Professional Documents
Culture Documents
عربی
( األدب العربی بین عرض و نقد مؤلفہ حضرت موالنا رابع حسنی
ندوی کا اردو ترجمہ)
مضامین
صفحا
شمار
نمبر
ت
حقیقة األدب
العلم والفن واألدب :المعارف العقلیة
القسم العلمي
القسم الفني
الكالمیة وغیر الكالمیة
الفنون الجمیلة
األدب
األدب عمل عقلي
األدب عمل فني
األدب عمل كالمي
تعریف األدب
متى یوجد األدب
الوجدان :امتزاج األدب مع العلم بین الفكر و
الروح الفكریة في الكالم األدبي
األدب أدب خاص وأدب عام
النثر والنظم :األدب نثر ونظم
الروح الوجدانیة طبیعة للشعر
أمثلة من النظم الخالي من الروح الوجدانیة
طبیعةالنثر
الروح الوجدانیة في النثر
التنوع األدبي في النثر والنظم
بین اللغة واألدب :اللغة ودرجاتها
الكالم البسیط
علم اللغة
من اللغة إلى األدب
النثر البسیط أوال واألدب ثانیا
مرحلة الشعر
مرحلة النثر الفني
كیف یتطور النثر البسیط إلى األدب
الشعر :السجع والرجز والشعر
الشعر غنائي وتمثیلي
النثر :النثر علمي وأدبي
سجع ومرسل
والنثر إنشائي وتوصیفي
والتوصیفي ھو تاریخ أدبي ونقد أدبي
بدایة النقد األدبي سابقة على بدایة التاریخ األدبي
التحلیل والنقد
األسلوب األدبي :تحلیل العمل األدبي
األسلوب األدبي
جانبان مؤثران في األسلوب
الموضوعیة
الذاتیة
وال بد من الجانبین
وخصائصه :ولألسلوب أربعة عناصر عناصر األسلوب
العاطفة
الفكرة
الخیال
الصورة اللفظیة
كیف تدرس النصوص األدبیة
الكلمات
الجمل
نوع األسلوب
الروح العامة
النسق
الموضوعات
مثال تطبیقي :رسالة عبد الحمید الكاتب
الظاھرة والموضوع
نص الرسالة
شرح تحلیلي
اختالف األسالیب األدبیة :تنوع األسالیب
األقسام الكبیرة
أمثلة النثر
أمثلة النظم
تأثیر الخصائص والعناصر
استكشاف شخصیة األدیب
اتجاھان أدبیان اتجاھان من إنتاج األدباء:
أدب األلفاظ
أدب المعاني
النثر الفني
الشعر
النماذج
نماذج العهد األدبي األول :من األدب الجاھلي
األدب یمثل الحیاة ویصورھا
النهضة الحدیثة
بدء النهضة الحدیثة :مصر والشام
شخصیات أثرت في النهضة
تأثیر النهضة على األدب
ظهور الصحافة وتأثیرھا على أسلوب الكتابة
النشاط الصحافي
المقالة
القصة
رواج األدبین
مناھج الكتابة فیهما
الكتاب ونماذجهم
األغراض اإلسالمیة
أدب المهجر
وظیفة األدیب في نظرھم
أدب القصة والروایة
أدب الصحافة واإلذاعة
أدب الناشئة واألطفال
الخطابة
تأثیر األسلوب األجنبي على األسلوب العربي
الشعر والشعراء :قبل النهضة
بعض الومضات الشعریة
محمود سامي البارودي وبدأ النهضة
نبغاء النهضة
النماذج :شوقي
وله في الغزل
حافظ إبراھیم
النبغاء اآلخرون
نموذج من كالم الرصافي
ظهور النزعة الجدیدة في الشعر العربي
نماذج شعر عمر أبو ریشة
نموذج من شعر العقاد
اشتداد النزعة الجدید وخصائصها
شعر المهجر
نماذج الشعر الجدید
الطابع الدیني
نموذج من شعر األستاذ األمیري
األدب :توطئة و تمهید:
ادب نام ہے عقل و حکمت کا ،شعور و وجدان کا ،کاریگری اور فن کا ،اس کی طرف
طبیعتیں مائل ہوتی ہیں ،ا ورلوگ اس کا سننا یا پڑھنا پسند کرتے ہیں۔
ادب کی پیدائش لوگوں میں اس وقت ہوئی جب ان میں خوبصوت خیاالت اور
احساسات پیدا ہوئے،اور جب انهیں اس بات کا علم ہوگیا کہ حسن نطق اور حسن کالم
کیسے کرتے ہیں ،اور بہترین الفاظ و کلمات کے پیرایہ میں اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی
کس طرح کرتے ہیں۔
جس طرح ادب نے زندگی پر اثر ڈاال اسی طرح زندگی نے بهی ادب کومتاثر
کیا،انسان نے اس سےفائده اٹهایا اور دوسروں تک اس کا فائده عام کیا ،مختلف زمانوں
،قبیلوں اور زبانوں میں ادب نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ،مختلف زبانوں میں اس کی
عمده اور مؤثر مثالیں ملتی ہیں ،عربی زبان ادبی ذخیروں اور نمونوں کے اعتبار سے تمام
زبانوں پر فضیلت رکهتی ہے ،کیون کہ وه ایک طویل زمانہ سےلغات کائنات کا ایک حصہ
ہے اور قیامت تک رہے گی ،اورچو نکہ آخری آسمانی دین (دین اسالم)اور کتاب الہی یعنی
قرآن مجید(جس میں نہ باطل آگے سے آسکتا ہے اورنہ پیچهے سے ،جو خدائے باحکمت
و پر حمد کی طرف سے نازل ہوا ہے)عربی زبان میں ہے ،اس لئے عربی ادب کا دائره
وسیع ہوچکا ہے۔
لوگوں نے عربی کے عہداول میں ادب کے لئے ادب کا لفظ استعمال نہیں کیا ،
بلکہ اس کو“ مقالہ” یا “کالم ”کا نام دیا ،کبهی انهوں نے اس سے “کالم بیانیہ” مراد لیا،
کیونکہ اس کے اندرمعنی و مفہوم کی بہترین تشریح ہوتی تهی،اورکبهی“شعر” مراد لیا
جبکہ کالم میں قافیہ اور وزن کی پابندی ہو،اسی طرح دوسری مناسبتوں سے ادب کے
مختلف نام انهوں نےرکهے۔
عربوں نے کئی صدیوں کے بعد ادب کیلئے لفظ ِادب استعمال کیا ،وه عہد قدیم میں
ایک دوسرے معنی کیلئے اس کا استعمال کرتے تهے ،اور وه “دعوت” کا معنی تهااوراس
کهانے کوجس پر لوگ مدعو ہوں“مدعاة” یا “مادبۃ” کہتے تهے ،اورجس کالم محمود ه کو
اختیار کرنے کی دعوت لوگوں کو دی جاتی تهی اس کو “مادبۃ” یا “ادب” کہتے تهے،
حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث میں ہے کہ “:بے شک قرآن روئے زمین پر ہللا کا
“مادبۃ”(دسترخوان ) ہے ،لہذا اس کے مادبۃ سے علم حاصل کرو” ،اور اسی طرح یہ سلسلہ
چلتا رہا یہاں تک کہ انهوں نے نثر اور شعرمیں سے ہر ایک کوجسمیں حسن ذوق کے ساته
ساته میالن قلب بهی پایا جائے“ادب” کہنا شروع کردیا۔
پهر یہ لفظ اس( خاص ) معنی میں عام ہوگیا اور شہرت حاصل کرلی ،اورلوگوں کا
ادب کی طرف رجحان نہ صرف یہ کہ بڑھا بلکہ ساته ساته اس سے اشتغال میں بهی اضافہ
میں
ہوا ،اوردیکهتے ہی دیکهتے ان میں ادب کی کثرت اور شہرت ہوگئی،ایسی صورتحال ٖ
ضرور تها کہ ہم ادب کی قدر و قیمت اور اس کے مقام و مرتبہ سے واقف ہوں ،ہمیں معلوم
ہو کہ وه کیسے پروان چڑھا؟اس کی کتنی شاخیں ہیں؟ کن اجزاء سے وه مرکب ہے؟ اس
کا پڑھنا کیونکر ضروری ہے؟ اس کے حسن و قبح کی معرفت کیسے ممکن ہے؟ اس کے
نمونے اور منتخب نصوص کون کون سےہیں؟ اس طرح کے سواالت ہمارے ذہنوں میں
ہونے چاہئے۔
اس کتاب کی تمام فصلیں ان تمام چیزوں کا اختصار کے ساته احاطہ کرتی ہیں ۔
العلم والفن واألدب
المعارف العقلیة
انسان کو جو عقل کی صفت عطا کی گئی ہے یہ ایک ایسا امتیاز ہے جس کے ذریعہ
سے ہللا نے اس کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دی ہے ،اسی خوبی کی وجہ سے انسان
اچهے اور برے کے درمیان فرق کو جانتا ہے ،اوریہ بهی جا نتا ہےکہ اسے کون سے کام
زیبا دیتے ہیں اور کون سے نہیں ،اسی کے ذریعہ سےوه اپنےتاثرات ،معلومات ،افکار
اور خیاالت کا تبادلہ کرتا ہے،اسی کے ذریعہ انسان جب ترقی کرتا ہے اور محنت کرتا
ہےتو وه تخلیق کرسکتا ہے اور علم کے میدان اور فنون و ادبیات میں آگے بڑھتا ہے ،لہذا
اس کے ذریعہ سےانسان خود بهی مستفید ہوتا ہے اور دوسروں کو بهی فائده پہنچاتا ہے،
خود بهی متاثر ہوتا ہے اور دوسروں کو بهی متاثر کرتا ہے ،اور یہ عقل ہی زندگی کے
بہت سے میدانوں میں انسان کی ترقی کا بہت بڑاوسیلہ ہے۔
القسم العلمي:
انسان کے عقلی علوم دو قسموں میں منقسم ہوتے ہیں:ان میں ایک قسم علمی ہے اور
دوسری فنی۔ جہاں تک علمی قسم کا تعلق ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف زندگی
کی حقیقتوں میں سے کسی ایک حقیقت کو ظاہر کرنا ،یا زندگی یا کائنات سے متعلق حقائق
کوظاہر کرنا اور واضح کرنا ،اس علمی قسم کے اندر ڈاکٹری ،سائنس ،انجینئرنگ اور
الجبرا وغیره کے ساته وه سارے علوم شامل ہیں جن کا مقصد اور کام صرف اور صرف
انسان کو اس کائنات کے حقائق میں سے کسی حقیقت سے واقف کرانا ،یا اسےکسی انسان
کے سامنے ساده انداز میں پیش کردیناہے۔
القسم الفني:
ان علوم میں جو فنی قسم ہے اس کا مقصد معنی کے اندر قوت و جمال کے موقعوں
کو ظاہر کرنا ،اور اس کو مؤثر اور خوبصورت انداز میں بیان کرنا ،اور انسانی شعور و
وجدان میں ہیجان پیدا کرنااور انسانی جذبہ کومہمیز کرنا ہے۔
الكالمیة وغیر الكالمیة:
قسم فنی علوم کالمیہ اور علوم غیر کالمیہ میں منقسم ہوتی ہے ،اور وه اس لئے
کیونکہ اس قسم کو جاننے واال اس چیز کو بیان کرنے کے لئےجسے وه اپنے فن کے ذریعہ
بیان کرنا چاہتا ہے ،الفاظ اور عبارتوں سے مدد لیتا ہے ،یا وه ان کی مدد نہیں لیتا ہےبلکہ
وه بیان کے ایسے طریقےاختیار کرتا ہےجو الفاظ اور عبارتوں کے عالوه ہوتے ہیں۔
الفنون الجمیلة:
جہاں تک ان علوم کا تعلق ہے جن کا جاننے واالان میں انسانی کالم یعنی الفاظ اور
عبارتوں کو استعمال نہیں کرتا تو یہ وه علوم ہیں جن کے اندرکالم انسانی کا استعمال نہیں
کیا جاتا ،بلکہ ان میں انسان ان طریقوں کا استعمال کرتا ہے جو انسانی طبیعت اورذوق کو
بر انگیختہ کرتے ہیں ،خواه وه دست کاری ہو ،یا نغمگی ہو ،یا نقش و نگار ہو یا رنگ بهرنا
ہو ،اس عمل میں بہت سے علوم جیسے موسیقی ،نقش نگاری ،تصویر نگاری اور اس
قسم کی مختلف صنعتیں اور دست کاریاں داخل ہیں۔
األدب:
جہاں تک علوم فنیہ کی پہلی قسم کا تعلق ہے،یعنی ان علوم کالمیہ کا جو اپنی توانائی
انسانی کالم سے لیتے ہیں اوران علوم کی کارکردگی کی بنیاد الفاظ اور عبارتوں پر ہوتی
ہے تو اسی قسم کا نام ادب ہے ،اور جو بهی کہانیاں ،خیاالت ،اشعار ،خطبے اور اس
طرح کی دوسری مختلف چیزیں ہم پڑھتے ،سنتے یا لکهتے ہیں سب ادب کہالتے ہیں۔ اور
یہی ادب اس کتاب میں ہمارا موضوع ہے ۔
تعریف األدب:
لہذا ادب عقل انسانی کی ایک سرگرمی ہے ،اور فنون کالمیہ میں سے ایک فن ہے
،اور ادب اس کالم کو کہتے ہیں جو شعراء ،خطباء ،اہل قلم اور ان جیسے لوگوں سے
منقول ہو(جیسے ان کی تحریریں ،تقریریں اور اشعار وغیره) اور یہ کالم نازک خیاالت
اور لطیف احساسات پر مشتمل ہوتا ہے(اور اس کالم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ)یہ نفس انسانی
کی تہذیب کرتا ہے اور انسانی حس و شعور کے رقت پیدا کرتا ہے اور زبان کو بهی
سنوارتا ہے۔
متى یوجد األدب (ادب کب وجود میں ایا( یہ تاریخی اعتبار سے) /انسان کا کالم کب
دائرهٔ ادب میں اتا ہے)( دونوں مفہوم ہوسکتے ہیں)۔
انسان کے جتنے فنون اور علوم و اداب ہیں ان سب کے دومصدر ہیں :اس کے غور
کرنے صالحیت اور اس کے محسوس کرنے کی قوت۔ اور جب یہ دونوں چیزیں اس زندگی
و کائنات میں کام کرتی ہیں اور اس کا نتیجہ الفاظ کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے تو یہ دونوں
چیزیں ادب بن جاتی ہیں ،اسی وجہ سے یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ جب سے انسانوں
نے(خواه) کسی بهی زبان کے ہوں ،اپنے خیاالت و احساسات کا نتیجہ و نچوڑ بیان کرنا
شروع کیاتها تب سے ادبی تخلیق بهی ہونے لگی (اور یہ کام تو بہت پہلے ہی ہوچکا تها
اب) خواه اس ادب کا کوئی حصہ ہمارے پاس پہنچاہو یا نہ پہنچا ہو۔ حقیقت یہی ہے کہ
ہمارے پاس جو کچه پہنچا ہے وه بہت ہی قلیل اور نایاب ہے(اس لئے کہ ابتدائے زمانہ میں
تدوین و کتابت کا چلن نہیں تها)۔
طبیعةالنثر:
جہاں تک نثر کا تعلق ہے تواس کا دونوں میدانوں میں حصہ ہے ،اور نثر علمی
اور ادبی دونوں میدانوں میں یکساں کام کرتی ہے ،نثروزن و قافیہ کی پابندی سے خالی
ہوتی ہے ،تاکہ اس کے اندر وسعت ،کشادگی اور گنجائش پیدا ہوجائے اور زبان کے تمام
میدانوں میں(خواه وه منطق ہو ،فلسفہ ہو ،علم کالم ہو)اور زیاده یہ کهل کر چل سکے ،لہذا
نثر کبهی علمی چهاپ سے قریب ہوتی ہے ،اور کبهی نثر خالص فنی چهاپ کی طرف مائل
ہوتی ہے ،اور کبهی ایسا بهی ہوتا ہے کہ نثر کے اندر دونوں چیزیں برابر ہوتی ہیں۔
الكالم البسیط:
کبهی الفاظ کا وه مجموعہ نہ تو علم ہو تا ہے اور نہ ادب ہوتا ہے ،کیونکہ یہ برابر
فنی اور علمی پہلو سے خالی ہوتا ہے ،اور اس وقت یہ ایک ساده اور ابتدائی کالم ہوتا ہے
،جس کو نثر بسیط یا ساده کالم یا صرف زبان کہا جا سکتا ہے۔
علم اللغة:
کبهی کبهی لفظ لغت الفاظ و کلمات کے مفردات پر بوال جاتا ہے ،اور اس کا کام اس
کے مفرد معانی اور اس کے بدلتے ہوئے صیغوں پر محدود و منحصر ہوتا ہے (،اس
مرحلہ میں)اس کےکسی ایک مجموعہ سے جو تعبیر حاصل ہوتی ہے اس پربالکل توجہ
نہیں ہوتی ،اس وقت اس کو علم اللغۃ کہتے ہیں ،اور یہ زبان دیگر علوم کی طرح ایک فن
ہوجاتی ہے ،جس کی مثالیں ہمیں ڈکشنریوں میں یا مفردات لغویہ کی کتا بوں میں ملتی ہیں۔
اس چیز کو ہم نہ نثر بسیط کہیں گے اور نہ خالص ابتدائی کالم کہیں گے۔
اب لغت کی دو قسمیں ہوگئیں:ایک قسم( کے ذریعہ ہم) الفاظ کے مفردات اور کلمات
(سے واقف ہوتے ہیں)،اور یہ علم اللغہ ہے ،اور دوسری قسم نثر بسیط اور خالص ابتدائی
کالم پر مشتمل ہے ۔یہ قسم علمی و فنی جمال کی ادائیگی کی طرف یکساں توجہ دینےسے
خالی ہوتی ہے ۔
كیف یتطور النثر البسیط إلى األدب(ایک ساده کالم ادب میں کیسے
محول ہوتا ہے؟)
ّ
جب نثر بسیط کسی قوم میں ادب کی طرف ترقی کرتی ہے/آگے بڑھتی ہے ،تو ایک
ہی چ هالنگ میں وہاں تک نہیں پہنچتی ،بلکہ دھیرے دھیرے وه ادب کی طرف چلتی رہتی
ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نثر بسیط واال اپنے وجدانی تجربات کوبیان کرنا شروع
کرتا ہے،اور وه اپنے اندر ایک چهلکتا ہوا شعور اور اچها خیال محسوس کرتا ہے ،ایسےہی
(مطالعہ کے بعد) وه اپنی زب ان اور اپنے ساده کالم میں اپنے تخیل اور احساس کی ترجمانی
کی گنجائش بهی پاتا ہے،تو وه اپنے کالم کے الفاظ میں تصرف کرتا ہے ،اور الفاظ منتخب
کرتا ہے اور ایسے پیرایہ میں جمع کرتا ہے کہ پهر اس کا سننا اچها لگتا ہےاور اس کا
بیان کرنا مؤثر بهی ہوتا ہے ،اور الفاظ کے زیر و بم اور جملوں کی نغمگی اور موسیقی
سے اور حسن پیدا کردیتا ہے۔یہ صورتحال ابتدائی مرحلہ میں سجع کے جملوں کے ساته
اسے حاصل ہوجاتی ہے ،پهر اس کی یہ سجع بهی دھیرے دھیرے ترقی کرتی ہے ،پهر
اس پر وزن اور قافیہ کی جو پابندیاں ہیں ان کو داخل کرتا ہے تب اس کا کالم پہلے
رجز(رزمیہ شاعری)بنتا ہے اورپهر شاعری کے مرحلہ میں آتا ہے۔
نثر بسیط نثر فنی میں اس وقت تبدیل ہوجاتی ہے جبکہ نثر بسیط واال اپنی معلومات
،علوم ،اور اپنی فنی ذہانت کے ذریعہ سےترقی کرتا ہے ،اور اپنی صالحیت کو بڑھاتا ہے
تو پهر وه نثر فنی کے مرحلہ میں آتا ہے اوروه اپنے نثر کو مزین اور خوبصورت بناتا
ہے۔
الشعر
السجع والرجز والشعر:
سجع کا لفظ سجع الحمام والیمام(کبوتر اور فاختہ کی ایک خاص قسم کی آواز نکالنے)
ہے،زمانہ جاہلیت میں
ٔ سےماخوذ ہے،اس لئے کہ ان کی آوازوں میں سر اور نغمگی ہوتی
مسجع ادب اکثرنجومیوں کے ہاں پایا جاتاتها،کیونکہ وه اس کا استعمال اپنے متبعین اور
چاہنے والوں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے کیا کرتے تهے۔
رجز :ان توقیعی(مختصرومؤثر،سلیم الترکیب،دقیق الفکر ) جملوں کو کہتے ہیں جو
لمبائی میں برابر ہوتے ہیں ،فواصل (مسجعہ یا فواصل آیات)سےمشابہ ہوتے ہیں،اوران کا
استعمال رفتار و عمل کے موافق کیا جاتا ہےتاکہ چلنے والے اور کام کرنے والے کے
دل میں نشاط و چستی پیدا ہوسکے،اوالعرب اونٹوں کی حدی(ان کو ہنکانے اور تیز چلنے
پر اکسانے) کیلئے ان کا استعمال کرتے تهے،اس لئے کہ اونٹ رجز کے نغموں اوراس کی
موزونی و توقیعی عبارتوں کو سن کر اپنی رفتارتیز کردیتے تهے ،اور ان سے بہت زیاده
متاثر ہوتے تهے،رجز کا فائده اونٹ کی رفتار سے مشابہ دوسرے کاموں میں بهی ہوتا
ہے،اور اس کی اٖ ثر آفرینی صاحب عمل پر بهی نظر آتی ہے،عربوں نے رجز پر بہت
زیاده توجہ دی،اور اس کو خو ش طبعی اور خوش ذوقی کاذریعہ بهی بنایا،رجز نے بہت
زیاده ترقی کی یہاں تک کہ بعد میں وه شاعری کی ایک قسم (رزمیہ شاعری)بن کر سامنے
آیا۔
شعر شعور سے ماخوذ ہے ،جس کےمعنی انسانی وجدان اور اس اثرپذیری کے ہیں جسے
انسان کسی چیز کےمشاہده یااطالع یا دل میں پیدا ہونے والے احساسات اورجذبات کے
نتیجہ میں قبول کرتا ہے۔
النثر
النثر علمي وأدبي:
رہی بات نثر کی تو اس کی بهی دوقسمیں ہیں۱:علمی و۲ادبی،یا۱عام و۲خاص،علمی
قسم مقالہ،تاریخ ،سیرت ،مناظره اورتالیف وتحقیق وغیره پرمشتمل ہوتا ہے،اور ادبی قسم
وصف نگاری،افسانہ نگاری،قصہ گوئی،خطوط نگاری،خطابت،تخیل اور ان جیسی چیزوں
پر مشتمل ہوتا ہے ،پہلے اس ادبی قسم کا دائره خطوط نگاری ،خطابت اور بہت حد تک
افسانہ نگاری سے مشابہ خبروں،ضرب االمثال اور حکمتوں کو بیان کرنے تک محدود تها،
پهر بعد میں مرور زمانہ کے ساته سات ه اس کا دائره وسیع ہوگیا اور اس کے اغراض متنوع
ہوگئے۔
سجع ومرسل:
نثر ادبی کی دو قسمیں ہیں۱:نثر سجعی:جب کہ نثّار ہر دو فقرے یا اس سے زائد
میں قافیہ کا التزام کرے۔۲نثرمرسل :جب کہ نثّار اس کا التزام نہ کرے۔لیکن ان دونوں قسموں
کے(ادبی ہونے کے)لئے ضروری ہے کہ یہ فنی خصوصیات یعنی فکر ،وجدان ،خیال اور
بلیغ عبارتوں پر مشتمل ہوں۔
األسلوب األدبي:
اسلوب ادبی نام ہے ان ادبی اورفنی خصوصیات کے مجموعہ کا جن فنی اور ادبی
خوبیوں پر کسی بهی ادیب کے کام یا اس کی تخلیق کا دارومدار ہوتا ہے ،یہ ادبی اور فنی
خصو صیات اس بات کی صالحیت رکهتی ہیں کہ وه اس ادب میں پائے جانے والی ادیب
کی شخصیت کی طرف اشاره کرے ،اور دوسرے جو ادبی نصوص ہیں ان کے درمیان
اس ادیب کی ادبی تخلیقات کا مقام کیا ہےاس کی تحدید کرتا ہے۔
جانبان مؤثران في األسلوب:
مختصراَََ یہ کہ اسلوب کے دو مؤثر اور عظیم پہلو ہیں اور مختلف جو اسالیب بیان
ہیں ان کی بنیاد بهی یہی دو چیزیں ہیں،اور یہ اختالف ان ہی دونوں سے پیدا ہوتا ہے ،اور
وه دونوں چیزیں:ادب کاموضوع(مواد کا پیش کرنا)اور اس ادب کو پیش کرنے والے کی
شخصیت ۔
