You are on page 1of 19

‫موالنا محمد عبدہ الفالح‬

‫حافظ عبدہللا محدث روپڑی‬

‫آبائی وطن "کمیر پور"ضلع امرتسر ہے۔‪1304‬ھ میں پیدا ہوئے اور ‪1384‬ھ مطابق ‪1964‬ء وفات پائی۔کل‬
‫عمر ‪ 80‬سال حیات رہے۔راقم الحروف ان سطور میں صرف ان کی علمی زندگی اور دینی خدمات کے‬
‫متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔‬

‫تعلیم کا آغاز‪:‬۔‬

‫حافظ صاحب کے والد ماجد میاں روشن دین اکثر علماء کی صحبت میں بیٹھے اور علم دین کے شوق میں‬
‫قریہ"لکھو کے"(ضلع فیروز پور مشرقی پنجاب ہند) حافظ محمد صاحب لکھوی کے پاس پہنچ گئے۔اور‬
‫چاہتے تھے کہ اوالد بھی علم دین کے زیور سے آراستہ ہوجائے۔چنانچہ انہوں نے اپنے بڑے لڑکے رکن‬
‫دین اور مولوی رحیم بخش‪،‬حافظ عبدہللا‪،‬مولوی عبدالواحد سب کو علم دین کے حصول پر لگادیا۔مگر ان کی‬
‫اوالد میں سے تعلیمی لحاظ سے صرف دو بھائیوں نے دینی امتیاز حاصل کیا یعنی حافظ عبدہللا صاحب اور‬
‫حافظ محمد حسین صاحب امرتسری۔۔۔‬

‫"لکھو کے"‬

‫حافظ صاحب نے ابتدائی تعلیم قریہ"لکھو کے" پہنچ کر موالنا عبدالقادر بن محمد شریف بن بارک ہللا لکھوی‬
‫اور حافظ محمد کے صاحبزادے موالنا محمد حسین لکھوی(‪1365‬ھ) سے حاصل کی۔چنانچہ ان دونوں سے‬
‫صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔پھر ا پنے بھائی رکن الدین کے ساتھ میرٹھ۔۔۔مدرسہ نعمانیہ میں چلے‬
‫گئے ایک سال وہاں قیام کیا اور صرف ونحو کی متوسطات پڑھ لیں پھر واپس آکر مدرسہ غزنویہ امرتسر‬
‫میں داخل ہوگئے۔‬

‫پنجاب میں اہل حدیث کے یہ دو مدرسے تھے ‪،‬جن سے جماعت اہلحدیث کو فیض پہنچ رہاتھا اور طلبہ زیادہ‬
‫تر انہی دو مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتےتھے۔راقم الحروف باوجود انتہائی خواہش اور آرزو کے ان‬
‫دونوں مدرسوں کے فیض سے محروم رہا۔نہ"لکھو کے" جا کر صرف ونحو کادرس لے سکا اور نہ‬
‫امرتسر پہنچ کر"مدرسہ غزنویہ" سے روحانی فیض حاصل کرنے کاموقع مال۔‬

‫مدرسہ غزنویہ میں اُس وقت امام عبدالجبار غزنوی رحمۃ ہللا علیہ حدیث پڑھا رہے تھے جنھوں نے حدیث‬
‫کی سند سید نزیر حسین دہلوی رحمۃ ہللا علیہ سے حاصل کی تھی اور روحانی فیض ا پنے والد ماجد امام‬
‫عبدہللا سے حاصل کیا تھا۔عالوہ ازیں غزنویہ میں فنون وفقہ کے لیے دوسرے مدرسین بھی تدریس کررہے‬
‫تھے۔جن میں مولوی معصوم علی ہزاروی محی الدین صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔‬

‫حافظ صاحب نے حدیث امام عبدالجبار سے پڑھی اور صرف ونحو ‪،‬فقہ‪،‬اصول فقہ مولوی معصوم علی‬
‫ہزاروی اور مولوی محی الدین وغیرہ سے پڑھیں۔اصول فقہ میں آپ کے استاد مولوی عبدالصمد تھے۔‬

‫اس کے ساتھ ہی مدرسہ نعمانیہ امرتسرمیں بھی کتب فلسفہ "میبذی" وغیرہ پڑھتے رہے‪،‬مگر تفسیر وحدیث‬
‫امام عبدالجبار غزنوی اور کچھ کتابیں مولوی عبداالول غزنوی سے پڑھیں جبکہ سند ‪،‬فراغت امام عبدالجبار‬
‫ہی سے حاصل کی۔‬

‫امام عبدالجبار رحمۃ ہللا علیہ حافظ عبدہللا صاحب پر بہت اعتماد کرتے۔تاہم تکمیل علم کی اجازت لے‬
‫کر‪1910‬ء کو دہلی پہنچ گئے۔مگر ان کے پہنچنے سے پہلے حضرت میاں صاحب ‪1902‬ء کو فوت ہوچکے‬
‫تھے۔لہذا حافظ مذکور نے منطق وفلسفہ کی تکمیل کے لیے حافظ عبدہللا غازی پوری رحمۃ ہللا علیہ کے‬
‫سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔اور مولوی محمد اسحاق منطق دہلوی سے اقلیدس اور بجز بعض غیر درسی‬
‫کتابیں پڑھیں۔‬

‫اسی اثناء میں‪1913‬ء کو امام عبدالجبار بھی وفات پاگئے۔حافظ صاحب اس صدمے سے بھی دو چار ہوئے‬
‫مگر تکمیل علم کے سفر کوجاری رکھا اور ریاست"رام پور" پہنچ کر "مدرسہ عالیہ" میں داخلہ لے لیا اور‬
‫ایک سال کی محنت سے"مولوی فاضل" اور درس نظامی کی سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‬

‫مدرسہ عالیہ" رام پور میں اس وقت مولوی محمدامین رامپوری اور فضل حق رامپوری(‪1278‬۔۔۔‪1358‬ھ) "‬
‫مدرس تھے اور یہ دونوں منطق وفلسفہ میں بہت الئق اساتذہ مانے جاتے تھے۔‬

‫مولوی فضل حق رامپوری‪،‬موالنا عبدالحق رامپوری کے خلف تھے اور علوم حکمیہ میں ممتاز حیثیت‬
‫رکھتے تھے۔انہوں نے علوم حکمیہ مفتی لطف ہللا علی گڑھی سے حاصل کئے تھے اور قدماء کی تالیفات‬
‫مولوی ہدایت علی بریلوی سے اخذ کی تھیں اور"بریلی" میں "مدرسہ طالیہ" میں مدرس رہے تھے۔ پھر‬
‫کچھ مدت"مدرسہ عالیہ" رام پور میں درس دیتے رہے۔اس اثناء میں منطق وفلسفہ عالمہ عبدالحق بن فضل‬
‫حق خیر آبادی سے پڑھا تھا اور مدرسہ سلیمانیہ بھوپال پہنچ کر حدیث کی سند الشیخ المحدث حسین بن‬
‫محسن انصاری سے حاصل کی تھی۔جبکہ حسین بن محسن کا سلسلہ سند امام شوکانی سے متصل ہوجاتا‬
‫ہے۔اس لحاظ سے یہ سند عالی ہوجاتی ہے۔‬

