You are on page 1of 15

‫سیاسیات‬

‫از‪:‬منصور ٓافاق‬

‫سیاست عربی زبان کا لفظ ہے ۔ فیر وز الغات اور مرکزی اردو بورڈ کی لغت میں اس کے معنی ہیں ۔‬
‫بادشاہت کرنے کا طریقہ ‪ ،‬نگہبائی ‪ ،‬تنبیہہ کرنا لوگوں کو قصور و جرم کی سزا دینا ۔ دبدبہ ‪ ،‬رعب وغیرہ ۔‬
‫اسم صفت ہے ‪ ،‬جس کے معنی ہیں)‪ٓ (Politic‬اکسفورڈ انسا ئیکلو پیڈیا ڈکشنری کے مطابق لفظ‬
‫اسم ہے ‪ ،‬جس کی تعریف یہ کی)‪ (Politics‬اور لفظ ) ‪(Secheming, Crafty , Prudent, Seagacious‬‬
‫گئی ہے ۔‬
‫‪ (Political‬سیاسیات کو انگریزی میں ‪Science and art of Government, political affairs or life.‬‬
‫سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی شہر کے ہیں ۔ ) ‪ (Polis‬کہتے ہیں ۔ لفظ یونانی زبان کے لفظ ) ‪Science‬‬
‫گویا سیاسیات وہ سائنس کا علم ہے جس کا تعلق شہر سے ہو ۔ کیونکہ شہر انسانوں نے بسائے اس لئے سیا‬
‫‪ :‬سیات کا تعلق بھی انسانوں سے ہی ہے ۔ ارسطو نے کہا تھا‬
‫‪“He who is unable to live in society or who has no need because he is sufficient for‬‬
‫” ‪himself, must be either a beast or god.‬‬
‫بقول ارسطو ـ ’’ انسان سماجی حیوان ہے ۔ ‘‘ اس کی ضروریات بے شمار ہیں ‘ اس لئے اسے سو سائٹی‬
‫میںرہنا پڑتا ہے ۔ انسان میں ہمدردی کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں خود غرضی کے بھی ۔ وہ جھگڑ ا لو‬
‫بھی ہے ‪ ،‬اس لئے سو سائٹی میں رہتے ہوئے چند قواعد و ضوابط کی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے‬
‫بقول ارسطو کے انسان حیوان بھی ہے اور سیا سی حیوان بھی ۔ اس سیاسی اور سماجی حیوان کے مطالعے‬
‫‪ Master‬کے علم کو ارسطو نے سیاسی حیوان بھی ۔ اس سیاسی حیوان کے مطالعے کے علم کو ارسطو نے‬
‫کا نام دیا تھا ۔ کیونکہ اس وقت یونان میں لوگ شہر ی زندگی بسر کرتے تھے ۔ شہر بلند پہاڑوں ‪Science‬‬
‫کانام دیا گیا ۔ موجود ہ دور میں شہری )‪ (Politics‬کے درمیان واقع تھے اس لئے ان کے مسائل کے علم کو‬
‫کی وہ تعریف نہیں ‪ ،‬جو ارسطو کے زمانے میں یونانی شہری کی تھی ۔ ٓاج ملک میں رہنے والے ہر شخص‬
‫کو شہر ی کہتے ہیں ۔ ‪ ،‬وہ گائوں میں ہو یا شہر میں لیکن اس کے مسائل اور ان کے حل کے مطالعے کانام‬
‫ہی ہے ۔ ) ‪(Politicial Science‬‬
‫علم سیا سیات کی نوعیت یا اہمیت‬

‫علم سیاسیات ایک عمرانی علم ہے ‪ ،‬جو معاشرہ کی سیاسی تنظیم سے متعلق ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ہر‬
‫معاشرتی فعل جو حکومت کے ذریعہ انجام پاتا ہے ۔ علم سیاسیات کے مطالعہ کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے‬
‫ہے)‪ ‘‘ (Master Science‬۔ علم سیاسیات کی اہمیت کے بارے میں ارسطو کہتا ہے ۔ یہ علم ’’ ٓاقائے علم‬
‫اور یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی سیاسی تنظیم کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ دیگر معاشرتی تنظیموں کو‬
‫حاصل نہیں ہو سکتی ۔ معاشرے کے رسم و رواج اخالق ‪ ،‬مالیات ‪ ،‬تہذیب و غیرہ کا تحفظ اور نشو ونما اس‬
‫وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک معاشرہ سیاسی طورپر منظم نہ ہو اور حکومت کا تصور موجود نہ ہو ۔ یہ‬
‫حکومت ہی نہیں جب تک معاشرہ سیا سی طور پر منظم نہ ہو اور حکومت کا تصور موجود نہ ہو ۔ یہ‬
‫حکومت کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ شہر یوں کو امن و امان فراہم کر ے اور ان کی معاشرتی زندگی کی مختلف‬
‫اقدار میں اس طرح ہم ٓاہنگی پیدا کر کے معاشرہ کسی رکاوٹ کے بغیر ترقی کی منازل طے کرتا جائے اور‬
‫اس کا کوئی پہلو نظر انداز نہ ہو نے پائے ۔ معاشرے کے اندر احترام ٓادمیت کا عنصر اور عدل و انصاف کا‬
‫تصور بغیر ریاست اور حکومت کے ممکن نہیں ۔ شہریوں کی صالحیتوں کی پرورش بھی سیاسی تنظیم کے‬
‫بغیر نہیں ہو سکتی ۔ لہٰ ذا ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ریاست ہماری معاشرتی زندگی کا محور ہے اور اس‬
‫کو تمام شعبوں پر فو قیت حاصل ہے ۔ اور اس کی نگرانی میں اطمینان اور ٓاسودگی جنم لیتی ہے اس طرح یہ‬
‫حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سیا سیات کا علم دوسرے علوم کا سرتاج ہے اور ہمیں نہایت قیمتی معلومات‬
‫فراہم کرتا ہے ۔ یہ ہمارے ان تجربات کی بھی داستان ہے جو ہم نے ماضی میں کئے ۔ ان سے جو سبق‬
‫حاصل ہو ا۔ اس کی مدد سے ہم موجودہ زندگی کے نشیب و فراز کا بھی تجزیہ کر سکتے ہیں ۔ گیٹل کے‬
‫الفاظ میں ’’ یہ علم ریاست کے ماضی کا جائزہ ‪ ،‬اس کے حال کا تجزیاتی مطالعہ اور اس کے امکانی مستقبل‬
‫کے متعلق سیاسی و اخالقی بحث ہے ۔ ‘‘ سیا سیات کی نوعیت کی وضاحت مزید اس وقت ہو جائے گی ‘‬
‫جب ہم اس کی حدود اور وسعت کو زیر بحث الئیں گے ۔ اس جگہ مختصر یہی قلم بند کیا جا سکتا ہے کہ سیا‬
‫سیات وہ علم ہے جو ریاست اور حکومت کے مطالعہ سے متعلق ہے ۔ یہ علم نہایت ہی مفید اور اہم ہے اس‬
‫علم کی وسعت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ہماری زندگی کے تمام شعبوں پر اس طرح حاوی ہو رہا‬
‫ہے ۔ کہ اس کے اور دوسرے معاشرتی علوم کے درمیان حد فاضل مقرر کر نا مشکل ہو رہا ہے ۔ تاریخ‪،‬‬
‫معاشیات ‪ ،‬اخالقیات اور نفسیات سبھی سے اس کی گہری و ابستگی ہے ۔ حتی کہ تعلیم و تربیت ‪ ،‬جنگ اور‬
‫امن خالئی تسخیر ‪ ،‬تجارت ‪ ،‬صنعت ‪ ،‬زراعت ‪ ،‬صحت منصوبہ بندی سب کا کسی نہ کسی لحاظ سے ریاست‬
‫اور حکومت سے رشتہ ہے جو ال محالہ سیا سیات کے دائرہ بحث میں شامل ہوگا ۔ اس کے عالوہ ہم سیا‬
‫سیات کو بین اال قوامی تعلقات ‪ ،‬دساتیر اور سیاسی نظر یات کا علم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ سائنس کی‬
‫ترقی اور فاصلوں کے سمٹنے سے ریاست جو کل تک قومی ریاست تھی اب اس میں بین اال قوامی رنگ بھر‬
‫ا جا رہا ہے ۔ ل ٰہذا اس کا دائرہ بحث اسی نسبت سے بڑھتا جا رہا ہے ۔ اور پھر خوب سے خوب تر کی تالش‬
‫میں نئے نظریات کو بھی بنظر غائر پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے کے ان تمام زاویوں کا مطالعہ جو‬
‫حکومت اور ریاست کے دائرہ کو چھوتے ہیں اور جن کی وضاحت کی جاچکی ہے ۔ علم سیاسیات ہے جو‬
‫نہایت اہم اور مفید ہے بلکہ یوںکہئے کہ یہ علم ہماری معاشرتی زندگی کو منظم اور مر بوط کرنے کے لئے‬
‫مر کزی حیثیت رکھتا ہے ۔‬

‫وسعت مضمون‬
‫علم سیاسیات کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے پس منظر اور ماضی پر‬
‫نظر ڈالیں ۔ جس سے مراد یہ ہے کہ ریاست کا ظہور کیسے ہو ا ۔ وہ کیا اسباب تھے جن کے باعث اس کی‬
‫ضرورت محسوس ہوئی اسباب کو سمجھنے سے بھی ہم ریاست کے مقصد کا تعین کر سکتے ہیں اور اس کو‬
‫موثر اور مفید تنظیم کے طور پر زندہ رکھ سکتے ہیں ریاست کی تخلیق اور ابتداء کا مطالعہ اس علم کا‬
