Professional Documents
Culture Documents
حدود آرڈیننس
حدود آرڈیننس
اسالمی حدُود
موجودہ دور میں عالمی میڈیا پر صیہونیت کی حکمرانی ہے۔ ان کے ناپاک عزائم میں اُمت مسلمہ کو جہاں ہر محاذ پر نیچا
دکھانا ہے وہاں مسلمانوں کے قلوب میں ان کے دین کی بابت بدگمانی راسخ کرنا بھی ایک بھرپور مشن ہے۔ ''حدود اسالمی'' کے
ضمن میں بین االقوامی میڈیا کافی عرصہ سے یہ پراپیگنڈہ کررہا ہے کہ ''اسالمی سزائیں وحشیانہ اور دور ظلم کی یادگار
ہیں۔''حال ہی میں پاکستان میں بھی اس پراپیگنڈہ کی بازگشت سنائی دی ،اور بعض طبقات اس آواز سے متاثر ہوکر اس نظریہ کی
اشاعت میں بھی کوشاں ہیں۔ چند ارباب اقتدار جن میں سابق وزیراعظم صاحبہ کا نام نامی بھی شامل ہے ،اہل یورپ کے سامنے
سرخرو ہونے او رنام کمانے کے چکر میں ان غیر اسالمی نظریات کو پروان چڑھانے میں سرگرم عمل ہیں۔ ان حاالت میں
اسالمیان پاکستان پر جہاں ان سازشوں سے خبردار رہنا او ربچنا الزمی ہے وہاں علماء پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
مغرب کے ان حملوں کا تدبر اور سنجیدگی سے جواب دیں۔ عوام الناس کو اسالمی احکام کی اصل روح سے روشناس کرائیں اور
دین محمدی کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن انجام دیں۔ (ادارہ)
........................................................
جہاں تک اہل مغرب کا یہ واویال ہے کہ ''اسالم ایک وحشی مذہب ہے'' اس کی سزائیں وحشت اور بربریت پر مبنی ہیں۔ سنگسار
کرنا ،ہاتھ پاؤں کاٹنا ،کوڑے مارنا یہ سب چیزیں آج سے چودہ سو سال پہلے تو کارآمد ہوسکتی تھیں مگر آج کے تہذیب یافتہ اور
سائنسی دور میں یہ سزائیں وحشیانہ ،ظلم پر مبنی او رخالف تہذیب ہیں۔ ہمارے مغرب سے مرعوب مسلمان بھائی او راہل مغرب
سے بڑھ کر مغربی تہذیب کے پرستار و وفادار حضرات بھی اپنے ان استادوں کی ہاں میں ہاں مالتے ہوئے اسالم کی حدود پر
دست ''اصالح'' دراز کرنا چاہتے ہیں۔ ان حدود کو بزعم خود ''جدید تہذیب یافتہ'' دور کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے دالئل
کا تجزیہ کیا جائے تو ایک سے ایک بڑھ کر خالف عقل باتیں سامنے آتی جائیں گی۔ پہلے تو یہی بات محل نظر ہے کہ آیا یہ دور
واقعی تہذیب یافتہ دور ہے او رکیا تہذیب جدید مغربی ختاین سے واقعی حاصل ہوسکتی ہے؟
دوم ...........یہ حدید تہذیب کیا جرائم کا خاتمہ کرانے میں کامیاب ہوسکی ہے؟
سوم ...........کیا اس تہذیب میں جو مجرم کو پورا پورا ریلیف دیتی ہے ،واقعی کوئی وحشیانہ اور بربریت پر مبنی سزا نہیں
ہے؟
جدید مغربی تہذیب جو مذہب سے انکار پر مبنی ہے اور وطن پرستی ،مادہ پرستی اختالط مرد و زن اور مادر پدر آزادی پر مبنی
ہے ،دراصل مصنوعی چمک دمک اور چکا چوند رکھتی ہے جبکہ اصل حقیقت ،جو پس پردہ ہے ،بڑی بھیانک ہے اس کے
نے بہت پہلے کہہ دیا تھا ؎ متعلق عالمہ اقبال
مختصرا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کی جن نام نہاد آزادیوں کو آج ہمارے دانشور بہت چاہتے ہیں ،خصوصا چند خواتین بے
طرح سے نثار ہورہی ہیں اور یہ بیگمات اس آزادئ نسواں کو اپنے ہاں قانونی شکل دلوانے کے لیے بے قرار ہیں۔ دراصل یہ ایک
ایسا مین ہول ہے جس کے اوپر تو روشنی کے خوشنما بلب لگا دیئے گئے ہیں مگراندر گندگی ،عفونت ،سڑاند اور بدبو کے سوا
کچھ نہیں۔ وہ معاشرہ اختالط مرد و زن کی تمام حدود پار کرکے اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ بے محابا آزادی سے عورت کے
وجود میں کشش ختم ہوچکی ہے او راب انسان عورت بیزار ہوگیا ہے۔ وہاں ہم جنس پرستی او رلواطت کے لیے باقاعدہ پارلیمنٹوں
میں بل پاس ہوئے ہیں۔ اسی ہم جنس پرستی کی وجہ سے ایڈز کا مرض پھیال ہے او راب یہ مرض اتنی سرعت سے وبا بن کر
پھیال ہے کہ مغربی ذرائع ابالغ چیخ چیخ کر متنبہ کررہے ہیں کہ اگلی صدی کا سب سے خوفناک او رال عالج مسئلہ ''ایڈز کا
مرض'' ہوگا جس سے افراد کی کمی کے ساتھ ساتھ معیشت بھی بُری طرح متاثر ہوگی۔
کنواری ماؤں کا تناسب! اب وہاں نام و نسب ڈھونڈنا بھی مشکل مسئلہ بن چکا ہے۔ پھر طالقوں کی حرام اوالدوں کی کثرت،
کثرت ،عورتوں پر دہری ذمہ داریوں کے بوجھ ،رشتوں کا تقدس وہاں ختم ہوگیا ہے۔ خاندانی نظام ابتری اور انتشار کا شکار ،پھر
اوالد والدین کی ہمدردی ،محبت اور توجہ نہ مل سکنے کی وجہ سے مار دھاڑ ،تشدد اور تخریب کاری کی عادی ہے۔ قاتل ،ڈاکو،
منشیات فروش وہاں ہیرو بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ جس سے جرائم کا آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ ادھر قوانین ایسے ہیں کہ وہ مجرم
کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ملزم کو نفسیاتی مریض بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ وکیلوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ
بہرصورت ملزم کو مجرم ثابت نہ ہونے دیں اور تمام جھوٹے سچے ثبوت فراہم کرکے ملزم کو بچالیں۔ وہاں مظلوم کا کوئی
پرسان حال نہیں او رملزم کے ساتھ ہر ایک کو ہمدردی ہے۔ سزائے موت وہاں معطل ہے اس کو دور وحشت کی یادگار سمجھا
جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نیویارک جیسے ''متمدن'' شہر میں صرف ایک رات میں 150تک کاریں چوری
ہوجاتی ہیں۔ وہاں قتل و غارت ،چوری ،ڈکیتی ،رشوت ،کرپشن غرض ہر قسم کے جرائم صرف اتنے زیادہ ہیں کہ مسلمان ممالک
میں باوجود اپنی تمام تر کوتاہیوں اور خامیوں کے اس کا بیسواں حصہ بھی نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عالمی میڈیا پر بھی انہی
اہل مغرب کا قبضہ ہے اس لیے مسلمانوں کی معمولی سی بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا میں طوفان مچ جاتا
ہے۔ وہاں اگر تو مظلوم غیر امریکی ہو خصوصا کوئی کاال یا مسلمان ،تو پولیس کبھی بھی مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب
نہیں ہوسکی۔ غیر امریکی امریکیوں کے ہاتھ لٹ جائیں ،قتل ہوجائیں یاکسی سے پریشان ہوں ،امریکی اخباروں میں اس کی خبر
تک نہیں چھپ سکتی۔ اس پر عمل کاروائی ہونا تو دور کی بات ہے ،خود امریکیوں کو کس حد تک جرائم کی سزا دی جاتی ہے
وہ ایک دو مثالوں سے واضح ہے۔
نیویارک شہر میں ایک 21سالہ شخص نے ''ٹے نیس'' جس کا نام تھا ،اپنی گرل فرینڈ ''مونیکا'' کو قتل کرکے قیمہ بنایا اور بھون
کر کھا گیا۔ دوسرے دن اس کے سر کو بوائل کرکے مغز کھایا او رہڈیوں کا سوپ بنا کر پی لیا۔ امریکہ کی عدالت میں اس قاتل
نے اپنے جرم کا اعتراف تو کرلیا مگر عدالت نے اسے ذہنی او رنفسیاتی مریض قرار دے کر جیل میں ڈال دیا۔ اعلی حکام اب اس
کی رہائی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ قاتل اب چند ہفتوں میں رہا ہوجائے گا (روزنامہ ''پاکستان''
اشاعت 4۔4۔ 1992ء) ہللا ہللا! قاتلوں اور ملزموں سے نفسیاتی مریض کے نام پر یہ وی آئی پی سلوک ،ہاں یہی امریکہ ہے جو
اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو تمام دنیا پر نافذ کرنے کے خواب دیکھنے واال ،سب سے زیادہ جرائم اسی امریکہ میں ہوتے ہیں۔
ایک اور ''جیفری ڈاہمر'' نامی مجرم تھا۔ اس امریکی نے گزشتہ دس برسوں میں کم از کم 17۔ افراد کو قتل کیا جس وقت وہ
گرفتار ہوا اس کے فلیٹ میں انسانی جسموں کے ٹکڑے ،کھوپڑیاں ،ہڈیاں او رکھالیں جابجا پڑی ہوئی تھیں۔ گویا یہ جرائم ہی
امریکہ کی صنعت ہیں۔
( 24جون 1992ء) نوائے وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جرائم کے بادشاہ جان گوئی کا مقدمہ فیڈرل کورٹ
نیویارک میں پیش ہوا۔ اس شخص کے جرائم کی داستانیں زبان زد خاص و عام ہیں۔ وہ پانچ مافیاؤں کا سرپرست ہے۔ یعنی
منشیات ،قحبہ خانے ،جوئے کے اڈے ،قرضوں کی لوٹ کھسوٹ او ردیگر قتل جیسے بڑے جرائم اس کی سرپرستی میں ہوتے
ہیں۔ خود اس نے پانچ قتل کئے ہیں اور کرائے پر تو وہ بے شمار قتل کروا چکا ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ اس کے پرستار
ہیں۔ وہ مقدمہ کی سماعت کے وقت عدالت کے باہر مظاہرہ کررہے تھے کہ جان گوئی کو چھوڑ دیا جائے۔ تاہم عدالت نے ہمت
کرکے اس کے لیے عمر قید کی سزا سنائی او رمجرم نے اس سزا کو قبول کرلیا۔ اس لیے کہ قید میں رہ کر وہ زیادہ محفوظ
طریقے سے ان مافیاؤں کی سرپرستی کرسکے گا۔ مگرباہر کے مظاہرین کو بڑی تکلیف ہورہی تھی کہ اس نے کیوں یہ سزا قبول
کی ہے؟
اگست 1969ء میں جب امریکی اپالو پہلی مرتبہ چاند پر اترا تو اس کے کچھ دنوں بعد وطن عزیز کے اخبارات میں امریکی صدر
کینیڈی کی بیوہ کا انٹرویو شائع ہوا تھا۔ مس جیکولین نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ''جس قوم کو زمین پر رہنے کا سلیقہ
اور شعور نہیں وہ چاند پر جاکر کیا کرے گی؟'' واضح رہے کہ اس کا شوہر امریکہ کا صدر مسٹر کینیڈی اپنے ہی ایک ہم وطن
کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ مسز کینیڈی کا یہ جواب بالکل مبنی برحقیقت تھا۔ واقعی تمام تر سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود
وہاں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے۔
یہ چند نمونے ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور سارا مغربی معاشرہ کتنا تہذیب یافتہ اور بلند کردار کا مالک ہے!
جہاں ظالم کا ہاتھ نہ پکڑا جاسکے ،مظلوم کو انصاف نہ مل سکے ،جہاں جرائم ملکی صنعت قرار پائیں ،جہاں مجرم اگر ہم وطن
ہوں تو نفسیاتی مریض قرار پاکر سزا سے مستثنی ہوں اور اگر مجرم غیر ملکی ہوں تو ان کو سخت اذیب ناک سزائیں دی جائیں۔
کیا یہ معاشرہ مہذب ہوسکتا ہے؟ ہمارے بعض دانشوروں کے قول کے مطابق وہ اپنے وطن کے لیے دیانتدار ہوسکتے ہیں ،وقت
کے پابند ،اپنی قومی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ،اپنے وطن کے لیے جانیں دینے والے ہوسکتے ہیں۔ مگران کی وفاداری کے
معیار ہمیشہ دُہرے ہوتے ہیں۔ کشمیر میں ظالم اور غاصب بھارت نے مظالم کی انتہا کردی ہے ،اجتماعی آبروریزی ،اجتماعی
طور پر گاؤں کے گاؤں جال دینا معمول کے واقعات ہیں۔ مگر چونکہ امریکہ بھارت کا دوست ہے اس لیے ان کشمیریوں کی آہوں،
سن سکتا۔ مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل نے ظلم و ستم کے سسکیوں اور مظالم کی بھنک بھی امریکہ نہیں ُ
کون سے پہاڑ نہیں تورے او ران کو بے گھر ،بے در کرکے کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا
ہے مگر کیا امریکہ نے کبھی اسرائیل کا محاسبہ کیا ہے؟ حاالنکہ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر چند ایک معمولی شکایتوں پر وہ
پاکستانیوں کے خالف ایکشن لینے پر آمادہ ہوگیا تھا اور بھارت کی اس نے باقاعدہ پیٹھ ٹھونکی تھی۔
یہ مغربی تہذیب تو استحصالی نظام ہے جس نے ہر طریقے سے عالم اسالم کی جڑیں کھوکھال کرنا اپنا فرض منصبی قرار دے لیا
ہے۔ تیل ہمارا ،مگرزندگی یورپ و امریکہ کی روشن او ررواں دواں ،خام مال ہمارا مگر کام یورپ کی فیکٹریوں میں آرہا ہے۔
افراد کار ہمارے ،مگر ان کی صالحیتیں اور ذہن مغرب کے پاس گروی ہیں۔ سرمایہ ہمارا ،مگر تجوریاں مغربی دنیا کی بھری
ہیں او رکام ان کے چل رہے ہیں او رہم ہر حال میں ان کے دریوزہ گر ،ہم اسلحہ بھی اپنی مرضی کا حاصل کرنے کے مجاز
نہیں۔ وہ ہمارا پوری سیاست کنٹرول کرکے اپنےمرضی کے مہرے سامنے التے رہتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو ہر وقت عدم
استحکام کا شکار رکھتے ہیں اوپر سے مغربی ثقافت کی یلغار نے ہمارے ہاں بھی اسی طرح فلموں او رکھیلوں کے ساتھ حد سے
بڑھا ہوا جنون فحاشی ،عریانی ،مادیت پرستی ،صوبائی او رلسانی عصبیتیں ،فرقہ پرستی ،الحاد اور دین بیزاری ،اخالقی و
روحانی ابتری ،افزائش جرائم جیسے گھناؤنے امراض پیدا کردیئے ہیں او رہم ہیں کہ اب بھی اسی تہذیب کے گن گا رہے ہیں او
راسی تہذیب کو اپنے ہاں رائج کرنے کو بے قرار ہیں۔
یہ ایک الگ تلخ داستان ہے۔ مختصرا یہ کہ نہ تو مغربی معاشرہ مہذب ہے بلکہ اخالقی اور روحانی لحاظ سے اس کا دیوالیہ نکل
چکا ہے اور نہ ہی مغربی قانون کی نقل کرکے ہم اپنے معاشرے کو جرائم سے پاک کرسکتے ہیں۔
رہا ان کے ہاں وحشیانہ سزاؤں کا تذکرہ تو دیکھیں جن کو وہ سزائیں دینا چاہتے ہیں کتنا اذیت ناک سزائیں دیتے ہیں۔ انفرادی طو
رپر عقبوت خانوں میں نازک اعضاء کو بجلی کے کرنٹ لگانا ،بجلی کی کرسیوں پر بٹھانا ،ٹھنڈے یخ بستہ پانی میں ہفتوں کھڑا
رہنے پر مجبور کرنا ،مسلسل برین واشنگ کرتے رہنا ،حواالت میں خونخوار کتے اور چوہے چھوڑ دینا ،نازک اعضاء کو
خصوصا نشانہ بنانا اپنا ہی پیشاب پینے پر مجبو رکرنا وغیرہ وغیرہ۔
او راجتماعی طور پر ...............ایک بم گرا کر ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے ہنستے بستے شہروں کو تباہ و برباد کردینا۔
مختلف گیسیں پھینک کر دشمن ملک کے بیشتر افراد کو معذور اور ذہنی مریض بنا دینا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ نہتے افراد پرایسے
مہلک ہتھیار استعمال کرنا جو اپنے تابکاری اثرات کی بنا پر نسلوں کی نسلیں معذور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایٹمی ترقی کے
پس پردہ اسالمی ممالک کی بحری حدود میں ایٹمی دھماکے اور مہلک تجربات کرنا۔ بعد میں ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی
آلودگی کا ذمہ دار قرار دے کر ان پر دباؤ ڈالنا کہ اپنے مالی بجٹ میں اس مد میں معقول رقم مختص کی جائے۔ مجبور ،بیکس،
نہتے شہریوں پر ٹنوں کے حساب سے بارود برسا دینا۔ یہ سب آتشیں اسلحہ اور پھر سٹار وار کا سلسلہ ! کیا یہ سب کچھ وحشیانہ
او رظالمانہ نہیں ہے۔ دشمن ملک میں بارودی سرنگوں کا جال بچھا دینا ،اجتماعی طور پر گاؤں کے گاؤں جال دینا ،اجتماعی طور
پر خواتین کی آبرو ریزی کرنا کیا یہ سب کچھ تہذیب اور اعلی اخالقی قدروں کے زمرے میں آئے گا؟
اب آئیے اسالمی سزاؤں کی طرف کہ یہ کس طرح جرائم کی بیخ کنی کرتی ہیں۔
سزا نافذ کرنے کے سلسلہ میں ہللا تعالی نے دو اصول قرآن پاک میں بیان فرما دیئے ہیں:
1۔ سزا برسر عام دی جائے۔ 2۔ سزا دینے میں کسی نرمی یا رعایت سے کام نہ لیا جائے۔
سزا برسر عام دینا :سورة نور میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
سزا دیتے وقت نرمی سے کام لینا مجرم کو دوبارہ جرم پر آمادہ کرسکتا ہے۔ اس کو ایک بار ہی اتنی کڑی سزا مل جائے کہ آئندہ
کسی کو بھی جرم کرنےسے قبل سو بار سوچنا پڑے (تاہم مجرم کی جسمانی کیفیت کے پیش نظر قاضی کوڑوں کی نرمی اور
سختی پر غور کرسکتا ہے) مگر تعداد میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔
جن لوگوں کی نظر اقوام عالم کی تاریخ پر ہے ان سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جرم و سزا کے معاملے میں دانشوروں اور قانون
سازوں کا رویہ ہمیشہ افرادط اور تفریط کا رہا ہے۔ ایک قانون ایک قسم کے جذبات کے تحت بنایا گیا اس سے ایک خرابی کا
ازالہ تو ہوگیا مگر کئی دوسری خرابیاں پیش آگئیں۔ جب ان کاازالہ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری انتہا نے جنم لیا۔ ہللا تعالی
کو عقل انسانی کےہر دم بدلتے مزاج اور شعور انسانی کی محدودیت کا پتہ ہے اس نے یہ پسند نہ کیاکہ انسانی عقل انسانی زندگی
کے بنیادی تحفظات کو اپنی نئی نئی موشگافیوں سے نقصان پہنچاتی رہے۔ لہذا اس نے کامل مہربانی سے بنیادی جرائم کی سزا
خود ہی واضح طور پر مقرر فرما دی ،او رکسی کو ان میں تبدیلی کرنے یا کتر بیونت کرنےسے روک دیا۔ چنانچہ اسالم کی مقرر
کردہ ہر ایکحد انسانی شرف کو بحال کرتی ہے معاشرہ کو امن و سکون مہیا کرتی ہے۔ انسانی کردار کو تطہیر فکر و عمل عطا
کرتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ ہرایک حد کس کس طرح انسانی شرک کوبحال کرتی ہے اور ہر انسان کے جان ،عقل ،نسل ،مال او
ردین کےتحفظ کو کس طرح یقینی بناتی ہے۔
قتل:
انسان خود فطرت کی قوت تخلیق کا شاہکار ہے۔ ہللا تعالی نے واضح منصوبہ اور پروگرام کے تحت انسان کو پیدا کیا ہے۔ تہذیب
و تمدن کی گرم بازاری ،ایجادات و اختراعات کی فراوانی ،یہ ساری رونق او ربہار انسان ہی کے دم قدم سے ہے اب خود عقل کا
ہی تقاضا ہے کہ ہر وہ کوشش جو خود اس انسان کے وجود ہی کو ختم کرنے والی ہو اس کا سختی سے سدباب کرنا چاہیے۔ نبی
اکرمﷺ کے فرمان کے بموجب ''ایک مسلمان کی ُحرمت ہللا کے ہاں بیت ہللا سےبھی بڑھ کر ہے'' تو جو انسان اس قدر اہمیت کا
حامل ہے ،اگر کوئی حدود ہللا کو باالطاق رکھتے ہوئے ،اس کے شرف کو حقیر بنا کر اس پر حیات کے دروازے تنگ کرے تو
وہ کون سی تاویل کے مطابق اس قابل ہے کہ اس کے شرف کا لحاظ کیا جائے۔ جو شخص کسی دوسرے انسان کو جینے کا حق
نہیں دیتا وہ کہاں خود اس الئق ہے کہ زمین اس کے بوجھ سے زیربارہو۔ اس پر یہ مستزاد کہ اگر آج یہ کہا جاتا ہے کہ حدود
عوام کے سامنے نہ دی جائیں کیونکہ اس سے شرف انسانی میں کمی واقع ہوتی ہے۔اخبارات میں سرعام سرخیاں پڑھنے کو ملتی
ہیں کہ فالں جگہ برسرعام سزائیں روک دی گئیں۔ عدالت نے سرعام سزا کو انسانی وقار سمجھتے ہوئے کھلے بندوں سزا سے
روک دیا۔
مقام تدبر ہے کہ کیا وہ شخص جو خود اشراف کی عزت کو پامال کرتا ہے جو مسلمہ حقوق کو توڑنے کا مرتکب واقع ہوا ہے کیا
اسے اس سزا سے بھی ہمکنار نہ کیا جائے جو بعد کے لوگوں کے لیےباعث عبرت ہو۔ شریعت اسالمی اس سلسلے میں اتنی
حساس ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔
''اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرمان لکھ دیاتھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیالنے کے
عالوہ کسی او روجہ سے قتل کیا اس نےگویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اور جس نے کسی کو زندگی بخشی گویا تمام انسانوں کو
زندگی بخش دی۔''
ایسے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا او رانسانی زندگی کے تحفظ کو بحال کرنا انسان کے شرف و عزت کی توقیر او ربحالی ہے
یا وحشت؟ مغرب والے چاہے قاتل کو ذہنی بیمار کہہ کر چھوڑ دیں مگر متاثرہ مظلوم خاندان کیا کسی ہمدردی کا مستحق نہیں؟
پھر کیا ذہنی امراض کے شفا خانوں سے شفایاب ہونے کے بعد کیا یہ مجرم واقعی جرم سے باز آجاتے ہیں ،کیا شرح قتل میں
واقعتا کمی آجاتی ہے؟ عمال صورت حال یہ ہے کہ اٹلی میں سزائے قتل معطل ہے نتیجہ یہ ہے کہ وہاں عام انسان تو کیا ،کئی
وزیراعظم قتل کئے جاچکے ہیں او راب وہاں وزارت عظمی کی ذمہ داری لینے والوں کو سوبار سوچنا پڑتا ہے ،بلکہ کوئی تیار
ہی نہیں ہوتا۔
شراب :
اسالم تندرست و توانا اور باشعور جسم کو ترجیح دیتا ہے۔ جس طرح وہ جسمانی قتل کوسنگین جرم قرار دیتا ہےبعینہ انسان کے
لئے کے عقل و شعور کو تباہ کرنے کی ہر کوشش کو بھی سنگین جرم قرار دیتا ہے۔ نشہ اسی لئے حرام ہے کہ وہ عقل انسانی کو
مختل کردیتا ہے۔ شراب پی کر وہ انسان جو اپنے عقل و شعور کی بنا پر ہی ''اشرف المخلوقات'' قرار پاتا ہے اب عقل و شعور
سے عاری ہوگیا۔ اب وہ ہر قسم کے جرائم بے دھڑک کرسکتا ہے۔ اسی لئے شراب کا نام ''اُم الخبائث'' رکھا گیا ہے۔ اسالم نے
عقل و شعور کو زائل کرنے والی ہر کوشش کو سنگین قراردے کر اس کے خاتمہ کے لیے سخت ہدایات دیں۔ یعنی برسرعام
()80کوڑے ۔ اس کے نتیجہ میں بیشتر مسلمان تاریک کے ہر دور میں شراب نوشی سے محفوظ رہے۔
آج کا دور بجا طور پر منشیات کا دو رکہال سکتا ہے۔ آج کے دور کے سنگین مسائل میں سے ایک مسئلہ منشیات کا خاتمہ بھی
ہے۔ الحمدہلل کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد اس وبا سے آج بھی محفوظ ہے او رکروڑوں مسلمانوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ شراب کا
رنگ اور ذائقہ کیسا ہوتا ہے یا شراب کی بو کیسی ہوتی ہے؟ نہ صرف شراب بلکہ ہر قسم کے چھوٹے بڑے نشے سے محفوظ
ہیں۔ اس طرح شراب خوری سے نفرت انسانی شرف کا تحفظ کرتی او راس کو برقرار رکھتی ہے۔ جبکہ شراب خوری کی کثرت
انسان او رمعاشرہ دونوں کو گناہوں کی دلدل میں دھکیل کر رکھ دیتی ہے۔ رشتوں کا تقدس معدوم ہوجاتا ہے۔ انسانی غیرت کا
جنازہ اُٹھ جاتا ہے ،جس طرح عمال آج مغربی معاشروں میں ہورہا ہے۔
زناکاری :
اسالم خاندان او رنسب کے تحفظ میں بھی بڑا حساس ہے۔ ناجائز فعل کے نتیجے میں نسب نامے غلط ہوتے ہیں۔ خاندانوں کے
تحفظ پامال ہوتے ہیں۔ عصمتیں لٹتی ہیں۔ ایک زانی اور بدکار شخص خاندان کے ادارہ کو نقصان پہنچتا ہے اور زوجین کے باہمی
تعلق کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لہذا شریعت کی نگاہ میں زنا کاری سنگین جرم ہے۔اس لیے اس کی سزا بھی سنگین قرار دی گئی ہے۔
یعنی اگر زانی غیر شادی شدہ ہو تو سو کوڑے کی سزا اور اگر شادی شدہ ہے تو سنگسار کرنے کی سزا۔ یہاں عصمت فروشی
کی کسی بھی شکل میں بھی اجازت نہیں ہے۔پھر ناجائز فعل جس سے مرد تو تھوڑی دیر کے لیے لذت حاصل کرکے چال گیا
جبکہ خاتون جو حاملہ ہوگئی ،اسے تنہا اس بچےکو بلوغت تک پالنا ہے۔ خاندان میں تو اس کو رفیق حیات کا عمر بھر کا تعاون
اور تحفظ میسر رہتا ہے ،اب وہ اس سے یکسر محروم ہے۔ کیا یہ صورت حال عورت پر صریح ظلم نہیں؟ اس طرح کی پلنے
والی اوالد بھی الجھنوں کا شکار ،ابنارمل اور لطیف جذبات سے عاری ہوتی ہے۔ شرف انسانی کا کوئی تصور ان کے ذہن میں
نہیں رہ سکتا۔ پھر اس شنیع عمل کی کثرت کے تلخ نتائج بھی جلد ہی معاشرے کو بانجھ کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ یک زوجگی کا
دعوی کرنے والے اہل مغرب پچاس پچاس پرائیویٹ داشتائیں رکھتے ہیں۔
دس سال سے پہلے ہی بچے (لڑکا یا لڑکی) باپ یا بڑے بھائی کی ہوس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خصوصا شمالی یورپ میں حاالت
او ربھی خراب ہیں۔ وہاں ننگوں کے باڑے ( )Nudist Clubsقائم ہیں ،جن میں مرد و عورت برہنہ رہتے ہیں۔ نائی او رحجام کی
دکانوں کی طرح وہاں ( )Sex Housesکھلے ہوئے ہیں۔ وہ حیوانوں کی طرح آزاد شہوت رانی کے قائل ہیں۔ مگر وہ ایک بات
بھول گئے کہ حیوان تو پورے سال میں ایک بار جنسی ہیجان کی زد میں آتے ہیں۔ مگر یہاں تو ہر وقت آگ لگی ہوئی ہے۔ قدرت
نے انہیں اس کی یہ سزا دی ہے کہ مردشادی سے قبل ہی ناکارہ ہوجاتے ہیں او رپہلے تو مانع حمل ادویات کے استعمال سے او
راب طبعا ان امراض خبیثہ کے نتیجے میں وہاں شرح پیدائش خطرناک اور مہلک حد تک کم ہوگئی ہے۔ سویڈن جو سب سے
زیادہ خوشحال ملک ہے وہ سب سے زیادہ شرح پیدائش کی کمی کا شکار ہے۔ بوڑھے وہاں بکثرت ہیں مگران کی جگہ لینے والی
نسل بہت محدود ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں مغرب کی افرادی طاقت میں بھرپور کمی واقع ہوئی ہے۔ اور آئندہ بھی ''خاندانی
ادارہ'' کی غیر مستقل بنیادوں کے باعث خانگی نظام ابتری کا شکار ہے۔ اسی سے خائف ہوکر مغربی دانشور ،مسلمان ممالک کو
بھی افرادی طاقت میں کمی کے مشورے اس خوشنما عنوان سے دے رہے ہیں کہ اسالمی ممالک کی ترقی کا واحد طریقہ ''محدود
اوالد''۔ اس نظریہ پر دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ وسائل و ذرائع اگر وافر نہیں تو ان کی تقسیم کا عمل کم افراد میں ہو تاکہ
محدود لوگ معقول حصہ پائیں۔ ہمارے ہاں مغرب سے مرعوب دانشور اس نظریہ سے بے طرح متاثر ہیں۔ وہ اس نکتہ پر غور
نہیں کرتے کہ کیا مغرب ہمارا خیر خواہ ہے؟ کیا آج تک اس کی مخالفانہ پالیسیاں ہماری نظریں نہیں کھول سکیں۔ جہاں تک اس
دلیل کا تعلق ہے تو ایک مسلمان کے لیے ہللا کی کتاب کافی ہے جس میں جابجا رزق کی ذمہ داری ہللا نے اپنے اوپر لی۔
ٱّلل ر ْزقُ َھا...﴾٦﴿...سورة ھود َو َما من َدآبَة فى ْٱْل َ ْرض إ َال َ
علَى َ
کہ رزق پیدا کرنا ہللا کی ذمہ داری ہے ،انسان کا کام فقط یہ ہے کہ اس کو تالش کرکے حاصل کرے۔ ہللا جو تمام مخلوقات کا
رازق ہے کیا اشرف المخلوقات کو رزق دینے سے قاصر ہے؟ او رجب کہ ہمارا بنیادی عقیدہ بھی یہ ہو کہ ہللا ہی ہمارا رازق ہے،
خالق و مالک ہے۔ ان تمام پر مستزاد ایڈز کا مرض جو وبا کی طرح پھیل رہا ہے جس میں مریض سسک سسک کر جان دے دیتا
ہے مگر اس کا عالج کوئی نہیں۔
کیا ان سب بے حیائیوں کے مقابلے میں اسالم کی سزا سنگساری بہترین عالج نہیں۔ جو جرائم کو ابتدائ ہی میں ختم کردے اور
خاندان کے ادارے کو محفوظ رکھے۔ایک آدھ سے جو جرم ہوجائے اس کی برسر عام سنگین سزا دوسروں کو ایسا عبرتناک درس
دیتی ہے کہ وہ آئندہ اس کام کا خیال دل سے نکال دیں۔ آج بھی مسلم معاشرہ بہت حد تک اس سنگین جرم سے پاک ہے۔ (جگہ جگہ
''آج بھی'' اس لیے لکھنا پڑتا ہے کہ مسلم حکومت کب کی رخصت ہوچکی اور اسالمی حدود کب سے معطل ہیں۔ مگر اس کے
باوجود ان گناہوں کی قباحت مسلمانوں کے ذہن میں اس طرح جاگزیں ہے کہ مسلمان معاشرے بہرصورت مقابلتا غیر مسلم
معاشروں سے ،ان سنگین گناہوں سے بہت حد تک پاک ہیں)
چوری کی جو سزا اہل مغرب دیتے ہیں اس سے وہ جیل سے پکے چور او رمجرم بن کرنکلتے ہیں۔ صرف اسالم ہی نے اس جرم
کا مکمل قلع قمع کیا۔ مملکت سعودی عرب منہ بولتا ثبوت ہے کہ الہی قانون کامیاب ہے اور دیگر تمام قوانین ناکام ہیں۔
ٱّلل ُح ْكما لقَ ْوم یُوقنُونَ ﴿...﴾٥٠سورة المائدہ أَفَ ُح ْك َم ْٱل َجـھلیَة یَ ْبغُونَ ۚ َو َم ْن أَحْ َ
س ُن منَ َ
ترجمہ'' :کیا یہ لوگ دورجاہلیت کے احکام کی جستجو میں ہیں۔ او ریقین رکھنے والی قوم کے لیے ہللا کے سوا کون بہترین احکام
نازل کرنے واال ہے۔''
ڈاکہ ،چوری سے بھی بڑھ کرسنگین جرم ہے دوسرے کا سامان بے نوک کالشنکوف چھیننا او راس کو جسمانی نقصان پہنچانا یا
مار ڈالنا۔ جدید تکنیک میں تو یہ لوگ کسی مالدار آدمی کو اغوا کرلیتے ہیں او رپھر اس کی رہائی کی قیمت الکھوں میں مانگتے
ہیں۔ مظلوم خاندان اپنی ایک ایک پائی جوڑ جوڑ کر مجرموں کے حضور پیش کرکے اپنا آدمی چھڑانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
اس لیے ڈاکہ کی سنگینی چوری سے کہیں زیادہ ہے۔جدید قانون سازوں نے تو اس کو بھی ایک معمولی جرم قرار دیا۔ مگر اسالم
اس کو سنگین جرم سمجھتا ہے کہ زمین میں فساد پھیالنے والوں اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو چار قسم کی سزائیں
دی جائیں۔
4۔ جال وطن کردیا جائے جس کی ایک شکل جیل میں بند کردینا بھی ہے۔
عذَاب َ
عظیم ﴿﴾٣٣ ذَلكَ لَ ُھ ْم خ ْزى فى ٱل ُّد ْنیَا ۖ َولَ ُھ ْم فى ْ
ٱل َءاخ َرة َ
''یہ سزا اس لیے ہے کہ ان کی دنیا میں رسوائی او ربدنامی ہو اور لوگ ان وحشی جرائم سے باز رہیں او رآخرت میں ان کے
لیے دردناک عذاب ہے۔''
اس طرح اسالمی قانون معاشرہ کے اعتماد کو ،دوسری طرف مظلومین و محرومین کے اعتماد کو بحال کرتا ہے او رایسے ذہنی
بیماروں کے لیے اعادہ جرم ناممکن او رسنگین رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔
کیا مظلوموں او رمحروموں کے اعتباد کو بحال کرنا او رعبرتناک سزائیں دے کر لوگوں کو ایسے سنگین جرائم سے بچا لینا
شرف انسان کا تحفظ نہیں ،یااس معاشرے میں جہاں چوری اور ڈاکہ جدید دور کے باضابطہ مہذب پیشے ہیں او رجہاں ہر شخص
اپنی مملوکہ اشیاء کی حفاظت کے لیے ہر وقت پریشان ہے بنک بھی لٹ جاتے ہیں تو پھر کون سی جائے امان رہی؟
ارتداد:
مسلمانوں کا دین اسالم سے پھر جانا سنگین جرم ہے ،جس کی سزا موت ہے ۔ اس مسئلے پر اجماع امت ہے۔ گزشتہ چودہ سو سال
میں جہاں بھی اسالمی نظام نافذ ہوا وہاں مرتد کو ہمیشہ واجب القتل قرار دیا گیا۔
عقل کا تقاضا ہے کہ کوئی انسان جب اپنی حکومت کا باغی ہو تو اس کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ تو پھر شہنشاہ کائنات اور
سرکار دو جہاں کے باغی کو بھی عبرتناک سزا ملنی چاہیے ۔ ایمان کا تحفظ الزم ہے کیونکہ ایماندنیا کی عظیم ترین دولت اور
سب سےبڑا سرمایہ ہے۔جو شخص اس دولت سے منہ موڑتا ہے وہ پھر اسالمی حکومت اور مسلمانوں کے خالف تخریب
کاریسےبھی گریز نہیں کرتا۔ قادیانی جماعت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ہمیں اندرا گاندی اور برزنیف کے کفر سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا نقصان بنگلہ دیش کے صدر مجیب الرحمن او رافغانستان کے
صدر ببرک کارمل کے باغیانہ کردار سے ہوا ہے۔ پھر آج کل غیر ملکی عیسائی مشنریاں جس طرح اربوں روپیہ مسلمانوں کو
عیسائی بنانے پرخرچ کررہے ہیں۔ ان کو غیر موثر بنانے کی ایک ہی موثر تدبیر ہے کہ قانون ارتداد الگو کردیا جائے تاکہ نو
مسلم غریب ،کمزور ایمان والے لوگ کسی دھوکہ میں نہ آکرفتنہ ارتداد سے بچ سکیں۔ قانون ارتداد کا تعلق تو مسلمانوں سے ہی
ہے ،غیر مسلموں کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ البتہ ہمیں یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ کوئی غیر مسلم ،مسلم ہونے سے پہلے
پوری طرح سوچ بچار کرلے گا اور یونہی کسی اللچ یا خوف سے اسالم کا دامن گیر نہیں ہوگا۔
اس طرح انسان کے پانچوں بنیادی حقوق یعنی جان ،مال ،عقل ،نسل اور دین کو تحفظ دے کر اسالمی شریعت انسان کے شرف کو
برقرار اور محفوظ رکھتی ہے۔ جو بصورت دیگر بڑھتے ہوئے جرائم سے مکمل طور پر پامال ہوجاتا ہے۔ اسی لئے ارشاد
خداوندی ہے:
''کہ جو لوگ ہللا کے نازل کردہ احکام کے مطابق اپنے فیصلے نہ کریں ایسےلوگ تو کافر ہیں
المحد ث ج 23عدد 1شمارہ 194جنوری 1993رجب 1413ہ
نظام قضا
ِ اسالم کا
ّٰللا اور حدود آرڈیننس
حدود ہ
محمد آصف احسان
اس حقیقت سے ہر صاحب ِفہم و ذکاالزمی طور پراتفاق کرے گاکہ اخالقی بے راہ روی اور مادر پدر آزادی حضرت
انسان کو 'اشرف المخلوقات' کے رتبہ ٔ عالی شان سے گرا کر عقل و شعور سے عاری حیوانات کی صف میں الکھڑا
کرتی ہیں اور انسان کی سماجی زندگی کے ان گوناگوں محاسن و محامد کو پیوند ِخاک کردیتی ہیں جو جملہ بشریت کا
اندوختہ گراں مایہ اور اثاثہ ٔ بے مثل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسالم جو ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے ،نے انسانی
معاشرے میں عریانی و فحاشی کے فروغ کی سخت مذمت کی ہے اور ان اُمور و معامالت کو مکمل طور پر حرام قرار
تعالی ارشاد فرماتے ہیں ٰ قرآن حکیم میں ہللا ِ :دیاہے جو انسانیت کی معراج یعنی شرم و حیا کے منافی ہوں ۔
ٱَّللُ َی ْعلَ ُم َوأَنت ُ ْم َال تَ ْعلَ ُمونَ ﴿﴾١٩ عذَابٌ أ َ ِلی ٌم فِى ٱلدُّ ْن َیا َ َ ِ
اخ َر ِة ۚ َو ه ء ْ
ٱل و سورة ِ ...إ هن ٱلهذِینَ ی ُِحبُّونَ أَن تَشِی َع ْٱلفَ ٰـ ِح َ
شة ُ ِفى ٱلهذِینَ َءا َمنُوا لَ ُھ ْم َ
النور
جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ،ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دُکھ دینے ''
''واال عذاب ہے اور ہللا جانتا ہے ،تم نہیں جانتے۔
خالق ِکائنات کی جانب سے اس قدر شدید تنبیہ کے باوجود یہ امر انتہائی اذیت رساں اور تاسف انگیز ہے کہ موجودہ
کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے ) (Fornicationحکومت حدود آرڈیننس میں ترامیم کے ذریعے زنا بالرضا ''پرویزی
درپے ہے۔ ارباب ِبسط و کشاد اور اصحاب ِحل و عقد اس بات کے آرزو مندہیں کہ باہمی رضامندی سے کی جانے والی
زنا کاری کو ہر طرح کے ریاستی قوانین سے باال تر قرار دے دیا جائے اور اس اہانت آمیز اور شرمناک فعل کا ارتکاب
کرنے والے 'جانوروں ' پر کوئی شرعی حد نافذ نہ کی جائے ؎
اس وقت پورے عالم اسالم میں صرف تین ملک (ایران ،پاکستان اور سعودی عرب) ایسے ہیں جہاں زنابالرضا قانونی
طور پر جرم ہے۔ ان کے عالوہ پورے ُربع مسکون میں کہیں بھی رضا مندانہ بدکاری کو قانونی طور پرجرم اور اس کا
ارتکاب کرنے والوں کو مستوجب ِسزا نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں بھی حدود قوانین کے نفاذ (10؍ فروری 1979ئ)
سے قبل زنا بالرضا آئینی اور قانونی طور پر جرم کے زمرے سے خارج تھا ،تاہم اس کے نفاذ کے بعد زنا بالرضا کی
قیام پاکستان کا
نظام حدود کے تحت اسے قانونی طور پرجرم قرار دیا گیا۔ چونکہ ِ
ِ قانونی حیثیت متعین ہوئی اور اسالم کے
سب سے عظیم اور نمایاں مقصد ایک ایسے خطہ زمین کا حصول تھا جہاں شریعت ِاسالمیہ کے تمام اُصول و ضوابط
اور قواعد و قوانین کو جملہ شعبہ ہائے حیات میں بدرجہ اتم نافذ کیا جاسکے ،اس لئے وطن ِعزیز میں حدود آرڈیننس کی
تنفیذ بجاطور پر ایک حوصلہ افزا اور خوش آئند امر تھا مگر اسے پاکستانی عوام کی تیرہ بختی اور سوختہ نصیبی ہی
سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ وقتا ً فوقتا ً حدود ہللا کو معاذ ہللا بازیچہ اطفال سمجھنے والے حکومتی گماشتوں ،نام نہاد
مذہبی سکالروں اور مغربی تہذیب و ثقافت کے بے نام و نسب علمبرداروں کے پیٹ میں حدود قوانین کے خالف مروڑ
اُٹھتے رہے۔ اُنہوں نے مختلف ابلیسی تاویلوں اور شیطانی ہتھکنڈوں کی آڑ لے کر حدود آرڈیننس کو اسالم ،عصری
تہذیب و تمدن ،انسانی حقوق اور تحفظ ِنسواں کے خالف باور کرانا چاہا اور پیہم اسی تگ و تاز میں منہمک رہے کہ یا
تو حدود قوانین کو مکمل طور پر منسوخ کردیاجائے یا پھر اس میں ایسی ترامیم کردی جائیں جو عملی طور پر اسے
گردش ایام کے ایک معمولی دور
ِ عضو ِمعطل بنادیں تاہم اس سعی ٔنامشکور کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور
کے بعد آج پھر پاکستانی عوام اسی معرکہ خیر و شر کا سامنا کررہی ہے۔
روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی معاشرے کی بقا و سالمتی کا انحصار جن اجزا و عناصر پر ہوتا ہے ،ان یہ امر ِ
میں سے اہم ترین عنصر خاندانی نظام کا استحکام ہے۔ اگر یہ نظام مضبوط اور محکم بنیادوں پر استوار ہوگا تو انسانی
معاشرہ بھی بحیثیت ِمجموعی درست راستے پرگامزن رہے گا اور اس کے افکار و نظریات اور رسوم و رواج کی
انفرادیت و یگانگت برقرار رہے گی لیکن اگر اس نظام میں کجی اور مسلمہ معاشرتی اقدار و روایات سے انحراف کے
عناصر موجود ہوئے تو اس کے تباہ کن اور ضرر رساں اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور ایسا
معاشرہ قوانین ِفطرت سے اِعراض کرنے کی پاداش میں جلد یا بدیر خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ خاندانی نظام
کی درستی یا بگاڑ میں خاوند اور بیوی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ اگر زوجین کے مابین مہر و وفا اور صدق و صفا
کے احساسات و جذبات نکاح کی صورت میں موجود ہوں تو المحالہ اس کے خوشگوار اور نفع بخش اثرات ان کی اوالد
پر بالخصوص اور تمام افرا ِد معاشرہ پر بالعموم مرتب ہوتے ہیں اور اگر مرد وزن کے مابین نکاح کا مضبوط اور مقدس
رشتہ موجود نہ ہو اور ان کے باہمی تعلقات و روابط محض جنسی آسودگی اور شہوانی لذت حاصل کرنے تک محدود
ہوں تو بال شک و شبہ یہ اقدام نہ صرف تولد ہونے والی اوالد کو باپ کی کمال درجہ شفقت اور ماں کی الئق ِقدر ممتا
سے محروم کردیتا ہے بلکہ من حیث المجموع پوری سوسائٹی کے لئے ایسے توہین آمیز ،رسوا کن اور سنگین نتائج و
کو معدوم کردیتے ہیں ۔ خاندانی نظام کی ) (Attributeعواقب کا باعث بنتا ہے جو افرا دمعاشرہ کی ہر موجود صفت
بربادی ،معاشرتی زندگی کی تباہی اور قلبی اطمینان و سکون کی عدم موجودگی کا یہ وہ اندوہناک اور عبرت انگیز پہلو
ہے جس کا تجربہ ومشاہدہ آج مغربی ممالک کی اکثریت کررہی ہے۔امریکہ اور یورپ میں خاندانی نظام کی زبوں حالی
نذر قارئین ہیں
:کا مفصل تجزیہ کرنا ہمارا مقصود نہیں تاہم 'مشت ِنمونہ از خروارے' کے مصداق چند چشم کشا حقائق ِ
ایک حالیہ سروے کے مطابق مغربی ممالک میں بسنے والے مرد اپنی زندگی میں اوسطا ً 6ء 14عورتوں سے بدکاری
کرتے ہیں جبکہ وہاں سکونت پذیر عورتیں اوسطا ً 5ئ 11مردوں سے ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتی ہیں ۔ 1959ء میں
برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے شائع شدہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں ہر تیسری عورت شادی
دور حاضر میں تہذیب و تمدن 'سے قبل دوسرے مردوں کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ِ
کے علمبردار' برطانیہ میں ہر بیسواں بچہ 'ولد الزنا' ہوتا ہے۔یونان میں 'بذریعہ زنا' پیداہونے والے ناجائز بچوں کی شرح
