Professional Documents
Culture Documents
Brief History of Everything 3
Brief History of Everything 3
حصہ سوم
اردو ترجمہ
خلیے 24
ہماری ابتداء محض ایک خلیے سے ہوتی ہے۔ پہال خلیہ تقسیم ہو کر دو بناتا ہے اور دو سے
چار اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کل 47تقسیم کے بعد ہمارے جسم میں خلیوں کی
مجموعی تعداد 1,40,000کھرب خلیے ہو جاتی ہے (بڑھوتری کے اس عمل میں بہت سارے
خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اور یہ محض ایک اندازہ ہے۔ مختلف سائنس دان اسے مختلف مانتے
ہیں۔ یہ واال ہندسہ ہم نے ساگان اور مارگولس کی کتاب ‘مائیکرو کاسموس’ سے لیا ہے ) اور ہم
بطور انسان متعارف ہوتے ہیں۔ ہر خلیہ بار آوری سے ہماری وفات تک بخوبی جانتا ہے کہ اس
نے کیا کرنا ہے۔
آپ کے خلیے آپ کی ہر بات کو جانتے ہیں۔ انہیں آپ کے بارے آپ سے زیادہ معلومات ہوتی
ہیں۔ ہر خلیے میں آپ کے جینیاتی کوڈ کی مکمل نقل موجود ہوتی ہے جو ہدایتی کتابچے کا کام
کرتی ہے۔ اسے نہ صرف یہ علم ہوتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے بلکہ یہ بھی کہ جسم کے
دیگر حصے کیسے اور کیا کام کرتے ہیں۔ ساری زندگی میں آپ کو ایک بار بھی اپنے خلیوں
کو یہ نہیں یاد کرانا پڑتا کہ ایڈینو سین ٹرائی فاسفیٹ کی مقدار پر نظر رکھے یا یہ کہ فرولک
ایسڈ کی اضافی مقدار کہاں محفوظ کرنی ہے۔ یہ سارے کام آپ کے خلیے آپ کی خاطر کرتے
ہیں۔
ہر خلیہ اپنی جگہ ایک عجوبہ ہے۔ انتہائی سادہ قسم کے خلیے بھی انسانی عقل سے ماوراء ہیں۔
انتہائی بنیادی قسم کے خمیر کے خلیے کو تیار کرنے کے لیے آپ کو بوئنگ 777میں
استعمال ہونے والے پرزوں کی تعداد کے برابر چیزوں کو انتہائی چھوٹی محض 5مائیکران
جتنی جگہ میں سکیڑ کر سمونا ہو گا۔ پھر کسی نہ کسی طرح اسے اپنی نسل آگے چالنے کو
بھی مجبور کرنا پڑے گا۔
تاہم خمیر کے خلیے انسانی خلیوں کی نسبت کچھ بھی نہیں۔ انسانی خلیے نہ صرف انتہائی
پیچیدہ بلکہ ان کے اندر ہونے والے کیمیائی تعامالت بھی انتہائی حیرت انگیز ہوتے ہیں۔
آپ کا جسم 10,000کھرب آبادی واال ملک ہے جن میں سے ہر ایک خلیہ آپ کی بھالئی اور
فالح کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہتا ہے۔ ان کے بغیر آپ نہ تو خوش ہو سکتے ہیں اور نہ ہی
آپ کی سوچ پیدا ہو سکتی ہے۔ انہی کی مدد سے آپ کھڑے ہوتے ہیں اور حرکت کرتے ہیں۔
جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو کھانے سے متعلقہ غذائی اجزاء کو نکالنا ،توانائی کی تقسیم اور
فاضل مادوں کو خارج_ کرنے کا کام ،غرض سکول میں حیاتیات کی کتاب میں موجود ہر کام
یہی خلیے کرتے ہیں۔ اس کے عالوہ جب آپ کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے تو خلیے آپ کو
بھوک کا احساس دالتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعد آپ کو احساس دالتے ہیں کہ پیٹ بھر گیا
