Professional Documents
Culture Documents
حافظ عبداللہ محدث روپڑی
حافظ عبداللہ محدث روپڑی
آبائی وطن "کمیر پور"ضلع امرتسر ہے۔1304ھ میں پیدا ہوئے اور 1384ھ مطابق 1964ء وفات پائی۔کل
عمر 80سال حیات رہے۔راقم الحروف ان سطور میں صرف ان کی علمی زندگی اور دینی خدمات کے
متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔
تعلیم کا آغاز:۔
حافظ صاحب کے والد ماجد میاں روشن دین اکثر علماء کی صحبت میں بیٹھے اور علم دین کے شوق میں
قریہ"لکھو کے"(ضلع فیروز پور مشرقی پنجاب ہند) حافظ محمد صاحب لکھوی کے پاس پہنچ گئے۔اور
چاہتے تھے کہ اوالد بھی علم دین کے زیور سے آراستہ ہوجائے۔چنانچہ انہوں نے اپنے بڑے لڑکے رکن
دین اور مولوی رحیم بخش،حافظ عبدہللا،مولوی عبدالواحد سب کو علم دین کے حصول پر لگادیا۔مگر ان کی
اوالد میں سے تعلیمی لحاظ سے صرف دو بھائیوں نے دینی امتیاز حاصل کیا یعنی حافظ عبدہللا صاحب اور
حافظ محمد حسین صاحب امرتسری۔۔۔
"لکھو کے"
حافظ صاحب نے ابتدائی تعلیم قریہ"لکھو کے" پہنچ کر موالنا عبدالقادر بن محمد شریف بن بارک ہللا لکھوی
اور حافظ محمد کے صاحبزادے موالنا محمد حسین لکھوی(1365ھ) سے حاصل کی۔چنانچہ ان دونوں سے
صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔پھر ا پنے بھائی رکن الدین کے ساتھ میرٹھ۔۔۔مدرسہ نعمانیہ میں چلے
گئے ایک سال وہاں قیام کیا اور صرف ونحو کی متوسطات پڑھ لیں پھر واپس آکر مدرسہ غزنویہ امرتسر
میں داخل ہوگئے۔
پنجاب میں اہل حدیث کے یہ دو مدرسے تھے ،جن سے جماعت اہلحدیث کو فیض پہنچ رہاتھا اور طلبہ زیادہ
تر انہی دو مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتےتھے۔راقم الحروف باوجود انتہائی خواہش اور آرزو کے ان
دونوں مدرسوں کے فیض سے محروم رہا۔نہ"لکھو کے" جا کر صرف ونحو کادرس لے سکا اور نہ
امرتسر پہنچ کر"مدرسہ غزنویہ" سے روحانی فیض حاصل کرنے کاموقع مال۔
مدرسہ غزنویہ میں اُس وقت امام عبدالجبار غزنوی رحمۃ ہللا علیہ حدیث پڑھا رہے تھے جنھوں نے حدیث
کی سند سید نزیر حسین دہلوی رحمۃ ہللا علیہ سے حاصل کی تھی اور روحانی فیض ا پنے والد ماجد امام
عبدہللا سے حاصل کیا تھا۔عالوہ ازیں غزنویہ میں فنون وفقہ کے لیے دوسرے مدرسین بھی تدریس کررہے
تھے۔جن میں مولوی معصوم علی ہزاروی محی الدین صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
حافظ صاحب نے حدیث امام عبدالجبار سے پڑھی اور صرف ونحو ،فقہ،اصول فقہ مولوی معصوم علی
ہزاروی اور مولوی محی الدین وغیرہ سے پڑھیں۔اصول فقہ میں آپ کے استاد مولوی عبدالصمد تھے۔
اس کے ساتھ ہی مدرسہ نعمانیہ امرتسرمیں بھی کتب فلسفہ "میبذی" وغیرہ پڑھتے رہے،مگر تفسیر وحدیث
امام عبدالجبار غزنوی اور کچھ کتابیں مولوی عبداالول غزنوی سے پڑھیں جبکہ سند ،فراغت امام عبدالجبار
ہی سے حاصل کی۔
امام عبدالجبار رحمۃ ہللا علیہ حافظ عبدہللا صاحب پر بہت اعتماد کرتے۔تاہم تکمیل علم کی اجازت لے
کر1910ء کو دہلی پہنچ گئے۔مگر ان کے پہنچنے سے پہلے حضرت میاں صاحب 1902ء کو فوت ہوچکے
تھے۔لہذا حافظ مذکور نے منطق وفلسفہ کی تکمیل کے لیے حافظ عبدہللا غازی پوری رحمۃ ہللا علیہ کے
سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔اور مولوی محمد اسحاق منطق دہلوی سے اقلیدس اور بجز بعض غیر درسی
کتابیں پڑھیں۔
اسی اثناء میں1913ء کو امام عبدالجبار بھی وفات پاگئے۔حافظ صاحب اس صدمے سے بھی دو چار ہوئے
مگر تکمیل علم کے سفر کوجاری رکھا اور ریاست"رام پور" پہنچ کر "مدرسہ عالیہ" میں داخلہ لے لیا اور
ایک سال کی محنت سے"مولوی فاضل" اور درس نظامی کی سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
مدرسہ عالیہ" رام پور میں اس وقت مولوی محمدامین رامپوری اور فضل حق رامپوری(1278۔۔۔1358ھ) "
مدرس تھے اور یہ دونوں منطق وفلسفہ میں بہت الئق اساتذہ مانے جاتے تھے۔
مولوی فضل حق رامپوری،موالنا عبدالحق رامپوری کے خلف تھے اور علوم حکمیہ میں ممتاز حیثیت
رکھتے تھے۔انہوں نے علوم حکمیہ مفتی لطف ہللا علی گڑھی سے حاصل کئے تھے اور قدماء کی تالیفات
مولوی ہدایت علی بریلوی سے اخذ کی تھیں اور"بریلی" میں "مدرسہ طالیہ" میں مدرس رہے تھے۔ پھر
