ایڈریس لکه دیا ہو(ایک وجہ تشبیہ یہ ہےکہ‬
‫ایڈریس مٹ جاتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ایڈریس سے انسان کواندازه ہوجاتا ہے‬
‫کہ اسے کہاں جانا ہے)‬
‫شی‪ :‬چلنا‪ ،‬گهومنا ‪ ،‬ادھر ادھر پهرنا۔ حائل (ج)حول ‪:‬اونٹی کا وه بچہ‬ ‫(لغوی تشریح‪-:‬م ّ‬
‫جو جلد ہی پیدا ہوا ہو‪/‬ہر جانور کی ماده‪ ،‬مرا د یہاں پر اوالد النعام ہے۔بها‪ :‬بهذه المنازل التی‬
‫ذکرھا الشاعر۔ امۃ (ج)اماء ‪:‬باندی۔ زجّی ‪:‬ہنکاکر لے جانا‪/‬مالنا۔حواطب ‪:‬لکڑیوں کا بوجه‬
‫اٹهانے والیاں)‬
‫‪۳‬۔ ان جگہوں پر شترمرغ یا جانوروں کے بچے گهوم رہے ہیں‪ ،‬ایسا لگتا ہے کہ یہ‬
‫باندیاں ہیں جو اپنے سروں پر لکڑیوں ک ی گٹهریاں رکهی ہوئی ہیں‪ ،‬اور شام کے وقت ان‬
‫کو الیاجا رہا ہے۔‬
‫کرانا‪/‬اعالن‬ ‫کرنا‪/‬محسوس‬ ‫محسوس‬ ‫اشعر‪:‬‬ ‫‪:‬‬ ‫تشریح‬ ‫(لغوی‬
‫کرنا‪/‬مالنا‪،‬چپکانا‪/‬پہنادینا۔سخنۃ‪ :‬بتثلیث السین‪:‬شدت‪ ،‬تیز بخار‪ ،‬حرارت۔ اعتاد‪:‬طاری ہونا‪،‬‬
‫الحق ہونا‪ ،‬آنا۔ محموم‪:‬بیمار‪،‬بخارزده۔خیبر‪ :‬یہ وه جگہ ہے جہاں پر قسم قسم کا بخار پایا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬اگر وہاں پر انسان کو بخار آجائے تو بہت شدت اور تیزی کے ساته برابر انسان‬
‫کا دل کڑھتا رہتا ہے‪ ،‬اور اس بخار میں جهٹکے بهی لگتے ہیں۔صالب ‪ :‬تیز بخار)‬
‫‪۴‬۔ میں یہاں پر ٹهہرااور رونے لگا‪ ،‬اور مجه پر حرارت کا لرزه طاری ہوگیا‪،‬ایسے‬
‫ہی ج یسے کہ خیبر کے مقام پر بیمار یا بخار سے دوچار شخص پر تیز بخار یا کپکپی‬
‫طاری ہوتی ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬غا ِو َِ (ج)غواة ‪:‬آواره۔ ُخلصان‪:‬جگری دوست۔ صاحب‪ ،‬یصاحب‪:‬رفاقت‬
‫اختیار کرنا‪ ،‬دوستی اختیار کرنا۔)‬
‫‪۵‬۔ میں نے ایک لمبی مدت گزاری ہے کہ آواره قسم کے لوگ میرے دوست تهے‪،‬‬
‫یہی تو میرے سچے اور گہرے دوست ہیں جن کی میں رفاقت اختیار کرتا ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬ادی عن‪ :‬ذمہ داری کی بجاآوری کرنا‪/‬ہٹانا‪ ،‬دور کرنا‪ ،‬پهینک دینا۔‬
‫یرعی ‪:‬بچانا ‪ ،‬حفاظت کرنا۔‬
‫ٰ‬ ‫استعار ‪ :‬ادھار لینا۔ صبا‪:‬لڑکپن‪ ،‬بچپن‪/‬عشق و محبت۔ رعی ‪،‬‬
‫َ‬
‫کاسب ‪:‬کمانے واال‪/‬حاصل کرنے واال)‬
‫‪۶‬۔ لڑکپن سے جو چیزیں میں نے عاریۃ لی تهی‪ ،‬اب میں نے ان کو اپنے سے الگ‬
‫کردیا ہے‪،‬اب تو میں اپنے مال کی حفاظت کرنے واال ہوں اور کمانے واال ہوں ۔‬
‫والے۔معزاة (ج)معزی‪:‬بکریاں۔اعوز‪:‬تنگ پڑنا‪،‬‬
‫ِ‬ ‫(لغوی تشریح‪:‬رائدات ‪:‬آنے جانے‬
‫گنجائش کا نہ ہونا۔ زریبۃ(ج)زرائب‪:‬گهوڑا‪/‬باڑه)‬
‫‪۷‬۔ تم دیکهوگے کہ ہمارے گهروں کے ارد گرد گهوڑوں کی آمد و رفت رہتی ہے‪،‬‬
‫جس طریق ے سے حجاز کی بکریاں ہیں کہ (کثرت کی وجہ سے )جن سے ان گهوڑے‪/‬باڑے‬
‫تنگ آجاتے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬عمارة‪:‬چهوٹا خاندان جو قبیلہ سے چهوٹا ہوتا ہے(یہ اناس سے بدل‬
‫ہے )‪ ،‬عروض‪:‬مستند‪/‬سہارا‪/‬ملجا و ماوی‪/‬کناره۔لجا (الی)‪:‬پناه لینا۔ جانب ‪:‬عروض کے معنی‬
‫میں)‬
‫‪ ۸‬۔قبیلہ معد کے ہر چهوٹے خاندان کے پاس ملجا و ماوی ہےجہاں وه پناه لیتے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬حجاز‪:‬رکاوٹ ‪/‬حد۔غیث‪:‬بارش۔ما نلفی میں ما زائده ہے)‬
‫‪۹‬۔ہم ایسے لوگ ہیں کہ ہمارے عالقے میں (ہمارے لئے یا کسی کے لئے)کوئی‬
‫رکاوٹ نہیں ہے‪،‬اور جہاں بارش ہوتی ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور ہم ہی غلبہ کے ساته‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬غبق‪:‬شام کے وقت دودھ‪/‬شراب پالنا۔حلب(ج)احالب‪:‬دودھ۔(یہاں پر‬
‫استعاره کیلئے ہے ‪ ،‬اور گهوڑوں کو دودھ پالنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو دوڑایا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬ورزش کرائی جاتی ہےتاکہ وه پهرتیلے رہیں۔ اس طرح احالب یہاں شوط (چکر لگانا)‬
‫کے معنی میں ہے)تعداء‪(:‬عدو کا مصدر)دوڑنا‪/‬بهاگنا۔اقب(ج) قب‪:‬پتلی کمر‬
‫واال۔شازب(ج)شوازب‪:‬پتلی کمرواال‪/‬جس کا پیٹ دب گیا ہو)‬
‫‪ ۱۰‬۔ انهیں شام کے وقت گهمایا جاتا ہےاور ایسے ہی صبح کے وقت بهی چکر‬
‫لگوائے جاتے ہیں‪،‬تو دوڑانے کی وجہ سے یہ پتلی کمر والے اور دبلے جسم والے ہیں(بڑے‬
‫نشیط اور پهرتیلے ہیں)۔‬
‫تشریح‪:‬فارس(ج)فوارس‪:‬شہسوار‪/‬گهڑسوار‪/‬لڑنےواال۔حامی(ج)حماة‪:‬دفاع‬ ‫(لغوی‬
‫کرنے‬ ‫‪/‬اقدام‬ ‫پوش‬ ‫واال۔کمی(ج)کماة‪:‬زره‬ ‫واال‪/‬بچانے‬ ‫کرنے‬
‫واال‪/‬جانباز۔اشابۃ(ج)اشائب‪:‬مالہوا‪/‬گڈمڈ‪/‬مخلوط)‬
‫‪ ۱۱‬۔ان گهوڑوں کے سوار خالص قبیلہ تغلب کے لوگ ہیں(چونکہ اس قبیلہ کی اصل‬
‫وائل کی بیٹی طرف منسوب اس لئے اس لئے وضاحت کررہے ہیں)یہ بڑے دفاع کرنے‬
‫والےجانباز ہیں ان میں ان کے عالوه کوئی نہیں ہوتا۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬کبش‪:‬مینڈھا‪/‬سردار قوم۔برق(ن)‪:‬چمکنا۔بیضۃ(ج)بیض‪:‬خود ‪/‬لوہے کی‬
‫ٹوپی جوجنگ میں سر میں پہنتے ہیں۔سبیبۃ(ج)سبائب‪:‬چہرے پر آنسو وغیره کے بہنے سے‬
‫جو لکیریں پڑتی ہیں ان کو سبیبۃ کہتے ہیں)‬
‫‪ ۱۲‬۔یہ سردار قوم کو مارتے ہیں جس کی خود چمک رہی ہوتی ہے‪ ،‬تو اس کے‬
‫چہرے پر لکیروں کی شکل میں خون بہنے لگتا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬قصر‪:‬عاجز ہونا‪ /‬کمزور پڑنا۔خطوة(ج)خطی‪:‬قدم)‬
‫‪ ۱۳‬۔اگر (لڑائی کےبیچ میں)ہماری تلواریں چهوٹی پڑجائیں توہم چل کر ان تلوروں‬
‫کواپنے دشمنوں تک پہنچاتے ہیں اور (قریب جاکر) ان کو مارتے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ہللف‪:‬یہ استعجابیہ ہے۔عصابۃ‪:‬تمیز کی بنیاد پر منصوب ہے‪،‬اس کی‬
‫جمع عصائب ہے‪:‬قبیلہ‪/‬جماعت)‬
‫‪ ۱۴‬۔تو وه قوم تو ہللا ہی کی بنائی ہوئی ہےجو ہماری طرح ہے‪/‬کیاہی خوب ہے وه‬
‫قوم جو جماعت کے لحاظ سے ہماری قوم کی طرح ہے‪،‬کہ جب جماعتیں بادشاہوں کے‬
‫دربار میں جمع ہوتی ہیں(تویہ دوسروں سے ممتاز ہوجاتی ہے)‬
‫تشریح‪:‬قارب(مفاعلۃ)‪:‬قریب‬ ‫(لغوی‬
‫کرنا۔قید‪:‬باندھنا۔فحل(ج)فحول‪:‬نر‪/‬سانڈ۔خلع(ف)‪:‬اتار دینا۔سارب‪:‬چلے جانا)‬
‫‪ ۱۵‬۔میں ہر قبیلہ کو دیکه رہا ہوں کہ ان لوگوں نے اپنے جانوروں کو اپنے سے‬
‫قریب باندھ رکها ہے‪ ،‬اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ان کی رسی اتار کر پهینک دیتے ہیں تو‬
‫یہ جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں۔‬

‫الشعر‪:‬‬
‫اس پہلے ادبی زمانہ کی طبیعت کا تقاضا یہ تها کہ اس عہد میں –جیساکہ ہم نے‬
‫پہلے بیان کردیاہے‪ -‬نثر کے مقابلہ میں شاعری زیاده ترقی کرے‪ ،‬اس لئے کہ شاعری‬
‫وجدانی صفت اور خوبی سے قریب تر ہےیعنی اس کے اندر جذبات کی قوت اور الفاظ کا‬
‫شکوه اور جمال بهی پایا جاتا ہے‪ ،‬اور کچه نہ کچه اس کے اندر خیال کی ندرت پائی جاتی‬
‫ہے‪ ،‬اور نثر چونکہ علمی چهاپ سے قریب تر ہےلہذا اس کے لئے ضروری ہے ترتیب‬
‫کے ساته سوچنااور تہذیبی اور تمدنی چیزوں کو اختیار کرنا‪ ،‬اسی وجہ سے شاعری نے‬
‫اس پہلے ادبی زمانہ میں دیگر اصناف کے مقابلہ میں زیاده ترقی کی‪ ،‬اس زمانہ میں شاعری‬
‫کا اسلوب پختہ تعبیر واال‪،‬پرشکوه اور شاندار الفاظ واالتها‪ ،‬اور اس کے اندر بڑی دآلویزی‬
‫اور دلکشی تهی‪،‬اور یہ تمام چیزیں اس کے اندر طبعی طور پر پائی جارہی تهیں‪،‬لیکن افکار‬
‫کی بے ترتیبی تهی۔‬

‫المعلقات‪:‬‬
‫قدیم ترین شاعری کےکمال درجہ کے نمونے جو تاریخ نے ہمارے لئے محفوظ‬
‫کردئیے ہیں وه اشعار ہیں جو حرب بسوس کے سلسلہ میں کہے گئے ہیں‪ ،‬اور یہ جنگ‬
‫اسالم سے ڈیڑھ صدی قبل ہوئی تهی‪،‬یہ جنگ بڑی لمبی تهی اور اس میں کہے گئے اشعار‬
‫ایسے واقعات اور حوادث سے بهرے ہوئے ہیں جو جذبات کے اظہار کا سبب بنتے ہیں اور‬
‫خیاالت کے اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں۔‬
‫عصر جاہلی کی شاعری کے شاندار اور پرشکوه نمونوں میں ان کے وه لمبے‬
‫قصیدے ہیں جنهیں معلقات کا نام دیا گیا ہے‪ ،‬اور ان کی تعداد سات ہیں یا دس ہیں‪ ،‬ان‬
‫معلقات کا آغاز محبوب کے دیا ر سے اور اس کے شوق سے ہوتا ہے‪ ،‬جتنے بهی اصحاب‬
‫معلقات ہیں وه اپنے اپنے محبوب اور دیار محبوب کاذکر کرتے ہیں اس کے بعد( اپنے‬
‫اپنےرجحان کے اعتبار سے) عموما اپنی اونٹنی یا گهوڑے کے وصف کو بیان کرتے ہیں‪،‬‬
‫پهر اپنے ذوق اور اپنی چاہت کے اعتبار سے دیگر موضوعات کولیتےہیں‪،‬لیکن ہر شاعر‬
‫کے سامنے ایک مرکزی اور بنیادی مقصد ہے جس کووه اپنے معلقہ کے اہم موضوع کے‬
‫طور پر رکهتا ہے۔‬
‫اصحاب معلقات امرؤ القیس ‪ ،‬زہیر بن ابوسلمی‪ ،‬لبید بن ربیعہ ‪ ،‬طرفہ بن عبد ‪ ،‬عنتره‬
‫بن شداد العبسی‪ ،‬عمرو بن کلثوم التغلبی‪ ،‬حارث بن حلزه‪ ،‬اور ان کے عالوه دس میں جو‬
‫باقی ره گئے وه تین ہیں اعشی بن میمون‪ ،‬نابغہ زبیانی اور عبید بن ابرص۔‬
‫اور ہم آئنده جو ان کے شعری نمونے پیش کریں گے وه پیش کرنا ان موضوعات‬
‫کے اعتبار سے ہوگا جن کا اس زمانہ میں اہتمام کیا جاتا تها‪ ،‬نہ کہ معلقات میں ان کی‬
‫ترتیب (مکانی یا زمنی) کے اعتبار سے۔‬

‫الحماسة والفخر‪:‬‬
‫یہ اشعار عنتره بن شداد کے معلقہ سے ماخوذ ہیں‪ ،‬یہ اشعار حماسہ اور فخر کے‬
‫طاقتور جذبہ کووصف کے پیرایہ میں بیان کررہے ہیں جو مؤثر بهی ہے اور بہت حسین و‬
‫دلکش بهی۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬جواء ‪ :‬ایک جگہ کا نام۔عمی صباحا‪ :‬دور جاہلی کےسالم کےالفاظ‬
‫میں ہے۔ بالغی اعتبار سے یہ امر تحسر کا ہے)‬
‫‪۱‬۔ جوا ء کے مقام پر موجود عبلہ کے اے مکان کچه تو کہو( کہ یہاں کون لوگ‬
‫تهے؟کہاں چلے گئے؟)اے دار عبلہ ! تمہیں صبح مبارک ہو اور تو سالمتی سے ره‪/‬میرا‬
‫سالم قبول کرو۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬آنسۃ ‪ :‬محترمہ‪ ،‬خاتون۔ غض‪ ،‬یغض ‪،‬غضا‪:‬جهکانا۔عنان‪:‬گردن)‬
‫‪۲‬۔یہ گهر ایک ایسی خاتون کا ہےجس کی نگاہیں جهکی ہوئی ہیں‪ ،‬گردن جهکی ہوئی‬
‫ہے‪ ،‬اور اس کی مسکراہٹ بهی بہت ہی عمده اور لذت دینے والی ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬سمح‪ :‬نرم‪ ،‬آسان۔مخالقۃ‪ :‬ملنا‪،‬سلوک‪ ،‬معاملہ)‬
‫‪۳‬۔ جو کچه تم جانتی ہو ‪/‬تمہارے علم میں جو میرے حاالت ہیں اتنا ہی میری تعریف‬
‫کرو‪ ،‬اس لئےمجه سے ملنابہت آسان ہوتا ہےجبکہ میرے ساته زیادتی نہ کی جائے۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬باسل‪ -:‬ناقابل برداشت۔ مر‪:‬تلخ ‪ ،‬کڑوا۔ مذاقۃ‪ -:‬چکهنے کی چیز‪ ،‬سزا‬
‫‪ ،‬سختی۔طعم ‪ :‬مزه۔علقم‪ :‬اندراین کے درخت کا پهل جو بہت ہی کڑوا ہوتا ہے)‬
‫‪۴‬۔لیکن جب مجه کو ستایا جائے تو میرا ظلم بهی بہت سخت ہوگا‪ ،‬کہ اس کی سختی‬
‫اتنی ہی کڑوی اور تلخ ہوگی جس طریقے سے علقم درخت کے پهل کا کڑواپن یاتلخی ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬مدامۃ‪ :‬شراب۔ رکد ‪ ،‬یرکد ‪ ،‬رکودا‪ :‬ٹهہرنا۔ ہاجر (ج) ہواجر‪:‬دوپہر‬
‫کاشدید گرمی واال وقت‪ ،‬دن کا درمیانی حصہ جس میں گرمی بہت تیز پڑتی ہے خاص طور‬
‫س ے جہاں صحرا اور ریت ہو تو وہاں بالکل آگ کی طرح تپتی ہے‪ ،‬یہ وقت ہوتا ہے آرام‬
‫کا ‪ ،‬اور آرام وہی کرسکتا ہے جس کے پاس مال و دولت ہو۔ مشوف کا موصوف یہاں پر‬
‫محذوف ہے‪ ،‬اصل میں ہے بالدینار المشوف‪ ،‬اور مشوف کہتے ہیں چمکایا ہوا ‪ ،‬صاف‬
‫کیاہوا۔معلم‪:‬نشان زده۔دونوں سے مراد درہم و دینار ہے‪ ،‬اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان‬
‫دونوں سے مراد وه اونٹنی ہے جسے تارکول لگا دیا گیا ہو۔ دونوں معنوں کی گنجائش‬
‫ہےیہاں پر)‬
‫‪۵‬۔ جب دوپہر کا وقت ہوجاتاہے تو پهر میں درہم و دینار خرچ کرکےشراب پیتا ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح ‪ -:‬سکر ‪ ،‬یسکر (س) ‪ :‬نشہ میں آنا۔استهلک‪:‬خرچ کرنا‪ِ ،‬عرض‬
‫(ج)اعراض‪ :‬عزت و آبرو۔وافر‪ :‬محفوظ‪ ،‬کلم‪ ،‬یکلم‪:‬زخم لگانا)‬
‫‪۶‬۔ جب مجه پر نشہ چڑھتا ہے تو پهر میں اپنا مال خرچ کرتا ہوں اس حال میں کہ‬
‫میری عزت و آبرو پر کوئی حرف نہیں آتا۔‬
‫صر عن ‪ :‬کوتاہی‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬صحا‪ ،‬یصحو ‪ ،‬صحوا‪ :‬ہوش میں آنا ‪ ،‬بیدار ہونا‪ ،‬ق ّ‬
‫کرنا۔ قصر علی‪ :‬کسی پر انحصار کرنا ‪ ،‬محدود کردینا۔ ندی ‪ :‬سخا وفیاضی۔ شمائل ‪:‬عادات‬
‫و اطوار۔ تکرم‪ :‬فضل وکمال‪ ،‬سخاوت۔ )‬
‫‪۷‬۔ جب میں ہوش میں آتا ہوں تو میں جود و سخا سے پیچهے نہیں ہٹتا جیساکہ تو‬
‫میرے عادات و اطوار اور فضل و کرم کو جانتی ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬شهد‪ :‬حاضر ہونا۔ وقیعۃ (ج) وقائع‪:‬جنگ ‪،‬لڑائی‪ ،‬معرکہ۔ غشی ‪،‬‬
‫عف ‪ ،‬ی ِعف‪ ،‬عفا‪ :‬عفت و پاکدامنی کا اظہار کرنا۔ مغنم‪ :‬مال‬
‫یغشی ‪ :‬ڈھانپ لینا‪ ،‬غالب آنا۔ ّ‬
‫غنیمت)‬
‫‪۸‬۔ تم کووه بتالئے گا جو جنگوں میں موجود رہا ہےکہ میں جنگ میں چهایا رہتا ہوں‪،‬‬
‫اور مال غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی عفت اور استغنا کا اظہار کرتا ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬دجّج ‪:‬ہتهیار بند ہونا۔ کمی (ج) کماة‪ :‬بہادر ‪ ،‬زره پوش۔ نزال نازل کا‬
‫مصدر ہے‪:‬مقابلہ کرنا ‪ ،‬جنگ کرنا۔ أمعن ‪ :‬گہرائی میں جانا۔ ھرب‪ :‬فرار اختیار کرنا‪ ،‬بهاگنا۔‬
‫استسلم‪ :‬سپرد کرنا‪ ،‬جهکنا‪ ،‬بات مان لینا۔ سر تسلیم خم کردینا)‬
‫‪۹‬۔ کتنے ایسے ہتهیار بند ہیں کہ بڑے بڑے جانباز ‪/‬زره پوش ان سے لڑنے کو‬
‫ناپسند کرتے ہیں‪ ،‬ایسا جنگجو جو نہ تو بهاگنے واال ہے اور نہ ہی شکست تسلیم کرتا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬جاد‪ :‬کا م کو بحسن و خوبی انجام دینا۔عاجل‪:‬یہ صفت ہے اصل میں‬
‫صدق‪:‬مضبوط‪،‬ٹهوس۔ کعوب ‪ :‬نیزه میں لگی ہوئی‬ ‫طعنۃ عاجلۃ‪ :‬فوری وار۔مثقف‪:‬سدھایا ہوا۔ َ‬
‫لکڑی ‪ ،‬جس میں تهوڑا گهماؤ ہوتا ہے اور وہیں سے اس کو پکڑا جا تا ہے‪ ،‬اس کو قبضہ‬
‫بهی کہتے ہیں۔ قوم‪:‬سیدھارکهنا‪ ،‬دھار تیز کرنا)‬
‫‪۱۰‬۔ ایسے جنگجو کی طرف میرا ہاته بڑھتا ہے بہت بہتری کے ساته فوری نیزے‬
‫کے وار کے ساته ‪ ،‬اور ایسے نیزے سے وار کرتا ہوں جو سدھایا ہوا ہے ‪،‬اس کا قبضہ‬
‫بہت مضبوط ہےاور (اس کی دھار جب کند ہوجاتی ہے تو)اس کو تیز کردیا جاتا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬شک ‪:‬پهاڑ دینا۔ االصم ‪ :‬گونگا‪ ،‬قاتل۔ ثیاب ‪ :‬لوہے کی زره مراد ہے۔‬
‫قنا‪ :‬نیزه۔ )‬
‫‪۱۱‬۔ تو میں اس جنگجو کی زره کو تیز نیزه پهاڑدیتا ہوں ‪ ،‬اورآزاد اور شریف کو‬
‫نیزے سے مارنا یہ کوئی ناجائز امر نہیں ہے۔‬
‫کر‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬اقبل‪ :‬آنا۔ تذامر‪ :‬ایک دوسرے کو لڑائی یا جنگ پر آماده کرنا۔ ّ‬
‫حملہ کرنا۔ غیر مذمم‪ :‬جو قابل مذمت نہ ہو یعنی قابل تعریف ہو)‬
‫‪۱۲‬۔ جب میں نے قوم کو دیکها کہ وه سب کے سب آرہے ہیں اور ایک دوسرے کو‬
‫جنگ پر آماده کررہے ہیں‪،‬تو میں نے بهی قابل تعریف حملہ کیا۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬ش َ‬
‫طن (ج) اشطان ‪ :‬رسی۔ لبان‪ :‬گهوڑے کاسینہ۔ ادھم‪ :‬کاال گهوڑا)‬
‫‪۱۳‬۔ وه عنتره کی جے جے بول رہے تهےجبکہ کنویں میں ڈالی گئی رسیوں کی‬
‫مانند (لمبے لمبے) نیزے گهوڑے کے سینے پر پڑرہے تهے ۔(یعنی جس طرح کنویں میں‬
‫لمبی لمبی رسیوں کے ڈالنے اور کهینچنے کا منظر ہوتا ہے بالکل اسی طرح کا منظر‬
‫گهوڑے کے سینوں پر نیزے کے پڑنےکا تها)۔‬
‫(لغوی تشریح‪ :‬ثغره ‪:‬گردن کا حصہ۔ تسربل بالدم‪ :‬خون آلود ہونا)‬
‫‪۱۴‬۔ میں مسلسل ان پر تیر چالتا رہاگهوڑے کی گردن کے اوپری حصہ اور سینے‬
‫کا سہارا لےکر‪،‬یہاں تک کہ گهوڑا خون آلود ہوگیا۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬ازور عن ‪ :‬ہٹنا‪ ،‬الگ ہونا۔ وقع‪ :‬پڑنا‪ ،‬چوٹ پڑنا۔ شکا الی‪ :‬شکایت‬
‫کرنا ‪ ،‬تکلیف کا اظہار کرنا۔ عبرة(ج)عبرات ‪:‬آنسو۔ تحمحم‪ :‬گهوڑے کا ہنہنانا۔)‬
‫‪۱۵‬۔ گهوڑے نے اپنے سینہ پر نیزه کی چوٹ کی وجہ سے منه پهیر لیا(دشمنوں کے‬
‫سامنے سے ہٹ گیا)اور مجه سے تکلیف کا اظہار بهی کیا آنسو ٹپکاکر اور ہنہناکر۔‬
‫(لغوی تشریح ‪ -:‬اشتکی‪ :‬شکایت کرنا)‬
‫‪۱۶‬۔ اگر وه بولنا جانتا تو وه (بذریعہ الفاظ)شکایت کرتا‪ ،‬اگر وه کالم کرناجانتا تو ہم‬
‫سے ہم کالم ضرور ہوتا۔‬
‫(لغوی تشریح ‪ -:‬قیل ‪ :‬کہنا۔ ویک‪ :‬واه‪/‬الم تر(کیا تم نہیں دیکه رہے)۔ اق َدم ‪ :‬آگے‬
‫بڑھنا۔سقم ‪ :‬اندر کی کڑھن اور بے چینی)‬
‫‪۱۷‬۔ میرے دل کو مطمئن کردیا ‪،‬تسلی دے دی اوربے چینی کودور کردیاشہسواروں‬
‫کے یہ کہنے نے کہ واه عنتره !تم آگے بڑھو‪/‬اقدام کرو۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬گهڑسواروں کی جماعت۔ اقتحم‪:‬گهسنا۔ خبار‪:‬نرم‪،‬مالئم یا ہموار زمین۔‬
‫عابس (ج) عوابس‪ :‬منه بناتے ہوئے ‪ ،‬ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے۔ شیظمۃ‪ :‬بڑے ڈیل‬
‫ڈول واال‪/‬بڑے بالوں واال گهوڑا۔ شیظم‪:‬چهوٹے بالوں واال گهوڑا۔)‬
‫‪۱۸‬۔ اور گهوڑوں کی جماعت میدان جنگ میں آگے گهستی جارہی تهی‪ ،‬منه بسورتے‬
‫ہوئےاس میں کچه گهوڑے بڑے ڈیل ڈول والے بڑے بالوں والے تهے اور دوسرے کم بالوں‬
‫والے گهوڑے تهے۔‬
‫(اگر عنتره کے بار ے میں کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو ایک مستقل کتا ب ہے "ابو‬
‫الفوارس عنتره" کے نام سے ‪ ،‬جس کے مؤلف محمد فرید ابوحدید ہیں)‬
‫یہ اشعار بهی فخر و مباہات کے طاقتور جذبہ کو بیان کرتے ہیں جو عمرو بن کلثوم‬
‫التغلبی کے ہیں‪ ،‬اور اس کے شاندار معلقہ سے ماخوذ ہیں‪،‬جس کا مطلع یہ ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬ھبّ ‪ -:‬اٹهنا‪ ،‬بیدار ہونا۔ صحن‪ :‬پلیٹ‪ ،‬جام۔ اصبح‪ :‬جام صبوحی پیش‬
‫کرنا‪ ،‬صبح کی شراب پالنا۔ اندرین ‪:‬یہ ایک جگہ کا نا م ہے)‬
‫‪۱‬۔اے(ام عمرو!) کیا تم اپنا جام لےکر نہیں آؤگی‪/‬اے ساقئ گلفام ! تم جام لےکر تو‬
‫آؤ‪ ،‬اور صبح صبح کی شراب پالؤ‪ ،‬اور (شراب جب پالنا تو)اندرین کی شراب نہ چهوڑنا۔‬
‫‪۲‬۔اے ام عمرو!میری طاقت وقوت میرے قبضہ میں ہےکہ اس نےتم سے پہلے بهی‬
‫دشمنوں کوتهکا دیا ہےاور وه ان کے سامنے جهکی نہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬سام‪:‬اھان و اذل‪:‬ذلیل کرنا)‬
‫۔جب کوئی بادشاه لوگوں کو ذلیل کرتا ہے تو ہم انکار کردیتےہیں کہ ہم ذلت‬
‫کوبرداشت کریں۔‬
‫یہ اشعار بهی فخر و مباہات کے طاقتور جذبہ کو بیان کرتے ہیں جو عمرو بن کلثوم‬
‫التغلبی کے ہیں‪ ،‬اور اس کے شاندار معلقہ سے ماخوذ ہیں‪،‬جس کا مطلع یہ ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬ھبّ ‪ -:‬اٹهنا‪ ،‬بیدار ہونا۔ صحن‪ :‬پلیٹ‪ ،‬جام۔ اصبح‪ :‬جام صبوحی پیش‬
‫کرنا‪ ،‬صبح کی شراب پالنا۔ اندرین ‪:‬یہ ایک جگہ کا نا م ہے)‬
‫‪۱‬۔اے(ام عمرو!) کیا تم اپنا جام لےکر نہیں آؤگی‪/‬اے ساقئ گلفام ! تم جام لےکر تو‬
‫آؤ‪ ،‬اور صبح صبح کی شراب پالؤ‪ ،‬اور (شراب جب پالنا تو)اندرین کی شراب نہ چهوڑنا۔‬
‫۔اے عمرو !میری طاقت وقوت میرے قبضہ میں ہےکہ اس نےتم سے پہلے بهی‬
‫دشمنوں کوتهکا دیا ہےاور وه ان کے سامنے جهکی نہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬سام‪:‬اھان و اذل‪:‬ذلیل کرنا)‬
‫۔جب کوئی بادشاه لوگوں کو ذلیل کرتا ہے تو ہم انکار کردیتےہیں کہ ہم ذلت‬
‫کوبرداشت کریں۔‬
‫الغزل والتشبیب‪:‬‬
‫یہ اشعار عشق و محبت کے ہیں‪ ،‬یعنی اس میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے‪ ،‬اور‬
‫یہ اشعار عہد جاہلی کے عظیم شاعرملک ضلیل(آواره گردی کا راستہ اختیار کرنے واال)‬
‫امرؤ القیس کے ہیں‪،‬اور یہ اس کے شاندار معلقہ سے ماخوذ ہیں‪ ،‬جس کا مطلع درج ذیل‬
‫ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬سقط اللوی‪:‬وه جگہ جہاں سے ریت کٹتی ہو‪ ،‬عفا ‪،‬‬
‫یعفو‪:‬مٹنا‪،‬رسم‪:‬نشان۔نسج(ض)‪:‬بننا‪/‬یہاں پر معنی ہیں مٹی وغیره اوپر سے ڈالنا۔ َجنوب‪:‬جنوب‬
‫سے چلنے والی ہوا۔شمال‪:‬شمال سے چلنے والی ہوا)‬
‫‪۱،۲‬۔ذرا ٹهہرو!(قافلے آگے مت بڑھاؤ) تاکہ ہم اپنے محبوب اور ا س کے دیارکو یاد‬
‫کرکے رولیں‪ ،‬اور اس کا مکان سقط اللوی نامی جگہ پر دخول سے ہوکر حومل اور توضح‬
‫سے گذرتے ہوئے مقراة تک پهیالہواہے‪ ،‬اور ابهی اس کے نشانات مٹے نہیں ہیں ‪ ،‬اس لئے‬
‫کہ جنوبی اور شمالی ہواؤں نے ان پر مٹی ڈال دی ہے ۔‬
‫(لغویتشریح‪:‬بعر‪:‬مینگنی۔ رئم(ج)آرام‪:‬ہرنی۔ عرصاة‪:‬صحن۔ قیعان‪:‬کهالہواحصہ‪/‬چٹیل‬
‫میدان۔ َحبّ ‪:‬دانہ۔)‬
‫‪ ۳‬۔یہاں کے صحنوں اور کهلی جگہوں میں آپ ہرنیوں کی مینگنیوں کو دیکهیں‬
‫گےایسالگ رہ ا ہے کہ جیسے یہاں پرمرچ کے (چهوٹے چهوٹے )دانے ڈال دئیے گئے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬تحمل(تفعل)کوچ کرنا‪/‬سفر کرنا۔بین‪:‬جدائی۔سمرة(ج)سمرات‪:‬ببول‬
‫کےدرخت۔ ناقف‪:‬توڑنےواال۔ حنظل‪:‬اندرائن ‪/‬اندرائن کا درخت جس کا پهل نارنگی جیسا‬
‫مگر اندر سے انتہائی تلخ ہوتا ہے‪،‬اور جوآنکهوں میں بہت تیز لگتا ہے جب آپ اس کو‬
‫توڑیں گےتو الزمی طور پر آنکهیں بہہ پڑیں گی)‬
‫‪ ۴‬۔جس دن ان لوگوں(معشوق کے خاندان والوں)نے کوچ کیا تهااس دن جدائی کی‬
‫صبح میں محلہ میں ببول کے درختوں کے پاس کهڑا (رو رہا)تها جیسا کہ حنظل کا پهل‬
‫توڑنے واال(آنسو بہاتا ہے)۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬صاحب(ج)صحب‪:‬دوست‪/‬رفقائے سفر)‬
‫‪۵‬۔ تومیرے دوست میری خاطر اپنی سواریوں کو روکتے ہوئے کہنے لگےکہ رنج و‬
‫غم کی وجہ سے اپنے آپ کو ہالک نہ کرواور صبر و برداشت اور تحمل سے کام لو۔‬
‫آگے کہتا ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬فاض(الدمع)‪:‬آنسو کا بہنا۔بل ّ‪:‬تر کردینا‪/‬بهگونا۔صبابۃ‪:‬عشق و‬
‫محبت۔نحر‪:‬گردن۔محمل‪:‬زین‪/‬ہودج)‬
‫‪ ۶‬۔میری آنکهوں سے شدت عشق و محبت کی وجہ سے آنسو بہہ کر میری گردن(یا‬
‫سینہ)تک آگئے ہیں یہاں تک کہ میرے آنسؤوں نے میرے محمل کو بهی تر کردیا۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬اھرق(افعال)‪:‬بہانا۔شفاء‪:‬شفایابی۔دارس‪:‬مٹاہوا۔معول‪:‬بهروسہ)‬
‫‪ ۷‬۔میری بیماری کی دواان بہتے ہوئے آنسؤوں میں ہے‪،‬تو کیا مٹے ہوئے نشانات‬
‫کاکوئی بهروسہ کیا جاسکتا ہے۔‬
‫‪۸‬۔تمہارے چلے جانے کے بعد مجهے کچه اچهے ایام بهی ملے اور خاص طور سے‬
‫وه ایام جو جلجل نامی مقام پر گذارے۔‬
‫اور آگے کچه سخت ترین لہجہ میں کہتا ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬افاطم‪:‬منادی مرخم ہے اصل میں ہے یا فاطمۃ۔تدلل‪:‬ناز و‬
‫انداز‪/‬نخرے۔ازعم(افعال)‪:‬طے کرنا‪/‬فیصلہ کرنا۔صرم‪:‬توڑنا ‪/‬کاٹنا ۔اجمل(افعال)‪:‬کسی کام کو‬
‫اچهے انداز میں انجام دینا)‬
‫‪۹‬۔اے فاطمہ!اپنےذرا یہ ناز وانداز کم کرو‪،‬اگر تم نے مجه سے قطع تعلق کا فیصلہ‬
‫کر ہی لیا ہے(ت وٹهیک ہے)لیکن (قطع تعلق کا)اچها انداز اختیار کرو۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬خلیقۃ‪:‬عادت۔ساء(ن)‪:‬برا لگنا۔سلّ‪:‬پهینک دینا‪/‬نکال لینا۔انسل‪:‬نکل جانا)‬
‫‪ ۱۰‬۔اگر تمہیں میری کوئی عادت بری لگی ہےتو تم میرے کپڑے سےاپنے کپڑے‬
‫نکال لو(تم میرے تقدس کو اپنے دل سے نکال دو)تو وه نکل جائے گی۔‬
‫دوباره کہتا ہے‪:‬‬
‫کاآلہ‪/‬گوشہ‬
‫ٔ‬ ‫چیرنے‬ ‫بہانا۔سهم(ج)سهام‪:‬تیر‪،‬‬ ‫تشریح‪:‬ذرف‪:‬آنسو‬ ‫(لغوی‬
‫چشم۔اعشار‪:‬ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا۔مقتل‪:‬ٹوٹا ہوا)‬
‫‪۱۱‬۔تم نے آنسؤوں کی جو لڑیاں پروئی ہیں صرف اور صرف اس لئے کہ تم مجهے‬
‫اپنے نینوں کےکٹان سےمیرے زخمی اور غموں سے نڈھال چورچور دل پر (اور)تیر چالؤ۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬مهفهفۃ‪:‬وه لڑکی یا عورت جس کی کمر پتلی ہو۔مفاضۃ‪ :‬جس کے پیٹ‬
‫کا گوشت باہر لٹک رہا ہو(بڑا ہونے کی وجہ سے)تریبۃ (ج)ترائب‪:‬ہار پہننے کی‬
‫جگہ‪/‬سینہ۔مصقولۃ‪:‬چمکتا ہوا‪/‬چمکایا ہوا۔سجنجل‪:‬آئینہ‪/‬سونےیا چاندی یا زعفران کا‬
‫پانی‪/‬سونے کے پانی سے بنا ہوا آئینہ۔)‬
‫‪۱۲‬۔یہ پتلی کمر والی بڑی گوری چٹی اورنازک جسم والی ہےاس کاحلقوم‪/‬سینہ‬
‫سونے کے پانی سے بنے ہوئے آئینہ کی طرح چمک رہا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬منارة (ج)منائر‪:‬قندیل۔ممسی‪:‬رات۔ راھب(ج)رھبان‪:‬دنیابیزار۔تبتل‪:‬زہد‬
‫اختیار کرلینا)‬
‫‪۱۳‬۔(جب )وه عشاء کے وقت(نکلتی ہے تواپنے روشن چہره سے)تاریکی کو روشنی‬
‫میں بدل دیتی ہے‪ ،‬جیسا کہ تاریک رات میں اس دنیا بیزار راہب کی قندیل ہو جس نے‬
‫بالکل تبتل کی زندگی اختیار کررکهی ہو۔‬
‫دیکهنا۔اسبکر(استفعال)‪:‬لیٹنا‪/‬دراز ہونا۔درع‬
‫ّ‬ ‫(لغوی تشریح‪:‬رنا(ن)‪:‬ٹکٹکی باندھ کے‬
‫(ج)ادرع‪،‬دروع‪:‬عورت کی قمیص مجول‪:‬چهوٹے چهوٹے کپڑے‪/‬نائٹ دریس)‬
‫‪ ۱۴‬۔اس جیسی حسین و جمیل خاتون کی طرف بڑے بڑے باوقار لوگ بهی ٹکٹکی‬
‫باندھ کر عشق و محبت کی نگاه سے دیکهنے کو مجبور ہوجاتے ہیں(خاص طور سے اس‬
‫وقت)جب یہ درع اور مجول کے درمیانی یعنی چهوٹے چهوٹے کپڑے پہن کر (اپنے سونے‬
‫کی جگہ پر)دراز ہوتی ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬عمایۃ‪:‬کهیل کود ‪/‬نوجوانی‪/‬لڑکپن۔تسل‪:‬ہٹنا‪/‬دور ہونا۔انسلی(انفعال)‪:‬زائل‬
‫ہونا‪/‬دور ہونا)‬
‫‪۱۵‬۔آدمیوں سے (جب عشق و محبت ان میں داخل ہوتی ہے)بچپن کی اٹکهیلیاں دور‬
‫ہوجاتی ہیں‪،‬لیکن میرا دل اب بهی تمہاری محبت سے الگ نہیں ہوا ہے۔‬