الموضوعیة:
جہاں تک موضوعیہ کا تعلق ہے تو یہ وه ادبی مواد ہے جسے ادیب اپنی ادبی تخلیق
کے موضوع کے طور پر اختیار کرلیتا ہے،اور پهر ہر موضوع کا ایک خاص مزاج ،ذوق
اور ایک رنگ و آہنگ ہوتا ہے جس سے وه ایک دوسرے کے موضوع سے مختلف ہوتا
ہے اور ان ہی دونوں (ذوق اور رنگ و آہنگ )سے اس موضو ع کی عال متیں متعین ہوتی
ہیں ،لہذا تاریخی موضوع یہ ادبی موضوع سے مختلف ہوتا ہے ،اور یہ تاریخی موضوع
علمی موضوع سے مختلف ہوتا ہے ،اور اسی طرح جو تخیالتی مضامین ہیں ان کا انداز
خط و کتابت سے مختلف ہوتا ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا ہے ،اور ان میں سے ہر
ایک موضوع کا ایک خاص مزاج ہے ،مواد تخلیق کار کے اسلوب سے متاثر ہوتا ہےاور
یہ اس پر اثر بهی ڈالتاہے ،اس اعتبار سے تخلیق کار کی شخصیت مواد سے مل جاتی
ہے(اس کے رنگ میں رنگ جاتی ہے)،اور اس موضوع میں ادیب کی /تخلیق کار کی ادبی
صالحیت اپنا کام کرتی ہے،اس کے نتیجہ میں جو ادبی کارکردگی ہے وه بہت ہی طاقتور
اور صاف و شفاف انداز میں سامنے آتی ہے۔
الذاتیة:
ذاتیہ کہتے ہیں تخلیق کار ادیب کی اس شخصیت کوجو بہت سے موضوعات میں
سے کسی ایک موضو ع کا انتخاب کرتا ہے،اور پهر اپنی صالحیت اور اپنی ادبی مہارت
سے اس صنف میں تصرف کرتا ہے ،اور پهر اس موضوع سے نئی ادبی تخلیق پیش کردیتا
ہے ،اور اسی طریقے سے ہر ادیب کا اشعور ا ور تاثیر کے اعتبار سے اپنا ایک خاص
مزاج ہے ،اور تفکر اور منظر نگاری کیلئے اس کا ایک خاص انداز ہوتا ہے ،اور پهر اپنی
تخلیق اور کام کو پیش کرنے میں اسکی اپنی ایک صالحیت ہوتی ہے،ایسے ہی اس کے
اندر متاثر ہونے ،سخت مزاجی اور نرمی کا بهی ایک خاص پیمانہ ہوتا ہےیہ تمام باتیں
ادیب کی تخلیق پر اثر انداز ہوتی ہیں ،اسی اختالف کی وجہ سےایک ادیب کی تخلیقات
دوسرے ادیب کی تخلیقات سے الگ الگ ہوتی ہیں اگرچہ موضوع ایک ہی کیوں نہ ہو۔
وال بد من الجانبین
ہر ادبی تخلیق کیلئے ان دونوں پہلؤوں میں سے دونوں کا پایا جانا ضروری ہے :کہ
مٹیریل اور مواد کو بهی دیکها جائے اور ادیب کیسا ہے اس کی ذات کو بهی دیکها جائے،
اگرچہ یہ دونوں (موضوعیت اور ذاتیت) تاثیر اور ضعف کے اعتبار سے ایک دوسرے
سے بدلتے ہیں ،چنانچہ کبه ی کسی کے ادب میں موضوعیت (مواد)طاقتور ہوتی ہےاور
ادیب کی شخصیت دبی رہتی ہے اور ک بهی ادیب کی سوچ غالب رہتی ہے اور مواد دب جاتا
ہے ،اسی وجہ سے ہمیں دو ادبوں میں اختالف نظر آتاہے جبکہ دوادب کے لکهنے والے
الگ الگ ہوتے ہیں اگرچہ موضوع ایک ہی ہوتا ہے ،ایسے ہی جب موضوع الگ الگ
ہوجائیں تب بهی دونوں میں فرق ہوتا ہے اگرچہ دونوں کا لکهنے واال ایک ہی ہو۔
الفكرة:
فکره کہتے ہیں ان افکار وخیاالت کو جوتخلیق کار ادیب کے ذہن میں اس کی ادبی
تخلیق کے وقت پیدا ہوتے ہیں،اور اپنے مرتبہ اور قوت کے اعتبار سے معانی کو مثقف،
منظم اور مرتب کرتے ہیں،پهر کسی منطقی و معقول شکل میں اس کی تصویر کشی کرتے
ہیں۔
الخیال:
خیال در حقیقت معانی کی ادائیگی کیلئے مؤثر و انوکهے انداز اور خوبصورت
تعبیر کی زبان ہے،جو مہارت و عبقریت پر داللت کرتی ہے ،تخلیق کار اپنی ادبی تخلیق
میں ا س کا سہارا لیتا ہےاور اپنے ادبی حسن و جمال اور معنی کی قوت و تاثیر میں
اضافہ کرتا ہے،اور اس میں و ه کبهی مجاز کو حقیقت پر فضیلت دیتا ہے ،اور کبهی
حقیقت کو مجاز پر ،اسی طرح کبهی وه مبالغہ کو حقیقی صورتحال پر ترجیح دیتا ہے،
اور سادگی کو نزاکت سے زیاده مؤثر قرار دیتا ہے،یا استعاره ،تمثیل ،اور کنایہ کا
استعمال کرتا ہے ،یااس سے پہلو تہی کرتا ہے۔
الصورة اللفظیة:
یہ ہرادبی تخلیق کے الفاظ اور عبارتوں کاایک لباس ہے،اور صورت لفظیہ(درحقیقت)
اس کے اندر ہوتی ہے،جس کے ذریعہ سے سامع یا قاری اس ادبی تخلیق کے معانی تک
پہنچ سکتا ہے،اور یہ(اس ادبی تخلیق کی) زبان کےالفاظ ،جملوں ،ترکیبوں اور اس سے
متعلق چیزوں یعنی اس کی لفظی تعبیر اور شکلی ادائیگی ہر مشتمل ہوتی ہے۔
الكلمات:
ادبی تخلیق کے اسلوب میں سب سے پہلے دیکهے جانے والی چیزادیب کے ذریعہ
برتے گئے الفاظ ہیں(،یہ دیکها جائے گا کہ)کیا وه الفاظ غیر مانوس ہیں یا واضح ہیں؟ لطیف
ہیں یا خشک ہیں؟کیونکہ ہر قم کار یا شاعر اپنے لئے الفاظ کا ایک مجموعہ خاص کرلیتا
ہے،اور اپنی ادبی تخلیق یا شاعری کرتے وقت اس کا سہارا لیتا ہے اور اس کاکثرت
سےاستعمال کرتا ہے۔
الجمل:
جہاں تک جملوں کا تعلق ہےتواس میں ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا یہ
طویل ہیں یا مختصر؟واضح ہیں یا گُن َجلک؟سجع اور محسنات پر مشتمل ہیں یا نہیں؟عام
حاالت میں ان کی کیا فطرت و طبیعت ہے؟
نوع األسلوب:
اسی طرح نوع اسلوب سے بحث کی جائے گی کہ آیا یہ صحافتی انداز ہےیا خطابی
انداز؟جذباتی ہے تا توصیفی؟اس میں صورتوں اور شکلوں کا غلبہ ہے یا افکار کا؟اس کا
رنگ کیا ہے؟ اور اس کی نوعیت کیا ہے؟
الروح العامة:
اس اسلوب کے اندر سے جو روح عامہ(عام جذبہ)سامنے آرہی ہے وه کیا ہے؟متانت
جذبہ قرار؟نیک فالی کا جذبہ
ٔ کی؟جذبہ جوش ہے یا
ٔ وسنجیدگی کی روح ہے یا طنز و مزاح
ہے یا بد شگونی کا؟باتوں میں صراحت ہے یا پهر مدارات یاگول مول باتیں کرنا یا اشارة
بات کہنا ہے؟
النسق:
اور(یہ بهی جاننا ضروری ہے کہ)کالم کی ترتیب کیا ہے ،کیا ادیب مقدموں اور
دیباچوں میں اسہاب سے کام لیتا ہے یا پهر فورا اصل موضوع میں داخل ہوجاتا ہے؟کیا وه
ارباب اختصار میں سے ہے یا طوالت سے کام لینے والوں میں سے ہے؟
الموضوعات:
ان خاص موضوعات کو بهی جاننا چاہئےجن پر عموما ادیب کی تخلیق کا دار و مدار
ہوتا ہے،ہر ادیب کے کچه خاص موضوعات ہوتے ہیں جو اس کے نزدیک محبوب ہوتے
ہیں،او ر ان ہی پر طبع آزمائی کرتا ہے اور دوسرے موضوعات سےقریب(بهی) نہیں
ہوتا،اور ان کے سلسلہ میں گفتگو کرتا ہے،لہذا(ان کے انتخاب موضوعات میں خاص
رجحان کی وجہ سے)تم ان میں سے بعض کو قصہ نگار پاؤگے ،بعض کو مقالہ نگار اور
بعض کو صحافی پاؤگے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
یہی وه خصوصیات ہیں جن پر اسلوب کا دارومدار ہے،ان کے ذریعہ سے کسی بهی ادبی
تخلیق کی طاقت و قوت ،ضعف و کمزوری ،قدر و قیمت ،مستوی و معیار کو جانا جا
سکتا ہے،ان (خصوصیات)کو جان کر ہم کسی بهی تخلیق کار ادیب پر یہ حکم لگا
سکتے ہیں کہ وه اپنی تخلیق میں کتنا کامیاب ہے ،اور (اس کا طریقہ ہے کہ )ہم دیکهیں
کہ اس ادبی تخلیق میں معانی کیا ہیں؟اور افکار کیاہیں؟پهرا ن معانی و افکار کو لوگوں
کے سامنے پیش کرتے وقت ان (معانی و افکار)کے اندر عاطفہ و جذبہ کیا ہے؟وه خیال
کیا ہے جو ان معانی و افکار میں ہم آہنگی پیدا کرتاہے ،اور ان کو ایک مقدار میں تشکیل
دیتا ہے جو اس کی قوت اور تاثیر میں اضافہ کردیتی ہے؟پهر وه الفاظ اور عبارتیں کیا
ہیں جن کا انتخاب ادیب نے اپنی اس تخلیق کو پیش کرنے کیلئے کیا ہے؟کیا یہ ادیب کی
مطلوبہ خدمت کی بجاآوری میں کامیاب ہیں یا اس کے ہر مطلب کی سچی تعبیر پیش
کرنے سے عاجز ہیں؟
مثال تطبیقي
رسالة عبد الحمید الكاتب:
یہاں پر ہم ادبی جائزه کی ایک مثال پیش کریں گے ،اور(جس شہ پاره کا ادبی جائزه
لیں گے)وه عرب کے بڑے ادیب اور قلم کاروں کے لیڈر عبد الحمید الکاتب(منشی)کا وه
ادبی و نثری شہ پاره ہے جو انهوں نےاپنے اہل و عیال کے نام ایک خط کی شکل میں اس
وقت تخلیق کی جب بنو امیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد کے ساته شکست سے دوچار
تهے،منشی عبد الحمید کے خطوط بہت ہی مؤثر ہوتے تهےاور اپنے زمانہ کے بہت ہی
مہذب اور طاقتور خطوط سمجهے جاتےتهے۔
الظاھرة والموضوع:
ظاہره اصل میں خط کا موضوع ہے(،اور عبد الحمید کاتب کے خط کا ظاہره )وه
خزاں دیده اور شکستہ صورتحال ہے جو اخیر اموی خلیفہ کو دشمنوں کے مقابلہ میں مسلسل
شکستوں سے دوچار ہونےکے بعد پیش آئی،ان کے ساته یہ منشی ادیب بهی تهے،جب ان
کو سابق غلبہ اور قوت ِرفتہ کی باز یابی کی کوئی امید نہ رہی ،اور ان کی نگاہوں کے
سامنے فیصلہ کن شکست اور قتل کے عالوه کچه بهی نہ تها۔
(اس وقت)عبد الحمید اپنے وطن اقارب و اعزه کے نام یہ خط لکهتے ہیں ،اور اس
میں اپنی کبیده خاطری اور شکستہ دلی بیان کرتے ہیں۔
نص الرسالة:
حمد و سالم کے بعد ،ہللا نے دنیا کو پسندیده و ناپسندیده چیزوں سے گهیر دیا ہے،لہذا
جس کی قسمت ساته دیتی ہےوه اس میں آرام پاتا ہے،اورجسے(دنیا)اپنے دانتوں سے کاٹ
دیتی ہے تو وه اس پر غصہ ہوتا ہوکر اس کی مذمت کرتا ہے،اور اس سے مزید کا مطالبہ
کرتے ہوئے شکوه کرنے لگتا ہے ،ہمیں دودھ والی اونٹنی نے مزه چکهایا جسے(جس کے
دودھ کو) ہم نے میٹها سمجها تها،پهر وه بدک کر ہم سے سر کشی پر اتر آئی،اوراس نے
ہمیں الت ماری اور پیٹه کر چلی گئی،لہذا اس (کے دودھ )کی شیرینی نمکینیت میں تبدیل
ہوگئی ،اور اس کی رطوبت یابس میں بدل گئی،اور اس نے ہمیں(ہم)وطنوں سے دور کردیا
،اور بهائیوں سے جدا کردیا ،گهروں سے فراق ہونے واال ہے اور پرنده دائیں جانب سے
بائیں طرف کو گذرنے واال ہے ،میں نے تمہیں یہ خط اس حال میں لکها ہے کہ زمانہ ہمیں
تم سے دور کررہا ہے اور تم سے ملنے کا شوق پیدا کررہا ہے،اگر یہ آزمائش اپنی انتہا
کوپہنچتی ہےتو یہ ہماری اور تمہاری شناسائی اور تعلق کا آخری دن ہوگا ،تو اگراب جو
تمہارے حاکم ہوں گے ان کاکوئی نوچ ڈالنے واال(سخت)ناخن ہم تک پہنچا(کارروائی اور
گرفتاری سے کنایہ)تو ہم تمہاری طرف گرفتاری کی ذلت کے ساته لوٹ کر آئیں گے ،اور
ذلت ایسی برائی ہوتی ہے جو لگی رہتی ہے (چنانچہ ان حاالت میں)میں اس ذات پاک سے
اعلی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل ٰ دعا سوال کررہاہوں جو ذات
کردیتا ہےکہ وه ہمیں اور تم کو ایسی محبت عطا کرے جو ہمیں ایسے مقام پر مالدے جو
تعالی دونوں جہان کا
ٰ پرامن ہواور جو جسموں اور مذاہب کی سالمتی کو جمع کردے ،ہللا
پالنہار ہے اور وہی سب سے زیاده رحم کرنے واالہے"۔
شرح تحلیلي:
.1اس خط کے اندر جو جذبہ اور عاطفہ پهیال ہوا ہے وه یہ ہے کہ ماضی
میں جو عزت و مرتبہ اور مقام حاصل تها اس کے فوت ہونے پر حسرت و افسوس
اور مالل ،اور وه مس ائل و پریشانیاں اور اندیشے جن سے وه گهر گئے تهے ان کا
بہت ہی طاقتور احساس ،اور ایسے ہی مستقبل میں ہر طرح کی عافیت و سالمتی
اور عزت و کرم فرمائی سےبالکل ناامیدی کا جذبہ و عاطفہ ہے۔
.2یہاں پر فکره یہ ہے کہ اس خط کو لکهنے والے نے یہاں پر بہت ہی
صحیح اور سچا ان دازه کیا ہے ،اور ایسے ہی بہت ہی باریکی اوردیانت داری سے
اس صورتحال کا ادراک کیا ہے جس سےوه دوچار تها اور جس میں وه گرفتار ہوگیا
تها(،اس صحیح صورتحال کے ادراک کے بعد)اس صورتحال اور احساس کی
ترجمانی بہت ہی دلکش تنظیم اور ترتیب کے ساته کی ہے،اور صاف انداز گفتگو
اختیار کرتے ہوئے ،باریک بینی اور امانت داری کے ساته ،یہاں تک کہ اسے اس
بات کی قدرت حاصل ہوگئی تهی کہ وه اپنے اندر کی چیز (احساسات و تاثرات)کو
بیان کرےاور اس کے ارد گرد کا جو ماحول ہے جو اس کے لئے سازگار نہیں ہے
اس کو بهی اس نے بیان کردیا ہے ،اور لوگوں کے سامنے ان چیزوں کو پورے
زور و قوت اور سچائی کے ساته بیان کردیا ہے جن کو وه بیان کرنا چاہتا تها۔
.3پهر قارئین کے سامنے یہ جذبہ ظاہر ہو اس کیلئے ضرورت تهی ایک
ایسے تخیل کی جو تصویر کشی کرنے واال ہوتاکہ وه اس جذبہ کو پیش کرے اور
اس کو واضح طور پر ،پوری قوت کے ساته اور اثر انداز ہونے والی کیفیت کے
ساته سامنے لے آئے ،لہذا اس نے تشبیہہ ،تصویر کشی اور مؤثر انداز بیان اختیار
کیا ،تو اس نے دنیا کی اس اعتبار سے کہ دنیاخیر و شر دونوں کا مجموعہ ہے ،اس
اونٹنی سے تشبیہہ دی ہے جو بہت مانوس ،بڑی اطاعت گذار اور بالکل تابع تهی،
پهر یہی اونٹنی ایک دم سے پلٹ جاتی ہےاور سرکش ہوکر بدکنی لگتی ہے ،اور
قلم کارنے اس ناپسندیده حالت کی بہت عمده تصور کشی کی ہے ،یہاں تک کہ قاری
کو یہ خیال گذرنے لگتا ہے کہ جو بهی اس حالت سے دوچار ہوتا ہے اس کے لئے
ممکن ہی نہیں ہے کہ وه زندگی میں معمولی سی راحت اورکوئی اچهائی حاصل
کرسکے،اس لئے کہ زندگی کا انحصار دنیا پر ہے اور دنیا کی مثال اس اونٹنی کی
ہے جو سرکش ہوجائے اور بهاگنے لگے ،ان تمام حاالت کو اس نے ایسے مؤثر
پیرایہ بیان میں بیان ک یا ہےجو بہت حسین وجمیل ہے اور پڑھنے والے کے دل و ٔ
دماغ کو حسرت و افسوس اور رنج و الم پر آماده کرتا ہے۔
.4یہاں پر ادیب نے جوالفاظ کا جامہ اختیار کیا ہےوه بہت ہی بلیغ ،
دآلویز اور ایسے الفاظ پر مشتمل ہے جن میں کوئی سقم اور نقص نہیں ہے اورنہ
ہی اجنبیت ،غرابت اور تعقید ہے،ساده عبارت ہے (لیکن ترتیب ،ہم آہنگی اور
انسجا م کے اعتبار سے)گٹهی ہوئی ،مضبوط اور طاقتور ہے،یہ ایسا کالم ہے جو
اپنے ظاہری اور چهوٹے چهوٹے جملوں کے اعتبار سے شاعری نہیں ہے ،ہاں
شاعری کی روح اور اس کی اثرآفرینی اس کے اندر پائی جاتی ہیں۔
اختالف األسالیب األدبیة
تنوع األسالیب
ادبی اسلوب اہل ادب کے رجحان اور ان کی اپنی تخلیق میں کچه لوازمات اور مخصوص
عناصر کی پابندی سے بدلتے رہتے ہیں ،ان میں سے ہر ایک اپنی طبیعت اور ذوق کے
مطابق عمل کرتا ہے ،اور ان چیزوں کا استعمال کرتا ہے جو اس کے عمل میں تاثیر کی
روح پهونک دے۔ اسی وجہ سے انداز بیان مختلف ہوتے ہیں ،اور ادبی عمل بهی اتنے
متنوع ہوتے ہیں کہ ایک اسلوب دوسرے اسلوب سے بہت سی ادبی خصوصیتوں میں مشابہ
نہیں ہوتا ،اور ان کثیر اور متنوع اسلوب کو گننا بہت مشکل ہے۔
األقسام الكبیرة:
البتہ یہ جو بہت سے اسالیب بیان ہیں یہ چند بڑی قسموں کے تحت جمع ہوتے ہیں،
پهر ان بڑی قسموں میں دوخاص طور پر معروف ہیں:پہلی قسم وه ہے جس کے اندر علمی
وفکری چهاپ غالب ہ وتی ہے،اور دوسری قسم وه ہے جسمیں ادبی اور فنی چهاپ غالب
ہوتی ہے جیسا کہ ہم نے اس کو پچهلے صفحات میں بیان کردیا ہے ،ان ہی دونوں کو ادب
عام اور ادب خاص بهی کہا جاتا ہے۔
رہی بات علمی قسم کی تو اس سے مختلف اسالیب نکلتے ہیں جیسے کہ عام فہم
تاریخی اسلوب ،سنجیده منطقی اسلوب اورخشک تعلیمی اسلوب،اور ادب خاص سے فنی
دلکش انداز نکلتا ہے ،اسی طرح مہمیز لگانے واال ت قریری انداز ،علم بدیع واال ادبی انداز
اور با مشقت استعمال کیا جانے واال مصنوعی انداز یہ سب ادب خاص سےنکلتے ہیں۔پهر
ان دونوں سے(ادب عام اور ادب خاص سے)ایک رواں اور عام فہم اسلوب بهی نکلتا ہےجس
میں نہ تو علمی چهاپ کی خشکی ہوتی ہے اور نہ ہی ادبی چهاپ کی چمک اور دمک،
نئے صحافی اسلوب کا تعلق اسی اسلوب سے ہے۔
أمثلة النثر:
ان تمام اسالیب کی مثالیں بهی ہیں اور نمونے بهی ہیں جو ہمارے ادبی ورثہ اور
خزانہ میں موجود ہیں ،مثال کے طور پر حضرت علی ؓبن ابو طالب(المتوفی ۴۰ھ )کے
خطبے اور خطوط ہیں جو معنی کی لطافت ،رعنائی اور قوت و تاثیر سے مزین ہیں ،ایسے
ہی لفظ کا حسن و جمال اور اس کی تاثیر بهی ہے اور ان باتوں کو بلیغ و فصیح اور تقریری
انداز میں پیش کیا ہے،اسکے بعد عربی تحریر و انشا کے امام عبد الحمید بن یحیی ہیں جن
کا انتقال ۱۳۲ھ میں ہوا ،یہ اپنے اس مؤثر اور بلیغ خطوط میں ممتاز ہیں جن خطوط
کے ذریعہ سے انهوں نےایک ایسے انداز/اسلوب کا آغاز کیاجس میں لفظ کی فصاحت کے
ساته ساته معنی کی اثر آفرینی بهی ہے ،اوراس میں مخاطبت کاجو انداز ہے اس میں
مخاطب کے اقتضائے حال کی رعایت کی گئی ہے ،اسی طرح مضمون کے اندر ترتیب
بهی ہے ،ان کے بعد انشا پرداز اور ادیب عبد ہللا بن المقفع کا نمبر آتا ہے جن کا انتقال
۱۴۲ھ میں ہوا ،یہ بالکل عام فہم اور ساده اسلوب میں لکهتے ہیں ان کے وہاں جذباتیت
نہیں ہے ،ان کے اسلوب میں کم الفاظ کے ذریعہ سے طاقتور معانی بیان کئے جاتے ہیں،
اور ان کے اسلوب میں حکمت کو بیان کرنے اور اظہار رائے کی صالحیت ہوتی ہے،اس
کے بعد ابن العمید ہیں جن کا انتقال ۱۵۵ھ میں ہوا ،یہ وه ادیب ہیں جنهوں نے سب
سے پہلے عربی تحریر و انشا کے اندر صنعت لفظی کو داخل کیا،اور محسنات بدیع(علم
بدیع کی ایک شکل) میں اضافہ کیا ،اس کے بعد عربی زبان کے بڑے ادیب ابو عثمان عمر
و بن بحر الجاحظ ہیں جن کا انتقال ۲۵۵ھ میں ہوا ،انهوں نے اپنے لئےایک ایسا شفاف
اسلوب اختیار کیا جو سنجیده علمی چهاپ اور سنجیده ادبی چهاپ سے مرکب ہے ،اسی کے
ساته ساته کالم کے جومخلتف اصناف ہیں تمام اصناف میں بہت ہی عمدگی اور بہتری کے
ساته استعمال کی صالحیت بهی رکهتے ہیں ،اور یہ خاص طور پر حروف جر کے ذریعہ
سے تنوع پیدا کرتے ہیں ،اس کے بعد ابن قتیبہ الدینوری ہے جن کی وفات ۲۶۵ھ
میں ہوئی ،ابن قتیبہ ایسے انداز میں لکهتے ہیں جس حسین اور دآلویز ادبی چهاپ تاریخی
اور علمی چهاپ پر غالب ہوتی ہے ،ایسے ہی ابو الفرج االصفہانی ہیں جن کا انتقال
۳۵۶ھ میں ہ وا تها ،یہ اپنی کتاب “االغانی” میں ایسے اسلوب میں لکهتے ہیں جو بہتے ہوئے
پانی کی طرح رواں اور خوشگوار ہے ،ایسے ہی حریری ہیں جن کا انتقال ۵۱۶ھ میں
ہوا ،یہ وہی ہیں جنهوں نے فن مقامات کو پیش کیایا ان جیسے لوگ(ان کے معاصر یا ان
کی روش پر چلنے والے لوگ)جنهوں ن ے (حریری بعد) زوال و انحطاط کی صدیوں میں
کتابیں لکهی(کیونکہ ان سب کا انداز ایک ہی ہےجس کو حریری نے پیش کر دیا تها)(اور
ان سب کا انداز یہ تها کہ)وه اس ادبی اسلوب میں لکهتے تهے جو مصنوعی تها اور ملمع
سازی کیا ہواتها ،جس میں ادبی چٹکلے اور پر لطف نکتے بیان کئے جاتے ہیں ،ان اسالیب
بیان کے اندرلفظ کی چمک دمک اور ظاہر ی رعنائی معنی کی سنجیدگی پر غالب آتی