ہے تاکہ آپ دوبارہ کھانا کھانا بھول نہ جائیں۔ آپ کے بالوں کی بڑھوتری ،کانوں کو چکنا رکھنا
یا جو بھی کام ہو ،آپ کا دماغ مسلسل کرتا رہتا ہے۔ آپ کے جسم کا ہر گوشہ ان کی ذمہ داری
ہے۔ جونہی خطرہ سامنے آئے تو یہی خلیے آپ کے دفاع کے لیے اسی وقت آگے بڑھتے ہیں۔
آپ کو بچانے کے لیے وہ اپنی قربانی دیتے ہیں اور روزانہ اربوں کی تعداد میں خلیے آپ کے
لیے اپنی جان دیتے ہیں۔ پھر بھی آج تک آپ نے ان خلیوں کا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔ شاید ابھی
آپ چند منٹ کا وقفہ لے کر خلیوں کا شکریہ ادا کریں؟
ہمیں اس بارے زیادہ علم نہیں کہ خلیے جو کام بھی کرتے ہیں ،وہ کیسے کرتے ہیں ،چاہے وہ
چربی بنانا ہو ،انسولین بنانا ہو یا ہماری زندگی کے لیے ضروری کوئی بھی کام۔ ہمارے جسم
میں قریب قریب 2الکھ مختلف پروٹین ہوتی ہیں اور ہمیں ان میں سے ابھی شاید 4,000کے
بارے بھی علم نہیں کہ وہ کیا کرتی ہیں۔
خلوی پیمانے پر مسلسل عجوبے سامنے آتے رہتے ہیں۔ قدرتی طور پر نائٹرک ایسڈ انتہائی
زہریال مادہ ہے اور فضائی آلودگی کا اہم جزو۔ 1980کی دہائی کے وسط میں جب سائنس
دانوں کو پتہ چال کہ نائٹرک ایسڈ ہمارے خلیوں میں مسلسل پیدا ہوتا رہتا ہے تو وہ حیران رہ
گئے۔ پہلے پہل تو کسی کو سمجھ نہ آئی لیکن بعض میں پتہ چال کہ اس کا مقصد خون کے بہاؤ
کو قابو میں رکھنا ،خلیوں میں توانائی کی سطح برقرار رکھنا ،کینسر اور دیگر بیماریوں کے
عضو تناسل کا ایستادہ ہونا
ِ جراثیموں کو مارنا ،ہماری سونگھنے کی حس کو برقرار رکھنا اور
مرہون منت ہے۔ اسی سے پتہ چال کہ نائٹرو گلیسرین جیسی دھماکے دار شئے دل ِ بھی اسی کا
کے درد یعنی انجائنا میں سکون پہنچاتی ہے۔ ہمارے خون میں یہ نائٹرک آکسائیڈ میں بدل کر
خون کی نالیوں کی دیواروں کو سکون پہنچاتی ہے تاکہ خون کا بہاؤ باقاعدہ ہو سکے۔ محض
دس سال میں ایک زہریال مادہ انتہائی ضروری دوا بن گیا۔
ہمارے جسم میں محض چند سو مختلف خلیے ہوتے ہیں۔ ان کی شکل اور ان کا حجم بہت فرق
ہوتا ہے۔ اعصابی خلیے جو ایک میٹر طویل بھی ہو سکتے ہیں اور خون کے سرخ تھالی نما
چھوٹے چھوٹے خلیے یا ہماری بصارت کا سبب بنے والے راڈ نما فوٹو سیل۔ ان کے حجم میں
اتنا زیادہ تفاوت ہوتا ہے کہ جب بار آوری کا لمحہ آتا ہے تو سپرم کے سامنے اس سے
85,000گنا بڑا بیضہ موجود ہوتا ہے۔ تاہم اوسطا ً انسانی خلیے کا حجم 20مائیکران ہوتا ہے
جو ایک ملی میٹر کے 200ویں حصے کے برابر ہے اور اسے ہم عام طور پر دیکھ نہیں
سکتے۔ تاہم ہر ایک خلیے کے اندر ہزاروں کی تعداد میں اجسام جیسا کہ مائیٹو کونڈریا وغیرہ
اور کروڑوں کی تعداد میں مالیکیول ہوتے ہیں۔ اس کے عالوہ بھی ان میں بہت فرق ہوتا ہے۔
ہماری کھال میں سطح پر موجود سارے کے سارے خلیے ہی مردہ ہوتے ہیں۔ عام قامت کے
انسان میں تقریبا ً دو کلو جتنی مردہ کھال موجود ہوتی ہے جس سے اربوں کی تعداد میں چھوٹے
چھوٹے ٹکڑے روزانہ گرتے رہتے ہیں۔ گھر میں گرد آلود تختے پر انگلی پھیریں تو انگلی پر
