You are on page 1of 18

‫مختصر المعانی کا تعارف و تلخیص‬

‫)اسائنمٹ برائے ایم فل علوم اسالمیہ(‬

‫سیشن‪2020 - 2018‬‬

‫نام‬ ‫نگران‬
‫میمونہ جاوید‬ ‫پروفیسر ڈاکٹر اکرم ورک صاحب‬
‫لیکچرار گفٹ یونیورسٹی‬
‫رولنمبر‪18241029 .:‬‬

‫شعبہ علوم اسالمیہ‬


‫گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ‬
‫بسم ہللا الرحمن الرحیم‬
‫صلِّ ْی ع َٰلی َرسُوْ لِ ِہ ْال َک ِری ِْم‬
‫نَحْ َم ُدہ َو نُ َ‬
‫کتاب کا نام مختصر المعانی مکتبہ رحمانیہ اقرا سنٹر –غزنی سٹریٹ‪-‬اردو بازار‪-‬الہور‬
‫کل صفحات‪540:‬‬
‫مختصر المعانی کا مصنف و پس منظر‬
‫امام سکاکی نے ’’مفتاح العلوم‘‘ نامی ایک کتاب لکھی جس میں تین قسمیں تھیں‬
‫قسم ا ّول میں تین فنون تھے‪ :‬نحو‪ ،‬صرف اور اشتقاق۔‬ ‫ِ‬
‫قسم ثانی میں بھی تین فنون تھے‪ :‬عروض‪ ،‬قوافی‪ ،‬منطق۔‬ ‫ِ‬
‫قسم ثالث میں بھی تین فنون تھے‪ :‬معانی‪ ،‬بیان‪ ،‬بدیع۔‬ ‫ِ‬
‫قسم‬
‫پھر قاضی القضاۃ ابو عبد ہللا محمد بن عبدالرحمان قزوینی نے ’’مفتاح العلوم‘‘‪ .‬کی ِ‬
‫ثالث کی تلخیص کی اور اس کتاب کا نام ’’ تلخیص المفتاح‘‘ رکھا۔‬
‫پھرعالمہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی نے اس ’’تلخیص المفتاح‘‘ کی ایک مفصّل‬
‫شرح لکھی جس کا نام مط ّول رکھا۔‬
‫لیکن بعد میں لوگوں کے اصرار پر انھوں نے اپنی اس طویل شرح کو مختصر کرکے لکھا‬
‫اور اس کا نام ’’مختصر المعانی‘‘ رکھا۔‬
‫پوری کتاب کا خالصہ بارہ سواالت کے جوابات ہیں۔‬
‫سواالت‬
‫متن کا کیا نام ہے؟ }سوال‪{۱:‬‬
‫شرح کا کیا نام ہے؟ }سوال‪{۲:‬‬
‫ماتن کا کیا نام ہے؟ }سوال‪{۳:‬‬
‫شارح کا کیا نام ہے؟ }سوال‪{۴:‬‬
‫شرح کے خطبہ میں شارح صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں؟ }سوال‪{۵:‬‬
‫متن کے خطبہ میں ماتن صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں؟ }سوال‪{۶:‬‬
‫مقدمہ‘‘ کے متن کا خالصہ کیا ہے؟’’ }سوال‪{۷:‬‬
‫مقدمہ‘‘ کی شرح کا خالصہ کیا ہے؟’’ }سوال‪{۸:‬‬
‫اس کتاب میں کل کتنے فنون ہیں؟ }سوال‪{۹:‬‬
‫ہر فن کی تعریف کیا ہے؟ }سوال‪{۱۰:‬‬
‫ہر فن کا خالصہ کیا ہے؟ }سوال‪{۱۱:‬‬
‫خاتمہ‘‘ کا خالصہ کیا ہے؟’’ }سوال‪{۱۲:‬‬
‫‪:‬جوابات‬
‫}پہلے سوال کا جواب{‬
‫متن کا نام ’’تلخیص المفتاح‘‘ ہے۔‬
‫}دوسرے سوال کا جواب{‬
‫شرح کا نام ’’مختصر المعانی‘‘ ہے۔‬
‫}تیسرے سوال کا جواب{‬
‫ماتن صاحب کا نام ’’قاضی القضاۃ ابو عبد ہللا محمد بن عبدالرحمان قزوینی ‘‘ ہے۔‬
‫}چوتھے سوال کا جواب{‬
‫شارح صاحب کا نام ’’سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی ‘‘ ہے۔‬
‫}پانچویں سوال کا جواب{‬
‫‪:‬شرح کے خطبہ کا خالصہ یہ ہے‬
‫شارح صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے تلخیص المفتاح کی شرح بنام مط ّول لکھی تھی جس‬
‫میں میں نے کئی نِکات اور باریک باریک مسائل تفصیل سے بیان کیے تھے‪ ،‬لیکن پھر‬
‫بہت سے علمائے کرام نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ اس کو مختصر کروں‪ ،‬ان کے اس‬
‫‪:‬مطالبہ کی دو وجوہات تھیں‬
‫اب طلبا میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ مط ّول کے باریک اور پیچیدہ مسائل کو سمجھ سکیں۔‪1‬‬
‫انھیں اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر میں نے مط ّول کو مختصر نہ کیا تو کالم چور قسم کے‪2‬‬
‫لوگ میری ہی عبارتوں کو چرا چرا کر مختصر شروحات لکھ ڈالیں گے۔‬
‫لیکن میں ان کا یہ مطالبہ ٹالتا رہا اور میرے ٹال مٹول کی بھی دو وجوہا ت تھیں‬
‫خالق قدرت کی‪1‬‬
‫ِ‬ ‫ایسی شرح لکھنا جو سب کو اچھی لگے یہ انسانی طاقت سے باہر ہے‪ ،‬یہ‬
‫ہی دسترس میں ہے۔‬
‫اب اس علم کا دور دورہ بھی ختم ہوچکا ہے ‪ ،‬فصاحت اور بالغت کا علم تو بس نام کا رہ‪2‬‬
‫گیا ہے۔‬
‫پھر شارح صاحب نے مطالبہ کرنے والوں کے مطالبہ کی دوسری وجہ کا جواب دیا کہ‬
‫کالم چور قسم کے لوگ اگر میرے کالم سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو انھیں اٹھانے دو‪ ،‬کیوں کہ‬
‫نہروں سے پیاسوں کو کیسے روکا جاسکتا ہے ۔‬
‫پھر وہ لوگ اپنے مطالبے میں غالب ٓاگئے اور مجبور ہو کر میں نے مط ّول کو مختصر‬
‫کرنا شروع کردیا‪ ،‬حاالں کہ میرے پاس نہ وسائل تھے اور نہ میں اپنے وطن میں تھا‪ ،‬بلکہ‬
‫دوران سفر میں یہ شرح لکھی ہے۔‬
‫ِ‬
‫}چھٹے سوال کا جواب{‬
‫‪:‬متن کے خطبہ کا خالصہ یہ ہے‬
‫علم بالغت تمام‬
‫ماتن صاحب نے حمد و صالۃ کے بعد وج ِہ تالیف بیان کی ہے کہ چوں کہ ِ‬
‫علوم میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ اور پیچیدہ ترین تھا اور اس علم پر لکھی جانے والی‬