ہے،اس طور پر الفاظ کے نیچے معنے کمزور پڑ جاتے ہیں اور معدوم ہونے کے قریب
پہنچ جاتے ہیں ،اس کے بعد (عہد زوال کے اختتام ہی پر) بڑے مؤرخ عبد الرحمن ابن
خلدون ہیں جن کا انتقال ۸۰۸ھ میں ہواتها ،انهوں نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں بہت
ہی آسان تاریخی اسلوب اختیار کیا ہے ،ایسا اسلوب جو ان کے تاریخی موضوع سے بہت
مناسبت رکهتا ہے ،انهوں نےخوداپنے زمانہ کےعام چلن اور روش کے بر خالف ایسا
طریقہ اختیار کیاجو تاریخی ،عام فہم اور سہل تها۔
أمثلة النظم:
جہاں تک عربی شاعری کا تعلق ہے تو آپ دیکهیں گے کہ عربی شاعری بہت زیاده
وجدانی عناصر کی تابع ہوتی ہے،شاعری کے اندر ان وجدانی محرکات کی وجہ سے تاثیر
زیاده بہم پہنچتی ہےاور اس کے حسن و جمال میں اضافہ ہوتا ہے ،البتہ عربی شاعری بهی
عناصر اسلوب کے اختالف کے تابع ہے ،اس اختال ف کی وجہ سےشاعری کے اندر تنوع
پایا جاتا ہے اور کئی کئی مقاصد سامنے آتے ہیں ،مثال کےطور پر آپ متنبی کی شاعری
کو پائیں گے کہ اسمیں فکری کد و کاوش (تخیالت) اور علمی بالغت کا غلبہ ہے،اسی طرح
آپ ابو فراس الحمدانی کی شا عری کو دیکهیں تو آپ کو جوش مارتاہوا جذبہ غالب نظر آئے
گااور اس کے اندربیان کی لطافت بهی پائی جاتی ہے،اس کے مقابلے میں آپ عہد جاہلی
کے عظیم شعراء کےکالم کو دیکهیں تو آپ پائیں گے کہ ان کے اندر انداز بیان کی پختگی،
شاندار اور پرشکوه الفاظ،معنی کی سادگی اور طاقتور اسلوب موجود ہیں ،جہاں تک اسالمی
عہد کے شاعروں کے کالم کا تعلق ہے تو عام طور پر ان کا اسلوب بہت عام فہم ،عمده
تعبیر اور دلکش عبارتوں سے مزین ہے۔
أدب المعاني:
وه لوگ جو اصحاب معانی کہالتے ہیں ،تو یہ وه ادباء ہیں جو اپنی تمام تر کوشش
معانی کو اچها اور عمده بنانے میں خرچ کرتے ہیں ،اور اس کے اندر لطافت پیدا کرنے
کی کوشش کرتے ہیں ،اور معنی کے اندر جدت اور نیا پن ،اور نئے نئے معانی کے انتخاب
پر توجہ دیتے ہیں۔
ایسا ادب(جس میں معنوی پہلو پر توجہ دی جاتی ہے)عام طور پر تہذیب و تمدن کی
صدیوں میں ہوتا ہے (جیسا کہ عہد عباسی اور اس سے پہلے عہداموی)اور یہ اس لئے کیا
جاتا ہے تاکہ تمدنی اور تہذیبی عہد کی زندگی کے تقاضوں کو قبول کیا جائے ،اسی طرح
تمدنی ضروریات میں جو تنوع ہے اورعلوم و معارف کا عام ہونا اور بہت سے ادبی پہلؤوں
کا سامنے آنا یہ تمام باتیں اس بات کی متقاضی ہوتی ہیں کہ اس طرح کاادب زندگی کی
ضروریات کے موافق آگے بڑھتا رہے،اور یہ پہلو ہمیں شاعری کے اعتبار سے متنبی اور
کبهی کبهی ابو تمام کے یہانملتا ہے۔
النثر الفني:
جہاں تک ان(ترقی اور تمدنی) صدیوں میں نثرفنی کا تعلق ہے تووه ان صدیوں میں
پهیلتا ہے ،قوت حاصل کرتا ہےاور فروغ پاتا ہے،اور ان صدیوں میں نثری کالم کے اصناف
بهی ترقی کرتے ہیں ،اس لئے کہ ان نثری صنفوں کے اندر اس بات کی زیاده صالحیت
ہوتی ہے کہ وه ان ادبی کاوشوں کا میدان بن سکیں جو ترقی و تمدن کی صدیوں میں عام
ہوتی ہیں،عربی زبان میں ہ میں اس ادب کا آغاز اس وقت سے ملتا ہے جب سے اسالم کا
سورج طلوع ہونا شروع ہوتا ہے،اور عہد عباسی کے نصف اول میں یہ مزید طاقتور ہوتا
ہے اپنے کمال کو پہنچ جاتاہے۔
اس شاندار زمانہ کے ادباء کی تحریروں میں عربی ادب اپنےزنده جاوید اور طاقتور
نمونوں سے بهرا ہوا ہے ،جیسے کہ عبد الحمید ہیں،عبد ہللا بن مقفع ہیں اور جاحظ اور ان
کے عالوه علمی چهاپ والے بهی اس زمره میں شامل ہیں۔
الشعر:
جہاں تک اس زمانہ کی شاعری کا تعلق ہے تو یہ دوسری صنف بهی تہذیبی عوامل
اور ان کے تقاضوں کے تابع رہی ہے ،چنانچہ اس عہد میں معانی کو عمده بنانے اور اس
میں جدت پیدا کرنے پر توجہ دی گئی ،نئی نئی باتوں کو بهی اختیار کیا گیا ،ایسے ہی اس
عہد میں شاعری کو نئے نئے اورعام ہوجانے والے علمی اور فنی رجحانات کا تابع بنا گیا
،چنانچہ جس وقت شاعروں کے اندر فنی اور وجدانی رجحان غالب ہونے لگتا ہے تو پهر
وه نئے نئے معانی ایجاد کرنے پر توجہ دیتے ہیں ،اور خالص فنی صورتیں پیدا کرنے
کی طرف مائل ہوتے ہیں،ایسے ہی یہ لوگ عوام کی خواہشات اور تقاضوں کو اپیل کرنے
کی طرف توجہ دیتے ہیں،لہذااسوقت( اس رجحان کے نتیجہ میں) ادب کے اندر وقار اور
سنجیدگی کمزور ہوجاتی ہے،اس کی مثال ہمیں بشار بن برد ،ابو العتاہیہ ،ابو نواس ،ابن
ہانی االندلسی یاان شعرا ء کے اشعار میں ملتی ہے جنهوں نے ان کے طریقےکو عہد عباسی
اور اندلس کے روشن اور تابناک عہد میں اختیار کیا ۔
اور جب شعراء کے اندر علمی اور فکری چهاپ غالب آجائے تو پهر شعراء(اس
رجحان کے غلبہ کی وجہ سے)ان شکلوں اور صورتوں کو بیان کرتے ہیں جن کا تعلق
انسان کے ذہن و دماغ سے ہوتا ہے ،اور فکری شکلوں کو گرفت میں التے ہیں،اور باریک
عقلی نکتوں کو خشک علمی روح کے ساته بیان کرتے ہیں ،اس کے نتیجہ میں طبعی طور
پریہ کمزور پڑجاتے ہیں کہ یہ عبارت کی پختگی اور لطافت ،تعبیر کی دلکشی اور الفاظ
کی سالست و روانی پر توجہ دیں ،اور جب جب ان کے ادب میں یہ خامی آتی ہے تو وه
اس کو ایسے اضافی محرکات کو شامل کرکےدور کرتے ہیں جن کا تعلق بالغت اور علم
بدیع سے ہے،اس کی مثال ہمیں ابو تمام کےہاں اور کبهی متنبی کے ہاں ملتی ہے ،اسی
کی طرف متنبی نے بهی اشاره کیا ہے جبکہ اس نے خود اپنے اور ابو تمام (کی شاعری)کو
بیان کیا ہے“:میں اور ابو تم ا م تو دانشور (مفکر)ہیں اور شاعر تو اصل میں بحتری
ہے”حاالنکہ بحتری ابو تمام کا شاگرد ہے لیکن (ابو تمام کا شاگرد ہونے کے باوجود) اس
نے اپنے آپ کو بچا لیا تها کہ وه شاعری کے ادبی پہلو میں تفریط سے کام لے۔
نماذج العهد األدبي األول
من األدب الجاھلي
الشعر:
اس پہلے ادبی زمانہ کی طبیعت کا تقاضا یہ تها کہ اس عہد میں –جیساکہ ہم نے
پہلے بیان کردیاہے -نثر کے مقابلہ میں شاعری زیاده ترقی کرے ،اس لئے کہ شاعری
وجدانی صفت اور خوبی سے قریب تر ہےیعنی اس کے اندر جذبات کی قوت اور الفاظ کا
شکوه اور جمال بهی پایا جاتا ہے ،اور کچه نہ کچه اس کے اندر خیال کی ندرت پائی جاتی
ہے ،اور نثر چونکہ علمی چهاپ سے قریب تر ہےلہذا اس کے لئے ضروری ہے ترتیب
کے ساته سوچنااور تہذیبی اور تمدنی چیزوں کو اختیار کرنا ،اسی وجہ سے شاعری نے
اس پہلے ادبی زمانہ میں دیگر اصناف کے مقابلہ میں زیاده ترقی کی ،اس زمانہ میں شاعری
کا اسلوب پختہ تعبیر واال،پرشکوه اور شاندار الفاظ واالتها ،اور اس کے اندر بڑی دآلویزی
اور دلکشی تهی،اور یہ تمام چیزیں اس کے اندر طبعی طور پر پائی جارہی تهیں،لیکن افکار
کی بے ترتیبی تهی۔
المعلقات:
قدیم ترین شاعری کےکمال درجہ کے نمونے جو تاریخ نے ہمارے لئے محفوظ
کردئیے ہیں وه اشعار ہیں جو حرب بسوس کے سلسلہ میں کہے گئے ہیں ،اور یہ جنگ
اسالم سے ڈیڑھ صدی قبل ہوئی تهی،یہ جنگ بڑی لمبی تهی اور اس میں کہے گئے اشعار
ایسے واقعات اور حوادث سے بهرے ہوئے ہیں جو جذبات کے اظہار کا سبب بنتے ہیں اور
خیاالت کے اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں۔
عصر جاہلی کی شاعری کے شاندار اور پرشکوه نمونوں میں ان کے وه لمبے
قصیدے ہیں جنهیں معلقات کا نام دیا گیا ہے ،اور ان کی تعداد سات ہیں یا دس ہیں ،ان
معلقات کا آغاز محبوب کے دیا ر سے اور اس کے شوق سے ہوتا ہے ،جتنے بهی اصحاب
معلقات ہیں وه اپنے اپنے محبوب اور دیار محبوب کاذکر کرتے ہیں اس کے بعد( اپنے
اپنےرجحان کے اعتبار سے) عموما اپنی اونٹنی یا گهوڑے کے وصف کو بیان کرتے ہیں،
پهر اپنے ذوق اور اپنی چاہت کے اعتبار سے دیگر موضوعات کولیتےہیں،لیکن ہر شاعر
کے سامنے ایک مرکزی اور بنیادی مقصد ہے جس کووه اپنے معلقہ کے اہم موضوع کے
طور پر رکهتا ہے۔
اصحاب معلقات امرؤ القیس ،زہیر بن ابوسلمی ،لبید بن ربیعہ ،طرفہ بن عبد ،عنتره
بن شداد العبسی ،عمرو بن کلثوم التغلبی ،حارث بن حلزه ،اور ان کے عالوه دس میں جو
باقی ره گئے وه تین ہیں اعشی بن میمون ،نابغہ زبیانی اور عبید بن ابرص۔
اور ہم آئنده جو ان کے شعری نمونے پیش کریں گے وه پیش کرنا ان موضوعات
کے اعتبار سے ہوگا جن کا اس زمانہ میں اہتمام کیا جاتا تها ،نہ کہ معلقات میں ان کی
ترتیب (مکانی یا زمنی) کے اعتبار سے۔
الحماسة والفخر:
یہ اشعار عنتره بن شداد کے معلقہ سے ماخوذ ہیں ،یہ اشعار حماسہ اور فخر کے
طاقتور جذبہ کووصف کے پیرایہ میں بیان کررہے ہیں جو مؤثر بهی ہے اور بہت حسین و
دلکش بهی۔
(لغوی تشریح -:جواء :ایک جگہ کا نام۔عمی صباحا :دور جاہلی کےسالم کےالفاظ
میں ہے۔ بالغی اعتبار سے یہ امر تحسر کا ہے)
۱۔ جوا ء کے مقام پر موجود عبلہ کے اے مکان کچه تو کہو( کہ یہاں کون لوگ
تهے؟کہاں چلے گئے؟)اے دار عبلہ ! تمہیں صبح مبارک ہو اور تو سالمتی سے ره/میرا
سالم قبول کرو۔
(لغوی تشریح -:آنسۃ :محترمہ ،خاتون۔ غض ،یغض ،غضا:جهکانا۔عنان:گردن)
۲۔یہ گهر ایک ایسی خاتون کا ہےجس کی نگاہیں جهکی ہوئی ہیں ،گردن جهکی ہوئی
ہے ،اور اس کی مسکراہٹ بهی بہت ہی عمده اور لذت دینے والی ہے۔
(لغوی تشریح -:سمح :نرم ،آسان۔مخالقۃ :ملنا،سلوک ،معاملہ)
۳۔ جو کچه تم جانتی ہو /تمہارے علم میں جو میرے حاالت ہیں اتنا ہی میری تعریف
کرو ،اس لئےمجه سے ملنابہت آسان ہوتا ہےجبکہ میرے ساته زیادتی نہ کی جائے۔
(لغوی تشریح -:باسل -:ناقابل برداشت۔ مر:تلخ ،کڑوا۔ مذاقۃ -:چکهنے کی چیز ،سزا
،سختی۔طعم :مزه۔علقم :اندراین کے درخت کا پهل جو بہت ہی کڑوا ہوتا ہے)
۴۔لیکن جب مجه کو ستایا جائے تو میرا ظلم بهی بہت سخت ہوگا ،کہ اس کی سختی
اتنی ہی کڑوی اور تلخ ہوگی جس طریقے سے علقم درخت کے پهل کا کڑواپن یاتلخی ہوتی
ہے۔
(لغوی تشریح -:مدامۃ :شراب۔ رکد ،یرکد ،رکودا :ٹهہرنا۔ ہاجر (ج) ہواجر:دوپہر
کاشدید گرمی واال وقت ،دن کا درمیانی حصہ جس میں گرمی بہت تیز پڑتی ہے خاص طور
س ے جہاں صحرا اور ریت ہو تو وہاں بالکل آگ کی طرح تپتی ہے ،یہ وقت ہوتا ہے آرام
کا ،اور آرام وہی کرسکتا ہے جس کے پاس مال و دولت ہو۔ مشوف کا موصوف یہاں پر
محذوف ہے ،اصل میں ہے بالدینار المشوف ،اور مشوف کہتے ہیں چمکایا ہوا ،صاف
کیاہوا۔معلم:نشان زده۔دونوں سے مراد درہم و دینار ہے ،اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان
دونوں سے مراد وه اونٹنی ہے جسے تارکول لگا دیا گیا ہو۔ دونوں معنوں کی گنجائش
ہےیہاں پر)
۵۔ جب دوپہر کا وقت ہوجاتاہے تو پهر میں درہم و دینار خرچ کرکےشراب پیتا ہوں۔
(لغوی تشریح -:سکر ،یسکر (س) :نشہ میں آنا۔استهلک:خرچ کرناِ ،عرض
(ج)اعراض :عزت و آبرو۔وافر :محفوظ ،کلم ،یکلم:زخم لگانا)
۶۔ جب مجه پر نشہ چڑھتا ہے تو پهر میں اپنا مال خرچ کرتا ہوں اس حال میں کہ
میری عزت و آبرو پر کوئی حرف نہیں آتا۔
صر عن :کوتاہی
(لغوی تشریح -:صحا ،یصحو ،صحوا :ہوش میں آنا ،بیدار ہونا ،ق ّ
کرنا۔ قصر علی :کسی پر انحصار کرنا ،محدود کردینا۔ ندی :سخا وفیاضی۔ شمائل :عادات
و اطوار۔ تکرم :فضل وکمال ،سخاوت۔ )
۷۔ جب میں ہوش میں آتا ہوں تو میں جود و سخا سے پیچهے نہیں ہٹتا جیساکہ تو
میرے عادات و اطوار اور فضل و کرم کو جانتی ہے۔
(لغوی تشریح -:شهد :حاضر ہونا۔ وقیعۃ (ج) وقائع:جنگ ،لڑائی ،معرکہ۔ غشی ،
عف ،ی ِعف ،عفا :عفت و پاکدامنی کا اظہار کرنا۔ مغنم :مال
یغشی :ڈھانپ لینا ،غالب آنا۔ ّ
غنیمت)
۸۔ تم کووه بتالئے گا جو جنگوں میں موجود رہا ہےکہ میں جنگ میں چهایا رہتا ہوں،
اور مال غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی عفت اور استغنا کا اظہار کرتا ہوں۔
(لغوی تشریح -:دجّج :ہتهیار بند ہونا۔ کمی (ج) کماة :بہادر ،زره پوش۔ نزال نازل کا
مصدر ہے:مقابلہ کرنا ،جنگ کرنا۔ أمعن :گہرائی میں جانا۔ ھرب :فرار اختیار کرنا ،بهاگنا۔
استسلم :سپرد کرنا ،جهکنا ،بات مان لینا۔ سر تسلیم خم کردینا)
۹۔ کتنے ایسے ہتهیار بند ہیں کہ بڑے بڑے جانباز /زره پوش ان سے لڑنے کو
ناپسند کرتے ہیں ،ایسا جنگجو جو نہ تو بهاگنے واال ہے اور نہ ہی شکست تسلیم کرتا ہے۔
(لغوی تشریح -:جاد :کا م کو بحسن و خوبی انجام دینا۔عاجل:یہ صفت ہے اصل میں
صدق:مضبوط،ٹهوس۔ کعوب :نیزه میں لگی ہوئی طعنۃ عاجلۃ :فوری وار۔مثقف:سدھایا ہوا۔ َ
لکڑی ،جس میں تهوڑا گهماؤ ہوتا ہے اور وہیں سے اس کو پکڑا جا تا ہے ،اس کو قبضہ
بهی کہتے ہیں۔ قوم:سیدھارکهنا ،دھار تیز کرنا)
۱۰۔ ایسے جنگجو کی طرف میرا ہاته بڑھتا ہے بہت بہتری کے ساته فوری نیزے
کے وار کے ساته ،اور ایسے نیزے سے وار کرتا ہوں جو سدھایا ہوا ہے ،اس کا قبضہ
بہت مضبوط ہےاور (اس کی دھار جب کند ہوجاتی ہے تو)اس کو تیز کردیا جاتا ہے۔
(لغوی تشریح -:شک :پهاڑ دینا۔ االصم :گونگا ،قاتل۔ ثیاب :لوہے کی زره مراد ہے۔
قنا :نیزه۔ )
۱۱۔ تو میں اس جنگجو کی زره کو تیز نیزه پهاڑدیتا ہوں ،اورآزاد اور شریف کو
نیزے سے مارنا یہ کوئی ناجائز امر نہیں ہے۔
کر:
(لغوی تشریح -:اقبل :آنا۔ تذامر :ایک دوسرے کو لڑائی یا جنگ پر آماده کرنا۔ ّ
حملہ کرنا۔ غیر مذمم :جو قابل مذمت نہ ہو یعنی قابل تعریف ہو)
۱۲۔ جب میں نے قوم کو دیکها کہ وه سب کے سب آرہے ہیں اور ایک دوسرے کو
جنگ پر آماده کررہے ہیں،تو میں نے بهی قابل تعریف حملہ کیا۔
(لغوی تشریح -:ش َ
طن (ج) اشطان :رسی۔ لبان :گهوڑے کاسینہ۔ ادھم :کاال گهوڑا)
۱۳۔ وه عنتره کی جے جے بول رہے تهےجبکہ کنویں میں ڈالی گئی رسیوں کی
مانند (لمبے لمبے) نیزے گهوڑے کے سینے پر پڑرہے تهے ۔(یعنی جس طرح کنویں میں
لمبی لمبی رسیوں کے ڈالنے اور کهینچنے کا منظر ہوتا ہے بالکل اسی طرح کا منظر
گهوڑے کے سینوں پر نیزے کے پڑنےکا تها)۔
(لغوی تشریح :ثغره :گردن کا حصہ۔ تسربل بالدم :خون آلود ہونا)
۱۴۔ میں مسلسل ان پر تیر چالتا رہاگهوڑے کی گردن کے اوپری حصہ اور سینے
کا سہارا لےکر،یہاں تک کہ گهوڑا خون آلود ہوگیا۔
(لغوی تشریح -:ازور عن :ہٹنا ،الگ ہونا۔ وقع :پڑنا ،چوٹ پڑنا۔ شکا الی :شکایت
کرنا ،تکلیف کا اظہار کرنا۔ عبرة(ج)عبرات :آنسو۔ تحمحم :گهوڑے کا ہنہنانا۔)
۱۵۔ گهوڑے نے اپنے سینہ پر نیزه کی چوٹ کی وجہ سے منه پهیر لیا(دشمنوں کے
سامنے سے ہٹ گیا)اور مجه سے تکلیف کا اظہار بهی کیا آنسو ٹپکاکر اور ہنہناکر۔
(لغوی تشریح -:اشتکی :شکایت کرنا)
۱۶۔ اگر وه بولنا جانتا تو وه (بذریعہ الفاظ)شکایت کرتا ،اگر وه کالم کرناجانتا تو ہم
سے ہم کالم ضرور ہوتا۔
(لغوی تشریح -:قیل :کہنا۔ ویک :واه/الم تر(کیا تم نہیں دیکه رہے)۔ اق َدم :آگے
بڑھنا۔سقم :اندر کی کڑھن اور بے چینی)
۱۷۔ میرے دل کو مطمئن کردیا ،تسلی دے دی اوربے چینی کودور کردیاشہسواروں
کے یہ کہنے نے کہ واه عنتره !تم آگے بڑھو/اقدام کرو۔
(لغوی تشریح -:گهڑسواروں کی جماعت۔ اقتحم:گهسنا۔ خبار:نرم،مالئم یا ہموار زمین۔
عابس (ج) عوابس :منه بناتے ہوئے ،ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے۔ شیظمۃ :بڑے ڈیل
ڈول واال/بڑے بالوں واال گهوڑا۔ شیظم:چهوٹے بالوں واال گهوڑا۔)
۱۸۔ اور گهوڑوں کی جماعت میدان جنگ میں آگے گهستی جارہی تهی ،منه بسورتے
ہوئےاس میں کچه گهوڑے بڑے ڈیل ڈول والے بڑے بالوں والے تهے اور دوسرے کم بالوں
والے گهوڑے تهے۔
(اگر عنتره کے بار ے میں کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو ایک مستقل کتا ب ہے "ابو
الفوارس عنتره" کے نام سے ،جس کے مؤلف محمد فرید ابوحدید ہیں)
یہ اشعار بهی فخر و مباہات کے طاقتور جذبہ کو بیان کرتے ہیں جو عمرو بن کلثوم
التغلبی کے ہیں ،اور اس کے شاندار معلقہ سے ماخوذ ہیں،جس کا مطلع یہ ہے:
(لغوی تشریح -:ھبّ -:اٹهنا ،بیدار ہونا۔ صحن :پلیٹ ،جام۔ اصبح :جام صبوحی پیش
کرنا ،صبح کی شراب پالنا۔ اندرین :یہ ایک جگہ کا نا م ہے)
۱۔اے(ام عمرو!) کیا تم اپنا جام لےکر نہیں آؤگی/اے ساقئ گلفام ! تم جام لےکر تو
آؤ ،اور صبح صبح کی شراب پالؤ ،اور (شراب جب پالنا تو)اندرین کی شراب نہ چهوڑنا۔
۲۔اے ام عمرو!میری طاقت وقوت میرے قبضہ میں ہےکہ اس نےتم سے پہلے بهی
دشمنوں کوتهکا دیا ہےاور وه ان کے سامنے جهکی نہیں۔
(لغوی تشریح:سام:اھان و اذل:ذلیل کرنا)
۔جب کوئی بادشاه لوگوں کو ذلیل کرتا ہے تو ہم انکار کردیتےہیں کہ ہم ذلت
کوبرداشت کریں۔
یہ اشعار بهی فخر و مباہات کے طاقتور جذبہ کو بیان کرتے ہیں جو عمرو بن کلثوم
التغلبی کے ہیں ،اور اس کے شاندار معلقہ سے ماخوذ ہیں،جس کا مطلع یہ ہے:
(لغوی تشریح -:ھبّ -:اٹهنا ،بیدار ہونا۔ صحن :پلیٹ ،جام۔ اصبح :جام صبوحی پیش
کرنا ،صبح کی شراب پالنا۔ اندرین :یہ ایک جگہ کا نا م ہے)
۱۔اے(ام عمرو!) کیا تم اپنا جام لےکر نہیں آؤگی/اے ساقئ گلفام ! تم جام لےکر تو
آؤ ،اور صبح صبح کی شراب پالؤ ،اور (شراب جب پالنا تو)اندرین کی شراب نہ چهوڑنا۔
۔اے عمرو !میری طاقت وقوت میرے قبضہ میں ہےکہ اس نےتم سے پہلے بهی
دشمنوں کوتهکا دیا ہےاور وه ان کے سامنے جهکی نہیں۔
(لغوی تشریح:سام:اھان و اذل:ذلیل کرنا)
۔جب کوئی بادشاه لوگوں کو ذلیل کرتا ہے تو ہم انکار کردیتےہیں کہ ہم ذلت
کوبرداشت کریں۔
الغزل والتشبیب:
یہ اشعار عشق و محبت کے ہیں ،یعنی اس میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے ،اور
یہ اشعار عہد جاہلی کے عظیم شاعرملک ضلیل(آواره گردی کا راستہ اختیار کرنے واال)
امرؤ القیس کے ہیں،اور یہ اس کے شاندار معلقہ سے ماخوذ ہیں ،جس کا مطلع درج ذیل
ہے:
(لغوی تشریح:سقط اللوی:وه جگہ جہاں سے ریت کٹتی ہو ،عفا ،
یعفو:مٹنا،رسم:نشان۔نسج(ض):بننا/یہاں پر معنی ہیں مٹی وغیره اوپر سے ڈالنا۔ َجنوب:جنوب
سے چلنے والی ہوا۔شمال:شمال سے چلنے والی ہوا)