لگنے والے زیادہ تر یہی ٹکڑے ہوتے ہیں۔
زیادہ تر خلیے ایک ماہ کے لگ بھگ زندہ رہتے ہیں۔ تاہم استثنائی صورت بھی ہے جیسا کہ
جگر کے خلیے برسوں زندہ رہتے ہیں تاہم ان کے اندر کے اجزاء ہر چند روز بعد بدل جاتے
ہیں۔ اعصابی خلیے آپ کی عمر جتنے ہوتے ہیں۔ پیدائش کے وقت آپ کے دماغ میں ایک سو
ارب خلیے ہوتے ہیں جو بار آوری سے مرتے دم تک آپ کے کام آتے ہیں۔ کوئی نیا خلیہ دماغ
میں نہیں پیدا ہوتا۔ اندازہ ہے کہ ہر گھنٹے میں ایسے 500خلیے مرتے ہیں۔ تاہم دماغی خلیوں
کے اجزاء مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور ایک ماہ میں سارے کے سارے اجزاء بدل جاتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق نو سال کے عرصے میں ہمارے جسم میں ایک بھی مالیکیول
ایسا نہیں ہوتا جو تبدیل نہ ہوا ہو۔ چاہے ہماری عمر جو بھی ہو جائے ،خلوی پیمانے پر ہم
ہمیشہ ہی کم عمر رہتے ہیں۔
خلیے کے بارے تفصیل دینے واال پہال شخص رابرٹ ہُک تھا۔ یہ وہی سائنس دان ہے جس نے
کی دریافت پر آئزک نیوٹن سے لڑائی کی تھی۔ ہُک نے 68سالہ Inverse square law
زندگی میں بہت سارے کام کیے۔ نہ صرف وہ نظریاتی سائنس دان تھا بلکہ اس نے بہت سارے
Micrographia: or Some Physiologicalنئے اوزار بھی بنائے۔ تاہم اس کی کتاب
جو Descriptions of Miniature Bodies Made by Magnifying Glasses 1665
میں شائع ہوئی ،اس کی وجہ شہرت بنی۔ اسی کتاب سے عوام کو پہلی بار پتہ چال کہ ہماری
جسمانی ساخت کتنی پیچیدہ اور خوب بنی ہوئی ہے۔
ہُک نے سب سے پہلے خورد بین کی مدد سے پودوں کے خلیے دیکھے جو چھوٹے چھوٹے
ڈبوں کی شکل کے تھے۔ اس نے تخمینہ لگایا کہ ایک انچ کارک میں موجود خلیوں کی تعداد
1,25,97,12,000ہے۔ سائنس کی دنیا میں پہلی بار کسی نے اتنا بڑا ہندسہ استعمال کیا تھا۔
اس وقت خورد بین کو ایجاد ہوئے ایک نسل بیت چکی تھی لیکن ہُک سے قبل کسی نے بھی
اتنی طاقتور خورد بین نہیں بنائی تھی۔ سترہویں صدی میں 30گنا بڑا کر کے دکھانے والی ہُک
کی خورد بین اس وقت کی سائنس میں حرفِ آخر مانی جاتی تھی۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک دہائی بعد جب ہُک اور لندن کی رائل سوسائٹی کے دیگر
اراکین کو کپڑے کے ایک ان پڑھ تاجر کی طرف سے ولندیزی شہر سے روانہ شدہ تصاویر
ملنے لگیں جو 275گنا بڑا کر کے دکھاتی تھیں تو انہیں کتنی حیرت ہوئی ہو گی۔ یہ بندہ
انٹونی وان لیووین ہُک تھا۔ اگرچہ_ اس کی رسمی تعلیم تو بہت معمولی تھی لیکن مشاہدہ کرنے
اور تکنیکی اعتبار سے انتہائی ذہین شخص تھا۔
آج تک یہ بات معمہ ہے کہ کیسے اس دور میں اس شخص نے عام گھریلو استعمال کی چیزوں
میں چھوٹے چھوٹے عد سے لگا کر اتنی طاقتور خورد بین کیسے بنا لی ہو گی۔ لیووین ہُک نے
ہر تجربے کے لیے نیا آلہ بنایا اور بنانے کا طریقہ ہمیشہ راز رکھا۔ تاہم بعض اوقات اس نے
