You are on page 1of 89

‫اسالم کا نظام قضا‬

‫ّللا اور حدود آرڈیننس‬


‫حدود ٰ‬

‫ثریا بتول علوی‬

‫اسالمی حدُود‬

‫موجودہ دور میں عالمی میڈیا پر صیہونیت کی حکمرانی ہے۔ ان کے ناپاک عزائم میں اُمت مسلمہ کو جہاں ہر محاذ پر نیچا‬
‫دکھانا ہے وہاں مسلمانوں کے قلوب میں ان کے دین کی بابت بدگمانی راسخ کرنا بھی ایک بھرپور مشن ہے۔ ''حدود اسالمی'' کے‬
‫ضمن میں بین االقوامی میڈیا کافی عرصہ سے یہ پراپیگنڈہ کررہا ہے کہ ''اسالمی سزائیں وحشیانہ اور دور ظلم کی یادگار‬
‫ہیں۔''حال ہی میں پاکستان میں بھی اس پراپیگنڈہ کی بازگشت سنائی دی‪ ،‬اور بعض طبقات اس آواز سے متاثر ہوکر اس نظریہ کی‬
‫اشاعت میں بھی کوشاں ہیں۔ چند ارباب اقتدار جن میں سابق وزیراعظم صاحبہ کا نام نامی بھی شامل ہے‪ ،‬اہل یورپ کے سامنے‬
‫سرخرو ہونے او رنام کمانے کے چکر میں ان غیر اسالمی نظریات کو پروان چڑھانے میں سرگرم عمل ہیں۔ ان حاالت میں‬
‫اسالمیان پاکستان پر جہاں ان سازشوں سے خبردار رہنا او ربچنا الزمی ہے وہاں علماء پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ‬
‫مغرب کے ان حملوں کا تدبر اور سنجیدگی سے جواب دیں۔ عوام الناس کو اسالمی احکام کی اصل روح سے روشناس کرائیں اور‬
‫دین محمدی کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن انجام دیں۔ (ادارہ)‬

‫‪........................................................‬‬

‫اسالمی سزاؤں کے نفاذ ہی سے شرف انسانی کا تحفظ ممکن ہے ‪:‬‬

‫جہاں تک اہل مغرب کا یہ واویال ہے کہ ''اسالم ایک وحشی مذہب ہے'' اس کی سزائیں وحشت اور بربریت پر مبنی ہیں۔ سنگسار‬
‫کرنا‪ ،‬ہاتھ پاؤں کاٹنا‪ ،‬کوڑے مارنا یہ سب چیزیں آج سے چودہ سو سال پہلے تو کارآمد ہوسکتی تھیں مگر آج کے تہذیب یافتہ اور‬
‫سائنسی دور میں یہ سزائیں وحشیانہ‪ ،‬ظلم پر مبنی او رخالف تہذیب ہیں۔ ہمارے مغرب سے مرعوب مسلمان بھائی او راہل مغرب‬
‫سے بڑھ کر مغربی تہذیب کے پرستار و وفادار حضرات بھی اپنے ان استادوں کی ہاں میں ہاں مالتے ہوئے اسالم کی حدود پر‬
‫دست ''اصالح'' دراز کرنا چاہتے ہیں۔ ان حدود کو بزعم خود ''جدید تہذیب یافتہ'' دور کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے دالئل‬
‫کا تجزیہ کیا جائے تو ایک سے ایک بڑھ کر خالف عقل باتیں سامنے آتی جائیں گی۔ پہلے تو یہی بات محل نظر ہے کہ آیا یہ دور‬
‫واقعی تہذیب یافتہ دور ہے او رکیا تہذیب جدید مغربی ختاین سے واقعی حاصل ہوسکتی ہے؟‬

‫دوم ‪ ...........‬یہ حدید تہذیب کیا جرائم کا خاتمہ کرانے میں کامیاب ہوسکی ہے؟‬

‫سوم ‪ ...........‬کیا اس تہذیب میں جو مجرم کو پورا پورا ریلیف دیتی ہے‪ ،‬واقعی کوئی وحشیانہ اور بربریت پر مبنی سزا نہیں‬
‫ہے؟‬
‫جدید مغربی تہذیب جو مذہب سے انکار پر مبنی ہے اور وطن پرستی ‪ ،‬مادہ پرستی اختالط مرد و زن اور مادر پدر آزادی پر مبنی‬
‫ہے‪ ،‬دراصل مصنوعی چمک دمک اور چکا چوند رکھتی ہے جبکہ اصل حقیقت ‪ ،‬جو پس پردہ ہے‪ ،‬بڑی بھیانک ہے اس کے‬
‫نے بہت پہلے کہہ دیا تھا ؎‬ ‫متعلق عالمہ اقبال‬

‫نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی‬

‫یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے‬

‫مختصرا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کی جن نام نہاد آزادیوں کو آج ہمارے دانشور بہت چاہتے ہیں‪ ،‬خصوصا چند خواتین بے‬
‫طرح سے نثار ہورہی ہیں اور یہ بیگمات اس آزادئ نسواں کو اپنے ہاں قانونی شکل دلوانے کے لیے بے قرار ہیں۔ دراصل یہ ایک‬
‫ایسا مین ہول ہے جس کے اوپر تو روشنی کے خوشنما بلب لگا دیئے گئے ہیں مگراندر گندگی‪ ،‬عفونت‪ ،‬سڑاند اور بدبو کے سوا‬
‫کچھ نہیں۔ وہ معاشرہ اختالط مرد و زن کی تمام حدود پار کرکے اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ بے محابا آزادی سے عورت کے‬
‫وجود میں کشش ختم ہوچکی ہے او راب انسان عورت بیزار ہوگیا ہے۔ وہاں ہم جنس پرستی او رلواطت کے لیے باقاعدہ پارلیمنٹوں‬
‫میں بل پاس ہوئے ہیں۔ اسی ہم جنس پرستی کی وجہ سے ایڈز کا مرض پھیال ہے او راب یہ مرض اتنی سرعت سے وبا بن کر‬
‫پھیال ہے کہ مغربی ذرائع ابالغ چیخ چیخ کر متنبہ کررہے ہیں کہ اگلی صدی کا سب سے خوفناک او رال عالج مسئلہ ''ایڈز کا‬
‫مرض'' ہوگا جس سے افراد کی کمی کے ساتھ ساتھ معیشت بھی بُری طرح متاثر ہوگی۔‬

‫کنواری ماؤں کا تناسب! اب وہاں نام و نسب ڈھونڈنا بھی مشکل مسئلہ بن چکا ہے۔ پھر طالقوں کی‬ ‫حرام اوالدوں کی کثرت‪،‬‬
‫کثرت‪ ،‬عورتوں پر دہری ذمہ داریوں کے بوجھ‪ ،‬رشتوں کا تقدس وہاں ختم ہوگیا ہے۔ خاندانی نظام ابتری اور انتشار کا شکار‪ ،‬پھر‬
‫اوالد والدین کی ہمدردی‪ ،‬محبت اور توجہ نہ مل سکنے کی وجہ سے مار دھاڑ ‪ ،‬تشدد اور تخریب کاری کی عادی ہے۔ قاتل‪ ،‬ڈاکو‪،‬‬
‫منشیات فروش وہاں ہیرو بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ جس سے جرائم کا آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ ادھر قوانین ایسے ہیں کہ وہ مجرم‬
‫کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ملزم کو نفسیاتی مریض بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ وکیلوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ‬
‫بہرصورت ملزم کو مجرم ثابت نہ ہونے دیں اور تمام جھوٹے سچے ثبوت فراہم کرکے ملزم کو بچالیں۔ وہاں مظلوم کا کوئی‬
‫پرسان حال نہیں او رملزم کے ساتھ ہر ایک کو ہمدردی ہے۔ سزائے موت وہاں معطل ہے اس کو دور وحشت کی یادگار سمجھا‬
‫جاتا ہے۔‬

‫یہی وجہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نیویارک جیسے ''متمدن'' شہر میں صرف ایک رات میں ‪ 150‬تک کاریں چوری‬
‫ہوجاتی ہیں۔ وہاں قتل و غارت‪ ،‬چوری‪ ،‬ڈکیتی‪ ،‬رشوت‪ ،‬کرپشن غرض ہر قسم کے جرائم صرف اتنے زیادہ ہیں کہ مسلمان ممالک‬
‫میں باوجود اپنی تمام تر کوتاہیوں اور خامیوں کے اس کا بیسواں حصہ بھی نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عالمی میڈیا پر بھی انہی‬
‫اہل مغرب کا قبضہ ہے اس لیے مسلمانوں کی معمولی سی بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا میں طوفان مچ جاتا‬
‫ہے۔ وہاں اگر تو مظلوم غیر امریکی ہو خصوصا کوئی کاال یا مسلمان‪ ،‬تو پولیس کبھی بھی مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب‬
‫نہیں ہوسکی۔ غیر امریکی امریکیوں کے ہاتھ لٹ جائیں‪ ،‬قتل ہوجائیں یاکسی سے پریشان ہوں‪ ،‬امریکی اخباروں میں اس کی خبر‬
‫تک نہیں چھپ سکتی۔ اس پر عمل کاروائی ہونا تو دور کی بات ہے‪ ،‬خود امریکیوں کو کس حد تک جرائم کی سزا دی جاتی ہے‬
‫وہ ایک دو مثالوں سے واضح ہے۔‬

‫نیویارک شہر میں ایک ‪ 21‬سالہ شخص نے ''ٹے نیس'' جس کا نام تھا‪ ،‬اپنی گرل فرینڈ ''مونیکا'' کو قتل کرکے قیمہ بنایا اور بھون‬
‫کر کھا گیا۔ دوسرے دن اس کے سر کو بوائل کرکے مغز کھایا او رہڈیوں کا سوپ بنا کر پی لیا۔ امریکہ کی عدالت میں اس قاتل‬
‫نے اپنے جرم کا اعتراف تو کرلیا مگر عدالت نے اسے ذہنی او رنفسیاتی مریض قرار دے کر جیل میں ڈال دیا۔ اعلی حکام اب اس‬
‫کی رہائی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ قاتل اب چند ہفتوں میں رہا ہوجائے گا (روزنامہ ''پاکستان''‬
‫اشاعت ‪4‬۔‪4‬۔ ‪1992‬ء) ہللا ہللا! قاتلوں اور ملزموں سے نفسیاتی مریض کے نام پر یہ وی آئی پی سلوک‪ ،‬ہاں یہی امریکہ ہے جو‬
‫اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو تمام دنیا پر نافذ کرنے کے خواب دیکھنے واال‪ ،‬سب سے زیادہ جرائم اسی امریکہ میں ہوتے ہیں۔‬

‫ایک اور ''جیفری ڈاہمر'' نامی مجرم تھا۔ اس امریکی نے گزشتہ دس برسوں میں کم از کم ‪17‬۔ افراد کو قتل کیا جس وقت وہ‬
‫گرفتار ہوا اس کے فلیٹ میں انسانی جسموں کے ٹکڑے‪ ،‬کھوپڑیاں‪ ،‬ہڈیاں او رکھالیں جابجا پڑی ہوئی تھیں۔ گویا یہ جرائم ہی‬
‫امریکہ کی صنعت ہیں۔‬

‫(‪ 24‬جون ‪1992‬ء) نوائے وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جرائم کے بادشاہ جان گوئی کا مقدمہ فیڈرل کورٹ‬
‫نیویارک میں پیش ہوا۔ اس شخص کے جرائم کی داستانیں زبان زد خاص و عام ہیں۔ وہ پانچ مافیاؤں کا سرپرست ہے۔ یعنی‬
‫منشیات‪ ،‬قحبہ خانے‪ ،‬جوئے کے اڈے‪ ،‬قرضوں کی لوٹ کھسوٹ او ردیگر قتل جیسے بڑے جرائم اس کی سرپرستی میں ہوتے‬
‫ہیں۔ خود اس نے پانچ قتل کئے ہیں اور کرائے پر تو وہ بے شمار قتل کروا چکا ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ اس کے پرستار‬
‫ہیں۔ وہ مقدمہ کی سماعت کے وقت عدالت کے باہر مظاہرہ کررہے تھے کہ جان گوئی کو چھوڑ دیا جائے۔ تاہم عدالت نے ہمت‬
‫کرکے اس کے لیے عمر قید کی سزا سنائی او رمجرم نے اس سزا کو قبول کرلیا۔ اس لیے کہ قید میں رہ کر وہ زیادہ محفوظ‬
‫طریقے سے ان مافیاؤں کی سرپرستی کرسکے گا۔ مگرباہر کے مظاہرین کو بڑی تکلیف ہورہی تھی کہ اس نے کیوں یہ سزا قبول‬
‫کی ہے؟‬

‫اگست ‪1969‬ء میں جب امریکی اپالو پہلی مرتبہ چاند پر اترا تو اس کے کچھ دنوں بعد وطن عزیز کے اخبارات میں امریکی صدر‬
‫کینیڈی کی بیوہ کا انٹرویو شائع ہوا تھا۔ مس جیکولین نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ''جس قوم کو زمین پر رہنے کا سلیقہ‬
‫اور شعور نہیں وہ چاند پر جاکر کیا کرے گی؟'' واضح رہے کہ اس کا شوہر امریکہ کا صدر مسٹر کینیڈی اپنے ہی ایک ہم وطن‬
‫کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ مسز کینیڈی کا یہ جواب بالکل مبنی برحقیقت تھا۔ واقعی تمام تر سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود‬
‫وہاں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے۔‬

‫یہ چند نمونے ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور سارا مغربی معاشرہ کتنا تہذیب یافتہ اور بلند کردار کا مالک ہے!‬
‫جہاں ظالم کا ہاتھ نہ پکڑا جاسکے‪ ،‬مظلوم کو انصاف نہ مل سکے‪ ،‬جہاں جرائم ملکی صنعت قرار پائیں‪ ،‬جہاں مجرم اگر ہم وطن‬
‫ہوں تو نفسیاتی مریض قرار پاکر سزا سے مستثنی ہوں اور اگر مجرم غیر ملکی ہوں تو ان کو سخت اذیب ناک سزائیں دی جائیں۔‬
‫کیا یہ معاشرہ مہذب ہوسکتا ہے؟ ہمارے بعض دانشوروں کے قول کے مطابق وہ اپنے وطن کے لیے دیانتدار ہوسکتے ہیں‪ ،‬وقت‬
‫کے پابند ‪ ،‬اپنی قومی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے‪ ،‬اپنے وطن کے لیے جانیں دینے والے ہوسکتے ہیں۔ مگران کی وفاداری کے‬
‫معیار ہمیشہ دُہرے ہوتے ہیں۔ کشمیر میں ظالم اور غاصب بھارت نے مظالم کی انتہا کردی ہے‪ ،‬اجتماعی آبروریزی‪ ،‬اجتماعی‬
‫طور پر گاؤں کے گاؤں جال دینا معمول کے واقعات ہیں۔ مگر چونکہ امریکہ بھارت کا دوست ہے اس لیے ان کشمیریوں کی آہوں‪،‬‬
‫سن سکتا۔ مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل نے ظلم و ستم کے‬ ‫سسکیوں اور مظالم کی بھنک بھی امریکہ نہیں ُ‬
‫کون سے پہاڑ نہیں تورے او ران کو بے گھر‪ ،‬بے در کرکے کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا‬
‫ہے مگر کیا امریکہ نے کبھی اسرائیل کا محاسبہ کیا ہے؟ حاالنکہ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر چند ایک معمولی شکایتوں پر وہ‬
‫پاکستانیوں کے خالف ایکشن لینے پر آمادہ ہوگیا تھا اور بھارت کی اس نے باقاعدہ پیٹھ ٹھونکی تھی۔‬
‫یہ مغربی تہذیب تو استحصالی نظام ہے جس نے ہر طریقے سے عالم اسالم کی جڑیں کھوکھال کرنا اپنا فرض منصبی قرار دے لیا‬
‫ہے۔ تیل ہمارا‪ ،‬مگرزندگی یورپ و امریکہ کی روشن او ررواں دواں ‪ ،‬خام مال ہمارا مگر کام یورپ کی فیکٹریوں میں آرہا ہے۔‬
‫افراد کار ہمارے‪ ،‬مگر ان کی صالحیتیں اور ذہن مغرب کے پاس گروی ہیں۔ سرمایہ ہمارا‪ ،‬مگر تجوریاں مغربی دنیا کی بھری‬
‫ہیں او رکام ان کے چل رہے ہیں او رہم ہر حال میں ان کے دریوزہ گر‪ ،‬ہم اسلحہ بھی اپنی مرضی کا حاصل کرنے کے مجاز‬
‫نہیں۔ وہ ہمارا پوری سیاست کنٹرول کرکے اپنےمرضی کے مہرے سامنے التے رہتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو ہر وقت عدم‬
‫استحکام کا شکار رکھتے ہیں اوپر سے مغربی ثقافت کی یلغار نے ہمارے ہاں بھی اسی طرح فلموں او رکھیلوں کے ساتھ حد سے‬
‫بڑھا ہوا جنون فحاشی‪ ،‬عریانی‪ ،‬مادیت پرستی‪ ،‬صوبائی او رلسانی عصبیتیں‪ ،‬فرقہ پرستی‪ ،‬الحاد اور دین بیزاری‪ ،‬اخالقی و‬
‫روحانی ابتری‪ ،‬افزائش جرائم جیسے گھناؤنے امراض پیدا کردیئے ہیں او رہم ہیں کہ اب بھی اسی تہذیب کے گن گا رہے ہیں او‬
‫راسی تہذیب کو اپنے ہاں رائج کرنے کو بے قرار ہیں۔‬

‫یہ ایک الگ تلخ داستان ہے۔ مختصرا یہ کہ نہ تو مغربی معاشرہ مہذب ہے بلکہ اخالقی اور روحانی لحاظ سے اس کا دیوالیہ نکل‬
‫چکا ہے اور نہ ہی مغربی قانون کی نقل کرکے ہم اپنے معاشرے کو جرائم سے پاک کرسکتے ہیں۔‬

‫رہا ان کے ہاں وحشیانہ سزاؤں کا تذکرہ تو دیکھیں جن کو وہ سزائیں دینا چاہتے ہیں کتنا اذیت ناک سزائیں دیتے ہیں۔ انفرادی طو‬
‫رپر عقبوت خانوں میں نازک اعضاء کو بجلی کے کرنٹ لگانا‪ ،‬بجلی کی کرسیوں پر بٹھانا‪ ،‬ٹھنڈے یخ بستہ پانی میں ہفتوں کھڑا‬
‫رہنے پر مجبور کرنا‪ ،‬مسلسل برین واشنگ کرتے رہنا‪ ،‬حواالت میں خونخوار کتے اور چوہے چھوڑ دینا‪ ،‬نازک اعضاء کو‬
‫خصوصا نشانہ بنانا اپنا ہی پیشاب پینے پر مجبو رکرنا وغیرہ وغیرہ۔‬

‫او راجتماعی طور پر ‪ ...............‬ایک بم گرا کر ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے ہنستے بستے شہروں کو تباہ و برباد کردینا۔‬
‫مختلف گیسیں پھینک کر دشمن ملک کے بیشتر افراد کو معذور اور ذہنی مریض بنا دینا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ نہتے افراد پرایسے‬
‫مہلک ہتھیار استعمال کرنا جو اپنے تابکاری اثرات کی بنا پر نسلوں کی نسلیں معذور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایٹمی ترقی کے‬
‫پس پردہ اسالمی ممالک کی بحری حدود میں ایٹمی دھماکے اور مہلک تجربات کرنا۔ بعد میں ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی‬
‫آلودگی کا ذمہ دار قرار دے کر ان پر دباؤ ڈالنا کہ اپنے مالی بجٹ میں اس مد میں معقول رقم مختص کی جائے۔ مجبور‪ ،‬بیکس‪،‬‬
‫نہتے شہریوں پر ٹنوں کے حساب سے بارود برسا دینا۔ یہ سب آتشیں اسلحہ اور پھر سٹار وار کا سلسلہ ! کیا یہ سب کچھ وحشیانہ‬
‫او رظالمانہ نہیں ہے۔ دشمن ملک میں بارودی سرنگوں کا جال بچھا دینا‪ ،‬اجتماعی طور پر گاؤں کے گاؤں جال دینا‪ ،‬اجتماعی طور‬
‫پر خواتین کی آبرو ریزی کرنا کیا یہ سب کچھ تہذیب اور اعلی اخالقی قدروں کے زمرے میں آئے گا؟‬

‫اسالمی نظام عقوبات ‪:‬‬

‫اب آئیے اسالمی سزاؤں کی طرف کہ یہ کس طرح جرائم کی بیخ کنی کرتی ہیں۔‬

‫سزا نافذ کرنے کے سلسلہ میں ہللا تعالی نے دو اصول قرآن پاک میں بیان فرما دیئے ہیں‪:‬‬

‫‪1‬۔ سزا برسر عام دی جائے۔ ‪2‬۔ سزا دینے میں کسی نرمی یا رعایت سے کام نہ لیا جائے۔‬

‫سزا برسر عام دینا‪ :‬سورة نور میں ارشاد ہوتا ہے کہ‪:‬‬

‫طآئفَة منَ ْٱل ُمؤْ منینَ ﴿‪...﴾٢‬سورة النور‬ ‫َو ْل َی ْش َھ ْد َ‬


‫عذَا َب ُھ َما َ‬
‫کہ مجرموں کو سزا دیتے وقت مومنوں کا گروہ وہاں موجود ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس مجرم کو سزا پاتے ہوئے‬
‫دیکھیں او ران کا یہ مشاہدہ باقی لوگوں کو جرم کرنے سے باز رکھے۔ چنانچہ نبی پاک ؐ کے فرمان پر حضرت ماعز اسلمی کو‬
‫صحیح بخاری کی روایت کے مطابق برسرعام رجم کیا گیا۔ اسی طرح قبلہ غامدیہ کی مجرم خاتون کو بھی برسر عام رجم کیا گیا۔‬
‫آپ نے حکم دیا کہ یہ کٹا ہوا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا جائے۔‬
‫ایک چور کا ہاتھ کاٹ کر نبی پاک ﷺ کی خدمت میں الیا گیا تو ؐ‬
‫آنحضور کی خدمت میں الیا‬
‫ؐ‬ ‫(مشکوة بحوالہ ترمذی‪ ،‬مشکوة ہی میں ابوداؤد کی روایت کے مطابق ایک شرابی کا ذکر ہے جسے‬
‫آپ نے لوگوں سے کہا اسے مارو تو کسی نے اس کی جوتیوں سے خبر لی‪ ،‬کسی نے چھڑیاں لگائیں‪ ،‬کسی نے کھجور کی‬ ‫گیا۔ ؐ‬
‫شاخوں سے مرمت کی۔‬

‫دوسرا حکم ہے کہ سزا دینے میں کوئی نرمی نہ کی جائے ‪:‬‬

‫ٱّلل َو ْٱلیَ ْوم ْ‬


‫ٱل َءاخر‪...﴾٢﴿...‬سورة النور‬ ‫َو َال ت َأ ْ ُخ ْذ ُكم بھ َما َرأْفَة فى دین َ‬
‫ٱّلل إن ُكنت ُ ْم تُؤْ منُونَ ب َ‬

‫سزا دیتے وقت نرمی سے کام لینا مجرم کو دوبارہ جرم پر آمادہ کرسکتا ہے۔ اس کو ایک بار ہی اتنی کڑی سزا مل جائے کہ آئندہ‬
‫کسی کو بھی جرم کرنےسے قبل سو بار سوچنا پڑے (تاہم مجرم کی جسمانی کیفیت کے پیش نظر قاضی کوڑوں کی نرمی اور‬
‫سختی پر غور کرسکتا ہے) مگر تعداد میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔‬

‫جن لوگوں کی نظر اقوام عالم کی تاریخ پر ہے ان سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جرم و سزا کے معاملے میں دانشوروں اور قانون‬
‫سازوں کا رویہ ہمیشہ افرادط اور تفریط کا رہا ہے۔ ایک قانون ایک قسم کے جذبات کے تحت بنایا گیا اس سے ایک خرابی کا‬
‫ازالہ تو ہوگیا مگر کئی دوسری خرابیاں پیش آگئیں۔ جب ان کاازالہ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری انتہا نے جنم لیا۔ ہللا تعالی‬
‫کو عقل انسانی کےہر دم بدلتے مزاج اور شعور انسانی کی محدودیت کا پتہ ہے اس نے یہ پسند نہ کیاکہ انسانی عقل انسانی زندگی‬
‫کے بنیادی تحفظات کو اپنی نئی نئی موشگافیوں سے نقصان پہنچاتی رہے۔ لہذا اس نے کامل مہربانی سے بنیادی جرائم کی سزا‬
‫خود ہی واضح طور پر مقرر فرما دی‪ ،‬او رکسی کو ان میں تبدیلی کرنے یا کتر بیونت کرنےسے روک دیا۔ چنانچہ اسالم کی مقرر‬
‫کردہ ہر ایکحد انسانی شرف کو بحال کرتی ہے معاشرہ کو امن و سکون مہیا کرتی ہے۔ انسانی کردار کو تطہیر فکر و عمل عطا‬
‫کرتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ ہرایک حد کس کس طرح انسانی شرک کوبحال کرتی ہے اور ہر انسان کے جان‪ ،‬عقل‪ ،‬نسل‪ ،‬مال او‬
‫ردین کےتحفظ کو کس طرح یقینی بناتی ہے۔‬

‫قتل‪:‬‬

‫انسان خود فطرت کی قوت تخلیق کا شاہکار ہے۔ ہللا تعالی نے واضح منصوبہ اور پروگرام کے تحت انسان کو پیدا کیا ہے۔ تہذیب‬
‫و تمدن کی گرم بازاری‪ ،‬ایجادات و اختراعات کی فراوانی‪ ،‬یہ ساری رونق او ربہار انسان ہی کے دم قدم سے ہے اب خود عقل کا‬
‫ہی تقاضا ہے کہ ہر وہ کوشش جو خود اس انسان کے وجود ہی کو ختم کرنے والی ہو اس کا سختی سے سدباب کرنا چاہیے۔ نبی‬
‫اکرمﷺ کے فرمان کے بموجب ''ایک مسلمان کی ُحرمت ہللا کے ہاں بیت ہللا سےبھی بڑھ کر ہے'' تو جو انسان اس قدر اہمیت کا‬
‫حامل ہے ‪ ،‬اگر کوئی حدود ہللا کو باالطاق رکھتے ہوئے‪ ،‬اس کے شرف کو حقیر بنا کر اس پر حیات کے دروازے تنگ کرے تو‬
‫وہ کون سی تاویل کے مطابق اس قابل ہے کہ اس کے شرف کا لحاظ کیا جائے۔ جو شخص کسی دوسرے انسان کو جینے کا حق‬
‫نہیں دیتا وہ کہاں خود اس الئق ہے کہ زمین اس کے بوجھ سے زیربارہو۔ اس پر یہ مستزاد کہ اگر آج یہ کہا جاتا ہے کہ حدود‬
‫عوام کے سامنے نہ دی جائیں کیونکہ اس سے شرف انسانی میں کمی واقع ہوتی ہے۔اخبارات میں سرعام سرخیاں پڑھنے کو ملتی‬
‫ہیں کہ فالں جگہ برسرعام سزائیں روک دی گئیں۔ عدالت نے سرعام سزا کو انسانی وقار سمجھتے ہوئے کھلے بندوں سزا سے‬
‫روک دیا۔‬

‫مقام تدبر ہے کہ کیا وہ شخص جو خود اشراف کی عزت کو پامال کرتا ہے جو مسلمہ حقوق کو توڑنے کا مرتکب واقع ہوا ہے کیا‬
‫اسے اس سزا سے بھی ہمکنار نہ کیا جائے جو بعد کے لوگوں کے لیےباعث عبرت ہو۔ شریعت اسالمی اس سلسلے میں اتنی‬
‫حساس ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔‬

‫سورة مائدہ آیت نمبر ‪ 32‬میں ‪:‬‬

‫س َجمیعا َو َم ْن أَحْ َیاھَا فَ َكأَنَ َمآ أَحْ َیا‬


‫ساد فى ْٱْل َ ْرض فَ َكأَنَ َما قَت َ َل ٱلنَا َ‬
‫علَى َبنى إس َْرءی َل أَنَهُۥ َمن قَت َ َل نَ ْف ًۢسا بغَیْر نَ ْفس أ َ ْو فَ َ‬
‫م ْن أَجْ ل ذَلكَ َكت َ ْبنَا َ‬
‫اس َجمیعا‪﴾٣٢﴿...‬‬ ‫ٱلنَ َ‬

‫''اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرمان لکھ دیاتھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیالنے کے‬
‫عالوہ کسی او روجہ سے قتل کیا اس نےگویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اور جس نے کسی کو زندگی بخشی گویا تمام انسانوں کو‬
‫زندگی بخش دی۔''‬

‫ایسے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا او رانسانی زندگی کے تحفظ کو بحال کرنا انسان کے شرف و عزت کی توقیر او ربحالی ہے‬
‫یا وحشت؟ مغرب والے چاہے قاتل کو ذہنی بیمار کہہ کر چھوڑ دیں مگر متاثرہ مظلوم خاندان کیا کسی ہمدردی کا مستحق نہیں؟‬
‫پھر کیا ذہنی امراض کے شفا خانوں سے شفایاب ہونے کے بعد کیا یہ مجرم واقعی جرم سے باز آجاتے ہیں‪ ،‬کیا شرح قتل میں‬
‫واقعتا کمی آجاتی ہے؟ عمال صورت حال یہ ہے کہ اٹلی میں سزائے قتل معطل ہے نتیجہ یہ ہے کہ وہاں عام انسان تو کیا‪ ،‬کئی‬
‫وزیراعظم قتل کئے جاچکے ہیں او راب وہاں وزارت عظمی کی ذمہ داری لینے والوں کو سوبار سوچنا پڑتا ہے‪ ،‬بلکہ کوئی تیار‬
‫ہی نہیں ہوتا۔‬

‫شراب ‪:‬‬

‫اسالم تندرست و توانا اور باشعور جسم کو ترجیح دیتا ہے۔ جس طرح وہ جسمانی قتل کوسنگین جرم قرار دیتا ہےبعینہ انسان کے‬
‫لئے کے عقل و شعور کو تباہ کرنے کی ہر کوشش کو بھی سنگین جرم قرار دیتا ہے۔ نشہ اسی لئے حرام ہے کہ وہ عقل انسانی کو‬
‫مختل کردیتا ہے۔ شراب پی کر وہ انسان جو اپنے عقل و شعور کی بنا پر ہی ''اشرف المخلوقات'' قرار پاتا ہے اب عقل و شعور‬
‫سے عاری ہوگیا۔ اب وہ ہر قسم کے جرائم بے دھڑک کرسکتا ہے۔ اسی لئے شراب کا نام ''اُم الخبائث'' رکھا گیا ہے۔ اسالم نے‬
‫عقل و شعور کو زائل کرنے والی ہر کوشش کو سنگین قراردے کر اس کے خاتمہ کے لیے سخت ہدایات دیں۔ یعنی برسرعام‬
‫(‪)80‬کوڑے ۔ اس کے نتیجہ میں بیشتر مسلمان تاریک کے ہر دور میں شراب نوشی سے محفوظ رہے۔‬

‫آج کا دور بجا طور پر منشیات کا دو رکہال سکتا ہے۔ آج کے دور کے سنگین مسائل میں سے ایک مسئلہ منشیات کا خاتمہ بھی‬
‫ہے۔ الحمدہلل کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد اس وبا سے آج بھی محفوظ ہے او رکروڑوں مسلمانوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ شراب کا‬
‫رنگ اور ذائقہ کیسا ہوتا ہے یا شراب کی بو کیسی ہوتی ہے؟ نہ صرف شراب بلکہ ہر قسم کے چھوٹے بڑے نشے سے محفوظ‬
‫ہیں۔ اس طرح شراب خوری سے نفرت انسانی شرف کا تحفظ کرتی او راس کو برقرار رکھتی ہے۔ جبکہ شراب خوری کی کثرت‬
‫انسان او رمعاشرہ دونوں کو گناہوں کی دلدل میں دھکیل کر رکھ دیتی ہے۔ رشتوں کا تقدس معدوم ہوجاتا ہے۔ انسانی غیرت کا‬
‫جنازہ اُٹھ جاتا ہے‪ ،‬جس طرح عمال آج مغربی معاشروں میں ہورہا ہے۔‬
‫زناکاری ‪:‬‬

‫اسالم خاندان او رنسب کے تحفظ میں بھی بڑا حساس ہے۔ ناجائز فعل کے نتیجے میں نسب نامے غلط ہوتے ہیں۔ خاندانوں کے‬
‫تحفظ پامال ہوتے ہیں۔ عصمتیں لٹتی ہیں۔ ایک زانی اور بدکار شخص خاندان کے ادارہ کو نقصان پہنچتا ہے اور زوجین کے باہمی‬
‫تعلق کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لہذا شریعت کی نگاہ میں زنا کاری سنگین جرم ہے۔اس لیے اس کی سزا بھی سنگین قرار دی گئی ہے۔‬
‫یعنی اگر زانی غیر شادی شدہ ہو تو سو کوڑے کی سزا اور اگر شادی شدہ ہے تو سنگسار کرنے کی سزا۔ یہاں عصمت فروشی‬
‫کی کسی بھی شکل میں بھی اجازت نہیں ہے۔پھر ناجائز فعل جس سے مرد تو تھوڑی دیر کے لیے لذت حاصل کرکے چال گیا‬
‫جبکہ خاتون جو حاملہ ہوگئی‪ ،‬اسے تنہا اس بچےکو بلوغت تک پالنا ہے۔ خاندان میں تو اس کو رفیق حیات کا عمر بھر کا تعاون‬
‫اور تحفظ میسر رہتا ہے‪ ،‬اب وہ اس سے یکسر محروم ہے۔ کیا یہ صورت حال عورت پر صریح ظلم نہیں؟ اس طرح کی پلنے‬
‫والی اوالد بھی الجھنوں کا شکار‪ ،‬ابنارمل اور لطیف جذبات سے عاری ہوتی ہے۔ شرف انسانی کا کوئی تصور ان کے ذہن میں‬
‫نہیں رہ سکتا۔ پھر اس شنیع عمل کی کثرت کے تلخ نتائج بھی جلد ہی معاشرے کو بانجھ کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ یک زوجگی کا‬
‫دعوی کرنے والے اہل مغرب پچاس پچاس پرائیویٹ داشتائیں رکھتے ہیں۔‬

‫دس سال سے پہلے ہی بچے (لڑکا یا لڑکی) باپ یا بڑے بھائی کی ہوس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خصوصا شمالی یورپ میں حاالت‬
‫او ربھی خراب ہیں۔ وہاں ننگوں کے باڑے (‪ )Nudist Clubs‬قائم ہیں‪ ،‬جن میں مرد و عورت برہنہ رہتے ہیں۔ نائی او رحجام کی‬
‫دکانوں کی طرح وہاں (‪ )Sex Houses‬کھلے ہوئے ہیں۔ وہ حیوانوں کی طرح آزاد شہوت رانی کے قائل ہیں۔ مگر وہ ایک بات‬
‫بھول گئے کہ حیوان تو پورے سال میں ایک بار جنسی ہیجان کی زد میں آتے ہیں۔ مگر یہاں تو ہر وقت آگ لگی ہوئی ہے۔ قدرت‬
‫نے انہیں اس کی یہ سزا دی ہے کہ مردشادی سے قبل ہی ناکارہ ہوجاتے ہیں او رپہلے تو مانع حمل ادویات کے استعمال سے او‬
‫راب طبعا ان امراض خبیثہ کے نتیجے میں وہاں شرح پیدائش خطرناک اور مہلک حد تک کم ہوگئی ہے۔ سویڈن جو سب سے‬
‫زیادہ خوشحال ملک ہے وہ سب سے زیادہ شرح پیدائش کی کمی کا شکار ہے۔ بوڑھے وہاں بکثرت ہیں مگران کی جگہ لینے والی‬
‫نسل بہت محدود ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں مغرب کی افرادی طاقت میں بھرپور کمی واقع ہوئی ہے۔ اور آئندہ بھی ''خاندانی‬
‫ادارہ'' کی غیر مستقل بنیادوں کے باعث خانگی نظام ابتری کا شکار ہے۔ اسی سے خائف ہوکر مغربی دانشور‪ ،‬مسلمان ممالک کو‬
‫بھی افرادی طاقت میں کمی کے مشورے اس خوشنما عنوان سے دے رہے ہیں کہ اسالمی ممالک کی ترقی کا واحد طریقہ ''محدود‬
‫اوالد''۔ اس نظریہ پر دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ وسائل و ذرائع اگر وافر نہیں تو ان کی تقسیم کا عمل کم افراد میں ہو تاکہ‬
‫محدود لوگ معقول حصہ پائیں۔ ہمارے ہاں مغرب سے مرعوب دانشور اس نظریہ سے بے طرح متاثر ہیں۔ وہ اس نکتہ پر غور‬
‫نہیں کرتے کہ کیا مغرب ہمارا خیر خواہ ہے؟ کیا آج تک اس کی مخالفانہ پالیسیاں ہماری نظریں نہیں کھول سکیں۔ جہاں تک اس‬
‫دلیل کا تعلق ہے تو ایک مسلمان کے لیے ہللا کی کتاب کافی ہے جس میں جابجا رزق کی ذمہ داری ہللا نے اپنے اوپر لی۔‬

‫ٱّلل ر ْزقُ َھا‪...﴾٦﴿...‬سورة ھود‬ ‫َو َما من َدآبَة فى ْٱْل َ ْرض إ َال َ‬
‫علَى َ‬

‫کہ رزق پیدا کرنا ہللا کی ذمہ داری ہے‪ ،‬انسان کا کام فقط یہ ہے کہ اس کو تالش کرکے حاصل کرے۔ ہللا جو تمام مخلوقات کا‬
‫رازق ہے کیا اشرف المخلوقات کو رزق دینے سے قاصر ہے؟ او رجب کہ ہمارا بنیادی عقیدہ بھی یہ ہو کہ ہللا ہی ہمارا رازق ہے‪،‬‬
‫خالق و مالک ہے۔ ان تمام پر مستزاد ایڈز کا مرض جو وبا کی طرح پھیل رہا ہے جس میں مریض سسک سسک کر جان دے دیتا‬
‫ہے مگر اس کا عالج کوئی نہیں۔‬

‫کیا ان سب بے حیائیوں کے مقابلے میں اسالم کی سزا سنگساری بہترین عالج نہیں۔ جو جرائم کو ابتدائ ہی میں ختم کردے اور‬
‫خاندان کے ادارے کو محفوظ رکھے۔ایک آدھ سے جو جرم ہوجائے اس کی برسر عام سنگین سزا دوسروں کو ایسا عبرتناک درس‬
‫دیتی ہے کہ وہ آئندہ اس کام کا خیال دل سے نکال دیں۔ آج بھی مسلم معاشرہ بہت حد تک اس سنگین جرم سے پاک ہے۔ (جگہ جگہ‬
‫''آج بھی'' اس لیے لکھنا پڑتا ہے کہ مسلم حکومت کب کی رخصت ہوچکی اور اسالمی حدود کب سے معطل ہیں۔ مگر اس کے‬
‫باوجود ان گناہوں کی قباحت مسلمانوں کے ذہن میں اس طرح جاگزیں ہے کہ مسلمان معاشرے بہرصورت مقابلتا غیر مسلم‬
‫معاشروں سے‪ ،‬ان سنگین گناہوں سے بہت حد تک پاک ہیں)‬

‫چوری اور ڈاکہ ‪:‬‬

‫چوری کی جو سزا اہل مغرب دیتے ہیں اس سے وہ جیل سے پکے چور او رمجرم بن کرنکلتے ہیں۔ صرف اسالم ہی نے اس جرم‬
‫کا مکمل قلع قمع کیا۔ مملکت سعودی عرب منہ بولتا ثبوت ہے کہ الہی قانون کامیاب ہے اور دیگر تمام قوانین ناکام ہیں۔‬

‫ٱّلل ُح ْكما لقَ ْوم یُوقنُونَ ﴿‪...﴾٥٠‬سورة المائدہ‬ ‫أَفَ ُح ْك َم ْٱل َجـھلیَة یَ ْبغُونَ ۚ َو َم ْن أَحْ َ‬
‫س ُن منَ َ‬

‫ترجمہ‪'' :‬کیا یہ لوگ دورجاہلیت کے احکام کی جستجو میں ہیں۔ او ریقین رکھنے والی قوم کے لیے ہللا کے سوا کون بہترین احکام‬
‫نازل کرنے واال ہے۔''‬

‫ڈاکہ‪ ،‬چوری سے بھی بڑھ کرسنگین جرم ہے دوسرے کا سامان بے نوک کالشنکوف چھیننا او راس کو جسمانی نقصان پہنچانا یا‬
‫مار ڈالنا۔ جدید تکنیک میں تو یہ لوگ کسی مالدار آدمی کو اغوا کرلیتے ہیں او رپھر اس کی رہائی کی قیمت الکھوں میں مانگتے‬
‫ہیں۔ مظلوم خاندان اپنی ایک ایک پائی جوڑ جوڑ کر مجرموں کے حضور پیش کرکے اپنا آدمی چھڑانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔‬
‫اس لیے ڈاکہ کی سنگینی چوری سے کہیں زیادہ ہے۔جدید قانون سازوں نے تو اس کو بھی ایک معمولی جرم قرار دیا۔ مگر اسالم‬
‫اس کو سنگین جرم سمجھتا ہے کہ زمین میں فساد پھیالنے والوں اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو چار قسم کی سزائیں‬
‫دی جائیں۔‬

‫سورہ مائدہ آیت نمبر ‪ 33‬کی روشنی میں ‪:‬‬

‫‪1‬۔ تقتیل‪ ،‬یعنی ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے قتل کردیا جائے۔‬

‫‪2‬۔ تصلیب‪ ،‬سولی چڑھایا جائے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔‬

‫‪3‬۔ مخالف سمت سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں۔‬

‫‪4‬۔ جال وطن کردیا جائے جس کی ایک شکل جیل میں بند کردینا بھی ہے۔‬

‫یہ سزائیں بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬

‫عذَاب َ‬
‫عظیم ﴿‪﴾٣٣‬‬ ‫ذَلكَ لَ ُھ ْم خ ْزى فى ٱل ُّد ْنیَا ۖ َولَ ُھ ْم فى ْ‬
‫ٱل َءاخ َرة َ‬

‫''یہ سزا اس لیے ہے کہ ان کی دنیا میں رسوائی او ربدنامی ہو اور لوگ ان وحشی جرائم سے باز رہیں او رآخرت میں ان کے‬
‫لیے دردناک عذاب ہے۔''‬
‫اس طرح اسالمی قانون معاشرہ کے اعتماد کو ‪،‬دوسری طرف مظلومین و محرومین کے اعتماد کو بحال کرتا ہے او رایسے ذہنی‬
‫بیماروں کے لیے اعادہ جرم ناممکن او رسنگین رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔‬

‫کیا مظلوموں او رمحروموں کے اعتباد کو بحال کرنا او رعبرتناک سزائیں دے کر لوگوں کو ایسے سنگین جرائم سے بچا لینا‬
‫شرف انسان کا تحفظ نہیں‪ ،‬یااس معاشرے میں جہاں چوری اور ڈاکہ جدید دور کے باضابطہ مہذب پیشے ہیں او رجہاں ہر شخص‬
‫اپنی مملوکہ اشیاء کی حفاظت کے لیے ہر وقت پریشان ہے بنک بھی لٹ جاتے ہیں تو پھر کون سی جائے امان رہی؟‬

‫ارتداد‪:‬‬

‫مسلمانوں کا دین اسالم سے پھر جانا سنگین جرم ہے‪ ،‬جس کی سزا موت ہے ۔ اس مسئلے پر اجماع امت ہے۔ گزشتہ چودہ سو سال‬
‫میں جہاں بھی اسالمی نظام نافذ ہوا وہاں مرتد کو ہمیشہ واجب القتل قرار دیا گیا۔‬

‫ررسالت کی صداقت کی گواہی دینے کے بعد جب اسالم سے منحرف ہوتا ہے تو‬


‫ؐ‬ ‫مرتد شخص کلمہ اسالم پڑھنے‪ ،‬ہللا کی توحید او‬
‫رسول کے خالف بغاوت ہے اسی طرح اس کے عزیز و اقارب کے لیے ہزاروں‬ ‫ؐ‬ ‫اس کا دین اسالم ترک کردینا جس طرح ہللا و‬
‫موتوں سے بھی بڑھ کر غمناک او رپریشان کن ہوتا ہے کہ اس سے خونی رشتے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ نکاح فسخ ہوجاتے ہیں او‬
‫رحقوق وارثت زائل ہوجاتے ہیں۔‬

‫عقل کا تقاضا ہے کہ کوئی انسان جب اپنی حکومت کا باغی ہو تو اس کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ تو پھر شہنشاہ کائنات اور‬
‫سرکار دو جہاں کے باغی کو بھی عبرتناک سزا ملنی چاہیے ۔ ایمان کا تحفظ الزم ہے کیونکہ ایماندنیا کی عظیم ترین دولت اور‬
‫سب سےبڑا سرمایہ ہے۔جو شخص اس دولت سے منہ موڑتا ہے وہ پھر اسالمی حکومت اور مسلمانوں کے خالف تخریب‬
‫کاریسےبھی گریز نہیں کرتا۔ قادیانی جماعت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔‬

‫ہمیں اندرا گاندی اور برزنیف کے کفر سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا نقصان بنگلہ دیش کے صدر مجیب الرحمن او رافغانستان کے‬
‫صدر ببرک کارمل کے باغیانہ کردار سے ہوا ہے۔ پھر آج کل غیر ملکی عیسائی مشنریاں جس طرح اربوں روپیہ مسلمانوں کو‬
‫عیسائی بنانے پرخرچ کررہے ہیں۔ ان کو غیر موثر بنانے کی ایک ہی موثر تدبیر ہے کہ قانون ارتداد الگو کردیا جائے تاکہ نو‬
‫مسلم غریب‪ ،‬کمزور ایمان والے لوگ کسی دھوکہ میں نہ آکرفتنہ ارتداد سے بچ سکیں۔ قانون ارتداد کا تعلق تو مسلمانوں سے ہی‬
‫ہے‪ ،‬غیر مسلموں کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ البتہ ہمیں یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ کوئی غیر مسلم‪ ،‬مسلم ہونے سے پہلے‬
‫پوری طرح سوچ بچار کرلے گا اور یونہی کسی اللچ یا خوف سے اسالم کا دامن گیر نہیں ہوگا۔‬

‫اس طرح انسان کے پانچوں بنیادی حقوق یعنی جان‪ ،‬مال‪ ،‬عقل‪ ،‬نسل اور دین کو تحفظ دے کر اسالمی شریعت انسان کے شرف کو‬
‫برقرار اور محفوظ رکھتی ہے۔ جو بصورت دیگر بڑھتے ہوئے جرائم سے مکمل طور پر پامال ہوجاتا ہے۔ اسی لئے ارشاد‬
‫خداوندی ہے‪:‬‬

‫ٱّللُ فَأُولَـئكَ ُھ ُم ْٱلكَـف ُرونَ ﴿‪...﴾٤٤‬سورة المائدہ‬


‫َو َمن لَ ْم یَحْ ُكم ب َمآ أَنزَ َل َ‬

‫''کہ جو لوگ ہللا کے نازل کردہ احکام کے مطابق اپنے فیصلے نہ کریں ایسےلوگ تو کافر ہیں‬
‫المحد ث ج ‪ 23‬عدد ‪ 1‬شمارہ ‪ 194‬جنوری ‪ 1993‬رجب ‪1413‬ہ‬
‫نظام قضا‬
‫ِ‬ ‫اسالم کا‬
‫ّٰللا اور حدود آرڈیننس‬
‫حدود ہ‬
‫محمد آصف احسان‬

‫حدود آرڈیننس اور حکومتی ترامیم‬

‫اس حقیقت سے ہر صاحب ِفہم و ذکاالزمی طور پراتفاق کرے گاکہ اخالقی بے راہ روی اور مادر پدر آزادی حضرت‬
‫انسان کو 'اشرف المخلوقات' کے رتبہ ٔ عالی شان سے گرا کر عقل و شعور سے عاری حیوانات کی صف میں الکھڑا‬
‫کرتی ہیں اور انسان کی سماجی زندگی کے ان گوناگوں محاسن و محامد کو پیوند ِخاک کردیتی ہیں جو جملہ بشریت کا‬
‫اندوختہ گراں مایہ اور اثاثہ ٔ بے مثل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسالم جو ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے‪ ،‬نے انسانی‬
‫معاشرے میں عریانی و فحاشی کے فروغ کی سخت مذمت کی ہے اور ان اُمور و معامالت کو مکمل طور پر حرام قرار‬
‫تعالی ارشاد فرماتے ہیں‬ ‫ٰ‬ ‫قرآن حکیم میں ہللا‬ ‫ِ‬ ‫‪ :‬دیاہے جو انسانیت کی معراج یعنی شرم و حیا کے منافی ہوں ۔‬
‫ٱَّللُ َی ْعلَ ُم َوأَنت ُ ْم َال تَ ْعلَ ُمونَ ﴿‪﴾١٩‬‬ ‫عذَابٌ أ َ ِلی ٌم فِى ٱلدُّ ْن َیا َ َ ِ‬
‫اخ َر ِة ۚ َو ه‬ ‫ء‬ ‫ْ‬
‫ٱل‬ ‫و‬ ‫سورة ‪ِ ...‬إ هن ٱلهذِینَ ی ُِحبُّونَ أَن تَشِی َع ْٱلفَ ٰـ ِح َ‬
‫شة ُ ِفى ٱلهذِینَ َءا َمنُوا لَ ُھ ْم َ‬
‫النور‬
‫جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے‪ ،‬ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دُکھ دینے ''‬
‫''واال عذاب ہے اور ہللا جانتا ہے‪ ،‬تم نہیں جانتے۔‬

‫خالق ِکائنات کی جانب سے اس قدر شدید تنبیہ کے باوجود یہ امر انتہائی اذیت رساں اور تاسف انگیز ہے کہ موجودہ‬
‫کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے )‪ (Fornication‬حکومت حدود آرڈیننس میں ترامیم کے ذریعے زنا بالرضا ''پرویزی‬
‫درپے ہے۔ ارباب ِبسط و کشاد اور اصحاب ِحل و عقد اس بات کے آرزو مندہیں کہ باہمی رضامندی سے کی جانے والی‬
‫زنا کاری کو ہر طرح کے ریاستی قوانین سے باال تر قرار دے دیا جائے اور اس اہانت آمیز اور شرمناک فعل کا ارتکاب‬
‫کرنے والے 'جانوروں ' پر کوئی شرعی حد نافذ نہ کی جائے ؎‬

‫پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے‬


‫اسالم کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے‬

‫مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے‬


‫بعد دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے‬

‫اس وقت پورے عالم اسالم میں صرف تین ملک (ایران‪ ،‬پاکستان اور سعودی عرب) ایسے ہیں جہاں زنابالرضا قانونی‬
‫طور پر جرم ہے۔ ان کے عالوہ پورے ُربع مسکون میں کہیں بھی رضا مندانہ بدکاری کو قانونی طور پرجرم اور اس کا‬
‫ارتکاب کرنے والوں کو مستوجب ِسزا نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں بھی حدود قوانین کے نفاذ (‪10‬؍ فروری ‪1979‬ئ)‬
‫سے قبل زنا بالرضا آئینی اور قانونی طور پر جرم کے زمرے سے خارج تھا‪ ،‬تاہم اس کے نفاذ کے بعد زنا بالرضا کی‬
‫قیام پاکستان کا‬
‫نظام حدود کے تحت اسے قانونی طور پرجرم قرار دیا گیا۔ چونکہ ِ‬
‫ِ‬ ‫قانونی حیثیت متعین ہوئی اور اسالم کے‬
‫سب سے عظیم اور نمایاں مقصد ایک ایسے خطہ زمین کا حصول تھا جہاں شریعت ِاسالمیہ کے تمام اُصول و ضوابط‬
‫اور قواعد و قوانین کو جملہ شعبہ ہائے حیات میں بدرجہ اتم نافذ کیا جاسکے‪ ،‬اس لئے وطن ِعزیز میں حدود آرڈیننس کی‬
‫تنفیذ بجاطور پر ایک حوصلہ افزا اور خوش آئند امر تھا مگر اسے پاکستانی عوام کی تیرہ بختی اور سوختہ نصیبی ہی‬
‫سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ وقتا ً فوقتا ً حدود ہللا کو معاذ ہللا بازیچہ اطفال سمجھنے والے حکومتی گماشتوں ‪ ،‬نام نہاد‬
‫مذہبی سکالروں اور مغربی تہذیب و ثقافت کے بے نام و نسب علمبرداروں کے پیٹ میں حدود قوانین کے خالف مروڑ‬
‫اُٹھتے رہے۔ اُنہوں نے مختلف ابلیسی تاویلوں اور شیطانی ہتھکنڈوں کی آڑ لے کر حدود آرڈیننس کو اسالم‪ ،‬عصری‬
‫تہذیب و تمدن‪ ،‬انسانی حقوق اور تحفظ ِنسواں کے خالف باور کرانا چاہا اور پیہم اسی تگ و تاز میں منہمک رہے کہ یا‬
‫تو حدود قوانین کو مکمل طور پر منسوخ کردیاجائے یا پھر اس میں ایسی ترامیم کردی جائیں جو عملی طور پر اسے‬
‫گردش ایام کے ایک معمولی دور‬
‫ِ‬ ‫عضو ِمعطل بنادیں تاہم اس سعی ٔنامشکور کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور‬
‫کے بعد آج پھر پاکستانی عوام اسی معرکہ خیر و شر کا سامنا کررہی ہے۔‬