۱،۲۔ذرا ٹهہرو!(قافلے آگے مت بڑھاؤ) تاکہ ہم اپنے محبوب اور ا س کے دیارکو یاد
کرکے رولیں ،اور اس کا مکان سقط اللوی نامی جگہ پر دخول سے ہوکر حومل اور توضح
سے گذرتے ہوئے مقراة تک پهیالہواہے ،اور ابهی اس کے نشانات مٹے نہیں ہیں ،اس لئے
کہ جنوبی اور شمالی ہواؤں نے ان پر مٹی ڈال دی ہے ۔
(لغویتشریح:بعر:مینگنی۔ رئم(ج)آرام:ہرنی۔ عرصاة:صحن۔ قیعان:کهالہواحصہ/چٹیل
میدان۔ َحبّ :دانہ۔)
۳۔یہاں کے صحنوں اور کهلی جگہوں میں آپ ہرنیوں کی مینگنیوں کو دیکهیں
گےایسالگ رہ ا ہے کہ جیسے یہاں پرمرچ کے (چهوٹے چهوٹے )دانے ڈال دئیے گئے ہیں۔
(لغوی تشریح:تحمل(تفعل)کوچ کرنا/سفر کرنا۔بین:جدائی۔سمرة(ج)سمرات:ببول
کےدرخت۔ ناقف:توڑنےواال۔ حنظل:اندرائن /اندرائن کا درخت جس کا پهل نارنگی جیسا
مگر اندر سے انتہائی تلخ ہوتا ہے،اور جوآنکهوں میں بہت تیز لگتا ہے جب آپ اس کو
توڑیں گےتو الزمی طور پر آنکهیں بہہ پڑیں گی)
۴۔جس دن ان لوگوں(معشوق کے خاندان والوں)نے کوچ کیا تهااس دن جدائی کی
صبح میں محلہ میں ببول کے درختوں کے پاس کهڑا (رو رہا)تها جیسا کہ حنظل کا پهل
توڑنے واال(آنسو بہاتا ہے)۔
(لغوی تشریح:صاحب(ج)صحب:دوست/رفقائے سفر)
۵۔ تومیرے دوست میری خاطر اپنی سواریوں کو روکتے ہوئے کہنے لگےکہ رنج و
غم کی وجہ سے اپنے آپ کو ہالک نہ کرواور صبر و برداشت اور تحمل سے کام لو۔
آگے کہتا ہے:
(لغوی تشریح:فاض(الدمع):آنسو کا بہنا۔بل ّ:تر کردینا/بهگونا۔صبابۃ:عشق و
محبت۔نحر:گردن۔محمل:زین/ہودج)
۶۔میری آنکهوں سے شدت عشق و محبت کی وجہ سے آنسو بہہ کر میری گردن(یا
سینہ)تک آگئے ہیں یہاں تک کہ میرے آنسؤوں نے میرے محمل کو بهی تر کردیا۔
(لغوی تشریح:اھرق(افعال):بہانا۔شفاء:شفایابی۔دارس:مٹاہوا۔معول:بهروسہ)
۷۔میری بیماری کی دواان بہتے ہوئے آنسؤوں میں ہے،تو کیا مٹے ہوئے نشانات
کاکوئی بهروسہ کیا جاسکتا ہے۔
۸۔تمہارے چلے جانے کے بعد مجهے کچه اچهے ایام بهی ملے اور خاص طور سے
وه ایام جو جلجل نامی مقام پر گذارے۔
اور آگے کچه سخت ترین لہجہ میں کہتا ہے:
(لغوی تشریح:افاطم:منادی مرخم ہے اصل میں ہے یا فاطمۃ۔تدلل:ناز و
انداز/نخرے۔ازعم(افعال):طے کرنا/فیصلہ کرنا۔صرم:توڑنا /کاٹنا ۔اجمل(افعال):کسی کام کو
اچهے انداز میں انجام دینا)
۹۔اے فاطمہ!اپنےذرا یہ ناز وانداز کم کرو،اگر تم نے مجه سے قطع تعلق کا فیصلہ
کر ہی لیا ہے(ت وٹهیک ہے)لیکن (قطع تعلق کا)اچها انداز اختیار کرو۔
(لغوی تشریح:خلیقۃ:عادت۔ساء(ن):برا لگنا۔سلّ:پهینک دینا/نکال لینا۔انسل:نکل جانا)
۱۰۔اگر تمہیں میری کوئی عادت بری لگی ہےتو تم میرے کپڑے سےاپنے کپڑے
نکال لو(تم میرے تقدس کو اپنے دل سے نکال دو)تو وه نکل جائے گی۔
دوباره کہتا ہے:
کاآلہ/گوشہ
ٔ چیرنے بہانا۔سهم(ج)سهام:تیر، تشریح:ذرف:آنسو (لغوی
چشم۔اعشار:ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا۔مقتل:ٹوٹا ہوا)
۱۱۔تم نے آنسؤوں کی جو لڑیاں پروئی ہیں صرف اور صرف اس لئے کہ تم مجهے
اپنے نینوں کےکٹان سےمیرے زخمی اور غموں سے نڈھال چورچور دل پر (اور)تیر چالؤ۔
(لغوی تشریح:مهفهفۃ:وه لڑکی یا عورت جس کی کمر پتلی ہو۔مفاضۃ :جس کے پیٹ
کا گوشت باہر لٹک رہا ہو(بڑا ہونے کی وجہ سے)تریبۃ (ج)ترائب:ہار پہننے کی
جگہ/سینہ۔مصقولۃ:چمکتا ہوا/چمکایا ہوا۔سجنجل:آئینہ/سونےیا چاندی یا زعفران کا
پانی/سونے کے پانی سے بنا ہوا آئینہ۔)
۱۲۔یہ پتلی کمر والی بڑی گوری چٹی اورنازک جسم والی ہےاس کاحلقوم/سینہ
سونے کے پانی سے بنے ہوئے آئینہ کی طرح چمک رہا ہے۔
(لغوی تشریح:منارة (ج)منائر:قندیل۔ممسی:رات۔ راھب(ج)رھبان:دنیابیزار۔تبتل:زہد
اختیار کرلینا)
۱۳۔(جب )وه عشاء کے وقت(نکلتی ہے تواپنے روشن چہره سے)تاریکی کو روشنی
میں بدل دیتی ہے ،جیسا کہ تاریک رات میں اس دنیا بیزار راہب کی قندیل ہو جس نے
بالکل تبتل کی زندگی اختیار کررکهی ہو۔
دیکهنا۔اسبکر(استفعال):لیٹنا/دراز ہونا۔درع
ّ (لغوی تشریح:رنا(ن):ٹکٹکی باندھ کے
(ج)ادرع،دروع:عورت کی قمیص مجول:چهوٹے چهوٹے کپڑے/نائٹ دریس)
۱۴۔اس جیسی حسین و جمیل خاتون کی طرف بڑے بڑے باوقار لوگ بهی ٹکٹکی
باندھ کر عشق و محبت کی نگاه سے دیکهنے کو مجبور ہوجاتے ہیں(خاص طور سے اس
وقت)جب یہ درع اور مجول کے درمیانی یعنی چهوٹے چهوٹے کپڑے پہن کر (اپنے سونے
کی جگہ پر)دراز ہوتی ہے۔
(لغوی تشریح:عمایۃ:کهیل کود /نوجوانی/لڑکپن۔تسل:ہٹنا/دور ہونا۔انسلی(انفعال):زائل
ہونا/دور ہونا)
۱۵۔آدمیوں سے (جب عشق و محبت ان میں داخل ہوتی ہے)بچپن کی اٹکهیلیاں دور
ہوجاتی ہیں،لیکن میرا دل اب بهی تمہاری محبت سے الگ نہیں ہوا ہے۔
الوصف:
وه اپنی رات کے تعلق سے بیان کرتا ہے کہ اس کی رات کیسے گزرتی ہے ،اور
پهر رات کتنی لمبی لگتی ہے اس کو بیان کرتا ہے ،اور اس کا ایسا شانداروصف بیان کرتا
ہے جس میں اس کے خیال کی زر خیزی اور شادابی نظر آتی ہے۔ وه کہتا ہے:
(لغوی تشریح :موج البحر :سمندر کی موجیں۔ ارخی ،یرخی ،ارخاء :گرانا۔ سدل
(ج) سدول :پردے۔ابتلی :آزمانا ،امتحان لینا)
()۱سمندر کی موجوں کی مانند تاریک راتیں ہیں کہ جنهوں نےمختلف رنگ والم
کے مجه پر تاریک پردے ڈال دئیے ہیں تاکہ وه میرا امتحان لیں۔
(لغوی تشریح:تمطی (تفعل):دراز ہونا ،لیٹنا۔صلب (ج) اصالب:پیٹه۔
اردف(افعال):پیچهے بٹهانا۔ عجز (ج) اعجاز :پچهال حصہ۔ ناء(ن) رکهنا ،بهاری چیز
رکهنا۔کلکل :سینہ۔)
( ) ۲دھیرے دھیرے رات جب بهیگ گئی تو پهر میں نے اس وقت کہا/جب رات نے
اپنی پیٹه رکه دی اور یکے بعد دیگرے اپنے پچهلے حصہ مال دئیےاور پهر زمین پر اپنا
سینہ رکه دیایعنی جب رات اپنے شباب کو پہنچ گئی تو اس وقت میں نے رات کو مخاطب
کیا۔
(لغوی تشریح :انجلی:چهٹنا،صاف ہونا،ب صلہ کے ساته النے کے معنی میں ہے۔
امثل:انفع ،اجدی)
( ) ۳اے لمبی رات! کیا تو صبح لے کر نہیں آئے گی ،حاالنکہ تیری جانب سے دن
کا طلوع ہونامیرے لئے بہتر نہیں ہے۔
ویصف فرسه (:اب اپنے گهوڑے کا سراپا بیان کررہا ہے):
(لغوی تشریح:منجرد کا موصوف محذوف ہے ،اصل میں بفرس منجرد ،اغتذی:صبح
تڑکے نکلنا۔ وکنۃ:وکنات:گهونسلے۔منجرد:وه گهوڑا جس کے بال کم ہو۔قید االوابد :وه گهوڑا
جو جنگلی گهوڑوں کو دوڑ ا کر پکڑ لیتا ہو۔آبدة (ج) اوابد:جنگلی جانور۔ ھیکل :قوی،
مضبوط)
( )۱میں صبح تڑکے نکلتا ہوں (سورج نکلنے سے پہلے ہی اس وقت )جبکہ پرندے
اپنے گهونسلوں میں ہوتے ہیں،ایک ایسے گهوڑے پر سوار ہوکر جو کم بالوں واال ہے،
جنگلی جانوروں کو دوڑاکرپکڑ لیتا ہے ،اور بہت مضبوط پیروں واال ہے۔
(لغوی تشریحِ :مك ٌَّر ِمف ٌَّر :موقع سے پیچهے ہٹکر پهرحملہ کردینے واال۔مقبل:اقدام
کرنےواال۔ مدبر :پیچهے ہٹ جانے واال۔)
() ۲اور یہ گهوڑا ایک ہی وقت میں پلٹ کر وار کرنے واال ہے اور موقع کی نزاکت
سے پیچهے ہٹنے واال ہے ،اور بیک وقت آگے بڑھتا ہے اور پیچهے دب جاتا ہے۔پہاڑی
چٹان کی مانند ،اس جیسی چٹان کو سیالب کی بہاؤ نےنیچے کو اوپر سے گرادیاہو۔
(لغوی تشریح :کمیت:وه گهوڑا جو سیاه اور سفید رنگ کا
ہو/مضبوط۔زلّ:پهلسنا۔لبد:زین جو گهوڑے کی پیٹه کے اوپر رکهی جاتی ہے۔صفواء :چکنی
چٹان ،پتهر۔متنزل:بارش کا پانی)
()۳میں نکلتا ہوں ایسے گهوڑے پر سوار ہوکر جو کالے اور سفید رنگ کا مضبوط
و طاقتور ہے کہ زین اس کی پیٹه سے پهسل کر گر جاتی ہےجس طریقے سے چکنا پتهر
بارش کے پانی کی وجہ سے پهسل کر گرجاتا ہے۔
(لغوی تشریح :دریر :وه گهوڑا جو ایک ہی جگہ چکر کاٹتا ہو ،خذروف:لٹو۔ولید:بچہ۔
امر:گهمانا۔تقلب:الٹنا پلٹنا۔ خیط:دھاگا ،یہاں پر مراد ہے لتی۔ موصل:موٹی ،بٹی ہوئی)
ّ
( )۴یہ ایسا گهوڑا ہے جو گوالئی میں بهاگتا ہے/چکر کاٹتا ہےیا ایسے ہی چکر کاٹتا
ہے جس طریقے سے بچے کا لٹو ہوتا ہےجس کو اس کی ہتهیلی کا الٹنا پلٹنا گهماتا ہے،
ایک مضبوط دھاگے سے لپیٹ کر۔
(لغوی تشریح:ایطل :کمر کے پاس جو دائیں بائیں پہلو ہوتے ہیں اس کو “ایطل” کہتے
ہیں۔ساق :پنڈلی۔نعامۃ:شترمرغ۔ارخاء:چال۔ ِسرحان :بهیڑیا۔ تقریب :ایک چال کا نام ہے اس
میں گویا اگلے پچهلے پیروں کو ساته ساته رکها جاتا ہے۔تتفل :لومڑی کا بچہ۔)
() ۵اس گهوڑے کے دو پہلو ہیں جیسا کہ ہرنی کے ہوتے ہیں ،اور اسکی پنڈلیاں
شترمرغ کی پنڈلیاں ہیں ،اور اس کی رفتار بهیڑیے کی رفتار ہے ،اور لومڑی کی دلکی
چال کی طرح اس کی چال بهی ہے۔
اور ایسے ہی امرؤ القیس دوسرے اشعار میں کہتا ہے جس میں بہت ہی شاندار تشبیہ
کا استعمال کیا ہےاور اس نے اپنی خودداری بهی بیان کی ہے:
(لغوی تشریح:عناب:ایک خاص قسم کی گهاس ہے (شایدپهول گوبهی )۔حشف:وه
کجهور جو پکنے سے پہلے ہی خراب ہوجائے۔بالی:بوسیده ،خراب)
() ۱پرندوں کے دل /پرندےجبکہ وه آسوده حال ہوتے ہیں یا وه بهوکے ہوتے ہیں تو
ایسا لگتا ہے کہ ان کے گهونسلوں کے پاس عناب کی ایک سوکهی گهاس پڑی ہو ،یا ردی
اور خراب کهجوریں پڑی ہوئی ہوں۔
(لغوی تشریح -:ادنی:معمولی ۔قلیل من المال:تهوڑا مال ،یہ فاعل بهی ہوسکتا ہے اور
مفعول بهی ہوسکتا ہے )
()۲میں جو کوشش کررہا ہوں اگر وه معمولی زندگی کیلئے ہوتی ،تو اس کے لئے
تو مجهے تهوڑا ہی مال کافی ہوجاتا ،اور میں زیاده طلب نہ کرتا۔(اور اگرقلیل کو لم اطلب
کا فاعل مان لیں تب بهی مفہوم وہی رہےگا)۔
(لغوی تشریح:مؤثل :موروثی۔مجد:جاه و منصب۔ادرک:پالینا ،حاصل کرلینا)
()۳لیکن میں جو کوشش کررہا ہوں /میری جو تگ و دو ہے یہ خاندانی جاه ومنصب
کیلئے ہے اور میرے جیسے لوگ تو موروثی اور خاندانی عز و شرف کو حاصل کرہی
لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(لغوی تشریح:قرطاس:کاغذ۔ ِمشفر(ج)مشافر:ہونٹ(عموما اونٹ کے ہونٹ کے لئے
بولتے ہیں)۔ ِسبت:دباغت دیا ہوا چمڑا جس کے بال دور کردئیے گئے ہوں توسعا نعل کے
کاٹنا۔حرد(تفعیل):ٹیڑھا کرنا۔)
ّ معنی میں ہے ۔ق ّد:ُ-لمبائی میں
۵۔اور اس کاایک ایسا رخسار ہے جو(شفافیت اور سفیدی میں)شامی تاجر کے کاغذ
کی مانند ہے،اور ایسا ہونٹ ہے جویمنی تاجر کےدباغت زده اور بالوں سے عاری سبتی
جوتے کی مانند ہے جس کو لمبائی میں کاٹا گیا ہو اور اس میں ٹیڑھے پن سے کام نہ لیا گیا
ہو (یعنی اس کے رخسار چکنے چکنے اس کے ہونٹ موزوں و مناسب ہے آڑے ترچهے
نہیں ہے)۔
(لغوی تشریح:ارقل(افعال):تیز چلنا۔مخافۃ:مصدر ہے اورمفعول لہ ہونے کی وجہ سے
موصوف محذوف(سوط)کی صفت ہیں۔لویِ- ِ منصوب ہے۔ملوی اور محصد یہ دونوں
لیاّ:لپیٹنا۔ ُمح ّ
صد:جو پختہ کردیا گیا ہو۔قِ ّد (ج) قُدود :چمڑا۔)
۶۔اگر تم (نہیں)چاہو گے(کہ وه تیز چلے) تو وه تیز نہیں چلے گی ،اور اگر تم
چاہوگے تو وه تیز چلے گی،چمڑے کے چابک کے ڈر سےجو لپٹا ہوا اور مضبوط کیا ہوا
ہے۔(یعنی ایک مضبوط چرمی چابک کے ڈر سےوه تمہاری مرضی کے تابع رہے گی)
اسی طرح ہم کو اس دور کے شعراء کے کالم میں بکهرے ہوئے وصفی خاکے نظر
آتے ہیں جو ان کی شاعری کی زور و تاثیر اور اس کی کشش و رعنائی میں چار چاند لگا
دیتے ہیں،لیکن یہ خاکے ان کی زندگی سے سیدھا ساده تعلق رکهتے ہیں اور اس میں کوئی
گہرائی نہیں پائی جاتی ہے (یعنی معنوی گہرائی نہیں پائی جاتی محظ لفظی شکوه پایا
جاتاہے)۔
تجارب الحیاة:
کبهی شاعر اپنے افکارو خیاالت اور عقلی تجربات کا تذکره کرتا ہے(،لكن بسذاجة
البدوي وصراحته ،ومضمومة بعاطفة قویة من الفخر واالعتداد بالنفس)لیکن اس کے اندر
بدویانہ سادگی اور صاف گوئی ہوتی ہے،اسی طرح اس کے اندر فخر اور خوداعتمادی
کے طاقتور جذبات ہوتے ہیں ،یہی وه بات ہے جس سے اس دور کے مرد کی فکری اور
انسانی مقام و مرتبہ کا پتہ چلتا ہے ،طرفہ بن عبد اپنے معلقہ کے مذکوره اشعار میں کہتا
ہے:
سال:کاہلی کرنا۔تبلّد(تفعل):ت َ َحی ََّر فُ َال ٌن فَأ َ ْق َب َل
(لغوی تشریح:خال،یخال:گمان کرنا۔ک ِسل َ-ک َ
ب بَ ْل َدة َ نَحْ ِره بِبَ ْل َدةِ یَ ِدهِ:آدمی حیران و پریشان ہوکر اپنے سینے کو اپنے ہاته سے مارنے یَض ِْر ُ
لگے۔اور دوسرا معنی:تظاھر بالبالدة:بیوقوفی کا مظاہره کرنا/نہ سمجهنے کا ڈھونگ رچے)
۱۔جب لوگ یہ سوال کرتے ہیں :کون ہے جوانمرد؟تو مجه کو خیال ہوتا ہے کہ (ان
سوال کرنےوالوں کی)مراد میری ہی ذات ہے ،اور میں( ان کے خیال کی تصدیق میں)کوئی
ک اہلی نہیں کرتا اور نہ حیران و پریشان ہوتا ہوں۔
(لغوی تشریح:تلعۃ(ج)تِالع:ٹیلہ۔حل:ُ-اترنا۔ ّ
حاللصیغہ مبالغہ ہے۔ َرفَدِ-رفدا:عطیہ
دینا۔استرفد :عطیہ طلب کرنا)
۲۔ میں ٹیلوں پر چلے جانے واال نہیں ہوں (مہمانوں کی آمد یا دشمن کے حملہ آور
ہونے کے)ڈر سے،لیکن جب لوگ عطیہ مانگتے ہیں تو میں عطیہ دیتا ہوں۔
(لغوی تشریح:بغی –ِ:ڈھونڈنا/تالش کرنا۔حانوت (ج) حوانیت:میکده۔اق)
۳۔اگر تم مجه کوقو م کی(سنجیده)محفل کے اندر تالش کروگے توتم مجهے پالوگے
مجلس مے نوشی میں میرا شکار کروگے تو تم(وہاں پر) میرا شکار کر لوگے(یعنی
ِ ،اگر تم
اگر تم مجه کو مے کدوں کے اندر تالش کروگےتو تم مجهے وہاں بهی دیکه لوگے)۔
۴۔میری شراب نوشیوں،لذت کوشیوں اور نئے پرانے اور ذاتی و موروثی چیزوں کو
فروخت کرنے اور ان کو خرچ کرنے کا سلسلہ مستقل جاری رہا۔
(لغوی تشریح:عشیرة(ج)عشائر:قریبی رشتہ دار۔تحامی(تفاعل):بچنا۔افراد(مفعول
مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ،اور بیان نوع کیلئے آیا ہے۔عبّد البعیر:طاله
بالقطران:اونٹ پر تارکول مل دینا۔قدیم زمانہ میں دستور یہ تها کہ جب کسی اونٹ کو خارش
کی بیماری ہوجایا کرتی تهی تواس پر تار کول مل کے اس کو الگ باڑے میں باندھ دیتے
تهے،تاکہ صحت مند اونٹ اس بیماری سے متاثر نہ ہو)
۵۔ یہاں تک کہ پورا کا پورا خاندا ن مجه سے الگ ہوگیا ،اور مجه کو ایک ایسے
اونٹ کی طرح الگ کردیا گیا(لکهنوی زبان میں بولتے ہیں کہ مجه کو ن ّکو بنا دیا)جس پر
تارکول مل دیا گیا ہو۔
(لغوی تشریح :غبراء:زمین۔بنو غبراء کے لفظی معنی:دھرتی کے سپوت،مرادی
راف(ج)طرف:جانوروں کے
ُ معنی:الفقراء المحادیج:فقیر و محتاج۔انکر(افعال):نہ پہچاننا۔ط
چمڑے سے بنے ہوئے خیمے یاگهر۔الممدد:تانے ہوئے/لمبے لمبے)
۶۔میں نے محتاجوں اور فقیروں کو دیکها ہے کہ وه مجه سے اجنبیت و بیگانگی کا
معاملہ نہیں کرتے ہیں۔اور جواونچے اونچے گهروں والے ہیں( فارغ البال ہیں) ،وه بهی
مجه کو اجنبی و بیگانہ نہیں سمجهتے ہیں۔
(زجز ُ-زجراسے اسم فاعل:مجه کو ڈانٹنے پهٹکارنے والے۔اس کے بعد (علی ان)تها
جس کو ضرورة حذف کردیا گیا۔وغی:جنگ۔اِخالد(افعال):خلود بخشنا/بقائے دوام عطاکرنا)
۷۔میری جنگ میں شرکت اور حاضری پر مجهے اے ڈانٹنے والےشخص!اورلذتوں
میں شمولیت اخ تیار کرنےپر مجهے اے پهٹکارنے شخص!(اگر تم یہ کہتے ہو کہ میں لذت
کوشی سے دور رہوں اور میں تمہاری بات مان بهی لیتا ہوں تو اس کے بدلہ میں )کیا تم
مجه کو حیات ِدوام بخش سکتے ہو؟
۸۔اگر تم میرے خاتمہ کے دفعیہ کی استطاعت نہیں رکهتے ،تو مجهے(میرے حال
پر)چهوڑ دو ت اکہ میں موت سے پہلے پہلےاپنے مال و دولت کو(اپنے مطالب و مقاصد
میں)خرچ کروں۔
نقطہ نظر بیان کرتا ہے:
ٔ (پهر )وه( اسی معلقہ کے اندر )زندگی کے بارے میں اپنا
(لغوی تشریح:عاد:ُ-عیادت کرنا)
۹۔اگر ایسی تین چیزیں جن کا تعلق انسان کی لذت زندگانی سے ہے ،نہ ہوتیں ،تو
تمہارے بخت و نصیب کی قسم مجه کو پرواه نہ ہوتی کہ کب میرے پرسان حال اٹه (کر
چلے)گئے۔
(منہن:من ہٍذه الخالل الثالث۔سبق،یسبِق کا مصدر سبْق ہے ،اورمضاف الی یاء المتکلم
ہے،اور یہ اضافۃ المصدر الی الفاعل کی مثال ہے،العاذالت ،اس مصدر کا معمول یعنی
مفعو ل بہ ہے ،اس کے معنی ڈانٹنے والیاں ،برا بهال کہنے والیاں۔سبق بکذا:کسی چیز کے
ذریعہ سے سبقت لے جانا۔)
۱۰۔ان (تینوں باتوں )میں سے (ایک بات)میرا مالمت کرنے والی خواتین سے ایک
زنان
ِ کمیتی(سرخ مائل بہ سیاہی) شراب کے ذریعہ سے سبقت لے جانا ہے(یعنی میں ان
مالمت گرسے پہلے اٹه کر مے خانے کا رخ کرتا تها)،اور وه شراب ایسی ہے کہ جب اس
میں پانی کی آمیزش کردی جاتی ہےتو اس میں جهاگ پیدا ہوجاتے ہیں۔
(لغوی تشریح:مضاف:خوف زده ۔محنب:کری کا مفعول بہ ہے اور اس کے معنی ایسا
ضا:جهاڑیے کابهیڑیا۔غضا
گهوڑاجس کی ٹانگوں میں کجی ہو/ٹیڑھی ٹانگوں واال۔ ِس ْی ُد الغَ َ
ایسی جهاڑی کو کہتے ہیں جس میں آگ جلد لگ جاتی ہے۔متورد:طالب ورد/چشمہ یا گهاٹ
پر جانے کا طلب گار۔)
۱۱۔اور(دوسری بات یہ کہ)جب کوئی دہائی دینے واال دہائی دے اس وقت میں ایسے
فریادی کی طرف تیزی سے ٹیڑھی ٹانگوں والے گهوڑےکی لگام کو موڑدیتا ہوں ،جو اس
جهاڑی کے بهیڑیےکی مانند ہے جس کو گهاٹ پر جانے واال چهیڑ دے(تو وه اچانک اپنا
رخ بدل لیتا ہے ،اسی طرح جب میں گهوڑے کی لگام کو موڑتا ہوں تو وه بهی تیزی سے
اپنا رخ بدلتا ہے)۔
( َدجن(ج)ادجان و ُد ُجون ودِجان:بدلی۔تقصیر(تفعیل):کوتاه کرنا/توسعا گزارنا بهی کہہ
سکتے ہیں۔بہکنۃ:نرم و نازک اور خوش اندام دوشیزه۔ ُمعَ ّمد:ستون لگاہوا)
۱۲۔اور(تیسری بات یہ ہے کہ)ستون پر قائم خیمہ کے نیچے(اندر)ایک خوش اندام
دوشیزه کے ساته بدلی کے دن گزارنا ،اور بدلی بہت ہی دل پسند (موسم)ہے۔
(اعتام(افتعال)(:ہرمنتخب اور مختار شےکا)قصد واراده کرنا۔اصطفی(افتعال):منتخب
کرنا/برگزیده کرنا۔عقیلۃ(ج)عقائل:عمده اونٹ۔فاحش:بہت بخیل)
۱۳۔میں موت کو دیکهتا ہوں کہ وه شرفاء و اسخیاء کا قصد و اراده کرتی ہے(ان کو
لقمہ اجل بناتی ہے) ،اور کنجوس مکهی چوس کے عمده قسم کےمال اونٹوں کا انتخاب ٔ
کرلیتی ہے۔
(لغوی تشریح:ن ِفد،یَ ْنفَ ُد ،نَفَادا (س):ختم ہوجانا)
۱۴۔میں دیکهتا ہوں کہ زندگی ایک ایسا خزانہ ہے جوہر روز کم ہو رہاہے،اور زمانہ
اور (اس کے)ایام جس چیز کو گهٹائیں گے وه ختم ہی ہوکر رہے گی ۔
ضة :ألم من وجع المصیبة ضا َضیْضا َو َم َ