برطانوی سائنس دانوں کو مشورے بھی دیئے کہ وہ اپنے آالت کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں
(لیووین ہُک ایک اور ولندیزی فنکار جان ورمیئر کا دوست تھا۔ اوسط درجے کا فنکار ہونے
کے باوجود 17ویں صدی کے وسط میں اچانک ہی اس نے روشنی اور اس کے مختلف پہلوؤں
پر مہارت حاصل کر لی جس کی وجہ سے آج تک اس کی تعریف ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ بات ثابت
نہیں ہوئی لیکن اندازہ ہے کہ اس نے سوئی چھید کیمرے کے عدسے کی مدد سے عکس کو
پردے پر منتقل کرنا سیکھ لیا تھا۔ بعد از مرگ اس کے سامان سے کوئی عدسہ نہیں نکال۔ تاہم
قابل ذکر ہے کہ مرنے کے بعد اس کے سامان کی دیکھ بھال اور فروخت کی ذمہ داری یہ بات ِ
لیووین ہُک پر آ گئی تھی)۔
سال کی عمر سے شروع کرتے ہوئے اگلے پچاس برس تک لیووین ہُک نے رائل سوسائٹی 40
ادنی ولندیزی زبان میں 200کے قریب رپورٹیں بھیجیں کیونکہ اسے محض یہی زبان آتی کو ٰ
تھی۔ اس نے جو کچھ دیکھا ،خوبصورت ڈرائنگ کی شکل میں سوسائٹی کو بھیج دیا لیکن اپنی
طرف سے کچھ وضاحت نہ کی۔ اس کی بھیجی ہوئی رپورٹیں روزمرہ زندگی سے تھیں جن
میں ڈبل روٹی پر لگنے والی پھپھوندی ،شہد کی مکھی کا ڈنک ،خون کے خلیے ،دانت ،بال،
اس کی اپنی تھوک ،پاخانہ ،مادہ منویہ وغیرہ (جن کے بارے اس نے انتہائی شرمندگی کا اظہار
بھی کیا) ،تاہم ان میں سے کوئی بھی چیز اس سے قبل خورد بین سے نہ دیکھی گئی تھی۔
میں اس نے پانی کے نمونے میں موجود ننھے جانوروں کا تذکرہ کیا۔ رائل سوسائٹی 1676
کے سائنس دانوں کو پورا ایک سال لگا تب کہیں جا کر ان کی خورد بین اس مشاہدے کے قابل
ہو سکی۔ لیووین ہُک نے پروٹوزوا دیکھے تھے۔ اس نے پانی کے ایک قطرے میں ان کی تعداد
بھی شمار کی جو 82,80,000تھی۔ اس وقت ہالینڈ میں اس سے کم تعداد میں انسان رہتے
تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خورد بینی اعتبار سے حیات کتنی وسیع ہے۔
لیووین ہُک کے کام سے متاثر ہو کر بہت سارے لوگوں نے خورد بین سے مشاہدے شروع کر
دیے اور جوش کے مارے انہوں نے ایسی چیزیں بھی دیکھنا شروع کر دیں جو سرے سے
تھیں ہی نہیں۔ مثالً ایک مشہور ولندیزی سائنس دان نے دیکھا کہ مادہ منویہ کے اندر چھوٹے
چھوٹے انسان ہیں۔ اس دور کے اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ ہم انسان انہی چھوٹے انسانوں کے
بہت بڑے نمونے ہیں۔ لیووین ہُک نے ایک بار بارود کا مشاہدہ کرنے کی خاطر_ چھوٹا سا
دھماکہ کیا اور خورد بین کی مدد سے مشاہدہ کرتے ہوئے بینائی کھونے سے بال بال بچا۔
میں اس نے بیکٹیریا دریافت کیے۔ تاہم اگلے ڈیڑھ سو برس تک خورد بین کی تکنیک 1683
میں مسائل کی وجہ سے یہ ترقی یہیں تک محدود رہی۔ 1831میں خلیے کے مرکزے کو پہلی
ماہر نباتات رابرٹ براؤن نے دیکھا۔ براؤن 1773میں پیدا ہوا اور 1858میں
بار سکاٹش ِ
وفات پائی۔ اس نے خلیے کے مرکزے کو نیوکلیس کہا جو الطینی زبان کے لفظ نیوکلیا سے