‫موالنا فضل حق رام پوری دوبارہ صدر کی حیثیت سے مدرسہ عالیہ رامپور آجاتے ہیں تو حافظ عبدہللا‬
‫صاحب نے اسی زمانہ میں ان سے سند فضیلت حاصل کی ہے۔ اس لحاظ سے حافظ عبدہللا صاحب کی یہ‬
‫سند حافظ عبدالمنان وزیر آبادی کے برابر ہوجاتی ہے۔ اور آپ میاں صاحب کے براہ راست تالمذہ کے‬
‫برابر ہوجاتے ہیں۔ فضل حق رامپوری بعض کتب وحواشی کے مولف بھی ہیں"اصول فقہ کی"تلویح" پر ان‬
‫کے حواشی ہیں اور افضل التحقیقات فی مسئلہ الصفات(علم کالم) ان کی تالیف نہایت دقیق ہے۔حافظ صاحب‬
‫‪1914‬ء کو فارغ التحصیل ہوکر واپس آجاتے ہیں۔‬

‫روپڑ میں قیام‪:‬۔‬

‫ان دنوں"روپڑ"ضلع انبالہ میں قصبہ تھا۔نہر سرھند کے مرکزی دفاتر کی وجہ سے اسے خاص شہرت‬
‫حاصل تھی۔روپڑ میں"اہل حدیث تحریک" کے متعلق میاں عبدالرشید خان(کلرک دفاتر نہر سرھندی) اپنی‬
‫رپورٹ میں لکھتے ہیں‪:‬۔‬

‫ء کا ذکر ہے کہ یہاں کوئی فرد اہل حدیث نہ تھا۔سب سے پہلے نانا جی حاجی خلیفہ فضل ٰالہی نے ‪"1880‬‬
‫شرک وبدعت کا ردشروع کیا اور اس راہ میں ان کو نہایت تکالیف وشدائد کا سامنا کرناپڑا۔تاہم مسلک اہل‬
‫حدیث متعارف کرانے میں کامیاب ہوگئے۔‬

‫انہوں نے ہدایت شاہ شہید رحمۃ ہللا علیہ کی "تقویۃ االیمان" کے مطالعہ سے حاصل کی تھی۔پھر زیادہ شوق‬
‫علم کے لیے امام عبدہللا غزنوی رحمۃ ہللا علیہ کی خدمت میں امرتسر چلے گئے تھے اور بیعت کرکے‬
‫واپس آئے تھے۔‬

‫حاجی خلیفہ صاحب دور دور سے علماء اہل حدیث کو بلواتے اور جلسے کرواتے اور پھر روپڑ ہی نہیں‬
‫بلکہ علماء کو اردگرد کے دیہات میں بھی لے جاتے اور تبلیغ ووعظ کرواتے۔اس طرح اردگردکے دیہات‬
‫بھی مسلک اہل حدیث سے متعارف ہوگئے اور کئی گاؤں اہل حدیث بن گئے۔‬

‫اس ضمن میں جناب موالنا محمد حسین بٹالوی(‪1256‬۔۔۔‪1338‬ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں وہ بمع عیال‬
‫اکثر روپڑ آتے اور عرصہ تک قیام پزیر رہتے بلکہ ایک مرتبہ تو انہوں نے روپڑ میں تدریس کا سلسلہ‬
‫بھی شروع کردیا تھا۔‬

‫روپڑ میں مسجد اہل حدیث " مسجد عالی" کے نام سے مشہور تھی۔ناناجی نے موالنا سید محمود علی شاہ‬
‫ہزاروی(‪1317‬ھ) کے ساتھ مل کر چندہ جمع کرکے اس مسجد کی توسیع بھی کروائی تھی اور میاں نور‬
‫بخش کو اس کا خطیب مقرر کیا تھا۔‬

‫ء میں حافظ عبدہللا روپڑی کو۔۔۔جو ابھی کلیۃ تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے تھے‪،‬موالنا ابو سعید محمد ‪1915‬‬
‫حسین بٹالوی کےایماء پر روپڑ بالیا گیا اور ان سے وعدہ لیاگیا کہ فراغت کے بعد روپڑ میں اقامت‬
‫"کریں‪،‬تاکہ درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔‬

‫چنانچہ ‪1916‬ء کو موالنا ممدوح"روپڑ" تشریف فرماہوگئے۔خلیفہ صاحب تو‪1920‬ء کو راہ ملک عدم‬
‫ہوگئے اور اپنی یادگار میں مسجد اور مدرسہ چھوڑ گئے۔‬

‫روپڑ پہنچ کر حافظ صاحب مذکور نے‪1916‬ء میں ہی خلیفہ فضل ٰالہی کی معیت میں"دارالعلوم عربیہ‬
‫اسالمیہ" کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا‪،‬جس نے جلد ہی تدریسی شہرت حاصل کرلی اور دوردراز‬
‫تی کہ حافظ صاحب سےفیضیاب ہونےوالے متعدد‬
‫سے طالب علم اس نے تعلیم کے لیےآنا شروع ہوگئے ح ٰ‬
‫علماء نے درس نظامی کی تدریس میں موثر کردار ادا کیا جبکہ حافظ صاحب نے روپڑ میں صرف تدریس‬
‫پر اکتفاء نہیں کیا‪،‬بلکہ ہمہ جہت جماعتی ذمہ داریوں میں دلچپسی لیتے رہے۔‬

‫تالمذہ‪:‬۔‬

‫حافظ موصوف ‪1916‬ء تا‪1938‬ء روپڑ میں تدریس وخطابت کےفرائض سرانجام دیتے رہے۔اس مدت میں‬
‫بہت سے علماء نے علمی فیض حاصل کیا۔حضرت حافظ صاحب کے تلمیذ خاص موالنا محمد صدیق‬
‫فتاوی اہل حدیث) لکھتے ہیں‬
‫ٰ‬ ‫‪:‬صاحب(شیخ الحدیث سرگودھا رحمۃ ہللا علیہ ۔۔۔مرتب‬

‫جب آپ رو پڑ تشریف الئے‪،‬تو وہاں آپ نے دارالحدیث کی بنیاد رکھی۔‪1916‬ء کو دارالحدیث کاافتتاح "‬
‫ہوا۔نماز عصر کے بعد بخاری شریف شروع کی گئی۔شیخ محمد عمر بن ناصر نجدی المعروف‪،‬بہ عرب‬
‫صاحب‪،‬مولوی محمد بن عبدالعظیم پسروری‪،‬اورمولوی دین محمد سنانوی‪ ،‬رحمۃ ہللا علیہ درس بخاری میں‬
‫شریک ہوتے۔مولوی نور محمد سکنہ ووگری نےنسائی شریف شروع کی۔اس کے بعد تالمذہ کا یہ سلسلہ‬
‫وسیع تر ہوتاچالگیا۔اور یہ سلسلہ ‪1938‬ء تک جاری رہا۔پھر انہوں نے قیام پاکستان سے قبل اپنی معلومات‬
‫کے مطابق درج ذیل فہرست دی ہے۔‬