کچھ مدت"مدرسہ عالیہ" رام پور میں درس دیتے رہے۔اس اثناء میں منطق وفلسفہ عالمہ عبدالحق بن فضل
حق خیر آبادی سے پڑھا تھا اور مدرسہ سلیمانیہ بھوپال پہنچ کر حدیث کی سند الشیخ المحدث حسین بن
محسن انصاری سے حاصل کی تھی۔جبکہ حسین بن محسن کا سلسلہ سند امام شوکانی سے متصل ہوجاتا
ہے۔اس لحاظ سے یہ سند عالی ہوجاتی ہے۔
موالنا فضل حق رام پوری دوبارہ صدر کی حیثیت سے مدرسہ عالیہ رامپور آجاتے ہیں تو حافظ عبدہللا
صاحب نے اسی زمانہ میں ان سے سند فضیلت حاصل کی ہے۔ اس لحاظ سے حافظ عبدہللا صاحب کی یہ
سند حافظ عبدالمنان وزیر آبادی کے برابر ہوجاتی ہے۔ اور آپ میاں صاحب کے براہ راست تالمذہ کے
برابر ہوجاتے ہیں۔ فضل حق رامپوری بعض کتب وحواشی کے مولف بھی ہیں"اصول فقہ کی"تلویح" پر ان
کے حواشی ہیں اور افضل التحقیقات فی مسئلہ الصفات(علم کالم) ان کی تالیف نہایت دقیق ہے۔حافظ صاحب
1914ء کو فارغ التحصیل ہوکر واپس آجاتے ہیں۔
ان دنوں"روپڑ"ضلع انبالہ میں قصبہ تھا۔نہر سرھند کے مرکزی دفاتر کی وجہ سے اسے خاص شہرت
حاصل تھی۔روپڑ میں"اہل حدیث تحریک" کے متعلق میاں عبدالرشید خان(کلرک دفاتر نہر سرھندی) اپنی
رپورٹ میں لکھتے ہیں:۔
ء کا ذکر ہے کہ یہاں کوئی فرد اہل حدیث نہ تھا۔سب سے پہلے نانا جی حاجی خلیفہ فضل ٰالہی نے "1880
شرک وبدعت کا ردشروع کیا اور اس راہ میں ان کو نہایت تکالیف وشدائد کا سامنا کرناپڑا۔تاہم مسلک اہل
حدیث متعارف کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
انہوں نے ہدایت شاہ شہید رحمۃ ہللا علیہ کی "تقویۃ االیمان" کے مطالعہ سے حاصل کی تھی۔پھر زیادہ شوق
علم کے لیے امام عبدہللا غزنوی رحمۃ ہللا علیہ کی خدمت میں امرتسر چلے گئے تھے اور بیعت کرکے
واپس آئے تھے۔
حاجی خلیفہ صاحب دور دور سے علماء اہل حدیث کو بلواتے اور جلسے کرواتے اور پھر روپڑ ہی نہیں
بلکہ علماء کو اردگرد کے دیہات میں بھی لے جاتے اور تبلیغ ووعظ کرواتے۔اس طرح اردگردکے دیہات
بھی مسلک اہل حدیث سے متعارف ہوگئے اور کئی گاؤں اہل حدیث بن گئے۔
اس ضمن میں جناب موالنا محمد حسین بٹالوی(1256۔۔۔1338ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں وہ بمع عیال
اکثر روپڑ آتے اور عرصہ تک قیام پزیر رہتے بلکہ ایک مرتبہ تو انہوں نے روپڑ میں تدریس کا سلسلہ
بھی شروع کردیا تھا۔
روپڑ میں مسجد اہل حدیث " مسجد عالی" کے نام سے مشہور تھی۔ناناجی نے موالنا سید محمود علی شاہ
ہزاروی(1317ھ) کے ساتھ مل کر چندہ جمع کرکے اس مسجد کی توسیع بھی کروائی تھی اور میاں نور
بخش کو اس کا خطیب مقرر کیا تھا۔
ء میں حافظ عبدہللا روپڑی کو۔۔۔جو ابھی کلیۃ تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے تھے،موالنا ابو سعید محمد 1915
حسین بٹالوی کےایماء پر روپڑ بالیا گیا اور ان سے وعدہ لیاگیا کہ فراغت کے بعد روپڑ میں اقامت
"کریں،تاکہ درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔
چنانچہ 1916ء کو موالنا ممدوح"روپڑ" تشریف فرماہوگئے۔خلیفہ صاحب تو1920ء کو راہ ملک عدم
ہوگئے اور اپنی یادگار میں مسجد اور مدرسہ چھوڑ گئے۔
روپڑ پہنچ کر حافظ صاحب مذکور نے1916ء میں ہی خلیفہ فضل ٰالہی کی معیت میں"دارالعلوم عربیہ
اسالمیہ" کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا،جس نے جلد ہی تدریسی شہرت حاصل کرلی اور دوردراز
تی کہ حافظ صاحب سےفیضیاب ہونےوالے متعدد
سے طالب علم اس نے تعلیم کے لیےآنا شروع ہوگئے ح ٰ
علماء نے درس نظامی کی تدریس میں موثر کردار ادا کیا جبکہ حافظ صاحب نے روپڑ میں صرف تدریس
پر اکتفاء نہیں کیا،بلکہ ہمہ جہت جماعتی ذمہ داریوں میں دلچپسی لیتے رہے۔
تالمذہ:۔
حافظ موصوف 1916ء تا1938ء روپڑ میں تدریس وخطابت کےفرائض سرانجام دیتے رہے۔اس مدت میں
بہت سے علماء نے علمی فیض حاصل کیا۔حضرت حافظ صاحب کے تلمیذ خاص موالنا محمد صدیق
فتاوی اہل حدیث) لکھتے ہیں
ٰ :صاحب(شیخ الحدیث سرگودھا رحمۃ ہللا علیہ ۔۔۔مرتب
جب آپ رو پڑ تشریف الئے،تو وہاں آپ نے دارالحدیث کی بنیاد رکھی۔1916ء کو دارالحدیث کاافتتاح "
ہوا۔نماز عصر کے بعد بخاری شریف شروع کی گئی۔شیخ محمد عمر بن ناصر نجدی المعروف،بہ عرب
صاحب،مولوی محمد بن عبدالعظیم پسروری،اورمولوی دین محمد سنانوی ،رحمۃ ہللا علیہ درس بخاری میں
