Professional Documents
Culture Documents
منافقت
تحریر :پروفیسرڈاکٹرسیّدمجیب ظفرانوارحمیدی(پی،ایچ۔ڈی)
ایک متقی مومن اور منافق کا پہال فرق یہ ہے کہ متقی ہمیشہ اپنے ایمان کو کم سمجھ کر
اسے اور بڑھانے کی فکر میں رہتا ہے ۔اس کے لیے وسیلے اور ذریعے ڈھونڈتا ہے‘
دعوی کرتا ہے کہ اس
ٰ کامل متقین کی صحبت اختیار کرتا ہے جبکہ منافق یہ سمجھتا اور
کا ایمان تو پہلے ہی کامل ہے اسے کسی کی ضرورت نہیں جیسا کہ ہللا نے سورۃ بقرہ میں
فرمایا کہ ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان الؤ جیسے دوسرے لوگ (متقین) الئے تو
کہتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی ایمان الچکے۔‘‘ یہ نفاق کی پہلی عالمت ہے کہ باطن میں تو
دعوی کیا جائے کہ ہم ایمان والے
ٰ ایمان کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہ ہو۔ لیکن زبان سے
ہیں۔ باطن کچھ ظاہر کچھ۔
نفاق کی دو قسمیں ہیں۔ عملی نفاق اور اعتقادی نفاق۔ عملی نفاق یہ ہے کہ زبان سے تو
دعوی کرنا کہ ہر عمل ہللا کی رضا کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن درحقیقت مقصد صرف
ٰ
مخلوق میں عزت و مقام حاصل کرنا ہو۔ زبان سے خود کو عاجز کہنا لیکن ساتھ ہی اپنی
عبادات اور اعمال کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔ اپنے خوف خدا کے
اظہار کے لیے ہر وقت تسبیح ہاتھ میں لیے ورد وظائف میں مشغول رہنا۔ جھوٹے موٹے
کپڑے پہننا‘ عمل میں کثرت کرنا لیکن باطن میں بے خوفی کا یہ عالم ہونا کہ جن نیتوں پر
حقیقتا ً ہللا کی نظر ہے ان کی درستی کی بالکل پروا نہ کرنا۔ ایسے منافقوں کا ٹھکانہ جہنم
کا سب سے نچال گڑھا ہے ہللا فرماتا ہے:
اَ ترجمہ :کیسی سخت ناپسند ہے ہللا کو یہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔(سورۃ الصف)
منافقت کی دوسری قسم اعتقادی نفاق ہے جو شیطان کا خفیہ ہتھیار ہے۔ قرآن پاک میں
عملی منافقت کے بارے میں ہللا کے واضح احکامات کی وجہ سے کچھ مسلمان ان سے
بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی حد تک کامیاب ہوجانے پر سمجھ لیتے ہیں کہ وہ
منافقت سے بچ گئے ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ لوگوں میں اپنی عبادات کا تذکرہ نہیں
کرتے اور نہ ہی بالوجہ عاجزی اور خوف خدا کا زبان سے اظہار کرتے ہیں تو وہ منافق
الصلوۃ
ٰ نہیں ہیں۔ یہیں سے اعتقادی نفاق کی ابتدا ہوتی ہے جس کے متعلق حضور علیہ
والسالم نے فرمایا کہ ’’میری امت میں نفاق زمین پر چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ خفی
ہے۔ ’’عملی نفاق میں منافق لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اعتقادی نفاق
تعالی کو۔ لیکن دونوں میں وہ درحقیقت خود کو ہی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے لیکن
ٰ میں ہللا
اسے اس کا پتہ بھی نہیں چلتا جیسا کہ ہللا نے فرمایا’’ :وہ ہللا اور ایمان والوں کو دھوکہ
دینا چاہتے ہیں مگر وہ اپنے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دے رہے اور اس کا انہیں شعور تک
نہیں۔‘‘
اعتقادی نفاق کی عالمات یہ ہیں کہ انسان زبان سے تو کچھ نہیں کہتا لیکن باطن میں خود
کو ہی سب سے سچا‘ سب سے نیک جانتا ہے۔ تکبر کے مارے دوسروں کو دین میں کمتر