‫۔محمد عمر بن ناصر نجدی‪1‬‬

‫۔شیخ عبدہللا االبیض ۔۔۔جامع ازھر‪2‬‬

‫۔محمد بن عبدالعظیم پسروری‪3‬‬

‫۔دین محمد مرحوم ستانوی‪4‬‬

‫۔مولوی نور محمد ساکن دوگری‪5‬‬

‫۔مولوی عبدالرحمان بن مولوی محمد محسن نسائی‪6‬‬

‫۔مولوی احمد جھنگوی ملتانی۔۔۔موسس دارالحدیث بالمدینہ المنورہ۔‪7‬‬

‫۔موالنا عبدالجبار کھنڈیلوی‪8‬‬

‫۔مولوی عبدالعلیم ٹونکی‪9‬‬

‫۔مولوی ابو بکر بنگالی‪10‬‬

‫۔مولوی عبدالقیوم ہردوانی‪11‬‬

‫۔مولوی عبدالرحمان مہتمم دارالحدیث مدینہ منورہ‪12‬‬


‫اعلی محدث الہور‪13‬‬
‫ٰ‬ ‫۔حافظ محمد حسین امرتسری۔والد مدیر‬

‫۔مولوی سید محمد چونیاں‪14‬‬

‫۔مولوی قادر بخش بازید پوری‪15‬‬

‫۔مولوی شہاب الدین کوٹلوی‪16‬‬

‫۔حافظ اسماعیل وحافظ عبدالقادر پسران رحیم بخش برادر اکبر حافظ عبدہللا روپڑی‪17‬‬

‫۔موالنا محمد صدیق شیخ الحدیث جامعہ علمیہ۔۔۔سرگودھا‪18‬‬

‫۔سید بدیع الدین شاہ راشدی‪19‬‬

‫تنظیم اہل حدیث‬

‫حضرت موالنا محمد صدیق صاحب رحمۃ ہللا علیہ آف سرگودھا لکھتے ہیں ‪1932‬ء سے قبل جب جماعت‬
‫اہل حدیث کی تنظیم معرض وجودمیں آئی اورشاہ محمد شریف مرحوم اس جماعت کےامیر منتخب ہوئے‬
‫اور جماعتی امور کی نشرو اشاعت کے لیے ایک اخبار کے اجراء کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔تو‬
‫اراکین نے اس کا تمام بوجھ حضرت محدث روپڑی پر ڈال دیا۔اور مورخہ ‪ 26‬رمضان ‪1350‬ھ مطابق ‪15‬‬
‫فروری ‪1932‬ء کو"تنظیم اہل حدیث" کے نام سے ہفت روزہ اخبار جاری کیا گیا۔‬

‫تنظیم اہل حدیث اور صوبہ پنجاب‬

‫در اصل"تنظیم اہل حدیث"کے لیے"مجلہ اہلحدیث"امرتسر نے اپنے اجراءکے ساتھ تحریک بھی شروع‬
‫کردی تھی۔‬

‫اب موالنا ثناءہللا امرتسری رحمۃ ہللا علیہ اور موالنا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اس امر کے لیے کوشاں‬
‫تھے کہ صوبہ پنجاب میں بھی ایک صوبائی تنظیم کا ہوناضروری ہے۔جو مرکزی جماعت کے ساتھ الحاق‬
‫کرسکے اور مرکز کے اغراض ومقاصد کے تحت کام کرے۔چنانچہ اس غرض کے لیے موالنا امرتسری‬
‫رحمۃ ہللا علیہ نے اخباراہل حدیث میں تحریک شروع کی۔مگر پنجاب میں تنظیم کے مسئلہ پر جماعت‬
‫دودھڑوں میں تقسیم ہوگئی‪،‬جوموالنا امرتسری رحمۃ ہللا علیہ کے تفسیر نزاع کی وجہ سے پہلے ہی بن‬
‫چکے تھے۔‬

‫نفس تنظیم میں کسی کو اختالف نہ تھا مگر سوال یہ تھا کہ ایک جماعت جو عمل بالحدیث کی داعی ہے۔اور‬
‫وہ ا پنے ہر کام میں آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی دعوےدار ہے‪ ،‬تو‬
‫کیا صدارتی جمہوری نظام اسکے اصول کے مطابق ہے۔یا نظام بصورت امارت کی تشکیل ضروری ہے۔‬

‫جدت پسند اذہان تو صدارتی نظام کے حامی تھے اور اس کو عین اسالمی نظام سمجھتے تھے‪،‬خصوصا ً‬
‫جب کہ اس کی ہیت کذائی۔۔۔شورائی طرز کی حامل ہو۔لیکن خالص سلفی مکتب فکر کے علماء نظام امارت‬
‫کبری کا درجہ دینے کے لیے تیار نہ تھے جو کہ‬
‫ٰ‬ ‫قائم کرنے کے حامی تھے۔گو اس امارت کو امارت‬
‫سیاسی قوت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔‬

‫موالنا ثناء ہللا تنظیم بصورت انجمن کےحامی تھے۔اور صدارتی نظام چاہتے تھے اس بناء پر انہوں نے‬
‫‪:‬بطور استفسار کےاخبار اہلحدیث میں حسب ذیل اعالن کیا‬

‫پنجاب میں آج کل تنظیم جماعت کی بابت دو رائیں پائی جاتی ہیں۔۔۔ایک رائے یہ ہے کہ تنظیم بصورت "‬
‫انجمن ہو اور دوسری رائے یہ ہے کہ بصورت امارت ہو ناظرین اپنی اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔‬

‫چنانچہ اس سلسلہ میں ایک مضمون موالنا محمدعلی لکھوی مرحوم کا ہے جو‪/9‬ستمبر ‪1932‬ء کے اخبار‬
‫"اہل حدیث" میں شائع ہوا۔یہ مضمون مفصل ہے۔اور اس ضمن میں ڈاکٹر سید فرید احمد مہتمم مدرسہ احمدیہ‬
‫سلفیہ(در بھنگہ) کا بھی ایک مضمون ہے۔ جو‪/14‬ستمبر ‪1932‬ء ے اہل حدیث میں شائع ہوا۔اور ان سے قبل‬
‫موالنا عبدالحلیم صدیقی مدرس دارالعلوم احمدیہ سلفیہ (در بھنگہ) بھی اپنے خیاالت کا اظہار کرچکے‬
‫تھے۔جو تنظیم بصورت امارت پر زور دے رہے تھے۔‬

‫اس سے علماء نے یہ سمجھا اور سمجھنا چاہیے کہ الفاظ بصورت"انجمن"سے مروجہ جہوریت مراد ہے‬
‫سے"شوری اسالمیہ" ہے اس بناء پر علماء نےتصریح کےساتھ لکھا۔‬
‫ٰ‬ ‫اور بصورت امامت‬

‫تنظیم جماعت بصورت انجمن اغیار کی اختراع ہے اور تنظیم جماعت بصورت امارت کتاب وسنت سے "‬
‫"ثابت ہے۔‬
‫لیکن اس پر غور کی بجائے رجعت پسندی کا طعنہ دیا گیا اور کہا گیاکہ قرآن نے تو اصول بیان فرمائے‬
‫ورى بَ ْینَ ُھ ْم کا ہے۔متمدن دنیا کس قدر بھی ترقی کرجائے یہ اصول اپنی‬
‫ش َ‬‫ہیں۔جن میں ایک اصل َوأ َ ْم ُر ُھ ْم ُ‬
‫جگہ پر قائم رہے گا اورمروجہ جمہوریت بھی اگر اس اصل پر قائم ہے تو عین اسالمی ہوگی۔‬

‫مگر مروجہ جمہوریت اپنی تصنع اور زیبائش کے باوجود معاشرہ میں بہت سی برائیوں کو جنم دے رہی‬
‫ہے اور جمہوریت میں حسن وقبیح کامیعار مادیت ہے اور صرف دنیاوی زندگی کو سامنے رکھ کر تمام‬
‫اصول بنائے گئے ہیں۔اس جمہوریت کےمخترعین کے سامنے آخرت کا تصور نہیں ہے۔نہ ہی اس پر ایمان‬
‫ہے اور نہ اس سے کچھ سروکار!۔۔۔‬