‫قسم ثالث ‪l‬تمام کتابوں میں سب سے زیادہ نفع بخش کتاب امام سکاکی‬ ‫کی مفتاح العلوم کی ِ‬
‫تھی اس لیے میں نے اس علم اور اس کتاب کا انتخاب کرکے اس کی تلخیص کردی‪ ،‬کیوں‬
‫کہ اس کتاب میں بعض چیزیں غیر ضروری تھیں انھیں ختم کردیا اور بعض چیزیں‬
‫ضرورت سے زیادہ طویل تھیں انھیں مختصر کردیا اور بعض مقام بہت پیچیدہ اور مغلق‬
‫تھے انھیں واضح کردیا ۔‬
‫‪} ‬ساتویں سوال کا جواب{‬
‫‪:‬مقدمے کے متن کا خالصہ‬
‫ابتدا میں دو چیزیں ہیں‪1 :‬فصاحت ‪2‬بالغت‬
‫‪:‬فصاحت کی تین قسمیں ہیں‬
‫کی فصاحت ‪2‬کالم کی فصاحت ‪3‬متکلم کی فصاحت‪1 ‬‬
‫کلمہ کی فصاحت یہ ہے کہ کلمہ تین چیزوں سے خالی ہو‪1‬‬
‫قیاس لغوی۔٭غرابت۔‬ ‫ِ‬ ‫ت‬
‫٭تنافر حروف۔٭مخالف ِ‬
‫کالم کی فصاحت یہ ہے کہ تمام کلمات کے فصیح ہونے کے ساتھ ساتھ کالم تین چیزوں‪2‬‬
‫‪:‬سے خالی ہو‬
‫کلمات٭ضعف تالیف٭تعقید(لفظی و معنوی)‬ ‫ِ‬ ‫٭تنافر‬
‫ِ‬
‫کالم فصیح بولنے پر قادر ہو۔‪3‬‬ ‫متکلم کی فصاحت یہ ہے کہ وہ ِ‬
‫‪:‬بالغت کی دو قسمیں ہیں‬
‫کالم کی بالغت‪2‬متکلم کی بالغت‪1‬‬
‫کالم کی بالغت یہ ہے کہ اس کو صحیح موقع پر استعمال کیا جائے (یعنی کالم فصیح‪1‬‬
‫ہونے کے ساتھ ساتھ مقتضائے حال کے مطابق بھی ہو۔)‬
‫کالم بلیغ کہنے پر قادر ہو۔‪2‬‬ ‫متکلم کی بالغت یہ ہے کہ وہ ِ‬
‫‪:‬خالصہ‬
‫‪:‬کسی بھی شخص کو فصیح اور بلیغ بننے کے لیے سات خرابیوں سے بچنا ضروری ہے‬
‫ضعف تالیف ‪6‬تعقید‪1‬‬
‫ِ‬ ‫تنافر کلمات ‪5‬‬
‫قیاس لغوی ‪3‬غرابت ‪ِ 4‬‬ ‫ِ‬ ‫ت‬ ‫تنافر حروف ‪2‬مخالف ِ‬
‫ِ‬
‫عدم مطابقت‬ ‫‪7‬مقتضائے حال کے ساتھ ِ‬
‫علم لغت‘‘ کے ذریعے ’’غرابت‘‘ سے بچا جاسکتا ہے۔‬ ‫ِ‬
‫قیاس لغوی‘‘ سے بچا جاسکتا ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫ت‬
‫علم صرف‘‘ کے ذریعے ’’مخالف ِ‬ ‫ِ‬
‫ہے۔’’علم‬
‫ِ‬ ‫’’ضعف تالیف‘‘ اور’’ تعقی ِد لفظی‘‘ سے بچا جاسکتا‬‫ِ‬ ‫علم نحو‘‘ کے ذریعے‬ ‫ِ‬
‫بیان‘‘ کے ذریعے ’’تعقی ِد معنوی‘‘ سے بچا جاسکتا ہے۔‬
‫ت مقتضائے حال‘‘ یعنی مرادی معنی کی ادائیگی میں‬ ‫’’عدم مطابق ِ‬
‫ِ‬ ‫علم معانی‘‘ کے ذریعے‬ ‫ِ‬
‫غلطی سے بچا جاسکتا ہے۔‬
‫ذوق سلیم سے ہے نہ کہ کسی خاص فن سے۔‬ ‫ِ‬ ‫تنافر کلمات کا تعلق‬ ‫ِ‬ ‫تنافر حروف اور‬
‫ِ‬
‫}ٓاٹھویں سوال کا جواب{‬
‫‪:‬مقدمہ کی شرح کا خالصہ یہ ہے‬
‫یوں تو شارح نے پوری کتاب میں متن کے الفاظ کی تحقیق اور تشریح کی ہے‪ ،‬لیکن چوں‬
‫کہ مقدمے میں متن سے پہلے شارح نے چار ایسی بحثیں کی ہیں جو متن میں نہیں ہیں اس‬
‫لیے انھیں خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔‬
‫‪:‬مختصر المعانی کی ابحاث کی وجہ حصر‬
‫جتنی چیزیں کتاب میں مذکور ہیں یا تو وہ مقاص ِد بالغت کی قبیل سے ہوں گی یا نہیں ‪ ،‬نہ‬
‫ہونے کی صورت میں وہ مقدمہ ہے اور ہونے کی صورت میں یا تو اس سے مقصود‬
‫مرادی معنی کی ادائیگی میں غلطی سے بچنا ہوگا یا تعقی ِد معنوی سے بچنا مقصود ہوگا یا‬
‫پھر کسی بھی چیز سے احتراز مقصود نہیں ہوگا ‪ ،‬پہلی صورت میں فنِّ ا ّول(علم معانی)‬
‫ہے ‪ ،‬دوسری صورت میں فنِّ ثانی(علم بیان) ہے ‪ ،‬تیسری صورت میں فنِّ ثالث(علم بدیع)‬
‫ہے۔‬
‫فنون ثلثہ اور خاتمہ پر ایک اشکال کا جواب‪2:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ِ‬
‫اشکال‪ :‬الفن االول ‪ ،‬الفن الثانی ‪ ،‬الفن الثالث ان تینوںلفظوں‪ .‬کو تو ماتن نے معرفہ ذکر کیا‬
‫جبکہ خاتمہ کے لفظ کو نکرہ الئے‪ ،‬اس کی کیا وجہ ہے؟‬
‫جواب‪ :‬الف الم عہدی ہے جس کے لیے شرط ہے کہ مدخول کا ذکر پہلے ہوچکا ہو‪ ،‬چوں‬
‫فنون ٰثلثہ کا ذکر ٓاچکا ہے اس لیے انھیں معرفہ بناکر الئے اور خاتمہ کا‬ ‫ِ‬ ‫کہ مقدمے میں‬
‫ذکر نہیں ہو ا تھا اس لیے اسے نکرہ بنا کر الئے۔‬
‫مقدمہ کا ماخذ ‪:‬‬
‫مقدمہ ماخوذ ہے مقدمۃ الجیش سے ‪ ،‬مشتق ہے ق َّدم بمعنی تق َّدم سے۔ مقدمۃ الجیش لشکر‬
‫کے اس حصہ کو کہا جاتا ہے جو مقدم یعنی ٓاگے ٓاگے ہو ۔‬
‫مقدمہ کی دو قسمیں ہیں‪)۱( :‬مقدمۃ العلم (‪)۲‬مقدمۃ الکتاب‬
‫مقدمۃ العلم ‪ :‬وہ چیزیں جن پر شروع فی العلم موقوف ہو یعنی تعریف ‪ ،‬موضوع اور غرض‬
‫و غایت۔‬
‫مقدمۃ الکتاب ‪ :‬کالم کا وہ حصہ جس کو مقصو ِد کالم سے پہلے بیان کیا جائے‪ ،‬ایک تو اس‬
‫وجہ سے کہ مقصو ِد کالم کو اس سے ایک تعلق اور ارتباط ہے ‪ ،‬دوسرے اس وجہ سے کہ‬
‫اس کے سمجھنے سے مقصود کے سمجھنے میں ٓاسانی ہوجائیگی۔‬
‫اس کتاب (مختصر المعانی) کا مقدمہ کونسا ہے؟‪4‬‬
‫علم بالغت دو علموں میں‬ ‫یہ مقدمۃ الکتاب ہے‪ ،‬کیوں کہ اس میں اس بات کا بیان ہے کہ ِ‬