‫الوصف‪:‬‬
‫وه اپنی رات کے تعلق سے بیان کرتا ہے کہ اس کی رات کیسے گزرتی ہے ‪ ،‬اور‬
‫پهر رات کتنی لمبی لگتی ہے اس کو بیان کرتا ہے ‪ ،‬اور اس کا ایسا شانداروصف بیان کرتا‬
‫ہے جس میں اس کے خیال کی زر خیزی اور شادابی نظر آتی ہے۔ وه کہتا ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪ :‬موج البحر ‪:‬سمندر کی موجیں۔ ارخی ‪ ،‬یرخی ‪ ،‬ارخاء‪ :‬گرانا۔ سدل‬
‫(ج) سدول ‪ :‬پردے۔ابتلی‪ :‬آزمانا‪ ،‬امتحان لینا)‬
‫(‪)۱‬سمندر کی موجوں کی مانند تاریک راتیں ہیں کہ جنهوں نےمختلف رنگ والم‬
‫کے مجه پر تاریک پردے ڈال دئیے ہیں تاکہ وه میرا امتحان لیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬تمطی (تفعل)‪:‬دراز ہونا‪ ،‬لیٹنا۔صلب (ج) اصالب‪:‬پیٹه۔‬
‫اردف(افعال)‪:‬پیچهے بٹهانا۔ عجز (ج) اعجاز‪ :‬پچهال حصہ۔ ناء(ن) رکهنا ‪ ،‬بهاری چیز‬
‫رکهنا۔کلکل‪ :‬سینہ۔)‬
‫(‪ ) ۲‬دھیرے دھیرے رات جب بهیگ گئی تو پهر میں نے اس وقت کہا‪/‬جب رات نے‬
‫اپنی پیٹه رکه دی اور یکے بعد دیگرے اپنے پچهلے حصہ مال دئیےاور پهر زمین پر اپنا‬
‫سینہ رکه دیایعنی جب رات اپنے شباب کو پہنچ گئی تو اس وقت میں نے رات کو مخاطب‬
‫کیا۔‬
‫(لغوی تشریح‪ :‬انجلی‪:‬چهٹنا‪،‬صاف ہونا‪،‬ب صلہ کے ساته النے کے معنی میں ہے۔‬
‫امثل‪:‬انفع‪ ،‬اجدی)‬
‫(‪ ) ۳‬اے لمبی رات! کیا تو صبح لے کر نہیں آئے گی ‪ ،‬حاالنکہ تیری جانب سے دن‬
‫کا طلوع ہونامیرے لئے بہتر نہیں ہے۔‬
‫ویصف فرسه ‪ (:‬اب اپنے گهوڑے کا سراپا بیان کررہا ہے)‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬منجرد کا موصوف محذوف ہے‪ ،‬اصل میں بفرس منجرد‪ ،‬اغتذی‪:‬صبح‬
‫تڑکے نکلنا۔ وکنۃ‪:‬وکنات‪:‬گهونسلے۔منجرد‪:‬وه گهوڑا جس کے بال کم ہو۔قید االوابد‪ :‬وه گهوڑا‬
‫جو جنگلی گهوڑوں کو دوڑ ا کر پکڑ لیتا ہو۔آبدة (ج) اوابد‪:‬جنگلی جانور۔ ھیکل‪ :‬قوی‪،‬‬
‫مضبوط)‬
‫(‪ )۱‬میں صبح تڑکے نکلتا ہوں (سورج نکلنے سے پہلے ہی اس وقت )جبکہ پرندے‬
‫اپنے گهونسلوں میں ہوتے ہیں‪،‬ایک ایسے گهوڑے پر سوار ہوکر جو کم بالوں واال ہے‪،‬‬
‫جنگلی جانوروں کو دوڑاکرپکڑ لیتا ہے ‪،‬اور بہت مضبوط پیروں واال ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪ِ :‬مك ٌَّر ِمف ٌَّر ‪ :‬موقع سے پیچهے ہٹکر پهرحملہ کردینے واال۔مقبل‪:‬اقدام‬
‫کرنےواال۔ مدبر ‪ :‬پیچهے ہٹ جانے واال۔)‬
‫(‪) ۲‬اور یہ گهوڑا ایک ہی وقت میں پلٹ کر وار کرنے واال ہے اور موقع کی نزاکت‬
‫سے پیچهے ہٹنے واال ہے‪ ،‬اور بیک وقت آگے بڑھتا ہے اور پیچهے دب جاتا ہے۔پہاڑی‬
‫چٹان کی مانند ‪ ،‬اس جیسی چٹان کو سیالب کی بہاؤ نےنیچے کو اوپر سے گرادیاہو۔‬
‫(لغوی تشریح‪ :‬کمیت‪:‬وه گهوڑا جو سیاه اور سفید رنگ کا‬
‫ہو‪/‬مضبوط۔زلّ‪:‬پهلسنا۔لبد‪:‬زین جو گهوڑے کی پیٹه کے اوپر رکهی جاتی ہے۔صفواء‪ :‬چکنی‬
‫چٹان‪ ،‬پتهر۔متنزل‪:‬بارش کا پانی)‬
‫(‪)۳‬میں نکلتا ہوں ایسے گهوڑے پر سوار ہوکر جو کالے اور سفید رنگ کا مضبوط‬
‫و طاقتور ہے کہ زین اس کی پیٹه سے پهسل کر گر جاتی ہےجس طریقے سے چکنا پتهر‬
‫بارش کے پانی کی وجہ سے پهسل کر گرجاتا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪ :‬دریر‪ :‬وه گهوڑا جو ایک ہی جگہ چکر کاٹتا ہو‪ ،‬خذروف‪:‬لٹو۔ولید‪:‬بچہ۔‬
‫امر‪:‬گهمانا۔تقلب‪:‬الٹنا پلٹنا۔ خیط‪:‬دھاگا ‪ ،‬یہاں پر مراد ہے لتی۔ موصل‪:‬موٹی ‪ ،‬بٹی ہوئی)‬
‫ّ‬
‫(‪ )۴‬یہ ایسا گهوڑا ہے جو گوالئی میں بهاگتا ہے‪/‬چکر کاٹتا ہےیا ایسے ہی چکر کاٹتا‬
‫ہے جس طریقے سے بچے کا لٹو ہوتا ہےجس کو اس کی ہتهیلی کا الٹنا پلٹنا گهماتا ہے‪،‬‬
‫ایک مضبوط دھاگے سے لپیٹ کر۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ایطل ‪:‬کمر کے پاس جو دائیں بائیں پہلو ہوتے ہیں اس کو “ایطل” کہتے‬
‫ہیں۔ساق‪ :‬پنڈلی۔نعامۃ‪:‬شترمرغ۔ارخاء‪:‬چال۔ ِسرحان‪ :‬بهیڑیا۔ تقریب‪ :‬ایک چال کا نام ہے اس‬
‫میں گویا اگلے پچهلے پیروں کو ساته ساته رکها جاتا ہے۔تتفل‪ :‬لومڑی کا بچہ۔)‬
‫(‪) ۵‬اس گهوڑے کے دو پہلو ہیں جیسا کہ ہرنی کے ہوتے ہیں ‪ ،‬اور اسکی پنڈلیاں‬
‫شترمرغ کی پنڈلیاں ہیں‪ ،‬اور اس کی رفتار بهیڑیے کی رفتار ہے‪ ،‬اور لومڑی کی دلکی‬
‫چال کی طرح اس کی چال بهی ہے۔‬
‫اور ایسے ہی امرؤ القیس دوسرے اشعار میں کہتا ہے جس میں بہت ہی شاندار تشبیہ‬
‫کا استعمال کیا ہےاور اس نے اپنی خودداری بهی بیان کی ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬عناب‪:‬ایک خاص قسم کی گهاس ہے (شایدپهول گوبهی )۔حشف‪:‬وه‬
‫کجهور جو پکنے سے پہلے ہی خراب ہوجائے۔بالی‪:‬بوسیده ‪ ،‬خراب)‬
‫(‪) ۱‬پرندوں کے دل ‪/‬پرندےجبکہ وه آسوده حال ہوتے ہیں یا وه بهوکے ہوتے ہیں تو‬
‫ایسا لگتا ہے کہ ان کے گهونسلوں کے پاس عناب کی ایک سوکهی گهاس پڑی ہو‪ ،‬یا ردی‬
‫اور خراب کهجوریں پڑی ہوئی ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪ -:‬ادنی‪:‬معمولی ۔قلیل من المال‪:‬تهوڑا مال‪ ،‬یہ فاعل بهی ہوسکتا ہے اور‬
‫مفعول بهی ہوسکتا ہے )‬
‫(‪)۲‬میں جو کوشش کررہا ہوں اگر وه معمولی زندگی کیلئے ہوتی‪ ،‬تو اس کے لئے‬
‫تو مجهے تهوڑا ہی مال کافی ہوجاتا‪ ،‬اور میں زیاده طلب نہ کرتا۔(اور اگرقلیل کو لم اطلب‬
‫کا فاعل مان لیں تب بهی مفہوم وہی رہےگا)۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬مؤثل ‪:‬موروثی۔مجد‪:‬جاه و منصب۔ادرک‪:‬پالینا‪ ،‬حاصل کرلینا)‬
‫(‪)۳‬لیکن میں جو کوشش کررہا ہوں ‪ /‬میری جو تگ و دو ہے یہ خاندانی جاه ومنصب‬
‫کیلئے ہے اور میرے جیسے لوگ تو موروثی اور خاندانی عز و شرف کو حاصل کرہی‬
‫لیتے ہیں۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬قرطاس‪:‬کاغذ۔ ِمشفر(ج)مشافر‪:‬ہونٹ(عموما اونٹ کے ہونٹ کے لئے‬
‫بولتے ہیں)۔ ِسبت‪:‬دباغت دیا ہوا چمڑا جس کے بال دور کردئیے گئے ہوں توسعا نعل کے‬
‫کاٹنا۔حرد(تفعیل)‪:‬ٹیڑھا کرنا۔)‬
‫ّ‬ ‫معنی میں ہے ۔ق ّد‪:ُ-‬لمبائی میں‬
‫‪ ۵‬۔اور اس کاایک ایسا رخسار ہے جو(شفافیت اور سفیدی میں)شامی تاجر کے کاغذ‬
‫کی مانند ہے‪،‬اور ایسا ہونٹ ہے جویمنی تاجر کےدباغت زده اور بالوں سے عاری سبتی‬
‫جوتے کی مانند ہے جس کو لمبائی میں کاٹا گیا ہو اور اس میں ٹیڑھے پن سے کام نہ لیا گیا‬
‫ہو (یعنی اس کے رخسار چکنے چکنے اس کے ہونٹ موزوں و مناسب ہے آڑے ترچهے‬
‫نہیں ہے)۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ارقل(افعال)‪:‬تیز چلنا۔مخافۃ‪:‬مصدر ہے اورمفعول لہ ہونے کی وجہ سے‬
‫موصوف محذوف(سوط)کی صفت ہیں۔لوی‪ِ-‬‬ ‫ِ‬ ‫منصوب ہے۔ملوی اور محصد یہ دونوں‬
‫لیاّ‪:‬لپیٹنا۔ ُمح ّ‬
‫صد‪:‬جو پختہ کردیا گیا ہو۔قِ ّد (ج) قُدود ‪:‬چمڑا۔)‬
‫‪۶‬۔اگر تم (نہیں)چاہو گے(کہ وه تیز چلے) تو وه تیز نہیں چلے گی ‪،‬اور اگر تم‬
‫چاہوگے تو وه تیز چلے گی‪،‬چمڑے کے چابک کے ڈر سےجو لپٹا ہوا اور مضبوط کیا ہوا‬
‫ہے۔(یعنی ایک مضبوط چرمی چابک کے ڈر سےوه تمہاری مرضی کے تابع رہے گی)‬
‫اسی طرح ہم کو اس دور کے شعراء کے کالم میں بکهرے ہوئے وصفی خاکے نظر‬
‫آتے ہیں جو ان کی شاعری کی زور و تاثیر اور اس کی کشش و رعنائی میں چار چاند لگا‬
‫دیتے ہیں‪،‬لیکن یہ خاکے ان کی زندگی سے سیدھا ساده تعلق رکهتے ہیں اور اس میں کوئی‬
‫گہرائی نہیں پائی جاتی ہے (یعنی معنوی گہرائی نہیں پائی جاتی محظ لفظی شکوه پایا‬
‫جاتاہے)۔‬

‫تجارب الحیاة‪:‬‬
‫کبهی شاعر اپنے افکارو خیاالت اور عقلی تجربات کا تذکره کرتا ہے‪(،‬لكن بسذاجة‬
‫البدوي وصراحته‪ ،‬ومضمومة بعاطفة قویة من الفخر واالعتداد بالنفس)لیکن اس کے اندر‬
‫بدویانہ سادگی اور صاف گوئی ہوتی ہے‪،‬اسی طرح اس کے اندر فخر اور خوداعتمادی‬
‫کے طاقتور جذبات ہوتے ہیں‪ ،‬یہی وه بات ہے جس سے اس دور کے مرد کی فکری اور‬
‫انسانی مقام و مرتبہ کا پتہ چلتا ہے‪ ،‬طرفہ بن عبد اپنے معلقہ کے مذکوره اشعار میں کہتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫سال‪:‬کاہلی کرنا۔تبلّد(تفعل)‪:‬ت َ َحی ََّر فُ َال ٌن فَأ َ ْق َب َل‬
‫(لغوی تشریح‪:‬خال‪،‬یخال‪:‬گمان کرنا۔ک ِسل‪ َ-‬ک َ‬
‫ب بَ ْل َدة َ نَحْ ِره بِبَ ْل َدةِ یَ ِدهِ‪:‬آدمی حیران و پریشان ہوکر اپنے سینے کو اپنے ہاته سے مارنے‬ ‫یَض ِْر ُ‬
‫لگے۔اور دوسرا معنی‪:‬تظاھر بالبالدة‪:‬بیوقوفی کا مظاہره کرنا‪/‬نہ سمجهنے کا ڈھونگ رچے)‬
‫‪۱‬۔جب لوگ یہ سوال کرتے ہیں ‪:‬کون ہے جوانمرد؟تو مجه کو خیال ہوتا ہے کہ (ان‬
‫سوال کرنےوالوں کی)مراد میری ہی ذات ہے ‪،‬اور میں( ان کے خیال کی تصدیق میں)کوئی‬
‫ک اہلی نہیں کرتا اور نہ حیران و پریشان ہوتا ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬تلعۃ(ج)تِالع‪:‬ٹیلہ۔حل‪:ُ-‬اترنا۔ ّ‬
‫حاللصیغہ مبالغہ ہے۔ َرفَد‪ِ-‬رفدا‪:‬عطیہ‬
‫دینا۔استرفد ‪:‬عطیہ طلب کرنا)‬
‫‪۲‬۔ میں ٹیلوں پر چلے جانے واال نہیں ہوں (مہمانوں کی آمد یا دشمن کے حملہ آور‬
‫ہونے کے)ڈر سے‪،‬لیکن جب لوگ عطیہ مانگتے ہیں تو میں عطیہ دیتا ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬بغی –ِ‪:‬ڈھونڈنا‪/‬تالش کرنا۔حانوت (ج) حوانیت‪:‬میکده۔اق)‬
‫‪۳‬۔اگر تم مجه کوقو م کی(سنجیده)محفل کے اندر تالش کروگے توتم مجهے پالوگے‬
‫مجلس مے نوشی میں میرا شکار کروگے تو تم(وہاں پر) میرا شکار کر لوگے(یعنی‬
‫ِ‬ ‫‪،‬اگر تم‬
‫اگر تم مجه کو مے کدوں کے اندر تالش کروگےتو تم مجهے وہاں بهی دیکه لوگے)۔‬
‫‪ ۴‬۔میری شراب نوشیوں‪،‬لذت کوشیوں اور نئے پرانے اور ذاتی و موروثی چیزوں کو‬
‫فروخت کرنے اور ان کو خرچ کرنے کا سلسلہ مستقل جاری رہا۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬عشیرة(ج)عشائر‪:‬قریبی رشتہ دار۔تحامی(تفاعل)‪:‬بچنا۔افراد(مفعول‬
‫مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ‪ ،‬اور بیان نوع کیلئے آیا ہے۔عبّد البعیر‪:‬طاله‬
‫بالقطران‪:‬اونٹ پر تارکول مل دینا۔قدیم زمانہ میں دستور یہ تها کہ جب کسی اونٹ کو خارش‬
‫کی بیماری ہوجایا کرتی تهی تواس پر تار کول مل کے اس کو الگ باڑے میں باندھ دیتے‬
‫تهے‪،‬تاکہ صحت مند اونٹ اس بیماری سے متاثر نہ ہو)‬
‫‪۵‬۔ یہاں تک کہ پورا کا پورا خاندا ن مجه سے الگ ہوگیا‪ ،‬اور مجه کو ایک ایسے‬
‫اونٹ کی طرح الگ کردیا گیا(لکهنوی زبان میں بولتے ہیں کہ مجه کو ن ّکو بنا دیا)جس پر‬
‫تارکول مل دیا گیا ہو۔‬
‫(لغوی تشریح ‪:‬غبراء‪:‬زمین۔بنو غبراء کے لفظی معنی‪:‬دھرتی کے سپوت‪،‬مرادی‬
‫راف(ج)طرف‪:‬جانوروں کے‬
‫ُ‬ ‫معنی‪:‬الفقراء المحادیج‪:‬فقیر و محتاج۔انکر(افعال)‪:‬نہ پہچاننا۔ط‬
‫چمڑے سے بنے ہوئے خیمے یاگهر۔الممدد‪:‬تانے ہوئے‪/‬لمبے لمبے)‬
‫‪ ۶‬۔میں نے محتاجوں اور فقیروں کو دیکها ہے کہ وه مجه سے اجنبیت و بیگانگی کا‬
‫معاملہ نہیں کرتے ہیں۔اور جواونچے اونچے گهروں والے ہیں( فارغ البال ہیں)‪ ،‬وه بهی‬
‫مجه کو اجنبی و بیگانہ نہیں سمجهتے ہیں۔‬
‫(زجز‪ ُ-‬زجراسے اسم فاعل‪:‬مجه کو ڈانٹنے پهٹکارنے والے۔اس کے بعد (علی ان)تها‬
‫جس کو ضرورة حذف کردیا گیا۔وغی‪:‬جنگ۔اِخالد(افعال)‪:‬خلود بخشنا‪/‬بقائے دوام عطاکرنا)‬
‫‪ ۷‬۔میری جنگ میں شرکت اور حاضری پر مجهے اے ڈانٹنے والےشخص!اورلذتوں‬
‫میں شمولیت اخ تیار کرنےپر مجهے اے پهٹکارنے شخص!(اگر تم یہ کہتے ہو کہ میں لذت‬
‫کوشی سے دور رہوں اور میں تمہاری بات مان بهی لیتا ہوں تو اس کے بدلہ میں )کیا تم‬
‫مجه کو حیات ِدوام بخش سکتے ہو؟‬
‫‪ ۸‬۔اگر تم میرے خاتمہ کے دفعیہ کی استطاعت نہیں رکهتے ‪ ،‬تو مجهے(میرے حال‬
‫پر)چهوڑ دو ت اکہ میں موت سے پہلے پہلےاپنے مال و دولت کو(اپنے مطالب و مقاصد‬
‫میں)خرچ کروں۔‬
‫نقطہ نظر بیان کرتا ہے‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫(پهر )وه( اسی معلقہ کے اندر )زندگی کے بارے میں اپنا‬
‫(لغوی تشریح‪:‬عاد‪:ُ-‬عیادت کرنا)‬
‫‪ ۹‬۔اگر ایسی تین چیزیں جن کا تعلق انسان کی لذت زندگانی سے ہے‪ ،‬نہ ہوتیں‪ ،‬تو‬
‫تمہارے بخت و نصیب کی قسم مجه کو پرواه نہ ہوتی کہ کب میرے پرسان حال اٹه (کر‬
‫چلے)گئے۔‬
‫(منہن‪:‬من ہٍذه الخالل الثالث۔سبق‪،‬یسبِق کا مصدر سبْق ہے‪ ،‬اورمضاف الی یاء المتکلم‬
‫ہے‪،‬اور یہ اضافۃ المصدر الی الفاعل کی مثال ہے‪،‬العاذالت ‪ ،‬اس مصدر کا معمول یعنی‬
‫مفعو ل بہ ہے‪ ،‬اس کے معنی ڈانٹنے والیاں ‪ ،‬برا بهال کہنے والیاں۔سبق بکذا‪:‬کسی چیز کے‬
‫ذریعہ سے سبقت لے جانا۔)‬
‫‪۱۰‬۔ان (تینوں باتوں )میں سے (ایک بات)میرا مالمت کرنے والی خواتین سے ایک‬
‫زنان‬
‫ِ‬ ‫کمیتی(سرخ مائل بہ سیاہی) شراب کے ذریعہ سے سبقت لے جانا ہے(یعنی میں ان‬
‫مالمت گرسے پہلے اٹه کر مے خانے کا رخ کرتا تها)‪،‬اور وه شراب ایسی ہے کہ جب اس‬
‫میں پانی کی آمیزش کردی جاتی ہےتو اس میں جهاگ پیدا ہوجاتے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬مضاف‪:‬خوف زده ۔محنب‪:‬کری کا مفعول بہ ہے اور اس کے معنی ایسا‬
‫ضا‪:‬جهاڑیے کابهیڑیا۔غضا‬
‫گهوڑاجس کی ٹانگوں میں کجی ہو‪/‬ٹیڑھی ٹانگوں واال۔ ِس ْی ُد الغَ َ‬
‫ایسی جهاڑی کو کہتے ہیں جس میں آگ جلد لگ جاتی ہے۔متورد‪:‬طالب ورد‪/‬چشمہ یا گهاٹ‬
‫پر جانے کا طلب گار۔)‬
‫‪۱۱‬۔اور(دوسری بات یہ کہ)جب کوئی دہائی دینے واال دہائی دے اس وقت میں ایسے‬
‫فریادی کی طرف تیزی سے ٹیڑھی ٹانگوں والے گهوڑےکی لگام کو موڑدیتا ہوں‪ ،‬جو اس‬
‫جهاڑی کے بهیڑیےکی مانند ہے جس کو گهاٹ پر جانے واال چهیڑ دے(تو وه اچانک اپنا‬
‫رخ بدل لیتا ہے ‪ ،‬اسی طرح جب میں گهوڑے کی لگام کو موڑتا ہوں تو وه بهی تیزی سے‬
‫اپنا رخ بدلتا ہے)۔‬
‫( َدجن(ج)ادجان و ُد ُجون ودِجان‪:‬بدلی۔تقصیر(تفعیل)‪:‬کوتاه کرنا‪/‬توسعا گزارنا بهی کہہ‬
‫سکتے ہیں۔بہکنۃ‪:‬نرم و نازک اور خوش اندام دوشیزه۔ ُمعَ ّمد‪:‬ستون لگاہوا)‬
‫‪ ۱۲‬۔اور(تیسری بات یہ ہے کہ)ستون پر قائم خیمہ کے نیچے(اندر)ایک خوش اندام‬
‫دوشیزه کے ساته بدلی کے دن گزارنا‪ ،‬اور بدلی بہت ہی دل پسند (موسم)ہے۔‬
‫(اعتام(افتعال)‪(:‬ہرمنتخب اور مختار شےکا)قصد واراده کرنا۔اصطفی(افتعال)‪:‬منتخب‬
‫کرنا‪/‬برگزیده کرنا۔عقیلۃ(ج)عقائل‪:‬عمده اونٹ۔فاحش‪:‬بہت بخیل)‬
‫‪۱۳‬۔میں موت کو دیکهتا ہوں کہ وه شرفاء و اسخیاء کا قصد و اراده کرتی ہے(ان کو‬
‫لقمہ اجل بناتی ہے) ‪،‬اور کنجوس مکهی چوس کے عمده قسم کےمال اونٹوں کا انتخاب‬ ‫ٔ‬
‫کرلیتی ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ن ِفد‪،‬یَ ْنفَ ُد ‪ ،‬نَفَادا (س)‪:‬ختم ہوجانا)‬
‫‪۱۴‬۔میں دیکهتا ہوں کہ زندگی ایک ایسا خزانہ ہے جوہر روز کم ہو رہاہے‪،‬اور زمانہ‬
‫اور (اس کے)ایام جس چیز کو گهٹائیں گے وه ختم ہی ہوکر رہے گی ۔‬
‫ضة ‪:‬ألم من وجع المصیبة‬ ‫ضا َ‬‫ضیْضا َو َم َ‬
‫ضضا َو َم ِ‬ ‫ض‪،‬یَ َمض‪َ ،‬م َ‬ ‫(لغوی تشریح‪َ :‬م َّ‬
‫‪:‬مصیبت کے درد سے درد مند ہونا‪ ،‬و ِلل َّ‬
‫ش ْی ِئ‪ :‬تأ ًّلََ م ‪ :‬تکلیف میں مبتال ہوتا‬
‫شمشیر ہندی کی مار (اور اس کی کاٹ) سےزیاده‬
‫ِ‬ ‫‪۱۵‬۔اہل قرابت کا ظلم نفس پر‬
‫تکلیف ده ہوتا ہے۔‬

‫شعر الصعالیك‪:‬‬
‫(صعلوک(ج)صعالیک‪:‬ا لفقیر الذي ال یملك من المال ما یعینه على أعباء الحیاة ‪ ،‬لیکن‬
‫زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ اس معنی میں محدود نہیں رہا بلکہ جو لوگ غارت گری‪ ،‬رہزنی‬ ‫ٔ‬
‫وغیره میں لگے رہتے تهےایسے لوگوں کے واسطے بهی صعالیک کا لفظ بوال جانے لگا‬
‫تها)‬
‫صعالیک کی اپنی مخصو ص زندگی تهی جس میں بدویانہ اخالق پائے جاتے‬
‫تهے‪،‬جوانمردی‪ ،‬خطر پسندی و مہم جوئی پائی جاتی تهی‪،‬اور یہ تمام باتیں ان کی شاعری‬
‫میں نمایاں ہیں۔‬
‫شعرائے صعالیک میں عروه بن ورد ہیں ‪ ،‬اور ان کا کالم پختگی اور شرافت کے‬
‫لحاظ سےزیاده کامل ہے‪،‬اور شنفری ہیں ‪ ،‬ان کے کالم میں سختی و غلظت اور بدویت پائی‬
‫جاتی ہے‪،‬شنفری کا ایک ایسا قصیده ہے جو المیۃ العرب (ہر شعر کے اخیر میں الم)کے‬
‫نام سے مشہور ہے‪،‬شعرائےصعالیک کا شمار اصحاب المعلقات میں نہیں ہوتا ہے۔‬

‫یقول الشنفرى في المیة العرب‪:‬‬


‫(لغوی تشریح‪:‬اقام صدر المطیۃ‪:‬کسی کام کو تیز کرنا‪،‬حرکت دینا)‬
‫‪۱‬۔اے میرے بهائیو!تم لوگ اپنی سواریوں کو اٹهاؤ(اور ان کو چلنے کیلئے حرکت‬
‫دو)!(کیونکہ اگر تمہارا یہی معاملہ رہےگا )تو میں تمہارے عالوه کسی اور قوم کی طرف‬
‫مائل ہوجاؤں گا۔‬
‫(لغوی تشریح‪ِ :‬سید(ج) ِسیدان‪:‬بهیڑیا۔عملس‪:‬تیز رفتار ی پر قادر بهیڑیا)‬
‫‪۲‬۔میرا‬

‫شعر الفكرة والتأمل في الحیاة‪:‬‬


‫وه جنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے‪:‬‬

‫(لغوی تشریح‪:‬معروف‪:‬نیکی ‪ ،‬بهالئی‪،‬خوبی ۔عرض (ج)اعراض‪:‬عزت و آبرو۔وفر ‪،‬‬


‫یفر‪:‬بچانا۔ اتقی(افتعال)‪:‬بچنا)‬
‫‪ ۱‬۔جو اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کیلئےاچهے کام کرتا ہےتو وه اپنے عزت و‬
‫ناموس کو بچا لیتا ہے ‪،‬اور جو گالی سے نہیں بچتا اسے گالی دی جاتی ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ھاب‪:‬ڈرنا۔سبب(ج)اسباب‪:‬ذرائع و وسائل۔رقی ‪ ،‬یرقی(س)‪:‬چڑھنا۔اسباب‬
‫السماء‪:‬آسمان میں چڑھنے کے راستے۔سلم(ج)ساللم و ساللیم‪:‬سیڑھی۔)‬
‫‪ ۲‬۔ جو موت کے اسباب سے ڈرتا ہے تو موت اسے آدبوچتی ہے اگرچہ وه سیڑھی‬
‫لگاکر آسمان پر ہی کیوں نہ چڑھ جائے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬جعل‪:‬کرنا۔حمد‪:‬تعریف۔ذم‪:‬مذمت‪،‬مالمت ‪،‬برائی۔ندم‪ ،‬یندم(س)‪:‬افسوس‬
‫کرنا)‬
‫‪ ۳‬۔جو نیکی اور بهالئی اس کے غیر اہل لوگوں کے ساته کرتاہے توپهراس نیکی کی‬
‫تعریف اس کے لئے مذمت بن جاتی ہےاور وه افسوس کرتا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬اغترب(افتعال)‪:‬اجنبی بننا‪/‬سفر کرنا‪/‬پردیس میں جانا)‬
‫‪ ۴‬۔جو باہر نکلتا ہے وه دشمن کو بهی اپنا دوست سمجهتا ہے ‪ ،‬اور جو خود اپنا اکرام‬
‫نہیں کرتا تو پهر اس کا اکرام نہیں کیا جاتا۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬خلیقۃ‪:‬عادت)‬
‫‪ ۵‬۔کسی بهی انسان کے اندر کوئی بهی عادت(اچهی یا بری)ہوتی ہے تواگرچہ وه‬
‫گمان کرتا ہے کہ یہ لوگوں سےمخفی ہے(لیکن)وه بهی جان لی جاتی ہے(لہذا بہت محتاط‬
‫رہنے کی ضرورت ہے)۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬کائن‪:‬رہنے واال‪/‬انسان)‬
‫‪ ۶‬۔آپ بہت سے ایسے لوگوں کو دیکهیں گے جو خاموش رہتے ہیں اور آپ کو اچهے‬
‫(بهی)لگتے ہیں(کہ بڑے سیدھے سادے ہیں)حاالنکہ اس کی خوبی یا خامی ان کی گفتار‬
‫میں ہے۔‬
‫‪ ۷‬۔نوجوان کا نصف وجوداس کی زبان اور نصف اس کا دل ہے(اگر ان دونوں کو‬
‫نکال دیا جائے )تو انسان گوشت پوست کا ایک لوتهڑا ہے۔‬
‫لبید بن ربیعہ نےجاہلیت اور اسالم کا زمانہ پایا(یعنی کہ یہ مخضرم شاعر ہے)‪،‬البتہ‬
‫اسالم کے بارے میں انهوں نے ایک یا دو شعر کہے‪ ،‬ان کے کالم میں سے چند اشعار جن‬
‫کا ذکر ان کے معلقہ میں نہیں ہے مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬بلی ‪ ،‬یبلی(س)‪:‬بوسیده ہونا‪/‬فنا ہونا(یا بال ‪ ،‬یبلو سے مجہول بهی ہوسکتا‬
‫ہے آزمائے جانے اور گرفتار مصیبت کئے جانے کے معنی میں)۔طالع(ج) طوالع‪:‬قسمت کا‬
‫ستاره جس کے طلوع پر مجمین حوادث کی پیش گوئی کرتے ہیں‪/‬طلوع ہونے واال)‬
‫‪ ۱‬۔ہم فنا ہوجاتے ہیں‪/‬ہم آزمائے جاتے ہیں حاالنکہ طلوع ہونے والےستارے‪/‬قسمت‬
‫کے ستارے (بظاہر)فنا ہوتےنظر نہیں آتے‪/‬آزمائش میں مبتال نہیں کئے جاتے‪،‬اور ہمارے‬
‫بعد گهر اور کارخانے باقی رہتے ہیں(ہمارے اور ان کےدرمیان فرق یہ ہے کہ ہمیں ان کی‬
‫نسبت موت جلد آ دبوچتی ہے)‬
‫(لغوی تشریح‪:‬تبّر(تفعیل)‪:‬برباد کرنا ‪/‬ضائع کرنا)‬
‫‪ ۲‬۔عمل کے اعتبار سے لوگ دو ہی قسم کے ہوتے ہیں‪ ،‬لہذا ایک قسم ان لوگوں کی‬
‫ہوتی ہے جو اپنی بنائی ہوئی چیز کو برباد کردیتے ہیں اور دوسرے وه لوگ ہوتے ہیں‬
‫جواس کو بلندی تک لے جاتے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬نصیب(ج)نُ ُ‬
‫صب‪:‬حصہ‪/‬قسمت۔معیشۃ (ج)معائش‪:‬روزینہ‪/‬اسباب زندگی)‬
‫‪ ۳‬۔لوگوں میں سے کچه ایسے نیک بخت ہوتے ہیں جو اپنا حصہ لے لیتے ہیں(اپنے‬
‫مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں)اور ان میں کچه ایسے بدبخت بهی ہوتے ہیں جو معمولی‬
‫اسباب زندگی پر قانع ہوجاتے ہیں۔‬
‫حکمت اور اخالق کے باب میں حاتم طائی نے بهی اشعار کہے ہیں‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬تحلم (تفعل)‪:‬بہ تکلف بردباری اختیار کرنا۔ادنی(ج)ادنین‪:‬قریب‬
‫رکهنا۔ودّ‪:‬محبت‪/‬الفت)‬
‫ُ‬ ‫ترلوگ‪/‬قریبی رشتہ دار۔استبقی(استفعال)‪:‬باقی‬
‫‪۱‬۔قریبی لوگوں سے بہ تکلف بردباری اختیار کر و اور ان کی محبت کو باقی‬
‫رکهو(کیونکہ)تم بردبارہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ تم بہ تکلف برد بار نہ ہوجاؤ۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬اھان(افعال)‪:‬ذلیل کرنا(ھان‪ ،‬یهون(علی)‪:‬بے وقعت ہونا)۔لقی‪ ،‬یلقی‪:‬ملنا)‬
‫‪ ۲‬۔خود اپنا اکرام کرو اوراگر تمہاری ذات تمہارے نزدیک بے وقعت ہے‪/‬اگرتم خود‬
‫کو ذلیل کرو گے تو زمانہ کو ہرگز اپنا اکرام کرنے واال نہیں پاؤگے۔‬