ضضا َو َم ِ ض،یَ َمضَ ،م َ (لغوی تشریحَ :م َّ
:مصیبت کے درد سے درد مند ہونا ،و ِلل َّ
ش ْی ِئ :تأ ًّلََ م :تکلیف میں مبتال ہوتا
شمشیر ہندی کی مار (اور اس کی کاٹ) سےزیاده
ِ ۱۵۔اہل قرابت کا ظلم نفس پر
تکلیف ده ہوتا ہے۔
شعر الصعالیك:
(صعلوک(ج)صعالیک:ا لفقیر الذي ال یملك من المال ما یعینه على أعباء الحیاة ،لیکن
زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ اس معنی میں محدود نہیں رہا بلکہ جو لوگ غارت گری ،رہزنی ٔ
وغیره میں لگے رہتے تهےایسے لوگوں کے واسطے بهی صعالیک کا لفظ بوال جانے لگا
تها)
صعالیک کی اپنی مخصو ص زندگی تهی جس میں بدویانہ اخالق پائے جاتے
تهے،جوانمردی ،خطر پسندی و مہم جوئی پائی جاتی تهی،اور یہ تمام باتیں ان کی شاعری
میں نمایاں ہیں۔
شعرائے صعالیک میں عروه بن ورد ہیں ،اور ان کا کالم پختگی اور شرافت کے
لحاظ سےزیاده کامل ہے،اور شنفری ہیں ،ان کے کالم میں سختی و غلظت اور بدویت پائی
جاتی ہے،شنفری کا ایک ایسا قصیده ہے جو المیۃ العرب (ہر شعر کے اخیر میں الم)کے
نام سے مشہور ہے،شعرائےصعالیک کا شمار اصحاب المعلقات میں نہیں ہوتا ہے۔
المدح واالستعتاب:
اس زمانہ میں شاعری کے اہم موضوعات میں مدحیہ اور توصیفی شاعری تهی،
سلمی وغیره
ٰ بعض شعراءنے اس میں صاف و شفاف اسلوب اختیار کیاجیسے کہ زہیر بن
ہیں ،جبکہ دیگر شعراءنے اس کو امر اء کے یہاں تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ یا مال
کمانے کا ذریعہ بنایا جیسے طرفہ بن العبد ہیں ،عبید بن االبرص ہیں ،نابغہ زبیانی ہیں ،
اعشی بن میمون ہیں۔
رہی بات نابغہ کی تو اس کا شمار بڑے شعراء میں ہوتا ہے اور وه تین قدیم شعراؤں
میں سے ایک ہے ،اس کی شاعری میں خاص طور پر مدح و تعریف کے باب میں عمدگی
پائی جاتی ہے ،اس کی شاعری کے نمونوں میں سے وه اشعار جو اس نے عمرو بن حارث
غسانی کی تعریف میں کہے ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
(لغوی تشریح:نعمۃ (ج)نعم:احسان /حسن سلوک۔عقرب (ج)عقارب:بچهو/یہاں پر مراد
ہے تکلیف)
۱۔میرے اوپر عمرو اور اس کے والد کےیکے بعد دیگرے وه احسانات ہیں کہ
جو(بعد میں)باعث تکلیف نہیں ہیں۔
کرنا/بهروسہ کرنا/یقین یثق(س):اعتماد ، تشریح:وثق (لغوی
کرنا۔کتیبۃ(ج)کتائب:فوج/فوج کا بڑا دستہ۔ اشابۃ(ج)اشائب:مالہوا/گڈمڈ/مخلوط)
۲۔مجهے بادشاه سالمت کے غلبہ کا یقین ہوگیا جب یہ کہا گیا کہ غسانی لشکرنے
حملہ کو انجام دیا ہے اور کوئی (دوسرے قبیلہ کا لشکر)ان سےمال ہوا نہیں ہے۔
(لغوی تشریح:حلق(تفعیل):منڈالنا۔عصابۃ(ج)عصائب:جماعت/جهنڈ)
۳۔جب یہ (غسانی) حملہ کے اراده سےکسی لشکر کا رخ کرتے ہیں تو ان کے سروں
کے اوپر پرندوں کے جهنڈ منڈالنے لگتے ہیں جو دوسرے جهنڈ کے تابع ہوتے ہیں(یعنی
پہلے ہی سے منڈالرہے ایک جهنڈکے تابع ہوتے ہیں،کثیر تعداد میں پرندوں کے منڈالنے
سے اشاره اس بات کی طرف ہے کہ ہم بہت خون خرابا کرتے ہیں)
(لغوی تشریح:قارع(مفاعلۃ):شمشیر زنی کرنا۔فلول:کند)
۴۔ان میں کوئی عیب نہیں ہے س وائے اس (عیب)کےکہ ان کی تلوار کی دھاریں
جنگوں میں لشکروں سےلڑنے کی وجہ سے کند ہوجاتی ہیں۔
(ج)شیم:طبیعت تشریح:شیمۃ (لغوی
/عادت/خصلت۔عازب(ج)عوازب:دور/الگ/غائب)
۵۔ان کی کچه( ان سے) نہ الگ ہونے والی خصلتیں ہیں جیسے سخاوت اور فیاضی
ہللا نےان کے عالوه لوگوں کو یہ خصلتیں عطا نہیں فرمائی۔
(لغوی تشریحُ :رقاق:پتال /باریک/نرم/عمده۔نعل (ج)نعال:جوتا/نعل۔رقاق النعال:بے
نیازی اور تونگری سے کنایہ ہے،کہ ان کے جوتے موٹے اور دبیز قسم کے نہیں ہوتے
بلکہ باریک ہوتے ہیں لہذا وه چلتے کم ہیں اور گهوڑوں پر سوار زیاده رہتے ہیں۔ ُحجْزَ ة(ج)
ح ْجزَ ات:کمر پر ازار باندھنے کی جگہ،طیب الحجزة سے پاکدامنی کی طرف ُح َج ٌز َو ُ
اشاره ہے۔ حیّی(تفعیل):سالم کرنا/زنده رہنے کی دعا دینا۔ریحان(ج)ریاحین:خوشبودار
پودا/پهول۔السباسب :عید الشعانین(مشرقی عیسائیوں کے نزدیک ایک عید ہےجس کو
انگریزی میں PALM SUNDAYکہتے ہیں ،اس کا ذکر اس لئے کیا کیونکہ ممدوح
نصرانی تها۔سبسب (ج)سباسب:وه درخت جس سے تیر بنائے جاتے ہیں)
۶۔ ان کے جوتے اعلی قسم کے ہوتے ہیں اور وه پاکدامن بهی ہیں اورسباسب کے
روزخوشبودار پهولوں کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں سالم پیش کئے جاتے ہیں۔
الرثاء
تحلیل عناصر النماذج السابقة
العاطفة والخیال في شعر عنترة
شعر عمرو بن كلثوم وأثره في األدب
معلقة امرئ القیس
سمة الفكر في الشعر الجاھلي ومعلقة زھیر
وجدانیة الشعر الجاھلي وغنائیته وكالم النابغة والخنساء
نضج الشعر الجاھلي وكماله
عدم وجود الكتابة
األمثال واألسجاع:
امثال ان جملوں کو کہتے ہیں جو اپنے اندر زندگی کے حادثات و واقعات کے بارے
میں مؤثر و مخصوص تاثرات رکهتے ہیں،اور ایسے چلتے پهرتے اقوال ہوتے ہیں جو
زبان زد خاص و عام ہوتے ہیں اور جن کو عمده سمجها جاتاہے،اور جہاں تک تعلق ہے
سجع کا تو یہ مسجع و مقفی ادبی جملے ہوتے ہیں،یا ایسے جملے ہوتے ہیں جن کے نغمے
کے اندر یکسانیت پائی جاتی ہے۔
الحكم:
حکیمانہ اقوال ایسے بلیغ جملے ہوتے ہیں جو عملی زندگی کے تجربات کے خالصہ
اور نچوڑ پر مشتمل ہوتے ہیں ،اور اس (فن) میں عربوں کو غیر عرب کے مقابلہ میں
زیاده مہارت حاصل ہوگئی تهی ،کیو نکہ وه باده نشینی ،حقیقی زندگی سے ربط و تعلق
رکهنے ،خیاالت کی رو میں بہہ جانے سے دوری اختیار کرنے اور باریک بینی سے
نظر رکهنے میں ان قوموں کی طرح تهے جو محدود (اسباب کے ساته)زندگی گزارتی ہے۔
الوصایا والخطب:
جہاں تک تعلق ہے وصیتوں اور خطبوں کا تو یہ حکمانہ اقوال ،کہاوتونو
محاوروں،مسجع جملوں اور اس طرح کے دیگر اجزاء سے مل کر بنتے ہیں (اور وه اس
طرح کہ)ان کو سیدھے سادے انداز مین کچه تفصیل کے ساته مرکب کردیا جاتا ہے،اور
یہ دونوں صیغوں اور اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے تقریبا یکساں ہوتے ہیں،اسی کے
ساته ساته کچه بیانیہ خاکے ہوتے ہیں جو کبهی کبهی تقریروں میں شامل کر لئے جاتے
ہیں،رہی بات حکایات و داستان کی کی تو یہ ساده ترین انداز میں اور انتہائی اختصار و
ایجاز کے ساته ایسے عام نثری انداز میں بیان کی جاتی ہیں جو حکایتی اسلوب کے مشابہ
ہوتا ہے ۔
نماذج النثر الفني الجاھلي(جاہلی فنی نثر کے شہ پارے)
األسجاع:
معرکہ
ٔ جہاں تک اسجاع کا تعلق ہے تو(اس کی مثال)جیساکہ ایک کا ہنہ عورت نے
بدر کی پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا تها“ :میں جانتی ہوں جو کچه جانتی ہوں(کہ )ایک دن
آئےگاجوکاٹنے اور ذبح کرنے کا دن ہوگا”،اور اس نے یہ بهی کہا“:جو موت ہوگی
موت(لوگ مارے جائیں گے) جس میں ٹخنوں کو پہلؤوں سے ٹکرایا جائے گا(ہڈیوں کو
توڑدیا جائے گا)”،اور ایک کاہن نے بهی پیشین گوئی کی تهی“:تم نے جنوں کواور ان کی
حیرانی و پریشانی کونہیں دیکها،اور اپنے دین سے ا ن کی مایوسی نہیں دیکهی،اور اپنی
اونٹنیوں اور ان پر رکهی ہوئی چٹائیوں /چمڑوں سے ان کے چمٹ جانے کو نہیں دیکها(یعنی
یہ کت نے بزدل ہوچکے ہیں)”،ایسے ہی اسالم سے پہلے ایک شخص نے ایک دوسرے
شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا(کہ وه آواز لگا رہا ہے اور اس نے وه آواز سنی)“:اے ذریح!یہ
ایک کامیاب ہونے واال معاملہ ہے ،ایک بہت ہی فصیح و بلیغ انسان ہے(بعض نسخوں میں
یصیح کی جگہ فصیح ہے اور یہی زیاده راجح معلوم ہوتا ہے)جو کہہ رہا ہے کہ ال الہ اال
ہللا”۔
األمثال:
جہاں تک کہاوتوں کا تعلق ہے تو (کچه یہ ہیں )یہ ردی اور سوکهی ہوئی کهجوریں
ہیں اور پهر کم تولناہے(یعنی مال توخراب دیا ہی ہےساته میں وزن میں بهی کمی کی گئی
ہے ،ی ہ محاوره اس وقت بوال جاتا ہے جب کس ی میں ایک برائی موجود ہو اور مزید ایک
برائی اپنے اندر پیدا کرلے)-اس نے اپنی بیماری میرے سر مڑھ دی اور چپکے سے چلی
گئی(اردو میں اس سے ملتا جلتا ایک محاوره ہے“ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا”)-قصیر نے اپنی
ناک کیوں کاٹی ؟(پہلے ہی سےحالت آپ کی صحیح نہیں تهی مزیدآپ نےاپنی حالت خراب
کرلی) -تیر چالنے سے پہلےضروری ہے کہ اس کوتیز کرلیا جائے(کام کرنے سے پہلے
پوری تیاری ہونی چاہئے) -صبح کے وقت قوم رات کے سفر کی تعریف کرتی ہے(اس
زمانہ میں تپتی ہوئی صحراء میں چلنا مشکل تها بنسبت رات کے ،جب صبح ہوتی تهی تو
دھوپ کی شدت ،گرمی یہ تمام چیزیں اس کے ہمراه آتی تهیں لہذا ان کے لئے رات کا سفر
زیاده مناسب تها)-کبهی کبهی اونٹ مارے ڈر اور خوف کے شیر پر حملہ کردیتا ہے(کسی
کو کمزوراور بزدل مت سمجهو/بال وجہ آپ کسی کو نہ چهیڑیں کہ کہیں آپ کو آپ کے
گمان سے سخت جواب نہ مل جائے)-آپ کانٹوں سے انگور نہیں توڑ سکتے(جیسی کرنی
ویسی بهرنی) -تمہارے دونوں ہاتهوں نے بندھن باندھے تهے اور تمہارے ہی منه نے
پهونک ماری تهی( تم نے اپنےہی پیر پر کلہاڑی ماری،اس کہاوت کے پیچهے کی کہانی یہ
ہے کہ ایک صاحب جو کسی جزیره میں رہا کرتے تهے ،انهوں نے یہ اراده کیا کہ سمندر
پار کرکے ساحل پر چلے جائیں ،تو انهوں نے اپنے ہاتهوں سے اپنے مشکیزه میں ہوا
بهری اور اس منه پر گره باندھ دی ،جب وه درمیان میں پہنچے تو اس کی ہوا نکلنے لگی،
انهوں نے “الغوث الغوث ”کی صدا بلند کی ،تو ایک صاحب جو یہ سارا ماجرا دیکه رہے
تهے انهوں نے ا س سے کہا:یداک اوکتا و فوک نفخ:تمہارے ہی دونوں ہاتهوں نے مشکیزه
کے منه کو باندھا تها اور تم ہی نے اپنے منه سے پهونک ماری تهی)۔
الحكم:
جہاں تک عربوں کے حکیمانہ اقوال کا تعلق ہےتو(ان میں سے کچه )یہ ہیں:لوگوں
کی ہالکت گاہیں حرض و آز کی چمک کے نیچے ہیں(اللچ بری بال ہے)-زبان کےزخم
پیکان کے زخم سے کاری ہوتے ہیں -بہت سی جلد بازی تاخیر کو بخشتی ہے(جلد بازی کے
نتیجہ میں انسان کو اور دیر ہوتی ہے)-سرزنش سزا سے پہلے ہے- -جو ٹهوس اور ہموار
زمین پر چلےگا ٹهوکر کهانے سے محفوظ رہے گا-دانشمندی کی اولین(سیڑھی)مشوره ہے-
بہت سی باتیں حملہ سے زیاده کارگر ہوتی ہیں -آزاد وشریف مرد نے جس کا وعده کیا تها
وه اس نے پورا کردیا -تم شر کو چهوڑدو وه تم کو چهوڑدے گی-جس کا سینہ تنگ ہوگیا
اس کی زبان دراز ہوگئی -تمہارا ہاته تمہارا ہی ہے اگر چہ وه شل ہوگیا ہے(تمہاراکوئی
عزیز خراب ہے تب بهی تم اس کو دور نہیں کر سکتے)-بہت سے ایسےمالمت زده ہوتے
ہیں جو بے گناه ہوتے ہیں -ایک ہوشیار آدمی اپنے محفوظ مقام سے پکڑ لیا جاتا ہے(کبهی
ہوشیار انسان بهی اپنے محفوظ مقام میں حملہ کا شکار ہوجاتا ہے)۔
الوصایا:
جہاں تک تعلق وصیت کا ہے تو اس کی ایک مثال وه ہے جو کہ زہیر بن جناب
کلبی نے اپنے بیٹوں کو کی تهی ،جس وصیت میں اس نے کہا تها:
“ اے میرے بیٹو!میری عمر دراز ہوگئی ہے ،اورمیں اپنے زمانہ کے ایک طویل
وقت تک پہنچ گیا ہوں ،لہذا تجربات نے مجهے مضبوط کردیا ہے،اور معامالت تو نام ہی
ہیں تجربہ اور آزمائش کا،لہذا میں جو کچه تم سے کہہ رہا ہوں اس یاد کرلو اور خوب
سمجه لو“:مصیبتوں کے وقت کمزوری کا اظہار نہ کرو(کہ لوگ پریشان کریں)،اور
پریشانیوں کے وقت کسی اور کا سہارا لینے سے بچو،اس لئے کہ یہ چیز رنج و الم کا
باعث ہوگی،اور دشمن کو ہنسنے کا موقع ملے گا،اور پهر خالق کائنات سے بدگمانی بهی
ہوگی،اور (خبردار!)تم حاالت و واقعات سے دھوکہ نہ کهانا،اور حاالت سے مطمئن بهی
رہو،اور حاالت کا مذاق بهی مت اڑاؤ ،اس لئے کہ یہ حقیقت ہے کہ جب بهی کوئی قوم
کسی کا مذاق اڑاتی ہے تواس میں مبتال ہوجاتی ہے،بلکہ تم اس کی امید رکهو کہ (کل)تم
(بهی)اس میں پهنس سکتے ہو،اس لئے کہ انسان دنیا میں اس نشانہ کی طرح ہے جس پر
تیر انداز نشانہ لگاتے ہیں ،تو بعض کے تیر اس نشانہ سے چوک جاتے ہیں ،اور بعض
کے آگے بڑھ جاتے ہیں ،اور( کبهی )دائیں بائیں گرتے ہیں ،پهر اس کے بعد ضروری ہے
کہ تیر اس نشانہ پر جالگتا ہے”۔
الخطب:
ہانئ بن قبیصہ شیبانی (یوم ذی قعر کی لڑائی میں)اپنی قوم کو لڑنےپر ابهارتے
ہوئے کہتے ہیں،یہ تقریراس اسلوب پر داللت کرتی ہے جو عہد جاہلی میں نثری کالم میں
استعمال ہوتا تهایعنی معانی کے اندر بے ربطی اور جملوں کی ترتیب و ترکیب میں
کمزوری :
“اے بکر کے لوگو!جو ہ الک ہوجائے وه معذور ہےاور یہ اس سے بہتر ہے جو
بهاگ کر راه فراراختیار کرنے واال ہے،ڈر اور خوف قدرت کے فیصلے سے بچا نہیں
سکتے،صبرواستقامت سے کام لینا یہ کامیابی کے اسباب میں سے ہے،موت کو اختیار کرو
ذلت کو نہیں،موت کا استقبال کرنا اس کو پیٹه دکهانے سے بہتر ہے،بالکل بیچ گردن میں
تیر مارنا پیٹه اور پچهلے حصہ میں مارنے سے بہتر ہے،اے بکر کے لوگو!آگے بڑھو
لڑوکیونکہ موت سے کوئی بچاؤ نہیں ہے”۔
جب سیف بن یزن کو حبشہ والوں پر فتح اور غلبہ حاصل ہواتو (قریش کی طرف
سے)عبد المطلب نےتقریری اسلوب اختیار کرتے ہوئے کہا“:اے بادشاه سالمت!ہللا نے آپ
کو بہت ہی مضبوط،شاندار اور اعلی ترین مقام پر فائز کیا ہے،اور ہللا نے آپ کو ایسے
خاندان میں پیدا کیا ہےجس کی اصل بہت پاکیزه اور عمده ہے ،بنیاد بہت مضبوط ہے،اور
اصل بڑی شریفانہ ہے ،اور اس کے پتے(افراد)بهی بہت زیاده ہیں،اور آپ کو معزز ترین
جگہ اور پاکیزه مقا م میں پیدا کیا ہے،آپ -ہللا تعالی آپ کو مذمت والی باتوں سے بچائے-
عربوں کےسردار و امام ہیں،اور ان کا وه موسم بہار ہیں جس سے ان میں زرخیزی اور
شادابی آتی ہے،اورآپ عربوں کے وه بادشاه ہیں جن کی عرب اطاعت کرتے ہیں،اور ان کا
وه ستون ہیں جس پر ان کا انحصار ہے،اورآپ عربوں کے وه قلعہ ہیں جس کی طرف بندے
پناه لیتے ہیں،آپ کے اسالف بہترین لوگ تهے،اورآپ ان کے بعد ہمارے لئے بہترین جانشین
ہیں ،جس کے آپ جانشین ہو ں وه ہالک نہیں ہوسکتا،اور جس کےآپ پیش رو ہونگے وه
کبهی گمنام نہیں ہوسکتا،اے بادشاه سالمت!ہم تو ہللا کے حرم والے(اس کی عبادت کرنے
والے)اوراس کے خدمت گذارہیں،اور اس کے گهر کےمحافظ (بهی)ہیں،ہمیں آپ کے پاس
اسی ذات نے پہنچایا ہےجس نےہمیں خوش کیاہے اس مصیبت کو دور کرکےجو ہم پر آئی
تهی،اور ہم مبارک بادی کیلئے آئے ہیں مصیبت (سوال کرنے) کےلئے نہیں آئے ہیں۔
قس بن ساعده االیادی (المتوفی ۲۳ق ھ)جو کہ خطیب دوراں تهے اورمیدان خطا
بت میں اپنے ہم عصروں کے درمیان معروف تهے ،عکاظ میں خطبہ دیتے ہوئے کہتے
ہیں:
“اے لوگو!سنو اور اپنے ذہن میں نقش کرلو ،یہ حقیقت ہے کہ جو زنده ہے اس کو
موت الحق ہوکر رہے گی ،اور جسے موت الحق ہوجائے وه گذر جاتا ہے ،اور ہر وه
چیز جو آنے والی ہے آکر رہے گی ،تاریک راتیں ہیں،اور پر سکون دن ہیں ،وه سیارے
والے آسمان ،اور(اس آسمان میں )روشن تارے ہیں،اور ٹهاٹهیں مارتاہوا سمندر ہے،اور(اس
زمین میں) مضبوطی سے جمےہوئے پہاڑ ہیں،اور زمین پهیلی ہوئی ہے ،نہریں جاری
ہیں،آسمان میں ایک یقینی خبر ہے(کائنات کو بنانے والے کا عام وجود ہے)اور روئے زمین
پر عبرتیں ہیں ،لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وه جاتو رہے ہیں لیکن کوئی پلٹ کر واپس نہیں
آتا،کیا وه جہاں گئے تهے وه جگہ ان کو پسند آگئی ہے کہ وه وہیں ٹهہر گئےہیں؟یا پهر ان
کو ان کے حال پر چهوڑ دیا گیا ہے تو وه وہیں سو گئے ہیں؟اے قبیلہ ایاد کے لوگو!آپ کے
آباء و اجداد کہاں چلے گئے؟بڑے بڑے فرعون کہاں چلے گئے؟کیا یہ لوگ تم سے مال و
دولت میں زیاده نہیں تهے؟کیا ان کی عمریں تم سے لمبی نہیں تهیں؟زمانہ نے انهیں اپنے
سینے سے پیس کر رکه دیا ہے،اور اپنی قوت سے ان کو منتشر کردیا ہے۔
(لغوی تشریح:بصیرة (ج)بصائر:بصیرت/عبرت۔قرن (ج) قرون:صدی/قوم)
۱۔گذشتہ صدیوں /قومونمیں جو لوگ پہلے چلے گئے ہیں ان(کےچلے جانے )میں
ہمارے لئے عبرت کا سامان ہے۔
(لغوی تشریح:مورد(ج)موارد:جانے کا راستہ۔مصدر (ج)مصادر:آنے کا راستہ)
۲۔جب میں نے دیکها کہ موت کے راستے تو ہیں لیکن اس کی واپسی کا کوئی راستہ
نہیں ہے۔
(لغوی تشریح:صغیر(ج)اصاغر:بچہ)
۳۔جب میں نے اپنی قوم کو دیکها کہ اس کا (ہر فردخواه)بچہ ہو یا بوڑھاسبهی موت
کی طرف دوڑےچلےجار ہےہیں۔
(لغوی تشریح:غابر:باقی رہنےواال)
۴۔جو گذر گیا ہے اب وه میرے پاس لوٹ کر نہیں آتا،اور جو ابهی زنده بچ گئے ہیں
ان میں کوئی باقی رہنے واال نہیں ہے۔
۵۔(جب میں نے یہ صورتحال دیکهی )تو مجهے یقین ہوچالکہ میں بهی یقینا اسی
طرف جا رہا ہوں جہاں میری قوم کے لوگ جا چکے ہیں۔
رہی بات قصے و کہانیوں کی تو یہ عربوں کی حکایات ہیں یا جاہلی جنگوں
کےواقعات اوراس میں جو اہم واقعے پیش آ ئے ان کا بیان ہیں،زیاده تر قصےسلطنت عباسیہ
کے ادباء جوان کے نقل کرنے والےاور ان ک و جمع کرنے والے تهے کی زبان و اسلوب
زمانہ وقوع کی کئی صدیوں بعد بیان کئے
ٔ میں بیان کئے گئے ہیں ،اور یہ واقعات ان کے
گئے،ان واقعات کو سمجهنے کیلئے اس ادب کا مطالعہ کافی ہے جو عہد عباسی کے
ادباءنےاپنی تصنیفات و تالیفات میں پیش کیا ہے۔
أسلوب القرآن:
قرآن کریم نے معنی کی کثرت اور اس کی پختگی کے ساته لفظ کی مضبوطی اور
اس کی فصاحت کو جمع کیا ہے،اس کے اندر مختلف عقلی و فکری پہلو پائے جاتے ہیں
جیسےقانون سازی،تہذیب و سلیقہ اورچیزوں کا بیان ،اور قرآن معنی اور (الفاظ و)عبارت
کے اعتبار سے اسلوب بیان کی بلیغ ترین شکلونمیں ہے،جو(شکلیں)تاثیر اور مقام و مرتبہ
کے اعتبار سے بہت ہی بلند اور اعلی وافضل ہیں،لیکن اس میں فن (نثروشعر)کی متعین
شرطوں یا انسانوں کےمتعین کرده ادبی اسالیب بیان کی پابندی نہیں کی گئی ہے ،بلکہ قرآن
نےوه اسلوب اختیار کیا جو پہلے سے موجود نہ تها اور جوبالکل نیا تها ،جس میں تنوع
کے ساته ساته اعجاز بهی تها۔
