Professional Documents
Culture Documents
عرفان ستار کی تازہ ترین 43غزلوں کا انتخاب آپ کے لیے پیش کیا جارہا
ہے۔جلد ہی ان کی غزلوں کا ایک اور انتخاب ان کے مجموعے'تکرارساعت'سے
بھی اس بالگ پرآجائے گا۔عرفان ستاراردو شاعری میں واقعی اپنی ایک الگ
پہچان رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں کا رنگ ڈھنگ ،لہجہ سب کچھ بالکل الگ
ہے۔ان کی غزلوں پر میں جلد ہی ایک طویل تنقیدی مضمون لکھنے کا بھی ارادہ
رکھتا ہوں ،میں یہ جان کر حیران ہوا ہوں کہ ان کے مجموعے کے بعد ان کی
غزلوں کا کل سرمایہ محض یہ 43غزلیں ہیں۔اس سے احساس ہوتا ہے کہ وہ
کتنا سنبھل کر شعر کہتے ہیں۔مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی شناخت ان کے
معاصرین میں سب سے الگ قائم ہوئی ہے۔یقینا یہ غزلیں آپ کے ذوق کی
سیرابی میں کسی طور بھی کنجوسی سے کام نہیں لیں گی ،کیونکہ ان کا ہر ایک
شعر ،ترکیب اور اپنے اندر زبردست تخلیقی چمک رکھتا ہے۔
-1-
اپنی خبر ،نہ اُس کا پتہ ہے ،یہ عشق ہے
جو تھا ،نہیں ہے ،اور نہ تھا ،ہے ،یہ عشق ہے
پہلے جو تھا ،وہ صرف تمہاری تالش تھی
لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے ،یہ عشق ہے
تشکیک ہے ،نہ جنگ ہے مابین ِ عقل و دل
بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے ،یہ عشق ہے
بے حد خوشی ہے ،اور ہے بے انتہا سکون
اب درد ہے ،نہ غم ،نہ گلہ ہے ،یہ عشق ہے
کیا رمز جاننی ہے تجھے اصل ِ عشق کی؟
جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے ،یہ عشق ہے
شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے ،یہ ہے خرد
اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے ،یہ عشق ہے
زیر ِ قبا جو حسن ہے ،وہ حسن ہے خدا
بند ِ قبا جو کھول رہا ہے ،یہ عشق ہے
ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض
اس کی دعا ،نہ اس کی دوا ہے ،یہ عشق ہے
شفّاف و صاف ،اور لطافت میں بے مثال
سارا وجود آئینہ سا ہے ،یہ عشق ہے
یعنی کہ کچھ بھی اُس کے ِسوا سوجھتا نہیں؟
ہاں تو جناب ،مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے
جو عقل سے بدن کو ملی تھی ،وہ تھی ہوس
جو روح کو جنوں سے مال ہے ،یہ عشق ہے
اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اس کی جزا ،نہ اس کی سزا ہے ،یہ عشق ہے
سجدے میں ہے جو محو ِ دعا ،وہ ہے بے دلی
یہ جو دھمال ڈال رہا ہے ،یہ عشق ہے
ہوتااگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست
اِس کی رضا شکست ِ انا ہے ،یہ عشق ہے
عرفان ماننے میں ت ٗامل تجھے ہی تھا
میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے ،یہ عشق ہے
-2-
مجلس ِ غم ،نہ کوئی بزم ِطرب ،کیا کرتے
آوارہء شب ،کیا کرتے
ِ گھر ہی جاسکتے تھے
یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رک ّھی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے
روشنی ،رنگ ،مہک ،طائر ِ خوش لحن ،صبا
تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے ،اعالن ِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمار ِ جنوں
جاں بلب تھے ،سو ہوئے آہ بلب ،کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا ،ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرز ِ سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور ،نہ ڈھب ،کیا کرتے
یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا
منکر ِ میر بھال تیرا ادب کیا کرتے
-3-
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو ،میں تنگ آگیا ہوں
کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چال گیا ہوں
مآل ِ عشق ِ اناگیر ہے یہ مختصرا
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں
کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آگیا ہوں
مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے
نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتاگیا ہوں
مجھے بھال نہ سکے گی یہ رہگزار ِ جنوں
قدم جما نہ سکا ،رنگ تو جما گیا ہوں
سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتال گیا ہوں
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں
غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں
-4-
کاش اک ایسی شب آئے جب تُو ہو پہلو میں
سانسیں سانسوں میں مل جائیں ،آنسو آنسو میں
یاد کی لَو سے آئینے کا چہرہ ہو پُرنور
نہا رہی ہو رات کی رانی خواب کی خوشبو میں
نیند مری لے کر چلتی ہے شام ڈھلے ،اور پھر
رات الجھ کر رہ جاتی ہے اُس کے گیسو میں
رہے ہمارے ہونٹوں پر اک نام کا دن بھر ورد
شب بھر دل کی رحل پہ رکھا اک چہرہ چومیں
ضو سے جگمگ کرنا ساری رات
آپ اپنی ہی َ
دھڑک رہا ہو جیسے میرا دل اِس جگنو میں
بولتے رہنا ہنستے رہنا بے مقصد بے بات
جیسے دل آہی جائے گا میرے قابو میں
ویسے تو اکثر ہوتا تھا ہلکا ،میٹھا درد
اب تو جیسے آگ بھری ہو یاد کے چاقو میں
ایک دعا تھی جس نے بخشی حرف کو یہ تاثیر
یہ تاثیر کہاں ہوتی ہے جادو وادو میں
جب مجھ کو بھی آجائے گا چلنا وقت کے ساتھ
آجائے گی کچھ تبدیلی میری بھی ُخو میں
تم کیا سمجھو تم کیا جانو کون ہوں میں کیا ہوں
وہ اقلیم الگ ہے جس میں ہیں میری دھومیں
قحط ِ سماعت کے عالم میں یہی ہے اک تدبیر
خود ہی شعر کہیں اور خود ہی پڑھ پڑھ کر جھومیں
لوگ ہمیں سمجھیں تو سمجھیں بے حرف و بے صوت
ہم شامل تو ہو نہیں سکتے ہیں اِس ہا ہُو میں
جن کے گھر ہوتے ہیں وہ گھر جاتے ہیں عرفان
آپ بھی شب بھر مت ایسے ان سڑکوں پر گھومیں
-5-
دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہوگی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے ،یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ ک ُھال
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آکے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی ،کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں ُ
غل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا
شام ِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ ،رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
-6-
سب پہ ظاہر ہی کہاں حال ِ زبوں ہے میرا
کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا
میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو
ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا
ٹھہراو بظاہر ہے اذیّت ہے مری
ٗ یہ جو
جو تالطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا
صحراوں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری
ٗ یہ جو
دریاوں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا
ٗ اور
وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری
یہ جو سب کو نظر آتا ہے ،فسوں ہے میرا
بیچ میں کچھ بھی نہ ہو ،یعنی بدن تک بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا
راز ِ حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان
یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا
-7-
دنیا سے دور ہوگیا ،دیں کا نہیں رہا
اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا
رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ
اب رنج صرف قلب ِ حزیں کا نہیں رہا
دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی
جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا
تُو وہ مہک ،جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی
میں وہ شجر ،جو اپنی زمیں کا نہیں رہا
سارا وجود محو ِ عبادت ہے سر بہ سر
سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا
کوچہء جنوں
ِ پاس ِ خرد میں چھوڑ دیا
یعنی جہاں کا تھا میں ،وہیں کا نہیں رہا
وہ گردباد ِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے
خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا
اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا
گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا
میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں
وہ تو کبھی بھی عرش ِ بریں کا نہیں رہا
ذرہء زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم
ِ ہر
دل کو مرے مالل یہیں کا نہیں رہا
آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکان ِ دل
اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا
عرفان ،اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے
گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا
-8-
کہے دیتا ہوں ،گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی
تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی
بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے
کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی
رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر
اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی
بس اپنی اپنی ترجیحات ،اپنی اپنی خواہش ہے
تجھے شہرت کمانے کی ،مجھے اک شعر کہنے کی
جہاں کا ہوں ،وہیں کی راس آئے گی فضا مجھ کو
یہ دنیا بھی بھال کوئی جگہ ہے میرے رہنے کی؟
جو کل عرفان پر گزری سنا کچھ اُس کے بارے میں؟
سنی طوفان میں دریا کے بہنے کی؟
خبر تم نے ُ
--9--
گماں کی کھوج کا کوئ صلہ نئیں
چلو اب مان بھی جاو ،خدا نئیں
وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا
میں سب کچھ جانتا تھا ،پر کہا نئیں
جدا ہونا ہی تھا ،سو ہو رہے ہیں
ذرا سی بات ہے اس کو بڑھا نئیں
مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا
مری وحشت کی کوئ انتہا نئیں
میں سب کچھ جانتا ہوں ،دیکھتا ہوں
میں خوابیدہ سہی ،سویا ہوا نئیں
نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بالتے
یہاں آہی گیا ہے اب ،تو جا نئیں
محبت میں بدن شامل نہ ہوتا
یہ ہم بھی چاہتے تھے ،پر ہوا نئیں
مجھے دیکھو ،تو کیا میں واقعی ہوں
مجھے سمجھو ،تو کیا میں جا بجا نئیں
ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں
میں جس کو ڈھونڈتا تھا ،وہ مال نئیں
ہمیں مت ڈھونڈ ،پر خواہش کیا کر
ہمیں مت یاد کر ،لیکن بھال نئیں
ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش
رہین ِ بخشش ِ بند ِ قبا نئیں
میں ایسا ہوں ،مگر ایسا نہیں ہوں
میں ویسا تھا ،مگر ویسا میں تھا نئیں
عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں
مگر ہاں ،جون سا شاعر ہوا نہیں
کہیں سبحان ہللا جون جس پر
وہی عرفان نے اب تک کہا نہیں
-10-
عجب ہے رنگ ِ چمن ،جا بجا اُداسی ہے
مہک اُداسی ہے ،باد ِ صبا اُداسی ہے
نہیں نہیں ،یہ بھال کس نے کہہ دیا تم سے؟
میں ٹھیک ٹھاک ہوں ،ہاں بس ذرا اُداسی ہے
میں مبتال کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتال اُداسی ہے
طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا ،اُداسی ہے
گداز ِ قلب خوشی سے بھال کسی کو مال؟
عظیم وصف ہی انسان کا اداسی ہے
شدید درد کی رو ہے رواں رگ ِ جاں میں
بال کا رنج ہے ،بے انتہا اُداسی ہے
فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پس ِ وصال تو اُس سے ِسوا اداسی ہے
تمہیں ملے جو خزانے ،تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے
چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیر ِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائل ِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے
فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیال ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیر ِ پا ،اُداسی ہے
غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرم ِ درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا ،اُداسی ہے
عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے
وہ کیف ِ ہجر میں اب غالبا شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے
وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے ،کیا اُداسی ہے
-11-
راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھال کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے
شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں
چشم ِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھال نقل مکانی کرتے؟
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یار ِ جانی کو کہاں دشمن ِ جانی کرتے
شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان
حرف ِ خوش رنگ کو اندوہ ِ معانی کرتے
-12-
خواب میں کوئی مجھ کو آس دالنے بیٹھا تھا
جاگا تو میں خود اپنے ہی سرہانے بیٹھا تھا
یونہی رکا تھا دم لینے کو ،تم نے کیا سمجھا؟
ہار نہیں مانی تھی بس سستانے بیٹھا تھا
خود بھی لہو لہان ہُوا دل ،مجھے بھی زخم دیئے
میں بھی کیسے وحشی کو سمجھانے بیٹھا تھا
الکھ جتن کرنے پر بھی کم ہُوا نہ دل کا بوجھ
کیسا بھاری پتھر میں سرکانے بیٹھا تھا
تارے کرنوں کی رتھ پر الئے تھے اُس کی یاد
چاند بھی خوابوں کا چندن مہکانے بیٹھا تھا
نئے برس کی خوشیوں میں مشغول تھے سب ،اور میں
گئے برس کی چوٹوں کو سہالنے بیٹھا تھا
وہ تو کل جھنکار سے پرکھ لیا اُس گیانی نے
میں تو پیتل کے سکے چمکانے بیٹھا تھا
دشمن جتنے آئے ان کے خطا ہوئے سب تیر
لیکن اپنوں کا ہر تیر نشانے بیٹھا تھا
قصوں کو سچ ماننے والے ،دیکھ لیا انجام؟
پاگل جھوٹ کی طاقت سے ٹکرانے بیٹھا تھا
مت پوچھو کتنی شدت سے یاد آئی تھی ماں
آج میں جب چٹنی سے روٹی کھانے بیٹھا تھا
اپنا قصور سمجھ نہیں آیا جتنا غور کیا
میں تو سچے دل سے ہی پچھتانے بیٹھا تھا
عین اُسی دم ختم ہوئی تھی مہلت جب عرفان
خود کو توڑ چکا تھا اور بنانے بیٹھا تھا
-13-
ایک تاریک خال ،اُس میں چمکتا ہُوا میں
یہ کہاں آگیا ہستی سے سرکتا ہُوا میں
شعلہ ِ جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ
ٗ
اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہُوا میں
آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نار ِ خود سوز
اک جہنّم کی طرح خود میں بھڑکتا ہُوا میں
منتظر ہوں کہ کوئی آکے مکمل کردے
چاک پر گھومتا ،بل کھاتا ،درکتا ہُوا میں
مجمع ِ اہل ِ حرم نقش بدیوار اُدھر
اور اِدھر شور مچاتا ہُوا ،بکتا ہُوا میں
میرے ہی دم سے ملی ساعت ِ امکان اِسے
وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں
بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ
اور لوگوں کی تو ّجہ سے بدکتا ہُوا میں
رات کی رات نکل جاتا ہوں خود سے باہر
اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہمکتا ہُوا میں
ایسی یکجائی ،کہ مٹ جائے تمیز ِ من و تُو
مجھ میں ک ِھلتا ہُوا تُو ،تجھ میں مہکتا ہُوا میں
اک تو وہ حسن ِ جنوں خیز ہے عالم میں شہود
اور اک حسن ِ جنوں خیز کو تکتا ہُوا میں
ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائل ِ ہجر؟
آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہُوا میں
ہے کشید ِ سخن ِ خاص ودیعت مجھ کو
گھومتا پھرتا ہوں یہ عطر چھڑکتا ہوا میں
راز ِ حق فاش ہُوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے
خود تک آہی گیا عرفان بھٹکتا ہُوا میں
-14-
ہوکر وداع سب سے ،سبک بار ہو کے رہ
جانا ہے کب خبر نہیں ،تیّار ہو کے رہ
یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں
دنیا ہے تیری تاک میں ،ہشیار ہو کے رہ
خطرہ شب ِ وجود کو مہر ِ عدم سے ہے
سب بے خبر ہیں ،تُو ہی خبردار ہو کے رہ
شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی
چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ
کس انگ سے وہ لمس ُکھلے گا ،کسے خبر
تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ
تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے ،تو لے دعا
جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ
شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر
بنیاد ِ خواب ِ ناز میں مسمار ہو کے رہ
کچھ دیر ہے سراب کی ّ
نظارگی مزید
کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ
اب آسمان ِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ
اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ
بس اک نگاہ دُور ہے خواب ِ سپردگی
تُو الکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ
وہ زمزمے تھے بزم ِ گماں کے ،سو اب کہاں
یہ مجلس ِ یقیں ہے ،عزادار ہو کے رہ
اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں
احوال ِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ
کیسے بھال تُو بار ِ ّ
مروت اٹھائے گا
محفل ہے دوستوں کی ،سو عیّار ہو کے رہ
بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل
بازار ِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ
فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں
شاہ ِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ
تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ
خود اپنی راہ ِ شوق میں دیوار ہوکے رہ
لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر
عرفان ،میری مان لے ،دشوار ہو کے رہ
-15-
پیارے جدا ہوئے ہیں ،چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی ،یہ چشم ِ تر ہمارا
بس گاہ گاہ لے آ ،خاک ِ وطن کی خوشبو
اے باد ِ صبح گاہی ،یہ کام کر ہمارا
ہیں بزم ِ عاشقاں میں ،بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے ،شانوں پہ سر ہمارا
ہم اور ہی جہاں کے ،یعنی کہ المکاں کے
ہے صرف اتفاقا ،آنا اِدھر ہمارا
اتمام ِ دل خراشی ،اسلوب ِ سینہ چاکی
اظہار ِ کرب ناکی ،بس یہ ہنر ہمارا
اک سعئ ِ بے مسافت ،بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے ،گزرا سفر ہمارا
پہلے سے اور ابتر ،گویا جنوں سراسر
بتاو پوچھے ،کوئی اگر ہمارا
بس یہ ٗ
دم سادھنے سے پہلے ،چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے ،امکان بھر ہمارا
ایسے نہ آس توڑو ،سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے ،سمجھو تو ڈر ہمارا
-16-
یہ خبر ہے ،مجھ میں کچھ میرے ِسوا موجود ہے
اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے
ایک میں ہوں ،جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں
ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جابجا موجود ہے
ہاں خدا ہے ،اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر
میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے
تاب آنکھیں ال سکیں اُس حسن کی ،ممکن نہیں
میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئینہ موجود ہے
رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح
چاندنی موجود ہے باد ِ صبا موجود ہے
روشنی سی آرہی ہے اِس طرف چھنتی ہوئی
اور وہ حدت بھی جو زیر ِ قبا موجود ہے
ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم
ایک کو بہال دیا تو دوسرا موجود ہے
درد کی شدت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ
اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے
معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں
اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے
خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ
صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے
ایک ہی شعلہ سے جلتے آرہے ہیں یہ چراغ
میر سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے
یوں تو ہے عرفان ہر احساس ہی محدود سا
اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے
-17-
ایک مالل تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہر ِ وجود سے باب ِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب باد ِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چال جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
حجرہء جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
ِ ہاں ویسے تو
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب ،کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب مال ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی ،کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہر ِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لہجہ بھی مدھم ہے
-18-
احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھال ہوں میں
مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں
خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں
مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں
اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں
اک شہر ِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں
تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟
جاوں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟
پہلے سمجھ تو ٗ
کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ وران ِ عصر؟
عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں
مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند
مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں
اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے ،تو کیا کہوں
حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں
باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی
اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں
رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل
سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں
ہیں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر
اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں
میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا
اے حسن ِ خود پرست ،ترا ائینہ ہوں میں
جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا ،ترا نہ تھا
اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں
پہلے میں بولتا تھا بہت ،سوچتا تھا کم
اب سوچتا زیادہ ہوں ،کم بولتا ہوں میں
عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں
ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟
-19-
سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کالہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی
کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتا
منافقت کی حمایت ،نہیں ،کبھی نہیں کی
دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیم ِ آخری نہیں کی
اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی
بنام ِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے ،زندگی نہیں کی
ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولت ِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی
بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی
جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشم ِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی ،نہیں کی
ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردّ ِ انا ہم نے آج ہی نہیں کی
-20-
کس عجب ساعت ِ نایاب میں آیا ہُوا ہوں
تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہُوا ہوں
پھر وہی میں ہوں ،وہی ہجر کا دریائے عمیق
کوئی دم عکس ِ سر ِ آب میں آیا ہُوا ہوں
کیسے آئینے کے مانند چمکتا ہُوا میں
عشق کے شہر ِ ابدتاب میں آیا ہُوا ہوں
میری ہر تان ہے از روز ِ ازل تا بہ ابد
سر کے لیے مضراب میں آیا ہُوا ہوں
ایک ُ
کوئی پرچھائیں کبھی جسم سے کرتی ہے کالم؟
سایہ ِ مہتاب میں آیا ہُوا ہوں
ٗ بے سبب
ہر گزرتے ہوئے لمحے میں تپکتا ہُوا میں
درد ہوں ،وقت کے اعصاب میں آیا ہُوا ہوں
کیسی گہرائی سے نکال ہوں عدم کی عرفان
کیسے پایاب سے تاالب میں آیا ہُوا ہوں
-21-
ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے
ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو ،وہی پرانے والے
ان کے ہوتے کوئی کمی ہے راتوں کی رونق میں؟
یادیں خواب دکھانے والی ،خواب سہانے والے
کہاں گئیں رنگین پتنگیں ،لٹو ،کانچ کے بنٹے؟
اب تو کھیل بھی بچوں کے ہیں دل دہالنے والے
وہ آنچل سے خوشبو کی لپٹیں بکھراتے پیکر
وہ چلمن کی اوٹ سے چہرے چھب دکھالنے والے
بام پہ جانے والے جانیں اس محفل کی باتیں
ہم تو ٹھہرے اس کوچے میں خاک اڑانے والے
جب گزرو گے ان رستوں سے تپنی دھوپ میں تنہا
تمہیں بہت یاد آئیں گے ہم سائے بنانے والے
تم تک شاید دیر سے پہنچےمرا مہذب لہجہ
پہلے ذرا خاموش تو ہوں یہ شور مچانے والے
ہم جو کہیں سو کہنے دینا ،سنجیدہ مت ہونا
ہم تو ہیں ہی شاعر بات سے بات بنانے والے
اچھا؟ پہلی بار کسی کو میری فکر ہوئی ہے؟
میں نے بہت دیکھے ہیں تم جیسے سمجھانے والے
ایسے لبالب کب بھرتا ہے ہر امید کا کاسہ؟
مجھ کو حسرت سے تکتے ہیں آنے جانے والے
سفاکی میں ایک سے ہیں سب ،جن کے ساتھ بھی جاؤ
کعبے والے اِس جانب ہیں ،وہ بت خانے والے
میرے شہر میں مانگ ہے اب تو بس ان لوگوں کی ہے
کفن بنانے والے یا مردے نہالنے والے
گیت سجیلے بول رسیلے کہاں سنو گے اب تم
اب تو کہتا ہے عرفان بھی شعر رالنے والے
-22-
چپ ہے آغاز میں ،پھر شور ِ اجل پڑتا ہے
اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
یاد کا پھول مہکتے ہی نواح ِ شب میں
کوئی خوشبو سے مالقات کو چل پڑتا ہے
حجر ِہ ٗٗ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل
دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے
روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ
دوسری سمت سے جائوں تو ازل پڑتا ہے
ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری ہر دم
میری دنیا میں کوئی آج ،نہ کل پڑتا ہے
ادبی دنیا
غنی پرواز 15اگست 1945کو پیدا ہوئے تھے۔اس وقت وہ پاکستان میں بلوچستان کے شہر تربت میں مقیم ہیں۔بچپن سے
ہی ادب کی جانب ان کا رجحان تھا ،انہوں نے اپنی اب تک زندگی میں کہانیوں ،شاعری ،تنقیدی ،تحقیق اور دوسرے کئی
موضوعات سے متعلق قریب سو کتابیں لکھی ہیں ،جن میں سے ستائیس شائع ہوچکی ہیں،انہیں کئی اہم اعزازات سے
نوازا بھی گیا ہے۔مندرجہ ذیل کہانی اپنے سے زیادہ طاقتور لوگوں میں گھرے ایک ایسے شخص کی داستان ہے ،جس
کی آنکھوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،خاص طور پر ان آنکھوں کی جن کا عالج کیا جاچکا ہواور جن میں جھلمالہٹ کے
بجائے حقیقت کو دیکھنے یا دیکھ سکنے کی ہمت پیدا ہوگئی ہو۔کہانی کا انتخاب 'پاکستانی ادب '2002کے نثر
پرمخصوص شمارے سے کیا گیا ہے۔اکادمی ادبیات ،پاکستان کے ذریعے شائع ہونے والے اس رسالے کے مذکورہ
)شمارے کو منشا یاد اور محمد حمید شاہد نے ترتیب دیا ہے۔شکریہ!(تصنیف حیدر
٭٭٭
Aug
12
Aug
11
آزادی کے بعد ہندستان میں اُردو زبان و تعلیم کے مطالعے کے چند زاویے /رالف رسل
رالف رسل کا ایک نہایت قابل غور مضمون آج ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ یہ مضمون ہر اردو جاننے والے شخص
کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے ہمارے اندر ایک جانب اگر اپنی
تحسیب کا حوصلہ پیدا ہوگا تو دوسری جانب ہم اس بات کا اندازہ لگانے میں بھی کامیاب ہوں گے کہ جن مسائل کی جانب
مضمون نگار نے 1998یعنی کہ آج سے قریب اٹھارہ سال پہلے اشارہ کیا تھا ،ہم آج بھی ان سے کس قدر پیچھا چھڑا
سکے ہیں۔ یہ مضمون ہمارے بہت سے نامور مصنفین و ناقدین کے تعصب اور ان کے خیاالت کی ناپختگی
Aug
9
غالم محمد قاصر ()1941-1999کی قریب پچاس غزلوں کا انتخاب پیش خدمت ہے۔ غالم محمد قاصر کا شمار اردو کے
ایسے شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے اسلوب کو ہی اپنی شناخت بنایا۔ عام طور پر ان کی پہچان ان کے ایک شعر کے
ساتھ مربوط کردی گئی ہے جس کا پہال مصرع ہے ’کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام‘۔کبھی کبھی کسی شاعر کا
ایک شعر اس قدر مشہور ہوتا ہے کہ اس کا باقی کالم اس شہرت کے دھوئیں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔حاالنکہ ان کا
کلیات قریب دو ڈھائی سال پہلے ہی شائع ہوچکا ہے اور اس کا بہت غور سے مطالعہ کیے جانے پر معلوم
Aug
9
فراق گورکھپوری شاید روایتی انداز و اسلوب میں طویل ترین غزلیں کہنے والے ہمارے آخری شاعر تھے۔ ان کے بعد یا
تو کسی نے اس قدر طویل غزل لکھی نہیں یا لکھی تو اس کی غزل اس قدر جچی نہیں۔ خود نئی نسل کا حال یہ ہے کہ وہ
سات یا نو شعروں کو بھی طویل غزل سمجھتی ہے۔ یہ تو خیر ہمارے دور اور علم دونوں کی مجبوریاں ہیں کہ ہمیں
سکڑنا زیادہ پسند ہے ،ہم قافیوں کے دوہرانے کی نہ تو سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے پسند کرتے ہیں۔ لیکن فراق
صاحب کی غزلیں اپنی طوالت اور روایت کی بھرپور شان کے ساتھ ایک بہترین اسلوب کی نمائندہ
Jul
29
تمہید و مقدمہ (کلیات غالم عباس)/ندیم احمد
تمہید
غالم عباس کے افسانوں کا پہال مجموعہ’’آنندی‘‘مکتبہ جدید ،الہور سے پہلی بار اپریل ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا ۔اس کے
بعد اس مجموعے کی کسی اشاعت کا مجھے کوئی علم نہیں۔ان کا دوسرا مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘جوالئی۱۹۶۰ء
میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔اور اس کے متعدد ایڈیشن ۱۹۸۰ء تک شائع ہوتے رہے۔عباس صاحب کا تیسرا اور آخری
مجموعہ’’کن رس‘‘دسمبر ۱۹۶۹ء میں پہلی دفعہ الہور سے شائع ہوا اور اغلب ہے کہ یہ اس کا واحد ایڈیشن تھا۔پاکستان
میں وقفے وقفے سے ان کے افسانوں کے متعدد انتخابات بھی شائع ہوتے رہے لیکن ہندوستان میں
Jul
26
سید محمد اشرف ہمارے زمانے کے سب سے اچھے فکشن نگاروں میں سے ایک ہیں۔ زبان و بیان پر انھیں جو دسترس
حاصل ہے وہ انھیں اپنے بیشتر ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ اپنے ثقافتی ،تہذیبی،
جغرافیائی اورذہنی ماحول کو جس طرح وہ محسوس کرتے ہیں اور پھر ان تمام محسوسات اور تجربات کو جس خوبی
کے ساتھ اظہار کے نت نئے سانچوں میں ڈھال دینے پر قادر نظر آتے ہیں ،یہ اُن کی ایک غیر معمولی صفت ہے ،اس
کی کوئی دوسری مثال فی زمانہ نظر نہ
1
Jul
20
استا ِد محترم ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کی ادارت میں ’اردو ادب‘ کے احیا کے بعد اس کے مندرجات کی زیادہ توجہ
تنقیدی اور تحقیقی مضامین کی اشاعت پر مرکوز رہی۔ اردو میں تنقید اور تحقیق کا امتیاز اب اس قدر دھندال ہو چال ہے
کہ اکثر تحریریں تنقید و تحقیق کا ملغوبہ معلوم ہوتی ہیں۔ نئی نسل کے نقادوں میں کم و بیش سب کے سب مشرقی تنقید
کی روایت سے اس لیے ناواقف ہیں کہ اب فارسی پڑھانے کا باضابطہ نظام یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں تقریبا
معدوم ہو گیا ہے اور الگ سے فارسی پڑھنا جو ے شیر النے سے کم نہیں۔ایک فیشن کے
Jul
15
یہ جو دنیا ہے اس میں ہم جیسے بندے بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں آتے ہیں اور َمر جاتے ہیں کیوں کہ یہ آتے ہی مرنے
کے لیے ہیں اور کچھ دوسرے ہیں جو ایک شان سے آتے ہیں ،زندہ رہنے کے لیے آتے ہیں ،وہ زندہ رہتے ہیں اور جب
مرتے ہیں تو بھی نہیں مرتے کہ ان کا نام ان کا کام ہمیشہ کے لیے وقت کی پیشانی پر ثبت ہو جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو
وہ دیکھنے میں ہم جیسے ہی ہوتے ہیں۔ دو کان ،ناک ،دو آنکھیں ،دو پیر ،شکم کا ایک دوزخ بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے
لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ذہن کی دولت سے بھی ماال ما
Jun
22
میں لکھا ہے کہ کس طرح سیٹھ نے ) (Blurbکے پیپر بیک ایڈیشن کے بلرب An Equal Musicوکرم چندر نے
’انگریزی میں لکھنے والے ہندستانی ادیبوں کے لیے ایک نیا عالقہ تخلیق کیا ہے‘۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ
میں ملتی ہے۔یہ ] [An Equal Musicراے اسی بے حیثیت تنقید کے باال دست فرقے کا حصہ ہے جو[سیٹھ کے] ناول
تنقید خود کتاب پر اس قدر مرکوز نہیں جس قدر اس طریقے پر ہے جس سے مصنف نے انگریزی مینایک دن
Jun
17
محمد انور خالد کی نظمیں آج ادبی دنیا پر اپلوڈ کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہورہی ہے۔ابھی کچھ وقت پہلے تک میں
خود اس قدر عمدہ شاعر سے واقف نہیں تھا۔انہیں زندگی مختصر ملی ،مگر ان کی یہ شاندار نظمیں اردو ادب میں اب
یونہی دائم و قائم رہیں گی اور اپنے حسن اور اپنی ہنرمندیوں سے بہت سے پڑھنے والوں کو اپنا گرویدہ کرتی رہیں
گی۔ان کا یہ مجموعہ ' ریت آئینہ ہے' جو کہ ذیل میں اپلوڈ کیا جارہا ہے۔پہلی بار 'آج کی کتابیں'کے زیر اہتمام -1993
94میں شائع ہوا تھا۔بعد میں اس کی دوسری اشاعت اسی اشاعت گھر سے 2015سے کچھ اضافت
1
Jun
16
گرم راتوں میں جے این یو کی ہوا کھاتے ہوئے ہر ہاسٹل پر جب ہم نے یہ اعالن چسپاں کیا کہ چار جون 2015کو حسین
عابد کی نئی کتاب ’بہکتے عکس کا بالوا‘پر ایک پروگرام ہونا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہندی۔اردو شاعروں کی ایک محفل
سجائی جانی ہے تو ہمیں امید نہیں تھی کہ لوگ اس سخت ترین موسم میں ،کیمپس میں چلنے والی چھٹیوں کے باوجود
اتنی تعداد میں وہاں جمع ہونگے اور کتاب پر مکمل گفتگو سننے کے ساتھ تمام شاعروں کا کالم بھی سنیں گے۔ وجہ یہ
تھی کہ یہ کوئی نمائشی قسم کا پروگرام نہیں تھا۔ اس میں آنے والے تمام لوگ وہ تھے،
Jun
16
میں نے نصف صدی پیشتر ادب کی دنیا میں باضابطہ قدم رکھا تھا۔ میرے ساتھیوں میں کچھ تو مرکھپ گئے ،کچھ تھک
چکے اور بعض اب بھی تواتر سے نہ سہی ،کبھی نہ کبھی لکھ رہے ہیں۔ اپنے دور کے آغاز میں ہم نے تخلیق کے لیے
ایک بے لوث اور مشفقانہ فضا پائی تھی۔ ادبی اختالفات اس وقت بھی تھے لیکن ان اختالفات کا احترام ہم سب پر اس لیے
واجب تھا کہ وہ ہماری ادبی تہذیب کا بنیادی جزو تھا۔ اُس وقت کی ذہن ساز شخصیتوں کے نام گنانے کی ضرورت نہیں
کہ نئے اور پرانے ادیب ،سب انھیں جانتے ہیں۔ اُس وقت بھی پر
Jun
14
مدراراکشس کا نام ان لوگوں کے لیے شاید اجنبی نہ ہو جنہوں نے اجمل کمال کے رسالے آج میں ان کی کہانیاں پڑھ
رکھی ہوں۔ہم بہت جلد بلکہ کچھ ہی روز میں ان کی وہ کہانیاں آپ کے سامنے آڈیو یا بالگ کی صورت میں پیش کریں
گے۔مگر ہمانشو باجپئی کا یہ مختصر سا مضمون جو 'کیچ نیوز'کے لیے لکھا گیا ہے ،بہت کمال ہے اور اس اہم افسانہ
نگار کی زندگی ،اندازو اطوار اور قابل مطالعہ کاموں کے بارے میں بہت اہم جانکاریاں دیتا ہے۔ہندی اور اردو کے
لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان فاصلہ کم ہونا چاہیے۔اس کے لیے ہمیں باقاعدہ کوئی پلیٹ
Jun
13
شکاری/انتون چیخوف
مرطوب ،حبس آلود دوپہر۔ آسمان پر بادل کی کترن تک نہیں۔ ۔ ۔ دھوپ میں پکی ہوئی گھاس تھکی ماندی ،مایوس دکھائی
دے رہی ہے ،جیسے اگر بارش ہو بھی جائے تب بھی یہ کبھی سرسبز نہیں ہو سکے گی۔ جنگل خاموش ،ساکت کھڑا
ہے ،جیسے درختوں کے اوپر سے کسی کی راہ تک رہا ہے ،یا اسے کسی بات کی امید ہے۔
میدان کے کنارے پر ایک لمبا تڑنگا ،تنگ شانوں واال مرد ،جس کی عمر 40کے قریب ہو گی ،اس نے سرخ قمیص اور
پیوند لگی پتلون پہن رکھی تھی جو کسی زمانے میں کسی زمیندار کی رہی ہو گی۔ اس کے پاؤں میں لمبے بوٹ تھے اور
وہ سست روی سے قد
Jun
12
چیخوف کو کیسے پڑھیں/کیتھی پاپکن
کیتھی ایل پاپکن کولمبیا یونیورسٹی کے سالوی زبانوں کے شعبہ کی پروفیسر ہیں۔انہوں نے چیخوف کی کہانیوں کا ایک
انتخاب ان پر لکھے ہوئے مختلف اہم تنقیدی مضامین کے اقتباسات کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔جس کا تعارف یہاں آپ کے
مطالعے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔کیتھی نے اس میں بہت اہم باتیں کی ہیں۔ہم یوم چیخوف کی ابتدائی منزل پر یہ
ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر اس اہم مصنف کو پڑھنے کا طریقہ کیا ہو ،یا کسی بھی اہم رائٹر کو پڑھنے کابہتر طریقہ
کیا ہوسکتا ہے،اور پھر اس پر غور کریں کہ ایسے مصنفین کو پڑھنے کا کوئی اصول یا کوئ
Jun
8
ابن خلدون کے بارے میں ہمارے ہاں عام تعلیم یافتہ لوگ بس اتنا جانتے ہیں کہ وہ مسلم دنیا کا ایک نام ور مؤرخ تھا۔ البتہ
کچھ زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ ،جو تعداد میں یقینا کم ہے ،اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ صرف مؤرخ ہی نہیں تھا بل کہ فلسفۂ
علوم عُمرانی
ِ کا ایک پیش َرو مفکر بھی تھا۔ آج مشرق و مغرب میں اس کی جو ) (Social Scienceتاریخ کا ُموجد اور
شہرت ہے اورعالمی فکر کی دُنیا میں اسے جو اونچا مقام حاصل ہے وہ اس کی اسی دوسری حیثیت کی وجہ سے ہے۔
ابن خلدون نے ایک طویل عمر پانے کے بعد ۱۴۰۶ء میں قاہرہ میں انتقال
1
Jun
2
ولی دکنی کے نام سے کون واقف نہیں۔ وہ اردو کے پہلے ایسے شاعر ہیں ،جن کی زبان اور اسلوب نے اردو غزل کے
ابتدائی نقوش پر زبردست اثر ڈاال۔ولی کی غزلیں ،جب ان کے دیوان کے ساتھ دہلی پہنچیں تو لوگ گلیوں میں اسے گاتے
پھرے ،شاعروں نے اس کے طرز میں طبع آزمائی کی اور اس طرح تتبع کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا ،جس کو اس
وقت کے مشہور شاعر اور پیشے سے داروغہ مطبخ شیخ ظہور الدین حاتم نے بھی اپنایا اور ایک پورا دیوان ،اسی طرز
میں لکھا۔ دیوان ولی میں موجود ولی دکنی کی ان غزلیات کے بارے میں کہا جاتار ہا ہے کہ انہیں یہ
1
May
30
ابرار احمد ،جدید اردو نظم کی ایک بہت اہم آواز ہیں۔ ان کے یہاں نظم کی بنت کے بہت اچھے اور انوکھے طریقے ہمیں
دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے موضوعات زندگی میں مختلف راستوں سے در آنے والے گہرے جذبوں اور رویوں پر مشتمل
ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی نظم پڑھتے وقت اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس متن کی تخلیق کے لیئے نظم کے خالص
رومانوی مزاج اور دنیا کے غیر جمالیاتی ،سفاک اور کثیف رویوں کو آپس میں گوندھ کر دیکھنے کا فن آنا چاہیئے۔ اسی
کے ساتھ ساتھ انسان کے گہرے دکھ اور عشق کے ال متناہی سکھ کو انہوں نے کئی مقامات پر مدغم کر
2
May
29
ہم ایک سانپ بنانا چاہتے تھے۔ یا وہ ایک نقطہ تھا جو سانپ ہوجانا چاہتا تھا مگر راستے میں اس نے اپنا ارادہ بدل دیا
اور اپنی سمت بدل دی۔
اب وہ کچھ اور ہوگیا ہے۔ اپنے ادھورے پن میں معلق ،ہوا میں اِدھر اُدھر ڈولتا ہوا
)کلیشمے(
پیٹ میں کسی طوفان کی طرح لگاتار بڑھتے ہوئے تیز درد سے حواس باختہ ہوتے ہوئے ،اس نے پہلے تو سڑک کے
ایک طرف دوڑ لگائی ،پھر خطرناک ٹریفک کی کوئی پرواہ کیے بغیر ،سڑک کے اُس پار ،دوسری طرف۔ اس پار بھی
بہت دور تک دوڑا۔ یہاں بھی وہی جگمگاتا ہوا بازار ،صاف ستھری دوکانیں اور خوبصورت چم
May
28
کو ملتان میں پیدا ہونے والے راجیندر منچندا بانی کا یہ تیسرا شعری مجموعہ شفق شجر ادبی دنیا پر 1932نومبر 12
اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ اس مجموعے میں کچھ ایسی غزلیں بھی شامل تھیں ،جو کہ پچھلے مجموعوں میں موجود رہ چکی
ہیں ،چنانچہ ان کو نکال دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ آپ کو یہ پیشکش ضرورپسند آئے گی۔ بانی کی شاعری پر جلد ہی ہم کچھ
اہم ادیبوں سے گفتگو بھی کروائیں گے اور انہیں ادبی دنیا پر اپلوڈ کریں گے۔ غزل میں نئے انوکھے موڑ بدلنے اور پیدا
کرنے پر قادر اس شاعر کو تمام لوگوں تک یونی کوڈ میں پہنچادینے سے اب کم از
May
26
منچندا بانی کو اپلوڈ کرنے کا کام جاری ہے۔ اس کلیات کا یہ دوسرا حصہ یعنی کہ بانی کا دوسرا شعری مجموعہ 'حساب
رنگ' یہاں اپلوڈ کیا جارہا ہے۔بانی کی شاعری کے تعلق سے کل میں نے یہ بات کہی تھی کہ ان پر کوئی ڈھنگ کا
تنقیدی مقالہ میں نے نہیں دیکھا۔ کچھ دوستوں نے فاروقی اور نارنگ کا حوالہ دیا۔شمس الرحمٰ ن فاروقی کا مضمون میں
نے پڑھا ہے اور نارنگ کی تحریر بھی نظر سے گزری ہے۔ لیکن یہ دونوں مضامین مجھے پسند نہیں ہیں ،یہ بانی کے
تعلق سے نہایت سرسری قسم کی تحریریں ہیں ،میں چاہتا ہوں کہ ان تمام شاعروں پر جن کے ت
May
25
حرف معتبر/کلیات بانی۔1
اردو کے بے حد اہم شاعر منچندا بانی کا کالم صحیح معنوں میں اب تک بہت سے پڑھنے والوں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
اب ہم ان کی کلیات جس میں ان کے تین شعری مجموعے 'حرف معتبر'' ،حساب رنگ' اور'شفق شجر' ادبی دنیا پر اپلوڈ
کرنے جارہےہیں۔اس طور ایسے عظیم شاعر کو کم از کم اردو والے دوبارہ یاد کریں اور شاعری کے ایک بالکل الگ
اور انوکھے ڈھنگ کو پڑھ کر دیر تک اپنا سر دھنیں۔ بانی کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ اول تو انہیں بہت زیادہ پڑھا نہیں گیا،
دوسرے ان کے کالم پر کہیں کہیں سے تبصروں اور واہ واہی کے چھینٹے ضرور چھڑکے گئے ل
May
24
سر آسماں‘کی وزیر خانم کی اصل حقیقت اورگورکھ دھندے سے فکشن کی نجات/اطہر
کئی چاند تھے ِ
فاروقی
انیسویں صدی کی دلی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے،بہت کچھ بھال دیا گیا ہے اوربہت کچھ مٹا بھی دیا گیا ہے۔
ماضی کو حال میں متشکل کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کی ذکاوت درکار ہے جو بہ یک وقت ’اندر کا نقاد‘ اور
سر آسماں جیسا بیانیہ لکھ سکتے تھے ،جو نہ صرف بے عیب ہے مورخ ہو ۔ شمس الرحمن فاروقی ہی کئی چاند تھے ِ
بلکہ نہایت تفصیل کے ساتھ اور لطافت سے گھڑاگیاہے۔ فاروقی نے مگر مچھوں کے اس تاالب میں گہر ااور پراعتماد
غوطہ لگا کر...جسے ہم میں سے اکثر انیسویں صدی کی دلی کے شب وروز سمجھتے ہیں...ہمیں ایک ایسی کہ
1
May
16
اسد محمد خاں صاحب نے جب مجھے فون پر اپنا پتہ بتایا تو میں ’’ واجد اسکوائر‘‘ کا نام سن کر چونکا۔ واجد اسکوائر۔
مجھے یاد آیا کئی برس پہلے اردو ادب کے نقاد اور افسانہ نگار شہزاد منظر اور مایہ ناز شاعر ،نقاد اور ریڈیو
براڈکاسٹر حمید نسیم بھی تو اسی واجد اسکوائر میں رہا کرتے تھے اور تب میں ان سے ملنے وہاں جایاکرتا تھا۔اسی لئے
میں نے اسد محمد خان صاحب سے فورا کہہ دیا۔ یہ جگہ میری دیکھی بھالی ہے۔میں باآسانی پہنچ جاؤں گا۔
اسد محمد خاں صاحب سے انٹرویو کے لیے اتوار کا دن اور گیارہ بجے کا وقت طے ہوا تھا۔
1
May
15
ثروت حسین کے کلیات کی یہ چوتھی اور آخری پوسٹ اپلوڈ کی جارہی ہے ،اس میں ثروت حسین کا غیر مطبوعہ کالم،
گوشہ عقیدت اور کالج کے ایام میں ان کی گئی شاعری پر مشتمل ایک مختصر سا مجموعہ نئے دن کا سورج شامل ہیں۔
ثروت حسین کی شاعری اب انٹرنیٹ پر یونی کوڈ میں موجود ہے۔ ادبی دنیا نے کوشش کی ہے کہ ایسا معیاری ادب جو
کہ بے حد اہم ہو اور جسے لوگ پڑھنا ،جاننا چاہتے ہوں اور کتاب کی صورت میں انہیں میسر نہ آپارہا ہو ،اس طور مل
جائے۔ بہت سے افراد پی ڈی ایف کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ سارا کالم یونی کوڈ میں م