شریک ہوتے۔مولوی نور محمد سکنہ ووگری نےنسائی شریف شروع کی۔اس کے بعد تالمذہ کا یہ سلسلہ
وسیع تر ہوتاچالگیا۔اور یہ سلسلہ 1938ء تک جاری رہا۔پھر انہوں نے قیام پاکستان سے قبل اپنی معلومات
کے مطابق درج ذیل فہرست دی ہے۔
۔حافظ اسماعیل وحافظ عبدالقادر پسران رحیم بخش برادر اکبر حافظ عبدہللا روپڑی17
حضرت موالنا محمد صدیق صاحب رحمۃ ہللا علیہ آف سرگودھا لکھتے ہیں 1932ء سے قبل جب جماعت
اہل حدیث کی تنظیم معرض وجودمیں آئی اورشاہ محمد شریف مرحوم اس جماعت کےامیر منتخب ہوئے
اور جماعتی امور کی نشرو اشاعت کے لیے ایک اخبار کے اجراء کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔تو
اراکین نے اس کا تمام بوجھ حضرت محدث روپڑی پر ڈال دیا۔اور مورخہ 26رمضان 1350ھ مطابق 15
فروری 1932ء کو"تنظیم اہل حدیث" کے نام سے ہفت روزہ اخبار جاری کیا گیا۔
در اصل"تنظیم اہل حدیث"کے لیے"مجلہ اہلحدیث"امرتسر نے اپنے اجراءکے ساتھ تحریک بھی شروع
کردی تھی۔
اب موالنا ثناءہللا امرتسری رحمۃ ہللا علیہ اور موالنا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اس امر کے لیے کوشاں
تھے کہ صوبہ پنجاب میں بھی ایک صوبائی تنظیم کا ہوناضروری ہے۔جو مرکزی جماعت کے ساتھ الحاق
کرسکے اور مرکز کے اغراض ومقاصد کے تحت کام کرے۔چنانچہ اس غرض کے لیے موالنا امرتسری
رحمۃ ہللا علیہ نے اخباراہل حدیث میں تحریک شروع کی۔مگر پنجاب میں تنظیم کے مسئلہ پر جماعت
دودھڑوں میں تقسیم ہوگئی،جوموالنا امرتسری رحمۃ ہللا علیہ کے تفسیر نزاع کی وجہ سے پہلے ہی بن
چکے تھے۔
نفس تنظیم میں کسی کو اختالف نہ تھا مگر سوال یہ تھا کہ ایک جماعت جو عمل بالحدیث کی داعی ہے۔اور
وہ ا پنے ہر کام میں آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی دعوےدار ہے ،تو
کیا صدارتی جمہوری نظام اسکے اصول کے مطابق ہے۔یا نظام بصورت امارت کی تشکیل ضروری ہے۔
جدت پسند اذہان تو صدارتی نظام کے حامی تھے اور اس کو عین اسالمی نظام سمجھتے تھے،خصوصا ً
جب کہ اس کی ہیت کذائی۔۔۔شورائی طرز کی حامل ہو۔لیکن خالص سلفی مکتب فکر کے علماء نظام امارت
کبری کا درجہ دینے کے لیے تیار نہ تھے جو کہ
ٰ قائم کرنے کے حامی تھے۔گو اس امارت کو امارت
سیاسی قوت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔
موالنا ثناء ہللا تنظیم بصورت انجمن کےحامی تھے۔اور صدارتی نظام چاہتے تھے اس بناء پر انہوں نے
:بطور استفسار کےاخبار اہلحدیث میں حسب ذیل اعالن کیا
پنجاب میں آج کل تنظیم جماعت کی بابت دو رائیں پائی جاتی ہیں۔۔۔ایک رائے یہ ہے کہ تنظیم بصورت "
انجمن ہو اور دوسری رائے یہ ہے کہ بصورت امارت ہو ناظرین اپنی اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔
چنانچہ اس سلسلہ میں ایک مضمون موالنا محمدعلی لکھوی مرحوم کا ہے جو/9ستمبر 1932ء کے اخبار
"اہل حدیث" میں شائع ہوا۔یہ مضمون مفصل ہے۔اور اس ضمن میں ڈاکٹر سید فرید احمد مہتمم مدرسہ احمدیہ
سلفیہ(در بھنگہ) کا بھی ایک مضمون ہے۔ جو/14ستمبر 1932ء ے اہل حدیث میں شائع ہوا۔اور ان سے قبل
موالنا عبدالحلیم صدیقی مدرس دارالعلوم احمدیہ سلفیہ (در بھنگہ) بھی اپنے خیاالت کا اظہار کرچکے
تھے۔جو تنظیم بصورت امارت پر زور دے رہے تھے۔
اس سے علماء نے یہ سمجھا اور سمجھنا چاہیے کہ الفاظ بصورت"انجمن"سے مروجہ جہوریت مراد ہے
سے"شوری اسالمیہ" ہے اس بناء پر علماء نےتصریح کےساتھ لکھا۔
ٰ اور بصورت امامت
تنظیم جماعت بصورت انجمن اغیار کی اختراع ہے اور تنظیم جماعت بصورت امارت کتاب وسنت سے "
"ثابت ہے۔
لیکن اس پر غور کی بجائے رجعت پسندی کا طعنہ دیا گیا اور کہا گیاکہ قرآن نے تو اصول بیان فرمائے
ورى بَ ْینَ ُھ ْم کا ہے۔متمدن دنیا کس قدر بھی ترقی کرجائے یہ اصول اپنی
ش َہیں۔جن میں ایک اصل َوأ َ ْم ُر ُھ ْم ُ
جگہ پر قائم رہے گا اورمروجہ جمہوریت بھی اگر اس اصل پر قائم ہے تو عین اسالمی ہوگی۔
مگر مروجہ جمہوریت اپنی تصنع اور زیبائش کے باوجود معاشرہ میں بہت سی برائیوں کو جنم دے رہی
ہے اور جمہوریت میں حسن وقبیح کامیعار مادیت ہے اور صرف دنیاوی زندگی کو سامنے رکھ کر تمام
اصول بنائے گئے ہیں۔اس جمہوریت کےمخترعین کے سامنے آخرت کا تصور نہیں ہے۔نہ ہی اس پر ایمان
ہے اور نہ اس سے کچھ سروکار!۔۔۔