2فیصد ،سوئٹزر لینڈ میں 1ئ 6فیصد ،فرانس میں 1ئ 30فیصد ،ڈنمارک میں 4ئ46فیصد اور سویڈن میں 2ئ 48فیصد
ہے۔ ان بچوں کی اکثریت والدین سے کماحقہ التفات اور دھیان سے محروم ہوتی ہے ،اُنہیں اخالقی حدود و قیود اور
معاشرتی اقدار و روایات سے آگاہ کرنے واال کوئی نہیں ہوتا ،زندگی بسر کرنے کے مہذب و متمدن اطوار سے باخبر
کرنے واال کوئی نہیں ہوتا اور کوئی نہیں ہوتا ...کوئی بھی نہیں ...جو اُنہیں اس حقیقت کا شعور بخش سکے کہ عارضی
سرور اور وقتی لذت کے لئے کیا جانے واال زنا انسان کو حقیقی مسرت اور دائمی فرحت عطا کرنے سے قاصر ہے۔
اصل انبساط اور خوشی سے تو وہ لوگ ہمکنار ہوتے ہیں جو اپنی شہوانی آرزوؤں کی تسکین اور نفسانی خواہشات کی
تکمیل کے لئے نکاح جیسے اہم فریضے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں ۔ یہ موضوع طویل بحث اور عمیق تفصیل کا متقاضی
عدم فرصت اور صفحات کی تنگ دامانی کا سامنا ہے ،بہرحال قصہ کوتاہ یہ کہ والدین کی جانب ہے مگر ہمیں اس وقت ِ
سے اپنی اوالد کی مناسب تعلیم و تربیت اور پرورش و نگہداشت کے فقدان کی بنا پر آج مغربی ممالک میں بسنے والے
افرادکی اکثریت اَن دیکھے مقامات کی راہی اورنامعلوم منزلوں کی جانب محو ِسفر ہے۔ ان میں مختلف قسم کی اخالقی،
روحانی اور سماجی برائیاں جیسے زنا کاری ،بادہ کشی ،کذب گوئی ،اذیت رسانی ،فریب دہی ،جوا بازی ،سود خوری،
سرقہ زنی اور نجانے کون کون سی سیئات اس طرح سے سرایت کرچکی ہیں کہ االمان الحفیظ۔ اگر ہم ان کی تفصیل بیان
کریں گے تو اصل موضوع سے دور ہٹ جائیں گے پس واضح ہواکہ محض ایک بُرائی زناکاری سے خاندانی نظام تہہ
داستان حیات
ِ وباال ہوا ،اس سے پورا معاشرہ درہم برہم ہوا اور اس غم کدۂ رنگ و بو میں بسنے والی ایک قوم کی ایسی
عالم تخیل سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی کہ جس کا ہرصفحہ تیرہ و تار اور ہر باب غم انگیز ہے۔
اگر حدود قوانین میں مجوزہ ترامیم کابل خدانخواستہ منظور ہو جاتا ہے اور زنا بالرضا کو وطن مالوف میں قانونی تحفظ
روشن خیال' ممالک کی صف میں تو کھڑا ہوجائے گا' ،مل جاتا ہے تو اسالمی جمہوریہ پاکستان ان 'اعتدال پسند' اور
جہاں جنسی بے راہ روی کے اعتبار سے انسانوں اور جانوروں میں کوئی خاص فرق نہیں مگر اس کے بعد خاندانی اور
معاشرتی نظام کی جس بربادی وتباہی کا آج مغربی ممالک سامنا کررہے ہیں ،ہوبہو اسی آشفتہ سری ،ژولیدہ حالی اور
سیکس فری 'ہالکت خیزی کا سامنا پاکستانی قوم کوبھی کرنا پڑے گا۔ زنابالرضا کی چھوٹ ملنے پرپاکستانی معاشرہ
سوسائٹی' میں تبدیل ہوجائے گا ،جہاں عصمت فروشی اور قحبہ گری کا دور دورہ ہوگا۔ جس مذموم فعل کا ارتکاب ابھی
تک قانون اور معاشرے کے خوف کی بنا پر سات پردوں کے پیچھے کیا جاتا ہے ،وہ سرعام وقوع پذیر ہوگا اور
ق نسیاں بنادے گی جو نگار طا ِ
ِ معاشرے کی کثیر تعداد قومی غیرت و حمیت کے ان تمام مظاہر و مقتضیات کو نقش و
پوری ملت ِاسالمیہ کا سرمایۂ افتخار اور طرۂ امتیاز ہیں ؎
امریکہ اور یورپ کی جس نام نہاد جدت پسندی ،روشن خیالی اور ننگ انسانیت تہذیب و ثقافت نے حکومتی ایوانوں کو
ق نسواں ' کے پُرکشش اور دل اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے اس کی تباہ کاریاں انہی کومبارک !...پاکستانی قوم کو 'تحفظ ِحقو ِ
ت حال یہ ہے کہ کیبل نیٹ ورک کے فریب تصور کا جھانسا دے کر را ِہ راست سے منحرف نہ کیا جائے۔ پہلے ہی صور ِ
نظام تعلیم
ِ مخلوط میں اداروں تعلیمی ذریعے اخالق باختہ اور حیا سوز مناظر پوری قوم کو دکھائے جارہے ہں ،اکثر
رائج ہے اور حکومتی سرپرستی میں مرد وزن کی مشترکہ میراتھن ریس کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان دگرگوں اور ناگفتہ بہ
مسلمانان پاکستان کے اخالقی و معاشرتی تابوت میں آخری کیل
ِ حاالت میں زنا بالرضا کو قانونی جواز عطا کرنا
ٹھونکنے کے مترادف ہے۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ِوقت 'وسیع تر قومی مفاد' کے پیش نظر حدود قوانین میں کوئی ایسی ترمیم نہ
کرے جو قرآن و حدیث کے خالف ہو ،جس سے اہل اسال م کے دینی و ملی شعائر کو گزند پہنچنے کا امکان ہو یا جو
پاکستانی عوام کو اپنے منفرد سماجی افکار و نظریات اور رسوم ورواج سے بیگانہ کردے۔ اسی میں پوری قوم کی
سالمتی اور عافیت کا راز پوشیدہ ہے ؎
حدود ہللا اور حدود آرڈیننس میں آپ کیا فرق سمجھتے ہیں ؟ :انصاف
تعالی نے خود مقرر فرمائی ہیں تاکہ معاشرے سے بدکاری اور بے :موالنا مدنیٰ حدود ہللا سے مراد وہ سزائیں ہیں جو ہللا
تعالی کل انسانیت کے خالق ہیں اور ہللا کو ہی
ٰ حیائی ختم ہو اور لوگ امن و امان اور عزت سے زندگی گزار سکیں ۔ ہللا
بہتر علم ہے کہ انسانی معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کا طریق کارکیا ہے؟ وہ عالج ہللا نے کتاب و سنت کی شکل میں
ہمیں دیا ہے جس میں حدود ہللا بھی شامل ہیں ۔ جبکہ حدود آرڈیننس وہ قانون ہے جو بعض قانون سازوں نے قرآن وسنت
کی روشنی میں علماے کرام اور دانش وروں کی مدد سے ،اس مقصدکے پیش نظر بنایا ہے کہ سماج دشمن
عناصرپرحدود ہللا کو نافذ کیا جاسکے۔
مسلمانوں کی چودہ سو سالہ اسالمی تاریخ میں شریعت کے نفاذ کا یہی طریقہ رہا ہے کہ جج ہمیشہ کتاب و سنت کی
نصوص کی پابندی کرتے ہوئے ائمہ فقہا کی تشریحات و اجتہادات کی روشنی میں پیش آمدہ مقدمات کے فیصلے کرتے
ہیں ۔آج بھی سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں حدود ہللا کو اسی اندازسے نافذ کیا جاتاہے کہ فوجداری جرائم کے
فیصلے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر ہوتے ہیں ۔ اس لئے وہاں کوئی بھی حدود اہللا کو نافذ ہونے کے خالف آواز نہیں
اُٹھاتا بلکہ لوگ سزاکو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھ کر بطی ِ
ب خاطر قبول کرتے ہیں کیونکہ رسول اہللا صلی ہللا علیہ وسلم
نے حد کے نفاذ کوگناہوں کا کفارہ قرار دیا ہے۔
شاہ فیصل رحمۃ ہللا علیہ کے دور میں جب سعودی عرب میں بڑی شدومد سے بعض عرب دانش وروں کی طرف سے یہ
تحریک چل رہی تھی کہ جدید انداز میں شریعت کی پہلے تقنین(قانون سازی) ہونی چاہئے پھر ججوں کو اس کا پابندبنا
کے مطابق فیصلے کریں تو مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ او ران کے Legislationدینا چاہئے کہ وہ اس
قرآن کریم کی اسی مذکورہ باالِ شاگر ِد رشید شیخ عبدالعزیز بن باز (جو بعد میں سعودی عرب کے مفتی اعظم بنے) نے
تعالی نے قرآن کریم میں ما أنزل اہللا کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیاہے، ٰ آیت سے استدالل کرتے ہوئے فرمایا کہ ہللا
کیا ہمارا شریعت کی دفعہ وار قانون سازی کرنا ما أنزل اہللا قرا ر پاسکتا ہے؟ قطعا ً نہیں ،کیونکہ اہل علم کا اجتہاد ،قدیم
یا جدید فقہ تو ہوسکتا ہے ،لیکن اس اجتہاد کو ما أنزل اہللانہیں کہا جاسکتا۔
اعلی سطح کےٰ یہی بات وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب گل محمد رحمۃ ہللا علیہ نے اس وقت کہی تھی جب
ایک عدالتی وفد نے اس وقت کے صدر مملکت جناب غالم اسحق خان سے سفارش کی کہ ججوں کو پاکستان میں کتاب و
اعلی تربیت کے لئے اسالمی ممالک میں ٰ سنت کی بہتر سے بہتر ٹریننگ دینے کے انتظامات کئے جائیں اور اُنہیں مزید
بھیجا جائے تاکہ وہ عمالً وہاں حدود ہللا کے نفاذ کا مشاہدہ بھی کرسکیں ۔ میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ جناب غالم
اسحق خان نے اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے شریعت کی متفقہ دفعہ وار قانون سازی پر زور دیا تو جناب جسٹس گل
تعالی کی
ٰ محمد خان نے جو جواب دیا ،وہ واقعی حدود اہللا کے نفاذ کا صحیح حل تھا۔ اُنہوں نے فرمایا'' :شریعت ہللا
طرف سے (کتاب و سنت کی صورت میں ) بہترین طریقہ پر بیان کردی گئی ہے ،اب کیا ہم اپنے الفاظ میں اس سے بہتر
کوئی تعبیر پیش کرسکتے ہیں ۔'' یہ سن کر غالم اسحق خان خاموش ہوگئے۔
مروجہ قانونی نظام اور عدالتوں کے لئے یہ تصور اجنبی نہیں ،اس پر عمل کس طرح ہوگا؟ :انصاف کیا ہمارے ّ
اعلی عدالتوں :موالنا مدنی
ٰ کے بعض فیصلے )(Superior Courtsیہ تصور پاکستانی قانون میں بالکل نیا نہیں ،ہماری
ایسے موجود ہیں جن میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ کتا ب و سنت اپنی معروف شکل میں ہی نافذ ہیں او راگر کوئی
متبادل قانون وضع نہیں ہوتا تو کتاب و سنت کا اسی طرح نفاذ ہوگا۔مثال کے طور پر میں آپ کے سامنے 1991ء میں
سپریم کورٹ (شریعت بنچ) کا ایک فیصلہ ذکر کرتا ہوں ۔ ہوا یوں کہ فیڈرل شریعت کورٹ نے 1980ء میں قصاص و
ت پاکستان اور ضابطہ فوجداری کی 56دفعات کو قرآن وسنت کے منافی قرار دے رکھا تھا جو دیت کے متعلق تعزیرا ِ
حکومت کی طرف سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خالف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی بنا پرعمالً
معطل تھا۔ جب 1990ء میں سپریم کورٹ نے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے حکومت کو 9ماہ
کے اندر اندر نیا قانون النے کا پابند کردیا تو بینظیر حکومت نے لیت و لعل شرو ع کردی اور 23؍ مارچ 1991ء کو 9
ماہ کی مدت گزر جانے کے باوجود حکومت کا تقاضا تھا کہ اس کی مدت میں غیر معینہ توسیع کردی جائے۔ اسی دوران
2؍اگست 1991ء کو بے نظیر حکومت ختم ہوکر عبوری حکومت قائم ہوگئی۔ اس وقت سپریم کورٹ (شریعت بنچ) کے
سربراہ جسٹس افضل ظلہ تھے۔ اب نئی حکومت نے تبدیلی ٔحکومت کا بہانہ بنا کر جب مزید تاریخوں کا مطالبہ کیا تو
سپریم کورٹ کے اس فل بنچ نے کہا کہ اب بہت ہوچکا ،دس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے،ہم غیر محدود مہلت
دینے کے متحمل نہیں ۔چنانچہ آخری حتمی تاریخ اب 12؍ ربیع االول مقرر ہے۔ اس دوران حکومت کو چاہئے کہ مذکورہ
56دفعات کی بجائے قصاص ودیت کا متبادل قانون پیش کرے اور ساتھ یہ وضاحت بھی کردی کہ اگر اس تاریخ تک
متبادل قانون نہ الیا گیا تو پھر قرآن و سنت جیسا کچھ بھی ہے ،وہی نافذ سمجھا جائے گا اور جج قرآن وسنت کے
احکامات کی روشنی میں ہی فیصلے کریں گے۔ اس پرحکومت کے پاس قانون کا جیساکچھ ڈرافٹ تیار تھا ،اسے ہی الگو
کردیا گیا۔ لیکن اس ڈرافٹ قانون کی کمزوریوں کے عالج کی غرض سے ایک اہم دفعہ قصاص و دیت آرڈیننس میں یہ
رکھی گئی جس سے اس قانون کے اَسقام کا عالج اور اصالح ممکن ہے ۔یہ دفعہ 338؍ایف ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
اس قانون میں اگر ہمیں کوئی ضمنی مسئلہ درپیش ہو یا کوئی پہلو تشنہ معلوم ہویاکوئی نکتہ قابل اصالح ہو تو قرآن
وسنت کی روشنی میں اسے حل کیا جائے گا۔
بعدمیں الہور ہائی کورٹ کے بعض ججوں نے اس دفعہ کی روشنی میں کئی اہم فیصلے صادر بھی کئے۔ مثالً الہور ہائی
کورٹ کے فل بنچ ...جوتین ججوں جسٹس سردار محمدڈوگر ،جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے
پر مشتمل تھا ...کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ اگر مقتول کے ورثا صلح کرکے قصاص معاف کردیں تو کیا اس کے
باوجود بھی قاتل کو کوئی تعزیری سزا دی جاسکتی ہے یانہیں ؟ تو اُنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ قرآن و سنت کی رو سے
کسی مزید جرم کے بغیر کوئی تعزیری سزا نہیں دی جانی چاہئے۔ چونکہ ہائی کورٹ خود کوئی قانون سازی یاترمیم نہیں
کرسکتا لہٰ ذا اُنہوں نے اپنے اس آبرزرویشن کو پارلیمنٹ بھیجنے کی سفارش کی کہ اس کے مطابق قانون سازی کی
جائے۔
ایسے ہی قصاص و دیت آرڈیننس کے حوالے سے یہ نکتہ پیش آیا کہ اس قانون کی رو سے مقتول کا کوئی بھی وارث
قاتل کا قصاص معاف کرسکتا ہے ،خواہ بیوی ہو یا خاوندتھا ۔بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ عورت کا آشنا اس کے
خاوند کو قتل کردیتا ہے ۔پھر وہ عورت ہی اپنے شوہر کی وارث ہونے کے ناطے اپنے آشنا (قاتل) کو معاف کردیتی ہے
ت حال پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں آشنائی کے ایسے کئی واقعات بھیہوئے۔ ایسی صورتحال میں ہائی تو صور ِ
کورٹ نے اسی دفعہ 338؍ایف کے تحت یہ سفارش کی کہ یہ بات شریعت کے منافی ہے لہٰ ذا امام مالک رحمۃ ہللا علیہ
کی رائے کے مطابق میاں بیوی کو آپس میں معافی کا اختیار نہیں ہونا چاہئے ،بلکہ معافی کا اختیار مقتول کے صرف ان
اولیاء (خاندانی ذمہ داروں ) کو حاصل ہے جو خاندان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ رشتہ دار وہ ہیں
جنہیں علم وراثت کی اصطالح میں 'عصبہ 'کہا جاتا ہے مثالً بھائی ،بیٹا ،باپ ،دادا وغیرہ ۔ خاوند بیوی چونکہ آپس میں
عصبہ نہیں ہوتے اور ایک کی وفات کی صورت میں زوجین کا باہمی تعلق کئی اعتبار سے منقطع ہوجاتاہے لہٰ ذا وہ
دونوں ایک دوسرے کا قتل معاف نہیں کرسکتے۔
آپ کو یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم حدود آرڈیننس کے سلسلہ میں بالکل غلط راہ پر چلے جارہے ہیں ۔
ہمارے سوالوں اور اعتراضات کی بنیاد ہی غلط ہے جس کے پس پردہ شرعی حدود کو ختم کرنے کی سازش ہورہی
ہے۔چنانچہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک غلط سوال تیار کیا گیا کہ کیا حدود آرڈیننس خدائی قانون ہے؟
یعنی حدود آرڈیننس حدو د ہللا نہیں ہیں ؟ ٹیلیویژن والوں نے تمام جواب دینے والوں کو اس کا پابند کیا کہ وہ صرف چند
جملوں میں اس کا جواب دیں ۔ حاالنکہ سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ ''حدود آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنایا جائے؟'' کیونکہ
ہماری زبان میں بیان کردہ حدود آرڈیننس ہللا نے آسمان سے نازل نہیں کیا بلکہ وہ ہماری طرف سے شریعت کی تعبیر
ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں اس وقت کے ماہرین قانون نے تیار کی تھی۔
بعینہ حدود ہللا تو نہیں لیکن ان کو حدودٖ چنانچہ جب 'جیو' نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میں نے کہا'' :ہاں حدود آرڈیننس
کے الفاظ میں نافذ سمجھا جائے اور پھر )ہللا بنایا جاسکتا ہے ،اور وہ اس طرح کہ شریعت کو وحی (قرآن وسنت
پارلیمنٹ کو جس کی اکثریت شریعت سے نابلد ہونے کی بنا پر اجتہاد کی اہل نہیں ،اس کو اجتہاد کااختیار دینے کی
پرمشتمل ہو ،کو اجتہاد کا اختیار دے دیا جائے۔ جب مسئلہ پیش آئے تو عدلیہ ) (iبجائے عدلیہ جو قرآن و سنت کے ماہرین
حدود آرڈیننس کے ساتھ ساتھ کتاب و سنت کو بھی سامنے رکھے اور معاصر اہل علم کی تشریحات کے عالوہ علما کے
فتوی جات سے بھی استفادہ کرے اور اسالم کے نام پر کئے جانے والے چودہ سو سالہ ٰ قدیم اور جدید فقہی ذخیرے اور
عدالتی فیصلہ جات سے بھی رہنمائی لے۔ پھر واقعاتی صورت حال اور شرعی دالئل کے تناظر میں جو رائے قرآن
وسنت کے مطابق سمجھے ،اس کے مطابق فیصلہ کردے ،کیونکہ جج کسی اور کے اجتہاد کا مقلد نہیں ہوتا بلکہ وہ برا ِہ
راست کتاب ہللا اور سنت ِرسول کا پابند ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی یا پارلیمنٹ کی قانون سازی اور اجتہادات کا ججوں کو مکلف بناناماہرین عدلیہ پر بے
اعتمادی کا اظہارہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں حدود آرڈیننس سمیت وہ تمام قوانین جو شریعت کے حوالہ سے نافذ کئے
گئے ہیں ،ان کے بارے میں یہ مشکل درپیش ہے کہ اُنہیں انسانوں نے اپنی زبان میں تیار کیاہے ،اور پھر ان کا نفاذ ایک
خاص طریقے سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی
رہتی ہے جب کہ وحی کے الفاظ جامع ہوتے ہیں اور عالمگیر بھی یعنی ہر دور کے بدلتے تقاضوں اور مسائل کو حل
کرنے کی صالحیت اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ میں آپ کے سامنے ایک بہتر تجویز رکھ رہاہوں جو پوری اسالمی تاریخ میں
ت حال کو عبوری دور کا تقاضا سمجھتا ہوں کیونکہ رائج رہی ہے او رپاکستان میں شریعت کی قانون سازی والی صور ِ
وہ قانون جو انسانوں کی تعبیر سے دفعہ وار تقنین کی صورت میں یہاں نافذ ہوگا ،اس کے اندر یہ مشکل ہمیشہ پیش آئے
گی کہ اس قانون میں وقتاًفوقتا ً بہت ساری تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی ۔اس لئے میرے نزدیک اصل حل
یہ ہے کہ قانون بنانے سے پہلے اجتہاد کی بجائے خود قرآن وسنت کا نفاذ فیصلہ کرنیوالے ججوں کو اجتہاد کے قابل
بنانے کا زیادہ اہتمام کیا جائے۔
حالیہ بحث میں ایک حل یہ پیش کیا جارہا ہے کہ پہلے چار گواہ موجود ہوں تو حدود کا مقدمہ درج کیا جائے،ا :انصاف
س کے بغیر مقدمہ قطعا ً درج نہ کیا جائے۔آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
درحقیقت یہ باتیں ان لوگوں کی طرف سے کہی جارہی ہیں جو دستور ،قانون اور اس کے طریق کار سے :موالنا مدنی
اعلی عدالتی فیصلوں کا ایک لمبا پروسیس ہے جس کاٰ ناواقف ہیں ۔ ہمارے ہاں دستور کا ایک باقاعدہ پروسیجر ہے ،پھر
مروجہ قوانین اور ضابطہ قانون پڑھاتا رہا ہوں ،
ّ سے حوالے ایک مسلمہ قانونی کردار ہے۔میں ایک عرصہ شریعت کے
اس لئے میرے تجربے کے مطابق حدود آرڈیننس میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا جاسکتا کہ پورے دستور وقانون کا حلیہ
ہی بگڑ جائے ،کریمنل کوڈ ،پروسیجر کوڈ یا پولیس ایکٹ کا تیا پانچا ہوجائے ،اس لئے یہ اضافہ اور ترامیم ناقابل عمل
ہیں ۔
مزید یہ کہ پاکستان میں جرم صرف بدکاری کا ہی تو نہیں ہے ،حدود کے ہی چار قانون اور ہیں ۔ قصاص ودیت آرڈیننس
قانون شہادت بھی ،اسی طرح کے دیگر سنگین جرائم بھی ہیں ۔ مثالً زنا سے بھی زیادہ سنگین جرم توہین
ِ بھی ہے اور
رسالت کا ہے اور یہ جرم ایسا ہے کہ اس کے مرتکب کو سزا دینے کے لئے حکومت کی بھی شرط ضروری نہیں ۔
دیگر عام جرائم کی سزا صرف حکومت ہی دے سکتی ہے ،لیکن توہین رسالت میں اگر حکومت لیت و لعل کرے تو
مسلمان کی غیرت قابل مؤاخذہ نہیں ہے۔پھر پاکستان میں بغاوت کا جرم بھی کتنا سنگین ہے؟ ایسے جرائم کے لئے
گواہوں کو پیشگی ساتھ النے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ میری رائے یہ ہے کہ اس طرح کا طریق کار اختیارکرنے
سے پورا دستور و قانون ایک تماشہ بن جائے گا۔ ہمیں اپنے ملک کے حاالت ،دستور اور قانون کی روشنی میں بات کرنا
چاہئے۔
ئ) بھی ہے۔ اس VII (1979پاکستان میں دستور و قانون کے ایک بڑے سیٹ اَپ میں سے ایک قانون ِ
جرم زنا آرڈیننس
سلسلے میں قانونی طریقہ کار سے ناواقف دانشور عوام کے سامنے حدود آرڈیننس کی غلط تشریحات کے ذریعے جو
اعتراضات پیش کررہے ہیں اس کا حل یہ نہیں ہے کہ کیس رجسٹر ہونے سے پہلے چار گواہ سامنے موجود ہوں ،چاہے
وہ عورتیں ہوں یامرد ہوں یا وہ گواہ کس طرح کے ہوں ؟کیونکہ قانون کی زبان عوام کا مسئلہ نہیں او رنہ قانون کے
فیصلے میڈیا پر عوام نے کرنے ہیں ۔ قانون کا ماہرانہ مطالعہ کئے بغیرعوام کو کیا معلوم کہ گواہوں کی کیا حیثیت ہے
اور گواہی کا انداز کیا ہونا چاہئے اوراس کی شرائط کیا ہیں ؟ اس لئے ایسے تمام مسائل کو اخبارات اور ٹی وی کے
ذریعے عوام کا موضوع بنانے کی بجائے قصاص و دیت کے قانون کی طرح حدود آرڈیننس کے اوپر چھتری کی طرح
ایک دفعہ رکھ دی جائے کہ اس میں جو بھی ضمنی یا نئے مسائل اُٹھیں گے یا اہل فکر و دانش کو اس پر جو بھی
اعتراض ہوں گے وہ فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے پیش کریں جو قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعہ ان
مسائل کا حل تالش کرے ۔ عالوہ ازیں جس طرح میں کہہ چکا ہوں کہ عدلیہ کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ شریعت کی
ماہر اور اہلیت ِاجتہادکی حامل ہو۔ ہمارے ملک منش اس مسئلہ کا فوری حل یہی ہے کہ مذکورہ باال قانونی دفعہ کے
ذریعہ حدود آرڈیننس پر کتاب وسنت کی اتھارٹی قائم کردی جائے ،اس کی روشنی میں ایسے جزوی مسائل کا فیصلہ جج
کریں ۔
اعلی عدلیہ پہلے بھی فیصلے دے چکی ہے کہ اگر حدود کے متعلق شہادت وغیرہ کے سلسلہ ٰ گواہان کی تعداد وغیرہ پر
میں کوئی ایسے ناگزیر حاالت پیدا ہوں تو اس کا فیصلہ عدالت کرسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج جو لوگ کبھی توہین
رسالت پر اورکبھی عورتوں کے حوالے سے ایسے قوانین پر ...جن کی کم از کم روح شرعی ہے ...اعتراض کررہے
ہیں تو ان کا مقصد عوام کو پریشان خیالی میں مبتال کرکے اُنہیں شریعت سے بدظن کرنا اور اینگلو سیکسن الز اور
مغربی تہذیب کا دل دادہ بنانا ہے ۔یہ مذموم مقصد پورا نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمارا قدم کسی قانون کی اصالح کے ذریعے
آگے شریعت کی طرف بڑھنا چاہئے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے بعد عورتوں پر ظلم و زیادتی بڑھ گئی؟ :انصاف
اس واویالکا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔دراصل یہ امر معاشرے میں روزافزوں بے حیائی: ،موالنا مدنی
سربازار ننگا اور رسوا کرنے کا
ِ مغربی تہذیب کی یلغار کا اثر ہے جو عورت کو بظاہر تحفظ دینے اور درحقیقت اسے
ت پاکستان میں زنا بالرضا کیعلَم لے کر اُٹھی ہے۔مغرب زدہ لوگوں کو اس بات کی بڑی تکلیف ہے کہ پہلے تعزیرا ِ
کھلی چھٹی تھی لیکن حدود آرڈیننس میں زنابالرضا کو بھی بدکاری اور ناقابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے۔پہلے
سزا صرف مرد کو ملتی تھی ،بدکاری پر کنواری ،بیوہ اور مطلقہ عورت کے لئے کوئی سزا نہ تھی بلکہ خاوند بیوی کی
رضا مندی سے اس سے پیشہ بھی کروا سکتا تھا۔ اب حدود آرڈیننس سے عورت کو بھی بدکاری کرنے پر سزا کا حق
دار قرار دے دیا گیا ۔ یہ وہ تکلیف ہے جو تہذیب ِمغرب کے ان اسیروں کو بے چین کررہی ہے اور یہ سارا شور اس
لئے ہے کہ زنا کاری و بدکاری کو دوبارہ سند ِجواز مل جائے اور اس کے لئے تمام مال و زر اور مواد مغرب کی طرف
سے فراہم ہورہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ملک میں روزافزوں پولیس دھاندلی او رکرپشن کے نتیجے میں واقعی عورتوں پر
ظلم ہوتا ہے تو یہ مردوں پر بھی ہوتاہے ،اس میں حدود آرڈیننس کا زیادہ دخل نہیں بلکہ بے لگام پولیس اور کرپٹ
انتظامیہ کا قصور زیادہ ہے۔
ٱَّللِ { :اگر حدود آرڈیننس میں کوئی سقم ہے تو اس کا عالج یہ قرآنی اصول ہے ىءٍ فَ ُردُّوہُ ِإلَى ه َفإِن تَنَ ٰـزَ ْعت ُ ْم فِى َ
ش ْ
سو ِل
ٱلر ُ
النساء...﴾٥٩﴿...و ه
َ جب تمہارا کسی چیز میں جھگڑا ہوجائے تو اسے ہللا اور اسے کے رسول کی طرف '' }سورة
ش ْىءٍ فَ ُح ْك ُم ٰٓۥهُ ِإلَى ه
ٱَّللِ{ لوٹا دو۔'' اور ٱختَلَ ْفت ُ ْم فِی ِه ِمن َ
الشوری...﴾١٠﴿...و َما ْ
َ جس چیز میں تمہارا اختالف پڑ جائے تو ''}سورة
بطور اتھارٹی اور معیار شامل کردیا ِ ُ
وہاں ہللا کا ہی فیصلہ معتبر سمجھا جائی۔''اس قرآنی اصول کو حدود آرڈیننس میں
جائے اور کتاب وسنت کے مطابق ہونے کا فیصلہ(جو ایک قسم کا اجتہاد ہے)پارلیمنٹ کی بجائے جج کے ہاتھ میں ہونا
چاہئے جو درجہ اجتہادپر فائز قرآن و سنت کے علم اور مہارت کی بنیاد پرکیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر بھانت
بھانت کی یہ بولیاں سننا پڑیں گی کہ جی آرڈیننس میں یہ بات غلط ہے ،اسے بدلو۔ فالں غلط ہے ،لہٰ ذا آرڈیننس کو منسوخ
کردو۔
اب یہ کہا جارہا ہے کہ چار گواہوں کے بغیر مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا اور دوسرا کہ عورتوں کوجیل میں :انصاف
نہیں رکھا جاسکتا؟
حدود آرڈیننس میں گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کے متعلق ماضی میں بھی ایک فیصلہ عدالت ِعالیہ :موالنا مدنی
کر چکی ہے۔ (،1992کریمنل الء جرنل،ص )1530مقدمہ درج کرنے سے قبل اس طرح کی شرطیں یا اس قسم کی آرا
مروجہ قوانین کے ماہرین کی نظر میں بالکل بے وقعت ہیں ۔ ایک رائے میں دیتا ہوں اور چند آرا آپ قانون سے ناواقف
ّ
دوسرے لوگوں سے لے لیں ،لیکن اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلے گا کہ پہلے سے موجودہ اَن گنت آرا میں
بعض مزید آرا کااضافہ ہوجائے گا۔ قانونی ماہرین کے لیے بھی ایسے مسائل کے حل کیلئے وہی رہنما اُصول ہے
)ہللا ورسول کی طرف لوٹا دو۔''(النساء ''59:جوقرآن نے بیان کردیاہے کہ
آپ توجہ فرمائیں کہ ہماری اسالمی فقہ کے ایک ایک مسئلہ میں اکابر ائمہ کرام کی آرا بھی مختلف ہو جاتی ہیں ،ہم جن
فتوی میں کتاب وسنت کا یہی اُصول استعمال کرتےٰ کے پاؤں کی خاک کے برابربھی نہیں ہیں ۔دنیا بھر کے اہل علم اپنے
یافیڈرل شریعت کورٹ میں جب کوئی )ہیں جو سورة النساء میں بیان ہوا ہے۔ہمارے ہاں بھی سپریم کورٹ(شریعت بنچ
قانون زیر بحث آتا ہے کہ آیا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں تو جج اسی اُصول کے تحت فیصلہ کرتا ہے کہ کون
کتا ب و سنت' کے مطابق ہے اور کون سی نہیں ؟ جب پہلے آپ کے پاس ایک طریق کار موجود ہے تو اسے 'سی رائے
ہر معاملہ میں عام کردیا جائے۔ یہی اصل حل ہے ،حدود آرڈیننس کو حدود ہللا بنانے کا۔ ہر جج کو اسی طریقہ کار کے
اورتعیناتی کابھی شرعی معیار مقرر ) (Selectionمطابق کام کرنے دیا جائے لیکن اس کے لئے پہلے ججوں کی تقرری
کرنا ضروری ہوگا،چنانچہ ضروری ہے کہ موجودہ اور آئندہ مقرر ہونے والے ججوں کو اس معیار کے مطابق
تیارکیاجائے۔
اس وقت بجٹ اور دیگر کئی اہم ایشوز زیربحث ہیں تو ان حاالت میں حدود کی بحث کو شروع کرنے کا مقصد :انصاف
کیاہے ؟
اس وقت ہمارے ملک کا پورا نظام دگر گوں ہے۔اگرچہ اقتصادی نظام ،سیاسی نظام توسب پہلے ہی مغرب :موالنا مدنی
سے درآمد شدہ اور اس کے زیر اثر چل رہا ہے،لیکن مغرب کے برعکس محکوم ہونے کے ناطے ہماری عدلیہ ،مقننہ،
انتظامیہ ،فوج،بیورو کریسی اور ہر محکمہ کرپشن کی زد میں ہے۔ ان تمام مسائل کو نظر انداز کرکے حدود آرڈیننس کو
میڈیا پر اُچھالنے کی وجہ یقینا یہی ہے کہ سیاست اور معیشت کی طرح ہم اپنی معاشرت کو بھی مغربی تہذیب کے
سامنے سرنگوں کردیں اور یہی اس وقت مغرب کی ہم سے ڈیمانڈ ہے اور اس مقصد کے لئے وہ ہمارے بعض نام نہاد
علما یا دانشوروں کو خرید رہا ہے۔
ہمارے ہاں جو این جی اوز کا جال بچھا ہے ،ان کو پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟ ڈاکٹر محمد فاروق کی'حدود آرڈیننس کا
تنقیدی جائزہ' کے نام سے ایک معمولی کتاب شائع کرنے کے لئے مبینہ طور پر ایک این جی او(عورت فاؤنڈیشن) کو
سات کروڑ روپیہ آخر کس نے دیا ؟اخبارات کے کئی کئی صفحات اور ٹی وی چینل جو اس مقصد کے لئے سرگرم ہے،
ان کو فنڈنگ کون کررہا اور کیوں کررہا ہے؟ اور ایک ٹی وی چینل شاہراہوں پر بڑے بڑے بورڈ کیوں لگا رہا ہے؟
حاالنکہ شاہراہوں پر اشتہار بازی صحافتی دائرئہ کار میں کبھی شامل نہیں رہی۔ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ یقینا
مغرب اور اس کے اشاروں پر ناچنے والوں کا ،جوچاہتے ہیں کہ زنا بالرضا کے ثبوت کے لئے ایسی شرطیں عائد
کردی جائیں کہ وہ جرم ہی نہ رہ جائے اور اگر رہے بھی قابل مؤاخذہ نہ ہو۔ اور زنا بالجبر کو حرابہ (المائدة )33:کے
ِإ هال ٱلهذِینَ { تحت داخل کرکے اس کو قابل راضی نامہ بناکر عمالً اس کی سزا کوختم کردیا جائے کیونکہ اس سے اگلی آیت
ُوامن قَ ْب ِل أَن تَ ْقد ُِر ۟
وا َعلَ ْی ِھ ْم سورة المائدہ}سے یہی ثابت ہوتا ہے بلکہ اس سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ...﴾٣٤﴿...ت َاب ِ
اگرمجرم گرفتار ہونے سے قبل توبہ کرلے توبے چاری عورت سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ زنا بالجبر
کا شکارہونے والی عورت کو راضی کرنے کی ضرورت ہے حاالنکہ زنابالجبر کا 'جرم حرابہ' سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
زنا کی سزا قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کردی گئی ہے ،اس میں سے زنا بالجبر کو خاص کرکے 'حرابہ' کے
تحت داخل کرنے کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے ،نہ خلفاء راشدین کے دور میں اس کی کوئی مثال ملتی
ہے۔
لہٰ ذا یہ ایک کھیل ہے جو ایک منظم سازش کے تحت شروع ہوا ہے۔ حدود آرڈیننس پرآج کل اُچھالے جانے والے تمام
اعتراضات کے جوابات ہم اپنے مجلے ماہنامہ محدث میں شائع کرتے رہے ہیں ۔میرا موقف تو یہی ہے کہ اصل نکتہ کو
مضبوطی سے تھامیں اورحدود آرڈیننس کی جزئیات پر عوامی آرا جمع کرنے کی بجائے اصل شرعی بنیادپر لوگوں کو
جمع کریں ۔حل یہی ہے کہ عوام کی بجائے کتاب وسنت کی مطابقت کا اختیار عدلیہ کو دیاجائے ،نہ کہ پارلیمنٹ کو
اعلی علمی صالحیت کی بنیاد پر تو متعین ہوتا ہے جبکہ اراکین پارلیمنٹ صرف ایک حلقہ کے اکثر ٰ کیونکہ جج بہر حال
عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں ،اُنہیں پورے ملک کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا کجا یہ کہ وہ الہامی شریعت کے
نمائندہ قرار پائیں ۔
لیکن آج ہمارے جج حضرات بھی جس طرح کے آتے ہیں وہ بھی توسامنے ہے؟ :انصاف
یہ درست ہے کہ عدلیہ کی تقرری میں بھی کرپشن پائی جاتی ہے۔میں کہتا ہوں کہ عدلیہ کی شرعی تعلیم :موالنا مدنی
وتربیت کا اہتمام کریں تو یہ کرپشن بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔ پوری طرح نہ سہی تو اس کمی کااثر خاص خاص
کیسوں کے اندر ایک محدود حد تک رہ جائے گا۔ ایسی عدلیہ کو جیسے پہلے بھی دوسرے معامالت میں گوارا کیا جارہا
ہے اور ان کے فیصلوں کو تسلیم کیا جارہا ہے ،ایسے ہی حدود کیسوں میں بھی چالیا جاسکتا ہے۔ پھریہ تو ایک عبوری
دور ہے اور عبوری دور کی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔
آپ کہیں گے کہ جج اجتہاد کرنے کے قابل نہیں ،میں کہتاہوں کہ قرآن و سنت کی اتھارٹی قائم کردو اور پھر اس کے
مطابق ججوں کی ٹریننگ شروع کردو اور اس دوران جو عبوری دور ہوگا اس کو ایک خاص وقت تک برداشت کیا
جائے جیسا کہ آج برداشت ہورہا ہے ،ساتھ ساتھ علماے دین اور بار کے وسیع المطالعہ قانون دانوں کا تعاون چلتا رہے ۔
اصالحِ احوال کی ایسی کوششیں جاری رہنا چاہئیں ۔
حدود آرڈیننس کے سلسلہ کی اُلجھننع اور ان کا حل آپ نے بیان کردیا ہے۔اب ہم 'جیو' کی بجائے درست سواالت :انصاف
تیارکرسکتے ہیں ۔
جنگ کے نمائندہ عبدالمجید ساجد نے مجھ سے انٹرویو لیتے وقت یہ کہا کہ یہ سب غلط پروپیگنڈہ ہورہا :موالنا مدنی
ت حال سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم آپ کا انٹرویو مکمل شائع کریںہے۔ ہم اصل صور ِ
گے ،لیکن جب جنگ کا جمعہ ایڈیشن آیا تو ایک دو باتیں ذکر کرنے کے عالوہ باقی تمام انٹرویو چھوڑ دیا گیا۔جیساکہ
میں نے ذکر کیاکہ جنگ اورجیو نے یہ سوال غلط ترتیب دیا ہے کہ کیا حدود آرڈیننس حدود ہللا ہیں ؟آپ اس کی بجائے یہ
اورمخالفین سے پوچھیں کہ یہ جو تم اس میں '' ہم حدود آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنائیں''سوال لے کر آگے بڑھائیں کہ
ترمیم و اصالح کی سفارشات پیش کررہے ہو کیا اس سے یہ آرڈیننس خدائی بن جائے گا،یعنی کیا اس طرح حدود
کے طریقہ Anglosaxon Lawآرڈیننس حدود ہللا بن جائے گا؟ نیز اس مسئلہ میں ہمارے ملک کے دستورو قانون اور
کار کو بھی پیش نظر رکھاجائے اور اسی کے تناظر میں سواالت کئے جائیں ۔
درج کراتی ہے اور پھر اسے ثابت نہیں کرسکی تو FIRدیکھیں یہ سفارش پیش کی گئی ہے کہ اگر عورت زنابالجبر کی
اسے تو خود بخود قذف کی سزا نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے علیحدہ کیس دائر کرنا پڑے گا۔لیکن اگر زنا بالرضا ہو
کے وقت چار گواہوں کو النے میں کامیاب نہ ہوسکے تو کیس دائر کرنے والے پرفوراً قذف کی سزاالگو FIRاورمدعی
ہوجائے گی اورالگ کیس دائر نہیں کرنا پڑے گا۔ حاالنکہ ہمارے دستور کا بنیادی ڈھانچہ ہی عورت اور مرد میں ایسے
کی وجہ یہ ہے کہ حدود آرڈیننس ایک قانون نہیں بلکہ پانچ قوانین FIRامتیاز کی اجازت نہیں دیتا۔ دراصل قذف کی الگ
ایک مستقل قانون ۔ VIIIالگ ہے اور جرم قذف آرڈیننس VIIہیں ۔یعنی جرم زنا آرڈیننس
یعنی حدود آرڈیننس پانچ علیحدہ علیحدہ آرڈیننسوں کامجموعہ ہے؟ :انصاف
ہاں ،بالکل ایسا ہی ہے کہ پانچوں الگ الگ قوانین ہیں ۔ زناکا الگ ہے ،قذف کا الگ اور شراب کا الگ :موالنا مدنی
وغیرہ وغیرہ اور ہمارے ملک کے عام قانونی طریق کار کی مجبوری یہ ہے کہ جب ایک قانون کے تحت پرچہ درج
ہوتاہے تو دوسرے قانون سے متعلقہ کیس کی اس پرچے میں سزا نہیں ہوسکتی۔ پھریہ کہنا کہ زنابالرضا ثابت نہ ہونے
کی صورت میں قذف کی سزا خود بخود الگو ہوجائے گی ،اسطرح تو پورے دستور ؍ قانون کا تیا پانچہ کرنا پڑتا ہے۔
نے جو موقف اختیار کیاہے کہ حدود آرڈیننس شریعت کے مطابق ہے ،ہم کسی کو )(MMAمجلس عمل:انصاف
چھیڑنے نہیں دیں گے ۔اس بارے میں آپ کیاکہتے ہیں ؟
اصل میں ان کے سامنے اس کی روح ہے جوانتہائی مقدس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اِس کو بدلنے نہیں دیں :موالنامدنی
گے۔دیکھیں ایک ہوتی ہے کسی چیز کی روح اور ایک ہیں اس کے الفاظ۔ اس قانون کی روح یہ ہے کہ زنابالرضا ہو
یازنا بالجبر ،ہردوصورتوں میں وہ حرام اور ناقابل معافی جرم ہے۔وہ اس کی روح کی بات کررہے ہیں کہ اسے نہیں بدلنا
چاہئے۔ باقی رہے الفاظ تو اگر ان پر قرآن و سنت کی چھتری موجود ہے تو ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ تمام ائمہ کرام کی
فقہ ہمارے لئے سرمایہ ہے۔ قرآن و سنت کی چھتری تلے ہم ان تمام سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ مجلس عمل والوں کو
دراصل یہ خطرہ ہے کہ حدود آرڈیننس کو ایک سازش کے تحت ختم کرنے اور زنا کو سند ِجواز مہیا کرنے کا منصوبہ
تیار ہے۔ اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ان حاالت میں حدود آرڈیننس کو چھیڑنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہوگا۔
سمیعہ راحیل قاضی سے ہماری بات ہوئی۔ وہ یہی کہتی ہیں کہ ان حاالت میں اس قانون کو چھیڑنا ہی اس کو :انصاف
ختم کرنے کے مترادف ہے۔کیونکہ ان لوگوں کے پاس اکثریت ہے اور یہ لوگ نیک نیت بھی نہیں ہیں ۔
میں سمجھتاہوں کہ حدود آرڈیننس میں قصاص ودیت آرڈیننس کی دفعہ 338؍ایف سے زیادہ واضح کتاب :موالنا مدنی
وسنت والی بنیاد کااضافہ ضرور ہونا چاہئے تاکہ اس قانون پرجب بھی کوئی اعتراض یااس میں سقم سامنے آئے تو اسے
اعلی عدلیہ کے قاضی حضرات کے ذریعے ہو جو خود بھی قرآن و سنت کے ٰ قرآن و سنت پر پیش کیاجاسکے اور یہ کام
ماہر اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوں یا وہ علما کی راہنمائی میں ایسا کریں ۔ جیسا کہ قصاص ودیت آرڈیننس میں دفعہ 338
؍ایف کے بارے میں میں بعض اہم فیصلوں کا ذکر کر چکا ہوں ۔ہمارے ملک کے رواج کے مطابق قانون سازی
ہماری مجبوری بن چکی ہے۔اس پر اگر قرآن وسنت کی اتھارٹی قانونا ً قائم ہوگی تو پھر کوئی خطرہ نہیں )(Legistation
ہے۔
میری تجویز کا خالصہ یہ ہے کہ جب تک ہمارے پاس قرآن و سنت موجود ہے ،اس وقت تک تمام ائمہ کی فقہ بھی
ہمارے لئے قیمتی سرمایہ ہے اورشریعت کی قانون سازی کی کمزوریوں کا حل بھی موجود ہے۔ورنہ ان شرعی
آرڈیننسوں کو قرآن و سنت سے الگ کردیں تو یہ سب بگاڑ ہی بگاڑ ہے ،لہٰ ذا ضروری ہے کہ تمام قوانین پر قرآن کریم
س ْو ِل{کا یہ اُصول قائم رہے ش ْی ٍئ فَ ُرد ُّْوہُ ِإلَی اہللاِ َو ه
الر ُ جب کسی مسئلہ میں تمہارا کوئی نزاع ہوجائے تو '' }فَإ ِ ْن تَنَازَ ْعت ُ ْم ِف ْی َ
اسے ہللا اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرو۔'' اس طرح ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہی وہ شرعی طریقہ
کار ہے جو چودہ صدیاں چلتا رہا ہے ،اس کے احیا کی ضرورت ہے۔یہی بات جسٹس ناصر اسلم زاہد نے بھی کہی کہ ''
حدود آرڈیننس کو قرآن کے مطابق بناؤ۔' 'وگرنہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ
لوگوں کو راضی رکھنے کے لئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں ،لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھا جاتا۔ان کی ''
حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضروری ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں
''کرسکتے ،لیکن اسالمی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ہماری عدلیہ کے اکثر ارکان بھی شریعت کے ماہر نہیں ہیں ،وہ اجتہاد کیسے کریں گے؟ اگرچہ اس i.