‫علم بیان ‪ ،‬جب کہ مقصود یعنی فنو ِن ٰثلثہ کا اس مقدمہ‬ ‫علم معانی دوسرا ِ‬ ‫منحصر ہے ایک ِ‬
‫سے ربط بالکل واضح ہے۔‬
‫}نویں سوال کا جواب{‬
‫اس کتاب میں تین فنون ہیں‬
‫علم بدیع‪:1‬‬ ‫علم بیان ‪ِ 3‬‬ ‫علم معانی ‪ِ 2‬‬ ‫ِ‬
‫}دسویں سوال کا جواب{‬
‫‪:‬ہر فن کی تعریف‬
‫‪:‬علم معانی کتاب کے الفاظ میں‬ ‫ِ‬
‫ال۔‬ ‫ْ‬
‫ضی ال َح ِ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬ ‫َ‬ ‫َّ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬ ‫َٔا‬
‫ف ِبہ ْح َوال ُ اللفظِ ال َع َر ِب ِّی الت ِْی ِب َھا ُیط ِاب ُق اللفظ ُمق َت َ‬ ‫ْ‬
‫ہُ َو عِ ل ٌم ُّی ْع َر ُ‬
‫یہ ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے عربی لفظ کے ان احوال کو پہچانا جاتاہے جن کے‬
‫ذریعہ لفظ مقتضائے حال کے مطابق ہوتا ہے۔‬
‫‪:‬اپنے الفاظ میں‬
‫اس علم کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت کیا بات کرنی ہے اور کس طرح کرنی‬
‫ہے۔‬
‫‪:‬علم بیان کتاب کے الفاظ میں‬ ‫ِ‬
‫ح ال َّداَل َل ِۃ َع َل ْی ِہ۔‬ ‫ف ِبہ ا ْی َرا ُد ا ْل َم ْع َنی ا ْل َوا ِح ِد ِب ُط ُر ٍق ُّم ْخ َتلِ َف ٍۃ ف ِْی ُو ُ‬
‫ض ْو ِ‬ ‫ُہ َو عِ ْل ٌم ُّی ْع َر ُ‬
‫یہ ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے اس بات کو پہچانا جاتا ہے کہ ایک معنی کو کئی‬
‫ایسے طریقوں سے بیان کیا جائے جو لفظ کی معنی پر داللت کے واضح ہونے کے اعتبار‬
‫سے مختلف ہوں۔‬
‫‪:‬اپنے الفاظ میں‬
‫اس علم کے ذریعہ ایک ہی بات کو کئی انداز سے پیش کرنا ٓاجاتا ہے جن میں سے بعض‬
‫انداز کم واضح ہوتے ہیں اور بعض زیادہ واضح۔‬
‫‪:‬علم بدیع کتاب کے الفاظ میں‬ ‫ِ‬
‫ح ال َّداَل َل ِۃ۔‬‫ض ْو ِ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ف ِب ٖہ ُو ُج ْوہُ َت ْحسِ ْی ِن ا ْلکَاَل ِم َب ْع َد ِر َعا َی ِۃ ا ْل ُمطا َبق ِۃ َو ُو ُ‬ ‫ہُ َو عِ ْل ٌم ُّی ْع َر ُ‬
‫ت مقتضائے حال اور وضوح داللت کی رعایت‬ ‫یہ ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعہ مطابق ِ‬
‫کے بعد کالم کو حسین و جمیل بنانے کے طریقے پہچانے جاتے ہیں۔‬
‫‪:‬اپنے الفاظ میں‬
‫علم بیان کے ذریعہ کالم کو فصیح اور بلیغ بنانے کے بعد اب کالم کو مزید‬ ‫علم معانی اور ِ‬ ‫ِ‬
‫علم بدیع کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔‬ ‫خوشنما بنانے کے طریقے ِ‬
‫}گیارھویں سوال کا جواب{‬
‫درج ذیل ہے‬ ‫ِ‬ ‫‪:‬فن معانی‪ ،‬فن بیان اور فن بدیع میں سے ہر فن کا خالصہ‬
‫‪ ‬علم معانی کا خالصہ‬ ‫ِ‬
‫‪:‬اس فن میں کل ٓاٹھ ابواب ہیں‬
‫ت فعل ‪5‬قصر ‪6‬انشاء‪1‬‬ ‫احوال اسنا ِد خبری ‪2‬احوا ِل مسند الیہ ‪3‬احوا ِل مسند ‪4‬احوا ِل متعلقا ِ‬ ‫ِ‬
‫‪7‬فصل و وصل ‪8‬ایجاز ‪ ،‬اطناب ‪ ،‬مساوات‬
‫باب‪(:‬احوال اسناد خبری)‬ ‫ِ‬ ‫پہال‬
‫خبر دینے والے کے دوہی مقصد ہوتے ہیں ۔ یا تو اس لیے خبر دیتا ہے کہ مخاطب کو بھی‬
‫معلوم ہوجائے (اس کو فائدٔہ خبر کہتے ہیں) ۔ یا اس لیے خبر دیتا ہے کہ مخاطب کو یہ‬
‫الزم فائدٔہ خبر کہتے ہیں)۔‬ ‫معلوم ہوجائے کہ وہ بھی یہ بات جانتا ہے (اس کو ِ‬
‫اب اگر مخاطب کو وہ خبر بالکل معلوم نہ ہو تو کالم کو بغیر تاکید کے الناچاہیے ‪،‬اسے‬
‫ابتدائی کہتے ہیں اور اگر مخاطب کو تردد ہو تو تاکید النا حسن ہے ‪،‬اسے طلبی کہتے ہیں‬
‫منکر خبر ہو تو اس کے انکا ر کے بقدر تاکید النا واجب ہے ‪،‬اسے‬ ‫ِ‬ ‫اور اگر مخاطب‬
‫انکاری کہتے ہیں ۔ یہی کالم کو مقتضائے ظاہر کے مطابق النا ہے۔‬
‫اسناد کی دو قسمیں ہیں‪1 :‬حقیقی ‪2‬مجازی‬
‫فاعل اگر حقیقی ہو تو اسناد حقیقی ہوگی ۔ جیسے‪ :‬نہر کا پانی بہہ رہا ہے۔‬
‫اور اگر فاعل حقیقی نہ ہو تو اسناد مجازی ہوگی۔ جیسے‪ :‬نہر بہہ رہی ہے۔‬
‫ماتن صاحب کہتے ہیں کہ امام سکاکی نے مجاز کا انکار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ‬
‫استعارہ بالکنایہ ہے اس پر ماتن صاحب نے ان پر چار اشکاالت کیے ہیں اور شارح نے‬
‫امام سکاکی کی طرف داری کرتے ہوئے ان چاروں کے جوابات دیے ہیں۔‬
‫دوسرا اور تیسرا باب‪(:‬احوا ِل مسند الیہ و مسند)‬
‫ان دونوں کو یا کسی ایک کو کبھی حذف کیا جاتا ہے کبھی ذکر ‪ ،‬کبھی معرفہ الیا جاتا ہے‬
‫کبھی نکرہ‪،‬کبھی مقدم کیا جاتا ہے کبھی مٔوخر ‪ ،‬کبھی اسم الیا جاتا ہے کبھی فعل ‪ ،‬کبھی‬
‫ان کا تابع ال یا جاتا ہے کبھی نہیں الیا جاتا۔‬
‫ہر ایک کی وجوہات اور مثالیں کتاب میں ٓاسان طریقے سے مذکور ہیں ‪ ،‬زبانی یاد کرنے‬
‫کے الئق ہیں۔‬
‫تقدیم مسند الیہ سے ہے۔’’‬