‫روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی معاشرے کی بقا و سالمتی کا انحصار جن اجزا و عناصر پر ہوتا ہے‪ ،‬ان‬ ‫یہ امر ِ‬
‫میں سے اہم ترین عنصر خاندانی نظام کا استحکام ہے۔ اگر یہ نظام مضبوط اور محکم بنیادوں پر استوار ہوگا تو انسانی‬
‫معاشرہ بھی بحیثیت ِمجموعی درست راستے پرگامزن رہے گا اور اس کے افکار و نظریات اور رسوم و رواج کی‬
‫انفرادیت و یگانگت برقرار رہے گی لیکن اگر اس نظام میں کجی اور مسلمہ معاشرتی اقدار و روایات سے انحراف کے‬
‫عناصر موجود ہوئے تو اس کے تباہ کن اور ضرر رساں اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور ایسا‬
‫معاشرہ قوانین ِفطرت سے اِعراض کرنے کی پاداش میں جلد یا بدیر خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ خاندانی نظام‬
‫کی درستی یا بگاڑ میں خاوند اور بیوی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ اگر زوجین کے مابین مہر و وفا اور صدق و صفا‬
‫کے احساسات و جذبات نکاح کی صورت میں موجود ہوں تو المحالہ اس کے خوشگوار اور نفع بخش اثرات ان کی اوالد‬
‫پر بالخصوص اور تمام افرا ِد معاشرہ پر بالعموم مرتب ہوتے ہیں اور اگر مرد وزن کے مابین نکاح کا مضبوط اور مقدس‬
‫رشتہ موجود نہ ہو اور ان کے باہمی تعلقات و روابط محض جنسی آسودگی اور شہوانی لذت حاصل کرنے تک محدود‬
‫ہوں تو بال شک و شبہ یہ اقدام نہ صرف تولد ہونے والی اوالد کو باپ کی کمال درجہ شفقت اور ماں کی الئق ِقدر ممتا‬
‫سے محروم کردیتا ہے بلکہ من حیث المجموع پوری سوسائٹی کے لئے ایسے توہین آمیز‪ ،‬رسوا کن اور سنگین نتائج و‬
‫کو معدوم کردیتے ہیں ۔ خاندانی نظام کی )‪ (Attribute‬عواقب کا باعث بنتا ہے جو افرا دمعاشرہ کی ہر موجود صفت‬
‫بربادی‪ ،‬معاشرتی زندگی کی تباہی اور قلبی اطمینان و سکون کی عدم موجودگی کا یہ وہ اندوہناک اور عبرت انگیز پہلو‬
‫ہے جس کا تجربہ ومشاہدہ آج مغربی ممالک کی اکثریت کررہی ہے۔امریکہ اور یورپ میں خاندانی نظام کی زبوں حالی‬
‫نذر قارئین ہیں‬
‫‪ :‬کا مفصل تجزیہ کرنا ہمارا مقصود نہیں تاہم 'مشت ِنمونہ از خروارے' کے مصداق چند چشم کشا حقائق ِ‬
‫ایک حالیہ سروے کے مطابق مغربی ممالک میں بسنے والے مرد اپنی زندگی میں اوسطا ً ‪6‬ء ‪ 14‬عورتوں سے بدکاری‬
‫کرتے ہیں جبکہ وہاں سکونت پذیر عورتیں اوسطا ً ‪5‬ئ‪ 11‬مردوں سے ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتی ہیں ۔ ‪1959‬ء میں‬
‫برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے شائع شدہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں ہر تیسری عورت شادی‬
‫دور حاضر میں‬ ‫تہذیب و تمدن 'سے قبل دوسرے مردوں کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتی ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ ِ‬
‫کے علمبردار' برطانیہ میں ہر بیسواں بچہ 'ولد الزنا' ہوتا ہے۔یونان میں 'بذریعہ زنا' پیداہونے والے ناجائز بچوں کی شرح‬
‫‪ 2‬فیصد‪ ،‬سوئٹزر لینڈ میں ‪1‬ئ‪ 6‬فیصد‪ ،‬فرانس میں ‪1‬ئ‪ 30‬فیصد‪ ،‬ڈنمارک میں ‪4‬ئ‪46‬فیصد اور سویڈن میں ‪2‬ئ‪ 48‬فیصد‬
‫ہے۔ ان بچوں کی اکثریت والدین سے کماحقہ التفات اور دھیان سے محروم ہوتی ہے‪ ،‬اُنہیں اخالقی حدود و قیود اور‬
‫معاشرتی اقدار و روایات سے آگاہ کرنے واال کوئی نہیں ہوتا‪ ،‬زندگی بسر کرنے کے مہذب و متمدن اطوار سے باخبر‬
‫کرنے واال کوئی نہیں ہوتا اور کوئی نہیں ہوتا‪ ...‬کوئی بھی نہیں ‪ ...‬جو اُنہیں اس حقیقت کا شعور بخش سکے کہ عارضی‬
‫سرور اور وقتی لذت کے لئے کیا جانے واال زنا انسان کو حقیقی مسرت اور دائمی فرحت عطا کرنے سے قاصر ہے۔‬
‫اصل انبساط اور خوشی سے تو وہ لوگ ہمکنار ہوتے ہیں جو اپنی شہوانی آرزوؤں کی تسکین اور نفسانی خواہشات کی‬
‫تکمیل کے لئے نکاح جیسے اہم فریضے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں ۔ یہ موضوع طویل بحث اور عمیق تفصیل کا متقاضی‬
‫عدم فرصت اور صفحات کی تنگ دامانی کا سامنا ہے‪ ،‬بہرحال قصہ کوتاہ یہ کہ والدین کی جانب‬ ‫ہے مگر ہمیں اس وقت ِ‬
‫سے اپنی اوالد کی مناسب تعلیم و تربیت اور پرورش و نگہداشت کے فقدان کی بنا پر آج مغربی ممالک میں بسنے والے‬
‫افرادکی اکثریت اَن دیکھے مقامات کی راہی اورنامعلوم منزلوں کی جانب محو ِسفر ہے۔ ان میں مختلف قسم کی اخالقی‪،‬‬
‫روحانی اور سماجی برائیاں جیسے زنا کاری‪ ،‬بادہ کشی‪ ،‬کذب گوئی‪ ،‬اذیت رسانی‪ ،‬فریب دہی‪ ،‬جوا بازی‪ ،‬سود خوری‪،‬‬
‫سرقہ زنی اور نجانے کون کون سی سیئات اس طرح سے سرایت کرچکی ہیں کہ االمان الحفیظ۔ اگر ہم ان کی تفصیل بیان‬
‫کریں گے تو اصل موضوع سے دور ہٹ جائیں گے پس واضح ہواکہ محض ایک بُرائی زناکاری سے خاندانی نظام تہہ‬
‫داستان حیات‬
‫ِ‬ ‫وباال ہوا‪ ،‬اس سے پورا معاشرہ درہم برہم ہوا اور اس غم کدۂ رنگ و بو میں بسنے والی ایک قوم کی ایسی‬
‫عالم تخیل سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی کہ جس کا ہرصفحہ تیرہ و تار اور ہر باب غم انگیز ہے۔‬
‫اگر حدود قوانین میں مجوزہ ترامیم کابل خدانخواستہ منظور ہو جاتا ہے اور زنا بالرضا کو وطن مالوف میں قانونی تحفظ‬
‫روشن خیال' ممالک کی صف میں تو کھڑا ہوجائے گا‪' ،‬مل جاتا ہے تو اسالمی جمہوریہ پاکستان ان 'اعتدال پسند' اور‬
‫جہاں جنسی بے راہ روی کے اعتبار سے انسانوں اور جانوروں میں کوئی خاص فرق نہیں مگر اس کے بعد خاندانی اور‬
‫معاشرتی نظام کی جس بربادی وتباہی کا آج مغربی ممالک سامنا کررہے ہیں ‪ ،‬ہوبہو اسی آشفتہ سری‪ ،‬ژولیدہ حالی اور‬
‫سیکس فری 'ہالکت خیزی کا سامنا پاکستانی قوم کوبھی کرنا پڑے گا۔ زنابالرضا کی چھوٹ ملنے پرپاکستانی معاشرہ‬
‫سوسائٹی' میں تبدیل ہوجائے گا‪ ،‬جہاں عصمت فروشی اور قحبہ گری کا دور دورہ ہوگا۔ جس مذموم فعل کا ارتکاب ابھی‬
‫تک قانون اور معاشرے کے خوف کی بنا پر سات پردوں کے پیچھے کیا جاتا ہے‪ ،‬وہ سرعام وقوع پذیر ہوگا اور‬
‫ق نسیاں بنادے گی جو‬ ‫نگار طا ِ‬
‫ِ‬ ‫معاشرے کی کثیر تعداد قومی غیرت و حمیت کے ان تمام مظاہر و مقتضیات کو نقش و‬
‫پوری ملت ِاسالمیہ کا سرمایۂ افتخار اور طرۂ امتیاز ہیں ؎‬

‫جس کو خدا کی شرم ہے وہ ہے بزرگِ دین‬


‫دنیا کی جس کو شرم ہے مر ِد شریف ہے‬

‫جس کو کسی کی شرم نہیں اس کو کیا کہوں‬

‫فطرت کا وہ رذیل ہے دل کا کثیف ہے‬

‫امریکہ اور یورپ کی جس نام نہاد جدت پسندی‪ ،‬روشن خیالی اور ننگ انسانیت تہذیب و ثقافت نے حکومتی ایوانوں کو‬
‫ق نسواں ' کے پُرکشش اور دل‬ ‫اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے اس کی تباہ کاریاں انہی کومبارک‪ !...‬پاکستانی قوم کو 'تحفظ ِحقو ِ‬
‫ت حال یہ ہے کہ کیبل نیٹ ورک کے‬ ‫فریب تصور کا جھانسا دے کر را ِہ راست سے منحرف نہ کیا جائے۔ پہلے ہی صور ِ‬
‫نظام تعلیم‬
‫ِ‬ ‫مخلوط‬ ‫میں‬ ‫اداروں‬ ‫تعلیمی‬ ‫ذریعے اخالق باختہ اور حیا سوز مناظر پوری قوم کو دکھائے جارہے ہں ‪ ،‬اکثر‬
‫رائج ہے اور حکومتی سرپرستی میں مرد وزن کی مشترکہ میراتھن ریس کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان دگرگوں اور ناگفتہ بہ‬
‫مسلمانان پاکستان کے اخالقی و معاشرتی تابوت میں آخری کیل‬
‫ِ‬ ‫حاالت میں زنا بالرضا کو قانونی جواز عطا کرنا‬
‫ٹھونکنے کے مترادف ہے۔‬

‫پس ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ِوقت 'وسیع تر قومی مفاد' کے پیش نظر حدود قوانین میں کوئی ایسی ترمیم نہ‬
‫کرے جو قرآن و حدیث کے خالف ہو‪ ،‬جس سے اہل اسال م کے دینی و ملی شعائر کو گزند پہنچنے کا امکان ہو یا جو‬
‫پاکستانی عوام کو اپنے منفرد سماجی افکار و نظریات اور رسوم ورواج سے بیگانہ کردے۔ اسی میں پوری قوم کی‬
‫سالمتی اور عافیت کا راز پوشیدہ ہے ؎‬

‫اقوام مغرب سے نہ کر‬


‫ِ‬ ‫اپنی ملت پر قیاس‬
‫خاص ہے ترکیب میں قوم رسو ِل ہاشمی‬

‫ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار‬


‫ت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری‬ ‫قو ِ‬

‫دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں‬


‫!اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی‬
‫المحدث شمارہ ‪ 303‬ج ‪ 38‬عدد ‪ 9‬ستمبر ‪2006‬‬
‫نظام قضا‬
‫ِ‬ ‫اسالم کا‬
‫ّٰللا اور حدود آرڈیننس‬
‫حدود ہ‬
‫عبد الرحمن مدنی‬

‫حدود آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنایاجائے؟‬

‫حدود ہللا اور حدود آرڈیننس میں آپ کیا فرق سمجھتے ہیں ؟ ‪:‬انصاف‬
‫تعالی نے خود مقرر فرمائی ہیں تاکہ معاشرے سے بدکاری اور بے ‪:‬موالنا مدنی‬‫ٰ‬ ‫حدود ہللا سے مراد وہ سزائیں ہیں جو ہللا‬
‫تعالی کل انسانیت کے خالق ہیں اور ہللا کو ہی‬
‫ٰ‬ ‫حیائی ختم ہو اور لوگ امن و امان اور عزت سے زندگی گزار سکیں ۔ ہللا‬
‫بہتر علم ہے کہ انسانی معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کا طریق کارکیا ہے؟ وہ عالج ہللا نے کتاب و سنت کی شکل میں‬
‫ہمیں دیا ہے جس میں حدود ہللا بھی شامل ہیں ۔ جبکہ حدود آرڈیننس وہ قانون ہے جو بعض قانون سازوں نے قرآن وسنت‬
‫کی روشنی میں علماے کرام اور دانش وروں کی مدد سے‪ ،‬اس مقصدکے پیش نظر بنایا ہے کہ سماج دشمن‬
‫عناصرپرحدود ہللا کو نافذ کیا جاسکے۔‬

‫حدود ہللا کے نفاذ کا درست طریقہ کیا ہے؟ ‪:‬انصاف‬


‫حدود ہللا کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ وحی ٰالہی(کتاب و سنت) کی بیان کردہ سزاؤں کو جرم کا ارتکاب ‪:‬موالنا مدنی‬
‫کرنے والوں پرنافذ کردیا جائے جس کا درست طریقہ یہ ہے کہ جب حدود کا کوئی مقدمہ عدالت میں پیش ہو تو جج وحی‬
‫فرمان ٰالہی ہے‬ ‫ِ‬ ‫‪ :‬کی روشنی میں اجتہاد کرتے ہوئے فیصلہ صادر کرے۔چنانچہ‬
‫‪...‬و َمن له ْم یَحْ ُكم ِب َمآ أَنزَ َل ٱللهـهُ فَأُولَ ٰـٰٓئِكَ ُھ ُم ْٱل َك ٰـ ِف ُرونَ {‬ ‫َو َمن له ْم ‪َ ﴾٤٤﴿ ...﴾٤٥﴿...‬و َمن له ْم یَحْ ُكم ِب َمآ أَنزَ َل ٱللهـهُ فَأُولَ ٰـٰٓئِكَ ُھ ُم ٱل ه‬
‫ظ ٰـ ِل ُمونَ َ‬
‫}﴿‪﴾٤٧‬سورة المائدہ‪...‬یَحْ ُكم بِ َمآ أَنزَ َل ٱللهـهُ فَأُولَ ٰـٰٓئِكَ ُھ ُم ْٱلفَ ٰـ ِسقُونَ‬
‫'' فاسق ہیں ۔‪...‬کافر ‪...‬جو لوگ ما أنزل اہللاکے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ ظالم''‬

‫مسلمانوں کی چودہ سو سالہ اسالمی تاریخ میں شریعت کے نفاذ کا یہی طریقہ رہا ہے کہ جج ہمیشہ کتاب و سنت کی‬
‫نصوص کی پابندی کرتے ہوئے ائمہ فقہا کی تشریحات و اجتہادات کی روشنی میں پیش آمدہ مقدمات کے فیصلے کرتے‬
‫ہیں ۔آج بھی سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں حدود ہللا کو اسی اندازسے نافذ کیا جاتاہے کہ فوجداری جرائم کے‬
‫فیصلے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر ہوتے ہیں ۔ اس لئے وہاں کوئی بھی حدود اہللا کو نافذ ہونے کے خالف آواز نہیں‬
‫اُٹھاتا بلکہ لوگ سزاکو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھ کر بطی ِ‬
‫ب خاطر قبول کرتے ہیں کیونکہ رسول اہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫نے حد کے نفاذ کوگناہوں کا کفارہ قرار دیا ہے۔‬

‫شاہ فیصل رحمۃ ہللا علیہ کے دور میں جب سعودی عرب میں بڑی شدومد سے بعض عرب دانش وروں کی طرف سے یہ‬
‫تحریک چل رہی تھی کہ جدید انداز میں شریعت کی پہلے تقنین(قانون سازی) ہونی چاہئے پھر ججوں کو اس کا پابندبنا‬
‫کے مطابق فیصلے کریں تو مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ او ران کے ‪ Legislation‬دینا چاہئے کہ وہ اس‬
‫قرآن کریم کی اسی مذکورہ باال‬‫ِ‬ ‫شاگر ِد رشید شیخ عبدالعزیز بن باز (جو بعد میں سعودی عرب کے مفتی اعظم بنے) نے‬
‫تعالی نے قرآن کریم میں ما أنزل اہللا کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیاہے‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫آیت سے استدالل کرتے ہوئے فرمایا کہ ہللا‬
‫کیا ہمارا شریعت کی دفعہ وار قانون سازی کرنا ما أنزل اہللا قرا ر پاسکتا ہے؟ قطعا ً نہیں ‪،‬کیونکہ اہل علم کا اجتہاد‪ ،‬قدیم‬
‫یا جدید فقہ تو ہوسکتا ہے‪ ،‬لیکن اس اجتہاد کو ما أنزل اہللانہیں کہا جاسکتا۔‬
‫اعلی سطح کے‬‫ٰ‬ ‫یہی بات وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب گل محمد رحمۃ ہللا علیہ نے اس وقت کہی تھی جب‬
‫ایک عدالتی وفد نے اس وقت کے صدر مملکت جناب غالم اسحق خان سے سفارش کی کہ ججوں کو پاکستان میں کتاب و‬
‫اعلی تربیت کے لئے اسالمی ممالک میں‬ ‫ٰ‬ ‫سنت کی بہتر سے بہتر ٹریننگ دینے کے انتظامات کئے جائیں اور اُنہیں مزید‬
‫بھیجا جائے تاکہ وہ عمالً وہاں حدود ہللا کے نفاذ کا مشاہدہ بھی کرسکیں ۔ میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ جناب غالم‬
‫اسحق خان نے اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے شریعت کی متفقہ دفعہ وار قانون سازی پر زور دیا تو جناب جسٹس گل‬
‫تعالی کی‬
‫ٰ‬ ‫محمد خان نے جو جواب دیا‪ ،‬وہ واقعی حدود اہللا کے نفاذ کا صحیح حل تھا۔ اُنہوں نے فرمایا‪'' :‬شریعت ہللا‬
‫طرف سے (کتاب و سنت کی صورت میں ) بہترین طریقہ پر بیان کردی گئی ہے‪ ،‬اب کیا ہم اپنے الفاظ میں اس سے بہتر‬
‫کوئی تعبیر پیش کرسکتے ہیں ۔'' یہ سن کر غالم اسحق خان خاموش ہوگئے۔‬

‫مروجہ قانونی نظام اور عدالتوں کے لئے یہ تصور اجنبی نہیں ‪ ،‬اس پر عمل کس طرح ہوگا؟ ‪:‬انصاف‬ ‫کیا ہمارے ّ‬
‫اعلی عدالتوں ‪:‬موالنا مدنی‬
‫ٰ‬ ‫کے بعض فیصلے )‪(Superior Courts‬یہ تصور پاکستانی قانون میں بالکل نیا نہیں ‪ ،‬ہماری‬
‫ایسے موجود ہیں جن میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ کتا ب و سنت اپنی معروف شکل میں ہی نافذ ہیں او راگر کوئی‬
‫متبادل قانون وضع نہیں ہوتا تو کتاب و سنت کا اسی طرح نفاذ ہوگا۔مثال کے طور پر میں آپ کے سامنے ‪1991‬ء میں‬
‫سپریم کورٹ (شریعت بنچ) کا ایک فیصلہ ذکر کرتا ہوں ۔ ہوا یوں کہ فیڈرل شریعت کورٹ نے ‪1980‬ء میں قصاص و‬
‫ت پاکستان اور ضابطہ فوجداری کی ‪ 56‬دفعات کو قرآن وسنت کے منافی قرار دے رکھا تھا جو‬ ‫دیت کے متعلق تعزیرا ِ‬
‫حکومت کی طرف سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خالف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی بنا پرعمالً‬
‫معطل تھا۔ جب ‪1990‬ء میں سپریم کورٹ نے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے حکومت کو ‪ 9‬ماہ‬
‫کے اندر اندر نیا قانون النے کا پابند کردیا تو بینظیر حکومت نے لیت و لعل شرو ع کردی اور ‪23‬؍ مارچ ‪1991‬ء کو ‪9‬‬
‫ماہ کی مدت گزر جانے کے باوجود حکومت کا تقاضا تھا کہ اس کی مدت میں غیر معینہ توسیع کردی جائے۔ اسی دوران‬
‫‪2‬؍اگست ‪1991‬ء کو بے نظیر حکومت ختم ہوکر عبوری حکومت قائم ہوگئی۔ اس وقت سپریم کورٹ (شریعت بنچ) کے‬
‫سربراہ جسٹس افضل ظلہ تھے۔ اب نئی حکومت نے تبدیلی ٔحکومت کا بہانہ بنا کر جب مزید تاریخوں کا مطالبہ کیا تو‬
‫سپریم کورٹ کے اس فل بنچ نے کہا کہ اب بہت ہوچکا‪ ،‬دس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے‪،‬ہم غیر محدود مہلت‬
‫دینے کے متحمل نہیں ۔چنانچہ آخری حتمی تاریخ اب ‪12‬؍ ربیع االول مقرر ہے۔ اس دوران حکومت کو چاہئے کہ مذکورہ‬
‫‪ 56‬دفعات کی بجائے قصاص ودیت کا متبادل قانون پیش کرے اور ساتھ یہ وضاحت بھی کردی کہ اگر اس تاریخ تک‬
‫متبادل قانون نہ الیا گیا تو پھر قرآن و سنت جیسا کچھ بھی ہے‪ ،‬وہی نافذ سمجھا جائے گا اور جج قرآن وسنت کے‬
‫احکامات کی روشنی میں ہی فیصلے کریں گے۔ اس پرحکومت کے پاس قانون کا جیساکچھ ڈرافٹ تیار تھا‪ ،‬اسے ہی الگو‬
‫کردیا گیا۔ لیکن اس ڈرافٹ قانون کی کمزوریوں کے عالج کی غرض سے ایک اہم دفعہ قصاص و دیت آرڈیننس میں یہ‬
‫رکھی گئی جس سے اس قانون کے اَسقام کا عالج اور اصالح ممکن ہے ۔یہ دفعہ ‪338‬؍ایف ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ‬
‫اس قانون میں اگر ہمیں کوئی ضمنی مسئلہ درپیش ہو یا کوئی پہلو تشنہ معلوم ہویاکوئی نکتہ قابل اصالح ہو تو قرآن‬
‫وسنت کی روشنی میں اسے حل کیا جائے گا۔‬

‫بعدمیں الہور ہائی کورٹ کے بعض ججوں نے اس دفعہ کی روشنی میں کئی اہم فیصلے صادر بھی کئے۔ مثالً الہور ہائی‬
‫کورٹ کے فل بنچ ‪ ...‬جوتین ججوں جسٹس سردار محمدڈوگر‪ ،‬جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے‬
‫پر مشتمل تھا‪ ...‬کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ اگر مقتول کے ورثا صلح کرکے قصاص معاف کردیں تو کیا اس کے‬
‫باوجود بھی قاتل کو کوئی تعزیری سزا دی جاسکتی ہے یانہیں ؟ تو اُنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ قرآن و سنت کی رو سے‬
‫کسی مزید جرم کے بغیر کوئی تعزیری سزا نہیں دی جانی چاہئے۔ چونکہ ہائی کورٹ خود کوئی قانون سازی یاترمیم نہیں‬
‫کرسکتا لہٰ ذا اُنہوں نے اپنے اس آبرزرویشن کو پارلیمنٹ بھیجنے کی سفارش کی کہ اس کے مطابق قانون سازی کی‬
‫جائے۔‬

‫ایسے ہی قصاص و دیت آرڈیننس کے حوالے سے یہ نکتہ پیش آیا کہ اس قانون کی رو سے مقتول کا کوئی بھی وارث‬
‫قاتل کا قصاص معاف کرسکتا ہے‪ ،‬خواہ بیوی ہو یا خاوندتھا ۔بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ عورت کا آشنا اس کے‬
‫خاوند کو قتل کردیتا ہے ۔پھر وہ عورت ہی اپنے شوہر کی وارث ہونے کے ناطے اپنے آشنا (قاتل) کو معاف کردیتی ہے‬
‫ت حال پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں آشنائی کے ایسے کئی واقعات بھیہوئے۔ ایسی صورتحال میں ہائی‬ ‫تو صور ِ‬
‫کورٹ نے اسی دفعہ ‪338‬؍ایف کے تحت یہ سفارش کی کہ یہ بات شریعت کے منافی ہے لہٰ ذا امام مالک رحمۃ ہللا علیہ‬
‫کی رائے کے مطابق میاں بیوی کو آپس میں معافی کا اختیار نہیں ہونا چاہئے‪ ،‬بلکہ معافی کا اختیار مقتول کے صرف ان‬
‫اولیاء (خاندانی ذمہ داروں ) کو حاصل ہے جو خاندان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ رشتہ دار وہ ہیں‬
‫جنہیں علم وراثت کی اصطالح میں 'عصبہ 'کہا جاتا ہے مثالً بھائی‪ ،‬بیٹا‪ ،‬باپ‪ ،‬دادا وغیرہ ۔ خاوند بیوی چونکہ آپس میں‬
‫عصبہ نہیں ہوتے اور ایک کی وفات کی صورت میں زوجین کا باہمی تعلق کئی اعتبار سے منقطع ہوجاتاہے لہٰ ذا وہ‬
‫دونوں ایک دوسرے کا قتل معاف نہیں کرسکتے۔‬

‫آپ کو یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم حدود آرڈیننس کے سلسلہ میں بالکل غلط راہ پر چلے جارہے ہیں ۔‬
‫ہمارے سوالوں اور اعتراضات کی بنیاد ہی غلط ہے جس کے پس پردہ شرعی حدود کو ختم کرنے کی سازش ہورہی‬
‫ہے۔چنانچہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک غلط سوال تیار کیا گیا کہ کیا حدود آرڈیننس خدائی قانون ہے؟‬
‫یعنی حدود آرڈیننس حدو د ہللا نہیں ہیں ؟ ٹیلیویژن والوں نے تمام جواب دینے والوں کو اس کا پابند کیا کہ وہ صرف چند‬
‫جملوں میں اس کا جواب دیں ۔ حاالنکہ سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ ''حدود آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنایا جائے؟'' کیونکہ‬
‫ہماری زبان میں بیان کردہ حدود آرڈیننس ہللا نے آسمان سے نازل نہیں کیا بلکہ وہ ہماری طرف سے شریعت کی تعبیر‬
‫ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں اس وقت کے ماہرین قانون نے تیار کی تھی۔‬

‫بعینہ حدود ہللا تو نہیں لیکن ان کو حدود‬‫ٖ‬ ‫چنانچہ جب 'جیو' نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میں نے کہا‪'' :‬ہاں حدود آرڈیننس‬
‫کے الفاظ میں نافذ سمجھا جائے اور پھر )ہللا بنایا جاسکتا ہے‪ ،‬اور وہ اس طرح کہ شریعت کو وحی (قرآن وسنت‬
‫پارلیمنٹ کو جس کی اکثریت شریعت سے نابلد ہونے کی بنا پر اجتہاد کی اہل نہیں ‪ ،‬اس کو اجتہاد کااختیار دینے کی‬
‫پرمشتمل ہو‪ ،‬کو اجتہاد کا اختیار دے دیا جائے۔ جب مسئلہ پیش آئے تو عدلیہ )‪ (i‬بجائے عدلیہ جو قرآن و سنت کے ماہرین‬
‫حدود آرڈیننس کے ساتھ ساتھ کتاب و سنت کو بھی سامنے رکھے اور معاصر اہل علم کی تشریحات کے عالوہ علما کے‬
‫فتوی جات سے بھی استفادہ کرے اور اسالم کے نام پر کئے جانے والے چودہ سو سالہ‬ ‫ٰ‬ ‫قدیم اور جدید فقہی ذخیرے اور‬
‫عدالتی فیصلہ جات سے بھی رہنمائی لے۔ پھر واقعاتی صورت حال اور شرعی دالئل کے تناظر میں جو رائے قرآن‬
‫وسنت کے مطابق سمجھے‪ ،‬اس کے مطابق فیصلہ کردے ‪،‬کیونکہ جج کسی اور کے اجتہاد کا مقلد نہیں ہوتا بلکہ وہ برا ِہ‬
‫راست کتاب ہللا اور سنت ِرسول کا پابند ہوتا ہے۔‬

‫حقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی یا پارلیمنٹ کی قانون سازی اور اجتہادات کا ججوں کو مکلف بناناماہرین عدلیہ پر بے‬
‫اعتمادی کا اظہارہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں حدود آرڈیننس سمیت وہ تمام قوانین جو شریعت کے حوالہ سے نافذ کئے‬
‫گئے ہیں ‪ ،‬ان کے بارے میں یہ مشکل درپیش ہے کہ اُنہیں انسانوں نے اپنی زبان میں تیار کیاہے‪ ،‬اور پھر ان کا نفاذ ایک‬
‫خاص طریقے سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی‬
‫رہتی ہے جب کہ وحی کے الفاظ جامع ہوتے ہیں اور عالمگیر بھی یعنی ہر دور کے بدلتے تقاضوں اور مسائل کو حل‬
‫کرنے کی صالحیت اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ میں آپ کے سامنے ایک بہتر تجویز رکھ رہاہوں جو پوری اسالمی تاریخ میں‬
‫ت حال کو عبوری دور کا تقاضا سمجھتا ہوں کیونکہ‬ ‫رائج رہی ہے او رپاکستان میں شریعت کی قانون سازی والی صور ِ‬
‫وہ قانون جو انسانوں کی تعبیر سے دفعہ وار تقنین کی صورت میں یہاں نافذ ہوگا‪ ،‬اس کے اندر یہ مشکل ہمیشہ پیش آئے‬
‫گی کہ اس قانون میں وقتاًفوقتا ً بہت ساری تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی ۔اس لئے میرے نزدیک اصل حل‬
‫یہ ہے کہ قانون بنانے سے پہلے اجتہاد کی بجائے خود قرآن وسنت کا نفاذ فیصلہ کرنیوالے ججوں کو اجتہاد کے قابل‬
‫بنانے کا زیادہ اہتمام کیا جائے۔‬

‫حالیہ بحث میں ایک حل یہ پیش کیا جارہا ہے کہ پہلے چار گواہ موجود ہوں تو حدود کا مقدمہ درج کیا جائے‪،‬ا ‪:‬انصاف‬
‫س کے بغیر مقدمہ قطعا ً درج نہ کیا جائے۔آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟‬
‫درحقیقت یہ باتیں ان لوگوں کی طرف سے کہی جارہی ہیں جو دستور‪ ،‬قانون اور اس کے طریق کار سے ‪:‬موالنا مدنی‬
‫اعلی عدالتی فیصلوں کا ایک لمبا پروسیس ہے جس کا‬‫ٰ‬ ‫ناواقف ہیں ۔ ہمارے ہاں دستور کا ایک باقاعدہ پروسیجر ہے‪ ،‬پھر‬
‫مروجہ قوانین اور ضابطہ قانون پڑھاتا رہا ہوں ‪،‬‬
‫ّ‬ ‫سے‬ ‫حوالے‬ ‫ایک مسلمہ قانونی کردار ہے۔میں ایک عرصہ شریعت کے‬
‫اس لئے میرے تجربے کے مطابق حدود آرڈیننس میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا جاسکتا کہ پورے دستور وقانون کا حلیہ‬
‫ہی بگڑ جائے‪ ،‬کریمنل کوڈ‪ ،‬پروسیجر کوڈ یا پولیس ایکٹ کا تیا پانچا ہوجائے‪ ،‬اس لئے یہ اضافہ اور ترامیم ناقابل عمل‬
‫ہیں ۔‬

‫مزید یہ کہ پاکستان میں جرم صرف بدکاری کا ہی تو نہیں ہے‪ ،‬حدود کے ہی چار قانون اور ہیں ۔ قصاص ودیت آرڈیننس‬
‫قانون شہادت بھی‪ ،‬اسی طرح کے دیگر سنگین جرائم بھی ہیں ۔ مثالً زنا سے بھی زیادہ سنگین جرم توہین‬
‫ِ‬ ‫بھی ہے اور‬
‫رسالت کا ہے اور یہ جرم ایسا ہے کہ اس کے مرتکب کو سزا دینے کے لئے حکومت کی بھی شرط ضروری نہیں ۔‬
‫دیگر عام جرائم کی سزا صرف حکومت ہی دے سکتی ہے ‪،‬لیکن توہین رسالت میں اگر حکومت لیت و لعل کرے تو‬
‫مسلمان کی غیرت قابل مؤاخذہ نہیں ہے۔پھر پاکستان میں بغاوت کا جرم بھی کتنا سنگین ہے؟ ایسے جرائم کے لئے‬
‫گواہوں کو پیشگی ساتھ النے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ میری رائے یہ ہے کہ اس طرح کا طریق کار اختیارکرنے‬
‫سے پورا دستور و قانون ایک تماشہ بن جائے گا۔ ہمیں اپنے ملک کے حاالت‪ ،‬دستور اور قانون کی روشنی میں بات کرنا‬
‫چاہئے۔‬

‫ئ) بھی ہے۔ اس ‪ VII (1979‬پاکستان میں دستور و قانون کے ایک بڑے سیٹ اَپ میں سے ایک قانون ِ‬
‫جرم زنا آرڈیننس‬
‫سلسلے میں قانونی طریقہ کار سے ناواقف دانشور عوام کے سامنے حدود آرڈیننس کی غلط تشریحات کے ذریعے جو‬
‫اعتراضات پیش کررہے ہیں اس کا حل یہ نہیں ہے کہ کیس رجسٹر ہونے سے پہلے چار گواہ سامنے موجود ہوں ‪ ،‬چاہے‬
‫وہ عورتیں ہوں یامرد ہوں یا وہ گواہ کس طرح کے ہوں ؟کیونکہ قانون کی زبان عوام کا مسئلہ نہیں او رنہ قانون کے‬
‫فیصلے میڈیا پر عوام نے کرنے ہیں ۔ قانون کا ماہرانہ مطالعہ کئے بغیرعوام کو کیا معلوم کہ گواہوں کی کیا حیثیت ہے‬
‫اور گواہی کا انداز کیا ہونا چاہئے اوراس کی شرائط کیا ہیں ؟ اس لئے ایسے تمام مسائل کو اخبارات اور ٹی وی کے‬
‫ذریعے عوام کا موضوع بنانے کی بجائے قصاص و دیت کے قانون کی طرح حدود آرڈیننس کے اوپر چھتری کی طرح‬
‫ایک دفعہ رکھ دی جائے کہ اس میں جو بھی ضمنی یا نئے مسائل اُٹھیں گے یا اہل فکر و دانش کو اس پر جو بھی‬
‫اعتراض ہوں گے وہ فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے پیش کریں جو قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعہ ان‬
‫مسائل کا حل تالش کرے ۔ عالوہ ازیں جس طرح میں کہہ چکا ہوں کہ عدلیہ کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ شریعت کی‬
‫ماہر اور اہلیت ِاجتہادکی حامل ہو۔ ہمارے ملک منش اس مسئلہ کا فوری حل یہی ہے کہ مذکورہ باال قانونی دفعہ کے‬
‫ذریعہ حدود آرڈیننس پر کتاب وسنت کی اتھارٹی قائم کردی جائے‪ ،‬اس کی روشنی میں ایسے جزوی مسائل کا فیصلہ جج‬
‫کریں ۔‬

‫اعلی عدلیہ پہلے بھی فیصلے دے چکی ہے کہ اگر حدود کے متعلق شہادت وغیرہ کے سلسلہ‬ ‫ٰ‬ ‫گواہان کی تعداد وغیرہ پر‬
‫میں کوئی ایسے ناگزیر حاالت پیدا ہوں تو اس کا فیصلہ عدالت کرسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج جو لوگ کبھی توہین‬
‫رسالت پر اورکبھی عورتوں کے حوالے سے ایسے قوانین پر ‪...‬جن کی کم از کم روح شرعی ہے‪ ...‬اعتراض کررہے‬
‫ہیں تو ان کا مقصد عوام کو پریشان خیالی میں مبتال کرکے اُنہیں شریعت سے بدظن کرنا اور اینگلو سیکسن الز اور‬
‫مغربی تہذیب کا دل دادہ بنانا ہے ۔یہ مذموم مقصد پورا نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمارا قدم کسی قانون کی اصالح کے ذریعے‬
‫آگے شریعت کی طرف بڑھنا چاہئے۔‬

‫کہا یہ جاتا ہے کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے بعد عورتوں پر ظلم و زیادتی بڑھ گئی؟ ‪:‬انصاف‬
‫اس واویالکا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔دراصل یہ امر معاشرے میں روزافزوں بے حیائی‪: ،‬موالنا مدنی‬
‫سربازار ننگا اور رسوا کرنے کا‬
‫ِ‬ ‫مغربی تہذیب کی یلغار کا اثر ہے جو عورت کو بظاہر تحفظ دینے اور درحقیقت اسے‬
‫ت پاکستان میں زنا بالرضا کی‬‫علَم لے کر اُٹھی ہے۔مغرب زدہ لوگوں کو اس بات کی بڑی تکلیف ہے کہ پہلے تعزیرا ِ‬
‫کھلی چھٹی تھی لیکن حدود آرڈیننس میں زنابالرضا کو بھی بدکاری اور ناقابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے۔پہلے‬
‫سزا صرف مرد کو ملتی تھی‪ ،‬بدکاری پر کنواری‪ ،‬بیوہ اور مطلقہ عورت کے لئے کوئی سزا نہ تھی بلکہ خاوند بیوی کی‬
‫رضا مندی سے اس سے پیشہ بھی کروا سکتا تھا۔ اب حدود آرڈیننس سے عورت کو بھی بدکاری کرنے پر سزا کا حق‬
‫دار قرار دے دیا گیا ۔ یہ وہ تکلیف ہے جو تہذیب ِمغرب کے ان اسیروں کو بے چین کررہی ہے اور یہ سارا شور اس‬
‫لئے ہے کہ زنا کاری و بدکاری کو دوبارہ سند ِجواز مل جائے اور اس کے لئے تمام مال و زر اور مواد مغرب کی طرف‬
‫سے فراہم ہورہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ملک میں روزافزوں پولیس دھاندلی او رکرپشن کے نتیجے میں واقعی عورتوں پر‬
‫ظلم ہوتا ہے تو یہ مردوں پر بھی ہوتاہے‪ ،‬اس میں حدود آرڈیننس کا زیادہ دخل نہیں بلکہ بے لگام پولیس اور کرپٹ‬
‫انتظامیہ کا قصور زیادہ ہے۔‬

‫ٱَّللِ { ‪:‬اگر حدود آرڈیننس میں کوئی سقم ہے تو اس کا عالج یہ قرآنی اصول ہے‬ ‫ىءٍ فَ ُردُّوہُ ِإلَى ه‬ ‫َفإِن تَنَ ٰـزَ ْعت ُ ْم فِى َ‬
‫ش ْ‬
‫سو ِل‬
‫ٱلر ُ‬
‫النساء‪...﴾٥٩﴿...‬و ه‬
‫َ‬ ‫جب تمہارا کسی چیز میں جھگڑا ہوجائے تو اسے ہللا اور اسے کے رسول کی طرف '' }سورة‬
‫ش ْىءٍ فَ ُح ْك ُم ٰٓۥهُ ِإلَى ه‬
‫ٱَّللِ{ لوٹا دو۔'' اور‬ ‫ٱختَلَ ْفت ُ ْم فِی ِه ِمن َ‬
‫الشوری‪...﴾١٠﴿...‬و َما ْ‬
‫َ‬ ‫جس چیز میں تمہارا اختالف پڑ جائے تو ''}سورة‬
‫بطور اتھارٹی اور معیار شامل کردیا‬ ‫ِ‬ ‫ُ‬
‫وہاں ہللا کا ہی فیصلہ معتبر سمجھا جائی۔''اس قرآنی اصول کو حدود آرڈیننس میں‬
‫جائے اور کتاب وسنت کے مطابق ہونے کا فیصلہ(جو ایک قسم کا اجتہاد ہے)پارلیمنٹ کی بجائے جج کے ہاتھ میں ہونا‬
‫چاہئے جو درجہ اجتہادپر فائز قرآن و سنت کے علم اور مہارت کی بنیاد پرکیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر بھانت‬
‫بھانت کی یہ بولیاں سننا پڑیں گی کہ جی آرڈیننس میں یہ بات غلط ہے‪ ،‬اسے بدلو۔ فالں غلط ہے‪ ،‬لہٰ ذا آرڈیننس کو منسوخ‬
‫کردو۔‬

‫اب یہ کہا جارہا ہے کہ چار گواہوں کے بغیر مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا اور دوسرا کہ عورتوں کوجیل میں ‪:‬انصاف‬
‫نہیں رکھا جاسکتا؟‬
‫حدود آرڈیننس میں گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کے متعلق ماضی میں بھی ایک فیصلہ عدالت ِعالیہ ‪:‬موالنا مدنی‬
‫کر چکی ہے۔ (‪،1992‬کریمنل الء جرنل‪،‬ص‪ )1530‬مقدمہ درج کرنے سے قبل اس طرح کی شرطیں یا اس قسم کی آرا‬
‫مروجہ قوانین کے ماہرین کی نظر میں بالکل بے وقعت ہیں ۔ ایک رائے میں دیتا ہوں اور چند آرا آپ قانون سے ناواقف‬
‫ّ‬
‫دوسرے لوگوں سے لے لیں ‪ ،‬لیکن اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلے گا کہ پہلے سے موجودہ اَن گنت آرا میں‬
‫بعض مزید آرا کااضافہ ہوجائے گا۔ قانونی ماہرین کے لیے بھی ایسے مسائل کے حل کیلئے وہی رہنما اُصول ہے‬
‫)ہللا ورسول کی طرف لوٹا دو۔''(النساء‪ ''59:‬جوقرآن نے بیان کردیاہے کہ‬

‫آپ توجہ فرمائیں کہ ہماری اسالمی فقہ کے ایک ایک مسئلہ میں اکابر ائمہ کرام کی آرا بھی مختلف ہو جاتی ہیں ‪ ،‬ہم جن‬
‫فتوی میں کتاب وسنت کا یہی اُصول استعمال کرتے‬‫ٰ‬ ‫کے پاؤں کی خاک کے برابربھی نہیں ہیں ۔دنیا بھر کے اہل علم اپنے‬
‫یافیڈرل شریعت کورٹ میں جب کوئی )ہیں جو سورة النساء میں بیان ہوا ہے۔ہمارے ہاں بھی سپریم کورٹ(شریعت بنچ‬
‫قانون زیر بحث آتا ہے کہ آیا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں تو جج اسی اُصول کے تحت فیصلہ کرتا ہے کہ کون‬
‫کتا ب و سنت' کے مطابق ہے اور کون سی نہیں ؟ جب پہلے آپ کے پاس ایک طریق کار موجود ہے تو اسے 'سی رائے‬
‫ہر معاملہ میں عام کردیا جائے۔ یہی اصل حل ہے‪ ،‬حدود آرڈیننس کو حدود ہللا بنانے کا۔ ہر جج کو اسی طریقہ کار کے‬
‫اورتعیناتی کابھی شرعی معیار مقرر )‪ (Selection‬مطابق کام کرنے دیا جائے لیکن اس کے لئے پہلے ججوں کی تقرری‬
‫کرنا ضروری ہوگا‪،‬چنانچہ ضروری ہے کہ موجودہ اور آئندہ مقرر ہونے والے ججوں کو اس معیار کے مطابق‬
‫تیارکیاجائے۔‬

‫اس وقت بجٹ اور دیگر کئی اہم ایشوز زیربحث ہیں تو ان حاالت میں حدود کی بحث کو شروع کرنے کا مقصد ‪:‬انصاف‬
‫کیاہے ؟‬
‫اس وقت ہمارے ملک کا پورا نظام دگر گوں ہے۔اگرچہ اقتصادی نظام‪ ،‬سیاسی نظام توسب پہلے ہی مغرب ‪:‬موالنا مدنی‬
‫سے درآمد شدہ اور اس کے زیر اثر چل رہا ہے‪،‬لیکن مغرب کے برعکس محکوم ہونے کے ناطے ہماری عدلیہ‪ ،‬مقننہ‪،‬‬
‫انتظامیہ‪ ،‬فوج‪،‬بیورو کریسی اور ہر محکمہ کرپشن کی زد میں ہے۔ ان تمام مسائل کو نظر انداز کرکے حدود آرڈیننس کو‬
‫میڈیا پر اُچھالنے کی وجہ یقینا یہی ہے کہ سیاست اور معیشت کی طرح ہم اپنی معاشرت کو بھی مغربی تہذیب کے‬
‫سامنے سرنگوں کردیں اور یہی اس وقت مغرب کی ہم سے ڈیمانڈ ہے اور اس مقصد کے لئے وہ ہمارے بعض نام نہاد‬
‫علما یا دانشوروں کو خرید رہا ہے۔‬

‫ہمارے ہاں جو این جی اوز کا جال بچھا ہے‪ ،‬ان کو پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟ ڈاکٹر محمد فاروق کی'حدود آرڈیننس کا‬
‫تنقیدی جائزہ' کے نام سے ایک معمولی کتاب شائع کرنے کے لئے مبینہ طور پر ایک این جی او(عورت فاؤنڈیشن) کو‬
‫سات کروڑ روپیہ آخر کس نے دیا ؟اخبارات کے کئی کئی صفحات اور ٹی وی چینل جو اس مقصد کے لئے سرگرم ہے‪،‬‬
‫ان کو فنڈنگ کون کررہا اور کیوں کررہا ہے؟ اور ایک ٹی وی چینل شاہراہوں پر بڑے بڑے بورڈ کیوں لگا رہا ہے؟‬
‫حاالنکہ شاہراہوں پر اشتہار بازی صحافتی دائرئہ کار میں کبھی شامل نہیں رہی۔ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ یقینا‬
‫مغرب اور اس کے اشاروں پر ناچنے والوں کا‪ ،‬جوچاہتے ہیں کہ زنا بالرضا کے ثبوت کے لئے ایسی شرطیں عائد‬
‫کردی جائیں کہ وہ جرم ہی نہ رہ جائے اور اگر رہے بھی قابل مؤاخذہ نہ ہو۔ اور زنا بالجبر کو حرابہ (المائدة ‪ )33:‬کے‬
‫ِإ هال ٱلهذِینَ { تحت داخل کرکے اس کو قابل راضی نامہ بناکر عمالً اس کی سزا کوختم کردیا جائے کیونکہ اس سے اگلی آیت‬
‫ُوامن قَ ْب ِل أَن تَ ْقد ُِر ۟‬
‫وا َعلَ ْی ِھ ْم‬ ‫سورة المائدہ}سے یہی ثابت ہوتا ہے بلکہ اس سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ‪...﴾٣٤﴿...‬ت َاب ِ‬
‫اگرمجرم گرفتار ہونے سے قبل توبہ کرلے توبے چاری عورت سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ زنا بالجبر‬
‫کا شکارہونے والی عورت کو راضی کرنے کی ضرورت ہے حاالنکہ زنابالجبر کا 'جرم حرابہ' سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‬
‫زنا کی سزا قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کردی گئی ہے‪ ،‬اس میں سے زنا بالجبر کو خاص کرکے 'حرابہ' کے‬
‫تحت داخل کرنے کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے‪ ،‬نہ خلفاء راشدین کے دور میں اس کی کوئی مثال ملتی‬
‫ہے۔‬
‫لہٰ ذا یہ ایک کھیل ہے جو ایک منظم سازش کے تحت شروع ہوا ہے۔ حدود آرڈیننس پرآج کل اُچھالے جانے والے تمام‬
‫اعتراضات کے جوابات ہم اپنے مجلے ماہنامہ محدث میں شائع کرتے رہے ہیں ۔میرا موقف تو یہی ہے کہ اصل نکتہ کو‬
‫مضبوطی سے تھامیں اورحدود آرڈیننس کی جزئیات پر عوامی آرا جمع کرنے کی بجائے اصل شرعی بنیادپر لوگوں کو‬
‫جمع کریں ۔حل یہی ہے کہ عوام کی بجائے کتاب وسنت کی مطابقت کا اختیار عدلیہ کو دیاجائے‪ ،‬نہ کہ پارلیمنٹ کو‬
‫اعلی علمی صالحیت کی بنیاد پر تو متعین ہوتا ہے جبکہ اراکین پارلیمنٹ صرف ایک حلقہ کے اکثر‬ ‫ٰ‬ ‫کیونکہ جج بہر حال‬
‫عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں ‪ ،‬اُنہیں پورے ملک کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا کجا یہ کہ وہ الہامی شریعت کے‬
‫نمائندہ قرار پائیں ۔‬

‫لیکن آج ہمارے جج حضرات بھی جس طرح کے آتے ہیں وہ بھی توسامنے ہے؟ ‪:‬انصاف‬
‫یہ درست ہے کہ عدلیہ کی تقرری میں بھی کرپشن پائی جاتی ہے۔میں کہتا ہوں کہ عدلیہ کی شرعی تعلیم ‪:‬موالنا مدنی‬
‫وتربیت کا اہتمام کریں تو یہ کرپشن بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔ پوری طرح نہ سہی تو اس کمی کااثر خاص خاص‬
‫کیسوں کے اندر ایک محدود حد تک رہ جائے گا۔ ایسی عدلیہ کو جیسے پہلے بھی دوسرے معامالت میں گوارا کیا جارہا‬
‫ہے اور ان کے فیصلوں کو تسلیم کیا جارہا ہے‪ ،‬ایسے ہی حدود کیسوں میں بھی چالیا جاسکتا ہے۔ پھریہ تو ایک عبوری‬
‫دور ہے اور عبوری دور کی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔‬

‫آپ کہیں گے کہ جج اجتہاد کرنے کے قابل نہیں ‪،‬میں کہتاہوں کہ قرآن و سنت کی اتھارٹی قائم کردو اور پھر اس کے‬
‫مطابق ججوں کی ٹریننگ شروع کردو اور اس دوران جو عبوری دور ہوگا اس کو ایک خاص وقت تک برداشت کیا‬
‫جائے جیسا کہ آج برداشت ہورہا ہے‪ ،‬ساتھ ساتھ علماے دین اور بار کے وسیع المطالعہ قانون دانوں کا تعاون چلتا رہے ۔‬
‫اصالحِ احوال کی ایسی کوششیں جاری رہنا چاہئیں ۔‬

‫حدود آرڈیننس کے سلسلہ کی اُلجھننع اور ان کا حل آپ نے بیان کردیا ہے۔اب ہم 'جیو' کی بجائے درست سواالت ‪:‬انصاف‬
‫تیارکرسکتے ہیں ۔‬
‫جنگ کے نمائندہ عبدالمجید ساجد نے مجھ سے انٹرویو لیتے وقت یہ کہا کہ یہ سب غلط پروپیگنڈہ ہورہا ‪:‬موالنا مدنی‬
‫ت حال سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم آپ کا انٹرویو مکمل شائع کریں‬‫ہے۔ ہم اصل صور ِ‬
‫گے‪ ،‬لیکن جب جنگ کا جمعہ ایڈیشن آیا تو ایک دو باتیں ذکر کرنے کے عالوہ باقی تمام انٹرویو چھوڑ دیا گیا۔جیساکہ‬
‫میں نے ذکر کیاکہ جنگ اورجیو نے یہ سوال غلط ترتیب دیا ہے کہ کیا حدود آرڈیننس حدود ہللا ہیں ؟آپ اس کی بجائے یہ‬
‫اورمخالفین سے پوچھیں کہ یہ جو تم اس میں '' ہم حدود آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنائیں''سوال لے کر آگے بڑھائیں کہ‬
‫ترمیم و اصالح کی سفارشات پیش کررہے ہو کیا اس سے یہ آرڈیننس خدائی بن جائے گا‪،‬یعنی کیا اس طرح حدود‬
‫کے طریقہ ‪ Anglosaxon Law‬آرڈیننس حدود ہللا بن جائے گا؟ نیز اس مسئلہ میں ہمارے ملک کے دستورو قانون اور‬
‫کار کو بھی پیش نظر رکھاجائے اور اسی کے تناظر میں سواالت کئے جائیں ۔‬

‫درج کراتی ہے اور پھر اسے ثابت نہیں کرسکی تو ‪ FIR‬دیکھیں یہ سفارش پیش کی گئی ہے کہ اگر عورت زنابالجبر کی‬
‫اسے تو خود بخود قذف کی سزا نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے علیحدہ کیس دائر کرنا پڑے گا۔لیکن اگر زنا بالرضا ہو‬
‫کے وقت چار گواہوں کو النے میں کامیاب نہ ہوسکے تو کیس دائر کرنے والے پرفوراً قذف کی سزاالگو ‪ FIR‬اورمدعی‬
‫ہوجائے گی اورالگ کیس دائر نہیں کرنا پڑے گا۔ حاالنکہ ہمارے دستور کا بنیادی ڈھانچہ ہی عورت اور مرد میں ایسے‬
‫کی وجہ یہ ہے کہ حدود آرڈیننس ایک قانون نہیں بلکہ پانچ قوانین ‪FIR‬امتیاز کی اجازت نہیں دیتا۔ دراصل قذف کی الگ‬
‫ایک مستقل قانون ۔ ‪ VIII‬الگ ہے اور جرم قذف آرڈیننس ‪ VII‬ہیں ۔یعنی جرم زنا آرڈیننس‬

‫یعنی حدود آرڈیننس پانچ علیحدہ علیحدہ آرڈیننسوں کامجموعہ ہے؟ ‪:‬انصاف‬
‫ہاں ‪،‬بالکل ایسا ہی ہے کہ پانچوں الگ الگ قوانین ہیں ۔ زناکا الگ ہے‪ ،‬قذف کا الگ اور شراب کا الگ ‪:‬موالنا مدنی‬
‫وغیرہ وغیرہ اور ہمارے ملک کے عام قانونی طریق کار کی مجبوری یہ ہے کہ جب ایک قانون کے تحت پرچہ درج‬
‫ہوتاہے تو دوسرے قانون سے متعلقہ کیس کی اس پرچے میں سزا نہیں ہوسکتی۔ پھریہ کہنا کہ زنابالرضا ثابت نہ ہونے‬
‫کی صورت میں قذف کی سزا خود بخود الگو ہوجائے گی‪ ،‬اسطرح تو پورے دستور ؍ قانون کا تیا پانچہ کرنا پڑتا ہے۔‬

‫!!یہ نکتہ انتہائی اہم ہے ‪:‬انصاف‬


‫بالکل‪ ،‬یہ دستوری مجبوری ہے اوربنیادی حقوق کے اعتبار سے امتیازی قانون بھی جس سے پورا قانونی ‪:‬موالنا مدنی‬
‫طریق کار متاثر ہوگا۔‬

‫نے جو موقف اختیار کیاہے کہ حدود آرڈیننس شریعت کے مطابق ہے ‪ ،‬ہم کسی کو )‪(MMA‬مجلس عمل‪:‬انصاف‬
‫چھیڑنے نہیں دیں گے ۔اس بارے میں آپ کیاکہتے ہیں ؟‬
‫اصل میں ان کے سامنے اس کی روح ہے جوانتہائی مقدس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اِس کو بدلنے نہیں دیں ‪:‬موالنامدنی‬
‫گے۔دیکھیں ایک ہوتی ہے کسی چیز کی روح اور ایک ہیں اس کے الفاظ۔ اس قانون کی روح یہ ہے کہ زنابالرضا ہو‬
‫یازنا بالجبر‪ ،‬ہردوصورتوں میں وہ حرام اور ناقابل معافی جرم ہے۔وہ اس کی روح کی بات کررہے ہیں کہ اسے نہیں بدلنا‬
‫چاہئے۔ باقی رہے الفاظ تو اگر ان پر قرآن و سنت کی چھتری موجود ہے تو ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ تمام ائمہ کرام کی‬
‫فقہ ہمارے لئے سرمایہ ہے۔ قرآن و سنت کی چھتری تلے ہم ان تمام سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ مجلس عمل والوں کو‬
‫دراصل یہ خطرہ ہے کہ حدود آرڈیننس کو ایک سازش کے تحت ختم کرنے اور زنا کو سند ِجواز مہیا کرنے کا منصوبہ‬
‫تیار ہے۔ اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ان حاالت میں حدود آرڈیننس کو چھیڑنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہوگا۔‬

‫سمیعہ راحیل قاضی سے ہماری بات ہوئی۔ وہ یہی کہتی ہیں کہ ان حاالت میں اس قانون کو چھیڑنا ہی اس کو ‪:‬انصاف‬
‫ختم کرنے کے مترادف ہے۔کیونکہ ان لوگوں کے پاس اکثریت ہے اور یہ لوگ نیک نیت بھی نہیں ہیں ۔‬
‫میں سمجھتاہوں کہ حدود آرڈیننس میں قصاص ودیت آرڈیننس کی دفعہ ‪338‬؍ایف سے زیادہ واضح کتاب ‪:‬موالنا مدنی‬
‫وسنت والی بنیاد کااضافہ ضرور ہونا چاہئے تاکہ اس قانون پرجب بھی کوئی اعتراض یااس میں سقم سامنے آئے تو اسے‬
‫اعلی عدلیہ کے قاضی حضرات کے ذریعے ہو جو خود بھی قرآن و سنت کے‬ ‫ٰ‬ ‫قرآن و سنت پر پیش کیاجاسکے اور یہ کام‬
‫ماہر اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوں یا وہ علما کی راہنمائی میں ایسا کریں ۔ جیسا کہ قصاص ودیت آرڈیننس میں دفعہ ‪338‬‬
‫؍ایف کے بارے میں میں بعض اہم فیصلوں کا ذکر کر چکا ہوں ۔ہمارے ملک کے رواج کے مطابق قانون سازی‬
‫ہماری مجبوری بن چکی ہے۔اس پر اگر قرآن وسنت کی اتھارٹی قانونا ً قائم ہوگی تو پھر کوئی خطرہ نہیں )‪(Legistation‬‬
‫ہے۔‬