کا صحیح حل تو ماہرین کی تیاری ہی ہے لیکن عبوری دور میں یوں کام چالیا جا سکتا ہے کہ جج حضرات کے ساتھ
علماء یا بار میں ایسے عالم حضرات تعاون کریں جن کی مدد سے جج "اجتہاد" کر سکیں۔جج حضرات بہرصورت
ہوتے ہیں۔ آج کل فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ (شریعت بنچ) میں اسی طرح کام چالیا " Selectمیرٹ" پر ہی
اعلی عدلیہ کے ارکان بھی دستور کی اسالمی دفعات کی روشنی میں عرصہ سے فیصلے ٰ جا رہا ہے۔ اسی طرح عام
کرتے چلے آ رہے ہیں۔
شمارہ 300جون 2006
اسالم کا نظام قضا
1979ء میں نفاذ شریعت کے پیش نظرپانچ آرڈیننس جاری کئے گئے تھے جن میں سے آرڈیننس نمبرVIIجرم زنا سے متعلق
ہے اور جرم قذف (تہمت زنا) وغیرہ سے تعلق رکھنے واال آرڈیننسVIIIہے۔ اس وقت جرم زنا آرڈیننس نمبرVIIزیر بحث ہے اور
کسی قدر جرم قذف آرڈیننس ...VIIIجو مستقل قانون ہے ...کو بھی لپیٹ میں لیا جارہا ہے۔ اس بحث سے مقصود نفاذ شریعت کی
بجائے روح شریعت سے انحراف کرکے سابقہ تعزیرات کو بحال کرنا ہے جس میں مغربی ثقافت کے زیر اثر عورت کی رضا
مندی سے تقریبا ہر قسم کا زنا جائز تھا ۔ ا س مقصد کے لئے طریق کار یہ اختیار کیا جارہا ہے کہ عوام کے پلے کچھ نہ پڑے
اور صرف تنقید باقی رہ جائے تاکہ حکومت اس شوروغوغا میں مذکورہ پانچ حدود آرڈیننس میں سے صرف جرم زنا آرڈیننس کو
تو منسوخ کردے اور جرم قذف آرڈیننس میں حسب منشاترمیم کردے۔ان حاالت میں پھیالئے جانے والے سواالت کے پس منظر
سے عوام ناواقف ہیں۔ جیو ٹی وی نے مدیراعلی 'محدث' کو تو سوال درست کرنے کی اجازت نہ دی لیکن روزنامہ 'جنگ' الہور
کے انچارج اقرأایڈیشن جناب عبدالمجید ساجد نے مدنی صاحب سے ایک طویل نشست رکھی اور وعدہ کیا کہ یہ انٹرویو 'جنگ'
میں تفصیال شائع ہوگا ،لیکن جنگ الہور مؤرخہ 9؍جون کے رنگین صفحہ پر اس نشست کا صرف ایک آدھا نکتہ ذکر کرنے پر
اکتفا کیا گیا۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ اُنہیں محدث کے سابقہ شمارے بھی دیے گئے لیکن ان شماروں سے صرف اعتراضات
کی فہرست نکا ل کر شائع کردی گئی اور جوابات کو چھوڑ دیا گیا ،اس سے جنگ اخبار کی پالیسی کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔
بہرحال جنگ سے ہونے والی اس نشست کو مجلس تحقیق اسالمی کے سکالر محمد اسلم صدیق نے ریکارڈنگ سے ترتیب دیا ہے
جو ہدیۂ قارئین ہے۔ (محدث)
سوال :زنا آرڈیننس میں ترمیم کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟
جواب :جسٹس ناصر اسلم زاہد کا جو موقف اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ زنا آرڈیننس کو قرآن کے مطابق بنایا جائے ،میں اس
سے متفق ہوں۔ البتہ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ زنا آرڈیننس کو سرے سے ختم ہی کردیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حدود
آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنایا جائے؟
جواب :یہ سوال بڑا عجیب ہے ،یہ بات تو درست ہے کہ یہ آرڈیننس ہللا نے نازل نہیں کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مینترمیم و
اصالح کے بعد جو قانون بنایا جائے گا،کیا وہ خدائی قانون ہوگا؟ وہ بھی تو انسانوں کا بنایا ہوا ہوگا۔ دراصل ہمارے ملک میں وہ
تمام قوانین جوشریعت کے حوالہ سے الگو ہیں ،ان کے بارے میں مشکل یہ ہے کہ انسان اسے اپنی زبان میں تیار کرتے ہیں اور
پھر ایک خاص طریقہ سے ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جبکہ شریعت ہللا تعالی کی وحی ہے جوقرآن وسنت کی صورت میں ہمارے پاس
موجود ہے۔ہر وہ قانون جو (اجتہاد کے بعد) انسانوں کی اپنی تعبیر کی شکل میننافذ ہوگا ،اس کو نافذ کرنے کے بعد یہ مشکل
ہمیشہ درپیش رہے گی اور اس میں جابجا تبدیلیوں کی ضرورت ہمیشہ پیش آتی رہے گی۔
جواب :اس سلسلہ میں مثالی صورت تو یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعہ حدود ہللا کی تقنین ()Legislationیا اس کی دفعات کی
تدوین( )Codificationکی بجائے اُنہیں قرآن و سنت کی اصل شکل میننافذ کردیا جائے اور جب حدود کا کوئی مقدمہ پیش آئے تو
اس وقت قرآن و سنت کی اس سلسلہ میں وارد نصوص کوسامنے رکھ کر جج اجتہاد کرتے ہوئے اپنا فیصلہ صادر کرے لیکن اس
کے لئے ضروری یہ ہے کہ جج قرآن و سنت کا ماہر عالم ہو اور شرعی اجتہاد کی صالحیت بھی اس میں موجود ہو۔
ہماری چودہ سو سالہ اسالمی تاریخ میں شریعت کے نفاذ کا یہی طریقہ رہا ہے اور آج کل بھی خلیجی ممالک مثال سعودی عرب
وغیرہ میں اسی طریقہ پرہی حدود ہللا کو نافذ کیا جاتاہے۔ پہلے سے انسانوں کی قانون سازی کے ذریعے جو حدود آرڈیننس بھی
نافذ کیا جائے گا ،اس کے بارے میں یہ آواز اٹھتی ہی رہے گی کہ یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یانہیں؟ لہذا اسے قرآن و سنت
کے مطابق بناؤ۔
سعودی عرب میں شاہ فیصل مرحوم کے دور میں علما کے درمیان جدید انداز میں شریعت کی تقنین ()Legislationکی بحث چلی
تو وہاں کے مشہور مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم اور ان کے شاگرد ؍ جانشین مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ ہللا علیہ
نے فرمایا کہ ہللا تعالی نے قرآن مجیدمیں حکام کو ما أنزل اہللا (المائدة)44:کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا ہمارا
شریعت کی دفعہ وار قانون سازی کرنا ما أنزل اہللا قرار پاسکتا ہے؟ قطعا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شرعی قاضی ہمارے الفاظ کی
بجائے محض قرآن و سنت کا پابند ہے۔
اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں حدود ہللا کی دفعہ وار تقنین (شق وار قانون بندی) کی بجائے اُنہیں قرآن و سنت کے الفاظ میں
نافذ کرنے کی طرف آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ ہم کتاب و سنت سے بہتر وحی کی تعبیر پیش نہینک رسکتے۔ یہی بات ایک مجلس
میں مرحوم جسٹس گل محمد (چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت ،پاکستان) نے اس وقت کہی جب سابق صدر پاکستان جناب غالم
اسحق خان نے شریعت کی متفقہ دفعہ وار تقنین پر زور دیاتو جناب جسٹس صاحب رحمۃ ہللا علیہ نے ایمان افروز الفاظ میں یوں
جواب دیا کہ ''شریعت تو وحی الہی ہے جو کتاب و سنت کی صورت میں ہمارے ہاں مکمل محفوظ ہے ،اب کیا ہم وحی سے بہتر
تعبیر پیش کرسکتے ہیں۔'' اس جواب پر مجلس میں خاموشی چھا گئی۔
اس سلسلے میں جیو ٹی وی چینل نے غیرمناسب طریقہ اختیار کیا ہے۔ پہلے ایک غلط سوال تیار کیااور پھر اپنی مرضی کا جواب
تیار کرکے خاص مشن کے مطابق لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔ مختلف مقامات پر بڑے بڑے سائن بورڈ لگانے کا آخر کیامقصد
ہے؟ ہللا کے قانون کو تماشا بنانے والوں کو آخرایک روز ہللا کے سامنے بھی جواب دہ ہونا ہے۔
بالفرض حدود آرڈیننس میں تعبیر شریعت کی غلطیاں ہیں لیکن بہرحال اسے قرآن و سنت یا ائمہ فقہا کی تشریحات کو سامنے رکھ
کر تیار کیا گیا ہے۔ لہذا غلط پراپیگنڈہ کرنے کی بجائے اسے قرآن وسنت کے مطابق کرنے کی کوشش ہونی چاہئے ،اس کے لئے
ضروری ہے کہ پہلے سوال کو درست کیا جائے؟ جو یہ ہو کہ 'حدود آرڈیننس کو حدود ہللا کیسے بنایا جائے؟'
سوال:میں آپ سے 'جیو' واال سوال پوچھنے حاضر نہیں ہوا اورمیرا اس پروپیگنڈا سے بھی تعلق نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا
پروپیگنڈہ سن کر میں خود بہت زچ ہوا اور میننے سوچا کہ اس کی صحیح صورت حال سے لوگوں کوآگاہ کرنا چاہئے اور میں
آپ کے تفصیلی موقف کی درست اشاعت کی بھی ذمہ داری لیتا ہوں۔
مدنی صاحب' :محدث' میں حدود آرڈیننس کے بارے میں بہت کچھ شائع ہوتا رہا ہے،بالخصوص محدث کے سال 2004ء میں شائع
ہونے والے تین شمارہ جات (سیریل نمبر 276،280:اور )284میں قانونی تجزیہ اور تقابل کرتے ہوئے مروجہ حدود آرڈیننس کے
خالف مختلف مہمات کا پس منظر پیش کیا گیا اور اعتراضات کے جواب دیے گئے ہیں۔ حدود آرڈیننس کے خاتمے سے اصل
مقصود جنسی انارکی اور زنا کاری کو فروغ دینا ہے۔ اسی مقصد کے لئے حدود آرڈیننس کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی گئی
ہے۔ جب بدنام ہوجائے تو کہا جائے گا کہ اس کوختم کردیاجائے جیساکہ واجدہ رضوی رپورٹ میں یہی سفارش کی گئی ہے۔
اسالمی نظریاتی کونسل کے سابقہ چیئرمین اور خواتین حقوق کمیشن کے رکن جناب ایس ایم زمان نے اس سازش کی کسی قدر
نقاب کشائی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ واجدہ رضوی نے طے شدہ اُصولوں اور طریقہ کار کو ترک کرکے غلط انداز اپنایا اور
کراچی میں موجود کمیشن کا ایک اجالس منعقد کرکے ارکان سے صرف یہ پوچھا گیا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کس بات کے
حق میں ہیں :اس قانون کو منسوخ کیا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے؟ اس کے بیس روز بعد اُنہوں نے یہ عندیہ دیا کہ ارکان کی
اکثریت نے مذکورہ قانون منسوخ کرنے کے حق میں رائے دے دی ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک نئی رپورٹ تیار کی جس کا اس
مسئلے پر پہلے سے تیار کردہ ڈرافٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس نئی رپورٹ میں حدود قوانین کی منسوخی کی سفارش کی گئی
اور ترامیم کی مخالفت کی گئی تھی یعنی غلط طور پر اس رپورٹ کو کمیشن کی رپورٹ قرار دے کروزیراعظم اور صدر کو
بھجوایا گیا۔ دراصل اسپیشل کمیٹی کا اجالس اور اس کے بعد نیشنل کمیشن برائے خواتین کا اجالس دونونغیر آئینی تھے۔ کیونکہ
اس دوران کمیشن کے ارکان کی اکثریت کی میعاد تقرری تین سال گزرنے پر پوری ہوچکی تھی اور وہ لوگ کمیشن کے ممبر ہی
نہیں رہے تھے۔ صرف واجدہ رضوی اور دو ایک خواتین ایسی تھیں جو خالی نشستوں پر نامزد ہوئی تھیں اور ان کی مدت تقرری
ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔1
اس ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی کہے کہ اس ملک میں اسالم نافذ کرنا ہے تو بیوروکریسی اسالم کو نافذ کرنے نہیں
دیتی۔مجھے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معاون کی حیثیت سے خصوصا قصاص و دیت کے قانون میں کام کرنے کا موقعہ
مال۔ قصاص ودیت کا قانون بھی اس طرح کی شرعی تعبیرات ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں طریق کار یہ ہے کہ اسالم کے نام پر ایک
مقررہ سزا (حد) تجویز کرکے اس کے ساتھ ایسی کڑی شرطیں لگا دی جاتیں ہیں جو موجودہ معاشرہ میں کبھی پوری نہ ہوسکیں
اور پھر اگر کوئی شرط پوری نہ ہو تو اس حد کے بجائے تعزیر الگو کردی جاتی ہے اور بالعموم ایسی سزائیں وہی سابقہ گھسی
پٹی تعزیرات پاکستان ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دکھانے کوکچھ اور ہوتا ہے لیکن عمال تعزیرات پاکستان ہی نافذ رہتی ہیں۔یہی
بات جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہی کہ
''مذہبی لوگوں کو راضی رکھنے کیلئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھاجاسکتا۔ ان کی
حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضرور ی ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں کرسکتے لیکن
اسالمی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔ ''2
مثال مالحظہ کریں کہ حدود آرڈیننس میں چار مسلمان مرد عینی گواہ مقرر کئے گئے ہیں جس سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حد
نافذ کرنے کے لئے انتہائی مثالی معیار ہے۔ لیکن جب وہ گواہ میسرنہیں آئیں گے تو حدود کانفاذ نہیں ہوسکے گا اور پھراس طرح
تعزیر کونافذ کردیاجاتا ہے۔ کیونکہ پاکستانی قانون میں تعزیر کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں بلکہ ایک گواہ اور قرائن
کی موجودگی میں بھی تعزیر الگو کی جاسکتی ہے۔گویا طریق کار ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ نہ قصاص کا نفاذ ہوسکے اورنہ
حدود کا۔ یہ سب کھیل ہے جس کے پیچھے اصل کردار بیوروکریسی کا ہے۔
قصاص و دیت کا قانون ،قانون شہادت اور حدود آرڈیننس کو پڑھتے پڑھاتے میری عمر کا ایک حصہ گزرا ہے اورمجھے خوب
معلوم ہے کہ ان کے پیچھے کیا عیوب پوشیدہ ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دستور میں بھی اسالمی دفعات محض تصور یا پالیسی کی حد تک ہیں۔ عمومی تصورات اور 'پالیسی
قوانین' قانونا مؤثر نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف مقصد اور پالیسی ہوتی ہے جس کی کوئی مؤثر حیثیت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں مروج
اینگلو سیکسن الز کا اُصول یہ ہے کہ عمومی دفعات یا پالیسی کے اُصول مزید خصوصی رولز کے بغیر مؤثر نہیں ہوتے۔ عام فہم
انداز میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ منصوبہ اور عمل دو مختلف چیزیں ہیں۔
سوال :کل میری ڈاکٹر محمد فاروق خاں سے بات ہوئی ،اُنہوں نے حدود آرڈیننس کی چھ بنیادی خامیاں بیان کی ہیں ،وہ کہتے ہیں
کہ قرآن کی رو سے زنا بالجبر میں سزا کا طریقہ زنا بالرضا سے مختلف ہے۔ زنابالجبر مینچارگواہ تو کجا،ایک عینی گواہ کی
بھی شرط نہیں ہے۔
جواب :دراصل بعض لوگ زنا بالجبر کے لئے سنت کوباالئے طاق رکھ کر آیت محاربہ کو سزا کی بنیاد بناتے ہیں۔ سورة المائدة
کی اس آیت کے الفاظ یہ ہیں
گویا اگرزنا بالجبر کو اس آیت کے تحت قابل سزا قرار دیا جائے تو زنا بالجبر کی زد میں آنے والی خاتون کو بالکل نظر انداز
بھی کیا جاسکتا ہے ،مثالاگر جرم کرنے واال اپنی گرفتاری سے قبل توبہ کا اظہار کردے تو جرم ہی معاف ہوجائے گا۔ لیکن
درحقیقت ہماری شریعت کی تکمیل محمد رسول اہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے بغیر قطعا نہیں ہوسکتی۔ قرآن مجید رسول ہللا صلی ہللا
آپ
آپ کی زندگی سے وابستہ ہے۔ اگر ؐ علیہ وسلم کی 23سالہ زندگی میں نازل ہوا اور اپنی دائمی تعبیر (حدیث وسنت) کی صورت ؐ
کی زندگی (حدیث وسنت) کو قرآن سے الگ کردیا جائے تو جو قانون نافذ ہوگا ،وہ الہامی شریعت کا قانون نہیں ہوگا ،یہی ہے
خرابی کی اصل وجہ۔ جب آپ اس ساری صورت حال کے تناظر میں جائیں گے تو واضح ہوگا کہ ان لوگوں کا اصل مشن یہ ہے
کہ زنا بالجبر کو زنا کے زمرہ سے نکال کر اس کے لئے کوئی اور قانون الیاجائے تاکہ زنا بالجبر کے دعوی سے 'جرم زنا'
پوری طرح عورت کے ہاتھ میں آجائے۔ مزید یہ کہ اس طرح زنا بالجبر کے مرتکب کنوارے کو بھی رجم (سنگسار) کرنا پڑے گا
حاالنکہ درحقیقت یہ لوگ تو سرے سے ایسی سزاؤں کے ہی خالف ہیں۔ شریعت اسالمیہ میں اجماعا کنوارے زانی کی سزا رجم
نہیں ہے اور رسول صلی ہللا علیہ وسلم کے دور یا بعد کے کسی دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔
سوال :اسالم بال شبہ اس ملک کی بنیاد ہے۔ یہاں اسالمی شریعت پر عمل ہونا چاہئے اور اسے ہمیشہ جاری و ساری رہنا چاہئے
لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جو قوانین اسالمی شریعت کے نام پر اس وقت ملک میں نافذ ہیں ،ان میں بعض کمزوریوں کا حل کیا
ہے؟
جواب:اس سوال کے پس منظر کے طور پر اُصوال یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قرآن مجید کی کوئی انسانی تشریح یا تعبیر
کبھی بھی قرآن کے مماثل قرار نہیں پاسکتی۔ قرآن کے ترجمہ ،تشریح اور تفسیر کو خواہ آپ اس کی بہتر سے بہترتعبیر و تشریح
کی صورت میں تیار کر لیں ،اس پر کبھی ما أنزل اہللا (نازل کردہ کتاب وسنت) کا اطالق نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ انسانوں کی اس
تعبیر ( )Interpretationمیں تضاد اور تعارض کا احتمال موجود رہتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کو مسائل پیش آنے سے
پہلے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی نوعیت کیا ہوگی؟ ان کی نوعیت اسی وقت متعین ہوتی ہے جب وہ معاملہ درپیش ہو۔
جیسا کہ میں ذکرکر چکا ہوں کہ اس وقت مختلف اسالمی ممالک،خصوصا سعودی عرب وغیرہ میں اسالم کے نفاذ کا یہ اندازنہیں
ہے کہ پہلے شریعت کی دفعہ وار قانون بندی کی جائے اور پھر ججوں کو اس کا پابند بنا دیا جائے۔ان کے ہاں اصل اتھارٹی کتاب
وسنت کو حاصل ہے اور جج اپنے فیصلہ میں انہی کا پابند ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے کہ جج صرف وحی(قرآن وسنت) کا پابند
رہے۔ البتہ جب مسئلہ پیش آئے تو اس وقت وہ اکابر اہل علم کی تشریحات اسالمی ورثہ کے قدیم اور جدید فقہی ذخیرے اور فتوی
جات کو سامنے رکھ کر ان سے استفادہ کرے۔اس دور کے علما سے رہنمائی لے اور وہ واقعاتی صورت حال کا جائزہ بھی لے،
پھر شرعی تعلیمات اورصورت واقعہ دونوں کو سامنے رکھ کر دالئل کے تناظر میں غور کرتے ہوئے جو رائے قرآن وسنت کے
رسول
ؐ مطابق سمجھے ،اسی کے مطابق فیصلہ کر دے۔کیونکہ جج کسی اور کے اجتہاد کا مقلد نہیں ہوتا بلکہ وہ کتاب ہللا اور سنت
کا پابند ہوتا ہے اور مسئلہ پیش آنے پر ہی وہ اجتہاد کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اسالف نے مسئلہ پیش آنے سے
پہلے محض مفروضوں پر رائے زنی کو نا پسند کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ مسئلہ پیش آنے سے پہلے مفروضوں پر
اجتہاد نہ کیا جائے کیونکہ مسئلہ کی صحیح نوعیت اسی وقت متعین ہوتی ہے جب وہ پیش آئے۔اس سے پہلے وہ محض ایک
مفروضہ ہوتا ہے چنانچہ مفروضہ کی بنیاد پر جو فتوی صادر ہو گا ،اس میں صحت کے امکانات کم اور افراط وتفریط کے
امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
یہی بات میں نے اس وقت بھی کہی تھی جب 'جیو' نے مجھ سے حدود آرڈیننس کے خدائی قانون ہونے یا نہ ہونے کا سوال پوچھا
تھا ۔ میرا جواب یہ تھا کہ اگر آپ بیرونی دباؤ کے زیراثر آرڈینینسوں میں تبدیلیاں کرکے نئی دفعہ وار قانون سازی کریں
گے،بالخصوص جب قانون سازی کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو دے دیں گے جس کے ارکان کی اکثریت شریعت سے بے بہرہ ہے
توکیا اس وقت یہ آرڈیننس خدائی بن جائے گا۔ حکومت کے آئینی اداروں کو شریعت کی قانون سازی اورتعبیر شریعت کا اختیار
دینے کی بجائے اس کے نفاذ Applicationکے کامیاب طریقوں پر محنت کرنا چاہیے۔اگر شریعت وحی کے الفاظ میں رہے گی
تو پھر یقینا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب حدود ہللا کا نفاذ ہورہاہے لیکن اگر آپ پارلیمنٹ یا بیوروکریسی کی لفاظی کو قانونی دفعات
کی صورت میں نافذ کریں گے تو پھر یہ اعتراضات اُٹھتے رہیں گے کہ حدود آرڈیننس قرآن وسنت کے مطابق نہیں یا قصاص و
دیت آرڈیننس قرآن وست کے مطابق نہیں۔ اس کو قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے یا اسے منسوخ کیا جائے۔
اورحقیقت یہ ہے کہبیوروکریسی کی ڈرافٹنگ یا پارلیمنٹ کی قانون سازی جسے آپ اجتماعی اجتہاد کانام دے رہے ہیں ،عدلیہ پر
بے اعتمادی کا اظہار ہے۔حاالنکہ عدلیہ میں آنے والے لوگ میرٹ کی بنیاد پر آتے ہیں اور پارلیمنٹ میں آنے والے عوامی اعتماد
کی بنیاد پر جبکہ علم کی دنیا میں میرٹ کو ہی باالدستی حاصل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شرعی حدود کو وحی کے قالب میں
نافذ سمجھا جائے اور عدلیہ جو قرآن وسنت کے ماہرین پر مشتمل ہو ،اسے اجتہاد کا اختیار دیا جائے۔ ہمارے ملک پاکستان میں
حدود آرڈیننس سمیت شریعت کے حوالہ سے الگو کئے جانے والے دساتیر و قوانین اینگلو سیکسن الز کے طریقہ پر تیار اور نافذ
ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ مسلمہ امر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے
گی جب کہ وحی (کتاب و سنت) دائمی عالمگیر ہدایات ہیں جو حرکی اجتہاد کے تصور سے ہر دور کے بدلتے تقاضوں کوملحوظ
رکھ کر ہر طرح کے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی صالحیت رکھتے ہیں۔
اجتہاد ی اختالفات کے باوجود اجتہاد کی شریعت میں اجازت کیوں ہے؟ اس کے بارے میں عموما عوام ائمہ کا اختالف سن
کرپریشان ہوجاتے ہیں حاالنکہ اکابر فقہا کے ظاہری اختالفات کے باوجود یہ اجتہاد کا ایک بڑا اہم اور مثبت پہلو ہے کہ اس طرح
پیش آمدہ مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ سامنے آجاتا ہے کیونکہ اجتہاد کرنے والوں میں سے کسی کے سامنے ایک پہلو ہوتا ہے
اور کسی کے سامنے کوئی دوسرا ۔ جس کی وجہ سے ان کی آرا بظاہر مختلف نظرآتی ہیں،لیکن بہت دفعہ یہ اختالف حقیقی نہیں
ہوتا بلکہ وہ ایک حقیقت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ جیسے ایک عمارت کو جب آپ چار اطراف سے دیکھیں گے تو وہ بظاہر ایک
طرف سے دوسرے پہلوسے مختلف نظرآئے گی حاالنکہ وہ عمارت ایک ہی ہے،پھر زمانے کی تبدیلی کے ساتھ مسائل کی
صورتوناور نوعیتوں میں تبدیلی بھی واقع ہوتی رہتی ہے۔ جب آپ دفعہ وار قانونی دفعات بنا کر جج کو اس کا پابند بنا دیں گے
اور اجتہاد کو اس کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیں گے تو ظاہر ہے کہ اس جج کی طرف سے دیا جانے واال فیصلہ مسائل کے نت
نئے پہلوؤں سے ہم آہنگ نہیں ہوگا۔ اس طرح قانون ہمیں انصاف دینے کی بجائے ہمارے لئے بیڑیاں (اصر واَغالل) بن جائے گا۔
لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ حدود آرڈیننس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ آرڈیننس کوئی خدائی قانون نہیں ،محض ایک مغالطہ
اور پراپیگنڈہ ہے۔ یہ تودرست ہے کہ یہ حدود آرڈیننس ان الفاظ کے ساتھ ہللا نے آسمان سے نازل نہیں کیا ،بلکہ یہ وحی الہی
(قرآن وسنت) کا اجتہادی فہم ہے۔ یہ بعینہ شریعت نہیں بلکہ شریعت کی اجتہادی تعبیر ہے ،لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ
حدود آرڈیننس غیر اسالمی ہے۔ حدود کے قوانین نہ تو بعینہ حدود ہللا ہیں اور نہ ہی اس سے الگ کوئی چیز۔جس طرح قرآن کا
ترجمہ اگرچہ قرآن نہیں ہوتا لیکن اس کا غیر بھی نہیں ہوتا ،حدود آرڈیننس میں شرعی دفعات اور حدود ہللا کا باہم وہی رشتہ ہے
جو کتاب کے متن اور اس کے ترجمہ وتشریح کے درمیان ہوتا ہے،کیونکہ علما نے انہیں قرآن وسنت کی روشنی میں تیار کیا ہے۔
بعض لوگ حدود آرڈیننس پر خدائی قانون نہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ ترمیم واصالح کے بعد جو حدوو
آرڈیننس سامنے آئے گا ،کیا وہ خدائی قانون ہو گا؟ کیا وہ بعینہ حدود ہللا ہوں گی بلکہ وہ بھی انسانی کاوش ہی قرار پائے گی۔اور
اس سے بھی بہت سے اہل فکر کو اختالف ہو سکتا ہے۔ اور یہ واضح رہے کہ حدود ہللا یا شریعت کے نفاذ Applicationکی جو
بھی صورت ہو گی جیسے وہ پہلے سے تیار کردہ کسی معیاری تدوین کی صورت میں ہو تو انسانوں کا قرآن وسنت کا فہم 'انسانی
کدوکاوش' ہی کہالئے گی۔اگر کسی بات کو محض یہ کہہ کر رد کرنا شروع کر دیا جائے کہ یہ تو انسانوں کا اجتہاد ہے یا
بصورت فقہ شریعت کی انسانی تعبیر ہے تو ہللا کا یہ دین بالکل معطل ہو کر رہ جائے گا۔
سوال :یہ توایک مثالی صورت حال ہے ،لیکن پاکستان میں ایسے ہونا سردست ممکن نظرنہیں آتا ،ان حاالت میں آپ پاکستان میں
شریعت کے نفاذ کا طریقہ کیا تجویز کرتے ہیں؟
جواب :حدود ہللا اور دیگر شرعی احکام کے نفاذ کا اصل طریقہ تو یہی ہے کہ اسے وحی یعنی قرآن وسنت کی صورت میں نافذ
کر دیا جائے ،اسے اپنے الفاظ میں قوانین کی شکل نہ دی جائے جیسا کہ سعودی عرب اور بعض دیگر خلیجی ممالک میں یہ
طریقہ اس وقت نافذ العمل ہے۔ لیکن اگر ہم اسی بات پر مصر ہیں کہ شریعت کو انسانی الفاظ اورقانونی دفعات کی شکل میں ہی
نافذ کرنا ہے تو پھر اس کے اندر ایک شق یہ رکھ دی جائے کہ جہاں کہیں کو ئی اختالف رونما ہوگا تو اس کی کسوٹی کتاب و
سنت ہوگا۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
''جس چیز میں تم اختالف کرو تو وہاں فیصلہ ہللا کی طرف ہی لوٹایا جائے۔''
پاکستانی قانون میں پہلے بھی بعض جگہ یہ صراحت موجود ہے ،مثال قصاص ودیت آرڈیننس میں 338؍ایف میں وضاحت موجود
ہے کہ اس قانون میں اگرہمیں کوئی ضمنی مسئلہ درپیش ہو گا یا کوئی چیز موجود نہیں ہو گی یا کوئی نکتہ قابل اصالح ہو گا تو
قرآن وسنت کی روشنی میں اسے حل کیا جائے گا۔ ایسے ہی الہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے اس کے مطابق ایک فیصلہ بھی دیا
ہے۔فل بنچ کے تین ججوں :جسٹس سردار محمدڈوگر ،جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کے سامنے یہ
مسئلہ پیش ہوا کہ اگر مقتول کے ورثا صلح کرکے قصاص معاف کر دیں تو کیا اس کے باوجود بھی قاتل کو کوئی تعزیری سزا
دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ تو اُنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ اس صورت میں تعزیری سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ وہ خود چونکہ مروجہ
قوانین میں کوئی ترمیم نہیں کرسکتے تھے ،لہذا انہوں نے اپنی اس رولنگ کو پارلیمنٹ بھیجنے کی سفارش کی کہ اس کے مطابق
قانون سازی کی جائے۔
چنانچہ ''قرآن و سنت کے کسوٹی ہونے'' پر مبنی ایک شق کا اگر حدود آرڈیننس میں اضافہ کر دیا جائے تو یہ کافی حد تک حدود
ہللا کے قریب آ جائے گا کیونکہ اس صورت میں اصل نگران اور اتھارٹی قرآن وسنت قرار پائے گا۔
1980ء میں وفاقی شرعی عدالت نے تعزیرات پاکستان اور قوانین ضابطہ کی 56دفعات کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیا۔ تو
سپریم کورٹ (شریعت بنچ) میں حکومت نے اپیل کردی۔ جب سپریم کورٹ نے بھی وفاقی شرعی عدالت کی تائید کردی تو 1991ء
میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ متبادل دفعات فراہم کرے۔ یہ بے نظیر بھٹو کا دور تھا اور حکومت اس سے بچنے کے
لیے سپریم کورٹ سے تاریخوں پر تاریخیں لے رہی تھی اورحکومت کا موقف یہ تھاکہ ہمیں مختلف ممالک کے قوانین کا جائزہ
لینے کے لیے اپنے نمائندے دوسرے ممالک میں بھیجنے ہیں ۔ اس صورت حال کو بھانپ کر فل بنچ نے کہا کہ دس سال تو پہلے
ہو چکے ہیں اور بنچ کے سربراہ جسٹس افضل ظلہ نے کہا کہ اب ہم مزید تاریخیں نہیں دیں گے۔فالں تاریخ تک آپ متبادل قانون
نافذ کر دیں اور ساتھ ہی یہ بھی قرار دے دیا کہ اگر فالں تاریخ تک کوئی بنا ہوا قانون نہ آیا تو پھر قرآن وسنت کو اپنے اصل
الفاظ میں الگو سمجھا جائے گا۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی،لیکن انہی دنوں بینظیر حکومت تبدیل ہو گئی۔یہ تفصیل ذکر کرنے کا
مقصد یہ ہے کہ قصاص ودیت کے قانون میں بھی ایسی دفعات موجود ہیں جن کے ذریعے اس آرڈیننس میں قرآن وسنت کو
باالدستی دی گئی ہے۔الہور ہائیکورٹ کا مذکورہ باال فیصلہ ایسی باالدست دفعات کی روشنی میں ہی دیا تھا جیسا کہ امام مالک
رحمۃ ہللا علیہ نے بھی اسی رائے کو اختیار کیا ہے کہ عورتوں کو قصاص ودیت کے معامالت میں معافی کا اختیار نہیں ہونا
چاہئے۔ اس کی حکمت یہ بھی ہے کہ عورت فطری طور پر جذباتی اورنرم دل ہوتی ہے۔ اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ اگر
عورت کے سسرال کا کوئی فرد اس کے میکے کے کسی فرد کو قتل کردیتا ہے تو اس صورت میں مجبورا اسے معاف کرنا
پڑتاہے ،اگرچہ وہ دل سے معاف نہیں کرنا چاہتی۔اس لئے امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے قصاص کی معافی کا حق مقتول کے
صرف ان رشتہ داروں کو دیا ہے جو خاندان میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں علم وراثت کی اصطالح میں عصبہ کہا جاتا
ہے ،مثال بھائی ،بیٹا ،باپ ،داداوغیرہ
سوال:یہاں پھر عورت کے حقوق کامسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لوگ تو پہلے اس بات پربھی معترض ہیں کہ عورت کی گواہی آدھی
کیوں ہے ،پوری کیوں نہیں؟
جواب :دیکھیں!قانون کا مقصد مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔کسی کو خوش کرنا اصل مقصود نہیں ہوتا ،پھر یہ عورت کے حقوق کا
مسئلہ نہیں ہے۔ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے تو اگر عورت قتل ہوجائے تو خاوند کو بھی اس کا قتل معاف کرنے کا حق نہیں دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ موت کے بعد خاوند بیوی کا رشتہ منقطع ہوجاتاہے۔اس بنا پر زوجین کوباہم ایک دوسرے کے قصاص کومعاف
کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا ،کیونکہ اس کے پیچھے بہت بڑی مصلحت ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قانون سازی کسی کو خوش کرنے کے لئے نہیں ہوتی۔ قانون سازی کا مقصد مسائل کو حل کرنا
ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کردیا جائے اور لوگوں کی خوشی کے مطابق فیصلے ہونے لگیں تو پھر بچیوں کو آوارگی کے
خارستان سے کون بچائے گا؟ وہ خاندان کی عزت و آبرو کو خاک میں مال کر جہاں چاہیں گی ،گھومیں گی اور پھر ہائی کورٹ
کے ججوں کو بھی مجبورا یہ کہنا پڑے گا کہ والدین کو سوچنا چاہئے کہ ان کی اوالد کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئی ہے؟
بہرحال ان تمام مسائل کا حل قانون سازی کے جدید انداز کے نقطہ نظر سے یہ ہے کہ شریعت کے نام پر بنائے جانے والے ان
قوانین کے اوپر قرآن و سنت کو نگران بٹھا دیا جائے۔ اس سے قانون میں جہاں کوئی سقم باقی رہ گیا ہے ،وہ ایک حد تک دور
ہوجائے گا جیسا کہ ہمارے جسٹس ناصر اسلم زاہد نے کہا ہے۔ ان کے یہ الفاظ قابل ذکر ہیں کہ
اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس آرڈیننس کی روح بہت مقدس ہے اور وہ رو ح یہ ہے کہ زنا بالرضا بھی بدکاری ہے اور بدکاری
ناقابل معافی جرم ہے۔اس آرڈیننس سے پہلے کنواری ،بیوہ ،مطلقہ کسی عورت کے لئے بھی زنا بالرضا قابل گرفت جرم نہیں تھا۔
صرف خاوند اپنی بیوی کے خالف کاروائی کرسکتا تھا اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر زنا کا
ارتکاب کرتی۔ گویا بدکاری ایک بُرے فعل کے طور پر جرم نہیں تھی ،بس خاوند کے حق میں حق تلفی کے طورپر جرم کے
زمرے میں آتی تھی۔
سوال :کوئی اگر زنا کے الزام سے بری ہوجائے توکہتے ہیں کہ الزام لگانے والے پر حد لگائی جائے؟ لیکن عمال یوں نہیں ہوتا
بلکہ لوگ جھوٹے الزام کے بعد تہمت کی سزا سے بھی بچ جاتے ہیں۔
جواب :ہاں ،اس پر حد قذف (بہتان طرازی کی حد) ہے جو علیحدہ آرڈیننس ہے۔
جواب :نہیں،اس مینکوئی ایسی بات نہیں ہے۔ دراصل ہمارے ملک میں رائج قانونی نظام کا طریق کار یہ ہے کہ ایک مقدمہ میں
دوسرے مقدمہ کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اس کے لئے الگ سے مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے ،لہذا حد قذف کو قذف کے مقدمہ کے تحت
سنا جائے گا۔ اس نظام کے تحت جب ایک کیس درج کرایا جاتا ہے تو پھر اسی الزام کی سماعت ہوتی ہے ،دوسرے الزام کی
سماعت کے لئے مستقل دوسرا کیس دائر کرنا پڑتا ہے ،یہ خرابی حدود آرڈیننس کی بجائے ہمارے قانونی نظام کی ہے۔
جواب :حدود آرڈیننس میں ہر حد کا قانون الگ الگ ذکر ہوا ہے۔ یہ دراصل پانچ آرڈی نینسوں کا مجموعہ ہے جس میں قذف کا
قانون الگ ہے اور زنا کا الگ۔ اسی طرح ملکیت مال کا الگ ہے ،لیکن اگر ان تمام کے اوپر کتاب و سنت کی اتھارٹی قائم کردی
جائے تو اس سے تمام قوانین باہم مربوط ہوجائیں گے۔ بہرحال ہم نے اپنے حاالت کے تحت اس مسئلہ کا کوئی حل نکالنا ہے۔ میں
یہ تو نہیں کہتا کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کا انداز یہاں بعینہ الگو کیا جائے،کیونکہ یہاں ایسا کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن
حقیقت یہی ہے کہ اسالم ہمیشہ خالفت اسالمیہ میں قرآن و سنت کے اصل الفاظ میں ہی نافذرہا ہے۔ بلکہ صورت حال یہ رہی کہ
ہندوستان میں فتاوی عالمگیری جاری ہوا تو بطور قانون نہیں،کیونکہ فتاوی عالمگیری کی زبان ہی قانونی نہیں بلکہ وہ علما کی
تشریحات کی شکل میں ہے جنہیں فیصلہ کرتے وقت جج اپنے سامنے رکھتے تھے۔ البتہ ترکی میں مجلة اْلحکام العدلیة 1876ء
سے 1923ء تک ملکی قانون کی حیثیت سے نافذ تو رہا ہے لیکن اس میں بار بار ترامیم کے باوجود بعض جگہ اس کا انداز
انتہائی مضحکہ خیز ہے۔مثال اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ سود شرعا تو حرام ہے لیکن قانونا جائز ہے۔ پھراس میں فوجداری قانون
اور عائلی قوانین موجودہی نہیں ہیں ،سول الء کا ایک حصہ بھی اس سے خارج ہے۔ حاالنکہ یہ اسالمی تعلیمات پرمبنی ایک
مختصر کوڈ تھا جو نپولین کے تیار کردہ کوڈ کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا اور اس میں پچاس سال کے دوران ایک نہیں ،بیسیوں
ترامیم کرنا پڑیں کیونکہ وہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون تھا جسے ترمیم کا سامنا کرنا ایک مجبوری ہے۔لہذا اصل حل یہی ہے کہ