‫المدح واالستعتاب‪:‬‬
‫اس زمانہ میں شاعری کے اہم موضوعات میں مدحیہ اور توصیفی شاعری تهی‪،‬‬
‫سلمی وغیره‬
‫ٰ‬ ‫بعض شعراءنے اس میں صاف و شفاف اسلوب اختیار کیاجیسے کہ زہیر بن‬
‫ہیں‪ ،‬جبکہ دیگر شعراءنے اس کو امر اء کے یہاں تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ یا مال‬
‫کمانے کا ذریعہ بنایا جیسے طرفہ بن العبد ہیں‪ ،‬عبید بن االبرص ہیں‪ ،‬نابغہ زبیانی ہیں ‪،‬‬
‫اعشی بن میمون ہیں۔‬
‫رہی بات نابغہ کی تو اس کا شمار بڑے شعراء میں ہوتا ہے اور وه تین قدیم شعراؤں‬
‫میں سے ایک ہے‪ ،‬اس کی شاعری میں خاص طور پر مدح و تعریف کے باب میں عمدگی‬
‫پائی جاتی ہے‪ ،‬اس کی شاعری کے نمونوں میں سے وه اشعار جو اس نے عمرو بن حارث‬
‫غسانی کی تعریف میں کہے ہیں مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬نعمۃ (ج)نعم‪:‬احسان ‪/‬حسن سلوک۔عقرب (ج)عقارب‪:‬بچهو‪/‬یہاں پر مراد‬
‫ہے تکلیف)‬
‫‪۱‬۔میرے اوپر عمرو اور اس کے والد کےیکے بعد دیگرے وه احسانات ہیں کہ‬
‫جو(بعد میں)باعث تکلیف نہیں ہیں۔‬
‫کرنا‪/‬بهروسہ‬ ‫کرنا‪/‬یقین‬ ‫یثق(س)‪:‬اعتماد‬ ‫‪،‬‬ ‫تشریح‪:‬وثق‬ ‫(لغوی‬
‫کرنا۔کتیبۃ(ج)کتائب‪:‬فوج‪/‬فوج کا بڑا دستہ۔ اشابۃ(ج)اشائب‪:‬مالہوا‪/‬گڈمڈ‪/‬مخلوط)‬
‫‪۲‬۔مجهے بادشاه سالمت کے غلبہ کا یقین ہوگیا جب یہ کہا گیا کہ غسانی لشکرنے‬
‫حملہ کو انجام دیا ہے اور کوئی (دوسرے قبیلہ کا لشکر)ان سےمال ہوا نہیں ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬حلق(تفعیل)‪:‬منڈالنا۔عصابۃ(ج)عصائب‪:‬جماعت‪/‬جهنڈ)‬
‫‪۳‬۔جب یہ (غسانی) حملہ کے اراده سےکسی لشکر کا رخ کرتے ہیں تو ان کے سروں‬
‫کے اوپر پرندوں کے جهنڈ منڈالنے لگتے ہیں جو دوسرے جهنڈ کے تابع ہوتے ہیں(یعنی‬
‫پہلے ہی سے منڈالرہے ایک جهنڈکے تابع ہوتے ہیں‪،‬کثیر تعداد میں پرندوں کے منڈالنے‬
‫سے اشاره اس بات کی طرف ہے کہ ہم بہت خون خرابا کرتے ہیں)‬
‫(لغوی تشریح‪:‬قارع(مفاعلۃ)‪:‬شمشیر زنی کرنا۔فلول‪:‬کند)‬
‫‪۴‬۔ان میں کوئی عیب نہیں ہے س وائے اس (عیب)کےکہ ان کی تلوار کی دھاریں‬
‫جنگوں میں لشکروں سےلڑنے کی وجہ سے کند ہوجاتی ہیں۔‬
‫(ج)شیم‪:‬طبیعت‬ ‫تشریح‪:‬شیمۃ‬ ‫(لغوی‬
‫‪ /‬عادت‪/‬خصلت۔عازب(ج)عوازب‪:‬دور‪/‬الگ‪/‬غائب)‬
‫‪ ۵‬۔ان کی کچه( ان سے) نہ الگ ہونے والی خصلتیں ہیں جیسے سخاوت اور فیاضی‬
‫ہللا نےان کے عالوه لوگوں کو یہ خصلتیں عطا نہیں فرمائی۔‬
‫(لغوی تشریح‪ُ :‬رقاق‪:‬پتال ‪/‬باریک‪/‬نرم‪/‬عمده۔نعل (ج)نعال‪:‬جوتا‪/‬نعل۔رقاق النعال‪:‬بے‬
‫نیازی اور تونگری سے کنایہ ہے‪،‬کہ ان کے جوتے موٹے اور دبیز قسم کے نہیں ہوتے‬
‫بلکہ باریک ہوتے ہیں لہذا وه چلتے کم ہیں اور گهوڑوں پر سوار زیاده رہتے ہیں۔ ُحجْزَ ة(ج)‬
‫ح ْجزَ ات‪:‬کمر پر ازار باندھنے کی جگہ‪،‬طیب الحجزة سے پاکدامنی کی طرف‬ ‫ُح َج ٌز َو ُ‬
‫اشاره ہے۔ حیّی(تفعیل)‪:‬سالم کرنا‪/‬زنده رہنے کی دعا دینا۔ریحان(ج)ریاحین‪:‬خوشبودار‬
‫پودا‪/‬پهول۔السباسب‪ :‬عید الشعانین(مشرقی عیسائیوں کے نزدیک ایک عید ہےجس کو‬
‫انگریزی میں‪ PALM SUNDAY‬کہتے ہیں ‪ ،‬اس کا ذکر اس لئے کیا کیونکہ ممدوح‬
‫نصرانی تها۔سبسب (ج)سباسب‪:‬وه درخت جس سے تیر بنائے جاتے ہیں)‬

‫‪۶‬۔ ان کے جوتے اعلی قسم کے ہوتے ہیں اور وه پاکدامن بهی ہیں اورسباسب کے‬
‫روزخوشبودار پهولوں کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں سالم پیش کئے جاتے ہیں۔‬

‫الرثاء‬
‫تحلیل عناصر النماذج السابقة‬
‫العاطفة والخیال في شعر عنترة‬
‫شعر عمرو بن كلثوم وأثره في األدب‬
‫معلقة امرئ القیس‬
‫سمة الفكر في الشعر الجاھلي ومعلقة زھیر‬
‫وجدانیة الشعر الجاھلي وغنائیته وكالم النابغة والخنساء‬
‫نضج الشعر الجاھلي وكماله‬
‫عدم وجود الكتابة‬

‫النثر الفني في ذلك العصر‬


‫النثر الفني وأقسامه‪:‬‬
‫یہ بات ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ فنی نثر اس دور میں کم یاب تهی‪،‬جب کہ نثر‬
‫بسیط زندگی کے تمام گوشوں میں عام تهی‪ ،‬اور تمام اغراض و مقاصد میں اس کا استعمال‬
‫کیا جاتا تها‪ ،‬کیو نکہ فنی نثر کو فکری ترقی اور عقلی تہذیب و تربیت کی ضرورت ہوتی‬
‫ہے ‪،‬بر خالف شعر و شاعری کے کیونکہ اس کا دارو مدار فطری و خیالی لیاقتوں اور‬
‫عمومی لغوی صالحیتوں پر ہوتا ہے‪،‬اور یہ صالحتیں کسی بهی قوم کو جو اپنے ادبی دور‬
‫کے ابتدائی مرحلہ میں ہو بمقابلہ فطر ی صالحیتوں اور ترقی یافتہ خیالی قدرتوں کےبا‬
‫آسانی حاصل ہوجاتی ہیں ‪،‬یہی وجہ ہے کہ شعر و شاعری کے مرحلہ کا آغاز –جیسا کہ‬
‫ہم پہلے بهی واضح کر چکے ہیں‪-‬فنی نثر کے مرحلہ کے آغاز سے پہلے ہو جاتا ہے۔‬
‫قدیم عربی جاہلی دور میں یہ کم یاب نثر ِفنی معدودے چند اقسام واصناف سے آگے‬
‫نہیں بڑھتی ہے‪ ،‬اور یہ( اقسام)محاوروں ‪ ،‬مسجع عبارتوں ‪ ،‬حکیمانہ اقوال‪،‬وصیتوں‪،‬‬
‫تقریروں‪،‬اور حکایات پر مشتمل ہیں‪ ،‬اور ان( انواع و اقسام )کے مزاج میں عام طور پر‬
‫معانی کے اندرژولیدگی وپرا گندگی‪،‬جملوں کے باہمی ربط میں کمزوری اور اختصار ہے۔‬

‫األمثال واألسجاع‪:‬‬
‫امثال ان جملوں کو کہتے ہیں جو اپنے اندر زندگی کے حادثات و واقعات کے بارے‬
‫میں مؤثر و مخصوص تاثرات رکهتے ہیں‪،‬اور ایسے چلتے پهرتے اقوال ہوتے ہیں جو‬
‫زبان زد خاص و عام ہوتے ہیں اور جن کو عمده سمجها جاتاہے‪،‬اور جہاں تک تعلق ہے‬
‫سجع کا تو یہ مسجع و مقفی ادبی جملے ہوتے ہیں‪،‬یا ایسے جملے ہوتے ہیں جن کے نغمے‬
‫کے اندر یکسانیت پائی جاتی ہے۔‬

‫الحكم‪:‬‬
‫حکیمانہ اقوال ایسے بلیغ جملے ہوتے ہیں جو عملی زندگی کے تجربات کے خالصہ‬
‫اور نچوڑ پر مشتمل ہوتے ہیں ‪ ،‬اور اس (فن) میں عربوں کو غیر عرب کے مقابلہ میں‬
‫زیاده مہارت حاصل ہوگئی تهی ‪ ،‬کیو نکہ وه باده نشینی ‪،‬حقیقی زندگی سے ربط و تعلق‬
‫رکهنے ‪،‬خیاالت کی رو میں بہہ جانے سے دوری اختیار کرنے اور باریک بینی سے‬
‫نظر رکهنے میں ان قوموں کی طرح تهے جو محدود (اسباب کے ساته)زندگی گزارتی ہے۔‬

‫الوصایا والخطب‪:‬‬
‫جہاں تک تعلق ہے وصیتوں اور خطبوں کا تو یہ حکمانہ اقوال ‪ ،‬کہاوتونو‬
‫محاوروں‪،‬مسجع جملوں اور اس طرح کے دیگر اجزاء سے مل کر بنتے ہیں (اور وه اس‬
‫طرح کہ)ان کو سیدھے سادے انداز مین کچه تفصیل کے ساته مرکب کردیا جاتا ہے‪،‬اور‬
‫یہ دونوں صیغوں اور اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے تقریبا یکساں ہوتے ہیں‪،‬اسی کے‬
‫ساته ساته کچه بیانیہ خاکے ہوتے ہیں جو کبهی کبهی تقریروں میں شامل کر لئے جاتے‬
‫ہیں‪،‬رہی بات حکایات و داستان کی کی تو یہ ساده ترین انداز میں اور انتہائی اختصار و‬
‫ایجاز کے ساته ایسے عام نثری انداز میں بیان کی جاتی ہیں جو حکایتی اسلوب کے مشابہ‬
‫ہوتا ہے ۔‬
‫نماذج النثر الفني الجاھلي(جاہلی فنی نثر کے شہ پارے)‬
‫األسجاع‪:‬‬
‫معرکہ‬
‫ٔ‬ ‫جہاں تک اسجاع کا تعلق ہے تو(اس کی مثال)جیساکہ ایک کا ہنہ عورت نے‬
‫بدر کی پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا تها‪“ :‬میں جانتی ہوں جو کچه جانتی ہوں(کہ )ایک دن‬
‫آئےگاجوکاٹنے اور ذبح کرنے کا دن ہوگا”‪،‬اور اس نے یہ بهی کہا‪“:‬جو موت ہوگی‬
‫موت(لوگ مارے جائیں گے) جس میں ٹخنوں کو پہلؤوں سے ٹکرایا جائے گا(ہڈیوں کو‬
‫توڑدیا جائے گا)”‪،‬اور ایک کاہن نے بهی پیشین گوئی کی تهی‪“:‬تم نے جنوں کواور ان کی‬
‫حیرانی و پریشانی کونہیں دیکها‪،‬اور اپنے دین سے ا ن کی مایوسی نہیں دیکهی‪،‬اور اپنی‬
‫اونٹنیوں اور ان پر رکهی ہوئی چٹائیوں ‪/‬چمڑوں سے ان کے چمٹ جانے کو نہیں دیکها(یعنی‬
‫یہ کت نے بزدل ہوچکے ہیں)”‪،‬ایسے ہی اسالم سے پہلے ایک شخص نے ایک دوسرے‬
‫شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا(کہ وه آواز لگا رہا ہے اور اس نے وه آواز سنی)‪“:‬اے ذریح!یہ‬
‫ایک کامیاب ہونے واال معاملہ ہے‪ ،‬ایک بہت ہی فصیح و بلیغ انسان ہے(بعض نسخوں میں‬
‫یصیح کی جگہ فصیح ہے اور یہی زیاده راجح معلوم ہوتا ہے)جو کہہ رہا ہے کہ ال الہ اال‬
‫ہللا”۔‬

‫األمثال‪:‬‬
‫جہاں تک کہاوتوں کا تعلق ہے تو (کچه یہ ہیں )یہ ردی اور سوکهی ہوئی کهجوریں‬
‫ہیں اور پهر کم تولناہے(یعنی مال توخراب دیا ہی ہےساته میں وزن میں بهی کمی کی گئی‬
‫ہے‪ ،‬ی ہ محاوره اس وقت بوال جاتا ہے جب کس ی میں ایک برائی موجود ہو اور مزید ایک‬
‫برائی اپنے اندر پیدا کرلے)‪-‬اس نے اپنی بیماری میرے سر مڑھ دی اور چپکے سے چلی‬
‫گئی(اردو میں اس سے ملتا جلتا ایک محاوره ہے“ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا”)‪-‬قصیر نے اپنی‬
‫ناک کیوں کاٹی ؟(پہلے ہی سےحالت آپ کی صحیح نہیں تهی مزیدآپ نےاپنی حالت خراب‬
‫کرلی)‪ -‬تیر چالنے سے پہلےضروری ہے کہ اس کوتیز کرلیا جائے(کام کرنے سے پہلے‬
‫پوری تیاری ہونی چاہئے)‪ -‬صبح کے وقت قوم رات کے سفر کی تعریف کرتی ہے(اس‬
‫زمانہ میں تپتی ہوئی صحراء میں چلنا مشکل تها بنسبت رات کے ‪ ،‬جب صبح ہوتی تهی تو‬
‫دھوپ کی شدت ‪ ،‬گرمی یہ تمام چیزیں اس کے ہمراه آتی تهیں لہذا ان کے لئے رات کا سفر‬
‫زیاده مناسب تها)‪-‬کبهی کبهی اونٹ مارے ڈر اور خوف کے شیر پر حملہ کردیتا ہے(کسی‬
‫کو کمزوراور بزدل مت سمجهو‪/‬بال وجہ آپ کسی کو نہ چهیڑیں کہ کہیں آپ کو آپ کے‬
‫گمان سے سخت جواب نہ مل جائے)‪-‬آپ کانٹوں سے انگور نہیں توڑ سکتے(جیسی کرنی‬
‫ویسی بهرنی)‪ -‬تمہارے دونوں ہاتهوں نے بندھن باندھے تهے اور تمہارے ہی منه نے‬
‫پهونک ماری تهی( تم نے اپنےہی پیر پر کلہاڑی ماری‪،‬اس کہاوت کے پیچهے کی کہانی یہ‬
‫ہے کہ ایک صاحب جو کسی جزیره میں رہا کرتے تهے ‪ ،‬انهوں نے یہ اراده کیا کہ سمندر‬
‫پار کرکے ساحل پر چلے جائیں ‪ ،‬تو انهوں نے اپنے ہاتهوں سے اپنے مشکیزه میں ہوا‬
‫بهری اور اس منه پر گره باندھ دی ‪ ،‬جب وه درمیان میں پہنچے تو اس کی ہوا نکلنے لگی‪،‬‬
‫انهوں نے “الغوث الغوث ”کی صدا بلند کی ‪،‬تو ایک صاحب جو یہ سارا ماجرا دیکه رہے‬
‫تهے انهوں نے ا س سے کہا‪:‬یداک اوکتا و فوک نفخ‪:‬تمہارے ہی دونوں ہاتهوں نے مشکیزه‬
‫کے منه کو باندھا تها اور تم ہی نے اپنے منه سے پهونک ماری تهی)۔‬

‫الحكم‪:‬‬
‫جہاں تک عربوں کے حکیمانہ اقوال کا تعلق ہےتو(ان میں سے کچه )یہ ہیں‪:‬لوگوں‬
‫کی ہالکت گاہیں حرض و آز کی چمک کے نیچے ہیں(اللچ بری بال ہے)‪-‬زبان کےزخم‬
‫پیکان کے زخم سے کاری ہوتے ہیں‪ -‬بہت سی جلد بازی تاخیر کو بخشتی ہے(جلد بازی کے‬
‫نتیجہ میں انسان کو اور دیر ہوتی ہے)‪-‬سرزنش سزا سے پہلے ہے‪- -‬جو ٹهوس اور ہموار‬
‫زمین پر چلےگا ٹهوکر کهانے سے محفوظ رہے گا‪-‬دانشمندی کی اولین(سیڑھی)مشوره ہے‪-‬‬
‫بہت سی باتیں حملہ سے زیاده کارگر ہوتی ہیں‪ -‬آزاد وشریف مرد نے جس کا وعده کیا تها‬
‫وه اس نے پورا کردیا‪ -‬تم شر کو چهوڑدو وه تم کو چهوڑدے گی‪-‬جس کا سینہ تنگ ہوگیا‬
‫اس کی زبان دراز ہوگئی‪ -‬تمہارا ہاته تمہارا ہی ہے اگر چہ وه شل ہوگیا ہے(تمہاراکوئی‬
‫عزیز خراب ہے تب بهی تم اس کو دور نہیں کر سکتے)‪-‬بہت سے ایسےمالمت زده ہوتے‬
‫ہیں جو بے گناه ہوتے ہیں‪ -‬ایک ہوشیار آدمی اپنے محفوظ مقام سے پکڑ لیا جاتا ہے(کبهی‬
‫ہوشیار انسان بهی اپنے محفوظ مقام میں حملہ کا شکار ہوجاتا ہے)۔‬

‫الوصایا‪:‬‬
‫جہاں تک تعلق وصیت کا ہے تو اس کی ایک مثال وه ہے جو کہ زہیر بن جناب‬
‫کلبی نے اپنے بیٹوں کو کی تهی ‪ ،‬جس وصیت میں اس نے کہا تها‪:‬‬
‫“ اے میرے بیٹو!میری عمر دراز ہوگئی ہے ‪ ،‬اورمیں اپنے زمانہ کے ایک طویل‬
‫وقت تک پہنچ گیا ہوں ‪،‬لہذا تجربات نے مجهے مضبوط کردیا ہے‪،‬اور معامالت تو نام ہی‬
‫ہیں تجربہ اور آزمائش کا‪،‬لہذا میں جو کچه تم سے کہہ رہا ہوں اس یاد کرلو اور خوب‬
‫سمجه لو‪“:‬مصیبتوں کے وقت کمزوری کا اظہار نہ کرو(کہ لوگ پریشان کریں)‪،‬اور‬
‫پریشانیوں کے وقت کسی اور کا سہارا لینے سے بچو‪،‬اس لئے کہ یہ چیز رنج و الم کا‬
‫باعث ہوگی‪،‬اور دشمن کو ہنسنے کا موقع ملے گا‪،‬اور پهر خالق کائنات سے بدگمانی بهی‬
‫ہوگی‪،‬اور (خبردار!)تم حاالت و واقعات سے دھوکہ نہ کهانا‪،‬اور حاالت سے مطمئن بهی‬
‫رہو‪،‬اور حاالت کا مذاق بهی مت اڑاؤ‪ ،‬اس لئے کہ یہ حقیقت ہے کہ جب بهی کوئی قوم‬
‫کسی کا مذاق اڑاتی ہے تواس میں مبتال ہوجاتی ہے‪،‬بلکہ تم اس کی امید رکهو کہ (کل)تم‬
‫(بهی)اس میں پهنس سکتے ہو‪،‬اس لئے کہ انسان دنیا میں اس نشانہ کی طرح ہے جس پر‬
‫تیر انداز نشانہ لگاتے ہیں‪ ،‬تو بعض کے تیر اس نشانہ سے چوک جاتے ہیں ‪ ،‬اور بعض‬
‫کے آگے بڑھ جاتے ہیں‪ ،‬اور( کبهی )دائیں بائیں گرتے ہیں‪ ،‬پهر اس کے بعد ضروری ہے‬
‫کہ تیر اس نشانہ پر جالگتا ہے”۔‬

‫الخطب‪:‬‬
‫ہانئ بن قبیصہ شیبانی (یوم ذی قعر کی لڑائی میں)اپنی قوم کو لڑنےپر ابهارتے‬
‫ہوئے کہتے ہیں‪،‬یہ تقریراس اسلوب پر داللت کرتی ہے جو عہد جاہلی میں نثری کالم میں‬
‫استعمال ہوتا تهایعنی معانی کے اندر بے ربطی اور جملوں کی ترتیب و ترکیب میں‬
‫کمزوری ‪:‬‬
‫“اے بکر کے لوگو!جو ہ الک ہوجائے وه معذور ہےاور یہ اس سے بہتر ہے جو‬
‫بهاگ کر راه فراراختیار کرنے واال ہے‪،‬ڈر اور خوف قدرت کے فیصلے سے بچا نہیں‬
‫سکتے‪،‬صبرواستقامت سے کام لینا یہ کامیابی کے اسباب میں سے ہے‪،‬موت کو اختیار کرو‬
‫ذلت کو نہیں‪،‬موت کا استقبال کرنا اس کو پیٹه دکهانے سے بہتر ہے‪،‬بالکل بیچ گردن میں‬
‫تیر مارنا پیٹه اور پچهلے حصہ میں مارنے سے بہتر ہے‪،‬اے بکر کے لوگو!آگے بڑھو‬
‫لڑوکیونکہ موت سے کوئی بچاؤ نہیں ہے”۔‬
‫جب سیف بن یزن کو حبشہ والوں پر فتح اور غلبہ حاصل ہواتو (قریش کی طرف‬
‫سے)عبد المطلب نےتقریری اسلوب اختیار کرتے ہوئے کہا‪“:‬اے بادشاه سالمت!ہللا نے آپ‬
‫کو بہت ہی مضبوط‪،‬شاندار اور اعلی ترین مقام پر فائز کیا ہے‪،‬اور ہللا نے آپ کو ایسے‬
‫خاندان میں پیدا کیا ہےجس کی اصل بہت پاکیزه اور عمده ہے‪ ،‬بنیاد بہت مضبوط ہے‪،‬اور‬
‫اصل بڑی شریفانہ ہے‪ ،‬اور اس کے پتے(افراد)بهی بہت زیاده ہیں‪،‬اور آپ کو معزز ترین‬
‫جگہ اور پاکیزه مقا م میں پیدا کیا ہے‪،‬آپ ‪ -‬ہللا تعالی آپ کو مذمت والی باتوں سے بچائے‪-‬‬
‫عربوں کےسردار و امام ہیں‪،‬اور ان کا وه موسم بہار ہیں جس سے ان میں زرخیزی اور‬
‫شادابی آتی ہے‪،‬اورآپ عربوں کے وه بادشاه ہیں جن کی عرب اطاعت کرتے ہیں‪،‬اور ان کا‬
‫وه ستون ہیں جس پر ان کا انحصار ہے‪،‬اورآپ عربوں کے وه قلعہ ہیں جس کی طرف بندے‬
‫پناه لیتے ہیں‪،‬آپ کے اسالف بہترین لوگ تهے‪،‬اورآپ ان کے بعد ہمارے لئے بہترین جانشین‬
‫ہیں‪ ،‬جس کے آپ جانشین ہو ں وه ہالک نہیں ہوسکتا‪،‬اور جس کےآپ پیش رو ہونگے وه‬
‫کبهی گمنام نہیں ہوسکتا‪،‬اے بادشاه سالمت!ہم تو ہللا کے حرم والے(اس کی عبادت کرنے‬
‫والے)اوراس کے خدمت گذارہیں‪،‬اور اس کے گهر کےمحافظ (بهی)ہیں‪،‬ہمیں آپ کے پاس‬
‫اسی ذات نے پہنچایا ہےجس نےہمیں خوش کیاہے اس مصیبت کو دور کرکےجو ہم پر آئی‬
‫تهی‪،‬اور ہم مبارک بادی کیلئے آئے ہیں مصیبت (سوال کرنے) کےلئے نہیں آئے ہیں۔‬
‫قس بن ساعده االیادی (المتوفی ؁ ‪۲۳‬ق ھ)جو کہ خطیب دوراں تهے اورمیدان خطا‬
‫بت میں اپنے ہم عصروں کے درمیان معروف تهے‪ ،‬عکاظ میں خطبہ دیتے ہوئے کہتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫“اے لوگو!سنو اور اپنے ذہن میں نقش کرلو‪ ،‬یہ حقیقت ہے کہ جو زنده ہے اس کو‬
‫موت الحق ہوکر رہے گی ‪ ،‬اور جسے موت الحق ہوجائے وه گذر جاتا ہے ‪،‬اور ہر وه‬
‫چیز جو آنے والی ہے آکر رہے گی ‪ ،‬تاریک راتیں ہیں‪،‬اور پر سکون دن ہیں ‪،‬وه سیارے‬
‫والے آسمان‪ ،‬اور(اس آسمان میں )روشن تارے ہیں‪،‬اور ٹهاٹهیں مارتاہوا سمندر ہے‪،‬اور(اس‬
‫زمین میں) مضبوطی سے جمےہوئے پہاڑ ہیں‪،‬اور زمین پهیلی ہوئی ہے‪ ،‬نہریں جاری‬
‫ہیں‪،‬آسمان میں ایک یقینی خبر ہے(کائنات کو بنانے والے کا عام وجود ہے)اور روئے زمین‬
‫پر عبرتیں ہیں‪ ،‬لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وه جاتو رہے ہیں لیکن کوئی پلٹ کر واپس نہیں‬
‫آتا‪،‬کیا وه جہاں گئے تهے وه جگہ ان کو پسند آگئی ہے کہ وه وہیں ٹهہر گئےہیں؟یا پهر ان‬
‫کو ان کے حال پر چهوڑ دیا گیا ہے تو وه وہیں سو گئے ہیں؟اے قبیلہ ایاد کے لوگو!آپ کے‬
‫آباء و اجداد کہاں چلے گئے؟بڑے بڑے فرعون کہاں چلے گئے؟کیا یہ لوگ تم سے مال و‬
‫دولت میں زیاده نہیں تهے؟کیا ان کی عمریں تم سے لمبی نہیں تهیں؟زمانہ نے انهیں اپنے‬
‫سینے سے پیس کر رکه دیا ہے‪،‬اور اپنی قوت سے ان کو منتشر کردیا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬بصیرة (ج)بصائر‪:‬بصیرت‪/‬عبرت۔قرن (ج) قرون‪:‬صدی‪/‬قوم)‬
‫‪۱‬۔گذشتہ صدیوں ‪/‬قومونمیں جو لوگ پہلے چلے گئے ہیں ان(کےچلے جانے )میں‬
‫ہمارے لئے عبرت کا سامان ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬مورد(ج)موارد‪:‬جانے کا راستہ۔مصدر (ج)مصادر‪:‬آنے کا راستہ)‬
‫‪ ۲‬۔جب میں نے دیکها کہ موت کے راستے تو ہیں لیکن اس کی واپسی کا کوئی راستہ‬
‫نہیں ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬صغیر(ج)اصاغر‪:‬بچہ)‬
‫‪۳‬۔جب میں نے اپنی قوم کو دیکها کہ اس کا (ہر فردخواه)بچہ ہو یا بوڑھاسبهی موت‬
‫کی طرف دوڑےچلےجار ہےہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬غابر‪:‬باقی رہنےواال)‬
‫‪ ۴‬۔جو گذر گیا ہے اب وه میرے پاس لوٹ کر نہیں آتا‪،‬اور جو ابهی زنده بچ گئے ہیں‬
‫ان میں کوئی باقی رہنے واال نہیں ہے۔‬
‫‪۵‬۔(جب میں نے یہ صورتحال دیکهی )تو مجهے یقین ہوچالکہ میں بهی یقینا اسی‬
‫طرف جا رہا ہوں جہاں میری قوم کے لوگ جا چکے ہیں۔‬
‫رہی بات قصے و کہانیوں کی تو یہ عربوں کی حکایات ہیں یا جاہلی جنگوں‬
‫کےواقعات اوراس میں جو اہم واقعے پیش آ ئے ان کا بیان ہیں‪،‬زیاده تر قصےسلطنت عباسیہ‬
‫کے ادباء جوان کے نقل کرنے والےاور ان ک و جمع کرنے والے تهے کی زبان و اسلوب‬
‫زمانہ وقوع کی کئی صدیوں بعد بیان کئے‬
‫ٔ‬ ‫میں بیان کئے گئے ہیں ‪ ،‬اور یہ واقعات ان کے‬
‫گئے‪،‬ان واقعات کو سمجهنے کیلئے اس ادب کا مطالعہ کافی ہے جو عہد عباسی کے‬
‫ادباءنےاپنی تصنیفات و تالیفات میں پیش کیا ہے۔‬

‫مكانة ھذه النصوص من عصرھا(اپنے زمانہ میں ان شہ پاروں کا مقام و‬


‫مرتبہ)‪:‬‬
‫اور جاہلی ادب کے شہ پارے جن کا ہم نے ذکرکیاایسے نمونے ہیں کہ ان میں سے‬
‫بعض (حذف و)اضافہ اور غلط انتساب سے خالی نہیں ہیں‪،‬بلکہ بعض ناقدین ادب اور‬
‫مؤرخین ادب کا خیال یہ ہے کہ ان جاہلی ادبیات کے بعض شہ پارے عہد عباسی کی پیداوار‬
‫ہیں‪،‬اوریہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کےادباء کے گڑھے ہوئےہیں‪،‬ان شہ پاروں کی‬
‫نسبت صحیحہ کم ہے (ان کے صحیح ہونے کا ریشو (‪(Ratio‬کم ہے)اوروه (تاریخ کے‬
‫صفحات کے نیچے)دبےہوئے ہیں‪،‬یہ وه شکوک و شبہات ہیں جو مستشرقین نے اٹهائے ہیں‬
‫اور عہد جدیدمیں بعض عرب ادباء نے جو ان مستشرقین کےشاگرد ہیں انهوں نے ان شکوک‬
‫و شبہات کو پهیالیا ہے۔‬
‫ادب کے جو حقیقی مصادر ہیں ان کی بنیاد پر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ جاہلی‬
‫ادبی شہ پارے ایسے شہ پارے ہیں جو اپنے اسلوب کے ساته اس بات پر داللت کرتے ہیں‬
‫کہ یہ جاہلی زندگی کی فطرت کو بیان کرتے ہیں‪ ،‬اور ان شہ پاروں کے اندر جاہلی عہد‬
‫کی جو روح ہے یعنی دیہاتی پن‪ ،‬بےراه روی‪،‬پختگی ‪ ،‬تاثیر و قوت اور بالغت یہ تمام‬
‫چیزیں پائی جاتی ہیں‪ ،‬اور یہ شہ پارے دیہاتی اور جاہلی عہد کی بہت ہی سچی تصویر‬
‫پیش کرتے ہ یں ‪،‬اور اس عہد کی ذہنیت اور فطرت کو اچهے انداز میں پیش کرتے ہیں۔‬

‫نضج العقلیة العربیة‪:‬‬


‫ان ادبی شہ پاروں میں جیسا کہ ان کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے شعر و نثر کےپختہ‬
‫اور طاقتورادب کا بڑا فنی سرمایہ موجود ہےجو اس بات پر داللت کرتا ہے کہ ابتدائی جاہلی‬
‫عہد میں عربی ذہنیت پختہ ہوچکی تهی‪،‬حاالنکہ یہ عہد تعلیم و تربیت کے اسباب سے خالی‬
‫تها‪،‬اور نہ ہی اس میں تہذیب و تمدن کے وسائل تهے‪،‬ایسے ہی یہ عہداس وقت کے جو‬
‫دوسرےترقی یافتہ ماحول تهےان سے مال ہوا نہیں تها‪،‬یااس عہدنے اس وقت کی جو‬
‫دوسری متمدن قومیں تهیں ان کی تہذیب و فکر سے استفاده کو الگ رکها(اپنی چیزوں پر‬
‫قناعت کرگئے)‪،‬چنانچہ ان کاادب اپنی زندگی کے ساده فطری حدود میں بہت ہی پختہ اور‬
‫طاقتور تها‪،‬اور اپنے مخصوص دائره میں بہت ہی فصیح و بلیغ اور ترقی یافتہ تها‪ ،‬یہ بات‬
‫اس ادب کے مطالعہ سے سامنے آتی ہے جس کو اس عہد کے ممتاز لوگوں نے پیش کیا‬
‫ہے۔‬

‫میزة األدب الجاھلي(ادب جاہلی کی خصوصیت)‬


‫پیراگراف کا ترجمہ‪:‬اس ادب کی اہم ترین خصوصیت اس زبردست صالحیت کا‬
‫ہونا ہےکہ جس کے ذریعہ سے(عرب) طبعی ‪،‬وجدانی اورفکری تجربات کو بیان کرتے‬
‫ہیں‪(،‬اور دوسری خوبی یہ تهی کہ ان کےاندر ) بلیغ اور ساده انداز میں مؤثرخیاالت کی‬
‫منظر کشی کرنے کی صالحیت تهی‪،‬یہ( دونوں صالحیتیں)اس بات پر داللت کرتی ہیں کہ‬
‫عربوں میں اس کا بڑا ملکہ تهااور ان کو اس سلسلہ میں بڑی مہارت حاصل تهی۔‬

‫اعتناء العرب بأدبهم(عربوں کا اپنے ادب سےلگاؤ)‬


‫پیراگراف کا ترجمہ‪:‬اسی وجہ سے عربوں کا ادب پر فخر کرنااور اس سے ان کی‬
‫شیفتگی اور وارفتگی بہت زیاده تهی‪ ،‬اوران کو ادب کی خوبیوں اور خامیوں سے خوب‬
‫واقفیت تهی‪،‬اوراس سے اس قدران کو واقفیت تهی کہ جس سے حیرت بهی ہوتی ہے اور‬
‫تعجب بهی‪ ،‬اسی وجہ سے عربوں کا یہ ادب جذبات میں ہیجان پیداکرنےاورحوصلوں کو‬
‫ابهارنے کامؤثر ترین ذریعہ تها‪ ،‬کبهی فخر و مباہات کا سبب بنتا‪،‬اور کبهی یہ ادب ان کی‬
‫ذلت و رسوائی کا سبب بهی بنتا‪ ،‬کبهی اچهی شہرت کو عام کرنے کا وسیلہ بنتا‪ ،‬اور کبهی‬
‫یہی ادب (کسی کی )توہین اور بے حرمتی کا سبب بن جاتا‪،‬طبعی طور پریہ زیاده تر باتیں‬
‫ان کی شاعری کے ذریعہ سے حاصل ہوتی تهیں‪،‬اس لئے کہ جاہلی دور میں شاعری ان‬
‫کی ادبیات میں سب سے زیاده غالب اور سب سے زیاده عام تهی۔‬

