You are on page 1of 5

‫ماہنامہ سلطان الفقر الہورشمارے‪2018‬ءشمارے‪2017‬ءشمارے ‪2016‬ءاہم‬

‫مضامینکالمزسوشل میڈیاسواالت وجواباترابطہ‬

‫منافقت‬
‫تحریر‪ :‬پروفیسرڈاکٹرسیّدمجیب ظفرانوارحمیدی(پی‪،‬ایچ۔ڈی)‬

‫تعالی نے انسانوں کے جس گروہ پر سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار‬


‫ٰ‬ ‫قرآن مجید میں ہللا‬
‫تعالی نے ان‬
‫ٰ‬ ‫فرمایا ہے وہ ’’منافقین ‘‘کا گروہ ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیات نمبر‪8‬تا‪16‬میں ہللا‬
‫طرز عمل بیان کرتے ہوئے انہیں عذاب الیم کی وعید سنائی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫کا‬
‫ایک عالم کا قول ہے کہ ’’نفاق کے قریب تر وہ ہے جو کہ سمجھتا ہے کہ میں نفاق سے‬
‫حذیفہ سے ایک آدمی نے کہا ’’مجھے ڈر ہے کہ میں منافق نہ ہوں۔‘‘‬
‫ؓ‬ ‫بری ہوں۔‘‘ حضرت‬
‫فرمایا ’’اگر تو نفاق سے نہ ڈرتا تو منافق ہوتا۔ منافق آدمی تو نفاق سے بے خوف ہوتا‬
‫حذیفہ‬
‫ؓ‬ ‫عمر اکثر حضرت‬
‫کرام کا نفاق سے خوف کا یہ عالم تھا کہ حضرت ؓ‬
‫ؓ‬ ‫ہے۔‘‘ صحابہ‬
‫ب راز ہیں۔ کیا‬
‫وآلہ وسلم کے صاح ِ‬
‫آپ جناب رسول پاک صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫سے پوچھتے کہ ؓ‬
‫آثار نفاق تو نہیں دیکھتے؟‘‘ ابن ملیکہ تابعی کا بیان ہے کہ ’’میں نے ایک‬
‫مجھ پر آپ ِ‬
‫وآلہ وسلم‬
‫سوتین اور ایک روایت کے مطابق ایک سو پچاس حضور اکرم صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫کرام کو پایا سب کے سب نفاق سے ڈرتے تھے۔ (مکاشفۃ القلوب)‬
‫ؓ‬ ‫کے صحابہ‬
‫عنہ سے کہا گیا ’’ایک قوم کا خیال ہے کہ ہمیں نفاق کا کچھ‬
‫حضرت حسن رضی ہللا ٗ‬
‫خطرہ نہیں۔‘‘ فرمایا ’’ہللا کی قسم! اگر مجھے اس کا یقین ہو جائے کہ میں نفاق سے پاک‬
‫ہوں‘ یہ بات مجھے دنیا بھر کا سونا ملنے سے زیادہ پسند ہے۔‘‘ اس قدر بلند شان‘ پاکیزہ‬
‫اعمال و عقائد کا مالک ہونے کے باوجود وہ پاک ہستیاں نفاق سے اس قدر خوفزدہ تھیں کہ‬
‫وآلہ وسلم کی طرف سے ذرا سا دھیان‬
‫ت رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫خوف خدا یا محب ِ‬
‫ِ‬ ‫قلب میں‬
‫ہٹنے پر خود کو منافق سمجھنے لگتے۔اور ہماری بے خوفی اور منافقت کا عالم یہ ہے کہ‬
‫ہم اپنے ہر بُرے سے بُرے عمل‘ جھوٹ‘ ریاکاری‘ حسد ‘ تکبر‘غیبت‘ بہتان کے بارے‬
‫میں جانتے ہوئے بھی خود کو پکا سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر منافقت اور‬
‫کیا ہوگی کہ خود بھی ان تمام عیوب کا منبع ہوتے ہوئے اپنے سوا ہر دوسرے کو منافق‬
‫سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو ہر عیب سے بری اور پاک سمجھ کر دوسروں کی اصالح‬
‫کرنے چل پڑتے ہیں۔ خود کو اچھائی کا معیار مان کر ہر دوسرے میں عیب تالش کرتے‬
‫اور ان کی تشہیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد وضو کر کے نماز قرآن پڑھتے ہیں اور سمجھتے‬
‫ہیں کہ ہم جیسا تو کوئی اچھا مسلمان ہی نہیں۔ کبھی اپنے اندر نہیں جھانکا‘ کبھی اپنا‬
‫محاسبہ نہیں کیا۔ کبھی دل میں یہ خوف نہیں جاگا کہ کہیں ہم خود منافق تو نہیں؟‬
‫جاننا چاہیے کہ منافقت یا نفاق کہتے کسے ہیں۔ نفاق سے مراد ہے اپنی بُرائی کو پوشیدہ‬
‫رکھنے کے لیے اپنی بھالئی کو بڑھاچڑھا کر ظاہر کرنا۔ امام ابن جریج رحمتہ ہللا علیہ کا‬
‫فرمانا ہے۔’’ منافق کا قول اس کے فعل کے خالف‘ اس کا باطن‘ ظاہر کے خالف اس کا‬
‫آنا جانے کے خالف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔‘‘‬
‫عنہ فرماتے ہیں ’’منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ دل‬
‫حضرت قتادہ رضی ہللا ٗ‬
‫میں کچھ ‘عمل کچھ عقیدہ کچھ‘ صبح کچھ‘ شام کچھ ‘ کشتی کی طرح جو ہوا کے‬
‫جھونکے سے کبھی ادھر ہوجاتی ہے کبھی ادھر۔‘‘‬
‫امام ابن جریج رحمتہ ہللا علیہ کا ہی فرمانا ہے کہ ’’ اال ا ِٰل اہ ا اِال ٰ‬
‫ّللاُ‘‘ کا اظہار کرکے وہ اپنی‬
‫جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں‘ یہ کلمہ ان کے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوتا۔‘‘‬