‫کامطمع نظر ہی حصول رضا ٰالہی ہو اور اتباع کتاب وسنت ہو۔وہ اسے کیسے اپنا سکتی‬
‫ِ‬ ‫پس جس جماعت‬
‫ہے۔اس بناء پر جماعت اہل حدیث کی تنظیم بصورت امارت ہی ممکن ہوسکتی ہے۔‬

‫واضح رہے کہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے مقاصد کے تحت پنجاب میں"صدر انجمن اہل حدیث۔۔۔صوبہ‬
‫پنجاب"کی بنیاد تقریبا ً ‪1921‬ء کو رکھی جاچکی تھی۔جس کے صدر اور سیکرٹری مقرر تھے۔اور یہ انجمن‬
‫اپنے تنظیمی پروگرام چالرہی تھی۔جس کاصدر دفترالہور میں قائم ہوچکاتھا۔‬

‫لیکن جو لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔اور وہ امارتی نظام کے داعی تھے۔انہوں نے ‪13‬جوالئی‬
‫‪1930‬ء کوموضع"کمیر پور" تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر میں ایک نمائندہ اجتماع بالیا۔موالنا مرحوم‬
‫سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ اس میں خاکسار کو بھی دعوت دی گئی اور اس میں تقرر امیر کو زیر بحث الیا گیا‬
‫اور شرکاء کی اکثریت نے سید محمد شریف کو اپنا امیر منتخب کرلیا اور جماعتی نظام کو چالنے کےلیے‬
‫اس کا صدر دفتر "امرتسر" میں قائم کیا گیا۔جمیعت کے ناظم حکیم نور الدین قرار پائے اور اس تنظیم کا‬
‫نام"تنظیم اہل حدیث۔۔۔پنجاب" رکھاگیا۔‬

‫اس تنظیم کی بھی اضالع میں شاخیں قائم کی گئیں۔اس جمعیت کے تحت مرکزی درسگاہ قائم کی گئی۔جس‬
‫کے جملہ اخراجات کابوجھ گوجرانوالہ کی جمیعت نے اپنے ذمہ لے لیا۔اس مرکزی درس گاہ میں حافظ‬
‫محمد صاحب گوندلوی مرحوم صدر مدرس اور شیخ الحدیث مقرر ہوئے اور اس میں مولوی فضل الرحمان‬
‫گوندلوی اور موالنا عطاء ہللا صاحب بھوجیانی بھی مدرس رہے اور موالنا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ ہللا‬
‫علیہ اس کے منصرم مقرر ہوگئے۔‬
‫اس درسگاہ کاباقاعدہ مرکز کےتحت امتحان ہوتا رہا۔ابتداء میں حافظ عبدہللا صاحب روپڑی اسکے مفتش‬
‫وممتحن بھی رہے۔‬

‫برسر مطلب‪:‬۔‬
‫ِ‬ ‫آمدم‬

‫چونکہ اس تنظیم کے قیام میں حافظ عبدہللا صاحب روپڑی نے موثر کردار ادا کیا تھا‪ ،‬اس لیے جمیعت کے‬
‫لیے ایک مجلہ اُسبوعیہ کی ضرورت محسوس ہونے لگی تو اس کا بارگراں بھی حافظ صاحب روپڑی کے‬
‫کندھوں پر ڈال دیا گیا یا انہوں نے خود اٹھالیاتھا۔چنانچہ مارچ‪1932‬ء کو اس کا پہال شمارہ منصہ شہود پر‬
‫آیا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے تاہم ابتداء میں تقریبا ً دو سال تک یہ اخبار پندرہ روز تک نکلتا رہا اور‬
‫باالخر اس کو"ہفت روزہ" کردیا گیا ۔‬

‫اخبار تنظیم اہل حدیث‬

‫بالشبہ اخبار"تنظیم اہل حدیث" نے جماعتی تنظیم اور اس کے کام کومربوط کرنے کے لئے خصوصی رول‬
‫فتاوی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جو اہل حدیث‬
‫ٰ‬ ‫ادا کیا۔تاہم اس اخبار میں حافظ عبدہللا صاحب کے‬
‫فتاوی بعض احباب کی کوشش سے‬
‫ٰ‬ ‫علماء اور دوسری جماعتو ں کے لیے بھی توجہ کا باعث بن گئے۔اب وہ‬
‫الگ مرتب ہوگیا ہے ۔لہذا اس پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں۔‬

‫اخبار کے جاری ہوتے ہی حافظ محمد اسماعیل صاحب روپڑی اور ان کے بھائی حافظ عبدالقادر روپڑی‬
‫نائب مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگ گئے۔بعض مسائل جو حافظ صاحب خود نہ لکھنا چاہتے وہ ان‬
‫دونوں کے نام سے شائع کروادیےجاتے۔مثالً نظام امارت یا صدارت!۔۔۔تفسیری اغالط۔۔۔اور مناظرات کی‬
‫رپورٹیں وغیرہ۔‬

‫اخبار"العدل"اور تنظیم اہلحدیث‬

‫انہی دنوں گوجرانوالہ سے اخبار ‪":‬العدل" موالنا عبدالعزیز صاحب دیوبندی کی زیرسرپرستی شائع‬
‫ہورہاتھا۔ جس میں اہل حدیث کے خالف زہراگال جارہاتھا۔اہل حدیث امرتسرکی طرح تنظیم اہل حدیث میں‬
‫اس کے محتویات کا مناسب جواب دیا جاتا۔موالنانور حسن گرجاکھی کے بہت سے مضامین اہل حدیث‬
‫سےدفاع کے لیے شائع ہوئے ہیں۔اسی طرح"الفقیہ"امرتسر کے جواب میں بھی "تنظیم اہل حدیث" خاموش‬
‫نہ رہتا۔بلکہ اختالفی مسائل پر نوک جھونک جاری رہتی۔‬
‫ذوالحجہ کی تیرہویں کو قربانی‬

‫اخبار"العدل" کی ایک اشاعت میں"فرقہ اہل حدیث کی متعصبانہ تیرھویں قربانی" کے عنوان سے ایک‬
‫مضمون شائع ہوا اور ذوالحجہ کی تیرھویں تاریخ کوقربانی پر طنز کیا گیا۔اس پر تنظیم اہل حدیث میں موالنا‬
‫عبدالجلیل سامرودی نے ایک محققانہ مضمون شائع کیا اور تیرھویں تاریخ کو قربانی کاثبوت پیش کیا۔وہ‬
‫اپنے مضمون میں لکھتے ہیں۔‬

‫اس مضمون میں اہل حدیث کوبے جاتنقید کا نشانہ بنایاگیا ہے اگر آپ نے سنانا ہی تھا تو اپنے عم بزرگوار "‬
‫امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کانام لے کر سناتے۔۔۔آپ جب مقلد ہیں تو کسی مجتہد کےمسلک پر اعتراض کا کیا‬
‫حق پہنچتاہے۔یہ امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کامذہب ہے ‪،‬چنانچہ ہدایہ میں ہے۔‬

‫"وقال الشافعي رحمه ہللا ثالثة أیام بعدہ لقوله علیه الصالة والسالم أیام التشریق كلھا أیام ذبح"‬

‫کہ امام امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ یوم النحر کے بعد تین دن کی قربانی کے قائل ہیں کیونکہ آپ نے فرمایا "‬
‫"ہے کہ ایام تشریق سب ایام ذبح ہیں‬