‫میری تجویز کا خالصہ یہ ہے کہ جب تک ہمارے پاس قرآن و سنت موجود ہے‪ ،‬اس وقت تک تمام ائمہ کی فقہ بھی‬
‫ہمارے لئے قیمتی سرمایہ ہے اورشریعت کی قانون سازی کی کمزوریوں کا حل بھی موجود ہے۔ورنہ ان شرعی‬
‫آرڈیننسوں کو قرآن و سنت سے الگ کردیں تو یہ سب بگاڑ ہی بگاڑ ہے‪ ،‬لہٰ ذا ضروری ہے کہ تمام قوانین پر قرآن کریم‬
‫س ْو ِل{کا یہ اُصول قائم رہے‬ ‫ش ْی ٍئ فَ ُرد ُّْوہُ ِإلَی اہللاِ َو ه‬
‫الر ُ‬ ‫جب کسی مسئلہ میں تمہارا کوئی نزاع ہوجائے تو '' }فَإ ِ ْن تَنَازَ ْعت ُ ْم ِف ْی َ‬
‫اسے ہللا اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرو۔'' اس طرح ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہی وہ شرعی طریقہ‬
‫کار ہے جو چودہ صدیاں چلتا رہا ہے‪ ،‬اس کے احیا کی ضرورت ہے۔یہی بات جسٹس ناصر اسلم زاہد نے بھی کہی کہ ''‬
‫حدود آرڈیننس کو قرآن کے مطابق بناؤ۔' 'وگرنہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ‬
‫لوگوں کو راضی رکھنے کے لئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں ‪،‬لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھا جاتا۔ان کی ''‬
‫حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضروری ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں‬
‫''کرسکتے‪ ،‬لیکن اسالمی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔‬

‫کہا جا سکتا ہے کہ ہماری عدلیہ کے اکثر ارکان بھی شریعت کے ماہر نہیں ہیں‪ ،‬وہ اجتہاد کیسے کریں گے؟ اگرچہ اس ‪i.‬‬
‫کا صحیح حل تو ماہرین کی تیاری ہی ہے لیکن عبوری دور میں یوں کام چالیا جا سکتا ہے کہ جج حضرات کے ساتھ‬
‫علماء یا بار میں ایسے عالم حضرات تعاون کریں جن کی مدد سے جج "اجتہاد" کر سکیں۔جج حضرات بہرصورت‬
‫ہوتے ہیں۔ آج کل فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ (شریعت بنچ) میں اسی طرح کام چالیا ‪" Select‬میرٹ" پر ہی‬
‫اعلی عدلیہ کے ارکان بھی دستور کی اسالمی دفعات کی روشنی میں عرصہ سے فیصلے‬ ‫ٰ‬ ‫جا رہا ہے۔ اسی طرح عام‬
‫کرتے چلے آ رہے ہیں۔‬
‫شمارہ ‪ 300‬جون ‪2006‬‬
‫اسالم کا نظام قضا‬

‫ّللا اور حدود آرڈیننس‬


‫حدود ٰ‬

‫عبد الرحمن مدنی‬

‫حدود آرڈیننس کو ’حدود اہللا‘ کیسے بنایا جائے؟‬

‫‪1979‬ء میں نفاذ شریعت کے پیش نظرپانچ آرڈیننس جاری کئے گئے تھے جن میں سے آرڈیننس نمبر‪VII‬جرم زنا سے متعلق‬
‫ہے اور جرم قذف (تہمت زنا) وغیرہ سے تعلق رکھنے واال آرڈیننس‪VIII‬ہے۔ اس وقت جرم زنا آرڈیننس نمبر‪VII‬زیر بحث ہے اور‬
‫کسی قدر جرم قذف آرڈیننس ‪...VIII‬جو مستقل قانون ہے‪ ...‬کو بھی لپیٹ میں لیا جارہا ہے۔ اس بحث سے مقصود نفاذ شریعت کی‬
‫بجائے روح شریعت سے انحراف کرکے سابقہ تعزیرات کو بحال کرنا ہے جس میں مغربی ثقافت کے زیر اثر عورت کی رضا‬
‫مندی سے تقریبا ہر قسم کا زنا جائز تھا ۔ ا س مقصد کے لئے طریق کار یہ اختیار کیا جارہا ہے کہ عوام کے پلے کچھ نہ پڑے‬
‫اور صرف تنقید باقی رہ جائے تاکہ حکومت اس شوروغوغا میں مذکورہ پانچ حدود آرڈیننس میں سے صرف جرم زنا آرڈیننس کو‬
‫تو منسوخ کردے اور جرم قذف آرڈیننس میں حسب منشاترمیم کردے۔ان حاالت میں پھیالئے جانے والے سواالت کے پس منظر‬
‫سے عوام ناواقف ہیں۔ جیو ٹی وی نے مدیراعلی 'محدث' کو تو سوال درست کرنے کی اجازت نہ دی لیکن روزنامہ 'جنگ' الہور‬
‫کے انچارج اقرأایڈیشن جناب عبدالمجید ساجد نے مدنی صاحب سے ایک طویل نشست رکھی اور وعدہ کیا کہ یہ انٹرویو 'جنگ'‬
‫میں تفصیال شائع ہوگا‪ ،‬لیکن جنگ الہور مؤرخہ ‪9‬؍جون کے رنگین صفحہ پر اس نشست کا صرف ایک آدھا نکتہ ذکر کرنے پر‬
‫اکتفا کیا گیا۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ اُنہیں محدث کے سابقہ شمارے بھی دیے گئے لیکن ان شماروں سے صرف اعتراضات‬
‫کی فہرست نکا ل کر شائع کردی گئی اور جوابات کو چھوڑ دیا گیا‪ ،‬اس سے جنگ اخبار کی پالیسی کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔‬
‫بہرحال جنگ سے ہونے والی اس نشست کو مجلس تحقیق اسالمی کے سکالر محمد اسلم صدیق نے ریکارڈنگ سے ترتیب دیا ہے‬
‫جو ہدیۂ قارئین ہے۔ (محدث)‬

‫سوال‪ :‬زنا آرڈیننس میں ترمیم کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟‬

‫جواب‪ :‬جسٹس ناصر اسلم زاہد کا جو موقف اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ زنا آرڈیننس کو قرآن کے مطابق بنایا جائے‪ ،‬میں اس‬
‫سے متفق ہوں۔ البتہ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ زنا آرڈیننس کو سرے سے ختم ہی کردیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حدود‬
‫آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنایا جائے؟‬

‫سوال‪ :‬کیا حدود آرڈیننس کوئی خدائی قانون ہے؟‬

‫جواب‪ :‬یہ سوال بڑا عجیب ہے‪ ،‬یہ بات تو درست ہے کہ یہ آرڈیننس ہللا نے نازل نہیں کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مینترمیم و‬
‫اصالح کے بعد جو قانون بنایا جائے گا‪،‬کیا وہ خدائی قانون ہوگا؟ وہ بھی تو انسانوں کا بنایا ہوا ہوگا۔ دراصل ہمارے ملک میں وہ‬
‫تمام قوانین جوشریعت کے حوالہ سے الگو ہیں‪ ،‬ان کے بارے میں مشکل یہ ہے کہ انسان اسے اپنی زبان میں تیار کرتے ہیں اور‬
‫پھر ایک خاص طریقہ سے ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جبکہ شریعت ہللا تعالی کی وحی ہے جوقرآن وسنت کی صورت میں ہمارے پاس‬
‫موجود ہے۔ہر وہ قانون جو (اجتہاد کے بعد) انسانوں کی اپنی تعبیر کی شکل میننافذ ہوگا‪ ،‬اس کو نافذ کرنے کے بعد یہ مشکل‬
‫ہمیشہ درپیش رہے گی اور اس میں جابجا تبدیلیوں کی ضرورت ہمیشہ پیش آتی رہے گی۔‬

‫سوال‪ :‬پھرشریعت کے نفاذ کا طریقہ کیا ہونا چاہئے ؟‬

‫جواب‪ :‬اس سلسلہ میں مثالی صورت تو یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعہ حدود ہللا کی تقنین (‪)Legislation‬یا اس کی دفعات کی‬
‫تدوین(‪ )Codification‬کی بجائے اُنہیں قرآن و سنت کی اصل شکل میننافذ کردیا جائے اور جب حدود کا کوئی مقدمہ پیش آئے تو‬
‫اس وقت قرآن و سنت کی اس سلسلہ میں وارد نصوص کوسامنے رکھ کر جج اجتہاد کرتے ہوئے اپنا فیصلہ صادر کرے لیکن اس‬
‫کے لئے ضروری یہ ہے کہ جج قرآن و سنت کا ماہر عالم ہو اور شرعی اجتہاد کی صالحیت بھی اس میں موجود ہو۔‬

‫ہماری چودہ سو سالہ اسالمی تاریخ میں شریعت کے نفاذ کا یہی طریقہ رہا ہے اور آج کل بھی خلیجی ممالک مثال سعودی عرب‬
‫وغیرہ میں اسی طریقہ پرہی حدود ہللا کو نافذ کیا جاتاہے۔ پہلے سے انسانوں کی قانون سازی کے ذریعے جو حدود آرڈیننس بھی‬
‫نافذ کیا جائے گا‪ ،‬اس کے بارے میں یہ آواز اٹھتی ہی رہے گی کہ یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یانہیں؟ لہذا اسے قرآن و سنت‬
‫کے مطابق بناؤ۔‬

‫سعودی عرب میں شاہ فیصل مرحوم کے دور میں علما کے درمیان جدید انداز میں شریعت کی تقنین (‪)Legislation‬کی بحث چلی‬
‫تو وہاں کے مشہور مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم اور ان کے شاگرد ؍ جانشین مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ ہللا علیہ‬
‫نے فرمایا کہ ہللا تعالی نے قرآن مجیدمیں حکام کو ما أنزل اہللا (المائدة‪)44:‬کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا ہمارا‬
‫شریعت کی دفعہ وار قانون سازی کرنا ما أنزل اہللا قرار پاسکتا ہے؟ قطعا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شرعی قاضی ہمارے الفاظ کی‬
‫بجائے محض قرآن و سنت کا پابند ہے۔‬

‫اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں حدود ہللا کی دفعہ وار تقنین (شق وار قانون بندی) کی بجائے اُنہیں قرآن و سنت کے الفاظ میں‬
‫نافذ کرنے کی طرف آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ ہم کتاب و سنت سے بہتر وحی کی تعبیر پیش نہینک رسکتے۔ یہی بات ایک مجلس‬
‫میں مرحوم جسٹس گل محمد (چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت‪ ،‬پاکستان) نے اس وقت کہی جب سابق صدر پاکستان جناب غالم‬
‫اسحق خان نے شریعت کی متفقہ دفعہ وار تقنین پر زور دیاتو جناب جسٹس صاحب رحمۃ ہللا علیہ نے ایمان افروز الفاظ میں یوں‬
‫جواب دیا کہ ''شریعت تو وحی الہی ہے جو کتاب و سنت کی صورت میں ہمارے ہاں مکمل محفوظ ہے‪ ،‬اب کیا ہم وحی سے بہتر‬
‫تعبیر پیش کرسکتے ہیں۔'' اس جواب پر مجلس میں خاموشی چھا گئی۔‬

‫اس سلسلے میں جیو ٹی وی چینل نے غیرمناسب طریقہ اختیار کیا ہے۔ پہلے ایک غلط سوال تیار کیااور پھر اپنی مرضی کا جواب‬
‫تیار کرکے خاص مشن کے مطابق لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔ مختلف مقامات پر بڑے بڑے سائن بورڈ لگانے کا آخر کیامقصد‬
‫ہے؟ ہللا کے قانون کو تماشا بنانے والوں کو آخرایک روز ہللا کے سامنے بھی جواب دہ ہونا ہے۔‬

‫بالفرض حدود آرڈیننس میں تعبیر شریعت کی غلطیاں ہیں لیکن بہرحال اسے قرآن و سنت یا ائمہ فقہا کی تشریحات کو سامنے رکھ‬
‫کر تیار کیا گیا ہے۔ لہذا غلط پراپیگنڈہ کرنے کی بجائے اسے قرآن وسنت کے مطابق کرنے کی کوشش ہونی چاہئے‪ ،‬اس کے لئے‬
‫ضروری ہے کہ پہلے سوال کو درست کیا جائے؟ جو یہ ہو کہ 'حدود آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنایا جائے؟'‬
‫سوال‪:‬میں آپ سے 'جیو' واال سوال پوچھنے حاضر نہیں ہوا اورمیرا اس پروپیگنڈا سے بھی تعلق نہیں‪ ،‬حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا‬
‫پروپیگنڈہ سن کر میں خود بہت زچ ہوا اور میننے سوچا کہ اس کی صحیح صورت حال سے لوگوں کوآگاہ کرنا چاہئے اور میں‬
‫آپ کے تفصیلی موقف کی درست اشاعت کی بھی ذمہ داری لیتا ہوں۔‬

‫مدنی صاحب‪' :‬محدث' میں حدود آرڈیننس کے بارے میں بہت کچھ شائع ہوتا رہا ہے‪،‬بالخصوص محدث کے سال ‪2004‬ء میں شائع‬
‫ہونے والے تین شمارہ جات (سیریل نمبر‪ 276،280:‬اور ‪ )284‬میں قانونی تجزیہ اور تقابل کرتے ہوئے مروجہ حدود آرڈیننس کے‬
‫خالف مختلف مہمات کا پس منظر پیش کیا گیا اور اعتراضات کے جواب دیے گئے ہیں۔ حدود آرڈیننس کے خاتمے سے اصل‬
‫مقصود جنسی انارکی اور زنا کاری کو فروغ دینا ہے۔ اسی مقصد کے لئے حدود آرڈیننس کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی گئی‬
‫ہے۔ جب بدنام ہوجائے تو کہا جائے گا کہ اس کوختم کردیاجائے جیساکہ واجدہ رضوی رپورٹ میں یہی سفارش کی گئی ہے۔‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل کے سابقہ چیئرمین اور خواتین حقوق کمیشن کے رکن جناب ایس ایم زمان نے اس سازش کی کسی قدر‬
‫نقاب کشائی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ واجدہ رضوی نے طے شدہ اُصولوں اور طریقہ کار کو ترک کرکے غلط انداز اپنایا اور‬
‫کراچی میں موجود کمیشن کا ایک اجالس منعقد کرکے ارکان سے صرف یہ پوچھا گیا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کس بات کے‬
‫حق میں ہیں‪ :‬اس قانون کو منسوخ کیا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے؟ اس کے بیس روز بعد اُنہوں نے یہ عندیہ دیا کہ ارکان کی‬
‫اکثریت نے مذکورہ قانون منسوخ کرنے کے حق میں رائے دے دی ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک نئی رپورٹ تیار کی جس کا اس‬
‫مسئلے پر پہلے سے تیار کردہ ڈرافٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس نئی رپورٹ میں حدود قوانین کی منسوخی کی سفارش کی گئی‬
‫اور ترامیم کی مخالفت کی گئی تھی یعنی غلط طور پر اس رپورٹ کو کمیشن کی رپورٹ قرار دے کروزیراعظم اور صدر کو‬
‫بھجوایا گیا۔ دراصل اسپیشل کمیٹی کا اجالس اور اس کے بعد نیشنل کمیشن برائے خواتین کا اجالس دونونغیر آئینی تھے۔ کیونکہ‬
‫اس دوران کمیشن کے ارکان کی اکثریت کی میعاد تقرری تین سال گزرنے پر پوری ہوچکی تھی اور وہ لوگ کمیشن کے ممبر ہی‬
‫نہیں رہے تھے۔ صرف واجدہ رضوی اور دو ایک خواتین ایسی تھیں جو خالی نشستوں پر نامزد ہوئی تھیں اور ان کی مدت تقرری‬
‫ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔‪1‬‬

‫اس ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی کہے کہ اس ملک میں اسالم نافذ کرنا ہے تو بیوروکریسی اسالم کو نافذ کرنے نہیں‬
‫دیتی۔مجھے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معاون کی حیثیت سے خصوصا قصاص و دیت کے قانون میں کام کرنے کا موقعہ‬
‫مال۔ قصاص ودیت کا قانون بھی اس طرح کی شرعی تعبیرات ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں طریق کار یہ ہے کہ اسالم کے نام پر ایک‬
‫مقررہ سزا (حد) تجویز کرکے اس کے ساتھ ایسی کڑی شرطیں لگا دی جاتیں ہیں جو موجودہ معاشرہ میں کبھی پوری نہ ہوسکیں‬
‫اور پھر اگر کوئی شرط پوری نہ ہو تو اس حد کے بجائے تعزیر الگو کردی جاتی ہے اور بالعموم ایسی سزائیں وہی سابقہ گھسی‬
‫پٹی تعزیرات پاکستان ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دکھانے کوکچھ اور ہوتا ہے لیکن عمال تعزیرات پاکستان ہی نافذ رہتی ہیں۔یہی‬
‫بات جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہی کہ‬

‫''مذہبی لوگوں کو راضی رکھنے کیلئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھاجاسکتا۔ ان کی‬
‫حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضرور ی ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں کرسکتے لیکن‬
‫اسالمی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔ ''‪2‬‬

‫مثال مالحظہ کریں کہ حدود آرڈیننس میں چار مسلمان مرد عینی گواہ مقرر کئے گئے ہیں جس سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حد‬
‫نافذ کرنے کے لئے انتہائی مثالی معیار ہے۔ لیکن جب وہ گواہ میسرنہیں آئیں گے تو حدود کانفاذ نہیں ہوسکے گا اور پھراس طرح‬
‫تعزیر کونافذ کردیاجاتا ہے۔ کیونکہ پاکستانی قانون میں تعزیر کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں بلکہ ایک گواہ اور قرائن‬
‫کی موجودگی میں بھی تعزیر الگو کی جاسکتی ہے۔گویا طریق کار ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ نہ قصاص کا نفاذ ہوسکے اورنہ‬
‫حدود کا۔ یہ سب کھیل ہے جس کے پیچھے اصل کردار بیوروکریسی کا ہے۔‬

‫قصاص و دیت کا قانون‪ ،‬قانون شہادت اور حدود آرڈیننس کو پڑھتے پڑھاتے میری عمر کا ایک حصہ گزرا ہے اورمجھے خوب‬
‫معلوم ہے کہ ان کے پیچھے کیا عیوب پوشیدہ ہیں؟‬

‫حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دستور میں بھی اسالمی دفعات محض تصور یا پالیسی کی حد تک ہیں۔ عمومی تصورات اور 'پالیسی‬
‫قوانین' قانونا مؤثر نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف مقصد اور پالیسی ہوتی ہے جس کی کوئی مؤثر حیثیت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں مروج‬
‫اینگلو سیکسن الز کا اُصول یہ ہے کہ عمومی دفعات یا پالیسی کے اُصول مزید خصوصی رولز کے بغیر مؤثر نہیں ہوتے۔ عام فہم‬
‫انداز میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ منصوبہ اور عمل دو مختلف چیزیں ہیں۔‬

‫سوال‪ :‬کل میری ڈاکٹر محمد فاروق خاں سے بات ہوئی‪ ،‬اُنہوں نے حدود آرڈیننس کی چھ بنیادی خامیاں بیان کی ہیں‪ ،‬وہ کہتے ہیں‬
‫کہ قرآن کی رو سے زنا بالجبر میں سزا کا طریقہ زنا بالرضا سے مختلف ہے۔ زنابالجبر مینچارگواہ تو کجا‪،‬ایک عینی گواہ کی‬
‫بھی شرط نہیں ہے۔‬

‫جواب‪ :‬دراصل بعض لوگ زنا بالجبر کے لئے سنت کوباالئے طاق رکھ کر آیت محاربہ کو سزا کی بنیاد بناتے ہیں۔ سورة المائدة‬
‫کی اس آیت کے الفاظ یہ ہیں‬

‫سولَهُ} (آیت‪)33:‬‬ ‫{إنَ َما َجزَ ا ُء الَذینَ یُ َحاربُونَ َ َ‬


‫ّللا َو َر ُ‬

‫لیکن اس آیت سے اگلی آیت بھی مالحظہ فرمائیے ‪:‬‬

‫{ إ َال الَذینَ ت َابُوا م ْن قَبْل أ َ ْن ت َ ْقد ُروا َ‬


‫علَیْھ ْم} (آیت‪)34:‬‬

‫''مگروہ لوگ جوگرفتاری سے قبل توبہ کرلیں‪''...‬‬

‫گویا اگرزنا بالجبر کو اس آیت کے تحت قابل سزا قرار دیا جائے تو زنا بالجبر کی زد میں آنے والی خاتون کو بالکل نظر انداز‬
‫بھی کیا جاسکتا ہے‪ ،‬مثالاگر جرم کرنے واال اپنی گرفتاری سے قبل توبہ کا اظہار کردے تو جرم ہی معاف ہوجائے گا۔ لیکن‬
‫درحقیقت ہماری شریعت کی تکمیل محمد رسول اہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے بغیر قطعا نہیں ہوسکتی۔ قرآن مجید رسول ہللا صلی ہللا‬
‫آپ‬
‫آپ کی زندگی سے وابستہ ہے۔ اگر ؐ‬ ‫علیہ وسلم کی ‪23‬سالہ زندگی میں نازل ہوا اور اپنی دائمی تعبیر (حدیث وسنت) کی صورت ؐ‬
‫کی زندگی (حدیث وسنت) کو قرآن سے الگ کردیا جائے تو جو قانون نافذ ہوگا‪ ،‬وہ الہامی شریعت کا قانون نہیں ہوگا‪ ،‬یہی ہے‬
‫خرابی کی اصل وجہ۔ جب آپ اس ساری صورت حال کے تناظر میں جائیں گے تو واضح ہوگا کہ ان لوگوں کا اصل مشن یہ ہے‬
‫کہ زنا بالجبر کو زنا کے زمرہ سے نکال کر اس کے لئے کوئی اور قانون الیاجائے تاکہ زنا بالجبر کے دعوی سے 'جرم زنا'‬
‫پوری طرح عورت کے ہاتھ میں آجائے۔ مزید یہ کہ اس طرح زنا بالجبر کے مرتکب کنوارے کو بھی رجم (سنگسار) کرنا پڑے گا‬
‫حاالنکہ درحقیقت یہ لوگ تو سرے سے ایسی سزاؤں کے ہی خالف ہیں۔ شریعت اسالمیہ میں اجماعا کنوارے زانی کی سزا رجم‬
‫نہیں ہے اور رسول صلی ہللا علیہ وسلم کے دور یا بعد کے کسی دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔‬
‫سوال‪ :‬اسالم بال شبہ اس ملک کی بنیاد ہے۔ یہاں اسالمی شریعت پر عمل ہونا چاہئے اور اسے ہمیشہ جاری و ساری رہنا چاہئے‬
‫لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جو قوانین اسالمی شریعت کے نام پر اس وقت ملک میں نافذ ہیں‪ ،‬ان میں بعض کمزوریوں کا حل کیا‬
‫ہے؟‬

‫جواب‪:‬اس سوال کے پس منظر کے طور پر اُصوال یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قرآن مجید کی کوئی انسانی تشریح یا تعبیر‬
‫کبھی بھی قرآن کے مماثل قرار نہیں پاسکتی۔ قرآن کے ترجمہ‪ ،‬تشریح اور تفسیر کو خواہ آپ اس کی بہتر سے بہترتعبیر و تشریح‬
‫کی صورت میں تیار کر لیں‪ ،‬اس پر کبھی ما أنزل اہللا (نازل کردہ کتاب وسنت) کا اطالق نہیں کیاجاسکتا‪،‬کیونکہ انسانوں کی اس‬
‫تعبیر (‪ )Interpretation‬میں تضاد اور تعارض کا احتمال موجود رہتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کو مسائل پیش آنے سے‬
‫پہلے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی نوعیت کیا ہوگی؟ ان کی نوعیت اسی وقت متعین ہوتی ہے جب وہ معاملہ درپیش ہو۔‬

‫جیسا کہ میں ذکرکر چکا ہوں کہ اس وقت مختلف اسالمی ممالک‪،‬خصوصا سعودی عرب وغیرہ میں اسالم کے نفاذ کا یہ اندازنہیں‬
‫ہے کہ پہلے شریعت کی دفعہ وار قانون بندی کی جائے اور پھر ججوں کو اس کا پابند بنا دیا جائے۔ان کے ہاں اصل اتھارٹی کتاب‬
‫وسنت کو حاصل ہے اور جج اپنے فیصلہ میں انہی کا پابند ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے کہ جج صرف وحی(قرآن وسنت) کا پابند‬
‫رہے۔ البتہ جب مسئلہ پیش آئے تو اس وقت وہ اکابر اہل علم کی تشریحات اسالمی ورثہ کے قدیم اور جدید فقہی ذخیرے اور فتوی‬
‫جات کو سامنے رکھ کر ان سے استفادہ کرے۔اس دور کے علما سے رہنمائی لے اور وہ واقعاتی صورت حال کا جائزہ بھی لے‪،‬‬
‫پھر شرعی تعلیمات اورصورت واقعہ دونوں کو سامنے رکھ کر دالئل کے تناظر میں غور کرتے ہوئے جو رائے قرآن وسنت کے‬
‫رسول‬
‫ؐ‬ ‫مطابق سمجھے‪ ،‬اسی کے مطابق فیصلہ کر دے۔کیونکہ جج کسی اور کے اجتہاد کا مقلد نہیں ہوتا بلکہ وہ کتاب ہللا اور سنت‬
‫کا پابند ہوتا ہے اور مسئلہ پیش آنے پر ہی وہ اجتہاد کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اسالف نے مسئلہ پیش آنے سے‬
‫پہلے محض مفروضوں پر رائے زنی کو نا پسند کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ مسئلہ پیش آنے سے پہلے مفروضوں پر‬
‫اجتہاد نہ کیا جائے کیونکہ مسئلہ کی صحیح نوعیت اسی وقت متعین ہوتی ہے جب وہ پیش آئے۔اس سے پہلے وہ محض ایک‬
‫مفروضہ ہوتا ہے چنانچہ مفروضہ کی بنیاد پر جو فتوی صادر ہو گا‪ ،‬اس میں صحت کے امکانات کم اور افراط وتفریط کے‬
‫امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔‬

‫یہی بات میں نے اس وقت بھی کہی تھی جب 'جیو' نے مجھ سے حدود آرڈیننس کے خدائی قانون ہونے یا نہ ہونے کا سوال پوچھا‬
‫تھا ۔ میرا جواب یہ تھا کہ اگر آپ بیرونی دباؤ کے زیراثر آرڈینینسوں میں تبدیلیاں کرکے نئی دفعہ وار قانون سازی کریں‬
‫گے‪،‬بالخصوص جب قانون سازی کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو دے دیں گے جس کے ارکان کی اکثریت شریعت سے بے بہرہ ہے‬
‫توکیا اس وقت یہ آرڈیننس خدائی بن جائے گا۔ حکومت کے آئینی اداروں کو شریعت کی قانون سازی اورتعبیر شریعت کا اختیار‬
‫دینے کی بجائے اس کے نفاذ ‪ Application‬کے کامیاب طریقوں پر محنت کرنا چاہیے۔اگر شریعت وحی کے الفاظ میں رہے گی‬
‫تو پھر یقینا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب حدود ہللا کا نفاذ ہورہاہے لیکن اگر آپ پارلیمنٹ یا بیوروکریسی کی لفاظی کو قانونی دفعات‬
‫کی صورت میں نافذ کریں گے تو پھر یہ اعتراضات اُٹھتے رہیں گے کہ حدود آرڈیننس قرآن وسنت کے مطابق نہیں یا قصاص و‬
‫دیت آرڈیننس قرآن وست کے مطابق نہیں۔ اس کو قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے یا اسے منسوخ کیا جائے۔‬

‫اورحقیقت یہ ہے کہبیوروکریسی کی ڈرافٹنگ یا پارلیمنٹ کی قانون سازی جسے آپ اجتماعی اجتہاد کانام دے رہے ہیں‪ ،‬عدلیہ پر‬
‫بے اعتمادی کا اظہار ہے۔حاالنکہ عدلیہ میں آنے والے لوگ میرٹ کی بنیاد پر آتے ہیں اور پارلیمنٹ میں آنے والے عوامی اعتماد‬
‫کی بنیاد پر جبکہ علم کی دنیا میں میرٹ کو ہی باالدستی حاصل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شرعی حدود کو وحی کے قالب میں‬
‫نافذ سمجھا جائے اور عدلیہ جو قرآن وسنت کے ماہرین پر مشتمل ہو‪ ،‬اسے اجتہاد کا اختیار دیا جائے۔ ہمارے ملک پاکستان میں‬
‫حدود آرڈیننس سمیت شریعت کے حوالہ سے الگو کئے جانے والے دساتیر و قوانین اینگلو سیکسن الز کے طریقہ پر تیار اور نافذ‬
‫ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ مسلمہ امر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے‬
‫گی جب کہ وحی (کتاب و سنت) دائمی عالمگیر ہدایات ہیں جو حرکی اجتہاد کے تصور سے ہر دور کے بدلتے تقاضوں کوملحوظ‬
‫رکھ کر ہر طرح کے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی صالحیت رکھتے ہیں۔‬

‫اجتہاد ی اختالفات کے باوجود اجتہاد کی شریعت میں اجازت کیوں ہے؟ اس کے بارے میں عموما عوام ائمہ کا اختالف سن‬
‫کرپریشان ہوجاتے ہیں حاالنکہ اکابر فقہا کے ظاہری اختالفات کے باوجود یہ اجتہاد کا ایک بڑا اہم اور مثبت پہلو ہے کہ اس طرح‬
‫پیش آمدہ مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ سامنے آجاتا ہے کیونکہ اجتہاد کرنے والوں میں سے کسی کے سامنے ایک پہلو ہوتا ہے‬
‫اور کسی کے سامنے کوئی دوسرا ۔ جس کی وجہ سے ان کی آرا بظاہر مختلف نظرآتی ہیں‪،‬لیکن بہت دفعہ یہ اختالف حقیقی نہیں‬
‫ہوتا بلکہ وہ ایک حقیقت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ جیسے ایک عمارت کو جب آپ چار اطراف سے دیکھیں گے تو وہ بظاہر ایک‬
‫طرف سے دوسرے پہلوسے مختلف نظرآئے گی حاالنکہ وہ عمارت ایک ہی ہے‪،‬پھر زمانے کی تبدیلی کے ساتھ مسائل کی‬
‫صورتوناور نوعیتوں میں تبدیلی بھی واقع ہوتی رہتی ہے۔ جب آپ دفعہ وار قانونی دفعات بنا کر جج کو اس کا پابند بنا دیں گے‬
‫اور اجتہاد کو اس کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیں گے تو ظاہر ہے کہ اس جج کی طرف سے دیا جانے واال فیصلہ مسائل کے نت‬
‫نئے پہلوؤں سے ہم آہنگ نہیں ہوگا۔ اس طرح قانون ہمیں انصاف دینے کی بجائے ہمارے لئے بیڑیاں (اصر واَغالل) بن جائے گا۔‬

‫لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ حدود آرڈیننس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ آرڈیننس کوئی خدائی قانون نہیں‪ ،‬محض ایک مغالطہ‬
‫اور پراپیگنڈہ ہے۔ یہ تودرست ہے کہ یہ حدود آرڈیننس ان الفاظ کے ساتھ ہللا نے آسمان سے نازل نہیں کیا‪ ،‬بلکہ یہ وحی الہی‬
‫(قرآن وسنت) کا اجتہادی فہم ہے۔ یہ بعینہ شریعت نہیں بلکہ شریعت کی اجتہادی تعبیر ہے‪ ،‬لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ‬
‫حدود آرڈیننس غیر اسالمی ہے۔ حدود کے قوانین نہ تو بعینہ حدود ہللا ہیں اور نہ ہی اس سے الگ کوئی چیز۔جس طرح قرآن کا‬
‫ترجمہ اگرچہ قرآن نہیں ہوتا لیکن اس کا غیر بھی نہیں ہوتا‪ ،‬حدود آرڈیننس میں شرعی دفعات اور حدود ہللا کا باہم وہی رشتہ ہے‬
‫جو کتاب کے متن اور اس کے ترجمہ وتشریح کے درمیان ہوتا ہے‪،‬کیونکہ علما نے انہیں قرآن وسنت کی روشنی میں تیار کیا ہے۔‬

‫بعض لوگ حدود آرڈیننس پر خدائی قانون نہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ ترمیم واصالح کے بعد جو حدوو‬
‫آرڈیننس سامنے آئے گا ‪،‬کیا وہ خدائی قانون ہو گا؟ کیا وہ بعینہ حدود ہللا ہوں گی بلکہ وہ بھی انسانی کاوش ہی قرار پائے گی۔اور‬
‫اس سے بھی بہت سے اہل فکر کو اختالف ہو سکتا ہے۔ اور یہ واضح رہے کہ حدود ہللا یا شریعت کے نفاذ ‪ Application‬کی جو‬
‫بھی صورت ہو گی جیسے وہ پہلے سے تیار کردہ کسی معیاری تدوین کی صورت میں ہو تو انسانوں کا قرآن وسنت کا فہم 'انسانی‬
‫کدوکاوش' ہی کہالئے گی۔اگر کسی بات کو محض یہ کہہ کر رد کرنا شروع کر دیا جائے کہ یہ تو انسانوں کا اجتہاد ہے یا‬
‫بصورت فقہ شریعت کی انسانی تعبیر ہے تو ہللا کا یہ دین بالکل معطل ہو کر رہ جائے گا۔‬

‫سوال‪ :‬یہ توایک مثالی صورت حال ہے‪ ،‬لیکن پاکستان میں ایسے ہونا سردست ممکن نظرنہیں آتا‪ ،‬ان حاالت میں آپ پاکستان میں‬
‫شریعت کے نفاذ کا طریقہ کیا تجویز کرتے ہیں؟‬

‫جواب‪ :‬حدود ہللا اور دیگر شرعی احکام کے نفاذ کا اصل طریقہ تو یہی ہے کہ اسے وحی یعنی قرآن وسنت کی صورت میں نافذ‬
‫کر دیا جائے‪ ،‬اسے اپنے الفاظ میں قوانین کی شکل نہ دی جائے جیسا کہ سعودی عرب اور بعض دیگر خلیجی ممالک میں یہ‬
‫طریقہ اس وقت نافذ العمل ہے۔ لیکن اگر ہم اسی بات پر مصر ہیں کہ شریعت کو انسانی الفاظ اورقانونی دفعات کی شکل میں ہی‬
‫نافذ کرنا ہے تو پھر اس کے اندر ایک شق یہ رکھ دی جائے کہ جہاں کہیں کو ئی اختالف رونما ہوگا تو اس کی کسوٹی کتاب و‬
‫سنت ہوگا۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے‪:‬‬

‫سول} (النساء‪)59 :‬‬


‫الر ُ‬ ‫ش ْيء فَ ُردُّوہُ إلَى َ‬
‫ّللا َو َ‬ ‫{فَإ ْن تَنَازَ ْعت ُ ْم في َ‬
‫''جس چیز میں تمہارا اختالف ہو جائے تو اسے ہللا اور رسول کی طرف لوٹا دو۔''‬

‫ش ْيء فَ ُح ْك ُمه ُ إلَى َ‬


‫ّللا} (الشوری‪)10 :‬‬ ‫اختَلَ ْفت ُ ْم فیه م ْن َ‬
‫{ َو َما ْ‬

‫''جس چیز میں تم اختالف کرو تو وہاں فیصلہ ہللا کی طرف ہی لوٹایا جائے۔''‬

‫پاکستانی قانون میں پہلے بھی بعض جگہ یہ صراحت موجود ہے ‪،‬مثال قصاص ودیت آرڈیننس میں ‪338‬؍ایف میں وضاحت موجود‬
‫ہے کہ اس قانون میں اگرہمیں کوئی ضمنی مسئلہ درپیش ہو گا یا کوئی چیز موجود نہیں ہو گی یا کوئی نکتہ قابل اصالح ہو گا تو‬
‫قرآن وسنت کی روشنی میں اسے حل کیا جائے گا۔ ایسے ہی الہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے اس کے مطابق ایک فیصلہ بھی دیا‬
‫ہے۔فل بنچ کے تین ججوں‪ :‬جسٹس سردار محمدڈوگر ‪،‬جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کے سامنے یہ‬
‫مسئلہ پیش ہوا کہ اگر مقتول کے ورثا صلح کرکے قصاص معاف کر دیں تو کیا اس کے باوجود بھی قاتل کو کوئی تعزیری سزا‬
‫دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ تو اُنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ اس صورت میں تعزیری سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ وہ خود چونکہ مروجہ‬
‫قوانین میں کوئی ترمیم نہیں کرسکتے تھے‪ ،‬لہذا انہوں نے اپنی اس رولنگ کو پارلیمنٹ بھیجنے کی سفارش کی کہ اس کے مطابق‬
‫قانون سازی کی جائے۔‬

‫چنانچہ ''قرآن و سنت کے کسوٹی ہونے'' پر مبنی ایک شق کا اگر حدود آرڈیننس میں اضافہ کر دیا جائے تو یہ کافی حد تک حدود‬
‫ہللا کے قریب آ جائے گا کیونکہ اس صورت میں اصل نگران اور اتھارٹی قرآن وسنت قرار پائے گا۔‬

‫‪1980‬ء میں وفاقی شرعی عدالت نے تعزیرات پاکستان اور قوانین ضابطہ کی ‪ 56‬دفعات کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیا۔ تو‬
‫سپریم کورٹ (شریعت بنچ) میں حکومت نے اپیل کردی۔ جب سپریم کورٹ نے بھی وفاقی شرعی عدالت کی تائید کردی تو ‪1991‬ء‬
‫میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ متبادل دفعات فراہم کرے۔ یہ بے نظیر بھٹو کا دور تھا اور حکومت اس سے بچنے کے‬
‫لیے سپریم کورٹ سے تاریخوں پر تاریخیں لے رہی تھی اورحکومت کا موقف یہ تھاکہ ہمیں مختلف ممالک کے قوانین کا جائزہ‬
‫لینے کے لیے اپنے نمائندے دوسرے ممالک میں بھیجنے ہیں ۔ اس صورت حال کو بھانپ کر فل بنچ نے کہا کہ دس سال تو پہلے‬
‫ہو چکے ہیں اور بنچ کے سربراہ جسٹس افضل ظلہ نے کہا کہ اب ہم مزید تاریخیں نہیں دیں گے۔فالں تاریخ تک آپ متبادل قانون‬
‫نافذ کر دیں اور ساتھ ہی یہ بھی قرار دے دیا کہ اگر فالں تاریخ تک کوئی بنا ہوا قانون نہ آیا تو پھر قرآن وسنت کو اپنے اصل‬
‫الفاظ میں الگو سمجھا جائے گا۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی‪،‬لیکن انہی دنوں بینظیر حکومت تبدیل ہو گئی۔یہ تفصیل ذکر کرنے کا‬
‫مقصد یہ ہے کہ قصاص ودیت کے قانون میں بھی ایسی دفعات موجود ہیں جن کے ذریعے اس آرڈیننس میں قرآن وسنت کو‬
‫باالدستی دی گئی ہے۔الہور ہائیکورٹ کا مذکورہ باال فیصلہ ایسی باالدست دفعات کی روشنی میں ہی دیا تھا جیسا کہ امام مالک‬
‫رحمۃ ہللا علیہ نے بھی اسی رائے کو اختیار کیا ہے کہ عورتوں کو قصاص ودیت کے معامالت میں معافی کا اختیار نہیں ہونا‬
‫چاہئے۔ اس کی حکمت یہ بھی ہے کہ عورت فطری طور پر جذباتی اورنرم دل ہوتی ہے۔ اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ اگر‬
‫عورت کے سسرال کا کوئی فرد اس کے میکے کے کسی فرد کو قتل کردیتا ہے تو اس صورت میں مجبورا اسے معاف کرنا‬
‫پڑتاہے‪ ،‬اگرچہ وہ دل سے معاف نہیں کرنا چاہتی۔اس لئے امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے قصاص کی معافی کا حق مقتول کے‬
‫صرف ان رشتہ داروں کو دیا ہے جو خاندان میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں علم وراثت کی اصطالح میں عصبہ کہا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬مثال بھائی‪ ،‬بیٹا‪ ،‬باپ‪ ،‬داداوغیرہ‬

‫سوال‪:‬یہاں پھر عورت کے حقوق کامسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لوگ تو پہلے اس بات پربھی معترض ہیں کہ عورت کی گواہی آدھی‬
‫کیوں ہے‪ ،‬پوری کیوں نہیں؟‬
‫جواب‪ :‬دیکھیں!قانون کا مقصد مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔کسی کو خوش کرنا اصل مقصود نہیں ہوتا‪ ،‬پھر یہ عورت کے حقوق کا‬
‫مسئلہ نہیں ہے۔ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے تو اگر عورت قتل ہوجائے تو خاوند کو بھی اس کا قتل معاف کرنے کا حق نہیں دیا۔‬
‫وہ کہتے ہیں کہ موت کے بعد خاوند بیوی کا رشتہ منقطع ہوجاتاہے۔اس بنا پر زوجین کوباہم ایک دوسرے کے قصاص کومعاف‬
‫کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا‪ ،‬کیونکہ اس کے پیچھے بہت بڑی مصلحت ہے۔‬

‫یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قانون سازی کسی کو خوش کرنے کے لئے نہیں ہوتی۔ قانون سازی کا مقصد مسائل کو حل کرنا‬
‫ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کردیا جائے اور لوگوں کی خوشی کے مطابق فیصلے ہونے لگیں تو پھر بچیوں کو آوارگی کے‬
‫خارستان سے کون بچائے گا؟ وہ خاندان کی عزت و آبرو کو خاک میں مال کر جہاں چاہیں گی‪ ،‬گھومیں گی اور پھر ہائی کورٹ‬
‫کے ججوں کو بھی مجبورا یہ کہنا پڑے گا کہ والدین کو سوچنا چاہئے کہ ان کی اوالد کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئی ہے؟‬
‫بہرحال ان تمام مسائل کا حل قانون سازی کے جدید انداز کے نقطہ نظر سے یہ ہے کہ شریعت کے نام پر بنائے جانے والے ان‬
‫قوانین کے اوپر قرآن و سنت کو نگران بٹھا دیا جائے۔ اس سے قانون میں جہاں کوئی سقم باقی رہ گیا ہے‪ ،‬وہ ایک حد تک دور‬
‫ہوجائے گا جیسا کہ ہمارے جسٹس ناصر اسلم زاہد نے کہا ہے۔ ان کے یہ الفاظ قابل ذکر ہیں کہ‬

‫''حدود آرڈیننس کو قرآن کے مطابق بنایا جائے۔''‬

‫اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس آرڈیننس کی روح بہت مقدس ہے اور وہ رو ح یہ ہے کہ زنا بالرضا بھی بدکاری ہے اور بدکاری‬
‫ناقابل معافی جرم ہے۔اس آرڈیننس سے پہلے کنواری‪ ،‬بیوہ‪ ،‬مطلقہ کسی عورت کے لئے بھی زنا بالرضا قابل گرفت جرم نہیں تھا۔‬
‫صرف خاوند اپنی بیوی کے خالف کاروائی کرسکتا تھا اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر زنا کا‬
‫ارتکاب کرتی۔ گویا بدکاری ایک بُرے فعل کے طور پر جرم نہیں تھی‪ ،‬بس خاوند کے حق میں حق تلفی کے طورپر جرم کے‬
‫زمرے میں آتی تھی۔‬

‫سوال‪ :‬کوئی اگر زنا کے الزام سے بری ہوجائے توکہتے ہیں کہ الزام لگانے والے پر حد لگائی جائے؟ لیکن عمال یوں نہیں ہوتا‬
‫بلکہ لوگ جھوٹے الزام کے بعد تہمت کی سزا سے بھی بچ جاتے ہیں۔‬

‫جواب‪ :‬ہاں‪ ،‬اس پر حد قذف (بہتان طرازی کی حد) ہے جو علیحدہ آرڈیننس ہے۔‬

‫سوال‪ :‬کیا حد زنا آرڈیننس میں حد قذف کا ذکرنہیں ہے ؟‬

‫جواب‪ :‬نہیں‪،‬اس مینکوئی ایسی بات نہیں ہے۔ دراصل ہمارے ملک میں رائج قانونی نظام کا طریق کار یہ ہے کہ ایک مقدمہ میں‬
‫دوسرے مقدمہ کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اس کے لئے الگ سے مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے‪ ،‬لہذا حد قذف کو قذف کے مقدمہ کے تحت‬
‫سنا جائے گا۔ اس نظام کے تحت جب ایک کیس درج کرایا جاتا ہے تو پھر اسی الزام کی سماعت ہوتی ہے‪ ،‬دوسرے الزام کی‬
‫سماعت کے لئے مستقل دوسرا کیس دائر کرنا پڑتا ہے‪ ،‬یہ خرابی حدود آرڈیننس کی بجائے ہمارے قانونی نظام کی ہے۔‬

‫سوال‪ :‬کیا حد قذف واقعتا حد زنا آرڈیننس میں نہیں ہے؟‬

‫جواب‪ :‬حدود آرڈیننس میں ہر حد کا قانون الگ الگ ذکر ہوا ہے۔ یہ دراصل پانچ آرڈی نینسوں کا مجموعہ ہے جس میں قذف کا‬
‫قانون الگ ہے اور زنا کا الگ۔ اسی طرح ملکیت مال کا الگ ہے‪ ،‬لیکن اگر ان تمام کے اوپر کتاب و سنت کی اتھارٹی قائم کردی‬
‫جائے تو اس سے تمام قوانین باہم مربوط ہوجائیں گے۔ بہرحال ہم نے اپنے حاالت کے تحت اس مسئلہ کا کوئی حل نکالنا ہے۔ میں‬
‫یہ تو نہیں کہتا کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کا انداز یہاں بعینہ الگو کیا جائے‪،‬کیونکہ یہاں ایسا کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن‬
‫حقیقت یہی ہے کہ اسالم ہمیشہ خالفت اسالمیہ میں قرآن و سنت کے اصل الفاظ میں ہی نافذرہا ہے۔ بلکہ صورت حال یہ رہی کہ‬
‫ہندوستان میں فتاوی عالمگیری جاری ہوا تو بطور قانون نہیں‪،‬کیونکہ فتاوی عالمگیری کی زبان ہی قانونی نہیں بلکہ وہ علما کی‬
‫تشریحات کی شکل میں ہے جنہیں فیصلہ کرتے وقت جج اپنے سامنے رکھتے تھے۔ البتہ ترکی میں مجلة اْلحکام العدلیة ‪ 1876‬ء‬
‫سے ‪1923‬ء تک ملکی قانون کی حیثیت سے نافذ تو رہا ہے لیکن اس میں بار بار ترامیم کے باوجود بعض جگہ اس کا انداز‬
‫انتہائی مضحکہ خیز ہے۔مثال اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ سود شرعا تو حرام ہے لیکن قانونا جائز ہے۔ پھراس میں فوجداری قانون‬
‫اور عائلی قوانین موجودہی نہیں ہیں‪ ،‬سول الء کا ایک حصہ بھی اس سے خارج ہے۔ حاالنکہ یہ اسالمی تعلیمات پرمبنی ایک‬
‫مختصر کوڈ تھا جو نپولین کے تیار کردہ کوڈ کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا اور اس میں پچاس سال کے دوران ایک نہیں‪ ،‬بیسیوں‬
‫ترامیم کرنا پڑیں کیونکہ وہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون تھا جسے ترمیم کا سامنا کرنا ایک مجبوری ہے۔لہذا اصل حل یہی ہے کہ‬
‫قرآن وسنت کو اپنے الفاظ میں نافذ کردیا جائے۔یا پھر قرآن وسنت کی روشنی میں بنائے ہوئے ایسے قوانین پر انہی قوانین میں‬
‫قرآن و سنت کی چھتری قائم کردی جائے تاکہ اعلی عدلیہ ایسے مواقع پر قانون کا اطالق کرتے وقت اجتہاد کرسکے۔‬

‫سوال ‪ :‬کیا زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں کوئی فرق ہے؟‬

‫جواب‪ :‬ان دونوں کے درمیان فرق کا جوپراپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور زنا بالجبر کو زنا کے زمرہ سے نکال کر آیت محاربہ (المائدة‪:‬‬
‫‪ )32،33‬کے تحت داخل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یا تو زنا بالجبر کو قابل راضی‬
‫نامہ بنا دیا جائے کیونکہ اس سے اگلی آیت میں {إ َال الَذینَ ت َابُوا م ْن قَبْل أ َ ْن ت َ ْقد ُروا َ‬
‫علَ ْیھ ْم} سے یہی ثابت ہوتا ہے بلکہ اگر وہ‬
‫گرفتارہونے سے قبل توبہ کرلے تو اسے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬اس صورت مینعورت کو راضی کرنے کی بھی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔ پورے قرآن و سنت کو نظر انداز کرکے‪ ،‬کسی ایک آیت سے مسئلہ نکالنا کوئی درست طرز عمل نہیں ہے۔ یہ‬
‫ساری قباحتیں اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہیں کہ تمام قوانین کے اوپر کم از کم قرآن و سنت کی چھتری قائم کردی جائے اور‬
‫قرآن وسنت کے ماہر اور اجتہاد کی صالحیت کے حامل ججوں کو اجتہاد کے ذریعے ان قباحتوں کو دور کرنے کا اختیار دیا‬
‫جائے۔‬

‫سوال‪ :‬میرا موضوع درحقیقت حدود آرڈیننس کی اہمیت‪ ،‬تقدس اور نفاذ ہے ۔اس کے نفاذ کا آپ نے بہترین حل تجویز کیا ہے کہ یہ‬
‫آرڈیننس ہمارے لئے بہت بڑی غنیمت ہے۔ قرآن و سنت کے تحت اس مینترمیم کی ضرورت ہو تو ترمیم کی جائے‪ ،‬نہ کہ اسے‬
‫ختم کر دیا جائے۔‬

‫جواب‪ :‬ترمیم و اصالح کے باوجود بھی ہم اسے فائنل نہیں کہہ سکتے۔ اس میں تبدیلی کی گنجائش بہرحال رہے گی۔‬

‫سوال‪ :‬ہاں پھر بھی فائنل نہیں کہہ سکتے‪ ،‬کیونکہ اسے علما نے اپنے اجتہاد سے تیار کیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں‬
‫اسے نافذ کیا گیا تھا جو کہ جمہوری حکومت نہیں تھی۔‬

‫جواب‪ :‬پہلی بات تو یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کسی فرد واحد کا نافذ کردہ قانون نہیں تھا بلکہ ماہرین علما اور قانونی اداروں کی‬
‫مشاورت سے تیار کیا گیا اور پھر رائے کے لئے اسے عوام کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔سپریم کورٹ نے اس کی منظوری دی‬
‫جیساکہ پرویزمشرف کے اقدامات کو بھی سپریم کورٹ نے درست قرار دیا ہے۔ کل کو اگر کوئی کہے کہ یہ سب فرد واحد کی‬
‫طرف سے تھے لہذا سارے غلط ہیں‪ ،‬اس طرح تو تمام قوانین تماشہ بن جائیں گے۔یوں بھی تین بار حدود قوانین میں ترمیم کے‬
‫لئے تین بار اسمبلی میں بل پیش ہوا لیکن اسمبلیوں نے ا س میں ترمیم نہ کرکے گویا اس کی موجودہ حالت میں تصویب کردی۔‬
‫سوال‪ :‬یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ حدود آرڈی نینس کے بارے میں یہ اکھاڑ پچھاڑ پرویز مشرف کی طرف سے ہو رہی ہے یا باہر‬
‫سے کوئی فنڈز دیے جارہے ہیں ؟‬

‫جواب‪ :‬جس چیز کے ہمارے پاس شواہد نہیں‪ ،‬اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن حدود آرڈیننس جس کی روح یہ ہے کہ‬
‫اس کے ذریعے زنا پہلی بار ایک جرم قرار پایا ہے‪ ،‬اس کو ختم کرنے کے لئے جو انداز اختیار کیاجارہاہے‪ ،‬میڈیا کے زور پر‬
‫اس کے خالف نفرت کی جو فضا پیدا کی جارہی ہے‪ ،‬یہ انداز انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے اور یہی وہ انداز ہے جو توہین‬
‫رسالت آرڈیننس کو ختم کرنے کے لئے اختیارکیا گیا تھا۔ اب یہاں بھی وہی کھیل کھیال گیا ہے کہ حدود آرڈیننس کی تفتیش ایس پی‬
‫درجے کا پولیس افسر کرے یا عدالت کی اجازت کے بغیر کسی کو گرفتار نہ کیاجائے‪،‬یہ ترمیم ‪ 2‬برس قبل ہوچکی ہے۔‬

‫سوال‪ :‬تاکہ یہ جرم قابل مؤاخذہ ہی نہ رہے۔ یہ کافی پہلے کی تجاویز ہیں جو اخبارات میں بھی چھپیں۔ ان میں سے یہ تجویز تو‬
‫منظور ہوگئی ہے کہ ایس پی کے درجے کا پولیس افسر تفتیش کرے‪ ،‬البتہ دوسری منظور نہیں ہوئیں۔‬

‫جواب‪ :‬یہی کچھ تو ہین رسالت آرڈیننس کے ساتھ ہوا کہ اسے ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے ساتھ وابستہ کردیا گیا اور یہ سب کچھ‬
‫ہم مغرب کو راضی کرنے کے لئے کررہے ہیں لیکن مغرب ہمارے کام پر مطمئن نہینہے جیسا کہ میرے بیٹے حافظ حسن مدنی‬
‫سے امریکہ کے دورہ کے دوران اسی کے متعلق سواالت کئے گئے تھے۔ امریکیوں نے اُنہیں واضح الفاظ میں کہا کہ ہم ابھی تک‬
‫مطمئن نہیں ہیں۔‬

‫سوال‪:‬ظاہر ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرلیں ‪ ،‬ان کی ڈیمانڈ پر پورے نہیں اُتر سکتے۔وہ تو چاہتے ہیں کہ ہم قرآن و سنت کو الگ‬
‫کردیں اور ایک سیکولر معاشرہ قائم کریں۔‬

‫ک ْالیَ ُھ ْو ُد َوالَ النَ َ‬


‫صاری َحتٰی ت َتَبـ َع ملَت َ ُھ ْم}‬ ‫جواب ‪ :‬سورئہ البقرة میں ہللا تعالی نے اسی بات کی وضاحت کی ہے کہ { َولَ ْن ت َْرضی َ‬
‫ع ْن َ‬
‫'' یہ یہودی اور عیسائی اس وقت تک تم سے خوش نہیں ہوں گے جب تک کہ تم ان کی (ملت) تہذیب کواختیارنہ کرلو۔''‬