نکال تھا۔ نیوکلیا بیج کو کہتے ہیں۔ 1839میں پہلی بار جرمن سائنس دان تھیوڈور شوان نے
جانا کہ ہر جاندار شئے خلیوں سے بنی ہے۔ تاہم اس نظریے کو 1860کی دہائی میں اس وقت
قبولیت ملی جب فرانس کے لوئیس پاسچر نے یہ بات تجربات سے ثابت کی کہ زندگی پہلے
سے موجود زندگی سے ہی آتی ہے ،بے جان چیزوں سے نہیں۔ اس نظریے کو خلوی نظریہ
یعنی سیل تھیوری کہا جاتا ہے جو جدید حیاتیات کی بنیاد ہے۔
خلیے کو بے شمار تشبیہات دی جاتی ہیں۔ ایک سائنس دان کے خیال میں خلیہ ایک کیمیائی
فیکٹری ہے تو دوسرے کے خیال میں ایک انتہائی گنجان آباد شہر۔ خلیہ دونوں بھی ہے اور
کوئی بھی نہیں۔ آپ اسے ایک ریفائنری کہہ سکتے ہیں جو انتہائی بڑے پیمانے پر کام کر رہی
ہے اور شہر کی مانند بھی کہ جو بہت گنجان آباد ہے اور مختلف قسم کے کاموں سے بھرا ہوا
ہے جن کا بظاہر تو کوئی مقصد نظر نہیں آتا ہے لیکن یہ سارے کام ایک خاص نظام کے تحت
ہو رہے ہوتے ہیں۔ تاہم اس سے زیادہ پریشان کن جگہ آپ نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔ پہلی
کشش ثقل کا خلوی
ِ بات تو یہ کہ خلیے کے اندر اوپر یا نیچے کا کوئی تصور نہیں کیونکہ
پیمانے پر کوئی وجود نہیں۔ خلیے کے اندر ایک ایٹم جتنی جگہ بھی خالی نہیں ہوتی۔ ہر جگہ
کام ہو رہے ہوتے ہیں اور بجلی گزر رہی ہوتی ہے۔ انسان کے اندر بہت ساری برقی توانائی
چھپی ہوتی ہے۔ ہمارے کھائی ہوئی خوراک اور ہماری سانس سے آکسیجن کو مال کر ہمارے
خلیے بجلی بناتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چھوتے وقت اس لیے بجلی کا جھٹکا نہیں لگتا کہ یہ
بجلی انتہائی چھوٹے پیمانے پر یعنی 0.1وولٹ اور محض نینو میٹروں جتنا فاصلہ طے کرتی
ہے۔ تاہم اس سب بجلی کو جمع کریں تو فی میٹر اس کی مقدار 2کروڑ وولٹ بنتی ہے جو ایک
عام طوفان میں چھپی ہوتی ہے۔
شکل اور حجم سے قطع نظر ،ہر خلیہ ایک ہی طور سے بنا ہوتا ہے۔ ان کے باہر ایک جھلی
ہوتی ہے ،ایک مرکزہ جہاں جینیاتی مواد جمع رہتا ہے اور ان دونوں کے درمیان سائٹو پالزم
ہوتا ہے۔ جھلی کوئی ربڑ جیسی اور مضبوط جھلی نہیں ہوتی بلکہ یہ جھلی ایک خاص قسم کے
الئیپڈ سے بنی ہوتی ہے جو عام موٹر آئل جتنی گاڑھی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو حیرت ہو رہی ہے
تو یاد رہے کہ خلوی پیمانے پر چیزیں انتہائی مختلف طور سے کام کرتی ہیں۔ مالیکیولی
پیمانے پر پانی انتہائی کثیف جیل اور الئیپڈ فوالد کی مانند سخت ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ کبھی خلیے کی سیر کرنے کے قابل ہوں تو آپ کو ہرگز پسند نہیں آئے گا۔ اگر ایٹم مٹر
کے دانے کے برابر ہوں تو خلیے کا قطر نصف میل کے برابر ہو گا جس کو سہارنے کے لیے
سائیٹو سکیلٹن نامی ڈھانچہ موجود ہو گا۔ اس کے اندر کروڑوں کی تعداد میں مختلف اجسام جن
کا حجم باسکٹ بال سے لے کر کار جتنا ہو سکتا ہے ،گولی کی رفتار سے حرکت کر رہے ہوں