‫امام نووی رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کا مذہب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔‬

‫تعالی عنہ "‬


‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ‪،‬ابن عباس رضی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ‪،‬جبیر بن معطم رضی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫علی بن ابی طالب رضی ہللا‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫‪ ،‬عطا رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬حسن بصری رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬عمر بن عبدالعزیز رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬سلیمان بن‬
‫"اسدی‪ ،‬رحمۃ ہللا علیہ مکحول رحمۃ ہللا علیہ ‪(،‬فقیہ اہل الشام) اورداود ظاہری کا یہ مسلک ہے‬

‫زاد المعاد"میں حافظ ابن قیم رحمۃ ہللا علیہ نےمتعدد ائمہ کا یہی مسلک قرار دیاہے۔حافظ ابن کثیر رحمۃ ہللا "‬
‫علیہ اپنی تفسیر میں"تحت اآلیۃ"لکھتے ہیں۔‬

‫الزبیر‪،‬ابوموسی‪،‬عطاء رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬مجاہد‬


‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ‪،‬ابن‬
‫ٰ‬ ‫ہونا‪،‬ابن عمر رض ہللا‬
‫ِ‬ ‫ایام تشریق کا چار دن‬
‫رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬عکرمہ رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬سعید بن جبیر رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬ابو مالک رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬ابراہیم نخعی‬
‫یحیی ابن کثیر رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬حسن رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬قتادہ رحمۃ ہللا علیہ ‪ ،‬ربیع بن انس‬
‫ٰ‬ ‫رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬‬
‫رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬عطاء خراسانی اور مالک بن انس رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬وغیرھم سے مروی ہے۔ اور پھر حافظ‬
‫ابن کثیر رحمۃ ہللا علیہ لکھتے ہیں۔‬

‫امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کا مذہب ہی راجح ہے۔یعنی قربانی کا وقت یوم النحر سے لے کر آخر ایام تشریق‬
‫تک ہے اور حافظ ابن حزم رحمۃ ہللا علیہ نے"المحلی" میں ان سب اقوال کو بمع تخریج نقل کیا ہے۔ اور ابن‬
‫‪:‬حجر مکی شرح مشکواة میں لکھتے ہیں‬

‫وبذلك قال ابن عباس وجبیر بن معطم ونقل عن علي وبه قال كثیر من التابعین فمن زعم ان الشافعي تفرد به "‬
‫" فقداخطا‬

‫‪:‬حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں‬

‫جبیربن معطم کی حدیث مرفوعا ً ثابت ہے۔امام احمد رحمۃ ہللا علیہ نے اس کی سند کو منقطع کہاہے۔مگر "‬
‫دارقطنی رحمۃ ہللا علیہ نے اسے موصوالً ذکر کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔‬

‫تعالی عنہ کی حدیث کے متعلق لکھا ہے جو اسے منطقع‬


‫ٰ‬ ‫عالمہ شوکانی نے بھی جبیر بن معطم رضی ہللا‬
‫"کہتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابن حبان رحمۃ ہللا علیہ ے اسےموصوال ذکر کیا ہے‬

‫پھر عالمہ منادی نے شرح "الجامع الصغیر" میں اور عزیزی نے السراج المنیر‬

‫تعالی عنہ کی مسند احمد والی حدیث کی اسناد کو"صحیح" کہا ہے ۔عالمہ‬
‫ٰ‬ ‫میں جبیر بن معطم رضی ہللا‬
‫سیوطی رحمۃ ہللا علیہ نے بھی اس پر صحت کی عالمت قائم کی ہے۔عالمہ شوکانی الدراری المضیۃ" میں‬
‫لکھتے ہیں۔‬

‫ضا ً‬
‫ض َھا بَ ْع َ‬ ‫‪َ .‬ولَهُ ُ‬
‫ط ُر ٌق یُقَ ِّ ِو ْ‬
‫ي بَ ْع ُ‬

‫کہ اس کےمتعددطرق ہیں جن سے تقویت حاصل ہوگئی ہے۔‬

‫اور امام شوکانی رحمۃ ہللا علیہ نے"وبل الغمام" میں لکھا ہے۔‬

‫"اس حدیث کی ضعیف ہونے کی کوئی ایسی وجہ بیان نہیں کی گئی جس پر اعتماد ہوسکے"‬
‫وی میں اس حدیث پر بحث کرتےہوئے لکھتے ہیں۔وھو حسن یحتج‬
‫حسین بن محسن انصاری اپنے فتا ٰ‬
‫به۔۔۔الغرض یہ حدیث حسن ‪،‬قابل حجت ہےاورپھر آگے چل کر عالمہ حسین انصاری رحمۃ ہللا علیہ لکھتے‬
‫ہیں۔‬

‫ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے اس کی تصیح کی ہے۔اگر یہ ضعیف بھی ہوتواقوال صحابہ اور جمہور اہل "‬
‫علم اس کے حق میں ہیں۔‬

‫حافظ ابن کثیر رحمۃ ہللا علیہ نے تفسیر میں اس کے متابعات بھی ذکر کیے ہیں اور دارقطنی نے بھی اس‬
‫کے متابعات ذکر کیے ہیں۔ الغرض اس مسئلے میں کوئی غبار نہیں ہے۔اور یہ واقعہ ہے کہ اخبار"تنظیم اہل‬
‫حدیث" نے ہر موقع پر مسلک اہل حدیث کا دفاع کیا ہے۔خصوصا ً علمی مسائل میں تو "مدیر" کے قلم کا لوہا‬
‫دوسرے بھی مانتے ہیں اور کم وبیش تمام اختالفی مسائل پر جو زیر بحث آتے رہے ہیں۔اسقدر موادجمع‬
‫کردیا ہے کہ اس سے ہر مسئلے کی دلیل مل سکتی ہے۔یہی حال"اہل حدیث" امرتسر کاہے۔ جیسا کہ ہم نے‬
‫تعالی ان‬
‫ٰ‬ ‫ذکر کیاکہ اب ان کے خلف اسی پر زندہ ہیں اور حافظ عبدالقادر انہی مسائل کا اعادہ کررہے ہیں۔ہللا‬
‫کو مزید توفیق عطا فرمائے۔آمین۔‬

‫آٹھ رکعات تراویح‪:‬۔‬

‫اخبار"تنظیم" نے آٹھ رکعت مسئلہ تراویح پر ایک مضمون شائع کیا اور ثابت کیا کہ آٹھ رکعات تراویح‬
‫کاسنت ہونا اہل حدیث اورحنفیہ کے مابین متفق علیہ ہے اور اس پر سائب بن یزید کی حدیث کو بطور دلیل‬
‫تعالی عنہ اور تمیم داری رضی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے ابی بن کعب رضی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫پیش کیا کہ حضرت عمر رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کرو۔اور آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے تین رات‬
‫ٰ‬
‫جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھائی ہے۔وہ بھی آٹھ رکعات اورتین وتر کے ساتھ تھی۔چنانچہ صحیح ابن حبان‬
‫اور صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے آٹھ رکعات اور وترپڑھائے۔‬

‫اور جس روایت میں بیس مذکور ہیں اوالً تو وہ صحیح ہی نہیں ہے۔خود زیلعی نے تخریج"ہدایہ" میں اسکی‬
‫تضعیف کی ہے کہ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان باالتفاق ضعیف ہیں۔‬