قرآن وسنت کو اپنے الفاظ میں نافذ کردیا جائے۔یا پھر قرآن وسنت کی روشنی میں بنائے ہوئے ایسے قوانین پر انہی قوانین میں
قرآن و سنت کی چھتری قائم کردی جائے تاکہ اعلی عدلیہ ایسے مواقع پر قانون کا اطالق کرتے وقت اجتہاد کرسکے۔
سوال :کیا زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں کوئی فرق ہے؟
جواب :ان دونوں کے درمیان فرق کا جوپراپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور زنا بالجبر کو زنا کے زمرہ سے نکال کر آیت محاربہ (المائدة:
)32،33کے تحت داخل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یا تو زنا بالجبر کو قابل راضی
نامہ بنا دیا جائے کیونکہ اس سے اگلی آیت میں {إ َال الَذینَ ت َابُوا م ْن قَبْل أ َ ْن ت َ ْقد ُروا َ
علَ ْیھ ْم} سے یہی ثابت ہوتا ہے بلکہ اگر وہ
گرفتارہونے سے قبل توبہ کرلے تو اسے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ،اس صورت مینعورت کو راضی کرنے کی بھی
ضرورت نہیں ہے۔ پورے قرآن و سنت کو نظر انداز کرکے ،کسی ایک آیت سے مسئلہ نکالنا کوئی درست طرز عمل نہیں ہے۔ یہ
ساری قباحتیں اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہیں کہ تمام قوانین کے اوپر کم از کم قرآن و سنت کی چھتری قائم کردی جائے اور
قرآن وسنت کے ماہر اور اجتہاد کی صالحیت کے حامل ججوں کو اجتہاد کے ذریعے ان قباحتوں کو دور کرنے کا اختیار دیا
جائے۔
سوال :میرا موضوع درحقیقت حدود آرڈیننس کی اہمیت ،تقدس اور نفاذ ہے ۔اس کے نفاذ کا آپ نے بہترین حل تجویز کیا ہے کہ یہ
آرڈیننس ہمارے لئے بہت بڑی غنیمت ہے۔ قرآن و سنت کے تحت اس مینترمیم کی ضرورت ہو تو ترمیم کی جائے ،نہ کہ اسے
ختم کر دیا جائے۔
جواب :ترمیم و اصالح کے باوجود بھی ہم اسے فائنل نہیں کہہ سکتے۔ اس میں تبدیلی کی گنجائش بہرحال رہے گی۔
سوال :ہاں پھر بھی فائنل نہیں کہہ سکتے ،کیونکہ اسے علما نے اپنے اجتہاد سے تیار کیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں
اسے نافذ کیا گیا تھا جو کہ جمہوری حکومت نہیں تھی۔
جواب :پہلی بات تو یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کسی فرد واحد کا نافذ کردہ قانون نہیں تھا بلکہ ماہرین علما اور قانونی اداروں کی
مشاورت سے تیار کیا گیا اور پھر رائے کے لئے اسے عوام کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔سپریم کورٹ نے اس کی منظوری دی
جیساکہ پرویزمشرف کے اقدامات کو بھی سپریم کورٹ نے درست قرار دیا ہے۔ کل کو اگر کوئی کہے کہ یہ سب فرد واحد کی
طرف سے تھے لہذا سارے غلط ہیں ،اس طرح تو تمام قوانین تماشہ بن جائیں گے۔یوں بھی تین بار حدود قوانین میں ترمیم کے
لئے تین بار اسمبلی میں بل پیش ہوا لیکن اسمبلیوں نے ا س میں ترمیم نہ کرکے گویا اس کی موجودہ حالت میں تصویب کردی۔
سوال :یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ حدود آرڈی نینس کے بارے میں یہ اکھاڑ پچھاڑ پرویز مشرف کی طرف سے ہو رہی ہے یا باہر
سے کوئی فنڈز دیے جارہے ہیں ؟
جواب :جس چیز کے ہمارے پاس شواہد نہیں ،اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن حدود آرڈیننس جس کی روح یہ ہے کہ
اس کے ذریعے زنا پہلی بار ایک جرم قرار پایا ہے ،اس کو ختم کرنے کے لئے جو انداز اختیار کیاجارہاہے ،میڈیا کے زور پر
اس کے خالف نفرت کی جو فضا پیدا کی جارہی ہے ،یہ انداز انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے اور یہی وہ انداز ہے جو توہین
رسالت آرڈیننس کو ختم کرنے کے لئے اختیارکیا گیا تھا۔ اب یہاں بھی وہی کھیل کھیال گیا ہے کہ حدود آرڈیننس کی تفتیش ایس پی
درجے کا پولیس افسر کرے یا عدالت کی اجازت کے بغیر کسی کو گرفتار نہ کیاجائے،یہ ترمیم 2برس قبل ہوچکی ہے۔
سوال :تاکہ یہ جرم قابل مؤاخذہ ہی نہ رہے۔ یہ کافی پہلے کی تجاویز ہیں جو اخبارات میں بھی چھپیں۔ ان میں سے یہ تجویز تو
منظور ہوگئی ہے کہ ایس پی کے درجے کا پولیس افسر تفتیش کرے ،البتہ دوسری منظور نہیں ہوئیں۔
جواب :یہی کچھ تو ہین رسالت آرڈیننس کے ساتھ ہوا کہ اسے ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے ساتھ وابستہ کردیا گیا اور یہ سب کچھ
ہم مغرب کو راضی کرنے کے لئے کررہے ہیں لیکن مغرب ہمارے کام پر مطمئن نہینہے جیسا کہ میرے بیٹے حافظ حسن مدنی
سے امریکہ کے دورہ کے دوران اسی کے متعلق سواالت کئے گئے تھے۔ امریکیوں نے اُنہیں واضح الفاظ میں کہا کہ ہم ابھی تک
مطمئن نہیں ہیں۔
سوال:ظاہر ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرلیں ،ان کی ڈیمانڈ پر پورے نہیں اُتر سکتے۔وہ تو چاہتے ہیں کہ ہم قرآن و سنت کو الگ
کردیں اور ایک سیکولر معاشرہ قائم کریں۔
سوال :چند اعتراضات وہ ہینجو این جی اوز ،ڈاکٹر محمد فاروق اور جاوید احمد غامدی وغیرہ کی طرف سے اُٹھائے جارہے ہیں۔
جواب :ہم کہتے ہیں کہ ان اعتراضات کوقرآن و سنت پر پیش کیاجائے اور یہ کام عدالت کے ججز جو خو دبھی قرآن و سنت کے
ماہر اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوں ،علما کی راہنمائی میں کریں۔ جو چیز قرآن و سنت کے خالف ہو ،اس کو درست کرکے الگو
کریں۔ اور اگر مغرب کو راضی کرنا مقصود ہے تو وہ کبھی راضی نہیں ہوں گے حتی کہ آپ ان کی ملت کی پیروی کریں اور
یقینا میڈیا کے ذریعہ اسی مہم کو آگے بڑھایا جارہاہے۔
نمائندئہ جنگ :ہللا آپ کو جزائے خیر دے۔ ہم نے آپ کا بہت وقت لیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی آرا سے مسائل کو حل کرنے
میں مدد ملے گی۔ ٭٭
حوالہ جات
.2دیکھئے کتاب 'اسالمی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب' میں انٹرویو ،ص 8
آخر کارحدود آرڈیننس میں اس 'روشن خیال 'ترمیم کے چہرے سے پردہ اُٹھ ہی گیا جس کے بارے میں تمام ذمہ داران کو اسمبلی
میں باقاعدہ پیش ہونے سے قبل مخفی رکھنے کی تاکید کی گئی تھی۔ اور اس ترمیمی بل کے لئے فضا کو ساز گار بنانے کے
غرض سے 3ماہ سے قوم کو مضحکہ خیز اور یک طرفہ پروپیگنڈ ے کے بخار میں مبتال کیا گیا تھا جس پر بظاہر تو ایک
اخباری گروپ نظر آرہا تھا لیکن اس کی پشت پناہی کے لئے حکومت کی پوری ابالغی مشینری متحرک تھی۔ سوال یہ ہے کہ
''حدود ہللا پر بحث نہیں ،لیکن حدود آرڈیننس کوئی خدائی قانون نہیں۔'' کا نعرہ بلندکرنے اور اسے حدود قوانین پربحث کی وجہ
جواز بنانے والوں نے جو ترامیم پیش کی ہیں ،کیا اب وہ ہللا کی طرف سے براہ راست نازل شدہ ترامیم لیکر آئے ہیں۔ حدود قوانین
کے نفاذ کے موقع پر اگر مسلمانان پاکستان کو ان پر اتفاق تھا جسے بعد کی 5اسمبلیوں نے سند جواز بخش کر صدارتی آرڈیننس
سے 'حدود قوانین' کا درجہ دیا ،تین بار مختلف اسمبلیوں میں ان قوانین میں ترمیم کا بل پیش ہوا جسے سند قبولیت نہ مل سکی ،تو
ا س کے بالمقابل وہ 'خدائی'ترامیم جو اپنے یوم آغاز سے پوری قوم کو منتشر کرچکی ہیں ،ان کی کیا حیثیت ہے؟ جس کا ثمرہ یہ
ہے کہ پوری قوم میں ہر جگہ مباحثہ ومجادلہ کی کیفیت طاری ہے۔
پھر'حدود قوانین' کوئی عام قانون نہیں کہ اس میں علماے دین کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے بلکہ حدود قوانین میں ترمیم
خالصتا شریعت اسالمیہ کا موضوع ہے۔اس لئے منطقی طور پر قرآن وسنت پر مبنی قوانین پر تبصرہ کرنے کی سب سے پہلی
ذمہ داری علماے کرام ہی کے کندھوں پر آتی ہے۔لیکن سخت کوشش کے باوجود منبر و محراب سے اس 'روشن خیال بل' کی
حمایت میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کروایا جاسکا ۔
( )1یہ امر قابل توجہ ہے کہ حد زنا آرڈیننس کی کل دفعات 22ہیں ،جبکہ اس بل میں مجوزہ ترامیم کی تعداد 30ہے ،گویا ترمیم
اصل قانون سے بھی زیادہ طویل ہے۔
( )2حکومت کا دعوی یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کو منسوخ نہیں کیا جائے گا ،جب کہ ان ترامیم پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یقین
ہوجاتا ہے کہ ترمیم کے نام پر حدود قوانین کو ہی منسوخ کردیا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ اس بل کے ذریعے حد زنا آرڈیننس
کی کل 22دفعات میں سے 12دفعات ()10،11،12،13،14،15،16،18،19 ،3،6،7کو مکمل طور پر منسوخ کیا جارہا ہے اور
مزید 6دفعات ( 2،4،8،9،17اور )20میں جزوی حذف و ترمیم تجویز کی گئی ہے۔اس عمل کے بعد صرف 4دفعات باقی ایسی
ہیں جو اپنی اصل شکل میں حدود قوانین میں موجود ہیں۔1
( )3ایسی 'ظالمانہ' دفعات جن کی منسوخی کا تقاضا کیا گیا ہے ،ان میں سے چند ایک بطور مثال مالحظہ بھی فرما لیجئے :
دفعہ 2کی شق 'ہ' کو نکال دیا گیا ہے جس کی رو سے شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی سزا ہے۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ
اس کے مرتبین میں حد رجم کے منکرین شامل ہیں۔
دفعہ 3کو کلی طور پر حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ،اس دفعہ کا قصور یہ ہے کہ اس کی رو سے حدود قوانین (حدود ہللا)
کو تمام دیگر قوانین پربرتری دی گئی ہے۔
دفعہ 4میں ہر اس مباشرت کو زنا قرار دیا گیا تھا جو دو مرد وعورت 'جائز نکاح' کے بغیر کریں۔ لیکن اس دفعہ میں 'جائز نکاح'
کے لفظ سے 'جائز' کو حذف کیا جارہا ہے۔
حدود قوانین سے مذاق کی انتہا یہ ہے کہ پہلی 9دفعات میں جن جرائم کا تذکرہ اور ان کی تعریفات متعین کی گئی ہیں ،بعد ازاں
10تا ( 19یعنی )10دفعات میں ان کی سزائوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حدود قوانین کو معطل کرنے کا بہترین طریقہ یہ سوچا گیا
ہے کہ ان تمام جرائم کی سزا کو ہی حذف کردیا جائے ،یاد رہے کہ یہ دس دفعات ان جرائم کی سزا پر مبنی ہیں۔
()4حدود قوانین کی وہ معصوم بے ضرر دفعات بھی مالحظہ ہوں جنہیں بعینہ برقرار رکھا گیا ہے
پہلی دفعہ تو بل کے وقت نفاذ اور نام وغیرہ کے بارے میں ہے جبکہ دفعہ 21یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے مسلم جج،البتہ
غیرمسلموں کے لئے غیر مسلم جج بھی ہوسکتا ہے اور دفعہ 22میں وہ مستثنی صورتیں ذکر کی گئی ہیں جہاں حدود آرڈیننس کو
جاری نہیں کیا جائے گا۔
( )5یہی رویہ حد زنا آرڈیننس کے عالوہ حد قذف آرڈیننس کے ساتھ بھی اختیارکیاگیا ہے جس کی 8دفعات
( )4،10،11،12،13،15،16،19کو کلی طور پر منسوخ اور 6دفعات ( 14 ،9 ،8 ،1،6اور )17میں حذف و ترمیم کی گئی ہے۔
اس آپریشن کے بعد محض چھ دفعات ہی صحیح سالم باقی رہ گئی ہیں۔ 2
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر حذف وترمیم کے بعد موجودہ بل کو ترمیم سے تعبیر کیا جائے یا اسے حدود بل کی منسوخی قرار
دیا جائے؟
( )6اب ایک نظر ان ترامیم کی شرعی وقانونی حیثیت پر بھی جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ'' ان میں سے کوئی
بھی کتاب وسنت کے خالف نہیں۔ ''چودھری شجاعت حسین کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ اگر ایک ترمیم بھی خالف اسالم ہو تو وہ
اس بل کی حمایت ترک کردیں گے۔ بل کی سفارشات مالحظہ فرمائیں اور قرآن وسنت کی مقدس تعلیمات بھی ،پھر فیصلہ خود
کیجئے:
()1بل کی ترمیم نمبر6کی رو سے زنا بالجبر کی سزا کو سزاے موت قرار دیا گیا ہے جو خالف اسالم ہے۔ کیونکہ اسالم نے زنا
بالجبر کی صورت میں سزاے موت کے بجائے شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری قرار دی ہے ،چاہے وہ عورت کی رضاسے
زنا کرے یا جبر سے۔ گویا اسالم میں زنا ایک جرم ہے جس کی تقسیم رضا اور جبر کے بجائے شادی شدہ او رغیر شادی شدہ
کے اعتبار سے کی گئی ہے۔ زنا بالقتل (زنا +قتل) کی طرح زنا بالجبربھی اسالمی حدود وتعزیرات کی کوئی اصطالح نہیں۔ اس
سلسلے میں حضرت ابو بکرصدیق کا ایک فیصلہ حدیث کی مشہور کتاب موطا امام مالک رحمۃ ہللا علیہ میں ہے کہ ''آپ نے زنا
بالجبر کے ایک کنوارے مجرم کو کوڑے اور جالوطنی کی سزا دی ،پھر جالوطنی کاٹ کر واپس آنے کے بعد اسے زنا پر
مجبور کی جانے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔''3
()2اس ترمیمی بل کی سب سے خطرناک شق ' '17ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ'' حد زنا آرڈیننس کی دفعات 10تا 16اور ،18
19حذف کردی جائیں گی۔'' بالخصوص دفعہ 19کو حذف کرنے کی اہمیت یہ ہے کہ دفعہ 19کی ذیلی شق 3کے ذریعے پاکستان
میں زنا بالرضا کے انگریز دور کے 8قوانین معطل کردیے گئے تھے،جس کی ضرورت یہ تھی کہ تعزیرات پاکستان کے سابقہ
قانون (دفعہ )497کی رو سے زنا بالرضا کوئی جرم ہی نہیں تھا،بلکہ صرف وہ زنا جرم تھا جس میں شوہر کی اجازت کے بغیر
بیوی بدکاری کا ارتکاب کرے۔ چنانچہ 1979ء سے قبل پاکستان میں کسی کنواری ،بیوہ یا مطلقہ کی رضامندی سے زناقانونا جرم
متصور نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ بیوی کے ساتھ اُس کے شوہر کی اجازت کے بغیر زنا کرنے کی سزا محض 5برس تھی ،یہ جرم قابل
ضمانت بھی تھا جس کے خالف صرف شوہر ہی شکایت کرسکتا تھا۔ موجودہ ترمیمی بل میں اس سابقہ قانون کو بحال کرنے کے
لئے دفعہ 19کو کلی منسوخ کرنے کی ترمیم پیش کی گئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پھر وہی دور جاہلیت لوٹ آئے گا کہ
پاکستان میں کنواری ،بیوہ یا مطلقہ کا زنا بالرضا کوئی جرم ہی نہیں رہے گا۔یہ اس بل کی سب سے خطرناک بلکہ شرمناک ترمیم
ہے۔جو صرف خالف اسالم ہی نہیں بلکہ ہللا سے جنگ اور اسالم سے بغاوت کے مترادف( )iہے۔
کیا ایک مخصوص گروپ کے ذرائع ابالغ نے تین ماہ تک اسی مقصد کے لئے عوام کو 'ذرا سوچئے' اور پارلیمنٹ کو 'کب
سوچنے' کی دہائی مچا رکھی تھی اور کیا پاکستانی پارلیمنٹ کے معزز اراکین اور زعماے قوم ایسی ترمیم کے حق میں اپنے
ووٹ استعما ل کرکے ہللا کے غضب کو دعوت دینا چاہتے ہیں؟ اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ایسے بل کا احترام کیا جائے یا
اس کو ردی کی ٹوکری کی نذر کیا جائے جیسا کہ متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی میں کیا ہے ؟
( )3ان ترامیم کے ذریعے بڑی ڈھٹائی سے باہم متضاد قانون سازی کی جارہی ہے۔ کیونکہ سابقہ تعزیرات پاکستان (در حقیقت
تعزیرات برطانوی ہند)کی دفعات کو دوبارہ زندہ کردینے سے ایک طرف کنوارے یا کنواری کے لئے زنا بالرضا کی صورت میں
بدکاری کی کوئی سزا نہیں رہے گی مگر دوسری طرف حدود قوانین میں ا ن کے لئے سزا موجود ہے۔ ایسے ہی تعزیرات پاکستان
میں زنا بالجبر کے حوالے سے نئی دفعات کا اضافہ کرنے کے بعد زنا بالجبر کے مجرم کے لئے تو سزاے موت کا فیصلہ کیا
جائے گا جبکہ حدود قوانین کی رو سے کنوارے زانی کومحض 100کوڑوں کی سزا ہونی چاہئے۔ گویا اس ترمیم کی بعض دفعات
سے باہم متضاد قوانین جنم لے رہے ہیں۔ اس تضاد کا ظالمانہ اورباغیانہ حل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ 3کو
منسوخ کردیا جائے تاکہ اس کے بعد حدود قوانین کی تعزیرات پاکستان پر کوئی برتری باقی نہ رہے۔ نتیجتا حدود قوانین کی بچی
کچھی دفعات کی حیثیت بھی متضاد او ردوہری قانون سازی کی بنا پر عمال محض نمائشی رہ جائے گی اور بظاہر پاکستان میں
حدود ہللا کا نام تو باقی رہے گا لیکن زنا قانونا جرم ہی نہیں ہوگا۔
نیز یہ بات بھی خالف اسالم ہے کہ ایک طرف انگریز کے بنائے ہوئے 'ایکٹ نمبر 45بابت '1860کے قوانین یا انسانی قوانین کو
تو ترجیح حاصل ہو ،لیکن ہللا کے قوانین کو ایک اسالمی مملکت میں کوئی نمایاں جگہ نہ مل سکے۔ جبکہ قرآن کی رو سے نبی
کریم کے فیصلے کو قبول نہ کرنے والونکا دین وایمان خطرے میں ہے۔ 5
ؐ
نیز دستور پاکستان کی رو سے کتاب وسنت پاکستان کا سپریم الء ہیں اور حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ملک میں اسالمی
طرز زندگی کو رواج دینے کے لئے اقدامات کرے۔ اس اعتبار سے یہ ترمیم دستور پاکستان کے بھی منافی ہے۔
( )4مجوزہ ترمیم نمبر 9میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ رپورٹ ؍ شکایت کے مرحلے پر ہی مدعی کے عالوہ چار تحریری حلفیہ
بوی کے متعدد
گواہیاں بھی جمع کرائی جائیں۔ قانون کے اجرا کا یہ طریقہ خالف اسالم ،خالف قانون اور خالف عقل ہے۔ دورن ؐ
واقعات میں زنا کی شکایتیں محض ایک شخص کے کہنے پر درج کی گئیں۔ ( )iiیوں بھی اسالم کی رو سے زنا کرنے والے مرد
یا عورت کا اکیال اعتراف بھی ان پر حد کی سزا قائم کرنے کے لئے کافی ہے ،ان کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں۔()iii
پھر اسالم میں زنا پر چار گواہیاں بھی مدعی کو شامل کرکے چار شمار کی جاتی ہیں ،نہ کہ اس کو نکال کر جبکہ ترمیم نمبر9
کی ذیلی شق 2میں مدعی کے عالوہ مزید چار گواہیاں ضروری قرار دی گئی ہیں جو خالف اسالم ہے۔
یہ ترمیم خالف قانون اسطرح ہے کہ پاکستان میں اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم مثال بغاوت یا قتل وغیرہ کے لئے پہلے مرحلہ
پر ہی جرم کو مکمل ثابت کرنے کا تقاضا نہیں کیا جاتا ،حدود قوانین کے خالف ہی یہ امتیاز کیونبرتا جارہا ہے ؟
اور خالف عقل اس لئے کہ ہر جرم کی گواہیاں اس مرحلے پر لی جاتی ہیں ،جب جرم کا فیصلہ کرکے مجرموں کو سزا سنانا یا
بری کرنا مقصود ہو ،جبکہ (FIRفرسٹ انفرمیشن رپورٹ) میں تمام گواہیاں ضروری نہیں ہوتیں۔یہ رپورٹ دراصل جرم کے خالف
پولیس کے کام میں معاونت ہے کیونکہ جرائم کی روک تھام اور اس کی خالف ورزی کی شکایت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔
اس کی بجائے رپورٹ کرنے والے کو چار گواہیوں کا پابند کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس نے رپورٹ کرکے قانون کی مدد کی
بجائے بذات خود ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے ،لہذا اسے چاہئے کہ وہ پہلے اپنی صفائی پیش کرے۔گویا اس ترمیم کے ذریعے
مجرموں کی حوصلہ افزائی اور مدعی کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ یوں بھی اگر اس جرم کے عمل سے پولیس کو نکال دیا جائے تو
معاشرے میں عصمت فروشی کے اڈوں کی راہ میں حائل تھوڑی بہت رکاوٹ بھی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔
مزید برآں حدود قوانین کو پولیس کی رپورٹنگ سے نکال کر سیشن کورٹ کے دائرئہ عمل میں النے سے بھی عمال ایسے واقعات
کی روک تھام او ررپورٹ انتہائی مشکل ہوجائے گی۔ پنجاب بھر کے 34اضالع میں صرف ایک ایک سیشن عدالت ہیں جن میں
اس طرح کے کیسوں کا اندراج عام شہری کے لئے انتہائی مشکل ہوگا۔ بعض اضالع تو اس قدر وسیع وعریض ہیں کہ ایک
رپورٹ درج کرانے کے لئے بعض اوقات پورا دن درکار ہوتا ہے۔ یوں بھی ان عدالتوں کے اوقات کار تھانوں کے برعکس کافی
محدود ومختصر ہوتے ہیں۔()iv
( )5ترمیم نمبر 9کی ذیلی دفعہ 5کے الفاظ یہ ہیں کہ ''اگر عدالت کا افسر صدارت کنندہ مدعی اور چار یا زائد گواہوں کے حلفیہ
بیانات کے باوجود یہ فیصلہ دے کہ کارروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے تو وہ رٹ کو خارج کرسکے گا۔'' اب ترمیم
نمبر 22کو پڑھئے کہ ''عدالت کا افسر صدارت کنندہ مجرم کو بری کرتے ہوئے اگر مطمئن ہو کہ جرم قذف مستوجب حد کا
ارتکاب ہوا ہے تو وہ قذف کا کوئی ثبوت طلب نہیں کرے گا اور حد قذف کے احکامات صادر کرے گا۔''
ان ترامیم سے پتہ چال کہ چار گواہوں کے بعد بھی زنا کے ملزم کی بریت جج کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور دوسری
طرف مدعی پر از خود قذف کی سزا الگو ہوجائے گی ،اور اس صورت میں مدعی کے خالف قذف کے کسی ثبوت یا عدالتی
کاروائی کی ضرورت نہ ہوگی ،محض جج کا ذاتی اطمینان ہی کافی ہوگا۔ ان ترامیم کی رو سے ایک طرف زنا کے ملزمین کو
غیر معمولی تحفظ دیا جارہا اور ان کے خالف رپورٹ کو مشکل تربنایا جارہا ہے اور دوسری طرف رپورٹ کرانیوالے پر قذف
کی سزا الگو کر کے اس کو بنیادی حقوق مثال ثبوت الزام کے لئے مطلوبہ گواہیوں اور عدالتی کاروائی وغیرہ سے بھی محروم
کیا جارہا ہے۔ اس ترمیم کا مقصود ومدعا واضح ہے ،ملزم کو ظالمانہ ترجیح کس بنیاد پر اور رپورٹ کرنے والے پر ظلم
کیونکر؟یہ امتیاز اور ترجیح کیا اسالم اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے؟
( )6ترمیم کے آخری پیرا گراف کے یہ الفاظ بھی محل نظر ہیں'' :صرف سیشن کورٹ ہی مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار
رکھتی ہے۔ اور یہ جرائم قابل ضمانت ہیں تاکہ ملزم دوران سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں
ہوگا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کرے۔ '' 6
ان ترامیم کے اثرات و نتائج جاننے کے لئے اس مثال سے مدد لینا مناسب ہوگا:
فرض کیجئے کہ ایک جگہ زنا کا وقوعہ ہوتا ہے ،اول تو یہ پولیس کے دائرئہ عمل سے ہی باہر ہے کہ وہ ا س کی رپورٹ درج
کرے۔اب ایسا شخص کہ جس کی عزیزہ سے زیادتی ہوئی ہے ،وہ داد رسی کے لئے شکایت درج کرانے نکلتا ہے تو سب سے
پہلے چا رگواہوں کو تیار کرنا اس کی ذمہ داری ہے جو تحریری حلفیہ گواہی دے سکیں۔ اس مرحلے پر عدالتوں میں سماعت وداد
رسی کی ناگفتہ بہ صورت حال اور حد قذف کی لٹکتی تلوار سے ڈر کر کوئی آدمی اس مقصد کے لئے راضی ہی نہیں ہوگا۔ اُنہیں
راضی کرنے میں ہی وہ شریف آدمی اپنی عزت کی مزید رسوائی تو کما لے گا جبکہ ابھی زنا کے حقیقی مجرموں کی سزا کا
دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اب دور دراز سے سفر کرکے مدعی اور چار گواہ سیشن عدالت میں جا پہنچتے ہیں تو وہاں
چاروں گواہ حلفیہ تحریری بیان جمع کرائیں گے۔ اگر اس کے باوجود عدالت کو وقوعہ پر ہی اطمینان نہ ہوا تو ان گواہوں پر قذف
کی سزا از خود الگو ہو جائے گی ،جہاں عدالت میں مزید کسی ثبوت یا ملزم کو اپنے دفاع کی گنجائش بھی نہیں ملے گی۔ بالفرض
اگر عدالت ان کی گواہی سے مطمئن ہو کر مقدمہ داخل سماعت کرلیتی ہے ،تب بھی مجرموں کو فکر مندی کی کوئی ضرورت
نہیں کیونکہ یہ جرم قابل ضمانت ہے ،اور عدالت کو ان کی یاسیت اور محرومی کا بھی پورا پورا احساس ہے۔
ان حاالت میں عوام کو فیصلہ صرف اس بات کا کرنا ہے کہ اصل مجرم وہ ہے جس نے زنا کا ارتکاب کیا یا وہ جس نے اس کو
دیکھنے کا گناہ کیا اور جس کی عزت سربازار پامال ہوئی ؟ زنا بالجبر کے جرم کا شکار تو خود عورت ہوتی ہے ،اس کے لئے
چار گواہوں کی شرط کے بعد قانون کی مدد لینا کیونکر ممکن ہوگا۔یکم ستمبر کے اخبارات میں سلیکٹ کمیٹی کی یہ متفقہ ترمیم
شائع ہوئی ہے کہ زنا بالجبر میں بھی چار گواہ الزمی کردیے جائیں ،اس کے بعد یہ بل زنا کی شکا رعورت پر صریح ظلم بن گیا
ہے نہ کہ تحفظ خواتین بل۔ زنا بالرضا انگریز دور کے قوانین بحال ہونے کی بنا پر جائز ،حدود قوانین تمام دیگر قوانین کے تابع
اور زنا بالجبر میں بھی عورت کے لئے چارگواہ۔( )vنتیجہ واضح ہے کہ اسالمی جمہوریہ پاکستان میں زنا کے لئے ہر طرح کی
کھلی چھوٹ مل گئی!!
( )7حدود آرڈیننس میں زنا کے عالوہ اقدام زنا ،فحاشی اور مبادیات زنا کی بھی سزائیں مقرر کی گئی تھیں ،جب جنسی فعل کی
مکمل شہادتیں پوری نہ ہوں تو اس وقت فحاشی کے ارتکاب کے جرم میں تعزیرات دی جاتی تھیں۔ موجودہ ترمیم میں ایسے تما م
جرائم کی سزائوں کو منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی ہے ،جس کے بعد یہ چیزیں بھی جرم نہ رہیں گی۔
( )8اسالم نے زنا کے چار گواہوں کے لئے مسلم اوربالغ ہونے کی شرط لگائی ہے ،جبکہ موجودہ ترمیمی بل کے بعد یہ گواہی
غیرمسلم بھی دے سکتے ہیں جو غیراسالمی ہے۔
( )9مجوزہ ترامیم کی شق 5کی ذیلی دفعہ پنجم میں 16برس سے کم عمرکی لڑکی سے ہونے والے زنا کو الزما زنا بالجبر قرار
دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ پیش کی گئی ہے کہ اس سے کم عمر لڑکی کی رضامندی کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ ترمیم بھی
خالف اسالم اور زمینی حقائق سے متصادم ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے 16برس تک لڑکی کے زنا کو قانونی تحفظ دیاگیا ہے کہ
ایسے زنا کو الزما زنا بالجبر تصور کرکے لڑکی کو سزا سے مستثنی رکھا جائے۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بلوغت کے فورا بعد
ہی بے شمار لڑکیاں زنا بالرضا کی مرتکب ہوتی ہیں جیسا کہ مغربی سکولوں کے اعداد وشمار میں اس امر کاکافی ثبوت موجود
ہے ،کیونکہ زنا کا تعلق ذ ہنی بلوغت کے بجائے جسمانی بلوغت اور جنسی فعل کو کرنے کی صالحیت سے ہے۔ پھر تعزیرات
پاکستان کی دفعہ 83کے تحت 12برس تک کے بچے کو ہی فوجداری جرم سے استثنا کی رعایت مل سکتی ہے لیکن اس ترمیم
میں یہ رعایت 16برس تک دی جارہی ہے۔زنا کے جرم سے ہی یہ امتیاز کیوں برتا جارہا ہے؟
الغرض حدود قوانین کے حوالے سے تما م پروپیگنڈے کا آغاز 'یہ خدائی قانون نہیں' کہہ کر کیا گیا اور آخر کار اس سے کہیں
بدتر اور متنازعہ انسانی قانون کو پیش کردیا گیا۔
دعوی کیا گیا کہ قوم کو تقسیم کرنے والے ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے 'ذرا سوچئے'کی مہم چالئی گئی ہے۔ لیکن قوم
اس بحث سے پہلے متحد تھی ،اب کہیں زیادہ تقسیم ہوگئی ہے !!
دعوی کیا گیا کہ یہ قانون خواتین کے تحفظ کے لئے ہے ،جبکہ موجودہ قانون کی صورت میں زنا کرنے والے مرد کے خالف
شکایت کو ناممکن بناکر خواتین سے مزید ظلم کیا جارہا ہے۔
دعوی کیا گیا کہ حدود قوانین کو منسوخ نہیں کیا جائے گا ،لیکن یہ ترامیم نہایت بھونڈی اور یک لخت منسوخی سے کہیں زیادہ
ہیں۔
پروپیگنڈا کیا گیا کہ'' کتاب وسنت کے خالف ایک بھی شق نہیں ہوگی۔'' لیکن یہاں پر قرآن وسنت کے خالف سزائوں کے عالوہ
طریق کار ایسا بنایا گیا ہے کہ عمال سزا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ بل کے اس مختصر جائزے سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا
ہے کہ
ترمیم حدود آرڈیننس کی بجائے دراصل حدود اہللا میں کی جارہی ہے!!
اس بل میں بعض ترامیم اسالمی احکامات کے صریح خالف ہیں ،جبکہ سزا کا طریق کار اس قدر غیرمتوازن ہے کہ اس کے
ذریعے کسی کا جرم زنا کی سزا پانا ممکن نہیں رہتا ،جس کا نتیجہ ملک میں بے راہ روی کے مزید فروغ اور فحاشی وبے
حیائی کی صورت میں نکلے گا۔ بے راہ روی کا مرد وں کے بجائے عورتوں کو زیادہ نقصان ہے ،آخر کار یہ بل 'تحفظ حقوق
نسواں' کے بجائے 'بدکاری کا الئسنس' قرار پائے گا جس سے پاکستان میں خواتین کی حرمت وتقدس پامال ہونے کا خطرہ کہیں
زیادہ بڑھ جائے گا۔ ہللا تعالی ہمارے اراکین اسمبلی اور حکمرانوں کو ہدایت دے کہ چندروزہ اقتدار کے لئے وہ ہللا کی حدود سے
یہ مذاق اور کھیل بند کریں ،ہللا کی گرفت دنیا میں بھی سخت ہے اور آخر کار روز محشرسب کو اس کے حضور جواب دہ ہونا
ہی ہے۔
' تحفظ خواتین بل2006ء 'میں خالف اسالم ترامیم کی فہرست
( )1زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت غیر اسالمی ہے کیونکہ کنوارے زانی کی سزا موت نہیں ہے ،چاہے وہ زنا بالجبر ہی
کرے۔
( PPC )2میں 1979ء سے قبل انگریز دور کے قوانین زنا بحال ہوگئے ہیں (حدود آرڈیننس کی دفعہ 19کو منسوخ کردینے سے)
جن مینکنواری ،بیوہ یا مطلقہ کے لئے زنا کوئی جرم ہی نہیں اورشوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کی زنا کاری کی سزا بھی
محض 5سال ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اسالم میں کنوارے زانی کی سزا 100کوڑے ہے ،نہ کہ محض 5یا 7سال!
( )3حدود قوانین صرف نمائشی اور عمال معطل ہیں کیونکہ PPCاور حدود میں تضاد کے بعد دفعہ 3کو حذف کرکےPPC
پربچے کچھے حدود قوانین کی برتری کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔
( )4اسالم میں چار گواہوں میں مدعی شامل ہوتا ہے ،ترمیم میں مدعی کے عالوہ چار گواہوں کا تقاضا کیا گیا ہے۔
( )5پھر ہر صورت میں چار گواہ ضروری نہیں بلکہ ملزم کا اکیال اعتراف بھی زنا کا کافی ثبوت ہے۔
()6گواہوں کا مسلمان ،بالغ ہونا ضروری ہے۔ نئی ترمیم میں چار گواہ غیرمسلم بھی ہوسکتے ہیں جو غیر اسالمی ہے۔
( )7سلیکٹ کمیٹی کی نئی متفقہ سفارش (اخبارات یکم ستمبر) کی رو سے زنا بالجبر میں بھی چار گواہ ضروری ہیں۔ زنا بالجبر
میں اصل مظلوم توعورت ہے ،وہ چارگواہ کہاں سے الئے گی؟ نتیجہ یہ کہ زنا بالجبر کی سزا بھی عمال معطل ہے۔ اب زنا
بالرضا تو PPCکے سابقہ قوانین بحال ہونے کی وجہ سے کوئی جرم نہیں رہا ،حدود آرڈیننس ویسے ہی تابع ہیں۔ عمال پاکستان
میں زنا کاری کی کھلی چھوٹ ہوگی ہے ،یہ بل دراصل 'بدکاری کا الئسنس' ہے۔
( )8اقدام زنا ،فحاشی ،برہنہ اور اغوا کرنے وغیرہ کے جرائم ناقابل سزا بنا دیے گئے ہیں۔ (حدود آرڈیننس کی دفعات 10تا 16
اور 18کوحذف کردینے سے)
( 4 )9گواہوں کے باوجود زنا کی سزا کا جج کی صوابدید پر رہنا غیر اسالمی ہے اور قذف کی سزا دینے کے لئے محض جج کا
اطمینان کافی سمجھنا بھی غیر اسالمی ہے۔
( )10زنا کی رپورٹ میں 4گواہوں کا تقاضا غیر اسالمی ہے 4 ،گواہوں کی ضرورت تو فیصلہ کے وقت ہے ،رپورٹ اکیال
شخص بھی دے سکتا ہے۔
( 16 )11سال سے کم عمر کی لڑکی کا ہر زنا 'زنا بالجبر' سمجھا جائے ،یہ بات بھی غیر اسالمی ہے۔ کیونکہ بلوغت کے بعد
لڑکی کی رضامندی معتبر ہے۔ PPCکی دفعہ 83میں یہ رعایت صرف 12سال تک کے بچے کو حاصل ہے جبکہ اسالم میں یہ
رعایت بلوغت تک حاصل ہے ،اس کے بعد نہیں۔ اسے 16سال تک کرنا غیر اسالمی ہے !!
( )12حد زنا آرڈیننس کی کل 22دفعات میں سے 12کو منسوخ اور 6میں ترمیم تجویز کی گئی ہے صرف چار باقی رہ گئی ہیں۔
کیا یہ ترمیم ہے یا منسوخی؟
حوالہ جات
.iایک مالقات میں امریکی قونصلیٹ نے یہ موقف پیش کیا کہ زناکاری جرم نہیں بلکہ والدین کی نافرمانی کی طرح صرف ایک
گناہ ہے ،ا سلئے 1979ء سے پہلے کے قوانین ہی بہتر ہیں۔اس موقف پر میں نے انہیں جواب دیا کہ اول تو قرآن کی رو سے زنا
کاری محض گناہ نہیں بلکہ اس کی سزائیں بھی موجود ہیں ا س لئے یہ ایک جرم بھی ہے ،دوم یہ کہ امریکہ توسٹیٹ اور چرچ
میں جدائی کے نظریے پر کاربند ہے لیکن پاکستان اور مسلمانوں کیلئے یہ امر قابل قبول نہیں کیونکہ یہ نظریۂ پاکستان کی اساس
کے خالف ہے اور اسالم میں بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں مزید برآں عیسائیوں کے برعکس مسلمانوں نے اپنی عظمت کا دور
اسالم کی سربلندی میں ہی گزارا ہے۔
.ivبعض لوگ یہ دور کی کوڑی التے ہیں کہ دور نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں بھی لوگ آپ صلی ہللا علیہ وسلم (یعنی عدالت)
کے پاس سیدھا کیس لے کر جاتے تھے ،نہ کہ پہلے پولیس کو رپورٹ کراتے اور وہی عدالت ان کا فیصلہ کردیتی۔ لیکن یہ لوگ
صرف مطلب کی آدھی بات بیان کرتے ہیں جبکہ اسالم کی رو سے منصب قضا کو سنبھالنے واال تو قرآن وسنت کے مطابق
فیصلہ کرتا ہے اور ان کا مکمل عالم ہوتا ہے۔اگر یہ لوگ انگریز کے عدالتی نظام کی بجائے شریعت کے ماہر علما کے ہاتھ میں
ان جرائم کے مقدمات دے دیں تو ملک میں چند روز میں امن قائم ہوجائے ،جیسا کہ سعودی عرب اور طالبان کے چند سالہ اقتدار
میں چشم فلک یہ نظارہ دیکھ چکی ہے ،طالبان پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں لیکن غیر مسلم بھی ان کے منشیات پر
کنٹرول اور امن وامان کے قیام کو مسلمہ امرمانتے ہیں۔
.vسلیکٹ کمیٹی کا یہ موقف باہم متضاد ہے۔اگر چار گواہ اس لئے ضروری قرار دیے گئے ہیں کہ زنا بالجبر حد زنا کے زمرے
میں آتا ہے تو پھر ترمیمی بل میں زنا بالجبر کی دفعات کو تعزیرات پاکستان میں کیوں ڈاال گیا ؟حدود آرڈیننس میں ہی کیوں
برقرار نہیں رکھا گیا اور اگر اسے تعزیر سمجھا جاتا ہے تو پھر اس پر چار گواہ کا مطالبہ کیوں؟ یہ تو ان کے موقف کا تضاد
ہے جس کی وجہ دراصل زنا کے جرائم کو ناقابل عمل بنانا ہے۔ البتہ اسالم کی رو سے زنا بالجبر یا بالرضا ،زنا کا مقدمہ حدود
ہللا کے تحت ہی آتا ہے جیسا کہ زنا بالجبر کے حوالے سے ہمارا موقف گذشتہ شمارے میں تفصیال شائع ہوچکا ہے۔
حدود قوانین کے حوالے سے پاکستان کے ایک بڑے ابالغی گروپ کی طرف سے شروع کی گئی مہم بڑی تیزی سے اپنے منطقی
انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تین ماہ سے اس گروپ کے ذرائع ابالغ لگاتار حکومت کو اس امر کی یاددہانی کروا رہے ہیں بلکہ
دوسرے لفظوں میں اس پر دبائو بڑھاتے جارہے ہیں کہ ''پارلیمنٹ آخر کب سوچے گی؟''
اس دوران اس مہم میں بروئے کار الئے جانے والے ابالغی ہتھکنڈوں ،غلط ترجیحات ،مباحثوں و مکالموں میں پیش کی جانے
والی یکطرفہ معلومات اورجانبدارانہ پروپیگنڈے کے بارے میں بیسیوں مضامین قومی پریس اور رسائل وجرائد میں شائع ہوئے
ہیں لیکن اس کے باوجود حدود آرڈیننس کی منسوخی کا یہ جنون تاحال برقرار ہے!!
