غصہ جسم کے اعضاء کو متاثر کرتا ہے۔ غصے کی حالت میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور خون زیادہ مقدار میں گردوں کی طرف جاتا ہے۔ جس کے سبب زیادہ پیشاب آنے لگتا ہے۔ غصے کے وقت دل میں پیدا ہونے والی بائیولوجیکل تبدیلیوں کے تحت دوران خون تیز ہونے کی وجہ سے دل کی دھڑکن اور جلد کی رگوں میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اس لیئے غصے سے چہرہ سرخ ہوتا ہے۔ غصہ ایک ہیجانی کیفیت کا نام ہے ۔ ماہرین نفسیات نے غصے کو محرومی کا ایک فطری ردعمل قرار دیا ہے۔ الفریڈ ایڈلر نے کہا کہ غصے کا مقصد اپنی راہ میں حائل تمام دشواریوں رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔ اور ناکامی کی صورت میں بار بار غصے کے اٹیک ہوتے رہتے ہیں۔ اکثر کلینیکل سائیکالوجسٹس کے مطابق دل کا تیزی سے دھڑکنا ،سانس کا اکھڑنا ،شعلہ بار نگاہیں ،مٹھیاں بھینچ لینا ،چہرہ سرخ اور عضلت میں اینٹھن کی علمات غصے کو ظاہر کرتی ہیں۔ جگر سے شکر کی ایک بڑی مقدار خون میں شامل ہوجاتی ہے ،جس کے سبب ہاضمے کا عمل موقوف ہوجاتا ہے ،خون میں ایڈرینالین کی مقدار بڑھ جاتی ہے ،یہ ہیجانی کیفیت اسوقت تک کم نہیں ہوتی جب تک زائد قوت خارج اور زائد کاربوہائیڈریٹس صرف نہ ہوجائیں۔ سیگمنڈ فرائیڈ کے مطابق جب انسان اپنے لشعور سے غلط تصورات اور ناپسندیدہ خیالت کا چھٹکارا پانا چاہتا ہے تو یہ صورت فطری توانائی یا سائیکک انرجی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جس سے انسان کے جذبات میں غصہ پیدا ہوجاتا ہے۔ فرائز ایلیگزینڈر کے مطابق اگر غصے یا جذبات کا اظہار نہ کیا جائے اور اسے ضبط کی کوشش کی جائے تو جسم کا پورا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ غصے کو برداشت یا ضبط کرنے پر السر معدہ ،درد سر ،بیخوابی ،ڈپریشن ،منشیات کی خواہش، پھیپھڑوں کی خرابی اور بلڈ پریشر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ امریکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر کے 75فیصد مریض غصے اور جذبات کی گھٹن میں مبتل تھے۔ جو غصے کو ضبط کرتے تھے جس کے نتیجہ میں شدید جسمانی و ذہنی تناؤ کا شکار ہوکر پشت کمر رد اور گنٹھیا جیسے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ غصے کو مسلسل ضبط کرنے اور اس کا اظہار نہ کرنے سے انسانی توانائیوں کا بہاؤ رک جاتا ہے اور یہ توانائیاں پروان چڑھنے کے بجائے جامد ہونے لگتی ہیں۔ ایسے افراد عوارض قلب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب غصے کی کیفیت بہت بڑھتی ہے تو خون کے بستگی خلیات چپکنے لگتے ہیں۔ خون کے خلیات میں چپچپاہٹ ہونے لگتی ہے۔ خلیوں کے آپس میں چپکنے سے خون گاڑھا ہوجاتا ہے یا اس میں کلٹس بننے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال دل کے دورے کا باعث بنتی ہے۔ ایک تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جارحانہ طبیعت اور غصیلے افراد کی شریانوں کی تنگی ہارٹ اٹیک کا باعث بنتی ہے۔ یہ مرض اگر ایک بار ہوجائے تو بار بار اسی رفتار سے ہوتا رہتا ہے۔ امریکہ کی ایک تحقیق کے درمیانی حصہ میں ڈھائی سو سے زائد مردوں اور عورتوں جن کا غصہ معمول سے زائد تھا اندازہ لگایا گیا کہ ان میں حملہ قلب سے موت کے امکان دوسروں کی نسبت زیادہ ہیں۔ نیز غصہ انسانی ذہن کو نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ غصے کی حالت میں انسانی ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ جذباتی توازن بگڑ جاتا ہے۔ یاداشت میں کمی ہونے لگتی ہے۔ دیگر دماغی صلحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ غصیل فرد حالت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے ،اور منفی سوچ کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ خود کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ غصے کی حالت میں دل زور سے دھڑکتا ہے جسم کپکپانے لگتا ہے ،طبیعت چڑچڑی ہوجاتی ہے ،جسم کے اعضاء سن ہونے لگتے ہیں۔ کانوں میں سیٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ نیند اڑ جاتی ہے۔ خلف مزاج بات پر بھڑک اٹھنا ،طیش میں آ کر خود کو نقصان پہنچانا ،غصے کے وقت چیخنا چلنا اور رونا ،بعض اوقات خود کو مارنا پیٹنا ،غصے کی خاص علمات ہیں۔ *نوٹ۔۔ غصے کی حالت میں دل پر انتہائی پریشر سے دل رک کر اچانک موت واقع ہوسکتی ہے*۔ *یونیفیکیشن تھیوری کے مطابق ماہیت مرض* غصہ کے وقت تحریک قشری عضلتی ہوتی ہے یعنی مزاج میں گرمی خشکی سے جگر کے فعل میں تیزی آجاتی ہے اور خون میں صفراء بڑھ جاتا ہے۔ بول براز زرد رنگ کا ہوتا ہے۔ انسان جذباتی ہوجاتا ہے یہاں سے غصہ کی ابتداء ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ مرض سوزش قلب کا دوسرا قشری درجہ ہے۔ جب دل حرارت سے ضعیف ہو جاتا ہے ،تو تیسرا تسکین قلب کا درجہ مرض شروع ہوکر اعصابی قشری تحریک ہوجاتی ہے، مستقل ڈپریشن ،ہیجانی دورے ،رات کو بلڈ پریشر بڑھنا ،سر درد ،خوف ،وسوسے ،متلی ،کھانسی ،سانس پھولنا ،بھوک بند جیسی اعصابی علمات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لیکن غصہ اس درجہ میں بھی رہتا ہے۔ مریض یا مریضہ اکثر کڑھتی رہتی ہے اور اچانک پھٹ پڑتی ہے۔ غصے کے بعد دل غمزدہ ہوجاتا ہے۔ طبی علج۔۔۔۔ مریض کو نہایت محبت و شفقت سے پیش آئیں۔ ہمدردی و دلسہ دیا جائے ،اسے خوشکن خبر سنانے کی کوشش کی جائے ،سیر و تفریح پر لے جانا مفید ہے ،مریض کی مرضی کے خلف کوئی بات یا کام نہ کیا جائے ،اسے ہر طرح پرسکون رکھنے کی کوشش کی جائے، نظریہ اربعہ فارماکوپیا میں سے ایم سی ایم اور تریاق 67مفید و مجرب ترین علج ہے۔ اور جب بھی شدید غصے کا حملہ ہو مریض کو فورا ٹھنڈا پانی دیں اور ایک رتی یاقوتی یا ایک گرام مفرح دیں۔ تحریر۔ ڈاکٹر سید رضوان شاہ گیلنی۔