گے۔ کوئی بھی ایسی جگہ آپ کو نہیں ملے گی جہاں ہر سیکنڈ کئی ہزار بار مختلف سمتوں
سے آنے والی مختلف چیزیں آپ سے نہ ٹکرا رہی ہوں۔ خلیے کے اپنے اندرونی اجزاء کے
لیے یہ خطرناک جگہ ہوتی ہے۔ ڈی این اے کی ہر لڑی کو اوسطا ً 4سے 8سیکنڈ میں ایک
بار نقصان پہنچتا ہے جو ہر روز 10,000مرتبہ بنتا ہے۔ یہ نقصان کیمیائی یا دیگر مواد سے
ہوتا ہے جو الپروائی سے گزرتے ہیں۔ ایسا ہر نقصان فوری طور پر مرمت کرنا ہوتا ہے ورنہ
سیل کے مرنے میں دیر نہیں لگے گی۔
پروٹین یعنی لحمیات بہت متحرک ہوتی ہیں۔ گھومتے ،تھرکتے ،اڑتے ہوئے یہ ایک دوسرے
سے ایک سیکنڈ میں اربوں مرتبہ ٹکراتی ہیں۔ خامرے یعنی اینزائمز پروٹین ہی ہوتے ہیں اور
ہر سیکنڈ میں ایک ہزار تک کام کرتے رہتے ہیں۔ انتہائی تیزی سے کام کرتے ہوئے یہ
مالیکیولوں کو بار بار بناتے رہتے ہیں اور ایک سے ٹکڑا لیا تو دوسرے میں لگا دیا۔ ایک جگہ
ناقابل مرمت حد تک
ِ کھڑے رہ کر آنے جانے والوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور جو پروٹین
خراب ہو جائے ،اس پر ایک کیمیائی نشان لگا دیتے ہیں تاکہ اسے تباہ کیا جا سکے۔ جب کسی
پروٹین پر یہ مہر لگ جائے تو اس کا رخ پروٹیاسوم کی طرف ہو جاتا ہے جو اسے ٹکڑے
ٹکڑے کر کے اس سے نئی پروٹین بنائے گا۔ بعض پروٹین نصف گھنٹہ بھی نہیں رہتیں تو
بعض پروٹین ہفتوں تک کام کرتی رہتی ہیں۔ تاہم ان کا وجود پاگل پن کی حد تک تیز ہوتا ہے۔
ایک سائنس دان کے مطابق‘ ،مالیکیولی پیمانے پر ہونے والی سرگرمیاں ہم سے اوجھل ہی
رہنی چاہئیں کیونکہ ہم ان کی رفتار کا تصور بھی نہیں کر سکتے ‘۔
تاہم اگر آپ ان کی رفتار کو کم کر دیں تو پھر سمجھ آنے لگ جاتی ہے۔ اس طرح آپ دیکھ
سکتے ہیں کہ ہر خلیے کے اندر الکھوں کی تعداد میں الئسو سوم ،اینڈو سوم ،رائبو سوم،
الئگینڈ ،پرآکسو سوم ،ہر شکل اور ہر حجم کی پروٹین وغیرہ مختلف کام کر رہے ہوتے ہیں۔
کہیں وہ غذائی اجزاء سے توانائی نکال رہے ہوتے ہیں تو کہیں مختلف چیزیں تیار ہو رہی ہوتی
ہیں تو کہیں فضلہ خارج_ ہو رہا ہوتا ہے تو کہیں بیرونی حملہ آوروں کو نکاال جا رہا ہوتا ہے تو
کہیں پیغامات کی ترسیل ہو رہی ہوتی ہے تو کہیں مرمت۔ عموما ً ہر خلیے میں 20,000اقسام
کی مختلف پروٹین ہوتی ہیں اور ان میں سے کم از کم 2,000پروٹین میں سے ہر ایک مزید
50,000مالیکیول سے بنتی ہے۔ یعنی اگر ہم محض ان پروٹین کے مالیکیول شمار کریں جن
میں 50,000سے زیادہ مالیکیول ہوں تو بھی ایک خلیے میں پروٹین کے مالیکیول کی تعداد
10کروڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس پیمانے کی بائیو
کیمیکل سرگرمیاں ہمارے اندر جاری و ساری ہوتی ہیں۔
یہ ساری سرگرمیاں انتہائی مشکل ہوتی ہیں۔ آپ کے دل کو ہر گھنٹے میں 343لیٹر خون پمپ
کرنا ہوتا ہے جو 24گھنٹے میں 8,000اور سال میں 30الکھ لیٹر بنتا ہے جو اولمپک کے
لیے درکار چار_ سوئمنگ پول بھرنے کو کافی ہے۔ اس کا مقصد تمام خلیوں کو آکسیجن سے