مبارکبادکے مستحق ہیں اسالمی نظریاتی کونسل کے وہ اراکین جنہوں نے اس پروپیگنڈے اور سرکاری دبائو کو خاطر میں نہ
الکر حدود قوانین میں متفقہ ترامیم کا راستہ مسدود کردیا ،اور خراج تحسین کے مستحق ہیں وہ فاضل اراکین جنہوں نے ایک
معتبر اور ثقہ اسالمی ادارے کے وقار کو برقرا ررکھنے کے لئے اپنی رکنیت سے استعفی تو دے دیا لیکن حکومت کو اس ادارے
کا وقار مجروح کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس اختالف رائے کا نتیجہ یہ نکال کہ کونسل کا اجالس ستمبر تک ملتوی کردیا گیا۔ لیکن
دوسری طرف سریر اقتدار پر قابض حکمرانوں کا اصرار اور شوق جنوں ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اُنہوں نے ایک طرف قتل،
ڈکیتی ،منشیات کے ماسوا تمام ملزم عورتوں کو جیلوں سے رہائی()iدینے کا مژدئہ جانفزا بھی سنایا اور ساتھ ہی اسالمی نظریاتی
کونسل کو اس ارشاد عالیہ سے بھی نوازا کہ جلد از جلد اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ملک کے معتبر اداروں کے ساتھ مذاق اور
حدود ہللا میں دخل اندازی کی اس سے بڑی کوشش اور کیا ہوسکتی ہے ؟
حکومت وقت کے تیور بتاتے ہیں کہ اُنہیں موجودہ سیاسی کشمکش میں دینی تنظیموں اور عوامی وسیاسی جماعتوں سے تو اپنی
حمایت کی اُمید نہیں لہذاپنے اقتدار کو مزید طول بخشنے اور اپنی سابقہ روایات کے مطابق ایک بارپھر مغرب نواز طبقہ کی کلی
حمایت پانے کے لئے وہ حدود آرڈیننس کو قربانی کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں ۔ ایسے ہی امریکہ ویورپ کی ناراض حکومتوں
کو بھی ان اسالم مخالف اقدامات کے ذریعے دوبارہ اپنی حمایت کے لئے آمادہ کرنے کی سعی نامراد کی جارہی ہے۔ اس مقصد
کے لئے حکومت نے 14؍اگست کو بعض 'خوش آئند' تبدیلیوں کے اعالن کی بھی نوید سنائی ہے۔
حدود قوانین کے خالف موجودہ مہم کے تیور آغاز میں تو ایسے لگتے تھے کہ اس بار ان قوانین کو منسوخ کرکے ہی دم لیا جائے
گا ،لیکن اسالمیان پاکستان کا اسالم سے محبت کا جذبہ ابھی اتنا سرد نہیں ہوا ،اس لئے سردست یہی نظرآتا ہے کہ ان میں قانون
رسالت کی طرح ایسی ترامیم بروئے کارالئی جائیں گی کہ ان کا نام تو برقرا ر رہے لیکن ان کا جوہر ختم ہو کررہ جائے۔
ؐ توہین
انہی دنوں اخبارات میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ترقی خواتین کی چیئرپرسن مہناز رفیع کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ
''حدود قوانین میں ترامیم کی جارہی ہیں جس میں aزنا بالرضا اور زنا بالجبر کی سزائوں میں تفریق کی گئی ہے۔ ترامیم کے
مطابق زنا بالجبر کی سزا سزاے موت یا 25سال قید اور جرمانہ ہوگی ،جبکہ زنا بالرضا کی سزا تعزیرات پاکستان کے تحت دی
جائے گی۔ b 4گواہوں کے لئے مرد گواہ کی شرط ختم کرتے ہوئے اب مرد کے ساتھ عورت کی گواہی کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔
' cموجودہ' قانون کے تحت درخواست سیشن کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی ،اس کے بعد 4مرد وخواتین گواہوں کی شہادت
کے بعدہی مقدمہ درج کیا جائے گا۔ dحدود قوانین میں بالغ لڑکی پر مقدمہ بنادیا جاتا تھا ،جبکہ لڑکے کے لئے کم از کم 18سال
کی عمرمتعین کی گئی تھی جبکہ اس عمر میں ذ ہنی بلوغت نہیں ہوپاتی چنانچہ 'موجودہ' قانون میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے
لئے عمر کا تعین 18سال کردیا گیا ہے۔ یہ ترامیم خواتین کے حقوق اور فالح وبہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائیں گی۔'' 1
حکومت کی طرف سے تجویز کی جانے والی ان ترامیم کو 'تحفظ خواتین بل 2006ئ' کا نام دیا گیا ہے۔ یوں تو ان ترامیم کی
خبریں اخبارات میں کئی دنوں سے شائع ہورہی ہیں لیکن تاحال اصل یا مستند مسودئہ قانون اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ،البتہ
3؍اگست کے اخبارات کے مطابق وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم کی سربراہی میں اس بل کی اُصولی منظوری دے دی ہے اور ہفتہ
بھر میں اس کو قومی اسمبلی میں بھی پیش کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں اپوزیشن رہنمائوں سے
مالقاتوں کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں ۔ وفاقی کابینہ کے منظو رکردہ مسودئہ قانون کی
مختصراتفصیالت یہ ہیں کہ
''( )1زنا بالجبر کے جرم کو حدود آرڈیننس سے نکال کر تعزیرات پاکستان کا حصہ بنادیا گیا ہے اور اس کے لئے موت
اورعمرقید کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔( )2زنا بالجبر میں چار گواہوں کی شرط کا خاتمہ اورزنا بالرضا میں چارمرد گواہوں
کی بجائے محض چار بالغ افراد کی گواہی کو کافی قرار دیا گیا ہے۔( )3پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے سیشن
کورٹ کے پاس زنا کی شکایت درج ہوگی جس میں چار گواہ اور شکایت کنندہ کے بیانات موقع پر ہی درج ہوں گے۔ dمالی
معامالت میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کی بجائے ایک مرد اورایک عورت کی گواہی یا عدالت کی مطلوبہ گواہی کافی
قرار دی گئی ہے۔'' (روزنامہ 'اُمت' کراچی 4 :؍اگست)
حدود قوانین پر بحث و مباحثہ کا آغاز اس بہانہ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ ''حدود ہللا پر کوئی بحث نہیں لیکن حدود آرڈیننس خدائی
نہیں ۔''جبکہ مذکورہ باال ترامیم کا سرسری مطالعہ ہی اس امر کی نشاندہی کے لئے کافی ہے کہ نئے مسودئہ قانونمیں حدود
آرڈیننس کے نام پر حدود ہللا مں ہی ترمیم کی جسارت کی گئی ہے جس کی تفصیالت آگے آرہی ہیں ۔
قرآن کریم میں حدود ہللا کے بارے میں مسلمانوں کو پہلے ہی تنبیہ کی جاچکی ہے کہ
ت ْلكَ ُحدُو ُد َ
ٱّلل فَ َال ت َ ْق َربُوھَا...﴾١٨٧﴿...سورة البقرة
''یہ ہللا کی حدیں ہیں ،ان کے( ارتکاب کے) قریب بھی مت جائو۔''
ظلَ َم نَ ْف َ
سهُ...﴾١﴿...سورة الطالق ٱّلل فَقَ ْد َ
َو َمن یَتَعَ َد ُحدُو َد َ
''اور جو کوئی ہللا کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو بالشبہ اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔''
حقوق نسواں اور مساوات مردوزَ ن کا نعرہ ایسا دل فریب ہے کہ اکثر مذموم مقاصد اس کے پس پردہ ہی پورے کئے جاتے ہیں ۔
اب بھی حدود قوانین میں ترامیم 'خواتین سے ظلم وزیادتی اور امتیاز کے خاتمے' کے نام پر الئی جارہی ہیں ۔ یاد رہے کہ حدود
قوانین کے خالف نمائندہ لٹریچر بھی خواتین حقوق پر کام کرنے والی این جی اوز 'عورت فائونڈیشن' وغیرہ نے ہی شائع کیا ہے
مثال جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کاکتابچہ 'زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ ' ،ڈاکٹر طفیل ہاشمی کی کتاب 'حدود آرڈیننس؛ کتاب وسنت کی
روشنی میں ' اور ڈاکٹر محمد فاروق خاں کی کتاب 'حدود ،حدود قوانین اور خواتین' وغیرہ
ان ترامیم پر تبصرہ سے قبل اس آرڈیننس پر بنیادی اعتراض کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ
''حدود قوانین عورتوں کے خالف امتیازی ہیں ،ان کا نشانہ زیادہ ترخواتین بنتی ہیں اور 80سے 90فیصد تک خواتین اسی بنا پر
جیلوں میں قید ہیں ۔ ''
اس دعوی کی حیثیت پروپیگنڈہ سے زیادہ نہیں اور زمینی حقائق سے اس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ یہ پاکستانی معاشرے پر ایک
بڑا الزام ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں زنا کے جرائم بہت بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جبکہ واقعاتی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان
کی چند بڑی جیلوں کے جائزہ کے بعد وہاں حدود کی ملزم خواتین قیدیوں کی تعداد 31فیصد سے زیادہ نہیں ،جوالئی 2003ء
کے ایک جائزے میں صوبہ سرحد کی 9جیلوں میں حدود مقدمات میں 32فیصد خواتین قید تھیں ۔ 2
ایک امریکی سکالر چارلس کینیڈی نے 5سال میں پاکستان میں حدود کے مقدمات کا ایک جائزہ لے کر اپنی تحقیق کا یہ نتیجہ
پیش کیاکہ 1980ء تا 1984ء کے پانچ برسوں میں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زنا بالرضا میں 145؍ مردوں اور 144؍ عورتوں کو سزا
سنائی گئی جن میں سے 71مردوں اور 30خواتین کی سزا وفاقی شرعی عدالت نے بحال رکھی۔ ایسے ہی زنا بالجبر کے کیس
میں انہی سالوں میں ڈسٹرکٹ کورٹ نے 163مردوں اور 2عورتوں کو سزا سنائی جن میں سے وفاقی شرعی عدالت نے محض
59مردوں کی سزا بحال رکھی اور ان دو عورتوں کو بھی بری کردیا۔3
جسٹس تقی عثمانی جنہوں نے 17،18برس حدود آرڈیننس وغیرہ کی سماعت کی ہے اپنا ذاتی تجربہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں
کہ ''اغوا اور زنا کے جو سینکڑوں مقدمات میں نے سنے ہیں ،ان میں کم ازکم 90فیصد کیسوں میں سزاہمیشہ مرد کو ہوئی ہے۔''
4
طبقہ خواتین کی بے جا حمایت حاصل کرنے اور محض گرمی محفل کے لئے حدود قوانین کے خالف ایسا پروپیگنڈہ( )iiکیا
جاتاہے۔ اسالم نے تو ہردو صنف کے ساتھ عدل وانصاف کے تمام ضابطے پورے کئے ہیں جبکہ پاکستان میں نافذ انگریزی قانون
کی صورت حال یہ ہے( )iiiکہ اس کا اُصولی رجحان ہی عورت کے لئے خصوصی استحقاق اور مردوں کے خالف امتیاز پر
مبنی ہے جیسا کہ حدود پر اپنے کتابچہ کے آغاز میں ہی اُصولی بنیاد کے طورپر جسٹس (ر) جاوید اقبال لکھتے ہیں :
''یہ حقیقت قانونا تسلیم کرلی گئی کہ برصغیر کی عورت چونکہ پس ماندہ اور مظلوم ہے ،اس لئے ضابطہ فوجداری کے ہر جنسی
جرم میں جس میں عورت ملوث ہو ،عورت کو ملزم تصور نہ کیا جائے۔ لہذا اغوا ،زنا بالجبر ،کسی کی بیوی کو ورغال کراپنے
ساتھ بھگا لے جانا وغیرہ ،ایسے جرائم کی پولیس رپورٹ میں عورت کا سٹیٹس مستغیثہ یا مظلوم کا ہوتا ہے ،نہ کہ ساتھی ملزم
کا۔ خواہ ایسے کسی جرم میں اس کی رضامندی شامل ہی کیوں نہ ہو۔''5
دراصل یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ عورت الزما معصوم ہی ہوتی ہے اور مرد ہمیشہ اس پر جارح ہوتا ہے جبکہ یہ تصور ہی
صنفی امتیاز پر مبنی ہے۔ اسالم کی رو سے جس طرح عزت وعصمت کا تصور عورتوں کے ساتھ وابستہ ہے ،ویسے ہی مردوں
کے لئے بھی یہی تصور موجود ہے ،وگرنہ اسالم میں مردوں پر تہمت لگانے کی سزا کیوں مقرر کی گئی ہے ...؟
قانون کو فریقین کے تحفظ اور دونوں صنفوں کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے۔ جدید تحریک نسواں کے
نعروں کے بعد یہ عجیب رجحان پیدا ہوگیا ہے کہ قانون ہمیشہ عورت کو ہی مظلوم خیال کرتا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ
مجھے گذشتہ دنوں دبئی میں مقیم میرے ایک قریبی عزیز نے سنایاکہ ایک عورت نے ان کے دوست کو برائی کی دعوت دی
(اور یہ بات بھی عجیب نہیں جیسا کہ قرآن میں عزیز مصر کی بیوی کا حضرت یوسف ؑکے بارے میں مشہور قصہ بھی موجود
ہے) تو اس شخص نے قریب موجود پولیس کے ایک سپاہی کو یہ شکایت کی کہ اس عورت کے خالف کیا کوئی قانون حرکت میں
نہیں آتا؟ وہ سپاہی بوالکہ قانون تو ضرورحرکت میں آتا ہے مگر اس وقت جب یہ شکایت تمہاری جگہ وہ عورت کرتی۔()iv
اس سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی امتیاز حدود قوانین کی بجائے مغربی قانون کی بنیادی ساخت میں موجود ہے لیکن اس کے خالف
کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی۔
زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی سزائوں میں تفریق یعنی زنا بالجبر کے لئے سزائے موت یا 25سال قید اور زنا بالرضا کے لئے
تعزیرات پاکستان میں موجود قانون کی بحالی
تبصرہ:حدود ہللا:اسالم کی رو سے زنا بالجبر ہو یا زنا بالرضا ،ہردو صورت میں زنا ہونے کے ناطے یہ سنگین ترین جرم ہے۔ کم
از کم مرد کی حد تک تو اس جرم میں کوئی فرق نہیں البتہ زنا بالجبر کی صورت میں محض عورت کے اپنے بیان اور قرائن
سے اس کی شہادت ملنے پر اس کو نہ صرف بری کردیا جائے گا بلکہ اس کے حق عصمت میں دخل اندازی کی بنا پر زنا بالجبر
کے مجرم پر اس کا مہر مثل()vبھی عائد کیا جائے گا اور حکومت وقت بھی اس کی دلجوئی کے مختلف ذرائع اختیار کرے گی۔
چونکہ مغرب کے ہاں زنا کی دو قسمیں اور دونوں کے علیحدہ احکام ہیں ،اس لئے یہ تقسیم ہی مغربی طرز فکر کی آئینہ دار ہے
جبکہ اسالم نے عورت کے لحاظ سے زنا کی دو اقسام بنانے کی بجائے اسے فریقین کی ازدواجی حیثیت کے لحاظ سے شادی شدہ
اور غیر شادی شدہ میں تقسیم( )viکیا ہے ،غیر شادی شدہ زانی؍ زانیہ کو 100کوڑے اور جالوطنی جبکہ شادی شدہ زانی؍ زانیہ
کو سنگساری کی سزا جیسا کہ یہ تمام باتیں قرآن وحدیث میں موجود ہیں ۔
حدود قوانین :جہاں تک حدود قوانین1979ء کا تعلق ہے تو زانی؍ زانیہ کے شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے ان کی دو
شرعی سزائیں ہی مقرر کی گئی ہیں ،البتہ تعزیرات کے ضمن میں زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ
شق 9کی ذیلی دفعہ 4کی رو سے شرعی نصاب شہادت پورا نہ ہو توشق 10کی ذیلی دفعہ 2کے تحت زنابالرضا کی سزا 10
سال قید بامشقت' ،تیس کوڑے یا جرمانہ' اور ذیلی دفعہ 3کی رو سے زنا بالجبر کی سزا 25برس قید بامشقت اور 'جرمانہ یا 30
کوڑے' ہوگی۔ گویا حدود قوانین میں اس فرق ( )viiکی بنیاد نصاب شہادت ہے۔
ُمجوزہ ترمیم:اب ہم مجوزہ ترمیم کی طرف نظر کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ یہاں اسی زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں فرق کو
اساسی حیثیت دی جارہی ہے۔ اور زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ سزا خالف اسالم ہے کیونکہ
اسالم نے کنوارے زانی کے لئے چاہے وہ زنا بالجبر کا مرتکب بھی ہو ،سزاے موت نہیں رکھی۔ صحیح بخاری میں یہ عنوان قائم
کیا گیا ہے کہ ''مجبور عورت پر کوئی حد نہیں !'' اس کے تحت یہ حدیث ہے :
أن عبدا من رقیق اإلمارة وقع علی ولیدة من ال ُخمس فاستکرھھا حتی افتضھا فجلدہ عمر الحد ونفاہ ولم یجلد الولیدة من أجل أنه
استکرھھا
''خلیفہ کے غالموں میں سے ایک نے مال خمس(بیت المال)کی ایک کنیز کو اس قدر مجبور کیا کہ اس سے زنا بالجبر کر لیا تو
حضرت عمر نے اس غالم پر کوڑوں کی حد نافذ کی اور اس کو جال وطن کردیا ،جبکہ کنیز کو کوڑوں کی سزا نہ دی کیونکہ
اس کو مجبور کیا گیا تھا۔''6
موطا کی روایت میں ہے کہ یہ شخص خمس کے غالموں پر نگران تھا ،اسلئے اس نے مجبور کرلیا۔
ایسے ہی ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق کویہ شکایت کی کہ ا س کے مہمان نے اس کی بہن سے زنا بالجبر کا ارتکاب
کیا ہے۔ آپ نے ا س سے تفتیش کی تو اس نے اعتراف کرلیا ،فضرب به أبوبکر الحد ونفاہ سنة إلی فدك ولم یضربھا ولم ینفھا إلنه
استکرھھا ثم زوجھا إیاہ أبوبکر وأدخله علیھا7
''حضرت ابوبکر نے اس پر حد جاری کی اور 'فدک' میں اس کو جالوطن کردیا ،جبکہ عورت کو نہ تو کوڑے مارے اور نہ ہی
اسے جالوطن کیا کیونکہ اس نے عورت کو مجبور کیا تھا۔ بعد ازاں حضرت ابوبکر نے اسی شخص سے عورت کا نکاح کردیا
اور اُسکی اس عورت سے شادی کردی۔''
اس واقعہ میں بھی زنا بالجبر ہوا لیکن اس کو سزاے موت دینے کی بجائے کوڑے اور جالوطنی کی سزا دی گئی۔یہ شخص
جالوطنی کاٹ کر واپس آیا تو آپ نے اس کو اسی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔ 8
نبوی کا یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ ''ایک عورت نماز پڑھنے کے لئے گھر
ؐ زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینے کے لئے دور
سے نکلی تو ایک شخص نے اس سے زنا بالجبرکرلیا۔شور مچانے پر وہ شخص بھاگ نکالکہ اسی دوران ایک آدمی گزرا تو
عورت نے اسے یہ شکایت کی ،پھر مہاجرین کی ایک جماعت کا وہاں سے گزر ہوا تو اس عورت نے انہیں بھی شکایت لگائی۔وہ
صحابہ چلے گئے اور کچھ دیر بعد ایک آدمی کو پکڑ الئے جس کے بارے میں عورت کا یہ گمان تھا۔اسے عورت کے سامنے
الیا گیا تو اس نے کہا کہ یہی ہے وہ شخص۔سو وہ اس شخص کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس لے آئے ،آپ نے جب اس
کو سزا دینے کا حکم دیا تو ایک اور شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اس عورت سے میں نے زنا کیا ہے ۔تب آپ نے اس
عورت کو جانے کی اجازت دی کہ جا تجھے ہللا نے معاف کردیا ہے اور اس شخص کے لئے اچھے کلمات بولے۔(کسی نے)کہا
آپ نے فرمایا :ا س نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ بھی ایسی توبہ کریں تو ان سے بھی قبو ل کی
کہ اس کو رجم کردو تو ؐ
جائے۔'' 9
لیکن اس واقعہ سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص کنوارا تھا؟ ظاہر ہے کہ وہ شخص شادی شدہ ہوگا اور اسی لئے اس کو
رجم کا حکم دیا گیا ہوگا۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زنا بالجبر کی سزا حرابہ (ڈاکہ اور فساد فی االرض) کی بجائے رجم کی
ہی ہے۔ (تفصیالت آگے صفحہ نمبر 26پر)
کیا زنا بالجبر کی سزا 'حرابہ' کی ہے؟
زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینے کے لئے بعض تجدد پسند دانشور اسے حرابہ (ڈاکہ اور فساد فی االرض) کے تحت التے ہیں ۔
لیکن ان کا موقف درست نہیں جیسا کہ گذشتہ احادیث میں زنا بالجبر پرکنوارے کے لئے کوڑے اور شادی شدہ کے لئے رجم کی
سزا کا ذکر ہوا ہے۔
( )1یہ موقف خالف قرآن ہے کیونکہ کنوارے کے لئے قرآن کریم نے سورة النور کی دوسری آیت میں 100کوڑے کی سزا مقرر
کیہے۔ قرآنی سزا کنوارے کے لئے ہے جس کا قرینہ یہ ہے کہ اگلی آیت میں ''زانی کا نکاح یا تو زانیہ سے ہے یا مشرکہ سے''
کا تذکرہ موجود ہے۔ ایسے ہی نبی صلی ہللا علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے :أنه أمر فیمن زنی ولم یحصن بجلد مائة وتغریب
عام10
''نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے بارے میں یہ حکم دیا کہ ا س کو 100کوڑے مارے جائیں اور ایک
سال کے لئے جالوطن کردیا جائے۔''
اگر کنوارہ زنا بالجبر کرے تو شریعت کی رو سے تب بھی اس کو قتل نہیں کیا جائے گا ،لیکن حرابہ کے تحت لے آنے کی
صورت میں کنوارے کو بھی قتل کرنا پڑے گا جو خالف اسالم ہے۔
( )2حرابہ کے تحت ہونے والے جرائم آیت حرابہ سے اگلی آیت کی رو سے گرفتاری سے قبل قابل توبہ (معافی) ہیں ۔ جن لوگوں
نے زنا بالجبر کی سزا کو حرابہ کے تحت قرار دیا ہے ،وہ بھی اس بنا پر اس کو قابل معافی قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد فاروق
خاں لکھتے ہیں کہ
''زنا بالجبر دراصل پوری سوسائٹی کے خالف ایک جرم ہے ،آیت حرابہ سے ہدایت ملتی ہے کہ çایسے مجرموں کے لئے
حکومت کسی موقعہ پر عام معافی کا اعالن بھی کرسکتی ہے۔
اگر حکومت کے ہاتھ لگنے سے قبل کوئی مجرم خود ہی پچھلے جرائم سے تائب ہونے کا اعالن کردے تو حکومت اس کو معاف
کرسکتی ہے۔ ''11
گویا ایک طرف زنا بالجبر کو سوسائٹی کے خالف جرم قرار دے کر سزا کی سنگینی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف زنا
مان کر اس کے لئے معافی کی گنجائش بھی نکال لی جاتی ہے۔ یہ دوہری منطق ناقابل فہم ہے۔ اس لئے کہ کسی جرم کا حد ود ہللا
میں آجانا اس کی سنگینی میں اضافہ کرتا ہے نہ کہ کمی کیونکہ حدود ہللا میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی قاضی کے
پاس آنے کے بعد ان کی معافی ہوسکتی ہے۔ یہی بات نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بھی اس وقت فرمائی تھی
جب وہ حضرت اسامہ کے ذریعے ایک مخزومی عورت کی چوری کی سزا کم کرنے کی سفارش آپ کے پاس لے کر آئے تھے
تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اُنہیں ڈانٹا :
أتشفع في حد من حدود اہللا ثم قام فخطب ... :لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد یدھا12
''کیا تم حدود ہللا میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو۔ پھر آپ کھڑے ہوگئے اورخطبہ ارشاد فرمایا کہ اگر فاطمہ
بنت محمد بھی چوری کرتی تو محمد اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے۔''
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت تو درکنار ،دربار نبوت صلی ہللا علیہ وسلم سے بھی ان کی سزا کے بارے میں کوئی نرمی نہیں
کی جاسکتی ،کجا یہ کہ اُنہیں سرے سے ہی معاف کردیا جائے۔
دراصل زنا بالجبر کو حرابہ میں لے جانے کی وجہ ہی یہ ہے کہ اس موقف کے قائل حد رجم کے منکر ہیں ۔ حد رجم کے ان
منکرین کا زنا بالجبر پر سزاے موت کا یہ موقف بھی ان کے سابقہ موقف کی طرف سبیل المومنین او راجماع اُمت سے انحراف
ہے !!
مذکورہ باال تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدود قوانین میں تبدیلی کا نام لے کر حدود ہللا میں ترمیم کی جسارت کی جارہی ہے اور
اس طرح کھلے عام کتاب وسنت کے خالف قانون سازی ہللا سے بغاوت اور دستور پاکستان کی واضح دفعات کی خالف ورزی
ہے۔
جہاں تک زنا بالرضا کی سزا کو مجموعہ تعزیرات پاکستان کے مطابق کرنے کی بات ہے تو یہ اسالم کے ساتھ صریح زیادتی،
نظریۂ پاکستان سے انحراف او رمسلمانان پاکستان پر واضح ظلم ہے۔کیونکہ تعزیرات پاکستان میں زنا بالرضا بذات خود کوئی جرم
نہیں ،یہ قانون چونکہ انگریز کے دور سے چال آتا ہے ،اور انگریزکے ہاں زنا بذات خود کوئی جرم نہیں بلکہ محض ازدواجی
حقوق میں مداخلت کی بنا پر اسے جرم سمجھا جاتاہے۔ اسی بنا پر آج بھی یورپ میں زنا کاری اور فحاشی کا بازار گرم ہے اور
یہ چیز مغربی معاشرے میں کوئی معیوب امر نہیں ۔ مغربی ممالک کے ایک حالیہ سروے کے مطابق وہاں بسنے والے مرداوسطا
اپنی زندگی میں 6ئ 14عورتوں سے جبکہ عورت اوسطا 5ئ 11مردوں سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب زنا
کاری ہی ہے اور رضامندی کی وجہ سے اس پر کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ مغرب میں نکاح کی حیثیت وقتی رضامندی کو
حاصل ہے جو اگر نکاح کے بعد بھی حاصل نہ ہو تو عورت اپنے شوہر کے خالف ازدواجی زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کرسکتی
ہے۔ زنا بالرضا کو حدود آرڈیننس سے نکال کرجس تعزیرات پاکستان میں دوبارہ الیا جارہا ہے،اس کو بھی ایک نظر مالحظہ
فرما لیں :
''جو کوئی کسی عورت کے ساتھ مباشرت کرتا ہے ،جس کے بارے میں وہ جانتا ہے یا یقین رکھتا ہے کہ وہ کسی اور کی بیوی
ہے اور اس شخص کی اجازت یا اس کی ملی بھگت کے بغیراس فعل کا ارتکاب کرتا ہے نیز اس کا یہ فعل زنا بالجبر کے زمرے
میں بھی نہیں آتا تو کہا جائے گا کہ اس نے زنا کے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے 5سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزا
سنائی جائے گی۔ اس مقدمہ میں بیوی کو بطور ترغیب دینے والی کے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔''
اسی دفعہ میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ یہ زنا بالجبر کے بارے میں نہیں اور تعزیرات پاکستان میں زنا بالجبر کے لئے
مستقل علیحدہ دفعہ 375بھی موجود ہے ،تو واضح ہے کہ تعزیرات پاکستان کی یہی وہ دفعہ ہے جو زنا بالرضا کے بارے میں
مجوزہ ترامیم کے بعد مؤثر ہوجائے گی ...یاد رہنا چاہئے کہ پاکستان میں پہلی بار حدود قوانین نے زنا کو قانونی طورپر ناجائز
قرار( )viiiدیا تھا1979 ،ئسے پہلے اسالمی جمہوریہ پاکستان میں زنا کے راستے میں محض اسالمی یا معاشرتی وسماجی رکاوٹ
حائل تھی ...دوسری طرف حدود قوانین نے زنا کی یہ تعریف کی :
''دفعہ :4ایک مرد یا عورت جو جائز طورپر آپس میں شادی شدہ نہیں ہیں ،زنا کے مرتکب ہوں گے ،اگر وہ بالجبر واکراہ ایک
دوسرے کے ساتھ مباشرت کرتے ہیں ۔''
چنانچہ اگر زنا بالرضا کو حدود قوانین کی بجائے دوبارہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت کردیا جائے تو گویا حدود آرڈیننس
کے اصل امتیاز اور بنیادی ضرورت واہمیت کا ہی خاتمہ ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کنواری ،بیوہ یا مطلقہ اگر
زنا کا ارتکاب کریں تو اُنہیں زنا کا مجرم قرار ہی نہیں دیا جاسکتا۔ اگر بیوی شوہر کی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کرے تو اس
صورت میں بھی یہ زنا نہیں ٹھہرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا بذات خود جرم نہیں بلکہ شوہر کی عدم رضامندی کی صورت میں
ہی جرم قرار پاتاہے۔ پھرشوہر ہی اس کے خالف مقدمہ درج کراسکتا ہے ،ہر مسلمان نہیں ۔ عالوہ ازیں تعزیرات پاکستان میں یہ
جرم قابل راضی نامہ اور قابل ضمانت بھی ہے۔ اگر زنا پر سزا ہو بھی جائے تو وہ محض 5سال یا جرمانہ ہے ۔صنفی امتیاز کی
حد یہ ہے کہ اگر مرد کو ان تمام شرائط کو ملحوظ رکھنے کے بعد سزا کا مستحق بنا بھی دیا جائے تب بھی عورت کو بطور
ترغیب دینے والی کے کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔
اب آپ خود غور کرلیں کہ اگر حدود قوانین میں یہ ترامیم کردی جاتی ہیں جو دراصل محض ترمیم کا نام ،دراصل حدود قوانین کی
منسوخی ہے تو اس کے بعد معاشرے میں زنا کاری پر کوئی قانونی قدغن باقی نہیں رہے گی۔ چونکہ ہماری این جی اوز اور
مقتدر طبقہ کے فکر ونظر کے پیمانے مغرب سے مستعار ہیں ،اس لئے زنا بالرضا کو دوبارہ تعزیرات پاکستان کے حوالے
کرکے (جہاں اس حوالے سے کوئی قانون ہی نہیں ہے) ملحدانہ معاشرت کو دعوت دی جارہی ہے۔
کیا یہی ہے وہ مقصد اور منزل جس کے لئے کئی ماہ سے جیو نے عوام کو 'ذرا سوچئے' اور پارلیمنٹ کو 'کب سوچنے' کی
دہائی مچا رکھی تھی...؟
پہلی ترمیم کی توجیہ پر ایک نظر :آخر میں اس ترمیم کی توجیہ پر بھی نظر ڈال لینا مناسب ہوگا :
''ہر ایسا جرم جس کی سزا قرآن وسنت میں بیان نہیں کی گئی ،اس کو حدود آرڈیننس سے نکال لیا جائے۔ زنا کی تعزیری سزائوں
کو بھی اسی لئے حدود آرڈیننس سے نکال دیا گیا ہے اور زنا بالجبر کے قوانین کو تعزیرات پاکستان میں 'ریپ' کے نئے نام سے
شامل کیا گیا ہے۔'' 13
تبصرہ:معلوم ہوا کہ زنا بالجبر کو بھی حدود قوانین سے اس لئے نکاال گیا کہ بزعم خودیہ قرآن وسنت میں موجود نہیں جبکہ قرآن
نبوی سے شادی شدہ کے لئے رجم کی سزا بھی ثابت شدہ ہے۔ پھر جن لوگوں کے ؐ نے زنا کی سزا کو بھی بیان کیا ہے اور سنت
نزدیک زنا بالجبر حرابہ کی ایک قسم ہے ،ان کے نزدیک بھی یہ آیت حرابہ (المائدة )32:کے تحت آتا ہے۔ اس بنا پر یہ غلط بیانی
اور 'عذر گناہ بد تر از گنا ہ' کے مصداق ہے۔
دراصل یہ توجیہ حدود قوانین میں موجود تعزیری سزائوں کو نکالنے کے لئے پیش کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر کسی وقوعہ پر چار
گواہ نہ ملیں تب بھی کم تر شہادت پر بعض تعزیرات مبادیات زنا کے طورپر الگو ہو جاتی ہیں ،چنانچہ ان تعزیرات کے خاتمے
کے لئے بھی یہ توجیہ کردی گئی ہے تاکہ زنا کے نام سے کوئی قابل سزا جرم باقی ہی نہ رہے۔یہ ہے وہ عقل عیار جو قرآن
وسنت اور حدود ہللا سے کھیلنے کے لئے ہی حرکت میں آتی ہے۔ہللا تعالی ہدایت عطا فرمائے!
''حدود آرڈی نینس میں صرف زنا کی حدکے تحت سزا شامل ہوگی جو شادی شدہ مجرموں کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ مجرم
کے لئے کوڑوں پر مشتمل ہوگی۔حد زنا کے لئے چارمرد گواہوں کی شرط ختم کرتے ہوئے اب مرد کے ساتھ عورت کی گواہی
کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے لئے قانون شہادت 1984ء میں ترمیم کی جارہی ہے۔ ''
تبصرہ:حالیہ ترامیم باہم متناقض ہیں ۔ ایک طرف زنا کو دو اقسام:جبر اور رضا میں تقسیم کیا گیا ہے اور اسی تقسیم کو اصل بنایا
جارہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مزید قانون کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ،دوسری طرف حدود قوانین میں زنا کو
دوبارہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے لحاظ سے (یعنی اسالمی شریعت کے طورپر)بھی تقسیم کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان بھی
مطمئن رہیں اور کوئی اعتراض نہ ہوسکے لیکن عمال یہ قانون در قانون کی ایک صورت ہے کیونکہ ایک واقعہ زنا بالرضا کے
تحت آئے گا جہاں تعزیرات پاکستان میں اس کے لئے کوئی سزا نہیں تو دوسری طرف وہ ترمیم شدہ حدود آرڈیننس کے تحت
شادی شدہ ہونے کی وجہ سے سنگساری کا مستحق بھی ہوگا ،اب اس پرکس قانونی دفعہ کو لگایاجائے ،اس کا فیصلہ کون کرے
گا؟ ایسے ہی ایک واقعہ زنا بالجبر کا ہو اور دوسری طرف زانی کنوارا ہو تو اس صورت میں تعزیرات پاکستان کی رو سے تو
وہ سزاے موت کا مستحق لیکن حدود آرڈیننس کی رو سے وہ 100کوڑوں کا مستحق ہوگا۔ تضادات سے بھرپور یہ قانون سازی
آخر کیوں ؟ اس طرح جرم زنا کی سزا عائد کرنا تو ایک معمہ بن جائے گا سمجھنے ،نہ سمجھانے کا!!
ممکن ہے کہ یہی اعتراض موجودہ حدود قوانین پر بھی کیا جائے کہ وہاں بھی سزائوں کے دو معیار مقرر کئے گئے ہیں ،لیکن
طرفہ تماشا یہ ہے کہ پہلے تو اسی نکتہ پر ترمیم کے خواہش مند اعتراض کرتے تھے ،اب خود اسی ثنویت کو اختیار کرتے ہیں
تو وہ درست قرار پاتیہے۔ عالوہ ازیں حدود قوانین میں دونوں سزائوں میں باہم تضاد نہیں بلکہ جرم کی کمی بیشی کے اعتبار سے
ان کی شدت میں بھی کمی بیشی ہے ،اور دونوں سزائوں میں حد فاصل اور میزان وہ نصاب شہادت ہے جس کی رو سے زنا کی
شرعی سزا تب ہی دی جاسکتی ہے جب عمال وقوعہ زناکی شہادت موجود ہو ،وگرنہ نسبتا کمتر سزا جو دراصل مبادیات زنا کی
سزا ہے ،دی جاتی ہے۔ جبکہ مجوزہ ترامیم میں نہ وہ حد فاصل موجود ہے اور دونوں سزائوں میں کمی بیشی کی بجائے تضاد
بھی پایا جاتا ہے۔
اسالم کے نام پر پاکستان میں جاری کئے جانے والے قوانین عموما اسی قسم کے مسائل اور تضادات سے پر ہیں جس کی وجہ
سے ان پر عمل بھی نہیں ہوپاتا ،ایسے قوانین کو بظاہر نافذ کرنے کی ضرورت قانون کے ایک بھیدی جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال
کی زبانی سنئے:
''مذہبی لوگوں کو راضی رکھنے کیلئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھاجاسکتا۔ ان کی
حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضرور ی ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں کرسکتے لیکن
اسالمی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔ ''14
اس ترمیم میں ایک طرف بدکاری پر قانون در قانون پیش کرکے سزا کو اُلجھایا گیا ہے ،اور بظاہر حدود ہللا کو برقرار دکھانے
کی سعی کی جارہی ہے تو دوسری طرف پھر نصاب شہادت کے لئے قرآن وسنت سے متصادم ترمیم اس میں شامل ہے کیونکہ
اسالم نے حدود میں عورتوں کی گواہی کا راستہ تو سرے سے اختیار ہی نہیں کیا۔
اسالمی شریعت میں شرعی حد زنا کے سلسلہ میں عورتوں کی شہادت کی گنجائش نہیں ۔یہاں مرد وزن کی مساوات کو خلط ملط
کرنے اور آدھی عورت کے جذباتی نعرے لگانے کی بجائے پہلے اسالمی موقف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسالم نے
مرد وزَ ن کو مساوات کے نام پر ایک دوسرے کا حریف ومقابل بنانے کی بجائے دونوں صنفوں میں تقسیم کار کا تصور دیا ہے۔
اگردونوں صنفوں کے کام بھی ایک جیسے ہی ہوں تو پھر دوسری صنف کو پیدا کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
اسالم نے عورت کی گواہی کو آدھا نہیں کیا بلکہ مردوں کے معامالت میں اور جہاں شرم وحیا آڑے آجائے ،وہاں مردوں کی
گواہی کو رواج دینے کی ترغیب دی ہے جبکہ عورتوں کے معامالت میں ان کی گواہی کو مردوں سے بھی زیادہ حیثیت دی ہے۔
مثال کے طورپر دنیا بھر کے تما م مسلمان اپنی ماں کی اکیلی شہادت پر اپنے باپ کی ولدیت کا یقین کرتے ہیں ۔ ایسے ہی
رضاعت ،حیضوغیرہ میں عورت کی اکیلی گواہی مردوں سے زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔15
اسالم نے عورتوں کو حدود کے معامالت میں گواہی دینے کا رویہ اس لئے نہیں اپنایا کہ اسالم کی رو سے یہ دائرئہ عمل
عورتوں کی حرمت وتقدس کے خالف ہے کیونکہ گواہوں کیلئے فعل زنا کی عملی تفصیالت پیش کرنابھی ضروری ہے ،ا سکے
بغیرگواہی مکمل نہیں ہوتی۔16
عورتوں کا عدالتوں میں آنا جانا اور وہاں وکال کی شدید جرح کے بالمقابل جرم زنا کی عملی تفصیالت میں ان کی فطری شرم
وحیا کا حائل ہونا ایسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے اسالم نے عورت کو مستثنی قرار دیا ہے۔ اس پیچیدگی کی بنا پر مجرم کے
بچ نکلنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امان ہللا بلوچ ایڈوکیٹ کا عدالتوں کا عملی تجربہ مالحظہ فرمائیے:
''ہماری ایک ثقافت ہے ،ہوسکتا ہے برگر خاندانوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین اتنی بے باک ہوں کہ اپنا بیان نارمل طریقے
سے دے پائیں مگر ہمارے معاشرے کی 9ئ 99فیصد خواتین کی بالکل الگ سوچ ہے۔ وہ اپنی روایات اور ثقافت کی پاسداری
کرنے والی اور شرم وحیا کی پیکر ہوتی ہیں ۔ ان کے لئے مردوں سے بھرے عدالتی چیمبر میں اورچارچار وکیلوں کی موجودگی
میں اس ظلم کی باریکیاں بیان کرنا کسی پہاڑ سے ٹکرانے سے زیادہ مشکل امر ہے۔''17
زنا کی شہادت میں فعل زنا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے ،وگرنہ گواہ پرتہمت کی سزا عائد ہوگی جیساکہ حضرت
عمر نے مغیرہ بن شعبہ کے واقعہ میں اسی بنا پر حد قذف لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ حدود میں عورت کی گواہی کی راہ اختیار نہیں
کی گئی اور یہی وجہ مسلم فقہا نے ذکر کی ہے کہ
تقع في جو قذر مخز ال تتمکن المرأة غالبا فیه من االستعداد لتحمل الشھادة کما یقع في جریمتي الزنا واللواط حیث یشترط في الشھادة
رؤیة المیل في ال ُمکحلة18
'' گواہیاں ایسے مکدر اور شرمناک ماحول منس ہوتی ہیں جہاں خواتین کا عمل زنا کی گواہی دینے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ جیسے
کہ زنا اور لواطت کے جرائم کا تعلق ہے کیونکہ ان کی گواہی میں سرمہ والی لکڑی (سرمچو) کا سرمہ دانی میں داخل ہونے کو
اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی شہادت دینا ضروری ہے۔''19
پھریہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ گواہی کوئی حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ حق تو وہ ہے جس کا فائدہ اپنی ذات کو پہنچے
اور ذمہ داری وہ جس کو ادا کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ گواہی دینے والی عورت کو گواہی
دے کر کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ ممکن ہے کہ مغرب میں جہاں جدید تحریک نسواں کے بعد بعض تجدد پسند عورتیں مل کر اپنے آپ
کو ایک مجسم اکائی خیال کرتی ہوں اور اپنے بالمقابل مردوں کو ایک جنس ظالم باور کرکے ایک اکائی بتاتی ہوں لیکن اسالمی
معاشرے الحمد ہللا ابھی تک اس صنفی کشمکش اور تنائو سے آزاد ہیں ۔
جبکہ پاکستان میں عدالتوں کی موجودہ صورتحال اورسماعت کی طوالت کے باعث یہ ذمہ داری تو کوئی مرد بھی ادا کرنے کے
لئے آمادہ نہیں ( )ixکجا یہ کہ اسے عورتوں پر بھی عائد کردیا جائے۔
''وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر الزام تراشی کرتے ہیں اور چار گواہ بھی پیش نہیں کرتے''...