‫ایک متقی مومن اور منافق کا پہال فرق یہ ہے کہ متقی ہمیشہ اپنے ایمان کو کم سمجھ کر‬
‫اسے اور بڑھانے کی فکر میں رہتا ہے ۔اس کے لیے وسیلے اور ذریعے ڈھونڈتا ہے‘‬
‫دعوی کرتا ہے کہ اس‬
‫ٰ‬ ‫کامل متقین کی صحبت اختیار کرتا ہے جبکہ منافق یہ سمجھتا اور‬
‫کا ایمان تو پہلے ہی کامل ہے اسے کسی کی ضرورت نہیں جیسا کہ ہللا نے سورۃ بقرہ میں‬
‫فرمایا کہ ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان الؤ جیسے دوسرے لوگ (متقین) الئے تو‬
‫کہتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی ایمان الچکے۔‘‘ یہ نفاق کی پہلی عالمت ہے کہ باطن میں تو‬
‫دعوی کیا جائے کہ ہم ایمان والے‬
‫ٰ‬ ‫ایمان کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہ ہو۔ لیکن زبان سے‬
‫ہیں۔ باطن کچھ ظاہر کچھ۔‬
‫نفاق کی دو قسمیں ہیں۔ عملی نفاق اور اعتقادی نفاق۔ عملی نفاق یہ ہے کہ زبان سے تو‬
‫دعوی کرنا کہ ہر عمل ہللا کی رضا کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن درحقیقت مقصد صرف‬
‫ٰ‬
‫مخلوق میں عزت و مقام حاصل کرنا ہو۔ زبان سے خود کو عاجز کہنا لیکن ساتھ ہی اپنی‬
‫عبادات اور اعمال کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔ اپنے خوف خدا کے‬
‫اظہار کے لیے ہر وقت تسبیح ہاتھ میں لیے ورد وظائف میں مشغول رہنا۔ جھوٹے موٹے‬
‫کپڑے پہننا‘ عمل میں کثرت کرنا لیکن باطن میں بے خوفی کا یہ عالم ہونا کہ جن نیتوں پر‬
‫حقیقتا ً ہللا کی نظر ہے ان کی درستی کی بالکل پروا نہ کرنا۔ ایسے منافقوں کا ٹھکانہ جہنم‬
‫کا سب سے نچال گڑھا ہے ہللا فرماتا ہے‪:‬‬
‫اَ ترجمہ‪ :‬کیسی سخت ناپسند ہے ہللا کو یہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔(سورۃ الصف)‬
‫منافقت کی دوسری قسم اعتقادی نفاق ہے جو شیطان کا خفیہ ہتھیار ہے۔ قرآن پاک میں‬
‫عملی منافقت کے بارے میں ہللا کے واضح احکامات کی وجہ سے کچھ مسلمان ان سے‬
‫بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی حد تک کامیاب ہوجانے پر سمجھ لیتے ہیں کہ وہ‬
‫منافقت سے بچ گئے ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ لوگوں میں اپنی عبادات کا تذکرہ نہیں‬
‫کرتے اور نہ ہی بالوجہ عاجزی اور خوف خدا کا زبان سے اظہار کرتے ہیں تو وہ منافق‬
‫الصلوۃ‬
‫ٰ‬ ‫نہیں ہیں۔ یہیں سے اعتقادی نفاق کی ابتدا ہوتی ہے جس کے متعلق حضور علیہ‬
‫والسالم نے فرمایا کہ ’’میری امت میں نفاق زمین پر چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ خفی‬
‫ہے۔ ’’عملی نفاق میں منافق لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اعتقادی نفاق‬
‫تعالی کو۔ لیکن دونوں میں وہ درحقیقت خود کو ہی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے لیکن‬
‫ٰ‬ ‫میں ہللا‬
‫اسے اس کا پتہ بھی نہیں چلتا جیسا کہ ہللا نے فرمایا‪’’ :‬وہ ہللا اور ایمان والوں کو دھوکہ‬
‫دینا چاہتے ہیں مگر وہ اپنے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دے رہے اور اس کا انہیں شعور تک‬
‫نہیں۔‘‘‬
‫اعتقادی نفاق کی عالمات یہ ہیں کہ انسان زبان سے تو کچھ نہیں کہتا لیکن باطن میں خود‬
‫کو ہی سب سے سچا‘ سب سے نیک جانتا ہے۔ تکبر کے مارے دوسروں کو دین میں کمتر‬