بھرپور خون کی مسلسل فراہمی ہے۔ یہ محض آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ اگر آپ ورزش کر
رہے ہوں تو دل کی دھڑکن 6گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ یہ آکسیجن مائٹو کونڈریا وصول کرتے
ہیں۔ انہیں خلیے کا پاور سٹیشن بھی کہا جاتا ہے اور ہر خلیے میں ان کی اوسط مقدار ایک ہزار
ہوتی ہے تاہم خلیے کی قسم اور توانائی کی ضرورت کے مطابق ان کی تعداد کم یا زیادہ ہو
سکتی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ مائٹو کونڈریا کے بارے ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہ شاید آزاد پھرنے واال
بیکٹیریا تھا جو خلیوں میں قید ہو گیا ہے۔ اس وقت اس کا اپنا جینیاتی کوڈ ہے ،تقسیم کے اپنے
ت کار اور اپنی زبان ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ ہم ان کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس کی
اوقا ِ
وجہ یہ ہے کہ آپ کی کھائی ہوئی تمام تر خوراک اور آکسیجن انہی کی نظر ہوتی ہے اور یہ
اسے اے ٹی پی یعنی ایڈینو سین ٹرائی فاسفیٹ مالیکیول کی شکل میں ڈھالتا ہے۔
آپ نے کبھی اے ٹی پی کا شاید نام بھی نہ سنا ہو گا لیکن یہی توانائی ہے جو آپ کو زندہ اور
متحرک رکھتی ہے۔ اے ٹی پی کو یوں سمجھیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے سیل ہیں جو خلیوں کو ان
کی مطلوبہ توانائی مہیا کرتے ہیں اور آپ کو ان کی بہت بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ ایک
خلیے میں ایک وقت میں تقریبا ً ایک ارب اے ٹی پی مالیکیول موجود ہوتے ہیں جو محض دو
منٹ میں ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے ایک ارب مالیکیول آ جاتے ہیں۔ ہر روز آپ
کے جسم میں آپ کے وزن کے نصف کے برابر اے ٹی پی کے مالیکیول پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی
جلد کی حرارت کو محسوس کیجیے ،یہ اے ٹی پی ہی کا کام ہے۔
جب خلیوں کا کام تمام پورا ہو جاتا ہے تو انہیں مار دیا جاتا ہے اور ان کے اجزاء آگے تقسیم ہو
جاتے ہیں۔ اس عمل کو ایپپ ٹوسس کہتے ہیں۔ ہر روز اربوں خلیے آپ کی بہتری کی خاطر_
اپنی جان دیتے ہیں۔ تاہم خلیوں کی موت اچانک بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ کسی قسم کی عفونت
یعنی انفیکشن۔ تاہم ان کی اکثریت تب مرتی ہے جب انہیں مرنے کا حکم ملتا ہے۔ اگر خلیے کو
یہ ہدایت نہ ملے کہ اسے زندہ رہنا ہے اور دوسرے خلیے بھی اسے کوئی ہدایات نہ دیں تو
خلیے کی موت الزمی ہو جاتی ہے۔ خلیوں کو تسلی بھی درکار ہوتی ہے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خلیے کی مطلوبہ طور پر موت نہیں ہوتی اور خلیہ تقسیم ہونا اور
پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسے کینسر یعنی سرطان کہتے ہیں۔ کینسر کے خلیے محض گم گشتہ
خلیے ہوتے ہیں۔ خلیوں میں ایسی غلطی اکثر ہوتی ہے لیکن جسم کے اندر موجود مختلف