اور عدد معدود کے مسلمہ عربی قاعدے کی رو سے 3سے 10تک کا 'اسم عدد' اگر مؤنث ہو تو معدود الزما مذکر ہوگا ،چنانچہ
سورة النور کی آیت میں أربعة شھداء میں أربعة مؤنث ہے لہذا اس سے مذکر گواہ ہی مراد ہوں گے۔ایسے ہی سورة البقرة کی آیت
أربعة منکم میں بھی أربعة اور منکم ہردو سے یہی دلیل ملتی ہے اور اسی مفہوم پر مفسرین کا اتفاق ()xہے ۔
نبویہ میں ہے کہ ہالل بن اُمیہ نے شریک بن سحماء پر اپنی بیوی سے زنا کاری کا الزام لگایا تو نبی کریم
ؐ اس سلسلے میں احادیث
صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا:
''چار گواہ الئو ،وگرنہ تیری پیٹھ پر(تہمت کی) حد لگے گی۔''
سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتا پائوں تو کیا میں اس کو مہلت دوں حتی آتي بأربعة
شہداء فقال رسول اہللا :نعم 21
''حتی کہ میں چار مرد گواہ الئوں ؟ تو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جواب دیا :ہاں ۔''
اس بارے میں خلفاے راشدین اورتابعین رحمۃ ہللا علیہ کے فرامین وواقعات مالحظہ فرمائیں ،مثال
مضت السنة من رسول اہللا ﷺ والخلیفتین من بعدہ :أن ال تجوز شھادة النساء في الحدود22
نبوی اور دونوں خلفا کے دورمیں یہ سنت چلی آتی ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی درست نہیں ۔''
ؐ ''دور
حضرت علی سے مروی ہے کہ ال تجوز شھادة النساء في الطالق والنکاح والحدود والدماء23
''طالق ونکاح ،حدود اور قتل وغیرہ میں عورتوں کی گواہی ازروئے شرع جائز نہیں ۔''
شعبی رحمۃ ہللا علیہ اور اعمش رحمۃ ہللا علیہ کہتے ہیں کہ ال تجوز شھادة النساء في الحدود
قتادہ رحمۃ ہللا علیہ کے پاس ایک واقعہ زنا میں 6عورتوں اورایک مرد نے گواہی دی توفرمایا:
مصنف عبد الرزاق میں ان واقعات کے ساتھ مزید کئی واقعات اور فرامین بھی موجود ہیں ،تفصیل کے لئے اس کا مطالعہ مفید
ہوگا ،پھر دور نبوی یا خالفت راشدہ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ خواتین کو گواہی کے لئے طلب کیا گیا ہو۔
''مسلم علما کا اس امر پر اجماع ہے کہ زنا میں چار سے کم مردوں کی گواہی قابل قبول نہیں ۔ ''
حکومت کویت کے زیر نگرانی تیارکردہ مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ
وال تقبل شھادة النساء في الزنا بحال ْلن لفظ اْلربعة اسم لعدد المذکورین ویقتضي أن یکتفي به بأربعة وال خالف في أن اْلربعة إذا
کان بعضھم نساء ال یکتفي بھم ...وقال ابن عابدین :المدخل لشھادة النساء في الحدود27
''حد زنا میں عورتوں کی گواہی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں کیونکہ أربعة سے چار مردوں کا ہی تعین ہوتا ہے (یہ مذکر کے
لئے اسم عدد ہے) جس کا تقاضا یہ ہے کہ چار مرد ہی کفایت کریں گے ،اس امر میں کوئی اختالف نہیں کہ اگرچارمیں سے
بعض عورتیں ہوں تو یہ گواہی کافی نہیں ہوگی۔ حنفی فقیہ قاضی ابن عابدین رحمۃ ہللا علیہ کا قول ہے کہ عورتوں کی گواہی کا
حدود میں کوئی کام نہیں ۔''
ان شرعی نصوص ،اجماع اور علما کے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شریعت اسالمیہ کا واضح حکم ہے۔ اس کی حکمتوں کی
جستجو تو کی جاسکتی ہے لیکن اس سے انکار کرنا کسی مسلمان کے لئے روا نہیں ۔ جو لوگ اسے عورتوں کے خالف امتیازی
قانون سمجھتے ہیں ،اُنہیں اس نصاب شہادت کو چارسے کم مسلمان مردوں کے لئے بھی امتیازی سمجھنا چاہئے کیونکہ شریعت
کی نظر میں وقوعہ تو دو گواہوں سے ثابت ہوجاتا ہے لیکن حضرت عمر نے مغیرہ بن شعبہ پر زنا کی تہمت کے ایک واقعہ میں
تین گواہوں پر حد قذف جاری کی تھی۔()xiاس لئے یہاں اصل مسئلہ صنفی امتیاز کا نہیں بلکہ ہللا کے طے کردہ اور قرآن میں
ذکرکردہ نصاب شہادت کا ہے۔ البتہ بعض ایسے حاالت جن میں وقوعہ کے وقت صرف عورتیں ہی موجود ہوں تو بعض مسلم
علما مثال عالمہ ابن حزم رحمۃ ہللا علیہ نے بامر مجبوری آٹھ عورتوں کی گواہی کو حد زنا کے لئے کافی نصاب قرار دیا ہے۔ان
کے موقف اور دالئل کے لئے درج ذیل مراجع کی طرف رجوع مفید ہوگا۔ 28
ان تفصیالت سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کی گواہی کے سلسلے میں بھی حکومت کی مجوزہ ترمیم قرآن وسنت سے متصادم اور
حدود ہللا میں تحریف کی ایک کوشش ہے جسے تعجب ہے کہ حدود قوانین میں شریعت کے نام پر ہی محض آزاد خیال عورتوں
کی تائیدحاصل کرنے کے لئے داخل کیا جارہا ہے۔ لیکن اس تکلف کا کوئی فائدہ نہیں ،کیونکہ ایسی خواتین تو ویسے ہی حدود ہللا
کو وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیتی ہیں ۔ ایسی این جی اوز میں کام کرنے والے ایک فرد امان ہللا بلوچ کی زبانی اندرونی شہادت
سنئے:
''ان خواتین تنظیموں اورٹی وی چینلوں سے یہ سوال پوچھا جائے کہ اگر یہ ترمیم ہوبھی جائے اور چار خواتین کی گواہی پر حد
الگو ہو تو کیا وہ حدود آرڈیننس کو تسلیم کرلیں گے۔ ہرگز نہیں ،تمام حدود آرڈیننس میں صرف اس ایک شق پر اعتراض کیا جاتا
ہے ۔'' 29
شہادت نسواں کے حوالے سے ترمیم پر بحث کے خاتمے سے قبل ان اعتراضات کو بھی ایک نظر دیکھ لینا مفید ہوگا جو میڈیا پر
زنا بالجبر کے سلسلے میں خواتین کی گواہی کے حوالے سے تسلسل سے دہرائے جاتے رہے ہیں ،مثال
( )1حدود قوانین کا زنا بالجبر کی صورت میں چار گواہوں کا تقاضا عمال ممکن نہیں ہے کیونکہ زنا بالجبر عموما اکیلے ہوتا ہے،
چند افراد کی موجودگی میں جبری زنا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔
اول تو یہ دعوی حدود قوانین پر محض الزام ہے کیونکہ حدود قوانین نے زنا بالجبر کے لئے چار گواہ ضروری ہی قرار نہیں
دیے ،ان قوانین میں زنا( )xiiبالرضا اور زنا بالجبر کی سزا تعزیری ہے جس میں عام گواہیاں ویسے ہی قابل قبول ہنن ۔ چار
گواہوں کی ضرورت تو زنا کی شرعی سزا میں ہے اور شرعی سزا میں زنا بالجبر کو بحث میں ہی نہیں الیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ
وفاقی شرعی عدالت کے کئی فیصلے موجود ہیں ،جن میں زنا بالجبر کیلئے چار گواہوں کی ضرورت کو اضافی قرار دیا گیا ہے،
مثال
( )1قانون شہادت 1984کے آرٹیکل 17کی ذیلی دفعہ' 2بی' میں صراحت کی گئی ہے کہ
''حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر ،زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔
(یاد رہے کہ یہ سزا 10سے 25سال قید بامشقت اور جرمانہ ہے)''
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ 10سال سزا زنا بالرضا کی ہے اور 25سال زنا بالجبر کی ہے ،تو گویا قانون شہادت کی یہ دفعہ دونوں
کو شامل ہے۔
( )2عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرم زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت
کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔ عدالت عالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ذیل الفاظ میں صراحت کی ہے :
''قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حاالت و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو
حاصل ہے۔'' 30
واضح ہے کہ حدود قوانین کے تحت تعزیری سزائوں کیلئے ہی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے۔
( )3سپریم کورٹ ،آزادکشمیر نے قصاص اور زنا کے مقدمات میں عورت کی گواہی کے حوالے سے مندرجہ ذیل اُصول بیان کیا
:
''قصاص اور نفاذ حدود کے مقدمات میں بھی چار مرد گواہوں کی شہادت کے بعد مزید شہادت کے لئے عورتوں کی گواہی میں
کوئی امر مانع نہیں ہے۔''31
اس فیصلے سے یہ واضح ہوتاہے کہ اگر خواتین یہ محسوس کریں کہ حد زنا کے کسی مقدمہ میں چار مرد گواہ غلط بیانی سے
کام لے رہے ہیں یا درست گواہی نہیں دے رہے ہیں تو واقعہ کی چشم دید گواہ عورتیں بھی عدالت کے روبرو گواہی دے سکتی
ہیں ۔ اور اصل حقائق کو عدالت کے علم میں النے کا حق رکھتی ہیں ۔
(1979 )4ء میں زنا بالجبر کے ایک مقدمے کافیصلہ تحریر کرتے ہوئے کراچی ہائی کورٹ نے صرف ایک مظلومہ عورت کے
بیان کو کافی گردانا اور قرار دیا کہ
''زنا بالجبر کے کیس میں مقدمہ کے حاالت و واقعات کے پیش نظر زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کے بیان پر ملزم کو سزا
دی جاسکتی ہے۔'' 32
چنانچہ جن لوگوں کو حدود ہللا ویسے ہی ظالمانہ نظر آتی ہیں ،وہ محض اعترا ض کرنے کے لئے چار مرد گواہ کی شق کو
سامنے لے آتے ہیں ،وگرنہ یہ چار مرد گواہ زنا بالجبر کی سزا کے لئے سرے سے ضروری ہی نہیں بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا
ہے کہ حدود قوانین میں تعزیرات پر عورت کو گواہی کے حق سے محروم نہیں کیاگیاہے بلکہ ان قوانین کے توسط سے ایک
عورت کی گواہی پر مجرم کو سابقہ قانون کی نسبت دوگنا زیادہ سزا کے مواقع میسر آگئے ہیں ۔
جہاں تک اس دعوی کا تعلق ہے کہ زنا بالجبر میں ایک سے زیادہ گواہ ملتے نہیں تو یہ بھی محض خام خیالی ہے۔کیونکہ بعض
اوقات زنا کے آخری مراحل میں بعض افراد کو علم ہوتا ہے اور فعل زنا واقع ہوچکا ہوتا ہے ،ایسی صورت میں وہ لوگ جبری
زنا کی گواہی تو دے سکتے ہیں لیکن اس کو روکنے پر قادر نہیں ہوتے کیونکہ وہ واقعہ ہوچکا۔یہ صورت اکثر تب پیش آتی ہے
جب خاتون کو تالش کرتے یا اس کی پکار سنتے ہوئے چند لوگ تاخیر سے پہنچیں ۔
کسی خاندان سے دیرینہ دشمنی کا بدلہ لینے یا اس کی عزت خاک میں مالنے کے لئے بعض اوقات کچھ شیطان صفت لوگ اسلحہ
کے زور پر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور لوگ اُنہیں روکنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات ڈاکوبھی ایسی وارداتیں کرتے
ہیں کہ اہل خانہ کو زنا سے روکنے کی مجا ل نہیں ہوتی بلکہ پاکستان کے قبائلی نظام میں بعض جرگے بھی متاثرہ فریق کو زنا
کی اجازت دے کر اپنے سامنے ایسے ظالمانہ فیصلے پرعمل کرواتے ہیں ۔ اس لئے یہ دعوی بھی درست نہیں کہ زنا بالجبر میں
چار گواہوں کا ملنا ناممکن ہے۔
( )2یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ پرزنا بالجبر کا مقدمہ لے کر جاتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم اپنی
بریت پر چار گواہ پیش کرو ،وگرنہ خود سزا بھگتو۔
حدود قوانین میں تو ایسی کوئی شق موجود نہیں ،اسی لئے شرعی عدالت کے فیصلے یا سزا سنانے کے مرحلے میں بھی کبھی
اس کا اتفاق نہیں ہوا ،جسٹس تقی عثمانی اپنے کتابچہ میں لکھتے ہیں کہ
''ایسے کیسوں کی سترہ سالہ سماعت کے دوران مجھے کوئی ایسا کیس یاد نہیں جس میں کوئی عورت زنا بالجبر کی شکایت الئی
ہو اور مرد کو چھوڑ کر خود اسے زنا بالرضا کی سزا سنادی گئی ہو۔'' 33
البتہ پولیس کی دھاندلی یا عدم تربیت کے نتیجہ میں اس کا امکان بعید از قیاس نہیں ۔ اس کے لئے حدود قوانین کی بجائے پولیس
کی اصالح اور تربیت ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالتنے بھی اپنے ایک فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ
''اگر کسی عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس جرم کے سرزد ہونے کے بعد زیادتی کی شکار عورت کو کسی طرح کی
سزا نہیں دی جاسکتی۔ چاہے وہ حد ہو یا تعزیر ،البتہ دوسرا فریق جو زیادتی کا مرتکب ہوا ہے ،وہ نفاذ یا تعزیری سزا کا مستحق
ہے۔''34
جہاں تک اسالم کا تعلق ہے تو اسالم نے تو عورت پر جبر کی صورت میں متاثرہ عورت کی بریت کے لئے محض اس کے بیان
اور قرائن کی شرط لگائی ہے اور جبر ثابت ہونے کی صورت میں ظالم پر مہر مثل کی ادائیگی یا ایک تہائی دیت اور قاضی کو
عورت کی دل جوئی کی ہدایت کی ہے جس کی تفصیل پیچھے صفحہ نمبر 8کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔
( )3یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر زنا بالجبرمیں متاثرہ عورت اپنی بریت سے بڑھ کر ظالم مرد کو سزا دلوانا چاہتی ہو تو
اس کی گواہی کو حدود قوانین میں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔
دراصل عورت سے جبری زنا ایسی زیادتی ہے جس پر ہر غیرت مند مسلمان متاثرہ عورت سے شدید ہمدردی محسوس کرتا ہے۔
ہمدردی اور غمخواری اپنی جگہ لیکن عدل وانصاف کے فیصلے جذبات سے ہٹ کر واضح میزان پر ہی کئے جاتے ہیں ۔ جس
طرح کسی بھی جرم میں محض ایک متاثرہ شخص کا ملزم پر محض دعوی کردینا کافی نہیں بلکہ اسے قانونی تقاضے بھی پورے
کرنا ہوتے ہیں ،ایسے ہی یہاں بھی توازن کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ جبری زنا کی شکار عورت ہوتی ہے
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض عورت کے بیان کو ہی میزان عدل قرار دے لیا جائے۔ متعدد واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں
عورت محض مرد کو بدنام کرنے کی غرض سے اس پر ایسا الزام لگا دیتی ہے۔ جیسا کہ ایسا ہی ایک واقعہ نبی صلی ہللا علیہ
وسلم نے ذکر فرمایا:
''بنی اسرائیل میں ُجریج نامی ایک نیک آدمی نے ایک بار ماں کی بات نہ مانی تو اس کی ماں نے اسے بدنامی کی بددعادی۔جس
کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روزایک عورت نے اسے بدکاری کی دعوت دی ،اس نے انکار کیا تو اس عورت نے ایک چرواہے سے
بدکاری کرکے پیدا ہونے والے بچے کو جریج کے نام مڑھ دیا۔ لوگوں نے یہ صورتحال دیکھ کر اس کی عبادت گاہ توڑ دی اور
اس کو خوب بدنام کیا۔ تب جریج نے نماز پڑھ کر ہللا سے اپنی صفائی کی دعا کی ،تو ہللا نے اس پیدا ہونے والے بچے کو بولنے
کی صالحیت دے دی او راس نے کہا کہ ''میرا باپ تو فالں چرواہا ہے۔'' یہ بچہ ان تین بچوں میں سے ایک تھا جنہوں نے گود
میں بولنا شروع کردیا ،دوسرے حضرت عیسی ہیں ۔'' مختصرا35
مسلم فقیہ محمد فاسی مالکی لکھتے ہیں کہ کوئی عورت اگر یہ دعوی کرے کہ اس سے زنا بالجبر ہوا ہے ،اور اس کے پاس
کوئی گواہ نہ ہو تو ا س صورت میں دیکھا جائے گا کہ
أن تدعي ذلك علی رجل صالح ال یلیق به ذلك وھي غیر متعلقة به فھذا ال خالف أنه ال شيء علی الرجل وإنھا تحد له حد القاذف وحد
الزنا إن ظھر بھا حمل36
''اگر تو جس پر الزام لگایا جارہا ہے ،وہ نیک شخص ہو اور ایسا فعل بد اس کے الئق نہ ہو اور اس عورت کا اس سے کوئی
تعلق بھی نہ ہو تو سب کا اس امرپر اتفاق ہے کہ اس آدمی کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی ،اور اس عورت پر حد تہمت لگے
گی ،اور اگر اسے حمل ہوجائے تو پھر اس عورت پر حد زنا بھی جاری ہوگی۔'' پتہ چال کہ زنا بالجبر میں اکیلی عورت کا بیان
کافی نہیں ہے۔
اگر اس مرحلہ پر کسی عورت کا اکیال بیان ہی مرد کو زانی ثابت کرنے کے لئے کافی ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زنا کے
تمام جرائم کا فیصلہ ہر وقت عورت کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس بنا پر عورت کا زنا کے الزام میں سزا پانا بھی ناممکن ہوجائے گا
باوجود اس کے کہ اس نے رضامندی سے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ عورت جب چاہے گی تو اس کو زنا بالجبر قرار دے کراپنے
آپ کو تو بری کرا لے گی لیکن مرد کو زنا کی سنگین سزا سے دوچار کردے گی۔ زنابالجبر میں اس پہلو کے حوالے سے قانون
سازی کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ زنا کی سزا عورت کے رحم وکرم پر ہوجائے گی۔ چنانچہ اسی حوالے سے قانون کے غلط استعما
ل کی نشاندہی امریکی سکالر نے بھی کی ہے:
''جن عورتوں کو دفعہ )2( 10کے تحت (زنا بالرضا کے جرم میں ) سزا یاب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ،وہ اپنے مبینہ شریک جرم
کے خالف دفعہ )3(10کے تحت (زنا بالجبر) کا الزام لے کر آجاتی ہیں ۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ ایسا کوئی قرینہ نہیں
ملتا جو زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے ،اس لئے وہ مرد ملزم کو زنا بالرضا کی سزا دے دیتا ہے اور عورت شک کے
فائدے کی بنا پر ہر غلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔'' 37
ان واقعاتی حقائق کو نظر انداز کرکے صرف مرد کو صنف ظالم سمجھ کر عورت کے حق میں قانون سازی بذات خود صنفی
امتیاز کا مظہر ہوگا۔تحریک نسواں کی پروردہ خواتین عورتوں کو یہ حق دال کر زنا کے سارے واقعات کا تما م ملبہ ایک طرف
تو صرف مردوں پر گرانا چاہتی ہیں اور دوسری طرف عورت کی سزا کو عمال معطل کرکے مردوں کو ہر وقت اپنے رحم وکرم
پر رکھنا چاہتی ہیں ۔
بعض لوگوں نے گذشتہ صفحات میں نماز کے لئے جانے والی عورت سے زنا بالجبر کے واقعے سے یہ استدالل کیا ہے کہ جبر
کی صورت میں اکیلی عورت کا بیان کافی سمجھا جائے گا۔ (مناسب ہوگا کہ ا س واقعے پر بحث سے قبل اصل حدیث کا مطالعہ
دوبارہ صفحہ 11سے کرلیا جائے)
( )1بعض علما کے نزدیک یہ حدیث ہی مستند نہیں بلکہ اس کے راویوں میں ضعف اور متن میں اضطراب پایا جاتا ہے جیساکہ
حافظ ابن حزم رحمۃ ہللا علیہ کا دعوی ہے۔
( )2عالمہ البانی رحمۃ ہللا علیہ کا موقف یہ ہے کہ اس واقعہ میں رجم کا حکم دینا ثابت شدہ نہیں :
''یہ حدیث حسن(مقبول) ہے سوائے رجم کے حکم کے(جو ثابت شدہ نہیں ہے) راجح بات یہی ہے کہ اسے رجم نہیں کیا گیا ۔ '' 39
حافظ ابن قیم رحمۃ ہللا علیہ نے بھی رجم کے حکم کو راوی کا تصرف قرار دیا ہے۔40
( )3سنن ابو دائود کی شرح عون المعبود کے شارح اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
والیخفی أنه بظاھرہ مشکل إذ الیستقیم اْلمر بالرجم من غیرإقرار وال بینة وقول المرأة ال یصلح بینة بل ھي التي تستحق أن تُحد حد
القذف فلعل المراد :فلما قارب أن یأمر به وذلك قاله الراوي نظرا إلی ظاھر اْلمر ...واإلمام اشتغل بالتفتیش عن حاله۔ 41
''ظاہر ہے کہ یہ ایک پیچیدہ حدیث ہے کیونکہ رجم تو اعتراف یا گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ اور عورت کا محض کہہ دینا
آپ حکم کافی گواہی نہیں ہے بلکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اس بنا پر عورت کو حد قذف لگائی جاتی۔شاید اس سے مراد یہ ہو کہ ابھی ؐ
سنانے ہی والے تھے اور راوی نے ظاہری حاالت کے پیش نظر یہ بات از خود روایت کردی ہے ،حاالنکہ اس دوران حاکم ابھی
تفتیشی مراحل میں ہی مشغول تھا۔''
بالفرض رجم کا حکم ثابت ہو بھی ہوجائے تو اس واقعہ کی مکمل تفصیالت جو مسند احمد اور سنن بیہقی وغیرہ میں ذکر ہوئی ہیں
،سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا اس واقعہ میں رجم کا حکم سنانا ایک تفتیشی مرحلہ ہی تھاکہ آپ
نے ایک عورت کی شکایت پر الزامات کی تحقیق شروع کردی لیکن آخر کار اس واقعہ میں کسی شخص کو بھی رجم کی سزا دی
نہیں دی گئی۔ 42
( )4بفرض محال اگر رجم کا حکم دینا مان بھی لیا جائے تواس کی وجہ محض ایک عورت کے الزام کی بجائے دراصل ملزم کی
خاموشی یعنی اعتراف ہے ،وگرنہ اس کے انکار کرنے کا احادیث میں تذکرہ ملنا چاہئے۔ حافظ ابن قیم اعالم الموقعین میں فرماتے
ہیں :
فإن قیل :کیف أَمر برجم البريء؟ قیل :لو أنکر لم یَرجمه ولکن لما أُخذ وقالت ھو ھذا ولم یُنکر ولم یَحتج عن نفسه فاتفق مجيء القوم به
في صورة المریب وقول المرأة ھذا ھو وسکوته سکوت المریب 43
''اگریہ اعتراض کیا جائے کہ پھر ایک بری شخص کے رجم کا حکم کیوں دیا گیا؟ تو کہا جائے گا :اگر وہ انکار کرتا تو اسکے
رجم کا حکم نہ دیا جاتا۔ لیکن جب اسے پکڑا گیا اور عورت نے بھی کہہ دیا کہ یہی ہے وہ اور اس نے انکار بھی نہیں کیااو
راپنے بارے میں کوئی حیل وحجت بھی نہیں کی پھر تمام لوگوں کا اسے مشکوک حالت میں پکڑ کر النا ،اس کے بعد عورت کا
اسے متعین کردینا اور اس پر اس کا خاموش رہنا۔ '' (یہ واقعاتی حقائق گویا اسکے اعترا ف کی طرف ہی اشارہ کررہے ہیں )
الغرض ( )1اول تو اس مکمل واقعہ کی صحت ہی مشکوک ہے۔( )2پھراس واقعہ میں رجم کی سزا کا سنایا جاناثابت شدہ ہی نہیں
۔( )3بالفرض ثابت شدہ مان بھی لیا جائے تو یہ ایک تفتیشی مرحلہ کا بیان ہے کیونکہ زنا کاالزام چار گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں
ہوتا۔ ()4اگر کسی کو پھر بھی حکم رجم پر اصرار ہو تو اس سزا کو سنانے کی وجہ اس شخص کی الزام پر خاموشی گویا
اعتراف کرنا ہے ،نہ کہ محض عورت کا الزام لگا دینا۔()5اور آخرکار تمام احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ اس کو رجم کی سزا
دی نہیں گئی ،بلکہ سب کو معاف کردیا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کی گواہیاں پوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیس حدود ہللا
سے نکل کر عام جرائم میں آگیا تھا ،جہاں قاضی معافی دے سکتا ہے۔
زنا بالجبر کی صورت میں 'زنا' اور 'حرابہ' میں ادغام یا اشتراک؟
چونکہ زیر بحث ترامیم میں زنا بالجبر ہی خصوصی موضوع رہا ہے ،اس لئے جوواقعات میڈیا پر پیش کئے جاتے رہے ،ان کے
بارے منر اسالم کا موقف باالختصار واضح رہنا چاہئے:
اسالم میں زنا ایک سنگین جرم ہے اور کسی کو اعتراف یا چار گواہوں کے بغیر زنا کی سزا نہیں دی جاسکتی جیسا کہ مغیرہ بن
شعبہ کے سلسلے میں حضرت عمر کا مشہور واقعہ موجود ہے۔ البتہ زنا بالجبر ایسی صورت ہے جہاں دوجرائم باہم خلط ملط
ہوجاتے ہیں ،اس کی چار صورتیں بنتی ہیں جن میں پہلی تینوں صورتیں ایسی ہیں جہاں چاروں گواہیاں موجود ہیں :
( )1زنا بالجبر کی عام صورتوں میں زانی کو 100کوڑے یا سنگساری کی سزا ہی دی جائے گی ،جیسے کہ آغاز میں واقعات
گزرچکے ہیں ۔ دیکھیں صفحہ نمبر 10پر حضرت ابوبکر وعمر کے فیصلے
امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں :وعلی المستکرہ حد الرجم إن کان ثیبا والجلد والنفي إن کان بکرا44
''جبر کرنیواال اگر شادی شدہ ہے تو اس کی سزا سنگساری ،اگر کنوارا ہے تو کوڑے اورجالوطنی۔''
( )2جہاں زنا بالجبر کے ساتھ اغوا ،برہنہ کرنایا اجتماعی زیادتی وغیرہ بھی شامل ہوجائے تو شادی شدہ کے لئے سنگساری سے
بڑی مزید کسی سزا کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔(جو لوگ رجم کے منکر ہیں ،ان کے نزدیک یہ صورت بنتی نہیں ،ا س لئے
وہ فورا حرابہ کی طرف لپکتے ہیں )
( )3البتہ ایسی صورت میں جب کنوارا سنگین زنا بالجبر کا ارتکاب کرے تو اس پر بیک وقت دو سزائیں بھی عائد ہوسکتی ہیں
:کنوارے زانی کی حد اور ا س کے بعد فساد فی االرض کی تعزیر
دو سزائوں کی جمع کرنے کی دلیل حضرت علی کا یہ فیصلہ بھی ہے جو شعبی سے مروی ہے:
'' أن علیا قال لشراحة لعلك استکرھت لعل زوجك أتاك لعلك لعلك قالت :ال۔قال :فلما وضعت ما في بطنھا َجلَ َدھا ثم رج َمھا فقیل له
جلدتھا ثم رجمتھا؟ (وفي روایة :جمعت علیه حدین) قال جلدتھا بکتاب اہللا ورجمتھا بسنة رسول اہللا45
'' حضرت علی نے شراحہ سے پوچھا:شاید کہ تجھ سے زنا بالجبر ہوا ہو ،شاید کہ تیرا شوہر تیرے پاس آیا ہو ،شاید یہ اور یہ
لیکن وہ عورت بولی :نہیں ۔سو جب اس عورت نے بچہ جن دیا جو اس کے پیٹ میں تھا تو آپ نے (جمعرات کو) اسے 100
کوڑے مارے اور (جمعہ کو ) رجم کردیا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے پہلے کوڑے مارے پھر رجم کردیا؟ (اور ایک روایت میں
ہے کہ دو حدیں جمع کردیں ؟) تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے کتاب ہللا کی وجہ سے 100کوڑے مارے اور سنت رسو ؐل کی
وجہ سے رجم کیا۔ '' 46
''زنا بالجبر پر شادی شدہ کے لئے تو سنگساری سے مزید سنگین کیا سزا ہوسکتی ہے؟ البتہ کنوارے کیلئے 100کوڑے ہی
ہے۔اور حدود قوانین کی دفعہ )3(6میں عدالت کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ جبر کی صورت میں کوئی اور سزا 'بھی' دے
سکتی ہے۔'' 47
( )4زناکی سزا تو چار گواہوں یا اعتراف کے بغیر دی نہیں جاسکتی ،اب جن حاالت میں عورت کے ساتھ سنگین زیادتی کے
واضح قرائن موجود ہوں اور معاشرے میں خوف وہراس پھیال ہو لیکن چار گواہیاں موجود نہ ہوں توایسی صورت میں قاضی کو
اختیار ہے کہ وہ معاملہ کی سنگینی کے مطابق حرابہ کی چاروں قرآنی سزائوں میں جو بھی اختیار کرلے :مجرم کو ٹکڑے
ٹکڑے کرنا ،سولی چڑھانا ،مخالف سمت سے ہاتھ پائوں کاٹنا یا کم تر سزا محض جالوطن کردینا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ حرابہ
کی سزا (تعزیر) حدود میں شامل نہیں اور قابل معافی بھی ہے اور یہاں چار گواہوں کی ضرورت بھی نہیں بلکہ دو گواہوں یا
محض قرائن سے بھی کام چل سکتا ہے۔
3؍اگست کو ہمدرد سنٹر میں حدود قوانین پر علما کے اجالس کے اعالمیہ کی ایک شق یہ ہے:
''زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی تقسیم کرکے زنا بالجبر کو حرابہ کے تحت داخل کرنا قرآن وسنت کی باطل تعبیر ہے۔ زنا کے لئے
موجب حد نصاب شہادت دستیاب نہ ہو اور اقرار جرم بھی نہ ہو لیکن کم تر شہادت یا قرائن قطعیہ غالبہ موجود ہوں اور قاضی کو
ارتکاب جرم کا ظن غالب یا یقین ہوجائے تو وہ مجرم کو تعزیرا انتہائی سزا بھی دے سکتا ہے۔'' مختصرا
اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ اسالم کی رو سے زنا بالجبر کی سزا اور نصاب شہادت میں عام زنا سے کوئی فرق نہیں ،البتہ
حاالت کی سنگینی کے تحت قاضی اس میں فساد فی االرض کے جرم کو شامل کرسکتا ہے لیکن دونوں جرائم کو خلط ملط کرنے
کی بجائے اُنہیں قرآنی سیاق میں ہی رہنے دیا جائے کیونکہ ہر دو نوعیت کے جرائم کے احکام،طریقہ ثبوت اور حکمتیں علیحدہ
علیحدہ ہیں ۔
الغرض شریعت اسالمیہ کے موقف اور مجوزہ ترامیم میں دو اساسی فرق ہیں :
()1جرم کی بعض صورتوں میں دو تین جرائم کا ارتکاب ہوسکتا ہے مثال کسی واردات میں چوری اور زنا دونوں جمع ہوسکتے
ہیں لیکن دونوں جرائم کی تفصیالت اپنی اپنی جگہ باقی رہتی ہیں ۔ جبکہ مجوزہ ترامیم میں زنا بالجبر کو ایک مستقل جرم قرار
دے کر حرابہ بنایا جارہا ہے اور اس طرح زنا کو اس نصاب شہادت اور سزا سے نکاال جارہا ہے جو اسالم نے مقرر کی ہے۔ یہ
موقف درست نہیں ۔ موالنا عبد الرحمن مدنی کا محدث (شمارۂ جون) میں اس پر موقف شائع ہوچکا ہے :
''زنا بالجبر کا جرم حرابہ سے کوئی تعلق نہیں ،زنا کی سزا قرآن وسنت میں واضح طورپر بیان کردی گئی ہے ،اس میں سے زنا
بالجبر کو خاص کرکے حرابہ کے تحت داخل کرنے کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں ،نہ خلفاے راشدین کے دور سے
اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔'' 48
( )2اسالم کی رو سے ان دو جرائم کا اشتراک ہر زنا بالجبر میں نہیں بلکہ جہاں صورتحال میں شدت آجائے او ر خوف وہراس
(فساد فی االرض) پیدا ہو ،صرف وہیں ہوتا ہے۔ چونکہ مغرب میں زنا کا فلسفہ دراصل جبر کی بجائے محض عدم رضامندی کا
ہے ،اس لئے وہاں ہر صورتحال کی ایک ہی سزا ہے ،جبکہ اسالم میں محض سنگین صورتحال میں دو جرائم الگو ہوسکتے ہیں
یا محض اکیال جرم فساد فی االرض الگو ہوسکتا ہے ،جب چار گواہ موجود نہ ہوں ۔
''لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اس کی بجائے مجھے رجم کرو۔ میں نے یہ بد کاری کی ہے ،سو اس
نے اعتراف (جرم )کرلیا۔ اب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس 3لوگ موجود تھے ،ایک تو (بظاہر) زانی ،دوسرا جس نے
اعتراف کیا اور تیسری (مظلوم) عورت۔ آپ نے فرمایا :اے عورت تو چلی جا ،تجھے ہللا نے معاف کردیا۔ جس شخص نے اعترا
ف کیا ،آپ نے اس کے لئے بھی اچھے کلمات کہے۔حضرت عمر کہنے لگے :اس کو تو رجم کریں جس نے زنا کا اعتراف کیا
ہے تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے جواب دیا :نہیں بلکہ اس نے ہللا کے ہاں توبہ کی ہے ،سو آپ نے سب کو چھوڑ دیا۔''
او رمسند احمد میں اس حدیث کے راوی محمد بن عبد ہللا بن زبیر بھی کہتے ہیں :
فقد صرح ابن الزبیر بأن الحد لم یقم علی المعترف وھو الصواب
''ابن زبیر نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اعتراف کرنے والے پر حد قائم نہیں کی گئی اور یہی بات درست ہے۔'' 50
امام بیہقی نے اپنی سنن میں بھی اس حدیث سے یہی استدالل کیا ہے ،لکھتے ہیں :
فعلی ھذہ الروایة یحتمل أنه إنما أمر بتعزیرہ ویحتمل أنھم شھدوا علیه بالزنا وأخطأوا في ذلك حتی قام صاحبھا فاعترف بالزنا وقد وجد
مثل اعترافه من ماعز والجھنیة والغامدیة ولم یسقط حدودھم أحادیثھم أکثر
''اس روایت کی بنا پر احتمال ہے کہ آپ نے اس پر تعزیر کا حکم لگایا ہو۔ کیونکہ امکان ہے کہ گواہوں نے زنا کی گواہی میں
غلطی کھائی ہو اور اصل مجرم نے خود ہی زنا کا اعتراف کیا ہو۔ (تعزیر قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ) ماعز ،جہنیہ ،غامدیہ
وغیرہ نے بھی ایسا اعتراف کیا لیکن ان کی حدود کو تو ساقط نہیں کیا گیا۔''51
ممکن ہے یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ دوسرے ملزم کے اعتراف کے بعد اسے حرابہ (تعزیر ) میں لے جانے کی ضرورت ہی
نہیں رہتی بلکہ حد کے تقاضے(چارگواہ یا اعتراف) پورے ہوجاتے ہیں ۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں دو مردوں کا اعتراف ثابت
ہورہا ہے ،پہلے کا اعتراف زبان حال سے اور دوسرے کا زبان قال سے۔ایک طرف یہ دونوں اعتراف ٹکڑا رہے ہیں تو دوسری
طرف یہ بھی احتمال ہے کہ دوسرے نے محض پہلے کو بچانے کی خاطر یہ اعتراف کرلیا ہو۔ اس بنا پر شبہ پیدا ہوگیا اور شبہ
میں بھی حدود ساقط ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے حرابہ کی تعزیر کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔اورتعزیر میں قبل از گرفتاری توبہ یا { َو َم ْن
أَحْ یَاھَا فَ َكأَنَ َما أَحْ یَا النَ َ
اس َجمیعا} کے تحت ا س کو بھی معاف کردیا گیا ہو۔ وہللا اعلم
حدود قوانین میں بالغ لڑکی پر مقدمہ بنادیا جاتا تھا اور اس عمر میں ذ ہنی بلوغت نہیں ہوپاتی جبکہ لڑکے کے لئے کم از کم 18
سال کی عمرمتعین کی گئی تھی۔ چنانچہ 'موجودہ' قانون میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے عمر کا تعین 18سال کردیا گیا ہے۔
تبصرہ :یہ ترمیم بھی عجیب ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ زنا کا تعلق ذ ہنی بلوغت کی بجائے جسمانی بلوغت سے ہے۔مغربی
ممالک کے اعداد وشمار پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سکول کی تعلیم کے دوران ہی کتنے بچے جنسی تعلقات قائم کرلیتے ہیں
اور کتنی لڑکیاں اسی عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں جبکہ سکول کی تعلیم کا مرحلہ 18سال سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔
اسالم نے جسمانی صالحیتوں کے لئے عالمات بلوغ کو ہی بنیاد بنانے کو ترجیح دی ہے۔ جیساکہ حضرت عبد ہللا بن عمر کا واقعہ
ہے کہ
عرضت علی رسول اہللا یوم أحد وأنا ابن أربع عشرة فلم یجزني ولم یرني بلغتُ ثم عرضت علیه یوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة
فأجازني
'' مجھے جنگ اُحد کے موقع پر نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس الیا گیا اور اس وقت میری عمر 14برس تھی ،تو ؐ
آپ نے
نہ تو مجھے اجازت دی اور نہ ہی مجھے دیکھا کہ میں بالغ ہوا ہوں ؟ پھر دوبارہ مجھے جنگ احزاب کے موقع پر الیا گیا جبکہ
آپ نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔''52 میری عمر 15برس ہوچکی تھی تو ؐ
صحیح مسلم میں ہے کہ جب میں نے عمر بن عبد العزیزکو یہ واقعہ بتایا تو آپ نے فرمایا:
ازروئے اسالم جرم پر مسئولیت کا تعلق مردوزن ہر دو کے لئے عمرکی بجائے جسمانی عالمات بلوغ سے جوڑنا زیادہ بہتر
ہے۔54
( )1پاکستان کا عائلی قانون تو لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر 16سال اور لڑکے کی 18سال بتاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ
اس عمر میں لڑکی سے جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ اس ترمیم میں یہ عمر 18سال ذکر کی گئی ہے ،گویا یہ ترمیم
عائلی قانون سے ہی متصادم ہے ۔
( )2مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 83کی رو سے 7سے 12سال کے بچے کو فوجداری مسئولیت سے مستثنی کیا گیا ہے،
اس سے بڑی عمر کے بچے کو یہ رعایت حاصل نہیں ۔ زنا کے جرم کو ہی ایسی رعایت کیوں کہ اس کی سزا کے لئے 18سال
کی شرط لگا دی جائے۔
( )3اس ترمیم کو تسلیم کرلینے سے 18سال سے چھوٹے لڑکے ؍ لڑکیوں کے جنسی تعلقات قانون کی گرفت سے باہر نکل جائیں
گے۔ اس عمر میں گناہ کی کھلی چھوٹ سے جس زندگی کی عادت پیدا ہوگی ،بعد میں اسے کیوں کر روکا جاسکتا ہے ؟
( )4یہ قانون فطرت کے خالف ہے جس میں لڑکیاں لڑکوں سے پہلے بالغ ہوجاتی ہیں ۔ ایسے ہی لڑکے تو بلوغت کے بعد ہی
جنسی فعل کی صالحیت حاصل کرتے ہیں جبکہ لڑکیوں سے بلوغت سے قبل بھی جنسی فعل کیا جانا ممکن ہے ،گو مجرمانہ ہی
سہی۔اس لحاظ سے بھی سابقہ قانون میں لڑکیوں کو قانونی داد رسی ملنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔
زنا کا تعلق بنیادی طورپر ذہنی بلوغت کی بجائے جسمانی صالحیت سے ہے جو مختلف عالقوں ،موسموں اور ماحول کے نتیجے
میں مختلف عمروں میں حاصل ہوتی ہے۔اس کی ایک عمر مقرر کردینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بعض لڑکے جرم کی صالحیت
تورکھیں گے ،لیکن جرم کے ارتکاب کے باوجود قانون ان پر گرفت نہیں کرسکے گا۔
( )5اس کو ذہنی بلوغت سے جوڑنے کی وجہ پر غور کریں کہ اس فعل میں کونسی ذہنی صالحیتوں کا اظہار مقصود ہے کہ اس
کو ذہنی بلوغت سے جوڑا جائے؟ صاف نظر آتا ہے کہ اس کے پس پردہ دراصل زنا کے بارے میں وہی رضامندی کا فلسفہ
کارفرما ہے کہ چونکہ آج کل اس عمر سے قبل رضامندی یا عدم رضامندی کا اعتبار نہیں کیا جاتا ،اس لئے یہ عمر مقرر کی
جائے۔
اس ترمیم کے ذریعے حدود آرڈیننس کی دفعہ 5اے میں تبدیلی مقصود ہے جس میں ہے کہ
''وہ مرد موجب حد ہے جو اپنی منکوحہ کے عالوہ کسی بھی بالغ یا نابالغ لڑکی سے مباشرت کرے۔''
غور کریں کہ کیا اس شق میں عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز برتا گیا ہے یا ان کے مفاد کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ
زنا سے اصل نقصان کس کو ہے ،مرد کو یا عورت کو؟ ظاہر ہے کہ کنواری لڑکی کے لئے اس کا نقصان،حمل کی ذمہ داری اور
بدنامی وغیرہ کا مرد سے کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔ اس لئے حدود قوانین میں لڑکیوں کو تحفظ دیتے ہوئے ان کے خالف اوائل
عمری میں ہی ہونے والے جنسی تشدد کو بھی قابل سزا قرار دیا گیا ہے۔اس دفعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی کمیشن برائے
خواتین نے یہ تجویز کیا ہے کہ یہاں عورت کے ساتھ بالغ کا اضافہ کیا جائے۔اگر اس ترمیم کو تسلیم کرلیا جائے تو 18سال سے
کم عمر کی لڑکیوں کو حدود قوانین کا تحفظ حاصل نہیں رہے گا۔کیا یہ تجویز دانشمندی پرمبنی ہے یامحض مرد عورت میں
مساوات کی ایک مجنونانہ خواہش!
پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے سیشن کورٹ کے پاس زنا کی شکایت درج ہوگی جس میں چار گواہ اور
شکایت کنندہ کے بیانات موقع پر ہی درج ہوں گے۔
تبصرہ :اس ترمیم کے ذریعے یہ قانون سازی کی جارہی ہے کہ وقوعہ کی رپورٹ کے لئے بھی چار گواہ ضروری ہوں ،جبکہ
اسالم کی رو سے چار گواہ وقوعہ کی رپورٹ کی بجائے زنا کی سزا سنانے کے لئے ضروری ہیں ،جرم کی نشاندہی تو کوئی
ایک فرد بھی کرسکتا ہے۔55
جہاں تک موجودہ قانون کا تعلق ہے تواس کی رو سے بھی زنا سے سنگین سزائوں مثال قتل اور بغاوت کے لئے رپورٹ کا یہی
طریقہ موجود ہے۔ یوں بھی کسی جرم کے لئے بھی آغاز میں تمام گواہیاں طلب نہیں کی جاتیں ۔کسی کیس میں دو مرحلے ہوتے
ہیں :ایک وقوعہ کی رپورٹ کا اور دوسرا وقوعہ کے ثبوت کا جو عدالت کاکام ہے اور یہاں گواہی کی تفصیالت کے پیش نظر
مجرم کو سزا سنائی جاتی ہے جبکہ پولیس کا کام محض ایف آئی آر (فرسٹ انکوائری رپورٹ) درج کرنا ہے ،نہ کہ گواہوں کی
جانچ پڑتال کرنا۔ مذکورہ ترمیم پر اعتراضات حسب ذیل ہیں :
()1جب زنا سے بھی سنگین جرائم کے لئے ایسا ضروری نہیں تو پھر زنا بالرضا کے ساتھ ہی یہ امتیازی سلوک کیوں ؟اگر
پولیس رپورٹ کرنے والوں کو خراب کرتی ہے تو پولیس میجر ایکٹ کی اصالح کی ضرورت ہے ،نہ کہ ایسی ترمیم کہ قانون پر
عمل درآمد ہی ممکن نہ رہے۔
( )2زنا بالجبر کے لئے موجودہ قانون اور مجوزہ ترمیم میں یہ شرط نہیں رکھی گئی تو پھر زنا بالرضا کے لئے ہی یہ طریقہ کار
کیوں اختیار کیا جارہا ہے؟ اس کامقصد دراصل مدعی کوہراساں کرنا ہے تاکہ وہ ایسا کوئی مقدمہ درج کرانے سے پہلے ہی گھبرا
جائے۔ کیونکہ عدالتوں کی موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ آج کوئی بھی عدالتوں میں گواہی کے لئے آنے پر تیار ہی نہیں ہوتا۔
( )3بنیادی طورپر رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ معاونت ہے کہ اُنہیں ایک جرم کے وقوع کی نشاندہی کی
جارہی ہے لیکن اس ترمیم کے ذریعے گویا زنا کے ملزموں کو تادیبی کاروائی کرنے کی بجائے سب سے پہلے رپورٹ کرنے
والے کو ہی مجرم بنایا جارہا ہے کہ وہ اس واقعہ کو ثابت کرے ،وگرنہ ازخو دالگو ہونے والی قذف کی سزا بھگتے جس کی سزا
ایک اور ترمیم کی رو سے 7سال قید کی جارہی ہے۔ 56
ایسے واقعات کی رپورٹ پولیس کو کرنا چاہئے ،اگر پولیس کو اس سارے عمل سے نکال لیا گیا تو پھر معاشرے میں پھیلی
بدکاری کی روک تھام ہی ممکن نہ رہے گی۔ اگر یہ ترمیم کر دی جاتی ہے تو عمال معاشرے میں قحبہ گری کو فروغ حاصل
ہوگا ،کیونکہ وہاں ہونیوالے زنا بالرضا کے خالف خال ہی کوئی شخص سیشن کورٹ میں رپورٹ کرائے گا ،اور نہ اسے چار
گواہ میسر ہوں گے۔
()4یہ درست ہے کہ اس کے لئے چار گواہ ضروری ہیں ،لیکن گواہ پورے نہ ہونے پر مبادیات زنا کے جرم کی سزا بھی دی
جاسکتی ہے ،ایسی صورت میں یہ جرائم بھی قابل دست اندازی نہ رہیں گے۔ اسالم اورحدود قوانین نے اس کا حل قذف کی شکل
میں پیش کیا ہے ،اگر قذف کی حد عمال جاری کردی جائے تولوگ خود ہی الزام بازی سے رک سکتے ہیں ۔
()5مقدمہ کے اندراج کے وقت ہی چار گواہوں کی شہادت عائدکرنے کی وجہ وہی ہے جس کا تذکرہ روزنامہ جنگ میں 14؍جون
کو شائع شدہ مجوزہ ترامیم کے ضمن میں کیا جاچکا ہے:
''علم اور تجربے سے ثابت ہوچکا ہے کہ زنا کو اس طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ '' 57
( )6حدود آرڈیننس میں اس ترمیم کی اصال کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل 'کریمنل الء ترمیمی بل 2004ئ' کی
رو سے ' 156بی' کے تحت یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ ''زنا کے جرم کی تفتیش سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے کم رتبے کا پولیس
آفیسر نہیں کرے گا ،نہ ہی ملزمہ عورت کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار کیا جاسکے گا۔'' دو سال قبل اس بل کی منظوری
کے بعد عمال مزید ترمیم کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
حدود آرڈیننس میں مزیدبھی کئی ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن میں ایک مالی معامالت میں مرد عورت کی برابر گواہی کے
حوالے سے ترمیم ہے۔ یہ ترمیم بھی قرآن کریم کی واضح آیت مداینہ (البقرة)282:اور صریح احادیث کی کھلم کھال خالف ورزی
ہے۔ایسے ہی لعان کے شرعی طریقہ میں تبدیلی ،مسلم فریقین کے لئے غیر مسلم جج حضرات کی اجازت ،زنا اور قذف کے
عالوہ کوڑوں کی تمام سزائوں کا خاتمہ (جن میں شراب کی سزا بھی شامل ہے ،کیونکہ وہ بھی کوڑوں کی شکل میں دی جاتی
ہے)۔از خود قذف کی کاروائی کا مطالبہ ،ایسے ہی تہمت لگانے کے دعوی پر دو افراد کی شہادت کا خاتمہ اور صرف عدالت کی
مطلوبہ شہادت پر اکتفا وغیرہ کی ترامیم وغیرہ۔ ان ترامیم کے رجحانات اور شرعی حیثیت بخوبی واضح ہیں ،اختصار کے پیش
نظر اس بحث کو یہیں پرختم کیا جاتا ہے۔
اختتامیہ:اوپر چار ترامیم کے بارے میں اسالم کا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ترمیم
ایسی نہیں جسے کتاب وسنت کی روح سے ہم آہنگ قرار دیا جاسکے۔ اسالم نے جس انداز سے ان جرائم کے خاتمے کا رویہ اپنایا
ہے ،ان ترامیم کے ذریعے اسالم کے نام پر بنائے گئے قوانین میں بھی جرائم کے خاتمے کے لئے نہ صرف مغربی اُسلوب قانون
اپنایا جارہا ہے بلکہ تجویز کی جانے والی سزائیں بھی خالف اسالم ہیں ۔
سوچنے کا مقام ہے کہ حدود قوانین میں اس ترمیم کی کونسی ہنگامی ضرورت پیش آگئی اور کیا پاکستان میں یہ واحد قانون ہی
ایسا ہے جس میں اصالحات کی گنجائش ہے۔ انگریزوں کا عطا کردہ مجموعہ تعزیرات جس سے پاکستان پینل کوڈ ماخوذہے،
کونسا مقدس صحیفہ ہے جو ہر قسم کی خطا سے پاک ہو۔ حدود قوانین میں مسائل کی بنیادی وجہ زیادہ تر پولیس کا نظام اور
مروجہ عدالتی طریقہ کار ہے جس سے مظلوم کی داد رسی انتہائی مشکل ہے۔کیا اس قانون کے تحت ملک میں ہر شخص کو عدل
وانصاف مہیا ہورہا ہے۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے عدل وانصاف کے ایوانوں کا ایک طائرانہ جائزہ لینا ہی کافی ہوگا۔
سسکتی انسانیت کو انصاف حاصل کرنے کے لئے کونسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ،اہل نظر بخوبی جانتے ہیں ۔
حدود قوانین پر ہی یہ عنایا ت اس لئے ہیں کہ یہی وہ قوانین ہیں جو اسالم کے نام پر نافذ کئے گئے ،ان پر اعتراض کرنے والے
وہی ہیں جنہیں وفاقی شرعی عدالت کا وجود بھی گوارا نہیں ۔ اُنہیں اسالم کے نام پر ہر قانون میں سو خرابیاں نظر آجاتی ہیں اور
ان کی ترمیم کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ ان قوانین کے بارے میں اکثر وبیشتر یہ الزام لگتا ہے کہ انہیں ایک آمر نے متعارف
کرایالیکن جنرل ایوب کے عائلی قوانین ہوں یا جنرل مشرف کی قتل غیرت یا توہین رسالت کے حوالے سے اسالم مخالف ترامیم،
وہاں کوئی بھولے سے بھی آمریت کا نام تک نہیں لیتا۔ یہی وہ 'منتخب اخالقیات' ہیں جن کا حدود قوانین کوسامنا ہے!!