1
May
14
ایک عمر اوراپنی نسل کا سب سے بڑا شاعرثروت حسین۔سچا شاعراورانوکھا شاعر ۔ میں قلندرانہ نثرلکھنے کا احساس
رکھتا ہوں مگر ثروت ایسے لوگوں میں سے ہے جن کے لیے لکھتے ہوے میری تخلیقی بے
قراری،سرشاری،شکرگزاری اور انکساری میری اپنی مٹی میں مل جاتی ہے اورمیں اس کی شاعری پڑھنے لگتاہوں
۔ایسا میں کئی بارکرچکاہوں ۔ اس کی شاعری میری ہمت بندھاتی ہے۔ یہ مطالعہ ایک رفاقت جیسا ہے۔ اس کے ساتھ
میری ر
May
13
ثروت حسین کا یہ دوسرا مجموعہ کالم ،ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ خاکدان نامی اس مجموعے میں غزلیں اور
نظمیں دونوں موجود ہیں۔غزلوں کا اسلوب نہایت الگ اور دلچسپ ہے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ غزلوں کو پڑھ کر شاعر
کے یہاں موجود کسی خاص قسم کے نظریے کو قائم کیا جائے ،کیونکہ اکثر شاعر غزل کی دیرینہ اور پکی پکائی
شعریات سے کام چال کر خود کی ہی تردید اور تائید کرتا رہتا ہے اور مضمون آفرینی کے چکر میں کبھی ادھر کی ہانکتا
ہے ،کھی ادھر کی لیکن ثروت کےیہاں ایسا نہیں ہے ،ان کے یہاں دنیا کو سمجھنے ،اسے جاننے او
May
11
عصر تارا
میر کے ساتھ سرسوں کے پھول کو بھی اپنا ہم عصر مان لیا۔ زرد پھول
کاظمی نے ؔ
ؔ ہم عصروں کی بات ہوئی تو ناصر
ناصر کو مہذب اداسی کی کوئی ایسی کیفیت نظر آئی ہوگی جس کا رشتہ ان کی
ؔ میں کی دھوپ میں چمکتی ہوئی پتیوں
ہوگا۔ناصر کی پیروی میں جب میں اپنے ہم عصر تالش کرتا ہوں تو جی چاہتا ہے
ؔ شاعری کے نازک لہجے سے ملتا
کسی پرندے کو یا کسی شجر کو اپنا معاصر کہہ دوں مگر ان سے بھی پہلے ایک تارا میرا ہم عصر ہے۔ فلک کی دھندلی
نیالہٹ میں سلگتا ہوا تارا ،کسی دوست کی تسلی کی طرح ،کسی امکان کی طرح ،شاعری کے کس
May
8
ہاوس‘‘ کے بند ہونے کے کوئی دو ہفتے بعد سونادر میں بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ ’’انڈیا کافی ٔ
ہاوس کی زندگی چراغِ معرض وجود میں آیا تھا۔ اس کافی ٔ
ِ ہاوس
عبدالغفورالنڈری ورکس کی بغل میں ایک نیا کافی ٔ
سحری کی طرح بہت مختصر تھی اور یہ ایک کمزور دیے کی مانند چند ہی روز ٹمٹما کر ہمیشہ کے لیے ُگل ہو گیا۔ میں
پس پردہ ،اصل کہانی سننا چاہیں گے۔ہاوس کی ِ اس افسوسناک واقعے میں ایک اہم کردار تھا۔ شاید آپ اس کافی ٔ
جب میں ایک روز شام کو چچاعبدالباقی سے گپ شپ کی خاطر اس کے گھر پر گیا تو میں نےاسے ہمیشہ
May
3
کا ترجمہ فلسفہ مغرب کی تاریخ کے نام سے پروفیسر A History of Western Philosophyبرٹرینڈرسل کی کتاب
محمد بشیر نے کیا ہے۔یہ ترجمہ کردہ کتاب پہلی بار 2005میں شائع ہوئی اور اس کا دوسرا ایڈیشن بھی 2010میں
پورب اکادمی ،اسالم آباد سے شائع ہوا ،جبکہ رسل کی یہ کتاب دوسری جنگ عظیم کے دوروان 1945میں منظر عام
پر آئی تھی۔برٹرینڈر رسل کی فکریات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ا س کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔حاالنکہ بشیر
صاحب کا ترجمہ تھوڑا بھاری بھرکم ہے ،لیکن ذرا سی محنت سے آپ کو باتیں سمجھ میں آسکتی ہیں۔میں ن
May
2
تعارف
کابل کے ایک سینئر پبلک سرونٹ کے گھر میں 1962میں جنمے عتیق رحیمی کی ابتدائی تعلیم ’لیسے استقالل‘ میں
ہوئی۔ افغا نستان میں سوویت روس کی مداخلت کے بعد انھیں ایک سال کے لیے پاکستان میں پناہ لینی پڑی ،اور پھر
1985میں انھیں فرانس میں سیاسی پناہ مل گئی۔
سوربون میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد رحیمی نے فلم نگاری ،فلم سازی ،فوٹوگرافی اور ہدایت کاری کو اپنے کرئیر
کے طور پر چنا۔ نوے کی دہائی میں انھوں نے لکھنا شروع کیا اور دری (فارسی) میں ان کی پہلی تخلیق خاکستر و خاک
سنہ 2000میں شائع ہوئی جو جلد ہی ی
Apr
28
ہند و پاکستان میں معاصر اردو زبان و ادب اور مسلم اساس پرستی
:ابتدائیہ
Apr
27
اردو فکشن کے ناگزیر طور پر قاب ِل مطالعہ ادیب اور ان کی کتابیں/رفاقت حیات
آپ نے پوچھا ہے کہ طلبا اور اردو کے شائقین کو فکشن کی کون سی کتابیں اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور
پڑھنی چاہئیں؟میں اس کا جواب دینے کی اپنی سی کوشش کروں گا۔سب سے پہلے اردو فکشن کا ذکر کرنا چاہوں گااور
اس میں اولین رتن ناتھ سرشار کے فسان ِہ آزاد کا ذکر ہونا چاہیے ،جو آزاد اور خوجی کے کارناموں سے آراستہ ایک
بہت ہی دل چسپ کتاب ہے ۔ یہ کتاب لکھنو کی تہذیبی اور ثقافتی جھلکیوں کے ساتھ ساتھ اپنے زبان و بیان کے حوالے
سے بھی اہم ہے۔اس کے بعد امرائو جان ادا کا نام لوں گا ،جس کی وجہ
3
Apr
26
تصنیف آپ نے سوال کیا ہے کہ ایسی غیرادبی کتابوں کی ایک فہرست مہیا کی جائے جو اردو کے قارئین کو زندگی میں
ایک دفعہ ضرور پڑھ لینی چاہئیں۔ گمان ہے کہ غیرادبی سے آپ کی مراد شاید غیر افسانوی ہے جیسے شاعری ،ناول ،
افسانہ وغیرہ۔ کتاب کے شائقین جانتے ہیں کہ اس قسم کی فہرست ہمیشہ ایک ناگزیر موضوعیت کا شکار ہوتی ہے کیوں
کہ یہ سراسرانتخاب کرنے والے کی دلچپسی پر ہی منحصر ہوتا ہے کہ اس کی پسندیدہ موضوعات کون سے ہیں۔ مثال
کی صنف سے Self Helpکے طور پر آج کل کی رائج مغربی زمرہ بندی کے مطابق میں ’اپنی مدد آپ‘ یا
1
Apr
25
Apr
25
تنقیدی کتابوں کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں/ناصر عباس نیر
! ڈئیر تصنیف
آپ نے لکھا ہے کہ میں عالمی یوم کتاب کے موقع پرعالمی تنقید کی چندایسی کتابوں کا ذکر کروں ،جن کے بارے میں
میری یہ رائے ہے کہ انھیں زندگی میں کم ازکم ایک بار پڑھنا ضروری ہے۔ کتاب کے عالمی دن (۲۳؍اپریل)کو منانے
کا اس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا کی بہترین کتابوں کا ذکر کیا جائے۔ آپ نے مجھے صرف تنقید کی چند
کتابوں کے ذکر تک محدود رہنے کے لیے کہا ہے۔میں نے حساب نہیں لگایا کہ میں نے تنقید کی کتنی کتابیں پڑھی ہیں۔
ان میں سے کسی ایک یا چند کتابوں کا انتخاب ،اس کڑے معیار کے تحت کرنا
3
Apr
22
گوپی چند نارنگ نے محمد علوی کی نظمیہ شاعری کے تعلق سے ان کی کلیات ’رات ادھر ادھر روشن‘ کی ابتدا میں
لکھا ہے(’’:محمد)علوی کی جس قدر پہچان ان کی غزل سے ہے اسی قدر پہچان نظم سے بھی ہے ،اس لیے کہ مختصر
نظم پر علوی کی دسترس میں کبھی کمی نہیں آئی۔علوی کو نظم کی تعمیر کا ہنر آتا ہے۔بالعموم وہ نظم کو سیدھے سادے
بیان سے شروع کرتے ہیں ،پھر ایک ہلکا سا موڑ دے کر توقعات کو پلٹ دیتے ہیں اور معنی یا فکر یا احساس کی ایک
انوکھی کیفیت سامنے آجاتی ہے۔گویا احساس کے دوسرے پن یا معمولہ معنی سے ہٹ کر معنی پیدا کرن
Apr
20
مالیاتی دہشت گردی (یعنی عوام کی روزمرہ زندگی اور معیشت پر بالتشدد طریقوں سے قبضہ کرنا)/نجمہ
صادق
علم کے تین شعبے ایسے ہیں جو انھیں جاننے کی کوشش کرنے والوں کے لیے بڑے حوصلہ شکن ،بلکہ مایوس کن
ثابت ہو سکتے ہیں :سیاست ،قانون اور معاشیات۔ یہ ماننے کا جواز موجود ہے کہ مخصوص عالمانہ اصطالحات پر
مشتمل زبان کی ایجاد کا مقصد ہی یہ تھا کہ سیدھے سادے تصورات کے آسانی سے سمجھ میں آنے کا راستہ بند کیا
جائے اور اس طرح لوگوں کی بڑی تعداد کو ’ماہرین‘ کے متبرک زمرے میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔
وسطی سے تعلق رکھنے والی لفاظی کے باوجود ،یہ
ٰ لیکن جہاں تک سیاست اور قانون کا تعلق ہے ،موخرالذکر کی قرون
دونوں شع
1
Apr
13
پیل ہام ایک رات پہنچا تو اپنے پلنگ کے برابر ایک ننگ دھڑنگ آدمی کوغراتے پایا۔ کمرے میں روشنی کم تھی لیکن
اس کی آنکھوں نے پھر بھی کاندھے سے کالئی تک اس آدمی کا ایک بازو ،کسی جلتی شے کا گوندا ہوا نشان ،ذرا سے
باہر کو ابھرے دانتوں کی سرسری جھلک اور تنے ہوئے ہونٹ دیکھ لئے۔غراہٹ ،دہشت ناک اور کھوئی کھوئی تھی،
فلک شگاف ،گہری سفاکیت لئے ،مسلسل بڑھتی ہوئی چالنے کی آواز ،جس کے درمیان میں کبھی کبھار ایک کٹیلی
تھا۔جل کی آنکھ بھی کھل گئی ،اُس
ِ تھرتھراہٹ سی اٹھتی ،ایک صوتی کچومر کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہا
Apr
11
اختر االیمان کے تعلق سے بہرحال اتنی بات مسلم ہے کہ کوئی باضابطہ کام ابھی تک اردو ادب میں نہیں کیا گیا ہے۔
انہیں اپنی زندگی میں بھی اس کی شکایت رہی کہ انہیں لوگوں/نقادوں کی جانب سے ویسی سنجیدگی سے نہیں پڑھا گیا،
جس کے وہ حقدار تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود سنجیدہ حلقوں میں بھی اختراالیمان کوئی آیا گیا موضوع نہیں رہے
بلکہ ان پر متواتر گفتگو ہوتی رہی۔ خصوصی طور پر جدید نظم کے بنیادگزاروں کے طور پر ان کا نام ضرور لیا جاتا
رہا۔ جہاں تک بات پڑھ کر سمجھنے یا سمجھ کر پڑھنے کی ہے تو بیشتر ایسے شعرا ہیں ،جن ک
Apr
6
ذیل کے دونوں مضامین امریکہ میں اشتہار بازی کی وبا اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کا بخوبی جائزہ لیتے
اعلی فن یہ ہے کہ وہ ہمیں اپنی پیدا کی ہوئی اجتمائی اخالقیات کا قائل بنادے۔مثال کے طور پر
ٰ ہیں۔اشتہار کا سب سے
اچھا ہونا اخالقیات میں شامل ہے ،لیکن خوبصورت ہونا ،کچھ مخصوص مصنوعی چمک پیدا کرنے والے پروڈکٹس کی
پیدا کردہ اخالقیات ہیں۔آپ کریم لگائیے ،پائوڈر ملیے ،خوش لباس رہیے ،فیشن کا ممکنہ حد تک پیچھا کیجیے تو دنیا کے
بازار میں آپ ایک عزت دار شخص کہالسکیں گے ،یہ وہ غلط فہمیاں ہیں ،جو دراصل انسانی
Apr
4
Mar
30
)(۱
مصنف کا قاری کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنا مہمل ہو گا کہ اس کے کرداروں کا کبھی حقیقی وجود رہا ہے۔ یہ
ت حال کے دو ایک تحریک آور فقروں کسی ماں کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوئے ہیں بل کہ ان کا وجود تو ایک بنیادی صور ِ
رہین منت ہے۔ توماش
ِ کا زائیدہ تھا اور تیریزا پیٹ کی گڑگڑاہٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ " "Einmal ist keinmalکا
جب وہ پہلی بار توماش کے فلیٹ آئی ،تو اس کے پیٹ میں گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے ،ناشتے
کے بعد سے ایک سینڈوچ کے عالوہ ،جو گاڑی میں سوار ہونے سے
Mar
25
)پہالحصہ:لطافت اورکثافت(
)(۱
نے فلسفیوں کو اس کے ذریعے اکثرالجھا دیا ہے (Nietzsche) :ابدی بازگشت کا تصور خاصہ پُراسرا رہے ،اورنیچے
یہ سوچنا کہ ہر شے ٹھیک جس طرح ہم نے اس کا تجربہ کیا تھا اسی طرح دوبارہ واقع ہوتی ہے ،اور یہی بازگردی خود
بھی المتناہی طریقے پراپنے کودہراتی ہے! یہ باولی اسطور کس بات پر داللت کرتی ہے؟
اسے منفی طور پر بیان کریں تو ابدی بازگشت کی اسطور کے مطابق ایک زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل
ہوچکی ہے ،جو لوٹ کر نہیں آتی ،ایک سائے کی طرح ہے ،بے وزن ،پہلے سے مردہ ،اور اگر یہ ہو
Mar
24
Mar
18
)پابن ِد ادب انفراد یت(دہلی اور لکھنؤ میں وضع داری کی مختصر تاریخ) /چودھری محمد نعیم (شکاگو
نیرمسعود کے نام
وضعدار دوست ّ
Moral Conduct and Authority: The Place of Adab in South Asian Islamباربرا ڈیلی مٹکاف اپنی کتاب
:کے تعارف میں لکھتی ہیں
طرز عمل اور بجا ذوق سے متعلق تمام فیصلوں میں ’ادب’’
ِ ت ارادی کے استعمال ‘درست نظم و ضبط ،صحیح انسانی قو ِ
طرز عمل کے درمیان ظاہر یا
ِ والے جانے سمجھے بدتہذیبی اور عمل طرز
ِ یافتہ تہذیب یہ ہے۔ دیتا مقام اونچا بہت کو
مضمر انداز میں تمیز کرتا ہے ،اور موخرالذکر کو اکثر زمانہ قبل از اسالم کے رواج کے طور پر بیان کرتا ہے‘‘۔۱
Mar
13
آئرش ناول نگار جیمس جوئس ڈبلن کے مضافات میں پیدا ہوا۔اس کا باپ مرنجا مرنج ،خوش باش قسم کا انسان تھا اور
پانی شاہ خرچی کی وجہ سے سارے ڈبلن میں مشہورتھا۔اس کے سولہ سترہ بچے تھے۔اس کی والدہ بہت اچھاپیانو بجاتی
تھیں۔
بھیج دیا گیا جہاں اس نے تین سال گزارے۔یہ تین سال اس کی زندگی میں ناقابل Jesuit schoolچھ سال کی عمر میں وہ
فراموش اہمیت رکھتے ہیں۔نوسال کی عمر میں اس نے اپنے باپ کے پمفلٹ کے خالف ایک پمفلٹ لکھا۔1891میں مالی
مشکالت کی وجہ سے اسے اسکول سے اٹھالیا گیا اور دو سال بعد ایک پرائیوٹ ادارہ میں د
Feb
26
اکیسویں صدی کے سترہویں برس کے ستم مسلسل جاری ہیں۔پرسوں صبح ہارپر لی کے مٹی ہونے کی خبر تو بس آئی
گئی ہو گئی کہ ان کا ناول پڑھنے سے بہت پہلے گریگوری پیک ہمارے ذہن میں اپنی الزوال فلم کے ذریعے اس کہانی
کو امر کر چکےتھے۔ اپنی کم نویسی کے باعث ہارپر لی نے ہمارے دل کا گوشہ تو ضرور اپنے نام کر لیا لیکن ان کا
تخلیقی منطقہ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود حد درجے محدود تھا۔ غم کی درست میزان تومشکل ہے ،لیکن دن ڈھلے
جب معلوم ہوا کہ امبرٹو ایکو بھی آخر حقیقت سے کچھ زائد ہو گئے ہیں تو دکھ اپنے انتظار حسین صاحب ک
Feb
21
میں نے نیوز چینل دیکھنا بند کردیا ہے۔ویسے بھی خبروں کی تجارت ہمارے یہاں بہت چل نکلی ہے۔یہ ایک اچھا سودا
ہے ،اس کے بہت سے پہلو ہیں ،بہت سے زاویے ہیں۔ابتدا میں مجھے ٹیلی ویزن پر ہونے والی بحث بہت ہی اچھی لگا
کرتی تھی ،بہت غور سے سنا کرتا تھا۔ مگر میں اس تبدیلی کا گواہ ہوں ،جس میں نیوز اینکر اس بحث کے تاروں کو
جوڑنے والے ذریعے سے بڑھ کر ایک سوال طلب کرنے واال بابو بنا اور پھر دھیرے دھیرے غنڈہ بن گیا۔آپ کوئی بھی
نیوز چینل لگائیے ،نیوز چینلوں پر دندناتے ،چیختے چنگھاڑتے نیوز اینکرز آپ کو سہماتے ہوئے،
1
Feb
9
ادبی دنیا پر اس پوسٹ کے ذریعے مجید امجد کا چوتھا مجموعہ کالم فردا اپلوڈ کیا جارہا ہے ،اسی کے ساتھ مجید امجد
کے کلیات کی اشاعت کا یہ پراجیکٹ یہاں تمام ہوتا ہے ،ادبی دنیا کے ذریعے اب تک فیض احمد فیض ،مجید امجد،
سعادت حسن منٹو ،قرۃ العین حیدر ،عرفان صدیقی وغیرہ کے کلیات اپلوڈ کیے جاچکے ہیں۔ اور جلد ہی میراجی،
ن۔م۔راشد ،عادل منصوری ،محمد علوی ،عصمت چغتائی اور دیگر بہت سے ادیبوں کی کلیات کے پراجیکٹ بھی اپلوڈ
کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہم اپنے معاونین کے بھی بے حد شکر گزار ہیں ،جو ہمیں اکثر ٹائپ شدہ ک
Feb
8
شب رفتہ کے بعد اگرچہ مجید امجد کا کوئی مجموعہ ان کی زندگی میں نہیں چھپا لیکن انہوں نے ایک مالقات میں (جو
1972میں ہوئی)مجھے یہ بتایا تھا کہ شب رفتہ کے بعد انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کے دو مختلف مزاج ہیں اس لیے
اس کے دو الگ الگ مجموعے شائع ہونے چاہییں۔ایک مجموعہ 1958سے 1968تک کے کالم پر مشتمل ہو اور
دوسرے میں 1968اور اس کے بعد کی تخلیقات شامل ہوں لیکن 'مجید امجداشاعتی کمیٹی—الہور' نے 'شب رفتہ کے
بعد'کے زیر عنوان جو مجموعہ ترتیب دیا اس میں شب رفتہ کے دور کے کچھ کالم کا انتخاب اور اس کی اشاعت کے ب
Jan
31
Jan
30
ب رفتہ‘‘ کے نام سے 1958میں نیا ادارہ الہور کی طرف سے مجید امجد کی زندگی میں ان کا ایک ہی مجموعہ ’’ش ِ
شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کو ترتیب دیتے ہوئے امجد نے اپنا ابتدائی کالم یکسر خارج کر دیا تھا۔ 1932سے 1934کے
ب رفتہ میں شامل نہیں کی۔ میرے نزدیک درمیان ان کی اکا دکا نظمیں شائع ہونے لگی تھیں لیکن یہ شاعری انھوں نے ش ِ
حسن‘‘ 1935میں جوش ملیح آبادی کے رسالے ’’’’کلیم میں شائع ہوئی ’’ان کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا۔ ان کی نظم
ب رفتہ کا آغاز انھوں نے اس نظم سے کرنا مناسب خیال کیا۔ 1935سے 1958تک تھی۔ ش ِ
Jan
27
دیباچہ نما
تحریر کا رواج جب سے ہوا ہے/تب سے کاغذ نے اپنا دہانہ کھول دیا ہے/اور لفظ کی فصلیں کاٹی جارہی ہیں/اناج
بھرپور ہے/یہ لفظ تانبے کے ،پیتل کے ،سونے کے یا پھر کسی اور دھات کے/کیسے اگائے جاتے ہیں/یا پھر کہاں بوئے
جاتے ہیں
میں بھی نہیں جانتا کہ لفظ کی تاریخ کتنی پرانی ہے ،وہ تاریخ جو کن سے شروع ہوئی یا پھر اس سے بھی پہلے،یا پھر
تب جب خدا بولنا سیکھ رہا تھا۔میرے لیے ہمیشہ کن سے پہلے کا وقت ایک سوال ہے اور یہ سوال بجائے خود اتنا
چمکدار لفظ ہے کہ اس کی روش
Jan
26
نسرین انجم بھٹی کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو اور نظمیں/عارفہ شہزاد
زندگی بڑی عجیب و غریب طاقت ہے ،ملتی ہے تو لوگ اس طاقت کا صحیح استعمال نہیں کرتے ،اسے نالیوں میں
بہاتے ہیں ،دھول میں گزارتے ہیں۔لیکن فنکار دھول میں لپٹی اور نالیوں میں بہائی جانے والیوں زندگیوں کا بھی مشاہدہ
کرتا ہے اور آسمان میں اڑتی ہوئی ،پانیوں میں تیرتی ہوئی زندگی کو بھی اپنے فن کے آئنے میں اتارنے کی کوشش
کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس کوشش میں اسے کامیابی تو نہیں ملتی مگر اس کی ناکامیابی کا سفر جاری رہتا ہے ،وہ نہیں
رکتااور یہی اس کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے۔ایک دن فن کار رک جاتا ہے ،تھم جاتا ہے ،اپنے
Jan
24
منٹو کی تخلیقی ہنرمندی کو سمجھنے کے لیے اس سے متعلق اہم گوشوں کو سمجھنا بھی بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے ،اسی
خیال کے تحت اردو ادب ،نئی دہلی کے اکتوبر تا دسمبر 2012کے شمارے میں جہاں منٹو پر بہت اچھے مضامین شامل
کیے گئے ،وہیں الہور سے شائع ہونے والی محمد سعید کی مرتب کردہ کتاب'نوادرات منٹو'سے منٹو اور فرانسیسی ادب
کا یہ گوشہ بھی شامل کیا گیا۔ اس حصے میں ہمیں منٹو کو متاثر کرنے والے فرانسیسی ادیبوں کے بارے میں بنیادی
جانکاری حاصل ہوتی ہے،آپ اس کو صرف معلومات کی حد تک ہی اہمیت دیں تب بھی یہ بہت اہم ہے،
Jan
21
ہم لوگ پڑھنے کے معاملے میں تھوڑے کاہل ہیں اور کچھ حد تک جب پچھلے ادیبوں کو جاننے اور دیکھنے کا موقع
ملتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی ہمیں پڑھنےسے بالکل دلچسپی نہیں ،کجا کہ غور سے پڑھنے کی عادت ہو۔سعادت
حسن منٹو ہمارے ان افسانہ نگاروں میں سے ہے ،جسے روسی ادب سے بڑی دلچسپی تھی،اس نے اس ادب کی کئی اہم
تخلیقات کا ترجمہ بھی کیا ہے۔مندرجہ ذیل مضمون منٹو نے گورکی کے حاالت زندگی اور اس کے فن کا تنقیدی جائزہ
لیتے ہوئے لکھا ہے ،اس مضمون کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ منٹو کس حد تک گورکی کی تخل
Jan
18
ایک وقت انگریزی ادب میں عریاں روئے سخن کو بے مقصد تک بندی تک محدود تصور کیا جاتا تھا۔یہ ’’بے مقصد‘‘
منظوم صنف ہے۔کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لٹریچر میں نوبل ) (eroticروئے سخن دراصل لطیفہ گوئی کی شہوانی
انعام یافتہ شاعر ٹی ایس ایلیٹ بھی اس صنف میں طبع آزمائی کرتے تھے اور سنجیدہ شاعری کے ساتھ ساتھ اس قسم کی
شاعری کا اندارج بھی اپنی نوٹ بک میں کرتے رہتے تھے۔بعض اوقات وہ ان صفحات کو پھاڑ کر اپنے دوست اور
مشہور زمانہ شاعر ازرا پاؤنڈ کو بھجواتے تھے ،جو ایلیٹ صاحب کی عریاں شاعری کے بے حد مداح تھے۔ان میں س
1
Jan
12
اور خدا نے اسے ایک سو سال تک مارے رکھا ،اور پھر زندہ کر کے پوچھا’ :تم کتنے عرصے سے یہاں رہے ہو؟‘ اس
‘ نے جواب دیا’ ،ایک دن ،یا ایک دن کا کچھ حصہ۔
اور اس طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں)
کتنی مدت رہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار
ہی اس کو خوب جانتا ہے۔
Jan
4
سردار جعفری کی افسانہ نگاری کے تعلق سے تو لوگ جانتے ہیں ،مجھے بھی علم تھا کہ انہوں نے کچھ کہانیاں لکھی
ہیں۔ مگر جب میں نے نیا ادب کے شمارے میں ان کے ناول کا ایک باب دیکھا تو ذرا چونک گیا۔وجہ یہ ہے کہ ان کی
ناول نگاری کے تعلق سے کبھی کہیں سنا ،دیکھا نہیں ہے۔میں نے اس تعلق سے اپنے کچھ اہم احباب سے بھی پوچھا ،ان
کا بھی یہی کہنا تھا کہ سردار جعفری کا ناول سے کیا تعلق۔اب چونکہ نیا ادب میں صرف یہ ایک ہی باب شامل تھا ،اور
دوسرے زیادہ شمارے میں دیکھ نہیں سکا ،اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ سردار جعفری نے یہ پو
1
Jan
3
ہندی کے نامور ادیب امرت الل ناگر (17؍اگست 1916ـ 23؍ فروری )1990کی کتاب ’یہ کوٹھے والیاں‘ (اشاعت
ّاول:غالبا 1955ـ )1954طوائفوں کی زندگی سے متعلق مضامین ،کہانیوں اور انٹرویو پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے جدید
ناشر :لوک بھارتی پرکاشنٰ ،الہ آباد ،سے یہاں ’پیش لفظ‘ کے ساتھ دو کہانیوں (’بچپن ،محفلیں اور ویشیا )ایڈیشن (2011
بدر منیر :ویشیا جیون کا انت‘) کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔
کا بیٹا‘ اور ’ ِ
کتاب میں موجود مضامین ’یہ کوٹھے والیاں‘،:بچپن ،محفلیں اور ویشیا کا بیٹا،سینے میں جیسے کوئی دل کو َمال کرے
ہے،
Jan
2
Dec
29
ادبی دنیا پر دوسری اہم تحریروں کے ساتھ ہم نے لغت کو بھی اہمیت دی ہے۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ ہم نے بہت تیزی
کے ساتھ پرانے الفاظ کو ترک کرنا شروع کیا ،اور نئے دور میں محاوروں اور کہاوتوں کی کھپت ہماری روزمرہ کی
زبان میں کم سے کم ہونے لگی ،اب تو شاید وہ دس فی صد ہی رہ گئی ہوگی۔ اس کے باوجود ہم ادب تخلیق کررہے ہیں،
صحافت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ،یعنی کیا اس دور کے زبان داں کو اس محاوراتی زبان کی قوت کا ادراک نہیں
ہے ،جو کسی مختصر جملے میں ایک بھرپور تہذیبی ،سماجی و ثقافتی تاریخ کی نمائندگی کا سلیقہ
Dec
28
یہ بات واقعی افسوس کی ہے کہ جس قوم کے پاس دنیا کی ایک بے حد اہم اور بلیغ کتاب موجود ہے ،وہ عقل سے کام نہ
لے کر جذبات اور جہالت کا شنکھ بجاتے پھرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں ،جوایک اچھے نظریے کو صرف زندگی کے
معمولی مسئلے مسائل کا معاملہ بنا کر میال کردیتے ہیں ،مال کو مذہب کا ٹھیکیدار اور بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ کسی
بھی نئی چیز کو اپنانا ،قبول کرنا بہت بڑا گناہ گردانتے ہیں۔آج ہم 'ادبی دنیا ' پر سمبل میں شائع شدہ محمد کاظم کے