‫الزمی حصہ ہے اور گیٹل اسے تاریخی تحقیق کا نام دیتا ہے ۔ عالوہ ازیں ریاست کی موجود ہ کا ر کر دگی‬
‫یعنی حال کا مطالعہ بھی ضروری ہے ‪ ،‬جس سے مراد یہ ہے کہ ہم معلوم کر سکیں کہ ریاست کا مثبت اور‬
‫منفی پہلو کون کون سا ہے ۔ گیٹل اس دور کے مطالعہ کو ریاست کا تجزیاتی مطالعہ کہتا ہے ۔ اس طرح ہمیں‬
‫یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ ریاست کی تنظیم میں کیا کیا خامیاں ہیں اور وہ کون سے پہلو ہیں جن کو‬
‫اجاگر کرنے اور توانائی دینے کی ضرورت ہے ترمیم اور اصطالحی کی صورت تبھی پیدا ہوگی کہ ہم‬
‫ریاست کی کارکردگی کا ساتھ ساتھ جائزہ لیتے جائیں ۔ نہ صرف ماضی اور حال کا مطالعہ علم سیا سیات‬
‫کے مو ضو عات میں شامل ہے بلکہ مستقبل ہے بارے میں بھی غور کر نا ہوگا ۔ اس مرحلے کو گیٹل فالحی‬
‫منصوبہ کا نام دیتا ہے ۔ ماضی کے تجربات اور حال کی کوتاہیاں ہمیں نہایت قیمتی مواد فراہم کر تی ہیں ۔ یہ‬
‫مواد ہمارے مستقبل کی تعمیر کے لئے مضبوط بنیاد ثابت ہو سکتا ہے ۔ مختلف سیاسی نظر یات اور فلسفوں‬
‫کی امداد ہم صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے ٓانے والے کل کی فکر ہو اور حال‬
‫کی صورت حال سے ہم بخوبی ٓاگاہ ہوں ۔ ریاست کو دور حاضر میں منصوبہ بندی کی اہم ذمہ دار ی سونپی‬
‫گئی ہے ۔ یہ منصوبہ بندی مستقبل کے بارے میں ہی ہے ۔ لہٰ ذا علم سیا سیا ت کو زمانے کے لحاظ سے تین‬
‫ادوار میں واضح طور پر تقسیم کیا گیا ہے ۔ تاکہ اس سمت میں سیاسیات کی حدود کا واضح تعین ہوسکے ۔‬
‫ریاست کے قیام کا مقصد معاشرتی زندگی کو استوار کرنا تھا ۔ فرد معاشرہ کی بنیاد اکائی ہے لہٰ ذا اصل مقصد‬
‫فرد کی فالح اور قوت ہونا چاہیے ۔ فرد اور ریاست کا باہمی تعلق اسی بحث کا حصہ ہے ۔ سیاسی مفکرین‬
‫نے اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے جن کے لئے علم سیا سیات میں سیاسی فلسفہ کی اصطالح مستعمل ہے ۔‬
‫کچھ مکاتب فکر ایسے ہیں جو ریاست کے خاتمے کو فرد کے لئے مفید گر دانتے ہیں مثال ً نر اجیت پسند‬
‫اور کچھ وہ ہیں ریاست کو نہایت فعال اور طاقتور ادارہ بنانے کے داعی ہیں ۔ مثال ً اشتراکیت)‪(Anarchists‬‬
‫نظر یہ افادیت ) ‪ (Individualism‬اسی طرح نظر انفرادیت )‪ (Socialism and fascism‬اور جابریت والے‬
‫کا اپنا اپنا زاویہ نگاہ ہے ۔ یہ نظر یے اور فلسفے اس)‪ (Pluralism‬اور نظریہ تکثیریت)‪(Utilitarianism‬‬
‫بحث کے متعلق ہیں کہ فرد اور ریاست کے درمیان اختیارات اور ذمہ دار ایوں کی تقسیم کیسی ہو ۔ فرد کا‬
‫مقام کیا ہو ۔ ریاست فرد کے تابع ہو یا فرد ریاست کے تابع ہو ۔ فرد کو کتنی ٓازادی حاصل ہواور اس کے‬
‫حقوق و فرائض کیا ہوں ۔ یہ نہایت ہی ضروری مو ضوعات ہیں جو فرد کی زندگی سے گہرا تعلق رکھتے‬
‫ہیں ۔ یعنی ریاست میں فرد کو کیا مقام دینا ہے اور کسی قدر ٓازادی اس کو ملنی چاہیے ۔ ان تمام سوالوں کا‬
‫جواب ہمیں سیاسی فلسفہ ہی دے سکتا ہے ۔ لہٰ ذا علم سیاسیات کے مطالعہ میں قدیم اور جدید تمام سیاسی فلسفہ‬
‫کا مطالعہ شامل ہے ۔‬
‫فرد کی زندگی میں معاشی پہلو بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کی مادی ضروریات کے لئے ریا ست کو‬
‫باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے ۔ طلب اور رسد میں توازن قائم کرنا اور شہریوں کو روزگار فراہم کر نا‬
‫ریاست کے مقاصد میں شامل ہے ۔ ل ٰہذا جدید سیاست میں اقتصادی پہلو نمایاں طور پر واضح ہے ۔ سیاسی اور‬
‫اقتصادی تصورات ٓاپس میں اس طرح پیوست ہوچکے ہیں کہ یہ ایک ہی علم کے دو شعبے نظر ٓاتے ہیں ۔‬
‫لہٰ ذا علم سیاسیات کے طالب علم کے لئے معاشیات کا مطالعہ ضروری ہو گیا ہے ۔ ریاست کا مقصد نہ صرف‬
‫امن و امان قائم کرنا اور خوشحال معاشرے کا قیام ہے بلکہ اس کے لئے راہ راست کا تعین کرنا ہے ۔ زندگی‬
‫کا سفر گزارنے کے طریقے مقرر کرنا ‪ ،‬افراد کے باہمی تعلقات کے احوال و ضع کرنا بھی ہے ۔ اخالقی‬
‫ضابطہ ریاست کو یہ فریضہ انجام دینے میں امداد دیتا ہے ۔ لہٰ ذا علم سیاسیات کا مطالعہ اس وقت تک مکمل‬
‫نہیں جب تک ہم اخالقی اقدار کو بخوبی نہ سمجھیں ۔ اخالقیات کو ہم بجا طور پر سیاسیات کی جان کہہ‬
‫سکتے ہیں ۔ نفسیات کا مطالعہ علم سیاسیات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کیونکہ‬
‫حکومت کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو بنانے اور نافذ کرتے وقت افراد کے‬
‫طبعی ‪ ،‬رجحانات ‪ ،‬مزاج خواہشات اور عمل کے ردعمل کو ملحوظ خاطر رکھے ۔‬
‫ریاست کی وسعت کو سمجھنے کے لئے نظر ی اور عملی سیاست کی تفریق بھی ضروری ہے ۔ نظری‬
‫سیاست سے مراد ریاست کی ابتدا اور ارتقا اور اس کی ہیت میں تبدیلیوں کا جائزہ ہے جبکہ عملی سیاست‬
‫سے مراد حکومت کی تنظیم ‪ ،‬دساتیر کا مطالعہ ‪ ،‬بین االقوامی تعلقات ‪ ،‬قانون سازی امور منصوبہ بندی‬
‫وغیرہ ہے ۔ لہٰ ذا علم سیا سیات میں ہم ریاست کی تخلیق سے لے کر ٓاج تک رونما ہونے والی تبدیلیوں اور اس‬
‫کے مستقبل کے بارے میں ٓاراء کا مطالعہ کرتے ہیں اور دوسری جانب ہر ملک کے نظام حکومت اس کے‬
‫مختلف شعبوں اور اداروں کا جائزہ لیتے ہیں ۔داخلہ اور خارجہ پالیسی کو بھی جانتے ہیں ۔ مقامی ادارے ‪،‬‬
‫قانون بین اال قوامی قانون بھی اس علم کے دائرہ بحث میں ٓاجاتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی ادارے‬
‫نے سیاسیات کی وسعت یوں ترتیب دی ہے ۔)‪ (Unesco‬یونیسکو‬
‫سیاسی نظریات اور ان کی تاریخ۔ )‪۱‬‬
‫ب) سیاسی ادارے یعنی مقامی ‪ ،‬عالقائئی اور مرکزی حکومتی ادارے اور ٓائین ۔‬
‫ج) سیاسی جماعتیں گروہ ‪ ،‬رائے عامہ اور شہری کے حقوق و فرائض ۔‬
‫‪،‬بین اال قوامی تعلقات ‪ ،‬تنظیم اور قانون‬
‫عالوہ ازیں سیاسیات فرد کے اس سیاسی رویہ کے مطالعہ کا بھی نام ہے جس میں مقامی قومی اور بین‬
‫االقوامی سطح پر قائم ہونے والے تمام سیاسی ادارے اور ان کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے نظریات‬
‫شامل ہیں ۔‬
‫مقامی ادارے ہماری سیاسی تنظیم کی بنیاد ہوتے ہیں ۔ جن کا مطالعہ بے حد ضروری ہے ۔ اور علم السیاست‬
‫کا اہم موضوع ہے ۔ پاکستان میں یونین کو نسلیں ‪ ،‬میو نسپل کمیٹیاں ‪ ،‬پنچائتیں اور کا ر پو ریشنیں مقامی‬
‫اداروں کی مختلف صورتیں ہیں ‪ ،‬جن کے ذریعہ شہری اپنے گائوں ‪ ،‬شہر اور عالقہ کے مجموعی مسائل‬
‫اور معامالت کے متعلق غور کرتے ہیں فیصلے کرتے ہیں اور اپنی مدد ٓاپ کرو کے اصول پر اپنے مقامی‬
‫مسائل کا خاطر خواہ حل تالش کرتے ہیں ۔ علم سیاسیات مقامی اداروں کی تشکیل اور تنظیم کے متعلق‬
‫ضروری مواد فراہم کرتا ہے اور ہماری سیاسی تربیت کا بھی سامان پیدا کرتا ہے ۔ قومی اداروں سے مراد‬
‫ریاست ‪ ،‬حکومت ‪ ،‬سیاسی جماعتیں ‪ ،‬انتخابات اور اسمبلیاں ہیں۔ درحقیقت سیاسیات کا اصل مو ضوع یہ‬