‫سوال‪ :‬چند اعتراضات وہ ہینجو این جی اوز ‪ ،‬ڈاکٹر محمد فاروق اور جاوید احمد غامدی وغیرہ کی طرف سے اُٹھائے جارہے ہیں۔‬

‫جواب‪ :‬ہم کہتے ہیں کہ ان اعتراضات کوقرآن و سنت پر پیش کیاجائے اور یہ کام عدالت کے ججز جو خو دبھی قرآن و سنت کے‬
‫ماہر اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوں‪ ،‬علما کی راہنمائی میں کریں۔ جو چیز قرآن و سنت کے خالف ہو‪ ،‬اس کو درست کرکے الگو‬
‫کریں۔ اور اگر مغرب کو راضی کرنا مقصود ہے تو وہ کبھی راضی نہیں ہوں گے حتی کہ آپ ان کی ملت کی پیروی کریں اور‬
‫یقینا میڈیا کے ذریعہ اسی مہم کو آگے بڑھایا جارہاہے۔‬

‫نمائندئہ جنگ‪ :‬ہللا آپ کو جزائے خیر دے۔ ہم نے آپ کا بہت وقت لیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی آرا سے مسائل کو حل کرنے‬
‫میں مدد ملے گی۔ ٭٭‬

‫حوالہ جات‬

‫‪ .1‬روزنامہ انصاف‪25 :‬؍مئی ‪2004‬ء‬

‫‪ .2‬دیکھئے کتاب 'اسالمی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب' میں انٹرویو ‪ ،‬ص ‪8‬‬

‫شمارہ ‪ 302‬اگست ‪2006‬‬


‫حدود قوانین میں ترامیم کا بل ‪2006‬ء ؛ ایک جائزہ‬

‫آخر کارحدود آرڈیننس میں اس 'روشن خیال 'ترمیم کے چہرے سے پردہ اُٹھ ہی گیا جس کے بارے میں تمام ذمہ داران کو اسمبلی‬
‫میں باقاعدہ پیش ہونے سے قبل مخفی رکھنے کی تاکید کی گئی تھی۔ اور اس ترمیمی بل کے لئے فضا کو ساز گار بنانے کے‬
‫غرض سے ‪ 3‬ماہ سے قوم کو مضحکہ خیز اور یک طرفہ پروپیگنڈ ے کے بخار میں مبتال کیا گیا تھا جس پر بظاہر تو ایک‬
‫اخباری گروپ نظر آرہا تھا لیکن اس کی پشت پناہی کے لئے حکومت کی پوری ابالغی مشینری متحرک تھی۔ سوال یہ ہے کہ‬
‫''حدود ہللا پر بحث نہیں‪ ،‬لیکن حدود آرڈیننس کوئی خدائی قانون نہیں۔'' کا نعرہ بلندکرنے اور اسے حدود قوانین پربحث کی وجہ‬
‫جواز بنانے والوں نے جو ترامیم پیش کی ہیں‪ ،‬کیا اب وہ ہللا کی طرف سے براہ راست نازل شدہ ترامیم لیکر آئے ہیں۔ حدود قوانین‬
‫کے نفاذ کے موقع پر اگر مسلمانان پاکستان کو ان پر اتفاق تھا جسے بعد کی ‪ 5‬اسمبلیوں نے سند جواز بخش کر صدارتی آرڈیننس‬
‫سے 'حدود قوانین' کا درجہ دیا‪ ،‬تین بار مختلف اسمبلیوں میں ان قوانین میں ترمیم کا بل پیش ہوا جسے سند قبولیت نہ مل سکی‪ ،‬تو‬
‫ا س کے بالمقابل وہ 'خدائی'ترامیم جو اپنے یوم آغاز سے پوری قوم کو منتشر کرچکی ہیں‪ ،‬ان کی کیا حیثیت ہے؟ جس کا ثمرہ یہ‬
‫ہے کہ پوری قوم میں ہر جگہ مباحثہ ومجادلہ کی کیفیت طاری ہے۔‬

‫پھر'حدود قوانین' کوئی عام قانون نہیں کہ اس میں علماے دین کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے بلکہ حدود قوانین میں ترمیم‬
‫خالصتا شریعت اسالمیہ کا موضوع ہے۔اس لئے منطقی طور پر قرآن وسنت پر مبنی قوانین پر تبصرہ کرنے کی سب سے پہلی‬
‫ذمہ داری علماے کرام ہی کے کندھوں پر آتی ہے۔لیکن سخت کوشش کے باوجود منبر و محراب سے اس 'روشن خیال بل' کی‬
‫حمایت میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کروایا جاسکا ۔‬

‫اب ہم ایک نظر اس بل کے مندرجات پرڈالتے ہیں ‪:‬‬

‫(‪ )1‬یہ امر قابل توجہ ہے کہ حد زنا آرڈیننس کی کل دفعات ‪ 22‬ہیں‪ ،‬جبکہ اس بل میں مجوزہ ترامیم کی تعداد ‪30‬ہے‪ ،‬گویا ترمیم‬
‫اصل قانون سے بھی زیادہ طویل ہے۔‬

‫(‪ )2‬حکومت کا دعوی یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کو منسوخ نہیں کیا جائے گا‪ ،‬جب کہ ان ترامیم پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یقین‬
‫ہوجاتا ہے کہ ترمیم کے نام پر حدود قوانین کو ہی منسوخ کردیا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ اس بل کے ذریعے حد زنا آرڈیننس‬
‫کی کل ‪ 22‬دفعات میں سے ‪ 12‬دفعات (‪)10،11،12،13،14،15،16،18،19 ،3،6،7‬کو مکمل طور پر منسوخ کیا جارہا ہے اور‬
‫مزید ‪ 6‬دفعات (‪ 2،4،8،9،17‬اور ‪ )20‬میں جزوی حذف و ترمیم تجویز کی گئی ہے۔اس عمل کے بعد صرف ‪ 4‬دفعات باقی ایسی‬
‫ہیں جو اپنی اصل شکل میں حدود قوانین میں موجود ہیں۔‪1‬‬

‫(‪ )3‬ایسی 'ظالمانہ' دفعات جن کی منسوخی کا تقاضا کیا گیا ہے‪ ،‬ان میں سے چند ایک بطور مثال مالحظہ بھی فرما لیجئے ‪:‬‬

‫دفعہ ‪ 2‬کی شق 'ہ' کو نکال دیا گیا ہے جس کی رو سے شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی سزا ہے۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ‬
‫اس کے مرتبین میں حد رجم کے منکرین شامل ہیں۔‬

‫دفعہ ‪ 3‬کو کلی طور پر حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‪ ،‬اس دفعہ کا قصور یہ ہے کہ اس کی رو سے حدود قوانین (حدود ہللا)‬
‫کو تمام دیگر قوانین پربرتری دی گئی ہے۔‬

‫دفعہ ‪ 4‬میں ہر اس مباشرت کو زنا قرار دیا گیا تھا جو دو مرد وعورت 'جائز نکاح' کے بغیر کریں۔ لیکن اس دفعہ میں 'جائز نکاح'‬
‫کے لفظ سے 'جائز' کو حذف کیا جارہا ہے۔‬
‫حدود قوانین سے مذاق کی انتہا یہ ہے کہ پہلی ‪ 9‬دفعات میں جن جرائم کا تذکرہ اور ان کی تعریفات متعین کی گئی ہیں‪ ،‬بعد ازاں‬
‫‪ 10‬تا ‪( 19‬یعنی ‪ )10‬دفعات میں ان کی سزائوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حدود قوانین کو معطل کرنے کا بہترین طریقہ یہ سوچا گیا‬
‫ہے کہ ان تمام جرائم کی سزا کو ہی حذف کردیا جائے‪ ،‬یاد رہے کہ یہ دس دفعات ان جرائم کی سزا پر مبنی ہیں۔‬

‫(‪)4‬حدود قوانین کی وہ معصوم بے ضرر دفعات بھی مالحظہ ہوں جنہیں بعینہ برقرار رکھا گیا ہے‬

‫پہلی دفعہ تو بل کے وقت نفاذ اور نام وغیرہ کے بارے میں ہے جبکہ دفعہ ‪ 21‬یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے مسلم جج‪،‬البتہ‬
‫غیرمسلموں کے لئے غیر مسلم جج بھی ہوسکتا ہے اور دفعہ ‪ 22‬میں وہ مستثنی صورتیں ذکر کی گئی ہیں جہاں حدود آرڈیننس کو‬
‫جاری نہیں کیا جائے گا۔‬

‫(‪ )5‬یہی رویہ حد زنا آرڈیننس کے عالوہ حد قذف آرڈیننس کے ساتھ بھی اختیارکیاگیا ہے جس کی ‪ 8‬دفعات‬
‫(‪ )4،10،11،12،13،15،16،19‬کو کلی طور پر منسوخ اور ‪ 6‬دفعات (‪ 14 ،9 ،8 ،1،6‬اور ‪ )17‬میں حذف و ترمیم کی گئی ہے۔‬
‫اس آپریشن کے بعد محض چھ دفعات ہی صحیح سالم باقی رہ گئی ہیں۔ ‪2‬‬

‫سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر حذف وترمیم کے بعد موجودہ بل کو ترمیم سے تعبیر کیا جائے یا اسے حدود بل کی منسوخی قرار‬
‫دیا جائے؟‬

‫(‪ )6‬اب ایک نظر ان ترامیم کی شرعی وقانونی حیثیت پر بھی جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ'' ان میں سے کوئی‬
‫بھی کتاب وسنت کے خالف نہیں۔ ''چودھری شجاعت حسین کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ اگر ایک ترمیم بھی خالف اسالم ہو تو وہ‬
‫اس بل کی حمایت ترک کردیں گے۔ بل کی سفارشات مالحظہ فرمائیں اور قرآن وسنت کی مقدس تعلیمات بھی‪ ،‬پھر فیصلہ خود‬
‫کیجئے‪:‬‬

‫(‪)1‬بل کی ترمیم نمبر‪6‬کی رو سے زنا بالجبر کی سزا کو سزاے موت قرار دیا گیا ہے جو خالف اسالم ہے۔ کیونکہ اسالم نے زنا‬
‫بالجبر کی صورت میں سزاے موت کے بجائے شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری قرار دی ہے‪ ،‬چاہے وہ عورت کی رضاسے‬
‫زنا کرے یا جبر سے۔ گویا اسالم میں زنا ایک جرم ہے جس کی تقسیم رضا اور جبر کے بجائے شادی شدہ او رغیر شادی شدہ‬
‫کے اعتبار سے کی گئی ہے۔ زنا بالقتل (زنا ‪ +‬قتل) کی طرح زنا بالجبربھی اسالمی حدود وتعزیرات کی کوئی اصطالح نہیں۔ اس‬
‫سلسلے میں حضرت ابو بکرصدیق کا ایک فیصلہ حدیث کی مشہور کتاب موطا امام مالک رحمۃ ہللا علیہ میں ہے کہ ''آپ نے زنا‬
‫بالجبر کے ایک کنوارے مجرم کو کوڑے اور جالوطنی کی سزا دی‪ ،‬پھر جالوطنی کاٹ کر واپس آنے کے بعد اسے زنا پر‬
‫مجبور کی جانے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔''‪3‬‬

‫اسی طرح صحیح بخاری میں یہ واقعہ درج ہے کہ‬


‫''حضرت عمر نے زنا بالجبر کے ایک مجرم کو کوڑوں کی حد لگائی اور اس کو جال وطن کردیا‪ ،‬نہ کہ اس کو سزاے موت‬
‫سنائی۔''‪4‬‬

‫(‪)2‬اس ترمیمی بل کی سب سے خطرناک شق '‪ '17‬ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ'' حد زنا آرڈیننس کی دفعات ‪ 10‬تا ‪ 16‬اور ‪،18‬‬
‫‪ 19‬حذف کردی جائیں گی۔'' بالخصوص دفعہ ‪ 19‬کو حذف کرنے کی اہمیت یہ ہے کہ دفعہ ‪ 19‬کی ذیلی شق ‪3‬کے ذریعے پاکستان‬
‫میں زنا بالرضا کے انگریز دور کے ‪ 8‬قوانین معطل کردیے گئے تھے‪،‬جس کی ضرورت یہ تھی کہ تعزیرات پاکستان کے سابقہ‬
‫قانون (دفعہ ‪ )497‬کی رو سے زنا بالرضا کوئی جرم ہی نہیں تھا‪،‬بلکہ صرف وہ زنا جرم تھا جس میں شوہر کی اجازت کے بغیر‬
‫بیوی بدکاری کا ارتکاب کرے۔ چنانچہ ‪1979‬ء سے قبل پاکستان میں کسی کنواری‪ ،‬بیوہ یا مطلقہ کی رضامندی سے زناقانونا جرم‬
‫متصور نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ بیوی کے ساتھ اُس کے شوہر کی اجازت کے بغیر زنا کرنے کی سزا محض ‪ 5‬برس تھی‪ ،‬یہ جرم قابل‬
‫ضمانت بھی تھا جس کے خالف صرف شوہر ہی شکایت کرسکتا تھا۔ موجودہ ترمیمی بل میں اس سابقہ قانون کو بحال کرنے کے‬
‫لئے دفعہ ‪ 19‬کو کلی منسوخ کرنے کی ترمیم پیش کی گئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پھر وہی دور جاہلیت لوٹ آئے گا کہ‬
‫پاکستان میں کنواری‪ ،‬بیوہ یا مطلقہ کا زنا بالرضا کوئی جرم ہی نہیں رہے گا۔یہ اس بل کی سب سے خطرناک بلکہ شرمناک ترمیم‬
‫ہے۔جو صرف خالف اسالم ہی نہیں بلکہ ہللا سے جنگ اور اسالم سے بغاوت کے مترادف(‪ )i‬ہے۔‬

‫کیا ایک مخصوص گروپ کے ذرائع ابالغ نے تین ماہ تک اسی مقصد کے لئے عوام کو 'ذرا سوچئے' اور پارلیمنٹ کو 'کب‬
‫سوچنے' کی دہائی مچا رکھی تھی اور کیا پاکستانی پارلیمنٹ کے معزز اراکین اور زعماے قوم ایسی ترمیم کے حق میں اپنے‬
‫ووٹ استعما ل کرکے ہللا کے غضب کو دعوت دینا چاہتے ہیں؟ اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ایسے بل کا احترام کیا جائے یا‬
‫اس کو ردی کی ٹوکری کی نذر کیا جائے جیسا کہ متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی میں کیا ہے ؟‬

‫(‪ )3‬ان ترامیم کے ذریعے بڑی ڈھٹائی سے باہم متضاد قانون سازی کی جارہی ہے۔ کیونکہ سابقہ تعزیرات پاکستان (در حقیقت‬
‫تعزیرات برطانوی ہند)کی دفعات کو دوبارہ زندہ کردینے سے ایک طرف کنوارے یا کنواری کے لئے زنا بالرضا کی صورت میں‬
‫بدکاری کی کوئی سزا نہیں رہے گی مگر دوسری طرف حدود قوانین میں ا ن کے لئے سزا موجود ہے۔ ایسے ہی تعزیرات پاکستان‬
‫میں زنا بالجبر کے حوالے سے نئی دفعات کا اضافہ کرنے کے بعد زنا بالجبر کے مجرم کے لئے تو سزاے موت کا فیصلہ کیا‬
‫جائے گا جبکہ حدود قوانین کی رو سے کنوارے زانی کومحض ‪ 100‬کوڑوں کی سزا ہونی چاہئے۔ گویا اس ترمیم کی بعض دفعات‬
‫سے باہم متضاد قوانین جنم لے رہے ہیں۔ اس تضاد کا ظالمانہ اورباغیانہ حل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ‪ 3‬کو‬
‫منسوخ کردیا جائے تاکہ اس کے بعد حدود قوانین کی تعزیرات پاکستان پر کوئی برتری باقی نہ رہے۔ نتیجتا حدود قوانین کی بچی‬
‫کچھی دفعات کی حیثیت بھی متضاد او ردوہری قانون سازی کی بنا پر عمال محض نمائشی رہ جائے گی اور بظاہر پاکستان میں‬
‫حدود ہللا کا نام تو باقی رہے گا لیکن زنا قانونا جرم ہی نہیں ہوگا۔‬

‫نیز یہ بات بھی خالف اسالم ہے کہ ایک طرف انگریز کے بنائے ہوئے 'ایکٹ نمبر‪ 45‬بابت ‪ '1860‬کے قوانین یا انسانی قوانین کو‬
‫تو ترجیح حاصل ہو‪ ،‬لیکن ہللا کے قوانین کو ایک اسالمی مملکت میں کوئی نمایاں جگہ نہ مل سکے۔ جبکہ قرآن کی رو سے نبی‬
‫کریم کے فیصلے کو قبول نہ کرنے والونکا دین وایمان خطرے میں ہے۔ ‪5‬‬
‫ؐ‬

‫نیز دستور پاکستان کی رو سے کتاب وسنت پاکستان کا سپریم الء ہیں اور حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ملک میں اسالمی‬
‫طرز زندگی کو رواج دینے کے لئے اقدامات کرے۔ اس اعتبار سے یہ ترمیم دستور پاکستان کے بھی منافی ہے۔‬
‫(‪ )4‬مجوزہ ترمیم نمبر ‪9‬میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ رپورٹ ؍ شکایت کے مرحلے پر ہی مدعی کے عالوہ چار تحریری حلفیہ‬
‫بوی کے متعدد‬
‫گواہیاں بھی جمع کرائی جائیں۔ قانون کے اجرا کا یہ طریقہ خالف اسالم‪ ،‬خالف قانون اور خالف عقل ہے۔ دورن ؐ‬
‫واقعات میں زنا کی شکایتیں محض ایک شخص کے کہنے پر درج کی گئیں۔ (‪ )ii‬یوں بھی اسالم کی رو سے زنا کرنے والے مرد‬
‫یا عورت کا اکیال اعتراف بھی ان پر حد کی سزا قائم کرنے کے لئے کافی ہے‪ ،‬ان کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں۔(‪)iii‬‬
‫پھر اسالم میں زنا پر چار گواہیاں بھی مدعی کو شامل کرکے چار شمار کی جاتی ہیں ‪ ،‬نہ کہ اس کو نکال کر جبکہ ترمیم نمبر‪9‬‬
‫کی ذیلی شق ‪ 2‬میں مدعی کے عالوہ مزید چار گواہیاں ضروری قرار دی گئی ہیں جو خالف اسالم ہے۔‬

‫یہ ترمیم خالف قانون اسطرح ہے کہ پاکستان میں اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم مثال بغاوت یا قتل وغیرہ کے لئے پہلے مرحلہ‬
‫پر ہی جرم کو مکمل ثابت کرنے کا تقاضا نہیں کیا جاتا‪ ،‬حدود قوانین کے خالف ہی یہ امتیاز کیونبرتا جارہا ہے ؟‬

‫اور خالف عقل اس لئے کہ ہر جرم کی گواہیاں اس مرحلے پر لی جاتی ہیں‪ ،‬جب جرم کا فیصلہ کرکے مجرموں کو سزا سنانا یا‬
‫بری کرنا مقصود ہو‪ ،‬جبکہ ‪(FIR‬فرسٹ انفرمیشن رپورٹ) میں تمام گواہیاں ضروری نہیں ہوتیں۔یہ رپورٹ دراصل جرم کے خالف‬
‫پولیس کے کام میں معاونت ہے کیونکہ جرائم کی روک تھام اور اس کی خالف ورزی کی شکایت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔‬
‫اس کی بجائے رپورٹ کرنے والے کو چار گواہیوں کا پابند کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس نے رپورٹ کرکے قانون کی مدد کی‬
‫بجائے بذات خود ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے‪ ،‬لہذا اسے چاہئے کہ وہ پہلے اپنی صفائی پیش کرے۔گویا اس ترمیم کے ذریعے‬
‫مجرموں کی حوصلہ افزائی اور مدعی کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ یوں بھی اگر اس جرم کے عمل سے پولیس کو نکال دیا جائے تو‬
‫معاشرے میں عصمت فروشی کے اڈوں کی راہ میں حائل تھوڑی بہت رکاوٹ بھی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔‬

‫مزید برآں حدود قوانین کو پولیس کی رپورٹنگ سے نکال کر سیشن کورٹ کے دائرئہ عمل میں النے سے بھی عمال ایسے واقعات‬
‫کی روک تھام او ررپورٹ انتہائی مشکل ہوجائے گی۔ پنجاب بھر کے ‪ 34‬اضالع میں صرف ایک ایک سیشن عدالت ہیں جن میں‬
‫اس طرح کے کیسوں کا اندراج عام شہری کے لئے انتہائی مشکل ہوگا۔ بعض اضالع تو اس قدر وسیع وعریض ہیں کہ ایک‬
‫رپورٹ درج کرانے کے لئے بعض اوقات پورا دن درکار ہوتا ہے۔ یوں بھی ان عدالتوں کے اوقات کار تھانوں کے برعکس کافی‬
‫محدود ومختصر ہوتے ہیں۔(‪)iv‬‬

‫(‪ )5‬ترمیم نمبر ‪ 9‬کی ذیلی دفعہ ‪ 5‬کے الفاظ یہ ہیں کہ ''اگر عدالت کا افسر صدارت کنندہ مدعی اور چار یا زائد گواہوں کے حلفیہ‬
‫بیانات کے باوجود یہ فیصلہ دے کہ کارروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے تو وہ رٹ کو خارج کرسکے گا۔'' اب ترمیم‬
‫نمبر ‪ 22‬کو پڑھئے کہ ''عدالت کا افسر صدارت کنندہ مجرم کو بری کرتے ہوئے اگر مطمئن ہو کہ جرم قذف مستوجب حد کا‬
‫ارتکاب ہوا ہے تو وہ قذف کا کوئی ثبوت طلب نہیں کرے گا اور حد قذف کے احکامات صادر کرے گا۔''‬

‫ان ترامیم سے پتہ چال کہ چار گواہوں کے بعد بھی زنا کے ملزم کی بریت جج کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور دوسری‬
‫طرف مدعی پر از خود قذف کی سزا الگو ہوجائے گی‪ ،‬اور اس صورت میں مدعی کے خالف قذف کے کسی ثبوت یا عدالتی‬
‫کاروائی کی ضرورت نہ ہوگی‪ ،‬محض جج کا ذاتی اطمینان ہی کافی ہوگا۔ ان ترامیم کی رو سے ایک طرف زنا کے ملزمین کو‬
‫غیر معمولی تحفظ دیا جارہا اور ان کے خالف رپورٹ کو مشکل تربنایا جارہا ہے اور دوسری طرف رپورٹ کرانیوالے پر قذف‬
‫کی سزا الگو کر کے اس کو بنیادی حقوق مثال ثبوت الزام کے لئے مطلوبہ گواہیوں اور عدالتی کاروائی وغیرہ سے بھی محروم‬
‫کیا جارہا ہے۔ اس ترمیم کا مقصود ومدعا واضح ہے‪ ،‬ملزم کو ظالمانہ ترجیح کس بنیاد پر اور رپورٹ کرنے والے پر ظلم‬
‫کیونکر؟یہ امتیاز اور ترجیح کیا اسالم اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے؟‬

‫(‪ )6‬ترمیم کے آخری پیرا گراف کے یہ الفاظ بھی محل نظر ہیں‪'' :‬صرف سیشن کورٹ ہی مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار‬
‫رکھتی ہے۔ اور یہ جرائم قابل ضمانت ہیں تاکہ ملزم دوران سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں‬
‫ہوگا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کرے۔ '' ‪6‬‬

‫ان ترامیم کے اثرات و نتائج جاننے کے لئے اس مثال سے مدد لینا مناسب ہوگا‪:‬‬

‫فرض کیجئے کہ ایک جگہ زنا کا وقوعہ ہوتا ہے‪ ،‬اول تو یہ پولیس کے دائرئہ عمل سے ہی باہر ہے کہ وہ ا س کی رپورٹ درج‬
‫کرے۔اب ایسا شخص کہ جس کی عزیزہ سے زیادتی ہوئی ہے‪ ،‬وہ داد رسی کے لئے شکایت درج کرانے نکلتا ہے تو سب سے‬
‫پہلے چا رگواہوں کو تیار کرنا اس کی ذمہ داری ہے جو تحریری حلفیہ گواہی دے سکیں۔ اس مرحلے پر عدالتوں میں سماعت وداد‬
‫رسی کی ناگفتہ بہ صورت حال اور حد قذف کی لٹکتی تلوار سے ڈر کر کوئی آدمی اس مقصد کے لئے راضی ہی نہیں ہوگا۔ اُنہیں‬
‫راضی کرنے میں ہی وہ شریف آدمی اپنی عزت کی مزید رسوائی تو کما لے گا جبکہ ابھی زنا کے حقیقی مجرموں کی سزا کا‬
‫دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اب دور دراز سے سفر کرکے مدعی اور چار گواہ سیشن عدالت میں جا پہنچتے ہیں تو وہاں‬
‫چاروں گواہ حلفیہ تحریری بیان جمع کرائیں گے۔ اگر اس کے باوجود عدالت کو وقوعہ پر ہی اطمینان نہ ہوا تو ان گواہوں پر قذف‬
‫کی سزا از خود الگو ہو جائے گی‪ ،‬جہاں عدالت میں مزید کسی ثبوت یا ملزم کو اپنے دفاع کی گنجائش بھی نہیں ملے گی۔ بالفرض‬
‫اگر عدالت ان کی گواہی سے مطمئن ہو کر مقدمہ داخل سماعت کرلیتی ہے‪ ،‬تب بھی مجرموں کو فکر مندی کی کوئی ضرورت‬
‫نہیں کیونکہ یہ جرم قابل ضمانت ہے‪ ،‬اور عدالت کو ان کی یاسیت اور محرومی کا بھی پورا پورا احساس ہے۔‬

‫ان حاالت میں عوام کو فیصلہ صرف اس بات کا کرنا ہے کہ اصل مجرم وہ ہے جس نے زنا کا ارتکاب کیا یا وہ جس نے اس کو‬
‫دیکھنے کا گناہ کیا اور جس کی عزت سربازار پامال ہوئی ؟ زنا بالجبر کے جرم کا شکار تو خود عورت ہوتی ہے ‪ ،‬اس کے لئے‬
‫چار گواہوں کی شرط کے بعد قانون کی مدد لینا کیونکر ممکن ہوگا۔یکم ستمبر کے اخبارات میں سلیکٹ کمیٹی کی یہ متفقہ ترمیم‬
‫شائع ہوئی ہے کہ زنا بالجبر میں بھی چار گواہ الزمی کردیے جائیں‪ ،‬اس کے بعد یہ بل زنا کی شکا رعورت پر صریح ظلم بن گیا‬
‫ہے نہ کہ تحفظ خواتین بل۔ زنا بالرضا انگریز دور کے قوانین بحال ہونے کی بنا پر جائز‪ ،‬حدود قوانین تمام دیگر قوانین کے تابع‬
‫اور زنا بالجبر میں بھی عورت کے لئے چارگواہ۔(‪ )v‬نتیجہ واضح ہے کہ اسالمی جمہوریہ پاکستان میں زنا کے لئے ہر طرح کی‬
‫کھلی چھوٹ مل گئی!!‬

‫(‪ )7‬حدود آرڈیننس میں زنا کے عالوہ اقدام زنا‪ ،‬فحاشی اور مبادیات زنا کی بھی سزائیں مقرر کی گئی تھیں‪ ،‬جب جنسی فعل کی‬
‫مکمل شہادتیں پوری نہ ہوں تو اس وقت فحاشی کے ارتکاب کے جرم میں تعزیرات دی جاتی تھیں۔ موجودہ ترمیم میں ایسے تما م‬
‫جرائم کی سزائوں کو منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی ہے‪ ،‬جس کے بعد یہ چیزیں بھی جرم نہ رہیں گی۔‬

‫(‪ )8‬اسالم نے زنا کے چار گواہوں کے لئے مسلم اوربالغ ہونے کی شرط لگائی ہے‪ ،‬جبکہ موجودہ ترمیمی بل کے بعد یہ گواہی‬
‫غیرمسلم بھی دے سکتے ہیں جو غیراسالمی ہے۔‬
‫(‪ )9‬مجوزہ ترامیم کی شق ‪ 5‬کی ذیلی دفعہ پنجم میں ‪ 16‬برس سے کم عمرکی لڑکی سے ہونے والے زنا کو الزما زنا بالجبر قرار‬
‫دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ پیش کی گئی ہے کہ اس سے کم عمر لڑکی کی رضامندی کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ ترمیم بھی‬
‫خالف اسالم اور زمینی حقائق سے متصادم ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے ‪ 16‬برس تک لڑکی کے زنا کو قانونی تحفظ دیاگیا ہے کہ‬
‫ایسے زنا کو الزما زنا بالجبر تصور کرکے لڑکی کو سزا سے مستثنی رکھا جائے۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بلوغت کے فورا بعد‬
‫ہی بے شمار لڑکیاں زنا بالرضا کی مرتکب ہوتی ہیں جیسا کہ مغربی سکولوں کے اعداد وشمار میں اس امر کاکافی ثبوت موجود‬
‫ہے‪ ،‬کیونکہ زنا کا تعلق ذ ہنی بلوغت کے بجائے جسمانی بلوغت اور جنسی فعل کو کرنے کی صالحیت سے ہے۔ پھر تعزیرات‬
‫پاکستان کی دفعہ ‪ 83‬کے تحت ‪ 12‬برس تک کے بچے کو ہی فوجداری جرم سے استثنا کی رعایت مل سکتی ہے لیکن اس ترمیم‬
‫میں یہ رعایت ‪ 16‬برس تک دی جارہی ہے۔زنا کے جرم سے ہی یہ امتیاز کیوں برتا جارہا ہے؟‬

‫الغرض حدود قوانین کے حوالے سے تما م پروپیگنڈے کا آغاز 'یہ خدائی قانون نہیں' کہہ کر کیا گیا اور آخر کار اس سے کہیں‬
‫بدتر اور متنازعہ انسانی قانون کو پیش کردیا گیا۔‬

‫دعوی کیا گیا کہ قوم کو تقسیم کرنے والے ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے 'ذرا سوچئے'کی مہم چالئی گئی ہے۔ لیکن قوم‬
‫اس بحث سے پہلے متحد تھی‪ ،‬اب کہیں زیادہ تقسیم ہوگئی ہے !!‬

‫دعوی کیا گیا کہ یہ قانون خواتین کے تحفظ کے لئے ہے‪ ،‬جبکہ موجودہ قانون کی صورت میں زنا کرنے والے مرد کے خالف‬
‫شکایت کو ناممکن بناکر خواتین سے مزید ظلم کیا جارہا ہے۔‬

‫دعوی کیا گیا کہ حدود قوانین کو منسوخ نہیں کیا جائے گا‪ ،‬لیکن یہ ترامیم نہایت بھونڈی اور یک لخت منسوخی سے کہیں زیادہ‬
‫ہیں۔‬

‫پروپیگنڈا کیا گیا کہ'' کتاب وسنت کے خالف ایک بھی شق نہیں ہوگی۔'' لیکن یہاں پر قرآن وسنت کے خالف سزائوں کے عالوہ‬
‫طریق کار ایسا بنایا گیا ہے کہ عمال سزا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ بل کے اس مختصر جائزے سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا‬
‫ہے کہ‬

‫ترمیم حدود آرڈیننس کی بجائے دراصل حدود اہللا میں کی جارہی ہے!!‬

‫اس بل میں بعض ترامیم اسالمی احکامات کے صریح خالف ہیں‪ ،‬جبکہ سزا کا طریق کار اس قدر غیرمتوازن ہے کہ اس کے‬
‫ذریعے کسی کا جرم زنا کی سزا پانا ممکن نہیں رہتا ‪ ،‬جس کا نتیجہ ملک میں بے راہ روی کے مزید فروغ اور فحاشی وبے‬
‫حیائی کی صورت میں نکلے گا۔ بے راہ روی کا مرد وں کے بجائے عورتوں کو زیادہ نقصان ہے‪ ،‬آخر کار یہ بل 'تحفظ حقوق‬
‫نسواں' کے بجائے 'بدکاری کا الئسنس' قرار پائے گا جس سے پاکستان میں خواتین کی حرمت وتقدس پامال ہونے کا خطرہ کہیں‬
‫زیادہ بڑھ جائے گا۔ ہللا تعالی ہمارے اراکین اسمبلی اور حکمرانوں کو ہدایت دے کہ چندروزہ اقتدار کے لئے وہ ہللا کی حدود سے‬
‫یہ مذاق اور کھیل بند کریں‪ ،‬ہللا کی گرفت دنیا میں بھی سخت ہے اور آخر کار روز محشرسب کو اس کے حضور جواب دہ ہونا‬
‫ہی ہے۔‬
‫' تحفظ خواتین بل‪2006‬ء 'میں خالف اسالم ترامیم کی فہرست‬

‫(‪ )1‬زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت غیر اسالمی ہے کیونکہ کنوارے زانی کی سزا موت نہیں ہے‪ ،‬چاہے وہ زنا بالجبر ہی‬
‫کرے۔‬

‫(‪ PPC )2‬میں ‪1979‬ء سے قبل انگریز دور کے قوانین زنا بحال ہوگئے ہیں (حدود آرڈیننس کی دفعہ ‪ 19‬کو منسوخ کردینے سے)‬
‫جن مینکنواری‪ ،‬بیوہ یا مطلقہ کے لئے زنا کوئی جرم ہی نہیں اورشوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کی زنا کاری کی سزا بھی‬
‫محض ‪ 5‬سال ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اسالم میں کنوارے زانی کی سزا ‪ 100‬کوڑے ہے‪ ،‬نہ کہ محض‪ 5‬یا ‪ 7‬سال!‬

‫(‪ )3‬حدود قوانین صرف نمائشی اور عمال معطل ہیں کیونکہ ‪ PPC‬اور حدود میں تضاد کے بعد دفعہ ‪ 3‬کو حذف کرکے‪PPC‬‬
‫پربچے کچھے حدود قوانین کی برتری کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔‬

‫(‪ )4‬اسالم میں چار گواہوں میں مدعی شامل ہوتا ہے‪ ،‬ترمیم میں مدعی کے عالوہ چار گواہوں کا تقاضا کیا گیا ہے۔‬

‫(‪ )5‬پھر ہر صورت میں چار گواہ ضروری نہیں بلکہ ملزم کا اکیال اعتراف بھی زنا کا کافی ثبوت ہے۔‬

‫(‪)6‬گواہوں کا مسلمان ‪ ،‬بالغ ہونا ضروری ہے۔ نئی ترمیم میں چار گواہ غیرمسلم بھی ہوسکتے ہیں جو غیر اسالمی ہے۔‬

‫(‪ )7‬سلیکٹ کمیٹی کی نئی متفقہ سفارش (اخبارات یکم ستمبر) کی رو سے زنا بالجبر میں بھی چار گواہ ضروری ہیں۔ زنا بالجبر‬
‫میں اصل مظلوم توعورت ہے‪ ،‬وہ چارگواہ کہاں سے الئے گی؟ نتیجہ یہ کہ زنا بالجبر کی سزا بھی عمال معطل ہے۔ اب زنا‬
‫بالرضا تو ‪ PPC‬کے سابقہ قوانین بحال ہونے کی وجہ سے کوئی جرم نہیں رہا‪ ،‬حدود آرڈیننس ویسے ہی تابع ہیں۔ عمال پاکستان‬
‫میں زنا کاری کی کھلی چھوٹ ہوگی ہے‪ ،‬یہ بل دراصل 'بدکاری کا الئسنس' ہے۔‬

‫(‪ )8‬اقدام زنا‪ ،‬فحاشی‪ ،‬برہنہ اور اغوا کرنے وغیرہ کے جرائم ناقابل سزا بنا دیے گئے ہیں۔ (حدود آرڈیننس کی دفعات ‪ 10‬تا ‪16‬‬
‫اور ‪ 18‬کوحذف کردینے سے)‬

‫(‪ 4 )9‬گواہوں کے باوجود زنا کی سزا کا جج کی صوابدید پر رہنا غیر اسالمی ہے اور قذف کی سزا دینے کے لئے محض جج کا‬
‫اطمینان کافی سمجھنا بھی غیر اسالمی ہے۔‬

‫(‪ )10‬زنا کی رپورٹ میں ‪ 4‬گواہوں کا تقاضا غیر اسالمی ہے‪ 4 ،‬گواہوں کی ضرورت تو فیصلہ کے وقت ہے‪ ،‬رپورٹ اکیال‬
‫شخص بھی دے سکتا ہے۔‬

‫(‪ 16 )11‬سال سے کم عمر کی لڑکی کا ہر زنا 'زنا بالجبر' سمجھا جائے‪ ،‬یہ بات بھی غیر اسالمی ہے۔ کیونکہ بلوغت کے بعد‬
‫لڑکی کی رضامندی معتبر ہے۔ ‪PPC‬کی دفعہ ‪ 83‬میں یہ رعایت صرف ‪ 12‬سال تک کے بچے کو حاصل ہے جبکہ اسالم میں یہ‬
‫رعایت بلوغت تک حاصل ہے‪ ،‬اس کے بعد نہیں۔ اسے ‪ 16‬سال تک کرنا غیر اسالمی ہے !!‬

‫(‪ )12‬حد زنا آرڈیننس کی کل ‪22‬دفعات میں سے ‪ 12‬کو منسوخ اور ‪ 6‬میں ترمیم تجویز کی گئی ہے صرف چار باقی رہ گئی ہیں۔‬
‫کیا یہ ترمیم ہے یا منسوخی؟‬

‫حوالہ جات‬

‫‪ .1‬دیکھئے بل میں مجوزہ ترامیم ‪ 11 :‬تا ‪19‬‬

‫‪ .2‬دیکھئے بل میں مجوزہ ترامیم ‪20 :‬تا ‪29‬‬

‫‪ .3‬کتاب الحدود‪ ،‬حدیث ‪13:‬‬


‫‪ .4‬حدیث نمبر‪6436:‬‬

‫‪ .5‬دیکھئے سورة النسائ‪65 :‬‬

‫‪ .6‬بل کا متن بحوالہ روزنامہ خبریں‪22:‬؍اگست‪2006‬ئ‬

‫‪ .i‬ایک مالقات میں امریکی قونصلیٹ نے یہ موقف پیش کیا کہ زناکاری جرم نہیں بلکہ والدین کی نافرمانی کی طرح صرف ایک‬
‫گناہ ہے‪ ،‬ا سلئے ‪1979‬ء سے پہلے کے قوانین ہی بہتر ہیں۔اس موقف پر میں نے انہیں جواب دیا کہ اول تو قرآن کی رو سے زنا‬
‫کاری محض گناہ نہیں بلکہ اس کی سزائیں بھی موجود ہیں ا س لئے یہ ایک جرم بھی ہے‪ ،‬دوم یہ کہ امریکہ توسٹیٹ اور چرچ‬
‫میں جدائی کے نظریے پر کاربند ہے لیکن پاکستان اور مسلمانوں کیلئے یہ امر قابل قبول نہیں کیونکہ یہ نظریۂ پاکستان کی اساس‬
‫کے خالف ہے اور اسالم میں بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں مزید برآں عیسائیوں کے برعکس مسلمانوں نے اپنی عظمت کا دور‬
‫اسالم کی سربلندی میں ہی گزارا ہے۔‬

‫‪ .ii‬دیکھیں محولہ باال حدیث موطا امام مالک‬

‫‪ .iii‬صحیح مسلم‪ :‬رقم‪3207‬‬

‫‪ .iv‬بعض لوگ یہ دور کی کوڑی التے ہیں کہ دور نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں بھی لوگ آپ صلی ہللا علیہ وسلم (یعنی عدالت)‬
‫کے پاس سیدھا کیس لے کر جاتے تھے‪ ،‬نہ کہ پہلے پولیس کو رپورٹ کراتے اور وہی عدالت ان کا فیصلہ کردیتی۔ لیکن یہ لوگ‬
‫صرف مطلب کی آدھی بات بیان کرتے ہیں جبکہ اسالم کی رو سے منصب قضا کو سنبھالنے واال تو قرآن وسنت کے مطابق‬
‫فیصلہ کرتا ہے اور ان کا مکمل عالم ہوتا ہے۔اگر یہ لوگ انگریز کے عدالتی نظام کی بجائے شریعت کے ماہر علما کے ہاتھ میں‬
‫ان جرائم کے مقدمات دے دیں تو ملک میں چند روز میں امن قائم ہوجائے‪ ،‬جیسا کہ سعودی عرب اور طالبان کے چند سالہ اقتدار‬
‫میں چشم فلک یہ نظارہ دیکھ چکی ہے‪ ،‬طالبان پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں لیکن غیر مسلم بھی ان کے منشیات پر‬
‫کنٹرول اور امن وامان کے قیام کو مسلمہ امرمانتے ہیں۔‬

‫‪ .v‬سلیکٹ کمیٹی کا یہ موقف باہم متضاد ہے۔اگر چار گواہ اس لئے ضروری قرار دیے گئے ہیں کہ زنا بالجبر حد زنا کے زمرے‬
‫میں آتا ہے تو پھر ترمیمی بل میں زنا بالجبر کی دفعات کو تعزیرات پاکستان میں کیوں ڈاال گیا ؟حدود آرڈیننس میں ہی کیوں‬
‫برقرار نہیں رکھا گیا اور اگر اسے تعزیر سمجھا جاتا ہے تو پھر اس پر چار گواہ کا مطالبہ کیوں؟ یہ تو ان کے موقف کا تضاد‬
‫ہے جس کی وجہ دراصل زنا کے جرائم کو ناقابل عمل بنانا ہے۔ البتہ اسالم کی رو سے زنا بالجبر یا بالرضا ‪ ،‬زنا کا مقدمہ حدود‬
‫ہللا کے تحت ہی آتا ہے جیسا کہ زنا بالجبر کے حوالے سے ہمارا موقف گذشتہ شمارے میں تفصیال شائع ہوچکا ہے۔‬

‫شمارہ ‪ 303‬حسین مدنی‬


‫’حدود قوانین اورحکومتی ترامیم‘قانون و شرع کی نظر میں‬

‫حدود قوانین کے حوالے سے پاکستان کے ایک بڑے ابالغی گروپ کی طرف سے شروع کی گئی مہم بڑی تیزی سے اپنے منطقی‬
‫انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تین ماہ سے اس گروپ کے ذرائع ابالغ لگاتار حکومت کو اس امر کی یاددہانی کروا رہے ہیں بلکہ‬
‫دوسرے لفظوں میں اس پر دبائو بڑھاتے جارہے ہیں کہ ''پارلیمنٹ آخر کب سوچے گی؟''‬

‫اس دوران اس مہم میں بروئے کار الئے جانے والے ابالغی ہتھکنڈوں ‪ ،‬غلط ترجیحات‪ ،‬مباحثوں و مکالموں میں پیش کی جانے‬
‫والی یکطرفہ معلومات اورجانبدارانہ پروپیگنڈے کے بارے میں بیسیوں مضامین قومی پریس اور رسائل وجرائد میں شائع ہوئے‬
‫ہیں لیکن اس کے باوجود حدود آرڈیننس کی منسوخی کا یہ جنون تاحال برقرار ہے!!‬

‫مبارکبادکے مستحق ہیں اسالمی نظریاتی کونسل کے وہ اراکین جنہوں نے اس پروپیگنڈے اور سرکاری دبائو کو خاطر میں نہ‬
‫الکر حدود قوانین میں متفقہ ترامیم کا راستہ مسدود کردیا‪ ،‬اور خراج تحسین کے مستحق ہیں وہ فاضل اراکین جنہوں نے ایک‬
‫معتبر اور ثقہ اسالمی ادارے کے وقار کو برقرا ررکھنے کے لئے اپنی رکنیت سے استعفی تو دے دیا لیکن حکومت کو اس ادارے‬
‫کا وقار مجروح کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس اختالف رائے کا نتیجہ یہ نکال کہ کونسل کا اجالس ستمبر تک ملتوی کردیا گیا۔ لیکن‬
‫دوسری طرف سریر اقتدار پر قابض حکمرانوں کا اصرار اور شوق جنوں ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اُنہوں نے ایک طرف قتل‪،‬‬
‫ڈکیتی‪ ،‬منشیات کے ماسوا تمام ملزم عورتوں کو جیلوں سے رہائی(‪)i‬دینے کا مژدئہ جانفزا بھی سنایا اور ساتھ ہی اسالمی نظریاتی‬
‫کونسل کو اس ارشاد عالیہ سے بھی نوازا کہ جلد از جلد اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ملک کے معتبر اداروں کے ساتھ مذاق اور‬
‫حدود ہللا میں دخل اندازی کی اس سے بڑی کوشش اور کیا ہوسکتی ہے ؟‬

‫حکومت وقت کے تیور بتاتے ہیں کہ اُنہیں موجودہ سیاسی کشمکش میں دینی تنظیموں اور عوامی وسیاسی جماعتوں سے تو اپنی‬
‫حمایت کی اُمید نہیں لہذاپنے اقتدار کو مزید طول بخشنے اور اپنی سابقہ روایات کے مطابق ایک بارپھر مغرب نواز طبقہ کی کلی‬
‫حمایت پانے کے لئے وہ حدود آرڈیننس کو قربانی کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں ۔ ایسے ہی امریکہ ویورپ کی ناراض حکومتوں‬
‫کو بھی ان اسالم مخالف اقدامات کے ذریعے دوبارہ اپنی حمایت کے لئے آمادہ کرنے کی سعی نامراد کی جارہی ہے۔ اس مقصد‬
‫کے لئے حکومت نے ‪14‬؍اگست کو بعض 'خوش آئند' تبدیلیوں کے اعالن کی بھی نوید سنائی ہے۔‬

‫حدود قوانین کے خالف موجودہ مہم کے تیور آغاز میں تو ایسے لگتے تھے کہ اس بار ان قوانین کو منسوخ کرکے ہی دم لیا جائے‬
‫گا‪ ،‬لیکن اسالمیان پاکستان کا اسالم سے محبت کا جذبہ ابھی اتنا سرد نہیں ہوا‪ ،‬اس لئے سردست یہی نظرآتا ہے کہ ان میں قانون‬
‫رسالت کی طرح ایسی ترامیم بروئے کارالئی جائیں گی کہ ان کا نام تو برقرا ر رہے لیکن ان کا جوہر ختم ہو کررہ جائے۔‬
‫ؐ‬ ‫توہین‬
‫انہی دنوں اخبارات میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ترقی خواتین کی چیئرپرسن مہناز رفیع کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ‬

‫''حدود قوانین میں ترامیم کی جارہی ہیں جس میں ‪a‬زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی سزائوں میں تفریق کی گئی ہے۔ ترامیم کے‬
‫مطابق زنا بالجبر کی سزا سزاے موت یا ‪ 25‬سال قید اور جرمانہ ہوگی‪ ،‬جبکہ زنا بالرضا کی سزا تعزیرات پاکستان کے تحت دی‬
‫جائے گی۔ ‪b 4‬گواہوں کے لئے مرد گواہ کی شرط ختم کرتے ہوئے اب مرد کے ساتھ عورت کی گواہی کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔‬
‫‪' c‬موجودہ' قانون کے تحت درخواست سیشن کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی‪ ،‬اس کے بعد ‪ 4‬مرد وخواتین گواہوں کی شہادت‬
‫کے بعدہی مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ‪ d‬حدود قوانین میں بالغ لڑکی پر مقدمہ بنادیا جاتا تھا‪ ،‬جبکہ لڑکے کے لئے کم از کم ‪ 18‬سال‬
‫کی عمرمتعین کی گئی تھی جبکہ اس عمر میں ذ ہنی بلوغت نہیں ہوپاتی چنانچہ 'موجودہ' قانون میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے‬
‫لئے عمر کا تعین ‪ 18‬سال کردیا گیا ہے۔ یہ ترامیم خواتین کے حقوق اور فالح وبہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائیں گی۔'' ‪1‬‬

‫حکومت کی طرف سے تجویز کی جانے والی ان ترامیم کو 'تحفظ خواتین بل ‪2006‬ئ' کا نام دیا گیا ہے۔ یوں تو ان ترامیم کی‬
‫خبریں اخبارات میں کئی دنوں سے شائع ہورہی ہیں لیکن تاحال اصل یا مستند مسودئہ قانون اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا‪ ،‬البتہ‬
‫‪3‬؍اگست کے اخبارات کے مطابق وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم کی سربراہی میں اس بل کی اُصولی منظوری دے دی ہے اور ہفتہ‬
‫بھر میں اس کو قومی اسمبلی میں بھی پیش کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں اپوزیشن رہنمائوں سے‬
‫مالقاتوں کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں ۔ وفاقی کابینہ کے منظو رکردہ مسودئہ قانون کی‬
‫مختصراتفصیالت یہ ہیں کہ‬

‫''(‪ )1‬زنا بالجبر کے جرم کو حدود آرڈیننس سے نکال کر تعزیرات پاکستان کا حصہ بنادیا گیا ہے اور اس کے لئے موت‬
‫اورعمرقید کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔(‪ )2‬زنا بالجبر میں چار گواہوں کی شرط کا خاتمہ اورزنا بالرضا میں چارمرد گواہوں‬
‫کی بجائے محض چار بالغ افراد کی گواہی کو کافی قرار دیا گیا ہے۔(‪ )3‬پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے سیشن‬
‫کورٹ کے پاس زنا کی شکایت درج ہوگی جس میں چار گواہ اور شکایت کنندہ کے بیانات موقع پر ہی درج ہوں گے۔ ‪d‬مالی‬
‫معامالت میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کی بجائے ایک مرد اورایک عورت کی گواہی یا عدالت کی مطلوبہ گواہی کافی‬
‫قرار دی گئی ہے۔'' (روزنامہ 'اُمت' کراچی‪ 4 :‬؍اگست)‬

‫حدود قوانین پر بحث و مباحثہ کا آغاز اس بہانہ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ ''حدود ہللا پر کوئی بحث نہیں لیکن حدود آرڈیننس خدائی‬
‫نہیں ۔''جبکہ مذکورہ باال ترامیم کا سرسری مطالعہ ہی اس امر کی نشاندہی کے لئے کافی ہے کہ نئے مسودئہ قانونمیں حدود‬
‫آرڈیننس کے نام پر حدود ہللا مں ہی ترمیم کی جسارت کی گئی ہے جس کی تفصیالت آگے آرہی ہیں ۔‬

‫قرآن کریم میں حدود ہللا کے بارے میں مسلمانوں کو پہلے ہی تنبیہ کی جاچکی ہے کہ‬

‫ت ْلكَ ُحدُو ُد َ‬
‫ٱّلل فَ َال ت َ ْق َربُوھَا‪...﴾١٨٧﴿...‬سورة البقرة‬

‫''یہ ہللا کی حدیں ہیں ‪ ،‬ان کے( ارتکاب کے) قریب بھی مت جائو۔''‬

‫ظلَ َم نَ ْف َ‬
‫سهُ‪...﴾١﴿...‬سورة الطالق‬ ‫ٱّلل فَقَ ْد َ‬
‫َو َمن یَتَعَ َد ُحدُو َد َ‬

‫''اور جو کوئی ہللا کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو بالشبہ اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔''‬

‫حدود قوانین کیا خواتین کے خالف ہیں ؟‬

‫حقوق نسواں اور مساوات مردوزَ ن کا نعرہ ایسا دل فریب ہے کہ اکثر مذموم مقاصد اس کے پس پردہ ہی پورے کئے جاتے ہیں ۔‬
‫اب بھی حدود قوانین میں ترامیم 'خواتین سے ظلم وزیادتی اور امتیاز کے خاتمے' کے نام پر الئی جارہی ہیں ۔ یاد رہے کہ حدود‬
‫قوانین کے خالف نمائندہ لٹریچر بھی خواتین حقوق پر کام کرنے والی این جی اوز 'عورت فائونڈیشن' وغیرہ نے ہی شائع کیا ہے‬
‫مثال جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کاکتابچہ 'زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ '‪ ،‬ڈاکٹر طفیل ہاشمی کی کتاب 'حدود آرڈیننس؛ کتاب وسنت کی‬
‫روشنی میں ' اور ڈاکٹر محمد فاروق خاں کی کتاب 'حدود‪ ،‬حدود قوانین اور خواتین' وغیرہ‬

‫ان ترامیم پر تبصرہ سے قبل اس آرڈیننس پر بنیادی اعتراض کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ‬

‫''حدود قوانین عورتوں کے خالف امتیازی ہیں ‪ ،‬ان کا نشانہ زیادہ ترخواتین بنتی ہیں اور ‪ 80‬سے ‪ 90‬فیصد تک خواتین اسی بنا پر‬
‫جیلوں میں قید ہیں ۔ ''‬

‫(قومی کمیشن برائے خواتین)‬

‫اس دعوی کی حیثیت پروپیگنڈہ سے زیادہ نہیں اور زمینی حقائق سے اس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ یہ پاکستانی معاشرے پر ایک‬
‫بڑا الزام ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں زنا کے جرائم بہت بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جبکہ واقعاتی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان‬
‫کی چند بڑی جیلوں کے جائزہ کے بعد وہاں حدود کی ملزم خواتین قیدیوں کی تعداد ‪ 31‬فیصد سے زیادہ نہیں ‪ ،‬جوالئی ‪2003‬ء‬
‫کے ایک جائزے میں صوبہ سرحد کی ‪ 9‬جیلوں میں حدود مقدمات میں ‪ 32‬فیصد خواتین قید تھیں ۔ ‪2‬‬

‫ایک امریکی سکالر چارلس کینیڈی نے ‪ 5‬سال میں پاکستان میں حدود کے مقدمات کا ایک جائزہ لے کر اپنی تحقیق کا یہ نتیجہ‬
‫پیش کیاکہ ‪1980‬ء تا ‪1984‬ء کے پانچ برسوں میں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زنا بالرضا میں ‪145‬؍ مردوں اور ‪144‬؍ عورتوں کو سزا‬
‫سنائی گئی جن میں سے ‪ 71‬مردوں اور ‪ 30‬خواتین کی سزا وفاقی شرعی عدالت نے بحال رکھی۔ ایسے ہی زنا بالجبر کے کیس‬
‫میں انہی سالوں میں ڈسٹرکٹ کورٹ نے ‪ 163‬مردوں اور ‪ 2‬عورتوں کو سزا سنائی جن میں سے وفاقی شرعی عدالت نے محض‬
‫‪ 59‬مردوں کی سزا بحال رکھی اور ان دو عورتوں کو بھی بری کردیا۔‪3‬‬

‫جسٹس تقی عثمانی جنہوں نے ‪ 17،18‬برس حدود آرڈیننس وغیرہ کی سماعت کی ہے اپنا ذاتی تجربہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں‬
‫کہ ''اغوا اور زنا کے جو سینکڑوں مقدمات میں نے سنے ہیں ‪ ،‬ان میں کم ازکم ‪ 90‬فیصد کیسوں میں سزاہمیشہ مرد کو ہوئی ہے۔''‬
‫‪4‬‬