ترجمہء سورہ یوسف کو اپلوڈ کررہے ہیں۔اس سورہ میں دو جملے قابل غور ہیں۔اول ' اور آسم
Dec
26
اردو اور ہندی کے قریب ترین لسانی رشتے کے باوجود اردو میں عصری ہندی شاعری کا کوئی مجموعہ ڈھونڈنے سے
نہیں ملتا ،اسی طرح ہندی میں بھی عصری اردو شاعری پر کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔اس کی وجوہات پر غور و خوض
کا کام ارباب حل و عقد پر چھوڑ کر میں اس اہم ضرورت کی تکمیل کی سعی کررہا ہوں۔یہ چھوٹی سی کتاب اسی سلسلے
کی پہلی کڑی ہے۔
یہ مختصر سی کتاب نئی ہندی شاعری کا تعارف نامہ ہے۔نظموں کا انتخاب مروجہ پامال تدریسی نقطہء نظر سے نہیں
کیا گیا ہےا ور نہ ہی شاعروں کے انتخاب میں کسی مخصوص مکتب فکر یا خیمے کو ملحوظ
Dec
25
مطبوعہ ’اردو ادب‘ کتاب ( ‘‘اپنے مضمون ’’پابند ادب انفرادیت :دہلی اور لکھنؤ میں وضع داری کی مختصر تاریخ
)۳۵۲میں لکھنؤ کے بانکوں کے ذکر میں میں نے لکھا تھا کہ بانکوں کے بارے میں کوئی مطبوعہ تحریر مجھے
شرر نے بانکوں کا
دستیاب نہیں اگرچہ بچپن میں کئی کتابچے اس موضوع پر دیکھے تھے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ؔ
شرر نہ تو وضع داری کے خاص مدح خواں ذکر محض ایک خاص انداز کے پاجامے کے بیان میں کیا ہے اور یہ کہ ؔ
تھے اور نہ بانکوں کے۔ ان کی مشہور کتاب جسے اب ’گذشتہ لکھنؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ،بانکوں کے دل چس
Dec
24
ان دنوں ایک دلچسپ کتاب میرے ہاتھ لگی ہے ،جس کا میں بڑے شوق سے مطالعہ کررہا ہوں۔کتاب کا عنوان ہے’ہٹلر
اعظم‘ اور اس کا سن تصنیف ہے ،1938اس کتاب کے مصنف کا نام ہے پروفیسر چندر شیکھر شاستری۔ہٹلر کی
میں شائع ہوچکی تھی۔اس کتاب میں ہٹلر کے زیادہ تر حاالت اسی سے ماخوذ 1925-26خودنوشت سوانح مائن کمف
معلوم ہوتے ہیں۔مگردلچسپی کی بات یہ ہے کہ اول تو یہ کتاب ہٹلر کی زندگی میں ہی لکھی گئی ہے ،دوسرے اس سے
کچھ ایسی باتوں پر روشنی پڑتی ہے ،جو ہٹلر ،ہندوستان اور فاشزم کی نئی صورتوں کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔کم
ا
Dec
23
میں شایع شدہ اصغر علی انجینئر کے اس مضمون کو اسالم کے خالف پھیالئے جانے والے Islam and Modern Age
اس پروپیگنڈے کے جواب کے طور پر پڑھنا چاہیے جس کی رو سے اسالم تشدد اور دہشت گردی کا مذہب ہے۔
انگریزی میں اس مضمون کی اشاعت کا مقصد وسیع پیمانے پر ان لوگوں تک اپنی بات پہنچانا ہے جو اس قسم کے
پروپیگنڈے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ مضمون بے حد سادہ زبان اور معروضی انداز میں لکھا گیا ہے ،مثال پیغمبر کے
سوا کوئی دوسرا لفظ ،یہاں تک کہ محم ؐد کا نام بھی استعمال نہیں کیا گیاتاکہ پیغمبر کی ذات سے عقیدت کے قطع نظر بح
Dec
22
موالنا آزاد پر جو کچھ اب تک لکھا گیا ہے اس میں اس مضمون کا ذکر میری نظر سے نہیں گزرا۔ ادھر انٹرنیٹ پر اس
صوں کا ترجمہ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ شورش کاشمیری مجلس احرار اسالم سے تعلق رکھتے مضمون کے چند ِح ّ
چٹان‘ (الہور) کے مدیر تھے۔ موالنا آزاد سے کافی قریب تھے اور ان سے ملتے رہتے تھے۔ انھوں ’تھے اور ہفتہ وار
نے موالنا سے اپنی تین مالقاتوں کے دوران جو گفتگو ہوئی تھی ،اُسے قلم بند کیا تھا۔ یہ گفتگو ان کی کتاب ’ابوالکالم
آزاد (سوانح و افکار)‘ کے باب ’اسالم اور پاکستان‘ میں شامل ہے۔ اس کتاب کا پہال اڈ
2
Dec
21
سلویا پالتھ کا نام پڑھنے والوں کے لیے نیا نہیں ہے ،وہ ایک زبردست تخلیق کار تھیں۔آٹھ سال کی عمر سے ان کا تخلیقی
سفر شروع ہوگیا تھا ،ٹیڈ ہیوز سے انہوں نے محبت کی بنیاد پر شادی کی ،مگر ٹیڈ کی شاعرانہ فطرت کے سبب ایک
اور لڑکی سے جب ان کا افیئر ہوا تو سلویا کو صدمہ پہنچا۔ اس وقت ٹیڈ اور سلویا کے دو بچے تھے ،انہوں نے تنہائی
کے کرب اور اداسی کے انتہائی غلبے کے سبب خودکشی کی کوشش کی ،جس میں ناکامی ہوئی۔باآلخر انہوں نے ٹیڈ
سے علیحدگی کے بہت تھوڑے عرصے بعد ہی لندن میں اپنے گھر میں خودکشی کرلی۔ان کی خود کش
Dec
21
Dec
20
فیض احمد فیض کے کلیات کا یہ پراجیکٹ آج یہاں ختم کیا جارہا ہے۔دراصل فیض کے کلیات پر کام کرتے وقت مجھے
اس کا علم نہیں تھا کہ یہ کلیات یونی کوڈ میں پہلے سے انٹرنیٹ پر موجود ہے۔لیکن فرخ منظور صاحب نے بتایا کہ یہ
کام ہوچکاہے ،چنانچہ پہلے مجموعے دست صبا کے بعد باقی کے تمام مجموعے میں نے وہاں سے کاپی کرکے یہاں آپ
لوگوں کے سامنے پیش کردیے کہ میں اس کا وعدہ کرچکا تھا کہ ادبی دنیا پر یہ کلیات اپلوڈ ہوگی۔اچھی بات یہ ہے کہ
ن۔م۔راشد کا کلیات مجھے فرخ منظور صاحب نے اور مجید امجد صاحب کا کلیات مجھے میرے ایک او
Dec
19
میں فیض سے کوئی بیس سال قبل اس وقت متعارف ہواتھا جب وہ ایم ۔اے۔او کالج ،امرتسر میں لیکچرار تھے۔ایک اور
پرانے دوست جو اس وقت فیض کے رفیق کار تھے ،کل اچانک ایڈنبرا میں دکھائی دیے اور ان سے مل کر مجھے بیتے
ہوئے دن یاد آگئے ،معلوم یہ ہوا کہ فیض کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اس قدیم دوست کی ایڈنبرا میں آمد سے
مجھے مطلع کریں گے۔لیکن وہ بھول گئے ،اس زمانے میں بھی وہ اپنی بھول جانے کی عادت اور غائب دماغی کی وجہ
سے خاصے مشہور تھے ،لیکن ان کے طالب علم ان کی اس عادت
Dec
18
تقریر
فیض صاحب کی تقریر جو انہوں نے ماسکو میں بین االقوامی لینن امن انعام کی پر شکوہ تقریب کے موقع پر اردو زبان
:میں کی
الفاظ کی تخلیق وترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے۔لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب قدرت کالم
عجز بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے۔ایسے کوئی الفاظ میرے ذہن میں نہیں آرہے
ِ جواب دے جاتی ہے_____آج
،جن میں اپنی عزت افزائی کے لئے لینن پرائز کمیٹی،سوویٹ یونین کے مختلف اداروں ،دوستوں اور سب خواتین
اورحضرات کا شکریہ خاطر خواہ
Dec
16
سازش ‘ راول پنڈی کے دنوں میں فیض کے ساتھ میں بھی سنٹرل جیل (حیدرآبادٹ سندھ)میں تھا’ ،مقدمہ
دسمبر1952تک ہمارے مقدمے کی سماعت ختم ہوچکی تھی ،ہمیں روز روز اسپیشل ٹریبونل کے اجالس میں جاکر
ملزموں کے کٹہرے میں ،گھنٹوں بیٹھے رہنے اور اس دوران گواہوں کی شہادتوں ،وکیلوں کی جرح اور بحث اور معزز
ججوں کی فاضالنہ قانونی موشگافیوں سے نجات مل گئی تھی ،ابھی فیصلہ نہیں سنایا گیا تھا اور ہم امید و بیم کے عالم
میں تھے۔’چھٹی‘ وافرتھی ،انہیں دنوں ایک دن یہ اطالع ملی کہ ’دست صبا ’ شائع ہوگئی۔گوہم اس کی تمام چیزیں فی
Dec
15
Dec
15
فیض احمد فیض کی شاعری کے تعلق سے کیا کہا جاسکتا ہے ،وہ اردو کے بہت ہی اچھے شاعر ہیں ،مجھے فیض کی
کلیات کو آن الئن کرنے کا خیال اس لیے آیا کیونکہ بڑی بڑی تنظمیں ،روپیہ پیسہ خرچ کرکے فیض پر مقالےپڑھواتی
ہیں ،ان کی شاعری کے اسرار و رموز کو بحر نقد سے ڈھونڈ کر النے کی کوشش کرتی ہیں ،مگر جو بنیادی کام ہے،
یعنی فیض کی تحریر کا عام ہونا اس پر حیرت ہے کہ ان تنظیموں کا خیال کبھی نہیں گیا۔فیض پر ابھی چند روز پہلے
ایک سیمینار ہوا ،جس پر بی بی سی میں ظفر سید کی ایک خبر کے مطابق زہرا نگاہ نے بڑی اچھی اچھی با
Dec
12
الریب بابو راؤ پٹیل فرقہ پرست تھا ،اُس نے منافرت پھیالئی اور مذہبی تعصب کو ہوا دی ،اُس نے مذہبی جنون پیدا کیا،
دل آزاری کا باعث بنا اور قومی یک جہتی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک بہکی اور بھٹکی ہوئی اندھی طاقت
جوش جنون میں اِدھر اُدھر اپنا سر پھوڑتی رہی۔لیکن یہ بات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ اُس نے اپنے
ِ تھا جو
ت الیموت مہیا کرنے کی غرض سے اردو ہفت روزہ ’کارواں‘ جاری کیا ،بعد ازاں سعادت حسن دوست عابد گلریز کو قو ِ
ب صادق تھا۔ خواجہ احمد عباس اور ن منٹو کو اس کا اڈیٹر مقرر کیا۔ منٹو اس کا حبی ِ
Dec
11
قاسم یعقوب بیک وقت اچھے نقاد بھی ہیں اور اچھے شاعر بھی۔ریختہ کے لیے ایک زمانے میں جب میں نے ان کی
غزلیں منگوائیں اور پڑھیں تو حیران رہ گیا کہ وہ کتنی اچھی غزلیں کہتے ہیں۔مجھے تو بے حد پسند آئیں ،منفرد بھی
لگیں۔ان کی ادارت کا لوہا تو لوگ 'نقاط' جیسے اہم رسالے کی وجہ سے مان ہی چکے ہیں۔وہ نظموں کی پس ساختیاتی
تنقید کے حوالے سے ایک الگ اور مزید پہچان رکھتے ہیں،مگر مجھے ان کی یہ پہچان کوئی خاص پسند نہیں،مجھے تو
ان کا خالقانہ اظہار شعر بہت اچھا لگتا ہے ،لیکن اس سے ان کی تنقیدی بصیرت پر کوئی فرق نہیں پ
2
Dec
10
ظفر سید کی نظمیں
یہ تو سچ ہے کہ نظم پڑھنا ایک الگ تجربہ ہے ،اس پر غور کرنا دوسرا اور اس کی تعبیر فراہم کرنا تیسرا اور شاید
ایک غیر ضروری سا تجربہ معلوم ہوتا ہے۔نظم وہ ہے جو کہی گئی ہے ،وہ اپنے اندر آباد ہے ،شاعر کو محض داد دینے
یا کوسنے کے لیے اس کی تعبیر و تنقید کا دفتر لگانامیری نظر میں بہت اچھی بات نہیں ہے۔میں نہایت اہم تخلیقات کی
معروضی اور غیر معروضی دونوں قسم کی تنقیدات کو ان کے حق میں خراب میں تصور کرتا ہوں ،اس کی وجہ یہ ہے
کہ شاعری اپنے اندرون سے باہر آکر پھیل جاتی ہے ،جس طرح سیال کا حسن ،اس کو سکھا ک
1
Dec
9
میں نے تقریباسال بھر پہلے جب بہت سارے ادیبوں ،شاعروں سے دس سوالوں پر مشتمل گفتگو شروع کی ،تو ان میں
خورشید اکرم صاحب سے بھی سواالت پوچھے۔انہوں نے دو سواالت کے جواب مجھے میل کے ذریعے دیے اور باقی
آٹھ کو لکھ کر بھیجا۔میں نے سوچا تھا کہ جلد ہی انہیں ٹائپ کرکے بالگ پر شیئر کروں گا۔ یقینی طور پر وہ سارے
جوابات اتنے دلچسپ اور کسے ہوئے تھے کہ اس سے ایک طرف خورشید اکرم کی ادب کے حوالے سے شفاف فکر کی
نمائندگی ہوتی تھی تو وہیں ان سے بہت سے معامالت میں اختالف کے باوجود ہم سب کو سوچنے کے لیے کچھ نئے
زاویے م
Dec
7
راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کی طرح ان کے مضامین بھی بے حد دلچسپ ہیں۔ کہانی کے تعلق سے ہمارے یہاں بہت
سی باتیں ہوئی ہیں ،لوگوں نے مختصر افسانے کو کبھی پچھڑے طبقے کی مخلوق جانا ،کبھی لوگوں نے اس کی تعریف
میں زمین و آسمان کے قالبے مالدیے مگر مجھے بیدی کے اس مضمون میں جو خالصتا ایک تخلیقی مضمون
ہے،افسانے کے تعلق سے ایسی تنقید پڑھنے کو ملی ہے کہ یہ روگ کسی ثقہ و معتبر نقاد کے بس کا نہیں معلوم
ہوتا۔کہانی کیسے کہی جاتی رہی ہے ،اس کی خاصیت کیا ہے،کون سے عناصر سے الگ ہوکر کہانی ،کہانی نہیں رہ
سکتی اور
Dec
5
مورا تھان منگن ترکی ُزبان کے معروف کہانی کار ہیں ۔ان کے افسانوں میں ترکی کلچر کی بھر پور عکاسی نظر آتی
ہے۔ (ادارہ نقاط) موراتھان کی دو کہانیاں آج ادبی دنیا پر پیش کی جارہی ہیں ،ان دونوں کہانیوں میں دو مختلف بچوں کے
احساسات و جذبات کو بیان کیا گیا ہے،دنیا کے بڑے مفکرین مانتے ہیں کہ بچے سے زیادہ حساس اور کوئی نہیں ہوتا،
دوستوئیوسکی او ر ٹالسٹائی نے بھی بچوں کو سماج میں بڑوں کے برابر عزت دینے اور زندگی کے معامالت میں انہیں
شریک کرنے پر زور دیا ہے۔زیر نظر دونوں کہانیوں میں بچوں کے خود کو نمایاں رکھن
Dec
4
صبح کاذب کے ملگجے اندھیرے میں مینا نے راستہ محسوس کرتے ہوئے اپنا وہ لباس پہنا جس کی آستینیں الگ ہو جاتی
تھیں۔ پھر ٹرنک میں اس لباس کی آستینیں تالش کرنے لگی۔ اُس نے کھونٹیوں پر اور دروازوں کے پیچھے تالش کیا
مگر بے سود۔ اُس کی کوشش تھی کہ سارے عمل کے دوران کمرے میں سوئی ہوئی اس کی نابینا دادی کی آنکھ نہ کھل
جائے۔ لیکن جب وہ اندھیرے سے مانوس ہوئی تو اُس نے محسوس کیا کہ اس کی دادی جاگ چکی تھی اور باورچی
خانے میں موجود تھی۔ وہ باورچی خانے میں دادی سے اپنی آستینوں کے بارے میں پوچھنے چل دی۔
Dec
3
نجیب محفوظبالشبہ آج کی عرب دنیا کے ممتاز ادیب ہیں ۔اُن کا بیانیہ اپنی وضاحت اور اشاریت کے حوالے سے بہت ’’
طاقت ور صورت اختیار کر جاتا ہے ۔قاہرہ جہاں وہ پیدا ہوئے ،اُن کا محلہ جمالیہ جہاں وہ11دسمبر 1911کو پیدا ہوئے
،دھڑکتا نظر آتا ہے ۔حتّٰی کہ ان کی ایک تحریر ’’ قاہرہ ثالثیہ ‘‘ میں عبد الجود کا گھر اُن کے آبائی گھر کا بہترین نقشہ
میں منتقل ہو گئے جہاں انہیں پہلی محبت ہوئی۔ ‘پیش کرتا ہے ۔بعدمیں وہ ’محلہ عباسیہ
وہ ایک قوم پرست شخص تھے جس کا تاثر اُن کی اکثر تحریروں میں صاف نظر آتا ہے ۔ان کے ناولو
Nov
30
بورخیس کی کہانیاں
بین االقوامی ادب کے شائقین جانتے ہیں کہ بورخیس کے موضوعات معانی کا ایک سمندر ہیں اور وہ تاریخ ،اساطیر،
(magicalفلسفہ ،مذہب اور ریاضی وغیرہ سے تصورات مستعار لیتے ہوئے عمومی طور پر طلسماتی حقیقت نگاری
کی ادبی روایت میں کہانی اور کردار تخلیق کرتے ہیں۔ادبی نقادوں کے نزدیک ان کی شاعری )realism
سے ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ وجودیاتی فلسفے میں بورخسی مع ّمہ) (Vergilاور ورجل )(Spinozaاسپینوزا
ان سے منسوب ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا ادیب کہانی تخلیق کرتا ہے یا پھر کہانی )(Borgesian Conundrum
اسے تخلیق کرتی
Nov
27
Nov
26
بلراج مین را کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے ،وہ بے انتہا قابل ،نہایت اہم فن کار اور ادیب ہیں۔ میں نے ان کی گفتگو اس
الہدی نے ان کے تعلق سے 'سرخ و سیاہ' اور
ٰ سے پہلے زمرد مغل کے کیے گئے ایک انٹرویو میں سنی تھی ،سرور
'بلراج مین را۔۔۔ایک ناتمام سفر' نام کی دو کتابیں ترتیب دی ہیں۔یہ کتابیں اچھی ہیں ،مگر مین را کا حق محض اتنا نہیں
ہے ،ان پر بات ہونی چاہیے ،ان پر کام ہونا چاہیے ،وہ شعور ،سرخ و سیاہ اور مین راجنرل جیسے پرچوں کے مرتب
رہے ہیں ،وہ مین را کے اداریے ،وہ انور سجاد کی کہانیاں ،وہ ادیبوں پر بے حد ا
1
Nov
23
مارچ 1923میں سیریا کی 21نزار توفیق قبانی ،جو کہ سیریا کے مشہور ترین شاعر اور سیاستداں تھے ،کی پیدائش
راجدھانی دمشق میں ہوئی تھی۔ وہ پرانے دمشق کے پاس ،ایک عالقے میں تب تک رہے جب تک 1930میں وہ دمشق
کے نیشنل سائنٹفک کالج اسکول میں پڑھنے نہیں آگئے۔ انہوں نے یہاں پر 1941تک تعلیم حاصل کی ۔ یہ اسکول ان کے
والد کے دوست احمد منیف العیدی کا تھا۔ اس کے بعد قبانی نے دمشق یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یہاں پر 1958تک ال
پڑھا۔ ان کوبیچلرز ڈگری آف ال 1945میں حاصل ہوئی۔کالج کے دنوں میں قبانی نے اپنا پہال شعر
1
Nov
22
آدمی کے نام
دیباچہ
انسانی صورت حال کا مستقل عنصر ہے۔ یہ ہمہ جہت اور ہمہ وقوع ہے۔اولیا ء ہللا کرام کو ہر باب میں نفس ‘‘دکھ’’
مطمئنہ حاصل ہوتا ہے لیکن ’’دکھ‘‘ سے خالی وہ بھی نہ تھے۔ حضرت نظام الحق والدین نظام االولیا اکثر راتوں کو نہ
سوتے اور اشکبار رہتے۔ایک بار امیر خسرو نے ہمت کر کے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ جب اس شہر میں
ہزاروں بندگان خدا پر رات اس طرح گذرتی ہے کہ ان کے پیٹ میں روٹی نہیں اور تن پر چادر نہیں تو میں کیونکے س
Nov
19
مضرابیات/میراجی
پرانی تحریریں کہیں کہیں ایسی تازہ ہیں کہ پرانی کم اور نئی زیادہ لگتی ہیں۔اس سال جون کے مہینے میں یہ تحریر
اکہتر برس پرانی ہوگئی ہے۔اتنے برس میں رومانیت اور طنز دونوں کا بیڑہ اردو شاعری میں غرق ہوگیا ہے۔میرا جی کا
یہ دیباچہ ادب میں طنز و مزاح نگاری ،رومانیت ،شعر شناسی،شاعر فہمی اور شخصیت کے مطالعے کی اہمیت پر زور
دیتا ہے۔میرا جی کی تحریر بہت بے الگ ہے،ایسی بے ساختہ کہ پڑھنے والے کے سینے میں سطروں کے ڈورے پٹ
سن کی سالخوں کی طرح گڑتے نہیں بلکہ ریشم کی طرح لپٹتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔اسی تحریر میں میر
Nov
15
Nov
15
دانیال طریر کی یہ بیس بائیس غزلیں ہیں ،یہ ساری غزلیں اس کے شعری مجموعے خواب کمخواب سے ماخوذ ہیں،
دانیال طریر اب ہمارے درمیان نہیں ہے ،چند ماہ پہلے اس اچھے شاعر اور بہترین ادیب کا انتقال ہوگیا ،کم عمری میں
اس کی موت کا ان تمام لوگوں کو افسوس ہے ،جو اس کے دماغ کی تخلیقی اور شعوری اڑان کو دیکھ رہے تھے۔مجھے
دانیال طریر نے اپنا شعری مجموعہ خود میری درخواست پر عنایت کیا تھا،ادبی دنیا کی جانب سے آج ہم اس شاعری
کے ذریعے دانیال کو یاد بھی کررہے ہیں ،اور چاہتے ہیں کہ آپ اسی غیر جانبداری سے اس کی شاعری کا
Nov
13
Nov
12
اس پورے مضمون کا نام 'پیشوائی دور کا ایک دلچسپ واقعہ ،باجی رائو مستانی کا معاشقہ تاریخ کے آئینے میں'
ہے۔ہندوستان بہت بڑا ملک ہے ،اس کی تاریخ بھی اتنی ہی گہری ،گھنی اور اندھے کنوئیں کے مانند ہے ،اس کنوئیں کے
بطن میں بہت سی کہانیاں دفن ہیں ،تاریخ کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ظالم و مظلوم دراصل دونوں ایک کہانی
کا کردار ہیں ،جنہیں صدیاں گزرنے کے بعد کچھ آنکھیں اپنی تخلیقی روشنی میں ڈھونڈ کر دوبارہ زندہ کرسکیں گی،
حاالنکہ باجی رائو۔مستانی کی کہانی بالکل نئی نہیں ہے ،اس پر پہلے بھی کام ہوتا رہا
Nov
10
اپنی زندگی کے آخری ایام میں گوتم بدھ ایک مرتبہ اپنے شاگردوں کو تعلیم کی غرض سے ایک پرسکون تاالب کے پاس
ب معمول اپنے گرو کے اردگرد دائرے کی صورت میں بیٹھ گئے اور خطبہ شروع ہونے کا انتظار لے گیا۔ تمام معتقد حس ِ
کرنے لگے۔ بدھ کی خاموشی طول پکڑتی گئی۔حاضرین کی بے چینی بڑھتی گئی۔ باالخر بدھ نے کنول کا ایک پھول
توڑا اور خاموشی کے ساتھ ان کے سامنے اٹھایا۔شاگردوں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ بدھ نے وہ پھول یکے بعد دیگرے
سب شاگردوں کے سامنے کیا ہر ایک نے اپنی دانست کے مطابق اس رمز کا مطلب بیان کرنے کی کوشش کی۔
1
Nov
9
فلسفہ وجودیت کے تحت انسانی نفسیات کا مطالعہ ایک مستقل موضوع کے
ٔ یوں تو دوستووسکی کے تمام ادبی کام میں
زیر زمین رسائل
‘ (Notes fromطور پر سامنے آتا ہے پھر بھی نقادوں کے نزدیک اس کے مختصر ناول ’ ِ
مادام ’کو فرانسیسی مصنف دیدرو کے ناول ’رامیو کا بھتیجا‘ ،ترگنیف کے ’نئی پود‘ اور فالبرٹ کے )Underground
بوواری ‘ وغیرہ کے ساتھ بین االقوامی ادب کے چند ایسے فن پاروں میں شمار کیا جاتا ہے جنہیں یورپ کی تنویری
نقطہ آغ
ٔ تحریک اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کے بعد ادب میں جدیدیت کی تحریک کا
Nov
8
جون ایلیا کی غزلیں
جون ایلیا کا آج یوم وفات ہے ،وہ 14دسمبر 1931میں پیدا ہوئے اور 8نومبر 2002میں ان کا انتقال ہوگیا ،جون کی
انفرادیت ان کے منفرد لہجے سے ثابت ہے ،میرا خیال ہے ،جون کی جتنی شہرت ان کی غزلوں کی بنیاد پر ہوئی ،اس
کی وجہ سے بہت حد تک ان کی نظموں کو نظر انداز کیا گیا ،جبکہ ان کی نظمیں ان کے فلسفیانہ ذہن کی بہترین عکاسی
کرتی ہیں ،ان کے علم اور تخلیق دونوں کا جوہر ان کی شاعری میں جس قدر نظم میں کھلتا ہے ،غزل میں اس قدر نہیں،
یہ کمی غزل کی ہوسکتی ہے ،جون کی نہیں ،کیونکہ جون نے تو غزل میں بھی اچھی شاعری کی
Nov
7
یہ تقریرہیرالڈ پنٹر کی ہے ،جو اس نے نوبل انعام ملنے کے موقع پر کی تھی ،اس میں اس نے امریکہ کی اقتدار پسند
پالیسیوں کو جیسے بے نقاب کیا تھا ،وہ خاصے کی بات تھی ،اس تقریر کا ترجمہ زکریا شاذ صاحب نے کیا تھا ،جو کہ
سمبل کے دوسرے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ترجمے کی روانی زبردست ہے ،کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم
ترجمہ پڑھ رہے ہیں ،اس پر اصل کا گمان ہوتا ہے ،بہرحال ہیرالڈ پنٹر کی اس پوری تقریر میں مجھے اس کی دوسری
باتوں کے ساتھ یہ بات بھی بہت پسند آئی کہ ''ایک ادیب کی زندگی انتہائی غیر محفوظ ہوتی ہے
1
Nov
6
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا ،عصمت چغتائی کا یہ خاکہ سعادت حسن منٹو کا تحریر کردہ ہے ،کسی بھی
شخصیت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ہمیشہ اس کے معاصرین کی تحریر مددگار ثابت ہو یہ ضروری نہیں ہے ،مگر
منٹو جیسے سفاک قلم کار نے جب عصمت جیسی سچی افسانہ نگار کے بارے میں کچھ لکھا ہو تو اس کی حقیقت پر
حرف نہیں الیا جاسکتا ،اس خاکے میں منٹو نے بہت سی دلچسپ باتیں لکھی ہیں ،عصمت کے بارے میں بھی اور اپنے
بارے میں بھی ،اس سے ان دونوں شخصیات کی فکر ،طرز زندگی اور تخلیقی ہنر مندی کا پتہ تو چلتا ہی ہے ساتھ ہی
Nov
5
یہ تینوں کہانیاں ،عبدالسمیع کی ترتیب دی ہوئی دیوندر ستیارتھی کی کہانیوں کی کلیات شہر شہرآوارگی سے لی گئی
ہیں ،عبدالسمیع نے اس پوری کلیات کو ادبی دنیا پراپلوڈ کرنے کی اجازت دے دی ہے ،مگر میرے خیال میں جستہ جستہ
ان کہانیوں کو آپ کو پڑھوایا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ،اس طرح کہانیاں میں بھی پڑھ لوں گا ،اور آپ بھی ان سے لطف
اندوز ہوتے رہیں گے ،دیوندر ستیارتھی کی ذات سے کون واقف نہیں ،ان کی ادبی خدمات کا بھی ایک زمانہ معترف
ہے۔ان کی زندگی سیر و سیاحت میں گزری اور اس سیاحت میں انہوں نے ہندوستان ،پاکس
2
Oct
31
پچھلے چند برسوں کے دوران مسلم ا ّمہ نے دہشت گردی کے سلسلے میں بڑا نام کمایا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات
سے پہلے بھی ہمارے مسلم معاشرے عالمی برادری میں اپنی علیحدگی پسندی اور جارحانہ فخر کی وجہ سے ممتاز مقام
پر فائز رہے ہیں۔
دنیا بھر میں اسالم اور دہشت گردی کے درمیان تعلق کی تالش جاری ہے اور بیشتر خوشحال یا ترقی یافتہ معاشروں کا
دعوی ہے کہ جسے دہشت گردی کہا جارہا ہے ،وہ سرگرمی اسالم کے بنیادی کردار کا حصہ ہے۔ دوسری طرف سے ٰ
مسلم معاشروں کے نمائندہ سیاست دان اور دانش ور مسلسل وضاح
Oct
30
کلیسا/ریمینڈ کارور
ریمنڈ کارور کو امریکی چیخوف کہا جاتا ہے ،کیوں کہ چیخوف ہی کی طرح وہ حقیقت نگار ہیں اور ان کی کہانیاں انسان
اور انسانیت کی تفہیم میں کوشاں نظر آتی ہیں۔ چیخوف ہی کی طرح کارور کے بیش تر کرداروں کا تعلق نچلے طبقے