‫ادارے ہیں کیونکہ ان کی کامیابی کے بغیر نہ مقامی سطح پر فالح و بہبود کا کام ہوسکتا ہے اور نہ بین اال‬
‫قوامی سطح پر امن اور ترقی ہوسکتی ہے ۔ ل ٰہذا علم سیاسیات کا مطالعہ کر تے وقت ان موضوعات کا‬
‫خصوصی توجہ سے مطالعہ کرنا چاہیے ۔ بین االقوامی جدید دور کے تیز رفتار مو ا صالتی نظام نے تمام‬
‫ریاستوں اور اقوام کو ایک دوسرے کے اتنا قریب کردیا ہے کہ ان کے مسائل اور ضروریات مشترکہ سی‬
‫ہوگئی ہیں ۔ ان کی ترقی مشترکہ جد وجہد کے بغیر ممکن نہیں ۔ امن اور جنگ کے فائدہ اور نقصان کسی‬
‫ایک قوم او رخطہ تک محدود نہیں رہا ۔ اس تبدیلی نے بین اال قوامی تعلقات کی اہمیت بڑھا دی ہے ۔ علم‬
‫سیاسیات کے ذریعہ ہم بین اال قوامی تعلقات اور بین االقوامی امور کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔‬
‫؎‬
‫شہریت کی وسعت‬
‫انسانی ادارے‬
‫انسانوں میں ضروریات زندگی کے لئے ریاست اور حکومت کے عالوہ کئی ادارے بنا رکھے ہیں ‪ ،‬جو کسی‬
‫نہ کسی شکل میں ریاست اور حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان اداروں کا تعلق معاشرتی ‪ ،‬مذہبی اور‬
‫معاشی زندگی سے ہوتا ہے ۔ علم سیاسیات ایسے اداروں کا تاریخی طور پر جائزہ لیتی ہے اور ان کے منفی‬
‫اور مثبت پہلوئوں پر بحث کرتی ہے ۔‬
‫انسانی رویے‬
‫انسان کے زندگی اس کی خواہشات ‪ ،‬امنگوں ‪ ،‬مجبوریوں ‪ ،‬خوشیوں اور محرومیوں کا نام ہے ۔ جس کے‬
‫لئے وہ دوسروں کے متعلق ایک خاص رویہ اپنا تا ہے ۔ سیاسیات میں مختلف معاشروں کے رسم و رواج ‪،‬‬
‫اصولوں اور قوانین کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔‬
‫تقابلی سیاست‬
‫ٓاج کل دنیا کے ممالک کو کئی درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے بعض ترقی یافتہ ہیں ‪ ،‬بعض ترقی پذیر ہیں اور‬
‫بعض پسماندہ ہیں ۔ ان ممالک کے معاشرتی ‪ ،‬معاشی ‪،‬اور سیاسی نظام بھی مختلف ہیں ۔ سیاسیات میں ان‬
‫ممالک کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے ۔‬
‫اس کے عالوہ سیاسیات میں ماضی ‪ ،‬حال اور مستقبل کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے ۔ جب تک ہمیں یہ علم نہیں‬
‫ہوتا کہ موجود ہ نظام اور موجودہ اداروں کی ماضی میں کیا حیثیت تھی ‪ ،‬حال کو سمجھنا مشکل ہے ۔‬
‫برطانوی سیاسی نظام کا مطالعہ ‪۱۲۱۵‬ء کے میگنا کار ٹا کے بغیر نامکمل رہتا ہے ۔ یہی حال امریکی نظام‬
‫کا ہے اور پاکستان میں صدر اور وزیر اعظم کے اختیار ات میں توازن کو سمجھنے کے لئے ماضی کا‬
‫مطالعہ بہت ضروری ہے ماضی اور حال کو سامنے رکھ کر ہی ہم بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتے‬
‫ہیں ۔‬
‫علم سیا سیات سائنس ہے یا نہیں‬
‫پچھلے صفحات میںہم بیان کر چکے ہیں کہ سیاسی اور ارباب فکر اس علم کے نام کے متعلق مستعمل‬
‫اصطالح کے بارے میں متفق نہیں ہیں اور وہ اس علم کے لئے مختلف نام تجویز کر تے ہیں ۔ علم سیاسیات‬
‫کا دوسر ا پہلو جو متنازعہ فیہ ہے وہ اس کے سائنس ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ہے ۔ کچھ مفکرین کے‬
‫نزدیک علم سیاسیات سرے سے سائنس ہے ہی نہیں ۔ میٹ لینڈ کا کہنا ہے کہ ’’ جب میں خوبصورت امتحانی‬
‫پرچے پر پولیٹکل سائنس کا لفظ بطور عنوان پڑھتاہوں تو مجھے حیرت ہو تی ہے اور معذرت کرنے کو جی‬
‫چاہتا ہے ۔ لیکن سواالت کے بارے میں نہیں بلکہ عنوان کی وجہ سے ‘‘ ایک اور سیاسی مفکر یکل کے‬
‫نزدیک موجودہ حالت میں سیاسیات نہ صرف سائنس کی حیثیت سے بہت پیچھے ہے بلکہ فنون میں بھی کمتر‬
‫درجہ رکھتی ہے ۔ لیکن کچھ سیاسی مفکرین کے نزدیک علم سیاسیات ایک سائنس یعنی باضابطہ علم ہے‬
‫‪،‬مثالً ارسطو علم سیا سیات کو ٓاقائے علم کا درجہ دیتا ہے ۔ الرڈ برائس علم سیا سیات کو ایسی سائنس قرار‬
‫دیتا ہے جیسے مو سمیات کی سائنس ہے ۔ مذکورہ مفکرین کے انداز فکر سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ‬
‫مفکرین کے دو گروہ ہیں ایک گروہ سائنس نہیں ہے بلکہ اسے سائنس کے نام سے پکارنا بھی زیادتی ہے ۔‬
‫یہ فیصلہ کرنے کے لئے یہ علم سائنس ہے یا نہیں ہمیں دو نوں مکاتب فکر کا تجزیہ کرنا ہوگا۔‬
‫علم سیاسیات سائنس ہے‬
‫اس فیصلہ پر پہنچنے کے باوجود کہ علم سیاسیات طبعی علوم کی طرح کا باضابطہ علم نہیں ہے ۔ ہمیں یہ‬
‫کہنے پر اصرار ہے کہ علم سیاسیات ایک سائنس ہے اور باضابطہ علم بنتا جارہا ہے ۔ انسان مختلف النوع‬
‫تنظیموں اور اداروں کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا ‪ ،‬ل ٰہذا ان اداروں کو رواں روں رکھنے کے لئے‬
‫اسے ایسے اصولوں کی ضرورت ہے جن پر عمل کرنے سے اسے مطلوبہ نتائج پر ٓامد ہوسکیں ۔ یہی وجہ‬
‫ہے کہ سیاسی مفکرین نے ان اصولوں کو مسلسل مشاہدے اور تجربے کے بعد تخلیق کیا ہے اور بعض‬
‫اصول حتمی اور اٹل ہیں اور ہر معاشرے اور دور میں وہ صادق او ر درست نظر ٓاتے ہیں ۔ ارسطو کو ہی‬
‫لیجئے ۔ وہ انقالبات کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عدم مساوات یا مساوات کی خواہش روکھنے‬
‫کے اصول بھی وضع کر تا ہے ۔ یہ اصول ہر دور اور ہر معاشرے میں صحیح اور درست تسلیم کئے گئے‬
‫ہیں ۔ ابن خلدون کے نزدیک اختیارات کا چند ہاتھون میں ارتکاز ‪ ،‬ٹیکسوں کی زیادتی اور اپنے تمدن کو خیر‬
‫باد کہنے سے انقالب برپا ہوتا ہے ۔ میکادلی کا کہنا ہے کہ لوگ ‪ ،‬جسمانی تکلیف برداشت کر لیتے ہیں لیکن‬
‫معاشی نقصان برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ کار ل مارکس کے نزدیک ظلم و استبداد انقالب کو‬
‫جنم دیتا ہے علم سیاسیات بھی ایسے کئی اصولوںـ کا مجموعہ ہے ‪ ،‬جو عرصہ دراز سے انسانی مشاہدہ اور‬
‫تجربہ کا حصول اور نچوڑ ہیں اور ہر حکومت اور ان اصولوں کی ریاستی امور دہی میں زیر غور رکھتی‬
‫ہے لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض حالتوں میں ان سے مختلف نتائج برٓامد ہوئے کارل مارکس کے بیان کئے‬
‫ہوئے کئی اصول وہ نتائج برٓامد نہ کر سکے جس کا وہ دعویدار تھا ۔ کسی معاشرے میں ٓازادی کی خواہش کا‬
‫اظہار نہایت شد و مد سے ہوا اور کسی معاشرہ نے دیر تک غالمانہ زندگی پر ہی قناعت کی ۔ پاکستان میں‬
‫جمہوری نظام کے وہ نتائج برٓامد نہ ہو سکے جو برطانیہ کے بیدار اور منظم معاشرے نے پیدا کئے ۔ علم‬
‫سیاسیات طبعی علوم کی مانند سائنس نہ سہی اس سے ملتی جلتی سائنس ضرور ہے ۔‬
‫علم سیا سیات کے مطالعہ کے طریقے‬
‫سیاسی ارباب فکر نے سیاسیات کے مطالعہ کے مختلف طریقے تجویز کئے ہیں ۔ ہم ان طریقوں کے مدد سے‬
‫سیاسی واقعات او رحقائق کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں یہ سبھی طریقے اپنی اپنی جگہ مفید ہیں اور یہ نہیں‬
‫جاسکتا کہ فالں طریقہ ضروری ہے اور باقی طریقے غیر ضروری ہیں ۔ ہر طریقہ ایک سیاسی واقعہ کانیا‬
