You are on page 1of 7

‫نظام شمسی‬

‫نظام شمسی سورج اور ان تمام اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں‬
‫جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی ثقلی گرفت میں ہیں۔ اس‬
‫میں ‪ 8‬سیارے‪ ،‬ان کے ‪ 162‬معلوم چاند‪ 3 ،‬شناخت شدہ بونے‬
‫سیارے(بشمول پلوٹو)‪ ،‬ان کے ‪ 4‬معلوم چاند اور کروڑوں دوسرے‬
‫چھوٹے اجرام فلکی شامل ہیں۔ اس آخری زمرے میں سیارچے‪ ،‬کوئپر‬
‫پٹی کے اجسام‪ ،‬دم دار سیارے‪ ،‬شہاب ثاقب اور بین السیاروی گرد شامل‬
‫ہیں۔‬
‫عام مفہوم میں نظام شمسی کا اچھی طرح معلوم ( مرسوم ‪)charted /‬‬
‫حصہ سورج‪ ،‬چار اندرونی سیاروں‪ ،‬سیارچوں‪ ،‬چار بیرونی سیاروں اور‬
‫کوئپر پٹی پر مشتمل ہے۔ کوئپر پٹی سے پرے کے کافی اجسام بھی نظام‬
‫شمسی کا ہی حصہ تسلیم کئے جاتے ہیں۔‬
‫سورج سے فاصلے کے اعتبار سے سیاروں کی ترتیب یہ ہے‪ :‬عطارد‪،‬‬
‫زہرہ‪ ،‬زمین‪ ،‬مریخ‪ ،‬مشتری‪ ،‬زحل‪ ،‬یورینس اور نیپچون۔ ان میں سے چھ‬
‫سیاروں کے گرد ان کے اپنے چھوٹے سیارے گردش کرتے ہیں جنہیں‬
‫زمین کے چاند کی مناسبت سے چاند ہی کہا جاتا ہے۔ چار بیرونی‬
‫سیاروں کے گرد چھوٹے چٹانی اجسام‪ ،‬ذرات اور گردوغبار حلقوں کی‬
‫شکل میں گردش کرتے ہیں۔ تین بونے سیاروں میں پلوٹو‪ ،‬کوئپر پٹی کا‬
‫سب سے بڑا معلوم جسم؛ سیرس‪ ،‬سیارچوں کے پٹی کا سب سے بڑا‬
‫جسم؛ اور ارس‪ ،‬جو کہ کوئپر پٹی سے پرے واقع ہے؛ شامل ہیں۔ پلوٹو‬
‫کو ‪ 2006‬میں سیارے کے درجہ سے معزول کر دیا گیا۔ دیکھیں۔ پلوٹو‬
‫کا نظام شمسی سے اخراج‬
‫سورج‬
‫سورج نظام شمسی کا مرکزی ستارہ اور اس کا سب سے اہم حصہ ہے۔‬
‫یہ کمیت میں زمین کی نسبت ‪ 332,946‬گنا بڑا ہے۔ اس کی بھاری کمیت‬
‫اسے اتنی اندرونی کثافت فراہم کرتی ہے جس سے اس کے مرکز میں‬
‫مرکزی ائتالف(‪ )nuclear fusion‬کا عمل ہو سکے۔ مرکزی ائتالف کے‬
‫نتیجے میں بہت بڑی مقدار میں توانائی پیدا ہوتی ہے جس کا زیادہ تر‬
‫حصہ برقناطیسی لہروں (‪ )electromagnetic radiations‬اور روشنی‬
‫کی شکل میں خال میں بکھر جاتا ہے‬