‫ِ‬ ‫ت‘‘ ایک مشہور بحث ہے اس کا تعلق‬ ‫َما اَنَا قُ ْل ُ‬
‫ت فعل)‬‫چوتھا باب‪(:‬احوا ِ‪.‬ل متعلقا ِ‬
‫ت فعل ہیں۔‬‫متعلقات سے مراد مفعول بہ اور دیگر معموال ِ‬
‫‪:‬اس باب میں تین چیزیں ہیں‬
‫مفعول بہ کو حذف کرنے کے نکات۔‪1‬‬
‫مفعول بہ کو فعل پر مقدم کرنے کے نکات۔‪2‬‬
‫ت فعل میں سے بعض کو بعض پر مقدم کرنے کے نکات۔‪3‬‬ ‫معموال ِ‬
‫پانچواں باب‪(:‬قصر)‬
‫قصر کے لغوی معنی ہیں روکنا ‪ ،‬بند کرنا اور تجاوز کرنا۔‬
‫اصطالحی معنی یہ ہیں کہ ایک شے کو دوسری شے پر منحصر کر دینا چار طریقوں میں‬
‫‪:‬سے کسی ایک طریقے سے ۔ وہ چار طریقے یہ ہیں‬
‫عطف جیسے‪ :‬زیدشاعر ال کاتب۔‪1‬‬
‫نفی اور استثناء جیسے‪ :‬ما زید اال شاعر۔‪2‬‬
‫انما جیسے‪ :‬إنما زید کاتب۔‪3‬‬
‫تقدیم جیسے‪ :‬تمیمی ٔانا۔‪4‬‬
‫قصر کی دو قسمیں ہیں ‪1 :‬حقیقی ‪2‬اضافی‬
‫‪:‬دونوںمیں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں‬
‫قصر الموصوف‪ .‬علی الصفۃ۔‪2‬قصر الصفۃ علی الموصوف۔‪1.‬‬
‫‪:‬قصر اضافی کی دو قسمیں ہیں‬
‫شی‪1.‬‬
‫بشی مکان ٔ‬ ‫شی ٔ‬ ‫شی‪ 2 .‬تخصیص ٔ‬ ‫بشی دون ٔ‬ ‫شی ٔ‬ ‫تخصیص ٔ‬
‫قصر تعیین‬
‫ِ‬ ‫قصر قلب‪2‬‬
‫ِ‬ ‫قصر افراد کہتے ہیں۔ دوسری کی دو قسمیں ہیں‪1 :‬‬ ‫ِ‬ ‫پہلی کو‬
‫چھٹا باب‪(:‬انشائ)‬
‫انشاء کی دو قسمیں ہیں۔ (‪)۱‬طلبی (‪)۲‬غیر طلبی‬
‫‪:‬اس کتاب میں صرف طلبی سے بحث ہے اس کی پانچ قسمیں کتاب میں مذکور ہیں‬
‫تمنی‪2‬استفہام ‪3‬امر ‪4‬نہی ‪5‬نداء‪1‬‬
‫ساتواں باب‪(:‬فصل و وصل)‬
‫دو جملوں میں سے ایک کا دوسرے پر عطف ہو تو اسے وصل کہتے ہیں اور اگر عطف‬
‫نہ ہو تو اسے فصل کہتے ہیں۔‬
‫عطف ہونے کی صورت میں پہلے جملے کا کوئی محل اعراب ہوگا یا نہیں ہوگا ۔ اگر ہوگا‬
‫تو دوسرے جملے کو پہلے جملے کے اعراب میں شریک کرنے کا ارادہ کیا جائے گا یا‬
‫نہیں اور اگر محل اعراب نہیں ہوگا تو دوسرے جملے کا پہلے جملے کے ساتھ وائو کے‬
‫عالوہ کسی اور عاطف کے ذریعہ ربط کرنا ہوگا یا نہیں گا‪ ،‬نہ ہونے کی صورت میں پہلے‬
‫جملے میں کوئی حکم ہوگا یا نہیں ہوگا ۔ ہر صورت کا حکم الگ الگ ہے۔‬
‫ٓاٹھواں باب‪(:‬ایجاز ‪ ،‬اطناب ‪ ،‬مساوات)‬
‫مساوات‪ :‬مرادی معنی کو اتنے الفاظ کے ساتھ بیان کیا جائے جو نہ کم ہوں نہ زیادہ۔‬
‫ایجاز‪ :‬الفاظ کم ہوں مگر مرادی معنی کو ادا کرنے کے لیے کافی ہوں۔‬
‫مساوات‪ :‬الفاظ زیادہ ہوں‪ ،‬مگر بال فائدہ نہ ہوں۔‬
‫ایجازاور اطناب کی کئی قسمیں ہیں۔‬
‫علم بیان کا خالصہ‬ ‫ِ‬
‫اس علم کے ذریعے ایک معنی کو کئی ایسے انداز سے پیش کرنا ٓاجاتا ہے جن میں لفظ کی‬
‫معنی پر داللت کے واضح ہونے کے اعتبار سے فرق ہو‪ ،‬گویا اصل چیز داللت ہے۔‬
‫داللت کی تین قسمیں ہیں‪1 :‬مطابقی ‪2‬تضمنی ‪3‬التزامی‬
‫اہل بیان کی اصطالح میں وضعیہ کہتے ہیں اور باقی دونوں کو عقلیہ۔‬ ‫پہلی کو ِ‬
‫علم بیان میں کوئی دخل نہیں ہے۔‬ ‫ت مطابقی کا تو ِ‬ ‫دالل ِ‬
‫ت تضمنی اور التزامی دونوں میں لفظ کی معنی پر داللت پورے معنی موضوع لہ پر‬ ‫دالل ِ‬
‫نہیں ہو رہی ہوتی ‪ ،‬اگر اس داللت کے نہ ہونے پر کوئی قرینہ قائم ہوجائے تو اس لفظ کو‬
‫مجاز کہتے ہیں اور اگر قرینہ قائم نہ ہو تو اسے کنایہ کہتے ہیں۔‬
‫مجاز مرسل ‪2‬استعارہ‬‫ِ‬ ‫پھر مجاز کی دو قسمیں ہیں‪1 :‬‬
‫کیوں کہ معنی حقیقی اور معنی مجازی میں اگر عالقہ تشبیہ ہے تو اس کو استعارہ کہتے‬
‫مجاز مرسل کہتے ہیں۔‬‫ِ‬ ‫ہیں اور اگر کوئی اور عالقہ ہے تو اسے‬
‫اصولیین کے نزدیک استعارہ اور مجاز ایک چیز کے دو نام ہیں‪ ،‬جب کہ اہل بیان کے‬
‫مجاز مرسل اور پچیسویں کو استعارہ کہتے ہیں۔‬ ‫ِ‬ ‫نزدیک مجاز کی ‪ ۲۵‬قسمیں ہیں ‪ ۲۴ ،‬کو‬
‫لہٰ ذا اس فن میں تین مقاصد ہیں‪1 :‬تشبیہ ‪2‬مجاز ‪3‬کنایہ‬
‫تشبیہ کا بیان‬
‫‪:‬تشبیہ کی تعریف‬
‫َرض۔‬
‫ٍ‬ ‫ف بَِٔادَا ٍۃ لِغ‬
‫ق َٔا ْم ٍر بَِٔا ْم ٍر فِ ْی َوصْ ٍ‬ ‫إِ ْل َحا ُ‬
‫حرف تشبیہ کے ذریعے کسی وصف کے اندر کسی‬ ‫ِ‬ ‫ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ‬
‫غرض سے مالنا۔‬
‫‪:‬ارکا ِن تشبیہ‬
‫حرف تشبیہ ‪4‬وج ِہ تشبیہ‪1‬‬ ‫ِ‬ ‫مشبّہ ‪2‬مشبّہ بہ ‪3‬‬
‫جیسے‪ :‬زید کأالسد فی الشجاعۃ ‪،‬اس مثال میں ’’زید‘‘ مشبہ ہے ‪’’ ،‬اسد‘‘ مشبہ بہ ہے ‪،‬‬
‫حرف تشبیہ ہے اور ’’شجاعت‘‘ وجہ تشبیہ ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫’’ک‘‘‬
‫طرفین تشبیہ بھی کہتے ہیں۔‬ ‫ِ‬ ‫مشبّہ اور مشبّہ بہ کو‬
‫‪: ‬اغراض تشبیہ‬
‫ِ‬
‫‪:‬دو قسمیں ہیں‬
‫وہ اغراض جو مشبّہ کے اعتبار سے ہوں۔‪1‬‬
‫وہ اغراض جو مشبّہ بہ کے اعتبار سے ہوں۔‪1‬‬
‫‪:‬پہلی قسم میں سات غرضیں ہیں‬