طریقة بین طریقتین:
ٍَقرآن کا انداز اس شاعری کا ا نداز نہیں ہےجو ایک متعین نظم کےنقشہ پر چلتی
ہے،اور نہ ہی اس کا انداز اس نثر کا انداز ہے جو نثر تعبیر کے حسن و جمال اور لفظ کی
خوبصورتی اور تاثیر سے خالی ہوتی ہے،بلکہ قرآن کا انداز ان دونوں کے درمیان کا راستہ
ہے،اس کے انداز میں بعض ایسی پابندیاں ہیں جو اپنی بعض خصوصیات میں شاعری کی
دلکش اور خوبصورت پابندیوں کے مشابہ ہیں،اور دوسری جگہوں پرجہاں یہ پابندیاں نہیں
ہوتی ہیں تو ایسالگتا ہے کہ اس کا انداز کسی خوبصورت نثر فنی کے مشابہ ہے،لیکن
(درحقیقت) ہر اعتبار سےقرآن کا یہ انداز شاعری اور نثر دونوں کے انداز سےفائق وممتاز
اور زیاده مؤثر ہے،اور اس کا فائده ان دونوں کے فائدوں سے زیاده وسیع ہے،اور اس کے
اندر جادوئی حسن و جمال اور معانی کی کثرت ان دونوں سے زیاده ہیں۔
الفخامة والرقة:
کہیں کہیں پر قرآنی آیتوں میں معنی کا شکوه اور موضوع کی عظمت ظاہر ہوتی
ہے ،جیسےسورة ال حج اور سورة المؤمن میں ہے،اور کہیں کہیں پر قرآنی آیتوں میں شفقت
و محبت اور نرمی و لطافت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ،جس طرح سوره مریم اور سورة االنبیاء
میں ہے۔
ضرب األمثال:
قرآنی کالم میں بہت ہی نرالی انوکهی اور شاندار تمثیلوں اور کہاوتوں کاکثرت سے
استعمال بهی ہے،یہ(تمثیلیں اور مثالیں)نفس انسانی کی رہنمائی کرتی ہےکہ وه خدا کی ذات
ک و سمجه سکے اورنبوی دعوت کی جو جاللت شان ہے اس پر وه مطمئن ہوسکے۔
“ اے مؤمنو!تم اپنے خیرات کواحسان جتال کر اور ایذا پہنچا کر ضائع نہ کرو،اس
شخص کی طرح جولوگوں کو دکهانے کیلئے اپنا مال خرچ کرتا ہے،اور نہ ہی وه ہللا اور
آخرت کے دن پر ایمان رکهتا ہے،تو ایسے شخص کی مثال اس چٹان کی مثال ہےجس پر
مٹی بیٹه گئی ہو،اور پهر اس تیزبارش ہوجائے تو اس کو بالکل چکنی چٹان بناکر سپاٹ
کردے،تو یہ لوگ اس میں سے کوئی چیز حاصل نہیں کرسکتے جو ان لوگوں نے کمایا،ہللا
تعالی کافروں کو ہدایت نہیں دیتا ،ان لوگوں کی مثال جو ہللا کی رضا اور خوشنودی کو
حاصل کرنے کیلئےاور اپنے دلی یقین و اطمینان کے ساته اپنےمال خرچ کرتے ہیں اس
باغ کی مثال ہےجو ایک ٹیلہ پر ہو،اور پهر وہاں زور کی بارش ہوجاتی ہےتو پهر وه اپنا
پهل دوگنا دی تا ہے،اگر وہاں بارش نہ (بهی)ہو تو (پهر بهی وہاں)شبنم(تو ہوتی ہی)ہے،اورہللا
تعالی ان تمام چیزوں کو دیکه رہا ہے جو تم کررہے ہو”(سوره بقره )۲۴۶-۲۶۵ : ٰ
“ آپ کہہ دیجئے کہ ہللا ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وه تن تنہا اور زبردست غلبہ واال
تعالی نے آسمان سے پانی برسایا توپهر نالے /وادیاں اپنی اپنی وسعت کے اعتبار ٰ ہے،ہللا
سے بہہ پڑیں،تو پانی کے بہاؤ(سیالب)میں جهاگ اوپر کی طرف آجاتا ہے،اور جن چیزوں
کو یہ زیور یا دوسری چیز بنانے کیلئے آگ میں تپاتے ہیں تو اس میں بهی پانی کی طرح
تعالی حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے،رہی بات جهاگ ٰ جهاگ (اٹهتا) ہے،ایسے ہی ہللا
کی تو یہ خشک ہوکر بالکل ختم ہوجاتا ہے،اور رہی وه چیز جو انسانوں کیلئے مفید ہےتو
تعالی مثالوں کو بیان کرتا ہے۔”( سوره رعد -۱۶:
ٰ وه زمین میں ٹهہر جاتی ہے،ایسے ہی ہللا
)۱۷
“ ہللا آسمانوں اور زمین کا نور ہے،اس کے نور کی مثال اس طاق کی مانند ہےجس
کے اندر ایک چراغ (رکه دیا جائے)،اور وه چراغ شیشہ(قندیل)میں ہو،اور وه
شیشہ(قندیل)بهی ایسا گویا کہ وه کوئی چمکتا ہوا تاره ہو،اور چراغ کو زیتون کےایک
بابرکت درخت سے جالیا گیا ہو ،جونہ مشرقی جہت میں ہے نہ مغربی(یعنی کهلے میدان
میں ہے اور چاروں طرف سے اس پر دھوپ پڑتی ہے ،ایسے درخت کا تیل سب سے مفید
اور اچها ہوتا ہے)ایسا لگتا ہے کہ اس کا تیل خود بخود روشنی پیدا کردے گااگرچہ اس کو
تعالی اپنے نور کی ہدایت جسٰ (ابهی)آگ نے نہ چهوا ہو،یہ تو روشنی در روشنی ہے،ہللا
تعالی ہر چیز
ٰ کو چاہتا ہے دیتا ہے،اورہللا تعال ٰی انسانوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے،اورہللا
کو خوب جاننے واال ہے۔”(سوره نور )۳۵:
“ اے انسانو!ایک مثال بیان کی جا رہی ہے تو تم کان لگاکر اس کو سنو،بے شک وه
معبودان باطلہ کہ ہللا کو چهوڑ کر جن کو تم پکارتے ہویہ ہرگز ایک مکهی بهی پیدا نہیں
کر سک تے اگرچہ یہ تمام کے تمام ایک جگہ جمع ہوجائیں،اور(ان کا حال یہ ہے کہ)اگر یہ
مکهی ان سے کوئی چیز چهین لیتی ہے تو اس کو واپس نہیں ال سکتے ،طالب اور مطلوب
دونوں ہی بڑے کمزور ہیں،ان لوگوں نے ہللا کی جیسی قدر کرنی چاہئے تهی ویسی قدر
تعالی تو بڑا طاقتور اور غالب آنے واال ہے۔”(الحج )۷۴-۷۳:
ٰ نہیں کی،ہللا
األقسام:
فروق المعنى ودقائقها:
صوتیة األلفاظ:
التشریع:
القصص:
الموعظة والهدایة:
تأثیر القرآن في األدب:
نمو النثر وقوته:
ﷺ :خیر نموذج ألدب النثر األدبي محمد رسول ہللا
كالمه نثر ولیس شعرا:
خصائص كالمه وأصنافه :
آپ ﷺ کا کالم نثر مرسل ہے،اور نراال اور اچهوتا بهی ہے،جس کو اختیار کرنا بہت
آسان ہے ،اور جس کا چشمہ بہت ہی شیرینی اورمیٹها ہے،اورچهوٹے چهوٹے جملوں میں
کثیر معانی کو جمع کردیا ہے،جہاں پر ایجاز سے کام لینے کی ضرورت تهی وہاں پر آپ
ﷺنےایجاز سےکام لیا،اور جہاں پر تفصیل و اطناب کی ضرورت تهی وہاں پر آپ ﷺنے
تفصیل سے کام لیا،آپ ﷺاپنے کالم میں بالکل تکلف سے کام نہیں لیتےتهے بلکہ آپ بے
ساخت ہ/فطری طور پر بات کرتے تهے،آپﷺ غیر مستعمل اور غیر مانوس الفاظ کو چهوڑ
دیا کرتے تهے،آپ کا کالم بازاری اور لغو وگهٹیا الفاظ سے خالی تها،اوروه کئی ادبی
اصناف پر مشتمل تهاجیسے نادر مثالیں،بلند حکیمانہ باتیں،عمده و شاندارکہاوتیں،نافع
وصیتیں،ایسے ہی آپ کے کالم ک ے اندر رہبری اور رہنمائی کے معانی و مضامین ،قوانین
اور تعلیم و تر بیت (کا موضوع بهی)ہے،آپ کاکالم زبان کو وافر مقدار میں مواد فراہم کرتا
اعلی ترین نمونے اور شہ پارے ہیں ،اور اخالقیات کا بہترینٰ ہے،اور اس میں ادب کے
ذخیره ہے۔
األحادیث:
پیراگراف کا ترجمہ :جہاں تک آپ کی حدیثوں کا تعلق ہے تو یہ کالم کے مختلف
صنفوں پر مشتمل ہیں،تاریخ نے ہمارے لئے احادیث نبویہ کا بہت بڑا ایک ذخیره محفوظ
کردیا ہے،جس کے اندر آپ ﷺکی زندگی اور آپ کےزمانہ کی زندگی کےاکثر پہلوآگئے
ہیں،یہ ذخیرے سچے وصادق صحابہ کرام ؓکی زبانوں کے ذریعہ ہم تک نقل کئے گئے،یہاں
اس کی مثال دی جا رہی ہےاور اس مثال میں وضاحت اور تشریح کے ساته کم الفاظ میں
زیاده معانی بیان کئے گئے ہیں ،ہللا کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:
تعالی نے بہت سے فرائض فرض کئے ہیں تو ان کو ضائع مت کرو،اور بہت ٰ “ہللا
سے حدود متعین کئے ہیں تو اس آگے نہ بڑھو،اور بہت سی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے
تو ان کی بے حرمتی نہ کرو،اور تم رحم اور احسان کرتے ہوئے تم سے بہت سی چیزوں
سے خاموشی اختیار کرلی،بنا کسی نسیان اور بهول چوک کے،لہذا ان چیزوں کی تحقیق
تعالی نے تمہارے لئے قیل و
ٰ میں نہ پڑو”۔ اور یہ بهی آپ ﷺ کا ارشاد ہے“:بے شک ہللا
قال ،کثرت سے سوال کرنے اور مال کے ضیاع کو ناپسند فرمایا ہے”۔
ہللا کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:سات چیزوں (کی آمد)سے پہلے پہلے اچهے اعمال
کی طرف جلدی کرو،کیا تم لو گ ایسے فقر کے منتظر ہو جو تمہیں(اعمال صالحہ سے)
غافل کردے گا،یا ایسی مالدا ری کے جو سر کش بنا دینے والی ہو،یا ایسی بیماری کے جو
(صحت کو )بگاڑ دے،یا ایسی بڑھاپے کے جو (جسمانی صالحیتوں کو )بیکار کردے،یا
ایسی موت کےجو فورا خاتمہ کردے،یا دجال کے جو ایسا شر ہےجو ابهی آیا نہیں ہے اور
جس کا انتظار کیا جارہا ہے،یا قیامت کے (واقع ہونے کے)تو قیامت بڑی سخت اور اذیت
ناک چیز ہے”۔
اور آپ ﷺنے فرمایا“:میرے رب نے مجهے نو چیزوں کا حکم دیا ہے،میں تمہیں
بهی ان نو باتوں کی وصیت کرتا ہوں،کہ ظاہر و باطن میں اخالص کو الزم پکڑنا،خوشی
اور ناراضی میں عدل کا دامن ہاته سے نہ چهوڑنا،مالداری اور فقر و فاقہ کے زمانہ میں
میانہ روی اختیار کرنا،اور(ہللا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ )میں ان لوگوں کو معاف کروں جو
میرے ساته زیادتی کرتے ہیں،اور میں اسے دوں جس نے مجهے محروم کردیا ہے،اور
میں ان کو جوڑوں جو مجه سے رشتہ منقطع کرلے ،اور (مجهے اس بات کا حکم ہے
کہ)میرا خاموش رہنا غور و فکر کیلئے ہو،اور میرا بولناباعث ذکر ہو،اور میرا دیکهنا
عبرت اور نصیحت کیلئے ہو”۔
الرسائل:
یہ حضرت علی بن ابی طالب کرم ہللا وجہہ کا خط ہے،جو اس کے لکهنے والے
کے اسلوب کی بالغت اور اس زمانہ(عہد اسالمی)کی خطوط نگاری کےنہج اور طرز عمل
کی طرف اشاره کرتا ہے۔
“ہللا کے بندے حضرت علی امیر المؤمنین کی جانب سےاہل کوفہ کے نام جو
(ہمارے)ممتاز معاونین اور عربوں کے سربر آورده لوگ ہیں۔
امابعد!میں تم لوگوں کو حضرت عثمان ؓ کے مسئلہ کے تعلق سے بتالتا ہوں (کہ آپ
کا قضیہ کیاہے؟)یہاں تک کہ آپ کو سننا آپ کے دیکهنے کی مانند ہوجائے،لوگوں نے آپ
پر تنقیدیں کیں،میں مہاجرین میں ایک ایسا شخص تها جس نےان کو راضی کرنے کی بہت
کوششیں کیں،اور ان کی بہت کم سر زنش کی،حاالنکہ ان کے سلسلہ میں حضرت طلحہ و
حضرت زبیر کی ہلکی ترین رفتار بهی بہت تیز تهی،اور ان کی نرم ترین حدی خوانی بهی
بہت سخت تهی،اور حضرت عائشہ سے ان کے سلسلہ میں غصہ کی وجہ سے لغزش ہوگئی
تهی،آپ کو ایسے(ناہنجار)لوگ مل گئے جنهوں نے آپ کو قتل کردیا،لوگوں نے جو مجه
سے بیعت کی ہے وه بغیر کسی اکراه و جبر کے ک ی ہے،بلکہ اپنی مرضی اور اختیار
سے(مجه کو چنا ہے)۔
جان لو کہ دار الہجرة(مدینہ منوره)اپنے مکینوں سے خالی ہوگیا ہےاور لوگوں نے
بهی اس کو چهوڑ دیا ہے،اور ہانڈی کے ابال کی طرح اس کا جوش اُبل رہا ہے(،جو)فتنہ
(برپا تها اب وه)محور پر آکر ٹهہر گیا ہے،لہذا اب تم لوگ فورااپنے امیر کے پاس جاؤ،اور
اپنے دشمنوں سے جہاد کی طرف سبقت کرو،ان شاء ہللا(کامیابی ہمارے ساته ہوگی)”۔
ایک دوسرے موقع پر ان کایہ (مندرجہ ذیل)کالم ہے ،جسے ہم نےان کے ایک خط
سے لیا ہےجو انهوں نے اپنے فوج کے کمانڈر کو لکها تها،جس میں ان کو دنیا میں زاہدانہ
طریقہ
ٔ زندگی گزارنے کی نصیحت کی تهی،اور اس میں دنیا کے تعلق سے اپنا نظریہ اور
حیات بیان کیا تها،یہ ایسا کالم ہے جس میں ان کے اسلوب کی بالغت و فصاحت اور دنیا
کے تعلق سے ان کاموقف ظاہر ہوتاہے۔
“ہللا کی قسم-ایسی قسم جس کو کهانےکے بعد فورا ان شاء ہللا کہا جائے-میں اپنی
نفس کی ایسی تربیت کروں گا کہ وه اس تربیت کے ساته روٹی کے ٹکڑے کوجب وه اسے
کهانے کے طور پر مل جائے گا،خوشی خوشی لے لے گا،اور وه نمک پر سالن کے طور
پر قناعت کرلے گا ،میں اپنی آنکه کو پانی کا وه چشمہ بنا دوں گا جس کا سوتاخشک ہوجاتا
ہے،اور وه آ نکه اپنے آنسؤوں کو ختم کردے گی،کیا چهٹا جانور جب چرنے کی اس کا
پیٹ بهر جاتا ہے تو وه بیٹه جاتا ہے؟اور کیا بکری جب گهاس کهاکر آسوده ہوجاتی ہے تو
کیا وه بیٹه جاتی ہے؟تو کیا علی بهی اپنے تو شہ میں سے کهائے اور سو جائے،تب توان
کی بهی آنکه ٹهنڈی ہوجائے گی جب یہ کل بہت سالوں کے بعد بنا چراوہے کے جانور اور
چرتے رہنے والے جانور کی اتباع کریں گے۔
اس انسان کو مبارکبادی ہے جس نے اپنے رب کا فرض ادا کردیا،اور فقر و فاقہ کو
اپنے پہلو سےرگڑدیا،اور رات میں اپنی نیند کو چهوڑ دیا ،یہاں تک کہ جب نیند اس پر
غالب آجاتی ہےتو وه زمین کو بچهونا اور ہتهیلی کو تکیہ بنا لیتا ہے،اور یہ ایسے لوگوں
کے ساته ہوتا ہے کہ آخرت کا خوف ان کی آنکهوں سے نیند اڑا دیتا ہے ،ان کے پہلو ان
کے بستروں سے الگ رہتے ہیں،ان کےرب کے ذکر سےان کے ہونٹ ہلتے رہتے ہیں،اور
کثرت ِ استغفار کی وجہ سے ان کے گناه گهٹ جاتے ہیں''،یہ ہللا کی جماعت ہے ،یاد رکهو
جو ہللا والے ہیں وہی کامیاب و بامراد ہیں''،اے ابن ُحنیف !ہللا سے ڈرو ،اور یہ روٹی کے
ٹکڑے تمہارے لئے کفایت کرجائیں،تاکہ جہنم سے تم کو نجات حاصل ہوجائے”۔
علی کے کالم کےطاقتور اور عمده نمونے خطابت میں بهی ملتے ہیں۔
حضرت ؓ
اس ادبی زمانہ میں ،جس کی ہم بات کررہے ہیں جلیل القدر تابعی حضرت حسن
بصری بهی ممتاز ہوئے،آپ کا کالم بالغت و فصاحت ،حکمت و دانائی،اور تاثیر وقوت
سے مزین ہے،آپ نے لوگوں کو اپنے دینی و اخالقی مواعظ سے بہت زیاده فائده پہنچایا
ہے،اور اس کے ذریعہ سے آپ نے عربی ادب میں بہت مفید ادبی سرمایہ کا اضافہ کیا
ہے،آپ کا وصال ۱۱۰ھ میں ہوا۔
توقیعات ان فصیح و بلیغ جملوں کو کہتے ہیں جن کا انداز مسجع کالم اور حکیمانہ
کالم کے بین بین کا ہوتا ہے،اور توقیعات(عام طور پر)لوگوں کی درخواستوں اور ان کی
پرچیوں پرجوابا لکهی جاتی تهی۔
الشعر
الغزل:
قال صمة بن عبد ہللا
صمہ بن عبد ہللا بنو امیہ کے زمانے کا ہے ،اس نے نسیب میں بہت عمده اشعار
کہے ،مندرجہ ذیل اشعار انہی اشعار کی ایک جهلک ہیں ،جو اس نے اسوقت کہے جب
وه اس دیار کو چهوڑنے پر مجبور ہوا جس میں وه اور اس کی محبوبہ دونوں ساته رہا
کرتے تهے:
تم ریا کے مشتاق ہوئے ،اور تم نے خود ہی اپنے آپ کو ریا کی زیارت سے دور
کردیا ،حاالنکہ تم دونوں کے قبیلے ساته ساته رہا کرتے تهے۔
یہ کوئی اچهی بات نہیں کہ تم ایک چیز کو اپنی مرضی سے اختیار کرو ،اور پهر
تم بے تابی کا اظہار کرو جذبۂ محبت کے بالنے پر۔
تم دونوں جاؤ اور نَجد والوں اور ِحم ٰی میں رہنے والوں کو الوداع کہہ دو اور ہمارے
لئے نجد کو رخصت کرنے کا موقع بہت کم آیا ہے۔
میری جان اس سرزمین پر قربان ،کہ کتنا عمده ٹیلہ ہے اور کتنی اچهی ،موسم
موسم بَہار گزارنے کی ،جگہ ہے۔
ِ سرما اور
می کی شامیں تم پر لوٹ کر آنے والی نہیں ہیں ،لہذا اپنی آنکهوں کو آنسو بہانے
ِح ٰ
کیلئے چهوڑ دو۔
جب میں نے بِشر نامی پہاڑ کو دیکها کہ وه ہمارے درمیان حائل ہوگیا ہے ،اور
شوق کے جذبات بےتانہ انداز میں بهڑکنے لگے.......
……….تو میری داہنی آنکه رو پڑی ،اور جب میں نے اس کو ڈانٹا کہ صبر کی
بعد بے صبری کیسی؟ تو دونوں (آنکهوں) آنسو جاری ہوگئے۔
یار محبوب کی جانب بار بار مڑا ،یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ کو پایا کہ
میں د ِ
میری "لیت" اور "اخدع" نامی َرگوں میں بار بار مڑنے کیوجہ سے شدید تکلیف ہونے لگی
ہے۔
میں محبوب کی نگری میں گزرے ہوۓ دنوں کو یاد کرتا تها ( ،اور اسکو یاد
کرتے وقت میری کیفیت یہ ہوتی تهی کہ ) میں اپنا کلیجہ تهام لیتا تها کہ مارےدرد کے
کہیں شَق نہ ہوجاۓ۔
قال جمیل بن معمر
یہ نسیب کا مشہور شاعر ہے ،اس نے اپنی محبوبہ بث َینَہ کیلئے مندرجہ ذیل اشعار
کہے ہیں:
میرے دل ودماغ پر اس طریقے سے چهائی رہی اور میری ذات اے بثینہ! تم
سے اس طرح وابستہ رہی ،کہ اگر میں عشق ومحبت کیوجہ سے کبوتری سے بهی رونے
کی درخواست کروں تو وه بهی رو پڑے۔
جب میرا پاؤں سن ہوگیا ،اور کہا گیا کہ اسکی شفایابی محبوب کی دعا ہے ،تو میں
نے کہا کہ تم ہی میرے لئے دعا کے درجہ میں ہو۔
ہمارے مابین تفریق ڈالنے والی دوری بهول کا سبب نہیں بنی ،اور نہ لمبی مالقاتیں
ناراضی کا سبب بنیں( دور ره کر بهی بهال نہ سکے اور قریب ره کر بهی جهگڑ نہ سکے)۔
چغلخوروں نے میرے عشق ومحبت میں اضافہ ہی کیا ہے ،اور منع کرنے والوں
نے میری براه روی کو اور بڑھاوا دے دیا ہے۔(آگ کو بجهانے کے بجائے اسمیں گهی
ڈالنے کا کام کیا ہے)۔
مجهے اس بات کا اندیشہ ہے کہ میں اچانک کہیں موت کا شکار نہ ہوجاؤں ،
درآحاالنکہ ہمارے دل کی آرزوئیں تشنہ و
نامکمل ره جائیں۔
قال کُث َ ِیّر بن عبد الرحمن
عزه سے پہلے مجهے پتہ نہیں تها کہ آه و بکا کسے کہتے ہیں ،اور نہ یہ معلوم تها
کہ درد دل کسے کہتے ہیں ،یہاں تک کہ عزه منہ پهیر کر چلی گئی۔
اس نے میرے ساته انصاف کا معاملہ نہیں کیا ،کہ دوسری عورتوں کو میری نگاہوں
میں مبغوض بنادیا ،اور جہاں تک بخشش کا تعلق ہے تو اسمیں بهی اس نے بخل سے کام
لیا۔
(غیران سے مراد عزه کا شوہر) عزه کا شوہر اسکو پابند کرتا ہے کہ وه مجهے برا
بهال کہے ،حاالنکہ عزه کے اندر میری توہین و تذلیل کا کوئی اراده نہیں ،لیکن اس نے
شوہر کی تابعداری کی ہے۔
کسی بیماری کے الحق ہوۓ بغیر اسکے لئے کهانا پینا خوشگوار ہو ،عزه کےلیے
میری آبرو میں سے وه چیزیں وقف ہیں جنکو وه حالل سمجهے۔(کہ محبوب کے منه سے
نکلی ہوئی گالی بهی گل تر سمجهی جاتی ہیں)۔
بخدا جتنا میں قریب ہوا اتنا ہی وه جدائی کے ذریعہ دور ہوتی چلی گئی ،اور جتنا
میں نے التفات میں کثرت کی اس نے اسی اعتبار سے قلت کی (ایک حسن کا مزاج ہے
ایک عشق کا)
اگر وه (مجهے برا بهال کہنے پر) راضی ہے تو اس پر خوش آمدید ،اور اسکو اس
بات کا حق ہے کہ وه مجه سے راضی رہے۔لیکن ایسی رضامندی کا حاصل ہونا بہت کم
ہوتا ہے۔
تم ہمارے ساته اچها سلوک کرو یا برا ،ہمارے نزدیک قابل مالمت نہیں ہے ،اور
اگر وه ناراضی کا اظہار کرے ،تو یہ بات بهی قابل نفرت و مذمت نہیں ہے۔
اور میں عزه کیلئے سوزش عشق کی دعا نہیں کرتا ،اور نہ ہی اس بات پر خوش
ہوتا ہوں کہ عزه کی جوتی (پاؤں) پهسل جاۓ۔
لہذا چغلخوروں کو یہ گمان نہ ہوں کہ عزه کے ساته میری محبت ایک جوش ہے جو
ختم ہوجائے گا( ،ایک وقتی ابال ہے جو چهٹ جائے گا).
خدا کی قسم ،پهر خدا کی قسم کہ عزه سےپہلے اور نہ اسکے بعد کوئی محبوب اس
جگہ پر اترا ہے جہاں پر عزه اتری ہے۔
عزه کے ساته میری محبت کی قسم /میری مثال عزه کو چاہنے میں اس شخص کی
طرح ہے -بعد اسکے کہ میں کناره کش ہوچکا ہوں اس چیز سے جو ہمارے درمیان تهی-
.......