‫ویسے تو ماہرین فلکیات سورج کو ایک درمیانی جسامت کا زرد بونا‬


‫ستارہ شمار کرتے ہیں‪ ،‬لیکن یہ درجہ بندی کچھ گمراہ کن ہے‪ ،‬کیونکہ‬
‫ہماری کہکشاں کے دوسرے ستاروں کے مقابلے میں سورج نسبتا ً بڑا‬
‫اور چمکدار ہے۔ ستاروں کی درجہ بندی ہرٹزپرنگ‪-‬رسل‬
‫نقشے(‪ )Hertzsprung-Russell diagram‬کے مطابق کی جاتی ہے۔‬
‫اس گراف میں ستاروں کی چمک کو انکے سطحی درجہ حرارت کے‬
‫مقابل درج (‪ )plot‬کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر زیادہ گرم ستارے زیادہ‬
‫چمکدار ہوتے ہیں۔ اس عمومی خصوصیت کے حامل ستاروں کو رئیسی‬
‫متوالیہ (‪ )main sequance‬ستارے کہتے ہیں اور سورج بھی اسی‬
‫زمرے میں آتا ہے۔ لیکن سورج سے زیادہ گرم اور چمکدار ستارے بہت‬
‫کمیاب ہیں جبکہ سورج سے مدھم اور ٹھنڈے ستارے عام ہیں۔‬
‫سائنسدانوں کا خیال ہے کے اس وقت سورج اپنی زندگی کے عروج پر‬
‫ہے اور ابھی اس میں جالنے کے لئے بہت ایندھن باقی ہے۔ وقت‬
‫گزرنے کے ساتھ سورج کی چمک میں اضافہ ہو رہا ہے؛ ابتدا میں‬
‫سورج کی چمک اس کی موجودہ چمک کا صرف ‪ 75‬فیصد تھی۔‬
‫سورج میں ہائڈروجن اور ہیلیم کے تناسب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ابھی‬
‫اپنی عمر کے درمیانی حصے میں ہے۔ وقت کے ساتھ سورج کی‬
‫جسامت اور چمک میں اضافہ ہوتا جائے گا‪ ،‬اس کا درجہ حرارت کم ہوتا‬
‫جائے گا اور رنگت سرخی مائل ہوتی جائے گی۔ تقریباًًً ‪ 5‬ارب سال‬
‫میں سورج ایک سرخ جن (‪ )giant‬بن جائے گا۔ اس وقت سورج کی‬
‫چمک اس کی موجودہ چمک سے کئی ہزار گنا زیادہ ہو گی‬

‫سورج اول آبادی (‪ )population I‬کا ستارہ ہے؛ یہ کائناتی ارتقاء کے‬
‫بہت بعد کے مراحل میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی ساخت میں دوئم آبادی‬
‫(‪ )population II‬کے ستاروں کی نسبت بھاری عناصر کی مقدار زیادہ‬
‫ہے۔ ان بھاری عناصر کو فلکیات کی زبان میں دھاتیں کہتے ہیں گو کہ‬
‫علم کیمیا میں دھات کی تعریف اس سے مختلف ہے۔ ہائڈروجن اور ہیلیم‬
‫سے بھاری عناصر قدیم پھٹنے والے ستاروں کے مرکز میں بنے تھے؛‬
‫اس لئے کائنات میں ان عناصر کی موجودگی کے لئے ستاروں کی پہلی‬
‫نسل (‪ )generation‬کا مرنا ضروری تھا۔ قدیم ترین ستاروں میں دھاتوں‬
‫کی بہت کم مقدار پائی جاتی ہے جبکہ نئے ستاروں میں ان کی مقدار‬
‫زیادہ ہے۔ ماہرین فلکیات کے خیال میں سورج کی اونچی دھاتیت اس‬
‫کے گرد سیاروں کی تشکیل کے لئے انتہائی اہم تھی کیونکہ سیارے‬
‫دھاتوں کے ارتکام (‪ )accretion‬سے ہی بنے ہیں۔‬

‫عطارد‬
‫عطارد نظام شمسی کا سب سے چھوٹا (‪ 0.055‬کمیت ارضی) اور سورج‬
‫سے قریب ترین (‪ )AU 0.4‬سیارہ ہے۔ عطارد کا کوئی چاند نہیں اور‬
‫اس کا معمولی کرہ فضا زیادہ تر ان ایٹموں پر مشتمل ہے جو باد شمسی‬
‫اس کی سطح پر سے اڑاتی ہے۔‬
‫زہرہ‬
‫زہرہ حجم میں تقریبا ً زمین کے برابر ہی ہے(‪ 0.815‬کمیت‬
‫ارضی)۔ زمین کی طرح اس کا مرکز بھی فوالدی ہے جس کے‬
‫گرد ایک موٹی مینٹل کی تہ ہے جو سلیکیٹ کی بنی ہے۔ زہرہ پر‬
‫اچھا خاصا کرہ فضا بھی موجود ہے۔ زہرہ کا موسم خشک اور‬
‫فضا زمین کی نسبت نوے گنا زیادہ کثیف ہے۔ اس کی سطح پر‬
‫اندرونی ارضیاتی فاعلیہ (‪ )geological activity‬کے بہت سے‬
‫آثار جیسے کہ آتش فشاں پہاڑ اور کہائیاں پائی جاتی ہیں۔ زہرہ کا‬
‫کوئی بھی چاند نہیں ہے اور پورے نظام شمسی میں یہ سب سے‬
‫گرم سیارہ ہے۔ اس کی سطح پر درجۂ حرارت اکثر ‪ 400‬درجۂ صد‬
‫(‪ )centigrade‬سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس گرمی کی وجہ غالبا ً‬
‫اس کی کثیف فضا اور اس میں موجود دفیئہ یا حبس المکاں‬
‫(‪ )Green House‬گیسیں ہیں۔‬