‫اس بناء پر ہم کہتے ہیں کہ تراویح باجماعت اور آٹھ رکعات کی تحدید دونوں ہی فعل نبوی صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم سے ثابت ہیں لیکن آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے جماعت کی پابندی کاحکم نہیں دیا۔تراویح‬
‫تعالی عنہ کے دور میں شروع ہوا۔اس بناء پر حضرت عمر‬
‫ٰ‬ ‫باجماعت پر استمرار حضرت عمر رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ نے لغوی معنی کے اعتبار سے اس کو"نعمت البدعۃ" کہا ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬

‫تعالی عنہ کے حکم سے جو نماز پڑھائی گئی‪،‬وہ آٹھ رکعات تھی۔موطا میں جو‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عمر رضی ہللا‬
‫مذکور ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔اسے حضرت عمر رضی‬
‫تعالی عنہ کی سنت نہیں کہہ سکتے وہ لوگوں کااپنا عمل تھا۔اس بنا پر ابن الہمام فتح القدیر(شرح ہدایہ)‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫"میں لکھتے ہیں"سنت اصل آٹھ ہی ہیں ‪،‬باقی مستحب یعنی نوافل ہیں۔‬

‫اور امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے بھی موطا میں ‪36‬رکعات کومستحب کہا ہے۔اور عالمہ عینی نے شرح‬
‫بخاری اور امام سیوطی رحمۃ ہللا علیہ نے رسالہ التراویح میں لکھا ہے کہ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ بھی‬
‫گیارہ رکعت ہی پسند کرتے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل سنت توامام مالک رحمۃ ہللا علیہ کے‬
‫نزدیک بھی آٹھ ہی ہیں اور زائد کو نوافل کہہ سکتے ہیں اور پھر صحابہ کرام رضوان ہللا عنھم اجمعین اگر‬
‫کسی عبادت یادعا میں اضافہ کرتے ہیں تو اسے سنت کادرجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔زیادہ سے زیادہ اسے‬
‫تعالی عنہ تلبیہ حج میں کچھ زائدکلمات بطور دعاشامل‬
‫ٰ‬ ‫جائز کہہ سکتے ہیں۔مثالً حضرت ابن عمر رضی ہللا‬
‫‪:‬کرلیتے تو اس پرامام شافعی رحمۃ ہللا علیہ نےفرمایا‬

‫اگر تلبیہ حج میں کوئی اضافہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔مگر بہتر یہ ہے کہ تلبیہ نبوی صلی ہللا علیہ "‬
‫"وسلم پر اکتفاء کرے۔‬

‫اسی بناء پر مسلک اہل حدیث کا مسلک یہ ہے کہ آٹھ رکعات تراویح سنت ہے اوراگرنوافل کےطور پر‬
‫کوئی اضافہ کرے تو اس پر اعتراض نہیں ہے۔اور نہ ہی حدیث کے خالف ہے۔ہاں اگر سنت سمجھ کر بیس‬
‫پڑھے تو یہ خالف سنت ہے۔اس بناء پر گنہگار بھی ہوگا۔شیخ عبدالحق دہلوی اپنے رسالہ"ماثبت بالسنۃ" میں‬
‫لکھتے ہیں۔‬

‫"خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں بھی گیارہ رکعت پر عمل ہوتا رہاہے۔‬

‫خالصہ بحث‪:‬۔‬

‫مندرجہ باال تفصیل کی بنائ پر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم آٹھ رکعت پڑھتے اور پڑھاتے‬
‫تعالی عنہ کے دور میں بھی آٹھ رکعات پر ہی عمل رہا۔ اور تابعین رحمۃ‬
‫ٰ‬ ‫رہے۔پھر حضرت عمر رضی ہللا‬
‫ہللا علیہ کے دور میں بھی۔ اور امام مالک رحمۃ ہللا علیہ کے معاصر محمد بن اسحاق آٹھ رکعت کو ترجیح‬
‫دیتے۔ان کے بعد محدثین کے اقوال بھی اس کےموافق ہیں اورحنفیہ کے نزدیک بھی آٹھ رکعت کو ترجیح‬
‫ہے۔تو اسکے بعد کو نسا تعامل رہ جاتاہے۔جس پر احناف عمل پیرا ہیں۔‬

‫االولی میں"حنفیت کی عظیم الشان فتح" کے عنوان سے ایک مضمون‬


‫ٰ‬ ‫اخبار"العدل"گوجرانوالہ ‪/28‬جمادی‬
‫شائع ہوا۔جس کا تعلق گوجرانوالہ میں موالنا ثناء ہللا صاحب امرتسری رحمۃ ہللا علیہ اور موالنا عبدالعزیز‬
‫دعوی کیا کہ حدیث وإذا قرأ‬
‫ٰ‬ ‫کے مابین"قراة الخلف امام" کے مسئلہ پر مناظرہ سے تھا۔موالنا عبدالعزیز نے‬
‫فأنصتوا ۔۔۔صحیح مسلم میں ہے۔موالنا ثناء ہللا نے اس حدیث کے صحیح مسلم میں ہونے سے انکار کیا۔‬

‫یہاں پر حافظ عبدہللا صاحب کی رائے نقل کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔‬

‫امام نووی رحمۃ ہللا علیہ بڑے پایہ کے محدث فقیہ اور حجت ہیں۔دیگر تصانیف کے عالوہ انہوں نے شرح "‬
‫مسلم بھی لکھی ہے۔اس شرح میں امام نووی رحمۃ ہللا علیہ نے صحیح مسلم کی احادیث اور اسانید مشکلہ‬
‫کو اس طرح حل کیا ہےکہ آپ کے بعد آنے والے لوگ انہی پر اعتماد کرتے ہیں اس حدیث پر امام نووی‬
‫‪:‬رحمۃ ہللا علیہ لکھتے ہیں‬

‫واعلم أن ھذہ الزیادة وھي قوله ‪ ( :‬وإذا قرأ فأنصتوا ) مما اختلف الحافظ في صحته ‪ ...‬على تضعیفھا مقدم على‬
‫‪ [ .‬ص‪ ] 94 :‬تصحیح مسلم ‪ ،‬ال سیما ولم یروھا مسندة في صحیحه‬

‫جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث مذکور صحیح مسلم میں باالسناد نہیں ہے۔لہذا یہ موضوع کتاب سے‬
‫خارج ہے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث مذکور صحیح مسلم میں باالسناد نہیں ہے۔لہذا یہ موضوع‬
‫کتاب سے خارج ہے۔‬

‫عملی خدمات۔۔۔تالیفات‬

‫علمی‪،‬فروعی مسائل پر بھی حافظ رحمۃ ہللا علیہ نے مسلک اہل حدیث کے مطابق بیشتر تالیفات چھوڑ‬
‫فتاوی اہل حدیث) کے عنوان سے ان کے تلمیذ ارشد کی عملی کوشش سے یکجاہوکر‬
‫ٰ‬ ‫(فتاوی تو‬
‫ٰ‬ ‫دیں۔ان کے‬
‫طبع ہوچکے ہیں۔یہاں پر ان کی دوسری تالیفات مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کا تعارف مطلوب ہے۔‬