‫انداز پیش کرتا ہے اور نئی صورت حال کا انکشاف کرتا ہے ۔ اس وقت تک جو طریقے موزوں سمجھے‬
‫گئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں‪ :‬۔‬
‫۔ تجرباتی طریقہ ‪۲‬۔ تاریخی طریقہ ‪۳‬۔ مشاہداتی طریقہ‪۱‬‬
‫۔ مشابہتی طریقہ ‪۵‬۔ نفسیاتی طریقہ ‪۶‬۔ فلسفیانہ طریقہ‪۴‬‬
‫۔ تجر باتی طریقہ ‪:‬۔‪۱‬‬
‫تجربہ سے مراد یہ ہے کہ کسی شے کا بغور مطالعہ کیا جائے اور اس کے عوامل کو معلوم کرنے کے بعد‬
‫اس کے نتیجہ کا کھوج لگایا جائے ۔ پھر کسی تجربہ گاہ میں ویسا ہی ماحول مصنوعی طور پر پیدا کیا جائے‬
‫۔ جس میں ان عوامل کو بعینہ اپنا عمل جاری رکھنے دیا جائے تاکہ اس کا نتیجہ وہی ہو جو ہم نے بغور‬
‫مطالعہ کرنے سے اور حقائق کو اکٹھا کرنے سے حاصل کیا تھا ۔ مثال ً ہم ٓاگ کے اجزاء کو جان لینے کے‬
‫بعد کسی تجربہ گاہ میں جب ان اجزاء کو مخصوص ماحول میں اکٹھا کرتے ہیں تو ٓاگ ہی نمودار ہوتی ہے ‪،‬‬
‫لیکن یاد رہے کہ اس قسم کے تجربات طبعی اور قدرتی علوم کی دنیا میں تو ہوسکتے ہیں ‪ ،‬لیکن معاشرتی‬
‫علوم ہیں اس علوم میں اس طریقہ کو ہر گز نہیں اپنایا جا سکتا ۔ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی ملک کا‬
‫انتخاب کر یں اور وہاں اپنی مرضی کا طرز حکومت نافذ کریں تاکہ مطلوبہ نتائج برٓامد ہو سکیں ۔ ہمیں ایسا‬
‫کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑے گا ۔ پھر ہماری یہ بھی مجبوری ہے کہ ہم اپنے تجربات کو بار بار نہیں کر‬
‫سکتے کیونکہ ہوسکتا ہے لوگ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دیں ۔ ل ٰہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ علم سیا‬
‫سیات میں تجرباتی طریقہ اور ریاست بھی ایک تجربہ گاہ کی مانند ہے ۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام ‪،‬‬
‫صدارتی نظام اور بنیادی جمہوریت کا تجربہ کیا جا چکا ہے لیکن اس سے جو نتائج ہم نے اخذ کئے ہیں وہ‬
‫برطانیہ کے لئے کا ر ٓامد نہیں ہو سکتے ‪ ،‬کیونکہ وہاں کا ماحول پاکستان جیسا نہیں ۔ ہم نے جو اصول اخذ‬
‫کئے ہیں ان کا صرف اس ملک پر اطالق ہو سکتا ہے جس کے حاالت و واقعات پاکستان جیسے ہوں ۔‬
‫اشتراکی ممالک نے کمیونزم کا تجربہ کیا ہے اور بہت سے ممالک نے اس تجربے سے استفادہ کیا اور‬
‫استراکی اصولوں کو اپنے نظام سیاست میں جگہ دی ہے ۔ حکومت کی ہر پالیسی ‪ ،‬ہر قانون اور ہر ٓائین ایک‬
‫نیا تجربہ ہے اور نہایت قیمتی اور اصول فراہم کر تا ہے ‪ ،‬لہٰ ذا علم سیا سیات کا طالب علم اس طریقہ سے‬
‫مطالعہ کرنے سے ریاست اور حکومت کے بارے میں بہت سے حقائق کو سمجھ سکتا ہے ۔‬
‫تاریخی طریقہ‬
‫پر وفیسر کلکر ائسٹ کے نزدیک ’’ علم سیا سیات کے تجربوں کا ماخذ تاریخ ہے ‘‘ ابن خلدون کا کہنا ہے ‪:‬‬
‫’’ ماضی ‪ ،‬حال اور مستقبل ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیںاور انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا‬
‫سکتا ہے ۔ ‘‘ ہمیں سیاسی اور اداروں کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے تاریخ کا سہا را لینا پڑتا ہے ۔ صرف‬
‫تاریخی طریقہ ہی سے یہ انکشاف ہو سکتا ہے کہ کس ادارے یا اصول کے پس پردہ کیا محرکات تھے ۔‬
‫تخلیق اور ارتقاء کو سمجھنے کے بعد ہی ہم حقیقت کو پاسکتے ہیں اور اس طرح جو بنیاد فراہم ہوگی وہ‬
‫ٹھوس اور مضبوط ہوگی اور اس پر تعمیر کے لئے صحیح منصوبہ بندی ممکن ہوگی ۔ ہمارے حال اور‬
‫مستقبل کی صحیح سمت کا تعین نہ صرف اسی صورت میںممکن ہے کہ ہم ماضی کے نشیب و فراز سے‬
‫بخوبی ٓاگاہ ہوں اور ان کو تاہیوں کا اعادہ نہ ہونے دیں جس سے ہمیں گزشتہ ایام میں نقصان پہنچا اور وہ‬
‫اصول جنہوں نے ہمیں توانائی بخشی ہمارے مستقبل میں شامل ہو کر ہمارے لئے توانائی کا سرچشمہ بن‬
‫سکیں ۔ کچھ مفکرین سیا سیات کے مطالعہ کے تاریخی طریقہ پر معترض ہیں ۔ ان کے نزدیک علم سیا سیات‬
‫ریاست کی موجود ہ اور ٓائندہ حالت کا جائزہ لیتا ہے ‪ ،‬جبکہ تاریخ کا ہمارے موجودہ اور ٓائندہ مسائل سے‬
‫کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ نیز تاریخ محض حقائق کی تفصیل ہے اور اس کا اسباب و علل سے کوئی تعلق نہیں‬
‫اور نہ ہی اچھائی اور برائی کا کوئی معیار مقرر کرتی ہے ۔ ان اعتراضات کے باوجود تاریخی طریقہ کی‬
‫افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ بالخصوص جبکہ تاریخ ایک سائنٹیفک اور باضابطہ علم کا درجہ حاصل‬
‫کر چکی ہے ۔‬
‫مشاہداتی طریقہ‬
‫الرڈ برائس نے اس طریقہ کو خاس طور پر مقبولیت بخشی ہے ۔ وہ بہت سے ممالک میں محض اس لئے گیا‬
‫کہ وہاںکے سیاسی اداروں کا خود جائزہ لے اور منتظمین اور سیاستدانوں سے مل کر ریاست اور حکومت‬
‫کے بارے میں علم حاصل کر ے ۔ لہٰ ذا اس کے افکار چشم دید معلومات پر مبنی ہیں اور ان میں صداقت‬
‫بدرجہ اتم موجود ہے ۔ مشاہداتی طریقہ کے لئے الرڈ براء س زبردست احتیاط برتنے کی تلقین کرتا ہے ۔‬
‫محقق کو تعصب سے باالتر ہونا چاہئے ۔ اس کو حقائق کا مطالعہ غیر جانبدار طریقے سے کرنا چاہئے ۔ اور‬
‫پہلے سے فیصلہ نہیں کر لینا چاہیئے ۔ ایک اور سیاسی مفکر ماشیکو نے بھی مشاہداتی طریقہ سے علم‬
‫السیاست کے لئے گراں قدر اصول فراہم کئے ہیں ۔ اس کا نظر یہ علیحدگی اختیارات اس کے انگلستان میں‬
‫قیام کے دوران وہاں کے سیاسی نظام کا ذاتی مشاہدہ تھا ‪ ،‬جس سے اس نے یہ محسوس کیا کہ وہاں فرانس‬
‫کے مقابلے میں زیادہ اور بہتر طور پر ٓازادی کا تحفظ کیا گیا ہے ۔ علم سیا سیات کے مقابلے میں قدرتی علوم‬
‫کا یہ طریقہ زیادہ کا ر گر ثابت ہوا ہے ۔ مشہور سائنسدان نیو ٹن کا قانون کشش ثقل مشاہداتی طریقہ کا ہی‬
‫نتیجہ اداروں کا مطالعہ وسیع سطح پر کریں اور اپنی معلومات کا دائرہ چند ممالک تک ہی محدود نہ کریں‬
‫بلکہ تمام ممالک اور اقوام میں مشترکہ اور مختلف دونوں قسم کی اقدار کی جستجو سے حقیقت کا سراغ‬
‫لگائیں۔‬
‫مشابہتی طریقہ‬
‫مشابہتی طریقہ سے ہر برٹ سپنسر نے بہت کام لیا ہے ۔ اس کا طرز استد الل یہ ہے کہ وہ مختلف اشیاء کے‬
‫درمیان مشابہت کی بنیاد پر مشترکہ اقدار کا تعین کرتا ہے مثالًوہ کہتا ہے کہ ریاست اور انسانی جسم میں‬
‫بڑی مشابہت ہے ۔ ریاست افراد پر مشتمل ہے جب کہ انسان جسم خلیات کا مرکب ہے ۔ اس مشابہت کی بنا پر‬
‫وہ یہ اصول قائم کر تا ہے کہ افراد اور ریاست کا باہمی رشتہ وہی ہے جو اعضاء او ر جسم کا ہے ۔ وہ کہتا‬
‫ہے کہ افراد کو ریاست کا اسی طرح تابع اور فرمانبر دار ہونا چاہیے جس طرح اعضاء جس کے لئے حرکت‬
‫کرتے ہیں ۔ اجتماعیت کی اہمیت اور فوقیت کا اصول اسی نکتہ کی پیداوار ہے مشابہتی طریقہ بعض اوقات‬
‫نہایت مفید نتائج فراہم کرتا ہے ۔ انسانی معاشرہ ایک ایسا اجتماع ہے جس کے اندر مشابہت اور مماثلت کا‬
‫عنصر کا ر فرما ہے ۔ ل ٰہذا مختلف انسانی اجتماعوں اور قوموں میںہم ٓاہنگی اورہم مشکل عناصر کی تالش‬