‫نماذج عصر التحول واالنقالب‬


‫وھو عصر األدب اإلسالمي األول‬
‫األدب في اإلسالم(ادب کے تئیں اسالم کا موقف)‪:‬‬
‫اسالم کی آمد ہوئی تو اس نے قدیم ادب (کی بنیاد)کو منہدم نہیں کیا بلکہ اس نے‬
‫ادب کے اندر اصالح کا اراده کیااور اس کو نئی ابهرتی ہوئی زندگی کے تابع بنادیا‪،‬اوراسالم‬
‫نے اس کو شریفانہ انسانی مقاصد کیلئے استعمال بهی کیاجیسا کہ عام طور پر اس عہد کے‬
‫ادب پاروں کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے‪،‬اور ان حدود سے(ادب کی)جو چیزیں‬
‫متجاوز ہوگئی ہیں(جیسے شرک وکفروغیره)اسالم نے ان کو منع کیااور ٹهکرا دیا‪،‬اور‬
‫وه(ادب)جو ان حدود کے اندر ہےاور اچهے اغراض کی خدمت بهی کرتااس کو جائز اور‬
‫پسندیده قرار دیا‪ ،‬اسالم نے جہاں ایک طرف شعراء کی بے راه روی اور گمراہی اور ان‬
‫کے قول و عمل میں تضاد کی مذمت کی ہے تو وہیں دوسری طرف نثر کی حکمت و انداز‬
‫بیان سے اپنی پسندیدگی ظاہر کی ہے‪،‬اسی وجہ سے اسالمی تعلیمات کے اثر سےکچه وقت‬
‫کیلئے شاعری کے بعض پہلو رک گئے ‪،‬بلکہ شعراء نے شاعری کے باب میں اپنی بے‬
‫رغبتی کا اظہار کیا‪،‬یہ حضرت حسان بن ثابت االنصاری ہیں جنهوں نےاسالم قبول کرنے‬
‫کے بعد صرف ان موضوعات میں شاعری کی ہے جو ہللا اور اس کے رسول کو پسند‬
‫تهے‪،‬اورجو شریفانہ اسالمی فکر کی تائید کرتے ہیں‪ ،‬یہ لبید بن ربیعہ ہیں جو اصحاب‬
‫معلقات میں سے ہیں اسالم النے کے بعد شاعری کو کلی طور پر چهوڑدیااور اور یا دو ہی‬
‫مصرعے کہے ہیں‪،‬اور یہ وہی عظیم شاعره خنساء بنت تماضر ہیں جو عہد جاہلی اور عہد‬
‫اسالم کے ممتاز شعراء میں ہیں‪،‬انهوں نے اپنی زندگی میں جو شاعری کی ہے ہم اسے‬
‫دیکهتے ہیں کہ اس کا بڑاحصہ جاہلی عہد کا ہے‪،‬ایسے ہی دیگر شعراء ہیں جنهوں نے‬
‫اسالم میں داخل ہونے کے بعدصرف ان حدود میں شاعری کی ہے جن پر اسالم نے کوئی‬
‫پابندی نہیں لگائی۔‬
‫جہاں تک بات نثر ی ادب کی ہےتو اس وقت سے(اسالم کی آمدسے)اس کی اہمیت‬
‫اور بڑھ گئی خاص طور پر اس لئے کہ قرآن مجید نثر ہی میں نازل ہوا‪،‬اور وه بغیر کسی‬
‫کے اختالف کےسب سے بلیغ اورعمده عربی کالم ہے‪،‬اسی طریقہ سے جناب رسول‬
‫ہللاﷺنےاپنے کالم میں نثر کو چهوڑکر شاعری کو اختیار نہیں کیا‪،‬اور آپ ﷺدنیا جہان میں‬
‫سب سے فصیح اور بنا کسی اختالف ک ے عربوں میں سب سے بلیغ انسان تهے‪،‬اور(اسالم‬
‫کی آمد کے بعد)عرب مسلمانوں کی توجہ نثر پر بڑھنے لگی اور اپنے کاموں اور اپنے‬
‫معامالت میں نثر کا ان کا استعمال بهی بڑھ گیا‪،‬خاص طور پر اس لئے کہ نثر کے اندر نئی‬
‫سماجی زندگی کے تقاضوں کوبیان کرنے کی گنجائش زیاده تهی‪،‬اور اس لئے بهی کہ‬
‫نثرحکومتی ذمہ داریوں اورملکی سیاست (کو بیان کرنے )کی شدید ضرورت تهی(اور‬
‫خاص طور پروه احکامات اور)وه سیاست کہ اسالم کے ظہور اور اس کے پهیالؤ کے بعد‬
‫عرب اس کے سامنے تهے۔(یعنی اسالم کے پهیلنے کے بعد چونکہ عربوں میں اسالمی‬
‫نظام زندگی اور اس کے دوسرے احکامات بیان کرنے تهے تو عربوں کے سامنے جو‬
‫اسلوب و انداز بیان اختیار کیا گیا وه نثری اسلوب و بیان تها)۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور صنف وصیت نے ترقی کی اور پهر وصیت ہی کی طرح‬
‫عہد و معاہدے اور معامالت اور آگے چل کر مراسلہ نگاری میں بهی ترقی ہوئی‪ ،‬اور پهر‬
‫بعض دیگر شعری ادبی اصناف میں بهی ترقی ہوئی‪ ،‬جیسے کہ صنف توقیعات(توقیعات‬
‫کہتے ہیں وه تبصرے یا تعلیقات جو آپ کے پاس بهیجے گئے درخواستوں پر آپ کریں ‪،‬آپ‬
‫اس میں تعلیق کے ساته سبب بیان کریں ‪،‬کبهی اس میں کوئی حکمت کی بات نقل کردیں یا‬
‫قرآن کریم کی کوئی آیت پیش کردیں ‪ ،‬کبهی محکم بات نقل کردیں ‪،‬اور کبهی اس میں‬
‫اپنےتخیالت ہی لکه دیں‪،‬عہد عباسی میں بہت سے لوگوں کو اس صنف میں مہارت حاصل‬
‫ہوگئی تهی تو یہ مستقل ایک صنف بن گئی)اور یہ( صنف)مسجع کالم اور کہاوتوں سے‬
‫تهوڑی بہت مشابہت رکهتی ہے(اس لئے کہ وه بهی چهوٹے چهوٹے جملوں پر مشتمل ہوتی‬
‫ہے)۔‬

‫النثر الفني في ھذا العهد‪:‬‬


‫تأثیر القرآن الكریم‪:‬‬
‫نئے فنی نثری ادب کا بہترین سرمایہ نص قرآنی کے وه نمونے ہیں جو بہت ہی‬
‫پختہ ‪ ،‬معانی سے پراور زبان و بیان کے لحاظ سے بہت ہی عمده ہیں‪،‬اورجوان نئے صاف‬
‫تعالی نے اپنے مسلمان بندوں کیلئے‬
‫ٰ‬ ‫ستهرےادبی اسالیب بیان کابہترین آئیڈیل تهےجن کوہللا‬
‫پسند کیا تها‪،‬ایسے ہی ان قرآنی نمونوں میں اس چیز کو اختیار کرنے کی تلقین بهی کی گئی‬
‫ہےجو ضروری ہے(جس کو بیان کرنا ضروری ہے اور وه یہ ہے) کہ ادب اسالمی (مسلمان‬
‫ادباء)پوری دنیا میں شریفانہ اور بام قصد انسانی زندگی کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا‬
‫کرے۔‬

‫أسلوب القرآن‪:‬‬
‫قرآن کریم نے معنی کی کثرت اور اس کی پختگی کے ساته لفظ کی مضبوطی اور‬
‫اس کی فصاحت کو جمع کیا ہے‪،‬اس کے اندر مختلف عقلی و فکری پہلو پائے جاتے ہیں‬
‫جیسےقانون سازی‪،‬تہذیب و سلیقہ اورچیزوں کا بیان ‪،‬اور قرآن معنی اور (الفاظ و)عبارت‬
‫کے اعتبار سے اسلوب بیان کی بلیغ ترین شکلونمیں ہے‪،‬جو(شکلیں)تاثیر اور مقام و مرتبہ‬
‫کے اعتبار سے بہت ہی بلند اور اعلی وافضل ہیں‪،‬لیکن اس میں فن (نثروشعر)کی متعین‬
‫شرطوں یا انسانوں کےمتعین کرده ادبی اسالیب بیان کی پابندی نہیں کی گئی ہے‪ ،‬بلکہ قرآن‬
‫نےوه اسلوب اختیار کیا جو پہلے سے موجود نہ تها اور جوبالکل نیا تها ‪،‬جس میں تنوع‬
‫کے ساته ساته اعجاز بهی تها۔‬
‫طریقة بین طریقتین‪:‬‬
‫ٍَقرآن کا انداز اس شاعری کا ا نداز نہیں ہےجو ایک متعین نظم کےنقشہ پر چلتی‬
‫ہے‪،‬اور نہ ہی اس کا انداز اس نثر کا انداز ہے جو نثر تعبیر کے حسن و جمال اور لفظ کی‬
‫خوبصورتی اور تاثیر سے خالی ہوتی ہے‪،‬بلکہ قرآن کا انداز ان دونوں کے درمیان کا راستہ‬
‫ہے‪،‬اس کے انداز میں بعض ایسی پابندیاں ہیں جو اپنی بعض خصوصیات میں شاعری کی‬
‫دلکش اور خوبصورت پابندیوں کے مشابہ ہیں‪،‬اور دوسری جگہوں پرجہاں یہ پابندیاں نہیں‬
‫ہوتی ہیں تو ایسالگتا ہے کہ اس کا انداز کسی خوبصورت نثر فنی کے مشابہ ہے‪،‬لیکن‬
‫(درحقیقت) ہر اعتبار سےقرآن کا یہ انداز شاعری اور نثر دونوں کے انداز سےفائق وممتاز‬
‫اور زیاده مؤثر ہے‪،‬اور اس کا فائده ان دونوں کے فائدوں سے زیاده وسیع ہے‪،‬اور اس کے‬
‫اندر جادوئی حسن و جمال اور معانی کی کثرت ان دونوں سے زیاده ہیں۔‬

‫جمال العبارة وعذوبة الصوت‪:‬‬


‫پیراگراف کا ترجمہ‪:‬چنانچہ قرآن کے اسلوب میں کہیں تو آپ معنی کے اندر پختگی‬
‫و گہرائی اور تاثیرو قوت کے ساته ساته عبارت کا حسن و جمال اور لفظ کی اثر آفرینی‬
‫دیک هیں گے‪،‬لہذا اس کے اسلوب میں شاعری سے بڑھ کر تاثیر ہوتی ہے‪،‬اور اس کی حالوت‬
‫شاعری کی حالوت سے بہت زیاده ہوتی ہے‪،‬قرآنی آیات کے جو آخری الفاظ ہیں اگرچہ وه‬
‫ٖنظم کے متعینہ اور مقرره پابندیوں سےآزاد ہوتے ہیں لیکن اس میں ایک مؤثر اورشاعرانہ‬
‫نغمگی پائی جاتی ہے‪،‬آیات کے ان آخری الفاظ کو قافیہ اور ردیف کے بدل کے طورپر‬
‫“فواصل ”کہتے ہیں‪،‬یہ فواصل ایک ہی آواز یا ایک ہی وزن کے رخ پر نہیں چلتے ہیں(بلکہ‬
‫وزن بدل جاتا ہے لیکن نغمگی کے اندر یکسانیت رہتی ہے)اسی طریقے سے ان فواصل کا‬
‫اسلوب سجع کے اسلوب پر بهی نہیں ہےکہ جو سجع کے باریک معنی کا لحاظ کرے‪،‬قرآن‬
‫نے ان فواصل کی رعایت کی ہے اورا س رعایت کی وجہ سے اس کا اسلوب بہت گہرا‬
‫اثر ڈالتا ہےاور ان (فواصل)کے اندر تنوع پیدا کرتا ہے‪،‬اوراسی وجہ سے قرآنی اسلوب‬
‫کبهی دو جملوں کے درمیان یکسانیت پیدانہیں کرتا‪،‬بلکہ کبهی ایسا ہوتا ہے کہ ایک جملہ‬
‫مختصر ہوتا ہے اور دوسرا جملہ طویل ہوتا ہے ‪،‬اور کبهی ایسا بهی ہوتا ہے کہ آخری‬
‫حروف متعین نہیں ہوتے ہیں(بدلتے رہتے ہیں)‪،‬لیکن(ان سب کے باوجود)قرآن کااسلوب‬
‫حسین و دلکش ہم آہنگی اورنغمگی سے خالی نہیں ہوتا۔‬

‫موافقته للنفسیة والوضع وتنوع عباراته حسب المقتضى والمعنى‪:‬‬


‫قرآنی اسلوب کی اصل یہی ہے کہ یہ ان شریفانہ اور اعلی مقاصد کی اتباع کرے‬
‫جس کی وجہ سے قرآن کا نزول ہوا ہے(یعنی توحید و رسالت‪ ،‬تشریع و تذکیر وغیره)اس‬
‫کے ساته ساته اس ذہنیت کی بهرپور اورپختہ طریقہ سے موافقت کی ہے جس ذہنیت کے‬
‫اس کے مخاطبین ِاول مالک تهے‪،‬ایسے ہی اس ذہنی اور وجدانی ماحول کا بهی خیال رکها‬
‫ہے جس ماحول میں وه سانسیں لے رہے تهے‪ ،‬اسی وجہ سے قرآن کے اسلوب بیان کے‬
‫اندر (مخاطب کی)حالت اور موضوع کے اعتبار سے تنوع پیدا ہوا ہے‪،‬ایسے ہی مخاطب‬
‫کی ذہنی و وجدانی سمجه کی سطح میں فرق ہونے کی وجہ سے تنوع پید اہواہے‪،‬اور قرآن‬
‫نےان تما م چیزوں کوبہت ہی باریک ترتیب و ترکیب کے ساته اور لطیف ہم آہنگی کے‬
‫ساته بیان کیا ہے۔‬
‫اسی طریقہ سے قرآنی اسلوب میں کہیں سختی ہے کہیں نرمی ہے‪ ،‬کہیں ترغیب دی‬
‫گئی ہے اور کہیں ڈرایا گیا ہے‪،‬کہیں وعده کا انداز ہے اور کہیں دھمکی آمیز لہجہ اختیار‬
‫کیا گیا ہے‪ ،‬ان کا استعمال اتنا ہی کیا گیا جتناماحول کا تقاضا تهااورجتنادعوتی حکمت کو‬
‫ان کی ضرورت تهی‪،‬چنانچہ کہیں قرآن کی آیتوں میں احکام کی قانونی حیثیت کوبیان کیا‬
‫گیا ہےاور ہدایات دی گئی ہیں‪،‬اور کہیں آیتیں جزاء وسزا کی شکلوں کو بیان کرنے ‪،‬یا‬
‫دعوت کے واقعات اور انبیائے کرام کی زندگی کے واقعات کوبیان کرنےپر مشتمل ہیں‪،‬اور‬
‫ان تمام حاالت میں قرآن کے اسالیب بیان اپنی ترکیبوں ‪،‬آوازوں اور اپنے مختلف رنگوں‬
‫کےساته ماحول ‪ ،‬موضوع اور(مخاطب کی)ذہنیت کے بالکل مطابق ہیں۔‬
‫“( وه بچہ )بول اٹها میں ہللا کا بنده ہوں ‪ ،‬اس نے مجهےکتاب دی اور اس نے مجهے‬
‫نبی بنایا‪ ،‬اور (اسی نے)مجهے بابرکت بنایا میں جہاں کہیں بهی ہوں‪،‬اور( اسی نے)مجهے‬
‫نماز اور زکوة کا حکم دیاجب تک میں زنده رہوں‪ ،‬اورمجهے میری والده سے نیکی کرنے‬
‫واال(بنایا)‪،‬اور مجهے سرکش و بدبخت نہیں بنایا‪،‬اور میرے اوپر سالم ہے جس روز میں‬
‫پیدا ہوااور جس روز میں مروں گا اور جس روز میں زنده کرکے اٹهایا جاؤں گا‪،‬یہ ہیں‬
‫عیسی بن مریم‪(،‬یہ ہے وه)سچی بات جس میں یہ لوگ جهگڑ رہے ہیں‪،‬اور ہللا کی یہ شان‬
‫ہی نہیں کہ وه اوالد اختیار کرے‪ ،‬وه بالکل پاک ہے‪،‬وه تو جب کسی امر کا تہیہ کرلیتا ہے‬
‫تو بس اس سے صرف اتنا کہہ دیتا ہے کہ ہوجا‪ ،‬سو وه ہوجاتا ہے‪ ،‬اور بے شک ہللا میرا‬
‫بهی پروردگارہے اور تمہارابهی پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو یہی (دین کا)سیدھا‬
‫راستہ ہے‪،‬پهر(مختلف)گروہوں نےباہم اختالف ڈال لیا‪ ،‬سو کافروں کے حق میں بڑی آفت‬
‫(آنے والی)ہے(اس)بڑے دن کی آمد پر‪ ،‬یہ کیسے کچه سننے والے اور دیکهنے والے‬
‫ہوجائیں گے جس روز ہمارے پاس آئیں گے لیکن آج تو یہ ظالم کهلی ہوئی گمراہی میں‬
‫پڑے ہیں‪،‬ا ور آُپ انہیں اس حسرت کے دن سے ڈرائیے جب کہ اخیر فیصلہ کردیاجائے گا‬
‫اور یہ لوگ بے پروائی میں (پڑے ہیں)اور ایمان نہیں التے ‪،‬ہم ہی زمین کےاور اس پر‬
‫رہنے والوں کے وارث ره جائیں گے اور ہماری ہی طرف (سب)لوٹائے جائیں گے۔”(سوره‬
‫مریم‪)۴۰-۳۰:‬‬
‫“نون‪،‬قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وه (فرشتے)لکهتے ہیں‪،‬کہ آپ اپنے پروردگار‬
‫کے فضل سے مجنون نہیں ہیں‪،‬اور بے شک آپ کیلئے ایسا اجر ہے جو ختم ہونے واال‬
‫اعلی مرتبہ پر ہیں‪ ،‬عنقریب آپ بهی دیکه لیں گے اور یہ‬
‫ٰ‬ ‫نہیں‪،‬اور بے شک آپ اخالق کے‬
‫لوگ بهی دیکه لیں گےکہ تم میں سے کس کو(واقعی)جنون تها‪ ،‬بے شک آپ کا پر وردگار‬
‫وہی خوب جانتا ہے اس کو جو اس کی راه سے بهٹکا ہوا ہےاور وہی خوب جانتا ہے راه‬
‫پائے ہوؤں کو‪ ،‬تو آپ تکذیب کرنے والوں کا کہنا نہ مانئے یہ لوگ تو یہی چاہتے ہیں کہ‬
‫آپ ڈھیلے پڑ جائیں تو یہ بهی ڈھیلے پڑ جائیں‪،‬اور آپ ایسے شخص کا بهی کہنا نہ مانئے‬
‫گا جو بڑا قسمی ں کهانے واال ہے ‪،‬ذلیل ہے‪،‬طعنہ باز ہے‪ ،‬چلتا پهرتا چغل خور ہے‪ ،‬نیک‬
‫کام سے روکنے واال ہے‪ ،‬حد سے گزرنے واال ہے‪،‬سخت گنہگار ہے‪،‬سخت مزاج ہے ‪،‬‬
‫اس کے عالوه بد نسب بهی ہے‪ ،‬اس نظر سے کہ وه مال اور اوالد واال ہے‪ ،‬جب ہماری‬
‫آیتیں اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو وه یہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلوں کے خرافات ہیں ‪،‬‬
‫تو ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے‪ ،‬ہم نے ان کی آزمائش کردی ہے جیسا ہم‬
‫نے باغ والوں کی آزمائش کی تهی جب کہ ان لوگوں نے قسم کهائی تهی کہ ہم اس کا پهل‬
‫ضرور صبح چل کر توڑ الئیں گے اور انهوں نے ان شاء ہللا بهی نہیں کہا تها‪،‬سو اُس‬
‫(باغ)پر آپ کے پرور دگار کی طرف سے ایک پهرنے واال(عذاب)پهر گیا اس حال میں کہ‬
‫وه سو رہے تهے‪،‬تو وه(باغ)ایسا ره گیا جیسا کٹا ہوا کهیت۔”(القلم‪)۲۰-۱:‬‬

‫الفخامة والرقة‪:‬‬
‫کہیں کہیں پر قرآنی آیتوں میں معنی کا شکوه اور موضوع کی عظمت ظاہر ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬جیسےسورة ال حج اور سورة المؤمن میں ہے‪،‬اور کہیں کہیں پر قرآنی آیتوں میں شفقت‬
‫و محبت اور نرمی و لطافت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ‪ ،‬جس طرح سوره مریم اور سورة االنبیاء‬
‫میں ہے۔‬

‫الجمال الصوتي والتناغم ‪:‬‬


‫جہاں تک قرآنی آیات میں نغمگی اور صوتی حسن کی ہم آہنگی و تاثیر کا تعلق ہےتو‬
‫ان دونوں خوبیوں کے بہت سے نمونے قرآن میں موجود ہے‪،‬جس طریقہ سے سوره فرقان‬
‫‪،‬سوره ق ‪ ،‬سوره قمر‪،‬سوره رحمن اور سوره مرسالت اور اس کے عالوه سورتوں میں‬
‫ہے۔‬

‫ضرب األمثال‪:‬‬
‫قرآنی کالم میں بہت ہی نرالی انوکهی اور شاندار تمثیلوں اور کہاوتوں کاکثرت سے‬
‫استعمال بهی ہے‪،‬یہ(تمثیلیں اور مثالیں)نفس انسانی کی رہنمائی کرتی ہےکہ وه خدا کی ذات‬
‫ک و سمجه سکے اورنبوی دعوت کی جو جاللت شان ہے اس پر وه مطمئن ہوسکے۔‬
‫“ اے مؤمنو!تم اپنے خیرات کواحسان جتال کر اور ایذا پہنچا کر ضائع نہ کرو‪،‬اس‬
‫شخص کی طرح جولوگوں کو دکهانے کیلئے اپنا مال خرچ کرتا ہے‪،‬اور نہ ہی وه ہللا اور‬
‫آخرت کے دن پر ایمان رکهتا ہے‪،‬تو ایسے شخص کی مثال اس چٹان کی مثال ہےجس پر‬
‫مٹی بیٹه گئی ہو‪،‬اور پهر اس تیزبارش ہوجائے تو اس کو بالکل چکنی چٹان بناکر سپاٹ‬
‫کردے‪،‬تو یہ لوگ اس میں سے کوئی چیز حاصل نہیں کرسکتے جو ان لوگوں نے کمایا‪،‬ہللا‬
‫تعالی کافروں کو ہدایت نہیں دیتا‪ ،‬ان لوگوں کی مثال جو ہللا کی رضا اور خوشنودی کو‬
‫حاصل کرنے کیلئےاور اپنے دلی یقین و اطمینان کے ساته اپنےمال خرچ کرتے ہیں اس‬
‫باغ کی مثال ہےجو ایک ٹیلہ پر ہو‪،‬اور پهر وہاں زور کی بارش ہوجاتی ہےتو پهر وه اپنا‬
‫پهل دوگنا دی تا ہے‪،‬اگر وہاں بارش نہ (بهی)ہو تو (پهر بهی وہاں)شبنم(تو ہوتی ہی)ہے‪،‬اورہللا‬
‫تعالی ان تمام چیزوں کو دیکه رہا ہے جو تم کررہے ہو”(سوره بقره ‪)۲۴۶-۲۶۵ :‬‬ ‫ٰ‬
‫“ آپ کہہ دیجئے کہ ہللا ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وه تن تنہا اور زبردست غلبہ واال‬
‫تعالی نے آسمان سے پانی برسایا توپهر نالے ‪/‬وادیاں اپنی اپنی وسعت کے اعتبار‬ ‫ٰ‬ ‫ہے‪،‬ہللا‬
‫سے بہہ پڑیں‪،‬تو پانی کے بہاؤ(سیالب)میں جهاگ اوپر کی طرف آجاتا ہے‪،‬اور جن چیزوں‬
‫کو یہ زیور یا دوسری چیز بنانے کیلئے آگ میں تپاتے ہیں تو اس میں بهی پانی کی طرح‬
‫تعالی حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے‪،‬رہی بات جهاگ‬ ‫ٰ‬ ‫جهاگ (اٹهتا) ہے‪،‬ایسے ہی ہللا‬
‫کی تو یہ خشک ہوکر بالکل ختم ہوجاتا ہے‪،‬اور رہی وه چیز جو انسانوں کیلئے مفید ہےتو‬
‫تعالی مثالوں کو بیان کرتا ہے۔”( سوره رعد ‪-۱۶:‬‬
‫ٰ‬ ‫وه زمین میں ٹهہر جاتی ہے‪،‬ایسے ہی ہللا‬
‫‪)۱۷‬‬
‫“ ہللا آسمانوں اور زمین کا نور ہے‪،‬اس کے نور کی مثال اس طاق کی مانند ہےجس‬
‫کے اندر ایک چراغ (رکه دیا جائے)‪،‬اور وه چراغ شیشہ(قندیل)میں ہو‪،‬اور وه‬
‫شیشہ(قندیل)بهی ایسا گویا کہ وه کوئی چمکتا ہوا تاره ہو‪،‬اور چراغ کو زیتون کےایک‬
‫بابرکت درخت سے جالیا گیا ہو‪ ،‬جونہ مشرقی جہت میں ہے نہ مغربی(یعنی کهلے میدان‬
‫میں ہے اور چاروں طرف سے اس پر دھوپ پڑتی ہے‪ ،‬ایسے درخت کا تیل سب سے مفید‬
‫اور اچها ہوتا ہے)ایسا لگتا ہے کہ اس کا تیل خود بخود روشنی پیدا کردے گااگرچہ اس کو‬
‫تعالی اپنے نور کی ہدایت جس‬‫ٰ‬ ‫(ابهی)آگ نے نہ چهوا ہو‪،‬یہ تو روشنی در روشنی ہے‪،‬ہللا‬
‫تعالی ہر چیز‬
‫ٰ‬ ‫کو چاہتا ہے دیتا ہے‪،‬اورہللا تعال ٰی انسانوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے‪،‬اورہللا‬
‫کو خوب جاننے واال ہے۔”(سوره نور ‪)۳۵:‬‬
‫“ اے انسانو!ایک مثال بیان کی جا رہی ہے تو تم کان لگاکر اس کو سنو‪،‬بے شک وه‬
‫معبودان باطلہ کہ ہللا کو چهوڑ کر جن کو تم پکارتے ہویہ ہرگز ایک مکهی بهی پیدا نہیں‬
‫کر سک تے اگرچہ یہ تمام کے تمام ایک جگہ جمع ہوجائیں‪،‬اور(ان کا حال یہ ہے کہ)اگر یہ‬
‫مکهی ان سے کوئی چیز چهین لیتی ہے تو اس کو واپس نہیں ال سکتے ‪ ،‬طالب اور مطلوب‬
‫دونوں ہی بڑے کمزور ہیں‪،‬ان لوگوں نے ہللا کی جیسی قدر کرنی چاہئے تهی ویسی قدر‬
‫تعالی تو بڑا طاقتور اور غالب آنے واال ہے۔”(الحج ‪)۷۴-۷۳:‬‬
‫ٰ‬ ‫نہیں کی‪،‬ہللا‬

‫تصویر المعاني والمشاھد ‪:‬‬


‫ایسے ہی ہم قرآن کے اسلوب کو پاتے ہیں کہ وه معانی و منا ظرکی سچی اور‬
‫محسوس کی جانی والی تصویر کشی سےپُرہے‪،‬اور یہ قرآن کی ادبی خصوصیات میں سے‬
‫ہے‪،‬ان کے ذریعہ سے قرآن ان دلوں کو کهولتا ہے جس میں گرہیں پڑی ہوئی ہیں‪،‬اور جو‬
‫عقلیں بند ہوگئیں ہیں ان کو(بهی) کهول دیتا ہےتاکہ جو مفید دینی حقائق ہیں یہ ان کو سمجه‬
‫سکیں اور ان کو قبول کر سکیں۔‬
‫“وه لوگ جنهوں نے کفر کیا ہے ان کے اعمال اس ریت کی مانند ہیں جو ایک چٹیل‬
‫میدان میں(پڑی ہوئی)ہو‪،‬پیاسا انسان اسے (دور سے دیکه کر) پانی سمجهتا ہے‪،‬حتی کہ‬
‫جب وه اس ریت کے پاس آتا ہےتو پهر وه کوئی چیز نہیں پاتا ہے‪،‬اور وه (آخرت میں)ہللا‬
‫تعالی تو بہت جلد‬
‫ٰ‬ ‫تعالی اس کو اس کا پورا پورا حساب دےدےگا‪،‬اور ہللا‬
‫ٰ‬ ‫کو پائے گاتو ہللا‬
‫حساب لینے واال ہے‪،‬یا( ان کے اعمال )اس طالطم خیزسمندر کی تاریکیوں کے مانند‬
‫ہیں‪،‬جس کو ایک موج کے اوپر سے دوسری موج ڈھانپ لیتی ہے اور اس کے اوپربادل‬
‫بهی ہوتا ہے‪،‬یہ ایسی تاریکیاں ہیں جو بعض بعض پر چڑھی ہوئی ہیں‪(،‬حال یہ ہے کہ)اگر‬
‫تعالی جسے‬
‫ٰ‬ ‫کوئی تاریکی میں اپنا ہاته باہر کرے تو وه اس کو (خود)دیکه نہیں سکتا‪،‬ہللا‬
‫نور( ہدایت) نہ بنائے اسے کوئی نور (حاصل) نہیں ہوگا۔”(سوره نور‪)۴۰:‬‬
‫“ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو‪ ،‬اس لئے کہ قیامت کا جهٹکابہت عظیم چیز ہے‪(،‬وه‬
‫دن اتنا ہولناک ہوگا کہ)تم اس دن دیکهو گے کہ ہر دودھ پالنے والی اپنے دودھ پیتے‬
‫(بچہ)سے غافل ہوجائے گی‪،‬اور ہر حاملہ ع ورت (دہشت کی وجہ سے)اپنے حمل کو رکه‬
‫دے گی‪،‬آپ لوگوں کو دیکهیں گے کہ وه نشہ میں ہیں‪،‬حاالنکہ وه نشہ میں نہیں ہوں گے(بلکہ‬
‫تعالی کا عذاب بہت سخت ہے۔”‬‫ٰ‬ ‫ان پر خوف طاری ہوگا)‪،‬بلکہ ہللا‬
‫“ان گهوڑوں کی قسم جو ہانپ ہانپ کر دوڑنے والے ہیں‪،‬پهر ان گهوڑوں کی قسم‬
‫جو اپنے پیر کی نعلوں سے چنگایاں اڑاد یتے ہیں‪ ،‬پهر صبح کے وقت حملہ کرنے والوں‬
‫کی قسم‪،‬پهر وه اس وقت گرد و غباراڑاتے ہیں‪،‬پهر وه اس وقت فوج پر حملہ کر دیتے‬
‫ہیں‪(،‬انسان اپنے ماتحت جانور سے یہ چاہتا ہے کہ اس کی سر کشی نہ کرے لیکن)بے‬
‫شک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے‪،‬اور وه خود اس پر دلیل بهی ہے‪،‬یہ خیر(ذاتی مفاد) کا بڑا‬
‫حریص بهی ہے”(سوره عادیات‪)۸-۱ :‬‬

‫األقسام‪:‬‬
‫فروق المعنى ودقائقها‪:‬‬
‫صوتیة األلفاظ‪:‬‬
‫التشریع‪:‬‬
‫القصص‪:‬‬
‫الموعظة والهدایة‪:‬‬
‫تأثیر القرآن في األدب‪:‬‬
‫نمو النثر وقوته‪:‬‬
‫ﷺ ‪ :‬خیر نموذج ألدب النثر األدبي‬ ‫محمد رسول ہللا‬
‫كالمه نثر ولیس شعرا‪:‬‬
‫خصائص كالمه وأصنافه ‪:‬‬
‫آپ ﷺ کا کالم نثر مرسل ہے‪،‬اور نراال اور اچهوتا بهی ہے‪،‬جس کو اختیار کرنا بہت‬
‫آسان ہے‪ ،‬اور جس کا چشمہ بہت ہی شیرینی اورمیٹها ہے‪،‬اورچهوٹے چهوٹے جملوں میں‬
‫کثیر معانی کو جمع کردیا ہے‪،‬جہاں پر ایجاز سے کام لینے کی ضرورت تهی وہاں پر آپ‬
‫ﷺنےایجاز سےکام لیا‪،‬اور جہاں پر تفصیل و اطناب کی ضرورت تهی وہاں پر آپ ﷺنے‬
‫تفصیل سے کام لیا‪،‬آپ ﷺاپنے کالم میں بالکل تکلف سے کام نہیں لیتےتهے بلکہ آپ بے‬
‫ساخت ہ‪/‬فطری طور پر بات کرتے تهے‪،‬آپﷺ غیر مستعمل اور غیر مانوس الفاظ کو چهوڑ‬
‫دیا کرتے تهے‪،‬آپ کا کالم بازاری اور لغو وگهٹیا الفاظ سے خالی تها‪،‬اوروه کئی ادبی‬
‫اصناف پر مشتمل تهاجیسے نادر مثالیں‪،‬بلند حکیمانہ باتیں‪،‬عمده و شاندارکہاوتیں‪،‬نافع‬
‫وصیتیں‪،‬ایسے ہی آپ کے کالم ک ے اندر رہبری اور رہنمائی کے معانی و مضامین ‪،‬قوانین‬
‫اور تعلیم و تر بیت (کا موضوع بهی)ہے‪،‬آپ کاکالم زبان کو وافر مقدار میں مواد فراہم کرتا‬
‫اعلی ترین نمونے اور شہ پارے ہیں ‪ ،‬اور اخالقیات کا بہترین‬‫ٰ‬ ‫ہے‪،‬اور اس میں ادب کے‬
‫ذخیره ہے۔‬

‫أبرز أقسامه األدبیة‪:‬‬


‫آپ ﷺکے کال م کی ممتاز ترین اصناف میں آپ کی حدیثیں ‪ ،‬آپ کی تقریریں اور‬
‫دعائیں ہیں‪،‬حاالنکہ آپ کا کالم خطوط نگاری ‪ ،‬معاہدے اور معامالت کے نمونوں سے بهی‬
‫خالی نہیں ہے۔‬

‫األحادیث‪:‬‬
‫پیراگراف کا ترجمہ‪ :‬جہاں تک آپ کی حدیثوں کا تعلق ہے تو یہ کالم کے مختلف‬
‫صنفوں پر مشتمل ہیں‪،‬تاریخ نے ہمارے لئے احادیث نبویہ کا بہت بڑا ایک ذخیره محفوظ‬
‫کردیا ہے‪،‬جس کے اندر آپ ﷺکی زندگی اور آپ کےزمانہ کی زندگی کےاکثر پہلوآگئے‬
‫ہیں‪،‬یہ ذخیرے سچے وصادق صحابہ کرام ؓکی زبانوں کے ذریعہ ہم تک نقل کئے گئے‪،‬یہاں‬
‫اس کی مثال دی جا رہی ہےاور اس مثال میں وضاحت اور تشریح کے ساته کم الفاظ میں‬
‫زیاده معانی بیان کئے گئے ہیں‪ ،‬ہللا کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫تعالی نے بہت سے فرائض فرض کئے ہیں تو ان کو ضائع مت کرو‪،‬اور بہت‬ ‫ٰ‬ ‫“ہللا‬
‫سے حدود متعین کئے ہیں تو اس آگے نہ بڑھو‪،‬اور بہت سی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے‬
‫تو ان کی بے حرمتی نہ کرو‪،‬اور تم رحم اور احسان کرتے ہوئے تم سے بہت سی چیزوں‬
‫سے خاموشی اختیار کرلی‪،‬بنا کسی نسیان اور بهول چوک کے‪،‬لہذا ان چیزوں کی تحقیق‬
‫تعالی نے تمہارے لئے قیل و‬
‫ٰ‬ ‫میں نہ پڑو”۔ اور یہ بهی آپ ﷺ کا ارشاد ہے‪“:‬بے شک ہللا‬
‫قال ‪ ،‬کثرت سے سوال کرنے اور مال کے ضیاع کو ناپسند فرمایا ہے”۔‬
‫ہللا کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا‪:‬سات چیزوں (کی آمد)سے پہلے پہلے اچهے اعمال‬
‫کی طرف جلدی کرو‪،‬کیا تم لو گ ایسے فقر کے منتظر ہو جو تمہیں(اعمال صالحہ سے)‬
‫غافل کردے گا‪،‬یا ایسی مالدا ری کے جو سر کش بنا دینے والی ہو‪،‬یا ایسی بیماری کے جو‬
‫(صحت کو )بگاڑ دے‪،‬یا ایسی بڑھاپے کے جو (جسمانی صالحیتوں کو )بیکار کردے‪،‬یا‬
‫ایسی موت کےجو فورا خاتمہ کردے‪،‬یا دجال کے جو ایسا شر ہےجو ابهی آیا نہیں ہے اور‬
‫جس کا انتظار کیا جارہا ہے‪،‬یا قیامت کے (واقع ہونے کے)تو قیامت بڑی سخت اور اذیت‬
‫ناک چیز ہے”۔‬
‫اور آپ ﷺنے فرمایا‪“:‬میرے رب نے مجهے نو چیزوں کا حکم دیا ہے‪،‬میں تمہیں‬
‫بهی ان نو باتوں کی وصیت کرتا ہوں‪،‬کہ ظاہر و باطن میں اخالص کو الزم پکڑنا‪،‬خوشی‬
‫اور ناراضی میں عدل کا دامن ہاته سے نہ چهوڑنا‪،‬مالداری اور فقر و فاقہ کے زمانہ میں‬
‫میانہ روی اختیار کرنا‪،‬اور(ہللا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ )میں ان لوگوں کو معاف کروں جو‬
‫میرے ساته زیادتی کرتے ہیں‪،‬اور میں اسے دوں جس نے مجهے محروم کردیا ہے‪،‬اور‬
‫میں ان کو جوڑوں جو مجه سے رشتہ منقطع کرلے ‪،‬اور (مجهے اس بات کا حکم ہے‬
‫کہ)میرا خاموش رہنا غور و فکر کیلئے ہو‪،‬اور میرا بولناباعث ذکر ہو‪،‬اور میرا دیکهنا‬
‫عبرت اور نصیحت کیلئے ہو”۔‬