کامطمع نظر ہی حصول رضا ٰالہی ہو اور اتباع کتاب وسنت ہو۔وہ اسے کیسے اپنا سکتی
ِ پس جس جماعت
ہے۔اس بناء پر جماعت اہل حدیث کی تنظیم بصورت امارت ہی ممکن ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے مقاصد کے تحت پنجاب میں"صدر انجمن اہل حدیث۔۔۔صوبہ
پنجاب"کی بنیاد تقریبا ً 1921ء کو رکھی جاچکی تھی۔جس کے صدر اور سیکرٹری مقرر تھے۔اور یہ انجمن
اپنے تنظیمی پروگرام چالرہی تھی۔جس کاصدر دفترالہور میں قائم ہوچکاتھا۔
لیکن جو لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔اور وہ امارتی نظام کے داعی تھے۔انہوں نے 13جوالئی
1930ء کوموضع"کمیر پور" تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر میں ایک نمائندہ اجتماع بالیا۔موالنا مرحوم
سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ اس میں خاکسار کو بھی دعوت دی گئی اور اس میں تقرر امیر کو زیر بحث الیا گیا
اور شرکاء کی اکثریت نے سید محمد شریف کو اپنا امیر منتخب کرلیا اور جماعتی نظام کو چالنے کےلیے
اس کا صدر دفتر "امرتسر" میں قائم کیا گیا۔جمیعت کے ناظم حکیم نور الدین قرار پائے اور اس تنظیم کا
نام"تنظیم اہل حدیث۔۔۔پنجاب" رکھاگیا۔
اس تنظیم کی بھی اضالع میں شاخیں قائم کی گئیں۔اس جمعیت کے تحت مرکزی درسگاہ قائم کی گئی۔جس
کے جملہ اخراجات کابوجھ گوجرانوالہ کی جمیعت نے اپنے ذمہ لے لیا۔اس مرکزی درس گاہ میں حافظ
محمد صاحب گوندلوی مرحوم صدر مدرس اور شیخ الحدیث مقرر ہوئے اور اس میں مولوی فضل الرحمان
گوندلوی اور موالنا عطاء ہللا صاحب بھوجیانی بھی مدرس رہے اور موالنا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ ہللا
علیہ اس کے منصرم مقرر ہوگئے۔
اس درسگاہ کاباقاعدہ مرکز کےتحت امتحان ہوتا رہا۔ابتداء میں حافظ عبدہللا صاحب روپڑی اسکے مفتش
وممتحن بھی رہے۔
برسر مطلب:۔
ِ آمدم
چونکہ اس تنظیم کے قیام میں حافظ عبدہللا صاحب روپڑی نے موثر کردار ادا کیا تھا ،اس لیے جمیعت کے
لیے ایک مجلہ اُسبوعیہ کی ضرورت محسوس ہونے لگی تو اس کا بارگراں بھی حافظ صاحب روپڑی کے
کندھوں پر ڈال دیا گیا یا انہوں نے خود اٹھالیاتھا۔چنانچہ مارچ1932ء کو اس کا پہال شمارہ منصہ شہود پر
آیا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے تاہم ابتداء میں تقریبا ً دو سال تک یہ اخبار پندرہ روز تک نکلتا رہا اور
باالخر اس کو"ہفت روزہ" کردیا گیا ۔
بالشبہ اخبار"تنظیم اہل حدیث" نے جماعتی تنظیم اور اس کے کام کومربوط کرنے کے لئے خصوصی رول
فتاوی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جو اہل حدیث
ٰ ادا کیا۔تاہم اس اخبار میں حافظ عبدہللا صاحب کے
فتاوی بعض احباب کی کوشش سے
ٰ علماء اور دوسری جماعتو ں کے لیے بھی توجہ کا باعث بن گئے۔اب وہ
الگ مرتب ہوگیا ہے ۔لہذا اس پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اخبار کے جاری ہوتے ہی حافظ محمد اسماعیل صاحب روپڑی اور ان کے بھائی حافظ عبدالقادر روپڑی
نائب مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگ گئے۔بعض مسائل جو حافظ صاحب خود نہ لکھنا چاہتے وہ ان
دونوں کے نام سے شائع کروادیےجاتے۔مثالً نظام امارت یا صدارت!۔۔۔تفسیری اغالط۔۔۔اور مناظرات کی
رپورٹیں وغیرہ۔
انہی دنوں گوجرانوالہ سے اخبار ":العدل" موالنا عبدالعزیز صاحب دیوبندی کی زیرسرپرستی شائع
ہورہاتھا۔ جس میں اہل حدیث کے خالف زہراگال جارہاتھا۔اہل حدیث امرتسرکی طرح تنظیم اہل حدیث میں
اس کے محتویات کا مناسب جواب دیا جاتا۔موالنانور حسن گرجاکھی کے بہت سے مضامین اہل حدیث
سےدفاع کے لیے شائع ہوئے ہیں۔اسی طرح"الفقیہ"امرتسر کے جواب میں بھی "تنظیم اہل حدیث" خاموش
نہ رہتا۔بلکہ اختالفی مسائل پر نوک جھونک جاری رہتی۔
ذوالحجہ کی تیرہویں کو قربانی
اخبار"العدل" کی ایک اشاعت میں"فرقہ اہل حدیث کی متعصبانہ تیرھویں قربانی" کے عنوان سے ایک
مضمون شائع ہوا اور ذوالحجہ کی تیرھویں تاریخ کوقربانی پر طنز کیا گیا۔اس پر تنظیم اہل حدیث میں موالنا
عبدالجلیل سامرودی نے ایک محققانہ مضمون شائع کیا اور تیرھویں تاریخ کو قربانی کاثبوت پیش کیا۔وہ
اپنے مضمون میں لکھتے ہیں۔
اس مضمون میں اہل حدیث کوبے جاتنقید کا نشانہ بنایاگیا ہے اگر آپ نے سنانا ہی تھا تو اپنے عم بزرگوار "
امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کانام لے کر سناتے۔۔۔آپ جب مقلد ہیں تو کسی مجتہد کےمسلک پر اعتراض کا کیا
حق پہنچتاہے۔یہ امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کامذہب ہے ،چنانچہ ہدایہ میں ہے۔
"وقال الشافعي رحمه ہللا ثالثة أیام بعدہ لقوله علیه الصالة والسالم أیام التشریق كلھا أیام ذبح"
کہ امام امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ یوم النحر کے بعد تین دن کی قربانی کے قائل ہیں کیونکہ آپ نے فرمایا "
"ہے کہ ایام تشریق سب ایام ذبح ہیں
امام نووی رحمۃ ہللا علیہ ،امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کا مذہب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
زاد المعاد"میں حافظ ابن قیم رحمۃ ہللا علیہ نےمتعدد ائمہ کا یہی مسلک قرار دیاہے۔حافظ ابن کثیر رحمۃ ہللا "
علیہ اپنی تفسیر میں"تحت اآلیۃ"لکھتے ہیں۔
امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کا مذہب ہی راجح ہے۔یعنی قربانی کا وقت یوم النحر سے لے کر آخر ایام تشریق
تک ہے اور حافظ ابن حزم رحمۃ ہللا علیہ نے"المحلی" میں ان سب اقوال کو بمع تخریج نقل کیا ہے۔ اور ابن
:حجر مکی شرح مشکواة میں لکھتے ہیں
وبذلك قال ابن عباس وجبیر بن معطم ونقل عن علي وبه قال كثیر من التابعین فمن زعم ان الشافعي تفرد به "
" فقداخطا
جبیربن معطم کی حدیث مرفوعا ً ثابت ہے۔امام احمد رحمۃ ہللا علیہ نے اس کی سند کو منقطع کہاہے۔مگر "
دارقطنی رحمۃ ہللا علیہ نے اسے موصوالً ذکر کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
پھر عالمہ منادی نے شرح "الجامع الصغیر" میں اور عزیزی نے السراج المنیر
تعالی عنہ کی مسند احمد والی حدیث کی اسناد کو"صحیح" کہا ہے ۔عالمہ
ٰ میں جبیر بن معطم رضی ہللا
سیوطی رحمۃ ہللا علیہ نے بھی اس پر صحت کی عالمت قائم کی ہے۔عالمہ شوکانی الدراری المضیۃ" میں
لکھتے ہیں۔
ضا ً
ض َھا بَ ْع َ َ .ولَهُ ُ
ط ُر ٌق یُقَ ِّ ِو ْ
ي بَ ْع ُ
اور امام شوکانی رحمۃ ہللا علیہ نے"وبل الغمام" میں لکھا ہے۔
"اس حدیث کی ضعیف ہونے کی کوئی ایسی وجہ بیان نہیں کی گئی جس پر اعتماد ہوسکے"
وی میں اس حدیث پر بحث کرتےہوئے لکھتے ہیں۔وھو حسن یحتج
حسین بن محسن انصاری اپنے فتا ٰ
به۔۔۔الغرض یہ حدیث حسن ،قابل حجت ہےاورپھر آگے چل کر عالمہ حسین انصاری رحمۃ ہللا علیہ لکھتے
ہیں۔
ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے اس کی تصیح کی ہے۔اگر یہ ضعیف بھی ہوتواقوال صحابہ اور جمہور اہل "
علم اس کے حق میں ہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ ہللا علیہ نے تفسیر میں اس کے متابعات بھی ذکر کیے ہیں اور دارقطنی نے بھی اس
کے متابعات ذکر کیے ہیں۔ الغرض اس مسئلے میں کوئی غبار نہیں ہے۔اور یہ واقعہ ہے کہ اخبار"تنظیم اہل
حدیث" نے ہر موقع پر مسلک اہل حدیث کا دفاع کیا ہے۔خصوصا ً علمی مسائل میں تو "مدیر" کے قلم کا لوہا
دوسرے بھی مانتے ہیں اور کم وبیش تمام اختالفی مسائل پر جو زیر بحث آتے رہے ہیں۔اسقدر موادجمع
کردیا ہے کہ اس سے ہر مسئلے کی دلیل مل سکتی ہے۔یہی حال"اہل حدیث" امرتسر کاہے۔ جیسا کہ ہم نے
تعالی ان
ٰ ذکر کیاکہ اب ان کے خلف اسی پر زندہ ہیں اور حافظ عبدالقادر انہی مسائل کا اعادہ کررہے ہیں۔ہللا
کو مزید توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
اخبار"تنظیم" نے آٹھ رکعت مسئلہ تراویح پر ایک مضمون شائع کیا اور ثابت کیا کہ آٹھ رکعات تراویح
کاسنت ہونا اہل حدیث اورحنفیہ کے مابین متفق علیہ ہے اور اس پر سائب بن یزید کی حدیث کو بطور دلیل
تعالی عنہ اور تمیم داری رضی ہللا
ٰ تعالی عنہ نے ابی بن کعب رضی ہللا
ٰ پیش کیا کہ حضرت عمر رضی ہللا
تعالی عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کرو۔اور آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے تین رات
ٰ
جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھائی ہے۔وہ بھی آٹھ رکعات اورتین وتر کے ساتھ تھی۔چنانچہ صحیح ابن حبان
اور صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے آٹھ رکعات اور وترپڑھائے۔
اور جس روایت میں بیس مذکور ہیں اوالً تو وہ صحیح ہی نہیں ہے۔خود زیلعی نے تخریج"ہدایہ" میں اسکی