‫زمین‬
‫زمین اندرونی سیاروں میں سب سے بڑا اور کثیف سیارہ ہے۔‬
‫اندرونی سیاروں میں یہ واحد سیارہ ہے جس پر اب بھی ارضیاتی‬
‫عمل ہو رہا ہے اور جس پر زندگی پائی جاتی ہے۔ اس کا مائع کرہ‬
‫آبی تمام سیاروں میں یکتا ہے اور صرف زمین پر ساخت الطبقات‬
‫(‪ )Plate Tectonics‬دیکھنے کو ملتی ہیں۔ زمین کی فضا بھی‬
‫باقی سب سیاروں سے بہت مختلف ہے؛ اس پر موجود جانوروں‪،‬‬
‫پودوں اور خوردہ حیات نے فضا میں ‪ 21%‬فیصد آزاد آکسیجن پیدا‬
‫کر دی ہے جو کسی اور سیارے پر نہیں پائی جاتی۔ زمین کا ایک‬
‫چاند بھی ہے جو باقی اندرونی سیاروں کے چاندوں سے بڑا ہے۔‬
‫مریخ‬
‫مریخ زمین اور زہرہ دونوں سے چھوٹا ہے (‪ 0.107‬کمیت‬
‫ارضی)۔ اس کی فضا کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے۔ اس کی‬
‫سطح پر بڑی تعداد میں آتش فشاں پہاڑ جیسے ‪Olympus Mons‬‬
‫اور کھائی نما وادیاں جیسے ‪ Valles Marineris‬پائی جاتی ہیں‬
‫جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے ماضی قریب کے زمانے تک اس پر‬
‫ارضیاتی فاعلیہ (‪ )geological activity‬ہوتے رہے ہیں۔ مریخ‬
‫کے دو بہت ہی چھوٹے چھوٹے چاند (‪ Demios‬اور ‪)Phobos‬‬
‫ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دراصل سیارچے ہیں جو مریخ کے‬
‫بہت قریب سے گزرتے ہوئے اس کی گرفت میں آگئے ہیں۔‬

‫مشتری‬
‫مشتری نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔ یہ زمین سے ‪318‬‬
‫گنا بھاری ہے اور سورج سے ‪ 5.2‬فلکیاتی اکائی (‪ )AU‬کے‬
‫فاصلے پر ہے۔ اس کی ساخت زیادہ تر ہائڈروجن اور ہیلیم پر‬
‫مشتمل ہے۔ مشتری کی اندرونی حرارت کی وجہ سے اس کی‬
‫فضاء میں کچھ تقریبا ً مستقل خصوصیات پیدا ہو گئی ہیں‪ ،‬جیسے‬
‫کہ بادلوں کے جمگھٹے اور عظیم سرخ نشان۔ مشتری کے تریسٹھ‬
‫چاند ہیں۔ ان میں سے چار بڑے چاند‪ ،‬گینیمیڈ‪ ،‬کالیسٹو‪ ،‬آئی او اور‬
‫یوروپا بہت سی ایسی خصوصیات کے حامل ہیں جو اندرونی‬
‫سیاروں میں پائی جاتی ہیں؛ مثالً آتش فشانی اور اندرونی حرارت۔‬
‫گینیمیڈ‪ ،‬جو نظام شمسی میں سب سے بڑا چاند ہے‪ ،‬حجم میں‬
‫عطارد سے بھی بڑا ہے۔‬
‫زحل‬
‫نظام شمسی کا چھٹا سیارہ زحل اپنے بکثرت حلقوں کے لیئے‬
‫مشہور ہے۔ زحل سورج سے ‪ 9.5‬فلکیاتی اکائی (‪ )AU‬کے‬
‫فاصلے پر ہے اور زمین سے ‪ 95‬گنا بھاری ہے۔ یہ اپنی سطح اور‬
‫فضاء کی ساخت میں مشتری سے کافی مماثلت رکھتا ہے گو کہ‬
‫اس کی نسبت کافی ہلکا ہے۔ زحل کے چھپن چاند ہیں جن میں سے‬
‫دو‪ ،‬ٹائیٹن اور انکالڈس‪ ،‬ارضیاتی فاعلیہ کا مظاہرہ کرتے ہیں‬
‫اگرچہ کہ یہ زیادہ تر برف سے بنے ہیں۔ ٹائیٹن حجم میں عطارد‬
‫سے بھی بڑا ہے اور نظام شمسی کا واحد چاند ہے جس پر خاطر‬
‫خواہ کرہ فضاء موجود ہے۔‬