اور خود کو برتر سمجھتا ہے۔ عبادات کو لوگوں میں ظاہر تو نہیں کرتا لیکن دل میں ان
اعلی
ٰ عبادات پر مغرور ہوتا ہے اور ہللا کے سامنے ان عبادات کی وجہ سے خود کو بڑے
مقامات پر فائز دیکھتا ہے۔ خود کو ہی کامل جان کر کسی کامل ولی سے اپنے باطن کی
درستی اور تزکیہ نفس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ میں خود ہی اتنا
نیک ہوں کہ خودبخود ہللا کی رضا حاصل کر لوں گا مجھے کسی وسیلے کی ضرورت
نہیں ہے۔ بدترین تکبر اعتقادی نفاق کی بنیادی عالمت ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایسا منافق
تعالی نے فرمایا
ٰ مانتا بھی نہیں کہ وہ اپنی ذات اپنی عبادات پر تکبر کر رہا ہے جیسا کہ ہللا
کہ’’انہیں اس کا شعور بھی نہیں۔‘‘
ایسا منافق خود کو اور ہللا کو یہ یقین دالتا ہے کہ وہ صرف ہللا کی رضا کے لیے ہی ہللا
کی عبادت کرتا ہے‘ اس کی عبادات خالص ہللا کے لیے ہیں‘ لیکن عبادت مکمل کرتے ہی
اپنی دنیاوی اور اخروی خواہشوں اور آرزوؤں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی
دعا میں ہللا کی ذات کی‘ اس کے قرب کی طلب کہیں موجود نہیں ہوتی بلکہ صرف اپنی
صحت‘ اپنی اوالد‘ اپنے رزق‘ اپنی بخشش‘ کی دعاؤں کی طویل فہرست ہوتی ہے۔ ہللا
سے ہللا کے سوا ہر شے مانگتا ہے۔ باربار خود کو یقین دالتا ہے کہ میں نے تو عبادت
صرف ہللا کے لیے کی لیکن تمام عبادات میں ہللا کہیں موجود نہیں ہوتا۔ ہللا سے تعلق کو
نام تو محبت کا دیتے ہیں لیکن رشتہ صرف ضرورت کا قائم کرتے ہیں۔ یہ ہی تو منافقت
ہے کہ کہنا کچھ اور کرنا کچھ۔ خود کو متوکل کہنا اور برسوں کے لیے مال جمع کر
رکھنا‘ خود کو ہللا کی رضا پر راضی کہنا لیکن مشکل حاالت میں رو رو کر ہللا سے
حاالت بدل دینے کی التجائیں کرنا۔کہنا کہ ہم تو ہللا کی راہ میں سب کچھ قربان کر سکتے
ہیں لیکن جب نفس کی خواہشات کی قربانی کا وقت آئے تو ا ن کی جان پر بن آئے۔
ایسے منافقین ہللا سے جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ ہللا سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے
کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے اسی جھوٹ کی وجہ سے ہللا انہیں عذاب الیم یعنی درد
ناک عذاب میں مبتال کرے گا جیسا کہ اس نے فرمایا :ترجمہ:انہیں درد ناک عذاب ہوگا اس
وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔(البقرہ)10 :
یوں ہی وہ ہللا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہللا کو دھوکہ دینا ممکن نہیں ہللا
فرماتا ہے کہ :ترجمہ’’ :وہ ہللا کو فریب دے رہے تھے اور ہللا ان سے چال چل رہا تھا
اور ہللا بہتر چال چلنے واال ہے۔‘‘ (سورۃ االنفال)
ہللا نے ان کے اس فریب کا جواب اس طرح دیا کہ :ترجمہ:ان کے دلوں میں مرض ہے
جسے ہللا اور بڑھا دیتا ہے۔‘‘ یعنی ان کے دلوں میں تکبر اور ریاکاری کا جو مرض ہے‘
جس کا وہ کسی مرشد کامل سے عالج بھی نہیں کروانا چاہتے ہللا انہیں اس میں اور مبتال
کر دیتا ہے۔ وہ اپنے غلط گمانوں میں اور ڈوبتے چلے جاتے ہیں اپنے منافقانہ طرز عمل
اور روش کو ہی صحیح راستہ جان کر اس پر دور تک چلتے جاتے ہیں جہاں سے واپسی
کا بھی کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
www.facebook.com/proffhameedi