‫أما أدبه المرسل فمثاله حدیثه ﷺ‪:‬‬


‫حضرت ابو ہریره ؓ سے مروی ہے کہ رسول ہللا ﷺنے ارشاد فرمایا‪:‬جو شخص کسی‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫مؤمن سے دنیا کی مصیبتوں میں سےکسی ایک مصیبت کو دور کردے گا تو ہللا‬
‫قیامت کے دن کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی کو دور کردے گا‪،‬اور جو کسی‬
‫تعالی دنیا و آخرت دونوں میں اس کیلئے آسانی پیدا‬
‫ٰ‬ ‫پریشان حال پر آسانی پیدا کرتا ہےتو ہللا‬
‫تعالی دنیا و آخرت دونوں میں‬
‫ٰ‬ ‫کرتا ہے‪،‬اور جو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرتا ہےتو ہللا‬
‫تعالی بنده کی اس وقت تک مدد کرتا رہتاہے جب تک کہ‬ ‫ٰ‬ ‫اس کی ستر پوشی کرتا ہے‪،‬ہللا‬
‫بنده اپنے بهائی کی مدد میں رہتا ہے‪،‬اور جو سفر طے کرتا ہے جس میں وه علم کا متالشی‬
‫تعالی جنت میں دخول کا راستہ اس کیلئے آسان کردیتے ہیں‪،‬اور جب بهی کچه‬ ‫ٰ‬ ‫ہےتو ہللا‬
‫میں کتاب ہللا کی تالوت کرتے ہیں اور آپس‬ ‫لوگ ہللا کے کهروں میں سے کسی گهر‬
‫میں ایک دوسرے کو سکهاتے ہیں تو ایسے لوگوں پر سکون و اطمینان کی فضا چها جاتی‬
‫ہے‪،‬اور رحمت ان کو اپنے آغوش میں لے لیتی ہے‪،‬اورمالئکہ ان کو ڈھانپ لیتے ہیں‪،‬اور‬
‫تعالی ان لوگوں(مالئکہ) سے ان کا ذکر کرتا ہے جو ان کے پاس ہیں‪،‬اور جسے اس کا‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫عمل پیچهے کردے تو اس کا حسب و نسب اسے بڑھا نہیں سکتا”۔‬

‫أما تمثیالته فهي‪:‬‬


‫األدعیة‪:‬‬
‫وھذا دعاؤه في عرفات‪:‬‬
‫أقواله السائرة‪:‬‬
‫نماذج النثر الفني األخرى لهذا العهد‪:‬‬
‫نصوص اآلخرین‪:‬‬
‫الخطابة‪:‬‬
‫العهود والعقود‪:‬‬
‫خطاب کے‬
‫ؓ‬ ‫یہ عہد و پیمان(کی صنف)کا ایک نمونہ ہے جو ہم نے حضرت عمر بن‬
‫کالم سے لیا ہے۔‬
‫حضرت عامر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت معاویہ ؓ کو ایک خط‬
‫لکها(جس میں مندرجہ ذیل باتیں کہی)‪:‬‬
‫“اما بعد!میں نے عدالتی نظام کے سلسلہ میں نے آپ کو ایک خط لکها ہے ‪،‬جس میں‬
‫میں نے اپنے اورآپ کے سلسلہ میں بهالئی کا کوئی شگوفہ نہیں چهوڑا۔پانچ خصلتوں کو‬
‫الزم پکڑ لیجئے(اگر آپ نے ایسا کرلیا تو)آپ کا دین محفوظ رہے گا‪،‬اور آپ اس میں اپنا‬
‫بہترین حصہ پالیں گے ‪،‬جب دو فریق(کسی سلسلہ میں) آپ کے پاس آئیں‪،‬تو آپ پرالزم ہے‬
‫کہ آپ ان سے منصفانہ گواہی کا مطالبہ کریں‪،‬یا آپ ان سے سچی قسم(حلفیہ بیان)لے‬
‫لیجئے‪ ،‬کمزور کو قریب کیجئے یہاں تک کہ اس کا دل مضبوط ہوجائے‪،‬اور اس کی زبان‬
‫کهل جائے‪،‬پردیسی کا خیال کیجئے‪،‬اس لئےکہ اگرآپ نے اس کا خیال نہیں رکهاتو وه اپنا‬
‫حق چهوڑ دے گا‪،‬اور اپنے گهر واپس لوٹ جائے گا‪،‬بسا اوقات جس کے ساته نرمی نہ کی‬
‫جائے وه اپنا حق ضائع کردیتا ہے‪،‬آپ ان کے درمیان دیکهنے اور توجہ دینے میں برابری‬
‫کریں ‪،‬آپ پر الزم ہے کہ آپ لوگوں کے درمیان صلح کرائیں جب تک آپ کے سامنے‬
‫عدالت کا صحیح فیصلہ نہ آجائے”۔‬

‫الرسائل‪:‬‬
‫یہ حضرت علی بن ابی طالب کرم ہللا وجہہ کا خط ہے‪،‬جو اس کے لکهنے والے‬
‫کے اسلوب کی بالغت اور اس زمانہ(عہد اسالمی)کی خطوط نگاری کےنہج اور طرز عمل‬
‫کی طرف اشاره کرتا ہے۔‬
‫“ہللا کے بندے حضرت علی امیر المؤمنین کی جانب سےاہل کوفہ کے نام جو‬
‫(ہمارے)ممتاز معاونین اور عربوں کے سربر آورده لوگ ہیں۔‬
‫امابعد!میں تم لوگوں کو حضرت عثمان ؓ کے مسئلہ کے تعلق سے بتالتا ہوں (کہ آپ‬
‫کا قضیہ کیاہے؟)یہاں تک کہ آپ کو سننا آپ کے دیکهنے کی مانند ہوجائے‪،‬لوگوں نے آپ‬
‫پر تنقیدیں کیں‪،‬میں مہاجرین میں ایک ایسا شخص تها جس نےان کو راضی کرنے کی بہت‬
‫کوششیں کیں‪،‬اور ان کی بہت کم سر زنش کی‪،‬حاالنکہ ان کے سلسلہ میں حضرت طلحہ و‬
‫حضرت زبیر کی ہلکی ترین رفتار بهی بہت تیز تهی‪،‬اور ان کی نرم ترین حدی خوانی بهی‬
‫بہت سخت تهی‪،‬اور حضرت عائشہ سے ان کے سلسلہ میں غصہ کی وجہ سے لغزش ہوگئی‬
‫تهی‪،‬آپ کو ایسے(ناہنجار)لوگ مل گئے جنهوں نے آپ کو قتل کردیا‪،‬لوگوں نے جو مجه‬
‫سے بیعت کی ہے وه بغیر کسی اکراه و جبر کے ک ی ہے‪،‬بلکہ اپنی مرضی اور اختیار‬
‫سے(مجه کو چنا ہے)۔‬
‫جان لو کہ دار الہجرة(مدینہ منوره)اپنے مکینوں سے خالی ہوگیا ہےاور لوگوں نے‬
‫بهی اس کو چهوڑ دیا ہے‪،‬اور ہانڈی کے ابال کی طرح اس کا جوش اُبل رہا ہے‪(،‬جو)فتنہ‬
‫(برپا تها اب وه)محور پر آکر ٹهہر گیا ہے‪،‬لہذا اب تم لوگ فورااپنے امیر کے پاس جاؤ‪،‬اور‬
‫اپنے دشمنوں سے جہاد کی طرف سبقت کرو‪،‬ان شاء ہللا(کامیابی ہمارے ساته ہوگی)”۔‬
‫ایک دوسرے موقع پر ان کایہ (مندرجہ ذیل)کالم ہے ‪ ،‬جسے ہم نےان کے ایک خط‬
‫سے لیا ہےجو انهوں نے اپنے فوج کے کمانڈر کو لکها تها‪،‬جس میں ان کو دنیا میں زاہدانہ‬
‫طریقہ‬
‫ٔ‬ ‫زندگی گزارنے کی نصیحت کی تهی‪،‬اور اس میں دنیا کے تعلق سے اپنا نظریہ اور‬
‫حیات بیان کیا تها‪،‬یہ ایسا کالم ہے جس میں ان کے اسلوب کی بالغت و فصاحت اور دنیا‬
‫کے تعلق سے ان کاموقف ظاہر ہوتاہے۔‬
‫“ہللا کی قسم‪-‬ایسی قسم جس کو کهانےکے بعد فورا ان شاء ہللا کہا جائے‪-‬میں اپنی‬
‫نفس کی ایسی تربیت کروں گا کہ وه اس تربیت کے ساته روٹی کے ٹکڑے کوجب وه اسے‬
‫کهانے کے طور پر مل جائے گا‪،‬خوشی خوشی لے لے گا‪،‬اور وه نمک پر سالن کے طور‬
‫پر قناعت کرلے گا ‪ ،‬میں اپنی آنکه کو پانی کا وه چشمہ بنا دوں گا جس کا سوتاخشک ہوجاتا‬
‫ہے‪،‬اور وه آ نکه اپنے آنسؤوں کو ختم کردے گی‪،‬کیا چهٹا جانور جب چرنے کی اس کا‬
‫پیٹ بهر جاتا ہے تو وه بیٹه جاتا ہے؟اور کیا بکری جب گهاس کهاکر آسوده ہوجاتی ہے تو‬
‫کیا وه بیٹه جاتی ہے؟تو کیا علی بهی اپنے تو شہ میں سے کهائے اور سو جائے‪،‬تب توان‬
‫کی بهی آنکه ٹهنڈی ہوجائے گی جب یہ کل بہت سالوں کے بعد بنا چراوہے کے جانور اور‬
‫چرتے رہنے والے جانور کی اتباع کریں گے۔‬
‫اس انسان کو مبارکبادی ہے جس نے اپنے رب کا فرض ادا کردیا‪،‬اور فقر و فاقہ کو‬
‫اپنے پہلو سےرگڑدیا‪،‬اور رات میں اپنی نیند کو چهوڑ دیا‪ ،‬یہاں تک کہ جب نیند اس پر‬
‫غالب آجاتی ہےتو وه زمین کو بچهونا اور ہتهیلی کو تکیہ بنا لیتا ہے‪،‬اور یہ ایسے لوگوں‬
‫کے ساته ہوتا ہے کہ آخرت کا خوف ان کی آنکهوں سے نیند اڑا دیتا ہے‪ ،‬ان کے پہلو ان‬
‫کے بستروں سے الگ رہتے ہیں‪،‬ان کےرب کے ذکر سےان کے ہونٹ ہلتے رہتے ہیں‪،‬اور‬
‫کثرت ِ استغفار کی وجہ سے ان کے گناه گهٹ جاتے ہیں‪''،‬یہ ہللا کی جماعت ہے‪ ،‬یاد رکهو‬
‫جو ہللا والے ہیں وہی کامیاب و بامراد ہیں''‪،‬اے ابن ُحنیف !ہللا سے ڈرو‪ ،‬اور یہ روٹی کے‬
‫ٹکڑے تمہارے لئے کفایت کرجائیں‪،‬تاکہ جہنم سے تم کو نجات حاصل ہوجائے”۔‬
‫علی کے کالم کےطاقتور اور عمده نمونے خطابت میں بهی ملتے ہیں۔‬
‫حضرت ؓ‬
‫اس ادبی زمانہ میں ‪،‬جس کی ہم بات کررہے ہیں جلیل القدر تابعی حضرت حسن‬
‫بصری بهی ممتاز ہوئے‪،‬آپ کا کالم بالغت و فصاحت‪ ،‬حکمت و دانائی‪،‬اور تاثیر وقوت‬
‫سے مزین ہے‪،‬آپ نے لوگوں کو اپنے دینی و اخالقی مواعظ سے بہت زیاده فائده پہنچایا‬
‫ہے‪،‬اور اس کے ذریعہ سے آپ نے عربی ادب میں بہت مفید ادبی سرمایہ کا اضافہ کیا‬
‫ہے‪،‬آپ کا وصال؁ ‪۱۱۰‬ھ میں ہوا۔‬
‫توقیعات ان فصیح و بلیغ جملوں کو کہتے ہیں جن کا انداز مسجع کالم اور حکیمانہ‬
‫کالم کے بین بین کا ہوتا ہے‪،‬اور توقیعات(عام طور پر)لوگوں کی درخواستوں اور ان کی‬
‫پرچیوں پرجوابا لکهی جاتی تهی۔‬

‫الشعر‬
‫الغزل‪:‬‬
‫قال صمة بن عبد ہللا‬
‫صمہ بن عبد ہللا بنو امیہ کے زمانے کا ہے ‪ ،‬اس نے نسیب میں بہت عمده اشعار‬
‫کہے ‪ ،‬مندرجہ ذیل اشعار انہی اشعار کی ایک جهلک ہیں ‪ ،‬جو اس نے اسوقت کہے جب‬
‫وه اس دیار کو چهوڑنے پر مجبور ہوا جس میں وه اور اس کی محبوبہ دونوں ساته رہا‬
‫کرتے تهے‪:‬‬
‫تم ریا کے مشتاق ہوئے ‪ ،‬اور تم نے خود ہی اپنے آپ کو ریا کی زیارت سے دور‬
‫کردیا ‪ ،‬حاالنکہ تم دونوں کے قبیلے ساته ساته رہا کرتے تهے۔‬
‫یہ کوئی اچهی بات نہیں کہ تم ایک چیز کو اپنی مرضی سے اختیار کرو ‪ ،‬اور پهر‬
‫تم بے تابی کا اظہار کرو جذبۂ محبت کے بالنے پر۔‬
‫تم دونوں جاؤ اور نَجد والوں اور ِحم ٰی میں رہنے والوں کو الوداع کہہ دو اور ہمارے‬
‫لئے نجد کو رخصت کرنے کا موقع بہت کم آیا ہے۔‬
‫میری جان اس سرزمین پر قربان ‪ ،‬کہ کتنا عمده ٹیلہ ہے اور کتنی اچهی ‪ ،‬موسم‬
‫موسم بَہار گزارنے کی ‪ ،‬جگہ ہے۔‬
‫ِ‬ ‫سرما اور‬
‫می کی شامیں تم پر لوٹ کر آنے والی نہیں ہیں ‪ ،‬لہذا اپنی آنکهوں کو آنسو بہانے‬
‫ِح ٰ‬
‫کیلئے چهوڑ دو۔‬
‫جب میں نے بِشر نامی پہاڑ کو دیکها کہ وه ہمارے درمیان حائل ہوگیا ہے ‪ ،‬اور‬
‫شوق کے جذبات بےتانہ انداز میں بهڑکنے لگے‪.......‬‬
‫………‪.‬تو میری داہنی آنکه رو پڑی‪ ،‬اور جب میں نے اس کو ڈانٹا کہ صبر کی‬
‫بعد بے صبری کیسی؟ تو دونوں (آنکهوں) آنسو جاری ہوگئے۔‬
‫یار محبوب کی جانب بار بار مڑا ‪ ،‬یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ کو پایا کہ‬
‫میں د ِ‬
‫میری "لیت" اور "اخدع" نامی َرگوں میں بار بار مڑنے کیوجہ سے شدید تکلیف ہونے لگی‬
‫ہے۔‬
‫میں محبوب کی نگری میں گزرے ہوۓ دنوں کو یاد کرتا تها ‪( ،‬اور اسکو یاد‬
‫کرتے وقت میری کیفیت یہ ہوتی تهی کہ ) میں اپنا کلیجہ تهام لیتا تها کہ مارےدرد کے‬
‫کہیں شَق نہ ہوجاۓ۔‬
‫قال جمیل بن معمر‬
‫یہ نسیب کا مشہور شاعر ہے ‪ ،‬اس نے اپنی محبوبہ بث َینَہ کیلئے مندرجہ ذیل اشعار‬
‫کہے ہیں‪:‬‬
‫میرے دل ودماغ پر اس طریقے سے چهائی رہی اور میری ذات‬ ‫اے بثینہ! تم‬
‫سے اس طرح وابستہ رہی ‪ ،‬کہ اگر میں عشق ومحبت کیوجہ سے کبوتری سے بهی رونے‬
‫کی درخواست کروں تو وه بهی رو پڑے۔‬
‫جب میرا پاؤں سن ہوگیا ‪ ،‬اور کہا گیا کہ اسکی شفایابی محبوب کی دعا ہے ‪ ،‬تو میں‬
‫نے کہا کہ تم ہی میرے لئے دعا کے درجہ میں ہو۔‬
‫ہمارے مابین تفریق ڈالنے والی دوری بهول کا سبب نہیں بنی ‪ ،‬اور نہ لمبی مالقاتیں‬
‫ناراضی کا سبب بنیں( دور ره کر بهی بهال نہ سکے اور قریب ره کر بهی جهگڑ نہ سکے)۔‬
‫چغلخوروں نے میرے عشق ومحبت میں اضافہ ہی کیا ہے ‪ ،‬اور منع کرنے والوں‬
‫نے میری براه روی کو اور بڑھاوا دے دیا ہے۔(آگ کو بجهانے کے بجائے اسمیں گهی‬
‫ڈالنے کا کام کیا ہے)۔‬
‫مجهے اس بات کا اندیشہ ہے کہ میں اچانک کہیں موت کا شکار نہ ہوجاؤں ‪،‬‬
‫درآحاالنکہ ہمارے دل کی آرزوئیں تشنہ و‬
‫نامکمل ره جائیں۔‬
‫قال کُث َ ِیّر بن عبد الرحمن‬
‫عزه سے پہلے مجهے پتہ نہیں تها کہ آه و بکا کسے کہتے ہیں‪ ،‬اور نہ یہ معلوم تها‬
‫کہ درد دل کسے کہتے ہیں‪ ،‬یہاں تک کہ عزه منہ پهیر کر چلی گئی۔‬
‫اس نے میرے ساته انصاف کا معاملہ نہیں کیا‪ ،‬کہ دوسری عورتوں کو میری نگاہوں‬
‫میں مبغوض بنادیا‪ ،‬اور جہاں تک بخشش کا تعلق ہے تو اسمیں بهی اس نے بخل سے کام‬
‫لیا۔‬
‫(غیران سے مراد عزه کا شوہر) عزه کا شوہر اسکو پابند کرتا ہے کہ وه مجهے برا‬
‫بهال کہے‪ ،‬حاالنکہ عزه کے اندر میری توہین و تذلیل کا کوئی اراده نہیں‪ ،‬لیکن اس نے‬
‫شوہر کی تابعداری کی ہے۔‬
‫کسی بیماری کے الحق ہوۓ بغیر اسکے لئے کهانا پینا خوشگوار ہو‪ ،‬عزه کےلیے‬
‫میری آبرو میں سے وه چیزیں وقف ہیں جنکو وه حالل سمجهے۔(کہ محبوب کے منه سے‬
‫نکلی ہوئی گالی بهی گل تر سمجهی جاتی ہیں)۔‬
‫بخدا جتنا میں قریب ہوا اتنا ہی وه جدائی کے ذریعہ دور ہوتی چلی گئی ‪ ،‬اور جتنا‬
‫میں نے التفات میں کثرت کی اس نے اسی اعتبار سے قلت کی (ایک حسن کا مزاج ہے‬
‫ایک عشق کا)‬
‫اگر وه (مجهے برا بهال کہنے پر) راضی ہے تو اس پر خوش آمدید‪ ،‬اور اسکو اس‬
‫بات کا حق ہے کہ وه مجه سے راضی رہے۔لیکن ایسی رضامندی کا حاصل ہونا بہت کم‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫تم ہمارے ساته اچها سلوک کرو یا برا‪ ،‬ہمارے نزدیک قابل مالمت نہیں ہے‪ ،‬اور‬
‫اگر وه ناراضی کا اظہار کرے ‪ ،‬تو یہ بات بهی قابل نفرت و مذمت نہیں ہے۔‬
‫اور میں عزه کیلئے سوزش عشق کی دعا نہیں کرتا‪ ،‬اور نہ ہی اس بات پر خوش‬
‫ہوتا ہوں کہ عزه کی جوتی (پاؤں) پهسل جاۓ۔‬
‫لہذا چغلخوروں کو یہ گمان نہ ہوں کہ عزه کے ساته میری محبت ایک جوش ہے جو‬
‫ختم ہوجائے گا‪( ،‬ایک وقتی ابال ہے جو چهٹ جائے گا)‪.‬‬
‫خدا کی قسم‪ ،‬پهر خدا کی قسم کہ عزه سےپہلے اور نہ اسکے بعد کوئی محبوب اس‬
‫جگہ پر اترا ہے جہاں پر عزه اتری ہے۔‬
‫عزه کے ساته میری محبت کی قسم‪ /‬میری مثال عزه کو چاہنے میں اس شخص کی‬
‫طرح ہے‪ -‬بعد اسکے کہ میں کناره کش ہوچکا ہوں اس چیز سے جو ہمارے درمیان تهی‪-‬‬
‫‪.......‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔جو بدلی کے سایہ کی آس لگائے بیٹها ہو۔اور جب جب وه اس بدلی کے سایہ کی‬
‫‪ ،‬دوپہر کی گرمی میں آرام حاصل کرنے کے لئے پناه لیتا ہے ‪ ،‬تو وه بدلی دوپہر کے وقت‬
‫کوچ کرجاتی ہے۔‬
‫وقال أیضا‬
‫تم نے مجهکو قریب کیا‪ ،‬یہاں تک کہ جب تمہارا مکمل قابو مجه پر ‪ ،‬مجه سے ایسی‬
‫میٹهی میٹهی باتیں کرکے ہوگیا جو پہاڑی بکروں کو ہموار زمینپر اتار الئیں۔۔۔‬
‫۔۔۔تو اسوقت تم میرے پاس سے دور چلی گئی جب میرے پاس کوئی چاره نہیں تها‪،‬‬
‫اور تم نے میری پسلیوں کے درمیان چهوڑدیا‪ ،‬جو تم نے چهوڑا(یعنی حزن و مالل)‬
‫قال جمیل بن معمر في الحب العذري‬
‫قال عروة بن أُذَ ْینَة في الغزل‬
‫یقینا جس خاتون نے یہ خیال کیا کہ تمہارا دل اسکی طرف سے ا ُ َچاٹ ہوگیا ہے (تو‬
‫اسکا یہ خیال غلط ہے کیونکہ) اسکی پیدائش تمہارے محبوب کی حیثیت سے ہوئی ہے ‪،‬‬
‫جسطرح تم اسكى محبوب كى حیثیت سے پیدا کۓ گۓ ہو۔‬
‫وه اپنے رنگ و روپ کے لحاظ سے گوری چٹی ہے(صاف رنگ کی ہے)‪ ،‬اسکی‬
‫زندگی کے ابتدائی مرحلہ میں ہی اس تک عیش و تنعم کی رسائی ہوگئی‪ ،‬جس نے اسکو‬
‫بڑی مہارت کے ساته ڈھال دیا ‪ ،‬کہ (جسکو باریک کرنا بہتر تها) اسکو باریک کردیا‪،‬‬
‫اور(جسکو پرگوشت کرنا بہتر تها اسکو) پُر گوشت کردیا۔(کهاتے پیتے گهرانے کی ہے)‬
‫اس نے اپنا سالم و پیام بند کردیا‪ ،‬تو میں نے اپنے ساتهی سے کہا‪ :‬پہلے اسکا سالم‬
‫کس قدر زیاده تها اب کس قدر کم ہوگیا ہے۔‬
‫وصف نگاری‪ :‬خاکہ نگاری‪ ،‬واقعہ نگاری‪ ،‬منظر کشی۔‬

‫الوصف‪:‬‬
‫قال الف ََرز َد ْق في الوصف‬
‫بهت سے ایسے بهیڑیے ہیں جن کے رنگ خاکستری ‪ ،‬انکے سر کے بال گرے‬
‫ہوۓ ہیں اور وه جهومتے ہوئے چل رہے ہیں‪ ،‬اور وه بهیڑیا (جسکا میں تذکره کرنے جارہا‬
‫ہوں وه ایسا ہی تها لیکن وه) ہمارے ساته نہیں تها۔اور میں نے آدھی رات کو اسے اس آگ‬
‫پر بالیا جو میں نے روشن کر رکهی تهی‪ ،‬لہذا وه میرے پاس آگیا۔‬
‫جب وه قریب آیا تو میں نے کہا ‪ :‬اور قریب آؤ‪ ،‬یہ لو میں اور تم میرے اس توشۂ‬
‫سفر میں شریک ہیں۔‬
‫میں رات گزاری اس حال میں کہ میں اپنے اور اسکے درمیان توشہ تقسیم کرتا رہا‪،‬‬
‫کبهی آگ کی روشنی میں اور کبهی دھویں میں( یعنی کبهی ہماری آگ کی لپٹ میں تیزی‬
‫آتی تو وه روشن ہوجاتی اور کبهی‪).......‬‬
‫جب اس نے ہنستے ہوئے دانت نکاال اور میری تلوار کا دستہ میرے ہاته میں اپنی‬
‫جگہ مضبوطی سے جما ہوا تها ‪ ،‬تو میں نے اس سے کہا‪:‬‬
‫تم شام کا کهانا کهاؤ‪ ،‬اور اگر تم مجه سے عہد وپیمان کروگے کہ تم خیانت نہیں‬
‫کروگے‪ ،‬تو ہم ساته ساته رہنے والے دوستوں کی طرح ہوجائیں گے۔‬
‫اے بهیڑیے! تم اور غداری ایسے دو بهائیوں کی طرح ہو جنکو ایک ہی چهاتی سے‬
‫دودھ پالیا گیا ہو۔‬
‫اور اگر تم نے ہمارے عالوه کسی اور کو مہمانی کا کهانا طلب کرتے ہوئے جگایا‬
‫ہوتا تو وه تمہارے پاس تیر یا نیزے کی دھار لیکر آتا۔‬
‫ہر سفر کے دو ساتهی دو بهائی کی طرح ہوتے ہیں اگرچہ ان دونوں کی قوموں کے‬
‫درمیان نیزے چال کرتے ہوں‬
‫۔‬

‫المدح‪:‬‬
‫وقال ُح َ‬
‫طیئة في مدح آ ِل بغیض بن ألي‬
‫حطیئه كا اصلی نام جرول بنمالک ہے‪ ،‬اسکی کنیت أبو ملیکہ ہے‪ ،‬وه پست قد تها‪،‬‬
‫اسالم کا دور آیا تو اس نے اسالم قبول کرلیا‪ ،‬لیکن اسکے دل میں کبهی بهی حقیقی اسالم‬
‫جاگزیں نہ ہوسکا۔‬
‫یہ لوگ اس حال میں حکمرانی کرتے ہیں کہ وه بہت دوراندیش ہیں اور نہایت متحمل‬
‫المزاج ہیں ‪ ،‬اور اگر وه غصہ ہوتے ہیں تو ان کی غیرت و حمیت بهی سنجیدگی اور وقار‬
‫کے ساته ظاہر ہوتی ہے۔‬
‫انکو لعن و طعن کم کرو ‪-‬تمہارے باپ دادا زنده سالمت نہ رہے‪ -‬یا تم اس جگہ کو‬
‫بهردو جسکو انهوں نے بهرا ہے۔‬
‫اگر ان پر کسی کا احسان ہوتا ہے تو اسکا بدلہ دیتے ہیں‪ ،‬اور اگر وه دوسروں پر‬
‫احسان کرتے ہیں تو اس احسان کو گدال نہیں کرتے (احسان نہیں جتاتے) اور نہ ہی(احسان‬
‫علیہ کو) مشقت میں ڈالتے ہیں۔‬
‫کے بدل کا مطالبہ کرکے ُمنعَم َ‬
‫وه جنگ کے اندر خوب نیزه زنی کرنے والے ہیں‪ ،‬اور قحط کے زمانہ کی مشکالت‬
‫کو بہت زیاده دور کرنے والے ہیں۔اور ان کے باپ داداؤں نے ان کےلئے اس چیز کو‬
‫بنایا ہے(ان کو یہ تعلیمات دی ہیں‪ ،‬نیز انکے لئے) عزت و شرافت کا محل بهی تعمیر کیا‬
‫ہے۔‬
‫)آل بغیض) کے بارے میں قبیلۂ سعد کے بیٹے مجهکو لعن و طعن کرتے ہیں‪،‬‬
‫حاالنکہ میں نے وہی بات کہی ہے جسکا قبیلۂ سعد کو بخوبی علم ہے۔(یعنی میں نے سچ‬
‫بات کہی ہے۔‬
‫قال الف ََرز َد ْق في مدح سیدنا علي بن الحسین‬
‫یہ وه شخصیت ہے کہ وادئ بطحاء جنکے نقش قدم کو پہچانتی ہے‪ ،‬نیز خانۂ کعبہ‬
‫حرم ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔‬
‫اور ِحل و َ‬
‫یہ ہللا کے تمام بندوں میں سب سے بہتر شخص کے فرزند ہیں‪ ،‬صاف ستهرے‪ ،‬متقی‬
‫و پرہیزگار‪ ،‬پاک دل اور قوم کے سردار ہیں۔‬
‫جب قریش نے ان کو دیکها تو ان کے ایک کہنے والے نے کہا‪ :‬اِن کے اخالق‬
‫کریمانہ پر شرافت و نجابت ختم ہوجاتی ہے۔‬
‫ان کی نسبت عزت کی اس چوٹی کی طرف کی جاتی ہے‪ ،‬جس تک پہونچنے سے‬
‫عرب و عجم کے اسالم قاصر رہے ہیں۔‬
‫وه حیاۓ فطری (و ایمانی) کی وجہ سے اپنی نگاہوں کو پست رکهتے ہیں‪ ،‬اور انکی‬
‫ہیبت و رعب کیوجہ سے نگاہیں جهکائی جاتی ہیں ‪ ،‬اور ان سے بات اسی وقت کی جاتی‬
‫ہے جب وه مسکرارہے ہوں۔‬
‫انکی درخشاں پیشانی سے ہدایت کا نور پهوٹتا ہے‪ ،‬جیسے کہ سورج کے نکلنے‬
‫سے تاریکیاں چهٹ جاتی ہیں۔‬
‫اے ہشام! تمہارا یہ کہنا کہ یہ صاحب کون ہیں ان کیلئے نقصانده نہیں ہے‪( ،‬کیونکہ)‬
‫تم جن سے انجان بن رہے ہو عرب و عجم انکو جانتے ہیں۔‬
‫حرف"ال" نہیں آیا‪ ،‬اور اگر تشہد نہہوتا‬
‫ِ‬ ‫ان کی زبان پر تشہد کے سوا کسی اور موقع پر‬
‫تو انکی "ال" نعم ہوتی۔‬

‫ونموذجه‪:‬‬
‫وقال حسان بن ثابت في مدیح النبي ﷺ‬
‫وه کریمانہ اخالق کے حامل تهے اور ان پر نبوت کی ایک مہر تهی‪ ،‬ہللا کی جانب‬
‫سے اسکی شہادت دی جاتی ہے‪ ،‬وه چمکتی رہتی تهی اور اس کو دیکها جاسکتا تها۔‬
‫ہللا تعال ٰی نے اپنے نام کے ساته نبی ﷺ کے نام کو جوڑ دیا ہے‪ ،‬جبکہ موذن پانچوں‬
‫اذانوں میں کلمۂ "أشہد الخ" کہتا ہے۔‬
‫ہللا تعال ٰی نے آپکے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے‪ ،‬تاکہ وه انکے مرتبہ ومقام‬
‫کو بلند کرے‪ ،‬لہذا اگر عرش واال محمود ہے تو یہ محمد ہیں۔‬
‫آپ ایک ایسے نبی ہیں‪ ،‬کہ آپ ہمارے پاس رسولوں کے انقطاع کے ایک لمبے‬
‫عرصے‪ ،‬اور ناامیدی کے بعد آۓ ہیں‪ ،‬اور اسوقت روۓ زمین پر بتوں کی پوجا کی جارہی‬
‫تهی۔‬
‫پس آپ ایک روشن چراغ بن گۓ اور ایک رہنما بن گۓ‪ ،‬آپ‪ ،‬ہندوستان میں بنی‬
‫ہوئی تیز تلوار کی مانند ‪ ،‬چمکتے ہیں۔‬
‫آپ نے ہمیں جہنم سے ڈرایا‪ ،‬اور جنت کی بشارت سنائی‪ ،‬اور اسالم کی تعلیم دی‪،‬‬
‫لہذا ہم ہللا ہی کی حمد بیان کرتے ہیں۔‬
‫وقال أیضا‬
‫آپ سا حسین میری آنکهوں نے کبهی نہیں دیکها‪ ،‬آپ سا جمیل عورتوں نے نہیں‬
‫جنا؀‬
‫صورت تری معیار کماالت بناکر‬
‫دانستہ مصور نے قلم توڑ دیا ہے‬
‫آپ ﷺ کو ہر عیب سے منزه و پاک پیدا کیا گیا ہے‪ ،‬اور آپ کی پیدائش آپکی منشا‬
‫کے مطابق ہوئی ہے۔‬
‫یقینا میرے باپ دادا اور میری اپنی ذات‪،‬عزت ‪ ،‬نفس‪ ،‬یہ سب محمدﷺ کی ذات کیلئے‬
‫ڈھال ہیں۔‬
‫وقال کعب بن زھیر في مدیح النبوي‬
‫نجیب الرسول کعب بن زہیر نے ہللا کے رسول ﷺ کی تعریف میں اشعار کہے ہیں‪،‬‬
‫مندرجہ ذیل قصیده کو قصیده برده کے نام جانا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ ہللا کے رسول ﷺ نے اس‬
‫قصیده کو پسند فرمایا تها ‪ ،‬اور اپنی خاص چادر حضرت کعب کو عطا فرمائی تهی۔‬
‫اس قصیده کی ابتدا تشبیب سے کی ہے‪ ،‬چند اشعار کے بعد پهر وه اپنے موضوع‬
‫کی طرف آۓ ہیں۔انکی تعریف قدیم جاہلی اسلوب کے مطابق ہے۔‬
‫داغ مفارقت دے گئی‪ ،‬تو آج میرا دل بے چین و بےقرار ہے‪ ،‬اور اسکے پیچهے‬
‫سُعاد ِ‬
‫محبت کا اسیر ہے‪ ،‬اور وه پا بہ زنجیر ہے اور اسکو اس زنجیر وقید سے رہائی کیلئے‬
‫کوئی فدیہ نہیں دیا گیا ہے۔‬
‫جب یہ قافلہ روانہ ہورہا تها تو اس جدائی کی صبح کو سعاد نہیں تهی مگر دھیمی‬
‫نسوانی (غنہ والی) آواز والی ‪ ،‬نگاہیں نیچی کۓ ہوۓ سرمگی آنکهوں والی تهی۔‬
‫اسکی کرم فرمائیاں اور اسکے وعدے تمہیں ہرگز دھوکہ میں نہ ڈالیں‪( ،‬خود سے‬
‫مخاطب ہے) بے شک جهوٹی آرزوئیں اور خواب و خیال کی باتیں‪ ،‬یہ سب بے راه روی‬
‫اور گمراہی ہے۔‬
‫امیدو آرزو کرتا ہوں کہ اسکی محبت مجه سے قریب ہو‪ ،‬حاالنکہ میرا خیال ہے کہ‬
‫ہمیں تمہاری طرف سے محبت کا عطیہ حاصل نہیں ہوگا۔‬
‫ہر جگری دوست نےکہ جس سے مجه کو کوئی امید تهی‪ ،‬کہا ‪ :‬میں تم کو بے پرواه‬
‫نہیں کرسکتا ‪ ،‬اور میں تمہاری طرف سے غافل ہوں۔‬
‫تب میں نے ان سے کہا ‪ :‬چهوڑ دو میرا راستہ‪ ،‬تمہارا حسب و نسب مجہول و غیر‬
‫معروف ہے‪ ،‬اور رحمن نے جو کچه مقدر کررکها ہے وه ہوکر رہے گا۔‬
‫ہر عورت کا بیٹا اگرچہ اسکی عمر کتنی ہی دراز کیوں نہ ہو‪ ،‬لیکن ایک نہ ایک‬
‫دن اسکو ایک کبڑه آلہ( تابوت) پر اٹهایا جاۓ گا۔‬
‫مجهے یہ خبر دی گئی ہےکہ رسول ہللا ﷺ نے مجهے دھمکی دی ہے‪ ،‬حاالنکہ ہللا‬
‫کے رسول ﷺ کی بارگاه میں معافی کی امید ہے۔‬
‫آپ( میرے بارے میں) عجلت سے کام نہ لیجیے‪ ،‬وه ذات آپکو ہدایت دے جس نے‬
‫آپ کو قرآنی تحفہ عطا فرمایا ہے‪ ،‬جسکے اندر وعظ و نصیحت کی باتیں اور دیگر تفصیالت‬
‫ہیں۔‬
‫یقینا ہللا کے رسول ﷺ ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے‪ ،‬اور ایک‬
‫سونتی ہوئی کاٹنے والی ہللا کی تلوار ہے۔‬
‫مکہ کی سرزمین میں جب وه لوگ ایمان الئے‪ ،‬تو قریش کے ایک کہنے والے نے‬
‫کہا‪ :‬تم لوگ یہاں سے کوچ کرو۔‬
‫نوٹ‪ :‬قال قائلہم سے مراد حضرت عمر ہیں ۔‬
‫وه اونچی ناک والے (غیرت مند) بہادر اور مرد میداں ہیں‪ ،‬انکی زرہیں داؤدی بناوٹ‬
‫کی ہیں‪ ،‬اور وہی جنگ میں انکا لباس ہوا کرتی تهیں‪( ،‬وه جنگ کے اندر زره پوش ہوا‬
‫کرتے تهے)۔‬
‫وقال سیدنا حسان بن ثابت في مدح آل غسان‬
‫کیا ہی عمده جماعت تهی کہ جسکی پہلے زمانے میں نے میں ِجلّق نامی مقام پر‬
‫ہم نشینی اختیار کی۔‬
‫وه (غسانی) ایسے منقش اور ڈبل بناوٹ والے جوڑے پہن کر ایسے مستانہ وار چال‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬جیسے بڑی عمر کے اونٹ چهوٹی عمر کے اونٹوں کی طرف مستانہ وار چلتے‬
‫ہیں۔‬
‫وه سردار قوم پر وار کرتے ہیں‪ ،‬جسکی خود چمکتی رہتی ہیں‪ ،‬اور اتنا سخت وار‬
‫کہ جس وار سے انگلیوں کے پور جدا ہوتے ہیں۔‬
‫وه لوگ اسکو جو ان کے پاس نہر بریص پر آتا ہے‪ ،‬ایسا ٹهنڈا پانی پالتے ہیں جسکی‬
‫آمیزش خالص خوشگوار شراب سے کر دی گئی ہو۔‬
‫یہ (جو غسانی ہیں) روشن چہرے والے ہیں‪ ،‬اور انکا حسب و نسب انتہائی اعلی اور‬
‫انتہائی شریف ہے‪ ،‬اونچی ناک والے (غیور و خوددار) ہیں‪ ،‬اور پہلے طرز کے لوگ ہیں۔‬
‫الحماسة‪:‬‬
‫وقال قطري بن فجاءة في الحماسة‬
‫(جب) میرا نفس بہادروں کے خوف سے حواس باختہ ہورہا تها ‪ ،‬تو میں نے اس‬
‫سے کہا ‪ :‬تیرا برا ہو‪ ،‬تم ہرگز ڈر اور خوف میں مبتال مت ہو۔‬
‫کیونکہ اگر تم اپنی مقرره وقت کی زندگی سے ایک دن کے (بهی) طالب ہوۓ ‪ ،‬تو‬
‫تمہاری بات نہیں مانی جائیگی۔‬
‫لہذا تم موت کے میدانمیں صبر سے کام لو‪ ،‬انتہائی صبر سے (کام لو)‪ ،‬کیونکہ‬
‫ہمیشگی کا حاصل کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔‬
‫بقاۓ دوام کا لباس کوئی عزت کا لباس نہیں ہے‪ ،‬اسکو ذلیل اور بزدل شخص سے‬
‫اتار دیا جاتا ہے۔‬
‫موت کی راه زنده شخص کی غایت ه انتہا ہے‪ ،‬لہذا موت کا منادی تمام اہل زمین کو‬
‫پکار رہا ہے۔‬
‫جس شخص کو جونی یا صحت کی حالت میں موت نہیں آتی‪ ،‬وه اکتا جاتا ہے اور‬
‫موت اسکو فنا کے حوالے کردیتی ہے۔‬
‫جب آدمی گری پڑی چیز شمار کیا جاۓ تو ایسی زندگی میں کوئی بهالئی میں نہیں‬
‫ہے‬