‫طبقہ خواتین کی بے جا حمایت حاصل کرنے اور محض گرمی محفل کے لئے حدود قوانین کے خالف ایسا پروپیگنڈہ(‪ )ii‬کیا‬
‫جاتاہے۔ اسالم نے تو ہردو صنف کے ساتھ عدل وانصاف کے تمام ضابطے پورے کئے ہیں جبکہ پاکستان میں نافذ انگریزی قانون‬
‫کی صورت حال یہ ہے(‪ )iii‬کہ اس کا اُصولی رجحان ہی عورت کے لئے خصوصی استحقاق اور مردوں کے خالف امتیاز پر‬
‫مبنی ہے جیسا کہ حدود پر اپنے کتابچہ کے آغاز میں ہی اُصولی بنیاد کے طورپر جسٹس (ر) جاوید اقبال لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫''یہ حقیقت قانونا تسلیم کرلی گئی کہ برصغیر کی عورت چونکہ پس ماندہ اور مظلوم ہے‪ ،‬اس لئے ضابطہ فوجداری کے ہر جنسی‬
‫جرم میں جس میں عورت ملوث ہو‪ ،‬عورت کو ملزم تصور نہ کیا جائے۔ لہذا اغوا‪ ،‬زنا بالجبر‪ ،‬کسی کی بیوی کو ورغال کراپنے‬
‫ساتھ بھگا لے جانا وغیرہ‪ ،‬ایسے جرائم کی پولیس رپورٹ میں عورت کا سٹیٹس مستغیثہ یا مظلوم کا ہوتا ہے‪ ،‬نہ کہ ساتھی ملزم‬
‫کا۔ خواہ ایسے کسی جرم میں اس کی رضامندی شامل ہی کیوں نہ ہو۔''‪5‬‬
‫دراصل یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ عورت الزما معصوم ہی ہوتی ہے اور مرد ہمیشہ اس پر جارح ہوتا ہے جبکہ یہ تصور ہی‬
‫صنفی امتیاز پر مبنی ہے۔ اسالم کی رو سے جس طرح عزت وعصمت کا تصور عورتوں کے ساتھ وابستہ ہے‪ ،‬ویسے ہی مردوں‬
‫کے لئے بھی یہی تصور موجود ہے‪ ،‬وگرنہ اسالم میں مردوں پر تہمت لگانے کی سزا کیوں مقرر کی گئی ہے‪ ...‬؟‬

‫قانون کو فریقین کے تحفظ اور دونوں صنفوں کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے۔ جدید تحریک نسواں کے‬
‫نعروں کے بعد یہ عجیب رجحان پیدا ہوگیا ہے کہ قانون ہمیشہ عورت کو ہی مظلوم خیال کرتا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ‬
‫مجھے گذشتہ دنوں دبئی میں مقیم میرے ایک قریبی عزیز نے سنایاکہ ایک عورت نے ان کے دوست کو برائی کی دعوت دی‬
‫(اور یہ بات بھی عجیب نہیں جیسا کہ قرآن میں عزیز مصر کی بیوی کا حضرت یوسف ؑکے بارے میں مشہور قصہ بھی موجود‬
‫ہے) تو اس شخص نے قریب موجود پولیس کے ایک سپاہی کو یہ شکایت کی کہ اس عورت کے خالف کیا کوئی قانون حرکت میں‬
‫نہیں آتا؟ وہ سپاہی بوالکہ قانون تو ضرورحرکت میں آتا ہے مگر اس وقت جب یہ شکایت تمہاری جگہ وہ عورت کرتی۔(‪)iv‬‬

‫اس سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی امتیاز حدود قوانین کی بجائے مغربی قانون کی بنیادی ساخت میں موجود ہے لیکن اس کے خالف‬
‫کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی۔‬

‫مجوزہ ترامیم پرتبصرہ اور ُمضمرات‬

‫پہلی مجوزہ ترمیم بہ سلسلہ سزا‬

‫زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی سزائوں میں تفریق یعنی زنا بالجبر کے لئے سزائے موت یا ‪ 25‬سال قید اور زنا بالرضا کے لئے‬
‫تعزیرات پاکستان میں موجود قانون کی بحالی‬

‫تبصرہ‪:‬حدود ہللا‪:‬اسالم کی رو سے زنا بالجبر ہو یا زنا بالرضا‪ ،‬ہردو صورت میں زنا ہونے کے ناطے یہ سنگین ترین جرم ہے۔ کم‬
‫از کم مرد کی حد تک تو اس جرم میں کوئی فرق نہیں البتہ زنا بالجبر کی صورت میں محض عورت کے اپنے بیان اور قرائن‬
‫سے اس کی شہادت ملنے پر اس کو نہ صرف بری کردیا جائے گا بلکہ اس کے حق عصمت میں دخل اندازی کی بنا پر زنا بالجبر‬
‫کے مجرم پر اس کا مہر مثل(‪)v‬بھی عائد کیا جائے گا اور حکومت وقت بھی اس کی دلجوئی کے مختلف ذرائع اختیار کرے گی۔‬
‫چونکہ مغرب کے ہاں زنا کی دو قسمیں اور دونوں کے علیحدہ احکام ہیں ‪ ،‬اس لئے یہ تقسیم ہی مغربی طرز فکر کی آئینہ دار ہے‬
‫جبکہ اسالم نے عورت کے لحاظ سے زنا کی دو اقسام بنانے کی بجائے اسے فریقین کی ازدواجی حیثیت کے لحاظ سے شادی شدہ‬
‫اور غیر شادی شدہ میں تقسیم(‪ )vi‬کیا ہے‪ ،‬غیر شادی شدہ زانی؍ زانیہ کو ‪ 100‬کوڑے اور جالوطنی جبکہ شادی شدہ زانی؍ زانیہ‬
‫کو سنگساری کی سزا جیسا کہ یہ تمام باتیں قرآن وحدیث میں موجود ہیں ۔‬

‫حدود قوانین‪ :‬جہاں تک حدود قوانین‪1979‬ء کا تعلق ہے تو زانی؍ زانیہ کے شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے ان کی دو‬
‫شرعی سزائیں ہی مقرر کی گئی ہیں ‪ ،‬البتہ تعزیرات کے ضمن میں زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ‬
‫شق ‪ 9‬کی ذیلی دفعہ ‪ 4‬کی رو سے شرعی نصاب شہادت پورا نہ ہو توشق ‪ 10‬کی ذیلی دفعہ ‪ 2‬کے تحت زنابالرضا کی سزا ‪10‬‬
‫سال قید بامشقت‪' ،‬تیس کوڑے یا جرمانہ' اور ذیلی دفعہ ‪ 3‬کی رو سے زنا بالجبر کی سزا ‪ 25‬برس قید بامشقت اور 'جرمانہ یا ‪30‬‬
‫کوڑے' ہوگی۔ گویا حدود قوانین میں اس فرق (‪ )vii‬کی بنیاد نصاب شہادت ہے۔‬
‫ُمجوزہ ترمیم‪:‬اب ہم مجوزہ ترمیم کی طرف نظر کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ یہاں اسی زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں فرق کو‬
‫اساسی حیثیت دی جارہی ہے۔ اور زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ سزا خالف اسالم ہے کیونکہ‬
‫اسالم نے کنوارے زانی کے لئے چاہے وہ زنا بالجبر کا مرتکب بھی ہو‪ ،‬سزاے موت نہیں رکھی۔ صحیح بخاری میں یہ عنوان قائم‬
‫کیا گیا ہے کہ ''مجبور عورت پر کوئی حد نہیں !'' اس کے تحت یہ حدیث ہے ‪:‬‬

‫أن عبدا من رقیق اإلمارة وقع علی ولیدة من ال ُخمس فاستکرھھا حتی افتضھا فجلدہ عمر الحد ونفاہ ولم یجلد الولیدة من أجل أنه‬
‫استکرھھا‬

‫''خلیفہ کے غالموں میں سے ایک نے مال خمس(بیت المال)کی ایک کنیز کو اس قدر مجبور کیا کہ اس سے زنا بالجبر کر لیا تو‬
‫حضرت عمر نے اس غالم پر کوڑوں کی حد نافذ کی اور اس کو جال وطن کردیا‪ ،‬جبکہ کنیز کو کوڑوں کی سزا نہ دی کیونکہ‬
‫اس کو مجبور کیا گیا تھا۔''‪6‬‬

‫موطا کی روایت میں ہے کہ یہ شخص خمس کے غالموں پر نگران تھا‪ ،‬اسلئے اس نے مجبور کرلیا۔‬

‫ایسے ہی ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق کویہ شکایت کی کہ ا س کے مہمان نے اس کی بہن سے زنا بالجبر کا ارتکاب‬
‫کیا ہے۔ آپ نے ا س سے تفتیش کی تو اس نے اعتراف کرلیا‪ ،‬فضرب به أبوبکر الحد ونفاہ سنة إلی فدك ولم یضربھا ولم ینفھا إلنه‬
‫استکرھھا ثم زوجھا إیاہ أبوبکر وأدخله علیھا‪7‬‬

‫''حضرت ابوبکر نے اس پر حد جاری کی اور 'فدک' میں اس کو جالوطن کردیا‪ ،‬جبکہ عورت کو نہ تو کوڑے مارے اور نہ ہی‬
‫اسے جالوطن کیا کیونکہ اس نے عورت کو مجبور کیا تھا۔ بعد ازاں حضرت ابوبکر نے اسی شخص سے عورت کا نکاح کردیا‬
‫اور اُسکی اس عورت سے شادی کردی۔''‬

‫اس واقعہ میں بھی زنا بالجبر ہوا لیکن اس کو سزاے موت دینے کی بجائے کوڑے اور جالوطنی کی سزا دی گئی۔یہ شخص‬
‫جالوطنی کاٹ کر واپس آیا تو آپ نے اس کو اسی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔ ‪8‬‬

‫نبوی کا یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ ''ایک عورت نماز پڑھنے کے لئے گھر‬
‫ؐ‬ ‫زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینے کے لئے دور‬
‫سے نکلی تو ایک شخص نے اس سے زنا بالجبرکرلیا۔شور مچانے پر وہ شخص بھاگ نکالکہ اسی دوران ایک آدمی گزرا تو‬
‫عورت نے اسے یہ شکایت کی‪ ،‬پھر مہاجرین کی ایک جماعت کا وہاں سے گزر ہوا تو اس عورت نے انہیں بھی شکایت لگائی۔وہ‬
‫صحابہ چلے گئے اور کچھ دیر بعد ایک آدمی کو پکڑ الئے جس کے بارے میں عورت کا یہ گمان تھا۔اسے عورت کے سامنے‬
‫الیا گیا تو اس نے کہا کہ یہی ہے وہ شخص۔سو وہ اس شخص کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس لے آئے‪ ،‬آپ نے جب اس‬
‫کو سزا دینے کا حکم دیا تو ایک اور شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اس عورت سے میں نے زنا کیا ہے ۔تب آپ نے اس‬
‫عورت کو جانے کی اجازت دی کہ جا تجھے ہللا نے معاف کردیا ہے اور اس شخص کے لئے اچھے کلمات بولے۔(کسی نے)کہا‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬ا س نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ بھی ایسی توبہ کریں تو ان سے بھی قبو ل کی‬
‫کہ اس کو رجم کردو تو ؐ‬
‫جائے۔'' ‪9‬‬

‫لیکن اس واقعہ سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص کنوارا تھا؟ ظاہر ہے کہ وہ شخص شادی شدہ ہوگا اور اسی لئے اس کو‬
‫رجم کا حکم دیا گیا ہوگا۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زنا بالجبر کی سزا حرابہ (ڈاکہ اور فساد فی االرض) کی بجائے رجم کی‬
‫ہی ہے۔ (تفصیالت آگے صفحہ نمبر ‪26‬پر)‬
‫کیا زنا بالجبر کی سزا 'حرابہ' کی ہے؟‬

‫زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینے کے لئے بعض تجدد پسند دانشور اسے حرابہ (ڈاکہ اور فساد فی االرض) کے تحت التے ہیں ۔‬
‫لیکن ان کا موقف درست نہیں جیسا کہ گذشتہ احادیث میں زنا بالجبر پرکنوارے کے لئے کوڑے اور شادی شدہ کے لئے رجم کی‬
‫سزا کا ذکر ہوا ہے۔‬

‫(‪ )1‬یہ موقف خالف قرآن ہے کیونکہ کنوارے کے لئے قرآن کریم نے سورة النور کی دوسری آیت میں ‪ 100‬کوڑے کی سزا مقرر‬
‫کیہے۔ قرآنی سزا کنوارے کے لئے ہے جس کا قرینہ یہ ہے کہ اگلی آیت میں ''زانی کا نکاح یا تو زانیہ سے ہے یا مشرکہ سے''‬
‫کا تذکرہ موجود ہے۔ ایسے ہی نبی صلی ہللا علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے ‪ :‬أنه أمر فیمن زنی ولم یحصن بجلد مائة وتغریب‬
‫عام‪10‬‬

‫''نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے بارے میں یہ حکم دیا کہ ا س کو ‪ 100‬کوڑے مارے جائیں اور ایک‬
‫سال کے لئے جالوطن کردیا جائے۔''‬

‫اگر کنوارہ زنا بالجبر کرے تو شریعت کی رو سے تب بھی اس کو قتل نہیں کیا جائے گا‪ ،‬لیکن حرابہ کے تحت لے آنے کی‬
‫صورت میں کنوارے کو بھی قتل کرنا پڑے گا جو خالف اسالم ہے۔‬

‫(‪ )2‬حرابہ کے تحت ہونے والے جرائم آیت حرابہ سے اگلی آیت کی رو سے گرفتاری سے قبل قابل توبہ (معافی) ہیں ۔ جن لوگوں‬
‫نے زنا بالجبر کی سزا کو حرابہ کے تحت قرار دیا ہے‪ ،‬وہ بھی اس بنا پر اس کو قابل معافی قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد فاروق‬
‫خاں لکھتے ہیں کہ‬

‫''زنا بالجبر دراصل پوری سوسائٹی کے خالف ایک جرم ہے‪ ،‬آیت حرابہ سے ہدایت ملتی ہے کہ ‪ç‬ایسے مجرموں کے لئے‬
‫حکومت کسی موقعہ پر عام معافی کا اعالن بھی کرسکتی ہے۔‬

‫اگر حکومت کے ہاتھ لگنے سے قبل کوئی مجرم خود ہی پچھلے جرائم سے تائب ہونے کا اعالن کردے تو حکومت اس کو معاف‬
‫کرسکتی ہے۔ ''‪11‬‬

‫گویا ایک طرف زنا بالجبر کو سوسائٹی کے خالف جرم قرار دے کر سزا کی سنگینی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف زنا‬
‫مان کر اس کے لئے معافی کی گنجائش بھی نکال لی جاتی ہے۔ یہ دوہری منطق ناقابل فہم ہے۔ اس لئے کہ کسی جرم کا حد ود ہللا‬
‫میں آجانا اس کی سنگینی میں اضافہ کرتا ہے نہ کہ کمی کیونکہ حدود ہللا میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی قاضی کے‬
‫پاس آنے کے بعد ان کی معافی ہوسکتی ہے۔ یہی بات نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بھی اس وقت فرمائی تھی‬
‫جب وہ حضرت اسامہ کے ذریعے ایک مخزومی عورت کی چوری کی سزا کم کرنے کی سفارش آپ کے پاس لے کر آئے تھے‬
‫تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اُنہیں ڈانٹا ‪:‬‬

‫أتشفع في حد من حدود اہللا ثم قام فخطب‪ ... :‬لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد یدھا‪12‬‬
‫''کیا تم حدود ہللا میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو۔ پھر آپ کھڑے ہوگئے اورخطبہ ارشاد فرمایا کہ اگر فاطمہ‬
‫بنت محمد بھی چوری کرتی تو محمد اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے۔''‬

‫اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت تو درکنار‪ ،‬دربار نبوت صلی ہللا علیہ وسلم سے بھی ان کی سزا کے بارے میں کوئی نرمی نہیں‬
‫کی جاسکتی‪ ،‬کجا یہ کہ اُنہیں سرے سے ہی معاف کردیا جائے۔‬

‫دراصل زنا بالجبر کو حرابہ میں لے جانے کی وجہ ہی یہ ہے کہ اس موقف کے قائل حد رجم کے منکر ہیں ۔ حد رجم کے ان‬
‫منکرین کا زنا بالجبر پر سزاے موت کا یہ موقف بھی ان کے سابقہ موقف کی طرف سبیل المومنین او راجماع اُمت سے انحراف‬
‫ہے !!‬

‫مذکورہ باال تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدود قوانین میں تبدیلی کا نام لے کر حدود ہللا میں ترمیم کی جسارت کی جارہی ہے اور‬
‫اس طرح کھلے عام کتاب وسنت کے خالف قانون سازی ہللا سے بغاوت اور دستور پاکستان کی واضح دفعات کی خالف ورزی‬
‫ہے۔‬

‫جہاں تک زنا بالرضا کی سزا کو مجموعہ تعزیرات پاکستان کے مطابق کرنے کی بات ہے تو یہ اسالم کے ساتھ صریح زیادتی‪،‬‬
‫نظریۂ پاکستان سے انحراف او رمسلمانان پاکستان پر واضح ظلم ہے۔کیونکہ تعزیرات پاکستان میں زنا بالرضا بذات خود کوئی جرم‬
‫نہیں ‪ ،‬یہ قانون چونکہ انگریز کے دور سے چال آتا ہے‪ ،‬اور انگریزکے ہاں زنا بذات خود کوئی جرم نہیں بلکہ محض ازدواجی‬
‫حقوق میں مداخلت کی بنا پر اسے جرم سمجھا جاتاہے۔ اسی بنا پر آج بھی یورپ میں زنا کاری اور فحاشی کا بازار گرم ہے اور‬
‫یہ چیز مغربی معاشرے میں کوئی معیوب امر نہیں ۔ مغربی ممالک کے ایک حالیہ سروے کے مطابق وہاں بسنے والے مرداوسطا‬
‫اپنی زندگی میں ‪6‬ئ‪ 14‬عورتوں سے جبکہ عورت اوسطا ‪5‬ئ‪ 11‬مردوں سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب زنا‬
‫کاری ہی ہے اور رضامندی کی وجہ سے اس پر کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ مغرب میں نکاح کی حیثیت وقتی رضامندی کو‬
‫حاصل ہے جو اگر نکاح کے بعد بھی حاصل نہ ہو تو عورت اپنے شوہر کے خالف ازدواجی زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کرسکتی‬
‫ہے۔ زنا بالرضا کو حدود آرڈیننس سے نکال کرجس تعزیرات پاکستان میں دوبارہ الیا جارہا ہے‪،‬اس کو بھی ایک نظر مالحظہ‬
‫فرما لیں ‪:‬‬

‫تعزیرات پاکستان کی دفعہ ‪ 497‬میں زنا کی تعریف یہ ہے ‪:‬‬

‫''جو کوئی کسی عورت کے ساتھ مباشرت کرتا ہے‪ ،‬جس کے بارے میں وہ جانتا ہے یا یقین رکھتا ہے کہ وہ کسی اور کی بیوی‬
‫ہے اور اس شخص کی اجازت یا اس کی ملی بھگت کے بغیراس فعل کا ارتکاب کرتا ہے نیز اس کا یہ فعل زنا بالجبر کے زمرے‬
‫میں بھی نہیں آتا تو کہا جائے گا کہ اس نے زنا کے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے ‪ 5‬سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزا‬
‫سنائی جائے گی۔ اس مقدمہ میں بیوی کو بطور ترغیب دینے والی کے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔''‬

‫اسی دفعہ میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ یہ زنا بالجبر کے بارے میں نہیں اور تعزیرات پاکستان میں زنا بالجبر کے لئے‬
‫مستقل علیحدہ دفعہ ‪ 375‬بھی موجود ہے‪ ،‬تو واضح ہے کہ تعزیرات پاکستان کی یہی وہ دفعہ ہے جو زنا بالرضا کے بارے میں‬
‫مجوزہ ترامیم کے بعد مؤثر ہوجائے گی‪ ...‬یاد رہنا چاہئے کہ پاکستان میں پہلی بار حدود قوانین نے زنا کو قانونی طورپر ناجائز‬
‫قرار(‪ )viii‬دیا تھا‪1979 ،‬ئسے پہلے اسالمی جمہوریہ پاکستان میں زنا کے راستے میں محض اسالمی یا معاشرتی وسماجی رکاوٹ‬
‫حائل تھی‪ ...‬دوسری طرف حدود قوانین نے زنا کی یہ تعریف کی ‪:‬‬

‫''دفعہ ‪ :4‬ایک مرد یا عورت جو جائز طورپر آپس میں شادی شدہ نہیں ہیں ‪ ،‬زنا کے مرتکب ہوں گے‪ ،‬اگر وہ بالجبر واکراہ ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ مباشرت کرتے ہیں ۔''‬

‫چنانچہ اگر زنا بالرضا کو حدود قوانین کی بجائے دوبارہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت کردیا جائے تو گویا حدود آرڈیننس‬
‫کے اصل امتیاز اور بنیادی ضرورت واہمیت کا ہی خاتمہ ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کنواری‪ ،‬بیوہ یا مطلقہ اگر‬
‫زنا کا ارتکاب کریں تو اُنہیں زنا کا مجرم قرار ہی نہیں دیا جاسکتا۔ اگر بیوی شوہر کی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کرے تو اس‬
‫صورت میں بھی یہ زنا نہیں ٹھہرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا بذات خود جرم نہیں بلکہ شوہر کی عدم رضامندی کی صورت میں‬
‫ہی جرم قرار پاتاہے۔ پھرشوہر ہی اس کے خالف مقدمہ درج کراسکتا ہے ‪ ،‬ہر مسلمان نہیں ۔ عالوہ ازیں تعزیرات پاکستان میں یہ‬
‫جرم قابل راضی نامہ اور قابل ضمانت بھی ہے۔ اگر زنا پر سزا ہو بھی جائے تو وہ محض ‪ 5‬سال یا جرمانہ ہے ۔صنفی امتیاز کی‬
‫حد یہ ہے کہ اگر مرد کو ان تمام شرائط کو ملحوظ رکھنے کے بعد سزا کا مستحق بنا بھی دیا جائے تب بھی عورت کو بطور‬
‫ترغیب دینے والی کے کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔‬

‫اب آپ خود غور کرلیں کہ اگر حدود قوانین میں یہ ترامیم کردی جاتی ہیں جو دراصل محض ترمیم کا نام‪ ،‬دراصل حدود قوانین کی‬
‫منسوخی ہے تو اس کے بعد معاشرے میں زنا کاری پر کوئی قانونی قدغن باقی نہیں رہے گی۔ چونکہ ہماری این جی اوز اور‬
‫مقتدر طبقہ کے فکر ونظر کے پیمانے مغرب سے مستعار ہیں ‪ ،‬اس لئے زنا بالرضا کو دوبارہ تعزیرات پاکستان کے حوالے‬
‫کرکے (جہاں اس حوالے سے کوئی قانون ہی نہیں ہے) ملحدانہ معاشرت کو دعوت دی جارہی ہے۔‬

‫کیا یہی ہے وہ مقصد اور منزل جس کے لئے کئی ماہ سے جیو نے عوام کو 'ذرا سوچئے' اور پارلیمنٹ کو 'کب سوچنے' کی‬
‫دہائی مچا رکھی تھی‪...‬؟‬

‫پہلی ترمیم کی توجیہ پر ایک نظر‪ :‬آخر میں اس ترمیم کی توجیہ پر بھی نظر ڈال لینا مناسب ہوگا ‪:‬‬

‫''ہر ایسا جرم جس کی سزا قرآن وسنت میں بیان نہیں کی گئی‪ ،‬اس کو حدود آرڈیننس سے نکال لیا جائے۔ زنا کی تعزیری سزائوں‬
‫کو بھی اسی لئے حدود آرڈیننس سے نکال دیا گیا ہے اور زنا بالجبر کے قوانین کو تعزیرات پاکستان میں 'ریپ' کے نئے نام سے‬
‫شامل کیا گیا ہے۔'' ‪13‬‬

‫تبصرہ‪:‬معلوم ہوا کہ زنا بالجبر کو بھی حدود قوانین سے اس لئے نکاال گیا کہ بزعم خودیہ قرآن وسنت میں موجود نہیں جبکہ قرآن‬
‫نبوی سے شادی شدہ کے لئے رجم کی سزا بھی ثابت شدہ ہے۔ پھر جن لوگوں کے‬ ‫ؐ‬ ‫نے زنا کی سزا کو بھی بیان کیا ہے اور سنت‬
‫نزدیک زنا بالجبر حرابہ کی ایک قسم ہے‪ ،‬ان کے نزدیک بھی یہ آیت حرابہ (المائدة‪ )32:‬کے تحت آتا ہے۔ اس بنا پر یہ غلط بیانی‬
‫اور 'عذر گناہ بد تر از گنا ہ' کے مصداق ہے۔‬

‫دراصل یہ توجیہ حدود قوانین میں موجود تعزیری سزائوں کو نکالنے کے لئے پیش کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر کسی وقوعہ پر چار‬
‫گواہ نہ ملیں تب بھی کم تر شہادت پر بعض تعزیرات مبادیات زنا کے طورپر الگو ہو جاتی ہیں ‪ ،‬چنانچہ ان تعزیرات کے خاتمے‬
‫کے لئے بھی یہ توجیہ کردی گئی ہے تاکہ زنا کے نام سے کوئی قابل سزا جرم باقی ہی نہ رہے۔یہ ہے وہ عقل عیار جو قرآن‬
‫وسنت اور حدود ہللا سے کھیلنے کے لئے ہی حرکت میں آتی ہے۔ہللا تعالی ہدایت عطا فرمائے!‬

‫دوسری مجوزہ ترمیم بہ سلسلہ شہادت‬

‫''حدود آرڈی نینس میں صرف زنا کی حدکے تحت سزا شامل ہوگی جو شادی شدہ مجرموں کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ مجرم‬
‫کے لئے کوڑوں پر مشتمل ہوگی۔حد زنا کے لئے چارمرد گواہوں کی شرط ختم کرتے ہوئے اب مرد کے ساتھ عورت کی گواہی‬
‫کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے لئے قانون شہادت ‪1984‬ء میں ترمیم کی جارہی ہے۔ ''‬

‫تبصرہ‪:‬حالیہ ترامیم باہم متناقض ہیں ۔ ایک طرف زنا کو دو اقسام‪:‬جبر اور رضا میں تقسیم کیا گیا ہے اور اسی تقسیم کو اصل بنایا‬
‫جارہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مزید قانون کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی‪ ،‬دوسری طرف حدود قوانین میں زنا کو‬
‫دوبارہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے لحاظ سے (یعنی اسالمی شریعت کے طورپر)بھی تقسیم کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان بھی‬
‫مطمئن رہیں اور کوئی اعتراض نہ ہوسکے لیکن عمال یہ قانون در قانون کی ایک صورت ہے کیونکہ ایک واقعہ زنا بالرضا کے‬
‫تحت آئے گا جہاں تعزیرات پاکستان میں اس کے لئے کوئی سزا نہیں تو دوسری طرف وہ ترمیم شدہ حدود آرڈیننس کے تحت‬
‫شادی شدہ ہونے کی وجہ سے سنگساری کا مستحق بھی ہوگا‪ ،‬اب اس پرکس قانونی دفعہ کو لگایاجائے‪ ،‬اس کا فیصلہ کون کرے‬
‫گا؟ ایسے ہی ایک واقعہ زنا بالجبر کا ہو اور دوسری طرف زانی کنوارا ہو تو اس صورت میں تعزیرات پاکستان کی رو سے تو‬
‫وہ سزاے موت کا مستحق لیکن حدود آرڈیننس کی رو سے وہ ‪ 100‬کوڑوں کا مستحق ہوگا۔ تضادات سے بھرپور یہ قانون سازی‬
‫آخر کیوں ؟ اس طرح جرم زنا کی سزا عائد کرنا تو ایک معمہ بن جائے گا سمجھنے ‪ ،‬نہ سمجھانے کا!!‬

‫ممکن ہے کہ یہی اعتراض موجودہ حدود قوانین پر بھی کیا جائے کہ وہاں بھی سزائوں کے دو معیار مقرر کئے گئے ہیں ‪ ،‬لیکن‬
‫طرفہ تماشا یہ ہے کہ پہلے تو اسی نکتہ پر ترمیم کے خواہش مند اعتراض کرتے تھے‪ ،‬اب خود اسی ثنویت کو اختیار کرتے ہیں‬
‫تو وہ درست قرار پاتیہے۔ عالوہ ازیں حدود قوانین میں دونوں سزائوں میں باہم تضاد نہیں بلکہ جرم کی کمی بیشی کے اعتبار سے‬
‫ان کی شدت میں بھی کمی بیشی ہے‪ ،‬اور دونوں سزائوں میں حد فاصل اور میزان وہ نصاب شہادت ہے جس کی رو سے زنا کی‬
‫شرعی سزا تب ہی دی جاسکتی ہے جب عمال وقوعہ زناکی شہادت موجود ہو‪ ،‬وگرنہ نسبتا کمتر سزا جو دراصل مبادیات زنا کی‬
‫سزا ہے‪ ،‬دی جاتی ہے۔ جبکہ مجوزہ ترامیم میں نہ وہ حد فاصل موجود ہے اور دونوں سزائوں میں کمی بیشی کی بجائے تضاد‬
‫بھی پایا جاتا ہے۔‬

‫اسالم کے نام پر پاکستان میں جاری کئے جانے والے قوانین عموما اسی قسم کے مسائل اور تضادات سے پر ہیں جس کی وجہ‬
‫سے ان پر عمل بھی نہیں ہوپاتا‪ ،‬ایسے قوانین کو بظاہر نافذ کرنے کی ضرورت قانون کے ایک بھیدی جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫کی زبانی سنئے‪:‬‬

‫''مذہبی لوگوں کو راضی رکھنے کیلئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھاجاسکتا۔ ان کی‬
‫حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضرور ی ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں کرسکتے لیکن‬
‫اسالمی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔ ''‪14‬‬
‫اس ترمیم میں ایک طرف بدکاری پر قانون در قانون پیش کرکے سزا کو اُلجھایا گیا ہے‪ ،‬اور بظاہر حدود ہللا کو برقرار دکھانے‬
‫کی سعی کی جارہی ہے تو دوسری طرف پھر نصاب شہادت کے لئے قرآن وسنت سے متصادم ترمیم اس میں شامل ہے کیونکہ‬
‫اسالم نے حدود میں عورتوں کی گواہی کا راستہ تو سرے سے اختیار ہی نہیں کیا۔‬

‫اسالمی شریعت میں شرعی حد زنا کے سلسلہ میں عورتوں کی شہادت کی گنجائش نہیں ۔یہاں مرد وزن کی مساوات کو خلط ملط‬
‫کرنے اور آدھی عورت کے جذباتی نعرے لگانے کی بجائے پہلے اسالمی موقف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسالم نے‬
‫مرد وزَ ن کو مساوات کے نام پر ایک دوسرے کا حریف ومقابل بنانے کی بجائے دونوں صنفوں میں تقسیم کار کا تصور دیا ہے۔‬
‫اگردونوں صنفوں کے کام بھی ایک جیسے ہی ہوں تو پھر دوسری صنف کو پیدا کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔‬

‫اسالم نے عورت کی گواہی کو آدھا نہیں کیا بلکہ مردوں کے معامالت میں اور جہاں شرم وحیا آڑے آجائے‪ ،‬وہاں مردوں کی‬
‫گواہی کو رواج دینے کی ترغیب دی ہے جبکہ عورتوں کے معامالت میں ان کی گواہی کو مردوں سے بھی زیادہ حیثیت دی ہے۔‬
‫مثال کے طورپر دنیا بھر کے تما م مسلمان اپنی ماں کی اکیلی شہادت پر اپنے باپ کی ولدیت کا یقین کرتے ہیں ۔ ایسے ہی‬
‫رضاعت‪ ،‬حیضوغیرہ میں عورت کی اکیلی گواہی مردوں سے زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔‪15‬‬

‫اسالم نے عورتوں کو حدود کے معامالت میں گواہی دینے کا رویہ اس لئے نہیں اپنایا کہ اسالم کی رو سے یہ دائرئہ عمل‬
‫عورتوں کی حرمت وتقدس کے خالف ہے کیونکہ گواہوں کیلئے فعل زنا کی عملی تفصیالت پیش کرنابھی ضروری ہے ‪،‬ا سکے‬
‫بغیرگواہی مکمل نہیں ہوتی۔‪16‬‬

‫عورتوں کا عدالتوں میں آنا جانا اور وہاں وکال کی شدید جرح کے بالمقابل جرم زنا کی عملی تفصیالت میں ان کی فطری شرم‬
‫وحیا کا حائل ہونا ایسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے اسالم نے عورت کو مستثنی قرار دیا ہے۔ اس پیچیدگی کی بنا پر مجرم کے‬
‫بچ نکلنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امان ہللا بلوچ ایڈوکیٹ کا عدالتوں کا عملی تجربہ مالحظہ فرمائیے‪:‬‬

‫''ہماری ایک ثقافت ہے‪ ،‬ہوسکتا ہے برگر خاندانوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین اتنی بے باک ہوں کہ اپنا بیان نارمل طریقے‬
‫سے دے پائیں مگر ہمارے معاشرے کی ‪9‬ئ‪ 99‬فیصد خواتین کی بالکل الگ سوچ ہے۔ وہ اپنی روایات اور ثقافت کی پاسداری‬
‫کرنے والی اور شرم وحیا کی پیکر ہوتی ہیں ۔ ان کے لئے مردوں سے بھرے عدالتی چیمبر میں اورچارچار وکیلوں کی موجودگی‬
‫میں اس ظلم کی باریکیاں بیان کرنا کسی پہاڑ سے ٹکرانے سے زیادہ مشکل امر ہے۔''‪17‬‬

‫زنا کی شہادت میں فعل زنا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے‪ ،‬وگرنہ گواہ پرتہمت کی سزا عائد ہوگی جیساکہ حضرت‬
‫عمر نے مغیرہ بن شعبہ کے واقعہ میں اسی بنا پر حد قذف لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ حدود میں عورت کی گواہی کی راہ اختیار نہیں‬
‫کی گئی اور یہی وجہ مسلم فقہا نے ذکر کی ہے کہ‬

‫تقع في جو قذر مخز ال تتمکن المرأة غالبا فیه من االستعداد لتحمل الشھادة کما یقع في جریمتي الزنا واللواط حیث یشترط في الشھادة‬
‫رؤیة المیل في ال ُمکحلة‪18‬‬
‫'' گواہیاں ایسے مکدر اور شرمناک ماحول منس ہوتی ہیں جہاں خواتین کا عمل زنا کی گواہی دینے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ جیسے‬
‫کہ زنا اور لواطت کے جرائم کا تعلق ہے کیونکہ ان کی گواہی میں سرمہ والی لکڑی (سرمچو) کا سرمہ دانی میں داخل ہونے کو‬
‫اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی شہادت دینا ضروری ہے۔''‪19‬‬

‫پھریہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ گواہی کوئی حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ حق تو وہ ہے جس کا فائدہ اپنی ذات کو پہنچے‬
‫اور ذمہ داری وہ جس کو ادا کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ گواہی دینے والی عورت کو گواہی‬
‫دے کر کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ ممکن ہے کہ مغرب میں جہاں جدید تحریک نسواں کے بعد بعض تجدد پسند عورتیں مل کر اپنے آپ‬
‫کو ایک مجسم اکائی خیال کرتی ہوں اور اپنے بالمقابل مردوں کو ایک جنس ظالم باور کرکے ایک اکائی بتاتی ہوں لیکن اسالمی‬
‫معاشرے الحمد ہللا ابھی تک اس صنفی کشمکش اور تنائو سے آزاد ہیں ۔‬

‫جبکہ پاکستان میں عدالتوں کی موجودہ صورتحال اورسماعت کی طوالت کے باعث یہ ذمہ داری تو کوئی مرد بھی ادا کرنے کے‬
‫لئے آمادہ نہیں (‪ )ix‬کجا یہ کہ اسے عورتوں پر بھی عائد کردیا جائے۔‬

‫نبوی بہت کافی ہیں ‪ ،‬قرآن کریم میں زنا‬


‫ؐ‬ ‫یہ تو اس الہی حکم کی توجیہات ہیں ‪ ،‬وگرنہ مؤمن مردوزَ ن کے لئے قرآن اور فرامین‬
‫کے سلسلے میں صرف مرد گواہوں کا تین بار تذکرہ ہوا ہے ‪:‬‬

‫علَیْھ َن أ َ ْر َب َعة من ُك ْم‪...﴾١٥﴿...‬سورة النساء‬ ‫َوٱلَـتى َیأْتینَ ْٱلفَـح َ‬


‫شةَ من ن َ‬
‫سآئ ُك ْم فَٱ ْست َ ْشھدُوا َ‬

‫''جو عورتیں فحاشی کا ارتکاب کریں تو ان پر چار گواہ پیش کرو۔''‬

‫صنَـت ث ُ َم لَ ْم یَأْتُوا بأ َ ْربَعَة ُ‬


‫ش َھ َدآ َء‪...﴾٤﴿...‬سورة النور‬ ‫َوٱلَذینَ یَ ْر ُمونَ ْٱل ُم ْح َ‬

‫''وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر الزام تراشی کرتے ہیں اور چار گواہ بھی پیش نہیں کرتے‪''...‬‬

‫اور عدد معدود کے مسلمہ عربی قاعدے کی رو سے ‪ 3‬سے ‪ 10‬تک کا 'اسم عدد' اگر مؤنث ہو تو معدود الزما مذکر ہوگا‪ ،‬چنانچہ‬
‫سورة النور کی آیت میں أربعة شھداء میں أربعة مؤنث ہے لہذا اس سے مذکر گواہ ہی مراد ہوں گے۔ایسے ہی سورة البقرة کی آیت‬
‫أربعة منکم میں بھی أربعة اور منکم ہردو سے یہی دلیل ملتی ہے اور اسی مفہوم پر مفسرین کا اتفاق (‪)x‬ہے ۔‬

‫نبویہ میں ہے کہ ہالل بن اُمیہ نے شریک بن سحماء پر اپنی بیوی سے زنا کاری کا الزام لگایا تو نبی کریم‬
‫ؐ‬ ‫اس سلسلے میں احادیث‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬

‫أربعة شھداء وإال فحد في ظھرك‪20‬‬

‫''چار گواہ الئو‪ ،‬وگرنہ تیری پیٹھ پر(تہمت کی) حد لگے گی۔''‬
‫سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتا پائوں تو کیا میں اس کو مہلت دوں حتی آتي بأربعة‬
‫شہداء فقال رسول اہللا‪ :‬نعم ‪21‬‬

‫''حتی کہ میں چار مرد گواہ الئوں ؟ تو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جواب دیا‪ :‬ہاں ۔''‬

‫اس بارے میں خلفاے راشدین اورتابعین رحمۃ ہللا علیہ کے فرامین وواقعات مالحظہ فرمائیں ‪ ،‬مثال‬

‫مضت السنة من رسول اہللا ﷺ والخلیفتین من بعدہ ‪ :‬أن ال تجوز شھادة النساء في الحدود‪22‬‬

‫نبوی اور دونوں خلفا کے دورمیں یہ سنت چلی آتی ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی درست نہیں ۔''‬
‫ؐ‬ ‫''دور‬

‫حضرت علی سے مروی ہے کہ ال تجوز شھادة النساء في الطالق والنکاح والحدود والدماء‪23‬‬

‫''طالق ونکاح‪ ،‬حدود اور قتل وغیرہ میں عورتوں کی گواہی ازروئے شرع جائز نہیں ۔''‬

‫شعبی رحمۃ ہللا علیہ اور اعمش رحمۃ ہللا علیہ کہتے ہیں کہ ال تجوز شھادة النساء في الحدود‬

‫''حدود کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ۔''‪24‬‬

‫قتادہ رحمۃ ہللا علیہ کے پاس ایک واقعہ زنا میں ‪ 6‬عورتوں اورایک مرد نے گواہی دی توفرمایا‪:‬‬

‫ال تجوز شھادة النساء في حد‪25‬‬

‫''حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔''‬

‫مصنف عبد الرزاق میں ان واقعات کے ساتھ مزید کئی واقعات اور فرامین بھی موجود ہیں ‪ ،‬تفصیل کے لئے اس کا مطالعہ مفید‬
‫ہوگا ‪ ،‬پھر دور نبوی یا خالفت راشدہ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ خواتین کو گواہی کے لئے طلب کیا گیا ہو۔‬

‫مسلم علما وفقہا کا موقف بھی مالحظہ فرمائیں ‪26 :‬‬

‫أجمع المسلمون علی أنه ال تقبل في الزنا أقل من أربعة شھود‬

‫''مسلم علما کا اس امر پر اجماع ہے کہ زنا میں چار سے کم مردوں کی گواہی قابل قبول نہیں ۔ ''‬

‫حکومت کویت کے زیر نگرانی تیارکردہ مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ‬

‫وال تقبل شھادة النساء في الزنا بحال ْلن لفظ اْلربعة اسم لعدد المذکورین ویقتضي أن یکتفي به بأربعة وال خالف في أن اْلربعة إذا‬
‫کان بعضھم نساء ال یکتفي بھم ‪ ...‬وقال ابن عابدین‪ :‬المدخل لشھادة النساء في الحدود‪27‬‬
‫''حد زنا میں عورتوں کی گواہی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں کیونکہ أربعة سے چار مردوں کا ہی تعین ہوتا ہے (یہ مذکر کے‬
‫لئے اسم عدد ہے) جس کا تقاضا یہ ہے کہ چار مرد ہی کفایت کریں گے ‪ ،‬اس امر میں کوئی اختالف نہیں کہ اگرچارمیں سے‬
‫بعض عورتیں ہوں تو یہ گواہی کافی نہیں ہوگی۔ حنفی فقیہ قاضی ابن عابدین رحمۃ ہللا علیہ کا قول ہے کہ عورتوں کی گواہی کا‬
‫حدود میں کوئی کام نہیں ۔''‬

‫ان شرعی نصوص ‪ ،‬اجماع اور علما کے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شریعت اسالمیہ کا واضح حکم ہے۔ اس کی حکمتوں کی‬
‫جستجو تو کی جاسکتی ہے لیکن اس سے انکار کرنا کسی مسلمان کے لئے روا نہیں ۔ جو لوگ اسے عورتوں کے خالف امتیازی‬
‫قانون سمجھتے ہیں ‪ ،‬اُنہیں اس نصاب شہادت کو چارسے کم مسلمان مردوں کے لئے بھی امتیازی سمجھنا چاہئے کیونکہ شریعت‬
‫کی نظر میں وقوعہ تو دو گواہوں سے ثابت ہوجاتا ہے لیکن حضرت عمر نے مغیرہ بن شعبہ پر زنا کی تہمت کے ایک واقعہ میں‬
‫تین گواہوں پر حد قذف جاری کی تھی۔(‪)xi‬اس لئے یہاں اصل مسئلہ صنفی امتیاز کا نہیں بلکہ ہللا کے طے کردہ اور قرآن میں‬
‫ذکرکردہ نصاب شہادت کا ہے۔ البتہ بعض ایسے حاالت جن میں وقوعہ کے وقت صرف عورتیں ہی موجود ہوں تو بعض مسلم‬
‫علما مثال عالمہ ابن حزم رحمۃ ہللا علیہ نے بامر مجبوری آٹھ عورتوں کی گواہی کو حد زنا کے لئے کافی نصاب قرار دیا ہے۔ان‬
‫کے موقف اور دالئل کے لئے درج ذیل مراجع کی طرف رجوع مفید ہوگا۔ ‪28‬‬

‫ان تفصیالت سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کی گواہی کے سلسلے میں بھی حکومت کی مجوزہ ترمیم قرآن وسنت سے متصادم اور‬
‫حدود ہللا میں تحریف کی ایک کوشش ہے جسے تعجب ہے کہ حدود قوانین میں شریعت کے نام پر ہی محض آزاد خیال عورتوں‬
‫کی تائیدحاصل کرنے کے لئے داخل کیا جارہا ہے۔ لیکن اس تکلف کا کوئی فائدہ نہیں ‪ ،‬کیونکہ ایسی خواتین تو ویسے ہی حدود ہللا‬
‫کو وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیتی ہیں ۔ ایسی این جی اوز میں کام کرنے والے ایک فرد امان ہللا بلوچ کی زبانی اندرونی شہادت‬
‫سنئے‪:‬‬

‫''ان خواتین تنظیموں اورٹی وی چینلوں سے یہ سوال پوچھا جائے کہ اگر یہ ترمیم ہوبھی جائے اور چار خواتین کی گواہی پر حد‬
‫الگو ہو تو کیا وہ حدود آرڈیننس کو تسلیم کرلیں گے۔ ہرگز نہیں ‪ ،‬تمام حدود آرڈیننس میں صرف اس ایک شق پر اعتراض کیا جاتا‬
‫ہے ۔'' ‪29‬‬

‫زنا بالجبر میں عورت کی گواہی‬

‫شہادت نسواں کے حوالے سے ترمیم پر بحث کے خاتمے سے قبل ان اعتراضات کو بھی ایک نظر دیکھ لینا مفید ہوگا جو میڈیا پر‬
‫زنا بالجبر کے سلسلے میں خواتین کی گواہی کے حوالے سے تسلسل سے دہرائے جاتے رہے ہیں ‪ ،‬مثال‬

‫(‪ )1‬حدود قوانین کا زنا بالجبر کی صورت میں چار گواہوں کا تقاضا عمال ممکن نہیں ہے کیونکہ زنا بالجبر عموما اکیلے ہوتا ہے‪،‬‬
‫چند افراد کی موجودگی میں جبری زنا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔‬

‫اول تو یہ دعوی حدود قوانین پر محض الزام ہے کیونکہ حدود قوانین نے زنا بالجبر کے لئے چار گواہ ضروری ہی قرار نہیں‬
‫دیے‪ ،‬ان قوانین میں زنا(‪ )xii‬بالرضا اور زنا بالجبر کی سزا تعزیری ہے جس میں عام گواہیاں ویسے ہی قابل قبول ہنن ۔ چار‬
‫گواہوں کی ضرورت تو زنا کی شرعی سزا میں ہے اور شرعی سزا میں زنا بالجبر کو بحث میں ہی نہیں الیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ‬
‫وفاقی شرعی عدالت کے کئی فیصلے موجود ہیں ‪ ،‬جن میں زنا بالجبر کیلئے چار گواہوں کی ضرورت کو اضافی قرار دیا گیا ہے‪،‬‬
‫مثال‬
‫(‪ )1‬قانون شہادت ‪ 1984‬کے آرٹیکل ‪ 17‬کی ذیلی دفعہ' ‪ 2‬بی' میں صراحت کی گئی ہے کہ‬

‫''حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر‪ ،‬زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔‬
‫(یاد رہے کہ یہ سزا ‪ 10‬سے ‪ 25‬سال قید بامشقت اور جرمانہ ہے)''‬

‫جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ‪ 10‬سال سزا زنا بالرضا کی ہے اور ‪ 25‬سال زنا بالجبر کی ہے‪ ،‬تو گویا قانون شہادت کی یہ دفعہ دونوں‬
‫کو شامل ہے۔‬

‫(‪ )2‬عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرم زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت‬
‫کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔ عدالت عالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ذیل الفاظ میں صراحت کی ہے ‪:‬‬

‫''قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حاالت و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو‬
‫حاصل ہے۔'' ‪30‬‬

‫واضح ہے کہ حدود قوانین کے تحت تعزیری سزائوں کیلئے ہی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے۔‬

‫(‪ )3‬سپریم کورٹ‪ ،‬آزادکشمیر نے قصاص اور زنا کے مقدمات میں عورت کی گواہی کے حوالے سے مندرجہ ذیل اُصول بیان کیا‬
‫‪:‬‬

‫''قصاص اور نفاذ حدود کے مقدمات میں بھی چار مرد گواہوں کی شہادت کے بعد مزید شہادت کے لئے عورتوں کی گواہی میں‬
‫کوئی امر مانع نہیں ہے۔''‪31‬‬

‫اس فیصلے سے یہ واضح ہوتاہے کہ اگر خواتین یہ محسوس کریں کہ حد زنا کے کسی مقدمہ میں چار مرد گواہ غلط بیانی سے‬
‫کام لے رہے ہیں یا درست گواہی نہیں دے رہے ہیں تو واقعہ کی چشم دید گواہ عورتیں بھی عدالت کے روبرو گواہی دے سکتی‬
‫ہیں ۔ اور اصل حقائق کو عدالت کے علم میں النے کا حق رکھتی ہیں ۔‬

‫(‪1979 )4‬ء میں زنا بالجبر کے ایک مقدمے کافیصلہ تحریر کرتے ہوئے کراچی ہائی کورٹ نے صرف ایک مظلومہ عورت کے‬
‫بیان کو کافی گردانا اور قرار دیا کہ‬

‫''زنا بالجبر کے کیس میں مقدمہ کے حاالت و واقعات کے پیش نظر زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کے بیان پر ملزم کو سزا‬
‫دی جاسکتی ہے۔'' ‪32‬‬

‫چنانچہ جن لوگوں کو حدود ہللا ویسے ہی ظالمانہ نظر آتی ہیں ‪ ،‬وہ محض اعترا ض کرنے کے لئے چار مرد گواہ کی شق کو‬
‫سامنے لے آتے ہیں ‪ ،‬وگرنہ یہ چار مرد گواہ زنا بالجبر کی سزا کے لئے سرے سے ضروری ہی نہیں بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا‬
‫ہے کہ حدود قوانین میں تعزیرات پر عورت کو گواہی کے حق سے محروم نہیں کیاگیاہے بلکہ ان قوانین کے توسط سے ایک‬
‫عورت کی گواہی پر مجرم کو سابقہ قانون کی نسبت دوگنا زیادہ سزا کے مواقع میسر آگئے ہیں ۔‬

‫جہاں تک اس دعوی کا تعلق ہے کہ زنا بالجبر میں ایک سے زیادہ گواہ ملتے نہیں تو یہ بھی محض خام خیالی ہے۔کیونکہ بعض‬
‫اوقات زنا کے آخری مراحل میں بعض افراد کو علم ہوتا ہے اور فعل زنا واقع ہوچکا ہوتا ہے‪ ،‬ایسی صورت میں وہ لوگ جبری‬
‫زنا کی گواہی تو دے سکتے ہیں لیکن اس کو روکنے پر قادر نہیں ہوتے کیونکہ وہ واقعہ ہوچکا۔یہ صورت اکثر تب پیش آتی ہے‬
‫جب خاتون کو تالش کرتے یا اس کی پکار سنتے ہوئے چند لوگ تاخیر سے پہنچیں ۔‬

‫کسی خاندان سے دیرینہ دشمنی کا بدلہ لینے یا اس کی عزت خاک میں مالنے کے لئے بعض اوقات کچھ شیطان صفت لوگ اسلحہ‬
‫کے زور پر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور لوگ اُنہیں روکنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات ڈاکوبھی ایسی وارداتیں کرتے‬
‫ہیں کہ اہل خانہ کو زنا سے روکنے کی مجا ل نہیں ہوتی بلکہ پاکستان کے قبائلی نظام میں بعض جرگے بھی متاثرہ فریق کو زنا‬
‫کی اجازت دے کر اپنے سامنے ایسے ظالمانہ فیصلے پرعمل کرواتے ہیں ۔ اس لئے یہ دعوی بھی درست نہیں کہ زنا بالجبر میں‬
‫چار گواہوں کا ملنا ناممکن ہے۔‬

‫(‪ )2‬یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ پرزنا بالجبر کا مقدمہ لے کر جاتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم اپنی‬
‫بریت پر چار گواہ پیش کرو‪ ،‬وگرنہ خود سزا بھگتو۔‬

‫حدود قوانین میں تو ایسی کوئی شق موجود نہیں ‪ ،‬اسی لئے شرعی عدالت کے فیصلے یا سزا سنانے کے مرحلے میں بھی کبھی‬
‫اس کا اتفاق نہیں ہوا‪ ،‬جسٹس تقی عثمانی اپنے کتابچہ میں لکھتے ہیں کہ‬

‫''ایسے کیسوں کی سترہ سالہ سماعت کے دوران مجھے کوئی ایسا کیس یاد نہیں جس میں کوئی عورت زنا بالجبر کی شکایت الئی‬
‫ہو اور مرد کو چھوڑ کر خود اسے زنا بالرضا کی سزا سنادی گئی ہو۔'' ‪33‬‬

‫البتہ پولیس کی دھاندلی یا عدم تربیت کے نتیجہ میں اس کا امکان بعید از قیاس نہیں ۔ اس کے لئے حدود قوانین کی بجائے پولیس‬
‫کی اصالح اور تربیت ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالتنے بھی اپنے ایک فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ‬

‫''اگر کسی عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس جرم کے سرزد ہونے کے بعد زیادتی کی شکار عورت کو کسی طرح کی‬
‫سزا نہیں دی جاسکتی۔ چاہے وہ حد ہو یا تعزیر‪ ،‬البتہ دوسرا فریق جو زیادتی کا مرتکب ہوا ہے‪ ،‬وہ نفاذ یا تعزیری سزا کا مستحق‬
‫ہے۔''‪34‬‬

‫جہاں تک اسالم کا تعلق ہے تو اسالم نے تو عورت پر جبر کی صورت میں متاثرہ عورت کی بریت کے لئے محض اس کے بیان‬
‫اور قرائن کی شرط لگائی ہے اور جبر ثابت ہونے کی صورت میں ظالم پر مہر مثل کی ادائیگی یا ایک تہائی دیت اور قاضی کو‬
‫عورت کی دل جوئی کی ہدایت کی ہے جس کی تفصیل پیچھے صفحہ نمبر ‪ 8‬کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔‬

‫(‪ )3‬یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر زنا بالجبرمیں متاثرہ عورت اپنی بریت سے بڑھ کر ظالم مرد کو سزا دلوانا چاہتی ہو تو‬
‫اس کی گواہی کو حدود قوانین میں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔‬

‫دراصل عورت سے جبری زنا ایسی زیادتی ہے جس پر ہر غیرت مند مسلمان متاثرہ عورت سے شدید ہمدردی محسوس کرتا ہے۔‬
‫ہمدردی اور غمخواری اپنی جگہ لیکن عدل وانصاف کے فیصلے جذبات سے ہٹ کر واضح میزان پر ہی کئے جاتے ہیں ۔ جس‬
‫طرح کسی بھی جرم میں محض ایک متاثرہ شخص کا ملزم پر محض دعوی کردینا کافی نہیں بلکہ اسے قانونی تقاضے بھی پورے‬
‫کرنا ہوتے ہیں ‪ ،‬ایسے ہی یہاں بھی توازن کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ جبری زنا کی شکار عورت ہوتی ہے‬
‫لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض عورت کے بیان کو ہی میزان عدل قرار دے لیا جائے۔ متعدد واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں‬
‫عورت محض مرد کو بدنام کرنے کی غرض سے اس پر ایسا الزام لگا دیتی ہے۔ جیسا کہ ایسا ہی ایک واقعہ نبی صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے ذکر فرمایا‪:‬‬

‫''بنی اسرائیل میں ُجریج نامی ایک نیک آدمی نے ایک بار ماں کی بات نہ مانی تو اس کی ماں نے اسے بدنامی کی بددعادی۔جس‬
‫کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روزایک عورت نے اسے بدکاری کی دعوت دی‪ ،‬اس نے انکار کیا تو اس عورت نے ایک چرواہے سے‬
‫بدکاری کرکے پیدا ہونے والے بچے کو جریج کے نام مڑھ دیا۔ لوگوں نے یہ صورتحال دیکھ کر اس کی عبادت گاہ توڑ دی اور‬
‫اس کو خوب بدنام کیا۔ تب جریج نے نماز پڑھ کر ہللا سے اپنی صفائی کی دعا کی‪ ،‬تو ہللا نے اس پیدا ہونے والے بچے کو بولنے‬
‫کی صالحیت دے دی او راس نے کہا کہ ''میرا باپ تو فالں چرواہا ہے۔'' یہ بچہ ان تین بچوں میں سے ایک تھا جنہوں نے گود‬
‫میں بولنا شروع کردیا‪ ،‬دوسرے حضرت عیسی ہیں ۔'' مختصرا‪35‬‬