‫تقریر حا ِل مشبّہ ‪5‬تزیی ِن مشبّہ‪1‬‬
‫ِ‬ ‫مقدار حا ِل مشبّہ ‪4‬‬
‫ِ‬ ‫امکان مشبّہ ‪2‬بیا ِن حا ِل مشبّہ ‪3‬بیا ِن‬ ‫ِ‬ ‫بیان‬
‫ِ‬
‫استطراف مشبہ(یعنی مشبّہ کو انوکھا اور دلچسپ بنانا)‬ ‫ِ‬ ‫تقبیح مشبّہ ‪7‬‬ ‫ِ‬ ‫‪6‬‬
‫‪:‬دوسری قسم میں دو غرضیں ہیں‬
‫یہ وہم ڈالنا کہ مشبّہ بہ وجہ تشبیہ میں مشبّہ سے اتم ہے۔‪1‬‬
‫مشبّہ بہ کو اہتمام کے ساتھ بیان کرنا۔‪2‬‬
‫‪:‬اقسام تشبیہ‬ ‫ِ‬
‫پانچ اعتبار سے تشبیہ کی مختلف قسمیں ہیں۔‬
‫باعتبار‪1‬‬
‫ِ‬ ‫باعتبار ارکا ِن تشبیہ ‪5‬‬
‫ِ‬ ‫حرف تشبیہ ‪4‬‬
‫ِ‬ ‫باعتبار‬
‫ِ‬ ‫باعتبار وجہ تشبیہ ‪3‬‬ ‫ِ‬ ‫باعتبار طرفین ‪2‬‬ ‫ِ‬
‫غرض تشبیہ۔‬ ‫ِ‬
‫باعتبار طرفین‪ ،‬تشبیہ کی تین تقسیمیں ہیں‪1:‬‬ ‫ِ‬
‫پہلی تقسیم‪ :‬٭ح ّسیّان ٭عقلیّان ٭مختلفان‬
‫دوسری تقسیم‪ :‬٭تشبی ِہ مفرد بمفرد ٭تشبی ِہ مرکب بمرکب‬
‫٭تشبی ِہ مفرد بمرکب ٭تشبی ِہ مرکب بمفرد‬
‫تیسری تقسیم‪ :‬٭طرفین متعدد ہوں ٭صرف مشبّہ متعدد ہو‬
‫٭صرف مشبّہ بہ متعدد ہو‬
‫‪:‬باعتبار وجہ تشبیہ‪ ،‬تشبیہ کی چار تقسیمیں ہیں‬ ‫ِ‬
‫ت طرفین‬‫ِ‬ ‫حقیق‬ ‫از‬ ‫خارج‬ ‫٭غیر‬ ‫طرفین‬ ‫ت‬
‫ِ‬ ‫حقیق‬ ‫از‬ ‫تقسیم‪:‬٭خارج‬ ‫پہلی‬
‫دوسری تقسیم‪:‬٭واحد ٭بمنزلٔہ واحد٭متعدد‬
‫تیسری تقسیم‪:‬٭مجمل ٭مفصّل‬
‫چوتھی تقسیم‪:‬٭قریبٌ کثیر االستعمال ٭بعی ٌد قلیل االستعمال‬
‫حرف تشبیہ‪ ،‬تشبیہ کی دو قسمیں ہیں‬ ‫ِ‬ ‫‪:‬باعتبار‬
‫ِ‬
‫حرف تشبیہ مذکور ہو)‬ ‫ِ‬ ‫٭مرسل(جسمیں‬ ‫ہو)‬ ‫محذوف‬ ‫تشبیہ‬ ‫حرف‬
‫ِ‬ ‫د(جسمیں‬ ‫٭ مٔو َّک‬
‫ارکان تشبیہ‪ ،‬تشبیہ کی ٓاٹھ قسمیں ہیں‬ ‫ِ‬ ‫باعتبار‬
‫ِ‬
‫مشبہ مذکور‬
‫مشبہ محذوف‬
‫‪1‬‬
‫وجہ شبہ مذکور ‪ ،‬اداۃ مذکور‬
‫‪5‬‬
‫وجہ شبہ مذکور ‪ ،‬اداۃ مذکور‬
‫‪2‬‬
‫وجہ شبہ مذکور ‪ ،‬اداۃ محذوف‬
‫‪6‬‬
‫وجہ شبہ مذکور ‪ ،‬اداۃ محذوف‬
‫‪3‬‬
‫وجہ شبہ محذوف ‪ ،‬اداۃ مذکور‬
‫‪7‬‬
‫وجہ شبہ محذوف ‪ ،‬اداۃ مذکور‬
‫‪4‬‬
‫وجہ شبہ محذوف ‪ ،‬اداۃ محذوف‬
‫‪8‬‬
‫وجہ شبہ محذوف ‪ ،‬اداۃ محذوف‬
‫غرض تشبیہ‪ ،‬تشبیہ کی دو قسمیں ہیں‪ :‬مقبول اور مردود۔‪5‬‬ ‫ِ‬ ‫باعتبار‬
‫ِ‬
‫مجاز کا بیان‬
‫مجاز مرکب‬
‫ِ‬ ‫مجاز مفرد ‪2‬‬
‫ِ‬ ‫مجاز کی دو قسمیں ہیں‪1:‬‬
‫‪:‬مجاز مفرد‬
‫ِ‬
‫وہ مفرد جو غیر معنی موضوع لہ میں استعمال ہو کسی عالقہ کی وجہ سے۔‬
‫پھر اس کی دو قسمیں ہیں۔ اگر وہ عالقہ تشبیہ ہے تو استعارہ کہالتا ہے اور اگر تشبیہ کے‬
‫مجاز مرسل کہتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫عالوہ کوئی اور عالقہ ہے تو اس کو‬
‫‪:‬استعارہ کی چار قسمیں ہیں‬
‫‪:‬استعارہ مکنیہ‬
‫جس میں ارکا ِن تشبیہ میں سے صرف مشبہ کو ذکر کیا جائے۔‬
‫‪:‬استعارہ تخییلیہ‬
‫جس میںمشبہ بہ متروک کے الزم کو مشبہ کیلیے ثابت کیا جائے۔‬
‫‪:‬استعارہ تصریحیہ‬
‫جس میںمشبّہ بہ بول کر مشبّہ کو مراد لیا جائے۔‬
‫‪:‬استعارہ ترشیحیہ‬
‫جس میں مشبّہ بہ کے مالئم کو مشبّہ کیلیے ثابت کیا جائے۔‬
‫‪:‬مجاز مرسل کی چوبیس قسمیں ہیں‬ ‫ِ‬
‫سبب‪،‬مسبب ‪2‬اس کا عکس ‪3‬کل‪،‬جزء ‪4‬اس کا عکس ‪5‬الزم‪،‬ملزوم ‪6‬اس کا عکس‪17‬‬
‫‪10‬مقیّد‪،‬مطلق ‪11‬اس کا عکس ‪12‬خاص‪13‬عام ‪14‬اس کا عکس‪ 15‬مح ّل‪9‬حا ّل اس کا عکس‬
‫باعتبارمایٔوول بدلین‪27‬‬
‫ِ‬ ‫باعتبار ماکان‪17‬‬
‫ِ‬ ‫‪،19 20‬حذف مضاف ‪18‬حذف مضاف الیہ‬
‫اسم ٓالہ‪ 23‬زیادت‪ 22‬حذف‪ 21‬مجاورت عموم النکرۃ فی‬ ‫‪26‬ض ّدین معرّف‪25،‬من ّکر‪ِ 24‬‬
‫االثبات‬
‫‪: ‬مجاز مرکب‬
‫ِ‬
‫وہ مرکب جو غیر معنی موضوع لہ میں استعمال ہو کسی عالقہ کی وجہ سے۔‬
‫‪:‬پھر اس کی دو قسمیں ہیں‬
‫‪.‬اگر وہ عالقہ تشبیہ ہے تو ’’استعارہ تمثیلیہ‘‘ کہالتا ہے‪1‬‬
‫’’مجاز مرکب مرسل‘‘ کہتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫اگر تشبیہ کے عالوہ کوئی اور عالقہ ہے تو اس کو‬
‫کنایہ کا بیان‬
‫‪:‬کنایہ کی تعریف‬
‫وہ لفظ جس سے بجائے معنی حقیقی کے معنی الزمی مراد لیا جائے‪ ،‬لیکن اس بات کا‬
‫امکان ہو کہ معنی حقیقی کو مراد لے لیا جائے۔‬
‫‪:‬کنایہ کی اقسام‬
‫کنایہ کی تین قسمیں ہیں۔‬
‫وہ کنایہ جس سے مطلوب صفت ہو۔‪1‬‬
‫وہ کنایہ جس سے مطلوب نسبت ہو۔‪2‬‬
‫وہ کنایہ جس سے مطلوب نہ صفت ہو نہ نسبت۔‪3‬‬
‫‪:‬کے نزدیک کنایہ کی پانچ قسمیں ہیں ‪l‬امام سکاکی‬
‫تعریض ‪2‬تلویح ‪3‬رمز ‪4‬ایماء ‪5‬اشارہ‪1‬‬
‫‪:‬تنبیہ‬
‫اہل بالغت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مجاز میں زیادہ بالغت ہے بنسبت حقیقت کے‪ ،‬اسی‬ ‫ِ‬
‫طرح کنایہ میں زیادہ بالغت ہے بنسبت تصریح کے۔‬
‫علم بدیع کا خالصہ‬ ‫ِ‬
‫علم‬