‫۔الکتاب المستطاب‪:‬۔‪1‬‬
‫موالنامحمد انور شاہ کشمیری نے عربی میں "فصل الخطاب"کے نام سے ایک کتاب لکھی۔جس میں "قراءة‬
‫خلف االمام" کےمسئلہ میں حنفی مذہب کی ترجمانی کی۔حافظ رحمۃ ہللا علیہ نے اس کے جواب میں یہ کتاب‬
‫عربی میں لکھی۔جو بہت سے علمی مباحث پر مشتمل ہے اور متعدد احادیث کے مشکل مقامات کاحل‬
‫ہے۔اس کے حاشیہ پر "فصل الخطاب" ہے تاکید ناظرین کو اصل مسئلہ کے سمجھنے میں آسانی ہو۔یہ کتاب‬
‫عرصہ سے ناپید ہے۔جماعتی ذہن میں تازگی پیدا کرنے کے لئے اس کا جدید ایڈیشن شائع کرنا ضروری‬
‫ہے۔ جس میں مرحوم کے بعد جو موالناخیر محمد جالندھری وغیرہ نے نفس کتاب پر بعض اعتراضات کئے‬
‫ہیں تاکہ ان کا بھی جواب ہوسکے۔‬

‫۔اطفاء الشمعہ‪:‬۔‪2‬‬

‫یہ رسالہ مسائل جمعہ پر مشتمل ہے تمام مسائل کا احصاء کیا گیا ہے اور اس موضوع پر احناف کی طرف‬
‫جو رسائل لکھے گئے ہیں۔مثالً موالنا احمد علی الہوری رحمۃ ہللا علیہ ‪،‬موالنا رشید احمد گنگوہی رحمۃ ہللا‬
‫علیہ ‪،‬موالنا محمود الحسن دیوبندی‪،‬اورنیموی صاحب کی کتابوں کابالخصوص جواب دیاگیا ہے۔جانبین کے‬
‫دالئل کا بالتفصیل ذکر کیا گیا ہے۔اور ظہر احتیاطی کامسئلہ بڑی تفصیل سے ذکر کیاگیا ہے۔علمائے دہلی‬
‫فتاوی بھی درج ہیں۔‬
‫ٰ‬ ‫کے‬

‫۔درایت تفسیری‪:‬۔‪3‬‬

‫اصول تفسیر پر بحث کی گئی ہے۔ابتداء میں مسئلہ تقلیدپر بحث ہے۔‬

‫۔اہل سنت کی تعریف‪:‬۔‪4‬‬

‫اس رسالہ کی جامعیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس میں اہل سنت کی ‪ 37‬تعریفیں کی‬
‫گئیں ہیں۔مولف نے ان سب پر محاکمہ کیا ہے۔یہ کتاب تقریبا ً ‪ 400‬صفحات پر مشتمل ہے۔‬

‫۔اہل حدیث کی تعریف‪:‬۔‪5‬‬

‫چونکہ یہ موالنا اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ کے رسالہ"االقتصاد" کاجواب ہے ۔اس لئے رسالہ کے‬
‫ضمن میں "تقلید" پر مکمل بحث ہے۔موالنا تھانوی کا یہ رسالہ درا صل سید میاں صاحب دہلوی کی‬
‫کتاب"معیار الحق" کےجواب میں لکھا گیا ہے۔صرف خطبہ اول مطبوع ہے۔‬

‫۔نبی معصوم صلی ہللا علیہ وسلم ‪:‬۔‪6‬‬

‫یہ رسالہ مختصر ہے۔اور عیسائیوں کے جواب میں ہے ۔عیسائی مشنری نے قرآن سے رسول اکرم صلی ہللا‬
‫عیسی علیہ السالم کا‬
‫ٰ‬ ‫عیسی علیہ السالم کا معصوم ہونا اورحضرت‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وسلم کو گنہگار ثابت کیا ہے۔اور‬
‫شفیع ہونا ثابت کیا ہے۔اس موضوع پر دیگر ائمہ اور علمائے اہل حدیث نے رسالے لکھے ہیں۔ابن حزم کی‬
‫کتاب "الفصل فی الملل والنحل" میں ایک مستقل باب ہے۔جوعصمت انبیاء علیہ السالم کے ثبوت پرمشتمل‬
‫ہے۔حضرت موالنا میر سیالکوٹی رحمۃ ہللا علیہ دورہ تفسیر میں طلبہ کویہ باب درسا پڑھاتے۔موالنا محمد‬
‫حسین ابو سعید بٹالوی نے عیسائی مشنری کے جواب میں عصمت االنبیاء علیہ السالم پر ایک ر سالہ لکھا‬
‫ہے۔جوان کے رسالہ"اشاعۃ السنہ" کے ایک مستقل نمبر میں شائع ہوچکاہے۔یہ رسالہ راقم الحروف کے‬
‫اشارے پر شیخ محمد اشرف رحمۃ ہللا علیہ نے کتابت کروایاتھا۔پر معلوم نہیں ہوسکا کہ طباعت کے مرحلہ‬
‫پر پہنچایا نہیں۔‬

‫۔رسالہ رد بدعات‪:‬۔‪7‬‬

‫نام سے ظاہر ہے کہ اس میں بدعات کارد ہے۔مروجہ بدعات پر پندرہ سواالت کے جوابات ہیں‪،‬نیز قبور‬
‫وقبہ جات کےگرانے کا مفصل بیان ہے اور بدعت کے لغوی اور شرعی معنی بتائے گئے ہیں۔‬

‫۔امامت شرک‪:‬۔‪8‬‬

‫۔امامت مشرک‪:‬۔‪8‬‬

‫یہ ایک اشتہار ہے ۔اخبار اہل حدیث امرتسر میں یہ بحث چلی کہ کلمہ گو مشرک کے پیچھے نماز جائز ہے‬
‫یا نہیں۔مذکورہ اشتہار میں اس مسئلہ پر پوری بحث ہے فی زمانہ بھی اس مسئلہ کو سمجھنا ضروری ہے۔‬

‫۔اربعین غزنویہ‪:‬۔‪9‬‬

‫موالنا ثناء ہللا امرتسری رحمۃ ہللا علیہ نے جب تفسیر بنام"تفسیر القرآن بکالم الرحمان" لکھی ہے جو‬
‫اسلوب وانداز بیان کے لحاظ سے تفسیر ابن کثیر کا خاکہ تھامگر اختصار میں جاللین سے بھی بازی لے‬
‫حتی کہ بنارس وغیرہ کے مدارس میں "جاللین" کی بجائے‬
‫گئی تھی۔اس تفسیر بہت سے علماء نے پسند کیا ٰ‬
‫اس کو پڑھانے کی تجاویز کا اظہار کیا گیا۔بیرون ملک مصر کے علماء نے بھی اس کو پسند کیا‪،‬مگراس‬
‫میں موالنا نے سلف کی راہ چھوڑ کو متکلمین کی تاویل کا رنگ اختیارکیاتھا۔اسلیے اہل حدیث اور سلفی ذہن‬
‫کے علماء نے اسے ناپسند کیا اور تتبع کرکے چالیس مقام کی نشاندہی کی اور موالنا مرحوم سے درخواست‬
‫کی کہ ان کی اصالح کی جائے۔مذاکرہ علمیہ آرہ کے‪1323‬ھ کے ساالنہ جلسہ میں یہ رائے قرار پائی کہ‬
‫اس پر کچھ علماء کو حکم مقرر کیا جائے۔چنانچہ حافظ عبدہللا غازی پوری ‪،‬موالنا شاہ عین الحق پھلواری‬
‫اور موالنا شمس الحق ڈیانوی کو حکم مقرر کیا گیا جو جانبین سے موقف سن کرفیصلہ کریں گے۔علماء اہل‬
‫حدیث نے موالنا عبدالواحد غزنوی‪،‬موالنا عبدالغفور اور موالنا عبداالول پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی کہ ان‬
‫اغالط کو"اربعین" کےنام سے مرتب کیا جائے اور یہ نزاع یہاں تک کہ بڑھا کہ سلطان عبدالعزیز تک جا‬
‫کبری کا شاخسانہ کھڑا کرکے اور ساتھ شرکیہ دم‬
‫ٰ‬ ‫پہنچا۔ایک طرف تو موالنا عبدالوہاب دہلوی نے امامت‬
‫جھاڑ کے جواز پر اصرار کرکے اختالف پیدا کیا اور دوسری طرف موالنا امرتسری کی تفسیرپر "ثنائی‬
‫غزنوی" یا"ثنائی روپڑی نزاع نے ایک مستقل "کلکل"اختیارکرلی۔اس اربعین کا پورا نام ہے۔‬