قانون کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل وانصاف اور امن وامان کا قیام ہے۔ ہللا کی عطا کردہ یہ حدود ہمیشہ سے مسلم معاشروں
میں امن کی ضامن رہی ہیں اور آج بھی دنیا کی واحد ریاست سعودی عرب جہاں یہ حدود نافذ ہیں ،اپنے امن وامان کے لحاظ
سے پوری دنیا کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے جس کی شہادت کئی معزز عدالتی شخصیات بھی دے چکی ہیں ،طالبان
کے چند سالہ نظام حکومت سے کئی اختالف کئے جاسکتے ہیں لیکن اُنہوں نے بھی اس عرصہ میں جس طرح امن وامان قائم کیا،
وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دوسری طرف مجموعہ تعزیرات پاکستان جس قانونی ماڈل کا نمائندہ ہے ،اس کے شاہکار مجموعہ ہائے
قوانین آج بھی امریکہ ویورپ میں امن وسکون قائم نہیں کرسکے۔ امریکہ میں امن وامان کی صورتحال کے لئے کسی ایک سال
کے جرائم کی رپورٹ پر ایک مختصر نظرڈال لینا ہی کافی ہوگا۔ دراصل حدود قوانین کے بارے میں اصل مسئلہ ترمیم اور
اصالح کا نہیں بلکہ ان اعتراضات کے بہانے الہی احکام کی بجائے انسانی قانون کو رواج دینے کی ایک کوشش ہے۔
حضرت انسان کی نظر میں بعض چیزیں جرم نہیں ہونی چاہیے جبکہ خالق انسان کی نظر میں وہ سنگین ترین جرم ہیں ۔ ان ترامیم
پر معمولی غور کے بعد بآسانی یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا رخ کس طر ف ہے؟ تعمیر کے نام پر تخریب اور اصالح کے نام
پر معاشرے کو بے خدا بنانے کی یہ کوششیں اہل ایمان سے مخفی نہیں رہ سکتیں ۔اگر ان قوانین میں اصالح کی کوئی ضرورت
ہے تو اس کے لئے مناسب پلیٹ فارم ٹی وی چینل اور اخبارات نہیں بلکہ اہل علم اور ماہرین قانون وشریعت کی مجالس ہیں ۔
اوریہی بات سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے کہی ہے :
''کراچی ،جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت حدود قوانین کے لئے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرے۔ دستور
پاکستان میں موجود اسالمی حدود کے قوانین میں کوئی سقم نہیں ہے۔ حدود ہللا کے قوانین ختم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
مگر ان کے نفاذ میں دشواریاں یا شکایات دور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ان خیاالت کا اظہار اُنہوں نے جمعہ کے روز ویمن
کمیشن سندھ کے تحت سیمینار 'حدود آرڈیننس :اعتراضات اورحقائق' سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔'' 58
حوالہ جات
.2سروے :ویمن ایڈ ٹرسٹ ،کتابچہ 'حد زنا آرڈیننس ؛ اعتراضات کی حقیقت ' :ص 39
.5کتابچہ' :زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ' ،ص 2شائع کردہ :عورت فائونڈیشن
.6صحیح بخاری ،موطا امام مالک:کتاب الحدود ،رقم ،15مصنف عبدالرزاق13468 :
.12صحیح بخاری :کتاب الحدود ،باب کراھیة الشفاعة في الحد ،رقم 6788
.14دیکھئے کتاب 'اسالمی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب' میں انٹرویو ،ص 84
.15صحیح بخاری،88:المغنی14 :؍ ،134الطرق الحکمیة :ص ،72تفصیالت :والیة المرأة :ص287
.16کتابچہ' حدود قوانین اور این جی اوز' مرتب ڈاکٹر عبد ہللا خان:ص12
.21مسلم1498 :
.26المغنی14 :؍125
.27الموسوعة الفقھیة24:؍37
.28ال ُمحلٰی9:؍ 397تا 8 ،403؍ ،488 ،476ال ُمغنی9 :؍ ،148طرق الحکمیة179 :
.33ص 19
.41ج12؍ص28
.43ج6؍ص 23
.44اْلم :ج3؍ص264
.45مسند احمد ،897 ،1129 :صحیح بخاری6812 :
.48صفحہ41:
.49سنن بیہقی8:؍285
.54اسالم کا فوجداری قانون ازجسٹس عبد القادر عودہ رحمۃ ہللا علیہ 1 :؍712
.55دیکھیں صفحہ 10پر درج احادیث میں نشان زد الفاظ :ایک شخص اورایک عورت
.57مسئلہ نمبر8
.iاخبارات کے مطابق عورتوں کی رہائی کے اس صدارتی آرڈیننس کو شعیب اورکزئی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے
جبکہ مجلس عمل نے اسے پارلیمنٹ کے اختیارات پر ڈاکہ قرار دیا ہے لیکن ا س کے باوجود مجرم خواتین کی رہائی کا عمل
جاری ہے۔
.iiحدود قوانین پر یہ اعتراض بھی کیا جاتاہے کہ ان کے نفاذکے لئے مناسب فضا او رماحول کو مدنظر نہیں رکھا گیا ،یہی وجہ
ہے کہ اس کے بعد زنا کے کیسوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ جبکہ یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں ۔ اول تو قانون کی ضرورت
ہوتی ہی اس وقت ہے جب حاالت زیادہ خراب ہوں ۔ اس وقت محض وعظ وتبلیغ کی بجائے قانون کی مدد ا ور قوت سے بھی اسے
روکنا پڑتا ہے۔ جب چوری بڑھ جائے تو کیا چوری کا قانون ختم کردینا چاہئے یا اس کو مزید قابل عمل اور سخت بنانا
چاہئے۔حدود قوانین کے نفاذ کے وقت جرائم کا زیادہ ہونا بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ سابقہ قوانین ان جرائم کوروکنے میں ناکام
ہوچکے تھے ،اسی لئے اُن جرائم کی بہت کثرت ہوگئی تھی چنانچہ جرائم کے خاتمے کے لئے ہللا کے دیے ہوئے قوانین کو نافذ
کیا گیا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حدود قوانین کے بعد ان جرائم میں مزید اضافہ ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے زنا قانونا جرم
ہی نہیں تھا ،اس کا پہلے قانونی اندراج ہی نہیں ہوتا تھا ،جب اندراج ہونا شروع ہوا تب تو الزما سابقہ صورتحا ل میں اضافہ ہی
محسوس ہوگا۔ گویا اس جرم کی باقاعدہ رپورٹنگ کا آغاز ہی 1979ء کے بعد ہونا شروع ہوا۔تاہم یہ بات درست نہیں کہ اس کے
بعد زنا کے جرائم میں اضافہ ہوا جیسا کہ ہندوپاک میں زنا کے جرائم کے ایک تقابلی مطالعے سے واضح ہے کہ 1991تا
1995ء کے دوران بھارت میں اس جرم میں 4ئ 40فیصد جبکہ پاکستان میں محض 4ئ 8فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔('حدود
آرڈیننس ،نفاذ کے 25سال' از شہزاد شام)
یہ بھی واضح رہے کہ بھارت کے اعداد وشمار پاکستان کے برعکس صرف زنا بالجبر کے ہیں کیونکہ پاکستان کے سابقہ قانون
کی طرح بھارت میں زنا بالرضا جرم ہی نہیں ہے اوریہی صورت حال مغرب میں بھی ہے۔
.iiiبعض لوگ یہ بھونڈی دلیل بھی دیتے ہیں کہ برائی سے رکنا انسان کا اپنا فرض ہے؛ جو نہیں رکنا چاہتا ،ا س کو قانون بھی
نہیں روک سکتا۔اول تو یہ نکتہ (معاذ ہللا) ہللا تعالی کو نہیں سوجھا کہ اُنہوں نے بالوجہ انسانوں کو یہ حدود ہللا عطا کردیے ،پھر
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہماری حکومتوں نے باقی جرائم کے لئے قانون سازی کیوں کررکھی ہے،اُنہیں بھی انسانوں کے
شعور اور پسند وناپسند پر کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا۔اگرجرائم کے بارے میں یہی رویہ ہونا چاہئے تو حکومت ،عدلیہ اور پولیس
کی پھر کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟دیگر جرائم کی روک تھام کے لئے تو قوانین کوسخت کیا جاتا ہے جبکہ حدود قوانین میں
یہ منطق اُلٹ کردی جاتی ہے،کیوں ؟؟
.ivحدود قوانین میں بھی عورت کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ قانون قذف کی رو سے صرف عورت ہی مرد کے خالف تہمت
لگانے کا دعوی کرسکتی ہے جبکہ یہ قانون مرد کوعورت کے خالف یہ حق نہیں دیتا۔(دیکھیں :انٹرویو امان ہللا بلوچ ایڈووکیٹ'،
حدود قوانین او راین جی اوز' :ص )21
.vموطأ امام مالک میں ہے کہ عبد الملک بن مروان نے زانی پر مجبور کی جانے والی عورت کا حق مہر عائد کیا۔(رقم)1218 :
حضرت عمر کے دور میں ایک شخص نے جبرا عورت سے زنا کیا تو آپ نے زانی پر حد لگانے کے عالوہ اسے عورت کی
ثلث دیت ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔(مصنف عبد الرزاق )13663 :حضرت علی اور ابن مسعود کا یہ موقف ہے کہ کنواری سے
زنا بالجبر کی صورت میں اسے کنواریوں کا مہر مثل اور شادی شدہ سے زنا بالجبر کی صورت میں شوہر دیدہ کا مہر مثل ادا
کرنا ہوگا۔(ایضا )13657 :امام زہری اور قتادہ نے بھی جبر کی صورت میں زانی پر مہر ادا کرنے کا حکم لگایا ہے۔ البتہ قتادہ
کے نزدیک جبر کی عالمت یہ ہے کہ عورت چیخ وپکار کرے (ایضا )13656 :امام مالک اورامام شافعی کا موقف یہ ہے کہ مہر
متاثرہ عورت کو ہی ادا کیا جائے گا۔ (المغنی )3967 :مزید دیکھئے :المغنی 347،348 ،17112 :اور ، 360طبع مؤسسة ہجر،
قاہرہ
.viیہی وجہ ہے کہ اسالم میں زنا بالجبر کے لئے کوئی مستقل اصطالح بھی نہیں ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کے لئے اغتصاب
المرأةکی اصطالح پیش کی ہے جبکہ یہ ترکیب 'بطور اصطالح' بالکل اجنبی ہے اورقرآن ،حدیث ،فقہ اور تاریخ کی بنیادی کتب
میں اس اصطالح کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
.viiایک جرم کے دو معیار شہادت پر دو علیحدہ سزائیں دینے پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی جرم یا
تو ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کا کیا مطلب ہوا کہ زنا تو ثابت نہیں ہوا لیکن اس کو تعزیری طورپرسزا دے لی جائے۔ دراصل یہاں ایک
غلط فہمی موجو دہے کیونکہ تعزیر کی صورت میں اسکو زنا کی بجائے چھیڑ چھاڑ ،سیہ کاری یا بوس وکنار کا مجرم سمجھا
جائے گا۔ فعل زنا کی سزا تو واضح اور ناقابل تغیر ہے ،البتہ مبادیات زناکی تعزیرا کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ جسٹس محمد
تقی عثمانی اور جماعت الدعوة کے مفتی عبدالرحمن رحمانی نے اس کی یہی توجیہ کی ہے۔ ('حدود قوانین؛ موجودہ بحث' از
جسٹس تقی عثمانی ص ،29اورمجلة الدعوة :جوالئی 2006ئ ،ص) 11
جسٹس (ر) جاوید اقبال کے الفاظ میں '':جدید کریمنل جورسپروڈنس میں 'اوتو فواس ایکوٹ' کا عام اُصول ہے یعنی اگر شہادت کی
روشنی میں جرم ثابت نہ ہو تو ا س جرم سے بری کئے گئے ملزم کو اسی شہادت کی بنا پر دوبارہ ملزم گردان کر اور قسم کی
سزا نہیں دی جاسکتی۔'' ('زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ ' :ص)8
حدود قوانین پر یہ اعتراض جدید اُصول قانون کی روشنی میں ہے۔ اول تو یہ گنجائش اسی قانون میں موجود ہے نیزاسالمی
شریعت کے احکام اور ان کے نفاذ کا طریقہ جدید مغربی قانون سے مختلف ہے۔ مثال جدید قانون کی رو سے جرم زنا ثابت نہ
ہونے پر تہمت لگانے والے پر از خود قذف کی کاروائی شروع نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے الگ سے قذف کا کیس کرنا پڑے گا،
جبکہ اسالم کی رو سے دوسرے کیس کی ضرورت نہیں بلکہ قاضی کو خود ہی اس تادیبی کاروائی کو اختیار کرلینا چاہئے۔ جیسا
کہ حضرت عمر نے مغیرہ بن شعبہ پر تہمت لگانے والوں کے خالف از خود قذف کی کاروائی کردی۔(دیکھیں حاشیہ صفحہ
نمبر )21البتہ اس سقم کی وجہ حدود قوانین کی بجائے ہمارے ہاں مروجہ مغربی نظام عدل کیہے کہ زیربحث قانونی دفعہ کی
سماعت پر ہی کیس ختم ہوجاتا ہے او ردوبارہ نیا کیس داخل کرنا پڑتا ہے لیکن اسے حدود قوانین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اس اختالف کی بنیادی وجہ ہردو قوانین کے مقصد اور طریق کار میں فرق ہے۔ اسالمی قانون 'حقیقی انصاف'Real Justiceکا
داعی ہے اورمغربی قانون 'ضابطہ جاتی انصاف' Formal Justiceکا۔
.viiiدیکھئے کتابچہ 'حدود قوانین ؛موجودہ بحث ' از جسٹس تقی عثمانی شائع کردہ ،IPSص 19
' .xمسئلہ شہادت نسواں اورغامدی نظریات' از حافظ صالح الدین یوسف (محدث :جنوری 1992ئ،ص )96
.xiحضرت عمر کے سامنے مغیرہ بن شعبہ پر زنا کا الزام لگایا گیااور تین شخصوں نے گواہی دی :ابوبکرہ ،نافع اور شبل بن
معبد مگر چوتھے شخص زیاد بن ابیہ نے وقوعہ کی عملی تفصیالت کی گواہی نہ دی تو عمر نے تینوں پر حد قذف جاری
کی۔(بخاری تعلیقا قبل حدیث ،2648ابن ابی شیبہ ،28824 :رواء الغلیل)2679:
.xiiجیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ حدود قوانین میں زنا کی یہ دوقسمیں (زنا بالرضا اور زنا بالجبر) حدود ہللا کی بجائے تعزیرا
مقرر کی گئی ہیں ۔اور شرعا محتاط رویہ یہی ہے کہ انہیں زنا سے موسوم کرنے کی بجائے مبادیات زنا یا فحاشی وسیاہ کاری
وغیرہ سے موسوم کیا جائے اور عدالتی فیصلوں وغیرہ میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں سمجھا جائے۔
شمارہ 302
ء میں وطن عزیز کو جہاں آئین اور جمہوریت کے حوالے سے گونا گوں صدمات برداشت کرنا پڑے ،وہاں پاکستان میں 2003
1980ء کی دہائی میں نافذ ہونے والے اسالمی قوانین پر بھی مغرب نواز حلقوں کی جانب سے حکومتی سطح پر نفوذ کرنے اور
ان قوانین کو ختم کروانے کی مؤثر کوششیں کی گئیں ۔ ان کوششوں اور دباؤ کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے
'نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن' کی چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی کو حدود قوانین کا جائزہ لینے اور سفارشات مرتب
کرنے کا فریضہ سونپا۔ اس کمیشن کے ارکان کو نامزد کرنے کا اختیار بھی جنرل پرویز مشرف کو حاصل تھا۔
کمیشن نے حدود قوانین کااپنے طور پر جائزہ لیا اور حکومت کو سفارش کی کہ ان قوانین میں تبدیلیوں یا ترمیمات سے عورتوں
کے حقوق پر پڑنے والے اثرات ختم نہیں ہوسکتے ،اس لئے ان قوانین کو سرے سے ختم کردینا مناسب ہے۔ کمیشن کے صرف دو
ارکان نے اس سفارش کی مخالفت کی اور اس میں مناسب ترامیم کو ممکن قرار دیا۔ ویمن کمیشن کی سفارشات پریس میں آتے ہی
ملک بھر میں ان سفارشات کے خالف ردعمل ظاہر ہونا شروع ہوا اور اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ جسٹس (ر) واجدہ
رضوی اس ردعمل پر اپنا جوابی رد عمل نہایت سخت الفاظ میں ظاہر رہی ہیں اور اسی بات پر مصر ہیں کہ حدود قوانین سراسر
)غیر اسالمی ہیں اور انہیں کوئی وقت ضائع کئے بغیر قلم زد کردینا چاہئے۔ (روزنامہ 'نیشن'16 :؍اکتوبر 2003ئ
بلوچستان سے صوبہ سرحد تک کمیشن سفارشات کی مخالفت کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ بعض حکومتی حلقے حدود قوانین کو
ختم کرنے کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی
کے نام Protection & Empowerment of Women Act, 2003پارلیمنٹرین کی ایک رکن قومی اسمبلی شیری رحمن نے
سے ایک قانونی بل قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں داخل کیا ،جس میں دیگر بہت سی باتوں کے عالوہ حدود قوانین کے خاتمے
:کی شق بھی شامل ہے۔ دیگر باتوں میں مندرجہ ذیل اُمور شامل ہیں
فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبائی سروس کمیشنوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ مالزمتوں میں خواتین کی 3؍ 1نمائندگی ۔ 1
کو یقینی بنائیں اور یہ قانون یکم جنوری 2005ء سے مؤثر اور نافذ کیا جائے۔
۔ ایک جیسی مالزمت میں جنس کی بنیاد پر تنخواہ کا فرق ختم کیا جائے کیونکہ یہ عمل عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے 2
مترادف ہے۔
خواتین پر گھریلو تشدد اور جسمانی ایذا رسانی کو تعزیرات پاکستان کے تحت قابل سزا قرار دیا جائے اور جو شوہر اپنی ۔ 3
بیوی سے ایسا سلوک روا رکھیں ،انہیں تین سال قید اور پانچ الکھ تک جرمانہ کی سزائیں دی جاسکیں ۔
۔ قتل غیرت کو عام قانون کے مطابق قتل عمد تصور کیا جائے اور یہ جرم کرنے والوں کو سزاے موت کی سزا دی جائے۔4
ہر عورت کو اپنی مرضی کی شادی کرنے کا حق تسلیم کیا جائے ،اور اگر کوئی شخص ایسی شادی میں رکاوٹ بن رہا ہو ،۔ 5
دباؤ ڈال رہا ہو یا زبردستی کررہا ہو تو اسے مجرم قرار دیتے ہوئے ایک سال تک کی سزائے قید دی جائے اور جرمانہ عائد کیا
جائے۔
۔ اگر کوئی عورت چولہے سے آگ لگنے کے سبب فوت ہوجائے تو اس کے خاوند کے خالف اسے جان سے مارنے کا مقدمہ 6
درج کیا جائے۔ اگر حادثے کے وقت خاوند گھر میں موجود نہ ہو تواس خاندان کے مرد سربراہ پر یہ مقدمہ چالیا جائے اور اسے
وہی سزا دی جائے جو قتل کے جرم پر دی جاتی ہے۔
ہر جیل میں عورتوں کے لئے بالکل علیحدہ حصہ بنایا جائے۔ جس کا انتظام و انصرام بھی مکمل طور پر عورتوں کے ہاتھ ۔ 7
میں ہو اور عورتوں کے معامالت کو چالنے کے لئے علیحدہ خاتون انسپکٹر جنرل پولیس مقرر کی جائے۔ جسے وہی اختیارات
حاصل ہوں جو مرد انسپکٹر جنرل پولیس کو حاصل ہوتے ہیں ۔
اسالمی نظریاتی کونسل،پالننگ کمیشن ،بورڈ آف ڈائریکٹرز ،پی آئی اے اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن میں عورتوں کو ایک ۔ 8
تہائی نمائندگی دی جائے۔
حکومت اور ویمن کمیشن اس بل کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں ،اس کا اندازہ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں منعقد ہونے
والی ایک پریس کانفرنس سے لگایاجاسکتا ہے۔ یہ پریس کانفرنس پیپلزپارٹی ،پٹریاٹ کی جانب سے بالئی گئی تھی اور اس میں
محترمہ شیری رحمن نے حدود آرڈیننس کی تنسیخ اور پاکستانی خواتین کو قانونی طور پر طاقتور بنانے کے لئے اپنے پیش کردہ
بل کو ذرائع ابالغ میں متعارف کروایا۔ اس موقع پر ویمن کمیشن کی چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی بھی موجود تھیں ۔ لیکن
جب صحافیوں نے ان کی موجودگی کو ریکارڈ پر النے کے لئے ان سے حدود آرڈیننس پر اُن کی سفارشات کے بارے میں
سواالت کا سلسلہ شروع کیا اور اسالمی تاریخ سے ان قوانین پر عمل درآمد کے بارے میں مثالیں دیں تو انہوں نے فرمایا کہ ایسی
معدودے چند مثالیں مستثنیات کا درجہ رکھتی ہیں اور انہیں باقاعدہ قانونی روایت سمجھنا درست نہیں ہے۔
اس مرحلے پر مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ویمن کمیشن کی سفارشات پر عوامی ردعمل اور محسوسات کا ایک اجمالی جائزہ لے
لیا جائے تاکہ پاکستان کے عوام کے خیاالت ،احساسات اور حدود قوانین سے متعلق ان کے تاثرات کا ایک عکس قارئین کے
...سامنے آسکے
حدود آرڈیننس کی تنسیخ سے متعلق قومی کمیشن برائے خواتین کی سفارشات کے خال ف اسالم آباد میں 5ستمبر کومتحدہ مجلس
عمل کی خواتین ارکان پارلیمنٹ نے مظاہرہ کیا۔ مجلس عمل کی بڑی جماعتوں میں جمعیت علماے پاکستان ،جمعیت علماے اسالم
اور جماعت اسالمی شامل ہیں ۔ مجلس عمل پارلیمنٹ میں حکومتی جماعت کے بعد سب سے بڑی پارٹی ہے۔ مجلس عمل کی
خواتین ارکان پارلیمنٹ نے قومی کمیشن برائے خواتین کی سفارشات کو قرآن و سنت اور پاکستان کے آئین کے منافی اور ناقابل
عمل قرار دیا۔ ان ارکان پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ حدود آرڈیننس کے خاتمے کے بجائے اس میں موجود ابہام کو ختم کیا جائے۔
اس موقع پر جماعت اسالمی ،حلقہ خواتین کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے برابر ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام بھی کیا گیا۔
اسی روز قومی اسمبلی کے اجالس میں حکومتی پارٹی کے رکن اسمبلی کنور خالد یونس نے حدود آرڈیننس سے متعلق سفارشات
پر عمل درآمد کے لئے ایک 'توجہ دالؤ' نوٹس پیش کیا جس پر مجلس عمل کی خواتین نے ڈیسک بجا کر اس نوٹس پر اپنی
ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
اجالس کے بعد البی میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی محترمہ سمیعہ راحیل قاضی نے کہا کہ مجلس
عمل کی تمام خاتون ارکان اسمبلی کنور خالد یونس کے اقدام پر شدید احتجاج کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس نوٹس کے ذریعے
ہللا کے بنائے ہوئے قانون کو کالے قانون سے تشبیہ دی گئی ہے۔کنور خالد یونس کو چاہئے کہ وہ استغفار کریں اور تجدید ایمان کا
طریقہ اپنائیں ،کیونکہ ہللا تعالی کے قوانین سے روگردانی کرنے والوں پر ہللا کی طرف سے بنی اسرائیل کی طرح عذاب نازل
ہوگا۔
جماعت اسالمی حلقہ خواتین کی ارکان نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان خواتین کے مسائل اور مصائب کا حل
اسالمی تعلیمات میں پنہاں ہے ،لہذا مغرب زدہ روایات کو قوم پر مسلط کرنا اسالمی قوانین سے زیادتی کے مترادف ہے۔ اس سے
مسائل اور ناانصافیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور خواتین کے خالف ظلم اور استحصال کو مزید تقویت ملے گی۔
مجلس عمل کی ارکان پارلیمنٹ کے مظاہرہ 5؍ ستمبر کا جواب حدود مخالف خواتین این جی اوز نے 8؍ ستمبر کو دیا۔ اس روز
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (عاصمہ جہانگیرفیم) عورت فاؤنڈیشن اور دیگر تنظیموں نے جن کی تعداد ان کے اپنے دعوے
کے مطابق 30بنتی ہے ،پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ ترتیب دیا اور حدود آرڈیننس کی فوری تنسیخ کا مطالبہ کیا۔ مظاہرہ
کی قیادت حنا جیالنی ،شہال ضیا ،فرزانہ باری اور شہناز بخاری نے کی۔ مظاہرے میں عیسائی خواتین نے بھی بڑی تعداد میں
جوش و خروش سے حصہ لیا۔ یہ خواتین بڑھ چڑھ کر 'حدود آرڈیننس منسوخ کرو' اور 'حدود آرڈیننس نامنظور' کے نعرے لگا
رہی تھیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے مرد و زَ ن کارکن بھی مظاہرے میں بطور کمک شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایم
کیو ایم کے رکن اسمبلی کنور خالد یونس بھی موجود تھے۔ یاد رہے کہ انہی رکن اسمبلی نے قومی اسمبلی میں 'توجہ دالؤ نوٹس'
پیش کیا تھا جس میں حدود آرڈیننس پر ویمن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے بعد اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس مظاہرے کے دوران وزیراعظم میرظفر ہللا خان جمالی جو ادھر سے کار پر گزر رہے تھے 'اتفاق سے' رک گئے۔ انہوں نے
پرجوش مظاہرین کو حرف تسلی دیتے ہوئے کہا کہ حکومت حدود آرڈیننس میں تجویز کردہ ترامیم کے بارے میں نیشنل کمیشن
برائے اُمور خواتین کی سفارشات کو دیکھے گی اور ضروری اقدامات کرے گی۔ خواتین کے ہر جائز مطالبے کو پورا کیا جائے
گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت حقوق نسواں پر پورا یقین رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت کی سوچ مثبت ہے ،منفی نہیں ۔ اس
موقع پر مظاہرہ زن خواتین نے 'عورتوں کے خالف امتیازی قوانین ختم کرو' کے نعرے لگائے۔
اس واقعہ کے تقریبا 5ہفتے بعد اسالم آباد میں اعلی درجے کے دفاتر رکھنے والی این جی او 'سنگی' کے ایک اجالس میں اخبار
نویسوں کے سامنے حدود آرڈیننس کی تنسیخ سے متعلق اپنی رپورٹ کے خالف اسالم پسند خواتین کے وسیع ردعمل پر اظہار
خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی بھی قانون جو انسانوں یا معاشرے کے کسی طبقے یا حصے کے ساتھ ناانصافی کی
اجازت دیتا ہو ،ہرگز اسالمی نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے ایک موقع پر کہاکہ 5ستمبر کو جتنی خواتین نے ان کے خالف مظاہرہ کیا
تھا ،اس سے کہیں زیادہ خواتین نے 8ستمبر کو حدود آرڈیننس کے خالف میری تجاویز کی حمایت میں مظاہرے کئے تھے۔
ستمبر کو جب مغربی قوانین کی دلدادہ خواتین اسالم آباد میں وزیراعظم میرظفرہللا خان جمالی کے سامنے 'حدود آرڈیننس منسوخ 8
کرو' کے نعرے لگا رہی تھیں ۔ تقریبا عین اسی وقت چنیوٹ میں عالمی ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہورہا تھا۔ اس کانفرنس کے
اختتام پر جہاں یہ قرارداد پیش گئی کہ اسالمی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اسمبلی میں پیش کرکے نفاذ اسالم کی جانب
مزید پیش قدمی کو ممکن بنایا جائے ،وہیں ایک اور قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں خواتین کمیشن کی ان
سفارشات کی پُرزور مذمت کی گئی جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نافذ شدہ حدود قوانین کو ختم کردیا جائے۔ قرار داد میں کہا
گیا ہے کہ خواتین کمیشن کی مذکورہ سفارش پاکستان کی نظریاتی حیثیت اور دستور پاکستان کی اساس کے منافی ہے ،لہذا اسے
مکمل طور پر مسترد کر دیا جائے۔ قرار داد میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر حکومت نے شرعی قوانین کی منسوخی کے لئے کوئی
قدم اُٹھایا تو پاکستان کے غیور مسلمان اسے ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ اس کانفرنس میں موالنا منظور احمد چنیوٹی ،قاری شیر
احمد عثمانی ،موالنا زاہد الراشدی ،موالنا محمداحمدلدھیانوی ،موالنا عزیز الرحمن ہزاروی ،حافظ ادریس احمد ،موالنا عبدالروؤف
فاروقی اور موالنا محمد قادری کے عالوہ مکہ مکرمہ سے موالنا عبدالحفیظ مکی اور مدینہ منورہ سے تشریف الئے ہوئے موالنا
شیخ خلیل احمد سراغ جیسے نمایاں علما شامل تھے۔
ستمبر کو پاکستان کی کسی بھی پہلی اسمبلی میں حدود قوانین کے حق میں پُرزور آواز بلند ہوئی۔ یہ آواز بلند کرنے کا سہرا 9
سرحداسمبلی کے سر رہا۔ سرحد اسمبلی میں 9ستمبر کو متحدہ مجلس عمل کی رکن صوبائی اسمبلی نعیمہ اختر نے ایک باقاعدہ
قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد میں نیشنل کمیشن برائے خواتین کی حدود قوانین سے متعلق تجاویز کی مذمت کی گئی تھی اور
وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نہ صرف حدود قوانین کو مذکورہ تجاویز کی روشنی میں ختم کرنے سے باز رہے
بلکہ ان قوانین پر مؤثر عمل درآمد کو ممکن بنائے۔ محترمہ نعیمہ اختر نے قرارداد پیش کرتے ہوئے ایوان پر زور دیا کہ ان کی
قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جائے تاکہ وفاقی حکومت کو ایک واضح اور صاف پیغام بھیجا جاسکے اور پورے صوبے کے
عوامی نمائندوں کے جذبات سے آگاہ کیا جاسکے۔ محترمہ نعیمہ اختر نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مغرب زدہ
این جی اوز اور دوسری سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ حدود قوانین کو منسوخ کروانے جیسے غیر اسالمی اقدام اور اس اقدام
کو اسمبلی سے باال باال آرڈیننس کی صورت میں نافذ کروانے کے بجائے اس میں ضروری ترامیم کا بل باضابطہ طور پر ایوان
میں پیش کریں اور قانون ساز اداروں کو اس سلسلے میں اپنا آئینی حق استعمال کرنے دیں ۔ محترمہ نعیمہ اختر نے کہا کہ حدود
قوانین اسالمی تعلیمات کے عین مطابق ہیں اور اگر انہیں محض کمیشن کی سفارشات اور این جی اوز کے دباؤ پر منسوخ کر دیا
گیا تو کل کالں زکوة اور صبح کی نماز کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ سامنے آسکتا ہے۔
بحث کا آغاز ہوا تو ایوان میں موجود حزب اقتدار اور حزب اختالف کے تمام ارکان نے بھی ویمن کمیشن کی مجوزہ سفارشات پر
سخت تنقید کی۔ صوبہ سرحد کے سینئر وزیرسراج الحق نے ایوان کے سامنے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایلیٹ کالس
کی کچھ خواتین اور این جی اوز یہ مہم چال رہی ہیں ۔ یہ 'بیگمات' اسالمی ثقافت کے ساتھ ساتھ پختون ثقافت کو بھی تباہ کرنے پر
تلی ہوئی ہیں ۔ لیکن ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم ان بیگمات کی تمام خالف اسالم کاوشوں کو ناکام بنا دیں گے اور انہیں اسالم کے
بنیادی اُصولوں کو مجروح کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ قومی ویمن کمیشن
کی سفارشات کو مکمل طور پر نظر انداز کردے۔
سینئر وزیر سراج الحق نے اپنی پرجوش تقریر میں کہا کہ ان کا یہ پیغام صرف حکومت پاکستان کے لئے نہیں ہے،بلکہ تمام مسلم
اُمہ کے لئے ہے کہ وہ اسالمی قوانین و ضوابط کو اپنائیں اور امن و تحمل کے راستے پر چلیں ۔ انہوں نے اعالن کیا کہ ان کی
حکومت اسالمی اُصولوں سے ایک انچ انحراف نہیں کرے گی اور جو عناصر ہمارے دین اور تاریخ میں نقب لگانا چاہتے ہیں ،
ان سے تعاون کے بجائے ان کے خالف مزاحمت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو محترمہ نعیمہ اختر کی قرارداد کو
منظور کرکے اپنی آواز وفاقی حکومت تک پہنچانی چاہئے۔
متحدہ مجلس عمل کے موالنا ادریس نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ویمن کمیشن کی سفارشات قابل مذمت ہیں ۔ ان
سفارشات کے ذریعے ہمارے دینی اُصولوں کو چیلنج کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اقلیتی رکن اسمبلی فلکس انوسنٹ نے کہا کہ
اگر حدود قوانین کو منسوخ کردیا گیا تو اس سے ملک میں فحاشی کو فروغ حاصل ہوگا۔ مجلس کے رکن اسمبلی شاہ راز خان نے
سپیشل برانچ) نے ایک سروے کے نتیجے میں حدود قوانین کے خالف رپورٹ بنا کر وفاقی (کہا کہ صوبہ سرحد کی پشاور پولیس
حکومت کو ارسال کی ہے۔ ہم اس رپورٹ کو پرزور طریقے سے مسترد کرتے ہیں ۔ رکن اسمبلی موالنا عبدالرزاق نے کہا کہ
آئین کے مطابق قرآن اور سنت اس ملک کے سپریم الء کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لہذا جو لوگ حدود قوانین کی خالف ورزی کر
رہے ہیں وہ دراصل اسالمی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی خالف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
پیپلزپارٹی پٹریاٹ کے سرحد اسمبلی میں پارلیمانی قائد عبد االکبر خان نے قرار داد کی مخالفت میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
حدود قوانین کا نفاذ یا منسوخی ایک وفاقی معاملہ ہے اور سرحد کی صوبائی اسمبلی کو وفاقی حکومت کے اختیارات میں مداخلت
نہیں کرنی چاہئے۔ اس موقع پر اظہارخیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (قائداعظم) کے رکن اسمبلی قلندر لودھی نے عبد االکبر خان
کے موقف کی تائید کی۔ صوبائی وزیرقانون و پارلیمانی اُمور ملک ظفر اعظم نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات
درست ہے کہ حدود قوانین کا نفاذ یا منسوخی ایک وفاقی معاملہ ہے۔ لیکن اگر وفاقی حکومت کوئی ایسا اقدام کرنے جارہی ہو جو
غلط ہو تو صوبائی اسمبلی قرار داد پاس کرکے وفاقی حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروا سکتی ہے۔ لہذا اس بنیاد پرقرارداد
کی مخالفت میں کوئی وزن نہیں ہے۔
وزیر قانون کی تقریر کے بعد سپیکر اسمبلی بخت جہاں خان نے قرارداد کی محرک محترمہ نعیمہ اختر سے کہا کہ وہ قرارداد کا
مسودہ ایوان کو پڑھ کر سنائیں ۔ سپیکر کی ہدایت پر نعیمہ اختر اور مسلم لیگ (ق) کی رکن اسمبلی نگہت اورک زئی نے قرار داد
کا مسودہ ایوان میں پڑھ کر سنایا۔ جس میں ویمن کمیشن کی سفارشات کی سخت الفاظ میں مذمت کے ساتھ ساتھ اسے مکمل طور
پرمسترد کردینے کا مطالبہ شامل تھا۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ حدود قوانین کو منسوخ کرنے کے بجائے ان کے مؤثر نفاذ کے
لئے اقدامات کئے جائیں اور ہللا کے بنائے ہوئے قوانین میں کسی ترمیم و تبدیلی کے ہر امکان کو ختم کیا جائے۔ قرارداد کا متن
سننے کے بعد صوبہ سرحد کی اسمبلی نے اسے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
؍ ستمبر کو کل پاکستان اقلیتی اتحاد کی جانب سے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب 10
کرتے ہوئے اقلیتی اتحاد کے صوبائی صدر مائیکل جاوید نے کہا کہ حدود آرڈیننس اقلیتوں کے نقطہ نگاہ سے ایک امتیازی قانون
ہے اور اقلیتی بنیادی حقوق کو مجروح کرتا ہے ،اس لئے اقلیتوں پر اس قانون کا نفاذ ختم کردینا چاہئے۔ مائیکل جاوید نے
قائداعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ اقلیتوں سمیت تمام پاکستانی شہریوں کو یکساں سٹیٹس
حاصل ہوگا اور پاکستان ایک فالحی ریاست ہوگی۔ لیکن افسوس ہے کہ حدود قوانین کی وجہ سے ہمیں پاکستانی شہریت میں
قائداعظم کا موعودہ مقام حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں اقلیت شماری کے حقیقی اَعدادوشمار جاری کئے
جائیں اور تمام اقلیتوں کے مذہبی اور سماجی حقوق کی نگہداشت کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے۔
نوائے وقت' الہور نے حدود آرڈیننس سے متعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افرا دکے '؍ ستمبر 2003ء کو روزنامہ 22
تاثرات ایک فیچر کی صورت میں شائع کئے۔ اس فیچر کے مطابق پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے ٹکٹ پر پنجاب صوبائی اسمبلی کے
لئے منتخب ہونے والی خاتون رکن عظمی زاہد بخاری نے کہا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور اسالمی جمہوریہ پاکستان کے شہری
ہونے کے ناطے ہماری خواہش ہے کہ ملک کا ہرقانون قرآن و سنت کے مطابق ہو ،لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اسالم جو
ایک مکمل اور جامع مذہب ہے ،اسے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بننے والے حدود
قوانین اس کی سب سے بڑی مثال ہیں ۔ اس وقت اسمبلیوں میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے تو یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ
اپنی کمیونٹی کے تحفظ کی خاطر حدود کے امتیازی قوانین کو ختم کروائیں ۔ ہم حدود آرڈیننس کی ان شقوں کے خالف ہیں جن
میں عورتوں کے حقوق سلب کئے گئے ہیں مثال عورت کی گواہی ،عورتوں کے لئے مختلف سزائیں وغیرہ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں
کہ حدود آرڈیننس کو ختم کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو اس کی ان شقوں کو جن میں عورتوں کے حقوق سلب کئے
گئے ہیں ،ان پر نظرثانی کی جائے تاکہ کوئی مفاد پرست شخص یا پولیس اس قانون کو عو رتوں کے خالف استعمال نہ کرسکے
اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عورت کی گواہی کو بھی برابر اہمیت دی جائے۔
ملت پارٹی کی رہنما اور رکن پنجاب اسمبلی در شہوار نیلم نے کہا کہ بحیثیت مسلمان میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ جب ہللا
تعالی نے قرآن پاک میں خود زانی مرد اور عورت کے لئے ایک سزا کا تعین کردیا ہے توہمیں اس سے اختالف کی جرأت نہیں
کرنی چاہئے۔ بدقسمتی سے ہم یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ الدین ریاستوں میں مذہب کو پس پشت ڈال کر انسانی حقوق کی بات
کی جاتی ہے جبکہ پاکستان ایک اسالمی نظریاتی مملکت ہے جہاں قرآن اور سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ زنا
آرڈیننس کی مخالفت محض مفروضوں کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حدود آرڈیننس کی مخالفت اور اس
کا خاتمہ کرنے کی بجائے اس قانون کی وہ شقیں جن کے حوالے سے مختلف تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ،قانون سازی کے
ذریعے انہیں معاشرے کے تمام طبقوں کے لئے قابل قبول بنایا جائے۔ یہ کہنا کہ قانون ہی غلط ہے ،بچگانہ سوچ ہے۔ زنا آرڈیننس
کی مخالفت کرنے والے طبقے دین کے علم سے محروم ہیں ۔ زنا کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کی شرط کا
مقصد عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ ذاتی عناد کی بنا پر کوئی کسی عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگاکر اسے سزا نہ دلوا
سکے۔ اگر کوئی عورت زنا بالجبر کی شکایت کرتی ہے تو یہ اس عورت کی نہیں ،استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ چارگواہ پیش
کرے۔ اگر پولیس گواہ پیش نہ کرسکے لیکن مقدمہ کے دیگر حاالت و واقعات عورت کی شکایت اور الزام کی تصدیق کرتے ہوں
تو محض عورت کی گواہی پر بھی ملزم مرد کو سزا ہوسکتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت ایسے کئی فیصلے دے چکی ہے۔
ایم ایم اے کی رکن قومی اسمبلی بیگم عائشہ منور کا موقف ہے کہ حدود کے قوانین عورتوں کے محافظ ہیں ،ان کی زد عورتوں
کی نسبت مردوں پر زیادہ پڑتی ہے۔ خوفناک سزا کا خوف مرد کو کسی عورت کی پامالی سے روکتا ہے۔ ان قوانین کی و جہ سے
عورت کامستقبل اور عزت محفوظ رہتی ہے ۔ محترمہ عائشہ منور کا خیال ہے کہ قوانین کی مخالفت کرنے کے بجائے اس طریقہ
کار کی مخالفت کرنی چاہئے جس کی پیچیدگی کی وجہ سے عورت کو صحیح انصاف نہیں مل پاتا۔ اور یہ کام پولیس کلچر اور
عدلیہ میں اصالحات کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ عائشہ منور نے کہا کہ حدود آرڈیننس کی آڑ میں اسالم کو بدنام کرنے کا این جی
اوز نے سلسلہ شروع کررکھا ہے اورنیشنل کمیشن فارویمن کی چیئرپرسن نے حدود الز کے خاتمہ کے لئے جو رپورٹ تیار کی
ہے ،ہم اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ اسالم کے نام پر بننے والے ملک میں ہللا کے قوانین کی مخالفت کرنے اور مذاق
اُڑانے والوں کو نشان عبرت بنا دیں گے۔
ق) کی رہنما ،کالم نگار اور دانشور رکن قومی اسمبلی بیگم بشری رحمن بھی اس سلسلے میں ایک واضح اور (پاکستان مسلم لیگ
صاف موقف رکھتی ہیں ۔ آپ نے اس مسئلے پر خیاالت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر معاملے میں مغرب کی اندھی تقلید نے
ہمیں مذہب سے دور اور بے حس کردیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے اختالف کرتے کرتے ہللا تعالی کے واضح احکامات سے بھی نہ
صرف انکار کرنے لگے ہیں بلکہ ان پر تنقید کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک نیشنل کمیشن کی چیئرپرسن
واجدہ رضوی کی طرف سے حدود قوانین کے خاتمے کی سفارش کئے جانے کا تعلق ہے،اس مسئلے پر کمیشن کے )جسٹس (ر
اندر بھی اختالف رائے پایا جاتا ہے۔میری ذاتی رائے یہی ہے کہ یہ قانون ختم نہیں ہونا چاہئے ۔ این جی اوز کی جو خواتین حدود
آرڈیننس کی مخالفت اور خاتمہ کے لئے متحرک ہیں ،ان سے میں کہوں گی کہ وہ عورتوں کے حقوق کی آواز ضرور بلندکریں ۔
مگر مغرب کے بجائے اسالم کی طرف دیکھیں جس نے چودہ سو سال پہلے عورت کو نہ صرف سیاسی ،سماجی اور معاشی
حقوق بلکہ چادر اور چار دیواری کا تحفظ بھی فراہم کیا۔ اسالم عورت کی حرمت سے کھیلنے والوں کے لئے عبرت ناک سزا
تجویز کرتا ہے۔ حدود الز کی زد میں عورتوں سے زیادہ مرد آتے ہیں اور عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگانے والے مرد کو بھی
کوڑوں کی سزا دینے کا حکم ہے۔ دراصل پولیس کی غلط تفتیش ،طریقہ کار اور اختیارات کی وجہ سے حدود قوانین غیر مؤثر
ہوکر بدنام ہورہے ہیں ۔ حدود آرڈیننس کسی بھی اعتبار سے عورت کی حق تلفی نہیں کرتا۔ اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو
یاد رکھنا چاہئے کہ شرع نے جتنے اُصول اور ضابطے بنائے ہیں جب تک ان کا صحیح ادراک نہ ہو ،اس کی مخالفت میں کھڑے
ہونا درست نہیں ہوتا۔ شعائر اسالم قرآن پاک سے لئے گئے ہیں اور میں نہیں سمجھتی کہ قرآن پاک میں درج شعائر اسالم پر کوئی
اُنگلی اٹھا سکے۔
سماجی حاالت ہر ملک کے جدا جدا ہیں ۔ چونکہ اس مسئلہ پر ایک عرصہ سے بحث جاری ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ
حدود آرڈیننس کے حساس مسئلے کو محض ویمن کمیشن پر نہ چھوڑے۔ عالم اسالم کے بہترین علماے کرام کو اکٹھا کرے اور
انہیں زنا آرڈیننس کی ان شقوں پر اجتہاد کی دعوت دے جن کی آڑ لے کر مغرب اسالم کے خالف پراپیگنڈا کررہا ہے اور جسے
خوش کرنے کے لئے ہماری مغرب زدہ خواتین شعائر اسالم کی مخالفت کرکے گناہ کبیرہ کی مرتکب ہورہی ہیں ۔
قومی اسمبلی کی رکن ایم ایم اے ،محترمہ سمیعہ راحیل قاضی کا خیال ہے کہ حدود قوانین معاشرے میں تیزی سے فحاشی اور
بے راہ روی کو روکنے کے لئے وہی کام کرسکتے ہیں جو دشمن کا دست ستم روکنے کے لئے ایٹمی طاقت کرسکتی ہے۔ انہوں
نے کہا کہ دراصل مغرب ایک گہری سازش کے تحت ہمارے خاندانی نظام کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے اور مرد اور عورت کے
درمیان اسالمی حدود اور قیود کو ختم کرکے ایک بے حیا مخلوط معاشرہ قائم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ انہوں نے زور دے
کر کہا کہ کسی اسمبلی یا حکمران کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اسالم کو خدا کی طرف سے عطا کردہ قوانین میں ردوبدل
کرسکے۔ ڈاکٹر اُم کلثوم نے اس مسئلہ پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ حدود قوانین پر تنقید کرنے والوں کو مغرب کے اثر سے آزاد
ہوکر یہ تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان قوانین کا مؤثر نفاذ انسانیت کے لئے کتنا سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔
:؍اکتوبر 2003ء کو جماعت اسالمی کی خواتین کی جانب سے الہور میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سیمینار کا عنوان تھا23
حدود قوانین کے خالف مہم ایک خاص البی کی طرف سے چالئی جارہی ہے جو معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر ۔ 1
عورتوں کے جذبات کو بھڑکارہی ہے۔
حدود قوانین کے بے جا استعمال کی ذمہ دار زیادہ تر پولیس ہے۔ لہذا ان قوانین کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے کے لئے ۔ 2
ان قوانین کے نفاذ میں پولیس کا کردار اور اختیار کم کرنا چاہئے۔
۔ حدو د قوانین کے الزام میں ملوث ہونے والی خواتین سے تفتیش اور پولیس کارروائی کی حدود مقرر کی جانی چاہئیں اور 3
متعلقہ پولیس اہلکاروں کو ملزمان سے رابطے اور پوچھ گچھ کے آداب کی باقاعدہ تربیت دی جانی چاہئے۔
۔ ملزم عورتوں کو تھانوں میں بال کر انہیں بے توقیر کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور ان کی معاشرتی مجبوریوں کو پیش 4
نظر رکھنا چاہئے۔
۔ اسالمی قوانین کے نفاذ اور ان پر عمل کے معامالت کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا 5
ہے کہ وہ تمام البیاں جو اسالمی قوانین کے خالف کام کررہی ہیں ،انہیں اس بات سے روکا جائے۔
:اس سیمینار میں اسالمی قوانین کے خالف کام کرنے والے عناصر کی نشاندہی بھی کی گئی۔ جو کچھ اس طرح سے ہے
غیر ملکی مالی امداد اور اہل مغرب کے نظریات کے مطابق ان کے مقاصد کو فروغ دینے کا ایجنڈا رکھنے والی این جی ۔ 1
اوز :جو بیجنگ کانفرنس 1995ء اور بیجنگ پلس کانفرنس نیویارک میں طے پانے والے آزادی نسواں کے چارٹر کو عملی
صورت دینے کے لئے سرگرم ہیں ۔
۔ غیر مسلم اقلیتیں :جو ملک میں اسالمی قوانین کے بجائے سیکولر قوانین کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں ۔ یہ لوگ اسالمی 2
قوانین کے خالف عمومی اور حدود قوانین کے خالف خصوصی طور پر مہم چال رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے انٹرنیٹ اور
جدید ذرائع ابالغ استعمال کررہے ہیں ۔ یہ طاقتیں پاکستان سے وفاقی شرعی عدالت کا وجود ختم کرنے کے لئے بھی سرگرم ہیں
اور اسالمی سزاؤں کے خالف بھی مہم چال رہی ہیں ۔
سیاست کے میدان میں شکست خوردہ سوشلسٹ طاقتیں جو اپنے نظریات کو عوام میں قابل قبول بنانے اور سیاسی طاقت بننے ۔3
میں ناکام ہوچکی ہیں ۔ اب سماج سدھار میں یہ اسالم اور اسالمی شعائر کو بدنام کرنے اور ان کے بارے میں شکوک و شبہات
ابھارنے کا کام کررہی ہیں ۔ یہ کام معاشرے کو وسیع القلب اور روشن خیال بنانے کے نام پر کیا جارہا ہے۔
حدود قوانین کا نفاذ یا استرداد قومی اسمبلی اور سینٹ کی ذمہ داری ہے۔ اور پاکستان کی پارلیمنٹ یہ ذمہ داری حدود آرڈیننس کے
دن کے طویل بحث مباحثے کے بعد متعلقہ اسالمی ضوابط کو 37نفاذ کے وقت 1981ء میں سال قبل پوری کرچکی ہے۔ جب کہ
باقاعدہ قانون کی شکل دی گئی تھی۔ لہذا واجدہ رضوی کا یہ کہنا کہ یہ فرد واحد اور ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا نافذ کردہ قانون ہے،
!!بالکل غلط اور خالف حقیقت بات ہے
اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ نئے سال کے آغاز میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کے
تعلقات میں افہام و تفہیم پیدا ہوچکی ہے۔ ایم ایم اے پاکستان میں مکمل اسالمی نظام کے نفاذ کی حامی ہے اور اس میں تمام
مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہے۔ موجودہ سیاسی حاالت بھی کچھ ایسے ہیں کہ ایم ایم اے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن
میں ہے۔
اس صورت حال میں ایم ایم اے کے شانوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور دینی پلیٹ فارموں سے