‫علم معانی کے ذریعے مرادی معنی کی ادائیگی میں غلطی سے بچنے کے بعد اور ِ‬ ‫ِ‬
‫بیان کے ذریعہ تعقی ِد معنوی سے بچنے کے بعد ‪ ،‬اب کالم کو مزید خوشنما بنانے کے جو‬
‫علم بدیع میں ہوتا ہے اور ان طریقوں کو ’’وجو ِہ تحسی ِن کالم‘‘ اور‬ ‫طریقے ہیں اُن کا ذکر ِ‬
‫’’بدائع و صنائع‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫پھر وجو ِہ تحسی ِن کالم کی دو قسمیں ہیں‪1 :‬معنوی ‪2‬لفظی‬
‫معنوی کی تیس قسمیں ہیں جبکہ لفظی کی سات قسمیں ہیں۔‬
‫‪:‬معنوی وجو ِہ تحسی ِن کالم‬
‫)یعنی کالم کے معنی کو خوشنما بنانے کے طریقے(‬
‫مطابقت‪1‬‬
‫دو لفظوں میں کچھ نہ کچھ یا مکمل تقابل ہونا۔ جیسے‪ :‬حرکت و سکون ‪ ،‬وجود و سلب ‪،‬‬
‫نابینا و ٓانکھ ‪ ،‬باپ ہونا اور بیٹا ہونا۔‬
‫ت نظیر‪2‬‬ ‫مراعا ِ‬
‫دو ایسی چیزوں کا ذکر کرنا جن میں کچھ مناسبت ہو‪ ،‬لیکن تضاد نہ ہو ۔ جیسے‪ :‬شمس و‬
‫‪ ‬قمر ‪ ،‬در و دیوار‬
‫ارصاد‪3‬‬
‫جملہ یا شعر کے ٓاخری کلمہ سے پہلے ایسا لفظ النا جو ٓاخری کلمہ پر دال ہو ‪ ،‬بشرطیکہ‬
‫حرف روی معلوم ہو۔ جیسے‪َ { :‬و َما َکانَ اﷲُ لِ َی ْظلِ َم ُہ ْم َو ٰلکِنْ َکا ُن ْوا َٔا ْنفُ َ‬
‫س ُہ ْم‬ ‫ِ‬ ‫قافیہ کا وزن اور‬
‫َی ْظلِ ُم ْونَ ۔}‬
‫مشاکلت‪4‬‬
‫ایک شے کو اس کے لفظ کے عالوہ کسی دوسرے لفظ سے ذکر کرنا ‪ ،‬اِس شے کے اُس‬
‫دوسرے لفظ کے ساتھ النے کے ارادے کی وجہ سے۔ جیسے‪ :‬زید درزی سے کپڑے‬
‫سلوانے گیا ‪ ،‬درزی نے اخالقا ً اس سے پوچھا کہ بتائیے ہم ٓاپ کے لیے کیا پکائیں ‪ ،‬زید‬
‫نے کہا میرے لیے ایک قمیص پکالو ۔‬
‫مزاوجت‪5‬‬
‫جملہ شرطیہ کے شرط اور جزا دونوں میں ایک ایسی چیز کو ذکر کرنا جو شرط اور جزاء‬
‫پر مرتب ہو رہی ہو۔ جیسے‪’’ :‬جب زید نے میرے پاس ٓاکر مجھے سالم کیا تو میں نے‬
‫‘‘بھی اس کااکرام کیا اور پھر اُس کو سالم کیا۔‬
‫عکس‪6‬‬
‫کالم کے اندر دو چیزوں کو ذکر کرنا پھر پہلے والی کو بعد میں اور بعد والی کو پہلے ذکر‬
‫‘‘کرنا جیسے‪’’ :‬عادات السادات سادات العادات۔‬
‫رجوع‪7‬‬
‫ایک بات کہہ کر اسے رد کردینا کسی نکتہ کی وجہ سے۔ جیسے‪ :‬شاعر کے شعر کا‬
‫‪:‬ترجمہ ہے‬
‫ٹھہر ایسے گھر میں جس کو زمانے کے پرانا ہونے نے ختم نہیں کیا ‪ ،‬کیوں نہیں !’’‬
‫‘‘ہوائوں اور بارشوں نے اسے بدل کر رکھ دیا ہے۔‬
‫توریہ‪8‬‬
‫ایک ایسا لفظ ذکر کرنا جس کے دو معنی ہوں‪ ،‬ایک قریب دوسرا بعید‪ ،‬پھر کسی خفیہ‬
‫قرینے پر اعتماد کرتے ہوئے معنی بعید کو مراد لینا۔ جیسے‪{ :‬اَلرَّحْ مٰ ُن َعلَی ْال َعرْ ِ‬
‫ش‬
‫استوی کے دو معنی ہیں‪ :‬معنی قریب استقرار ہے اور معنی بعید غالب ٓانا ہے ‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫ا ْست َٰوی}‬
‫یہاں معنی بعید مراد لیا گیا ہے‪ ،‬جبکہ قرینہ یہ ہے کہ معنی قریب یعنی استقرار ہللا کے حق‬
‫میں محال ہے۔‬
‫استخدام‪9‬‬
‫لفظ مشترک سے ایک معنی مراد لینا‪ ،‬پھر اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر سے دوسرا‬ ‫ِ‬
‫معنی مراد لینا۔ جیسے‪’’ :‬جب سماء نازل ہوتا ہے تو ہم اس میں جانور چراتے ہیں۔‘‘ اس‬
‫جملے میں لف ِظ ’’سمائ‘‘ سے بارش مراد لیا اور ضمیر سے گھاس۔‬
‫لف و نشر‪-‬‬ ‫ّ‬
‫چند چیزوں کو اکھٹے یا الگ الگ ذکر کرنے کے بعد ان کے متعلقات کو بغیر تعیین کے‬
‫ذکر کرنا سامع کی سمجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے۔ جیسے‪’’ :‬کلمہ کی تین اقسام ہیں‪ :‬اسم ‪،‬‬
‫فعل اور حرف اور ان کی مثالیں ہیں زید ‪ ،‬ضرب اور من۔‬
‫‪:‬جمع‬
‫چند چیزوں پر ایک ہی حکم لگانا۔ جیسے‪{ :‬اَ ْل َمال ُ َوا ْل َب ُن ْونَ ِز ْی َن ُۃ ا َل َح ٰیو ِۃ ال ُّد ْن َیا}‬
‫‪:‬تفریق‬
‫ایک طرح کی دو چیزوں کا فرق بیان کرنا۔ جیسے‪{ :‬فَ َو َج َد فِ ْیہَا َر ُجلَی ِْن یَ ْقتَتَاَل نَ ٰہ َذا ِم ْن ِش ْی َعتِ ٖہ‬
‫َو ٰہ َذا ِم ْن َع ُد ِّو ٖہ}‬
‫تقسیم‪:‬‬
‫چند چیزیں ذکر کرکے ان کے متعلقات کو تعیین کے ساتھ ذکر کرنا۔‬
‫‪:‬جیسے عالمہ اقبال کا یہ شعر‬
‫پروانہ اک پتنگا ‪ ،‬جگنو بھی اک پتنگا وہ روشنی کا طالب ‪ ،‬یہ روشنی سراپا‬
‫‪:‬جمع مع التفریق‬
‫دو چیزوں پر ایک حکم لگا کر اعتباری فرق کرنا۔ جیسے‪’’ :‬تیرا چہرہ ٓاگ کی طرح ہے‬
‫‘‘روشنی کے اعتبار سے اور میرا دل ٓاگ کی طرح ہے گرم ہونے کے اعتبار سے۔‬
‫‪:‬جمع مع التقسیم‬
‫چند چیزوں پر ایک ہی حکم لگانا پھر ان کو الگ الگ کردینا یا چند چیزوں کو الگ الگ‬
‫بیان کر کے ان پر ایک ہی حکم لگانا‪ ،‬جیسے شاعر کا قول‪’’ :‬وہ روم کے شہر خرسنہ پر‬
‫مسلّط ہوا تو رومی لوگ ‪ ،‬ان کی صلیبیں اور عبادت گاہیں سب بدبخت ہوگئے ‪ ،،‬کیوں کہ‬