‫"االربعین في ان شاء ہللا لیس علي مذھب المحدثین"‬

‫موالنا ثناء ہللا مرحوم نے ان اعتراضات سے براءت کے اظہار کے لئے جوابات لکھے اور ان کے مجموعہ‬
‫کو"الکالم المبین" کے نام سے شائع کردیا۔موالنا قاضی عبداالحدخانپوری نے سترہ مقامات پر محاکمات‬
‫لکھے ہیں جو بڑے زور دار ہیں۔‬

‫موالنا ثناء ہللا مرحوم نے اس ضمن میں تقلید شخصی وسلفی‪،‬اتباع سلف اور الکالم المبین وغیرہ رسائل‬
‫لکھے ان کے جواب میں حافظ رحمۃ ہللا علیہ نے درایت تفسیری ‪،‬تعریف اہل حدیث اور تعریف اہل السنہ‬
‫وغیرہ رسالے شائع کیے ان رسائل میں متنازعہ مسائل کے عالوہ اور بھی بہت سے علمی فوائد‬
‫فتاوی ابن تیمیہ‬
‫ٰ‬ ‫ہیں۔خصوصا ً حافظ عبدہللا رحمۃ ہللا علیہ نے تفسیری مباحث کی خوب چھان بین کی۔ اور‬
‫رحمۃ ہللا علیہ سے لے کر تفسیر کبیر رازی اور کتب امام سیوطی رحمۃ ہللا علیہ تک کو ماخذ بنایا ہے ۔ہللا‬
‫تعالی سے دعا ہے کہ ہم محض حق کی تالش کریں اور ذاتیات کو مبحث نہ بنائیں۔‬
‫ٰ‬

‫۔بکرادیوی‪:‬۔‪10‬‬

‫اس میں نذرلغیرہللا کی حلت وحرمت کا بیان ہے اور آیت"وما اھل لغیرہللا" کی پوری تفصیل ہے۔‬
‫۔زیارت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم ‪:‬۔‪11‬‬

‫یہ مسئلہ بھی علماء کے مابین اتفاقی چال آیا ہے۔اور حافظ ابن تیمیہ رحمۃ ہللا علیہ نے روضہ اقدس کی‬
‫زیارت وآداب پر تفصیل روشنی ڈالی ہے اور اس ضمن میں بہت سی بدعات کا ردکیا ہے اورغلط فہمیوں‬
‫کو دور کیا ہے۔حافظ صاحب نے اس رسالہ میں اصل مسئلہ کی پوری وضاحت کردی ہے۔ اور شیخ االسالم‬
‫ابن تیمیہ رحمۃ ہللا علیہ کی ترجمانی کاحق ادا کردیا ہے۔‬

‫۔المرشد واالمام‪:‬۔‪2‬‬

‫اس رسالہ میں پیروی ‪،‬مریدی پر بحث کی گئی ہے۔‬

‫۔طیور ابراہیمی‪:‬۔‪13‬‬

‫قرآن پاک کی تفسیرمیں یہ مبحث بھی نہایت اہم ہے۔جدت پسند مفسرین نے طیور کےذبح ہونے سے انکار‬
‫کیاہے۔اس آیت میں بحث کا مدار"فصرھن" کی تفسیر پر ہے۔غالبا ً اس تاویل کی پیشوائی ابو مسلم معتزلی کی‬
‫ہے اور اس نے ذبح کا انکار کیا ہے۔‬

‫۔رسالہ امارت‪:‬۔‪14‬‬

‫امارت کی حیثیت پر بحث ہے کہ کیا غیر اسالمی حکومت کے اندر رہ کر بھی نظام امارت قائم ہوسکتا ہے‬
‫یا نہیں اور پھر ایسے نظام امارت کی حیثیت کیا ہے۔اس ضمن میں موالنا عبدالوہاب دہلوی کی امارت اور‬
‫جمیعت اہل حدیث پنجاب کے نظام امارت کے مابین فرق کو سمجھایا ہے۔‬

‫۔رسالہ وسیلہ بزرگان‪:‬۔‪15‬‬

‫بعض لوگ اولیاء ہللا کی قبروں پر جاکر ان کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔۔۔"اےولی ! میری‬
‫دعا قبول کر"۔۔۔اس کی تردید کی ہے اور انبیاء علیہ السالم واولیاءکی برزخی زندگی پر بحث کی ہے۔‬

‫۔وتروں کی تعداد اس رسالہ میں وتروں کی تعداد اور ان کےپڑھنے کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔‪16‬‬
‫حواالہ و حواشی‬

‫)۔رپورٹ مجریہ‪/12‬جنوری ‪1923‬ء اخبار اہل حدیث(امرتسر‬

‫۔ اخبار اہل حدیث مجریہ ‪/12‬اگست ‪1932‬ء‬

‫۔اس سلسلے میں سب سے بہتر مقالہ قاضی عبدالرحیم صاحب قاضی کوئی کا ہے۔جو اخبار تنظیم اہل حدیث‬
‫میں "تنظیم اہل حدیث اور جمہوریت" کے عنوان سے متعدد اقسام میں شائع ہواہے قاضی صاحب چونکہ‬
‫نظام امارت کے قائل تھے۔اور گوجرانوالہ کی تنظیم اہل حدیث کے امیر تھے۔اس لئے مرحوم نے موالنا‬
‫امرتسری رحمۃ ہللا علیہ کےجملہ دالئل کا مکمل تجزیہ کرکے ان کا ابطال کیا ہے۔‬

‫۔المحلی ج‪،2‬ص‪/275‬ج‪، 7‬ص‪37‬۔‬

‫۔الجامع الصغیر مع شرح المناوی۔‬

‫۔دارقطنی ج‪ 2‬ص ‪284‬۔‬

‫۔عمدة الرعایۃ موالنا عبدالحئی وفتح القدیر شرح ہدایہ۔‬

‫۔ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان پر جرح کے لئے"انوارالمصابیح"موالنا نزیر احمد رحمۃ ہللا علیہ دہلوی‬
‫ص‪170‬تا‪173‬۔‬

‫۔یہ مسائل میں نے بطور مثال ذکر کیے ہیں‪،‬ورنہ جماعتی ضرورت کا تقاضا یہ ہے کہ"تنظیم اہل‬
‫حدیث"اور"اہلحدیث" امرتسر کے قبل از تقسیم ملک کے تمام فائل سامنے رکھ کر علماء اہل حدیث کی‬
‫تنقیحات کو جمع کردیا ہے۔بلکہ االعتصام کو بھی شامل کرلیا جائے۔‬

‫۔تذکرہ علمائے خانپور‬

You might also like