‫سے ایسے اصولوں کی تخلیق کر سکتے ہییں ‪،‬جن کی افادیت کا دائرہ وسیع و عریض ہوتا ہو لیکن سیا سیات‬
‫میں یہ طریقہ مشکل سمجھا گیا ہے ۔ کیونکہ ہر سیا سی واقعہ اور تحریک کے گرد بہت سے پیچیدہ حاالت‬
‫اور واقعات ہوتے جس کے باعث ایک واقعہ اور دوسرے واقعہ کے مابین مشابہت کو تالش کرنا نہایت ہی‬
‫کٹھن کام ہے ۔ بظاہر تمام غالم قوموں کا حاکم اسی قوم کا فرد ہونے سے دونوں قوموں کی مشابہت اثر انداز‬
‫ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ ناقدین ہر برٹ سپنسر کے نظریہ پر بھی یوں تنقید کرتے ہیں کہ افراد جو ریاست‬
‫کی بنیاد ہین ۔ جاندار ہوتے ہیں ‪ ،‬جبکہ خلیات جو انسان کی تشکیل کرتے ہیں ‪ ،‬بے جان چیز ہیں ۔ اس لئے وہ‬
‫جسم نامی نظریہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر تے ہیں ۔ مشابہتی طریقہ کی افادیت سے انکار کئے بغیر فقط‬
‫یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ طریقہ اسی وقت سود مند ہوسکتا ہے جب نہایت احتیا ط اور غیر جانبداری کا‬
‫مظاہرہ کیا جائے ۔‬
‫نفسیاتی طریقہ‬
‫علم سیاسیات میں نفسیاتی طریقہ کو بے حد اہمیت حاصل ہے اس طریقہ سے ہم انفرادی اور اجتماعی نفسیات‬
‫سے ٓاگاہی حاصل کر تے ہیں ‪ ،‬جس کے بغیر حکومت کو صحیح خطوط پر چالنا ممکن نہیں ہوتا ۔‬
‫حکمرانوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ عوام اور خواص کے مزاج اور انداز فکر سے‬
‫بخوبی ٓاگاہ ہوں ۔ ایک خطہ اور عالقہ کے لوگوں کا مزاج دوسرے خطہ کے لوگوں سے مختلف ہوتا ہے ۔‬
‫لہٰ ذا قانون سازی کے وقت اس فرق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ مختلف عوامل مثالً معاشرتی ‪ ،‬مذہبی ‪،‬‬
‫اخالقی اور اقتصادی لوگوں کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی ذہنی کیفیت کو بدلنے کا موجب ہوتے‬
‫ہیں ۔ اسی طرح ٓاب و ہوا کا بھی ایک خاص اثر ہوتا ہے ۔ گرم عالقوں کے لوگ جذباتی اور سرد عالقوں کے‬
‫لوگ متحمل مزاج ہوتے ہیں ۔ ریاست اور حکومت کا مو ضوع چونکہ افراد ہیں ‪ ،‬ل ٰہذا ان کی ذہنی کیفیت کو‬
‫سمجھے بغیر ان کے لئے طرز حکومت کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا ۔ فرد اور ریاست کے درمیان ربط قائم‬
‫کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم ان کے طبائع اور مزاج کے مطابق اقدامات کریں ۔ ریاست میں رونما‬
‫ہونے والی تبدیلیاں انہی اسباب کا ثمر ہوتی ہیں ۔‬
‫فلسفیانہ طریقہ‬
‫فلسفیانہ طریقہ فال سفروں اور حکما کا مخصوص طریقہ ہے ‪ ،‬جس کی بنیاد قیاس اور تصور پر ہوتی ہے ‪،‬‬
‫اس طریقہ کا حقائق سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ مفکرین ایک ٓائیڈیل کی تالش میںایسا خیال یا تصور پیش‬
‫کرتے ہیں ‪ ،‬جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ بعض اوقات کوشش کی جاتی ہے کہ اس تصور کا‬
‫اطالق ہمارے اور اداروں پر ہوجائے لیکن چونکہ اس میں تخیل کی بلند پر دازی کا عنصر غالب ہوتا ہے ۔‬
‫اس کا عملی شکل دنیا دشوار ہوجاتا ہے اور اگر کسی حد تک ان نظریات پر عمل ہو بھی جائے تو اس کے‬
‫خطرناک نتائج برٓامد ہونے کا زیادہ امکان ہے ۔ افالطون کے نظریات کو لیجئے ۔ اس کی ٓائیڈیل سٹیٹ کا‬
‫نظریہ ناقابل عمل ہے اور اس کے کئی پہلو ایسے ہیں جو انسانی فطرت سے ہی متصادم ہیں ۔ کارل مارکس‬
‫نے انسان کے ہر فعل کا محرک معاشیات کو ٹھہرا کر زندگی کی مختلف اقدار کی نفی کر دی ہے ۔ فلسفیانہ‬
‫طریقہ ایسی نرالی دنیا کی نشاندہی کرتا ہے جو ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہے اس سوال کا جواب کہ ریاست‬
‫کیسی ہونی چاہیے ۔ تومل جاتا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہو ‪ ،‬یہ کوئی نہیں جانتا ۔ کیونکہ تخلیل یا مفروضہ کا‬
‫تاریخی حقائق اور انسانی فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ہمارے معامالت اور مسائل کو حل کر نے کی‬
‫ان میں کوئی قوت نہیں ہوتی ۔‬
‫تقابلی طریقہ‬
‫تقابلی طریقہ سے یہ مراد ہے کہ ماضی اور حال کے سیاسی اور اداروںکا موازنہ کر سکے ‪ ،‬ان کے مشترکہ‬
‫اصولوں کو حاصل کیا جائے اور ان اصولوںـ کی روشنی میں سیاسی نظریات تشکیل دئیے جائیں نیز مختلف‬
‫ممالک اور معاشروں کا بھی باہمی موازنہ کیا جائے اور ان میں ان اقدات کا پتہ چال جائے جن میں تسلسل‬
‫ہے اور جو ہماری سیاسی بصیرت کی بنیاد سیاسی واقعات کا موازنہ اس طرح کیا جائے کہ ایسے واضح‬
‫حقائق مل جائیں جو مستقبل کی تعمیر کے لئے مدد گار ہوں ۔ مثال ً انقالبات کے اسباب کیا ہوتے ہیں ماضی‬
‫کے مشہور انقالب مثال ً برطانوی شاندار انقالب ‪ 1688‬انقالب فرانس ‪ 1789‬اور روس کا انقالب ‪ 1917‬ء ان‬
‫انقالبوں کے مشترکہ عوامل اور محرکات کا تجزیہ ہونا چاہیے ۔ اس طرح سے ہمیں جو مشترکہ اصول ملیں‬
‫گے وہ ٓائندہ ہماری رہنمائی کر سکیں گے کہ کس طرح کی سیاسی صورت حال انقالب پر منتج ہو گی اور‬
‫انقالب کے روکنے کے لئے کن اسباب و علل کو دور کرنا ہوگا ۔ ماشیسکیو نے مختلف ممالک کے اطراز‬
‫حکومت کا مطالعہ کرنے کے بعد اس اصول کی تالش کیا کہ حکومت کے تینوں شعبوں کے درمیان جس قدر‬
‫علیحدگی اختیار ات ہوگی ‪ ،‬اسی قدر ٓازادی کے تحفظ کی ضمانت میسر ہوگی ۔ برائس نے مختلف جمہوریتوںـ‬
‫کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے فوائد اور نقائص کو مرتب کیا ۔ ارسطو نے یونان میں رائج ‪ 158‬دساتیر کا‬
‫تقابلی مطالعہ کیا اور اس کی بنیاد پر ریاست اور سیاست کے بارے میں اپنے خیاالت اور نظریات کا اظہار‬
‫کیا اور اس کی بنیاد پر ریاست اور سیاست کے بارے میں اپنے خیاالت اور نظریات کا اظہار کیا ہے ۔ تقابلی‬
‫طریقہ کو تاریخی طریقہ بھی کہا جاسکتا ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ تاریخی طریقہ میںہم اپنے‬
‫مطالعہ کو صرف ماضی کے سیاسی اداروں تک محدود کر دیتے ہیں اور ان تجربات سے اخذ کر دہ اصولوں‬
‫کو سیاسی زندگی میں جگہ دیتے ہیں لیکن تقابلی طریقہ قدرے مختلف ہے ۔ اس میں موازنہ کرتے ہوئے یہ‬
‫جانچتے ہیں کہ ان میں کہاںکہاں اشتراک اور اختالف ہے اور کن عوامل کو تسلیم کیا جائے اور کن کو ترک‬
‫کر دیا جائے ۔‬
‫تحقیق و مطالعہ کے نئے موضوعات‬
‫بیسیویں صدی میں سیاسی شعبہ میں اہم تبدیلیوں کے باعث سیاسیات کی حدود اور وسعت میںبھی اضافہ ہوا ۔‬
‫قبل ازیں سیاسی مفکرین سیاسیات کے مطالعے کو محدود انداز میںپیش کرتے تھے ۔ مثالً گار نر صرف‬
‫ریاست کے مطالعہ کو علم سیاسیات کہتا ہے ۔ لیکا ک علم سیاسیات کے مطالعہ میں صرف حکومت کو شامل‬
‫کرتا ہے ۔ گلکراسٹ اور گیٹل کے نزدیک علم سیاسیات کا مطالعہ صرف ریاست اور حکومت دونوں کا علم‬
‫‪ ،‬ہے ۔ بیسویں صدی میں سیاسیات کے مطالعہ میں جو ئے موضوعات شامل ہوئے ہیں‬
‫سیاسی ادارے‬