۔۔۔۔۔۔۔جو بدلی کے سایہ کی آس لگائے بیٹها ہو۔اور جب جب وه اس بدلی کے سایہ کی
،دوپہر کی گرمی میں آرام حاصل کرنے کے لئے پناه لیتا ہے ،تو وه بدلی دوپہر کے وقت
کوچ کرجاتی ہے۔
وقال أیضا
تم نے مجهکو قریب کیا ،یہاں تک کہ جب تمہارا مکمل قابو مجه پر ،مجه سے ایسی
میٹهی میٹهی باتیں کرکے ہوگیا جو پہاڑی بکروں کو ہموار زمینپر اتار الئیں۔۔۔
۔۔۔تو اسوقت تم میرے پاس سے دور چلی گئی جب میرے پاس کوئی چاره نہیں تها،
اور تم نے میری پسلیوں کے درمیان چهوڑدیا ،جو تم نے چهوڑا(یعنی حزن و مالل)
قال جمیل بن معمر في الحب العذري
قال عروة بن أُذَ ْینَة في الغزل
یقینا جس خاتون نے یہ خیال کیا کہ تمہارا دل اسکی طرف سے ا ُ َچاٹ ہوگیا ہے (تو
اسکا یہ خیال غلط ہے کیونکہ) اسکی پیدائش تمہارے محبوب کی حیثیت سے ہوئی ہے ،
جسطرح تم اسكى محبوب كى حیثیت سے پیدا کۓ گۓ ہو۔
وه اپنے رنگ و روپ کے لحاظ سے گوری چٹی ہے(صاف رنگ کی ہے) ،اسکی
زندگی کے ابتدائی مرحلہ میں ہی اس تک عیش و تنعم کی رسائی ہوگئی ،جس نے اسکو
بڑی مہارت کے ساته ڈھال دیا ،کہ (جسکو باریک کرنا بہتر تها) اسکو باریک کردیا،
اور(جسکو پرگوشت کرنا بہتر تها اسکو) پُر گوشت کردیا۔(کهاتے پیتے گهرانے کی ہے)
اس نے اپنا سالم و پیام بند کردیا ،تو میں نے اپنے ساتهی سے کہا :پہلے اسکا سالم
کس قدر زیاده تها اب کس قدر کم ہوگیا ہے۔
وصف نگاری :خاکہ نگاری ،واقعہ نگاری ،منظر کشی۔
الوصف:
قال الف ََرز َد ْق في الوصف
بهت سے ایسے بهیڑیے ہیں جن کے رنگ خاکستری ،انکے سر کے بال گرے
ہوۓ ہیں اور وه جهومتے ہوئے چل رہے ہیں ،اور وه بهیڑیا (جسکا میں تذکره کرنے جارہا
ہوں وه ایسا ہی تها لیکن وه) ہمارے ساته نہیں تها۔اور میں نے آدھی رات کو اسے اس آگ
پر بالیا جو میں نے روشن کر رکهی تهی ،لہذا وه میرے پاس آگیا۔
جب وه قریب آیا تو میں نے کہا :اور قریب آؤ ،یہ لو میں اور تم میرے اس توشۂ
سفر میں شریک ہیں۔
میں رات گزاری اس حال میں کہ میں اپنے اور اسکے درمیان توشہ تقسیم کرتا رہا،
کبهی آگ کی روشنی میں اور کبهی دھویں میں( یعنی کبهی ہماری آگ کی لپٹ میں تیزی
آتی تو وه روشن ہوجاتی اور کبهی).......
جب اس نے ہنستے ہوئے دانت نکاال اور میری تلوار کا دستہ میرے ہاته میں اپنی
جگہ مضبوطی سے جما ہوا تها ،تو میں نے اس سے کہا:
تم شام کا کهانا کهاؤ ،اور اگر تم مجه سے عہد وپیمان کروگے کہ تم خیانت نہیں
کروگے ،تو ہم ساته ساته رہنے والے دوستوں کی طرح ہوجائیں گے۔
اے بهیڑیے! تم اور غداری ایسے دو بهائیوں کی طرح ہو جنکو ایک ہی چهاتی سے
دودھ پالیا گیا ہو۔
اور اگر تم نے ہمارے عالوه کسی اور کو مہمانی کا کهانا طلب کرتے ہوئے جگایا
ہوتا تو وه تمہارے پاس تیر یا نیزے کی دھار لیکر آتا۔
ہر سفر کے دو ساتهی دو بهائی کی طرح ہوتے ہیں اگرچہ ان دونوں کی قوموں کے
درمیان نیزے چال کرتے ہوں
۔
المدح:
وقال ُح َ
طیئة في مدح آ ِل بغیض بن ألي
حطیئه كا اصلی نام جرول بنمالک ہے ،اسکی کنیت أبو ملیکہ ہے ،وه پست قد تها،
اسالم کا دور آیا تو اس نے اسالم قبول کرلیا ،لیکن اسکے دل میں کبهی بهی حقیقی اسالم
جاگزیں نہ ہوسکا۔
یہ لوگ اس حال میں حکمرانی کرتے ہیں کہ وه بہت دوراندیش ہیں اور نہایت متحمل
المزاج ہیں ،اور اگر وه غصہ ہوتے ہیں تو ان کی غیرت و حمیت بهی سنجیدگی اور وقار
کے ساته ظاہر ہوتی ہے۔
انکو لعن و طعن کم کرو -تمہارے باپ دادا زنده سالمت نہ رہے -یا تم اس جگہ کو
بهردو جسکو انهوں نے بهرا ہے۔
اگر ان پر کسی کا احسان ہوتا ہے تو اسکا بدلہ دیتے ہیں ،اور اگر وه دوسروں پر
احسان کرتے ہیں تو اس احسان کو گدال نہیں کرتے (احسان نہیں جتاتے) اور نہ ہی(احسان
علیہ کو) مشقت میں ڈالتے ہیں۔
کے بدل کا مطالبہ کرکے ُمنعَم َ
وه جنگ کے اندر خوب نیزه زنی کرنے والے ہیں ،اور قحط کے زمانہ کی مشکالت
کو بہت زیاده دور کرنے والے ہیں۔اور ان کے باپ داداؤں نے ان کےلئے اس چیز کو
بنایا ہے(ان کو یہ تعلیمات دی ہیں ،نیز انکے لئے) عزت و شرافت کا محل بهی تعمیر کیا
ہے۔
)آل بغیض) کے بارے میں قبیلۂ سعد کے بیٹے مجهکو لعن و طعن کرتے ہیں،
حاالنکہ میں نے وہی بات کہی ہے جسکا قبیلۂ سعد کو بخوبی علم ہے۔(یعنی میں نے سچ
بات کہی ہے۔
قال الف ََرز َد ْق في مدح سیدنا علي بن الحسین
یہ وه شخصیت ہے کہ وادئ بطحاء جنکے نقش قدم کو پہچانتی ہے ،نیز خانۂ کعبہ
حرم ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔
اور ِحل و َ
یہ ہللا کے تمام بندوں میں سب سے بہتر شخص کے فرزند ہیں ،صاف ستهرے ،متقی
و پرہیزگار ،پاک دل اور قوم کے سردار ہیں۔
جب قریش نے ان کو دیکها تو ان کے ایک کہنے والے نے کہا :اِن کے اخالق
کریمانہ پر شرافت و نجابت ختم ہوجاتی ہے۔
ان کی نسبت عزت کی اس چوٹی کی طرف کی جاتی ہے ،جس تک پہونچنے سے
عرب و عجم کے اسالم قاصر رہے ہیں۔
وه حیاۓ فطری (و ایمانی) کی وجہ سے اپنی نگاہوں کو پست رکهتے ہیں ،اور انکی
ہیبت و رعب کیوجہ سے نگاہیں جهکائی جاتی ہیں ،اور ان سے بات اسی وقت کی جاتی
ہے جب وه مسکرارہے ہوں۔
انکی درخشاں پیشانی سے ہدایت کا نور پهوٹتا ہے ،جیسے کہ سورج کے نکلنے
سے تاریکیاں چهٹ جاتی ہیں۔
اے ہشام! تمہارا یہ کہنا کہ یہ صاحب کون ہیں ان کیلئے نقصانده نہیں ہے( ،کیونکہ)
تم جن سے انجان بن رہے ہو عرب و عجم انکو جانتے ہیں۔
حرف"ال" نہیں آیا ،اور اگر تشہد نہہوتا
ِ ان کی زبان پر تشہد کے سوا کسی اور موقع پر
تو انکی "ال" نعم ہوتی۔
ونموذجه:
وقال حسان بن ثابت في مدیح النبي ﷺ
وه کریمانہ اخالق کے حامل تهے اور ان پر نبوت کی ایک مہر تهی ،ہللا کی جانب
سے اسکی شہادت دی جاتی ہے ،وه چمکتی رہتی تهی اور اس کو دیکها جاسکتا تها۔
ہللا تعال ٰی نے اپنے نام کے ساته نبی ﷺ کے نام کو جوڑ دیا ہے ،جبکہ موذن پانچوں
اذانوں میں کلمۂ "أشہد الخ" کہتا ہے۔
ہللا تعال ٰی نے آپکے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے ،تاکہ وه انکے مرتبہ ومقام
کو بلند کرے ،لہذا اگر عرش واال محمود ہے تو یہ محمد ہیں۔
آپ ایک ایسے نبی ہیں ،کہ آپ ہمارے پاس رسولوں کے انقطاع کے ایک لمبے
عرصے ،اور ناامیدی کے بعد آۓ ہیں ،اور اسوقت روۓ زمین پر بتوں کی پوجا کی جارہی
تهی۔
پس آپ ایک روشن چراغ بن گۓ اور ایک رہنما بن گۓ ،آپ ،ہندوستان میں بنی
ہوئی تیز تلوار کی مانند ،چمکتے ہیں۔
آپ نے ہمیں جہنم سے ڈرایا ،اور جنت کی بشارت سنائی ،اور اسالم کی تعلیم دی،
لہذا ہم ہللا ہی کی حمد بیان کرتے ہیں۔
وقال أیضا
آپ سا حسین میری آنکهوں نے کبهی نہیں دیکها ،آپ سا جمیل عورتوں نے نہیں
جنا
صورت تری معیار کماالت بناکر
دانستہ مصور نے قلم توڑ دیا ہے
آپ ﷺ کو ہر عیب سے منزه و پاک پیدا کیا گیا ہے ،اور آپ کی پیدائش آپکی منشا
کے مطابق ہوئی ہے۔
یقینا میرے باپ دادا اور میری اپنی ذات،عزت ،نفس ،یہ سب محمدﷺ کی ذات کیلئے
ڈھال ہیں۔
وقال کعب بن زھیر في مدیح النبوي
نجیب الرسول کعب بن زہیر نے ہللا کے رسول ﷺ کی تعریف میں اشعار کہے ہیں،
مندرجہ ذیل قصیده کو قصیده برده کے نام جانا جاتا ہے ،کیونکہ ہللا کے رسول ﷺ نے اس
قصیده کو پسند فرمایا تها ،اور اپنی خاص چادر حضرت کعب کو عطا فرمائی تهی۔
اس قصیده کی ابتدا تشبیب سے کی ہے ،چند اشعار کے بعد پهر وه اپنے موضوع
کی طرف آۓ ہیں۔انکی تعریف قدیم جاہلی اسلوب کے مطابق ہے۔
داغ مفارقت دے گئی ،تو آج میرا دل بے چین و بےقرار ہے ،اور اسکے پیچهے
سُعاد ِ
محبت کا اسیر ہے ،اور وه پا بہ زنجیر ہے اور اسکو اس زنجیر وقید سے رہائی کیلئے
کوئی فدیہ نہیں دیا گیا ہے۔
جب یہ قافلہ روانہ ہورہا تها تو اس جدائی کی صبح کو سعاد نہیں تهی مگر دھیمی
نسوانی (غنہ والی) آواز والی ،نگاہیں نیچی کۓ ہوۓ سرمگی آنکهوں والی تهی۔
اسکی کرم فرمائیاں اور اسکے وعدے تمہیں ہرگز دھوکہ میں نہ ڈالیں( ،خود سے
مخاطب ہے) بے شک جهوٹی آرزوئیں اور خواب و خیال کی باتیں ،یہ سب بے راه روی
اور گمراہی ہے۔
امیدو آرزو کرتا ہوں کہ اسکی محبت مجه سے قریب ہو ،حاالنکہ میرا خیال ہے کہ
ہمیں تمہاری طرف سے محبت کا عطیہ حاصل نہیں ہوگا۔
ہر جگری دوست نےکہ جس سے مجه کو کوئی امید تهی ،کہا :میں تم کو بے پرواه
نہیں کرسکتا ،اور میں تمہاری طرف سے غافل ہوں۔
تب میں نے ان سے کہا :چهوڑ دو میرا راستہ ،تمہارا حسب و نسب مجہول و غیر
معروف ہے ،اور رحمن نے جو کچه مقدر کررکها ہے وه ہوکر رہے گا۔
ہر عورت کا بیٹا اگرچہ اسکی عمر کتنی ہی دراز کیوں نہ ہو ،لیکن ایک نہ ایک
دن اسکو ایک کبڑه آلہ( تابوت) پر اٹهایا جاۓ گا۔
مجهے یہ خبر دی گئی ہےکہ رسول ہللا ﷺ نے مجهے دھمکی دی ہے ،حاالنکہ ہللا
کے رسول ﷺ کی بارگاه میں معافی کی امید ہے۔
آپ( میرے بارے میں) عجلت سے کام نہ لیجیے ،وه ذات آپکو ہدایت دے جس نے
آپ کو قرآنی تحفہ عطا فرمایا ہے ،جسکے اندر وعظ و نصیحت کی باتیں اور دیگر تفصیالت
ہیں۔
یقینا ہللا کے رسول ﷺ ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے ،اور ایک
سونتی ہوئی کاٹنے والی ہللا کی تلوار ہے۔
مکہ کی سرزمین میں جب وه لوگ ایمان الئے ،تو قریش کے ایک کہنے والے نے
کہا :تم لوگ یہاں سے کوچ کرو۔
نوٹ :قال قائلہم سے مراد حضرت عمر ہیں ۔
وه اونچی ناک والے (غیرت مند) بہادر اور مرد میداں ہیں ،انکی زرہیں داؤدی بناوٹ
کی ہیں ،اور وہی جنگ میں انکا لباس ہوا کرتی تهیں( ،وه جنگ کے اندر زره پوش ہوا
کرتے تهے)۔
وقال سیدنا حسان بن ثابت في مدح آل غسان
کیا ہی عمده جماعت تهی کہ جسکی پہلے زمانے میں نے میں ِجلّق نامی مقام پر
ہم نشینی اختیار کی۔
وه (غسانی) ایسے منقش اور ڈبل بناوٹ والے جوڑے پہن کر ایسے مستانہ وار چال
کرتے ہیں ،جیسے بڑی عمر کے اونٹ چهوٹی عمر کے اونٹوں کی طرف مستانہ وار چلتے
ہیں۔
وه سردار قوم پر وار کرتے ہیں ،جسکی خود چمکتی رہتی ہیں ،اور اتنا سخت وار
کہ جس وار سے انگلیوں کے پور جدا ہوتے ہیں۔
وه لوگ اسکو جو ان کے پاس نہر بریص پر آتا ہے ،ایسا ٹهنڈا پانی پالتے ہیں جسکی
آمیزش خالص خوشگوار شراب سے کر دی گئی ہو۔
یہ (جو غسانی ہیں) روشن چہرے والے ہیں ،اور انکا حسب و نسب انتہائی اعلی اور
انتہائی شریف ہے ،اونچی ناک والے (غیور و خوددار) ہیں ،اور پہلے طرز کے لوگ ہیں۔
الحماسة:
وقال قطري بن فجاءة في الحماسة
(جب) میرا نفس بہادروں کے خوف سے حواس باختہ ہورہا تها ،تو میں نے اس
سے کہا :تیرا برا ہو ،تم ہرگز ڈر اور خوف میں مبتال مت ہو۔
کیونکہ اگر تم اپنی مقرره وقت کی زندگی سے ایک دن کے (بهی) طالب ہوۓ ،تو
تمہاری بات نہیں مانی جائیگی۔
لہذا تم موت کے میدانمیں صبر سے کام لو ،انتہائی صبر سے (کام لو) ،کیونکہ
ہمیشگی کا حاصل کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔
بقاۓ دوام کا لباس کوئی عزت کا لباس نہیں ہے ،اسکو ذلیل اور بزدل شخص سے
اتار دیا جاتا ہے۔
موت کی راه زنده شخص کی غایت ه انتہا ہے ،لہذا موت کا منادی تمام اہل زمین کو
پکار رہا ہے۔
جس شخص کو جونی یا صحت کی حالت میں موت نہیں آتی ،وه اکتا جاتا ہے اور
موت اسکو فنا کے حوالے کردیتی ہے۔
جب آدمی گری پڑی چیز شمار کیا جاۓ تو ایسی زندگی میں کوئی بهالئی میں نہیں
ہے
الفخر:
وقال الفرزدق في الفخر
جب آسمان کے کنارے غبار آلود ہوجائیں ،اور تیز چلنے والی ٹهنڈی ہوا محلہ کے
گهروں کے گوشوں کو کهول دے۔
اور سفید پاال بوقت صبح ایسا معلوم ہو گویا کہ بوڑھی اونٹنی کے کہان پر دھنکی
ہوئی روئی رکهی ہو۔
(تو اسوقت)تم ہماری پناه میں آنے والے شخص کو دیکهوگےکہ وه بہت عافیت اور
سالمتی کے ساته ہے۔اور اگر اس سے جرمہوجاۓ تو اسکو عیب نہیں لگایا جاتا ،ان چیزوں
کیوجہ سے جو پناه لینے والے کو عیب دار بنا دیتی ہے۔
ہمیں غالب عزت حاصل ہے ،اور ہمارے لئے اتنی بڑی تعداد ہے کہ جس پر اگر
کنکری بهی شمار کی جاۓ تو کنکری بهی پیچهے ره جائیگی۔
کوئی عزت نہیں ہے مگر ہماری عزت اس پر غالب ہے ،اور ذلیل و رسوا شخص
ہم سے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے تو اسکے ساته انصاف کا معاملہ کیا جاتا ہے۔
ہم میں سے کچه لوگ ایسے ہیں کہ لوگ انکے سامنے زبان کهولنے کی ہمت نہیں
کرتے ،لیکن وہی شخص اپنی بات رکه سکتا ہے جسکو اجازت دی گئی ،پهر اسکے ساته
انصاف کا معاملہ کیا جاتا ہے۔
تم لوگوں کو اس (سردار) کے اردگرد بیٹهے ہوۓ دیکهوگے ،درآحاالنکہ انکی
آنکهیں جهکی ہوئی ہیں ،اور انکی نگاہیں ادھر ادھر نہیں پهرتیں۔
ہماری(حکمرانی اس جگہ تک ہے) جہاں خشکی(زمین)کے کنارے ملتے ہیں ،اور
کنکری کی تعداد( کے برابر ہمارے پاس افراد بهی ہیں) اور قبیلہ ِخندِف سے تعلق رکهنے
واال بڑا سردار( ہم ہی میں سے ہے)۔
صب میں اترتے ہیں ،جہاں سے
جب لوگ یوم النحر کی شامکو منی کے وادی ُمح ّ
انہوں نے وقوف عرفہ کیا تها ۔۔۔
۔۔۔تو تم لوگوں کو دیکهو گے کہ جب ہم چلتے ہیں تو لوگ ہمارے پیچهے پیچهے
چلتے ہیں ،اور اگر ہم لوگوں کو (ٹهہرنے ) کا اشاره کرتے ہیں تو وه ٹهہر جاتے ہیں۔
االستعطاف:
وقال الحطیئة في االستعطاف بعد أن أخذ علیه سیدنا عمر بن الخطاب ھجاءه لزبرقان
بن بدر رضي ہللا عنه
مجهے ایک پیغام پہونچا ،تو میں نے اس پیغام کو جهٹال دیا ،اور مجهے اس بات
کا اندیشہ نہیں تها کہ ایسی بات کہی جائیگی۔
کہ چغلخور لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور ناحق طریقے پر جهوٹی بات
کہہ دی۔
میں آپ کی خدمت میں معذرت اور معافی کی امید لئے ہوۓ آیا ہوں ،اور میں آپکی
عبرتناک سزا سے ڈرتا ہوں۔
آپ میرے متعلق چغلخوروں کی بات ہرگز نہ سنیے ،اور آپ مجهے لوگوں کے
حوالے نہ کیجیے ،خدا آپکی رہنمائی فرماۓ۔
کیونکہ آپ زربقان سے بہتر ہے ،اور آپ سخت ترین عبرتناک سزا دینے والے ہیں،
اور بہترین عطیہ دینے والے ہیں۔
الرثاء:
وقال أبو ذؤیب الهذلي في رثاء بنیه
رثاء :مرثیه نگاری؛ وه اشعار جسمیں شاعر دنیا سے رخصت ہونے والے کسی میت
پر اسکے اوصاف و محاسن کا ذکر کرتا ہے۔
کیا گردش زمانہ سے تم تکلیف اور درد محسوس کرتے ہو ،حاالنکہ زمانہ جزع و
فزع کرنے والے کو خوش نہیں کرپایا ہے۔
امیمہ نے کہا :تمہارے جسمکو کیا ہوا ،کہ اتنا دبال پتال نظر آرہا ہے( ،اور یہ دبال
پتال اسوقت سے ہوا ہے) جب سے تم بے حیثیت کردئیے گۓ ،حاالنکہ تمہارے جیسا مال
نفع بخش ہوتا ہے۔
اظہار غم کر رہا
ِ تو میں نے اسکو جواب دیا ،اس حال میں کہ میں اپنے جسم پر
تها ،کہ یقینا میرے بیٹے ہالک ہوگئے ،اور شہر سے رخصت ہوگۓ۔
میرے بیٹے ہالک ہوگئے( ،اور ہالک ہوکر) مجهے حسرت کا بدلہ دیا( ،اور یہ
حسرت اسوقت ہوتی ہے) جب لوگ سو جاتے ہیں ،اور (حسرت کیوجہ سے) ایسے آنسو (
بہتے) ہیں جو تهمتے نہیں ہیں۔
اور آنکهوں (کی حالت)انکے ہالک ہوجانے کے بعد ایسی ہوگئی ہے کہ انکے پپوٹے
ایسے لگتے ہیں کہ ان میں کانٹوں کی سالئی پهیر دی گئی ہے ،تو وه آنکهیں پهوٹ گئیں
ہیں اور آنسو بہا رہی ہیں۔
میں (ان بچوں کے) ہالک ہوجانے کے بعد ایسی زندگی کے ساته باقی ره گیا ہوں،
جو بڑی پریشان کن اور تهکا دینے والی ہے ،اور میرا خیال یہ بهی ہے کہ میں ان بچوں
سے مل جانے واال ہوں ،اور انکے پیچهے چال جارہا ہوں۔
وه لوگ میری خواہش سے آگے بڑھ گۓ ،اور انهوں نے اپنی خواہشوں کو گلے
لگا لیا ،اور وه یکے بعد دیگرے ہالک کردیے گئے ،اور ہر پہلو کیلۓ پچهڑنے کی جگہ
ہے ( یعنی ہر انسانکو مرنا ہے)
اور میری خواہش تهی کہ میں انکی طرف سے دفاع کروں گا ،لیکن جب موت آجاتی
ہے تو اسکو نہیں ہٹایا جاسکتا۔
اور جب موت اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے تو تم ہر گنڈه و تعویذ کو بے منفعت پاؤگے۔
میرا صبر و ہمت سے کام لینا ان لوگوں کو سامنے رکهتے ہوئے ہے ،جو لوگوں
ث زمانہ کے سامنے
کی مصیبتوں پر ہنستے ہیں ،تاکہ میں میں انکو دکهالؤں کہ میں حواد ِ
کمزور نہیں پڑتا۔
ث زمانہ کیلئے اس (سیڑھی کے) پتهر کی مانند ہوگیا ہوں ،جو مشقر اور میں حواد ِ
کے قلعہ میں لگے ہوۓ ہیں اور جن کو روزانہ روندا جاتا ہے۔
وقال سیدنا حسان بن ثابت في رثاء رسول ہللا ﷺ
مدینہ طیبہ میں رسول ہللا ﷺ کے نشانات و آثار ہیں ،اور ایک منور قیام گاه ہے ،
حاالنکہ نشانات مٹ جایا کرتے ہیں اور مانند پڑجاتے ہیں۔
محترم اور قاب ِل احترام دار(مدینہ طیبہ) کے نشانات مٹے نہیں ہیں ،اور اس میں
اس ہدایت یافتہ ذات کامنبر موجود ہے ،جس منبر پر آپ ﷺ چڑھا کرتے تهے۔
اور واضح نشانیاں ہیں اور باقی رہنے والے آثار و نشانات ہیں ،اور ایک وسیع و
کشاده قیام گاه ہے ،جس میں آپ کا مصلی اور پوری مسجد بهی ہے۔
اور اس (مدینہ طیبہ یا مسجد) میں کچه حجرے بهی ہیں ،کہ جن کے درمیان ہللا
کے رسول ﷺ قیام فرمایا کرتے تهے ،اور آپ ﷺ کی ذات ہللا کی طرف سے ایسی روشنی
کی مانند تهی ،جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے ،اور (جس مرده دلوں میں ایمان کی)
آگ لگائی جاتی ہے۔
اور کچه ایسے محاسن ،علوم و معارف ہیں ،کہ زمانہ کے گزرنے کے باوجوو
انکی نشانیاں مٹی نہیں ہیں ،اور ان (علوم و معارف) تک بوسیدگی آئی تو نشانات اس سے
(بوسیده ہونے کے بجاۓ) تر وتازه ہوگۓ۔
میں (ان علوم ومعارف کیوجہ سے) رسول ہللا ﷺ پر آنسو بہاتا رہا ،تو آنکهوں نے
میرا ساته دیا ،اور انکی طرح پپوٹے بهی (رونے میں) میرا ساته دیتے رہے۔
وه سب ہللا کے رسول کے احسانات وانعامات کو یاد کرتے رہے ،اور میں نہیں
سمجهتا کہ میری ذات ان تمام نعمتوں کو شمار کرپائیگی ،اور میری ذات تو (ان تمام نعمتوں
کے شمار کرنے کے سلسلہ میں) حیرانی و پریشانی کا شکار ہے۔
اے ہللا کے رسول ﷺ کی قبر! خدا تم کو برکتوں سے نوازے ،اور اس شہر میں بهی
برکت دی جاۓ ،جس شہر میں اس نیک اور ہدایت یافتہ ذات نے قیام فرمایا تها۔
یقینا ان لوگوں نے سراپا علم و آگہی ،سراپا حلم ،اور سراپا رحمت و مہربانی ذات
کو دفن کردیا ہے ،اس شام کو جس شام کو آپ پر لوگوں نے مٹی دی ،اور آپ کو (قبر
کے اندر) تکیہ نہیں لگایا گیا۔
اور وه لوگ رنج وغم کے ساته واپس لوٹے ( ،اور ان کا رنج یہ تها کہ) ان کا نبی
انکے درمیان نہیں ہے ،اور ان لوگوں کی پیٹه اور بازو بالکل کمزور پڑگۓ۔
اور آپکی وفات کے روز وه لوگ اس ذات پر آنسو بہا رہے تهے ،جس پر آسمان
بهی آنسو بہا رہا تها ،اور جس پر زمین بهی آنسو بہا رہی تهی ،اور لوگ سب کے سب
انتہائی رنجیده اور غم سے چور تهے۔
اسی دوران کہ وه لوگ اس نور کے ساته تهے کہ اچانک موت کے نشانہ پر لگنے
واال تیر انکے پاس جا پہونچا۔
تو آپ ﷺ ہللا کے پاس واپس چلے گۓ ،اس حال میں کہ آپ قابل تعریف تهے ،
مالئکہ کی آنکهیں بهی آپ ﷺ پر آنسو بہا رہی تهیں ،اور (ہر طرف) آپکی تعریف کی
جارہی تهی۔
اور سرزمین حرم ،اسکے تمام گوشے وحشتناک ہوگۓ ،اس وحی کے منقطع
ہوجانے کیوجہ سے ،جس سے یہ سرزمین حرم شناسا تهی۔
اور (وه سرزمین حرم) ویران ہوگئ ،سواۓ آپ کی اس بغلی قبر کے جس (قبر)
کے اندر آپکی مرحوم ذات نے قیام کیا تها ،اور آپ پر بالط اور غرقد رو رہے تهے۔
اور آپکی مسجد ( بهی ویران ہوگئ) ،اور آپ کے انتقال سے( تمام کی تمام چیزیں
وحشتناک ہوگئیں ) ،اور وه خال وحشتناک ہوگیا جس میں آپکا اٹهنا بیٹهنا تها۔
اے آنکه! تو ہللا کے رسول ﷺ پر آنسو بہا ،اور میں تمہارے متعلق کبهی بهی یہ نا
جانوں کہ تمہارے آنسو خشک ہوگۓ ہیں۔
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اس محسن ذات پر آنسو نہیں بہا رہی ،جس کے
احسانات لوگوں پر بهرپور ہیں اور انکو ڈھانپے ہوئے ہیں۔
اے آنکه! تو ان پر آنسووں کے ذریعے سخاوت کر! اور پر چیخ چیخ کر رو ،اس
ذات پر جس کا نمونہ زمانہ میں کبهی نہیں پایا جائے گا۔
النقائض:
نَ ِقیضةٌ (ج) نَقَائِ ُ
ض :مخالفت
اصطالح میں شعری مقابلہ آرائی ،اور جوابی شعر و شاعری ،یعنی ایک طرف
سے شعر کہا گیا آپ نے اسی وزن و قافیہ پر دوسرا شعر کہا ،پهر اس نے اسکا جواب دیا
،پهر آپ نے اسکا جواب دیا۔ ۔۔
یہ تناقضات طبیعتوں کو ہوش میں النے ،طبیعتوں کو جوش میں النے اور بلیغ
شعری ادب کی تخلیق کا سبب بن گئے۔
قال الفرزدق
یقینا وه ذات کہ جس نے آسمان کو بلند کیا ہے ،اس نے ہمارے لئے ایسا گهر بنایا
ہے ،جس کے ستون انتہائی مضبوط اور بڑے لمبے ہیں۔
إلى أن یقول:
اور ایک ایسا گهر بنایا کہ جسکے صحن میں زراره ،مجاشع اور ابو الفوارس نہشل
حبوه باندھ کر بیٹهتے ہیں ،ایسے لوگ تمہارے صحن میں کبهی بهی حبوه باندھ کر نہیں
بیٹهتے ،جب کارنامے اور عمده کام شمار کۓ جاۓ۔
فیجیبه جریر في نقیضة لها:
جس ذات نے آسمان کو بلند کیا ہے اس نے مجاشع کو رسوا کردیا ،اور اس نے
تمہارا گهر بہت نشیبی اور نچلی زمین میں بنایا۔
ایسا گهر کہ جسکے صحن میں تمہارا لوہار بهٹی سلگاتا ہے ،اور اسکی نشستیں
(بیٹهنے کی جگہیں) انتہائی گندی ہیں۔اور اسکا مدخل (دروازه) بہت برا (انتہائی تنگ)ہے۔
حضرت زبیر قتل کر دیے گۓ اور تم حبوه باندھے بیٹهے ہو ،ناس ہو تمہارے
حبوه کا جو (اس وقت بهی) نہیں کهال (جب حضرت زبیر قتل کر دیے گئے)۔
یقول الفرزدق:
شاہی جوڑے ہمارا لباس ہوتے ہیں ،جب ہم گهروں میں ہوتے ہیں ،اور ہم کشاده
ووسیع زرہوں میں ملبوس ہوتے ہیں ،جب ہم جنگوں میں جاتے ہیں۔
فیجیبه جریر:
تم شاھی جوڑوں کا نام مت لو ،بےشک تم حضرت زبیر کے (قتل کے) بعد اس
حائضہ عورت کی مانند ہوگۓ ہو ،جس نے ابهی تک (حیض سے پاک ہونے کیلۓ)
نہایا نہ ہو۔
ویقول الفرزدق:
ہماری عقلیں مضبوطی میں پہاڑوں کی مانند ہے /ہماری عقلیں مضبوطی میں پہاڑوں
کا وزن رکهتی ہیں ،اور تم ہم کو جنات سمجهوگے اگر ہم جہالت پر اتر آئیں۔
تم ذرا اپنے ہاته سے دھکا دو ،اگر تم ہماری عمارت کو نقصان پہونچانے کا اراده
کرو ،کو ِه ثہالن کو جو بڑی بڑی چوٹیوں واال ہے (پهر دیکهو) کیا وه حرکت کرتا ہے۔
(جس طرح تم کوه ثہالن کو نہیں ہال پاؤگے اسی طرح ہم کو بهی نہیں ہال پاؤگے).