سے ہے ۔ کارور نے شہرت حاصل کرنے سے پہلے مختلف قسم کے کام کیے تھے ،جن میں بہ طور پلمبر ،چوکی دار،
اور آرا مشین پر مزدوری جیسے کام بھی شامل ہیں ،اس لیے ان کی کہانیوں میں نچلے طبقے کے بارے میں ان کا ذاتی
انداز تحریر کو اختصاریت
ِ کا نمونہ کہا گیا ہے۔ اگرچہ) (Minimalismتجربہ جھلکتا ہے۔کارور کے
Oct
29
ہندوستان اور پاکستان کے عالوہ دنیا بھر کے اردو ادیبوں کا ہم نے ایک چھوٹا سا میلہ لگایا ہے۔ دل کی پلیا پر سے
گزرتے ہوئے اس تخلیقی رونق کو دیکھنے کے لیے چند مسافر رک جایا کرتے ہیں ،خوشی اس بات کی ہے کہ ان کی
آنکھیں علم کی مشعلوں سے چمکتی ہیں ،ان کے دلوں میں نئے پن کی ہوک اٹھتی ہے ،ان کے تبصرے تجربوں،
مشاہدوں اور فکر کی کانوں سے تپ کر نکلتے ہیں ،سو اس پیاری سی پلیا پر یہ چھوٹا سا میلہ ،ادبی دنیا ہے۔پچھلے کچھ
روز سے اس رہ گزر پر اندھیرا ہے ،میری آنکھیں اس وقت بھی تھوڑی سوجی ہوئی ہیں ،ہاتھ کی بورڈ پر
1
Oct
25
Oct
23
مومن خاں میرا ہم عصر تھا اور یار بھی تھا ۔ بیالیس تیتالیس برس ہوئے یعنی چودہ چودہ ،پندرہ پندرہ برس کی میری
اور اس مرحوم کی عمر تھی کہ مجھ میں اس میں ربط پیدا ہوا ۔ اس عرصے میں کبھی کسی طرح کا رنج و مالل درمیان
نہیں آیا ۔ حضرت چالیس چالیس برس کا دشمن بھی نہیں پیدا ہوتا ،دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے ۔ یہ شخص بھی اپنی وضع
کا اچھا کہنے واال تھا ۔ طبیعت اس کی معنی آفریں تھی ۔
مرزا غالب
مئی211852
پیش نامہ
مومن خاں مومن اردو کے منفرد شاعر ہیں ۔ غزل کے کڑے سے کڑے انتخاب میں بھی انھیں جگہ مل جائے گی
Oct
20
ذوالفقار عادل کی کتاب ‘اردو غزل کی ایک نئی کتاب’ ہے۔اس شاعری کے قاری بھی نئے ہیں۔اسے پڑھنے اور اس کا
استقبال کرنے کا مناسب وقت یہی ہے کہ یہ شاعری جدیدیت کا بالکل تازہ چہرہ ہے۔ہم تخلیقیت میں جس مشقت ،جس
محنت اور جس انفرادیت کے قائل ہیں ،نئے وسائل اور نئے مسائل سے بھری ہوئی اس شاعری کا اندازاپنے ہم عصروں
کو ان کی حیثیت کا اندازہ کروانے کے لیے کافی ہے۔یہ شاعری نئے پن کی کامیابی ہے ،اور غزل جیسی صنف میں،
جہاں خیال کو سانچے میں ڈھالنے کی آزادی بہت کم ہے ،ایسی تازہ کاری مشکل ہی سے دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ
Oct
19
ادریس بابر کی شاعرانہ اہمیت کا کون منکر ہوسکتا ہے۔ ان کا کالم پڑھنے والوں اور پسند کرنے والوں کی ایک بڑی
تعداد ہے۔ میں خود بھی ان کا بہت بڑا مداح ہوں۔ ان کے شعری مجموعے 'یونہی' کو کئی روز سے تالش کررہا تھا،
کیونکہ میں چاہتا تھا کہ یہ مجھ تک اور ادبی دنیا کے ذریعے بیش تر قارئین تک پہنچ سکے۔ اس شعری مجموعے کی
پشت پر لکھا ہے کہ 'ادریس بابر جدید اردو غزل کے اہم شاعر ہیں ،ان کی تخلیقات نوے کی دہائی سے پاک و ہند کے
معروف ادبی جریدوں کی زینت بنتی رہی ہیں۔۔۔۔زیر نظر کتاب ادریس بابر کی شاعری کے پہلے دس ب
Oct
18
رئیس فروغ 1926میں پیدا ہوئے اور 1982میں ان کا انتقال ہوا۔ان کی شاعری اس قدر منفرد اورمعیاری ہے کہ ادب
کے قارئین اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مگر افسوس کہ رئیس فروغ کو ہمارے مشہور و معروف شاعروں
کے گروپ میں کوئی خاص جگہ نہیں مل سکی۔جبکہ ان کا نیا پن بہت سے معروف شاعروں کو معنوی و لفظی طور پر
ان کے آگے بونا ثابت کرتی ہے۔رئیس فروغ کا یہ مجموعہ طارق رئیس فروغ صاحب کی وجہ سے آپ تک پہنچ سکا
ہے۔ مجھےان کا یہ مجموعہ ادبی دنیا پر اپلوڈ کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے۔ان کی شاعری نے مجھے
بھی
Oct
16
کرشنا سوبتی 18فروری 1925کو پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئیں ،جو کہ اب پاکستان میں ہے۔پچاس کی دہائی
سے آپ نے کہانیاں لکھنی شروع کیں اور آپ کی پہلی کہانی المہ 1950میں شائع ہوئی۔آپ ہندی زبان کے فکشن
نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔ 'ڈار سے بچھڑی ،زندگی نامہ ،اے لڑکی ،مترو مرجانی وغیرہ آپ کی مشہور کہانیاں
ہیں۔ہندوستان میں آپ کو پچاسوں چھوٹے بڑے انعامات کے ساتھ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی مال تھا ،جو کہ آپ نے حال ہی
میں ادیبوں پر ہونے والے حملوں اور دادری میں ایک شخص کے بے رحمانہ قتل پر اپنا احتجاج درج ک
Oct
16
اگر غیاث الدین ابوفتح عمر بن ابراہیم نیشاپوری کا کوئی ہم عصر آج کے دور میں آ جائے تو اسے یہ جان کربڑا تعجب
ہو گا کہ عمر خیام دنیا بھر میں شاعر کی حیثیت مشہور ہے۔ حاالں کہ نہ صرف خیام کے اپنے دور میں بل کہ بعد میں
کئی صدیوں تک اسے ایک نابغۂ روزگار عالم اور سائنس دان کی حیثیت سے شہرت حاصل تھی۔ شبلی نعمانی اپنی کتاب
امام فن
’شعرالعجم‘ میں لکھتے ہیں کہ خیام فلسفہ میں بو علی سینا کا ہم سر اور مذہبی علوم اور فن و ادب اور تاریخ میں ِ
وسطی کے عظیم ترین ریٰ تھا۔ جب کہ سائنسی مورخ جی سارٹن نے خیام کو ازمنۂ
3
Oct
8
)ہاتھی کی گمشدگی/ہاروکی موراکامی (انگریزی سے ترجمہ :سید سعید نقوی
ہاروکی موراکامی 12جنوری 1942کو پیدا ہوئے ،وہ معاصر جاپانی فکشن نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔ ان کی کہانیوں
کے تراجم قریب دنیا کی پچاس زبانوں میں ہوچکے ہیں۔اردو میں ان کی یہ کہانی پیش کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ
الڈبروکس کی ویب سائٹ پر جن ادیبوں کے نام بطور متوقع نوبل پرائز ونر کے دیے گئے تھے ،ان کا ادب ادبی دنیا کے
نوبل اڈیشن 2015کے ذریعے آپ تک پہنچایا جائے۔حاالنکہ اب یہ انعام بیالروس کی صحافی سوئتالنا الیگزائوچ کو مل
چکا ہے،جنہوں نے یوٹیوپیا ،چرنیبول وغیرہ جیسی جگہوں پر جنگ اور ایٹمی پالنٹ کی ت
Oct
6
ابتدا
ایک باقاعدہ جریدے کی ‘‘منتخب نظم و نثر کے کتابی سلسلے کے طور پر سات مجموعے شائع کرنے کے بعد ’’آج
صورت میں اپنے سفر کی ابتدا کر رہا ہے۔ سرما ،بہار ،گرما اور خزاں کے شمارے بالترتیب دسمبر ،مارچ ،جون اور
ستمبر میں شائع ہوا کریں گے۔
آج کی کتابوں کی روایت کے مطابق ہر شمارے میں منتخب اردو تحریروں کے عالوہ مختلف زبانوں اور عالقوں کے
ادب کے ترجمے بھی شامل ہوں گے۔ اس شمارے کے مندرجات کی تفصیل آپ اگلے صفحات پر دیکھ سکتے ہیں۔
انتخاب‘‘ کے عنوان سے ایک گوشہ ہر بار کسی ایک مصنف یا موضوع کے تفصیلی’’
Oct
5
میں پیدا ہوا۔ اس کی زندگی دو )(Hedmarkہانس بورلی ۱۹۱۸ء میں ناروے کے جنوب مشرقی دیہاتی عالقے ہڈمارک
پیشوں میں بٹی رہی۔ سارا دن وہ نا رویجین جنگلوں میں بطور لکڑہارے کے لکڑیاں کاٹتاجب کہ رات کو بطور شاعر
زندہ ہو جاتا۔ہانس بورلی ناروے کے جدید نمائندہ شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے ۱۱۰۰سے زائد نظمیں
لکھینجن میں جنگل کی گہری تنہائی ،مٹی کے مزاج ،کثیر رنگ آسمان،طویل برفانی موسم ،پرندوں کی پھڑپھڑاتی
آوازیں ،دو عالمی جنگوں میں پیدا ہونے والی انسانی بے قدری اور افق در افق پھیلی سورج کی ست رنگی روشن
Oct
4
نیومی شہاب نائے ایک شاعرہ ،گیت نگار اور ناول نگار ہیں۔ ان کے والد فلسطینی اور والدہ امریکی ہیں۔ اگرچہ وہ خود
کو ’’آوارہ گرد‘‘ شاعر کہتی ہیں ،ان کا قیام زیادہ تر امریکہ کی جنوبی ریاست ٹیکساس کے شہر سین انٹونیو میں رہتا
ہے۔نیومی نے چھ سال کی عمر میں ،جیسے ہی انھوں نے لکھنا سیکھا ،شاعری شروع کی۔ مگر چودہ سال کی عمر میں
نقطہ نظر بالکل بدل دیا اور فلسطین سے متعلق موضوعات ان کی
فلسطین کے سفر اور اپنی دادی سے مالقات نے ان کا ٔ
شاعری میں مرکزی حیثیت کے حامل ہو گئے۔ان کی شاعری کے سات مجموعے تاحال شائع ہو
Oct
3
یّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ رات اس کی بے کار زندگی کی گزشتہ تمام راتوں سے بے حد مختلف تھی ،شاید اسی لیے
آج ک ّ
اس کی نینداس کی آنکھوں سے پھسل کررات کے گھپ اندھیرے میں کہیں گم ہو گئی تھی مگر وہ اسے تالش کرنے کی
بے سود کوشش کر رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ آج رات اس کے لیے پلک جھپکنادشوار تھا اور آنکھیں موندکر سونابالکل
ناممکن۔وہ محرابوں والے برآمدے میں چھت کی سیڑھیوں کے قریب چارپائی پر رضائی اوڑھے لیٹا ہوا رات گزارنے
کی تدبیر ڈھونڈ رہا تھا۔وہ اٹھ بیٹھااور اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے تکیے کے نیچے سے ایک بوسیدہ اور مڑے تڑ
Oct
2
تعارف
)(۱
ادب میں امریکی ماورایت /موضوعیت اور فرانسیسی عالمت نگاری کے رجحانات بیسویں صدی کے بہت سے شعراء
کے ہاں موجود ہیں جن میں پابلو نیرودا نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ نیروداکی شہرۂ آفاق کتاب ’’محبت
میں اِن رجحانات کی واضح )‘‘ (Twenty Love Poems and a Song of Despairکی نظمیں اور بے بسی کا گیت
بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان میں جذبے کی شدت اور انفرادی تخیّل ،کالسیکی رومانویت سے مختلف ہے۔نیرودا ،جدیدیت
کی دہلیز پر عالمت نگاری اور آوا
Sep
30
اس مصرع کو دو طرح پڑھا جاسکتاہے۔ایک تو اس معنی میں کہ ’’بس اتنی سی بات تھی جسے بڑھا چڑھا کر افسانہ بنا
ڈاال‘‘ اور ایک انبساط واستعجاب کے لہجے میں کہ ’’صرف اتنی سی بات کو اس طرح کہا کہ افسانہ بن گئی‘‘ پہال رویہ
نئے افسانے کے بہت سے قاریوں کا ہے ،اور دوسرا نئے افسانہ نگار کا۔اگرچہ آج کل نئے پرانے کی بحث شعر کے
میدان میں زیادہ ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نئے افسانے کا ناتیار قاری خود کو اس دنیا میں مبہوت اور چکراتا ہوا
دی
Sep
28
،شہریار،عادل
ؔ اشک
ؔ غوری،بانی،عرفان صدیقی،بمل کرشن
ؔ زیب
فاروق مضطرکا سن پیدائش1954ہے۔آپ اسع ؔد بدایونیؔ ،
مضطر شمس ؔ ہیں۔ عصر ہم کے شعرا گو غزل ہندوستانی ممتاز منصوری،محمد علوی،پرتپال سنگھ بیتاب وغیرہ جیسے
الرحمٰ ن فاروقی کی جدیدیت کی تحریک سے متاثر اور’’ شب خون‘‘ سے وابستہ رہے۔ستر کی دہائی میں ایک طرف
مضطر تواتر سے ’’
ؔ جہاں جدید غزل کے نامور شاعر ظفر اقبال کی غزل غیرمعمولی شہرت حاصل کر رہی تھی وہیں
شب خون‘‘ سمیت برصغیر کے اہم پرچوں میں چھپتے رہے۔انہوں نے اس وقت’’ دھنک‘‘ نام سے جموں کشمیر سے
ایک انتہا
Sep
27
تیرہویں صدی عیسوی کے آغازمیں وسطی ایشیا کی چراگاہوں سے ایک ایسا طوفان اٹھا جس نے معلوم دنیا کی بنیادوں
کو تہ و باال کر کے رکھ دیا۔ چنگیز خان کی سفاک دانش کی رتھ پر سوار منگول موت اور تباہی کا پیغام ثابت ہوئے اور
دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے بعد شہر،عالقے کے بعد عالقہ اور ملک کے بعد ملک سرنگوں ہوتے چلے گئے۔ محض
چند عشروں کے اندر اندر خون کی ہولی کھیلتے ،کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتے،سنگین قلعوں اور عا لی شان محلوں
کی راکھ اڑاتے منگول بیجنگ سے ماسکو تک پھیلی دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی متصل سلطنت کے مالک
1
Sep
26
افضال احمد سیدکا شعری انتخاب حاضر ہے۔اس میں ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں شامل ہیں۔شاعری میں ان کا اسلوب
نہایت الگ ہے۔وہ جدید نظم کے حوالے سے بڑی اہم شناخت رکھتے ہیں۔ہر زبان کا ادب پڑھنے والوں کی طرح ہمیں
بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے دور میں موجود اہم شاعروں کی تخلیقات پر گفتگو کریں ،اور ان کو سمجھنے کی
کوشش کریں۔نظم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے غزل کی طرح تعبیر کے بلیک ہول میں پھینکا نہیں جاسکتا ،ہر
نظم کی تعبیرات محدود ہوتی ہیں،ان تک پہنچنے کے لیے نظم اور اس کے عہدکا مطالعہ ضروری ہے ،کوئی بھی نظم ا
Sep
22
جمال احسانی کی غزلیں
یہ جمال احسانی کی غزلیں ہیں۔قریب چالیس ہونگی ،جمال احسانی کا اسلوب کمال کا ہے ،وہ شاعری میں دھیمے لہجے
کے ساتھ کچھ نئے الفاظ اور کچھ نئے خیاالت کی آمیزش کو بھی ضروری سمجھتے ہیں ،جہاں اشعار روایتی رنگ کے
ہوتے ہیں ،ان میں بھی کسی قسم کی ندرت پیدا کرنے کا ہنر انہیں خوب پتہ ہے۔جمال احسانی کی مزید غزلیں جلد ہی میں
ادبی دنیا پر شیئر کروں گا ،ساتھ ہی ساتھ ثروت حسین ،صغیر مالل ،رئیس فروغ ،عماد قاصر اور ایسے بہت سے اچھے
شاعروں کا کالم آپ کے مطالعے کے لیے پیش کروں گا۔اس کے عالوہ آپ جن اچھے شاعروں کی غزلیں
Sep
17
خلیل جبران کے دو مضامین پڑھنے کے لیے موجود ہیں ،پڑھنے سے زیادہ سوچنے کے لیے ،توقعات پر کھرا نہ اترنا،
ہمارے یہاں ایک ایسی اندھی مایوسی کا شکار لوگوں کو بنادیتا ہے کہ وہ گلے کی رگیں پھاڑ پھاڑ کر مخالفت کے نعرے
لگانے لگتے ہیں۔شاعری ،سیاست ،قانون ،الغرض کوئی بھی شعبہ ہو ،اس میں نئے پن ،نئے معنی اور نئی گنجائشیں پیدا
کرنے کی کسی بھی کوشش کو کفر کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔تہذیبوں کی کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہم لوگ ،چپ چاپ نہ
ڈوبنے کی سزا دن رات کاٹ رہے ہیں۔ایسے میں کوئی عام آدمی ہٹ کر سوچتا ہے تو خاموش کرادی
1
Sep
16
یہ اشعر نجمی کا ایک غیر مطبوعہ ناول ہے ،میرے خیال میں اب تک اس کا کوئی بھی باب کہیں شائع نہیں ہوا ہے۔اشعر
نجمی کے نام اور کام سے تقریبا سبھی لوگ واقف ہیں ،لیکن اس بات کی خبر شاید ہی کچھ لوگوں کو ہو کہ انہوں نے
ایک ناول بھی لکھ رکھا ہے۔یہ ناول انہوں نے مجھے میل کے ذریعے پڑھنے کے لیے چھبیس فروری دو ہزار چودہ کو
بھیجا تھا۔میں نے ناول پڑھا تھا اور اس پر ہماری فون پر گفتگو بھی ہوئی تھی۔ناول دلچسپ ہے ،کشیپ صاحب کا
کردارزبردست ہے ،ابواب کے نام بھی اچھی طرح تراشے گئے ہیں۔میں ابھی اس ناول پر زیادہ بات نہ
Sep
14
ماوری کے نام
خلقت جب مکر وریا کے جبر میں دَر بند ہوئی تو صوفیوں نے معرفت کا دروازہ کھوال۔ اہل دربار کا لہجہ ترک کیا ،اور
اس خطے میں بہنے والے دریاؤں کی مٹی میں گوندھے ہوئے کوذۂ سخن کے لب کلمۂ ہ ُو سے وا کیے۔
یہ کلمۂ ہ ُو دربار سے باہر بسنے والی مخلوق کے دلوں میں صدیوں سے دھڑک رہا ہے۔
سروں کا رس ُگھلتا ہے۔
اس دھمال میں ہمارے جال وطن استعاروں دیو ماالؤں اور ُ
نیلی کے سو رنگ‘‘ اس حال میں اتر کر ایک بچھڑے ہوئے سخن سے ہم آغوش ہونے کی خواہش ہے۔’’
حاجی لوگ م
Sep
12
زمرد مغل حال ہی میں دہلی اردو اکیڈمی کے ممبر بنے ہیں ،حاالنکہ اس سے پہلے بھی لوگ اس اکیڈمی کے ممبر بنتے
رہے ہیں ،مگر ان سے ظاہر ہے کہ میرا تعلق بھی خاص نہیں تھا اور توقعات بھی۔زمرد کے ساتھ یہ دونوں چیزیں
وابستہ ہیں ،اس لیے ان سے میں نے دہلی اردو اکیڈمی میں ان کی پوزیشن ،ان کے ارادوں ،اکیڈمی کے رویوں اور اس
کے منصوبوں کے تعلق سے کچھ باتیں کرنی چاہی ہیں۔ مجھے علم ہے کہ کسی بھی معاملے میں سرکاری اداروں سے
توقع کرنا یا ان کا محاسبہ کرنے کی کوشش کرنا وقت کا زیاں ہے ،مگر زمرد مغل چونکہ اس عہدے پر فائز
Sep
11
نو سال ہو گئے ،اُتّری دہلی کے روہنی عالقے میں تیرہ سال تک رہنے کے بعد اپنا گھر چھوڑ کر ویشالی کی اس جج
کالونی میں آئے ہوے۔ یہ ویشالی کا ‘پاش’ عالقہ مانا جاتا ہے۔ اترپردیش کی سرکار نے منصفوں کے لیے یہاں پالٹ
مخصوص کیے تھے۔ ایسے ہی ایک پالٹ پر بنے ایک گھر میں میں رہتا ہوں۔
جس سڑک پر یہ اپارٹمنٹ بنا ہے ،اس کا نام ہے ’نیائے مارگ‘ ،حاالنکہ اس سڑک میں جگہ جگہ گڈھے ہیں ،ہر تین قدم
ہو گئی ہے ،کیونکہ بلڈروں نے سڑک کے اوپر ہی ریت‘ ،پر یہ سڑک اکھڑی پکھڑی ہے اور کئی جگہ سے ’ون وے
اینٹیں ،روڑی گٹی ،سیریا پ
1
Sep
8
Sep
8
ابھیشیک شکال کی غزلوں سے میرا تعارف آج سے قریب پانچ ،چھ سال پہلے ہوا ہوگا ،ان کی شاعری پڑھتے ہوئے نئے
پن کی ایک لہر نے مجھے اپنے اثر میں لے لیا ،میں بہت خوش او ر حیران تھا ،خوش اس بات پر کہ ابھیشیک شکال کی
غزلیں بہت متاثر کن تھیں ،اور حیران اس بات پر کہ وہ بھی نئی نسل سے ہی تعلق رکھتے تھے ،بہرحال ،بعد میں ان
سے مالقاتیں بھی رہیں ،فون پر گفتگو بھی ہوتی رہی اور یہ رشتہ دوستی کی خوبصورت سرحد میں داخل ہوگیا،
ابھیشیک سے نظریاتی طور پر میرے کچھ اختالفات ہیں ،جیسے کہ اپنے دوسرے دوستوں سے ہیں ،اور ان ک
4
Sep
5
سمندر کی چوری
ابھی وقت تھا۔ پانی اور آسمان کے بیچ میں روشنی کی وہ پہلی ،کچی پکی ،تھرتھراتی ہوئی کرن پھوٹنے بھی نہ پائی تھی
کہ شہر والوں نے دیکھا سمندر چوری ہوچکا ہے۔ دن نکال تھا نہ سمندر کے کنارے شہر نے جاگنا شروع کیا تھا۔ رات کا
اندھیرا پوری طرح سمٹا بھی نہیں تھا کہ اندازہ ہونے لگا ،ایسا ہوچکا ہے۔ ملگجے سایوں میں لپٹی دواور تین منزلہ
فلیٹوں کی قطار اور اس کی حد بندی کرنے والی دو رویہ سڑک کے پار جہاں دوسری طرف سمندر ہوا کرتا تھا ،دور
تک پھیال ہوا نیال سفید سمندر ،وہاں سب خالی پڑا تھا۔ سمندر کی
1
Sep
4
یہ تین موضوعات ہیں ،بالکل الگ الگ اور ان پر بحثیں پر بھی الگ ہی ہونی چاہییں ،مگر سو چ رہا ہوں کہ آج ان تینوں
کے تعلق سے جو کچھ دل میں ہے ،اسی ایک مضمون میں لکھ ڈالوں۔
آپ نے بازار میں کھڑے ہوکر کبھی کسی کا انتظار کیا ہے ،کسی ایسے شخص کا جس کی آپ نے صرف موبائل پر آواز
سنی ہو ،اسے دیکھا نہ ہو اور یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ ابھی وہ شخص تھوڑی دور پر ہے ،آپ بار بار ہر نئے آنے
والے شخص کو اس امید کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ شاید یہ وہی آدمی ہو ،جس کے آپ منتظر ہیں۔ہم لوگ امن کا انتظار
اسی طرح کررہے ہیں ،ہم ج
2
Sep
2
دیباچہ
خدا وند کریم کا شکر اپنی گویائی کی بساط بھر تو ادا ہوہی نہیں سکتا ،اُس کی بندہ نوازیوں اور ہزاروں الکھوں نعمتوں
کی مکافات کا حوصلہ چھوٹا منھ بڑی بات۔
پیغمبر صاحب کی مدح اپنی ارادت ناقص کی قدر تو بن ہی نہیں پڑتی ،ان کی شفقتوں اور دل سوزیوں کی تالفی کا دعوا
اتنی سی جان گز بھر کی زبان۔ حمد و نعت کے بعد واضح ہوکہ ہرچند اس ملک میں مستورات کو پڑھانے لکھانے کا
رواج نہیں مگر پھر بھی بڑے شہروں میں بعض شریف خاندانوں کی اکثر عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ ،مذہبی مسائل اور
نصائح
Sep
1
پیارے استاد/ژولیاں
پیارے استاد ،جب تین سال کی طویل مدت کے بعد مجھے ہاسٹل میں آپ کا پہال خط موصول ہوا تو لفافہ کھولتے وقت
ایک عجیبوسوسے نے مجھے جکڑ لیا۔ گویا اس لفافے کے اندر ایک خبطی جن بند تھا جو میری زندگی حرام کر سکتا
تھا۔ لفافہ کھل گیا اورآپ کی سلیس نثر میرے مالحظے کے لیے حاضر ہوئی' :پیارے دوست سالم! امید ہے کہ آپ
خیریت سے ہوں گے۔ کیا آپ کا تھیسزختم ہو گیا؟ میرا تحقیقی کام مکمل ہوا ہے جس کی بنیاد پر میں نے ایک کتاب لکھ
ڈالی۔ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ کتاب میریزندگی میں منظر عام پر نہیں آئے گی۔ کیونکہ میں کئ
Aug
31
پیش لفظ
شہرۂ آفاق چیک ناول نگار میالن کنڈیرا کو سب سے پہلے میں نے اُس زمانے میں دلچسپی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا
جب میں بریلی کالج میں شعبۂ فلسفہ سے منسلک تھا۔ یہ 1995کے آس پاس کی بات تھی جب میں نے یہ محسوس کیا کہ
ہم عصر فلسفے کے طالب علموں کو ایسے ادبی شہ پارے ضرور پڑھنا چاہئیں جن میں فلسفے کے مجرد خیاالت کے
بجائے ،اُن خیاالت کے مختلف النوع تاثرات کا بیان ہو۔ سارتر وغیرہ سے یہ مقصد ا ّچھی طرح پورا نہ ہوتا تھا کیونکہ اُن
کے ناولوں اور فلسفے کی کتابوں کے درمیان بہت کم فرق ہوتا تھا مثال سارتر ک
Aug
30
پری
مہر کا فیصلہ سنتے ہی کمرے میں یکلخت سنا ٹا چھا گیا ،سب لوگ ہکا بکا ،ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ،گو ہر نے
آنکھیں پھاڑ کر مہر کی طرف دیکھا اور سوچا کہ اسکا دماغی توازن بالکل بگڑ گیا ہے ،اس نے کچھ بولنے کی کوشش
کی مگر ناکام رہی ،چند لمحوں میں خاموشی اتنی گہری ہو گئی مانو اب پھٹ پڑیگی ،پھر اچانک پھو پھی جان نے اپنے
..سینے پر زورسے ہتھڑ مارے اور بلبال کر رونے لگیں
Aug
29
حرف چند
اردو میں جدیدیت کے آغاز کیساتھ ہی ہمارے نقادوں کو ماضی میں ایک ایسے بزرگ کی تالش ہوئی جو دقیانوسی ہو
حالی کی صورت میںؔ اور نوجوانوں کی آزادی پر پابندیاں عائد کرتا ہو۔ یہ بزرگ انہیں پانی پت کے خواجہ الطاف حسین
مل گئے۔ جنہوں نے اپنے بے مثال پہلی اردو کی تنقیدی کتاب "مقدمہ شعرو شاعری" میں کچھ باتیں غزل اور غزل کی
عشقیہ شاعری کے خالف لکھی تھیں۔ انہیں نشانہ بناکر جدید نقادوں نے ان پر جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر میرا دل بہت
دکھی ہوا کیونکہ اردو ادب کے طالب علم کی حیثیت سے عناصر خمسہ کا مطالعہ میں
Aug
28
اردو کی اہم کتابیں انٹرنیٹ پر ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کتابوں کو ڈھونڈ کر ایک جگہ جمع کرنے کی ضرورت
ہے ،اس سے پہلے بھی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ویب سائٹ پر موجود کتابوں کی پی ڈی ایف فائلز
کے لنکس فراہم کراچکا ہوں۔ اس ویب سائٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ کتابوں کو ڈھونڈنے ،ان کو سرچ کرنے اور ان کی
کیٹالگنگ کا کوئی اچھاطریقہ اب تک اپنایا نہیں گیا ہے۔ اس بار جو کتابیں فراہم کی جارہی ہیں ،ان میں کلیات مصحفی،
کلیات آغا حشر کاشمیری ،ابن نشاطی کی پھول بن ،ذکر میر اور گوپی چند نارنگ کی دو اہم
10
Aug
26
آج :پہلی کتاب 1981
میں باقاعدہ سہ ماہی کے طور پر شروع ہونے سے پہلے آج کے دو شمارے ’’آج :پہلی کتاب‘‘ اور ’’آج :دوسری ۱۹۸۹
کتاب‘‘ کے عنوان سے بالترتیب ۱۹۸۱اور ۱۹۸۷میں شائع ہوے تھے۔ آج کے متن کو یونی کوڈ فارمیٹ میں آن الئن
کرنے کا عمل انھی دو کتابوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد شمارہ ۱سے لے کر اب تک کے تمام شمارے ترتیب وار
پیش کیے جائیں گے۔ آج :پہلی کتاب اب سے ٹھیک چونتیس برس پہلے ،اگست ۱۹۸۱میں ،حیدرآباد سندھ سے شائع ہوئی