‫ریاست کا مطالعہ اب صرف اس کے اجزائے ترکیبی ‪ ،‬ابتدا کے نظریات اور مقاصد تک محدود نہیں رہا اور‬
‫نہ ہی حکومت کے مطالعہ سے مراد اس کی تنظیم ہے ۔ اب ان عوامل کے مطالعہ کو بھی اہم تصور کیا جاتا‬
‫ہے جو ریاست اور حکومت کی کاروائی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دور حاضر میں رائے عامہ ‪ ،‬سیاسی‬
‫جماعتیں اور فشاری گروہ جیسے اداروں کو سیاسیات کے مطالعہ میں شامل کر لیا گیا ہے ۔‬
‫پالیسی سازی‬
‫علم سیاسیات کے مفکرین نے جب یہ دیکھا کہ ریاست کی پالیسی کے نظریاتی اصولوں اور عملی کار‬
‫گردگی میں بعض اوقات فرق پایا جاتا ہے ‪ ،‬توان رجحانات کو سمجھنے کی کوشش کی جن کے باعث یہ‬
‫متضاد کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس نقطے کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے تمام وساتیر میں‬
‫حکومت کی راہنمائی کے لئے پالیسی کے کچھ اصول شامل کئے گئے ہیں ‪ ،‬لیکن دیکھا گیا ہے کہ ان پر‬
‫پوری طرح عمل نہیں ہوسکا ۔ پاکستان میں ہر حکومت نے نفاذ اسالم کے اصول کو مانا ہے لیکن عمالً کچھ‬
‫اور ہوا ۔ اس کی وجہ وہ عوامل ہیں جو حصول مقصد کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور وہ عوامل‬
‫سماجی اور معاشی ہیں یعنی ہمارا طبقاتی معاشرہ اور سرمایہ دارانہ ذہنیت پالیسی کے ان اصولوںـ پر عمل‬
‫کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ لہٰ ذا وہ عوامل جو حکومت کی پالیسی کا رخ موڑ دیتے ہیں کا مطالعہ بھی‬
‫علم سیاسیات کا ایک مو ضوع ہے ۔‬
‫سیاسی قوت‬
‫جدید نقطہ نظریہ ہے کہ کسی ریاست اور حکومت کی کار کردگی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان‬
‫سیاسی رہنمائوں کی سوچ کوبھی پڑھا جائے جو کسی معاشرہ میں برسر اقتدار ہیں ۔ سیاسی قوت کی‬
‫وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا قیام اگرچہ ایک نظریہ کی بدولت ہوا ۔ لیکن قیام پاکستان‬
‫کے بعد مغربی سیاسی نظریات کو اس لئے فروغ حاصل ہو ا کہ بر سر اقتدار طبقہ مغربی نظریات سے متاثر‬
‫تھا ۔ ل ٰہذ ا سیاسی اور انداز فکر اسالمی اداروں کی بجائے مروجہ مغربی اداروں کی طرف رہا ۔‬
‫ذرائع ابالغ‬
‫سیاسی نظام کا رخ متعین کرنے میں ذرائع ابالغ کا بڑا عمل دخل ہے ۔ عوام اپنی ضروریات اور خواہشات‬
‫حکومت تک پہنچانے کے لئے ان کا سہارا لیتے رہے اور حکومت اپنے فیصلوں کے لئے عوامی حمایت‬
‫حاصل کر نے کے لئے ان ذرائع کو بروے کا ر التے ہیں ۔ ذرائع ابالغ اور طالعات کا مقصد ایک طرف‬
‫کے موقف کو دوسروں پر واضح کرنا ہوتا ہے ۔ اس طرح باہمی افہام و تفہیم کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔ ل ٰہذا‬
‫اطالعات و نشریات بھی علم سیا سیات کے مو ضوعات میںایک اضافہ ہے ۔‬
‫سیاسی طرز عمل‬
‫سیاسی عمل کو سمجھنے کے لئے جو ایک نیاانداز ابھرا ہے اسے سیاسی طرز عمل یا سلوکیت کی اصطالح‬
‫سے جانا جاتا ہے ۔ اس نظریہ کے حامی کسی سیاسی نظام کا مطالعہ کر تے وقت وہاں کے شہریوں کی‬
‫نفسیاتی کیفیات روایت اور طرز عمل کو سمجھنے پر زور دیتے ہیں اس نقطہ کی وضاحت یوں کی جاسکتی‬
‫ہے ۔ کہ ایک پاکستانی عالم اسالم میں ہونیوالے ہر واقعہ اور تبدیلی سے الزما ً متاثر ہوتا ہے ۔ ل ٰہذا پاکستان‬
‫کے سیاسی نظام کو سمجھنے کے لئے اس طرز عمل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کشمیر کا مسئلہ ہویا‬
‫فلسطین کا حکومت کو شہریوں کے رجحان کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے ۔ سلوکیت پسند مختلف معاشروں کے‬
‫سیاسی طرز عمل کا جائزہ لے کر یہ معلوم کرتے ہیں کہ وہاں کے سیاسی ادارے کس طرح اپنے فرائض سر‬
‫انجام دے سکتے ہیں ۔ ہر معاشرے کا طرز عمل ایک جیسا نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں سیاسی ادارے‬
‫جس طرح سے کام کر رہے ہیں ‪ ،‬ترقی پذیر ممالک میں مختلف کیفیت ہے ۔ جس کی وجہ شہریوں کے انداز‬
‫فکر اور طرز عمل میں فرق ہے ۔ ایک حکومت اس فرق کو اگر سامنے رکھ کر سیاسی اداروں کے فرائض‬
‫کا تعین کرتی ہے تو وہ صحیح سمت کی طرف رواں ہے ۔ جدید حکومتوں کی کامیابی کے لئے کسی سیاسی‬
‫نظام کو چالنے کے لئے شہر یوں کے طرز عمل اور ردعمل کا مطالعہ کرنا ہوگا ‪ ،‬ل ٰہذا علم سیاسیات کے‬
‫محقیقین کے لئے یہ ایک نیا مو ضو ع ہے ۔‬
‫جدید مکتبہ فکر‬
‫قبل ازیں علم سیا سیات کے مطالعہ کے لئے تاریخی فلسفیانہ اور معاشی طریقوں پر انحصار تھا ۔علم‬
‫سیاسیات کے مطالعہ کے تاریخی طریقے سے یہ مراد ہے کہ تاریخ سیا سیات کی تحقیق کے لئے مواد فراہم‬
‫کرتی ہے اور محقق تاریخی واقعات کا تجزیہ کر کے سیاسی اصول اخذ کر تاہے ۔ اس انداز فکر کا بڑا نقص‬
‫یہ بتایا جاتا ہے کہ تاریخ صرف ماضی کے واقعات کے مجموعہ کا نام ہے ‪ ،‬جب کہ سیا سیات کا تعلق‬
‫مستقبل کے سیاسی مسائل سے ہے ‪ ،‬عالوہ ازیں سیا سیات کی نوعیت صرف سیاسی ہے جب کہ تاریخ‬
‫مختلف قسم کے واقعات کا ریکارڈ ہے ۔ معاشی انداز فکر کو بھی اب وہ پذیر ائی حاصل نہیںرہی ‪ ،‬جو بیسویں‬
‫صدی کے ٓاغاز میں تھی ‪ ،‬جب یہ تصور مقبول ہوا کہ ہر سیاسی اور سماجی واقعہ کا محرک معاشی‬
‫ضرورت ہوتی ہے اس نظر یہ نے سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضرب لگائی اور اشتراکیت کے نظریہ کو‬
‫قوت بخشی ‪ ،‬لیکن ناقدین اس اصول کو ایک کمزور اور غیر حقیقی تصور کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ہر‬
‫واقعہ صرف معاشی عمل کا نتیجہ نہیںبلکہ اس کے کئی اسباب سماجی معاشی ‪ ،‬مذہبی اور سیاسی ہوتے ہیں ۔‬
‫فلسفیانہ انداز فکر اگرچہ کالسیکل نقطہ نظر ہے ‪ ،‬جو صرف مشاہدے اور تدبر کی پیداوار ہے ۔ افالطون کا‬
‫مثالی ریاست کا تصور ریاست کا تصور تخیالت کی دنیا میں ایک شاہکار ہے ‪ ،‬لیکن عملی لحاظ ہے ناقا عمل‬
‫خیال ہے ۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مثالی ریاست کے بہت سے اصولوں کے لئے جدید سیاسی‬
‫افکار میں جگہ ہے لیکن جدید دور میں بدلتے ہوئے اور پیچیدہ مسائل کا حل افالطون ‪ ،‬ارسطو ‪ ،‬میکائولی ‪،‬‬
‫رئوسو اور کارل مارکس ‪ ،‬کسی کے ہاں نہیںہے ل ٰہذا علم سیا سیات کے مطالعہ کے جدید ترین طریقہ کو‬
‫سلوکی طریقہ بتایا جاتا ہے ۔‬
‫علم سیا سیات کے ذیلی مضامین‬
‫ارسطو کو علم سیا سیات کا بانی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے اس علم کو الگ مقام دیا ‪ ،‬وگرنہ یہ علم‬
‫سماجی علوم کا حصہ تصور ہوتا رہا ہے ۔ علم سیاسیات کی حدود میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا ۔ بالخصوص‬
‫دور حاضر میںریاست زندگی کے تمام شعبوں کا محور بن چکی ہے ۔ اس کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ‬
‫ہوا ہے ۔ یہی وجہ سے کہ زندگی کے مختلف پہلوئوںـ سے تعلق رکھنے والے کئی شعبے اس مضمون کا‬