عوامل اسے بروقت روک دیتے ہیں۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ خلیے کو قابو کرنا ناممکن
ہو جاتا ہے۔ اوسطا ً ہر 10کروڑ ارب مرتبہ خلوی تقسیم میں سے ایک بار ہی ایسا واقعہ پیش
آتا ہے۔ کینسر ہر طرح سے بدقسمتی ہے۔
یہ بات عجیب نہیں کہ خلیوں میں کبھی کبھار ایسی گڑبڑ ہو جاتی ہے بلکہ عجیب بات تو یہ ہے
کہ خلیے کیسے اتنے طویل عرصے تک بالکل درست کام کرتے رہتے ہیں۔ اس کے پیچھے یہ
راز چھپا ہے کہ خلیے مسلسل پیغامات بھیجتے اور دیگر خلیوں کے پیغامات کا جائزہ لیتے
رہتے ہیں جن میں ہدایات ،سواالت ،تصحیح ،مدد کی درخواست ،تازہ ترین صورتحال کے
بارے معلومات ،تقسیم ہونے یا مرنے کے بارے ہدایات وغیرہ اہم ہیں۔ زیادہ تر پیغامات ہارمون
یعنی غدودی رطوبتوں کی شکل میں ہوتے ہیں جو کیمیائی مادے ہیں۔ یہ ہارمون انسولین،
ایڈرینالین ،ایسٹروجن ،ٹیسٹاسٹیرون کہیں دور موجود غدودی نظام سے آتے ہیں۔ دیگر پیغامات
دماغ سے برقی لہروں کی شکل میں موصول ہوتے ہیں۔ اس کے عالوہ خلیے اپنے آس پاس
موجود دیگر خلیوں سے بھی رابطہ رکھتے ہیں تاکہ کام تسلی بخش انداز سے جاری رہے۔
حیرت کی بات دیکھیے کہ یہ سب کام بے ہنگم طور پر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہر خلیہ دوسرے کو
ہدایات دے اور اس سے ہدایات لے رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خلیوں کے افعال کے پیچھے ان
کی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ تاہم ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
تاہم یہ تمام افعال نہ صرف خلیے کے اندر بلکہ جاندار کے اندر موجود تمام خلیوں کو ایک
تسلسل سے جاری رہتے ہیں۔ ابھی ہم اس عمل کو سمجھنا شروع ہی ہوئے ہیں کہ کیسے ارب ہا
ارب انفرادی افعال مل کر انسان کو بناتے ہیں۔ یہی تمام افعال نسبتا ً چھوٹے پیمانے پر کیڑے
مکوڑوں میں بھی انجام پاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہر زندہ چیز ایٹمی انجینئرنگ کا شاہکار ہوتی
ہے۔
بے شک بعض چھوٹے جاندار ایسے بھی ہیں جن کے سامنے ہماری خلوی تنظیم بہت چھوٹی
لگتی ہے۔ مثالً اسفنج کے خلیوں کو الگ الگ کر کے کسی مائع میں ڈالیں تو وہ تمام کے تمام
کچھ دیر بعد واپس اپنی اصل شکل میں جُڑ جائیں گے۔ بے شک آپ یہ عمل بار بار دہراتے
رہیں ،ہر بار خلیے دوبارہ اسفنج بن جائیں گے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہر جاندار کی مانند
اسفنج بھی زندہ رہنا چاہتی ہے۔
زندگی کی یہ سب خصوصیات انتہائی دلچسپ اور پُر عزم محسوس ہوتی ہیں کہ جن کو ہم ابھی
سمجھنا شروع ہوئے ہیں۔ ان سب کے پیچھے ایک بے جان مالیکیول ہوتا ہے جسے ڈی این اے
کہتے ہیں جس کو سمجھنے کے لیے ہمیں 160سال پیچھے برطانوی سائنس دان چارلس_
ڈارون کے دور میں جانا ہو گا۔ اس کے نظریے کو انسانی تاریخ کا سب سے بہترین خیال مانا
گیا ہے لیکن ڈارون نے اس خیال کو الپرواہی سے 15سال تک چھپائے رکھا۔