تھی۔ اسے اردو میں اس وقت مروج کتابت اور آفسٹ طباعت کے طریقے کے برعکس ،لیٹرپریس کے طری
Aug
25
میں پیدا ہوئے اور 1985میں ان کا انتقال ہوا ،ستاون سال کی عمر میں انہیں کافی دیر بعد یہ احساس 1928زیب غوری
ہوا کہ غزل میں وہ ایک ایسی نئی طرز بھی ایجاد کرسکتے ہیں ،جو ان کے ہم عصر یا پیش رو غزل کہنے والوں نے
نہیں کی ،چنانچہ انہوں نے شاعری کی اور اس کم عرصے میں بھی بہت کامیاب رہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زیب
غوری کااسلوب جدیدیت کا ایک منفرد اور نمایاں اسلوب ہے ،یہ شاعری ہمیں ہر بار تازہ کرجاتی ہے اور گزرتے ہوئے
وقت کے ساتھ اور خوبصورت اور بپھری ہوئی معلوم ہوتی ہے،مجھے ادبی دنیا پر یہ غزلیں شےئر کرتے
Aug
24
ٰ
الرحمن فاروقی چوں خمیر آمد بدست نانبا/شمس
اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ انسانی رشتوں کے تعلق سے میر ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ انسانی رشتوں کا یہ
اظہار ان کی جنسیت میں بھی ہوا ہے۔ اور ان کی حس مزاح میں بھی ۔ حس مزاح کا عنصر غالب اور میر دونوں میں
مشترک ہے۔ لیکن غالب اپنے مزاح کا ہدف زیادہ تر خود اپنے کو ہی بناتے ہیں ،جب کہ میر کی حس مزاح معشوق کو
بھی نہیں بخشتی۔ میر کو جب موقع ملتا ہے وہ معشوق سے پھکڑپن بھی کر گذرتے ہیں۔ وہ زور زور سے قہقہہ لگانے
سے گریز نہیں کرتے ،جب کہ غالب کے یہاں عام طور پر تبسم زیر لب کی کیفیت ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ غالب
Aug
22
میر کی زبان کے اس مختصر تجزیے اور غالب کے ساتھ مواز نے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ میر اور غالب میں
اشتراک لسان ہے اور نہیں بھی۔استعمال زبان سے ہٹ کر دیکھئے تو بھی اشتراک کے بعض پہلو نظر آتے ہیں۔ اوپر میں
نے عرض کیا ہے کہ میر کے بعد غالب ہمارے سب سے بڑے انفردیت پرست ہیں ،اور ان دونوں کی انفردیت پرستی ان
کے کالم سے نمایاں ہونے والے عاشق کے کردار میں صاف نظر آتی ہے۔ محمد حسن عسکری نے لکھا ہے کہ فراق
صاحب کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو غزل کو ایک نیا عاشق اور نیا معشوق دیا۔ عسکری صاحب
Aug
20
شمیل حسین کی پینٹنگز
شمیل حسین کا تعلق راولپنڈی پاکستان سے ہے ،وہ شعر نہیں کہتے ،کہانی نہیں لکھتے ،یا کہتے لکھتے ہونگے تو
مجھے اس کا علم نہیں ،علم ہے تو ان کی رنگیں بیانی کا ،ان کے لفظ ،ان کے نقوش ہیں۔ یہ سوال انہوں نے ایک دفعہ
مجھ سے ہی پوچھا تھا کہ لفظ پہلے تھا یا نقش ،شمیل صاحب! ہم لفظ و نقش کو جنگ کا بہانہ نہیں بناتے ،بلکہ تاریخ کی
دیوار پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے نقش کو آواز دے کر لفظ بنادیا اور کسی نے لفظ کے اندر
زندگی کا نقش پیدا کردیا ،بلکہ ہر لفظ ایک نقش ہے ،اور ہر نقش ایک لفظ۔ بہرحال شمیل
Aug
17
احمد مشتاق کی غزلیں جب بھی پڑھتا ہوں ،کسی مقام پر جی ہی نہیں چاہتا کہ ٹھہر جاؤں،یہ میرا باربار کا تجربہ ہے،
جسے ہر دفعہ پھر اک بار کرنے کا جی چاہتا ہے۔ایسی شاعری اردو میں کرنے والے شاید ہی کچھ لوگ ہونگے ،جن کو
خیال کے ساتھ اتنی سادہ اور خوبصورت زبان بھی ملی ہو ،یہ وہ انتہائے فن ہے ،جسے چھونا ہر شاعر کے بس کی بات
نہیں۔کہا جاتا ہے کہ شاعری کا فیصلہ آنے واال وقت کرتا ہے ،احمد مشتاق کا وہ آنے واال وقت ہم ہیں ،اور ہم ان غزلوں
کے عاشق ہیں ،سو یہ غزلیں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گی ہماری زندگی تک اور شاید
2
Aug
16
گلستاں کی کہانیاں
کسی بادشاہ نے ایک قیدی کے قتل کا حکم دیا۔ قیدی بیچارہ جب زندگی سے ناامید ہو گیا تو اس نے بادشاہ کو بُرا بھال کہا
:اور گالیاں دیں۔ کسی نے سچ کہا ہے
جو اپنی جان سے ہاتھ دھولیتا ہے وہ جو جی میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے۔ مجبوری کے وقت جب بھاگنے کا موقع نہیں ملتا
ہے تو انسان اپنی جان بچانے کے لیے تیز تلوار کی دھار کو ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے اسی طرح جب آدمی اپنی زندگی سے
!ناامید ہو جاتا ہے تو اس کی زبان کھل جاتی ہے جس طرح مجبور بلّی تنگ آکر کتّے پر حملہ کر دیتی ہے
Aug
15
Aug
12
تنویر انجم اردو نظم کا ایسا نام ہیں ،جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ادبی دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اچھے لکھنے
والوں کا تعاون حاصل ہے ،اس کے ذریعے ہم ان اہم لوگوں کی تخلیقات آپ تک پہنچانے میں کامیاب ہورہے ہیں ،جن کو
عام طور پر نیٹ پر ڈھونڈ کر پڑھنا ممکن نہیں ہوتا جو اردو کے عصری معیاری ادب کی شناخت کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنویر انجم کی یہ نظمیں ویب سائٹ پر پیش کرتے ہوئے مجھے بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے ،اس کے ساتھ میں کسی
بھی قسم کے تعارفی یا تنقیدی جملے نہیں لکھنا چاہتا ،بس ان نظموں کی اہمیت آپ پر خود اپن
Aug
11
)(1
یہ ان دنوں کی بات ہے ،جب میں نے دہلی میں دوردرشن اردو کے کچھ معمولی سے کام کرکے یہ سمجھنا شروع کردیا
تھا کہ اب تو ہم بھی میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں ،ہماری بھی عزت چوک چوراہوں پر ہے ،آٹو رکشہ والے کو آنکھیں
دکھائی جاسکتی ہیں ،معمول کی ناانصافیوں کو غصے کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ان پر اپنے جرنسلٹ ہونے کی
دھونس جمائی جاسکتی ہے اور بہت سے ایسے کام کیے جاسکتے ہیں جو کم از کم خودتشفی کے زمرے میں آتے
ہوں۔شاید اب اس بات کو بھی سات آٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزرگیا اور میں نے درمیان میں بہت کچھ دیکھا ،می
Aug
9
۱
مجھے تھوڑی اور وائن دینا ‘‘،کالرا نے کہا ،اور میں بھی اس خیال سے غیرمتفق نہ تھا۔ ہم دونوں کے لیے ’’
سلیوو ِوتس وائن کی نئی بوتل کھولنا یوں بھی کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی ،اور اِس بار تو اس کا معقول جواز بھی
موجود تھا۔اس روز مجھے اپنے ایک تحقیقی مقالے کے آخری حصے کی اشاعت پر معاوضے کی خاصی بڑی رقم
موصول ہوئی تھی جسے بصری فنون کا ایک پیشہ ورانہ رسالہ قسط وار شائع کر رہا تھا۔
اس مقالے کو شائع کرانا آسان کام ثابت نہیں ہوا تھا — میں نے جو کچھ لکھا تھا وہ خاصا مناظراتی اور متنازعہ تھا۔
میرے پچھلے مقا
Aug
8
اعتراف اور اختالف دونوں ہی ادب کے اہم ستون ہیں۔زبان ادب کی جغرافیائی ساخت اور زمینی مزاج کو ظاہر کرنے کا
اختالف رائے جیسی
ِ ایک اہم ذریعہ ہے ،عام طور پر لغت ،امال ،اعراب وغیرہ کو ادب کے حاشیے پر رکھا جاتا ہے اور
اہم جرأت کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے مگرہم جانتے ہیں کہ ادب میں یہ دونوں مباحث بیکار نہیں ہیں۔ہمیں یہ
نہیں بھولنا چاہیے کہ اردو کے ایسے مشاہیر جن کی تنقید ہمارے سروں پر چڑھ کر بولتی ہے،انہوں نے بھی زبان اور
لغت کے معاملے میں کتنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔موالنا الطاف حسین حالی ،شبلی نعمان
Aug
7
اسعد بدایونی 1952میں پیدا ہوئے ،اور 2003میں ان کا انتقال ہوا۔ایک خاص دور میں اردو کے لیے بہ طور خاص
علمی وادبی مرکز سمجھے جانے والے علی گڑھ سے ان کا گہرا تعلق رہا۔اسعد بدایونی کی غزلیں پیش خدمت ہیں۔ان
غزلوں میں سے کچھ مجھے بمجبوری جگہ کی تنگی کی وجہ سے ہٹانی پڑی ہیں ،اس لیے میں نے طے کیا ہے کہ اسعد
بدایونی کے اس انتخاب کو حصہ اول سے تعبیر کیا جائے ،ان کا ایک اور انتخاب جلد ہی ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جائے گا،
جس میں ان کی وہ غزلیں شامل کی جائیں گی جو اس انتخاب میں شامل نہیں کی جاسکی ہیں۔اسعد بدا
Aug
6
۔۔۔ ترجمہ بھی تعبیر کا ایک طریقہ اور تعبیری کارگذاری ہے اور یہ صرف غیر زبان سے اپنی زبان یا کسی ’’ )(1
زبان سے کسی اور زبان میں ترجمہ کرنے پر محدود نہیں۔ ہم خود اپنی زبان سے ہر وقت ترجمہ کرتے رہتے ہیں تاکہ
متن کو سمجھ سکیں۔‘‘1
واقعہ یہ ہے کہ قرآن کے ترجمے و تبیر میں مسلمانوں نے جس قدر علم ،ذہن ،تفکر ،تف ّحص ،احتیاط ،خشیت ہللا ’’ )(2
اور راسخ االیمان عقائد سے کام لیا ہے اس کی مثا ل دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن قرآن کی تفسیریں کثرت سے
موجود ہیں اور کثرت سے لکھ
Aug
4
معاصر غزل -مسئلہ کیا ہے؟ /ڈاکٹر صالح الدین درویش
غزل کی شاعری کو یار لوگوں نے لڑکوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ قافیہ پیمائی ضرور ارزاں ہے لیکن غزل کا شعر
کیا محض موزوں الفاظ کی نشست سے بن جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ غزل کا شعر بھلے اپنی بنت
میں کسی علمی یا فکری گرہ کو نہ کھولتا ہو لیکن اس کے لیے یہ ضرور الزم ہے کہ اس میں جذبہ اور خیال کے عین
درمیان ایک کڑی جسے دانش کہتے ہیں ،وہ کڑی بھی موجود ہوتی ہے ،یہ کڑی جذبہ اور خیال کی ہم آہنگی ،افتراق یا
تضاد کی مختلف صورتوں میں معنویت کی ایک ایسی جمالیاتی سطح پیدا کر دیتی ہے کہ جسے ہم جہ
2
Jul
31
محمد یامین نظم کے بہت عمدہ شاعر ہیں۔ان کی نظموں میں بڑی گہرائی مجھے محسوس ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ ان کی یہ تازہ نظمیں بھی اس صفت سے خالی نہیں ہیں۔وہ کم کہتے ہیں اور شاعروں کی ہو ہلڑ سے بھی دور ہی
رہنا پسند کرتے ہیں ،خود شناس ہیں لیکن بہت زیادہ خود پسند نہیں ،اس لیے میں نے انہیں باقاعدہ کبھی خود کو
پروجیکٹ کرتے نہیں دیکھا۔ان کی نظموں کے تعلق سے میں کبھی تفصیل سے لکھوں گا ،اور یہ ان کے لیےنہیں میرے
اپنے علمی اور ادبی تشخص کو مضبوط کرنے کی جانب ایک پیش رفت ہوگی۔ان نظموں میں سادگی ،تاریخ اور
Jul
30
دنیا تبدیل ہوتی جارہی ہے ،ایک طرف مغرب میں خال میں زندگی تالش کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جارہے
ہیں ،تو دوسری طرف مشرقی ممالک میں زندگی جیسی حسین اور خوبصورت نعمت کو عقل کے ذریعے مزید
خوبصورت بنانے کے بجائے لوگ مذہبی جذبات کے ذریعے روز بروز بدصورت ،کریہہ اور خطرناک بناتے جارہے
ہیں۔آپ نے انٹرنیٹ پر ایسی ہزاروں پوسٹ دیکھی ہونگی ،جن پر کبھی ہللا رسول کا حوالہ دے کر الکھوں الئکس مانگی
جاتی ہیں ،وہ الکھوں الئکس دراصل ملک میں موجود جنونی اور شدت پسند قسم کے مذہبی لوگوں کی نمائندگی کرتی
ہیں ،کسی چیز
1
Jul
28
ٰ
الرحمن فاروقی افسانے کی حمایت میں۔/4شمس
نومبر کا مہینہ ،شام کا وقت،اور غضب کی دھند۔ یا دھند نہیں کہرا کہیئے۔ بہار میں کہاسا کہتے ہیں ،مجھے خیال آیا۔
چلئے کہاسا ہی سہی ،لیکن نومبر کی شام میں اتنا کہرا /کہاسا کسی نے دیکھا نہ ایسی دھند دیکھی۔ نہیں ،دھند تو ہوسکتی
ہے۔ ہلکی گالبی سردی ،زمین سے لپٹ کر دھیرے بہتی ہوئی کچھ ٹھنڈی ہوا،چولھوں سے اٹھتا اور فضا میں الجھتا ہوا
دھواں ،تیز یا سست آتی جاتی گاڑیوں کی اڑائی ہوئی گرد ،اور کہیں کہیں ،کبھی کبھی ،واپس لوٹتے ہوئے ریوڑوں کے
قدموں کی دھول ،یہ سب مل کر دھند پیدا کر ہی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو
1
Jul
26
خال میں جنم نہیں لیتا۔ لکھاری E.L.Doctorowمعروف امریکی ناول نگار نے ایک گفتگو میں کہا تھا کہ لکھاری کسی ٗ
تو گواہ ہوتا ہے۔ہمیں لکھاری چاہیئں کیونکہ ہمیں گواہ چاہیئں جو اس صدی کو قلمبند کرسکیں۔
کو بیسیوں صدی کا اہم ترین ناول نگار سمجھا جاتا ہے ،ویسے ہی عبدہللا حسین بھی اردو زبان اور Doctorowجیسے
پاک و ہند کے اہم ترین ناول نگار گردانے جاتے ہیں۔ وہ بھی ایسے ہی لکھاری تھے جو ٗ
خال میں نہیں پیداہوئے بلکہ پہلی
جنگ عظیم ،دوسری جنگ عظیم اور تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہولناکیوں کے گواہ ٹھہرے۔ گو ک
1
Jul
26
راغب اختر شاعر بھی ہیں ،ادیب بھی۔ وہ ادب کے لیے بازگشت ڈوٹ کوم کے ذریعے سب سے پہلے ایک آڈیو ویب
میگزین کے پروجیکٹ پر باقاعدہ کام کرنے والے شخص ہیں ،کم از کم میرے علم کے مطابق۔شہرت سے دور رہنا پسند
کرتے ہیں،اور بس خاموشی سے اپنا کام کیے جارہے ہیں ،نظریاتی طور پر راغب اختر سے میرے ہزار اختالفات
ہوسکتے ہیں مگر ادبی و علمی کاموں کے لحاظ سے ان کی خدمات کی بڑی قدر کرتا ہوں اور اس بات پر افسوس کا
اظہار کرتا ہوں کہ اردو کے سرکاری و غیر سرکاری ادارے ایسے کارآمد شخص سے کوئی کام لینے کے اہل نہیں رہ
گئے ہیں
Jul
25
نظریات کبھی مرتے نہیں۔بس وقت ان پر سوالوں کی ضربیں لگاتا رہتا ہے۔شاعری صرف لفظوں کے جوڑ توڑ کا نام
نہیں بلکہ اس کے ذریعے شاعر اپنی فکر اور فلسفے کو لوگوں کے سامنے النے کی کوشش کرتا ہے ۔کہیں یہ فکر
جمالیاتی ہوتی ہے ،کہیں حقیقت پسند۔راشد ان دونوں کیفیات سے بروقت واقف بھی تھے اور ان دونوں کی اہمیت تسلیم
بھی کرتے تھے۔وہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان قائم اس پل پر کھڑے تھے جہاں سے اردو شاعری کا کوہکن
خیال کا ایک نیا راستہ ،ایک نئی پگڈنڈی پیدا کرنے کی فکر میں تھا۔ ایک ایسی پگڈنڈی جو ترقی پسندی اور
Jul
22
سہ روزہ ہذیان/فیضی
غزل کے تجربات اور ان کی جدیدیت حالی کے زمانے سے زیر بحث ہے۔ عالمہ حالی نے بھی قدیم و جدید کی قید
لگانے کے معاملے میں سب سے پہلے مضامین و اسالیب کے تجربے کرنے چاہے تھے ،مگر ان کا پراخالق عمل
اوندھے منہ زمین پر آگرا اور بقول رشید حسن خاں ان کی جدید غزلوں میں بھی وہی شعر زیادہ اچھے ثابت ہوئے جن
میں غزل والی تھوڑی بہت قدامت تھی ،یعنی
تب سے لے کر اب تک جدید لب و لہجے کی غزل ایک سوال بن کر فنکاروں کے سامنے کھڑی ہے ،جدید کیا ہے ،ظاہر
ہے کہ اس مع
Jul
20
کسی قوم کی حالت کا صحیح اندازہ اس قوم کی عورتوں کی حالت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ جس قوم کی عورتیں تعلیم
یافتہ ،باشعور اور مہذب ہوتی ہیں وہی قوم صحیح معنوں میں ترقی یافتہ کہالنے کی مستحق ہے۔ پس ماندہ قوم عورتوں
کو نفسیاتی طور پر کمزور سمجھ کربے جا نگرانی میں رکھتی ہے۔ انہیں پابند بناتی ہے ،خود مختار نہیں ہونے دیتی۔ان
اعلی
ٰ پر شک کرتی ہے ،اعتبار نہیں کرتی۔ فتووں کی زبان میں بات کرتی ہے ،دوستانہ مشورے نہیں دیتی۔ معیاری اور
تقوی اور احسان کا ا
ٰ تعلیم سے محروم رکھ کر ان کی تربیت کی کوشش کرتی ہے۔ ان سے
Jul
19
سوانگ/میالن کنڈیرا
1
کار کے پٹرول گیج کی سوئی نے اچانک ٹینک کے خالی ہونے کا اشارہ دیا اور اسپورٹس کار کے نوجوان ڈرائیور نے
اعالن کیا کہ یہ کار پاگل کر دینے کی حد تک زیادہ پٹرول کھاتی ہے۔ ’’دیکھنا کہیں پٹرول ختم نہ ہو جائے ‘‘،لڑکی نے،
جو تقریبا بائیس برس کی تھی ،احتجاج کیا اور نوجوان کو ان بہت سے موقعوں کی یاد دالئی جب ان کے ساتھ ایسا ہو
چکا تھا۔ نوجوان نے جواب دیا کہ اسے کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ جب وہ دونوں ساتھ ہوں تو ہر چیز ایک ایڈونچر کی
سی کشش رکھتی ہے۔ لڑکی نے اعتراض کیا کہ جب کبھی ہائی وے پر یہ واقعہ ہوا ہے
Jul
19
Jul
17
جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں ،رمضان کی برکتیں ،رحمتیں اور ثواب ایک مہینے سے خوب برس رہے ہیں۔ مسلم بستیوں
کے تمام گھر ،گلیاں ،بازار ،مارکیٹیں اور مسجدیں رحمتوں اور برکتوں سے لوٹ پوٹ ہوچکیں۔ اماموں ،مولویوں اور
علمائے دین کی گردنیں اور پیٹ پہلے سے زیادہ موٹے ہوچکےہونگے۔ تالوتیں ،نمازیں ،عبادات ،کے ریکارڈ توڑ دیئے
گھنٹے تک بھوک پیاس سخت گرمی میں 15 ،16ہونگے۔مسافروں ،مریضوں ،بوڑھوں ،اور بچوں نے بھی شوق سے
سہی ہوگی۔ فرشتے رحمتیں اور برکتیں آسمانوں سے انڈیل انڈیل کر تھک چکے ہونگے۔۔ایک مہینے کی اس سخت آ
Jul
17
دانش ور کون؟
تعمیر،تعمیر نو یا سماج میں کسی بھی قسم کی تبدیلی النے میں دانش ور کا کیا کردار ہے؟اس سوال کا جواب
ِ سماج کی
تالش کرنے سے پہلے ،دو سواالت پر توجہ ضروری ہے۔ پہال سوال یہ ہے کہ کب سے یہ سمجھا جانے لگا کہ سماج کی
اصالح و تعمیر میں دانش ور کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے؟کیا انسانی معاشرے کی ابتدائی تشکیل کے دنوں ہی میں یہ
خیال کیا جانے لگا تھا کہ سماجی تشکیل کے عمل میں اس خاص گروہ کا حصہ تھا ،جو ذہنی کام کرتا ہے ،یا تاریخ کے
کسی خاص عہد میں دانش ور کی اہمیت کا ادراک ہوا؟ ابتدائی معاشروں میں ط
Jul
15
منچندا بانی جدید عہد کے ایک بہت ہی اہم اور منفرد شاعر ہیں۔ان کی شاعری کا اسلوب اپنے عہد ،پیش رو اور بعد کے
تمام غزل کہنے والے افراد سے حد درجہ مختلف ہے۔بانی کی شاعری پڑھتے وقت،زندگی کے وہ تجربے ننگے تلووں
کے ساتھ دوڑتے ہوئے نظروں کے سامنے آجاتے ہیں ،جن میں ہجر کا عمل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ،یعنی بانی کے یہاں
بچھڑنے کے بعد کے رونے سے زیادہ بچھڑتے وقت کے لمحات میں پوشیدہ جمالیات کو نمایاں کیا گیا ہے ،میں اس
حوالے سے بانی کا زبردست مداح ہوں کہ وہ صرف تصویر نہیں دکھاتا بلکہ بولتی ہوئی تصویر دکھاتا
Jul
14
ساقی فاروقی کی غزلیں حاضر ہیں ،ادبی دنیا پر غزلوں کا یہ نیا سلسلہ پیش کیا جارہا ہے ،اس کے تحت سب سے پہلے
آشفتہ چنگیزی کی غزلیں پیش کی جاچکی ہیں۔ساقی صاحب کی یہ قریب پچاس غزلیں ہیں ،ان غزلوں کو انٹرنیٹ کی دنیا
میں عام کرنے اور لوگوں تک انہیں یونی کوڈ ٹیکسٹ کی صورت میں پہنچانے کا اصل مقصد انہیں اردو غزل اور اردو
ادب کے سنجیدہ قارئین تک پہنچانا ہے۔ ساقی صاحب کی غزلوں میں بال کا بانکپن ہے ،تیزی ہے ،اس میں کہیں کہیں
جدت کی سخت دھار ہے ،تو کہیں روایتی اشعار بھی ہیں ،مگر اک ذرا تعمیری رنگ لیے۔ جدید شع
1
Jul
13
علی محمد فرشی کی نظموں کا یہ انتخاب پیش خدمت ہے۔ حاالنکہ یہ نظمیں تازہ نہیں ہیں ،لیکن ان کی بہترین نظموں
میں سے منتخب کی گئی دس ایسی نظمیں ہیں ،جنہیں پڑھ کر آپ ان کی نظم گوئی کے فن اور اس کے معامالت پر کچھ
اور'فراک' بہت پسندآئی ' کہہ سن سکتے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر ان نظموں میں سے 'مٹی کی اشرفی''،اشتہار سے باہر
ہیں۔امید ہے کہ ان نظموں پر گفتگو ہوگی ،ان کے عالوہ بھی علی محمد فرشی کی بہت سی ایسی نظمیں ہیں ،جو اس
انتخاب کا حصہ ہونی چاہیے تھیں ،جیسے کہ غاشیہ ،ٹوٹم ٹوٹ گیا وغیرہ۔ ان نظموں کو کسی اور وقت
Jul
11
میں پیدا ہوئے 1956آشفتہ چنگیزی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں۔وہ
1996میں اچانک کہیں الپتہ ہوگئے۔آشفتہ چنگیزی،ایک بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد ذہین انسان اور ماہر
عروض بھی تھے۔آشفتہ کی غزلوں کا نہایت طاقتور اسلوب اسی کی دہائی میں کہی گئی ان کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ان
شائع ہوئے اور دونوں میں شائع ہونے والی غزلوں میں سے ‘کے دو مجموعۂ شاعری ’گرد باد‘ اور ’شکستوں کی فصل
بیشتر کو یہاں ادبی دنیا کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے۔حاالنکہ اس غزل میں روایت کا عنصر زیادہ ہے،
Jul
10
تاریخ میں بڑی جنگوں اور خشک سالیوں یا دیگر آفات نے جب انسانی وجود کو خطرے سے دوچار کیا تو اکثر انسانوں
اگرچہ اسے ایک قانون بنا کر پیش نہیں کیا جا سکتا)۔ یوں اس نے (نے مذہب یا دروں بینی کے فلسفہ میں پناہ لی
معروضی حاالت کی بدصورتی یا ناگواری سے تعلق توڑنے کی خاطر اپنی ذات میں فرار ہونا چاہا۔ پہلی اور بالخصوص
دوسری عالمی جنگ کے بعد زیادہ تر یورپ میں یہی صورت حال تھی۔ فرائیڈ اور سارتر کی انسانی وجود کی گہرائیوں
میں اترنے کی سعی اور انسانی الشعور کی زیارت اسی عمل کا حصہ قرار دی جا سکتی ہیں۔ برصغیر ا
Jul
10
شمس الرحمٰ ن فاروقی نے اثبات کے مدیر اشعر نجمی کے چند سوالوں کے جواب سعادت حسن منٹو کی شخصیت اور فن
کے حوالے سے دیے تھے جو کہ تفصیلی جوابات تھے۔اور اسی وجہ سے بعد میں وہ سواالت و جوابات ہندوستان اور
پاکستان دونوں ہی جگہوں سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ یہ تمام سوال و جواب اثبات پبلی کیشنز کی ویب سائٹ
پر موجود ہیں۔ جنہیں ہمارے لیے منٹو صاحب پر کلک کرکے پڑھا جاسکتا ہے۔ان جوابات پر پاکستان کے شہر اسالم آباد
میں مقیم اردو کے اہم نقاد اور افسانہ نگار محمد حمید شاہد کو کچھ اعتراضات تھے ،چنانچہ انہوں
Jul
9
میر کی ساری رباعیاں ادبی دنیا کے ذریعے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ ہمیں اپنے ادب کی پرانی اور نئی دونوں طرح
کی شاعری کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے ،نئی شاعری ہمیں اگر اپنی ترقی یافتہ ادبی شکل سے روبرو کرواتی ہے تو
پرانی شاعری ہمیں روایت کے خوبصورت محالت کی سیر کرواتی ہے۔ میر کی یہ تمام رباعیاں ہیں۔ان کو پڑھ کر میر
کی سب سے بڑی طاقت یعنی رعایت لفظی کے فن پر میر کے اعتماد اور عبور کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔ اب اس میں
اور کون کون سے فنی جواہر ڈھونڈ نکالتے ہیں ،یہ آپ کا ہنر ہے۔میر نے اپنی غزلوں اور دوسری اص
Jul
8
میں شائع ہوئی تھی۔جس میں 55آج کی کہانیاں'نامی سلسلے کی پہلی کہانی پیش خدمت ہے۔یہ کہانی آج کے شمارہ نمبر '
اس کےعالوہ جالل آل احمد کی سات اور کہانیاں شامل تھیں۔اس کہانی کا انتخاب اجمل کمال جیسے اہم مدیر نے موقع
کی مناسبت سے بہت خوب کیا ہے۔جالل آل احمدایک ایرانی افسانہ نگار ہیں۔وہ 2دسمبر 1923کو پیدا ہوئے اور 9ستمبر
1969کو ایران کے شہر اسالم میں ان کا انتقال ہوا۔وہ نہ صرف ایک ادیب تھے ،بلکہ ایک سیاسی اور سماجی تجزیہ
نگار بھی تھے۔انہوں نے 1950میں مشہور ناول اور افسانہ نگار خاتون سیمیں دانشور سے
Jul
6
Jul
5
ادریس بابر ایک انقالبی گھڑی کا نام ہے ،خاص طور پر غزل میں۔پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ غزل میں محض