‫حصہ بن چکے ہیں یہاں پر ایسے چند ذیلی مضامین کا ذکر کیا جائے جن کا بالواسطہ ی ابال واسطہ تعلق‬
‫ریاست اور حکومت سے ہو چکا ہے ۔‬
‫پبلک ایڈمنسٹریشن‬
‫جدید حکومت کی تنظیم اس طرح ہے کہ یہ تین شعبوں پر مشتمل ہے جو مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ ہیں ۔‬
‫انتظامیہ کو دور حاضر میں زبردست اہمیت حاصل ہو چکی ہے ۔ اس شعبہ کا کام ریاست کا نظم و نسق چالنا‬
‫۔ پالیسی کے اصول تیار کرنا اور ان کا نفاذ ہے ۔ انتظامیہ دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ایک حصہ میں‬
‫صدر وزیر اعظم وزرا ء اور مثیر شامل ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ سیاست دان کہالتے ہیں ان کا رابطہ عوام اور‬
‫مختلف سماجی اور سیاسی تنظیموں سے ہوتا ہے ۔ وہ ملک اور لوگوں کی ضروریات اور تقاضوں سے واقف‬
‫ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کو قومی امور کو سرانجام دینے کا عملی تجربہ نہیں ہوتا ۔ انتظامیہ کا دوسرا حصہ‬
‫ماہرین پر مشتمل ہوتا ہے ‪ ،‬جس کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ مثالً ایڈ منسٹریشن سول سروس اور‬
‫بیورو کر یسی وغیرہ ۔ ان لوگوں کی تقرری کا معیار ‪ ،‬علمیت ‪ ،‬اہلیت اور ذہانت کی بنا پر ہوتا ہے ۔ ان کی‬
‫اعلی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ان لوگوں کو مختلف قومی امور سرانجام دینے کی ذمہ داری‬ ‫ٰ‬
‫سونپی جاتی ہے ۔ ان کے پاس سالہا سال کا عملی تجربہ ہوتا ہے لہٰ ذا انتظامیہ کے اندر سب سے فعال اور‬
‫متحرک گروپ ان ہی افسروں کا ہوتا ہے ۔ سیاسی حکمران حکومت کی پالیسی وضع کر تے وقت ان کے‬
‫مشورے اور تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ سیاست دانوں کا کام یہ ہے کہ وہ عوام کے مسائل کی نشان دہی‬
‫کر یں اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے ذریعے ان کو حل کر وائیں ۔‬
‫جدید ریاست کو نظم و نسق کے عالوہ بے شمار فالحی امور بھی انجام دیتے ہوتے ہیں ۔ ل ٰہذا ہر حکومت کی‬
‫کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ پبلک ایڈمنسٹریشن سے قومی تعمیر و ترقی کے لئے کتنا کام لے‬
‫سکتی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ایڈمنسٹریشن غیر جانبداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے ۔‬
‫لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر مالک میں ہر حکومت پبلک ایڈ منسٹریشن کو سیاست میں ملوث کر دیتی ہے ۔‬
‫جس سے اس کی اپنی استعداد کا ر متاثر ہوتی ہے ۔ سیاسی انتظامیہ کو اور پبلک ایڈ منسٹر یشن کو اپنے‬
‫اپنے دائرہ کار میں رہ کر ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے ۔ سیاست دان عوامی تقاضوں کی نشان دہی‬
‫کریں اور سول انتظامیہ ان کا ماہرانہ حل پیش کرے ۔ لیکن بعض ممالک میں سول سروس پالیسی ساز بن‬
‫گئی ہے اور اقتدار کی ہوس کے باعث اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کی مرتکب ہورہی ہیں ۔ پبلک‬
‫ایڈمنسٹریشن کی کامیابی کا انحصار بہت حد تک شرائط مالزمت تربیت اور غیر جانبداری پر ہے ۔ بھارت‬
‫اور پاکستان کو ٓازادی کے وقت ایک معیار ی سول سروس ملی تھی ‪ ،‬اگرچہ اب بھی اس کا معیار کئی ترقی‬
‫پذیر ممالک سے بلند ہے ۔ پھر بھی اس کو جدید تقاضوں سے ہم ٓاہنگ کرنے کی ضرورت ہے ۔‬
‫بین اال قوامی تعلقا ت‬
‫جدید دور میں سیاست اور یاست کا علم ایک نئے دور میں شامل ہوچکا ہے ۔ اب ریاست باقی اقوام سے الگ‬
‫تھلگ رہ کر اپنا کر دار انجام نہیں دے سکتی ۔ تیز رفتار ذرائع رسل و رسائل نے تمام اقوام کو ایک دوسرے‬
‫کے قریب ترکر دیا ہے ۔ دنیا کے کسی خط میں رونما ہو نے واال واقعہ باقی دنیا کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا‬
‫۔ دوسرے عالمی جنگ نے دنیا کا سیاسی نقشہ بدل کے رکھ دیا ۔ ایک سوکے لگ بھگ ملک ٓازاد ہوئے ۔ ٓازاد‬
‫ممالک کے اضافے سے باہمی اشتراک و تعاون کی ضرورت بڑھی ‪ ،‬تو ٓازاد ممالک کے پاس و سائل علم ‪،‬‬
‫تجربہ اور ماہرین کی کمی تھی ل ٰہذا ان کو ترقی یافتہ ممالک کی امداد پر انحصار کرنا پڑا ‪ ،‬جو بال مشروط‬
‫نہیںتھی ‪ ،‬لہٰ ذا کئی قسم کے سیاسی معاشی اور دفاعی معاہدے وجود میں ٓائے ۔ نئے ماحول نے اختالفات میں‬
‫بھی اضافہ کیا ۔ بین اال قوامی تعاون کی ضرورت دوسری عالمی جنگ کے دوران میں ہی شدت سے‬
‫محسوس کی گئی ‪ ،‬لیکن عالمی سیاست میں نئے تقاضوں کے باعث اس کی اہمیت اور بڑھی ل ٰہذا اقوام متحدہ‬
‫کا بین اال قوامی تشخیص نمایاں ہوا ۔‬
‫ترقی یافتہ ممالک کے علم و تحقیق کے شعبوں کو عالمگیر حیثیت حاصل ہونے لگی پسماندہ ممالک کے لئے‬
‫اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ان اداروں سے جدید علوم سیکھ کر اپنے ملک کی سالمتی اور ترقی‬
‫کے کام کریں ۔ ترقی یافتہ ممالک کے نظریات کو پسماندہ ممالک میں عمل پیرا ہونے سے بعض اوقات منفی‬
‫نتائج برٓامد ہوئے اور فوجی انقالبوں سے کئی ممالک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوئے جو ممالک ترقی نہ‬
‫کر سکے وہ ترقی یافتہ اقوام کے پہلے سے زیادہ محتاج اور امداد کے طالب ہوگئے ۔‬
‫جدید جنگی ہتھیاروں کی ایجاد نے دنیا کو دو متحارب گروہوں میں بانٹ دیا ۔ ایک گروہ امریکہ کی قیادت‬
‫میں نیٹو کی تنظیم تھی ‪ ،‬جس میں بیشتریورپی ممالک شامل تھے ۔ دوسرا گروہ وار ساپیکٹ والے ممالک کا‬
‫تھا ‪ ،‬جس کا سر غنہ سوویت یونین ہے ۔ دونوں کے درمیان کشیدگی سے بین اال قوامی تعلقات کی اہمیت میں‬
‫اضافہ ہوا ۔‬
‫دنیا دو نظریاتی گروہوں میں بٹ گئی جو جمہوریت پسند اور اشتراکیت پسند کہالئے ‪ ،‬اس نظریاتی کش مکش‬
‫نے چھوٹے اور کمزور ممالک کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں اس نظریاتی کش مکش نے بھی بین‬
‫اال قوامی تعلقات میں سرگرمی پیدا کی ۔‬
‫طاقت کا توازن بین االقوامی تعلقات میں اہم عنصر بن گیا ۔ امریکہ اور روس سپر طاقتیں بن کر طاقت کے‬
‫توازن کو بر قرار رکھنے کے لئے ہر وقت سرگرم عمل ہوگئے ۔ معاشی ناہمواری کے باعث امیر اور غریب‬
‫ممالک کے درمیان بین اال قوامی تعلقات کی نئی راہیں تالش کی گئیں ۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی مصنوعات کی‬
‫کھپت اور ترقی پذیر ممالک کو اپنی ضروریات کے لئے باہمی تعاون کو فروغ دیناپڑا ۔ مذکورہ عوامل نے‬
‫بین اال قوامی تعلقات کو علم سیا سیات کی ایک اہم شاخ بنا دیا ۔‬
‫اس وقت دنیا کئی گر وپوں میں منقسم ہے ۔ انہوں نے اپنے اپنے مفادات سے حصول کے لے مختلف تنظیمیں‬
‫بنا رکھی ہیں ۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد اب ہر امریکہ دنیا کی واحد طاقت ہے وار ساپیکٹ ختم‬
‫ہو چکا ہے اور اس کے کئی ممبر نیٹو میں شامل ہو چکے ہیں ۔ امریکہ واحد سپر طاقت ہونے کے ناطے‬