اسالمی قوانین کے حق میں زبردست مہم چالئے اور عوام کو باور کروائے کہ حدود قوانین ان کے لئے مصیبت نہیں بلکہ
باعث رحمت ہیں اور حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ آئین کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ اسالمی طرز معاشرت کو فروغ دے اور
حدود قوانین کو تحفظ فراہم کرے۔
حکومت پر بھی الزم ہے کہ وہ ویمن کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے اسالمی ماہرین (مرد اور
خواتین) پر مشتمل ایک وسیع تر کمیشن قائم کرے جو حدود قوانین پر عائد کئے جانے والے اعتراضات کی چھان پھٹک کرے اور
کو ترامیم تجویز کرے۔ Procedural Lawsقرآن و سنت کی روشنی میں ،جہاں ضرورت ہو ،وہاں قانون سازی کے ذریعے
بہرحال یہ بات مغرب نواز این جی اوز پر سرکاری طور پر واضح کردینی چاہئے کہ اسالمی قوانین کے استرداد کے سلسلے میں
کوئی سمجھوتہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ (ڈاکٹر ظفر علی راجا
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچی
غیر سرکاری تنظیم مددگار نے جو وکال برائے انسانی حقوق اور یونیسیف کے
تعاون سے کام کرتی ہے کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال دوہزار
چھ کے پہلے مہینے میں پینسٹھ ،فروری میں چھتیس،مارچ میں اپریل میں
چھتیس،مئی میں بیاسی اور جون میں سولہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
چھ ماہ میں اڑسٹھ خواتین ،دو سو آٹھ
مرد اور ایک بچہ گرفتار ہوئے ہیں اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات کےجمع کئے گئے اعداد و شمار کے
مطابق دو سو بیس متنازعہ زنا آرڈیننس ،ترپن فریب ،اور ایک ہتک عزت کا
واقعہ رپورٹ کیا گیا۔
حدود آرڈیننس کے واقعات میں سے دو آسالم آباد میں ،تیرہ حیدرآباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ ،اٹھارہ الہور ،اٹھائیس
چون نوابشاہ ،تریسٹھ کراچی جبکہ تراسی ملک کے دیگر چھوٹے عالقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ سرگودھاّ ،
مددگار کی رپورٹ کے مطابق دو سو پینسٹھ کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے ،جس کے تحت بارہ مقدمات سرحد ،ایک سو
اکیس پنجاب اور ایک سو التالیس سندھ میں درج کی گئی ہیں۔
دو سو ستر حدود کے مقدمات میں چالیس مرد اور خواتین شادہ شدہ ،دو خواتین اور ایک طالق یافتہ مرد ،دو خواتین اور
دو مرد غیر شادی شدہ ہیں جبکہ تین سو بتیس کی سماجی حیثیت کا علم نہیں ہے۔
وکال برائے انسانی حقوق کے صدر ضیا اعوان نے کہا کہ کئی خواتین امتیازی قوانین کے تحت جیلوں میں قید ہیں۔ انہوں
نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ ملک سے حدود آرڈیننس سمیت تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف نے حدود آرڈیننس سمیت تمام چھوٹے مقدمات کو ایک حکم نامے کے ذریعے قابل
ضمانت بنادیا ہے جس کے بعد پورے ملک کی جیلوں سے خواتین کی ایک بڑی تعداد کو رہائی ملی ہے جبکہ مذہبی
جماعتوں کے سخت رد عمل کے بعد صدر مشرف نے کہا ہے کہ حدود آرڈیننس کو منسوخ نہیں بلکہ اس میں ترمیم کی
جائیگی۔
صدر مشرف کے جاری کردہ آرڈیننس کی معیاد چار ماہ ہے جس کے بعد پارلیمینٹ کو قانون سازی کرنی ہ
پاکستان کی حکومت نے بدھ کو زنا اور قذف کے متعلق اسالمی قوانین یعنی حدود آرڈیننس میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی سے
اکثریت رائے سے منظور کرا لیا ہے۔
حزب مخالف کی مذہبی جماعتوں کے نمائندوں نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔
مسلم لیگ نواز نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ پیپلز پارٹی نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔
سلیکٹ کمیٹی کے مجوزہ اس ترمیمی بل کے متن میں حکومت نے علما کمیٹی کی تجویز کردہ ایک شق جس میں باہمی
رضامندی سے جنسی عمل کو جرم قرار دیا گیا تھا وہ شامل کردی ہے۔
پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے ایک ترمیم پیش کی کہ باہمی رضامندی سے جنسی عمل کو جرم قرار دینے کی شق میں
جہاں بھی لفظ lewdnessاستعمال کیا گیا ہے اُس کی جگہ لفظ Fornicationلکھا جائ
تحفظ حقوق نسواں بل کا مکمل متن
Share to Facebook
1
قومی اسمبلی میں پیش کردہ صورت میں مجموعہ تعزیرات پاکستان ،مجموعہ ضابطہ فوجداری اور دیگر قوانین میں مزید ترمیم
کرنیکا بلچونکہ دستور کا آرٹیکل ١١٤اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ شرف انسانی اور قانونکے تابع ،گھر کی خلوت قابل حرمت ہو
گی۔
چونکہ دستور کا آرٹیکل ٣٧سماجی انصاف کو فروغ دینے اور سماجی برائیوں کا خاتمہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
چونکہ یہ ضروری ہے کہ قانون کے غلط اور بیجا استعمال کے خالف خواتین کی داد رسی کی جائے اور تحفظ فراہم کیا جائے
اور ان کے استحصال کو روکا جائے۔
چونکہ اس بل کا مقصد ایسا قانون النا ہے جو بالخصوص دستور کے بیان کردہ مقاصد اور اسالمی احکام سے مطابقت رکھتا ہو۔
چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعدازیں ظاہر ہونے والی اغراض کے لئےمجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء (ایکٹ نمبر ٥بابت
١٨٦٠ء) مجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء (ایکٹ نمبر ٥بابت ١٨٩٨ء) قانون انفساخ ازواج مسلمانان ١٩٣٩ء (نمبر ٨بابت
١٩٣٩ء) زناء کا جرم (نفاذ حدود) آرڈیننس١٩٧٩ ،ء (نمبر ٧مجریہ ١٩٧٩ء) اور قذف کا جرم (حد کا نفاظ) آرڈیننس١٩٧٩ ،ء
(نمبر ٨مجریہ ١٩٧٩ء) میں مزید ترمیم کی جائے۔
لہذا بذریعہ ہذا حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔ -١مختصر عنوان اور آغاز کا نفاذ-:
( )١یہ ایکٹ ،قانون فوجداری ترمیمی (خواتین کا تحفظ) ایکٹ ٢٠٠٢ء کے نام سے موسوم ہو گا۔
مجموعہ تعزیرات پاکستان (ایکٹ نمبر ٤٥بابت ١٨٦٠ء) میں جس کا حوالہ بعدازیں ‘مجموعہ قانون‘ کے طور پر دیا گیا ،دفعہ
٣٦٥الف کے بعد ،حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی یعنی ۔۔۔
٣٦٥ب۔ عورت کو نکاح وغیرہ پر مجبور کرنے کے لئے اغوا کرنا لے بھاگنا یا ترغیب دینا-:
جو کوئی بھی کسی عورت کو اس اردادے سے کہ اسے مجبور کیا جائے ،یا یہ جانتے ہوئے اسے مجبور کرنے کا احتمال ہے کہ
وہ اپنی مرضی کے خالف کسی شخص سے نکاح کرے یا اس غرض سے کہ ناجائز جماع پر مجبور کی جائے یا پھسالئی یا اس
امر کے احتمال کے علم سے کہ اسے ناجائز جماع پر مجبور کر لیا جائے یا پھسال لیا جائے گا ،لے بھاگے یا اغوا کر لے تو عمر
قید کی سزا دی جائے گی اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا اور جو کوئی بھی اس مجموعہ قانون میں تعریف کردہ تخریف
مجرمانہ کے ذریعے یا اکتیار کے بیجا استعمال یا جبر کے کسی دوسرے طریقے کے ذریعے ،کسی عورت کو کسی جگہ سے
جانے کے لئے اس ارادے سے یا یہ جانتے ہوئے ترغیب دے کہ اس امر کا احتمال ہے کہ اسے کسی دوسرے شخص کے ساتھ
ناجائز جماع پر مجبور کیا جائے گا یا پھسال لیا جائے گا تو بھی مذکورہ باال طور پر قابل سزا ہو گا۔
مذکورہ مجموعہ قانون میں دفعہ ٣٦٧کے بعد حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی یعنی ۔۔۔۔۔
٣٦٧الف ۔ کسی شخص سے غیر فطری خواہش نفسانی کا نشانہ بنانے کی غرض سے اغوا کرنا یا لے بھاگنا-:
جو کوئی بھی کسی شخص کو اس غرض سے کہ مذکورہ شخص کسی شخص کی غیر فطری خواہش نفسانی کا نشانہ بنایا جائے یا
اس طرح ٹھکانے لگایا جائے کہ وہ کسی شخص کی غیر فطری خواہش نفسانی کا نشانہ بننے کے خطرے میں پڑ جائے اس امر
کے احتمال کے علم کے ساتھ مذکورہ شخص کو بایں طور پر نشانہ بنایا جائے گا یا ٹھکانے لگایا جائے گا ،لے بھاگے یا اغوا
کرے تو اسے موت یا پچیس سال تک کی مدت کے لئے قید سخت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔
مذکورہ مجموعہ قانون میں دفعہ ٣٧١کے بعد حسب ذیل نئی دفعات شامل کر دی جائیں گی یعنی ۔۔۔۔۔
٣٧١الف ۔ کسی شخص کو عصمت فروشی وغیرہ کی اغراض کے لئے فروخت کرنا-:
جو کوئی بھی کسی شخص کو اس نیت سے کہ مذکورہ شخص کسی بھی وقت عصمت فروشی یا کسی شخص کے ساتھ ناجائز
جماع کی غرض سے یا کسی ناجائز اور غیر اخالقی مقصد کے لئے کام میں لگایا جائے گا یا استعمال کیا جائے گا یا اس امر کے
احتمال کا علم رکھتے ہوئے کہ مذکورہ شخص کو کسی بھی وقت مذکورہ غرض کے لئے کام میں لگایا جائے گا یا استعمال کیا
جائے گا ،فروخت کرے ،اجرت پر چالئے یا بصورت دیگر حوالے کرے تو اسے پچپن سال تک کی مدت کے لئے سزا دی جائے
گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔
تشریحات۔
(الف) جب کوئی عورت کسی طوائف یا کسی شخص کو کسی چکلے یا مالک یا منتظم ہو فروخت کی جائے ،اجرت پر دی جائے،
بصورت دیگر حوالے کی جائے تو مذکورہ عورت کو اس طرح حوالے کرنے والے شخص کے متعلق تاوقتیکہ اس کے برعکس
ثابت نہ ہو جائے یہ تصور کیا جائے گا کہ اس نے اسے اس نیت سے حوالے کیا تھا کہ اسے عمت فروشی کے مقصد کے لئے
استعمال کیا جائے گا۔
(ب) دفعہ ہذا اور دفعہ ٣٧١ب کی اغراض کے لئے ‘ناجائز جماع‘ سے ایسے اشخاص کے مابین جماع مراد ہے جو رشتہ نکاح
میں منسلک نہ ہوں۔
جو کوئی بھی کسی شخص کو اس نیت سے کہ مذکورہ شخص کو کسی وقت عصمت فروشی کے لئے یا کسی شخص کے ساتھ
ناجائز جماع کے لئے کسی ناجائز اور غیر اخالقی مقصد کے لئے کام میں لگایا جائے گا یا استعمال کیا جائے گا ،خریدے ،اجرت
پر رکھے یا بصورت دیگر اس کا قبضہ حصل کرے تو اسے پچیس سال کی مدت کے لئے سزائے قید دی جائے گی اور جرمانے
کا بھی مستوجب ہو گا۔
تشریح-:
کوئی طوائف یا کوئی شخص جو کسی چکلے کا مالک یا منتظم ہو کسی عورت کو خریدے ،اجرت پر رکھے یا بصورت دیگر اس
کا قبضہ حاصل کرے تو تاوقتیکہ اس کے برعکس ثابت نہ ہو جائے یہ تصور کیا جائے گا کہ اس عورت پر اس نیت سے قبضہ
کیا گیا تھا کہ اسے عصمت فروشی کے مقصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
مذکورہ مجموعہ قانون میں دفعہ ٣٧٤کے بعد ذیلی عنوان ‘زنا بالجبر‘ کے تحت حسب ذیل نئی دفعات شامل کر دی جائیں گی،
یعنی ۔۔
کسی مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب کہا جائے گا جو ماسوائے ان مقدمات کے جو بعدازاں مستثنی ہوں ،کسی عورت کے ساتھ
مندرجہ ذیل پانچ حاالت میں میں سے کسی میں جماع کرے۔
(سوم) اس کی رضا مندی سے ،جبکہ رضا مندی اس کو ہالک یا ضرر کا خوف دال کر حاصل کی گئی ہو۔
(چہارم) اس کی مرضی سے جبکہ مرد جانتا ہو کہ وہ اس کے نکاح میں نہیں ہے اور یہ کہ رضا مندی کا اظہار اس وجہ سے کیا
گیا ہے کیونکہ وہ یہ باور کرتی ہے کہ مرد وہ دوسرا شخص ہے جس کے ساتھ اس کا نکاح ہونا وہ باور کرتا ہے یا کرتی ہے ،یا
تشریح-:
زنا بالجبر کے جرم کے لئے مطلوبہ جماع کے تعین کے لئے دخول کافی ہے۔‘
( )١جو کوئی زناءبالجبر کا ارتکاب کرتا ہے اسے سزائے موت یا کسی ایک قسم کی سزائے قید جو کم سے کم پانچ سال یا زیادہ
سے زیادہ پچیس سال تک ہو سکتی ہے دی جائے گی اور جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہو گا۔
( )٢جب زناءبالجبر کا ارتکاب دو یا زیادہ اشخاص نے بہ تائید باہمی رضامندی سے کیا ہو تو ،ان میں سے ہر ایک شخص کو
سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔
مذکورہ مجموعہ قانون میں ،بابت بیس میں ،حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی یعنی ۔۔
٤٩٣الف۔ کسی شخص کا فریب سے جائز نکاح کا یقین دال کر ہم بستری کرنا-:
ہر وہ شخص جو فریب سے کسی عورت کو جس سے جائز طریق پر اس نے نکاح نہ کیا ہو ،یہ باور کرائے کہ اس نے اس
عورت سے جائز طور پر نکاح کیا ہے اور اسے یقین کے ساتھ ہم بستری پر آمادہ کرے تو اسے پچیس سال تک کے لئے قید
سخت دی جائے گی اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔
مذکورہ مجموعہ قانون میں دفعہ ٤٩٦کے بعد ،حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی ،یعنی ۔۔
٤٩٦الف۔ کسی عورت کو مجرمانہ نیت سے ورغالنہ یا نکال کر لے جانا یا روک رکھنا۔
جو کوئی بھی کسی عورت کو اس نیت سے نکال کر لے جائے یا ورغال کر لے جائے کہ وہ کسی شخص کے ساتھ ناجائز جماع
کرے یا کسی عورت کو مذکورہ نیت سے چھپائے یا روک رکھے تو اسے سات سال تک کی مدت کے لئے کسی بھی قسم کی
سزائے قید دی جائے گی اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔
مذکورہ مجموعہ قانون میں ،دفعہ ٥٠٢الف کے بعد ،حسب ذیل نئی دفعہ شامل کر دی جائے گی ،یعنی ۔۔۔
اگر کوئی زناءبالجبر کے کسی مقدمے کی تشہیر کرتا ہے جس کے ذریعے کسی عورت یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی
شناخت کو ظاہر کرے تو اسے چھ ماہ تک کی سزائے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
مجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء (ایکٹ نمبر ٥بابت ١٨٩٨ء) میں دفعہ ٢٠٣کے بعد ،حسب ذیل نئی دفعات شامل کر دی جائیں
گی ،یعنی ۔۔۔
( )١کوئی عدالت زناء کے جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس١٩٧٩ ،ء (نمبر مجریہ ١٩٧٩ء) کی دفعہ ٥کے تحت کسی جرم کی سماعت
نہیں کرے گی ماسوائے اس نالش کے جو کسی اختیار سماعت رکھنے والی مجاز عدالت میں دائر کی جائے۔
( )٢کسی نالش جرم کا اختیار سماعت رکھنے والی عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طور پر مستغیث زناء کے فعل کے کم از
کم چار چشم دید بالغ گواہوں کی حلف پر جرم کے لئے ضروری جانچ پڑتال کرے گا۔
( )٣مستغیث اور عینی گواہوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے مواد کو تحریر تک محدود کر دیا جائے گا اور اس پر مستغیث اور
عینی گواہوں کے عالوہ عدالت کے افسر صدارت کنندہ کے بھی دستخط ہوں گے۔
( )٤اگر عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی یہ رائے ہو کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود ہے تو عدالت ملزم کی
اصالتاَََ ََ ََ ََ ََ ََ حاضری کے لئے سمن جاری کرے گا۔
( )٥کسی عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روپرو نالش دائر کی گئی ہو یا جس کو یہ منتقل کی گئی ہو اگر وہ مستغیث اور
چار یا زائد عینی گواہوں کے حلفیہ بیانات کے بعد یہ فیصلہ دے کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے ،نالش کو خارج
کر سکے گا اور ایسی صورت میں وہ اس کی وجوہات قلمبند کرے گا۔
( )١دفعہ ٦کی ذیلی دفعہ ( )٢کے تابع ،کوئی عدالت قذف کا جرم (نفاظ حد) آرڈیننس ١٩٧٩ء (نمبر ٨مجریہ ١٩٧٩ء) کی ذیلی
دفعہ ٧کے تحت کسی جرم کی سماعت نہیں کرے گی ماسوائے اس نالش کے جو اختیار سماعت رکھنے والی مجاز عدالت میں
دائر کی جائے۔
( )٢کسی نالش جرم کا اختیار سماعت رکھنے والی عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طور پر مستغیث کی قذف کے فعل کے
جرم میں ضروری جانچ پڑتال کرے گا۔
( )٣مستغیث کی جانچ پڑتال کے مواد کو تحریر تک محدود کر دیا جائیگا اور اس پر مستغیث کے عالوہ افسر صدارت کنندہ کے
بھی دستخط ہوں گے۔
( )٤اگر عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی یہ رائے ہو کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود ہے تو عدالت ملزم کی
اصالتاَََ ََ ََ ََ ََ ََ حاضری کے لئے سمن جاری کرے گا۔
( )٥کسی عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روپرو نالش دائر کی گئی ہو یا جس کو یہ منتقل کی گئی ہو اگر وہ مستغیث کے
حلفیہ بیانات پر غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ دے کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے،تو نالش کو خارج کر سکے گا
اور ایسی صورت میں وہ اس کی وجوہات قلمبند کرے گا۔
مجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء (ایکٹ نمبر ٥بابت ١٨٩٨ء) میں دول دوم میں ۔۔۔
( )١زناء کے جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس ١٩٧٩ء (آرڈیننس نمبر ٧مجریہ ١٩٧٩ء) میں دفعہ ٢میں شقات (ج) اور (ہ) حذف کر
دی جائیں گی۔
زناء کا جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس١٩٧٩ ،ء (آرڈیننس نمبر ٧مجریہ ١٩٧٩ء) کی دفعہ ٣کو حذف کر دیا جائیگا۔
زناء کا جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس ١٩٧٩ء (آرڈیننس نمبر ٧مجریہ ١٩٧٩ء میں دفعہ ٤میں لفظ ‘جائز طور پر‘ اور مذکورہ دفعہ
کے آخر میں تشریح کو حذف کر دیا جائیگا۔
١٤۔ آرڈیننس نمبر ٧مجریہ ١٩٧٩ء کی دفعات ٦اور ٧کا حذف کرنا-:
زناء کا جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس ١٩٧٩ء (آرڈیننس نمبر ٧مجریہ ١٩٧٩ء) کی دفعات ٦اور ٧کو حذف کر دیا جائے گا۔
اسالمی جمہوریہ پاکستان کے مسملہ دستوری مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسالمی تعلیمات اور مقتضیات کے
مطابق جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں موجود ہے۔ بحثیت انفرادی اور اجتماعی زندگیاں گزارنے کے قابل بنایا جائے۔
چنانچہ دستور ،اس امر کی تاکید کرتا ہے کہ موجودہ تمام قوانین کو اسالمی احکام کے مطابق جس طرح قرآن پاک اور سنت میں
ان کا تعین کیا گیا ہے ،دینا چاہیے۔
اس بل کا مقصد بالخصوص زناء اور قذف سے متعلق قوانین کو بالخصوص بیان کردہ اسالمی جمہوری پاکستان کے مقاصد اور
دستوری ہدایت کے مطابق بنانا ہے اور خاص طور پر قانون کے بے جا اور غلط استعمال کے خالف خواتین کی داد رسی کرنا
اور انہیں تحفظ فراہم کرنا ہے۔
قرآن پاک میں زناء اور قذف کے جرائم کے بارے میں موجود ہے زناء اور قذف سے متعلق دو آرڈیننس اس اس حقیقت کے
باوجود کہ قرآن اور سنت نے نہ تو ان جرائم کی وضاعت کی ہے اور نہ ہی ان کے لئے سزا مقرر کی ہے تاہم دیگر قابل سزا
قوانین کے شمار میں اضافہ کرتے ہیں ،زناء اور قذف کے لئے سزائیں قصاص کے کسی اصول کے بغیر یا ان جرائم کے لئے
ثبوت کے کسی طریقے کی نشاندہی کئے بغیر نہیں دی جا سکتیں۔
کوئی جرم جس کا حوالہ قرآن پاک اور سنت میں نہیں یا جس کے لئے اس میں سزا کے بارے میں نہیں بتایا گیا وہ تعزیر ہے جو
ریاستی قانون سازی کا موضوع ہے۔ یہ دونوں کام ریاست کے ہیں کہ وہ مذکورہ جرائم کی وضاعت کرے اور ان کے لئے سزاؤں
کا تعین کرے۔ ریاست مذکورہ اختیار کو مکمل اسالمی ہم آہنگی کے ذریعے استعمال کرتی ہے جو ریاست کو وضاعت اور سزا ہر
دو کا اختیار دیتا ہے ،اگرچہ ،مذکورہ تمام جرائم کو دونوں حدود آرڈیننسوں سے نکال دیا گیا ہے اور مجموعہ تعزیرات پاکستان
١٨٦٠ء (ایکٹ نمبر ٤٥بابت ١٨٦٠ء) جسے بعدازاں پی پی سی کا نام دیا گیا ہے میں مناسب طور پر شامل کر دیا گیا ہے۔
زناء کے جرم (نفاظ حد) آرڈیننس ١٩٧٩ء (نمبر ٧مجریہ ١٩٧٩ء) جسے بعدازاں ‘زناء آرڈیننس‘ کا نام دیا گیا ہے کی دفعات ١١
تا ١٦میں دیئے گئے جرائم تعزیر کے جرائم میں ہیں ،ان تمام کو مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء (ایکٹ نمبر ٤٥بابت
١٨٦٠ء) کی دفعات ٣٦٥ب٣٦٧ ،الف٣٧١ ،الف٣٧١ ،ب٤٩٣ ،الف اور ٤٩٦الف کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ جرم قذف (نفاظ
حد) آرڈیننس ١٩٧٩ء جسے بعدازاں ‘قذف آرڈیننس‘ کا نام دیا گیا ہے کی دفعات ١٢اور ١٣کو حذف کیا گیا ہے ،یہ مذکورہ
آرڈیننس کی دفعہ ٣میں قذف کی تعریف کے طور پر کیا گیا ہے جو طبع شدہ اور کنندہ شدہ مواد کی طباعت یا کنندہ کاری یا
فروخت کے ذریعے ارتکاب کردہ قذف کو کافی تحفظ دیتی ہے۔ مذکورہ تعزیری جرائم میں سے کسی کی آئینی تعریف کے
استعمال میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے یا ان کے لئے مقرر کی گئی سزا کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ ان تعزیری جرائم کے لئے
کوڑوں کی سزا کو حذف کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن اور سنت میں ان جرائم سے متعلق کوئی سزا نہیں ہے۔ ریاست کو یہ اختیار ہے
کہ وہ اسالم کے منصفانہ نظریئے کے مطابق اس میں تبدیلی الئے۔ یہ پی پی سی کے مطابق اور شائشتگی کے معئار کو قائم
کرنے کے لئے ہے جس سے معاشرے کی کامل ترقی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ زناء اور قذف کے آرڈیننس پر شہریوں کی طرف
سے بالعموم اور اسالمی اسکالروں اور خواتین کی طرف سے بالخصوص سخت تنقید کی گئی۔ تنقید کے کئی موضوع تھے ،ان
میں زناء کے جرم کو زناء بالجبر (عصمت دری) کے ساتھ مالنا شامل ہے۔ اور دونوں کے لئے ثبوت اورسزا کی ایک ہی قسم
رکھی گئی ہے۔ یہ بے جا سہولت دیتا ہے کوئی عورت جو عصمت دری کو ثابت نہیں کر سکتی اس پر اکثر زناء کا استغاثہ دائر
کر دیا جاتا ہے ،زناء بالجبر (عصمت دری) کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا کے ثبوت کی ضرورت صرف اتنی ہے جتنی کہ زناء
کے لئے ہے۔ یہ اول الذکر کو ثابت کرنے کے لئے تقریبا ناممکن بنا دیتا ہے۔
جب کسی مرد کے خالف عصمت دری کے استغاثہ میں ناکامی ہو لیکن طبی معائنے سے جماع یا حمل کی یا بصورت دیگر
تصدیق ہو جائے تو عورت کو چار عینی گواہوں کے نہ ہونے سے زناء کی سزا حد کے طور پر نہیں دی جاتی بلکہ تعزیر کے
طور پر دی جاتی ہے ،اس شکایت کو بعض اوقات اعتراف تصور کیا جاتا ہے۔
قرآن اور سنت زناء کے لئے تعزیری سزا کے مقتنی نہیں ہیں۔ یہ آرڈیننس کا مسودہ تیار کرنے والوں کے ذاتی خیاالت پر مبنی
ہے اور قذف کے جرائم کے لئے تعزیری سزائیں نہ صرف اسالمی اصولوں کے منافی ہیں بلکہ استحصال اور نا انصافی کو جنم
دیتی ہیں ،انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ دستوری تعزیرات کو واضح اور غیر مبہم ہونا چاہیے ،ممنوعہ اور غیر ممنوعہ کے درمیان
واضح حد مقرر ہو۔ شہری اس سے آگاہ ہوں ،وہ اپنی زندگی اور طور طریقوں کو ان روشن رہنما اصولوں کو اپناتے گزار سکیں
لہذا ان میں وہ اور متعلقہ قوانین مین غیر واضح تعریفات کی وضاعت کی جا رہی ہے اور جہاں یہ ممکن نہیں ہے انہیں حذف کیا
جا رہا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیر محتاط شہریوں کو تعزیری قوانین کے غیر دانشمندانہ استعمال سے تحفظ بہم پہنچایا
جائے۔ زناء آرڈیننس ‘نکاح‘ کی جائز نکاح کے طور پر تعریف کرتا ہے ،بالخصوص دیہی عالقوں میں نکاح بالعموم اور طالق کو
بالخصوص رجسٹر نہیں کیا جاتا۔ کسی شخص پر زناء کا الزام لگانے کے لئے دفاع میں ‘جائز نکاح‘ کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔
رجسٹریشن نہ کرانا اس کے دیوانی منطقی نتائج میں صرف یہی کافی ہے کوئی نکاح رجسٹر نہ کرایا جائے یا کسی طالق کی
تصدیق کو تعزیری منطقی نتائج سے مشروط نہ کیا جائے۔ اس میں اسالمی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جب کسی جرم کے ارتکاب
میں کوئی شبہ پایا جائے تو حد کو نافذ نہ کیا جائے ،قانون مذکورہ مقدمات میں غلط استعمال کی وجہ سے سابقہ خاوندوں اور
معاشرے کے دیگر ارکان کے ہاتھوں میں ظلم و ستم کا کھلونا بن گیا ہے۔
تین طالقیں دیئے جانے کے بعد عورت اپنے میکے چلی جاتی ہے وہ دوران عدت جاتی ہے ،کچھ ہی دنوں کے بعد خاندان کے
لوگ نئے ناطے کا انتظام کر دیتے ہیں اور وہ شادی کر لیتی ہے ،اس وقت خاوند یہ دعوی کرتا ہے کہ یئت ہائے مجاز کی طرف
سے طالق کی تصدیق کے بغیر نکاح ختم نہیں ہوا اور زناء کا مقدمہ دائر کر دیتا ہے یہ ضروری ہے کہ اسے ختم کرنے کے
لئے اس تعریف کو حذف کر دیا جائے۔
زناء بالجبر (عصمت دری) کے جرم کے لئے کوئی حد موجود نہیں ہے ،یہ تعزیری جرم ہے ،لہذا عصمت دری کی تعریف اور
سزا کو پی پی سی میں بالترتیب دفعات ٣٧٥اور ٣٧٦میں شامل کیا جا رہا ہے۔ جنس کی مبہم تریف میں ترمیم کی جا رہی ہے
تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ عصمت دری ایک جرم ہے جس کا ارتکاب مرد عورت کے ساتھ کرتا ہے۔ عصمت دری کا الزام
لگانے کے لئے عورت کی مرضی دفاع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ انتظام کیا جا رہا ہے کہ اگر عورت کی عمر ١٦
سال سے کم ہو تو مذکورہ مرضی کو دفاع کے طور پر استعمال نہ کیا جائے یہ کمزور کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے ،جس کی
قرآن بار بار تاکید کرتا ہے اور بین االقوامی قانونی ذمہ داری کے اصولوں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
اجتماعی زیادتی کی سزا موت ہے۔ اس سے کم سزا نہیں رکھی گئی ایسے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں کا یہ مشاہدہ
ہے کہ بعض حاالت میں ان کی یہ رائے ہوتی ہے کہ کسی شخص کو بری نہیں کیا جا سکتا جبکہ عین اس وقت مقدمت کے حقائق
اور حاالت کے مطابق سزائے موت جائز نہیں ہوتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ مقدمات میں ملزم کو بری کرنے پر مجبور ہوتے
ہیناس معاملے کو نمٹانے کے لئے سزائے موت کے متبادل کے طور پر عمر قید کی سزا کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
تعزیر زناء بالجبر (عصمت دری) اور اجتماعی زیادتی کی قانونی کاروائی کے لئے طریقہ کار ،اس طرح دیگر تمام تعزیرات ،پی
پی سی کے تحت تمام جرائم کو مجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء (ایکٹ نمبر ٥بابت ١٨٩٨ء) بعدازیں ‘سی آر پی سی‘ کے
ذریعے منضبط کیا گیا ہے۔
لعان انفساخ نکاح کی شکل ہے کوئی عورت جو کہ اپنے شوہر کی طرف سے بدکاری کی ملزمہ ہو اور اس الزام سے انکاری ہو
اپنی ازواجی زندگی سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ لعان سے متعلق قذف آرڈیننس کی دفعہ ١٤اس کے لئے طریقہ کار
فراہم کرتی ہے۔ انفساخ نکاح کی آئینی تعزیر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح ،قانون انفساخ ازواج مسلمانان١٩٣٩ ،ء (نمبر٨
بابت ١٩٣٨ء) کے تحت لعان کو طالق کی وجہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
زناء اور قذف کی تعریف ویسی ہی رہے گی جیسا کہ زناء اور قذف آرڈیننسوں میں ہے۔ نیز زناء اور قذف دونوں کے لئے سزائیں
ایک جیسی ہی ہوں گی۔
زناء سگین جرم ہے جو کہ لوگوں کو اخالق کو بگاڑتا ہے اور پاکدامنی کے احساس کو تباہ کرتا ہے۔ قرآن زناء کو لوگوں کے
اخالق کے برعکس ایک جرم ٹھہراتا ہے۔ چار چسم دید گواہوں کی ضرورت بال شرکت غیرے صریحا غیر معمولی بار نہیں ہے۔
یہ بھی دعوَی ہے کہ اگر حدیث کے برعکس ہو‘ ،ہللا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے گناہوں کو چھپاتے ہیں‘ جو کسی عمل
کا ارتکاب اس طرح غل غپاڑہ کی صورت میں کرتے ہیں تاکہ طار آدمی اس کو دیکھ لیں ،البتہ معاشرے کو بہت سنگین نقصان ہو
گا۔ اسی وقت قرآن راز داری کو تحفظ دیتا ہے ،بت بنیاد اندازوں سے روکتا ہے اور تحقیقات کرنے اور دوسروں کی زندگی میں
دخل اندازی سے منع کرتا ہے۔ اس لئے زناء کے ثبوت کی ناکامی کی وجوہ کی بنا پر قذف کے لئے سزا عائد ہو جاتی ہے (زناء
کے متعلق جھوٹا الزام) قرآن شکایت کنندہ سے زناء کو ثابت کرنے کے لئے چار چشم دید گواہ مانگتا ہے۔ شکایت کنندہ اور
شہادت دینے والوں کو اس جرم کی سنگینی سے بخوبی آگاہی ہونی چاہئے کہ اگر انہوں نے جھوٹا الزام لگایا یا الزام کے شک کو
دور نہ کر سکے تو وہ قذف کے لئے سزا وار ہوں گے۔ ملزم زناء کی قانونی کاروائی میں ناکامی کے نتیجے میں دوبارہ از سر
نو قانونی کاروائی شروع نہیں کرے گا۔
زناء آرڈیننس خواتین پر استغاثہ کا بے جا استعمال کرتا ہے ،خاندانی تنازعات کو طے کرنے اور بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی
آزادیوں سے انحراف کرتا ہے۔ زناء اور قذف کے ہر دو مقدمات میں اس کے بے جا استعمال پر نظر رکھنے کے لئے مجموعہ
ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ صرف سیشن عدالت ہی کسی درخواست پر مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار
استعمال کر سکے۔ اسے قابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے تاکہ ملزم دوران سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو
کوئی اختیار نہیں ہو گا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کر سکے تاوقتیکہ سیشن عدالت اس کی اجازت نہ دے اور
مذکورہ ہدایات ماسوائے عدالت میں حاضری کو یقینی بنائے جانے یا کسی سزا دہی کی صورت کے جاری نہیں کی جا سکتیں،
مجموعہ تعزیرات کی صورت میں ،عورت یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی تشہیر نہیں ہو گی اور اس کی خالف ورزی کی
صورت میں چھ ماہ تک کی سزائے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
مذکورہ تمام ترامیم کا بنیادی مقصد زناء اور قذف کو اسالمی احکام کے مطابق قابل سزا بنانا ہے۔ جیسا کہ قرآن اور سنت میں دیا
گیا ہے۔ استحصال سے روکنا ،پولیس کے بے جا اختیارات سے روکنا اور انصاف اور مساویانہ حقوق پر مبنی معاشرے کو تشکیل
دیتا ہے۔http://dunyapakistan.com/65247/#.XEQLPBJbPIU
https://www.dw.com/ur/%D8%AC%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D8%B2%DB%
حاالت حاضرہ
جنسی زیادتی کے مقدمات اور ڈی این اے ٹیسٹ :نظریاتی کونسل کے موقف پر تنقید
پاکستانی قوانین کو اسالمی قوانین سے ہم آہنگ بنانے کے لیے حکومتی مشاورتی ادارے اسالمی نظریاتی کونسل کے مطابق ڈی
این اے ٹیسٹ اور ان کے نتائج جنسی زیادتی کے مقدمات میں بنیادی ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے۔
س موقف کے بعد جنسی زیادتی کی شکار خواتین کے لیے مسائل برقرار رہنے کا اندیشہ ہے۔ 1979ء میں جنرل ضیاءالحق کے
دور میں حدود آرڈیننس متعارف کرایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت زنا کے مرتکب کسی بھی ملزم کو سزا سنانے کے لیے چار
گواہوں کی گواہی الزمی ہے۔ تاہم اس قانون سے سب سے زیادہ ایسی خواتین متاثر ہوتی ہیں ،جو جبری جنسی زیادتی یا زنا بالجبر
کا شکار ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایسے جرم کے مرتکب ملزمان کے کے خالف اتنی گواہیاں نہیں ال سکتیں بلکہ الٹا انہیں غلط الزام
لگانے کے جرم میں خود قانون کانشانہ بننا پڑ جاتا ہے۔
جنسی زیادتی کے جرم میں ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج انتہائی حد تک قابل اعتماد ہوتے ہیں
پاکستان میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس اب تک اپنی تحقیقات کے دوران دیگر شواہد کے
ساتھ ساتھ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ملزم کی درست شناخت کی سہولت سے بھی فائدہ اٹھاتی ائی ہے۔
تاہم اب اسالمی نظریاتی کونسل کے ایک حالیہ اعالن کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ جنسی زیادتی کے مقدمات میں سزا دلوانے کے
لیے بنیادی ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن انہیں اس طرح کے جرم کی تصدیق میں مدد کے لیے معاون
ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
چیئرمین اسالمی نظریاتی کونسل کے بیان کے مطابق زنا بالجبرمیں ڈی این اے ٹیسٹ کارآمد ثابت نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک ایسا
جرم ہے جسے ثابت کرنے کے لیے بہت احتیاط الزمی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ وہاں صحیح نہیں ہے۔
’ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کو بنیادی ثبوت کے طور پر تسلیم نہ کرنے سے بہت سے ملزمان سزاؤں سے بچ جائیں گے‘
اسالمی نظریاتی کونسل کے اس تازہ فیصلے سے اختالف کرتے ہوئے معروف عالم دین موالنا عبدالقوی کا ملکی میڈیا میں کہنا
تھا’’ ،میں تو حیران یہ ہوتا ہوں کہ کون شخص کہہ رہا ہے کہ یہ ضمنی شہادت ہے۔ ضمنی شہادت کی کوئی اصطالح نہ کتب فقہ
میں موجود ہے اور نہ ہی پیغمبر اسالم کے کسی فرمان میں اور نہ ہی قرآن میں ایسی کسی اصطالح کا ذکر موجود ہے۔ آج کے
سائنسی دور میں اگر اس ٹیسٹ سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ایسے کسی معاملے میں کون گناہ گار ہے اور کون بے گناہ ،تو میں
اپنے ساتھی علماء کرام سے یہی کہوں گا کہ خدا را ،آج کے دور میں جہالت کی بات نہ کریں۔‘‘
دوسری طرف نظریاتی کونسل کے اس اعالن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بیرسٹر شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ
رپورٹوں کے ذریعے کسی بھی مجرم کی شناخت کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ درست شناخت کا ایک قابل اعتبار ذریعہ ہے۔ اس
لیے یہ کہنا کہ اس میں غلطی کا احتمال ہوسکتا ہے ،درست نہیں’’ :جو رپورٹیں اتی ہیں ڈی این اے ٹیسٹ کی ،وہ 98فیصد درست
ہوتی ہیں۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ضمنی شہادت ہے اور اسے مسترد کر سکتے ہیں۔ کم از کم یہ حد (حدود ارڈیننس)
میں نہیں تو تعزیری جرم میں تو انا ہی چاہیے۔‘‘
بیرسٹر شاہدہ جمیل کے مطابق اگر ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی ثبوت کا درجہ نہ دیا گیا ،تو اس فیصلے سے خواتین سب سے
زیادہ متاثر ہوں گی’’ ،اگر ایک عورت صرف تین گواہ ال رہی ہے اور اسے چوتھا گواہ نہیں مل رہا تو اس کا مطلب ہے وہ ادمی
جو غلط کام کر رہا ہے ،وہ ارام سے قانون کی گرفت سے نکل جائے گا۔ کیونکہ اس کی شناخت کے طریقہ کار کو کمزور کر دیا
گیا ہے۔ اس حوالے سے کونسل نے کچھ نہیں سوچا۔‘‘
تحفظ حقوق نسواں ایکٹ 2006ء کی جملہ شقوں کا تجزیہ اس امر کو واضح کرتا ہے کہ اس قانون کو تحفظ نسواں ایکٹ ِ
2006ء کی بجائے پامالی حقوق نسواں ایکٹ 2006ء قرار دیا جائے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ آئین کے آرٹیکل 15
اور 16کا حوالہ دیتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ یہ قانون خواتین کی عزت و وقار ،ان کی نجی راز داری ،معاشرے میں
ان کے تحفظ اور سماجی برائیوں خاتمے کے لئے منظور کیا جارہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام بنیادی لوازمات
کے پورے ہونے کا کوئی امکان تک اس قانون میں موجود نہیں ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ پہلے سے موجود حدود آرڈیننس
میں بھی زنا جیسے جرم اور سماجی برائی کے خاتمے کے جو امکانات موجود تھے ان کو بھی مسدود کر دیا گیا ہے۔
ضروری تو یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کی تنفیذ اور اسے رو بہ عمل کرنے میں جو نقائص ہیں ان کو دور کیا جاتا ،انتظامیہ
اور پولیس کی طرف سے حدود آرڈیننس کے غلط استعمال کے راستے بند کیے جاتے اور اس کے استعمال کو مزید
موثر ،بامقصد اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کا ضامن بنایا جاتا مگر قانون سازوں نے اس کو ایسی شکل میں نافذ کر
دیا ہے جس میں معاشرے میں بے حیائی ،عریانی اور بدکاری کے فروغ کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ اگرچہ اس
قانون میں کئی باتیں محل نظر اور قاب ِل اعتراض ہیں تاہم اس میں اٹھائے گئے کچھ اقدامات ایسی نوعیت کے ہیں جن کے
:نتیجے میں یہ قانون اپنے عنوان کے بالکل برعکس حیثیت اختیار کرگیا ہے
۔ اس قانون میں قرار دیا گیا ہے کہ زنا کی شکایت صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی درج کرائی جاسکے گی اور یہ 1
حقیقت ہے کہ پورے ضلع میں ایک سیشن جج کی عدالت تک رسائی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ،مزید یہ کہ نہ
صرف عامۃ الناس کے لیے اس سماجی برائی کے خاتمے کی کوشش کرنے کے لیے عدالت تک رسائی محال بنا دی گئی
ہے بلکہ اس بنیادی معاشرتی برائی کی ابتدائی شکایت تک کے اندراج کے لیے سیشن جج کی شرط سے ضلع بھر کے
دوسرے عدالتی ڈھانچے پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کر دیا گیا ہے جبکہ وہ اس سے بھی سنگین نوعیت کے معامالت
نمٹا رہا ہے
۔ اس قانون کے تحت زنا کو قابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے جس کا الزمی نتیجہ یہ ہوگا کہ جرم کے ارتکاب پر 2
حکومت کی طرف سے گرفت اورمجرموں کو سزا کی شدت کا جو خوف راہ راست پر النے کا باعث بن سکتا تھا وہ ختم
ہوجائے گا اور یہ انتہائی ہلکا جرم قرار پائے گا۔
۔ اس قانون کے تحت زنا کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دیا گیا ہے گو کہ پہلے سے بھی یہ ایک اعتراض موجود 3
تھا کہ حدود آرڈیننس کو پولیس غلط استعمال کر رہی ہے ،سو ضروری یہ تھا کہ اسے مجسٹریٹ کی اتھارٹی کے تحت
قابل دست اندازی پولیس قرار دیا جاتا مگر موجودہ صورت میں یہ قانون اس جرم کے فروغ کا باعث بنے گا۔
۔ اس قانون کے تحت یہ قرار دیا گیا ہے کہ پولیس اس وقت تک زنا کے مجرم کو گرفتار نہیں کرسکتی جب تک کہ 4
سیشن جج کی طرف سے اس کے لیے احکامات جاری نہ کیے جائیں۔ اور سیشن عدالت بھی اس طرح کے احکامات اس
وقت جاری کرے گی جب اسے یقین ہوگا کہ اس طرح کے جرم کا ارتکاب ہوا ہے صاف ظاہر ہے اس اقدام کے بعد
شکایت کنندگان تو عدالتوں کا چکر لگاتے رہیں گے اور مجرم اس وقت تک آزاد رہے گا جب تک عدالت ازخود اس بات
کا یقین حاصل نہیں کرلیتی کہ واقعی مجرم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
۔ سب سے خطرناک امر جس کا تذکرہ اس قانون میں کیا گیا ہے یہ ہے کہ قرآن وسنت میں زنا اور قذف کی کوئی 5
تعریف نہیں بیان کی گئی اور نہ ہی ان کی کوئی سزا بیان کی گئی ہے۔ قانون سازوں کی طرف سے اس طرح کی بات کو
قانون کا حصہ بنانا یہ تو ان کی جہالت ،عدم آگہی اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے غفلت کا نتیجہ ہے یا ان کی بدنیتی
اور بددیانتی ہے کہ قرآن و سنت میں مذکور واضح احکامات میں چشم پوشی کرتے ہوئے اس طرح کے تصور کو قانون
کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں۔
اندریں حاالت جبکہ ملک بھر کے اہل دین اور اہل دانش حلقوں کی طرف سے اس قانون کو قرآن و سنت سے متصادم ِ
قرار دیا جارہا ہے مقتدر حلقوں کو ہم اس طرف متوجہ کرنا چاہیں گے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہیں جس
سے پاکستان کی نظریاتی اساس اور اسالمی تشخص پر زد پڑتی ہو اور پاکستانی معاشرے کے لیے ایسی ڈگر پر چلنے
کے امکانات پیدا ہوتے ہوں جو آئین میں طے کردہ بنیادی ضابطوں اور رہنما اصولوں کے منافی ہے۔ جس سے معاشرے
میں مثبت اخالقیات کی پامالی ،خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل کے امکانات پیدا
ہوتے ہوں۔ کیونکہ اس سے ہم معاشرتی زوال کی اس ڈگر پر چل نکلیں گے کہ مستقبل میں اس کی اصالح کے امکانات
بہت ہی کم ہوں گے۔
قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے عید میالد النبی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی تقریب پر اپنے اعزاز
میں بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیئے گئے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے
قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے ،یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے
دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔
قائد اعظم رحمۃ ہللا علیہ نے فرمایا’’ :آج بھی اسالمی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطالق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو
‘‘ برس پیشتر ہوتا تھا۔
گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا’’ :جو لوگ گمراہ ہو گئے ہیں یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے ہیں،
میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اعلی نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسالم نے ہر شخص کو مساوات ،عدل اور ’’ ٰ اسالم اور اس کے
انصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت ،مساوات اور حریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ
اعلی ترین معیار پر مبنی ہو اور اس کی بنیاد ہر شخص کے لیے انصاف اور عدل پر رکھی گئی ہو۔ قائد اعظم ٰ دیانت کے
محمد علی جناح نے فرمایا ہمیں اسے (پاکستان کا آئندہ دستور) بنا لینے دیجئے۔ ہم یہ بنائیں گے اور ہم اسے ساری دنیا کو
‘‘دکھائیں گے۔
صوبائی عصبیت کے بارے میں گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا کہ ’’یہ ایک بیماری ہے اور ایک لعنت‘‘۔ انہوں نے
فرمایا ’’ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان صوبائی عصبیت کی بیماری سے چھٹکارا پا لیں۔ ایک قوم جب تک کہ وہ ایک صف
میں نہ چلے ،کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہم سب پاکستانی اور اس مملکت کے شہری ہیں اور ہمیں مملکت کے لیے
‘‘خدمت ،ایثار اور زندگی کا نذرانہ پیش کرنا چاہیے تاکہ ہم اسے دنیا کی عالیشان اور خود مختار مملکت بنا سکیں۔
قائد اعظم رحمۃ ہللا علیہ نے اس عظیم اور تاریخی موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ
نے مجھے خوش آمدید کہا۔ اس بار ایسوسی ایشن سے کافی عرصے سے واقف ہوں۔ آج ہم یہاں تھوڑی سی تعداد میں اس
عظیم شخصیت صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے حضور خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے جن کے لیے نہ صرف
الکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی،
‘‘ اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراج عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔
رسول اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے ’’
والے تھے۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے
جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسالم کی بات کرتے ہیں تو بالشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں
سراہتے۔
اسالم نہ صرف رسم و رواج ،روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے ،بلکہ اسالم ہر مسلمان کے لیے ایک ’’
ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ قادر،
اعلی ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید ،اسالم کے
ٰ دیانت ،انصاف اور سب کے لیے عدل کے
بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسالم میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات ،آزادی اور
‘‘یگانگت ،اسالم کے بنیادی اصول ہیں۔
گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا’’ :اس زمانہ کے مطابق رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سادہ تھی۔ تاجر کی
حیثیت سے لے کر فرمانروا کی حیثیت تک آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے جس چیز میں بھی ہاتھ ڈاال کامیابی نے آپ
صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے قدم چومے۔ رسول اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم عظیم ترین انسان تھے جن کا چشم عالم نے
کبھی آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نظارہ نہیں کیا۔ تیرہ سو سال گزرے کہ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے
‘جمہوریت کی بنیاد ڈالی۔
http://www.pat.com.pk/urdu/tid/394/%D8%AA%D8%AD%D9%8
حدود آرڈیننس%D9%86/
آزاد دائرة المعارف ،ویکیپیڈیا سے
حدود آرڈیننس (انگریزی )Hudood Ordinances :پاکستان کا ایک قانون تھا جسے اس وقت کے عسکری سربراہ
مملکت جنرل ضیاء الحق نے الگو کیا۔ اس قانون کو مجموعہ تعزیرات پاکستان کی کچھ شقوں کو تبدیل کر کے الگو کیا
گیا اور نئی شقوں کا اضافہ کیا گیا۔[ ]2[]1اس قانون کی مخالفت کی وجہ سے 2006میں تحفظ خواتین بل پاس ہونے کے بعد
تبدیل کر دیا گیا۔