‫یورینس‬
‫یورینس سورج سے ‪ 19.6‬فلکیاتی اکائی (‪ )AU‬کے فاصلے پر ہے‬
‫اور زمین سے ‪ 14‬گنا بھاری ہے۔ یہ چاروں بیرونی سیاروں میں‬
‫سے سب سے کم کمیت کا حامل ہے۔ یورینس کی ایک منفرد بات‬
‫اس کے محور کا اس کے مدار سے انتہائی ترچھا زاویہ ہے۔ اس کا‬
‫محور سورج کے گرد اس کے مدار سے ‪ 98‬درجے کا زاویہ بناتا‬
‫ہے۔ اس منفرد زاویے کی وجہ سے یورینس پر دن اور رات کی‬
‫تشکیل باقی سب سیاروں کی نسبت بالکل مختلف ہے۔ اس کے‬
‫قطبین پر بھی یورینسی سال میں ایک بار سورج عین سر پر آجاتا‬
‫ہے اور لمبے عرصے تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا۔ اس کا مرکز‬
‫باقی گیسی جنات سیاروں کی نسبت ٹھنڈا ہے اور اس سے بہت کم‬
‫حرارت خال میں خارج ہوتی ہے۔ یورینس کے ‪ 27‬چاند ہیں جن میں‬
‫سے سب سے بڑے ٹیٹانیہ‪ ،‬اوبیرون‪ ،‬امبریل‪ ،‬ایریل اور میرانڈہ ہیں‬
‫نیپچون‬
‫نیپچون سورج سے ‪ 30‬فلکیاتی اکائی (‪ )AU‬کے فاصلے پر ہے‬
‫اور زمین سے ‪ 17‬گنا بھاری ہے۔ یہ حجم میں یورینس سے چھوٹا‬
‫مگر اس سے زیادہ کثیف ہے۔ یہ یورینس سے زیادہ حرارت بھی‬
‫خارج کرتا ہے لیکن مشتری اور زحل کی نسبت اس کی حرارت کا‬
‫اخراج کہیں کم ہے۔ نیپچون کے تیرہ چاند ہیں۔ ان میں سب سے‬
‫بڑا‪ ،‬ٹرائیٹن‪ ،‬ارضیاتی طور پر فعال ہے اور اس پر مائع نائٹروجن‬
‫کے ‪ geysers‬پائے جاتے ہیں۔ ٹرائیٹن نظام شمسی میں واحد بڑا‬
‫چاند ہے جو اپنے سیارے کے گرد گھڑی وار سمت میں گردش‬
‫کرتا ہے اور اس وجہ سے ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ نیپچون‬
‫کا یہ چاند نظام شمسی کی ابتدا سے نیپچون کے گرد گردش نہیں‬
‫کر رہا بلکہ یہ ایک سیارچہ ہے جو نیپچون کے قریب سے گزرتے‬
‫ہؤے اس کی گرفت ثقل میں آگیا ہے۔ نیپچون کے مدار میں کچھ‬
‫دوسرے چھوٹے سیارے بھی گردش کرتے ہیں جنہیں نیپچون‬
‫‪ Trojans‬کہا جاتا ہے۔‬

You might also like