‫اس نے ان کی بیویوں کو قید کرلیا ‪ ،‬بچوں کو قتل کردیا ‪ ،‬ان کا مال و متاع چھین لیا اور ان‬
‫‘‘کی کھیتیوں کو ٓاگ لگادی۔‬
‫‪:‬جمع مع التفریق و التقسیم‬
‫نے نفس میں سب کو جمع کردیا‪ ،‬پھر یہ ‪t‬جیسے سورٔہ ہود(ٓایت نمبر‪ ۱۰۵‬تا ‪)۱۰۸‬میں ہللا‬
‫کہہ کر تفریق کی کہ بعض بدبخت اور بعض نیک بخت ہیں‪ ،‬پھر ان کی تقسیم کی کہ‬
‫بدبختوں کے لیے یہ سزا ہے اور نیک بختوں کے لیے یہ جزا ہے۔‬
‫‪:‬تجرید‬
‫کسی صفت والی شے سے دوسری ایسی شے نکالنا جو اس صفت میں پہلی شے کے مشابہ‬
‫ہو۔ یہ عمل اس لیے کیا جاتا ہے‪ ،‬تاکہ اس صفت میں مبالغہ ہوجائے‪ ،‬جیسے‪ :‬لِ ْی ِم ْن فُالَ ٍن‬
‫ق َح ِم ْی ٌم۔‬‫ص ِد ْی ٌ‬ ‫َ‬
‫‪:‬مبالغٔہ مقبولہ‬
‫دعوی کیا جائے جو ناممکن ہو یا بعید از طبع ہو مبالغہ کہالتا‬ ‫ٰ‬ ‫کسی وصف کا اس حد تک‬
‫ہے۔ پھر اگر عقالً و عادۃً دونوں اعتبار سے ناممکن ہو تو غلو کہالتا ہے جو بعض‬
‫صورتوں میں مقبول اوربعض صورتوں میں مردود ہے اور اگر عقالً ممکن ہو تو مبالغہ‬
‫مقبولہ کہالتا ہے۔ جیسے‪ :‬کسی شاعر نے گھوڑے کے بارے میں کہا‪’’ :‬اس نے ایک ہی‬
‫‘‘حملے میں گائیں اور بیلوں کو گرادیا‪ ،‬لیکن اسے پسینا تک نہیں ٓایا۔‬
‫ب کالمی‬ ‫‪:‬مذہ ِ‬
‫کبری کو مالکر اہ ِل کالم کے طریقے کے مطابق نتیجہ نکالنا۔‬ ‫ٰ‬ ‫صغری اور‬ ‫ٰ‬
‫جیسے‪َ {:‬ل ْو َکانَ ِف ْی ِہ َما ٰالِ َہ ٌۃ ِاالَّ اﷲُ َل َف َ‬
‫سدَ َتا}‬
‫‪:‬حسن تعلیل‬ ‫ِ‬
‫کسی بات کی ایسی علت تالش کرنا جو اس کے ساتھ باریک سی مناسبت رکھتی ہو‪ ،‬لیکن‬
‫وہ حقیقۃً علت نہ ہو‪ ،‬جیسے ایک شعر کا ترجمہ ہے‪’’ :‬بادل نے تیری سخاوت کی نقل نہیں‬
‫‘‘کی ‪،‬یہ جو پانی برس رہاہے یہ تو اس کے بخار کا پسینا ہے۔‬
‫‪:‬تفریع‬
‫کسی شے کے ایک متعلق کے لیے حکم کو ثابت کرنے کے بعد اس شے کے دوسرے‬
‫متعلق کے لیے اسی حکم کو ثابت کرنا۔ جیسے‪ :‬شاعر کا قول ہے بادشاہ کے خاندان کی‬
‫مدح میں کہ تمھاری عقلیں جہالت کی بیماری کو ختم کرتی ہیں جس طرح کہ تمھارا خون‬
‫َکلَب نامی بیماری کو ختم کرتا ہے۔‬
‫‪:‬تاکید المدح بما یشبہ الذم‬
‫‪:‬بظاہر برائی کرنا‪ ،‬لیکن درحقیقت مزید تعریف کرنا۔ جیسے‪ :‬ایک شعر کا ترجمہ‬
‫ان لوگوں میں عیب صرف یہ ہے کہ مستقل لڑائی کی وجہ سے ان کی تلواروں پر’’‬
‫‘‘دندانے پڑچکے ہیں۔‬
‫‪:‬تاکید الذم بما یشبہ المدح‬
‫بظاہر تعریف کرنا‪ ،‬لیکن درحقیقت مزید برائی کرنا۔ جیسے‪’’ :‬زید میں صرف یہی اچھائی‬
‫‘‘ہے کہ وہ اچھائی کرنے والوں کے ساتھ برائی کرتا ہے۔‬
‫‪:‬استتباع‬
‫کسی کی تعریف ان الفاظ سے کرنا جن سے اس کی اور بھی تعریف ہوجائے۔ جیسے‪:‬‬
‫شاعر کا قول ہے کہ تو نے اتنی زندگیوں کوختم کردیا کہ اگر تو ان کو جمع کرلیتا تو دنیا‬
‫کو تیرے ہمیشہ رہنے کی خوش خبری دے دی جاتی۔‬
‫‪:‬ادماج‬
‫کسی مقصد کے لیے بات اس طرح کرنا کہ اس میں ساتھ ساتھ اور باتیں بھی ٓاجائیں یعنی‬
‫اگر کسی کی ایک تعریف کی ہے تو وہ بات ایک اور تعریف پر بھی مشتمل ہو اسی طرح‬
‫برائی بھی۔ ادماج عام ہے ‪ ،‬استتباع خاص ہے ‪ ،‬ل ٰہذا جو مثال اُس کی ہے وہی اِس کی بھی‬
‫ہے۔‬
‫توجیہ‪:‬‬
‫بات اس طرح کرنا کہ اس میں دو احتمال ہوں اور دونوں متضاد ہوں۔ جیسے‪ :‬کسی نے‬
‫‘‘کانے کے متعلق کہا‪’’ :‬کاش!اس‪ .‬کی دونوں ٓانکھیں ایک جیسی ہوجائیں۔‬
‫‪:‬ہزل‬
‫بالفاظ دیگر ہنسی مذاق میں کام کی‬ ‫ِ‬ ‫بظاہر مذاق کرنا‪ ،‬لیکن در حقیقت صحیح بات کہہ دینا‪،‬‬
‫بات کرجانا۔ جیسے ایک شعر کا ترجمہ ہے‪’’ :‬جب کوئی تمیمی تیرے پاس فخر کرتے‬
‫ہوئے ٓائے تو کہہ دینا کہ فخر مت کر‪ ،‬یہ بتا تو گوہ کو کس طرح کھاتا ہے؟‘‘ یہ بظاہر‬
‫مذاق ہے‪ ،‬لیکن حقیقت میں تمیمی کی برائی ہے‪ ،‬کیوں کہ عرب گوہ کے کھانے کو گھٹیا‬
‫سمجھتے ہیں۔‬
‫‪:‬تجاہل عارفانہ‬ ‫ِ‬
‫ایک بات معلوم ہونے کے باوجود کسی خاص نکتے کی وجہ سے اس کے بارے میں سوال‬
‫لیلی تم میں سے‬ ‫کرنا۔ جیسیایک شعر کا ترجمہ ہے‪ ’’ :‬اے پہاڑی ہرنیو! مجھے بتائو میری ٰ‬
‫‘‘ہے یا انسانوں میں سے ہے؟‬
‫‪:‬قول بالموجب‪1‬‬
‫مخاطب کی بات کو اس انداز سے تسلیم کرلینا کہ مخاطب کی بات کا جو مقصود ہے وہ‬
‫فوت ہوجائے۔ جیسیایک شعر کا ترجمہ ہے‪ ’’ :‬میں نے اس سے کہا‪’’:‬میں جب ٓاتا ہوں تو‬
‫بوجھ بن جاتا ہوں‘‘‪ ،‬اس نے کہا‪’’ :‬ہاں‪ ،‬تو بوجھ بنتا ہے میرے کندھے پر اپنی نعمتوں‬
‫‘‘کے اعتبار سے۔‬
‫‪:‬اطراد‬
‫بغیر کسی تکلف کے کسی کا ذکر اس کے ٓاباء و اجداد کے ساتھ کیا جائے۔ جیسے ارشا ِد‬
‫بن ابراہی َم‬‫ق ِ‬ ‫یعقوب ب ِن اسحا َ‬ ‫َ‬ ‫یوسف ُ‬
‫بن‬ ‫ُ‬ ‫الکریم‬