میرا ماموں وه شخص ہے جس نے بادشاہوں سے ان کی جانیں غصب کرلی ہے،
اور جفنہ کے جزیہ کی رقم میرے ماموں کے پاس لے جائی جاتی ہے (یعنی میرا ماموں
جفنہ کا حاکم ہے)۔
ہم لوگ ہر قبیلہ کے سردار پر وار کرتے ہیں ،اور اے جریر تمہارا باپ اپنی گدھی
کے پیچهے بیٹها ہوا جوئیں نکال رہا ہے۔
فیجیبه جریر:
فرزدق جب اپنے ماموں کی پناه لیتا ہے تو اپنے سے ذلیل شخص کی طرح ہو جاتا
ہے جو اپنے سے بڑھ کر ذلیل آدمی کی پناه حاصل کرے۔
تم بنوضبہ پر فخر کرو ،بیشک تمہاری ماں ان ہی میں سے ہیں ،اور ضبہ کا (یہ)
بیٹا چچا ہونے اور ماموں ہونے ،دونوں اعتبار سے بہتر نہیں ہے۔
بنو وقبان کو یہ خبر پہونچادو کہ انکی عقلیں ہلکی ہوگئیں ہیں ،اور ان( کی عقلیں)
رائی کے دانہ کے برابر وزن نہیں رکهتی ہیں۔
میں نے ایسے شعراء کیلئے زہر ہالہل (ہجوی اشعار) تیار کیا ہے ،اور پہلے شخص
کے جام سے آخری شخص کو بهی پالدیا۔
جب میں نے فرزدق (کے او) پر اپنا چمٹا رکها ( ،تو اسکی جو گت بنی وه تو بنی
ہی ) اور بعیث بهی چیخ پڑا ،اور (چمٹے نے) اخطل کی ناک کاٹ دی۔
مربع جو جریر کے اشعار کا ناقل تها ،اس نے فرزدق کے باپ کو قتل کردیا ،تو
فرزدق نے اسکو قتل کرنے کا اراده کیا ،جریر کو جب اسکے اراده کا علم ہوا تو اس نے
فرزدق پر بهپتی کستے ہوۓ درج ذیل شعر کہا:
فرزدق کا یہ خیال ہیکہ وه مربع کو قتل کرے گا ،اے مربع! اب تم لمبی عمر کی
خوشخبری قبول کرو۔
جریر نے اپنے قبیلے کی تعریف میں درج ذیل فخریہ شعر کہا:
بنو تمیم اگر تم پر ناراض ہوجائیں گے تو تم سمجهو گے کہ ساری دنیا تم سے خفا
ہیں۔
جریر کے ایک قصیده کے مندرجہ ذیل اشعار ہیں ،جن کے ذریعہ وه بنو نمیر کی
ہجو ومذمت کررہا ہے:
اے مالمت کرنے والی! تم اپنی لعن و طعن کم کرو ،اور سرزنش کو کم کرو ،اور
کہو ،اگر میں نے صحیح بات کہی ہے ،کہ اس نے صحیح بات کہی ہے ( میرے سچ
بولنے پر میری سچائی کا بسر و چشم اعتراف کرو)
قبیلہ بنو تمیم ،اور خزیمہ کی دوشاخوں (بنو اسد اور بنو نمیر) میں میرے جو (عمده
عمده کارنامے) گزرچکے ہیں ،انهوں نے میرے لۓ اس بات کا انکار کردیا کہ مجه پر
عیب لگایا جاۓ۔
کیا بنو نمیر گالی (کهانا) چاہتے ہیں ،تو یقینا -انکے باپ کی قسم -انکو گالی مل گئی
ہے۔
میں ایک ایسا باز ہوں جو قبیلہ نمیر پر منڈال رہا ہے ،اور مجهے آسمان سے مقرر
کیا گیا ہے ان پر ٹوٹ پڑنے کیلئے۔
ہللا قبیلہ نمیر پر رحمت نازل نہ فرماۓ ،اور نہ ہی انکی قبروں کو بادل (کی بارش)
سیراب کرے۔
اور جریر کا سب سے چبهتا ہوا شعر:
تم اپنی نگاه نیچی کرلو ،کیونکہ تمہارا تعلق بنو نمیر سے ہے ،اور تم قبیلہ کعب و
کالب تک نہیں پہنچ
قال األخطل:
لوگوں کا مقصد زندگی حاصل ہونا ہے ،حاالنکہ میں لمبی زندگی کو نہیں سمجهتا
کہ وه عقل میں فتور کے عالوه کسی چیز میں اضافہ کرتی ہے۔
اگر تم کو ذخیروں کی ہی ضرورت ہو تو تم کو نیک اعمال کی طرح(باقی رہنے
واال) کوئی ذخیره نہیں ملے گا۔
ومن شعر الطرماح المشهور:
میری محبت کو میری نگاه میں اس بات نے بڑھادی ہے کہ میں ہر ایسے شخص
کے نزدیک مبغوض ہوں جو الخیره ہے۔
اور (میری محبت کو میری نگاه میں اس بات نے بڑھادی ہے کہ) میں کمینوں کے
نزدیک مبغوض ہوں ،اور ان کے نزدیک کوئی بدبخت نہیں ہوتا مگر نیک خصلت اور عمده
عادات و اطوار کا مالک شخص۔
ومن شعره الذي یتبع فیه الطریقة البدویة
(کوا) ہر
جس چیز سے میں ڈرتا تها وه چیز پیش آگئی یعنی جدائی ،اور ایک ملعون ّ
پهدکنے کی جگہ پهدک رہاہے۔
وه چاشت کے وقت چیخنے واال ہے ( ،اور جب وه چیختا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے)
گویا کہ اسکے پیر کی رگ (اس جگہ سے) رسی میں بندھی ہوئی ہے ،جس جگہ وه پیروں
کو اٹهاتا ہے۔
وأجد(:ادب زیاده وسیع اور زیاده جدید مرحلہ میں) األدب في مرحلة أوسع
اور یہاں سے ادب زندگی کے نئے مرحلہ میں داخل ہوگیا ،اور یہ پہلے کے مرحلہ
سے زیاده وسیع اور جدید مرحلہ تها ،بلکہ یہ تہذیب و ترقی کا مرحلہ تها ،جو ابتدائی اور
جوانی کے مرحلہ کے بعد میں آتا ہے ،اور یہ اس وجہ سے کیونکہ اس دور میں ادب
کیلئے ،مختلف بیرونی علوم و فنون اور ثقافت سے استفاده کا ایک وسیع دروازه کهل
گیا۔اور اس بات کا بهی وسیع دروازه کهل گیا کہ دوسری پڑوسی قوموں میں پائے جانے
والے ادبی لطائف اور مناہج جو عرب تک پہونچ رہے ہیں وه ان کو لے لیں۔
والنثر(:نثر نگاری اور انشاء پردازی کے اسلوب کی ترقی اور تطور أسالیب الكتابة
تنوع)
کتابت وخطابت صحابہ وتابعین اور دوسری صدی کے اوائل تک اس طریقہ پر تهی
جس سے عرب مانوس تهے ،اور وه ایک ایسا انداز و طریقہ تها ،جسمیں الفاظ ومعنی
دونوں کا پورا پورا حق دیا جاتا تها ،اور جس میں اختصار وسہولت وفصاحت اور قوت کا
پورا پورا خیال رکها جاتا تها ،اور بے جا تفصیل ،مبالغہ اور عبارت آرائی سے اجتناب
کیا جاتا تها ،اور جب عرب و ایرانیوں کا اختالط بڑھ گیا ،اور ان میں کثرت سے کتابت
کا سلسلہ جاری ہوگیا تو عربوں میں بعض ایرانی عادات داخل ہوگئے ،جیسے اعزاز واکرام
میں مبالغہ ،اسلوب کو سنوارنا ،تعریفی خطابات کا استعمال وغیره۔
الترسل(:غیر مسجع نثر نگاری) فن
اور یہاں سے عربی انشاء پردازی کے انداز میں ایرانی انداز کے اثرات ،آثارو
عالمات نمایاں ہونے لگے ،اور اس کے لئے ایک متعین اسلوب اور ایک خاص نہج متعین
ہونے لگا ،یہاں تک کہ ایک شائستہ ادبی صناعت وجود میں آئی ،جس کو فن ترسل کہا
گیا۔ اور اسکی ابتدا آخری اموی خلیفہ مروان بن محمد کے دور سے اسکے سکریٹری اور
میر منشی عبد الحمید بن یحیی کے ہاتهوں ہوئی۔
ویقول في أثناءھا:
عبد ہللا بن المقفع:
تطعیم الكتابة العربیة:
طریقته ونموذجه:
بلوغ الكتابة إلى كمالها:
المدرسة الثانیة وأسلوبها:
خصائص الجاحظ ونماذجه:
الكتابة بعد الجاحظ:
ابن العمید وأسلوبه:
المحافظة على األسلوب المزخرف:
نبغاء ھذا األسلوب:
المقامات:
نموذج من مقامة الحریري:
األسلوب الصناعي المموه:
الخطابة:
التوقیعات:
الرسائل:
وقوله:
(لغوی تشریح:اذن(ج)آذان:کان)
۱۔اے میری قوم!میرے کان قبیلہ کے ایک فرد پر عاشق ہیں،کبهی کبهی آنکه سے
پہلے کان عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
(لغوی تشریح:ھذی ِ-ھِذیانا:بکواس کرنا/نامعقول باتیں کرنا۔اوفی(افعال):کسی چیز کو
پہنچانے/دینے میں ذره برابر کمی نہ کرنا)
۲۔ ان لوگوں نے کہا :جس شخص کو تم دیکهتے نہیں ہوتم اس کے ساته کیسے بکواس
کرتے ہو؟تو میں نے سے کہا:کان آنکه کی مانند ہے جو چیز پیش آتی ہے وه اس کو دل
تک پورا پورا پہنچا دیتا ہے۔
وقوله:
(لغوی تشریح :نفی ،ینفی:دور کردینا۔الکری:نیند۔طیف:خواب وخیال۔ ال ّم(افعال):نازل ہونا)
۱۔میری رات دراز نہیں ہوئی لیکن مجهے نیند بهی نہیں آئی،اوروه خواب خیال جو مجه پر
الحق ہوااس نے مجه سے نیند کو دور کردیا۔
(لغوی تشریح:نفّس(تفعیل):دور کرنا)
۲۔ اے عبده !تم مجه سے(میرے مصائب کو)دور کردو ،اور اے عبده! تم اس بات کو اچهی
طرح جان لو کہ میں گوشت پوست کا بناہوا(ایک انسان)ہوں۔
(لغوی تشریح:توکا(تفعل):ٹیک لگانا۔)
۳۔میری ان دو چادروں کے اندر ایک کمزور اور نحیف جسم ہے،اگر تم نے اس پر ٹیک
لگا یا تو یہ (یکبارگی)گر جائے گا۔
ومن أبیاته السائرة قوله(:اس کے زباں زد اشعار میں سےیہ شعر ہے):
(لغوی تشریح:وراء:پیچهے/عالوه۔اقصی(افعال):دور کرنا)
۱۔ کیا تم محبت کے عالوه کسی اور مقا م و مرتبہ سے واقف ہوجو مجهے تم سے قریب
کردے،اس لئے کہ محبت نے مجهے دور کردیا ہے۔
وقوله:
(لغوی تشریح:مصرع(ج)مصارع:پچهڑنے کی جگہ مراد بربادی و ہالکت۔)
۱۔خ دا کی قسم !میں تمہاری آنکهوں کے جادو کا خواہش مند ہوں،اور(حاالنکہ)میں
عاشقوں کی ہالکت و بربادی سے بهی ڈرتا ہوں۔
أبو العتاھیة:
الوصف والتشبیهات وابن الرومي:
الموشحات وعبد ہللا بن المعتز:
تجوید المعنى وأبو تمام:
طریق وسط وأبو عبادة البحتري:
وقال یمدح الفتح ابن خاقان:
الشریف الرضي:
إیثار المعنى والتدقیق فیه:
غلبة الفكرة والمعري:
العاطفة وروعة األداء وأبو فراس:
الشعر في األندلس:
الرقة والخیال:
نماذج شعراء األندلس:
المعتمد بن عباد:
ابن بقي:
ابن عبد ربه:
ابن ھانئ األندلسي:
ابن زیدون:
ابن خفاجه:
نموذج من شعر العهد الفاطمي:
األسلوب األدبي قبل النهضة الحدیثة
(نئی بیداری سے پہلے ادبی اسلوب کی صورتحال)
األغراض اإلسالمیة:
أدب المهجر:
وه عربی داں حضرات جو اس نئے عہد میں عرب ملکوں سے مغربی ممالک چلے
گئے اور خاص طور سےامریکہ چلے گئے،ان میں اہل قلم بهی ہو ئے اور شعراء بهی،ان
لوگوں کو ادبائے مہجر کے نام سے جانا جاتا ہے،ان میں سے اکثر کا تعلق ملک شام سے
تها،انهوں نے امریکہ اور یورپ کے ملکونمیں اقامت اختیار کی،اور ان کا تحریری ،
صحافتی اور شعر و شاعری کی عربی اور ادبی سرگرمیوں میں بہت نمایاں حصہ ہے۔
ان کا ادبی اسلوب اور ادبی قدریں مغربی زندگی سے متاثر تهیں،ان کے افکار مغربی
اثرات کے زیر نگیں آگئے،یہاں تک کہ ان میں سے بعض ادباء نے یہ آواز دی کہ شعری
و ادبی قالب کی بنیادی پابندیوں سے آزادی حاصل کی جائے،جس قالب کی عربی زبان اپنے
عظیم ماضی (عہد جاہلی)سے وارث ہوئی تهی،ان کا یہ خیال تها کہ حملہ آور تمدنی قافلہ
کے ساته ساته چلنا ،جامعیت کے ساته بنیادی تبدیلی کے بغیر کبهی ممکن نہیں ہوگا۔
لیکن عربی زبان و ادب کے جاننے والوں کی طرف سے ان کے خیاالت و افکار کا
استقبال نہیں کیا گیا،اور نہ ہی ان کو قبولیت ملی(،ان کے بنیادی قالب کو بدل ڈالنے والے
افکار کو لوگوں نے مناسب نہیں سمجها ،لیکن دوسری طرف ان کا جو یہ خیال تها کہ)ادب
کے کام کو زندگی کی نمائندگی ،اس کی تصویر کشی اوراس کے حیات بخش پہلؤوں کو
نمایاں کر نے میں منحصر کرد یا جائے ،تو یہ ایک ایسی رائے تهی جو پذیرائی اور
شریک خیال ہیں۔
ِ پسندیدگی کا مستحق تها ،اور اس رائے میں دوسرے ادباء بهی ان کے
الخطابة
(عہد جدید میں)عربی خطابت نے بهی ترقی کی ہے،اور اس کے اندر زندگی کی
روح دوڑ گئی،پهر اس کے اندر نئے سماجی یا سیاسی حاالت کے تقاضوں اور دینی دعوت
اور اسالمی تنظیموں کے تقاضوں کے مطابق(مزید ) ترقی اور سرگرمی آتی گئیں،اس کو
ترقی دینے میں جامع ازہر کا بہت بڑا کردار ہے،اور یہاں کے جو فارغین تهے ان میں
اچهے اچهے ممتاز خطیب ہوئے۔
نبغاء النهضة:
تجدید و اصالح کے شاعری کےاس منہج کوخاص طور پر اس عہد کی نئی نسل
کے شعراء نے پسند کیا ،ان میں سر فہرست احمد شوقی(امین الشعراء)(۱۸۵۴ء-
۱۹۳۲ء)ہیں،حافظ ابراہیم(شاعر النیل)(۱۸۷۰ء۱۹۳۲-ء)ہیں،اس انداز میں ان دونوں کے
ساته ساته خلیل مطران (۱۹۴۹ء)نے بهی شرکت کی،اور (شاعری کے اندر)نیا پن اور
عمدگی پیدا کرنے میں ان دونوں کے ساته ساته چلے ،یہ تینوں ان بہترین (شعراء) میں تهے
جنهوں نےاس نئی بیداری کی ذمہ داری کو اٹهایاجو بارودی نے شروع کی تهی،جب بهی
کوئی مشرق میں اہم اور خطرناک واقعہ پیش آتا تویہ تینوں حضرات (اس پر)شاعری کرنے
میں سبقت کرتے،بلکہ جب بهی دنیا میں کوئی واقعہ پیش آجاتا (تو یہ حضرات اس پر
شاعری کے ذریعہ سے اپنے جذبات و احساسات کو بیان کرتے تهے) ،ان میں سے ہر
ایک نے (اپنے اپنے موضوع کوبہت)بہتری کے ساته پیش کیا ہے،بعض موقعوں پر ان
تینوں میں سے کوئی ایک اپنے دونوں ساتهیوں سے فائق ہوجاتا،جہاں تک مطران کا تعلق
ہے تو یہ شعری اسالیب بیان میں اپنے دونوں ساتهیوں کے مقابلہ میں زیاده تجددپر زیاده
قائم رہنے والے تهے جبکہ ان کے دونوں ساتهی موروثی وقدیم اسالیب بیان کا زیاده خیال
رکهنے والے تهے۔
النماذج :شوقي
شوقی کی شعر گوئی کی صالحیت ان کی طاقتور اور معنی خیز شاعری کے ذریعہ
سے چهلکتی تهی ،یہاں تک کہ لوگوں نےان کیلئے اس عہد کی شعری قیادت کا فیصلہ
کردیا ،ان کی شاعری الفاظ کی پختگی اور سالست سے پر تهی یہاں تک کہ ان کے بعض
اشعار عصر اسالمی کےشروع کے بہترین شعراء کے کالم سے مشابہت رکهتے ہیں ،ان
کے اندرایک اسالمی جذبہ تهاجوہر مؤثر موقع پر حرکت میں آجاتا تها،مدح رسول میں
انهوں نے مؤثر اور پختہ شاعری کی ہے ،شاعری کے مختلف اصناف میں ان کو قدرت
حاصل تهی،الفاظ بہت ہی پختہ (استعمال کر تے تهے)یہاں تک کہ ناقدین نے انہیں متنبی
سے مشابہت دی ہےاور ان کو امیر الشعراء کے نام سے پکارا۔
ان کی شاعری کے نمونوں میں سے وه قصیده ہے جو انهوں نے دمشق کے سلسلہ
میں کہا تها جب وہاں زیارت کی تهی،اس زیارت نے ان کے اندر عہد اموی میں اسالم کا
جو مقام و مرتبہ تها اس کی یادتازه کردی ،اور ان کو اشعار کہنے پر ابهارا ،
وله في الغزل
حافظ إبراھیم:
النبغاء اآلخرون:
نموذج من كالم الرصافي:
ظهور النزعة الجدیدة في الشعر العربي:
نماذج شعر عمر أبو ریشة:
نموذج من شعر العقاد:
استاذعباس محمود عقاد یہ عہد جدید کےبڑے ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں،علوم
و معارف ،ثقافت و تہذیب اور ادبیات پر ان کی باریک نظر او ر وسیع مطالعہ ہے،عقاد کو
شعری ملکہ بهی حاصل تهاجس کے اندر نیاپن اور خیال کی ندرت پائی جاتی ہے،انهوں
نے مصر میں زندگی گزاری،اور انهوں نے علم و فکر کے میدان میں اہل علم و ادب سے
مہارت کی داد حاصل کی ہے،ذیل می ں ان کی شاعری کا ایک نمونہ دیا جارہا ہے،جس میں
محبت کے میدان می ں ان کا جو عمده وتازه مسلک تها وه سامنے آتا ہے:
اشعار کا ترجمہ:
ٖ(لغوی تشریح:محیا:پیشانی/روشن چہره)
۱۔میں تم کوتمہارے ذاتی حسن و جمال کی وجہ سےنہیں چاہتا،اگرچہ یہ پاکیزه
مورت خوبصورت ہی کیوں نہ ہو۔
۲۔