‫مسلم فقیہ محمد فاسی مالکی لکھتے ہیں کہ کوئی عورت اگر یہ دعوی کرے کہ اس سے زنا بالجبر ہوا ہے ‪ ،‬اور اس کے پاس‬
‫کوئی گواہ نہ ہو تو ا س صورت میں دیکھا جائے گا کہ‬

‫أن تدعي ذلك علی رجل صالح ال یلیق به ذلك وھي غیر متعلقة به فھذا ال خالف أنه ال شيء علی الرجل وإنھا تحد له حد القاذف وحد‬
‫الزنا إن ظھر بھا حمل‪36‬‬

‫''اگر تو جس پر الزام لگایا جارہا ہے ‪ ،‬وہ نیک شخص ہو اور ایسا فعل بد اس کے الئق نہ ہو اور اس عورت کا اس سے کوئی‬
‫تعلق بھی نہ ہو تو سب کا اس امرپر اتفاق ہے کہ اس آدمی کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی‪ ،‬اور اس عورت پر حد تہمت لگے‬
‫گی‪ ،‬اور اگر اسے حمل ہوجائے تو پھر اس عورت پر حد زنا بھی جاری ہوگی۔'' پتہ چال کہ زنا بالجبر میں اکیلی عورت کا بیان‬
‫کافی نہیں ہے۔‬

‫اگر اس مرحلہ پر کسی عورت کا اکیال بیان ہی مرد کو زانی ثابت کرنے کے لئے کافی ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زنا کے‬
‫تمام جرائم کا فیصلہ ہر وقت عورت کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس بنا پر عورت کا زنا کے الزام میں سزا پانا بھی ناممکن ہوجائے گا‬
‫باوجود اس کے کہ اس نے رضامندی سے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ عورت جب چاہے گی تو اس کو زنا بالجبر قرار دے کراپنے‬
‫آپ کو تو بری کرا لے گی لیکن مرد کو زنا کی سنگین سزا سے دوچار کردے گی۔ زنابالجبر میں اس پہلو کے حوالے سے قانون‬
‫سازی کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ زنا کی سزا عورت کے رحم وکرم پر ہوجائے گی۔ چنانچہ اسی حوالے سے قانون کے غلط استعما‬
‫ل کی نشاندہی امریکی سکالر نے بھی کی ہے‪:‬‬

‫''جن عورتوں کو دفعہ ‪ )2( 10‬کے تحت (زنا بالرضا کے جرم میں ) سزا یاب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ‪ ،‬وہ اپنے مبینہ شریک جرم‬
‫کے خالف دفعہ ‪ )3(10‬کے تحت (زنا بالجبر) کا الزام لے کر آجاتی ہیں ۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ ایسا کوئی قرینہ نہیں‬
‫ملتا جو زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے‪ ،‬اس لئے وہ مرد ملزم کو زنا بالرضا کی سزا دے دیتا ہے اور عورت شک کے‬
‫فائدے کی بنا پر ہر غلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔'' ‪37‬‬

‫ان واقعاتی حقائق کو نظر انداز کرکے صرف مرد کو صنف ظالم سمجھ کر عورت کے حق میں قانون سازی بذات خود صنفی‬
‫امتیاز کا مظہر ہوگا۔تحریک نسواں کی پروردہ خواتین عورتوں کو یہ حق دال کر زنا کے سارے واقعات کا تما م ملبہ ایک طرف‬
‫تو صرف مردوں پر گرانا چاہتی ہیں اور دوسری طرف عورت کی سزا کو عمال معطل کرکے مردوں کو ہر وقت اپنے رحم وکرم‬
‫پر رکھنا چاہتی ہیں ۔‬

‫بعض لوگوں نے گذشتہ صفحات میں نماز کے لئے جانے والی عورت سے زنا بالجبر کے واقعے سے یہ استدالل کیا ہے کہ جبر‬
‫کی صورت میں اکیلی عورت کا بیان کافی سمجھا جائے گا۔ (مناسب ہوگا کہ ا س واقعے پر بحث سے قبل اصل حدیث کا مطالعہ‬
‫دوبارہ صفحہ ‪ 11‬سے کرلیا جائے)‬

‫(‪ )1‬بعض علما کے نزدیک یہ حدیث ہی مستند نہیں بلکہ اس کے راویوں میں ضعف اور متن میں اضطراب پایا جاتا ہے جیساکہ‬
‫حافظ ابن حزم رحمۃ ہللا علیہ کا دعوی ہے۔‬
‫(‪ )2‬عالمہ البانی رحمۃ ہللا علیہ کا موقف یہ ہے کہ اس واقعہ میں رجم کا حکم دینا ثابت شدہ نہیں ‪:‬‬

‫'حسن' دون قوله ارجموہ واْلرجح أنه لم یُرجم‪38‬‬

‫''یہ حدیث حسن(مقبول) ہے سوائے رجم کے حکم کے(جو ثابت شدہ نہیں ہے) راجح بات یہی ہے کہ اسے رجم نہیں کیا گیا ۔ '' ‪39‬‬

‫حافظ ابن قیم رحمۃ ہللا علیہ نے بھی رجم کے حکم کو راوی کا تصرف قرار دیا ہے۔‪40‬‬

‫(‪ )3‬سنن ابو دائود کی شرح عون المعبود کے شارح اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫والیخفی أنه بظاھرہ مشکل إذ الیستقیم اْلمر بالرجم من غیرإقرار وال بینة وقول المرأة ال یصلح بینة بل ھي التي تستحق أن تُحد حد‬
‫القذف فلعل المراد‪ :‬فلما قارب أن یأمر به وذلك قاله الراوي نظرا إلی ظاھر اْلمر ‪ ...‬واإلمام اشتغل بالتفتیش عن حاله۔ ‪41‬‬

‫''ظاہر ہے کہ یہ ایک پیچیدہ حدیث ہے کیونکہ رجم تو اعتراف یا گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ اور عورت کا محض کہہ دینا‬
‫آپ حکم‬ ‫کافی گواہی نہیں ہے بلکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اس بنا پر عورت کو حد قذف لگائی جاتی۔شاید اس سے مراد یہ ہو کہ ابھی ؐ‬
‫سنانے ہی والے تھے اور راوی نے ظاہری حاالت کے پیش نظر یہ بات از خود روایت کردی ہے‪ ،‬حاالنکہ اس دوران حاکم ابھی‬
‫تفتیشی مراحل میں ہی مشغول تھا۔''‬

‫بالفرض رجم کا حکم ثابت ہو بھی ہوجائے تو اس واقعہ کی مکمل تفصیالت جو مسند احمد اور سنن بیہقی وغیرہ میں ذکر ہوئی ہیں‬
‫‪ ،‬سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا اس واقعہ میں رجم کا حکم سنانا ایک تفتیشی مرحلہ ہی تھاکہ آپ‬
‫نے ایک عورت کی شکایت پر الزامات کی تحقیق شروع کردی لیکن آخر کار اس واقعہ میں کسی شخص کو بھی رجم کی سزا دی‬
‫نہیں دی گئی۔ ‪42‬‬

‫سلیمان نے دو عورتوں کے درمیانبچے کا‬


‫ؑ‬ ‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا رجم کایہ حکم اس واقعہ کے مشابہ ہے جب حضرت‬
‫فیصلہ کرنے کے لئے بچے کو کاٹنے کا حکم سنایا تھا لیکن اس کو کاٹا نہیں تھا۔‬

‫(‪ )4‬بفرض محال اگر رجم کا حکم دینا مان بھی لیا جائے تواس کی وجہ محض ایک عورت کے الزام کی بجائے دراصل ملزم کی‬
‫خاموشی یعنی اعتراف ہے‪ ،‬وگرنہ اس کے انکار کرنے کا احادیث میں تذکرہ ملنا چاہئے۔ حافظ ابن قیم اعالم الموقعین میں فرماتے‬
‫ہیں ‪:‬‬

‫فإن قیل‪ :‬کیف أَمر برجم البريء؟ قیل‪ :‬لو أنکر لم یَرجمه ولکن لما أُخذ وقالت ھو ھذا ولم یُنکر ولم یَحتج عن نفسه فاتفق مجيء القوم به‬
‫في صورة المریب وقول المرأة ھذا ھو وسکوته سکوت المریب ‪43‬‬

‫''اگریہ اعتراض کیا جائے کہ پھر ایک بری شخص کے رجم کا حکم کیوں دیا گیا؟ تو کہا جائے گا‪ :‬اگر وہ انکار کرتا تو اسکے‬
‫رجم کا حکم نہ دیا جاتا۔ لیکن جب اسے پکڑا گیا اور عورت نے بھی کہہ دیا کہ یہی ہے وہ اور اس نے انکار بھی نہیں کیااو‬
‫راپنے بارے میں کوئی حیل وحجت بھی نہیں کی پھر تمام لوگوں کا اسے مشکوک حالت میں پکڑ کر النا‪ ،‬اس کے بعد عورت کا‬
‫اسے متعین کردینا اور اس پر اس کا خاموش رہنا۔ '' (یہ واقعاتی حقائق گویا اسکے اعترا ف کی طرف ہی اشارہ کررہے ہیں )‬

‫الغرض (‪ )1‬اول تو اس مکمل واقعہ کی صحت ہی مشکوک ہے۔(‪ )2‬پھراس واقعہ میں رجم کی سزا کا سنایا جاناثابت شدہ ہی نہیں‬
‫۔(‪ )3‬بالفرض ثابت شدہ مان بھی لیا جائے تو یہ ایک تفتیشی مرحلہ کا بیان ہے کیونکہ زنا کاالزام چار گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں‬
‫ہوتا۔ (‪)4‬اگر کسی کو پھر بھی حکم رجم پر اصرار ہو تو اس سزا کو سنانے کی وجہ اس شخص کی الزام پر خاموشی گویا‬
‫اعتراف کرنا ہے‪ ،‬نہ کہ محض عورت کا الزام لگا دینا۔(‪)5‬اور آخرکار تمام احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ اس کو رجم کی سزا‬
‫دی نہیں گئی‪ ،‬بلکہ سب کو معاف کردیا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کی گواہیاں پوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیس حدود ہللا‬
‫سے نکل کر عام جرائم میں آگیا تھا‪ ،‬جہاں قاضی معافی دے سکتا ہے۔‬
‫زنا بالجبر کی صورت میں 'زنا' اور 'حرابہ' میں ادغام یا اشتراک؟‬

‫چونکہ زیر بحث ترامیم میں زنا بالجبر ہی خصوصی موضوع رہا ہے‪ ،‬اس لئے جوواقعات میڈیا پر پیش کئے جاتے رہے‪ ،‬ان کے‬
‫بارے منر اسالم کا موقف باالختصار واضح رہنا چاہئے‪:‬‬

‫اسالم میں زنا ایک سنگین جرم ہے اور کسی کو اعتراف یا چار گواہوں کے بغیر زنا کی سزا نہیں دی جاسکتی جیسا کہ مغیرہ بن‬
‫شعبہ کے سلسلے میں حضرت عمر کا مشہور واقعہ موجود ہے۔ البتہ زنا بالجبر ایسی صورت ہے جہاں دوجرائم باہم خلط ملط‬
‫ہوجاتے ہیں ‪ ،‬اس کی چار صورتیں بنتی ہیں جن میں پہلی تینوں صورتیں ایسی ہیں جہاں چاروں گواہیاں موجود ہیں ‪:‬‬

‫(‪ )1‬زنا بالجبر کی عام صورتوں میں زانی کو ‪ 100‬کوڑے یا سنگساری کی سزا ہی دی جائے گی‪ ،‬جیسے کہ آغاز میں واقعات‬
‫گزرچکے ہیں ۔ دیکھیں صفحہ نمبر‪ 10‬پر حضرت ابوبکر وعمر کے فیصلے‬

‫امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں ‪ :‬وعلی المستکرہ حد الرجم إن کان ثیبا والجلد والنفي إن کان بکرا‪44‬‬

‫''جبر کرنیواال اگر شادی شدہ ہے تو اس کی سزا سنگساری ‪ ،‬اگر کنوارا ہے تو کوڑے اورجالوطنی۔''‬

‫(‪ )2‬جہاں زنا بالجبر کے ساتھ اغوا‪ ،‬برہنہ کرنایا اجتماعی زیادتی وغیرہ بھی شامل ہوجائے تو شادی شدہ کے لئے سنگساری سے‬
‫بڑی مزید کسی سزا کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔(جو لوگ رجم کے منکر ہیں ‪ ،‬ان کے نزدیک یہ صورت بنتی نہیں ‪ ،‬ا س لئے‬
‫وہ فورا حرابہ کی طرف لپکتے ہیں )‬

‫(‪ )3‬البتہ ایسی صورت میں جب کنوارا سنگین زنا بالجبر کا ارتکاب کرے تو اس پر بیک وقت دو سزائیں بھی عائد ہوسکتی ہیں‬
‫‪:‬کنوارے زانی کی حد اور ا س کے بعد فساد فی االرض کی تعزیر‬

‫دو سزائوں کی جمع کرنے کی دلیل حضرت علی کا یہ فیصلہ بھی ہے جو شعبی سے مروی ہے‪:‬‬

‫'' أن علیا قال لشراحة لعلك استکرھت لعل زوجك أتاك لعلك لعلك قالت‪ :‬ال۔قال‪ :‬فلما وضعت ما في بطنھا َجلَ َدھا ثم رج َمھا فقیل له‬
‫جلدتھا ثم رجمتھا؟ (وفي روایة‪ :‬جمعت علیه حدین) قال جلدتھا بکتاب اہللا ورجمتھا بسنة رسول اہللا‪45‬‬

‫'' حضرت علی نے شراحہ سے پوچھا‪:‬شاید کہ تجھ سے زنا بالجبر ہوا ہو‪ ،‬شاید کہ تیرا شوہر تیرے پاس آیا ہو‪ ،‬شاید یہ اور یہ‬
‫لیکن وہ عورت بولی‪ :‬نہیں ۔سو جب اس عورت نے بچہ جن دیا جو اس کے پیٹ میں تھا تو آپ نے (جمعرات کو) اسے ‪100‬‬
‫کوڑے مارے اور (جمعہ کو ) رجم کردیا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے پہلے کوڑے مارے پھر رجم کردیا؟ (اور ایک روایت میں‬
‫ہے کہ دو حدیں جمع کردیں ؟) تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے کتاب ہللا کی وجہ سے ‪ 100‬کوڑے مارے اور سنت رسو ؐل کی‬
‫وجہ سے رجم کیا۔ '' ‪46‬‬

‫جسٹس موالنا محمد تقی عثمانی کا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ‬

‫''زنا بالجبر پر شادی شدہ کے لئے تو سنگساری سے مزید سنگین کیا سزا ہوسکتی ہے؟ البتہ کنوارے کیلئے ‪ 100‬کوڑے ہی‬
‫ہے۔اور حدود قوانین کی دفعہ ‪ )3(6‬میں عدالت کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ جبر کی صورت میں کوئی اور سزا 'بھی' دے‬
‫سکتی ہے۔'' ‪47‬‬

‫(‪ )4‬زناکی سزا تو چار گواہوں یا اعتراف کے بغیر دی نہیں جاسکتی‪ ،‬اب جن حاالت میں عورت کے ساتھ سنگین زیادتی کے‬
‫واضح قرائن موجود ہوں اور معاشرے میں خوف وہراس پھیال ہو لیکن چار گواہیاں موجود نہ ہوں توایسی صورت میں قاضی کو‬
‫اختیار ہے کہ وہ معاملہ کی سنگینی کے مطابق حرابہ کی چاروں قرآنی سزائوں میں جو بھی اختیار کرلے‪ :‬مجرم کو ٹکڑے‬
‫ٹکڑے کرنا‪ ،‬سولی چڑھانا‪ ،‬مخالف سمت سے ہاتھ پائوں کاٹنا یا کم تر سزا محض جالوطن کردینا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ حرابہ‬
‫کی سزا (تعزیر) حدود میں شامل نہیں اور قابل معافی بھی ہے اور یہاں چار گواہوں کی ضرورت بھی نہیں بلکہ دو گواہوں یا‬
‫محض قرائن سے بھی کام چل سکتا ہے۔‬

‫‪3‬؍اگست کو ہمدرد سنٹر میں حدود قوانین پر علما کے اجالس کے اعالمیہ کی ایک شق یہ ہے‪:‬‬

‫''زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی تقسیم کرکے زنا بالجبر کو حرابہ کے تحت داخل کرنا قرآن وسنت کی باطل تعبیر ہے۔ زنا کے لئے‬
‫موجب حد نصاب شہادت دستیاب نہ ہو اور اقرار جرم بھی نہ ہو لیکن کم تر شہادت یا قرائن قطعیہ غالبہ موجود ہوں اور قاضی کو‬
‫ارتکاب جرم کا ظن غالب یا یقین ہوجائے تو وہ مجرم کو تعزیرا انتہائی سزا بھی دے سکتا ہے۔'' مختصرا‬

‫اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ اسالم کی رو سے زنا بالجبر کی سزا اور نصاب شہادت میں عام زنا سے کوئی فرق نہیں ‪ ،‬البتہ‬
‫حاالت کی سنگینی کے تحت قاضی اس میں فساد فی االرض کے جرم کو شامل کرسکتا ہے لیکن دونوں جرائم کو خلط ملط کرنے‬
‫کی بجائے اُنہیں قرآنی سیاق میں ہی رہنے دیا جائے کیونکہ ہر دو نوعیت کے جرائم کے احکام‪،‬طریقہ ثبوت اور حکمتیں علیحدہ‬
‫علیحدہ ہیں ۔‬

‫الغرض شریعت اسالمیہ کے موقف اور مجوزہ ترامیم میں دو اساسی فرق ہیں ‪:‬‬

‫(‪)1‬جرم کی بعض صورتوں میں دو تین جرائم کا ارتکاب ہوسکتا ہے مثال کسی واردات میں چوری اور زنا دونوں جمع ہوسکتے‬
‫ہیں لیکن دونوں جرائم کی تفصیالت اپنی اپنی جگہ باقی رہتی ہیں ۔ جبکہ مجوزہ ترامیم میں زنا بالجبر کو ایک مستقل جرم قرار‬
‫دے کر حرابہ بنایا جارہا ہے اور اس طرح زنا کو اس نصاب شہادت اور سزا سے نکاال جارہا ہے جو اسالم نے مقرر کی ہے۔ یہ‬
‫موقف درست نہیں ۔ موالنا عبد الرحمن مدنی کا محدث (شمارۂ جون) میں اس پر موقف شائع ہوچکا ہے ‪:‬‬

‫''زنا بالجبر کا جرم حرابہ سے کوئی تعلق نہیں ‪ ،‬زنا کی سزا قرآن وسنت میں واضح طورپر بیان کردی گئی ہے‪ ،‬اس میں سے زنا‬
‫بالجبر کو خاص کرکے حرابہ کے تحت داخل کرنے کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں ‪ ،‬نہ خلفاے راشدین کے دور سے‬
‫اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔'' ‪48‬‬

‫(‪ )2‬اسالم کی رو سے ان دو جرائم کا اشتراک ہر زنا بالجبر میں نہیں بلکہ جہاں صورتحال میں شدت آجائے او ر خوف وہراس‬
‫(فساد فی االرض) پیدا ہو‪ ،‬صرف وہیں ہوتا ہے۔ چونکہ مغرب میں زنا کا فلسفہ دراصل جبر کی بجائے محض عدم رضامندی کا‬
‫ہے‪ ،‬اس لئے وہاں ہر صورتحال کی ایک ہی سزا ہے‪ ،‬جبکہ اسالم میں محض سنگین صورتحال میں دو جرائم الگو ہوسکتے ہیں‬
‫یا محض اکیال جرم فساد فی االرض الگو ہوسکتا ہے‪ ،‬جب چار گواہ موجود نہ ہوں ۔‬

‫کریم نے اس کو حرابہ کا جرم قرار دیا اور اسی بنا‬


‫ؐ‬ ‫مثال‪ :‬اوپر جو واقعہ گزرا ہے ‪ ،‬اس میں گواہیاں پوری نہ ہونے کی بنا پر نبی‬
‫آپ نے دوسرے شخص کے اعتراف کو گرفتاری سے قبل توبہ پر محمول کیا اور اس کو معاف کرکے حضرت عمر کے‬ ‫پر ؐ‬
‫سامنے اس کی توبہ کی تعریف کی‪:‬‬
‫''فقام رجل من الناس فقال‪ :‬ال ترجموہ وارجموني۔أنا الذي فعلتُ بھا الفعل فا ْعت ََر َ‬
‫ف فاجتمع ثالثة عند رسول اہللا ﷺ‪ :‬الذي وقع علیھا‬
‫والذي أجابھا والمرأة۔ فقال‪ :‬أما أنت فقد غفر اہللا لک وقال للذي أجابھا قوال حسنا فقال عمر‪ :‬ارجم الذي اعترف بالزنا۔قال رسول اہللا‬
‫ﷺ‪ :‬ال‪ْ،‬لنه قد تاب إلی اہللا توبة لو تابھا أھل المدینة لقُبل منھم فأرسلھم۔‪49‬‬

‫''لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اس کی بجائے مجھے رجم کرو۔ میں نے یہ بد کاری کی ہے‪ ،‬سو اس‬
‫نے اعتراف (جرم )کرلیا۔ اب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس ‪ 3‬لوگ موجود تھے‪ ،‬ایک تو (بظاہر) زانی‪ ،‬دوسرا جس نے‬
‫اعتراف کیا اور تیسری (مظلوم) عورت۔ آپ نے فرمایا ‪ :‬اے عورت تو چلی جا‪ ،‬تجھے ہللا نے معاف کردیا۔ جس شخص نے اعترا‬
‫ف کیا ‪ ،‬آپ نے اس کے لئے بھی اچھے کلمات کہے۔حضرت عمر کہنے لگے‪ :‬اس کو تو رجم کریں جس نے زنا کا اعتراف کیا‬
‫ہے تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے جواب دیا‪ :‬نہیں بلکہ اس نے ہللا کے ہاں توبہ کی ہے‪ ،‬سو آپ نے سب کو چھوڑ دیا۔''‬

‫او رمسند احمد میں اس حدیث کے راوی محمد بن عبد ہللا بن زبیر بھی کہتے ہیں ‪:‬‬

‫فقد صرح ابن الزبیر بأن الحد لم یقم علی المعترف وھو الصواب‬

‫''ابن زبیر نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اعتراف کرنے والے پر حد قائم نہیں کی گئی اور یہی بات درست ہے۔'' ‪50‬‬

‫امام بیہقی نے اپنی سنن میں بھی اس حدیث سے یہی استدالل کیا ہے‪ ،‬لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫فعلی ھذہ الروایة یحتمل أنه إنما أمر بتعزیرہ ویحتمل أنھم شھدوا علیه بالزنا وأخطأوا في ذلك حتی قام صاحبھا فاعترف بالزنا وقد وجد‬
‫مثل اعترافه من ماعز والجھنیة والغامدیة ولم یسقط حدودھم أحادیثھم أکثر‬

‫''اس روایت کی بنا پر احتمال ہے کہ آپ نے اس پر تعزیر کا حکم لگایا ہو۔ کیونکہ امکان ہے کہ گواہوں نے زنا کی گواہی میں‬
‫غلطی کھائی ہو اور اصل مجرم نے خود ہی زنا کا اعتراف کیا ہو۔ (تعزیر قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ) ماعز‪ ،‬جہنیہ‪ ،‬غامدیہ‬
‫وغیرہ نے بھی ایسا اعتراف کیا لیکن ان کی حدود کو تو ساقط نہیں کیا گیا۔''‪51‬‬

‫ممکن ہے یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ دوسرے ملزم کے اعتراف کے بعد اسے حرابہ (تعزیر ) میں لے جانے کی ضرورت ہی‬
‫نہیں رہتی بلکہ حد کے تقاضے(چارگواہ یا اعتراف) پورے ہوجاتے ہیں ۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں دو مردوں کا اعتراف ثابت‬
‫ہورہا ہے ‪ ،‬پہلے کا اعتراف زبان حال سے اور دوسرے کا زبان قال سے۔ایک طرف یہ دونوں اعتراف ٹکڑا رہے ہیں تو دوسری‬
‫طرف یہ بھی احتمال ہے کہ دوسرے نے محض پہلے کو بچانے کی خاطر یہ اعتراف کرلیا ہو۔ اس بنا پر شبہ پیدا ہوگیا اور شبہ‬
‫میں بھی حدود ساقط ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے حرابہ کی تعزیر کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔اورتعزیر میں قبل از گرفتاری توبہ یا { َو َم ْن‬
‫أَحْ یَاھَا فَ َكأَنَ َما أَحْ یَا النَ َ‬
‫اس َجمیعا} کے تحت ا س کو بھی معاف کردیا گیا ہو۔ وہللا اعلم‬

‫تیسری ترمیم بہ سلسلہ عمر‬

‫حدود قوانین میں بالغ لڑکی پر مقدمہ بنادیا جاتا تھا اور اس عمر میں ذ ہنی بلوغت نہیں ہوپاتی جبکہ لڑکے کے لئے کم از کم ‪18‬‬
‫سال کی عمرمتعین کی گئی تھی۔ چنانچہ 'موجودہ' قانون میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے عمر کا تعین ‪ 18‬سال کردیا گیا ہے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬یہ ترمیم بھی عجیب ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ زنا کا تعلق ذ ہنی بلوغت کی بجائے جسمانی بلوغت سے ہے۔مغربی‬
‫ممالک کے اعداد وشمار پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سکول کی تعلیم کے دوران ہی کتنے بچے جنسی تعلقات قائم کرلیتے ہیں‬
‫اور کتنی لڑکیاں اسی عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں جبکہ سکول کی تعلیم کا مرحلہ ‪ 18‬سال سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔‬

‫اسالم نے جسمانی صالحیتوں کے لئے عالمات بلوغ کو ہی بنیاد بنانے کو ترجیح دی ہے۔ جیساکہ حضرت عبد ہللا بن عمر کا واقعہ‬
‫ہے کہ‬

‫عرضت علی رسول اہللا یوم أحد وأنا ابن أربع عشرة فلم یجزني ولم یرني بلغتُ ثم عرضت علیه یوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة‬
‫فأجازني‬

‫'' مجھے جنگ اُحد کے موقع پر نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس الیا گیا اور اس وقت میری عمر‪ 14‬برس تھی‪ ،‬تو ؐ‬
‫آپ نے‬
‫نہ تو مجھے اجازت دی اور نہ ہی مجھے دیکھا کہ میں بالغ ہوا ہوں ؟ پھر دوبارہ مجھے جنگ احزاب کے موقع پر الیا گیا جبکہ‬
‫آپ نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔''‪52‬‬ ‫میری عمر ‪ 15‬برس ہوچکی تھی تو ؐ‬

‫صحیح مسلم میں ہے کہ جب میں نے عمر بن عبد العزیزکو یہ واقعہ بتایا تو آپ نے فرمایا‪:‬‬

‫إن ھذا لحد بین الصغیر والکبیر‪53‬‬

‫''چھوٹے اور بڑے میں یہی حد بندی ہے۔''‬

‫ازروئے اسالم جرم پر مسئولیت کا تعلق مردوزن ہر دو کے لئے عمرکی بجائے جسمانی عالمات بلوغ سے جوڑنا زیادہ بہتر‬
‫ہے۔‪54‬‬

‫اس ترمیم پر ملکی قانون کی رو سے اعتراضات حسب ذیل ہیں ‪:‬‬

‫(‪ )1‬پاکستان کا عائلی قانون تو لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر‪ 16‬سال اور لڑکے کی ‪ 18‬سال بتاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ‬
‫اس عمر میں لڑکی سے جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ اس ترمیم میں یہ عمر ‪ 18‬سال ذکر کی گئی ہے‪ ،‬گویا یہ ترمیم‬
‫عائلی قانون سے ہی متصادم ہے ۔‬

‫(‪ )2‬مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ‪ 83‬کی رو سے ‪ 7‬سے ‪ 12‬سال کے بچے کو فوجداری مسئولیت سے مستثنی کیا گیا ہے‪،‬‬
‫اس سے بڑی عمر کے بچے کو یہ رعایت حاصل نہیں ۔ زنا کے جرم کو ہی ایسی رعایت کیوں کہ اس کی سزا کے لئے ‪ 18‬سال‬
‫کی شرط لگا دی جائے۔‬

‫(‪ )3‬اس ترمیم کو تسلیم کرلینے سے ‪ 18‬سال سے چھوٹے لڑکے ؍ لڑکیوں کے جنسی تعلقات قانون کی گرفت سے باہر نکل جائیں‬
‫گے۔ اس عمر میں گناہ کی کھلی چھوٹ سے جس زندگی کی عادت پیدا ہوگی‪ ،‬بعد میں اسے کیوں کر روکا جاسکتا ہے ؟‬

‫(‪ )4‬یہ قانون فطرت کے خالف ہے جس میں لڑکیاں لڑکوں سے پہلے بالغ ہوجاتی ہیں ۔ ایسے ہی لڑکے تو بلوغت کے بعد ہی‬
‫جنسی فعل کی صالحیت حاصل کرتے ہیں جبکہ لڑکیوں سے بلوغت سے قبل بھی جنسی فعل کیا جانا ممکن ہے ‪ ،‬گو مجرمانہ ہی‬
‫سہی۔اس لحاظ سے بھی سابقہ قانون میں لڑکیوں کو قانونی داد رسی ملنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔‬
‫زنا کا تعلق بنیادی طورپر ذہنی بلوغت کی بجائے جسمانی صالحیت سے ہے جو مختلف عالقوں ‪ ،‬موسموں اور ماحول کے نتیجے‬
‫میں مختلف عمروں میں حاصل ہوتی ہے۔اس کی ایک عمر مقرر کردینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بعض لڑکے جرم کی صالحیت‬
‫تورکھیں گے ‪ ،‬لیکن جرم کے ارتکاب کے باوجود قانون ان پر گرفت نہیں کرسکے گا۔‬

‫(‪ )5‬اس کو ذہنی بلوغت سے جوڑنے کی وجہ پر غور کریں کہ اس فعل میں کونسی ذہنی صالحیتوں کا اظہار مقصود ہے کہ اس‬
‫کو ذہنی بلوغت سے جوڑا جائے؟ صاف نظر آتا ہے کہ اس کے پس پردہ دراصل زنا کے بارے میں وہی رضامندی کا فلسفہ‬
‫کارفرما ہے کہ چونکہ آج کل اس عمر سے قبل رضامندی یا عدم رضامندی کا اعتبار نہیں کیا جاتا‪ ،‬اس لئے یہ عمر مقرر کی‬
‫جائے۔‬

‫اس ترمیم کے ذریعے حدود آرڈیننس کی دفعہ ‪ 5‬اے میں تبدیلی مقصود ہے جس میں ہے کہ‬

‫''وہ مرد موجب حد ہے جو اپنی منکوحہ کے عالوہ کسی بھی بالغ یا نابالغ لڑکی سے مباشرت کرے۔''‬

‫غور کریں کہ کیا اس شق میں عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز برتا گیا ہے یا ان کے مفاد کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ‬
‫زنا سے اصل نقصان کس کو ہے‪ ،‬مرد کو یا عورت کو؟ ظاہر ہے کہ کنواری لڑکی کے لئے اس کا نقصان‪،‬حمل کی ذمہ داری اور‬
‫بدنامی وغیرہ کا مرد سے کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔ اس لئے حدود قوانین میں لڑکیوں کو تحفظ دیتے ہوئے ان کے خالف اوائل‬
‫عمری میں ہی ہونے والے جنسی تشدد کو بھی قابل سزا قرار دیا گیا ہے۔اس دفعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی کمیشن برائے‬
‫خواتین نے یہ تجویز کیا ہے کہ یہاں عورت کے ساتھ بالغ کا اضافہ کیا جائے۔اگر اس ترمیم کو تسلیم کرلیا جائے تو ‪ 18‬سال سے‬
‫کم عمر کی لڑکیوں کو حدود قوانین کا تحفظ حاصل نہیں رہے گا۔کیا یہ تجویز دانشمندی پرمبنی ہے یامحض مرد عورت میں‬
‫مساوات کی ایک مجنونانہ خواہش!‬

‫چوتھی ترمیم بہ سلسلہ اندراج مقدمہ‬

‫پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے سیشن کورٹ کے پاس زنا کی شکایت درج ہوگی جس میں چار گواہ اور‬
‫شکایت کنندہ کے بیانات موقع پر ہی درج ہوں گے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس ترمیم کے ذریعے یہ قانون سازی کی جارہی ہے کہ وقوعہ کی رپورٹ کے لئے بھی چار گواہ ضروری ہوں ‪ ،‬جبکہ‬
‫اسالم کی رو سے چار گواہ وقوعہ کی رپورٹ کی بجائے زنا کی سزا سنانے کے لئے ضروری ہیں ‪ ،‬جرم کی نشاندہی تو کوئی‬
‫ایک فرد بھی کرسکتا ہے۔‪55‬‬

‫جہاں تک موجودہ قانون کا تعلق ہے تواس کی رو سے بھی زنا سے سنگین سزائوں مثال قتل اور بغاوت کے لئے رپورٹ کا یہی‬
‫طریقہ موجود ہے۔ یوں بھی کسی جرم کے لئے بھی آغاز میں تمام گواہیاں طلب نہیں کی جاتیں ۔کسی کیس میں دو مرحلے ہوتے‬
‫ہیں ‪:‬ایک وقوعہ کی رپورٹ کا اور دوسرا وقوعہ کے ثبوت کا جو عدالت کاکام ہے اور یہاں گواہی کی تفصیالت کے پیش نظر‬
‫مجرم کو سزا سنائی جاتی ہے جبکہ پولیس کا کام محض ایف آئی آر (فرسٹ انکوائری رپورٹ) درج کرنا ہے‪ ،‬نہ کہ گواہوں کی‬
‫جانچ پڑتال کرنا۔ مذکورہ ترمیم پر اعتراضات حسب ذیل ہیں ‪:‬‬
‫(‪)1‬جب زنا سے بھی سنگین جرائم کے لئے ایسا ضروری نہیں تو پھر زنا بالرضا کے ساتھ ہی یہ امتیازی سلوک کیوں ؟اگر‬
‫پولیس رپورٹ کرنے والوں کو خراب کرتی ہے تو پولیس میجر ایکٹ کی اصالح کی ضرورت ہے‪ ،‬نہ کہ ایسی ترمیم کہ قانون پر‬
‫عمل درآمد ہی ممکن نہ رہے۔‬

‫(‪ )2‬زنا بالجبر کے لئے موجودہ قانون اور مجوزہ ترمیم میں یہ شرط نہیں رکھی گئی تو پھر زنا بالرضا کے لئے ہی یہ طریقہ کار‬
‫کیوں اختیار کیا جارہا ہے؟ اس کامقصد دراصل مدعی کوہراساں کرنا ہے تاکہ وہ ایسا کوئی مقدمہ درج کرانے سے پہلے ہی گھبرا‬
‫جائے۔ کیونکہ عدالتوں کی موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ آج کوئی بھی عدالتوں میں گواہی کے لئے آنے پر تیار ہی نہیں ہوتا۔‬

‫(‪ )3‬بنیادی طورپر رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ معاونت ہے کہ اُنہیں ایک جرم کے وقوع کی نشاندہی کی‬
‫جارہی ہے لیکن اس ترمیم کے ذریعے گویا زنا کے ملزموں کو تادیبی کاروائی کرنے کی بجائے سب سے پہلے رپورٹ کرنے‬
‫والے کو ہی مجرم بنایا جارہا ہے کہ وہ اس واقعہ کو ثابت کرے‪ ،‬وگرنہ ازخو دالگو ہونے والی قذف کی سزا بھگتے جس کی سزا‬
‫ایک اور ترمیم کی رو سے‪ 7‬سال قید کی جارہی ہے۔ ‪56‬‬

‫ایسے واقعات کی رپورٹ پولیس کو کرنا چاہئے‪ ،‬اگر پولیس کو اس سارے عمل سے نکال لیا گیا تو پھر معاشرے میں پھیلی‬
‫بدکاری کی روک تھام ہی ممکن نہ رہے گی۔ اگر یہ ترمیم کر دی جاتی ہے تو عمال معاشرے میں قحبہ گری کو فروغ حاصل‬
‫ہوگا‪ ،‬کیونکہ وہاں ہونیوالے زنا بالرضا کے خالف خال ہی کوئی شخص سیشن کورٹ میں رپورٹ کرائے گا‪ ،‬اور نہ اسے چار‬
‫گواہ میسر ہوں گے۔‬

‫(‪)4‬یہ درست ہے کہ اس کے لئے چار گواہ ضروری ہیں ‪ ،‬لیکن گواہ پورے نہ ہونے پر مبادیات زنا کے جرم کی سزا بھی دی‬
‫جاسکتی ہے‪ ،‬ایسی صورت میں یہ جرائم بھی قابل دست اندازی نہ رہیں گے۔ اسالم اورحدود قوانین نے اس کا حل قذف کی شکل‬
‫میں پیش کیا ہے‪ ،‬اگر قذف کی حد عمال جاری کردی جائے تولوگ خود ہی الزام بازی سے رک سکتے ہیں ۔‬

‫(‪)5‬مقدمہ کے اندراج کے وقت ہی چار گواہوں کی شہادت عائدکرنے کی وجہ وہی ہے جس کا تذکرہ روزنامہ جنگ میں ‪14‬؍جون‬
‫کو شائع شدہ مجوزہ ترامیم کے ضمن میں کیا جاچکا ہے‪:‬‬

‫''علم اور تجربے سے ثابت ہوچکا ہے کہ زنا کو اس طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ '' ‪57‬‬

‫(‪ )6‬حدود آرڈیننس میں اس ترمیم کی اصال کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل 'کریمنل الء ترمیمی بل ‪2004‬ئ' کی‬
‫رو سے ‪' 156‬بی' کے تحت یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ ''زنا کے جرم کی تفتیش سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے کم رتبے کا پولیس‬
‫آفیسر نہیں کرے گا‪ ،‬نہ ہی ملزمہ عورت کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار کیا جاسکے گا۔'' دو سال قبل اس بل کی منظوری‬
‫کے بعد عمال مزید ترمیم کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔‬

‫حدود آرڈیننس میں مزیدبھی کئی ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن میں ایک مالی معامالت میں مرد عورت کی برابر گواہی کے‬
‫حوالے سے ترمیم ہے۔ یہ ترمیم بھی قرآن کریم کی واضح آیت مداینہ (البقرة‪)282:‬اور صریح احادیث کی کھلم کھال خالف ورزی‬
‫ہے۔ایسے ہی لعان کے شرعی طریقہ میں تبدیلی‪ ،‬مسلم فریقین کے لئے غیر مسلم جج حضرات کی اجازت‪ ،‬زنا اور قذف کے‬
‫عالوہ کوڑوں کی تمام سزائوں کا خاتمہ (جن میں شراب کی سزا بھی شامل ہے‪ ،‬کیونکہ وہ بھی کوڑوں کی شکل میں دی جاتی‬
‫ہے)۔از خود قذف کی کاروائی کا مطالبہ‪ ،‬ایسے ہی تہمت لگانے کے دعوی پر دو افراد کی شہادت کا خاتمہ اور صرف عدالت کی‬
‫مطلوبہ شہادت پر اکتفا وغیرہ کی ترامیم وغیرہ۔ ان ترامیم کے رجحانات اور شرعی حیثیت بخوبی واضح ہیں ‪ ،‬اختصار کے پیش‬
‫نظر اس بحث کو یہیں پرختم کیا جاتا ہے۔‬

‫اختتامیہ‪:‬اوپر چار ترامیم کے بارے میں اسالم کا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ترمیم‬
‫ایسی نہیں جسے کتاب وسنت کی روح سے ہم آہنگ قرار دیا جاسکے۔ اسالم نے جس انداز سے ان جرائم کے خاتمے کا رویہ اپنایا‬
‫ہے‪ ،‬ان ترامیم کے ذریعے اسالم کے نام پر بنائے گئے قوانین میں بھی جرائم کے خاتمے کے لئے نہ صرف مغربی اُسلوب قانون‬
‫اپنایا جارہا ہے بلکہ تجویز کی جانے والی سزائیں بھی خالف اسالم ہیں ۔‬

‫سوچنے کا مقام ہے کہ حدود قوانین میں اس ترمیم کی کونسی ہنگامی ضرورت پیش آگئی اور کیا پاکستان میں یہ واحد قانون ہی‬
‫ایسا ہے جس میں اصالحات کی گنجائش ہے۔ انگریزوں کا عطا کردہ مجموعہ تعزیرات جس سے پاکستان پینل کوڈ ماخوذہے‪،‬‬
‫کونسا مقدس صحیفہ ہے جو ہر قسم کی خطا سے پاک ہو۔ حدود قوانین میں مسائل کی بنیادی وجہ زیادہ تر پولیس کا نظام اور‬
‫مروجہ عدالتی طریقہ کار ہے جس سے مظلوم کی داد رسی انتہائی مشکل ہے۔کیا اس قانون کے تحت ملک میں ہر شخص کو عدل‬
‫وانصاف مہیا ہورہا ہے۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے عدل وانصاف کے ایوانوں کا ایک طائرانہ جائزہ لینا ہی کافی ہوگا۔‬
‫سسکتی انسانیت کو انصاف حاصل کرنے کے لئے کونسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ‪ ،‬اہل نظر بخوبی جانتے ہیں ۔‬

‫حدود قوانین پر ہی یہ عنایا ت اس لئے ہیں کہ یہی وہ قوانین ہیں جو اسالم کے نام پر نافذ کئے گئے‪ ،‬ان پر اعتراض کرنے والے‬
‫وہی ہیں جنہیں وفاقی شرعی عدالت کا وجود بھی گوارا نہیں ۔ اُنہیں اسالم کے نام پر ہر قانون میں سو خرابیاں نظر آجاتی ہیں اور‬
‫ان کی ترمیم کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ ان قوانین کے بارے میں اکثر وبیشتر یہ الزام لگتا ہے کہ انہیں ایک آمر نے متعارف‬
‫کرایالیکن جنرل ایوب کے عائلی قوانین ہوں یا جنرل مشرف کی قتل غیرت یا توہین رسالت کے حوالے سے اسالم مخالف ترامیم‪،‬‬
‫وہاں کوئی بھولے سے بھی آمریت کا نام تک نہیں لیتا۔ یہی وہ 'منتخب اخالقیات' ہیں جن کا حدود قوانین کوسامنا ہے!!‬

‫قانون کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل وانصاف اور امن وامان کا قیام ہے۔ ہللا کی عطا کردہ یہ حدود ہمیشہ سے مسلم معاشروں‬
‫میں امن کی ضامن رہی ہیں اور آج بھی دنیا کی واحد ریاست سعودی عرب جہاں یہ حدود نافذ ہیں ‪ ،‬اپنے امن وامان کے لحاظ‬
‫سے پوری دنیا کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے جس کی شہادت کئی معزز عدالتی شخصیات بھی دے چکی ہیں ‪ ،‬طالبان‬
‫کے چند سالہ نظام حکومت سے کئی اختالف کئے جاسکتے ہیں لیکن اُنہوں نے بھی اس عرصہ میں جس طرح امن وامان قائم کیا‪،‬‬
‫وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دوسری طرف مجموعہ تعزیرات پاکستان جس قانونی ماڈل کا نمائندہ ہے‪ ،‬اس کے شاہکار مجموعہ ہائے‬
‫قوانین آج بھی امریکہ ویورپ میں امن وسکون قائم نہیں کرسکے۔ امریکہ میں امن وامان کی صورتحال کے لئے کسی ایک سال‬
‫کے جرائم کی رپورٹ پر ایک مختصر نظرڈال لینا ہی کافی ہوگا۔ دراصل حدود قوانین کے بارے میں اصل مسئلہ ترمیم اور‬
‫اصالح کا نہیں بلکہ ان اعتراضات کے بہانے الہی احکام کی بجائے انسانی قانون کو رواج دینے کی ایک کوشش ہے۔‬

‫حضرت انسان کی نظر میں بعض چیزیں جرم نہیں ہونی چاہیے جبکہ خالق انسان کی نظر میں وہ سنگین ترین جرم ہیں ۔ ان ترامیم‬
‫پر معمولی غور کے بعد بآسانی یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا رخ کس طر ف ہے؟ تعمیر کے نام پر تخریب اور اصالح کے نام‬
‫پر معاشرے کو بے خدا بنانے کی یہ کوششیں اہل ایمان سے مخفی نہیں رہ سکتیں ۔اگر ان قوانین میں اصالح کی کوئی ضرورت‬
‫ہے تو اس کے لئے مناسب پلیٹ فارم ٹی وی چینل اور اخبارات نہیں بلکہ اہل علم اور ماہرین قانون وشریعت کی مجالس ہیں ۔‬
‫اوریہی بات سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے کہی ہے ‪:‬‬

‫''کراچی‪ ،‬جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت حدود قوانین کے لئے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرے۔ دستور‬
‫پاکستان میں موجود اسالمی حدود کے قوانین میں کوئی سقم نہیں ہے۔ حدود ہللا کے قوانین ختم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‬
‫مگر ان کے نفاذ میں دشواریاں یا شکایات دور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ان خیاالت کا اظہار اُنہوں نے جمعہ کے روز ویمن‬
‫کمیشن سندھ کے تحت سیمینار 'حدود آرڈیننس‪ :‬اعتراضات اورحقائق' سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔'' ‪58‬‬

‫حوالہ جات‬

‫‪ .1‬روزنامہ 'نوائے وقت'‪2 :‬؍اگست‪2006‬ئ‪ ،‬صفحہ آخر‬

‫‪ .2‬سروے‪ :‬ویمن ایڈ ٹرسٹ‪ ،‬کتابچہ 'حد زنا آرڈیننس ؛ اعتراضات کی حقیقت '‪ :‬ص ‪39‬‬

‫‪' .3‬پاکستان میں خواتین کی صورتحال' از چارلس کینیڈی‪:‬ص ‪IPS ،74‬‬

‫‪ .4‬کتابچہ 'حدود قوانین'‪:‬ص ‪20‬‬

‫‪ .5‬کتابچہ‪' :‬زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ'‪ ،‬ص ‪ 2‬شائع کردہ ‪ :‬عورت فائونڈیشن‬

‫‪ .6‬صحیح بخاری‪ ،‬موطا امام مالک‪:‬کتاب الحدود‪ ،‬رقم‪ ،15‬مصنف عبدالرزاق‪13468 :‬‬

‫‪ .7‬موطا امام مالک‪:‬کتاب الحدود‪،‬رقم‪ ،13‬مصنف عبد الرزاق‪12796 :‬‬

‫‪ .8‬یہ واقعات صحیح ہیں ‪ ،‬دیکھیں أقضیة الخلفاء الراشدین‪2 :‬؍‪840‬‬

‫‪ .9‬سنن ابو داود‪ 4379 :‬واللفظ لہ‪ ،‬سنن ترمذی‪1454 :‬‬

‫‪ .10‬صحیح بخاری‪2649 :‬‬

‫‪' .11‬حدود‪ ،‬حدود آرڈیننس اور خواتین'‪ :‬ص ‪25‬‬

‫‪.12‬صحیح بخاری‪ :‬کتاب الحدود ‪ ،‬باب کراھیة الشفاعة في الحد‪ ،‬رقم ‪6788‬‬

‫‪ .13‬روزنامہ 'اُمت' کراچی ‪4:‬؍اگست‪2006‬ء‬

‫‪ .14‬دیکھئے کتاب 'اسالمی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب' میں انٹرویو ‪ ،‬ص ‪84‬‬

‫‪ .15‬صحیح بخاری‪،88:‬المغنی‪14 :‬؍‪ ،134‬الطرق الحکمیة‪ :‬ص ‪ ،72‬تفصیالت ‪:‬والیة المرأة ‪ :‬ص‪287‬‬

‫‪ .16‬کتابچہ' حدود قوانین اور این جی اوز' مرتب ڈاکٹر عبد ہللا خان‪:‬ص‪12‬‬

‫‪ .17‬فقہی انسا ئیکلو پیڈیا‪ :‬ج‪24‬؍ص‪39‬‬

‫‪.18‬شھادة المرأة في الفقه از ڈاکٹر عبد ہللا مطلق‪:‬ص ‪66‬‬

‫‪ .19‬ناشر کتاب‪ :‬دار المسلم‪ ،‬ریاض‬


‫‪ .20‬سنن نسائی‪' 3469:‬صحیح'‬

‫‪ .21‬مسلم‪1498 :‬‬

‫‪ .22‬مصنف ابن ابی شیبہ‪:‬رقم‪ ،28714:‬والیة المرأة حواشی برصفحہ ‪263:‬‬

‫‪ .23‬مصنف عبد الرزاق‪15405 :‬‬

‫‪ .24‬مصنف عبد الرزاق‪75،13374 :‬‬

‫‪ .25‬مصنف عبد الرزاق‪13373 :‬‬

‫‪ .26‬المغنی‪14 :‬؍‪125‬‬

‫‪.27‬الموسوعة الفقھیة‪24:‬؍‪37‬‬

‫‪.28‬ال ُمحلٰی‪9:‬؍‪ 397‬تا ‪8 ،403‬؍ ‪ ،488 ،476‬ال ُمغنی‪9 :‬؍‪ ،148‬طرق الحکمیة‪179 :‬‬

‫‪ .29‬انٹرویو‪ ،‬ص ‪32‬‬

‫‪1992 .30‬ء پاکستان کریمنل الء جرنل صفحہ‪1520‬‬

‫‪ .31‬پی ایل ڈی‪1979‬ء سپریم کورٹ‪،‬آزاد جموں کشمیر‪ :‬صفحہ ‪56‬‬

‫‪ .32‬پی ایل ڈی ‪1979‬ء کراچی‪ ،‬صفحہ ‪147‬‬

‫‪ .33‬ص ‪19‬‬

‫‪ .34‬پی ایل ڈی‪،FSC ،2002 ،‬صفحہ‪1‬‬

‫‪ .35‬صحیح بخاری‪3436،2482 :‬‬

‫‪.36‬اإلتقان واإلحکام‪2 :‬؍‪261‬‬

‫‪' .37‬پاکستان میں عورتوں کی صورتحال'‪:‬ص ‪74‬‬

‫‪ .38‬سنن ابو داود‪' 3681:‬صحیح'‬

‫‪ .39‬مزید تفصیل‪:‬السلسلة الصحیحة از شیخ البانی ‪ :‬رقم ‪900‬‬

‫‪.40‬الطرق الحکمیة ‪84 :‬‬

‫‪ .41‬ج‪12‬؍ص‪28‬‬

‫‪ .42‬سنن بیہقی‪8 :‬؍‪284‬‬

‫‪ .43‬ج‪6‬؍ص ‪23‬‬

‫‪.44‬اْلم ‪:‬ج‪3‬؍ص‪264‬‬
‫‪ .45‬مسند احمد‪ ،897 ،1129 :‬صحیح بخاری‪6812 :‬‬

‫‪.46‬إرواء الغلیل‪' 2340 :‬صحیح '‬

‫‪ .47‬کتابچہ حدود قوانین‪ :‬ص‪25‬‬

‫‪ .48‬صفحہ‪41:‬‬

‫‪ .49‬سنن بیہقی‪8:‬؍‪285‬‬

‫‪ .50‬سلسلہ صحیحہ از شیخ البانی‪ :‬رقم ‪900‬‬

‫‪ .51‬سنن کبری بیہقی‪8 :‬؍‪285‬‬

‫‪ .52‬سنن دار قطنی‪4 :‬؍‪ ،110‬صحیح بخاری‪2664:‬‬

‫‪ .53‬صحیح مسلم زیر حدیث ‪1868 :‬‬

‫‪ .54‬اسالم کا فوجداری قانون ازجسٹس عبد القادر عودہ رحمۃ ہللا علیہ ‪1 :‬؍‪712‬‬

‫‪ .55‬دیکھیں صفحہ ‪ 10‬پر درج احادیث میں نشان زد الفاظ‪ :‬ایک شخص اورایک عورت‬

‫‪ .56‬روزنامہ 'جنگ'‪ 26 :‬جوالئی‬

‫‪ .57‬مسئلہ نمبر‪8‬‬

‫‪ .58‬روزنا مہ 'جنگ 'کراچی‪5 :‬؍ اگست ‪2006‬‬

‫‪.i‬اخبارات کے مطابق عورتوں کی رہائی کے اس صدارتی آرڈیننس کو شعیب اورکزئی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے‬
‫جبکہ مجلس عمل نے اسے پارلیمنٹ کے اختیارات پر ڈاکہ قرار دیا ہے لیکن ا س کے باوجود مجرم خواتین کی رہائی کا عمل‬
‫جاری ہے۔‬

‫‪ .ii‬حدود قوانین پر یہ اعتراض بھی کیا جاتاہے کہ ان کے نفاذکے لئے مناسب فضا او رماحول کو مدنظر نہیں رکھا گیا‪ ،‬یہی وجہ‬
‫ہے کہ اس کے بعد زنا کے کیسوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ جبکہ یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں ۔ اول تو قانون کی ضرورت‬
‫ہوتی ہی اس وقت ہے جب حاالت زیادہ خراب ہوں ۔ اس وقت محض وعظ وتبلیغ کی بجائے قانون کی مدد ا ور قوت سے بھی اسے‬
‫روکنا پڑتا ہے۔ جب چوری بڑھ جائے تو کیا چوری کا قانون ختم کردینا چاہئے یا اس کو مزید قابل عمل اور سخت بنانا‬
‫چاہئے۔حدود قوانین کے نفاذ کے وقت جرائم کا زیادہ ہونا بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ سابقہ قوانین ان جرائم کوروکنے میں ناکام‬
‫ہوچکے تھے‪ ،‬اسی لئے اُن جرائم کی بہت کثرت ہوگئی تھی چنانچہ جرائم کے خاتمے کے لئے ہللا کے دیے ہوئے قوانین کو نافذ‬
‫کیا گیا۔‬

‫جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حدود قوانین کے بعد ان جرائم میں مزید اضافہ ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے زنا قانونا جرم‬
‫ہی نہیں تھا‪ ،‬اس کا پہلے قانونی اندراج ہی نہیں ہوتا تھا‪ ،‬جب اندراج ہونا شروع ہوا تب تو الزما سابقہ صورتحا ل میں اضافہ ہی‬
‫محسوس ہوگا۔ گویا اس جرم کی باقاعدہ رپورٹنگ کا آغاز ہی ‪1979‬ء کے بعد ہونا شروع ہوا۔تاہم یہ بات درست نہیں کہ اس کے‬
‫بعد زنا کے جرائم میں اضافہ ہوا جیسا کہ ہندوپاک میں زنا کے جرائم کے ایک تقابلی مطالعے سے واضح ہے کہ ‪ 1991‬تا‬
‫‪1995‬ء کے دوران بھارت میں اس جرم میں ‪4‬ئ‪ 40‬فیصد جبکہ پاکستان میں محض ‪4‬ئ‪ 8‬فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔('حدود‬
‫آرڈیننس ‪ ،‬نفاذ کے ‪ 25‬سال' از شہزاد شام)‬
‫یہ بھی واضح رہے کہ بھارت کے اعداد وشمار پاکستان کے برعکس صرف زنا بالجبر کے ہیں کیونکہ پاکستان کے سابقہ قانون‬
‫کی طرح بھارت میں زنا بالرضا جرم ہی نہیں ہے اوریہی صورت حال مغرب میں بھی ہے۔‬