بے ساختگی ،نفاست اور اس کی لکھنوی شرافت یا دہلوی مسکینیت ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔یہ اپنی پسند ہوسکتی ہے،
روایت پرستی یا روایت پروری ہوسکتی ہے ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مضامین ،زبان اور اسلوب کی سطح پر غزل
کو ہمیشہ ایک مظلوم عاشق اور ایک سفاک عورت کے درمیان کی عاجزانہ اور عیارانہ گفتگو سے ہی تعبیر کیا جائے،
بلکہ اب تو وہ خود کالمی کے بھی دور سے باہر آگئی ہے ،کیونکہ خود کالمی تو سوشل ویب سائٹس
3
Jul
2
ساقی فاروقی کی خودنوشت ’’آپ بیتی/پاپ بیتی‘‘ کراچی کے رسالے ’’مکالمہ‘‘ اور بمبئی کے رسالے ’’نیاورق‘‘ میں
قسط وارچھپنے کے بعد پچھلے دنوں کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ (اس کتاب کے آخری صفحے پر اطالع دی گئی ہے کہ
یہ پہلی جلد ہے اور پڑھنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دوسری جلد کا بےچینی سے انتظار شروع کر دیں۔) اس
پاپ بیتی‘‘ (ذیلی عنوان’’ :ایک اور طرح کی آپ بیتی‘‘) ’’سے پہلے تقریبا اسی عنوان سے اشفاق نقوی کی خودنوشت
الہور سے شائع ہو چکی ہے۔ چونکہ دونوں کتابوں کے مصنفوں نے یہ عنوان مشتاق احمد یوسفی کے ایک
Jun
29
اعجازگل کا نام اردو غزل میں اپنی شعری انفرادیت کے لیے بے حد اہم ہے ،وہ عام طور پر شہرت کی خواہش سے بھی
کوسوں دور ہیں ،مگر ان کا لہجہ ،ان کا بیانیہ اور ان کی شعری حس کی تیزی اور باریکی ان کی شناخت ہے۔وہ اپنی
بات کہنے کے ڈھنگ کو مختلف انداز سے برت کر دیکھنا جانتے ہیں،اور یہی کوشش تخلیقی اعتبار سے ہمیشہ کارگر
ثابت ہوتی ہے ،یہ غزل اس انسانی تجربے کی تفسیر بھی دکھائی دیتی ہے ،جس نے دنیا کو لیمپ سے الئٹ کا سفر
کرتے ہوئے دیکھا ہے ،محسوس کیا ہے ،اور اس برق باری کے نتائج کو اپنے خیاالت کی کسوٹی پر گھسا ب
Jun
26
شعر چیزے دیگر است :ضمیمہ
قاری سے بڑا جوہر شناس اور کون ہوسکتا ہے کہ شعر ادب تو معاملہ ہی تخلیق کار اور قاری کے درمیان ہے،یہ نقاد ’’
بیچ میں کہاں سے آئے گا۔ختم کالم اسی پر ہے کہ ادب میں نقاد کا کوئی کردار نہیں ہے جو رائے دینے کے ساتھ حکم
فتوی اور ڈگری بھی صادر کرتا ہے۔وہ قاری کواپنی آزادنہ رائے قائم کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔بلکہ
ٰ بھی چالتا ہے اور
اصرار کرتا ہے کہ فن پارے کو میرے نظریے کے مطابق اور میری عینک سے دیکھو۔اور اسی گڑھے میں گرجاؤ جو
‘‘میں نے تمہارے لیے کھود رکھا ہے۔
۔۔۔۔۔م’’
2
Jun
25
شہرام سرمدی بہت عرصے بعد ہندوستان میں ہونے والی معیاری اردو نظم کا ایک اہم ترین نام ہے۔ان کا ایک شعری
مجموعہ 'ناموعود'کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے ،اس میں شامل نظموں میں سے اپنی پسندیدہ چھ نظموں کو میں اس
وقت بالگ پر پیش کررہا ہوں ،جو کہ یقین ہے کہ آپ کو بھی پسند آئیں گی۔آپ شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ ناموعود
ادبی دنیا سےپی ڈی ایف صورت میں ڈائونلوڈ بھی کرسکتے ہیں ،جس کا لنک اس پوسٹ کے آخر میں دیا جارہا ہے۔
شہرام سرمدی کی شاعری میں ایک عمیق صبر کا تجربہ مجھے نظر آتا ہے،یہ تجربہ اتنا گہرا ہے کہ مجھے
Jun
10
Jun
9
۱
الہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے ’’احیائے علوم‘‘ میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر
شعبہ تصنیف و
ٔ مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے
جریدہ‘‘ کے شمارہ ۳۳میں اقبال کے ان خطبات پر ،جن کے مجموعے کا عنوان ’’تالیف و ترجمہ کے رسالے
نقطہ نظر سے کیے گئے طویل Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے ،قدامت پرست مذہبی ٔ
تبصرے شائع کیے گئے اور یہ اطالع دی گئی کہ یہ عالمہ سید سلیمان ندوی کے خیاالت ہیں جنھیں ان کے ایک عقیدت
مند مرید ڈاکٹر غل
Jun
8
پچھلے دنوں ہندوستان میں میرے مختصر سے قیام کے دوران اچانک ٹھنڈی رام سے مالقات ہوئی۔برسوں بعد غیر متوقع
جب وہ مجھے مال تو میں اس سے لپٹ گیا۔اس نے بھی مجھے بھینچ لیا ،بڑی دیر تک ہم ایک دوسرے سے گتھے رہے،
ویسے اگر آپ اس وقت ہم دونوں کو دیکھتے تو یہی کہتے کہ یہ بھرت مالپ چند لمحوں کا تھا اور آپ کی بات کچھ غلط
بھی نہ ہوتی کیونکہ گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے ہم چند سکینڈ ہی آپس میں لپٹے رہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم
دونوں اس وقت ایک دوسرے سے ملنے کی خوشی میں کچھ ایسے پاگل ہوگئے تھے کہ وقت کو ناپنے والے اس آ
2
Jun
6
ت شیریں
ساع ِ
اظہار مسرت کے لیے امرتسر ،گوالیار اور بمبئی میں کئی جگہ
ِ اطالع موصول ہوئی کہ مہاتما گاندھی کی موت پر
)لوگوں میں شرینی بانٹی گئی(ا۔پ
***
مزدوری
لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اضافہ ہوگیا۔ جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔
ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اٹھائے خوش خوش گاتا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ جب تم ہی گئے پردیس لگا کرٹھیس اوپیتم پیارا ،دنیا
میں کون ہمارا۔
ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی
جھولی میں سے گر پڑی۔
Jun
6
پہال خط
یہ خط آپ کے پاکستانی بھتیجے کی طرف سے ہے ،جسے آپ نہیں جانتے۔ جسے آپ کی سات آزادیوں کی مملکت میں
شاید کوئی بھی نہیں جانتا۔
میرا ملک ہندوستان سے کٹ کر کیوں بنا ،کیسے آزاد ہوا ،یہ تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خط
لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ،کیونکہ جس طرح میرا ملک کٹ کر آزاد ہوا اسی طرح میں کٹ کر آزاد ہوا ہوں اور
چچا جان یہ بات تو آپ جیسے ہمہ دان عالم سے چھپی ہوئی نہیں ہونی چا ہیئیکہ جس پرندے کو پر
Jun
5
انعام ندیم کی شاعری مجھے بہت اچھی لگتی ہے ،ہر بات جو ہمیں بہت اچھی لگتی ہے ،اس کی تاویل فراہم کرانا
ضروری نہیں ،مگر انعام ندیم کو سادگی سے گہری باتیں کہنے کافن آتا ہے۔ ان کے یہاں خیال کے بہت سے نادر پہلو
'چپکے سے آئے بیٹھے'اسلوب کی چادر میں پوشیدہ سلوٹوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں۔ یہ بقول انعام ندیم ،ان کی تازہ
غزلیں ہیں ،جو بہت سے پڑھنے والوں تک پہنچ نہیں سکی ہیں ،ان میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو ابھی کسی رسالے میں
بھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے 'ادبی دنیا' کو اس الئق سمجھا کہ اسے اپ
Jun
3
یہ میرا پہال خط ہے،جو میں آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں۔ آپ ماشاء ہللا امریکنوں میں بڑے حسین متصور کیے
جاتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرے خدوخال کچھ ایسے برے نہیں ہیں۔ اگر میں امریکہ جاؤں تو شاید مجھے بھی
حسن کا رتبہ عطا ہو جائے۔ لیکن آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور میں پاکستا ن کا عظیم افسانہ نگار۔ ان میں بہت
بڑا تفاوت ہے بہر حال ہم دونوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ آپ کشمیری ہیں اور میں بھی۔ آپ نہروہیں میں منٹو۔
کشمیری ہونے کا دوسرا مطلب خوبصورتی ہے اور خوبصورتی کا مطلب
Jun
2
صدیق عالم بطور افسانہ نگار بہت مشہور ہیں ،اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے آخری چھاؤں ،لیمپ جالنے والے
اور بین شائع ہوچکے ہیں ،ساتھ ہی ساتھ ان کا ایک ناول چارنک کی کشتی بھی منظر عام پر آچکا ہے۔اس سال یعنی
2015میں ان کا پہال نثری نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ ’پتھر میں کھدی ہوئی کشتی‘ کے عنوان سے شائع ہوا
زیبرا کراسنگ پر ٹنگے چہرے‘ اور ’تخلیق کا ’ہے۔اس مجموعے میں چالیس نثری نظموں کے ساتھ دو طویل نظمیں
نوحہ‘ شامل ہیں۔صدیق عالم ایک عمیق فن کار ہیں۔ان کے یہاں ابہام کی مختلف صورتیں موجود ہیں ،زیر نظر تحری
2
Jun
1
سالم سلیم کی شاعری میرے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث رہی ہے۔ یہ شخص کم شعر کہتا ہے ،اور اس کے یہاں
لفظوں کے انتخاب اور خیال کی بندش کا طریقہ مخصوص کالسیکی لفظیات کے باوجود کچھ انوکھا ہے۔ غزل میں سالم
سلیم کا رویہ میر کی طرح مکمل سپردگی واال ہے ،مگر کہیں کہیں یہ خود سپرد عاشق خدا سے بھی بھڑ جاتا ہے،
مذہب ،فلسفے اور سماج پر کچھ بے باکانہ اظہار بھی اس زہر میں ڈوبی ہوئی عاشقانہ برچھی کے ساتھ سالم کی غزلوں
کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے۔اکیسویں صدی میں غزل اپنے چہرے تراش رہی ہے ،اب اس میں وہ کتنی کامیاب
May
30
موت کی طرف کھلی کھڑکی‘‘ اس خوفزدہ شخص کی کہانی ہے جس کے من میں اس خیال کا ناگ پھن پھیال کر بیٹھ گیا
تھا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا۔۔۔ یہ وہ کہانی ہے جو مجھے اس قدر پسند آئی تھی کہ موت سے خوفزدہ اس کردار کی بے
چارگی دکھ بن کر میرے اندر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی تھی۔
گھوڑوں کے شہر میں اکیال آدمی‘‘ ’’،بارش کی باتوں میں بھیگتیلڑکی‘‘ ’’،گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو‘‘ اور’’ ’’
خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر‘‘ مظہر االسالم کی ایسی ہی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ان کہانیوں میں موت ،اِنتظار،
دکھ اور جدائی جیسے موض
May
22
)زندہ/مردہ(باد
مارک ٹوئن کا اصل نام سیموئل لینگون کلیمنزتھا ،وہ 1835میں فلوریڈا ،مسوری ،امریکہ میں پیدا ہوئے اور 1910میں
کنیکٹیکٹ میں ان کا انتقال ہوا۔ بارہ سال کی عمر میں اپنی تعلیم کا سلسلہ ذمہ داریوں کی وجہ سے منقطع کرنا پڑاچنانچہ
مارک ٹوئن نے اسکول چھوڑ دیا اور اسٹیم بوٹ پائلٹ ،جرنی مین اور سپاہی کے فرائض مختلف اوقات میں اد ا کیے
مگر اپنی تحریروں سےخاص طور پر مارک نے اچھی خاصی رقم کمائی اور کچھ کاموں میں بغیر سوچے سمجھے رقم
لگانے کی وجہ سے انہیں بہت سے معاشی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1870میں اولیویالین
May
21
ان فائلوں میں میر تقی میر کی ساری غزلیں موجود ہیں۔جن کی تعداد 1916ہے۔میر تقی میر اردو ادب کے نہایت اور
مشہور شاعر ہیں ،ان کی پیدائش 1723میں آگرہ شہر میں ہوئی اور انتقال 1810میں لکھنئو شہر میں ہوا۔زندگی انتشار
اور سکون کے کچھ ملے جلے دور میں گزری مگر ذہن کے شاعرانہ انتشار نے میر کو کبھی خود سکون سے بیٹھنے
نہیں دیا۔ میر زندگی کے مشاہدے کا اردو غزل میں اب تک سب سے بڑا شاعر ہے۔ جس کی اہمیت کو اردو کے ہر بڑے
نقاد نے تسلیم کیا ہے۔میر کی زندگی کے حاالت اور خیاالت
4
May
20
حال ہی میں مجھے ’’احیائے علوم‘‘ کے چند گزشتہ شماروں کے مشموالت اور اجتہاد کے موضوع سے متعلق کچھ
شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کا
ٔ اورتحریریں کم و بیش ایک ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں کراچی یونیورسٹی کے
’’جریدہ‘‘ بھی تھا جس کے شمارہ ۳۳میں عالمہ اقبال کے ان خطبات پر جنھیں بعد میں ’’اسالمی فکر کی تشکیل نو‘‘
کے عنوان سے شائع کیا گیا ،عالمہ سید سلیمان ندوی کے تبصرے شامل ہیں۔ ’’جریدہ‘‘ کے مدیر خالد جامعی کا کہنا ہے
کہ انھوں نے اس بات کی وجہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ عالمہ ندوی نے اپنے ان خیاالت کا اظہا
May
19
ارسطو کا ایک جملہ بہت مشہور ہے ،انسان سماجی جانور ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر انسان سماجی جانور ہے تو سماج کیا
ہے؟سماج آخر ہماری زندگی کے اصول کس طرح طے کرتا ہے ،کیسے وہ مجھے سکھاتا ہے کہ مجھے کیا پہننا ہے
اور کیا نہیں پہننا ،آخر ایسا کیوں ہے کہ جس چیز پر لوگ ہنستے ہیں ،ہم اس کے وجود سے رفتہ رفتہ ڈرنے لگتے
ہیں۔پی ،کے جو حال میں ہی ریلیز ہونے والی ایک کامیاب بالی ووڈ فلم ہے ،اس کا بھی ایک منظر یہ ہے کہ کسی
سیارے سے آیا ہوا آدمی جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے پہناوے کی وجہ سے لوگ اس پر ہنس رہے ہیں تب اس کی سمج
May
18
یاہودا امیخائی ()1924-2000اسرائیل کا ایک عالمی شہرت یافتہ جدیدشاعر تھا۔اسے اپنی زندگی میں قریب چار بڑے
اعزازات سے نوازا گیا۔اس کی پیدائش جرمنی کے شہر ورزبرگ میں ایک سخت مذہبی یہودی گھرانے میں ہوئی ،گھریلو
ماحول کی وجہ سے بہت جلد اسے جرمن اور ہیبرو زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا۔اس نے برطانوی فوج میں شامل ہوکر
دوسری جنگ عظیم میں حصہ بھی لیااور وہ اسرائیل کی جنگ آزادی کی تحریک سے بھی وابستہ رہا۔1946میں بڑٹش
آرمی سے الگ ہونے کے بعد اس نےیروشلم کے ڈیوڈ یلین ٹیچر ز کالج میں داخلہ لیااور کچھ عرصے بعد خود ب
May
17
جنگ کی حقیقت
دالئی الما بودھ مذہب کے روحانی پیشوا ہیں۔ دنیا بھر میں مشہور ہیں اور کسی خاص تعارف کے محتاج بھی نہیں۔ دالئی
الما کی ویب سائٹ پر موجود انفارمیشن کے مطابق وہ چودھویں دالئی الما ہیں ،جن کی زندگی کے تین بنیادی مقاصد
ہیں۔ اول انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت پر زور دینا ،مختلف مذاہب کے درمیان امن و آشتی کو پروان چڑھانا اور
تبتیوں کی بودھ تہذیب کی ممکنہ طور پر حفاظت کرنا۔ دالئی الما کے پرامن خیاالت اس وقت پوری دنیا کے لیے مشعل
راہ بنے ہوئے ہیں ،وہ مذہبی طور پر اس بات کو مانتے ہیں کہ روح جاوداں ہے اور وہ
May
16
آیوان اکسیونوف ،والڈیمر نام کے ایک شہر کا سوداگر تھا۔ اس کے پاس دو دکانیں اور ایک گھر تھا۔ اکسیونوف بے حد
خوبصورت اور گانے کا شوق رکھنے واال تھا۔ اپنی جوانی کی شروعات سے ہی اس نے شراب پینا شروع کر دی تھی
اور آدھی جوانی ہوتے ہوتے اس میں برباد ہونا شروع ہو گیا تھا ،مگر شادی ہونے کے بعد اس نے اپنی شراب پینے کی
لت کو کم کیا،اورپھرصرف کبھی کبھی پیا کرتا تھا۔ ایک بارحسب معمول جب وہ گرمیوں میں اپنے گھر کو چھوڑ کے
نزھنی میلے میں کام کے سلسلے سے جا رہا تھا تو اس کی بیوی نے اس سے کہا۔
آیوان،آج مت جاو"،
2
May
15
میراجی مر گیا ،مگر اس کے دور کی جنسی مجبوریاں ،جبلتیں اور حیرانیاں سب کی سب زندہ ہیں ،میراجی کی آنکھ نے
جن مسائل کو دیکھا تھا ،جن خونی ،جنونی اور عبرت ناک حبس میں اپنی زندگی گزاری تھی ،اس میں ذاتی کرب کا
اظہار شاید سب سے بڑا مسئلہ تھا ،جو ایک رستے سے نہ ہوپایا تو اس نے اپنی ہزاروں چھوٹی بڑی تخلیقی صورتیں
ایجاد کرلیں۔ نئی دنیا کا آدمی ،خاص طور پر برصغیر میں اپنی جنسی محرومیوں کو اب ایک نئے آئنے میں دیکھ رہا
ہے ،سماج ،مذہب ،شرافت اور تہذیب کی سیاستیں اس کی جنسی خواہشوں کے رسائومیں تو آڑے آہی رہی ت
May
14
کراچی کے ادبی میلے میں ہر مرتبہ جو پاکستانی اکٹھے ہوتے ہیں وہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے
سبب غیر ملکی دوستوں کے سامنے کچھ شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ ادبی میلے والے ہوٹل کے الن میں
ایک ہندوستانی شخصیت کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا جو بھارت میں بڑھتے ہوئے فاشزم پر پریشان نظر آتے تھے۔مجھے
ت ناصح جو انھیں عشق ان کی باتیں سن کر ویسی ہی مسرت ہوئی جسی کسی عاشق کو یہ سن کر ہوتی ہوگی کہ حضر ِ
سے پرہیز کی نصیحت کیا کرتے تھے ،وہ آج کل خود بھی عشق سے منسلک پریشانیوں میں مبتال ہیں۔ میری
May
13
اشاعت۲۰۰۹ :
اجمل کمال
اس مجموعے کو دیکھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید یہ سلیم احمد کی نثری تحریروں کی کلیات ہے ،لیکن ایسا نہیں
ہے۔ نہ صرف اس میں سلیم احمد کی وہ نثری تحریریں موجود نہیں جو الگ الگ کتابوں کی شکل میں شائع ہوئیں ،مثال
،بلکہ ان کے وہ مضامین (کالم) بھی اس ‘‘غالب کون‘‘’’ ،اقبال ایک شاعر‘‘ اور ’’محمد حسن عسکری انسان یا آدمی’’
مجموعے سے خارج رکھے گئے ہیں جو جماعت اسالمی کے ترجمان اخبار ’’جسارت‘‘ ،کراچی ،میں شائع ہوتے
Apr
13
ہندوستان میں اردو والوں کی کوئی آواز نہیں ہے۔ان میں اتحاد نہیں ،یہ ایک بکھری ہوئی ،بے وقوف اور ناعاقبت اندیش
قسم کی آبادی ہے ،جو ملک کے مختلف حصوں میں آباد ہے۔کسی سے اردو کے بارے میں بات کیجیے تو وہ شعر
سنانے یا آداب کرنے لگتا ہے۔کوئی سوچتا نہیں کہ ’ارشاد فرمائیے‘ اور ’آداب عرض ہے‘ کی تہذیبی سرحدوں سے
زیادہ بھی کسی زبان کی کوئی شناخت ہوتی ہے۔اردو محض ایک ادبی و علمی وراثت یا تہذیبی یادگار بن کر رہ گئی ہے،
جس کی جگہ میوزیم میں ہے ،نہ کہ عوامی زندگی میں۔یہ صورت حال بہت ہی عجیب و غریب ہے کہ اب اردو
1
Mar
23
چیخ پر پابندی
آپ نے نیوز چینل کے کسی پروگرام کے وائز اوور میں شاید کبھی اس طرح کی بات سنی ہو ،دہلی ایک خوبصورت شہر
ہے ،یہاں کی آب و ہوا میں ہندوستانی تہذیب سانس لیتی ہے،الل قلعہ ،قطب مینار ،ہمایوں اور رحیم خان خاناں کے
مقبرے ،باغ بیدل ،غالب کی مزار اور حویلی یہاں کی تاریخی وراثت ہیں ،یہاں کا فخر ہیں۔یہ بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ
ہے،یہ ہندوستان کا علمی و ثقافتی مرکز ہے،یہ فالنا ہے ،یہ ڈھمکا ہے۔مگر دہلی دراصل ایک گندا شہر ہے۔یہاں جمنا کے
پانی پر تیرتے ہوئے جھاگ کی میلی کچیلی بو ہے ،سڑکوں پر دن کے ساتھ راتوں کو بھی
Mar
6
Mar
5
الفریڈی جیلینک نے اپنی تخلیقات میں اس بات کو موضوع بنایا ہے کہ ادب کی نئی دنیا میں مرد کاپلڑا بھاری ہے ‘اس کا
زورچلتا ہے جب کہ زندہ گوشت پوست والی مکمل اور بھر پور عورت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اور یہ کہ لکھنے والوں
کے ہاں عورت کی پیش کش کا تصورپہلے سے ساختہ یعنی’’ اسٹریو ٹائپ‘‘ہے ۔ بنا بنایا اور گھڑا گھڑایا۔ ‘ لگ بھگ
اسی عنوان سے شمس الرحمن فاروقی نے راجندر سنگھ بیدی کے نام بھی چارج شیٹ جاری کی ہے ۔ بیدی پر الگ سے
اور جم کر شمس الرحمن فاروقی نے کچھ نہیں لکھا اور اس کا اسے اعتراف بھی ہے ‘ تاہم شہز
Feb
25
ممتاز مفتی کی ’’الکھ نگری‘‘ بالشبہ ایک نہایت غیرمعمولی کتاب ہے ۔۔ کم و بیش اتنی ہی غیرمعمولی جتنا اس کا
مصنف ہے یا اس کا موضوع۔ اسے ممتاز مفتی کی خودنوشت سوانح حیات کے دوسرے حصے کے طور پر شائع کیا گیا
ہے۔ اس سوانح حیات کی پہلی جلد ،جسے ’’علی پور کا ایلی‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۱۹۶۰،ء کے عشرے میں شائع ہوئی
تھی۔ ’’ایلی‘‘ کو بڑی عجلت میں شائع کیا گیا تھا تاکہ یہ کتاب اس سال کے آدم جی ایوارڈ کی حقدار ہو سکے۔ سرورق
پر ’’آدم جی انعام یافتہ‘‘ کی سرخی کے ساتھ اسے ناول کا باریک نقاب اُڑھایا گیا تھا کیونکہ
4
Feb
20
میں منشایاد کے افسانے کی عورت پر بات کرنا چاہتا ہوں اور راجند سنگھ بیدی کی عورت یاد آنے لگی ہے ۔ بیدی کی
عورت سے منشا کی عورت کا کیا سمبندھ؟ آپ حیران ہو کر حرف گیر ہورہے ہیں ‘ آپ کا متعجب ہونا یقینااس صورت
واقعہ سے پھوٹا ہے کہ بیدی اور منٹو کے افسانوں میں عورتوں کے کردار بنیادی حوالے کے طور پر آتے ہیں‘ اس
طرح کہ وہ ان دو فن کاروں کی شناخت بن جاتے ہیں ۔ منٹو کو اگر چکلے والی اور گناہ میں پڑی ہوئی عورت کے
ذریعے تہذیب و تمدن کی چولی اتارنے والے کے طور پر پہچانا جاتا ہے تو بیدی کو اس گرہستن اور خان
Feb
16
اجمل کمال کی تحریر
گیان چند جین کی کتاب ’’ایک بھاشا ،دولکھاوٹ ،دو ادب‘‘ پر شمس الرحمن فاروقی کے تبصرے سے جو بحث شروع
ہوئی تھی ،اس سے اردو کی ادبی دنیا ،اور اس سے وسیع تر اور اہم تر ،برصغیر کے مسلمان معاشرے کے بارے میں
کئی دلچسپ اور اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ ان کی طرف مختصرا اشارہ کرنے سے پہلے میں گیان چند جین کے لیے اپنی
نقطہ نظر کے سوا کوئی اور
ٔ ممنونیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اردو کے ادبی ماحول میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ غالب
موقف پڑھنے والوں کے سامنے آئے۔ جین صاحب نے اپنی تمام عمر اردو میں تحقیق و تصنیف میں گزا
2
Feb
12
حاالنکہ میرا مطالعہ بہت نحیف اور میری نظر بہت کمزور ہے۔ مگر کچھ سواالت جو میرے ذہن میں آرہے ہیں ،سوچتا
ہوں کہ سوچنے والوں کے حوالے کردوں! اس تحریر کا اصلی مقصد تو یہی ہے ،باقی کوئی اپنی سی جو کہنا چاہے کہہ
سکتا ہے۔جدیدیت کے حوالے سے میں جب بھی اردو کے نقادوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو ایک خاص قسم کی کشمکش کو
دیکھتا ہوں ،جدید شاعری یا جدید شعریات کا تصور ہمارے یہاں مختلف ناقدین کے یہاں مختلف ہے۔بالکل ویسا ہی
کنفیوزن جیسا کہ ترقی پسند نقادوں میں تھا ،وزیر آغا ،شمس الرحمٰ ن فاروقی ،شمیم حنفی ،عمیق حنفی،
Feb
8
کی بات ہے۔ قاہرہ کے عالقے باب اللوق میں واقع اشاعتی ادارے دارشرقیات میں ادارے کے سربراہ جوالئی ۲۰۰۲
ُحسنی سلیمان نے ہم سے ایک نووارد کا تعارف ڈاکٹر حسن حلمی کے نام سے کرایا۔ ان کی آمد کے وقت موضوعِ بحث
مصر کے شہری معاشرے میں اسالمی احیاپسندی کا رجحان تھا جو کہا جاتا ہے کہ روزبروزبڑھ رہا ہے۔ قاہرہ کے گلی
کوچوں میں گھومتے ہوے ہمیں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کسی نہ کسی قسم کے حجاب
میں نظر آئی تھی۔ یہ حجاب مغربی لباس پر پہنے ہوے اسکارف سے لے کر سر سے پیر تک کو ڈھانپنے والی چادر ی
Feb
5
ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی ‘‘کے ساتویں حصے ()۱میں اسد محمد خاں نے ،جو ٹکڑے جوڑے ہیں ان میں اپنے ’’
بھتیجے /بھائی ناصر کمال کو بھیجی گئی ای میلز بھی ہیں ۔ ناصر کو بھیجی گئی ایک ای میل میں پس نوشت کا اضافہ
ملتا ہے جس میں ہمارے افسانہ نگار نے اپنے آنے والے ناول سے اقتباس دینے سے پہلے اپنا نام ،اسد محمد خاں
نہیں،اسد بھائی خانوں لکھا ہے۔ناول کا یہی اقتباس ’’خانوں ‘‘()۲کے عنوان سے ’’تیسرے پہر کی کہانیاں‘‘ کا حصہ