‫الفخر‪:‬‬
‫وقال الفرزدق في الفخر‬
‫جب آسمان کے کنارے غبار آلود ہوجائیں‪ ،‬اور تیز چلنے والی ٹهنڈی ہوا محلہ کے‬
‫گهروں کے گوشوں کو کهول دے۔‬
‫اور سفید پاال بوقت صبح ایسا معلوم ہو گویا کہ بوڑھی اونٹنی کے کہان پر دھنکی‬
‫ہوئی روئی رکهی ہو۔‬
‫(تو اسوقت)تم ہماری پناه میں آنے والے شخص کو دیکهوگےکہ وه بہت عافیت اور‬
‫سالمتی کے ساته ہے۔اور اگر اس سے جرمہوجاۓ تو اسکو عیب نہیں لگایا جاتا‪ ،‬ان چیزوں‬
‫کیوجہ سے جو پناه لینے والے کو عیب دار بنا دیتی ہے۔‬
‫ہمیں غالب عزت حاصل ہے‪ ،‬اور ہمارے لئے اتنی بڑی تعداد ہے کہ جس پر اگر‬
‫کنکری بهی شمار کی جاۓ تو کنکری بهی پیچهے ره جائیگی۔‬
‫کوئی عزت نہیں ہے مگر ہماری عزت اس پر غالب ہے‪ ،‬اور ذلیل و رسوا شخص‬
‫ہم سے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے تو اسکے ساته انصاف کا معاملہ کیا جاتا ہے۔‬
‫ہم میں سے کچه لوگ ایسے ہیں کہ لوگ انکے سامنے زبان کهولنے کی ہمت نہیں‬
‫کرتے‪ ،‬لیکن وہی شخص اپنی بات رکه سکتا ہے جسکو اجازت دی گئی ‪ ،‬پهر اسکے ساته‬
‫انصاف کا معاملہ کیا جاتا ہے۔‬
‫تم لوگوں کو اس (سردار) کے اردگرد بیٹهے ہوۓ دیکهوگے‪ ،‬درآحاالنکہ انکی‬
‫آنکهیں جهکی ہوئی ہیں ‪ ،‬اور انکی نگاہیں ادھر ادھر نہیں پهرتیں۔‬
‫ہماری(حکمرانی اس جگہ تک ہے) جہاں خشکی(زمین)کے کنارے ملتے ہیں‪ ،‬اور‬
‫کنکری کی تعداد( کے برابر ہمارے پاس افراد بهی ہیں) اور قبیلہ ِخندِف سے تعلق رکهنے‬
‫واال بڑا سردار( ہم ہی میں سے ہے)۔‬
‫صب میں اترتے ہیں‪ ،‬جہاں سے‬
‫جب لوگ یوم النحر کی شامکو منی کے وادی ُمح ّ‬
‫انہوں نے وقوف عرفہ کیا تها ۔۔۔‬
‫۔۔۔تو تم لوگوں کو دیکهو گے کہ جب ہم چلتے ہیں تو لوگ ہمارے پیچهے پیچهے‬
‫چلتے ہیں‪ ،‬اور اگر ہم لوگوں کو (ٹهہرنے ) کا اشاره کرتے ہیں تو وه ٹهہر جاتے ہیں۔‬

‫االستعطاف‪:‬‬
‫وقال الحطیئة في االستعطاف بعد أن أخذ علیه سیدنا عمر بن الخطاب ھجاءه لزبرقان‬
‫بن بدر رضي ہللا عنه‬
‫مجهے ایک پیغام پہونچا ‪ ،‬تو میں نے اس پیغام کو جهٹال دیا ‪ ،‬اور مجهے اس بات‬
‫کا اندیشہ نہیں تها کہ ایسی بات کہی جائیگی۔‬
‫کہ چغلخور لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور ناحق طریقے پر جهوٹی بات‬
‫کہہ دی۔‬
‫میں آپ کی خدمت میں معذرت اور معافی کی امید لئے ہوۓ آیا ہوں‪ ،‬اور میں آپکی‬
‫عبرتناک سزا سے ڈرتا ہوں۔‬
‫آپ میرے متعلق چغلخوروں کی بات ہرگز نہ سنیے‪ ،‬اور آپ مجهے لوگوں کے‬
‫حوالے نہ کیجیے ‪ ،‬خدا آپکی رہنمائی فرماۓ۔‬
‫کیونکہ آپ زربقان سے بہتر ہے‪ ،‬اور آپ سخت ترین عبرتناک سزا دینے والے ہیں‪،‬‬
‫اور بہترین عطیہ دینے والے ہیں۔‬

‫الرثاء‪:‬‬
‫وقال أبو ذؤیب الهذلي في رثاء بنیه‬
‫رثاء ‪ :‬مرثیه نگاری؛ وه اشعار جسمیں شاعر دنیا سے رخصت ہونے والے کسی میت‬
‫پر اسکے اوصاف و محاسن کا ذکر کرتا ہے۔‬
‫کیا گردش زمانہ سے تم تکلیف اور درد محسوس کرتے ہو‪ ،‬حاالنکہ زمانہ جزع و‬
‫فزع کرنے والے کو خوش نہیں کرپایا ہے۔‬
‫امیمہ نے کہا‪ :‬تمہارے جسمکو کیا ہوا‪ ،‬کہ اتنا دبال پتال نظر آرہا ہے‪( ،‬اور یہ دبال‬
‫پتال اسوقت سے ہوا ہے) جب سے تم بے حیثیت کردئیے گۓ‪ ،‬حاالنکہ تمہارے جیسا مال‬
‫نفع بخش ہوتا ہے۔‬
‫اظہار غم کر رہا‬
‫ِ‬ ‫تو میں نے اسکو جواب دیا ‪ ،‬اس حال میں کہ میں اپنے جسم پر‬
‫تها‪ ،‬کہ یقینا میرے بیٹے ہالک ہوگئے ‪ ،‬اور شہر سے رخصت ہوگۓ۔‬
‫میرے بیٹے ہالک ہوگئے‪( ،‬اور ہالک ہوکر) مجهے حسرت کا بدلہ دیا‪( ،‬اور یہ‬
‫حسرت اسوقت ہوتی ہے) جب لوگ سو جاتے ہیں‪ ،‬اور (حسرت کیوجہ سے) ایسے آنسو (‬
‫بہتے) ہیں جو تهمتے نہیں ہیں۔‬
‫اور آنکهوں (کی حالت)انکے ہالک ہوجانے کے بعد ایسی ہوگئی ہے کہ انکے پپوٹے‬
‫ایسے لگتے ہیں کہ ان میں کانٹوں کی سالئی پهیر دی گئی ہے‪ ،‬تو وه آنکهیں پهوٹ گئیں‬
‫ہیں اور آنسو بہا رہی ہیں۔‬
‫میں (ان بچوں کے) ہالک ہوجانے کے بعد ایسی زندگی کے ساته باقی ره گیا ہوں‪،‬‬
‫جو بڑی پریشان کن اور تهکا دینے والی ہے‪ ،‬اور میرا خیال یہ بهی ہے کہ میں ان بچوں‬
‫سے مل جانے واال ہوں‪ ،‬اور انکے پیچهے چال جارہا ہوں۔‬
‫وه لوگ میری خواہش سے آگے بڑھ گۓ‪ ،‬اور انهوں نے اپنی خواہشوں کو گلے‬
‫لگا لیا‪ ،‬اور وه یکے بعد دیگرے ہالک کردیے گئے‪ ،‬اور ہر پہلو کیلۓ پچهڑنے کی جگہ‬
‫ہے ( یعنی ہر انسانکو مرنا ہے)‬
‫اور میری خواہش تهی کہ میں انکی طرف سے دفاع کروں گا‪ ،‬لیکن جب موت آجاتی‬
‫ہے تو اسکو نہیں ہٹایا جاسکتا۔‬
‫اور جب موت اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے تو تم ہر گنڈه و تعویذ کو بے منفعت پاؤگے۔‬
‫میرا صبر و ہمت سے کام لینا ان لوگوں کو سامنے رکهتے ہوئے ہے‪ ،‬جو لوگوں‬
‫ث زمانہ کے سامنے‬
‫کی مصیبتوں پر ہنستے ہیں‪ ،‬تاکہ میں میں انکو دکهالؤں کہ میں حواد ِ‬
‫کمزور نہیں پڑتا۔‬
‫ث زمانہ کیلئے اس (سیڑھی کے) پتهر کی مانند ہوگیا ہوں‪ ،‬جو مشقر‬ ‫اور میں حواد ِ‬
‫کے قلعہ میں لگے ہوۓ ہیں اور جن کو روزانہ روندا جاتا ہے۔‬
‫وقال سیدنا حسان بن ثابت في رثاء رسول ہللا ﷺ‬
‫مدینہ طیبہ میں رسول ہللا ﷺ کے نشانات و آثار ہیں ‪ ،‬اور ایک منور قیام گاه ہے ‪،‬‬
‫حاالنکہ نشانات مٹ جایا کرتے ہیں اور مانند پڑجاتے ہیں۔‬
‫محترم اور قاب ِل احترام دار(مدینہ طیبہ) کے نشانات مٹے نہیں ہیں ‪ ،‬اور اس میں‬
‫اس ہدایت یافتہ ذات کامنبر موجود ہے‪ ،‬جس منبر پر آپ ﷺ چڑھا کرتے تهے۔‬
‫اور واضح نشانیاں ہیں اور باقی رہنے والے آثار و نشانات ہیں‪ ،‬اور ایک وسیع و‬
‫کشاده قیام گاه ہے ‪ ،‬جس میں آپ کا مصلی اور پوری مسجد بهی ہے۔‬
‫اور اس (مدینہ طیبہ یا مسجد) میں کچه حجرے بهی ہیں ‪ ،‬کہ جن کے درمیان ہللا‬
‫کے رسول ﷺ قیام فرمایا کرتے تهے ‪ ،‬اور آپ ﷺ کی ذات ہللا کی طرف سے ایسی روشنی‬
‫کی مانند تهی‪ ،‬جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے‪ ،‬اور (جس مرده دلوں میں ایمان کی)‬
‫آگ لگائی جاتی ہے۔‬
‫اور کچه ایسے محاسن ‪ ،‬علوم و معارف ہیں ‪ ،‬کہ زمانہ کے گزرنے کے باوجوو‬
‫انکی نشانیاں مٹی نہیں ہیں‪ ،‬اور ان (علوم و معارف) تک بوسیدگی آئی تو نشانات اس سے‬
‫(بوسیده ہونے کے بجاۓ) تر وتازه ہوگۓ۔‬
‫میں (ان علوم ومعارف کیوجہ سے) رسول ہللا ﷺ پر آنسو بہاتا رہا ‪ ،‬تو آنکهوں نے‬
‫میرا ساته دیا ‪ ،‬اور انکی طرح پپوٹے بهی (رونے میں) میرا ساته دیتے رہے۔‬
‫وه سب ہللا کے رسول کے احسانات وانعامات کو یاد کرتے رہے‪ ،‬اور میں نہیں‬
‫سمجهتا کہ میری ذات ان تمام نعمتوں کو شمار کرپائیگی ‪ ،‬اور میری ذات تو (ان تمام نعمتوں‬
‫کے شمار کرنے کے سلسلہ میں) حیرانی و پریشانی کا شکار ہے۔‬
‫اے ہللا کے رسول ﷺ کی قبر! خدا تم کو برکتوں سے نوازے ‪ ،‬اور اس شہر میں بهی‬
‫برکت دی جاۓ ‪ ،‬جس شہر میں اس نیک اور ہدایت یافتہ ذات نے قیام فرمایا تها۔‬
‫یقینا ان لوگوں نے سراپا علم و آگہی ‪ ،‬سراپا حلم ‪ ،‬اور سراپا رحمت و مہربانی ذات‬
‫کو دفن کردیا ہے ‪ ،‬اس شام کو جس شام کو آپ پر لوگوں نے مٹی دی ‪ ،‬اور آپ کو (قبر‬
‫کے اندر) تکیہ نہیں لگایا گیا۔‬
‫اور وه لوگ رنج وغم کے ساته واپس لوٹے ‪( ،‬اور ان کا رنج یہ تها کہ) ان کا نبی‬
‫انکے درمیان نہیں ہے ‪ ،‬اور ان لوگوں کی پیٹه اور بازو بالکل کمزور پڑگۓ۔‬
‫اور آپکی وفات کے روز وه لوگ اس ذات پر آنسو بہا رہے تهے ‪ ،‬جس پر آسمان‬
‫بهی آنسو بہا رہا تها‪ ،‬اور جس پر زمین بهی آنسو بہا رہی تهی‪ ،‬اور لوگ سب کے سب‬
‫انتہائی رنجیده اور غم سے چور تهے۔‬
‫اسی دوران کہ وه لوگ اس نور کے ساته تهے کہ اچانک موت کے نشانہ پر لگنے‬
‫واال تیر انکے پاس جا پہونچا۔‬
‫تو آپ ﷺ ہللا کے پاس واپس چلے گۓ‪ ،‬اس حال میں کہ آپ قابل تعریف تهے ‪،‬‬
‫مالئکہ کی آنکهیں بهی آپ ﷺ پر آنسو بہا رہی تهیں ‪ ،‬اور (ہر طرف) آپکی تعریف کی‬
‫جارہی تهی۔‬
‫اور سرزمین حرم ‪ ،‬اسکے تمام گوشے وحشتناک ہوگۓ ‪ ،‬اس وحی کے منقطع‬
‫ہوجانے کیوجہ سے‪ ،‬جس سے یہ سرزمین حرم شناسا تهی۔‬
‫اور (وه سرزمین حرم) ویران ہوگئ ‪ ،‬سواۓ آپ کی اس بغلی قبر کے جس (قبر)‬
‫کے اندر آپکی مرحوم ذات نے قیام کیا تها ‪ ،‬اور آپ پر بالط اور غرقد رو رہے تهے۔‬
‫اور آپکی مسجد ( بهی ویران ہوگئ) ‪ ،‬اور آپ کے انتقال سے( تمام کی تمام چیزیں‬
‫وحشتناک ہوگئیں )‪ ،‬اور وه خال وحشتناک ہوگیا جس میں آپکا اٹهنا بیٹهنا تها۔‬
‫اے آنکه! تو ہللا کے رسول ﷺ پر آنسو بہا ‪ ،‬اور میں تمہارے متعلق کبهی بهی یہ نا‬
‫جانوں کہ تمہارے آنسو خشک ہوگۓ ہیں۔‬
‫اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اس محسن ذات پر آنسو نہیں بہا رہی ‪ ،‬جس کے‬
‫احسانات لوگوں پر بهرپور ہیں اور انکو ڈھانپے ہوئے ہیں۔‬
‫اے آنکه! تو ان پر آنسووں کے ذریعے سخاوت کر! اور پر چیخ چیخ کر رو ‪ ،‬اس‬
‫ذات پر جس کا نمونہ زمانہ میں کبهی نہیں پایا جائے گا۔‬

‫النقائض‪:‬‬
‫نَ ِقیضةٌ (ج) نَقَائِ ُ‬
‫ض ‪ :‬مخالفت‬
‫اصطالح میں شعری مقابلہ آرائی ‪ ،‬اور جوابی شعر و شاعری ‪ ،‬یعنی ایک طرف‬
‫سے شعر کہا گیا آپ نے اسی وزن و قافیہ پر دوسرا شعر کہا‪ ،‬پهر اس نے اسکا جواب دیا‬
‫‪ ،‬پهر آپ نے اسکا جواب دیا۔ ۔۔‬
‫یہ تناقضات طبیعتوں کو ہوش میں النے ‪ ،‬طبیعتوں کو جوش میں النے اور بلیغ‬
‫شعری ادب کی تخلیق کا سبب بن گئے۔‬
‫قال الفرزدق‬
‫یقینا وه ذات کہ جس نے آسمان کو بلند کیا ہے ‪ ،‬اس نے ہمارے لئے ایسا گهر بنایا‬
‫ہے ‪ ،‬جس کے ستون انتہائی مضبوط اور بڑے لمبے ہیں۔‬
‫إلى أن یقول‪:‬‬
‫اور ایک ایسا گهر بنایا کہ جسکے صحن میں زراره ‪ ،‬مجاشع اور ابو الفوارس نہشل‬
‫حبوه باندھ کر بیٹهتے ہیں ‪ ،‬ایسے لوگ تمہارے صحن میں کبهی بهی حبوه باندھ کر نہیں‬
‫بیٹهتے‪ ،‬جب کارنامے اور عمده کام شمار کۓ جاۓ۔‬
‫فیجیبه جریر في نقیضة لها‪:‬‬
‫جس ذات نے آسمان کو بلند کیا ہے اس نے مجاشع کو رسوا کردیا ‪ ،‬اور اس نے‬
‫تمہارا گهر بہت نشیبی اور نچلی زمین میں بنایا۔‬
‫ایسا گهر کہ جسکے صحن میں تمہارا لوہار بهٹی سلگاتا ہے ‪ ،‬اور اسکی نشستیں‬
‫(بیٹهنے کی جگہیں) انتہائی گندی ہیں۔اور اسکا مدخل (دروازه) بہت برا (انتہائی تنگ)ہے۔‬
‫حضرت زبیر قتل کر دیے گۓ اور تم حبوه باندھے بیٹهے ہو ‪ ،‬ناس ہو تمہارے‬
‫حبوه کا جو (اس وقت بهی) نہیں کهال (جب حضرت زبیر قتل کر دیے گئے)۔‬
‫یقول الفرزدق‪:‬‬
‫شاہی جوڑے ہمارا لباس ہوتے ہیں ‪ ،‬جب ہم گهروں میں ہوتے ہیں ‪ ،‬اور ہم کشاده‬
‫ووسیع زرہوں میں ملبوس ہوتے ہیں ‪ ،‬جب ہم جنگوں میں جاتے ہیں۔‬
‫فیجیبه جریر‪:‬‬
‫تم شاھی جوڑوں کا نام مت لو ‪ ،‬بےشک تم حضرت زبیر کے (قتل کے) بعد اس‬
‫حائضہ عورت کی مانند ہوگۓ ہو ‪ ،‬جس نے ابهی تک (حیض سے پاک ہونے کیلۓ)‬
‫نہایا نہ ہو۔‬
‫ویقول الفرزدق‪:‬‬
‫ہماری عقلیں مضبوطی میں پہاڑوں کی مانند ہے ‪ /‬ہماری عقلیں مضبوطی میں پہاڑوں‬
‫کا وزن رکهتی ہیں ‪ ،‬اور تم ہم کو جنات سمجهوگے اگر ہم جہالت پر اتر آئیں۔‬
‫تم ذرا اپنے ہاته سے دھکا دو ‪ ،‬اگر تم ہماری عمارت کو نقصان پہونچانے کا اراده‬
‫کرو ‪ ،‬کو ِه ثہالن کو جو بڑی بڑی چوٹیوں واال ہے (پهر دیکهو) کیا وه حرکت کرتا ہے۔‬
‫(جس طرح تم کوه ثہالن کو نہیں ہال پاؤگے اسی طرح ہم کو بهی نہیں ہال پاؤگے)‪.‬‬
‫میرا ماموں وه شخص ہے جس نے بادشاہوں سے ان کی جانیں غصب کرلی ہے‪،‬‬
‫اور جفنہ کے جزیہ کی رقم میرے ماموں کے پاس لے جائی جاتی ہے (یعنی میرا ماموں‬
‫جفنہ کا حاکم ہے)۔‬
‫ہم لوگ ہر قبیلہ کے سردار پر وار کرتے ہیں‪ ،‬اور اے جریر تمہارا باپ اپنی گدھی‬
‫کے پیچهے بیٹها ہوا جوئیں نکال رہا ہے۔‬
‫فیجیبه جریر‪:‬‬
‫فرزدق جب اپنے ماموں کی پناه لیتا ہے تو اپنے سے ذلیل شخص کی طرح ہو جاتا‬
‫ہے جو اپنے سے بڑھ کر ذلیل آدمی کی پناه حاصل کرے۔‬
‫تم بنوضبہ پر فخر کرو ‪ ،‬بیشک تمہاری ماں ان ہی میں سے ہیں‪ ،‬اور ضبہ کا (یہ)‬
‫بیٹا چچا ہونے اور ماموں ہونے‪ ،‬دونوں اعتبار سے بہتر نہیں ہے۔‬
‫بنو وقبان کو یہ خبر پہونچادو کہ انکی عقلیں ہلکی ہوگئیں ہیں ‪ ،‬اور ان( کی عقلیں)‬
‫رائی کے دانہ کے برابر وزن نہیں رکهتی ہیں۔‬
‫میں نے ایسے شعراء کیلئے زہر ہالہل (ہجوی اشعار) تیار کیا ہے ‪ ،‬اور پہلے شخص‬
‫کے جام سے آخری شخص کو بهی پالدیا۔‬
‫جب میں نے فرزدق (کے او) پر اپنا چمٹا رکها ‪( ،‬تو اسکی جو گت بنی وه تو بنی‬
‫ہی ) اور بعیث بهی چیخ پڑا ‪ ،‬اور (چمٹے نے) اخطل کی ناک کاٹ دی۔‬
‫مربع جو جریر کے اشعار کا ناقل تها ‪ ،‬اس نے فرزدق کے باپ کو قتل کردیا ‪ ،‬تو‬
‫فرزدق نے اسکو قتل کرنے کا اراده کیا ‪ ،‬جریر کو جب اسکے اراده کا علم ہوا تو اس نے‬
‫فرزدق پر بهپتی کستے ہوۓ درج ذیل شعر کہا‪:‬‬
‫فرزدق کا یہ خیال ہیکہ وه مربع کو قتل کرے گا ‪ ،‬اے مربع! اب تم لمبی عمر کی‬
‫خوشخبری قبول کرو۔‬
‫جریر نے اپنے قبیلے کی تعریف میں درج ذیل فخریہ شعر کہا‪:‬‬
‫بنو تمیم اگر تم پر ناراض ہوجائیں گے تو تم سمجهو گے کہ ساری دنیا تم سے خفا‬
‫ہیں۔‬
‫جریر کے ایک قصیده کے مندرجہ ذیل اشعار ہیں ‪ ،‬جن کے ذریعہ وه بنو نمیر کی‬
‫ہجو ومذمت کررہا ہے‪:‬‬
‫اے مالمت کرنے والی! تم اپنی لعن و طعن کم کرو ‪ ،‬اور سرزنش کو کم کرو ‪ ،‬اور‬
‫کہو ‪ ،‬اگر میں نے صحیح بات کہی ہے ‪ ،‬کہ اس نے صحیح بات کہی ہے ( میرے سچ‬
‫بولنے پر میری سچائی کا بسر و چشم اعتراف کرو)‬
‫قبیلہ بنو تمیم ‪ ،‬اور خزیمہ کی دوشاخوں (بنو اسد اور بنو نمیر) میں میرے جو (عمده‬
‫عمده کارنامے) گزرچکے ہیں ‪ ،‬انهوں نے میرے لۓ اس بات کا انکار کردیا کہ مجه پر‬
‫عیب لگایا جاۓ۔‬
‫کیا بنو نمیر گالی (کهانا) چاہتے ہیں ‪ ،‬تو یقینا‪ -‬انکے باپ کی قسم‪ -‬انکو گالی مل گئی‬
‫ہے۔‬
‫میں ایک ایسا باز ہوں جو قبیلہ نمیر پر منڈال رہا ہے ‪ ،‬اور مجهے آسمان سے مقرر‬
‫کیا گیا ہے ان پر ٹوٹ پڑنے کیلئے۔‬
‫ہللا قبیلہ نمیر پر رحمت نازل نہ فرماۓ ‪ ،‬اور نہ ہی انکی قبروں کو بادل (کی بارش)‬
‫سیراب کرے۔‬
‫اور جریر کا سب سے چبهتا ہوا شعر‪:‬‬
‫تم اپنی نگاه نیچی کرلو ‪ ،‬کیونکہ تمہارا تعلق بنو نمیر سے ہے ‪ ،‬اور تم قبیلہ کعب و‬
‫کالب تک نہیں پہنچ‬
‫قال األخطل‪:‬‬
‫لوگوں کا مقصد زندگی حاصل ہونا ہے ‪ ،‬حاالنکہ میں لمبی زندگی کو نہیں سمجهتا‬
‫کہ وه عقل میں فتور کے عالوه کسی چیز میں اضافہ کرتی ہے۔‬
‫اگر تم کو ذخیروں کی ہی ضرورت ہو تو تم کو نیک اعمال کی طرح(باقی رہنے‬
‫واال) کوئی ذخیره نہیں ملے گا۔‬
‫ومن شعر الطرماح المشهور‪:‬‬
‫میری محبت کو میری نگاه میں اس بات نے بڑھادی ہے کہ میں ہر ایسے شخص‬
‫کے نزدیک مبغوض ہوں جو الخیره ہے۔‬
‫اور (میری محبت کو میری نگاه میں اس بات نے بڑھادی ہے کہ) میں کمینوں کے‬
‫نزدیک مبغوض ہوں‪ ،‬اور ان کے نزدیک کوئی بدبخت نہیں ہوتا مگر نیک خصلت اور عمده‬
‫عادات و اطوار کا مالک شخص۔‬
‫ومن شعره الذي یتبع فیه الطریقة البدویة‬
‫(کوا) ہر‬
‫جس چیز سے میں ڈرتا تها وه چیز پیش آگئی یعنی جدائی ‪ ،‬اور ایک ملعون ّ‬
‫پهدکنے کی جگہ پهدک رہاہے۔‬
‫وه چاشت کے وقت چیخنے واال ہے ‪( ،‬اور جب وه چیختا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے)‬
‫گویا کہ اسکے پیر کی رگ (اس جگہ سے) رسی میں بندھی ہوئی ہے ‪ ،‬جس جگہ وه پیروں‬
‫کو اٹهاتا ہے۔‬

‫نماذج العهد المدنیة والحضارة‬


‫وھو یبتدئ منذ أوائل القرن الثاني الهجري‬
‫‪۶٥۶ -۱۳۲‬ھـ‬

‫اختالط العرب بالعجم ‪:‬‬


‫یہ ادبی دور عراق وشام میں سیاست و حکومت کے میدان میں امویوں کے زوال‬
‫کے بعد شروع ہوا‪ ،‬اور اس وقت سے شروع ہوا جبکہ عربوں کا طاقتور اور زبردست‬
‫اختالط ایرانیوں اور غیر عربوں کے ساته پایا گیا۔ اور اس وقت سے جب سے عربوں نے‬
‫مختلف سیاسی ‪ ،‬ثقافتی اور ادبی میدانوں میں ایرانیوں اور غیر عربوں سے مدد لینا شروع‬
‫کیا‪ ،‬اور عرب ان میدانوں میں غیرعرب کے ممنون ہونے لگے ‪ ،‬یہاں تک کہ ایرانیوں اور‬
‫غیر عربوں کے تعاون سے عباسیوں کی حکمرانی کو استقالل حاصل ہوا ‪ ،‬اور قوت و‬
‫زندگی کے میدانوں میں یہ امویوں کے جانشین ہوگئے۔‬

‫وأجد‪(:‬ادب زیاده وسیع اور زیاده جدید مرحلہ میں)‬ ‫األدب في مرحلة أوسع‬
‫اور یہاں سے ادب زندگی کے نئے مرحلہ میں داخل ہوگیا ‪ ،‬اور یہ پہلے کے مرحلہ‬
‫سے زیاده وسیع اور جدید مرحلہ تها ‪ ،‬بلکہ یہ تہذیب و ترقی کا مرحلہ تها‪ ،‬جو ابتدائی اور‬
‫جوانی کے مرحلہ کے بعد میں آتا ہے ‪ ،‬اور یہ اس وجہ سے کیونکہ اس دور میں ادب‬
‫کیلئے ‪ ،‬مختلف بیرونی علوم و فنون اور ثقافت سے استفاده کا ایک وسیع دروازه کهل‬
‫گیا۔اور اس بات کا بهی وسیع دروازه کهل گیا کہ دوسری پڑوسی قوموں میں پائے جانے‬
‫والے ادبی لطائف اور مناہج جو عرب تک پہونچ رہے ہیں وه ان کو لے لیں۔‬

‫(نثرنگاری اور انشا پردازی)‬ ‫النثر والكتابة‬


‫وازدھارھا‪(:‬انشاء پردازی کی نشو و نما اور ترقی)‬ ‫رقي الكتابة‬
‫اس دور سے ادب کے مختلف اقسام کے درمیان انشاء پردازی کو خاص طور طاقت‬
‫حاصل ہوئی ہے ‪ ،‬اور اس میں چند ثقافتی ‪ ،‬تاریخی اور فنی پہلو ظاہر و نمایاں ہوئے ‪ ،‬اور‬
‫انشاء پردازی بہت سےعلوم و معارف کو عربی زبان میں مدون کرنے ‪ ،‬ان کی تالیف اور‬
‫ان کو جمع کرنے اور ان کو متعارف کرانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گئی۔‬
‫انشاء پردازی ایک ادبی فن کی طرح مہذب وشائستہ ہوگئی ‪ ،‬اسکی حدیں اور نشانیاں‬
‫متعین ہوگئیں‪ ،‬اور نئی نئی چیزوں کو پیش کرنے اور اثر انگیزی میں ایک فنی میدان بن‬
‫گئی‪ ،‬پهر برابر ترقی کی راه پر گامزن رہی ‪ ،‬یہاں تک کہ اس میں مختلف اسالیب اور متعدد‬
‫طریقے ایجاد ہوگئے۔‬

‫والنثر‪(:‬نثر نگاری اور انشاء پردازی کے اسلوب کی ترقی اور‬ ‫تطور أسالیب الكتابة‬
‫تنوع)‬
‫کتابت وخطابت صحابہ وتابعین اور دوسری صدی کے اوائل تک اس طریقہ پر تهی‬
‫جس سے عرب مانوس تهے ‪ ،‬اور وه ایک ایسا انداز و طریقہ تها ‪ ،‬جسمیں الفاظ ومعنی‬
‫دونوں کا پورا پورا حق دیا جاتا تها ‪ ،‬اور جس میں اختصار وسہولت وفصاحت اور قوت کا‬
‫پورا پورا خیال رکها جاتا تها ‪ ،‬اور بے جا تفصیل ‪ ،‬مبالغہ اور عبارت آرائی سے اجتناب‬
‫کیا جاتا تها ‪ ،‬اور جب عرب و ایرانیوں کا اختالط بڑھ گیا ‪ ،‬اور ان میں کثرت سے کتابت‬
‫کا سلسلہ جاری ہوگیا تو عربوں میں بعض ایرانی عادات داخل ہوگئے ‪ ،‬جیسے اعزاز واکرام‬
‫میں مبالغہ‪ ،‬اسلوب کو سنوارنا ‪ ،‬تعریفی خطابات کا استعمال وغیره۔‬
‫الترسل‪(:‬غیر مسجع نثر نگاری)‬ ‫فن‬
‫اور یہاں سے عربی انشاء پردازی کے انداز میں ایرانی انداز کے اثرات ‪ ،‬آثارو‬
‫عالمات نمایاں ہونے لگے‪ ،‬اور اس کے لئے ایک متعین اسلوب اور ایک خاص نہج متعین‬
‫ہونے لگا ‪ ،‬یہاں تک کہ ایک شائستہ ادبی صناعت وجود میں آئی ‪ ،‬جس کو فن ترسل کہا‬
‫گیا۔ اور اسکی ابتدا آخری اموی خلیفہ مروان بن محمد کے دور سے اسکے سکریٹری اور‬
‫میر منشی عبد الحمید بن یحیی کے ہاتهوں ہوئی۔‬

‫یحیى‪(:‬عبد الحمید بن یحیی متوفی سنۃ ‪۱۳۲‬ھ)‬ ‫عبد الحمید بن‬


‫مروان بن محمد کے میر منشی عبد الحمید بن یحیی وه پہال شخص ہے جس نے‬
‫عربی انشاء پردازی کے فن کی تہذیب شروع کی ‪ ،‬اور اس کو ایک مہذب اور شائستہ‬
‫اسلوب تک پہونچایا۔ اس کا انداز فصاحت وبالغت میں قدیم طرز پر تها ‪ ،‬اور اسلوب اور‬
‫ظاہری وضع میں پرانے انداز سے ہٹ کر تها ‪ ،‬اسکی وجہ سے وه ادبی انشاء پردازی اور‬
‫فن ترسل کے پہلے طبقہ کا سربراه اور انشاء پردازوں کا امام بن گیا‪ ،‬وه اپنی ذات پر‬
‫حضرت علی رضی ہللا عنہ کے فضل و احسان کا معترف تها ‪ ،‬اور خود کو ان کا شاگرد‬
‫سمجهتا ‪ ،‬اور اس کی فارسی بهی اچهی تهی ‪ ،‬وه اس کی ادبی خوبیوں سے واقف تها۔‬