‫اور خود کو برتر سمجھتا ہے۔ عبادات کو لوگوں میں ظاہر تو نہیں کرتا لیکن دل میں ان‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫عبادات پر مغرور ہوتا ہے اور ہللا کے سامنے ان عبادات کی وجہ سے خود کو بڑے‬
‫مقامات پر فائز دیکھتا ہے۔ خود کو ہی کامل جان کر کسی کامل ولی سے اپنے باطن کی‬
‫درستی اور تزکیہ نفس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ میں خود ہی اتنا‬
‫نیک ہوں کہ خودبخود ہللا کی رضا حاصل کر لوں گا مجھے کسی وسیلے کی ضرورت‬
‫نہیں ہے۔ بدترین تکبر اعتقادی نفاق کی بنیادی عالمت ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایسا منافق‬
‫تعالی نے فرمایا‬
‫ٰ‬ ‫مانتا بھی نہیں کہ وہ اپنی ذات اپنی عبادات پر تکبر کر رہا ہے جیسا کہ ہللا‬
‫کہ’’انہیں اس کا شعور بھی نہیں۔‘‘‬
‫ایسا منافق خود کو اور ہللا کو یہ یقین دالتا ہے کہ وہ صرف ہللا کی رضا کے لیے ہی ہللا‬
‫کی عبادت کرتا ہے‘ اس کی عبادات خالص ہللا کے لیے ہیں‘ لیکن عبادت مکمل کرتے ہی‬
‫اپنی دنیاوی اور اخروی خواہشوں اور آرزوؤں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی‬
‫دعا میں ہللا کی ذات کی‘ اس کے قرب کی طلب کہیں موجود نہیں ہوتی بلکہ صرف اپنی‬
‫صحت‘ اپنی اوالد‘ اپنے رزق‘ اپنی بخشش‘ کی دعاؤں کی طویل فہرست ہوتی ہے۔ ہللا‬
‫سے ہللا کے سوا ہر شے مانگتا ہے۔ باربار خود کو یقین دالتا ہے کہ میں نے تو عبادت‬
‫صرف ہللا کے لیے کی لیکن تمام عبادات میں ہللا کہیں موجود نہیں ہوتا۔ ہللا سے تعلق کو‬
‫نام تو محبت کا دیتے ہیں لیکن رشتہ صرف ضرورت کا قائم کرتے ہیں۔ یہ ہی تو منافقت‬
‫ہے کہ کہنا کچھ اور کرنا کچھ۔ خود کو متوکل کہنا اور برسوں کے لیے مال جمع کر‬
‫رکھنا‘ خود کو ہللا کی رضا پر راضی کہنا لیکن مشکل حاالت میں رو رو کر ہللا سے‬
‫حاالت بدل دینے کی التجائیں کرنا۔کہنا کہ ہم تو ہللا کی راہ میں سب کچھ قربان کر سکتے‬
‫ہیں لیکن جب نفس کی خواہشات کی قربانی کا وقت آئے تو ا ن کی جان پر بن آئے۔‬
‫ایسے منافقین ہللا سے جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ ہللا سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے‬
‫کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے اسی جھوٹ کی وجہ سے ہللا انہیں عذاب الیم یعنی درد‬
‫ناک عذاب میں مبتال کرے گا جیسا کہ اس نے فرمایا ‪ :‬ترجمہ‪:‬انہیں درد ناک عذاب ہوگا اس‬
‫وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔(البقرہ‪)10 :‬‬
‫یوں ہی وہ ہللا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہللا کو دھوکہ دینا ممکن نہیں ہللا‬
‫فرماتا ہے کہ ‪ :‬ترجمہ‪’’ :‬وہ ہللا کو فریب دے رہے تھے اور ہللا ان سے چال چل رہا تھا‬
‫اور ہللا بہتر چال چلنے واال ہے۔‘‘ (سورۃ االنفال)‬
‫ہللا نے ان کے اس فریب کا جواب اس طرح دیا کہ ‪ :‬ترجمہ‪:‬ان کے دلوں میں مرض ہے‬
‫جسے ہللا اور بڑھا دیتا ہے۔‘‘ یعنی ان کے دلوں میں تکبر اور ریاکاری کا جو مرض ہے‘‬
‫جس کا وہ کسی مرشد کامل سے عالج بھی نہیں کروانا چاہتے ہللا انہیں اس میں اور مبتال‬
‫کر دیتا ہے۔ وہ اپنے غلط گمانوں میں اور ڈوبتے چلے جاتے ہیں اپنے منافقانہ طرز عمل‬
‫اور روش کو ہی صحیح راستہ جان کر اس پر دور تک چلتے جاتے ہیں جہاں سے واپسی‬
‫کا بھی کوئی راستہ نہیں ہوتا۔‬

‫‪www.facebook.com/proffhameedi‬‬

You might also like