بھی ہو گیا ہے ۔ اس خانوں کے اندر ایک ندی بہتی ہے ۔ ایسی ندی جو معدوم ہوکر بھی اس کے اندر بہت
Feb
2
ظفر اقبال کے بارے میں عام طور پر جن خیاالت کا اظہار ہم اپنی گفتگوؤں ،تحریروں اور مذاکروں میں کرتے ہیں ،ان
میں سے بہت سی ایسی باتیں ہیں جو خاصی نزاعی رہ چکی ہیں ،نزاعی اس لیے ہیں کہ ظفر اقبال کی شخصیت ان کی
شاعری ہی کی طرح بہت بڑے کینوس پر پھیلی ہوئی ہے ،اور بہت سی باتیں اس لمبے عہد میں تردید ،تشکیک اور تضاد
کا شکارہوئی ہیں۔ایک دفعہ ہمارے ایک دوست پراگ اگروال نے یہ قصہ سنایا تھا کہ محمد علوی کی جب انہوں نے ظفر
اقبال سے فون پر بات کروائی توباتوں باتوں میں دونوں کی ضعیفی کا ذکر بھی آیا ،ظفر اقبال ن
1
Feb
2
اردو کے ادبی ماحول میں یہ شکایت بہت دنوں سے عام ہے کہ نقاد اپنا کام نہیں کر رہے ہیں ،یا ٹھیک طرح سے نہیں
کر رہے ہیں۔ اس شکایت کی گونج سید صاحب کے ان مضامین میں بھی بارہا سنائی دیتی ہے جنھیں ’’تنقید کی آزادی‘‘
نامی کتاب میں جمع کیا گیا ہے۔ اگرچہ وہ خود بھی اردو کے نقادوں کی موجودہ کارکردگی سے کچھ زیادہ مطمئن معلوم
نہیں ہوتے لیکن ان کی بےاطمینانی غالبا لکھنے والوں (اور پڑھنے والوں) کی عام شکایت سے مختلف ہے ،کیونکہ وہ
نقاد کے منصب اور اس کی ذمےداریوں کا ایک بلند( شاید ضرورت سے کچھ زیادہ بلند) تصور
Feb
1
جس طرح انٹرنیٹ پر اردو کتابیں یا دوسری ادبی و غیرتحریریں اپلوڈ کرنے والے اداروں کے کچھ حقوق ہوا کرتے ہیں،
اسی طرح انٹرنیٹ کے قاری کا یہ حق ہے کہ جو مواد کاپی رائٹ کے زمرے سے باہر ہو ،یا جسے مصنف نے بغیر
کسی معاشی فائدے کی غرض کے اپنی خوشی سے اپلوڈ کرنے کی اجازت دی ہو ،اسے یونی کوڈ میں فراہم کرایا جائے
یا ڈائونلوڈ ایبل رکھا جائے۔کیونکہ یہی دو ذرائع کتاب یا تحریر کو پھیالنے ،لوگوں میں عام کرنے اور آسانی سے پڑھنے
کے سلسلے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔اعجاز عبید نے یونی کوڈ میں اردو ادب اور شاعری کو عام
1
Jan
31
اس کے ہاں اَفسانہ زندگی کے وسیع و عریض عالقے سے ایک قطعے کی صورت الگ ہوتا ہے ‘اپنے سا ’’
Jan
30
تخلیق کاروں سے بات کرنے میں ہمیشہ کوئی اہم بات سامنے آتی ہے۔ان کی بے پروائی ،ان کی الابالی ،ان کی سچائی
اور ان کی گفتگو بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کی جانب مائل کرتی ہے۔انعام ندیم کا نام ایسے ہی اہم تخلیق کاروں میں
شمار ہوتا ہے۔وہ ایک بہت ہی اچھے شاعر ہیں ،اور اس انٹرویو میں انہوں نے بڑی اہم بات یہ کہی کہ مشہور ہونا اچھے
ہونے سے بہتر شاید کبھی نہیں ہوسکتا ،بلکہ شہرت تو کبھی کبھی انسان کی تخلیقی صالحیت کو شک کے گھیرے میں
بھی لے آتی ہے۔یہ گفتگو امید ہے کہ آپ سبھی کو ضرور پسند آئے گی ،کیونکہ اس میں انعام
Jan
29
تصنیف نے اپنے بالگ پر دس سواالت کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں ۔ ادھر کئی روز سے ایک
کے بعد ایک بہت سی شخصیات نے ان دس سوالوں کا سامنا کیا ،کچھ لوگوں نے ان سواالت کےجوابات تفصیل سے
دیئے تو کچھ نے رواروی میں ،کچھ نے جلد از جلد جوابات ارسال کر دیئے تو کچھ نے سواالت پر اچٹتی سے نظر ڈال
کر انہیں کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ پھر بھی بہت سی ایسی اہم شخصیات ہیں جنہوں نے ان سوالوں کو پڑھا ان کی
اہمیت کو جانا اور ان سوالوں کےتشفی بخش جوابات بہت علمی و فکری انداز میں پیش کئے۔ابھی یہ سلسلہ چل
2
Jan
27
لیجے انٹرنیٹ پر موجود اہم ادبی کتابوں کی دوسری فہرست پیش خدمت ہے۔ان کتابوں میں آغا حشر کاشمیری کی کلیات
کی جلدیں ،مصحفی کی کلیات کی جلدیں ،ذکر میر ،کلیات رشید احمد صدیقی کی جلدیں اور دوسری بہت سی اہم کتابیں
شامل ہیں۔ امید ہے کہ ان کتابوں کو آپ بہ آسانی ڈائونلوڈ کرسکیں گے۔ پھر بھی کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے
رابطہ کیا جاسکتا ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے بہت سی اہم کتابوں کو انٹرنیٹ پر فراہم کرایا ہے۔ اب جلد
ہی آپ کو ادبی دنیا بالگ کی پیشکش کے طور پر ایک پورا بالگ غالب اور میر کی غزلو
3
Jan
26
یہ مونکا کمار کی نظمیں ہیں۔ان کی نظمیں میں نے اور بھی پڑھی ہیں۔قریب بیس بائیس تو پڑھی ہونگی ،ان میں سے یہ
پانچ نظمیں یہاں آپ کے مطالعے کے لیے پیش کررہا ہوں۔ ان نظموں کو پڑھتے وقت ہرگز یہ بات فراموش مت کیجیے
گا کہ یہ نظمیں ہندی کی ایک نئی نسل کی شاعر کی ہیں۔ایسی شاعر ،جس نے کچھ انوکھے خیاالت کو جنم دینے اور
بننے کی کوشش کی ہے۔ہندی کی نئی نسل میں اور بھی کچھ اہم نام ہیں ،جیسے مہیش ورما ،اویناش مشرا ،سدھانشو
فردوس ،عنبر رنجناپانڈےاور شبھم شری وغیرہ۔ میں رفتہ رفتہ کوشش کرکے ان سب کو آپ سے متعارف کرو
1
Jan
24
خالد جاویداس وقت ہندوستان کے گنے چنے فکشن نگاروں میں شاید سب سے اہم نام ہیں۔ان کے پڑوس میں رہتے ہوئے
مجھے تقریبا چار پانچ سال سے زائد ہوگئے ہوں گے ،مگر اس دوران میں شاید میری مالقات ان سے پانچ چھ دفعہ ہی
ہوئی ہے۔مگر ان کی تحریروں سے میری مالقات ہمیشہ ہوتی رہی۔ابھی تک میں نے ان کا ناول نعمت خانہ نہیں پڑھا
ہے ،ان کی کہانیاں عام زندگی کی جزئیات کو دیکھتی ہیں ،کھنگالتی ہیں ،کسی معمولی سے آدمی کے اعصاب پر مادی
اور سماجی قسم کے اصول کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ،اسے فلسفیانہ لہجے میں گوندھ کر انہوں نے ا
Jan
23
قدریں بدل رہی ہیں ،معاشرہ بدل رہا ہے۔کیونکہ اظہار کے وسائل بدل رہے ہیں۔انٹرنیٹ ایک ایسی جگہ ہے ،جس پر اب
ادیب ،شاعر ،فلسفی ،تاریخ داں ،قانون داں سب جمع ہوگئے ہیں۔حاالنکہ یہاں بات کی عمر چھوٹی ہے ،مگر اس کی ایک
بات اچھی یہ ہے کہ یہ لکھے ہوئے کو زندہ رکھتا ہے۔اس کی کوکھ میں چیزیں ذرا کسی کے ہاتھ لگانے سے چمکنے
لگتی ہیں ،کسی کی پرانی پوسٹ کو دیکھیے تو وہ اور بھی بہت سے لوگوں کے نظر میں آجاتی ہے۔میرا مقصد اردو
والوں کو اس نئے وسیلۂ ترسیل پر وہ چیزیں فراہم کرانا ہے ،جو معیار بلند کرسکیں ،صرف تجارت نہ
Jan
22
دیپک گپتا آرچ میڈیا پرائیوٹ لمیٹڈ نامی پروڈکشن کمپنی کے مالک ہیں۔انہوں نے بڑی تعداد میں شارٹ فلمز اور ٹی وی
سیریلز بنائے ہیں۔اسٹار پلس پر بہت سے اہم سیریلز 'بندنی'کے اسسٹنٹ ڈائرکٹررہے ہیں۔دیپک گپتا فلمی تجزیہ نگار بھی
ہیں۔وہ قریب چار پانچ سال پہلے تک دہلی میں تھے ،بنیادی تعلق ہردوئی ،اتر پردیش سے ہے۔میں نے خود بھی ان کی
کمپنی کے لیے صحافت کے لیے دو اہم دستاویزی فلموں کے لیے کام کیا اور غدر پر تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی ایک فلم بھی
لکھی۔دیپک گپتا کے ساتھ میں نے دوردرشن اردواور بھارتی کے لیے کام کیا۔فی
Jan
21
شارق کیفی اردو ادب کے اہم شاعر ہیں۔ان کی غزل ،ان کی نظم دونوں کو روٹین شاعری سے کوئی عالقہ نہیں۔ان
کالہجہ ،ان کی فکر ،ان کا بیانیہ ،ان کی تکنیک یہ تمام باتیں ان کے ہر معاصر شاعر سے الگ ہیں۔اب تک ان کے تین
شعری مجموعے’عام سا ردعمل‘’ ،یہاں تک روشنی آتی کہاں تھی‘ اور ’نئے تماشے کا ٹکٹ‘ شائع ہوچکے ہیں۔جن میں
سے اول دو غزلوں کے ہیں اور تیسرا مجموعہ نظم کا ہے۔ان کی نظم کا کمال یہ ہے کہ وہ مختصر پیرائے میں سماج کو
دیکھتے وقت اپنی چوتھی آنکھ کا استعمال کرتی ہے۔اب اس چوتھی آنکھ کی تفصیل جاننی ہو تو ان کا
Jan
20
فہمیدہ ریاض کا نام ادب کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں ،ان کی خدمات ،ان کی تحریروں ،ان کی شاعری
سے وہ تمام لوگ واقف ہیں ،جو ادب پڑھتے لکھتے ہیں۔فہمیدہ ریاض تک یہ سواالت میرے لیے سدرہ سحر عمران نے
پہنچائے اور ان کے جوابات بھی حاصل کیے ،اس کے لیے میں سدرہ کا بے حد شکرگزار ہوں ،حاالنکہ جوابات سے
مکمل تشفی نہیں ہوتی اور کہیں ایک آدھا سوال بھی کچھ اوٹ پٹانگ قسم کا ہے ،لیکن اس مکالمے میں کچھ باتیں اہم بھی
ہیں۔مجھےیہ احساس اکثر پریشان کرتا تھا کہ قابیل کی ہونے والی بیوی'لیودا' ،شاید یہی اس کا نام ہ
Jan
19
وقت دھیرے دھیرے بدل رہا ہے۔اور بدلتے وقت کے ساتھ صرف زبانیں ہی دھندلی نہیں ہوجاتیں ،ان میں لکھی گئی
اصناف ہر زمانے میں زندہ رہنے یا نہ رہنے کا جواز ڈھونڈ لیتی ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ شاعری کوئی جامد شے
نہیں۔اس کے بندھے ٹکے اصول نہیں ،وہ بس وقت کے اعتبار سے اپنی ہیتیں بدل کر سامنے آتی ہے۔چونکہ پرانی اقدار،
تہذیب وغیرہ سے بندھے رہنا ہماری فطرت ہے ،خود میری بھی۔اس لیے یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم
عبادت کی حدتک ان چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں۔آپ عام زندگی میں دیکھ لیجیے ،ہمارے یہاں کتنی ایسی باتی
1
Jan
18
Jan
17
انجم سلیمی اُردو نظم و غزل کے ایک توانا لہجے کے طور پر عرصے سے جانے جاتے ہیں۔ اُردو غزل میں ذات کی
کشفی حقیقت کا ادراک کوئی نیا نہیں مگر انجم سلیمی نے ’’ میں‘‘ کے کشف میں اُردو غزل کو ایک نئے ذائقے سے
ابن عربی ؒ کی
آشنا کروایا ہے۔ انجم سلیمی کے ہاں ’’میں‘‘ کا کرب سارتر واال نہیں بلکہ یہ تجربہ محی الدین ِ
’’وجودی‘‘ غوطہ زنی سے کسی قدر مشابہ ہے۔ کہیں کہیں وہ بالکل اپنی الگ راہ بھی نکال لیتے ہیں۔ ’’میں‘‘ کی کشفی
واردات ہمیں حیران بھی کرتی ہے ۔نم ناک و پریشان بھی اور اطمینان کے نشے سے سرشار بھی۔انجم
Jan
16
مبارک حیدر صاحب کا نام سب سے پہلے اجمل کمال صاحب سے سنا تھا۔بعد ازاں وہ جب میری درخواست پر ریختہ
کے دفتر تشریف الئےتوزمرد مغل نے وہاں بھی ان کا ایک انٹرویو لیا جو کہ یوٹیوب پر اب بھی موجود ہے۔انٹرویو کے
بعد بھی ان سے کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ان کی کتاب 'تہذیبی نرگسیت'مسلمانوں کی ذہنی پختگی کو ایک الگ
زاویے سے دیکھتی ہے۔ان کے خیاالت معتدل ہیں اور وہ سسٹم کے درمیان رہ کر اسے درست بنانے کے قائل ہیں۔میں ان
کا شکرگزار ہوں کہ اپنی دیگر مصروفیات کے باوجود انہوں نے میرے لیے وقت نکاال اور ان سوالوں کے
Jan
15
ظفر سیدایک متحرک اور فعال ادیب ہیں اور بی بی سی ورلڈ سروس سے وابستہ اہم صحافی بھی۔وہ شاعری بھی کرتے
ہیں اور انہوں نے ایک ناول'آدھی رات کا سورج'کے عنوان سے بھی لکھا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ فیس بک کیا ،انٹرنیٹ
پر بھی ظفر سید سے پہلے کسی شخص نے نئی نظم یا اردو شاعری کے حوالے سے اتنے کارآمد مباحث قائم نہیں
کروائے ہونگے ،جیسے کہ انہوں نے اپنے ایک ادبی گروپ'حاشیہ 'میں کروائے۔حاشیہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا
جاسکتا ہے کہ اس کی بحث میں نہ صرف محمد حمید شاہد ،ناصر عباس نیراور علی محمد فرشی جیسے اہم ناقد
Jan
13
احمد جاوید سے دس سواالت
احمد جاوید اردو کے اہم افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں کا کرافٹ مجھے بے حد پسند ہے۔ان کی کہانیوں کے مختلف
مجموعے شائع ہوئے ہیں ،جن میں غیرعالمتی کہانی ،چڑیا گھروغیرہ جیسے اہم مجموعے شامل ہیں۔میں نے ان کی
جتنی کہانیاں پڑھی ہیں ،سب کی سب مجھے پسند آئی ہیں۔وہ ایک سنجیدہ افسانہ نگار ہیں ،ان کی باتوں ،ان کی کہانیوں
اور ان کے مزاج سے خالص ادبی سنجیدگی جھلکتی ہے۔اس انٹرویو کے ذریعے انہوں نے میرے سوالوں کے جواب دے
کر اپنے افسانے ،اردو افسانے ،افسانے کا حکایتی اسلوب اور افسانے کی تنقید پر تو اہم روشنی ڈال
3
Jan
12
دہلی کی شعری نشست میں جو کہ مستو گورو شریواستو کے یہاں رکھی گئی تھی ،مجھے ایک لڑکے کی نظموں نے
چونکایا ،چونکہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو چونکانے کو غیر ادبی تصور کرتے ہیں ،چنانچہ بعد میں اس سے
دوستی کی اور اس کی اور نظمیں بھی سنیں۔میرے اس نئے دوست کا نام 'ونیت راجا'ہے۔ونیت کی نظمیں میں نے ایک
دفعہ اس سے بہت ضد کرکے اپنے میل پر منگوائی تھیں ،وہ بے حد کم گو ہے۔اردو کا شاعر ہے اور اس کی نظموں کی
تکنیک یہ ہے کہ مختصر نظمیں لکھتا ہے ،تقریبا چار ،پانچ ،سات سطروں کی ،اور ان میں زندگی میں ہونے والے
Jan
11
انور سن رائے ایک اہم ادیب اور صحافی ہیں ،اس انٹرویو سے مجھ پر کھال کہ وہ مصور بھی ہیں۔جنگ اور بی بی
جیسے بڑے صحافتی اداروں سے وابستہ ہیں۔وہ اپنے ایک ناول'چیخ' کی وجہ سے بھی مشہور ہیں ،لیکن چونکہ میں نے
اب تک یہ ناول نہیں پڑھا ہے ،اس لیے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا۔وہ بہترین نثری نظمیں بھی لکھتے
ہیں۔انہوں نے وقت نکال کر میرے بالگ کے لیے ان دس سوالوں کے جواب دیے ،اس کے لیے میں ان کا بے حد
شکرگزار ہوں۔اس مکالمے میں انہوں نے تخلیق ،اردو ادب ،صحافت کے باریک معامالت اور بہت سے اہم معامالت پر
ر
Jan
10
یاسمین حمید اردو کے ادبی حلقے کا ایک معتبر نام ہیں۔وہ اچھی شاعربھی ہیں اور مترجم بھی۔’شاعرہ‘ کے بجائے
’شاعر‘ کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ تخلیقی قوت کوتقسیم کرنے والی اس ہائے ہوز کا استعمال وہ بھی
ٹھیک نہیں سمجھتی ہیں۔ان کا شعری کلیات ’دوسری زندگی‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے ۔انہوں نے اردو شاعری
خصوصا نظموں کا ایک انتخاب اور اس کا انگریزی ترجمہ کیا ہے جو آکسفورڈ پریس سے شائع ہوا ہے۔اس مکالمے میں
انہوں نے بہت سی اہم باتوں پر روشنی ڈالی ہے۔کئی اہم نکتوں کی جانب دھیان دلوایا ہے۔امید ہ
Jan
9
شامل شمس ایک معروف صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ شاعربھی ہیں ،اس طرح صحافت اور ادب دونوں سے براہ راست
ان کا تعلق ہے۔بے حد مصروف اور صاف گو شخص ہیں ،میری گزارش پر وہ اس انٹرویو کے لیے تیار ہوئے اس کے
لیے میں ان کا اور پیرزادہ سلمان کا شکرگزار ہوں۔شامل شمس کا بنیادی تعلق کراچی سے ہے۔فی الحال جرمنی کے شہر
بون میں ڈوئچے ویلے(وائس آف جرمنی)کے انگریزی شعبے سے منسلک ہیں۔پاکستان میں 'دی نیوز'اخبارسے وابستہ
رہے اور اسالم آباد میں تحقیقی ادارے 'ایس ڈی پی آئی'کے لیے سن دوہزار چار سے دوہزار سات تک کام کیا۔پہلے کر
Jan
8
یاسرجواد بطور ترجمہ نگار ایک مشہور نام ہے۔ انہوں نے بہت اہم کتابوں کو اردو زبان میں قارئین تک پہنچایا ہے ،جن
میں سائمن دی بووا کی 'سیکنڈ سیکس'کا مکمل ترجمہ ،کافکاکا 'دی ٹرائل' ،اوباما کی آپ بیتی اور بہت سی دیگر اہم
کتابیں شامل ہیں۔جن میں مذہبی ،سماجی ،سیاسی اور فلسفیانہ نوعیت کی کتابیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ترجمے کی
روایت پر اردو ووالوں کو اس وقت بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے ،کیونکہ یہی ایک ایسا کام ہے ،جس میں 'ادبی
خدمت'کا پہلو کم ہے ،یہ ایک منافع بخش کام بھی ہوسکتا ہے ،بس ضرورت ہے تو اس کو ب
Jan
7
محمد یامین ایک باصالحیت اور اہم نظم نگار ہیں۔ان کی نظم میں نے پہلی بار حاشیہ پر پڑھی تھی ،اس کے بعد ان کی
کتاب 'دھوپ کا لباس'پڑھنے کاموقع مال-مجھے ان کی نظمیں پسند ہیں ،نظریاتی طور پر اتفاق و اختالف اپنی جگہ مگر
فنی اعتبار سے ان کی نظمیں بے حد پختہ ہیں۔نئی نظم کےحوالے سے محمد یامین کا نام اب ایک معتبر حوالہ ہے۔اس
مکالمے میں انہوں نے نثری نظم ،آزاد نظم ،غزل ،تشبیہ ،عالمت ،استعارے اور دوسرے بہت سے اہم موضوعات پر
گفتگو کی ہے۔امید ہے کہ یہ دس سوال و جواب آپ کو ضرور پسند آئیں گے۔
Jan
5
عرفان ستار کی تازہ ترین 43غزلوں کا انتخاب آپ کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔جلد ہی ان کی غزلوں کا ایک اور انتخاب
ان کے مجموعے'تکرارساعت'سے بھی اس بالگ پرآجائے گا۔عرفان ستاراردو شاعری میں واقعی اپنی ایک الگ پہچان
رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں کا رنگ ڈھنگ ،لہجہ سب کچھ بالکل الگ ہے۔ان کی غزلوں پر میں جلد ہی ایک طویل تنقیدی
مضمون لکھنے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں ،میں یہ جان کر حیران ہوا ہوں کہ ان کے مجموعے کے بعد ان کی غزلوں کا کل
سرمایہ محض یہ 43غزلیں ہیں۔اس سے احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنا سنبھل کر شعر کہتے ہیں۔مگر ا
Jan
4
عارفہ شہزاد کی تحریروں سے میرا تعارف حاشیہ نام کے اسی ادبی فورم پر ہوا تھا ،جس پر نئی نظم کی تفہیم کا سلسلہ
ظفر سید کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔وہ پاکستان کی نئی نسل کی ایک اہم ناقد اور شاعرہ ہیں۔ان کی ایک تنقیدی
جدید اردو شاعری میں کرداری نظمیں 'کے عنوان سے شائع ہوئی ہے ،گو ابھی شاعری کا کوئی مجموعہ شائع 'کتاب
نہیں ہوا ہے ،مگر ان کی نظمیں رسائل اور انٹرنیٹ کے توسط سے پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔وہ غزل بھی کہتی ہیں اور
نظم بھی۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی ،الہور میں بطور لکچرر اپنے فرائض انجام دے رہی ہی
Jan
3
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان پر موجود کچھ بہت ہی اہم کتابوں کی فہرست درج ذیل ہیں ،ان میں ادبی موضوعات
پر کتابیں نہیں ہیں ،بلکہ اس بار تاریخ ،فلسفہ اور نفسیات کے موضوعات پر لکھی ہوئی اہم کتابوں کو بہم کرانے کی
کوشش کی گئی ہے۔ ان کتابوں میں جامع تاریخ ہند ،قدیم ہندوستان کی تاریخ ،شہیدان آزادی کی دو جلدیں اور مشیر الحسن
کی تصنیف 'جان کمپنی سے جمہوریہ تک'شامل ہیں۔فلسفہ کے موضوع پر قدیم ہندی فلسفہ ،سگمنڈ فرائڈ کی کتاب تحلیل
نفسی کا اجمالی خاکہ اور ایمانوئل کانٹ کی کتاب تنقید عقل محض موجود ہے۔یہ
4
Jan
2
ذکیہ مشہدی کے نام اور کام سے کون واقف نہیں۔ان کی کہانیوں کو بہت سے اہم لکھنے پڑھنے والے پسند کرتے ہیں ،ان
سے میری بات سب سے پہلے ان کی کتابیں حاصل کرنے کے لیے فون پر ہوئی تھی ،بے حد مشفق اور صاف گو خاتون
ہیں۔انٹرنیٹ سے کوئی خاص وابستگی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے میرے بالگ کے لیے ان سوالوں کے جوابات دیے
،اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ان کی کہانیوں کے مجموعے’پرائے چہرے‘’ ،تاریک راہوں کے مسافر‘’،نقش
ناتمام‘ اور صدائے بازگشت‘ اب تک شائع ہوچکے ہیں۔امید ہے کہ یہ مکالمہ آپ کو پسند آئے گا۔
تصنیف حید
Jan
1
نئی دنیا اور اردو کی ترقی کے نئے وسائل
اردو زبان کے بارے میں جو یہ تصور ہے کہ اس میں اب کوئی کیریر بنانا آسان نہیں ،اس کو پڑھ کر اسے سیکھ کر
بچوں کا کوئی بہتر مستقبل نہیں بن سکتا ۔کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ اردو کی دنیا اتنی سمٹی سمٹائی ہوئی کیوں
ہے۔آخر بغیر کسی سرکاری مدد کے ہم ہی لوگ مل کر کسی ایسے ادارے کی بنیاد کیوں نہیں رکھتے،جس میں چاہے
شروعات میں دس لوگ محنت سے کام کریں ،مگر پھر اسے دھیرے دھیرے دس سے بیس ،بیس سے چالیس اور چالیس
سے سو،دوسو،ہزار تک کے اسٹاف تک پہنچادیں۔جس میں کام کرنے والے ،جس کو آگے بڑھانے والے ،جس کے لیے
فکر
1
Dec
31
انٹرنیٹ پر بہت ہی اچھی اور قیمتی کتابیں دستیاب ہیں ،جنہیں بہ آسانی ڈائونلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔مگر بہت سے لوگ
اس اہم ذخیرے تک پہنچ نہیں پاتے۔ ان کی سہولت کے لیے 'قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان'کی ویب سائٹ پر
کتابوں کی فہرست یہاں دی جارہی ہے۔جسے ضرورت ہو ،بہ آسانی نام پر کلک کرکے کتاب کو ڈائونلوڈ موجود اہم
کرسکتا ہے۔یہ پچاس کتابوں کی فہرست ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ مہینے میں دو یا تین بارآپ کو ایسی فہرستیں فراہم
کراسکوں۔ کتابیں تو ہیں ،مگر نظام اتنا گڑبڑ ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی کتاب کہاں ہے
Dec
30
سید کاشف رضا ایک بے حد عمدہ شاعر ہیں ،بہترین ترجمہ نگار ہیں اور ایک صحافی کی حیثیت سے بھی اپنی پیشہ
ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کی تخلیقی صالحیتوں کی جانب میرا دھیان زمرد مغل نے دلوایا تھا۔جب میں نے
انہیں پڑھاتو واقعی بے حد متاثر ہوا۔ان کے اب تک دو شعری مجموعے ’محبت کا محل وقوع‘ اور ’ممنوع موسموں کی
کتاب‘اب تک شائع ہوچکے ہیں۔نوم چومسکی ،میالن کنڈیرااور بورخیس میں ان کی دلچسپی ان کے تراجم سے ثابت
’A case of exploding mangoeہے۔اس کے عالوہ پاکستان کے ماےۂ ناز انگریزی ناول نگار محمد حنیف کے ناول
Dec
28
علی محمد فرشی ایک اہم ادیب ،شاعر اور مدیرہیں۔ان کی شاعری بے حد توجہ چاہتی ہے۔ایک طویل نظم'علینہ'تخلیقی
حوالے سے ان کی شناخت کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوئی۔سمبل کا ایک شمارہ میں نے سب سے پہلے تب دیکھا تھا جب
معید رشیدی کا ایک مضمون'عروض ،معروض اور نئی بوطیقا'اس میں شائع ہوا تھا۔اس کے بعد مجھے فرشی صاحب
سے کئی بار بات کرنے کی خواہش ہوئی ،الغرض ظفر سید کے بنائے گئے معیاری ادبی گروپ حاشیہ کے ذریعے میری
ان سے بات ہوئی۔سمبل کو اردو ادب کے چنندہ معیاری اور اہم ترین رسائل میں سے ایک قرار دینا شاید غلط نہ ہو
Dec
27
زبان کو مذہبی رنگ دراصل اس کے بولنے اور پڑھنے والے کم اور اس سے سیاسی فائدے حاصل کرنے والے زیادہ
دیتے ہیں ،لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہی بولنے اور پڑھنے والے لوگ بے حد 'معصوم' بھی ہوتے ہیں ،جنہیں اپنی
ہی شناخت کے حوالے دے کر وطن ،رنگ ،نسل اور مذہب کے نام پر بس مارا جاتا ہے ،پیسا جاتا ہے اور برباد کیا جاتا
ہے ،اور یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی۔ ادب کے نام پر بھی جب لوگوں کو مستقل ٹھگا جانے لگے اور لکھنے والے
ہاتھ زمین پر فساد پھیالنے میں اہم کردار ادا کرنے لگیں تو کم از کم منہ میں زبان رکھنے وا
Dec
26
101
Dec
26
چرکین کی ساری غزلیں :حصہ2-
51
موت اس