‫أسلوب عبد الحمید‪:‬‬


‫عبد الحمید نے نثر نگاری میں ایک مخصوص اسلوب وضع کیا‪،‬جس کی‬
‫خصوصیات(یہ ہیں)‪ :‬خطاب کے اندر تنوع پیدا کرنا‪ ،‬مخاطب کی موافقت و ہم آہنگی‬
‫کرنا‪،‬حاالت کے تقاضے کی رعایت کرتے ہوئے(کبهی)ایجاز و اختصاراور(کبهی)اطناب و‬
‫تفصیل اختیار کرنا‪،‬غرض اورمقصد کی ہم آہنگی کرتے ہوئے شروع اور اخیر میں تفنن‬
‫(تنوع)پیداکرنا‪،‬خطوط کے شروع میں لمبی تمہید باندھنا‪،‬مگر (ان تمام خصوصیات کے‬
‫باوجود )جدت و عمدگی میں اس کی طرز ِنگارش عمومی طور پرقدیم عربی دائره‪،‬اور اس‬
‫کی خصوصیات و انداز کے غلبہ سے باہر نہیں نکلی‪،‬اسی وجہ سے عبد الحمید کاتب کو‬
‫عہد ِسابق کے ادباء میں شمار کیا گیا ہے‪،‬اگرچہ اس کا وجود دوسری صدی ہجری کے‬
‫آغاز میں ہوا۔‬
‫عبد الحمید نے خطوط نویسی پراپنی پوری کوشش صرف کردی‪،‬ان میں سے کچه‬
‫ب ہت طویل اور مفصل ہیں‪،‬اور بعض مختصر اور چهوٹے ہیں‪،‬اور اس کے خطوط کے‬
‫نمونوں میں سے ایک خط (کا نمونہ آگے)پیش کیا جارہا ہے‪ ،‬جس میں اسلوب کی سہولت‬
‫اور الفاظ کا معنی کے تقاضے کے موافق ہوناپایا جارہا ہے‪:‬‬
‫“فتنہ (شورش و بغاوت)فتنہ پروروں کے سامنے بہت خوشمنا منظر اور بہت مزین‬
‫لباس پہن کر آتا ہے‪،‬اوریہ شورش ان کے پیچهے اپنے دامن کو گهسیٹتے ہوئے چلتی ہے‪،‬وه‬
‫ان لوگوں سے مسلسل ملنے والی لذتوں کا وعده کرتی ہے‪،‬یہاں تک کہ یہ ان کو اپنے‬
‫موجوں کی سختی میں(ان کے رحم کرم پر)چهوڑتے ہوئے پهینک دیتی ہے‪،‬وه ان سے‬
‫جهوٹے وعدے کرتی ہے‪،‬ج هوٹی امیدیں دالتی ہیں‪،‬جب اس کی گرفت ان پر مضبوط ہوجاتی‬
‫ہے‪،‬اور اس کی شہ زوری ان کو لے کر دور نکل جاتی ہے ‪ ،‬توان کو بے سہارا چهوڑ کر‬
‫ان سے الگ ہوجاتی ہے‪،‬اور ان سے اعراض کرتے ہوئے ان سے بری ہوجاتی ہے‪،‬ان سے‬
‫دین کا سب سےخوبصورت لباس اتار دیا گیا‪،‬اور دنیا کے مضبوط ترین قلعوں سے وه نیچے‬
‫اتار دئیے گئے‪،‬یعنی ایسی مالداری جس کا منظر انتہائی پررونق اور جس کے اثرات انتہائی‬
‫عمده تهے‪،‬یہاں تک کہ وه فتنہ ان کو ان کے اعمال کی رسوائیوں میں ڈال دیتا ہے‪،‬اور ان‬
‫کو مشقت و پریشانی اور برے انجام میں جهونک دیتا ہے‪،‬جس نے اپنے دین کو اپنی دنیا‬
‫پر ترجیح دی ‪ ،‬اس نے اپنے حکمرانوں کی بات مضبوطی سے تهام لی‪،‬اور وه دو امور میں‬
‫سے سب سے بهاری امر اور دو حالتوں میں سے سب سخت حالت سے علیحدگی اختیار‬
‫کرتے ہوئے(صحیح لوگوں کی) جماعت میں داخل ہوکر (بہت ساری چیزوں سے) بچ گیا۔‬
‫شکار کے اوصاف میں اس کا ایک طویل خط ہے ‪ ،‬عبد الحمید نے اپنے خاص انداز‬
‫میں تعریفات و تمہیدات کے ذریعہ اس خط کا افتتاح کیا ہے‪،‬وه اپنے خط کے آغاز میں‬
‫لکهتا ہے‪:‬‬
‫تعالی امیر المؤمنین کی عمر دراز فرمائے‪،‬اس حال میں کہ وه عزت سے سرفراز‬
‫ٰ‬ ‫“ہللا‬
‫ہوں‪ ،‬شرافت و سعادت سے مخصوص ہوں‪ ،‬اور نعمتوں سے بہره ور ہوں‪ ،‬کسی شکاری‬
‫کو وه خیرو برکت حاصل نہیں ہوئی‪ ،‬اورکسی شکار کے عادی اور رسیا شخص کو وه‬
‫تعالی نے ہم کو عطا کی‬
‫ٰ‬ ‫نہیں عطا کی گئی مگر اس سے کم کم جتنی خیر و برکت ہللا‬
‫ہے‪،‬او ر اس نے ہمارے اس سفر کے اندر ہمیں جوکامیابی اور سعادت عطا فرمائی اس‬
‫سے کم کم کسی دوسرے شکاری کو عطا فرمائی ‪ ،‬یعنی شکار کی کثرت ‪ ،‬شگار گاه کی‬
‫عمدگی ‪ ،‬جال و پهندےکی مضبوطی‪ ،‬مقصد کا قرب‪ ،‬راستہ کی سہولت اور عمومی‬
‫قدرت(عام قابو)”۔‬

‫ویقول في أثناءھا‪:‬‬
‫عبد ہللا بن المقفع‪:‬‬
‫تطعیم الكتابة العربیة‪:‬‬
‫طریقته ونموذجه‪:‬‬
‫بلوغ الكتابة إلى كمالها‪:‬‬
‫المدرسة الثانیة وأسلوبها‪:‬‬
‫خصائص الجاحظ ونماذجه‪:‬‬
‫الكتابة بعد الجاحظ‪:‬‬
‫ابن العمید وأسلوبه‪:‬‬
‫المحافظة على األسلوب المزخرف‪:‬‬
‫نبغاء ھذا األسلوب‪:‬‬
‫المقامات‪:‬‬
‫نموذج من مقامة الحریري‪:‬‬
‫األسلوب الصناعي المموه‪:‬‬
‫الخطابة‪:‬‬
‫التوقیعات‪:‬‬
‫الرسائل‪:‬‬

‫الشعر ونماذجه في ھذا العهد‬


‫مدى تأثیر األدب الجاھلي‪(:‬جاہلی ادب کی حد تاثیر)‬
‫اس دور کی شاعری پر ادب جاہلی کی تاثیر بہت زیاده رہی‪(،‬اور جن شکلوں میں وه تاثیر‬
‫رہی ان میں)وزن و قافیہ کی پابندی کا خیال کرنا‪ ،‬نسیب اور غزل سے(قصائد کی )ابتداء‬
‫کرنا‪،‬محبوب کے دیار ‪ ،‬کهنڈرات ‪ ،‬محبوباؤں‪(،‬ظعینہ اس عورت کو کہتے ہیں جو اونٹ پر‬
‫اس کے ہودج کے اندر بیٹهی ہولیکن مطلق عورت کیلئے بهی اس کا استعمال ہوتا ہے)‪،‬‬
‫اونٹنی کے اوصاف اور صحراء نوردی وغیره کو بیان کرنا۔لیکن اس دور کی شاعری ان‬
‫تمام چیزوں کے ساته ساته تہذیب و تمدن‪ ،‬عقلی ترقی اور جدید معاشرتی زندگی کی اثر‬
‫انگیزی سے خالی نہیں ہے‪ ،‬لہذا اس دور کی شاعری میں محلوں ‪ ،‬باغوں‪،‬تفریح‬
‫گاہوں‪،‬مچهلیوں اور پرندوں کے شکارکا تذکره ملتا ہے‪ ،‬اور اس میں(کچه شعراء ایسے بهی‬
‫ہوئے جن کی ش اعر ی میں) بے حیائی و بے شرمی کی کثرت پائی جاتی ہے‪،‬اور اس‬
‫میں(کچه ایسے بهی ہوئے جن کی شاعری میں)شراب کے اوصاف ‪ ،‬علمی افکار ‪ ،‬اور‬
‫زہد و اصالح کے اندر توسع پایا جاتا ہے۔‬

‫رقة وتنوع والتزام بدیع‪:‬‬


‫اسی طرح اس دور کی شاعری میں لطافت و نزاکت اور چهوٹے اور لطیف اوزان‬
‫کی کثرت‪ ،‬اس زندگی کے تقاضے کے مطابق جو عرب کے لوگ اب گزارنے لگے تهے‬
‫‪،‬بڑھ گئی‪(،‬اسی طرح)محسنات بدیع کا التزام‪،‬اور بعض نئے نئے اصناف سخن جیسے‬
‫موشحات(ایسی شاعری جس میں اشعار اندلسی طرز پر کہے جاتے تهے ‪ ،‬کسی ایک قصیده‬
‫کی وزن و قافیہ کی پابندی کے بغیر‪ ،‬جیسے ایک شعر ایک وزن پر ‪ ،‬دوسرا شعر دوسرے‬
‫وزن پر‪ ،‬تیسرا شعر تیسرے وزن پر) اور ازجال(جس میں عوامی زبان میں شاعری کی‬
‫جاتی تهی‪،‬جیسے ہمارے یہاں بهوجپوری یا بہاری زبان میں اشعار کہنا )کی تخلیق بڑھ‬
‫گئی‪،‬یا عربی زبان کا دوسرے معاصر بیرونی آداب سے (بہت سی چیزوں کسب فیض‬
‫کرنااور)اخذ کرنا۔‬
‫الخیال والفكرة‪:‬‬
‫(خیال‪ :‬کسی بهی مضمون کو بیان کرنے کیلئے دلنشین اسلوب)‬
‫اس دور میں ادب کا بهرپور اعتماد خیال و فکره پر تها‪،‬اور یہ دونوں عنصر اس‬
‫دور کے شعراء کے کالم میں بالعموم اور بہت ہی شدت کے ساته نمایاں ہوئے‪ ،‬اور بعض‬
‫متاخرین کے کالم میں بهی یہ دونوں عناصر بہت ہی پختگی کے ساته پائے گئے ہیں‪،‬یہاں‬
‫تک کہ دور از کار خیال‪،‬فلسفیانہ موشگافی‪،‬تکلف اور علمی خشکی یہ تمام اوصاف اس‬
‫کالم کے اندر ظاہر ہوئے۔‬

‫تولید المعاني وبشار بن برد‪:‬‬


‫پہال شاعر جس کے کالم میں جدید تہذیبی زندگی کے اثرات نمایاں ہوئے ‪،‬اور (پہال‬
‫شاعر)جو معانی کی تخلیق و ایجاد اور دوسرے ادب سے معانی کو اخذ کرنے کی جانب‬
‫مائل ہوا وه شاعر بشار بن برد(المتوفی‪۱۶۷‬ھ)ہے‪،‬ادب و شاعری میں وه بڑا ممتاز و باکمال‬
‫اور قابل اعتماد تها‪،‬یہاں تک کہ علمائے ادب نے اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ نحو و‬
‫لغت کے سلسلہ میں استشہاد کے زمانہ کوبڑھاکر بشار بن برد کے کالم تک بهی پہنچا دیا‬
‫جائے‪(،‬یعنی اس کے کالم کو بهی قابل استشہاد ماناجائے)‪،‬وه نابینا تها لیکن اس نے اپنے‬
‫اشعار کے اندر بہت شاندار و عمده تشبیہات کا استعمال کیا‪،‬اس نے غزل اور دلیری کےمیدان‬
‫میں بہت اچها کالم پیش کیا۔‬
‫غزل کے باب میں اس نے جو اشعار کہے ہیں ان کا نمونہ‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬زھد(تفعیل)‪:‬بے رغبت بنانا۔)‬
‫‪۱‬۔ (ایسے)لوگ مجهے عبده کی محبت کے سلسلہ میں بے رغبت بناتے ہیں‪،‬جن کا‬
‫حال یہ ہے کہ عبده کے سلسلہ میں ان کے دل میرے دل کے مخالف ہیں(ان کے احساسات‬
‫اور میرے احساسات میں زمین و آسمان کا فرق ہے)‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ودع‪:‬چهوڑنا۔ابصر(افعال)‪:‬دیکهنا۔ذو الحب‪:‬محبت کرنے واال شخص)‬
‫‪۲‬۔لہذامیں نے(ان لوگوں کو مخاطب کرکے )کہا‪:‬آپ لوگ میرے دل کو ‪ ،‬اس کے‬
‫اختیار و انتخاب اور اس کی پسند کو چهوڑ دیجئے‪،‬چونکہ محبت کرنے واال شخص دل (کی‬
‫آنکهوں)سے دیکهتا ہےچشم ِسر سے نہیں دیکهتا۔‬

‫وقوله‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬اذن(ج)آذان‪:‬کان)‬
‫‪ ۱‬۔اے میری قوم!میرے کان قبیلہ کے ایک فرد پر عاشق ہیں‪،‬کبهی کبهی آنکه سے‬
‫پہلے کان عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ھذی‪ ِ-‬ھِذیانا‪:‬بکواس کرنا‪/‬نامعقول باتیں کرنا۔اوفی(افعال)‪:‬کسی چیز کو‬
‫پہنچانے‪/‬دینے میں ذره برابر کمی نہ کرنا)‬
‫‪۲‬۔ ان لوگوں نے کہا‪ :‬جس شخص کو تم دیکهتے نہیں ہوتم اس کے ساته کیسے بکواس‬
‫کرتے ہو؟تو میں نے سے کہا‪:‬کان آنکه کی مانند ہے جو چیز پیش آتی ہے وه اس کو دل‬
‫تک پورا پورا پہنچا دیتا ہے۔‬

‫وقوله‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪ :‬نفی‪ ،‬ینفی‪:‬دور کردینا۔الکری‪:‬نیند۔طیف‪:‬خواب وخیال۔ ال ّم(افعال)‪:‬نازل ہونا)‬
‫‪۱‬۔میری رات دراز نہیں ہوئی لیکن مجهے نیند بهی نہیں آئی‪،‬اوروه خواب خیال جو مجه پر‬
‫الحق ہوااس نے مجه سے نیند کو دور کردیا۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬نفّس(تفعیل)‪:‬دور کرنا)‬
‫‪۲‬۔ اے عبده !تم مجه سے(میرے مصائب کو)دور کردو‪ ،‬اور اے عبده! تم اس بات کو اچهی‬
‫طرح جان لو کہ میں گوشت پوست کا بناہوا(ایک انسان)ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬توکا(تفعل)‪:‬ٹیک لگانا۔)‬
‫‪ ۳‬۔میری ان دو چادروں کے اندر ایک کمزور اور نحیف جسم ہے‪،‬اگر تم نے اس پر ٹیک‬
‫لگا یا تو یہ (یکبارگی)گر جائے گا۔‬

‫ومن أبیاته السائرة قوله‪(:‬اس کے زباں زد اشعار میں سےیہ شعر ہے‪):‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬وراء‪:‬پیچهے‪/‬عالوه۔اقصی(افعال)‪:‬دور کرنا)‬
‫‪۱‬۔ کیا تم محبت کے عالوه کسی اور مقا م و مرتبہ سے واقف ہوجو مجهے تم سے قریب‬
‫کردے‪،‬اس لئے کہ محبت نے مجهے دور کردیا ہے۔‬

‫وقوله‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬مصرع(ج)مصارع‪:‬پچهڑنے کی جگہ مراد بربادی و ہالکت۔)‬
‫‪۱‬۔خ دا کی قسم !میں تمہاری آنکهوں کے جادو کا خواہش مند ہوں‪،‬اور(حاالنکہ)میں‬
‫عاشقوں کی ہالکت و بربادی سے بهی ڈرتا ہوں۔‬

‫ومن قوله في الوصف والحماسة‪:‬‬


‫(لغوی تشریح‪ٍ:‬صعر(تفعیل)الخد‪:‬تیوری چڑھانا۔عاتب(مفاعلۃ)سرزنش کرنا‪ ،‬فہمائش کرنا۔)‬
‫‪۱‬۔ جب ظالم بادشاه تیوری چڑھاتا ہے‪،‬تو پهر ہم ایسے بادشاه کی فہمائش کیلئے اس کی‬
‫طرف تلواریں لے کر چل پڑتے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬حدید بول کر ہتهیار مراد لیا ہے‪ ،‬اور لون سے چمک۔‬
‫‪۲‬۔ اور ایسے لشکر جرار کے ساته چلتے ہیں کہ جس کے ہتهیاروں کی آب وتاب سورج‬
‫کو چهپا دیتی ہے‪،‬اور جس کے دستے بہادروں کی نگاه کو روک دیتے ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬غص‪:ُ-‬بهیڑ کا اکٹها ہونا۔زاحم(مفاعلۃ)‪:‬ٹکرانا۔)‬
‫‪۳‬۔جب یہ لشکر مارچ کرتا ہے توخالی زمین اس لشکر سےکهچا کهچ بهر جاتی ہے‪ ،‬اور‬
‫اس کے شانیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکراتے ہیں۔‬
‫مضرب(ج)مضارب‪:‬دھار۔)‬
‫ِ‬ ‫(لغوی تشریح‪:‬‬
‫‪۴‬۔ہم علی االعالن اس ظالم بادشاه کے لئے نکل کهڑے ہوتے ہیں ہرایسے نیزے کے ساته‬
‫جو سیدھا کیاگیا ہو‪ ،‬اور چمکتی ہوئی تلوار لےکرجس کی دھاریں خون پیتی ہیں۔‬
‫(لغوی تشریح‪ُ :‬مثار النقع‪:‬گهوڑوں کے ٹاپوں سے اڑنے والے غبار۔تهاوی(تفاعل)‪:‬ٹوٹ‬
‫کرگرنا)‬
‫‪۵‬۔ہمارے سروں کے اوپر گردو غبار کا اڑنا اور ہماری تلواروں کا چلنا ایسا معلوم ہوتا ہے‬
‫گوی ا کہ ایک رات ہے جس کے ستارے ٹوٹ کر گر رہے ہیں۔‬
‫أبو نواس‪:‬‬
‫معانی کی تخلیق اور ایجاد کے سلسلہ میں بشار کے بعد آنے والے دیگر شعراء‬
‫میں جنهوں نےاس کےاسلوب کی پ یروی کی ‪ ،‬اور اس کے راستہ پر چلے‪ ،‬ان میں ابو‬
‫نواس (المتوفی ‪۱۹۹‬ھ)ہے‪ ،‬مے نوشی اور اس کی مجلسوں کی وصف نگاری اور پرندوں‬
‫اور جانوروں کےشکار کے اوصاف بیان کرنے میں اس کو خاص امتیاز حاصل تها‪،‬یہ‬
‫وقار و متانت کے دائر ه سے بہت زیاده باہر نکل گیا تها‪،‬غزل مذکر کی طرف سبقت کرنے‬
‫والےیہی ہیں جناب‪،‬یہ مختلف اصناف سخن کے اندر طبع آزمائی کرتاتها‪،‬شراب کے بارے‬
‫میں کہتا ہے‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪:‬استلّ(افتعال)‪:‬آہستہ آہستہ کسی چیز کو کسی چیز سے‬
‫نکالنا۔ َدن‪:‬مٹکا۔لُطف‪:‬نرمی‪/‬آہستگی۔جوف مجروح‪:‬زخمی شکم)‬
‫‪ ۱‬۔میں آہستہ آہستہ مٹکے کی روح (شراب)نکالتا رہا‪،‬اوراس کے زخمی شکم سے‬
‫اس کا خون پیتا رہا۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬انثنی‪(:‬انفعال)مڑنا۔)‬
‫‪۲‬۔ یہاں تک کہ میں مڑااس حال میں کہ میرے جسم کے اندر دو روحیں جمع ہوگئیں‬
‫تهیں(ایک ہماری اپنی اور ایک مٹکے والی)‪،‬اور مٹکا بے جان جسم کی طرح پڑا رہا۔‬

‫أبو العتاھیة‪:‬‬
‫الوصف والتشبیهات وابن الرومي‪:‬‬
‫الموشحات وعبد ہللا بن المعتز‪:‬‬
‫تجوید المعنى وأبو تمام‪:‬‬
‫طریق وسط وأبو عبادة البحتري‪:‬‬
‫وقال یمدح الفتح ابن خاقان‪:‬‬
‫الشریف الرضي‪:‬‬
‫إیثار المعنى والتدقیق فیه‪:‬‬
‫غلبة الفكرة والمعري‪:‬‬
‫العاطفة وروعة األداء وأبو فراس‪:‬‬
‫الشعر في األندلس‪:‬‬
‫الرقة والخیال‪:‬‬
‫نماذج شعراء األندلس‪:‬‬
‫المعتمد بن عباد‪:‬‬
‫ابن بقي‪:‬‬
‫ابن عبد ربه‪:‬‬
‫ابن ھانئ األندلسي‪:‬‬
‫ابن زیدون‪:‬‬
‫ابن خفاجه‪:‬‬
‫نموذج من شعر العهد الفاطمي‪:‬‬
‫األسلوب األدبي قبل النهضة الحدیثة‬
‫(نئی بیداری سے پہلے ادبی اسلوب کی صورتحال)‬

‫أسلوب الكتابة في ھذا العهد المتأخر‪:‬‬


‫چوتهی صدی ہجری کے آغاز سے عربی تحریرو کتابت بڑی حد تک(عبارتوں کے‬
‫اندر) مسجع و مقفع اور علم بدیع کے استعمال کی طرف مائل ہوگئی تهی‪،‬پهر اس میں معتدل‬
‫انشا ءپردازی‪ ،‬جس کے سب سے پہلے رہبر(بانی) عبد الحمید بن یحیی(المتوفی ‪۱۳۲‬ھ)ہیں‬
‫‪،‬اورجس میں جاحظ(المتوفی ‪۲۵۵‬ھ) پیش رو (کی حیثیت رکهتے)ہیں ‪،‬کم ہونے لگی تهی‪،‬یہ‬
‫اس وجہ سے ہوا تها کیونکہ چوتهی صدی ہجری کے ممتاز ونمائنده اہل قلم مسجع و مقفع‬
‫اور علم بدیع سے مزین اسلوب کے دلداده تهے‪،‬جیسے ابن عمید‪،‬صاحب بن عباد ‪ ،‬خوارزمی‬
‫‪،‬صابی‪ ،‬بدیع الزماں اورچوتهی صدی ہجری کے وه ادباء جنهوں نے ان کی طرز ِتحریر‬
‫کی پیروی کی‪،‬اورکالم کو مسجع بنانے پر توجہ دی گئی اوراس کے سلیس و رواں اسلوب‬
‫کو چهوڑ دیا گیا‪،‬اور حریری (المتوفی ‪۵۱۶‬ھ)نےجو مشہور مقامات کے لکهنے والے ہیں‪،‬‬
‫انهوں نے اس میں اور زیاده مبالغہ سے کام لیا‪،‬ان کے بعد قاضی فاضل(المتوفی‬
‫‪۶۹۵‬ھ) نے(اسی نہج کو اختیار کرتے ہوئے)مبالغہ سے کام لیا جو سلطان صالح الدین ایوبی‬
‫کے سکریٹری تهے۔‬
‫(اس زمانہ میں جتنے بهی قلم کار گزرے ہیں )ان میں سے اکثر لوگوں کی ادبی‬
‫کاوشوں کا میدان عمل دیوانی(سرکاری)اور اخوانی خطوط تهے‪،‬اسی اسلوب میں مقامات‬
‫کی صنف بهی سامنے آئی‪،‬اس کو سب سے پہلے بدیع الزماں ہمدانی نے پیش کیا‪،‬اور بعد‬
‫میں حریری نے اس میں اضافہ کیا‪(،‬اتنی ترقی انهوں نے اس میں کی کہ)وہی اس کے پیش‬
‫رو امام بن گئے‪ ،‬پهر یہی صورتحال باقی رہی اور دوسری طرف عالم عربی کی فطری و‬
‫طبعی صالحیتیوں میں زوال و انحطاط ہوتا رہا‪،‬چنانچہ اہل قلم کے قلموں سے زنده ادب کی‬
‫کوئی چیز نہیں نکل رہی تهی‪ ،‬اور ان صدیوں میں جو ادبی تحریریں لکهی جارہی تهیں وه‬
‫عمیدی اور حریری( کی پابندیوں میں) ٹوٹے اور جکڑے ہوئے قلم سے لکهی جارہی‬
‫تهیں‪ ،‬مسجع عبارتوں سے ان کی چاہت اس انتہا کو پہنچ گئی تهی کہ انهوں نے تاریخ ‪،‬‬
‫واقعات اور سیرت کی کتابوں کے اسلوب کو بهی اسی مسجع اور علم بدیع کے اسلوب کے‬
‫تابع کردیا‪،‬اگر آپ ان مراسالت کا جائزه لیں جو آخری صدیوں میں حکام اور امیروں کے‬
‫درمیان لکهی جاتی تهیں توآپ کو اس بات کی بے شمار دلیلیں مل جائیں گی یہ مراسالت‬
‫گهٹیا پن اور پهوہڑ پن کی کس انتہا کو پہنچ چکی تهیں‪ ،‬یہ صورتحال کسی ایک ملک کی‬
‫نہیں تهی بلکہ عالم عربی(بلکہ عالم اسالمی)کے اکثر ملکوں کی بهی یہی صورتحال‬
‫تهی‪ ،‬جہاں تک مقامات کے لکهنے کی بات ہے تو اس فن میں جوآخری کتاب لکهی گئی‬
‫وه“حدیث عیسی بن ہشام ”ہے جس کے مؤلف مویلحی ہیں‪ ،‬جو انهوں نے عہد جدید کے‬
‫آغاز میں لکها تها۔‬
‫پهر تحریر کا یہی انداز ان اخیر کی صدیوں میں اہل قلم اور انشاءپردازوں کے‬
‫نزدیک عام اور پسندیده تها‪،‬‬

‫عهد الجمود األدبي‪:‬‬


‫ومضات حیة‪:‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫“حکومت کے اندر شہریت کا مرحلہ بدویت کے مرحلہ کے بعد الزمی طور پر آنے‬
‫لگا‪،‬کیونکہ حکومت کے آنے کے بعد خوشحالی و فارغ البالی کاپایا جانا الزمی ہے۔‬
‫اہل حکومت شہریت و تمدن کے مرحلے اور حاالت میں ہمیشہ اپنے سے پیش رو‬
‫حکومت کی تقلید کرتے ہیں‪،‬ان کے حاالت کا مشاہده کرتے ہیں ‪،‬اور ان ہی سے اکثر وبیشتر‬
‫اخذ کرتے ہیں‪،‬اس قسم کا واقعہ عربوں کے ساته بهی پیش آیا تها جب کہ فتوحات ہوئیں ‪،‬‬
‫اور وه ایران و روم کے بادشاه بن گئے‪،‬اور وہاں کے مرد وخواتین کو(اپنے کام میں)استعمال‬
‫کیا‪ ،‬اس دور تک یہ لوگ تہذیب و تمدن سے یکسر ناآشنا تهے‪،‬حکایت میں بیان کیا گیا ہے‬
‫کہ ان کے سامنے چپاتیاں پیش کی گئیں‪ ،‬تووه یہ سمجه رہے تهے کہ یہ کاغذ کے پرذے‬
‫ہیں‪ ،‬ان کو کسری کے خزانوں میں کافور مل گیاتو انهوں نے اس کو اپنے گندھے ہوئے‬
‫آٹے میں بطور نمک کے استعمال کرلیا‪،‬اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں‪،‬تو جب انهوں نے‬
‫اپ نے سے پہلے اہل حکومت کو اپنا غالم بنا لیا‪ ،‬ان کو اپنے پیشوں اور خانگی ضروریات‬
‫میں استعمال کیا ‪،‬اور انهوں نے اس طرح کے کاموں میں ان کے ماہرین اور ان کی نگرانی‬
‫کرنے والوں کا استعمال کیا تو ان لوگوں نے ان کو ان چیزوں کا استعمال ‪،‬اس کی انجام‬
‫فراخی زندگانی‬
‫ٔ‬ ‫دہی‪،‬اور اس میں تنوع پیدا کرنے کا طریقہ بتایا‪،‬اسی کے ساته ساته ان کو‬
‫حاصل ہوگئی تهی اور زندگی کے حاالت میں تفنن و تنوع حاصل ہوگیا تهاتو وه اس سلسلہ‬
‫میں اپنی انتہا کو پہنچ گئے تهے‪ ،‬اور شہریت و خوشحالی کے مرحلہ میں داخل ہونے‪،‬اور‬
‫اسباب خوردو نوش و پوسش‪،‬عمارتو ں ‪،‬ہتهیاروں‪ ،‬فرشوں ‪ ،‬برتنوں اور گهر کےمعمولی‬
‫اور ردی ساز وسامان میں عمدگی اختیار کرنے کی وجہ سے ان میں ترقی آگئی‪،‬اسی طرح‬
‫فخر و مباہات اور ولیمے کے دنونمیں اور شادی کی راتوں میں بهی ان کا یہی حال‬
‫تها‪،‬اور وه اس معاملہ میں (خوب سے خوب تر کی تال ش میں)بہت دور نکل گئے”۔‬

‫بعض نماذج من بالد غیر عربیة‪:‬‬


‫دور اخیر میں بعض ایسے غیر عرب ممالک بهی تهےجس میں مسلمان عربی‬ ‫اسی ِ‬
‫ثقافت اور عربی ادب سے دلچسپی رکهتے تهے‪،‬جیسے تحتی بر اعظم ِہند(بر صغیر پاک و‬
‫ہند)(‪،) भारतीय उपमहाद्वीप Indian subcontinent‬جہاں مسلم علماء عربی زبان‬
‫سے تحریری (نثری)اور شعری طور پر اشتغال رکهتے تهے‪،‬اور وه مصنوعی‬
‫اور فطری دونوں اسلوب میں کالم کیا کرتے تهے‪،‬لہذا یہ ممالک ایسے لوگوں‬
‫سے خالی نہیں رہے جو اس مقید و پُر تصنع اسلوب سے کناره کش ہوں جو عالم‬
‫اسالم کے تمام اطراف و اکناف میں رائج تها‪،‬اور (ایسے افراد سے خالی نہیں‬
‫رہے )جوایسے اسلوب کو اپنا سکے جو ان کے مقصد اور غرض کے زیاده‬
‫مطابق ہو‪،‬ان ہی حضرات میں سے ایک شیخ احمد بن عبد الرحیم ولی ہللا دہلوی‬
‫ہیں(المتوفی؁ ‪۱۱۷۶‬ء بمطابق ؁ ‪۱۷۶۲‬ھ)جس وقت ہندوستان میں اسالمی‬
‫حکومت کا غلبہ تها‪،‬ان کی کتاب “حجۃ ہللا البالغۃ”‪،‬عال مہ ابن خلدون کی کتاب‬
‫مقدمہ تاریخ کے طرز پر حقیقت پسندانہ اور زندگی ‪ ،‬طاقت و وقوت اور فصاحت‬ ‫ٔ‬
‫(مقدمہ تاریخ)کا نمونہ گزشتہ‬
‫ٔ‬ ‫سے بهرپور اسلوب میں آئی ہے‪،‬اور ہم نے اس‬
‫صفحوں میں ذکرکیا ہے‪،‬یہ ان کے اسلوب کی ایک مثال ہے جو انهوں نے اپنی‬
‫کتاب“ حجۃ ہللا البالغۃ” کے اندر اختیار کیا ہے‪:‬‬
‫“ بادشاه کو پسندیده اخالق سے متصف ہونا چاہئے ‪ ،‬ورنہ وه ملک پر بوجه‬
‫بن جائے گا‪ ،‬اگر وه دلیر و بہادر نہیں ہوگا تو جنگجؤوں سے مقابلہ آرائی میں‬
‫کمزور پڑجائے گااور رعایا اس کو بے وقعتی کی نگاه سے دیکهے گی‪،‬اگر وه‬
‫برد بار نہ یں ہوگا تو قریب ہے کہ وه ان کو اپنے دبدبہ اور اثر و رسوخ سے‬
‫ہالک کردے گا‪ ،‬اگر وه دانش مند نہیں ہوگا تو وه ایسی تدبیر کا استنباط نہیں کر‬
‫پائے گا (جو نظام ِ شہر کے لئے)بہتر ہو‪،‬اور بادشاه عقلمند‪ ،‬بالغ ‪،‬آزاد‪،‬مرد‪،‬‬
‫ہواورگوشہ شنوا‪ ،‬دید ٔه بینا اور زبان ِ گویا رکهتا ہو‪،‬اور اس کا تعلق‬
‫ٔ‬ ‫صاحب رائے‬
‫ایسے لوگوں سے ہو جن کی ذاتی اور قومی شرافت کو لوگوں نےےتسلیم کر کها‬
‫ہو‪،‬اور اس بادشاه اور اس کےآباء و اجداد کے قابل تعریف کا رنامے دیکهے‬
‫ہوں‪،‬اور لوگ اس کے بارے میں جانتے ہوں کہ یہ شہر کے اصالح کےمعاملہ‬
‫میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گا‪،‬ان ساری باتوں کو عقل بیان کرتی‬
‫ہے‪،‬اور اس پر بنو آدم کی ساری قومیں‪ ،‬باوجود ان کےملکوں کی باہمی دوری‬
‫اور مذاہب کےباہمی اختالف کے متفق ہیں‪ ،‬کیونکہ ان کو اس بات کا حساس ہے‬
‫کہ ایک بادشاه کو منصب امارت پر فائز کرنے سےجو مصلحت مقصود ہے وه‬
‫اس کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی ‪،‬اگر اس بادشاه کو متعین کرنے کےسلسلہ میں‬
‫کوئی کوتاہی واقع ہوتی ہےتو لوگ اس کو نامناسب خیال کرتے ہیں‪،‬اور ایسابادشاه‬
‫لوگوں کے دلوں کے لئے ناپسندیده ہوتا ہے‪،‬اگر لوگ اس کے اس عمل پر خاموش‬
‫رہیں گے تو وه ناراضگی کی حالت میں خاموش رہیں گے‪،‬اور بادشاه کی رعایا‬
‫کے دلوں میں رعب و داب کو پیدا کرنا ضروری ہے‪ ،‬پهرمنا سب تدبیروں کے‬
‫ذریعہ اس جاه و جالل کو باقی رکهنے اور اس کو مخدوش کرنے والی چیزوں‬
‫کی تالفی کی کوشش کرنا‪،‬اور جو جاه و منصب کا خواہاں ہو اسے چاہئے کہ وه‬
‫ایسے فاضالنہ اخالق کے زیور سے آراستہ ہوجائےجو اس کے امارت کے شایان‬
‫شان ہے جیسے شجاعت و دلیری‪،‬حکمت و دانائی‪ ،‬سخاوت و فیاضی‪،‬ظالم کو‬
‫معاف کرنا اور عام لوگوں کی نفع رسانی کا اراده رکهنا”‬
‫الشعر في ھذا العهد‪:‬‬
‫عرب مما لک میں کچه شعراء باکمال ہوئےاور انهوں نے (شاعری میں)ایسی خوش‬
‫کالمی اختیار کی تهی جو متقدمین کے معیار تک تو نہیں پہنچتی لیکن ان کا کالم طاقت و‬
‫تاثیر سے خالی نہیں ہے ‪ ،‬ایسے شعراء میں محمد بن سعید البوصیری(المتوفی‪۶۹۵‬ھ)ہیں‪،‬ان‬
‫کا ایک قصیده برده ہے جو انهوں نے حضور ﷺکی شان میں کہا تها‪،‬اور صفی الدین حلی‬
‫ہیں (المتوفی ‪۷۵۰‬ھ) اور ہندوستان میں جو الئق تذکره ہیں وه غالم علی آزاد بلگرامی‬
‫(المتوفی؁ ‪۱۷۸۶‬ء)ہیں‪“ ،‬سبع سیاره”کے نام سے ان کا ایک دیوان ہے۔‬
‫بدأ النهضة الحدیثة‬
‫مصر والشام‪:‬‬