‫ِ‬ ‫بن‬
‫الکریم ِ‬
‫ِ‬ ‫بن‬ ‫الکریم ِ‬
‫ِ‬ ‫‘‘نبوی ہے‪’’ :‬الکری ُ‪.‬م ُ‬
‫بن‬
‫لفظی وجو ِہ تحسی ِن کالم‬
‫)یعنی کالم کے لفظوں کو خوش نما بنانے کے طریقے(‬
‫جناس‪1‬‬
‫سا َع ُۃ ُی ْقسِ ُم‬
‫دو لفظوں کا لفظ کے اعتبار سے ایک جیسا ہونا۔ جیسے‪َ { :‬ی ْو َم َتقُ ْو ُم ال َّ‬
‫سا َع ٍۃ}پہلے ساعۃ سے مراد قیامت ہے‪ ،‬جبکہ دوسرے ساعۃ سے‬ ‫ا ْل ُم ْج ِر ُم ْونَ ‪َ ،‬ما َل ِب ُث ْوا َغ ْی َر َ‬
‫مراد وقت ہے۔‬
‫ر ُّد العجُز علی الصدر‪2‬‬
‫دو ایک جیسے‪ :‬لفظوں میں سے ایک کو جملے کے شروع میں النا دوسرے کو ٓاخر میں‬
‫اس واﷲُ اَ َح ُّق اَنْ َت ْخ َ‬
‫شاہُ}‬ ‫شی ال َّن َ‬ ‫النا۔ جیسے‪{ :‬ت َْخ َ‬
‫‪:‬سجع‬
‫وکفی وسالم‬ ‫ٰ‬ ‫دو جملوں کے ٓاخر میں باوزن لفظوں کو سجع کہتے ہیں۔ جیسے‪’’ :‬الحمد ﷲ‬
‫‘‘علی عبادہ الذین اصطفیٰ۔‘‘میں ’’کفی‘‘ اور ’’اصطفی‬
‫‪:‬موازنہ‬
‫دو جملوں کے ٓاخر میں باوزن لفظوں کا ٓانا‪ ،‬لیکن قافیہ نہ ہو۔‬
‫صفُ ْو َف ٌۃ‪َّ ،‬و َز َر ِاب ُّی َم ْب ُث ْو َثۃٌ۔}‪E‬‬ ‫ار ُق َم ْ‬ ‫{و َن َم ِ‬
‫جیسے‪َ :‬‬
‫‪:‬قلب‬
‫جملے میں ایسے حروف کا ٓانا کہ اگر ٓاخر سے شروع تک پڑھا جائے تو وہی جملہ بن‬
‫ک فَ َکبِّرْ ۔}‬‫جائے ۔ جیسے‪َ { :‬ربَّ َ‬
‫‪:‬تشریع‬
‫شعر کا ایسا ہونا کہ اگر اس کے ہر مصرع سے کچھ الفاظ کم کردیے جائیں تو شعر صحیح‬
‫بن کر باقی رہے۔ جیسےشاعر کا قول ہے‬
‫یا ٔایہا الملک الذی عم الوری‬
‫لو کان مثلک ٓاخر فی عصرنا‬
‫ما فی الکرام لہ نظیر ینظر‬
‫ما کان فی الدنیا فقیر یعسر‬
‫‪:‬اور اگر اس شعر کو یوں پڑھا جائے‬
‫‪ ‬یا ٔایہا الملک الذی‬
‫لو کان مثلک ٓاخر‬
‫ما فی الکرام لہ نظیر‬
‫‪ ‬ما کان فی الدنیا فقیر‬
‫تب بھی صحیح ہے۔‬
‫‪:‬لزوم ما الیلزم‬
‫حرف روی سے پہلے ایسے حرف کا ٓانا جس کا ٓانا ضروری نہ ہو۔ جیسے‪{ :‬فَا َ َّم ْ‬
‫االیَتِ ْی َم‬ ‫ِ‬ ‫ہر‬
‫حرف روی ہے اور ’’ہ‘‘ لزوم ما ال یلزم کا مصداق‬ ‫ِ‬ ‫فَاَل تَ ْقہَرْ ‪َ ،‬واَ َّما السَّائِ َل فَاَل تَ ْنہَرْ ۔} ’’ر‘‘‬
‫ہے۔‬
‫}بارھویں سوال کا جواب{‬
‫خاتمہ کا خالصہ‬
‫خاتمہ میں سرقہ ‪ ،‬اس کی اقسام اور اس کے ملحقات کے بارے میں بحث کی ہے۔‬
‫دوسرے کے کالم کو اپنے کالم میں النے کی کئی صورتیں ہیں اور یہ ایک طرح سے‬
‫دوسرے کے کالم کی چوری ہے اور چوری کو عربی میں سرقہ کہتے ہیں۔‬
‫‪:‬سرقہ کی تین قسمیں ہیں‬
‫‪:‬انتحال و نسخ‪1‬‬
‫بعینہ اپنے الفاظ بنانا یا اس کے مترادفات کے ساتھ النا۔ جیسے‬ ‫ٖ‬ ‫‪: ‬دوسرے کے الفاظ کو‬
‫دع المکارم ال ترحل لبغیتہا‬
‫واقعد فإنک ٔانت الطاعم الکاسی‬
‫دعوی کرے کہ یہ میرا شعر ہے تو یہ‬ ‫ٰ‬ ‫اس شعر کے شاعر کے عالوہ کوئی اور اگر یہ‬
‫سرقہ ہے اس کو نسخ کہتے ہیں اور یہ مذموم ہے۔‬
‫‪ :‬اسی طرح اگر کوئی اس شعر کو یوں کہے‬
‫الماثر ال تذہب لمطلبہا‬ ‫ذر ٰ‬
‫االکل الالبس‬ ‫واجلس فإنک ٔانت ٰ‬
‫تو یہ بھی اسی قبیل سے ہے۔‬
‫اغارہ و مسخ‪2‬‬
‫الفاظ بدل دینا اور معنی کو بر قرار رکھنا اس طور پر کہ سارق کا کالم قائل کے کالم کے‬
‫برابر ہو یا اس سے بھی کم درجے کا ہو ۔‬
‫المام و سلخ‪3‬‬
‫صرف معنی کو لے لینا‪ ،‬الفاظ نہ لینا اس طور پر کہ سارق کا کالم قائل کے کالم کے برابر‬
‫یا اس سے بھی کم درجے کا ہو ۔‬
‫ت سرقہ کی پانچ قسمیں ہیں‬ ‫‪ :‬ملحقا ِ‬
‫اقتباس‪:‬قرٓان یا حدیث کے کچھ حصے کو اپنے کالم کے طور پر النا۔‪1‬‬
‫تضمین‪ :‬کسی دوسرے شاعر کے شعر کو اپنی نظم میں النا اور اگر شعرا کے ہاں وہ‪2‬‬
‫شعر مشہور نہ ہو تو نشان دہی بھی کردینا کہ یہ فالں کا شعر ہے۔‬
‫عقد‪ :‬کسی کے نثر کالم کو منظوم بنادینا۔‪3‬‬
‫َحلّ‪:‬کسی کے منظوم کالم کو نثر بنادینا۔‪4‬‬
‫تلمیح ‪:‬کسی قصہ ‪ ،‬شعر یا ضرب المثل کی طرف اشارہ کرنا اسے ذکر کیے بغیر۔‪5‬‬
‫‪ٓ:‬اخری فصل کا خالصہ‬
‫خاتمے کے ٓاخر میں ایک فصل ہے جس کا خالصہ یہ ہے کہ کہنے یا لکھنے والے کو تین‬
‫مواقع پر اچھے سے اچھا انداز اختیار کرنا چاہیے‪1 :‬ابتدائ‪2‬تخلص ‪3‬انتہاء‬
‫ت استہالل‘‘‪1‬‬
‫ابتداء میں اگر ایسی باتیں ہوں جو مقصود کے مناسب ہوں تو اسے ’’براع ِ‬
‫کہتے ہیں ۔‬
‫تخلص یہ ہے کہ ابتدائے کالم سے مقصو ِد کالم کی طرف ٓاتے ہوئے اس بات کا خیال‪2‬‬
‫رکھا جائے کہ دونوں میں مناسبت ہواور اگر مناسبت نہ ہو تو اسے ’’اقتضاب‘‘‪ .‬کہتے ہیں۔‬
‫انتہاء میں اگر ایسی بات ہو جس سے تشفی حاصل ہوجائے اور انتہائے کالم پر داللت‪3‬‬
‫ت مقطع‘‘ کہتے ہیں۔‬ ‫کرے تو اسے ’’براع ِ‬
‫ﷲ َر ِّب ا ْل َعا َل ِم ْینَ ۔‬
‫َت َّم ْت ِبا ْل َخ ْی ِر َوا ْل َح ْم ُد ِ‬

You might also like