‫‪.iii‬بعض لوگ یہ بھونڈی دلیل بھی دیتے ہیں کہ برائی سے رکنا انسان کا اپنا فرض ہے؛ جو نہیں رکنا چاہتا‪ ،‬ا س کو قانون بھی‬
‫نہیں روک سکتا۔اول تو یہ نکتہ (معاذ ہللا) ہللا تعالی کو نہیں سوجھا کہ اُنہوں نے بالوجہ انسانوں کو یہ حدود ہللا عطا کردیے‪ ،‬پھر‬
‫یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہماری حکومتوں نے باقی جرائم کے لئے قانون سازی کیوں کررکھی ہے‪،‬اُنہیں بھی انسانوں کے‬
‫شعور اور پسند وناپسند پر کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا۔اگرجرائم کے بارے میں یہی رویہ ہونا چاہئے تو حکومت‪ ،‬عدلیہ اور پولیس‬
‫کی پھر کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟دیگر جرائم کی روک تھام کے لئے تو قوانین کوسخت کیا جاتا ہے جبکہ حدود قوانین میں‬
‫یہ منطق اُلٹ کردی جاتی ہے‪،‬کیوں ؟؟‬

‫‪.iv‬حدود قوانین میں بھی عورت کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ قانون قذف کی رو سے صرف عورت ہی مرد کے خالف تہمت‬
‫لگانے کا دعوی کرسکتی ہے جبکہ یہ قانون مرد کوعورت کے خالف یہ حق نہیں دیتا۔(دیکھیں ‪ :‬انٹرویو امان ہللا بلوچ ایڈووکیٹ‪'،‬‬
‫حدود قوانین او راین جی اوز' ‪:‬ص ‪)21‬‬

‫‪.v‬موطأ امام مالک میں ہے کہ عبد الملک بن مروان نے زانی پر مجبور کی جانے والی عورت کا حق مہر عائد کیا۔(رقم‪)1218 :‬‬
‫حضرت عمر کے دور میں ایک شخص نے جبرا عورت سے زنا کیا تو آپ نے زانی پر حد لگانے کے عالوہ اسے عورت کی‬
‫ثلث دیت ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔(مصنف عبد الرزاق‪ )13663 :‬حضرت علی اور ابن مسعود کا یہ موقف ہے کہ کنواری سے‬
‫زنا بالجبر کی صورت میں اسے کنواریوں کا مہر مثل اور شادی شدہ سے زنا بالجبر کی صورت میں شوہر دیدہ کا مہر مثل ادا‬
‫کرنا ہوگا۔(ایضا‪ )13657 :‬امام زہری اور قتادہ نے بھی جبر کی صورت میں زانی پر مہر ادا کرنے کا حکم لگایا ہے۔ البتہ قتادہ‬
‫کے نزدیک جبر کی عالمت یہ ہے کہ عورت چیخ وپکار کرے (ایضا‪ )13656 :‬امام مالک اورامام شافعی کا موقف یہ ہے کہ مہر‬
‫متاثرہ عورت کو ہی ادا کیا جائے گا۔ (المغنی‪ )3967 :‬مزید دیکھئے ‪ :‬المغنی‪ 347،348 ،17112 :‬اور‪ ، 360‬طبع مؤسسة ہجر‪،‬‬
‫قاہرہ‬

‫‪.vi‬یہی وجہ ہے کہ اسالم میں زنا بالجبر کے لئے کوئی مستقل اصطالح بھی نہیں ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کے لئے اغتصاب‬
‫المرأةکی اصطالح پیش کی ہے جبکہ یہ ترکیب 'بطور اصطالح' بالکل اجنبی ہے اورقرآن‪ ،‬حدیث‪ ،‬فقہ اور تاریخ کی بنیادی کتب‬
‫میں اس اصطالح کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔‬

‫‪.vii‬ایک جرم کے دو معیار شہادت پر دو علیحدہ سزائیں دینے پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی جرم یا‬
‫تو ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کا کیا مطلب ہوا کہ زنا تو ثابت نہیں ہوا لیکن اس کو تعزیری طورپرسزا دے لی جائے۔ دراصل یہاں ایک‬
‫غلط فہمی موجو دہے کیونکہ تعزیر کی صورت میں اسکو زنا کی بجائے چھیڑ چھاڑ‪ ،‬سیہ کاری یا بوس وکنار کا مجرم سمجھا‬
‫جائے گا۔ فعل زنا کی سزا تو واضح اور ناقابل تغیر ہے‪ ،‬البتہ مبادیات زناکی تعزیرا کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ جسٹس محمد‬
‫تقی عثمانی اور جماعت الدعوة کے مفتی عبدالرحمن رحمانی نے اس کی یہی توجیہ کی ہے۔ ('حدود قوانین؛ موجودہ بحث' از‬
‫جسٹس تقی عثمانی ص ‪ ،29‬اورمجلة الدعوة‪ :‬جوالئی ‪2006‬ئ‪ ،‬ص‪) 11‬‬

‫جسٹس (ر) جاوید اقبال کے الفاظ میں ‪'':‬جدید کریمنل جورسپروڈنس میں 'اوتو فواس ایکوٹ' کا عام اُصول ہے یعنی اگر شہادت کی‬
‫روشنی میں جرم ثابت نہ ہو تو ا س جرم سے بری کئے گئے ملزم کو اسی شہادت کی بنا پر دوبارہ ملزم گردان کر اور قسم کی‬
‫سزا نہیں دی جاسکتی۔'' ('زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ '‪ :‬ص‪)8‬‬

‫حدود قوانین پر یہ اعتراض جدید اُصول قانون کی روشنی میں ہے۔ اول تو یہ گنجائش اسی قانون میں موجود ہے نیزاسالمی‬
‫شریعت کے احکام اور ان کے نفاذ کا طریقہ جدید مغربی قانون سے مختلف ہے۔ مثال جدید قانون کی رو سے جرم زنا ثابت نہ‬
‫ہونے پر تہمت لگانے والے پر از خود قذف کی کاروائی شروع نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے الگ سے قذف کا کیس کرنا پڑے گا‪،‬‬
‫جبکہ اسالم کی رو سے دوسرے کیس کی ضرورت نہیں بلکہ قاضی کو خود ہی اس تادیبی کاروائی کو اختیار کرلینا چاہئے۔ جیسا‬
‫کہ حضرت عمر نے مغیرہ بن شعبہ پر تہمت لگانے والوں کے خالف از خود قذف کی کاروائی کردی۔(دیکھیں حاشیہ صفحہ‬
‫نمبر‪ )21‬البتہ اس سقم کی وجہ حدود قوانین کی بجائے ہمارے ہاں مروجہ مغربی نظام عدل کیہے کہ زیربحث قانونی دفعہ کی‬
‫سماعت پر ہی کیس ختم ہوجاتا ہے او ردوبارہ نیا کیس داخل کرنا پڑتا ہے لیکن اسے حدود قوانین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔‬
‫اس اختالف کی بنیادی وجہ ہردو قوانین کے مقصد اور طریق کار میں فرق ہے۔ اسالمی قانون 'حقیقی انصاف'‪Real Justice‬کا‬
‫داعی ہے اورمغربی قانون 'ضابطہ جاتی انصاف' ‪Formal Justice‬کا۔‬

‫‪ .viii‬دیکھئے کتابچہ 'حدود قوانین ؛موجودہ بحث ' از جسٹس تقی عثمانی شائع کردہ‪ ،IPS‬ص ‪19‬‬

‫نبوی بھی موجو د‬


‫ۖ‬ ‫‪ .ix‬گواہی ایک ذمہ داری ہے۔ چونکہ لوگ اس سے گریز کرتے ہیں ‪ ،‬اسی لئے اس کی ترغیب پر یہ فرمان‬
‫ہے‪ '':‬بہترین گواہ وہ ہے جو طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی کے لئے چال آئے۔''(مسلم‪)1719:‬‬

‫‪' .x‬مسئلہ شہادت نسواں اورغامدی نظریات' از حافظ صالح الدین یوسف (محدث‪ :‬جنوری ‪1992‬ئ‪،‬ص ‪)96‬‬

‫‪ .xi‬حضرت عمر کے سامنے مغیرہ بن شعبہ پر زنا کا الزام لگایا گیااور تین شخصوں نے گواہی دی‪ :‬ابوبکرہ‪ ،‬نافع اور شبل بن‬
‫معبد مگر چوتھے شخص زیاد بن ابیہ نے وقوعہ کی عملی تفصیالت کی گواہی نہ دی تو عمر نے تینوں پر حد قذف جاری‬
‫کی۔(بخاری تعلیقا قبل حدیث ‪،2648‬ابن ابی شیبہ‪ ،28824 :‬رواء الغلیل‪)2679:‬‬

‫‪ .xii‬جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ حدود قوانین میں زنا کی یہ دوقسمیں (زنا بالرضا اور زنا بالجبر) حدود ہللا کی بجائے تعزیرا‬
‫مقرر کی گئی ہیں ۔اور شرعا محتاط رویہ یہی ہے کہ انہیں زنا سے موسوم کرنے کی بجائے مبادیات زنا یا فحاشی وسیاہ کاری‬
‫وغیرہ سے موسوم کیا جائے اور عدالتی فیصلوں وغیرہ میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں سمجھا جائے۔‬

‫شمارہ ‪302‬‬

‫!حدود قوانین کا بدستور نفاذ یا استرداد‬

‫ء میں وطن عزیز کو جہاں آئین اور جمہوریت کے حوالے سے گونا گوں صدمات برداشت کرنا پڑے‪ ،‬وہاں پاکستان میں ‪2003‬‬
‫‪1980‬ء کی دہائی میں نافذ ہونے والے اسالمی قوانین پر بھی مغرب نواز حلقوں کی جانب سے حکومتی سطح پر نفوذ کرنے اور‬
‫ان قوانین کو ختم کروانے کی مؤثر کوششیں کی گئیں ۔ ان کوششوں اور دباؤ کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے‬
‫'نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن' کی چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی کو حدود قوانین کا جائزہ لینے اور سفارشات مرتب‬
‫کرنے کا فریضہ سونپا۔ اس کمیشن کے ارکان کو نامزد کرنے کا اختیار بھی جنرل پرویز مشرف کو حاصل تھا۔‬
‫کمیشن نے حدود قوانین کااپنے طور پر جائزہ لیا اور حکومت کو سفارش کی کہ ان قوانین میں تبدیلیوں یا ترمیمات سے عورتوں‬
‫کے حقوق پر پڑنے والے اثرات ختم نہیں ہوسکتے‪ ،‬اس لئے ان قوانین کو سرے سے ختم کردینا مناسب ہے۔ کمیشن کے صرف دو‬
‫ارکان نے اس سفارش کی مخالفت کی اور اس میں مناسب ترامیم کو ممکن قرار دیا۔ ویمن کمیشن کی سفارشات پریس میں آتے ہی‬
‫ملک بھر میں ان سفارشات کے خالف ردعمل ظاہر ہونا شروع ہوا اور اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ جسٹس (ر) واجدہ‬
‫رضوی اس ردعمل پر اپنا جوابی رد عمل نہایت سخت الفاظ میں ظاہر رہی ہیں اور اسی بات پر مصر ہیں کہ حدود قوانین سراسر‬
‫)غیر اسالمی ہیں اور انہیں کوئی وقت ضائع کئے بغیر قلم زد کردینا چاہئے۔ (روزنامہ 'نیشن'‪16 :‬؍اکتوبر ‪2003‬ئ‬

‫بلوچستان سے صوبہ سرحد تک کمیشن سفارشات کی مخالفت کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ بعض حکومتی حلقے حدود قوانین کو‬
‫ختم کرنے کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی‬
‫کے نام ‪ Protection & Empowerment of Women Act, 2003‬پارلیمنٹرین کی ایک رکن قومی اسمبلی شیری رحمن نے‬
‫سے ایک قانونی بل قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں داخل کیا‪ ،‬جس میں دیگر بہت سی باتوں کے عالوہ حدود قوانین کے خاتمے‬
‫‪ :‬کی شق بھی شامل ہے۔ دیگر باتوں میں مندرجہ ذیل اُمور شامل ہیں‬

‫فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبائی سروس کمیشنوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ مالزمتوں میں خواتین کی ‪3‬؍‪ 1‬نمائندگی ۔ ‪1‬‬
‫کو یقینی بنائیں اور یہ قانون یکم جنوری ‪2005‬ء سے مؤثر اور نافذ کیا جائے۔‬

‫۔ ایک جیسی مالزمت میں جنس کی بنیاد پر تنخواہ کا فرق ختم کیا جائے کیونکہ یہ عمل عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے ‪2‬‬
‫مترادف ہے۔‬

‫خواتین پر گھریلو تشدد اور جسمانی ایذا رسانی کو تعزیرات پاکستان کے تحت قابل سزا قرار دیا جائے اور جو شوہر اپنی ۔ ‪3‬‬
‫بیوی سے ایسا سلوک روا رکھیں ‪ ،‬انہیں تین سال قید اور پانچ الکھ تک جرمانہ کی سزائیں دی جاسکیں ۔‬

‫۔ قتل غیرت کو عام قانون کے مطابق قتل عمد تصور کیا جائے اور یہ جرم کرنے والوں کو سزاے موت کی سزا دی جائے۔‪4‬‬

‫ہر عورت کو اپنی مرضی کی شادی کرنے کا حق تسلیم کیا جائے‪ ،‬اور اگر کوئی شخص ایسی شادی میں رکاوٹ بن رہا ہو‪ ،‬۔ ‪5‬‬
‫دباؤ ڈال رہا ہو یا زبردستی کررہا ہو تو اسے مجرم قرار دیتے ہوئے ایک سال تک کی سزائے قید دی جائے اور جرمانہ عائد کیا‬
‫جائے۔‬

‫۔ اگر کوئی عورت چولہے سے آگ لگنے کے سبب فوت ہوجائے تو اس کے خاوند کے خالف اسے جان سے مارنے کا مقدمہ ‪6‬‬
‫درج کیا جائے۔ اگر حادثے کے وقت خاوند گھر میں موجود نہ ہو تواس خاندان کے مرد سربراہ پر یہ مقدمہ چالیا جائے اور اسے‬
‫وہی سزا دی جائے جو قتل کے جرم پر دی جاتی ہے۔‬

‫ہر جیل میں عورتوں کے لئے بالکل علیحدہ حصہ بنایا جائے۔ جس کا انتظام و انصرام بھی مکمل طور پر عورتوں کے ہاتھ ۔ ‪7‬‬
‫میں ہو اور عورتوں کے معامالت کو چالنے کے لئے علیحدہ خاتون انسپکٹر جنرل پولیس مقرر کی جائے۔ جسے وہی اختیارات‬
‫حاصل ہوں جو مرد انسپکٹر جنرل پولیس کو حاصل ہوتے ہیں ۔‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل‪،‬پالننگ کمیشن‪ ،‬بورڈ آف ڈائریکٹرز‪ ،‬پی آئی اے اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن میں عورتوں کو ایک ۔ ‪8‬‬
‫تہائی نمائندگی دی جائے۔‬

‫حکومت اور ویمن کمیشن اس بل کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں ‪،‬اس کا اندازہ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں منعقد ہونے‬
‫والی ایک پریس کانفرنس سے لگایاجاسکتا ہے۔ یہ پریس کانفرنس پیپلزپارٹی‪ ،‬پٹریاٹ کی جانب سے بالئی گئی تھی اور اس میں‬
‫محترمہ شیری رحمن نے حدود آرڈیننس کی تنسیخ اور پاکستانی خواتین کو قانونی طور پر طاقتور بنانے کے لئے اپنے پیش کردہ‬
‫بل کو ذرائع ابالغ میں متعارف کروایا۔ اس موقع پر ویمن کمیشن کی چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی بھی موجود تھیں ۔ لیکن‬
‫جب صحافیوں نے ان کی موجودگی کو ریکارڈ پر النے کے لئے ان سے حدود آرڈیننس پر اُن کی سفارشات کے بارے میں‬
‫سواالت کا سلسلہ شروع کیا اور اسالمی تاریخ سے ان قوانین پر عمل درآمد کے بارے میں مثالیں دیں تو انہوں نے فرمایا کہ ایسی‬
‫معدودے چند مثالیں مستثنیات کا درجہ رکھتی ہیں اور انہیں باقاعدہ قانونی روایت سمجھنا درست نہیں ہے۔‬
‫اس مرحلے پر مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ویمن کمیشن کی سفارشات پر عوامی ردعمل اور محسوسات کا ایک اجمالی جائزہ لے‬
‫لیا جائے تاکہ پاکستان کے عوام کے خیاالت‪ ،‬احساسات اور حدود قوانین سے متعلق ان کے تاثرات کا ایک عکس قارئین کے‬
‫‪ ...‬سامنے آسکے‬
‫حدود آرڈیننس کی تنسیخ سے متعلق قومی کمیشن برائے خواتین کی سفارشات کے خال ف اسالم آباد میں ‪ 5‬ستمبر کومتحدہ مجلس‬
‫عمل کی خواتین ارکان پارلیمنٹ نے مظاہرہ کیا۔ مجلس عمل کی بڑی جماعتوں میں جمعیت علماے پاکستان‪ ،‬جمعیت علماے اسالم‬
‫اور جماعت اسالمی شامل ہیں ۔ مجلس عمل پارلیمنٹ میں حکومتی جماعت کے بعد سب سے بڑی پارٹی ہے۔ مجلس عمل کی‬
‫خواتین ارکان پارلیمنٹ نے قومی کمیشن برائے خواتین کی سفارشات کو قرآن و سنت اور پاکستان کے آئین کے منافی اور ناقابل‬
‫عمل قرار دیا۔ ان ارکان پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ حدود آرڈیننس کے خاتمے کے بجائے اس میں موجود ابہام کو ختم کیا جائے۔‬
‫اس موقع پر جماعت اسالمی‪ ،‬حلقہ خواتین کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے برابر ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام بھی کیا گیا۔‬
‫اسی روز قومی اسمبلی کے اجالس میں حکومتی پارٹی کے رکن اسمبلی کنور خالد یونس نے حدود آرڈیننس سے متعلق سفارشات‬
‫پر عمل درآمد کے لئے ایک 'توجہ دالؤ' نوٹس پیش کیا جس پر مجلس عمل کی خواتین نے ڈیسک بجا کر اس نوٹس پر اپنی‬
‫ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔‬
‫اجالس کے بعد البی میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی محترمہ سمیعہ راحیل قاضی نے کہا کہ مجلس‬
‫عمل کی تمام خاتون ارکان اسمبلی کنور خالد یونس کے اقدام پر شدید احتجاج کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس نوٹس کے ذریعے‬
‫ہللا کے بنائے ہوئے قانون کو کالے قانون سے تشبیہ دی گئی ہے۔کنور خالد یونس کو چاہئے کہ وہ استغفار کریں اور تجدید ایمان کا‬
‫طریقہ اپنائیں ‪،‬کیونکہ ہللا تعالی کے قوانین سے روگردانی کرنے والوں پر ہللا کی طرف سے بنی اسرائیل کی طرح عذاب نازل‬
‫ہوگا۔‬
‫جماعت اسالمی حلقہ خواتین کی ارکان نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان خواتین کے مسائل اور مصائب کا حل‬
‫اسالمی تعلیمات میں پنہاں ہے‪ ،‬لہذا مغرب زدہ روایات کو قوم پر مسلط کرنا اسالمی قوانین سے زیادتی کے مترادف ہے۔ اس سے‬
‫مسائل اور ناانصافیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور خواتین کے خالف ظلم اور استحصال کو مزید تقویت ملے گی۔‬
‫مجلس عمل کی ارکان پارلیمنٹ کے مظاہرہ ‪5‬؍ ستمبر کا جواب حدود مخالف خواتین این جی اوز نے ‪8‬؍ ستمبر کو دیا۔ اس روز‬
‫ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (عاصمہ جہانگیرفیم) عورت فاؤنڈیشن اور دیگر تنظیموں نے جن کی تعداد ان کے اپنے دعوے‬
‫کے مطابق ‪ 30‬بنتی ہے‪ ،‬پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ ترتیب دیا اور حدود آرڈیننس کی فوری تنسیخ کا مطالبہ کیا۔ مظاہرہ‬
‫کی قیادت حنا جیالنی‪ ،‬شہال ضیا‪ ،‬فرزانہ باری اور شہناز بخاری نے کی۔ مظاہرے میں عیسائی خواتین نے بھی بڑی تعداد میں‬
‫جوش و خروش سے حصہ لیا۔ یہ خواتین بڑھ چڑھ کر 'حدود آرڈیننس منسوخ کرو' اور 'حدود آرڈیننس نامنظور' کے نعرے لگا‬
‫رہی تھیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے مرد و زَ ن کارکن بھی مظاہرے میں بطور کمک شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایم‬
‫کیو ایم کے رکن اسمبلی کنور خالد یونس بھی موجود تھے۔ یاد رہے کہ انہی رکن اسمبلی نے قومی اسمبلی میں 'توجہ دالؤ نوٹس'‬
‫پیش کیا تھا جس میں حدود آرڈیننس پر ویمن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے بعد اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔‬
‫اس مظاہرے کے دوران وزیراعظم میرظفر ہللا خان جمالی جو ادھر سے کار پر گزر رہے تھے 'اتفاق سے' رک گئے۔ انہوں نے‬
‫پرجوش مظاہرین کو حرف تسلی دیتے ہوئے کہا کہ حکومت حدود آرڈیننس میں تجویز کردہ ترامیم کے بارے میں نیشنل کمیشن‬
‫برائے اُمور خواتین کی سفارشات کو دیکھے گی اور ضروری اقدامات کرے گی۔ خواتین کے ہر جائز مطالبے کو پورا کیا جائے‬
‫گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت حقوق نسواں پر پورا یقین رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت کی سوچ مثبت ہے‪ ،‬منفی نہیں ۔ اس‬
‫موقع پر مظاہرہ زن خواتین نے 'عورتوں کے خالف امتیازی قوانین ختم کرو' کے نعرے لگائے۔‬
‫اس واقعہ کے تقریبا ‪ 5‬ہفتے بعد اسالم آباد میں اعلی درجے کے دفاتر رکھنے والی این جی او 'سنگی' کے ایک اجالس میں اخبار‬
‫نویسوں کے سامنے حدود آرڈیننس کی تنسیخ سے متعلق اپنی رپورٹ کے خالف اسالم پسند خواتین کے وسیع ردعمل پر اظہار‬
‫خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی بھی قانون جو انسانوں یا معاشرے کے کسی طبقے یا حصے کے ساتھ ناانصافی کی‬
‫اجازت دیتا ہو‪ ،‬ہرگز اسالمی نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے ایک موقع پر کہاکہ ‪ 5‬ستمبر کو جتنی خواتین نے ان کے خالف مظاہرہ کیا‬
‫تھا‪ ،‬اس سے کہیں زیادہ خواتین نے ‪ 8‬ستمبر کو حدود آرڈیننس کے خالف میری تجاویز کی حمایت میں مظاہرے کئے تھے۔‬
‫ستمبر کو جب مغربی قوانین کی دلدادہ خواتین اسالم آباد میں وزیراعظم میرظفرہللا خان جمالی کے سامنے 'حدود آرڈیننس منسوخ ‪8‬‬
‫کرو' کے نعرے لگا رہی تھیں ۔ تقریبا عین اسی وقت چنیوٹ میں عالمی ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہورہا تھا۔ اس کانفرنس کے‬
‫اختتام پر جہاں یہ قرارداد پیش گئی کہ اسالمی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اسمبلی میں پیش کرکے نفاذ اسالم کی جانب‬
‫مزید پیش قدمی کو ممکن بنایا جائے‪ ،‬وہیں ایک اور قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں خواتین کمیشن کی ان‬
‫سفارشات کی پُرزور مذمت کی گئی جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نافذ شدہ حدود قوانین کو ختم کردیا جائے۔ قرار داد میں کہا‬
‫گیا ہے کہ خواتین کمیشن کی مذکورہ سفارش پاکستان کی نظریاتی حیثیت اور دستور پاکستان کی اساس کے منافی ہے‪ ،‬لہذا اسے‬
‫مکمل طور پر مسترد کر دیا جائے۔ قرار داد میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر حکومت نے شرعی قوانین کی منسوخی کے لئے کوئی‬
‫قدم اُٹھایا تو پاکستان کے غیور مسلمان اسے ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ اس کانفرنس میں موالنا منظور احمد چنیوٹی‪ ،‬قاری شیر‬
‫احمد عثمانی‪ ،‬موالنا زاہد الراشدی‪ ،‬موالنا محمداحمدلدھیانوی‪ ،‬موالنا عزیز الرحمن ہزاروی‪ ،‬حافظ ادریس احمد‪ ،‬موالنا عبدالروؤف‬
‫فاروقی اور موالنا محمد قادری کے عالوہ مکہ مکرمہ سے موالنا عبدالحفیظ مکی اور مدینہ منورہ سے تشریف الئے ہوئے موالنا‬
‫شیخ خلیل احمد سراغ جیسے نمایاں علما شامل تھے۔‬

‫ستمبر کو پاکستان کی کسی بھی پہلی اسمبلی میں حدود قوانین کے حق میں پُرزور آواز بلند ہوئی۔ یہ آواز بلند کرنے کا سہرا ‪9‬‬
‫سرحداسمبلی کے سر رہا۔ سرحد اسمبلی میں ‪ 9‬ستمبر کو متحدہ مجلس عمل کی رکن صوبائی اسمبلی نعیمہ اختر نے ایک باقاعدہ‬
‫قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد میں نیشنل کمیشن برائے خواتین کی حدود قوانین سے متعلق تجاویز کی مذمت کی گئی تھی اور‬
‫وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نہ صرف حدود قوانین کو مذکورہ تجاویز کی روشنی میں ختم کرنے سے باز رہے‬
‫بلکہ ان قوانین پر مؤثر عمل درآمد کو ممکن بنائے۔ محترمہ نعیمہ اختر نے قرارداد پیش کرتے ہوئے ایوان پر زور دیا کہ ان کی‬
‫قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جائے تاکہ وفاقی حکومت کو ایک واضح اور صاف پیغام بھیجا جاسکے اور پورے صوبے کے‬
‫عوامی نمائندوں کے جذبات سے آگاہ کیا جاسکے۔ محترمہ نعیمہ اختر نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مغرب زدہ‬
‫این جی اوز اور دوسری سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ حدود قوانین کو منسوخ کروانے جیسے غیر اسالمی اقدام اور اس اقدام‬
‫کو اسمبلی سے باال باال آرڈیننس کی صورت میں نافذ کروانے کے بجائے اس میں ضروری ترامیم کا بل باضابطہ طور پر ایوان‬
‫میں پیش کریں اور قانون ساز اداروں کو اس سلسلے میں اپنا آئینی حق استعمال کرنے دیں ۔ محترمہ نعیمہ اختر نے کہا کہ حدود‬
‫قوانین اسالمی تعلیمات کے عین مطابق ہیں اور اگر انہیں محض کمیشن کی سفارشات اور این جی اوز کے دباؤ پر منسوخ کر دیا‬
‫گیا تو کل کالں زکوة اور صبح کی نماز کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ سامنے آسکتا ہے۔‬

‫بحث کا آغاز ہوا تو ایوان میں موجود حزب اقتدار اور حزب اختالف کے تمام ارکان نے بھی ویمن کمیشن کی مجوزہ سفارشات پر‬
‫سخت تنقید کی۔ صوبہ سرحد کے سینئر وزیرسراج الحق نے ایوان کے سامنے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایلیٹ کالس‬
‫کی کچھ خواتین اور این جی اوز یہ مہم چال رہی ہیں ۔ یہ 'بیگمات' اسالمی ثقافت کے ساتھ ساتھ پختون ثقافت کو بھی تباہ کرنے پر‬
‫تلی ہوئی ہیں ۔ لیکن ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم ان بیگمات کی تمام خالف اسالم کاوشوں کو ناکام بنا دیں گے اور انہیں اسالم کے‬
‫بنیادی اُصولوں کو مجروح کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ قومی ویمن کمیشن‬
‫کی سفارشات کو مکمل طور پر نظر انداز کردے۔‬

‫سینئر وزیر سراج الحق نے اپنی پرجوش تقریر میں کہا کہ ان کا یہ پیغام صرف حکومت پاکستان کے لئے نہیں ہے‪،‬بلکہ تمام مسلم‬
‫اُمہ کے لئے ہے کہ وہ اسالمی قوانین و ضوابط کو اپنائیں اور امن و تحمل کے راستے پر چلیں ۔ انہوں نے اعالن کیا کہ ان کی‬
‫حکومت اسالمی اُصولوں سے ایک انچ انحراف نہیں کرے گی اور جو عناصر ہمارے دین اور تاریخ میں نقب لگانا چاہتے ہیں ‪،‬‬
‫ان سے تعاون کے بجائے ان کے خالف مزاحمت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو محترمہ نعیمہ اختر کی قرارداد کو‬
‫منظور کرکے اپنی آواز وفاقی حکومت تک پہنچانی چاہئے۔‬

‫متحدہ مجلس عمل کے موالنا ادریس نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ویمن کمیشن کی سفارشات قابل مذمت ہیں ۔ ان‬
‫سفارشات کے ذریعے ہمارے دینی اُصولوں کو چیلنج کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اقلیتی رکن اسمبلی فلکس انوسنٹ نے کہا کہ‬
‫اگر حدود قوانین کو منسوخ کردیا گیا تو اس سے ملک میں فحاشی کو فروغ حاصل ہوگا۔ مجلس کے رکن اسمبلی شاہ راز خان نے‬
‫سپیشل برانچ) نے ایک سروے کے نتیجے میں حدود قوانین کے خالف رپورٹ بنا کر وفاقی (کہا کہ صوبہ سرحد کی پشاور پولیس‬
‫حکومت کو ارسال کی ہے۔ ہم اس رپورٹ کو پرزور طریقے سے مسترد کرتے ہیں ۔ رکن اسمبلی موالنا عبدالرزاق نے کہا کہ‬
‫آئین کے مطابق قرآن اور سنت اس ملک کے سپریم الء کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لہذا جو لوگ حدود قوانین کی خالف ورزی کر‬
‫رہے ہیں وہ دراصل اسالمی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی خالف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔‬

‫پیپلزپارٹی پٹریاٹ کے سرحد اسمبلی میں پارلیمانی قائد عبد االکبر خان نے قرار داد کی مخالفت میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ‬
‫حدود قوانین کا نفاذ یا منسوخی ایک وفاقی معاملہ ہے اور سرحد کی صوبائی اسمبلی کو وفاقی حکومت کے اختیارات میں مداخلت‬
‫نہیں کرنی چاہئے۔ اس موقع پر اظہارخیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (قائداعظم) کے رکن اسمبلی قلندر لودھی نے عبد االکبر خان‬
‫کے موقف کی تائید کی۔ صوبائی وزیرقانون و پارلیمانی اُمور ملک ظفر اعظم نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات‬
‫درست ہے کہ حدود قوانین کا نفاذ یا منسوخی ایک وفاقی معاملہ ہے۔ لیکن اگر وفاقی حکومت کوئی ایسا اقدام کرنے جارہی ہو جو‬
‫غلط ہو تو صوبائی اسمبلی قرار داد پاس کرکے وفاقی حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروا سکتی ہے۔ لہذا اس بنیاد پرقرارداد‬
‫کی مخالفت میں کوئی وزن نہیں ہے۔‬

‫وزیر قانون کی تقریر کے بعد سپیکر اسمبلی بخت جہاں خان نے قرارداد کی محرک محترمہ نعیمہ اختر سے کہا کہ وہ قرارداد کا‬
‫مسودہ ایوان کو پڑھ کر سنائیں ۔ سپیکر کی ہدایت پر نعیمہ اختر اور مسلم لیگ (ق) کی رکن اسمبلی نگہت اورک زئی نے قرار داد‬
‫کا مسودہ ایوان میں پڑھ کر سنایا۔ جس میں ویمن کمیشن کی سفارشات کی سخت الفاظ میں مذمت کے ساتھ ساتھ اسے مکمل طور‬
‫پرمسترد کردینے کا مطالبہ شامل تھا۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ حدود قوانین کو منسوخ کرنے کے بجائے ان کے مؤثر نفاذ کے‬
‫لئے اقدامات کئے جائیں اور ہللا کے بنائے ہوئے قوانین میں کسی ترمیم و تبدیلی کے ہر امکان کو ختم کیا جائے۔ قرارداد کا متن‬
‫سننے کے بعد صوبہ سرحد کی اسمبلی نے اسے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔‬

‫؍ ستمبر کو کل پاکستان اقلیتی اتحاد کی جانب سے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب ‪10‬‬
‫کرتے ہوئے اقلیتی اتحاد کے صوبائی صدر مائیکل جاوید نے کہا کہ حدود آرڈیننس اقلیتوں کے نقطہ نگاہ سے ایک امتیازی قانون‬
‫ہے اور اقلیتی بنیادی حقوق کو مجروح کرتا ہے‪ ،‬اس لئے اقلیتوں پر اس قانون کا نفاذ ختم کردینا چاہئے۔ مائیکل جاوید نے‬
‫قائداعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ اقلیتوں سمیت تمام پاکستانی شہریوں کو یکساں سٹیٹس‬
‫حاصل ہوگا اور پاکستان ایک فالحی ریاست ہوگی۔ لیکن افسوس ہے کہ حدود قوانین کی وجہ سے ہمیں پاکستانی شہریت میں‬
‫قائداعظم کا موعودہ مقام حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں اقلیت شماری کے حقیقی اَعدادوشمار جاری کئے‬
‫جائیں اور تمام اقلیتوں کے مذہبی اور سماجی حقوق کی نگہداشت کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے۔‬

‫نوائے وقت' الہور نے حدود آرڈیننس سے متعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افرا دکے '؍ ستمبر ‪2003‬ء کو روزنامہ ‪22‬‬
‫تاثرات ایک فیچر کی صورت میں شائع کئے۔ اس فیچر کے مطابق پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے ٹکٹ پر پنجاب صوبائی اسمبلی کے‬
‫لئے منتخب ہونے والی خاتون رکن عظمی زاہد بخاری نے کہا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور اسالمی جمہوریہ پاکستان کے شہری‬
‫ہونے کے ناطے ہماری خواہش ہے کہ ملک کا ہرقانون قرآن و سنت کے مطابق ہو‪ ،‬لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اسالم جو‬
‫ایک مکمل اور جامع مذہب ہے‪ ،‬اسے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بننے والے حدود‬
‫قوانین اس کی سب سے بڑی مثال ہیں ۔ اس وقت اسمبلیوں میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے تو یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ‬
‫اپنی کمیونٹی کے تحفظ کی خاطر حدود کے امتیازی قوانین کو ختم کروائیں ۔ ہم حدود آرڈیننس کی ان شقوں کے خالف ہیں جن‬
‫میں عورتوں کے حقوق سلب کئے گئے ہیں مثال عورت کی گواہی‪ ،‬عورتوں کے لئے مختلف سزائیں وغیرہ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں‬
‫کہ حدود آرڈیننس کو ختم کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو اس کی ان شقوں کو جن میں عورتوں کے حقوق سلب کئے‬
‫گئے ہیں ‪ ،‬ان پر نظرثانی کی جائے تاکہ کوئی مفاد پرست شخص یا پولیس اس قانون کو عو رتوں کے خالف استعمال نہ کرسکے‬
‫اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عورت کی گواہی کو بھی برابر اہمیت دی جائے۔‬

‫ملت پارٹی کی رہنما اور رکن پنجاب اسمبلی در شہوار نیلم نے کہا کہ بحیثیت مسلمان میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ جب ہللا‬
‫تعالی نے قرآن پاک میں خود زانی مرد اور عورت کے لئے ایک سزا کا تعین کردیا ہے توہمیں اس سے اختالف کی جرأت نہیں‬
‫کرنی چاہئے۔ بدقسمتی سے ہم یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ الدین ریاستوں میں مذہب کو پس پشت ڈال کر انسانی حقوق کی بات‬
‫کی جاتی ہے جبکہ پاکستان ایک اسالمی نظریاتی مملکت ہے جہاں قرآن اور سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ زنا‬
‫آرڈیننس کی مخالفت محض مفروضوں کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حدود آرڈیننس کی مخالفت اور اس‬
‫کا خاتمہ کرنے کی بجائے اس قانون کی وہ شقیں جن کے حوالے سے مختلف تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے‪ ،‬قانون سازی کے‬
‫ذریعے انہیں معاشرے کے تمام طبقوں کے لئے قابل قبول بنایا جائے۔ یہ کہنا کہ قانون ہی غلط ہے‪ ،‬بچگانہ سوچ ہے۔ زنا آرڈیننس‬
‫کی مخالفت کرنے والے طبقے دین کے علم سے محروم ہیں ۔ زنا کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کی شرط کا‬
‫مقصد عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ ذاتی عناد کی بنا پر کوئی کسی عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگاکر اسے سزا نہ دلوا‬
‫سکے۔ اگر کوئی عورت زنا بالجبر کی شکایت کرتی ہے تو یہ اس عورت کی نہیں ‪ ،‬استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ چارگواہ پیش‬
‫کرے۔ اگر پولیس گواہ پیش نہ کرسکے لیکن مقدمہ کے دیگر حاالت و واقعات عورت کی شکایت اور الزام کی تصدیق کرتے ہوں‬
‫تو محض عورت کی گواہی پر بھی ملزم مرد کو سزا ہوسکتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت ایسے کئی فیصلے دے چکی ہے۔‬
‫ایم ایم اے کی رکن قومی اسمبلی بیگم عائشہ منور کا موقف ہے کہ حدود کے قوانین عورتوں کے محافظ ہیں ‪ ،‬ان کی زد عورتوں‬
‫کی نسبت مردوں پر زیادہ پڑتی ہے۔ خوفناک سزا کا خوف مرد کو کسی عورت کی پامالی سے روکتا ہے۔ ان قوانین کی و جہ سے‬
‫عورت کامستقبل اور عزت محفوظ رہتی ہے ۔ محترمہ عائشہ منور کا خیال ہے کہ قوانین کی مخالفت کرنے کے بجائے اس طریقہ‬
‫کار کی مخالفت کرنی چاہئے جس کی پیچیدگی کی وجہ سے عورت کو صحیح انصاف نہیں مل پاتا۔ اور یہ کام پولیس کلچر اور‬
‫عدلیہ میں اصالحات کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ عائشہ منور نے کہا کہ حدود آرڈیننس کی آڑ میں اسالم کو بدنام کرنے کا این جی‬
‫اوز نے سلسلہ شروع کررکھا ہے اورنیشنل کمیشن فارویمن کی چیئرپرسن نے حدود الز کے خاتمہ کے لئے جو رپورٹ تیار کی‬
‫ہے ‪،‬ہم اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ اسالم کے نام پر بننے والے ملک میں ہللا کے قوانین کی مخالفت کرنے اور مذاق‬
‫اُڑانے والوں کو نشان عبرت بنا دیں گے۔‬

‫ق) کی رہنما‪ ،‬کالم نگار اور دانشور رکن قومی اسمبلی بیگم بشری رحمن بھی اس سلسلے میں ایک واضح اور (پاکستان مسلم لیگ‬
‫صاف موقف رکھتی ہیں ۔ آپ نے اس مسئلے پر خیاالت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر معاملے میں مغرب کی اندھی تقلید نے‬
‫ہمیں مذہب سے دور اور بے حس کردیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے اختالف کرتے کرتے ہللا تعالی کے واضح احکامات سے بھی نہ‬
‫صرف انکار کرنے لگے ہیں بلکہ ان پر تنقید کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک نیشنل کمیشن کی چیئرپرسن‬
‫واجدہ رضوی کی طرف سے حدود قوانین کے خاتمے کی سفارش کئے جانے کا تعلق ہے‪،‬اس مسئلے پر کمیشن کے )جسٹس (ر‬
‫اندر بھی اختالف رائے پایا جاتا ہے۔میری ذاتی رائے یہی ہے کہ یہ قانون ختم نہیں ہونا چاہئے ۔ این جی اوز کی جو خواتین حدود‬
‫آرڈیننس کی مخالفت اور خاتمہ کے لئے متحرک ہیں ‪ ،‬ان سے میں کہوں گی کہ وہ عورتوں کے حقوق کی آواز ضرور بلندکریں ۔‬
‫مگر مغرب کے بجائے اسالم کی طرف دیکھیں جس نے چودہ سو سال پہلے عورت کو نہ صرف سیاسی‪ ،‬سماجی اور معاشی‬
‫حقوق بلکہ چادر اور چار دیواری کا تحفظ بھی فراہم کیا۔ اسالم عورت کی حرمت سے کھیلنے والوں کے لئے عبرت ناک سزا‬
‫تجویز کرتا ہے۔ حدود الز کی زد میں عورتوں سے زیادہ مرد آتے ہیں اور عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگانے والے مرد کو بھی‬
‫کوڑوں کی سزا دینے کا حکم ہے۔ دراصل پولیس کی غلط تفتیش‪ ،‬طریقہ کار اور اختیارات کی وجہ سے حدود قوانین غیر مؤثر‬
‫ہوکر بدنام ہورہے ہیں ۔ حدود آرڈیننس کسی بھی اعتبار سے عورت کی حق تلفی نہیں کرتا۔ اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو‬
‫یاد رکھنا چاہئے کہ شرع نے جتنے اُصول اور ضابطے بنائے ہیں جب تک ان کا صحیح ادراک نہ ہو‪ ،‬اس کی مخالفت میں کھڑے‬
‫ہونا درست نہیں ہوتا۔ شعائر اسالم قرآن پاک سے لئے گئے ہیں اور میں نہیں سمجھتی کہ قرآن پاک میں درج شعائر اسالم پر کوئی‬
‫اُنگلی اٹھا سکے۔‬

‫سماجی حاالت ہر ملک کے جدا جدا ہیں ۔ چونکہ اس مسئلہ پر ایک عرصہ سے بحث جاری ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ‬
‫حدود آرڈیننس کے حساس مسئلے کو محض ویمن کمیشن پر نہ چھوڑے۔ عالم اسالم کے بہترین علماے کرام کو اکٹھا کرے اور‬
‫انہیں زنا آرڈیننس کی ان شقوں پر اجتہاد کی دعوت دے جن کی آڑ لے کر مغرب اسالم کے خالف پراپیگنڈا کررہا ہے اور جسے‬
‫خوش کرنے کے لئے ہماری مغرب زدہ خواتین شعائر اسالم کی مخالفت کرکے گناہ کبیرہ کی مرتکب ہورہی ہیں ۔‬

‫قومی اسمبلی کی رکن ایم ایم اے‪ ،‬محترمہ سمیعہ راحیل قاضی کا خیال ہے کہ حدود قوانین معاشرے میں تیزی سے فحاشی اور‬
‫بے راہ روی کو روکنے کے لئے وہی کام کرسکتے ہیں جو دشمن کا دست ستم روکنے کے لئے ایٹمی طاقت کرسکتی ہے۔ انہوں‬
‫نے کہا کہ دراصل مغرب ایک گہری سازش کے تحت ہمارے خاندانی نظام کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے اور مرد اور عورت کے‬
‫درمیان اسالمی حدود اور قیود کو ختم کرکے ایک بے حیا مخلوط معاشرہ قائم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ انہوں نے زور دے‬
‫کر کہا کہ کسی اسمبلی یا حکمران کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اسالم کو خدا کی طرف سے عطا کردہ قوانین میں ردوبدل‬
‫کرسکے۔ ڈاکٹر اُم کلثوم نے اس مسئلہ پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ حدود قوانین پر تنقید کرنے والوں کو مغرب کے اثر سے آزاد‬
‫ہوکر یہ تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان قوانین کا مؤثر نفاذ انسانیت کے لئے کتنا سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔‬

‫‪ :‬؍اکتوبر ‪2003‬ء کو جماعت اسالمی کی خواتین کی جانب سے الہور میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سیمینار کا عنوان تھا‪23‬‬

‫''حدود قوانین‪ ...‬قابل اصالح یا قابل استرداد؟''‬


‫‪ :‬اس سیمینار کے اختتام پر چند ایک قراردادیں متفقہ طور پر پاس کی گئی۔ اس قرارداد کے اہم نکات حسب ذیل ہیں‬

‫حدود قوانین کے خالف مہم ایک خاص البی کی طرف سے چالئی جارہی ہے جو معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر ۔ ‪1‬‬
‫عورتوں کے جذبات کو بھڑکارہی ہے۔‬

‫حدود قوانین کے بے جا استعمال کی ذمہ دار زیادہ تر پولیس ہے۔ لہذا ان قوانین کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے کے لئے ۔ ‪2‬‬
‫ان قوانین کے نفاذ میں پولیس کا کردار اور اختیار کم کرنا چاہئے۔‬

‫۔ حدو د قوانین کے الزام میں ملوث ہونے والی خواتین سے تفتیش اور پولیس کارروائی کی حدود مقرر کی جانی چاہئیں اور ‪3‬‬
‫متعلقہ پولیس اہلکاروں کو ملزمان سے رابطے اور پوچھ گچھ کے آداب کی باقاعدہ تربیت دی جانی چاہئے۔‬

‫۔ ملزم عورتوں کو تھانوں میں بال کر انہیں بے توقیر کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور ان کی معاشرتی مجبوریوں کو پیش ‪4‬‬
‫نظر رکھنا چاہئے۔‬

‫۔ اسالمی قوانین کے نفاذ اور ان پر عمل کے معامالت کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا ‪5‬‬
‫ہے کہ وہ تمام البیاں جو اسالمی قوانین کے خالف کام کررہی ہیں ‪ ،‬انہیں اس بات سے روکا جائے۔‬

‫‪ :‬اس سیمینار میں اسالمی قوانین کے خالف کام کرنے والے عناصر کی نشاندہی بھی کی گئی۔ جو کچھ اس طرح سے ہے‬

‫غیر ملکی مالی امداد اور اہل مغرب کے نظریات کے مطابق ان کے مقاصد کو فروغ دینے کا ایجنڈا رکھنے والی این جی ۔ ‪1‬‬
‫اوز‪ :‬جو بیجنگ کانفرنس ‪1995‬ء اور بیجنگ پلس کانفرنس نیویارک میں طے پانے والے آزادی نسواں کے چارٹر کو عملی‬
‫صورت دینے کے لئے سرگرم ہیں ۔‬

‫۔ غیر مسلم اقلیتیں ‪ :‬جو ملک میں اسالمی قوانین کے بجائے سیکولر قوانین کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں ۔ یہ لوگ اسالمی ‪2‬‬
‫قوانین کے خالف عمومی اور حدود قوانین کے خالف خصوصی طور پر مہم چال رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے انٹرنیٹ اور‬
‫جدید ذرائع ابالغ استعمال کررہے ہیں ۔ یہ طاقتیں پاکستان سے وفاقی شرعی عدالت کا وجود ختم کرنے کے لئے بھی سرگرم ہیں‬
‫اور اسالمی سزاؤں کے خالف بھی مہم چال رہی ہیں ۔‬

‫سیاست کے میدان میں شکست خوردہ سوشلسٹ طاقتیں جو اپنے نظریات کو عوام میں قابل قبول بنانے اور سیاسی طاقت بننے ۔‪3‬‬
‫میں ناکام ہوچکی ہیں ۔ اب سماج سدھار میں یہ اسالم اور اسالمی شعائر کو بدنام کرنے اور ان کے بارے میں شکوک و شبہات‬
‫ابھارنے کا کام کررہی ہیں ۔ یہ کام معاشرے کو وسیع القلب اور روشن خیال بنانے کے نام پر کیا جارہا ہے۔‬

‫حدود قوانین کا نفاذ یا استرداد قومی اسمبلی اور سینٹ کی ذمہ داری ہے۔ اور پاکستان کی پارلیمنٹ یہ ذمہ داری حدود آرڈیننس کے‬
‫دن کے طویل بحث مباحثے کے بعد متعلقہ اسالمی ضوابط کو ‪37‬نفاذ کے وقت ‪1981‬ء میں سال قبل پوری کرچکی ہے۔ جب کہ‬
‫باقاعدہ قانون کی شکل دی گئی تھی۔ لہذا واجدہ رضوی کا یہ کہنا کہ یہ فرد واحد اور ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا نافذ کردہ قانون ہے‪،‬‬
‫!!بالکل غلط اور خالف حقیقت بات ہے‬
‫اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ نئے سال کے آغاز میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کے‬
‫تعلقات میں افہام و تفہیم پیدا ہوچکی ہے۔ ایم ایم اے پاکستان میں مکمل اسالمی نظام کے نفاذ کی حامی ہے اور اس میں تمام‬
‫مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہے۔ موجودہ سیاسی حاالت بھی کچھ ایسے ہیں کہ ایم ایم اے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن‬
‫میں ہے۔‬
‫اس صورت حال میں ایم ایم اے کے شانوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور دینی پلیٹ فارموں سے‬
‫اسالمی قوانین کے حق میں زبردست مہم چالئے اور عوام کو باور کروائے کہ حدود قوانین ان کے لئے مصیبت نہیں بلکہ‬
‫باعث رحمت ہیں اور حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ آئین کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ اسالمی طرز معاشرت کو فروغ دے اور‬
‫حدود قوانین کو تحفظ فراہم کرے۔‬
‫حکومت پر بھی الزم ہے کہ وہ ویمن کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے اسالمی ماہرین (مرد اور‬
‫خواتین) پر مشتمل ایک وسیع تر کمیشن قائم کرے جو حدود قوانین پر عائد کئے جانے والے اعتراضات کی چھان پھٹک کرے اور‬
‫کو ترامیم تجویز کرے۔ ‪Procedural Laws‬قرآن و سنت کی روشنی میں ‪ ،‬جہاں ضرورت ہو‪ ،‬وہاں قانون سازی کے ذریعے‬
‫بہرحال یہ بات مغرب نواز این جی اوز پر سرکاری طور پر واضح کردینی چاہئے کہ اسالمی قوانین کے استرداد کے سلسلے میں‬
‫کوئی سمجھوتہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ (ڈاکٹر ظفر علی راجا‬

‫شمارہ ‪ 276‬جنوری ‪2004‬ہ‬

‫ماہ میں حدود کےتحت ‪ 278‬کیس‬

‫ریاض سہیل‬
‫بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچی‬

‫پاکستان میں گزشتہ چھ ماہ میں حدود آرڈیننس کے دو سو اٹھہتر واقعات‬


‫رپورٹ ہوئے ہیں جن میں اڑسٹھ خواتین‪ ،‬دو سو آٹھ مرد اور ایک بچہ گرفتار‬
‫ہوئے ہیں۔‬

‫غیر سرکاری تنظیم مددگار نے جو وکال برائے انسانی حقوق اور یونیسیف کے‬
‫تعاون سے کام کرتی ہے کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال دوہزار‬
‫چھ کے پہلے مہینے میں پینسٹھ‪ ،‬فروری میں چھتیس‪،‬مارچ میں اپریل میں‬
‫چھتیس‪،‬مئی میں بیاسی اور جون میں سولہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔‬
‫چھ ماہ میں اڑسٹھ خواتین‪ ،‬دو سو آٹھ‬
‫مرد اور ایک بچہ گرفتار ہوئے ہیں‬ ‫اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات کےجمع کئے گئے اعداد و شمار کے‬
‫مطابق دو سو بیس متنازعہ زنا آرڈیننس‪ ،‬ترپن فریب‪ ،‬اور ایک ہتک عزت کا‬
‫واقعہ رپورٹ کیا گیا۔‬

‫حدود آرڈیننس کے واقعات میں سے دو آسالم آباد میں‪ ،‬تیرہ حیدرآباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ‪ ،‬اٹھارہ الہور‪ ،‬اٹھائیس‬
‫چون نوابشاہ‪ ،‬تریسٹھ کراچی جبکہ تراسی ملک کے دیگر چھوٹے عالقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔‬ ‫سرگودھا‪ّ ،‬‬

‫مددگار کی رپورٹ کے مطابق دو سو پینسٹھ کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے‪ ،‬جس کے تحت بارہ مقدمات سرحد‪ ،‬ایک سو‬
‫اکیس پنجاب اور ایک سو التالیس سندھ میں درج کی گئی ہیں۔‬

‫دو سو ستر حدود کے مقدمات میں چالیس مرد اور خواتین شادہ شدہ‪ ،‬دو خواتین اور ایک طالق یافتہ مرد ‪ ،‬دو خواتین اور‬
‫دو مرد غیر شادی شدہ ہیں جبکہ تین سو بتیس کی سماجی حیثیت کا علم نہیں ہے۔‬

‫وکال برائے انسانی حقوق کے صدر ضیا اعوان نے کہا کہ کئی خواتین امتیازی قوانین کے تحت جیلوں میں قید ہیں۔ انہوں‬
‫نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ ملک سے حدود آرڈیننس سمیت تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔‬
‫واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف نے حدود آرڈیننس سمیت تمام چھوٹے مقدمات کو ایک حکم نامے کے ذریعے قابل‬
‫ضمانت بنادیا ہے جس کے بعد پورے ملک کی جیلوں سے خواتین کی ایک بڑی تعداد کو رہائی ملی ہے جبکہ مذہبی‬
‫جماعتوں کے سخت رد عمل کے بعد صدر مشرف نے کہا ہے کہ حدود آرڈیننس کو منسوخ نہیں بلکہ اس میں ترمیم کی‬
‫جائیگی۔‬

‫صدر مشرف کے جاری کردہ آرڈیننس کی معیاد چار ماہ ہے جس کے بعد پارلیمینٹ کو قانون سازی کرنی ہ‬
‫پاکستان کی حکومت نے بدھ کو زنا اور قذف کے متعلق اسالمی قوانین یعنی حدود آرڈیننس میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی سے‬
‫اکثریت رائے سے منظور کرا لیا ہے۔‬

‫حزب مخالف کی مذہبی جماعتوں کے نمائندوں نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔‬

‫مسلم لیگ نواز نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ پیپلز پارٹی نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔‬

‫سلیکٹ کمیٹی کے مجوزہ اس ترمیمی بل کے متن میں حکومت نے علما کمیٹی کی تجویز کردہ ایک شق جس میں باہمی‬
‫رضامندی سے جنسی عمل کو جرم قرار دیا گیا تھا وہ شامل کردی ہے۔‬

‫پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے ایک ترمیم پیش کی کہ باہمی رضامندی سے جنسی عمل کو جرم قرار دینے کی شق میں‬
‫جہاں بھی لفظ ‪ lewdness‬استعمال کیا گیا ہے اُس کی جگہ لفظ ‪ Fornication‬لکھا جائ‬
‫تحفظ حقوق نسواں بل کا مکمل متن‬

‫‪ 2‬سال پہلے نیوز ڈیسک‬

‫‪AddThis Sharing Buttons‬‬

‫‪Share to Facebook‬‬

‫‪ Share to TwitterShare to WhatsAppShare to LinkedInShare to RedditShare to1‬مزید۔۔۔‬

‫‪1‬‬

‫‪women protection bill‬‬

‫قومی اسمبلی میں پیش کردہ صورت میں مجموعہ تعزیرات پاکستان‪ ،‬مجموعہ ضابطہ فوجداری اور دیگر قوانین میں مزید ترمیم‬
‫کرنیکا بلچونکہ دستور کا آرٹیکل ‪ ١١٤‬اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ شرف انسانی اور قانونکے تابع‪ ،‬گھر کی خلوت قابل حرمت ہو‬
‫گی۔‬

‫چونکہ دستور کا آرٹیکل ‪ ٣٧‬سماجی انصاف کو فروغ دینے اور سماجی برائیوں کا خاتمہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔‬

‫چونکہ یہ ضروری ہے کہ قانون کے غلط اور بیجا استعمال کے خالف خواتین کی داد رسی کی جائے اور تحفظ فراہم کیا جائے‬
‫اور ان کے استحصال کو روکا جائے۔‬

‫چونکہ اس بل کا مقصد ایسا قانون النا ہے جو بالخصوص دستور کے بیان کردہ مقاصد اور اسالمی احکام سے مطابقت رکھتا ہو۔‬

‫چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعدازیں ظاہر ہونے والی اغراض کے لئےمجموعہ تعزیرات پاکستان ‪١٨٦٠‬ء (ایکٹ نمبر ‪ ٥‬بابت‬
‫‪١٨٦٠‬ء) مجموعہ ضابطہ فوجداری ‪١٨٩٨‬ء (ایکٹ نمبر ‪ ٥‬بابت ‪١٨٩٨‬ء) قانون انفساخ ازواج مسلمانان ‪١٩٣٩‬ء (نمبر ‪ ٨‬بابت‬
‫‪١٩٣٩‬ء) زناء کا جرم (نفاذ حدود) آرڈیننس‪١٩٧٩ ،‬ء (نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء) اور قذف کا جرم (حد کا نفاظ) آرڈیننس‪١٩٧٩ ،‬ء‬
‫(نمبر ‪ ٨‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء) میں مزید ترمیم کی جائے۔‬

‫لہذا بذریعہ ہذا حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔‪ -١‬مختصر عنوان اور آغاز کا نفاذ‪-:‬‬

‫(‪ )١‬یہ ایکٹ‪ ،‬قانون فوجداری ترمیمی (خواتین کا تحفظ) ایکٹ ‪٢٠٠٢‬ء کے نام سے موسوم ہو گا۔‬

‫(‪ )٢‬یہ فی الفور نافذالعمل ہو گا۔‬

‫‪٢‬۔ ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء میں نئی دفعہ کی شمولیت‪-:‬‬

‫مجموعہ تعزیرات پاکستان (ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء) میں جس کا حوالہ بعدازیں ‘مجموعہ قانون‘ کے طور پر دیا گیا‪ ،‬دفعہ‬
‫‪ ٣٦٥‬الف کے بعد‪ ،‬حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی یعنی ۔۔۔‬

‫‪ ٣٦٥‬ب۔ عورت کو نکاح وغیرہ پر مجبور کرنے کے لئے اغوا کرنا لے بھاگنا یا ترغیب دینا‪-:‬‬
‫جو کوئی بھی کسی عورت کو اس اردادے سے کہ اسے مجبور کیا جائے‪ ،‬یا یہ جانتے ہوئے اسے مجبور کرنے کا احتمال ہے کہ‬
‫وہ اپنی مرضی کے خالف کسی شخص سے نکاح کرے یا اس غرض سے کہ ناجائز جماع پر مجبور کی جائے یا پھسالئی یا اس‬
‫امر کے احتمال کے علم سے کہ اسے ناجائز جماع پر مجبور کر لیا جائے یا پھسال لیا جائے گا‪ ،‬لے بھاگے یا اغوا کر لے تو عمر‬
‫قید کی سزا دی جائے گی اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا اور جو کوئی بھی اس مجموعہ قانون میں تعریف کردہ تخریف‬
‫مجرمانہ کے ذریعے یا اکتیار کے بیجا استعمال یا جبر کے کسی دوسرے طریقے کے ذریعے‪ ،‬کسی عورت کو کسی جگہ سے‬
‫جانے کے لئے اس ارادے سے یا یہ جانتے ہوئے ترغیب دے کہ اس امر کا احتمال ہے کہ اسے کسی دوسرے شخص کے ساتھ‬
‫ناجائز جماع پر مجبور کیا جائے گا یا پھسال لیا جائے گا تو بھی مذکورہ باال طور پر قابل سزا ہو گا۔‬

‫‪٣‬۔ ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء میں نئی دفعہ کی شمولیت‪-:‬‬

‫مذکورہ مجموعہ قانون میں دفعہ ‪ ٣٦٧‬کے بعد حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی یعنی ۔۔۔۔۔‬

‫‪ ٣٦٧‬الف ۔ کسی شخص سے غیر فطری خواہش نفسانی کا نشانہ بنانے کی غرض سے اغوا کرنا یا لے بھاگنا‪-:‬‬

‫جو کوئی بھی کسی شخص کو اس غرض سے کہ مذکورہ شخص کسی شخص کی غیر فطری خواہش نفسانی کا نشانہ بنایا جائے یا‬
‫اس طرح ٹھکانے لگایا جائے کہ وہ کسی شخص کی غیر فطری خواہش نفسانی کا نشانہ بننے کے خطرے میں پڑ جائے اس امر‬
‫کے احتمال کے علم کے ساتھ مذکورہ شخص کو بایں طور پر نشانہ بنایا جائے گا یا ٹھکانے لگایا جائے گا‪ ،‬لے بھاگے یا اغوا‬
‫کرے تو اسے موت یا پچیس سال تک کی مدت کے لئے قید سخت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔‬

‫‪٤‬۔ ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء میں نئی دفعات کی شمولیت‪-:‬‬

‫مذکورہ مجموعہ قانون میں دفعہ ‪ ٣٧١‬کے بعد حسب ذیل نئی دفعات شامل کر دی جائیں گی یعنی ۔۔۔۔۔‬

‫‪ ٣٧١‬الف ۔ کسی شخص کو عصمت فروشی وغیرہ کی اغراض کے لئے فروخت کرنا‪-:‬‬

‫جو کوئی بھی کسی شخص کو اس نیت سے کہ مذکورہ شخص کسی بھی وقت عصمت فروشی یا کسی شخص کے ساتھ ناجائز‬
‫جماع کی غرض سے یا کسی ناجائز اور غیر اخالقی مقصد کے لئے کام میں لگایا جائے گا یا استعمال کیا جائے گا یا اس امر کے‬
‫احتمال کا علم رکھتے ہوئے کہ مذکورہ شخص کو کسی بھی وقت مذکورہ غرض کے لئے کام میں لگایا جائے گا یا استعمال کیا‬
‫جائے گا‪ ،‬فروخت کرے‪ ،‬اجرت پر چالئے یا بصورت دیگر حوالے کرے تو اسے پچپن سال تک کی مدت کے لئے سزا دی جائے‬
‫گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔‬

‫تشریحات۔‬

‫(الف) جب کوئی عورت کسی طوائف یا کسی شخص کو کسی چکلے یا مالک یا منتظم ہو فروخت کی جائے‪ ،‬اجرت پر دی جائے‪،‬‬
‫بصورت دیگر حوالے کی جائے تو مذکورہ عورت کو اس طرح حوالے کرنے والے شخص کے متعلق تاوقتیکہ اس کے برعکس‬
‫ثابت نہ ہو جائے یہ تصور کیا جائے گا کہ اس نے اسے اس نیت سے حوالے کیا تھا کہ اسے عمت فروشی کے مقصد کے لئے‬
‫استعمال کیا جائے گا۔‬

‫(ب) دفعہ ہذا اور دفعہ ‪ ٣٧١‬ب کی اغراض کے لئے ‘ناجائز جماع‘ سے ایسے اشخاص کے مابین جماع مراد ہے جو رشتہ نکاح‬
‫میں منسلک نہ ہوں۔‬

‫‪ ٣٧١‬ب ۔ کسی شخص کو عصمت فروشی وغیرہ کی اغراض سے خریدنا‪-:‬‬

‫جو کوئی بھی کسی شخص کو اس نیت سے کہ مذکورہ شخص کو کسی وقت عصمت فروشی کے لئے یا کسی شخص کے ساتھ‬
‫ناجائز جماع کے لئے کسی ناجائز اور غیر اخالقی مقصد کے لئے کام میں لگایا جائے گا یا استعمال کیا جائے گا‪ ،‬خریدے‪ ،‬اجرت‬
‫پر رکھے یا بصورت دیگر اس کا قبضہ حصل کرے تو اسے پچیس سال کی مدت کے لئے سزائے قید دی جائے گی اور جرمانے‬
‫کا بھی مستوجب ہو گا۔‬

‫تشریح‪-:‬‬

‫کوئی طوائف یا کوئی شخص جو کسی چکلے کا مالک یا منتظم ہو کسی عورت کو خریدے‪ ،‬اجرت پر رکھے یا بصورت دیگر اس‬
‫کا قبضہ حاصل کرے تو تاوقتیکہ اس کے برعکس ثابت نہ ہو جائے یہ تصور کیا جائے گا کہ اس عورت پر اس نیت سے قبضہ‬
‫کیا گیا تھا کہ اسے عصمت فروشی کے مقصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔‬

‫‪٥‬۔ ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء میں نئی دفعہ کی شمولیت‪-:‬‬

‫مذکورہ مجموعہ قانون میں دفعہ ‪ ٣٧٤‬کے بعد ذیلی عنوان ‘زنا بالجبر‘ کے تحت حسب ذیل نئی دفعات شامل کر دی جائیں گی‪،‬‬
‫یعنی ۔۔‬

‫‪٣٧٥‬۔ زنا بالجبر‪-:‬‬

‫کسی مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب کہا جائے گا جو ماسوائے ان مقدمات کے جو بعدازاں مستثنی ہوں‪ ،‬کسی عورت کے ساتھ‬
‫مندرجہ ذیل پانچ حاالت میں میں سے کسی میں جماع کرے۔‬

‫(اول) اس کی مرضی کے خالف۔‬

‫(دوم) اس کی رضا مندی کے بغیر۔‬

‫(سوم) اس کی رضا مندی سے‪ ،‬جبکہ رضا مندی اس کو ہالک یا ضرر کا خوف دال کر حاصل کی گئی ہو۔‬

‫(چہارم) اس کی مرضی سے جبکہ مرد جانتا ہو کہ وہ اس کے نکاح میں نہیں ہے اور یہ کہ رضا مندی کا اظہار اس وجہ سے کیا‬
‫گیا ہے کیونکہ وہ یہ باور کرتی ہے کہ مرد وہ دوسرا شخص ہے جس کے ساتھ اس کا نکاح ہونا وہ باور کرتا ہے یا کرتی ہے‪ ،‬یا‬

‫(پنجم) اس کی رضا مندی سے یا اس کے بغیر جبکہ وہ سولہ سال سے کم عمر کی ہو۔‬

‫تشریح‪-:‬‬

‫زنا بالجبر کے جرم کے لئے مطلوبہ جماع کے تعین کے لئے دخول کافی ہے۔‘‬

‫‪٣٧٦‬۔ زناءبالجبر کے لئے سزا‪-:‬‬

‫(‪ )١‬جو کوئی زناءبالجبر کا ارتکاب کرتا ہے اسے سزائے موت یا کسی ایک قسم کی سزائے قید جو کم سے کم پانچ سال یا زیادہ‬
‫سے زیادہ پچیس سال تک ہو سکتی ہے دی جائے گی اور جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہو گا۔‬

‫(‪ )٢‬جب زناءبالجبر کا ارتکاب دو یا زیادہ اشخاص نے بہ تائید باہمی رضامندی سے کیا ہو تو‪ ،‬ان میں سے ہر ایک شخص کو‬
‫سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔‬

‫‪٦‬۔ ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء میں نئی دفعہ کی شمولیت‪-:‬‬

‫مذکورہ مجموعہ قانون میں‪ ،‬بابت بیس میں‪ ،‬حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی یعنی ۔۔‬

‫‪ ٤٩٣‬الف۔ کسی شخص کا فریب سے جائز نکاح کا یقین دال کر ہم بستری کرنا‪-:‬‬
‫ہر وہ شخص جو فریب سے کسی عورت کو جس سے جائز طریق پر اس نے نکاح نہ کیا ہو‪ ،‬یہ باور کرائے کہ اس نے اس‬
‫عورت سے جائز طور پر نکاح کیا ہے اور اسے یقین کے ساتھ ہم بستری پر آمادہ کرے تو اسے پچیس سال تک کے لئے قید‬
‫سخت دی جائے گی اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔‬

‫‪٧‬۔ ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء میں نئی دفعہ کی شمولیت‪-:‬‬

‫مذکورہ مجموعہ قانون میں دفعہ ‪ ٤٩٦‬کے بعد‪ ،‬حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی‪ ،‬یعنی ۔۔‬

‫‪ ٤٩٦‬الف۔ کسی عورت کو مجرمانہ نیت سے ورغالنہ یا نکال کر لے جانا یا روک رکھنا۔‬

‫جو کوئی بھی کسی عورت کو اس نیت سے نکال کر لے جائے یا ورغال کر لے جائے کہ وہ کسی شخص کے ساتھ ناجائز جماع‬
‫کرے یا کسی عورت کو مذکورہ نیت سے چھپائے یا روک رکھے تو اسے سات سال تک کی مدت کے لئے کسی بھی قسم کی‬
‫سزائے قید دی جائے گی اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔‬

‫‪٨‬۔ ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء میں نئی دفعہ کی شمولیت‪-:‬‬

‫مذکورہ مجموعہ قانون میں‪ ،‬دفعہ ‪ ٥٠٢‬الف کے بعد‪ ،‬حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی‪ ،‬یعنی ۔۔۔‬

‫‪ ٥٠٢‬ب۔ زناءبالجبر کی صورت میں کسی عورت کی شناخت کی تشہیر کرنا‪-:‬‬

‫اگر کوئی زناءبالجبر کے کسی مقدمے کی تشہیر کرتا ہے جس کے ذریعے کسی عورت یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی‬
‫شناخت کو ظاہر کرے تو اسے چھ ماہ تک کی سزائے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔‬

‫‪ -٩‬ایکٹ نمبر ‪ ٥‬بابت ‪١٨٩٨‬ء میں نئی دفعات کی شمولیت‪-:‬‬

‫مجموعہ ضابطہ فوجداری ‪١٨٩٨‬ء (ایکٹ نمبر ‪ ٥‬بابت ‪١٨٩٨‬ء) میں دفعہ ‪ ٢٠٣‬کے بعد‪ ،‬حسب ذیل نئی دفعات شامل کر دی جائیں‬
‫گی‪ ،‬یعنی ۔۔۔‬

‫‪ ٢٠٣‬الف ۔ زناء کی صورت میں نالش‪-:‬‬

‫(‪ )١‬کوئی عدالت زناء کے جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس‪١٩٧٩ ،‬ء (نمبر مجریہ ‪١٩٧٩‬ء) کی دفعہ ‪ ٥‬کے تحت کسی جرم کی سماعت‬
‫نہیں کرے گی ماسوائے اس نالش کے جو کسی اختیار سماعت رکھنے والی مجاز عدالت میں دائر کی جائے۔‬

‫(‪ )٢‬کسی نالش جرم کا اختیار سماعت رکھنے والی عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طور پر مستغیث زناء کے فعل کے کم از‬
‫کم چار چشم دید بالغ گواہوں کی حلف پر جرم کے لئے ضروری جانچ پڑتال کرے گا۔‬

‫(‪ )٣‬مستغیث اور عینی گواہوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے مواد کو تحریر تک محدود کر دیا جائے گا اور اس پر مستغیث اور‬
‫عینی گواہوں کے عالوہ عدالت کے افسر صدارت کنندہ کے بھی دستخط ہوں گے۔‬

‫(‪ )٤‬اگر عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی یہ رائے ہو کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود ہے تو عدالت ملزم کی‬
‫اصالتاَََ ََ ََ ََ ََ ََ حاضری کے لئے سمن جاری کرے گا۔‬
‫(‪ )٥‬کسی عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روپرو نالش دائر کی گئی ہو یا جس کو یہ منتقل کی گئی ہو اگر وہ مستغیث اور‬
‫چار یا زائد عینی گواہوں کے حلفیہ بیانات کے بعد یہ فیصلہ دے کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے‪ ،‬نالش کو خارج‬
‫کر سکے گا اور ایسی صورت میں وہ اس کی وجوہات قلمبند کرے گا۔‬

‫‪ ٢٠٣‬ب قذف کی صورت میں نالش‪-:‬‬

‫(‪ )١‬دفعہ ‪ ٦‬کی ذیلی دفعہ (‪ )٢‬کے تابع‪ ،‬کوئی عدالت قذف کا جرم (نفاظ حد) آرڈیننس ‪١٩٧٩‬ء (نمبر ‪ ٨‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء) کی ذیلی‬
‫دفعہ ‪ ٧‬کے تحت کسی جرم کی سماعت نہیں کرے گی ماسوائے اس نالش کے جو اختیار سماعت رکھنے والی مجاز عدالت میں‬
‫دائر کی جائے۔‬

‫(‪ )٢‬کسی نالش جرم کا اختیار سماعت رکھنے والی عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طور پر مستغیث کی قذف کے فعل کے‬
‫جرم میں ضروری جانچ پڑتال کرے گا۔‬

‫(‪ )٣‬مستغیث کی جانچ پڑتال کے مواد کو تحریر تک محدود کر دیا جائیگا اور اس پر مستغیث کے عالوہ افسر صدارت کنندہ کے‬
‫بھی دستخط ہوں گے۔‬

‫(‪ )٤‬اگر عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی یہ رائے ہو کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود ہے تو عدالت ملزم کی‬
‫اصالتاَََ ََ ََ ََ ََ ََ حاضری کے لئے سمن جاری کرے گا۔‬

‫(‪ )٥‬کسی عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روپرو نالش دائر کی گئی ہو یا جس کو یہ منتقل کی گئی ہو اگر وہ مستغیث کے‬
‫حلفیہ بیانات پر غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ دے کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے‪،‬تو نالش کو خارج کر سکے گا‬
‫اور ایسی صورت میں وہ اس کی وجوہات قلمبند کرے گا۔‬

‫‪١٠‬۔ ایکٹ نمبر ‪ ٥‬بابت ‪١٨٩٨‬ء کے جدول دوم کی ترمیم‪-:‬‬

‫مجموعہ ضابطہ فوجداری ‪١٨٩٨‬ء (ایکٹ نمبر ‪ ٥‬بابت ‪١٨٩٨‬ء) میں دول دوم میں ۔۔۔‬

‫‪١١‬۔ آرڈیننس نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء کی نئی دفعہ ‪ ٢‬کی ترمیم‪-:‬‬

‫(‪ )١‬زناء کے جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس ‪١٩٧٩‬ء (آرڈیننس نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء) میں دفعہ ‪ ٢‬میں شقات (ج) اور (ہ) حذف کر‬
‫دی جائیں گی۔‬

‫‪١٢‬۔ آرڈیننس نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء کی دفعہ ‪ ٣‬کا حذف‪-:‬‬

‫زناء کا جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس‪١٩٧٩ ،‬ء (آرڈیننس نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء) کی دفعہ ‪ ٣‬کو حذف کر دیا جائیگا۔‬

‫‪١٣‬۔ آرڈیننس نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء کی دفعہ ‪ ٤‬کی ترمیم‪-:‬‬

‫زناء کا جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس ‪١٩٧٩‬ء (آرڈیننس نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء میں دفعہ ‪ ٤‬میں لفظ ‘جائز طور پر‘ اور مذکورہ دفعہ‬
‫کے آخر میں تشریح کو حذف کر دیا جائیگا۔‬
‫‪١٤‬۔ آرڈیننس نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء کی دفعات ‪ ٦‬اور ‪ ٧‬کا حذف کرنا‪-:‬‬

‫زناء کا جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس ‪١٩٧٩‬ء (آرڈیننس نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء) کی دفعات ‪ ٦‬اور ‪ ٧‬کو حذف کر دیا جائے گا۔‬

‫بیان اغراض و وجوہ۔‬

‫اسالمی جمہوریہ پاکستان کے مسملہ دستوری مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسالمی تعلیمات اور مقتضیات کے‬
‫مطابق جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں موجود ہے۔ بحثیت انفرادی اور اجتماعی زندگیاں گزارنے کے قابل بنایا جائے۔‬

‫چنانچہ دستور‪ ،‬اس امر کی تاکید کرتا ہے کہ موجودہ تمام قوانین کو اسالمی احکام کے مطابق جس طرح قرآن پاک اور سنت میں‬
‫ان کا تعین کیا گیا ہے‪ ،‬دینا چاہیے۔‬

‫اس بل کا مقصد بالخصوص زناء اور قذف سے متعلق قوانین کو بالخصوص بیان کردہ اسالمی جمہوری پاکستان کے مقاصد اور‬
‫دستوری ہدایت کے مطابق بنانا ہے اور خاص طور پر قانون کے بے جا اور غلط استعمال کے خالف خواتین کی داد رسی کرنا‬
‫اور انہیں تحفظ فراہم کرنا ہے۔‬

‫قرآن پاک میں زناء اور قذف کے جرائم کے بارے میں موجود ہے زناء اور قذف سے متعلق دو آرڈیننس اس اس حقیقت کے‬
‫باوجود کہ قرآن اور سنت نے نہ تو ان جرائم کی وضاعت کی ہے اور نہ ہی ان کے لئے سزا مقرر کی ہے تاہم دیگر قابل سزا‬
‫قوانین کے شمار میں اضافہ کرتے ہیں‪ ،‬زناء اور قذف کے لئے سزائیں قصاص کے کسی اصول کے بغیر یا ان جرائم کے لئے‬
‫ثبوت کے کسی طریقے کی نشاندہی کئے بغیر نہیں دی جا سکتیں۔‬

‫کوئی جرم جس کا حوالہ قرآن پاک اور سنت میں نہیں یا جس کے لئے اس میں سزا کے بارے میں نہیں بتایا گیا وہ تعزیر ہے جو‬
‫ریاستی قانون سازی کا موضوع ہے۔ یہ دونوں کام ریاست کے ہیں کہ وہ مذکورہ جرائم کی وضاعت کرے اور ان کے لئے سزاؤں‬
‫کا تعین کرے۔ ریاست مذکورہ اختیار کو مکمل اسالمی ہم آہنگی کے ذریعے استعمال کرتی ہے جو ریاست کو وضاعت اور سزا ہر‬
‫دو کا اختیار دیتا ہے‪ ،‬اگرچہ ‪ ،‬مذکورہ تمام جرائم کو دونوں حدود آرڈیننسوں سے نکال دیا گیا ہے اور مجموعہ تعزیرات پاکستان‬
‫‪١٨٦٠‬ء (ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت ‪١٨٦٠‬ء) جسے بعدازاں پی پی سی کا نام دیا گیا ہے میں مناسب طور پر شامل کر دیا گیا ہے۔‬

‫زناء کے جرم (نفاظ حد) آرڈیننس ‪١٩٧٩‬ء (نمبر ‪ ٧‬مجریہ ‪١٩٧٩‬ء) جسے بعدازاں ‘زناء آرڈیننس‘ کا نام دیا گیا ہے کی دفعات ‪١١‬‬
‫تا ‪ ١٦‬میں دیئے گئے جرائم تعزیر کے جرائم میں ہیں‪ ،‬ان تمام کو مجموعہ تعزیرات پاکستان ‪١٨٦٠‬ء (ایکٹ نمبر ‪ ٤٥‬بابت‬
‫‪١٨٦٠‬ء) کی دفعات ‪٣٦٥‬ب‪٣٦٧ ،‬الف‪٣٧١ ،‬الف‪٣٧١ ،‬ب‪٤٩٣ ،‬الف اور ‪٤٩٦‬الف کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ جرم قذف (نفاظ‬
‫حد) آرڈیننس ‪١٩٧٩‬ء جسے بعدازاں ‘قذف آرڈیننس‘ کا نام دیا گیا ہے کی دفعات ‪ ١٢‬اور ‪ ١٣‬کو حذف کیا گیا ہے‪ ،‬یہ مذکورہ‬
‫آرڈیننس کی دفعہ ‪ ٣‬میں قذف کی تعریف کے طور پر کیا گیا ہے جو طبع شدہ اور کنندہ شدہ مواد کی طباعت یا کنندہ کاری یا‬
‫فروخت کے ذریعے ارتکاب کردہ قذف کو کافی تحفظ دیتی ہے۔ مذکورہ تعزیری جرائم میں سے کسی کی آئینی تعریف کے‬
‫استعمال میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے یا ان کے لئے مقرر کی گئی سزا کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ ان تعزیری جرائم کے لئے‬
‫کوڑوں کی سزا کو حذف کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن اور سنت میں ان جرائم سے متعلق کوئی سزا نہیں ہے۔ ریاست کو یہ اختیار ہے‬
‫کہ وہ اسالم کے منصفانہ نظریئے کے مطابق اس میں تبدیلی الئے۔ یہ پی پی سی کے مطابق اور شائشتگی کے معئار کو قائم‬
‫کرنے کے لئے ہے جس سے معاشرے کی کامل ترقی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ زناء اور قذف کے آرڈیننس پر شہریوں کی طرف‬
‫سے بالعموم اور اسالمی اسکالروں اور خواتین کی طرف سے بالخصوص سخت تنقید کی گئی۔ تنقید کے کئی موضوع تھے‪ ،‬ان‬
‫میں زناء کے جرم کو زناء بالجبر (عصمت دری) کے ساتھ مالنا شامل ہے۔ اور دونوں کے لئے ثبوت اورسزا کی ایک ہی قسم‬
‫رکھی گئی ہے۔ یہ بے جا سہولت دیتا ہے کوئی عورت جو عصمت دری کو ثابت نہیں کر سکتی اس پر اکثر زناء کا استغاثہ دائر‬
‫کر دیا جاتا ہے‪ ،‬زناء بالجبر (عصمت دری) کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا کے ثبوت کی ضرورت صرف اتنی ہے جتنی کہ زناء‬
‫کے لئے ہے۔ یہ اول الذکر کو ثابت کرنے کے لئے تقریبا ناممکن بنا دیتا ہے۔‬
‫جب کسی مرد کے خالف عصمت دری کے استغاثہ میں ناکامی ہو لیکن طبی معائنے سے جماع یا حمل کی یا بصورت دیگر‬
‫تصدیق ہو جائے تو عورت کو چار عینی گواہوں کے نہ ہونے سے زناء کی سزا حد کے طور پر نہیں دی جاتی بلکہ تعزیر کے‬
‫طور پر دی جاتی ہے‪ ،‬اس شکایت کو بعض اوقات اعتراف تصور کیا جاتا ہے۔‬

‫قرآن اور سنت زناء کے لئے تعزیری سزا کے مقتنی نہیں ہیں۔ یہ آرڈیننس کا مسودہ تیار کرنے والوں کے ذاتی خیاالت پر مبنی‬
‫ہے اور قذف کے جرائم کے لئے تعزیری سزائیں نہ صرف اسالمی اصولوں کے منافی ہیں بلکہ استحصال اور نا انصافی کو جنم‬
‫دیتی ہیں‪ ،‬انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ دستوری تعزیرات کو واضح اور غیر مبہم ہونا چاہیے‪ ،‬ممنوعہ اور غیر ممنوعہ کے درمیان‬
‫واضح حد مقرر ہو۔ شہری اس سے آگاہ ہوں‪ ،‬وہ اپنی زندگی اور طور طریقوں کو ان روشن رہنما اصولوں کو اپناتے گزار سکیں‬
‫لہذا ان میں وہ اور متعلقہ قوانین مین غیر واضح تعریفات کی وضاعت کی جا رہی ہے اور جہاں یہ ممکن نہیں ہے انہیں حذف کیا‬
‫جا رہا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیر محتاط شہریوں کو تعزیری قوانین کے غیر دانشمندانہ استعمال سے تحفظ بہم پہنچایا‬
‫جائے۔ زناء آرڈیننس ‘نکاح‘ کی جائز نکاح کے طور پر تعریف کرتا ہے‪ ،‬بالخصوص دیہی عالقوں میں نکاح بالعموم اور طالق کو‬
‫بالخصوص رجسٹر نہیں کیا جاتا۔ کسی شخص پر زناء کا الزام لگانے کے لئے دفاع میں ‘جائز نکاح‘ کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔‬
‫رجسٹریشن نہ کرانا اس کے دیوانی منطقی نتائج میں صرف یہی کافی ہے کوئی نکاح رجسٹر نہ کرایا جائے یا کسی طالق کی‬
‫تصدیق کو تعزیری منطقی نتائج سے مشروط نہ کیا جائے۔ اس میں اسالمی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جب کسی جرم کے ارتکاب‬
‫میں کوئی شبہ پایا جائے تو حد کو نافذ نہ کیا جائے‪ ،‬قانون مذکورہ مقدمات میں غلط استعمال کی وجہ سے سابقہ خاوندوں اور‬
‫معاشرے کے دیگر ارکان کے ہاتھوں میں ظلم و ستم کا کھلونا بن گیا ہے۔‬

‫تین طالقیں دیئے جانے کے بعد عورت اپنے میکے چلی جاتی ہے وہ دوران عدت جاتی ہے‪ ،‬کچھ ہی دنوں کے بعد خاندان کے‬
‫لوگ نئے ناطے کا انتظام کر دیتے ہیں اور وہ شادی کر لیتی ہے‪ ،‬اس وقت خاوند یہ دعوی کرتا ہے کہ یئت ہائے مجاز کی طرف‬
‫سے طالق کی تصدیق کے بغیر نکاح ختم نہیں ہوا اور زناء کا مقدمہ دائر کر دیتا ہے یہ ضروری ہے کہ اسے ختم کرنے کے‬
‫لئے اس تعریف کو حذف کر دیا جائے۔‬

‫زناء بالجبر (عصمت دری) کے جرم کے لئے کوئی حد موجود نہیں ہے‪ ،‬یہ تعزیری جرم ہے‪ ،‬لہذا عصمت دری کی تعریف اور‬
‫سزا کو پی پی سی میں بالترتیب دفعات ‪ ٣٧٥‬اور ‪ ٣٧٦‬میں شامل کیا جا رہا ہے۔ جنس کی مبہم تریف میں ترمیم کی جا رہی ہے‬
‫تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ عصمت دری ایک جرم ہے جس کا ارتکاب مرد عورت کے ساتھ کرتا ہے۔ عصمت دری کا الزام‬
‫لگانے کے لئے عورت کی مرضی دفاع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ انتظام کیا جا رہا ہے کہ اگر عورت کی عمر ‪١٦‬‬
‫سال سے کم ہو تو مذکورہ مرضی کو دفاع کے طور پر استعمال نہ کیا جائے یہ کمزور کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے‪ ،‬جس کی‬
‫قرآن بار بار تاکید کرتا ہے اور بین االقوامی قانونی ذمہ داری کے اصولوں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔‬

‫اجتماعی زیادتی کی سزا موت ہے۔ اس سے کم سزا نہیں رکھی گئی ایسے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں کا یہ مشاہدہ‬
‫ہے کہ بعض حاالت میں ان کی یہ رائے ہوتی ہے کہ کسی شخص کو بری نہیں کیا جا سکتا جبکہ عین اس وقت مقدمت کے حقائق‬
‫اور حاالت کے مطابق سزائے موت جائز نہیں ہوتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ مقدمات میں ملزم کو بری کرنے پر مجبور ہوتے‬
‫ہیناس معاملے کو نمٹانے کے لئے سزائے موت کے متبادل کے طور پر عمر قید کی سزا کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔‬

‫تعزیر زناء بالجبر (عصمت دری) اور اجتماعی زیادتی کی قانونی کاروائی کے لئے طریقہ کار‪ ،‬اس طرح دیگر تمام تعزیرات‪ ،‬پی‬
‫پی سی کے تحت تمام جرائم کو مجموعہ ضابطہ فوجداری ‪١٨٩٨‬ء (ایکٹ نمبر ‪ ٥‬بابت ‪١٨٩٨‬ء) بعدازیں ‘سی آر پی سی‘ کے‬
‫ذریعے منضبط کیا گیا ہے۔‬

‫لعان انفساخ نکاح کی شکل ہے کوئی عورت جو کہ اپنے شوہر کی طرف سے بدکاری کی ملزمہ ہو اور اس الزام سے انکاری ہو‬
‫اپنی ازواجی زندگی سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ لعان سے متعلق قذف آرڈیننس کی دفعہ ‪ ١٤‬اس کے لئے طریقہ کار‬
‫فراہم کرتی ہے۔ انفساخ نکاح کی آئینی تعزیر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح‪ ،‬قانون انفساخ ازواج مسلمانان‪١٩٣٩ ،‬ء (نمبر‪٨‬‬
‫بابت ‪١٩٣٨‬ء) کے تحت لعان کو طالق کی وجہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔‬

‫زناء اور قذف کی تعریف ویسی ہی رہے گی جیسا کہ زناء اور قذف آرڈیننسوں میں ہے۔ نیز زناء اور قذف دونوں کے لئے سزائیں‬
‫ایک جیسی ہی ہوں گی۔‬
‫زناء سگین جرم ہے جو کہ لوگوں کو اخالق کو بگاڑتا ہے اور پاکدامنی کے احساس کو تباہ کرتا ہے۔ قرآن زناء کو لوگوں کے‬
‫اخالق کے برعکس ایک جرم ٹھہراتا ہے۔ چار چسم دید گواہوں کی ضرورت بال شرکت غیرے صریحا غیر معمولی بار نہیں ہے۔‬
‫یہ بھی دعوَی ہے کہ اگر حدیث کے برعکس ہو‪‘ ،‬ہللا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے گناہوں کو چھپاتے ہیں‘ جو کسی عمل‬
‫کا ارتکاب اس طرح غل غپاڑہ کی صورت میں کرتے ہیں تاکہ طار آدمی اس کو دیکھ لیں‪ ،‬البتہ معاشرے کو بہت سنگین نقصان ہو‬
‫گا۔ اسی وقت قرآن راز داری کو تحفظ دیتا ہے‪ ،‬بت بنیاد اندازوں سے روکتا ہے اور تحقیقات کرنے اور دوسروں کی زندگی میں‬
‫دخل اندازی سے منع کرتا ہے۔ اس لئے زناء کے ثبوت کی ناکامی کی وجوہ کی بنا پر قذف کے لئے سزا عائد ہو جاتی ہے (زناء‬
‫کے متعلق جھوٹا الزام) قرآن شکایت کنندہ سے زناء کو ثابت کرنے کے لئے چار چشم دید گواہ مانگتا ہے۔ شکایت کنندہ اور‬
‫شہادت دینے والوں کو اس جرم کی سنگینی سے بخوبی آگاہی ہونی چاہئے کہ اگر انہوں نے جھوٹا الزام لگایا یا الزام کے شک کو‬
‫دور نہ کر سکے تو وہ قذف کے لئے سزا وار ہوں گے۔ ملزم زناء کی قانونی کاروائی میں ناکامی کے نتیجے میں دوبارہ از سر‬
‫نو قانونی کاروائی شروع نہیں کرے گا۔‬

‫زناء آرڈیننس خواتین پر استغاثہ کا بے جا استعمال کرتا ہے‪ ،‬خاندانی تنازعات کو طے کرنے اور بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی‬
‫آزادیوں سے انحراف کرتا ہے۔ زناء اور قذف کے ہر دو مقدمات میں اس کے بے جا استعمال پر نظر رکھنے کے لئے مجموعہ‬
‫ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ صرف سیشن عدالت ہی کسی درخواست پر مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار‬
‫استعمال کر سکے۔ اسے قابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے تاکہ ملزم دوران سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو‬
‫کوئی اختیار نہیں ہو گا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کر سکے تاوقتیکہ سیشن عدالت اس کی اجازت نہ دے اور‬
‫مذکورہ ہدایات ماسوائے عدالت میں حاضری کو یقینی بنائے جانے یا کسی سزا دہی کی صورت کے جاری نہیں کی جا سکتیں‪،‬‬
‫مجموعہ تعزیرات کی صورت میں‪ ،‬عورت یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی تشہیر نہیں ہو گی اور اس کی خالف ورزی کی‬
‫صورت میں چھ ماہ تک کی سزائے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔‬

‫مذکورہ تمام ترامیم کا بنیادی مقصد زناء اور قذف کو اسالمی احکام کے مطابق قابل سزا بنانا ہے۔ جیسا کہ قرآن اور سنت میں دیا‬
‫گیا ہے۔ استحصال سے روکنا‪ ،‬پولیس کے بے جا اختیارات سے روکنا اور انصاف اور مساویانہ حقوق پر مبنی معاشرے کو تشکیل‬
‫دیتا ہے۔‪http://dunyapakistan.com/65247/#.XEQLPBJbPIU‬‬

‫‪https://www.dw.com/ur/%D8%AC%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D8%B2%DB%‬‬

‫حاالت حاضرہ‬

‫جنسی زیادتی کے مقدمات اور ڈی این اے ٹیسٹ‪ :‬نظریاتی کونسل کے موقف پر تنقید‬

‫پاکستانی قوانین کو اسالمی قوانین سے ہم آہنگ بنانے کے لیے حکومتی مشاورتی ادارے اسالمی نظریاتی کونسل کے مطابق ڈی‬
‫این اے ٹیسٹ اور ان کے نتائج جنسی زیادتی کے مقدمات میں بنیادی ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے۔‬

‫س موقف کے بعد جنسی زیادتی کی شکار خواتین کے لیے مسائل برقرار رہنے کا اندیشہ ہے۔ ‪1979‬ء میں جنرل ضیاءالحق کے‬
‫دور میں حدود آرڈیننس متعارف کرایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت زنا کے مرتکب کسی بھی ملزم کو سزا سنانے کے لیے چار‬
‫گواہوں کی گواہی الزمی ہے۔ تاہم اس قانون سے سب سے زیادہ ایسی خواتین متاثر ہوتی ہیں‪ ،‬جو جبری جنسی زیادتی یا زنا بالجبر‬
‫کا شکار ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایسے جرم کے مرتکب ملزمان کے کے خالف اتنی گواہیاں نہیں ال سکتیں بلکہ الٹا انہیں غلط الزام‬
‫لگانے کے جرم میں خود قانون کانشانہ بننا پڑ جاتا ہے۔‬

‫‪Deutschland DNA Test Pipette‬‬

‫جنسی زیادتی کے جرم میں ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج انتہائی حد تک قابل اعتماد ہوتے ہیں‬
‫پاکستان میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس اب تک اپنی تحقیقات کے دوران دیگر شواہد کے‬
‫ساتھ ساتھ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ملزم کی درست شناخت کی سہولت سے بھی فائدہ اٹھاتی ائی ہے۔‬

‫تاہم اب اسالمی نظریاتی کونسل کے ایک حالیہ اعالن کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ جنسی زیادتی کے مقدمات میں سزا دلوانے کے‬
‫لیے بنیادی ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن انہیں اس طرح کے جرم کی تصدیق میں مدد کے لیے معاون‬
‫ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔‬

‫چیئرمین اسالمی نظریاتی کونسل کے بیان کے مطابق زنا بالجبرمیں ڈی این اے ٹیسٹ کارآمد ثابت نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک ایسا‬
‫جرم ہے جسے ثابت کرنے کے لیے بہت احتیاط الزمی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ وہاں صحیح نہیں ہے۔‬

‫‪Gericht Gesetz Jura Hammer Waage‬‬

‫’ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کو بنیادی ثبوت کے طور پر تسلیم نہ کرنے سے بہت سے ملزمان سزاؤں سے بچ جائیں گے‘‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل کے اس تازہ فیصلے سے اختالف کرتے ہوئے معروف عالم دین موالنا عبدالقوی کا ملکی میڈیا میں کہنا‬
‫تھا‪’’ ،‬میں تو حیران یہ ہوتا ہوں کہ کون شخص کہہ رہا ہے کہ یہ ضمنی شہادت ہے۔ ضمنی شہادت کی کوئی اصطالح نہ کتب فقہ‬
‫میں موجود ہے اور نہ ہی پیغمبر اسالم کے کسی فرمان میں اور نہ ہی قرآن میں ایسی کسی اصطالح کا ذکر موجود ہے۔ آج کے‬
‫سائنسی دور میں اگر اس ٹیسٹ سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ایسے کسی معاملے میں کون گناہ گار ہے اور کون بے گناہ‪ ،‬تو میں‬
‫اپنے ساتھی علماء کرام سے یہی کہوں گا کہ خدا را‪ ،‬آج کے دور میں جہالت کی بات نہ کریں۔‘‘‬

‫دوسری طرف نظریاتی کونسل کے اس اعالن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بیرسٹر شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ‬
‫رپورٹوں کے ذریعے کسی بھی مجرم کی شناخت کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ درست شناخت کا ایک قابل اعتبار ذریعہ ہے۔ اس‬
‫لیے یہ کہنا کہ اس میں غلطی کا احتمال ہوسکتا ہے‪ ،‬درست نہیں‪’’ :‬جو رپورٹیں اتی ہیں ڈی این اے ٹیسٹ کی‪ ،‬وہ ‪ 98‬فیصد درست‬
‫ہوتی ہیں۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ضمنی شہادت ہے اور اسے مسترد کر سکتے ہیں۔ کم از کم یہ حد (حدود ارڈیننس)‬
‫میں نہیں تو تعزیری جرم میں تو انا ہی چاہیے۔‘‘‬

‫بیرسٹر شاہدہ جمیل کے مطابق اگر ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی ثبوت کا درجہ نہ دیا گیا‪ ،‬تو اس فیصلے سے خواتین سب سے‬
‫زیادہ متاثر ہوں گی‪’’ ،‬اگر ایک عورت صرف تین گواہ ال رہی ہے اور اسے چوتھا گواہ نہیں مل رہا تو اس کا مطلب ہے وہ ادمی‬
‫جو غلط کام کر رہا ہے‪ ،‬وہ ارام سے قانون کی گرفت سے نکل جائے گا۔ کیونکہ اس کی شناخت کے طریقہ کار کو کمزور کر دیا‬
‫گیا ہے۔ اس حوالے سے کونسل نے کچھ نہیں سوچا۔‘‘‬

‫رپورٹ‪ :‬عنبرین فاطمہ‪ ،‬کراچی‬


‫ادارت‪ :‬مقبول ملک‬

‫تحفظ نسواں ایکٹ ‪2006‬ء اور قائد اعظم‬


‫ِ‬ ‫)رح(‬
‫کا پاکستان‬

‫تحفظ نسواں ایکٹ کے اثرات‬


‫ِ‬ ‫پاکستانی معاشرے پر‬
‫پارلیمنٹ کی طرف سے حال ہی میں منظور کی جانے والے قانون تحفظ نسواں ‪ 2006‬کے بارے میں ملک بھر میں‬
‫گہری تشویش پائی جارہی ہے۔ کیونکہ اس قانون کے مندرجات اس بات کی مظہر ہیں کہ یہ قانون جو کہ بنظر ظاہر‬
‫خواتین کے تحفظ کے لیے منظور کیا گیا ہے فی االصل نہ صرف قرآن وسنت اور آئین پاکستان کی روح سے متصادم‬
‫اور اس کے منافی ہے بلکہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بجائے ان کو پامال کرنے کا سبب بننے واالہے۔‬

‫تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ‪2006‬ء کی جملہ شقوں کا تجزیہ اس امر کو واضح کرتا ہے کہ اس قانون کو تحفظ نسواں ایکٹ‬ ‫ِ‬
‫‪2006‬ء کی بجائے پامالی حقوق نسواں ایکٹ ‪2006‬ء قرار دیا جائے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ آئین کے آرٹیکل ‪15‬‬
‫اور ‪ 16‬کا حوالہ دیتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ یہ قانون خواتین کی عزت و وقار‪ ،‬ان کی نجی راز داری‪ ،‬معاشرے میں‬
‫ان کے تحفظ اور سماجی برائیوں خاتمے کے لئے منظور کیا جارہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام بنیادی لوازمات‬
‫کے پورے ہونے کا کوئی امکان تک اس قانون میں موجود نہیں ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ پہلے سے موجود حدود آرڈیننس‬
‫میں بھی زنا جیسے جرم اور سماجی برائی کے خاتمے کے جو امکانات موجود تھے ان کو بھی مسدود کر دیا گیا ہے۔‬
‫ضروری تو یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کی تنفیذ اور اسے رو بہ عمل کرنے میں جو نقائص ہیں ان کو دور کیا جاتا‪ ،‬انتظامیہ‬
‫اور پولیس کی طرف سے حدود آرڈیننس کے غلط استعمال کے راستے بند کیے جاتے اور اس کے استعمال کو مزید‬
‫موثر‪ ،‬بامقصد اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کا ضامن بنایا جاتا مگر قانون سازوں نے اس کو ایسی شکل میں نافذ کر‬
‫دیا ہے جس میں معاشرے میں بے حیائی‪ ،‬عریانی اور بدکاری کے فروغ کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ اگرچہ اس‬
‫قانون میں کئی باتیں محل نظر اور قاب ِل اعتراض ہیں تاہم اس میں اٹھائے گئے کچھ اقدامات ایسی نوعیت کے ہیں جن کے‬
‫‪:‬نتیجے میں یہ قانون اپنے عنوان کے بالکل برعکس حیثیت اختیار کرگیا ہے‬

‫۔ اس قانون میں قرار دیا گیا ہے کہ زنا کی شکایت صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی درج کرائی جاسکے گی اور یہ ‪1‬‬
‫حقیقت ہے کہ پورے ضلع میں ایک سیشن جج کی عدالت تک رسائی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں‪ ،‬مزید یہ کہ نہ‬
‫صرف عامۃ الناس کے لیے اس سماجی برائی کے خاتمے کی کوشش کرنے کے لیے عدالت تک رسائی محال بنا دی گئی‬
‫ہے بلکہ اس بنیادی معاشرتی برائی کی ابتدائی شکایت تک کے اندراج کے لیے سیشن جج کی شرط سے ضلع بھر کے‬
‫دوسرے عدالتی ڈھانچے پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کر دیا گیا ہے جبکہ وہ اس سے بھی سنگین نوعیت کے معامالت‬
‫نمٹا رہا ہے‬
‫۔ اس قانون کے تحت زنا کو قابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے جس کا الزمی نتیجہ یہ ہوگا کہ جرم کے ارتکاب پر ‪2‬‬
‫حکومت کی طرف سے گرفت اورمجرموں کو سزا کی شدت کا جو خوف راہ راست پر النے کا باعث بن سکتا تھا وہ ختم‬
‫ہوجائے گا اور یہ انتہائی ہلکا جرم قرار پائے گا۔‬

‫۔ اس قانون کے تحت زنا کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دیا گیا ہے گو کہ پہلے سے بھی یہ ایک اعتراض موجود ‪3‬‬
‫تھا کہ حدود آرڈیننس کو پولیس غلط استعمال کر رہی ہے‪ ،‬سو ضروری یہ تھا کہ اسے مجسٹریٹ کی اتھارٹی کے تحت‬
‫قابل دست اندازی پولیس قرار دیا جاتا مگر موجودہ صورت میں یہ قانون اس جرم کے فروغ کا باعث بنے گا۔‬

‫۔ اس قانون کے تحت یہ قرار دیا گیا ہے کہ پولیس اس وقت تک زنا کے مجرم کو گرفتار نہیں کرسکتی جب تک کہ ‪4‬‬
‫سیشن جج کی طرف سے اس کے لیے احکامات جاری نہ کیے جائیں۔ اور سیشن عدالت بھی اس طرح کے احکامات اس‬
‫وقت جاری کرے گی جب اسے یقین ہوگا کہ اس طرح کے جرم کا ارتکاب ہوا ہے صاف ظاہر ہے اس اقدام کے بعد‬
‫شکایت کنندگان تو عدالتوں کا چکر لگاتے رہیں گے اور مجرم اس وقت تک آزاد رہے گا جب تک عدالت ازخود اس بات‬
‫کا یقین حاصل نہیں کرلیتی کہ واقعی مجرم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔‬

‫۔ سب سے خطرناک امر جس کا تذکرہ اس قانون میں کیا گیا ہے یہ ہے کہ قرآن وسنت میں زنا اور قذف کی کوئی ‪5‬‬
‫تعریف نہیں بیان کی گئی اور نہ ہی ان کی کوئی سزا بیان کی گئی ہے۔ قانون سازوں کی طرف سے اس طرح کی بات کو‬
‫قانون کا حصہ بنانا یہ تو ان کی جہالت‪ ،‬عدم آگہی اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے غفلت کا نتیجہ ہے یا ان کی بدنیتی‬
‫اور بددیانتی ہے کہ قرآن و سنت میں مذکور واضح احکامات میں چشم پوشی کرتے ہوئے اس طرح کے تصور کو قانون‬
‫کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں۔‬

‫اندریں حاالت جبکہ ملک بھر کے اہل دین اور اہل دانش حلقوں کی طرف سے اس قانون کو قرآن و سنت سے متصادم‬ ‫ِ‬
‫قرار دیا جارہا ہے مقتدر حلقوں کو ہم اس طرف متوجہ کرنا چاہیں گے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہیں جس‬
‫سے پاکستان کی نظریاتی اساس اور اسالمی تشخص پر زد پڑتی ہو اور پاکستانی معاشرے کے لیے ایسی ڈگر پر چلنے‬
‫کے امکانات پیدا ہوتے ہوں جو آئین میں طے کردہ بنیادی ضابطوں اور رہنما اصولوں کے منافی ہے۔ جس سے معاشرے‬
‫میں مثبت اخالقیات کی پامالی‪ ،‬خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل کے امکانات پیدا‬
‫ہوتے ہوں۔ کیونکہ اس سے ہم معاشرتی زوال کی اس ڈگر پر چل نکلیں گے کہ مستقبل میں اس کی اصالح کے امکانات‬
‫بہت ہی کم ہوں گے۔‬

‫بانی پاکستان قائد اعظم رحمۃ ہللا‬


‫تصور پاکستان ایسا نہ تھا‬
‫ِ‬ ‫علیہ کا‬
‫بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ ہللا‬
‫علیہ کا بطور گورنر جنرل کراچی بار ایسوسی‬
‫ایشن میں عید میالدالنبی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫بطور مہمان خصوصی ‪ 25‬جنوری‬ ‫ِ‬ ‫کی تقریب میں‬
‫ء کو خطاب ‪1948‬‬

‫یہ خطاب مقتدر حلقوں کے لیے جو قرآن و سنت‬


‫کے نام پر قرآن و سنت کے منافی قانون سازی‬
‫کرکے ملک کے آئینی اور نظریاتی تشخص کا حلیہ‬
‫بگاڑ رہے ہیں ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ بات بہت‬
‫قابل غور ہے کہ یہ خطاب قائداعظم نے کسی‬
‫عوامی جلسے میں نہیں بلکہ ایک انتہائی سنجیدہ‬
‫تقریب میں ان لوگوں سے کیا جو قانون کی توضیح‬
‫اور تشریح کرنے والے یعنی وکالء تھے۔ اور یہ‬
‫بطور گورنر جنرل کیا جس کی حیثیت ان کی طرف سے ریاست کے لیے بالعموم اور ریاست کے‬
‫ِ‬ ‫خطاب قائداعظم نے‬
‫قانون ساز اور قانون کی تشریح کرنے والے طبقات کے لیے بالخصوص ایک پالیسی بیان کی ہے۔‬

‫قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے عید میالد النبی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی تقریب پر اپنے اعزاز‬
‫میں بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیئے گئے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے‬
‫قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے‪ ،‬یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے‬
‫دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔‬

‫قائد اعظم رحمۃ ہللا علیہ نے فرمایا‪’’ :‬آج بھی اسالمی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطالق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو‬
‫‘‘ برس پیشتر ہوتا تھا۔‬

‫گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا‪’’ :‬جو لوگ گمراہ ہو گئے ہیں یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے ہیں‪،‬‬
‫میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔‬

‫اعلی نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسالم نے ہر شخص کو مساوات‪ ،‬عدل اور ’’‬ ‫ٰ‬ ‫اسالم اور اس کے‬
‫انصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت‪ ،‬مساوات اور حریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ‬
‫اعلی ترین معیار پر مبنی ہو اور اس کی بنیاد ہر شخص کے لیے انصاف اور عدل پر رکھی گئی ہو۔ قائد اعظم‬ ‫ٰ‬ ‫دیانت کے‬
‫محمد علی جناح نے فرمایا ہمیں اسے (پاکستان کا آئندہ دستور) بنا لینے دیجئے۔ ہم یہ بنائیں گے اور ہم اسے ساری دنیا کو‬
‫‘‘دکھائیں گے۔‬

‫صوبائی عصبیت کے بارے میں گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا کہ ’’یہ ایک بیماری ہے اور ایک لعنت‘‘۔ انہوں نے‬
‫فرمایا ’’ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان صوبائی عصبیت کی بیماری سے چھٹکارا پا لیں۔ ایک قوم جب تک کہ وہ ایک صف‬
‫میں نہ چلے‪ ،‬کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہم سب پاکستانی اور اس مملکت کے شہری ہیں اور ہمیں مملکت کے لیے‬
‫‘‘خدمت‪ ،‬ایثار اور زندگی کا نذرانہ پیش کرنا چاہیے تاکہ ہم اسے دنیا کی عالیشان اور خود مختار مملکت بنا سکیں۔‬

‫قائد اعظم رحمۃ ہللا علیہ نے اس عظیم اور تاریخی موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ‬
‫نے مجھے خوش آمدید کہا۔ اس بار ایسوسی ایشن سے کافی عرصے سے واقف ہوں۔ آج ہم یہاں تھوڑی سی تعداد میں اس‬
‫عظیم شخصیت صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے حضور خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے جن کے لیے نہ صرف‬
‫الکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی‪،‬‬
‫‘‘ اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراج عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔‬

‫رسول اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے ’’‬
‫والے تھے۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے‬
‫جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسالم کی بات کرتے ہیں تو بالشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں‬
‫سراہتے۔‬

‫اسالم نہ صرف رسم و رواج‪ ،‬روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے‪ ،‬بلکہ اسالم ہر مسلمان کے لیے ایک ’’‬
‫ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ قادر‪،‬‬
‫اعلی ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید‪ ،‬اسالم کے‬
‫ٰ‬ ‫دیانت‪ ،‬انصاف اور سب کے لیے عدل کے‬
‫بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسالم میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات‪ ،‬آزادی اور‬
‫‘‘یگانگت‪ ،‬اسالم کے بنیادی اصول ہیں۔‬

‫گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا‪’’ :‬اس زمانہ کے مطابق رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سادہ تھی۔ تاجر کی‬
‫حیثیت سے لے کر فرمانروا کی حیثیت تک آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے جس چیز میں بھی ہاتھ ڈاال کامیابی نے آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے قدم چومے۔ رسول اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم عظیم ترین انسان تھے جن کا چشم عالم نے‬
‫کبھی آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نظارہ نہیں کیا۔ تیرہ سو سال گزرے کہ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے‬
‫‘جمہوریت کی بنیاد ڈالی۔‬

‫‪http://www.pat.com.pk/urdu/tid/394/%D8%AA%D8%AD%D9%8‬‬

‫حدود آرڈیننس‪%D9%86/‬‬
‫آزاد دائرة المعارف‪ ،‬ویکیپیڈیا سے‬

‫‪Jump to navigation Jump to search‬‬

‫حدود آرڈیننس (انگریزی‪ )Hudood Ordinances :‬پاکستان کا ایک قانون تھا جسے اس وقت کے عسکری سربراہ‬
‫مملکت جنرل ضیاء الحق نے الگو کیا۔ اس قانون کو مجموعہ تعزیرات پاکستان کی کچھ شقوں کو تبدیل کر کے الگو کیا‬
‫گیا اور نئی شقوں کا اضافہ کیا گیا۔[‪ ]2[]1‬اس قانون کی مخالفت کی وجہ سے ‪ 2006‬میں تحفظ خواتین بل پاس ہونے کے بعد‬
‫تبدیل کر دیا گیا۔‬

You might also like