تضعیف کی ہے کہ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان باالتفاق ضعیف ہیں۔
اس بناء پر ہم کہتے ہیں کہ تراویح باجماعت اور آٹھ رکعات کی تحدید دونوں ہی فعل نبوی صلی ہللا علیہ
وسلم سے ثابت ہیں لیکن آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے جماعت کی پابندی کاحکم نہیں دیا۔تراویح
تعالی عنہ کے دور میں شروع ہوا۔اس بناء پر حضرت عمر
ٰ باجماعت پر استمرار حضرت عمر رضی ہللا
تعالی عنہ نے لغوی معنی کے اعتبار سے اس کو"نعمت البدعۃ" کہا ہے۔
ٰ رضی ہللا
تعالی عنہ کے حکم سے جو نماز پڑھائی گئی،وہ آٹھ رکعات تھی۔موطا میں جو
ٰ حضرت عمر رضی ہللا
مذکور ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔اسے حضرت عمر رضی
تعالی عنہ کی سنت نہیں کہہ سکتے وہ لوگوں کااپنا عمل تھا۔اس بنا پر ابن الہمام فتح القدیر(شرح ہدایہ)
ٰ ہللا
"میں لکھتے ہیں"سنت اصل آٹھ ہی ہیں ،باقی مستحب یعنی نوافل ہیں۔
اور امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے بھی موطا میں 36رکعات کومستحب کہا ہے۔اور عالمہ عینی نے شرح
بخاری اور امام سیوطی رحمۃ ہللا علیہ نے رسالہ التراویح میں لکھا ہے کہ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ بھی
گیارہ رکعت ہی پسند کرتے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل سنت توامام مالک رحمۃ ہللا علیہ کے
نزدیک بھی آٹھ ہی ہیں اور زائد کو نوافل کہہ سکتے ہیں اور پھر صحابہ کرام رضوان ہللا عنھم اجمعین اگر
کسی عبادت یادعا میں اضافہ کرتے ہیں تو اسے سنت کادرجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔زیادہ سے زیادہ اسے
تعالی عنہ تلبیہ حج میں کچھ زائدکلمات بطور دعاشامل
ٰ جائز کہہ سکتے ہیں۔مثالً حضرت ابن عمر رضی ہللا
:کرلیتے تو اس پرامام شافعی رحمۃ ہللا علیہ نےفرمایا
اگر تلبیہ حج میں کوئی اضافہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔مگر بہتر یہ ہے کہ تلبیہ نبوی صلی ہللا علیہ "
"وسلم پر اکتفاء کرے۔
اسی بناء پر مسلک اہل حدیث کا مسلک یہ ہے کہ آٹھ رکعات تراویح سنت ہے اوراگرنوافل کےطور پر
کوئی اضافہ کرے تو اس پر اعتراض نہیں ہے۔اور نہ ہی حدیث کے خالف ہے۔ہاں اگر سنت سمجھ کر بیس
پڑھے تو یہ خالف سنت ہے۔اس بناء پر گنہگار بھی ہوگا۔شیخ عبدالحق دہلوی اپنے رسالہ"ماثبت بالسنۃ" میں
لکھتے ہیں۔
"خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں بھی گیارہ رکعت پر عمل ہوتا رہاہے۔
خالصہ بحث:۔
مندرجہ باال تفصیل کی بنائ پر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم آٹھ رکعت پڑھتے اور پڑھاتے
تعالی عنہ کے دور میں بھی آٹھ رکعات پر ہی عمل رہا۔ اور تابعین رحمۃ
ٰ رہے۔پھر حضرت عمر رضی ہللا
ہللا علیہ کے دور میں بھی۔ اور امام مالک رحمۃ ہللا علیہ کے معاصر محمد بن اسحاق آٹھ رکعت کو ترجیح
دیتے۔ان کے بعد محدثین کے اقوال بھی اس کےموافق ہیں اورحنفیہ کے نزدیک بھی آٹھ رکعت کو ترجیح
ہے۔تو اسکے بعد کو نسا تعامل رہ جاتاہے۔جس پر احناف عمل پیرا ہیں۔
یہاں پر حافظ عبدہللا صاحب کی رائے نقل کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔
امام نووی رحمۃ ہللا علیہ بڑے پایہ کے محدث فقیہ اور حجت ہیں۔دیگر تصانیف کے عالوہ انہوں نے شرح "
مسلم بھی لکھی ہے۔اس شرح میں امام نووی رحمۃ ہللا علیہ نے صحیح مسلم کی احادیث اور اسانید مشکلہ
کو اس طرح حل کیا ہےکہ آپ کے بعد آنے والے لوگ انہی پر اعتماد کرتے ہیں اس حدیث پر امام نووی
:رحمۃ ہللا علیہ لکھتے ہیں
واعلم أن ھذہ الزیادة وھي قوله ( :وإذا قرأ فأنصتوا ) مما اختلف الحافظ في صحته ...على تضعیفھا مقدم على
[ .ص ] 94 :تصحیح مسلم ،ال سیما ولم یروھا مسندة في صحیحه
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث مذکور صحیح مسلم میں باالسناد نہیں ہے۔لہذا یہ موضوع کتاب سے
خارج ہے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث مذکور صحیح مسلم میں باالسناد نہیں ہے۔لہذا یہ موضوع
کتاب سے خارج ہے۔
عملی خدمات۔۔۔تالیفات
علمی،فروعی مسائل پر بھی حافظ رحمۃ ہللا علیہ نے مسلک اہل حدیث کے مطابق بیشتر تالیفات چھوڑ
فتاوی اہل حدیث) کے عنوان سے ان کے تلمیذ ارشد کی عملی کوشش سے یکجاہوکر
ٰ (فتاوی تو