‫نئے ورلڈ ٓارڈر کی فکر میں ہے ‪ ،‬جس میں اس کی فوجی اور معاشی باال دستی قائم رہے ۔ اب امریکہ کے‬
‫مقابلے میں یورپی ممالک متحد ہورہے ہیں ۔ شمال جنوب کی اپنی تنظیمیں ہیں ۔ ‪ ۱۷‬کا گروپ ترقی پذیر‬
‫ممالک کے مفادات کے لئے سرگرم عمل ہے ۔ سیا سیات میں ان سب کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔‬
‫تقابلی سیاست‬
‫تقابلی سیاست کوئی نیا موضوع تو نہیں ہے کیونکہ تمام سیاسی مفکرین اس طریقہ کار سے بخوبی واقف‬
‫رہے ہیں ۔ ہر سیاسی نظر یہ دوسرے نظریے کو سمجھنے کے بغیر وجود میں نہ ٓاسکا ۔ اگر جمہوریت کا‬
‫ذکر ہوا تو جمہوریت پسندوںنے یونان کی شہری ریاست کے تصور کو سامنے رکھ کر بالواسطہ جمہوریت‬
‫کی بات کی ۔ اشتراکیت پسندوں نے بھی ماضی میں اشتراکی نظریات کا تقابلی جائزہ لیا ۔ کا رل مارکس ہیگل‬
‫سے متاثر ہوا ۔ میگائولی نے مختلف نظام ہائے حکومت کے موازنہ کے بعد سیاسی اصول اخذ کئے ۔ تقابلی‬
‫ریاست سے مراد یہ ہے کہ کسی سیاسی نظریہ کو پیش کرتے وقت یہ دیکھ لیا جائے کہ اس نوعیت کے‬
‫نظریات اور ادارے دیگر ممالک میں کس افادیت کے حامل ہیں ۔ اگر چہ تقایلی سیاست کا تصور نیا نہیں ۔‬
‫پھر بھی جدید دور میں جو اہمیت حاصل ہوئی وہ پہلے کبھی نہ تھی ۔ ماضی میں صرف اداروں کا موازنہ کیا‬
‫جاتا ‪ ،‬ان کی تشکیل اور کار کر دگی کے اصولوں کا موازنہ ہوتا مگر اب یہ مطالعہ محض اداروں کا تقابلی‬
‫مطالعہ نہیں بلکہ اداروں کے ساتھ ہر معاشرے کے مخصوص نفسیاتی معاشی اور سماجی عوامل پر بھی‬
‫غور و فکر کیا جاتا ہے ۔ تقابلی سیاسیت کے جدید تصور میں یہ بھی تبدیلی ٓائی ہے کہ پہلے صرف ترقی‬
‫یافتہ ممالک کے تجربات سے کوئی استفادہ نہیں کیا جاتا ۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ترقی یافتہ‬
‫اداروں کے باہمی تقابل سے جو سیاسی اصول اخذ کئے جب ان کا اطالق ترقی پذیر ممالک پر ہوا تو نتائج‬
‫مختلف تھے ‪ ،‬یعنی ‪ ،‬پرانے طریقے سے ہم عالمگیر اصول کو یکساں اہمیت دے ۔ کر سیاسی اصول اخذ‬
‫کئے ہیں۔ یعنی اب سیاسی اصول اخذ کر تے وقت مختلف نظاموں کے پس پردو سماجی سیاسی اور معاشی‬
‫ماحول کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ تقابلی سیاست کا موضوع ماضی میں سیا سیات کے مطالعہ کا ایک طریقہ‬
‫تھا ‪ ،‬جو اب علم سیا سیات کا ایک ذیلی مضمون بن چکا ہے ۔ اب ایک سیاسی نظام محض ایک مخصوص‬
‫ماحول کے سیاسی اداروں کے مطالعہ کا نام نہیں بلکہ ہر سیاسی نظام کے پس پر دہ وہ اقدار بھی ہیں جن کو‬
‫نظر انداز کرنے سے اس نظام کی اصل شکل برقرار نہیںرہ سکتی ۔ تقابلی سیاست علم سیا سیات میںایک جدید‬
‫مضمون کا اضافہ ہے ۔‬
‫سیاسی حرکیات‬
‫علم سیاسیا ت میں ایسے عناصر اور عوامل جو ہماری سیاسی زندگی کو مختلف سمتوں کی طرف حرکت‬
‫دیتے ہیں ۔ سیاسی حرکیات کہالتے ہیں ۔مثالً سیاسی جماعتیں فشاری اور مفاداتی گروہ کے عالوہ رائے عامہ‬
‫کا ہماری سیاسی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔ ماضی میں ہمارا مطالعہ فقط دستوری اداروں کی کار گردگی‬
‫کو جاننے تک محدود ہوتا تھا ۔ لیکن جدید مفکرین کے نزدیک وہ عوامل زیادہ اہم ہیں ‪ ،‬جو ان اداروں پر اثر‬
‫انداز ہوتے ہیں ۔ ہر معاشرہ مخصوص ثقافت رکھتا ہے ۔ لہٰ ذا بر طانیہ میں جتنے بھی سیاسی ادارے وجود‬
‫میں ٓائے وہ ان کی سیاسی روایات کے مطابق ہیں ۔ برطانوی وعوام جمہوریت کے علمبر دار ہونے کے‬
‫باوجود قدامت پسند تصور ہوتے ہیں ۔ لہٰ ذا ان کی ثقافت کے مطالعہ کے بغیر وہاں کے سیاسی اداروں کا‬
‫مطالعہ ممکن نہیں ہوسکتا ۔ ثقافت اور عقائد سیاسی افکار پر پوری شدت سے اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ہندوستان‬
‫کادعوی دار ہے لیکن وہاں کی سیاسی زندگی میں ہندو ذہنیت کار فرماہے اور‬‫ٰ‬ ‫اگرچہ سیکولر ریاست ہونے‬
‫دس کروڑ مسلمانوں کو وہاں کی معاشرتی زندگی میں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جو ان کا حق ہے پاکستان‬
‫میں بھی کئی سیاسی تجربات ہوئے ۔ مثال ً صدارتی نظام ‪ ،‬بنیادی جمہوریتوں کا نظام اور غیر جماعتی‬
‫انتخابات لیکن ان کو اس لئے پذیر ائی حاصل نہ ہوسکی کہ لوگوں کا طرز عمل یا رویہ ان کے برعکس تھا ۔‬
‫کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اگر کوئی حتمی فیصلہ کر نا چاہیں تو نہیں کر‬
‫سکتیں ۔ کیوں کہ دونوں جانب عوام کی وابستگی اور رائے عامہ ایساکرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔ سیاسی‬
‫جماعتیں حکومتی اداروںپر حاوی ہوتی ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ہی لوگوں میں شعور اور رائے پیدا کرتی ہیں‬
‫اور جب وہ ایسا کر رہی ہوتی ہیں تو عوام کے رجحانات کو ملحوظ خاطر رکھ کر پالیسی تیار کرتی ہیں۔‬
‫پاکستان میں ایک سیاسی جماعت نے لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا منشور تیار کیا تو وہ لوگوں کی‬
‫نفسیات اور حاجات کے مطابق تھا ‪ ،‬ل ٰہذا اس عمل نے سیاسی زندگی میں ایک ہل چل پیدا کی اور سیاست کو‬
‫ایک نیا رخ مل گیا ۔ سیاسی جماعتیں ہی فقط سایسی اداروں پر اثر انداز نہیں ہوتیں بلکہ ہر سیاسی جماعت‬
‫کے اندر فشاری گروہ بھی اپنے اثرات چھوڑتے ہیں ۔ پاکستان میں علماء اور طلباء ایسے فشاری گروہ ہیں‬
‫جن کو نظر انداز کر کے کوئی نظام نہیں چال یا جا سکتا ۔ طلباء اور علماء کے عالوہ نسلی ‪،‬لسانی ‪ ،‬طبقاتی ‪،‬‬
‫امتیازات بھی سیاسی اداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ مشرقی پاکستان میں نشیب و فراز کا باعث بنے ہوئے‬
‫ہیں انتخابا ت کے ایام میں رائے دہندگان کی اپنی سوچ اور فکر سے نئے انداز سامنے ٓاتے ہیں ۔ رائے دہند‬
‫گان نہ صرف کسی سیاسی جماعت کی کار گردگی کو سامنے رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان‬
‫کی ذاتی پسند یا نا پسند کو بھی دخل ہوتا ہے ۔ مختلف مزاج ‪ ،‬مختلف فیصلے کر نے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔‬
‫دور حاضر میں عام انتخابات کے عالوہ گاہے گاہے رائے عامہ کی پیمائش جدید طریقوں سے کی جاتی ہے‬
‫اور حکومت اور حزب مخالف دونوں ان سیاسی متحرکات سے باخبر ہوسکتے ہیں ۔ جو ٓائندہ سیاسی عمل کی‬
‫نشان دہی کر سکیں۔ علم سیا سیات میں دستوری اداروں کے مطالعہ کا اصول تو اپنی جگہ قائم ہے ۔لیکن‬
‫سیاسی حرکیات یا سیا سی متحرکات کو اس کا الزمی حصہ یا ذیلی مضمون سمجھا جانے لگا ہے ۔ مختصر‬
‫یہ کی سیاسی اداروں کا مطالعہ ا سوقت تک مکمل نہیں سمجھا جا سکتا ۔ جب تک ان سے متعلقہ سیاسی‬
‫جماعتوں ‪ ،‬مفاداتی گرو ہوں ‪ ،‬رائے عامہ ‪ ،‬تہذیب و تمدن اور روایات کا مطالعہ نہیں کیا جاتا ۔ یہ عناصر‬
‫لوگوں کے اندر ایک سوچ اور رویہ تشکیل دیتے ہین ۔ جس کا عکس مخصوص ٓائینی اور قانونی اداروں اور‬
‫تنظیموں کے اندر دیکھا جا سکتا ہے ۔‬

You might also like