‫شخصیات أثرت في النهضة‪:‬‬


‫تأثیر النهضة على األدب‪:‬‬
‫ظهور الصحافة وتأثیرھا على أسلوب الكتابة‪:‬‬
‫النشاط الصحافي‪:‬‬
‫المقالة‪:‬‬
‫القصة‪:‬‬
‫رواج األدبین‪:‬‬
‫مناھج الكتابة فیهما‪:‬‬
‫الكتاب ونماذجهم‪:‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫احمد حسن زیات(المتوفی ؁ ‪۱۹۶۸‬ء) نےتحریر و کتابت میں صاحب ابن عباد کا‬
‫طریقہ اختیار کیا‪،‬ان کی تحریر کا رنگ ابو منصور ثعالبی کے رنگ سے ہم آہنگ ہے جو‬
‫انهوں نے اپنی کتاب“یتیمۃ الدھر” میں اختیار کیاہے‪،‬ان کی طرز تحریر اور اسلوب نگارش‬
‫سے واقفیت کیلئے ا ن کے مقاالت کے مجموعہ کا مطالعہ کافی ہے جو“وحی الرسالۃ” کے‬
‫عنوان سے ہے‪،‬انهوں نے“الرسالۃ”میگزین جاری کیا تها‪،‬اور ایک خاص مدت تک اس کے‬
‫ایڈیٹر رہے‪،‬یہ مجلہ ایک اسٹیج بن گیا تها ‪ ،‬جس کے ذریعہ سے ان کےزمانہ کے بہترین‬
‫و چنیده اہل قلم اپنے افکار و احساسات پیش کرتے تهے‪،‬مصری انقالب کے زمانہ میں یہ‬
‫پرچہ رک گیا‪،‬ان کی تاریخ ِادب عربی اور نقد ادبی کے موضوع پر ایک کتا ب ہے۔‬
‫سید قطب شہید نے وه حقیقی اور طاقتور اسلوب اختیا ر کیاجس کے اندرعبد ہللا ابن‬
‫المقفع کے اسلوب کی طرح معنوی پہلو کو(الفاظ کے پہلوپر)ترجیح دی گئی ہے‪،‬اور جس‬
‫کے اندرالفاظ کی پختگی پر توجہ دی ہے جس طرح جاحظ کا انداز ہے‪،‬ان کی اکثر تحریریں‬
‫فضائل انسانی کی طرف دعوت دینےاور صاف و شفاف اسالمی فکر کا دفاع کرنے پر‬
‫مشتمل تهیں‪،‬اسی طرح ادب‪ ،‬شاعری اور نقد پر بهی ان کی کتابیں ہیں‪،‬ادبی تحریروں میں‬
‫ان کے اسلوب کی نمائنده کتاب“ا لتصویر الفنی فی القرآن” ہےاور ان کی دعوتی( مشن کی)‬
‫تحریروں کی نمائندگی کرنے والی کتابیں “دراسات اسالمیۃ”‪“،‬معالم فی الطریق”‪“،‬مشاھد‬
‫القیامۃ فی القرآن”‪“،‬ظالل القرآن”اور“العدالۃ االجتماعیۃ فی االسالم”ہیں۔‬
‫یہ ان کی طرز تحریر کا ایک نمونہ ہے‪،‬اس میں دعوتی روح‪،‬مطمئن کرنے کی‬
‫صالحیت اور تعبیر کی پختگی نمایاں ہیں‪،‬یہ نمونہ ہم نے ان کی کتاب “معالم فی الطریق”سے‬
‫لیا ہے‪:‬‬
‫“(اس وقت)پوری انسانیت کے لئے ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے!‬
‫انسانیت کیلئے مغربی انسان(مغرب)کی قیادت زوال کے قریب ہے‪،‬اس لئے نہیں کہ‬
‫مغربی تہذیب مادی طور پر قال ش ہوگئی ‪،‬یا( اس لئے بهی نہیں کہ) وه فوجی و معاشی‬
‫اعتبار سے کمزور ہوگئی‪،‬لیکن (یہ اس لئے زوال پذیر ہے)کیونکہ مغربی نظام کا کردار‬
‫ختم ہوچکا ہے‪ ،‬اس لئے اس کے پاس قدروں کا وه ذخیره‪/‬قوت نہیں رہی جو اسے قیادت کی‬
‫اجازت دے۔‬
‫(آج انسانیت کو)ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہےجو نئی و کامل قدروں اوراس‬
‫وقت کے اصلی‪،‬مثبت اور حقیقت پر مبنی منہج کے ساته اس مادی تہذیب کو ترقی دینے‬
‫اور باقی رکهنے کی صالحیت رکهتی ہو جو انسانیت کو حاصل ہے‪-‬اس چیز کو دیکهتے‬
‫ہوئے جس کو آج انسانیت جان چکی ہے‪-‬‬
‫تنہا اسالم ہی وه دین ہے جس کے اندر یہ قدریں اور یہ منہج ہیں۔‬
‫تعلیمی ترقی کے اپنا رول ادا کردیا‪،‬یہ وه کردار ہے جس کی کرنیں سولہویں صدی‬
‫عیسوی کے بیداری کے عہد میں نمودار ہوئیں‪،‬اور اٹهارہویں اور انیسویں صدی عیسوی‬
‫کے درمیان اپنے کمال کو پہنچ گئیں ‪،‬۔۔۔۔اور اب یہ کسی نئی قوت کی مالک نہیں ہیں۔‬
‫“وطنیت” اور “قومیت”نے بهی اسی طرح کا کردار ادا کیا‪ ،‬جن کا ظہور اس زمانہ‬
‫میں ہوا‪ ،‬اور (ایسے ہی)ان صدیوں کےدوران جو عالقائیت یونین بنی عام طور پر اس کا‬
‫کردار بهی یہی رہا۔۔۔۔۔اور اب ان کے پاس بهی کوئی نیا سرمایہ نہیں ہے(جس کو مارکیٹ‬
‫میں پیش کرسکے)۔‬
‫پهر انفرادی نظ ام(ڈکٹیٹر شپ)اور اجتماعی نظام(اشتراکیت و جمہوریت) اخیر میں‬
‫ت محمدیہ” کی ایسے وقت میں باری آئی جو بہت‬ ‫دونوں ناکام ہوگئے‪،‬اب “اسالم” ‪ ،‬اور“ام ِ‬
‫ہی سنگین ‪ ،‬حیرت و استعجاب اورخلفشار و انتشار سے بهرا ہوا ہے‪ ،‬اب اس اسالم کی‬
‫باری آئی جو روئے زمین پر مادی ایجاد کا انکار نہیں کرتا ہے‪،‬اس لئے کہ اسالم اس چیز‬
‫تعالی نے اس کو روئے زمین پر‬
‫ٰ‬ ‫کواس وقت سے پہلی ذمہ داری شمار کرتا جب سے ہللا‬
‫خالفت دی‪،‬اور اس(ایجاد ات واختراعات)کو –خاص شرائط کے تحت‪-‬ہللا کی بندگی ‪ ،‬اور‬
‫وجود انسانی کے مقصد کی تکمیل شمار کرتا ہے۔‬
‫‪‬اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے رب نے کہا تها کہ میں روئے زمین پر اپنا ایک‬
‫جانشین اور خلیفہ بنانے واال ہوں‪(‬سوره بقره‪”)۳۰:‬۔‬
‫شامی ادباء میں سید قطب کے معاصر شیخ علی طنطاوی(‪)۱۹۹۹-۱۹۰۹‬تهے‪،‬ان کی‬
‫تحریریں بلیغ عربی زبان‪ ،‬شاندار اسلوب‪ ،‬اصناف کالم میں تصرف‪ ،‬تعبیری حسن و جمال‬
‫اور شریفانہ اور انسانی مقصد ‪ 1‬میں امتیاز رکهتی ہیں‪،‬ان کے اسلوب کی نمائندگی کرنے‬
‫والے ان کے مقاالت کے مجموعے“صور وخواطر”‪“،‬قصص من التاریخ”اور “نفحات الحرم”‬
‫ہیں ‪،‬ان کی اکثر تحریریں تاریخ اور سماجیات کے موضوع پر ہیں‪،‬ادب و تنقید کے موضوع‬
‫پر (بهی)ان کےبہت ہی زبردست مقالے ہیں۔‬
‫یہ ان کی تحریر کا نمونہ ہے ‪ ،‬جو ان کی کتاب“رجال من التاریخ”سےماخوذ ہے‪:‬‬
‫جبرئیل آپﷺکے پاس تشریف الئے ‪،‬اس حال میں جبکہ آپ ایک ویران‬ ‫ؑ‬ ‫“حضرت‬
‫چٹیل پہاڑ میں تهے‪ ،‬یہ ایک چهوٹے گاؤں میں واقع تها‪،‬اور یہ چهوٹا سا گاوں ایک تنگ‬
‫وادی میں چهپا ہوا تها‪ ،‬جس کا جائے وقوع تپتی ہوئی ریت اور ہالک کردینے والے‬
‫صحراؤں کے پیچهے ہے‪،‬اور (یہ جائے وقوع)اس گاؤں میں واقع ہے کہ رومن ا مپائر نے‬
‫اس کے بارے میں نہیں سنا تها ‪،‬اورنہ ہی قسطنطنیہ کو اس کا احساس ہوا تها‪ ،‬اور نہ ہی‬
‫کسری کے(ملک)مدائن نے اس کی کوئی پرواه کی‪ ،‬چنانچہ (اس حال میں اور اس جگہ‬
‫پر)جبرئیل امین نے آپ سے کہا‪:‬اے انسان !اٹهو ‪ ،‬اٹهو‪ ،‬آپ تنہا ہی قریش کے مقابلہ کیلئے‬
‫اٹه کهڑے ہوں اور قریش کے بتوں کو توڑدیں‪،‬اور ان کے معبودوں کوپاش پاش کردیں‪،‬اس‬
‫کے بعد عربوں کے انتشار وٹوٹ پهوٹ کو اتحاد و اتفاق میں بدل دیں‪ ،‬ان کی جہالت کو‬
‫علم میں تبدیل کردیں‪،‬اور انہیں پوری دنیائے انسانیت کا معلم و استاذ بنادیں‪،‬اور انہیں تمدن‬
‫کا پرچم بلند کرنے واال بنادیں‪،‬اور آپ قیصر و کسری بلکہ پوری دنیا کو حق و انصاف اور‬
‫‪ 1‬نیل الغایۃ نہیں ہے نبل الغایۃ ہے‪ ،‬ٹائیپنگ کی غلطی ہے۔‬
‫بهالئی کی دعوت دیں‪ ،‬اور اگر یہ (سب)آپ کی بات نہ سنیں ‪ ،‬اور زیادتی کرنے لگے اور‬
‫حد سے تجاوز کرجائیں تو آپ ان سے جنگ کریں‪ ،‬اس لئے نہیں کہ آپ ان کے ملکوں کو‬
‫(ناجائز قبضہ کے ذریعہ) نوآبادیات میں تبدیل کردیں‪ ،‬اورآپ ان کی گردنوں کے مالک‬
‫ہوجائیں(ان کو اپنا غالم بنا لیں) ‪،‬اس لئے کہ نبی ظلم کا داعی نہیں ہوتا‪،‬اور نہ ہی دین اسالم‬
‫( کبهی)سامراج کا مذہب تها‪،‬اور نہ جہاد کبهی جارحیت کی جنگ تهی‪ ،‬بلکہ جہاد توان لوگوں‬
‫سے دعوت حق کا دفاع ہے جواس(دعوت حق )کیلئے تکلیف ڈھونڈتے ہیں(اذیت پہنچاتے‬
‫ہیں)‪ ،‬یا ان لوگوں سے (دفاع دعوت حق ہے)جنهوں نے داعیوں کے سامنے قوموں تک‬
‫رسائی کا راستہ بند کردیا ہے ‪،‬اور ان کو منع کردیا ہے کہ وه ان کے پاس علم ‪،‬تمدن اور‬
‫بهالئی لے کر جائیں۔‬
‫آپ زمین والوں سے لڑیں اگر وه آپ سے لڑنے پر آماده ہوں‪،‬اور آپ ان سے جہاد‬
‫کریں خواه آپ تنہا ہی کیوں نہ پڑ جائیں۔(انسان کو خود کا مکلف بنایا گیا ہے)‬
‫سامعین حضرات!(اس راستہ میں)بڑی بڑی آزمائشیں تهیں‪،‬اور بڑے خوفناک مناظر‬
‫تهے‪ ،‬لیکن جناب محمد ﷺنے ان چیزوں کو برداشت کرلیاجن کو پہاڑ اٹها نہیں سکتے‪،‬ہم‬
‫میں سے ہرایک شخص کا تو حال یہ ہے کہ اگر اس نے حق کا ایک جملہ کہا‪،‬یا اس نے‬
‫کسی بهالئی کی دعوت دی تو اسےاس بات کا ڈر ہے کہ کسی امیر کا اس کو اعراض‬
‫پہنچےگا (کوئی حاکم اس سے ناراض ہوجائے)‪،‬یا وه لوگوں کی تنقیدیں سنے گا‪،‬یا(معاشره‬
‫میں)اس کا مرتبہ گهٹا دیا جائے گا‪،‬یا اس کے کپڑے پهاڑڈالے جائیں گے(ذلیل و رسوا کیا‬
‫جائے گا)‪ ،‬یا اسے گالی دی جائے گی‪ ،‬یا اس کی پٹائی کردی جائے گی‪،‬حاالنکہ (دوسری‬
‫طرف آپ دیکهیں تو) سید ا لکائنات جناب محمد ﷺکو ان ہی کی قوم نے گالیاں دی ہیں‪،‬آپ‬
‫کو اذیت پہنچائی ہے‪،‬اور آپ کا مذاق (بهی)اڑایا‪،‬اور آپ کے تعلق سے یہ بهی کہا کہ آپ‬
‫مجنون ہوگئے ہیں‪(،‬کبهی) آپ کو جادوگر کہا‪(،‬کبهی)آپ کو جهوٹا کہا‪،‬اور ام جمیل بنت‬
‫حرب بن امیہ کا نٹے کو اٹهاکر التی تهیں اور پهر ان کانٹوں کو آپ کے راستہ میں ڈال‬
‫دیتی تهیں”۔‬
‫ہندوستان میں موالنا سید ابو الحسن علی الحسنی ندوی بهی شہرت رکهتے ہیں ‪،‬اور‬
‫آپ کی تحریروں کا امتیاز یہ ہے کہ فکر بالکل واضح اور مقصد بالکل صاف ہے‪ ،‬روشن‬
‫طریقہ کار اور‬
‫ٔ‬ ‫طریقہ تعبیر ہے‪،‬آپ کی اکثر تحریریں اسالمی موضوعات پر ہیں‪،‬ان کے‬ ‫ٔ‬
‫اسلوب کی نمائنده کتابوں میں ان کے مقاالت کے مجموعےاور ان کی کتابیں“الطریق الی‬
‫المدینۃ”‪“،‬ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین”‪،‬السیرة النبویۃ”‪“،‬العرب واالسالم”‪“،‬االرکان‬
‫االربعۃ”‪“،‬روائع اقبال”اور“رجال الفکر والدعوة”ہیں ‪،‬نیزآپ کی دس سے زائد معتبرکتابیں‬
‫ہیں جن میں سےچند کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بهی ہوا ہے۔‬

‫األغراض اإلسالمیة‪:‬‬
‫أدب المهجر‪:‬‬
‫وه عربی داں حضرات جو اس نئے عہد میں عرب ملکوں سے مغربی ممالک چلے‬
‫گئے اور خاص طور سےامریکہ چلے گئے‪،‬ان میں اہل قلم بهی ہو ئے اور شعراء بهی‪،‬ان‬
‫لوگوں کو ادبائے مہجر کے نام سے جانا جاتا ہے‪،‬ان میں سے اکثر کا تعلق ملک شام سے‬
‫تها‪،‬انهوں نے امریکہ اور یورپ کے ملکونمیں اقامت اختیار کی‪،‬اور ان کا تحریری ‪،‬‬
‫صحافتی اور شعر و شاعری کی عربی اور ادبی سرگرمیوں میں بہت نمایاں حصہ ہے۔‬
‫ان کا ادبی اسلوب اور ادبی قدریں مغربی زندگی سے متاثر تهیں‪،‬ان کے افکار مغربی‬
‫اثرات کے زیر نگیں آگئے‪،‬یہاں تک کہ ان میں سے بعض ادباء نے یہ آواز دی کہ شعری‬
‫و ادبی قالب کی بنیادی پابندیوں سے آزادی حاصل کی جائے‪،‬جس قالب کی عربی زبان اپنے‬
‫عظیم ماضی (عہد جاہلی)سے وارث ہوئی تهی‪،‬ان کا یہ خیال تها کہ حملہ آور تمدنی قافلہ‬
‫کے ساته ساته چلنا ‪،‬جامعیت کے ساته بنیادی تبدیلی کے بغیر کبهی ممکن نہیں ہوگا۔‬
‫لیکن عربی زبان و ادب کے جاننے والوں کی طرف سے ان کے خیاالت و افکار کا‬
‫استقبال نہیں کیا گیا‪،‬اور نہ ہی ان کو قبولیت ملی‪(،‬ان کے بنیادی قالب کو بدل ڈالنے والے‬
‫افکار کو لوگوں نے مناسب نہیں سمجها ‪ ،‬لیکن دوسری طرف ان کا جو یہ خیال تها کہ)ادب‬
‫کے کام کو زندگی کی نمائندگی ‪ ،‬اس کی تصویر کشی اوراس کے حیات بخش پہلؤوں کو‬
‫نمایاں کر نے میں منحصر کرد یا جائے‪ ،‬تو یہ ایک ایسی رائے تهی جو پذیرائی اور‬
‫شریک خیال ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫پسندیدگی کا مستحق تها ‪،‬اور اس رائے میں دوسرے ادباء بهی ان کے‬

‫وظیفة األدیب في نظرھم‪:‬‬


‫اس (تعریف)کی ترجمانی انهیں میں سے ایک ادیب کرتے ہیں‪،‬جب وه ایک مطلوب‬
‫قلم کار ادیب کی صفت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں“ادیب وه قلم کار ہے جو اپنے دل کی‬
‫آنکهوں سے اس چیز کو دیکه لیتا ہےجس کو ہر اانسان دیکه نہیں سکتا‪،‬قلم کار وه ہے جو‬
‫ہمارے لئے زندگی کے ہرمنظر سے ایک مفید سبق نکال کر الئے”۔‬
‫ادبائے مہجر میں مختلف اہل قلم ہوئے ہیں‪ ،‬ان میں میخائیل نُعیمہ (بهی)ہیں‪،‬جو‬
‫اپنےخوشگوار اسلوب والےادبی مقاالت سے جانے جاتے ہیں‪ ،‬ان کی مشہور ترین کتاب‬
‫“غربال”ہے‪ ،‬یہ ان کے تنقیدی و ادبی مقاالت کا مجموعہ ہے۔‬
‫اور استاذ جبران خلیل ہیں ‪،‬یہ اپنی فنی اور مؤثر تحریر ونمیں شہرت رکهتے ہیں‪،‬جن‬
‫میں وجدان و شعور اور بُع ِد خیال(دور کی کوڑی النے)کا غلبہ ہے‪،‬ان کی کتابوں‬
‫میں“االجن حۃ المتکسرة”‪“ ،‬دمعۃ و ابتسامۃ”اور “االرواح المتمردة”وغیره ہیں‪،‬اور ان میں کچه‬
‫کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بهی ہوا ہے۔‬

‫أدب القصة والروایة‪:‬‬


‫اس عہد جدید کے آغاز میں نئے عربی ادب میں افسانہ کو وه اچها مقام نہیں مال‬
‫تها‪،‬بلکہ ابتدائے زمانہ میں افسانہ کی بنی اد مختلف زبانوں سے نقل اور ترجمہ پر تهی‪،‬اس‬
‫کے بعدعربی زبان میں (اصالۃ افسانوی و)قصصی تخلیقات اس عہد کے ممتاز‬
‫ادباءجیسےاستاذ محمدحسین ہیکل‪،‬استاذطہ حسین‪،‬استاذ ابراہیم عبد القادر المازنی اور‬
‫استاذعباس محمود عقاد ‪ ،‬کے قلم سے نکلیں ۔‬
‫مگر افسانوی ادب اپنے فنی آغاز پر باقی رہا‪،‬شارٹ اسٹوریز کے میدان میں استاذ‬
‫محمود تیمور اور ناول و ڈرامہ کے میدان میں استاذ توفیق حکیم کی تخلیقات کے عالوه ‪،‬‬
‫اس ادب میں کہیں کوئی ظاہری و بنیادی فعّالیت و ترقی دیکهنے کو نہیں ملی۔‬
‫استاذمحمد تیمور عربی قصہ کے مید ان میں ایک رہبر اور امام کا درجہ رکهتے‬
‫ہیں‪،‬عرب ممالک میں ان کا بڑا اونچا او رشاندار علمی مقام و مرتبہ ہے‪،‬ان کے قصوں‬
‫میں وطنی اور قومی اصالت ہے‪،‬اور ان کے افسانوی مجموعے بهی شہرت کے حامل‬
‫ہیں‪،‬اور انہیں پذیرائی بهی حاصل ہوئی‪،‬اور ان کے بعض افسانے دیگر زبانوں میں ترجمے‬
‫بهی کئے گئے ہیں‪(،‬محمود تیمور کےساته ساته)توفیق حکیم کی ناولوں کو بهی مقبولیت‬
‫حاصل ہوئی ہے‪،‬اور ان کی کچه ناولوں کو دیگر زبا نوں میں منتقل کیا گیا ہے‪،‬اس زمانہ‬
‫کی عربی قصہ نگاری میں نجیب محفوظ اور ابراہیم مصری شہرت رکهتے ہیں‪ ،‬اور جو‬
‫اسالمی قصہ نگاری میں مشہور ہوئے ان میں ڈاکٹر نجیب کیالنی‪،‬لیڈر(میجر جنرل) محمود‬
‫شیت الخظاب اور ان کے عالوه دیگر قصہ نگار و ناول نگار شامل ہیں۔‬

‫أدب الصحافة واإلذاعة‪:‬‬

‫أدب الناشئة واألطفال‪:‬‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سلسلہ میں(ادب اطفال کے میدان میں)ان کی تقریبا ایک ہزار کتابیں‬
‫ہیں‪،‬انهوں نے علمی موضوعات پر بهی لکها ہے‪،‬اور(ایسے ہی)بحث و تحقیق کے میدان‬
‫میں بهی لکها ہے‪،‬اوراس سلسلہ میں ان کی نمایاں اور قابل قدر تخلیقات ہیں۔‬

‫الخطابة‬
‫(عہد جدید میں)عربی خطابت نے بهی ترقی کی ہے‪،‬اور اس کے اندر زندگی کی‬
‫روح دوڑ گئی‪،‬پهر اس کے اندر نئے سماجی یا سیاسی حاالت کے تقاضوں اور دینی دعوت‬
‫اور اسالمی تنظیموں کے تقاضوں کے مطابق(مزید ) ترقی اور سرگرمی آتی گئیں‪،‬اس کو‬
‫ترقی دینے میں جامع ازہر کا بہت بڑا کردار ہے‪،‬اور یہاں کے جو فارغین تهے ان میں‬
‫اچهے اچهے ممتاز خطیب ہوئے۔‬

‫تأثیر األسلوب األجنبي على األسلوب العربي‬


‫والشعراء ‪ :‬قبل النهضة‬ ‫الشعر‬
‫بعض الومضات الشعریة‬
‫محمود سامي البارودي وبدأ النهضة‪:‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ان کی شاعری کا ایک نمونہ بهی ہے جو انهوں نے ایک موقع پر کہی تهی‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔ ان لو گوں نے مجهے (یہ)اہم کام انجام دینے کی دعوت دی‪ ،‬تو میں نے فورا‬
‫لبیک کہا‪،‬اور میں تو ان جیسے کارناموں کو انجام دینے کیلئے آگے بڑھنے واال ہی ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬رامق‪:‬ٹکٹکی باندھ کر‪/‬مسلسل کسی چیز کو دیکهنے واال)‬
‫تعالی اس انسان پر رحم نہ کرے جس نے اپنے دین کو اس کے عالوه دنیا‬
‫ٰ‬ ‫‪۲‬۔ہللا‬
‫سے بیچ دیا(دین کو چهوڑ کر دنیا کی طرف چال گیا)حاالنکہ وه حق کو خوب اچهی طرح‬
‫سے دیکه رہا ہے۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬مائق ‪:‬احمق ‪ ،‬بیوقوف‪ ،‬کم عقل۔غب‪:‬انجام۔‬
‫‪ ۳‬۔باوجود اس کے کہ میں نے ان کو ان کے انجام سے متنبہ کردیا تها‪،‬اور ان کو ڈرا‬
‫دیا تها کاش کہ یہ کم عقل لوگ سمجه لیتے ۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬ماحق‪ ،‬محق‪:‬کم کرنا‪ ،‬گهٹانا‪ ،‬مٹا دینا)‬
‫‪ ۴‬۔ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ شر انگیزی سے رک جاؤتو تم فائده میں‬
‫رہوگے‪،‬یقینا شرانگیزی کا ایک برا دن آئے گا۔‬
‫‪۵‬۔لیکن ان لوگوں نے م یری بات کو اس کے یقین سے ہٹا کر دوسری چیزوں پر‬
‫محمول کیاحاالنکہ میں اپنے ہر قول میں سچا تها۔‬
‫‪۶‬۔میں نے تو ان کے تع لق سے اچها گمان کیالیکن میں حسرت و افسوس کے ساته‬
‫واپس ہوا‪،‬اور اس کی ایسی تکلیف ہے جو پہلو میں چپک گئی ہے۔‬
‫‪ ۷‬۔ان لوگوں نے قسم کهائی تهی کہ یہ میدان سے ہٹیں گے نہیں لیکن (دوسری‬
‫طرف)فجر طلوع نہیں ہوا مگر ان کی عورتیں مطلقہ ہوگئیں۔‬
‫(اسد(ج)اسود‪:‬شیر۔نقانق‪:‬شترمرغ‪/‬بزدل)‬
‫‪۸‬۔ یہ لوگ جب اپنی عورتوں کے پاس ہوتے ہیں تو شاعری میں شیر ہوتے ہیں‪،‬لیکن‬
‫جب جنگ ہوتی ہے تو یہ شتر مرگ بن جاتے ہیں۔‬
‫‪ ۹‬۔جب انسان اپنی تلوار کے دستہ کو لیکر کهڑا نہ ہوتو کاش مجهے یہ معلوم ہوجائے‬
‫کہ(اب)حقائق کی حفاظت کیسے ہوگی(جب جذبہ نہیں ہے تو یہ اپنے ملک کو کیسے بچا‬
‫سکتے ہیں)‬
‫سامی بارودی کے بعد آنے والے دیگر شعراء کے کالم میں تجدید و اصالح یہ منہج‬
‫وسیع و طاقتور ہوتا گیااور (نئے نئے)شعراء پیدا ہوئے‪،‬ان کے اندر (بهی)اسی رجحان کا‬
‫میالن تهاجیسے اسماعیل پاشا صبری (‪۱۸۵۴‬ء‪۱۹۲۳-‬ء)ہیں اور ان کے عالوه دیگر شعراء‬
‫ہیں۔‬

‫نبغاء النهضة‪:‬‬
‫تجدید و اصالح کے شاعری کےاس منہج کوخاص طور پر اس عہد کی نئی نسل‬
‫کے شعراء نے پسند کیا‪ ،‬ان میں سر فہرست احمد شوقی(امین الشعراء)(‪۱۸۵۴‬ء‪-‬‬
‫‪۱۹۳۲‬ء)ہیں‪،‬حافظ ابراہیم(شاعر النیل)(‪۱۸۷۰‬ء‪۱۹۳۲-‬ء)ہیں‪،‬اس انداز میں ان دونوں کے‬
‫ساته ساته خلیل مطران (‪۱۹۴۹‬ء)نے بهی شرکت کی‪،‬اور (شاعری کے اندر)نیا پن اور‬
‫عمدگی پیدا کرنے میں ان دونوں کے ساته ساته چلے ‪،‬یہ تینوں ان بہترین (شعراء) میں تهے‬
‫جنهوں نےاس نئی بیداری کی ذمہ داری کو اٹهایاجو بارودی نے شروع کی تهی‪،‬جب بهی‬
‫کوئی مشرق میں اہم اور خطرناک واقعہ پیش آتا تویہ تینوں حضرات (اس پر)شاعری کرنے‬
‫میں سبقت کرتے‪،‬بلکہ جب بهی دنیا میں کوئی واقعہ پیش آجاتا (تو یہ حضرات اس پر‬
‫شاعری کے ذریعہ سے اپنے جذبات و احساسات کو بیان کرتے تهے)‪ ،‬ان میں سے ہر‬
‫ایک نے (اپنے اپنے موضوع کوبہت)بہتری کے ساته پیش کیا ہے‪،‬بعض موقعوں پر ان‬
‫تینوں میں سے کوئی ایک اپنے دونوں ساتهیوں سے فائق ہوجاتا‪،‬جہاں تک مطران کا تعلق‬
‫ہے تو یہ شعری اسالیب بیان میں اپنے دونوں ساتهیوں کے مقابلہ میں زیاده تجددپر زیاده‬
‫قائم رہنے والے تهے جبکہ ان کے دونوں ساتهی موروثی وقدیم اسالیب بیان کا زیاده خیال‬
‫رکهنے والے تهے۔‬

‫النماذج ‪ :‬شوقي‬
‫شوقی کی شعر گوئی کی صالحیت ان کی طاقتور اور معنی خیز شاعری کے ذریعہ‬
‫سے چهلکتی تهی‪ ،‬یہاں تک کہ لوگوں نےان کیلئے اس عہد کی شعری قیادت کا فیصلہ‬
‫کردیا ‪،‬ان کی شاعری الفاظ کی پختگی اور سالست سے پر تهی یہاں تک کہ ان کے بعض‬
‫اشعار عصر اسالمی کےشروع کے بہترین شعراء کے کالم سے مشابہت رکهتے ہیں‪ ،‬ان‬
‫کے اندرایک اسالمی جذبہ تهاجوہر مؤثر موقع پر حرکت میں آجاتا تها‪،‬مدح رسول میں‬
‫انهوں نے مؤثر اور پختہ شاعری کی ہے‪ ،‬شاعری کے مختلف اصناف میں ان کو قدرت‬
‫حاصل تهی‪،‬الفاظ بہت ہی پختہ (استعمال کر تے تهے)یہاں تک کہ ناقدین نے انہیں متنبی‬
‫سے مشابہت دی ہےاور ان کو امیر الشعراء کے نام سے پکارا۔‬
‫ان کی شاعری کے نمونوں میں سے وه قصیده ہے جو انهوں نے دمشق کے سلسلہ‬
‫میں کہا تها جب وہاں زیارت کی تهی‪،‬اس زیارت نے ان کے اندر عہد اموی میں اسالم کا‬
‫جو مقام و مرتبہ تها اس کی یادتازه کردی ‪ ،‬اور ان کو اشعار کہنے پر ابهارا ‪،‬‬

‫وله في الغزل‬
‫حافظ إبراھیم‪:‬‬
‫النبغاء اآلخرون‪:‬‬
‫نموذج من كالم الرصافي‪:‬‬
‫ظهور النزعة الجدیدة في الشعر العربي‪:‬‬
‫نماذج شعر عمر أبو ریشة‪:‬‬
‫نموذج من شعر العقاد‪:‬‬
‫استاذعباس محمود عقاد یہ عہد جدید کےبڑے ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں‪،‬علوم‬
‫و معارف ‪،‬ثقافت و تہذیب اور ادبیات پر ان کی باریک نظر او ر وسیع مطالعہ ہے‪،‬عقاد کو‬
‫شعری ملکہ بهی حاصل تهاجس کے اندر نیاپن اور خیال کی ندرت پائی جاتی ہے‪،‬انهوں‬
‫نے مصر میں زندگی گزاری‪،‬اور انهوں نے علم و فکر کے میدان میں اہل علم و ادب سے‬
‫مہارت کی داد حاصل کی ہے‪،‬ذیل می ں ان کی شاعری کا ایک نمونہ دیا جارہا ہے‪،‬جس میں‬
‫محبت کے میدان می ں ان کا جو عمده وتازه مسلک تها وه سامنے آتا ہے‪:‬‬

‫اشعار کا ترجمہ‪:‬‬
‫ٖ(لغوی تشریح‪:‬محیا‪:‬پیشانی‪/‬روشن چہره)‬
‫‪ ۱‬۔میں تم کوتمہارے ذاتی حسن و جمال کی وجہ سےنہیں چاہتا‪،‬اگرچہ یہ پاکیزه‬
‫مورت خوبصورت ہی کیوں نہ ہو۔‬
‫‪۲‬۔‬

‫اشتداد النزعة الجدید وخصائصها‪:‬‬


‫شعر المهجر‪:‬‬
‫نماذج الشعر الجدید‪:‬‬
‫الطابع الدیني‪:‬‬
‫اسی طریقہ سے شعری ادب صوفیانہ دینی پہلو سے خالی نہیں ہے‪،‬چنانچہ ایسے‬
‫شعرا ء بهی پائے جاتے رہے ہیں جن کا کالم الحاح و تضرع ‪،‬دعا و منا جات پر مشتمل‬
‫ہے‪،‬اور یہ ایسے اسلوب میں ہے جو بڑا سحر انگیز اور بلیغ ہے‪،‬ان میں سب سے مشہور‬
‫استاذ عمر بہاء الدین االمیری ہیں‪،‬اس موضوع (الحاح و تضرع ‪،‬دعا و منا جات)پران کا‬
‫ایک طاقتور شعری دیوان ہے‪،‬ایسے ہی عالمہ سید سلیمان ندوی ؒ بهی ہیں‪ ،‬جنهوں نےعربی‬
‫زبان میں اس موضوع پر طاقتورشاعری کی ہے جس کو ایک دیوان میں جمع کردیا گیا‬
‫ہے۔‬

‫نموذج من شعر األستاذ األمیري‪:‬‬


‫استاذ بہاء الدین االمیری شام کے (مشہور عالقہ)حلب سے تعلق رکهنے والے شعراء‬
‫میں سےہیں‪،‬اور اپنے ملک کے سربرآورده لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے‪،‬اسالمی اور‬
‫دینی بیداری کے زمانہ کو پایا ہے‪،‬اور اس کے لیڈروں میں شمار کئے گئے‪ ،‬انهوں نے‬
‫اپنے ملک کی سیاست میں حصہ لیااور مختلف ملکوں میں اپنے ملک کی طرف سے سفارت‬
‫کے منصب پر فائز رہے ‪ ،‬اسی کے ساته ساته وه بعض عربی یونیورسیٹیوں میں پروفیسر‬
‫کے منصب پر بهی فائز رہے‪،‬ان کی ایک طاقتور اور عمده اسالمی و روحانی شاعری ہے‬
‫جو ان کو ان کے معاصرین سے ممتاز کرتی ہے‪،‬ان کے شعری نمونوں میں سے وه شاعری‬
‫(بهی خاص اہمیت کی حامل )ہےجو انهوں نے اپنے دیوان “مع ہللا” میں “نشور” کے عنوان‬
‫کے تحت کی ہے‪،‬وه اس (قصیده) کے شروع میں کہتے ہیں‪:‬‬
‫(لغوی تشریح‪ :‬وعی ‪ ،‬یعی‪:‬ذہن میں بٹهانا‪ ،‬یاد کرلینا‪ ،‬سمجهنا)‬
‫‪ ۱‬۔ میرا دل محسوس کررہا ہےاور میرا دماغ سمجه رہا ہے‪،‬اور میری روح کے اندر‬
‫ایک انقالب برپا ہے‪،‬اور میری معلومات میرے ساته ہے۔‬
‫‪۲‬۔ میرے عزم و حوصلہ میں جہاد کا جذبہ موجزن ہے ‪ ،‬اور میرے ایمان و یقین‬
‫میں سچائی و صداقت ہے‪ ،‬اور میں (محض)دعوی نہیں کررہا ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬سلیب‪ :‬چهینی ہوئی چیز‪ ،‬اصاخ‪(:‬افعال)‪:‬کان لگاکر سننا‪ ،‬رجع‪:‬صدائے‬
‫بازگشت ‪،‬نحیب‪:‬رونے اور چالنے کی آواز)‬
‫‪ ۳‬۔میں جہاں کہیں بهی متوجہ ہوتا ہوں تو(دیکهتا ہوں کہ)حق تلفیاں کی جارہی ہیں‪،‬اور‬
‫جہاں کہیں میں کان لگاتا ہوں تو(جگہ جگہ )رونے اورچالنے کی صدائے بازگشت‬
‫(سنتاہوں)۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬سری‪ ،‬یسری‪:‬رات میں چلنا۔درب(ج)دروب‪:‬راستہ۔مریب‪:‬مشکل‪ ،‬دشوار‬
‫گذار۔ فخ‪:‬خندق۔لغم‪:‬سرنگ)‬
‫‪ ۴‬۔ اور جہاں کہیں میں رات میں چلتا ہوں تو(پاتا ہوں کہ)راستے بہت ہی پر خطر‬
‫ہیں‪(،‬جگہ جگہ)عجیب و غریب خندقیں کهدی ہوئی ہیں‪،‬اور خوفناک سرنگیں بنی ہوئی ہیں‬
‫۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬رھین‪:‬کسی چیز کو الزم پکڑنے واال‪،‬‬
‫‪ ۵‬۔میں حوادث زمانہ کا شکار ہوں اور میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ میں(اپنے ہی‬
‫وطن میں) اکیال اور اجنبی ہوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬اھاب بہ(افعال)‪:‬اپیل کرنا)‬
‫‪ ۶‬۔جب میں اپنی قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ آؤ کارنامے انجام دیں‪،‬تو نہ تو کوئی میری‬
‫آواز پر لبیک کہتا ہےاور نہ ہی کوئی جواب دیتا ہے۔‬
‫پهر قصیده کے آخر میں کہتے ہیں‪:‬‬
‫‪۷‬۔اے میرے رب!اے خالق کائنات! اور اے وه ذات جو دلوں کے راز اور بهیدوں کو‬
‫جاننے والی ہے۔‬
‫‪ ۸‬۔کیا تو نہیں دیکه رہا ہے کہ رنج و الم نے میر ے وجود کو بهون‪/‬جال دیا ہے‪،‬اور‬
‫(یہی رنج والم)میرے دل کو آگ اور نور سے جال رہا ہے۔‬
‫‪۹‬۔(اے میرے رب!)میری طاقت و قوت میں زمانہ کی جو بیڑیاں ہیں اسے توڑ‬
‫دے‪،‬اور میرے ہاته کو زمانہ کی گردن پہ چهوڑ دے۔‬
‫‪ ۱۰‬۔اور(اے میرے رب!)مجهے بیداری اور عزم و حوصلہ کی خاص صفت عطا‬
‫فرما‪،‬اور تو مجهےچهوڑ دے تاکہ میں اپنی قوم کیلئے بیداری کا ایک پیش خیمہ بن جاؤں۔‬
‫ایک دوسرے قصیده میں جس کا عنوان “شہود” ہے اس میں کہتے ہیں‬
‫(لغوی تشریح‪:‬بون‪:‬دوری ‪/‬مسافت۔مدید‪:‬وسیع)‬
‫‪۱‬۔ تو مجهے آزاد کردےکہ میں (ایک)بہت دور کی مسافت میں سرگرداں ہوں‪،‬مجهے‬
‫آزاد چهوڑ دے کہ میں اپنی روح کو اپنے حدود سے آزاد کردوں۔‬
‫(لغوی تشریح‪:‬اشتف(افتعال)‪:‬چوسنا‪ ،‬محسوس کرنا)‬
‫‪۲‬۔مجهے آزاد کر کہ میں رات کی تاریکیوں میں سرگرداں ہوں‪،‬مجهے آزاد چهوڑ‬
‫دے کہ میں وجود کی روشنی کو دیکه رہاہوں۔‬
‫‪ ۳‬۔مجهے چهوڑ دے کہ میں اپنی خوشحالی اور اپنی بدبختی کو فنا کردوں‪،‬تو مجهے‬
‫چهوڑ تاکہ میں ایک نئی کائنات کی طرف پہنچ جاؤں۔‬
‫‪ ۴‬۔مجهے چهوڑ دے تاکہ میں دنیا کے گوشوں کو پار کروں اور مجهے چهوڑ دے‬
‫تاکہ میں حیات جاویدانی کے دروازوں کو پار کرجاؤں۔‬
‫ایک‬ ‫سے‬ ‫میں‬ ‫ناموں‬ ‫کے‬ ‫تشریح‪:‬الدیان‪:‬ہللا‬ ‫(لغوی‬
‫نام۔غور‪:‬اندر۔کیان‪:‬وجود۔ہیمان‪:‬سرگرداں)‬
‫‪ ۵‬۔مجهے چهوڑ دے کہ میرے وجود میں میرے رب کی تجلی ہوگئی ہے‪،‬مجهے‬
‫چهوڑ دے کہ میں اپنے وجود کی جو غائبانہ چیز ہےاس میں سرگرداں ہوں۔‬

You might also like