ٰ دیں۔ان کے
طبع ہوچکے ہیں۔یہاں پر ان کی دوسری تالیفات مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کا تعارف مطلوب ہے۔
۔الکتاب المستطاب:۔1
موالنامحمد انور شاہ کشمیری نے عربی میں "فصل الخطاب"کے نام سے ایک کتاب لکھی۔جس میں "قراءة
خلف االمام" کےمسئلہ میں حنفی مذہب کی ترجمانی کی۔حافظ رحمۃ ہللا علیہ نے اس کے جواب میں یہ کتاب
عربی میں لکھی۔جو بہت سے علمی مباحث پر مشتمل ہے اور متعدد احادیث کے مشکل مقامات کاحل
ہے۔اس کے حاشیہ پر "فصل الخطاب" ہے تاکید ناظرین کو اصل مسئلہ کے سمجھنے میں آسانی ہو۔یہ کتاب
عرصہ سے ناپید ہے۔جماعتی ذہن میں تازگی پیدا کرنے کے لئے اس کا جدید ایڈیشن شائع کرنا ضروری
ہے۔ جس میں مرحوم کے بعد جو موالناخیر محمد جالندھری وغیرہ نے نفس کتاب پر بعض اعتراضات کئے
ہیں تاکہ ان کا بھی جواب ہوسکے۔
۔اطفاء الشمعہ:۔2
یہ رسالہ مسائل جمعہ پر مشتمل ہے تمام مسائل کا احصاء کیا گیا ہے اور اس موضوع پر احناف کی طرف
جو رسائل لکھے گئے ہیں۔مثالً موالنا احمد علی الہوری رحمۃ ہللا علیہ ،موالنا رشید احمد گنگوہی رحمۃ ہللا
علیہ ،موالنا محمود الحسن دیوبندی،اورنیموی صاحب کی کتابوں کابالخصوص جواب دیاگیا ہے۔جانبین کے
دالئل کا بالتفصیل ذکر کیا گیا ہے۔اور ظہر احتیاطی کامسئلہ بڑی تفصیل سے ذکر کیاگیا ہے۔علمائے دہلی
فتاوی بھی درج ہیں۔
ٰ کے
۔درایت تفسیری:۔3
اصول تفسیر پر بحث کی گئی ہے۔ابتداء میں مسئلہ تقلیدپر بحث ہے۔
اس رسالہ کی جامعیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس میں اہل سنت کی 37تعریفیں کی
گئیں ہیں۔مولف نے ان سب پر محاکمہ کیا ہے۔یہ کتاب تقریبا ً 400صفحات پر مشتمل ہے۔
چونکہ یہ موالنا اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ کے رسالہ"االقتصاد" کاجواب ہے ۔اس لئے رسالہ کے
ضمن میں "تقلید" پر مکمل بحث ہے۔موالنا تھانوی کا یہ رسالہ درا صل سید میاں صاحب دہلوی کی
کتاب"معیار الحق" کےجواب میں لکھا گیا ہے۔صرف خطبہ اول مطبوع ہے۔
یہ رسالہ مختصر ہے۔اور عیسائیوں کے جواب میں ہے ۔عیسائی مشنری نے قرآن سے رسول اکرم صلی ہللا
عیسی علیہ السالم کا
ٰ عیسی علیہ السالم کا معصوم ہونا اورحضرت
ٰ علیہ وسلم کو گنہگار ثابت کیا ہے۔اور
شفیع ہونا ثابت کیا ہے۔اس موضوع پر دیگر ائمہ اور علمائے اہل حدیث نے رسالے لکھے ہیں۔ابن حزم کی
کتاب "الفصل فی الملل والنحل" میں ایک مستقل باب ہے۔جوعصمت انبیاء علیہ السالم کے ثبوت پرمشتمل
ہے۔حضرت موالنا میر سیالکوٹی رحمۃ ہللا علیہ دورہ تفسیر میں طلبہ کویہ باب درسا پڑھاتے۔موالنا محمد
حسین ابو سعید بٹالوی نے عیسائی مشنری کے جواب میں عصمت االنبیاء علیہ السالم پر ایک ر سالہ لکھا
ہے۔جوان کے رسالہ"اشاعۃ السنہ" کے ایک مستقل نمبر میں شائع ہوچکاہے۔یہ رسالہ راقم الحروف کے
اشارے پر شیخ محمد اشرف رحمۃ ہللا علیہ نے کتابت کروایاتھا۔پر معلوم نہیں ہوسکا کہ طباعت کے مرحلہ
پر پہنچایا نہیں۔
۔رسالہ رد بدعات:۔7
نام سے ظاہر ہے کہ اس میں بدعات کارد ہے۔مروجہ بدعات پر پندرہ سواالت کے جوابات ہیں،نیز قبور
وقبہ جات کےگرانے کا مفصل بیان ہے اور بدعت کے لغوی اور شرعی معنی بتائے گئے ہیں۔
۔امامت شرک:۔8
۔امامت مشرک:۔8
یہ ایک اشتہار ہے ۔اخبار اہل حدیث امرتسر میں یہ بحث چلی کہ کلمہ گو مشرک کے پیچھے نماز جائز ہے
یا نہیں۔مذکورہ اشتہار میں اس مسئلہ پر پوری بحث ہے فی زمانہ بھی اس مسئلہ کو سمجھنا ضروری ہے۔
۔اربعین غزنویہ:۔9
موالنا ثناء ہللا امرتسری رحمۃ ہللا علیہ نے جب تفسیر بنام"تفسیر القرآن بکالم الرحمان" لکھی ہے جو
اسلوب وانداز بیان کے لحاظ سے تفسیر ابن کثیر کا خاکہ تھامگر اختصار میں جاللین سے بھی بازی لے
حتی کہ بنارس وغیرہ کے مدارس میں "جاللین" کی بجائے
گئی تھی۔اس تفسیر بہت سے علماء نے پسند کیا ٰ
اس کو پڑھانے کی تجاویز کا اظہار کیا گیا۔بیرون ملک مصر کے علماء نے بھی اس کو پسند کیا،مگراس
میں موالنا نے سلف کی راہ چھوڑ کو متکلمین کی تاویل کا رنگ اختیارکیاتھا۔اسلیے اہل حدیث اور سلفی ذہن
کے علماء نے اسے ناپسند کیا اور تتبع کرکے چالیس مقام کی نشاندہی کی اور موالنا مرحوم سے درخواست
کی کہ ان کی اصالح کی جائے۔مذاکرہ علمیہ آرہ کے1323ھ کے ساالنہ جلسہ میں یہ رائے قرار پائی کہ
اس پر کچھ علماء کو حکم مقرر کیا جائے۔چنانچہ حافظ عبدہللا غازی پوری ،موالنا شاہ عین الحق پھلواری
اور موالنا شمس الحق ڈیانوی کو حکم مقرر کیا گیا جو جانبین سے موقف سن کرفیصلہ کریں گے۔علماء اہل
حدیث نے موالنا عبدالواحد غزنوی،موالنا عبدالغفور اور موالنا عبداالول پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی کہ ان
اغالط کو"اربعین" کےنام سے مرتب کیا جائے اور یہ نزاع یہاں تک کہ بڑھا کہ سلطان عبدالعزیز تک جا
کبری کا شاخسانہ کھڑا کرکے اور ساتھ شرکیہ دم
ٰ پہنچا۔ایک طرف تو موالنا عبدالوہاب دہلوی نے امامت
جھاڑ کے جواز پر اصرار کرکے اختالف پیدا کیا اور دوسری طرف موالنا امرتسری کی تفسیرپر "ثنائی
غزنوی" یا"ثنائی روپڑی نزاع نے ایک مستقل "کلکل"اختیارکرلی۔اس اربعین کا پورا نام ہے۔
موالنا ثناء ہللا مرحوم نے ان اعتراضات سے براءت کے اظہار کے لئے جوابات لکھے اور ان کے مجموعہ
کو"الکالم المبین" کے نام سے شائع کردیا۔موالنا قاضی عبداالحدخانپوری نے سترہ مقامات پر محاکمات
لکھے ہیں جو بڑے زور دار ہیں۔
موالنا ثناء ہللا مرحوم نے اس ضمن میں تقلید شخصی وسلفی،اتباع سلف اور الکالم المبین وغیرہ رسائل
لکھے ان کے جواب میں حافظ رحمۃ ہللا علیہ نے درایت تفسیری ،تعریف اہل حدیث اور تعریف اہل السنہ
وغیرہ رسالے شائع کیے ان رسائل میں متنازعہ مسائل کے عالوہ اور بھی بہت سے علمی فوائد
فتاوی ابن تیمیہ
ٰ ہیں۔خصوصا ً حافظ عبدہللا رحمۃ ہللا علیہ نے تفسیری مباحث کی خوب چھان بین کی۔ اور
رحمۃ ہللا علیہ سے لے کر تفسیر کبیر رازی اور کتب امام سیوطی رحمۃ ہللا علیہ تک کو ماخذ بنایا ہے ۔ہللا
تعالی سے دعا ہے کہ ہم محض حق کی تالش کریں اور ذاتیات کو مبحث نہ بنائیں۔
ٰ
۔بکرادیوی:۔10
اس میں نذرلغیرہللا کی حلت وحرمت کا بیان ہے اور آیت"وما اھل لغیرہللا" کی پوری تفصیل ہے۔
۔زیارت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم :۔11
یہ مسئلہ بھی علماء کے مابین اتفاقی چال آیا ہے۔اور حافظ ابن تیمیہ رحمۃ ہللا علیہ نے روضہ اقدس کی
زیارت وآداب پر تفصیل روشنی ڈالی ہے اور اس ضمن میں بہت سی بدعات کا ردکیا ہے اورغلط فہمیوں
کو دور کیا ہے۔حافظ صاحب نے اس رسالہ میں اصل مسئلہ کی پوری وضاحت کردی ہے۔ اور شیخ االسالم
ابن تیمیہ رحمۃ ہللا علیہ کی ترجمانی کاحق ادا کردیا ہے۔
۔المرشد واالمام:۔2
۔طیور ابراہیمی:۔13
قرآن پاک کی تفسیرمیں یہ مبحث بھی نہایت اہم ہے۔جدت پسند مفسرین نے طیور کےذبح ہونے سے انکار
کیاہے۔اس آیت میں بحث کا مدار"فصرھن" کی تفسیر پر ہے۔غالبا ً اس تاویل کی پیشوائی ابو مسلم معتزلی کی
ہے اور اس نے ذبح کا انکار کیا ہے۔
۔رسالہ امارت:۔14
امارت کی حیثیت پر بحث ہے کہ کیا غیر اسالمی حکومت کے اندر رہ کر بھی نظام امارت قائم ہوسکتا ہے
یا نہیں اور پھر ایسے نظام امارت کی حیثیت کیا ہے۔اس ضمن میں موالنا عبدالوہاب دہلوی کی امارت اور
جمیعت اہل حدیث پنجاب کے نظام امارت کے مابین فرق کو سمجھایا ہے۔
بعض لوگ اولیاء ہللا کی قبروں پر جاکر ان کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔۔۔"اےولی ! میری
دعا قبول کر"۔۔۔اس کی تردید کی ہے اور انبیاء علیہ السالم واولیاءکی برزخی زندگی پر بحث کی ہے۔
۔وتروں کی تعداد اس رسالہ میں وتروں کی تعداد اور ان کےپڑھنے کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔16
حواالہ و حواشی
۔اس سلسلے میں سب سے بہتر مقالہ قاضی عبدالرحیم صاحب قاضی کوئی کا ہے۔جو اخبار تنظیم اہل حدیث
میں "تنظیم اہل حدیث اور جمہوریت" کے عنوان سے متعدد اقسام میں شائع ہواہے قاضی صاحب چونکہ
نظام امارت کے قائل تھے۔اور گوجرانوالہ کی تنظیم اہل حدیث کے امیر تھے۔اس لئے مرحوم نے موالنا
امرتسری رحمۃ ہللا علیہ کےجملہ دالئل کا مکمل تجزیہ کرکے ان کا ابطال کیا ہے۔
۔ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان پر جرح کے لئے"انوارالمصابیح"موالنا نزیر احمد رحمۃ ہللا علیہ دہلوی
ص170تا173۔
۔یہ مسائل میں نے بطور مثال ذکر کیے ہیں،ورنہ جماعتی ضرورت کا تقاضا یہ ہے کہ"تنظیم اہل
حدیث"اور"اہلحدیث" امرتسر کے قبل از تقسیم ملک کے تمام فائل سامنے رکھ کر علماء اہل حدیث کی
تنقیحات کو جمع کردیا ہے۔بلکہ االعتصام کو بھی شامل کرلیا جائے۔